Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

فاخر ہریانوی
ARI Id

1688382102443_56116092

Access

Open/Free Access

Pages

142

فاخرہریانوی (۱۹۰۱ء۔۱۹۷۷ء) کا اصل نام دین محمد تھا اور تخلص فاخرؔ تھا۔ فاخرؔ ہریانہ ضلع ہوشیا ر پور میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۳۱ء میں بی او ایل کیا۔ پھر پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ۱۹۳۵ء میں سینئر اینگلو ورینکولر کا سرٹیفکیٹ لیا۔ تعلیم کے بعد اردو مرکز لاہور میں ملازم ہو گئے۔ جگر مراد آبادی ،اصغر گونڈوی او ر یاس یگانہ چنگیزی بھی ان دنوں اس مرکز سے منسلک تھے۔ اصغر کے چلے جانے کے بعد فاخر کو اس ادارے کا ناظم بنا دیا گیا۔ فاخر نے کچھ عرصہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں مترجم کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ۱۹۲۹ء میں فاخر شعبہ تعلیم میں چلے گئے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ بہت سے علاقوں میں رہے۔ اور آخر کار پسرور میں مستقل سکونت اختیار کی۔(۴۳۲)

’’موجِ صبا‘ فاخرؔ کا واحد شائع شدہ شعری مجموعہ ہے۔ جو فروری ۱۹۶۶ء میں ایوانِ ادب لاہور سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کا دیباچہ پروفیسر حمید احمد خان نے لکھا ہے ۔ا س کی ترتیب میں ضیاء محمد ضیاء اور طاہر شادانی کی تلاش اور تفتیش شامل ہے۔ مرتبین نے اسے سات حصوں ،حمدیہ ،جذبات و افکار،رومان ،دیہاتی نغمے ،یادِ رفتگاں ،سیاسیات اور متفرقات میں تقسیم کیا ہے۔ یہ شعری مجموعہ ۲۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی تفریظ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھی ہے۔ اشکِ عمل ان کا غیر مطبوعہ مجموعہ ہے۔فاخر نے سب سے پہلے مسدس حالی کی بحر میں اشکِ عمل قلمبند کروائی ہے۔ اول حصہ حمد باری تعالیٰ اور دوسرا حصہ حضورؐ کی زندگی سے متعلق اہم واقعات پر مشتمل ہے۔ ان میں تبلیغ اسلام فتح مکہ اور جنگ احد بالخصوص قابل ذکر ہیں- فاخرؔ نے قرآن مجید کا منظوم ترجمہ بھی کرنا شروع کیا لیکن ادھورا چھوڑ دیا۔ پھر ایام پیری میں دوبارہ اس کا م کا عزم کیا ۔قرآن مجید کی آیاتِ کریمہ کو بغیر قافیہ ردیف کے منظوم کرنا شروع کر دیا۔ مگر عمرِ طبعی نے مہلت نہ دی اور یہ مقدس کام ادھورا رہ گیا۔

فاخرؔ کی شاعری میں سیالکوٹ کی روایتی شاعری کا رنگ بھی موجود ہے کیونکہ انھوں نے سیالکوٹ میں زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر وحید قریشی رقم طراز ہیں:

ادبی لحاظ سے سیالکوٹ کی شعری روایت اہمیت رکھتی ہے۔ اقبال،فوق،امینِ حزیں،اثر صہبائی ،عبدالحمید عرفانی ایک مستحکم شعری روایت کے امانت دارتھے۔ ضیا محمد ضیا اور فاخر ہریانوی کا بھی اس روایت کے ساتھ تعلق تھا۔(۴۳۳)

فاخرؔ نے شاعری کا آغاز چودہ برس کی عمر میں کیا۔ شاعری میں وہ حفیظ جالندھری کی معاونت کے بہت معترف ہیں۔ فاخرؔ اس حوالے سے اپنے ایک انٹر ویو میں کہتے ہیں:

