Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

مضطرؔ نظامی
ARI Id

1688382102443_56116094

Access

Open/Free Access

Pages

148

طرؔ نظامی(۱۹۰۹ء ۔۱۹۶۹ء) کا اصل نام خدا بخش تھا اور مضطرؔ تخلص کرتے تھے۔ مضطر پسرور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں انھوں نے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۳۷ء میں مضطر نے محکمہ تعلیم میں بطورِ اُستاد ملازمت اختیار کی ۔ (۴۶۲)آپ نے کم عمری میں ہی لکھنا شروع کر دیا۔زمانہ طالب علمی ہی سے ان کا کلام کالج میگزین میں شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ (۴۶۳) انھوں نے غزل،نظم ،نعت،منظوم مکتوبات،منظوم ترجمہ،مثنوی ،مسدس،قطعہ،رباعی ،مرثیہ ،ڈرامہ ،مضمون اور مقالہ غرضیکہ ادب کی تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کی تصنیف و تالیف مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کی تعداد اکیس کتب پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے دو پیارے نبیؐ (منظوم) اور دانش کدہ فارسی مطبوعہ ہیں جب کہ باقی تمام غیر مطبوعہ ہیں۔ ان کی تفصیل درج کی جاتی ہے۔

مضطرؔ نے ’’پیارے نبی‘‘ کے عنوان سے آسان ،سادہ اور چھوٹی بحر میں دلکش انداز میں بچوں کے لیے نبی پاکؐ کے مقدس حالات کو منظوم اندازمیں پینتیالیس عنوانات کے تحت قلمبند کیا۔یہ مجموعہ پچھتر صفحات پر مشتمل ہے۔ جو ۱۹۶۴ء کا طبع شدہ ہے۔ ’’نقشِ حیات‘‘ نظم اور غزل پر مشتمل ہے۔ جو ۱۹۶۴ء کا طبع شدہ ہے۔ ’’نقشِ حیات‘‘ نظم اور غزل پر مشتمل مضطرؔ کا دوسرا غیر مطبوعہ مجموعہ کلام ہے۔یہ مسودہ خود نوشت ہے جو ۲۷۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ متفرق کلام ( غیر مطبوعہ) مسودہ چھپن نظموں اور سترہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ آبِ بقا (غیر مطبوعہ) مضطرؔ کا چوتھا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔ یہ مسودہ ایک سو انتالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں ایک سو ستائیس اردو نعتیں ہیں۔کاروانِ حیات (غیر مطبوعہ) مضطرؔ کا پانچواں منظوم مکتوبات کا مجموعہ کلام ہے۔ یہ مسودہ ایک سو ترانوے صفحات پر مشتمل ہے۔ منظوم مکتوبات پچاس شخصیا ت کو لکھے گئے ہیں ۔ابوالاثر حفیظ جالندھری ،ڈاکٹر سید عبداﷲ اور مضطرؔ کے شاعری کے استاد عبداللطیف تپش بھی ان علمی و ادبی شخصیات میں شامل ہیں ۔مضطرؔ نے اقبال کی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق کا سب سے پہلے منظوم اردو ترجمہ کیا۔ یہ خود نوشت او ر غیر مطبوعہ ہے۔ یہ مسودہ اکہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’عظمتِ والدین‘‘ مضطرؔ نے عظمت والدین کے موضوع پر ایک طویل مثنوی رقم کی جو خاصی ضخیم اور کم و بیش اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مضطرؔ کی خود نوشت مثنوی ہے۔

’’خراشیں‘ افسانچے طرز کی کتاب ۱۹۵۱ء میں گوشہ ادب انار کلی لاہور سے شائع ہوئی۔ یہ بیگم نسیم ایوب کی تخلیق ہے جو اناسی صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں شامل نثر پاروں کی تعداد ایک سو ننانوے ہے۔ مضطر نے ان شگفتہ ادبی نثر پاروں کے مفہوم کو فنی چابکدستی کے ساتھ دلکش انداز میں منظوم صورت میں قلمبند کیا ہے۔ مذکورہ بالا تخلیقی کتب کے علاوہ مضطر ؔ کی انتخاب پر مشتمل کتابیں،’’اقبال کا عشقِ رسول‘‘ ،’’زجاج افرنگ‘‘،’’قرآنیاتِ اقبال‘‘ اور ’’طاہرہ نامہ‘‘ مسودات کی صورت میں ان کے بیٹے طاہر نظامی کے پاس موجود ہے۔

خدا بخشؔ مضطرؔ نظامی کی اردو شاعری کا آغاز تقریباً بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کی ابتدا کے ساتھ شروع ہوا۔ اردو شاعری کی جس روایت کے سائے میں ان کا شعری و ادبی شعور پر وان چڑھا وہ غزل کی کلاسیکی روایت تھی۔ جس کے نمائندہ شعرا میں ولیؔ،میرؔ ،سوداؔ،آتشؔ،ذوقؔ،غالبؔ،مومنؔ اور داغ کے نام قابل ذکر ہیں۔

مضطرؔ کی غزل اپنے دور کے تمام رحجانات سے مزین ہے۔مضطرؔ نے نامور شعرا کے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی روش کو اپنایا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی شاعری میں بڑے بڑے شعرا کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ مضطرؔ کی غزل میں میرؔ کا حزن ویا س ،غالب کا تفکر ،مومن کی نفسیاتی معاملہ بندی،ذوق کا صاف ستھرا لسانی ذوق ،حالی کی جدت ِ فکر ،داغ کی زبان دانی ،اقبال کا اسلامی تفکر ،حفیظ کا ملی آہنگ،اختر شیرانی کی رومانویت اور اپنے استاد تپشؔ کے لطیف احساسات موجود ہیں۔