شاعری کی ابتدا جالندھر سے ہوئی ۔طبیعت شعر کی طرف مائل تھی۔ اس وقت وہاں حفیظ جالندھری کی ملاقات مصاحبت اور توجہ نے بڑا کام کیا۔ حفیظ کے دل میں آگ روشن تھی۔کچھ چنگاریاں ادھر بھی منتقل ہو گئیں۔(۴۳۴)

فاخر کا کہنا ہے:

حفیظ جالندھری نے نظم گوئی کی طرف مائل کیا۔ فاخرؔ تخلص بھی حفیظ کا تجویز کردہ ہے۔(۴۳۵)

فاخرؔ کو شاعری میں جن افراد نے فائد ہ پہنچایا ۔ان میں ایک نام علامہ تاجور نجیب آبادی کا تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور میں فاخر بزمِ ادب کے سیکرٹری اور کالج کے ادبی مجلے کریسنٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اس دور میں فاخر مولانا غلام رسول مہر ،عبدالمجید سالک،امتیاز علی تاج اور سر عبدالقادر جیسی ادبی شخصیتوں سے ملاقات کرتے رہے۔

فاخرؔ بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا دور نظم گو شاعروں کا دور تھا۔ اس لیے بھی فاخرؔ کو مقبولیت حاصل تھی۔ فاخر بہت اچھے شاعر ہیں لیکن ناقدین فن کی توجہ ان کی طرف مبذول نہ ہو سکی۔ فاخر کی شاعری میں سب سے زیادہ فطرت سے لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر انھیں شاعر فطرت کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ ان کی رومانویت کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:

فاخر ہریانوی یقینا رومانویت کے نمائندے ہیں انسانی مسائل ہوں یا مناظر فطرت ان کا نقطہ نظر ہمیشہ رومانوی ہی رہاہے۔(۴۳۶)

فاخر کے کلام کے بارے میں پروفیسرحمید احمد خان نے موجِ صبا کے تعارف میں لکھا ہے :

قارئین کا وہ طبقہ جو فاخر کی منظومات سے پہلی دفعہ روشناس ہو رہا ہے۔ شاعر کے تخیل کی طراوت اور خلوص گرفتار پر ایک خوشگوار استعجاب محسوس کر ے گا۔(۴۳۷)

خلوصِ گفتار اور تخیل کی طراوت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ مناظر فطرت کا بیان کرتے ہیں۔ مناظر کے بیان سے فاخرؔ کو بہت دلچسپی ہے۔ اپنی نظم ’’شام‘‘ میں فاخرؔ نے شام کے منظر کے حسن کو سمو دیا ہے ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

شفق کے رنگ میں سورج غروب ہوتا ہے

 

وداعِ شام کا منظر بھی خوب ہوتا ہے

 

لیے ہے سرخ ہاتھ میں شراب کا جام

 

چھلک پڑا ہے کنارے پہ آفتاب کا جام

 

سنہری بادلوں کے خوں نما کنارے سُرخ

 

درخت ، دشت ، زمیں آسماں سارے سُرخ

(۴۳۸)

¿مناظرِ فطرت کی ایک خوبصورت مثال فاخرؔ کی نظم ’’ہمالہ‘‘ بھی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہو ں:

سحر کے آئینے میں منعکس تھی شان پھولوں کی

 

کہ تھی خود آسماں کی روشنی مہمان پھولوں کی

 

نشان سوز سے لبریز تھے ساز آبشاروں کے

 

چمکتے تھے زمرد سے بدن رنگین غاروں کے

 

دکھائی دے رہے تھے برف میں اشجار چاندی کے

 

بنائے تھے کسی ساحر نے دیو دار چاندی کیا

(۴۳۹)

-فاخر کی نیچرل نظموں میں فطرت کا نقشہ اور فطرت کا حسن بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ فاخر کی شاہکار نظمیں ہیں۔ ان میں فاخر کی نظر کا کمال اور فنی مہارت نظر آتی ہے۔ جس پر تخیل نے کام دکھایا ہے۔ اور ان نظموں کو حسنِ مجسم سے لبریز کر دیا ہے ۔ تاروں میں بھری رات،یہ پھول،سکائی لارک،کوئل ،دیہات کی صبح،دیہات کی رات،ہریانہ اور آہ میں اگر بادہ نشین ہوتا ہے۔جیسی نیچرل نظمیں موجِ صبا،شعری مجموعے سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد صادق اپنی کتاب" htr  rd Ltrtr"

میں فاخرؔ کا ذکریوں کرتے ہیں:

hr Hrv h    th tt  vr lttl  td vr  th d rl.hr rt  th vr d rr  vll l pll  t hr d rrl pt h h ll th ht tht l trd  h r, h  ddl lv , h ptr  drd trthll  l tht  trll rh d vtv.)440(

فاخرؔ کی نظموں کا ایک بڑا موضوع بچوں سے پیارو محبت بھی ہے۔ اُن کی نظمیں بچوں کی معصومیت سے لگاؤ اور پیار سے بھری پڑی ہیں۔ بچپن کے زمانے کی بے فکری اور حسن کو فاخر نے اپنی نظم’’ چند بچوں کو دیکھ کر‘‘ کا موضوع بنایا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

خوشی خالص خوشی بچوں کے سادہ دل میں رہتی ہے

 

یہ لیلائے حیات افروز اسی محمل میں رہتی ہے

 

تمہارے حسن سے دنیا حسیں معلوم ہوتی ہے

 

بہارِ زندگی خُلد بریں معلوم ہوتی ہے

(۴۴۱)

— اپنی بیشتر نظموں میں وہ معصوموں کی دنیا میں کھو جانے کی آرزو بھی کرتے ہیں:

یہ سچ ہے تو ادھر بھی ایک اُلفت کی نظر ڈالو

 

مرے دل میں جلا کر خاک سے اکسیر کر ڈالو

 

لبِ معصوم کی رنگینیوں سے پھول برسا کر

 

بہار عہد طفلی کی طلسمی گیت گا گا کر

 

مجھے بہلاؤ اپنی دلربا شیریں نواؤں سے

 

کرو مسحور نوزائیدہ طلفلانہ اداؤں سے

 

یہ ممکن ہے کہ کیفیات روحانی میں کھو جاؤں

 

تمہارے سحر سے اک بار پھر معصوم ہو جاؤں

(۴۴۲)

… بچوں کے بارے اُن کی ایک شاہکار نظم معصوموں کی دنیا‘‘ ہے۔جس میں بچے حسن کی معصوم تصویریں نظر آتے ہیں۔ جو بچپن کے حسین ایام کاٹ رہے ہیں اور فکر دنیا سے آزاد ہیں ۔اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

حسن کی معصوم تصویریں ہیں یہ کم سن ابھی

 

بچپنے کی نیندیں کٹتے ہیں ان کے دن ابھی

 

کس قدر بشاش ہیں آزاد ہیں دل شاد ہیں

 

کچھ فرشتے ہیں کہ باغِ خلد میں آباد ہیں

 

میرے بس میں ہو تو میں ان کو جواں ہونے نہ دوں

 

پائمال انقلاب آسماں ہونے نہ دوں

(۴۴۳)

فاخر کی دو نظموں ’’منازل زندگی‘‘ اور’’مدارجِ حیات‘‘ کا موضوع بچپن جوانی اور بڑھاپے کا موازنہ ہے۔ ان نظموں میں بچپن کی معصومیت کے بارے میں ان کا نظریہ مزید اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

بچپن سے پہلے عالمِ شیرِ خواری کے بارے میں کہتے ہیں:

آسماں سے آیا کرتے تھے فرشتے میرے پاس

 

اور اکثر گایا کرتے تھے فرشتے میرے پاس

(۴۴۴)

5بچپن کے بارے میں کہتے ہیں:

 چین سے تھا ایں وآں کا غم نہ تھا اصلاً مجھے

 

تھی بہشت گوش و فردوس نظر دنیا مجھے

(۴۴۵)

7جوانی کے بارے میں کہتے ہیں:

ہر قدم پر پیش اُلفت یا اندھیری رات تھی

 

بڑھاپے کے بارے میں عہد جوانی کا مزار

(۴۴۶)

اوربڑھاپے کے بارے میں ان کا نظریہ یہ ہے:

ہے بڑھاپا اصل میں عہد جوانی کا مزار

 

آرزو بیٹھی تھی دل کی مقبرے پر سوگوار

(۴۴۷)

ƒ رومانی شاعر اختر شیرانی نے اپنی شاعری میں عورت کے روپ کو اُبھارنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ فاخرؔ ہریانوی کے ہاں بھی عورت کے بارے میں اس قسم کے خیالات کا پتہ چلتا ہے۔ عورت حسن و جمال کا پیکر ہے وہ ایسا گیت ہے جو جانفزا ہے۔ عورت کی وجہ سے دلوں میں جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ فاخرؔ نے اپنی تین نظمیں ’’عورت ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی ہیں۔ سب سے پہلی نظم جو عورت کے نام سے ہے۔ اس میں ان کے خیالات کا بھر پور عکس موجود ہے۔اس حوالے سے ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

پریشاں تھے کچھ جلوے چرغِ بریں پر

 

;ہوئے ہیں مجسم جو آ کر زمیں پر

 

کہ ہیں شکلِ حوا میں مناجاتِ آدم

 

;کہ حسیں ہو گئی ہے مناجاتِ آدم

 

9کہ ہے عشق کا جانفزا گیت عورت

 

7فرشتوں کا گایا ہوا گیت عورت

 

5جوانی اس ساز پر کھیلتی ہے

 

9یہ عورت کی آواز پر کھیلتی ہے

(۴۴۸)

عورت کے عنوان سے دوسری نظم میں عورت کے بارے میں نور کا تلازمہ استعمال کیا ہے:

اس وقت یہ کھڑی ہے

 

گودور آسماں ہے

 

لیکن برس رہا ہے

 

!کیا نور آسماں سے

(۴۴۹)

’’فاخر کی عورت‘ کے حوالے سے تیسری نظم میں عورت کی نفسیاتی کیفیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کہ عورت جب محبت کرتی ہے تو نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر کرتی ہے۔ اسے وفاداری سے غرض ہوتی ہے۔ جذبے کی شدت کے بل بوتے پر وہ دہکتی ہوئی آگ میں بھی کود سکتی ہے۔ ’’عورت اور جوگی‘‘ ،’’عذرا‘‘ اور ’’آخری ملاقات‘‘ اور شہرِ حسین بھی فاخرؔ کی عورت کے حوالے سے شاہکار نظمیں ہیں جو عورت کے حسن و جمال کی ترجمانی کرتی ہیں۔

فاخر ہریانوی کے کلام میں حمدیہ لہجے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:

فاخر ہریانوی کے ہاں رومانویت کے علاوہ اگر اور کوئی جھلک ہے تو وہ اخلاقیات کی ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک معلم تھے۔(۴۵۰)

فاخرؔ کے ہاں یہ حمدیہ لہجہ جگہ جگہ نمایاں ہوتا نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’خدا‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:

اس کے حکم سے بہت ہے چاندی آبشاروں میں

 

ہمیں فطرت لیے بیٹھے ہے بر بط کہساروں میں

 

انھی کے حکم سے دن رات گردش ہے بگولوں میں

 

چراغاں کر رہے ہیں کرمک شبِ تاب پھولوں میں

(۴۵۱)

سراپا نگاری ہماری شاعری کا ایک اہم عنصر رہی ہے۔ خاص طور پر لکھنوی دبستان کے شعرا کے ہاں اس کا بہت رواج تھا۔ فاخرؔ کے ہاں بھی سراپا نگاری کا عنصر نظر آتا ہے ۔ان کی شاعری میں عورت کا تمام سراپا نگاہوں کے سامنے پھر جاتاہے۔ ان کی نظمجنگل کی شاہزادی‘‘ اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

پھوٹا ہے رنگ تیرے رُخ پر شباب ہو کر

 

حل ہو گئی نظر میں مستی شراب ہو کر

 

عارض پہ تیرے زلفِ شبگوں بکھر رہی ہے

 

7یا آسماں سے نیچے اتر رہی ہے

 

کانِ جواہر اس کو دانتوں نے کر دیا ہے

 

قدرت نے چاند کا منہ تاروں سے بھر دیا ہے

 

چہرے پر اس ادا سے ہر نفس اُبھر رہا ہے

 

;گویا تمہارا کچھ غور کر رہا ہے

(۴۵۲)

/سراپا نگاری کے ساتھ محاکات کی مثالیں بھی فاخر کے ہاں ملتی ہیں۔ نظم ’’عورت اور جوگی‘‘ اس حوالے سے ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں:

کوہ کی دید زیب وادی میں

 

/خوش نما دلفریب وادی میں

 

-وہ جہاں آبشار گاتے ہیں

 

'چشمے ملہار گاتے ہیں

 

5ہے چٹانوں پہ جال پھولوں کا

 

/قرمزی زرد لال پھولوں کا

 

9زیِبِ ہر شاہراہ پھول ہی پھول

 

3تابحّدِ نگاہ پھول ہی پھول

(۴۵۳)

                شاعری میں زور پیدا کرنے کے لیے ڈرامائیت سے اپنی بات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس میں مکالمے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شاعری میں مکالماتی فضا بندی کی ایک بہت بڑی مثال علامہ اقبال کی ہے۔ ان کی نظمیں خضر راہ شمع و شاعر ،شکوہ یا جوابِ شکوہ اس سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔ جن میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گفتگو ہو رہی ہے۔ اسی انداز کو فاخر نے بھی اپنی نظموں ’’سوال و جواب‘‘ اور ’’شہزادہ گوتم‘‘ میں اپنایا ہے۔

فاخر کے ہاں ترقی پسندانہ نظریات بھی ملتے ہیں۔ انھوں نے سیاست ،مزدور ،کسان اور جمہوریت کے ترقی پسندانہ موضوعات پر قلم اٹھایا لیکن ان کے ہاں مذہبی روح باقی رہی۔ ان کے ہاں سکہ بند ترقی پسندوں کی طرح خدا اور مذہب سے بغاوت کا نشان نہیں ملتا۔ مذہبیت ان کے کلام پر پھر بھی پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔ ترقی پسندانہ نظریات کے حوالے سے ان کی نظمیں ’’مزدور کی صدا‘‘،’’کسان‘‘،’’شبنم اشکبار‘‘ ،’’مغربی استعمار‘‘ ،’’جمہوریت‘‘ اور’’جنگِ عالمگیر ثانی کے بعد‘‘ ،’’موجِ صبا‘‘ شعری مجموعے سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

فاخر کے فن کی ایک خصوصیت کہانی پن ہے۔ وہ قصہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے کوئی کہانی سنار ہے ہوں اور یہ تاثر ان کی نظم’’عورت اور جوگی‘‘ میں پوری طرح موجود۔ اس نظم کا خیال ’’شکنتلا‘‘ سے ماخوذ ہے اور پوری نظم میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر ہمیں کوئی کہانی سُنا رہا ہے۔ اور فضا میں داستانوں کی سی پیدا کی گئی ہے۔ مثلاً آغاز اس طرح سے ہوتا ہے:

دور ہر شہر اور بستی سے

 

/دور ہنگامہ زارِ ہستی سے

 

3عیشِ فانی کی دسترس سے دور

 

1زندگانی کی ہر ہوس سے دور

 

1غم کے پیچیدہ دام سے آزاد

 

-کاہش صبح و شام سے آزاد

 

3جام سے اور جسم سے بے پروا

 

5خواہشِ بیش و کم سے بے پروا

(۴۵۴)

ƒفاخرؔ کو اُردو کے اچھے نظم گو شعرا مثلاً حفیظ جالندھری ،تلوک چند،اختر شیرانی اور عندلیب شادانی جیسے لوگوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کا کہنا ہے:

آج کے دور میں اختر شیرانی کو بھی وہ مقبولیت حاصل نہیں جو انھیں اپنی زندگی میں حاصل رہی۔ فاخرتو بہر حال کم مقبول تھے مگر ان کی کم مقبولیت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے فن میں کوئی کمزوری تھی۔ ہر عصر کی اپنی خاص روشیں ہوتی ہیں۔ اختر اور فاخر کی شاعری ان روشوں کے برعکس ہے۔ا س لیے مقبول نہیں ۔مگر ان دونوں شاعروں کو ہماری کلاسیکل شاعری میں ایک یادگار حیثیت حاصل ہے۔ اور شاعری کی تاریخ میں انھیں نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے دور میں ان کا منفرد trtبہر حال ایک اہم عنصر تھا…………وہ اردو کے اچھے نظم نگار شعرا میں شامل ہیں۔ اورا نھیں شامل رہنا چاہیے۔(۴۵۵)

۴۳۲۔کرنل غلام سرور،’’فاخر ہریانوی‘‘،مشمولہ ’’سہ ماہی سیارہ ‘‘ لاہور:اشاعت خاص ،جون ،جولائی ۱۹۷۹ء،ص :۲۴۳

۴۳۳۔ڈاکٹر وحید قریشی،’’پیشِ لفظ‘‘،مشمولہ ’’باقیاتِ تاثیر‘‘،ص:۶

۴۳۴۔حفیظ الرحمن احسن،بحوالہ ،افشیں عظیم،’’فاخر ہریانوی‘‘،ص :۶۴

۴۳۵۔ضیاء محمد ضیا ،بحوالہ افشیں عظیم،فاخر ہریانوی ،ص :۶۵

۴۳۶۔احمد ندیم قاسمی،’’بحوالہ افشیں عظیم ‘‘،فاخر ہریانوی ،ص: ۷۴

۴۳۷۔پروفیسر حمید احمد خان،’’تعارف‘‘ ،مشمولہ ’’موجِ صبا‘‘ از فاخر ہریانوی ،لاہور :ایوانِ ادب،۱۹۶۶ء،ص :۳

۴۳۸۔فاخر ہریانوی،’’موجِ صبا‘‘،لاہور ،ایوانِ ادب،۱۹۶۶ء،ص: ۷۲

۴۳۹۔ایضاً،ص :۷۷

440Dr.hd d," htr  rd Ltrtr" ,Dhl,xrd vrt pr, 1984,P ,528-29

۴۴۱۔فاخر ہریانوی ،’’موجِ صبا‘‘،ص:۸۸

۴۴۲۔ایضاً،ص :۹۷

۴۴۳۔ایضاً،ص :۱۰۳

۴۴۴۔ایضاً،ص :۱۰۴

۴۴۵۔ایضاً،ص :۱۰۸

۴۴۶۔ایضاً،ص :۱۰۹

۴۴۷۔ایضاً،ص :۱۱۱

۴۴۸۔ایضاً،ص :۱۲۰

۴۴۹۔ایضاً،ص :۱۲۵

۴۵۰۔مکتوب احمد ندیم قاسمی بنام حفیظ صدیقی ،بمقام لاہور،بتاریخ ۱۰ فروری ۱۹۸۶ء

۴۵۱۔فاخر ہریانوی ،’’موجِ صبا‘‘ ،ص ۱۲۸

۴۵۲۔ایضاً،ص :۱۵۵

۴۵۳۔ایضاً،ص :۱۷۰

۴۵۴۔ایضاً،ص :۷۲

۴۵۵۔مکتوب احمد ندیم قاسمی،بنام حفیظ صدیقی ،بمقام لاہور، مورخہ۱۰ فروری۱۹۸۶ء

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...