کلاسیکی شعرا کی طرح مضطرؔ کے ہاں حسنِ محبوب کا رنگ و آہنگ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجودہے۔ وہ حسیات کے شاعر ہیں ان کے ہاں رنگ و روپ ،خوشبو،اور زندگی کے مختلف رنگ نمایاں ہیں۔ حسنِ محبوب کے سچے جذبات کی تصویریں ان کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ وہ محبوب کے لب و رخسار،تل،اعضائے جسمانی اور ہجرو وصال کے ذکر اور اظہار سے اپنے اشعار کو چار چاند لگا تے ہیں۔نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ان پری چہروں نے اوقات حُسن چھین لیے

 

یہ پری چہرہ ہیں قاتل مجھے معلوم نہ تھا

 

دل کیا کہے کہ حسن گریزاں نے کیا کیا؟

 

چشمِ سیاہ و آبروئے میراںؔ نے کیا کیا

 

فُرصت میں پوچھ عاشق حرماں نصیب سے

 

لیلائے شب کی زلف پریشاں نے کیا کیا

 

راز و نیاز عشق و محبت نہ کر سکے

 

اس برق وش کی طبع غزالاں نے کیا کیا

(۴۶۴)

 

مست ناز غرور تو دیکھو

 

1اس طرف بھی حضور تو دیکھو

(۴۶۵)

3الوداع اے ظلمتِ شامِ فراق

 

5چاند چمکا ہے تمہارے حسن کا

(۴۶۶)

Ñجمالیاتی رنگ کی تصویریں تقریباً ہر بڑے شاعر کے ہاں ملتی ہیں۔ مضطرؔ کی غزل میں بھی جمالیاتی پہلو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ مضطرؔ کی غزل موضوع،مواد اور جمالیاتی حسن سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

مستی ابتدائے عشق نہ پوچھ

 

5دین و دنیا بھلا گئی آنکھیں

 

+نشہ شوق جان کر مجھ کو

 

3مے نظر سے پلا گئیں آنکھیں

(۴۶۷)

 

پروانوں کا فردوس ہے شعلوں کی لپیٹ میں

 

اے جانِ جہاں! جان کی پروا نہیں رکھتے

(۴۶۸)

 

رہا حسن زیر نقاب اوّل اوّل

 

7ہوا عشق نا کامیاب اوّل اوّل

 

;محبت جہنم بھی ہے فردوس بھی ہے

 

ـثواب اماّ بعد و عذاب اوّل اوّل

(۴۶۹)

 

رؤے انور سے اُٹھا بُرقع اُٹھا

 

1حسن کو ہر قید سے آزاد کر

 

;نہ دے داغ اے رشک فردوس مجھ کو

 

کہ تُجھ پر بہارِ جوانی لُٹا دی

(۴۷۰)

مضطرؔ کی شاعری میں اگرچہ روایتی مضامین ہیں لیکن تازگی کی کیفیت بھی ان کی شاعری میں موجود ہے۔ان کی غزل میں تازگی اور جدت کا احساس شدت سے دکھائی دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی غزل مسلسل ارتقا پذیر رہی ہے۔ علاوہ ازیں ان کی غزل میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی ارتقا کی کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے۔اس حوالے سے کچھ اشعار پیش کیے جا تے ہیں:

اگرچہ خاکی ہے جوہر ہیں تیرے ملکوتی

 

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

(۴۷۱)

 

دل نہ دے کوئی مہ جبینوں کو

 

5داغ پہ داغ کھا کے دیکھ لیا

 

منزل شوق میں تیرا نور ہو یقین خضرِ راہ

 

غیر کا آسرا غلط، غیر کا اعتبار کیا

(۴۷۲)

اے بلبل شوریدہ جو عشق میں کامل ہے

 

ہر رنگ میں راضی ہیں فریاد نہیں کرتے

 

معراجِ ادب مضطرؔ وہ پا نہیں سکتے

 

;جو پیروی نقش اُستاد نہیں کرتے

(۴۷۳)

مضطرؔ نظامی کی شاعری میں کلاسیکی شعرا کی طرح حزن و یاس کی کیفیت بھی نمایاں ہے۔ ان کے ہاں حزن و یاس کی تصویریں انفرادیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

پھر بہار آئی چمن پھول و کلیاں ہو گئیں

 

محوِ حیرت ہوں کھلا دل کا مرا غنچہ نہیں

(۴۷۴)

کہیے مضطرؔ آج کل مزاح تو اچھا ہے

 

رنگ سے جناب کے یاس سی برستی ہے

(۴۷۵)

میرے ظلمت کدہ میں شامِ غم ہے بال بکھرائے

 

او میرے مہر تاباں ماہ انوار دیکھتے جاؤ

(۴۷۶)

اشک اِک لفظ ہے غمنامہ تنہائی کا

 

آج اِک شور ہے زخم دل شیدائی کا

(۴۷۷)

5ہم زمانے کے ساتھ چل نہ سکے

 

+کون کرتا گلہ زمانے سے

(۴۷۸)

%مضطرؔ کی غزل میں حزن و یاس کی تصویریں بجا طور پر نمایاں ہیں لیکن وہ بنیادی طورپر قناعت پسند او ررجائیت پسند واقع ہوئے ہیں۔ انھیں خاصے کٹھن حالات سے واسطہ پڑا لیکن اس کے باوجود ان کی زبان پر شکوہ کے الفاظ کے بجائے تسلیم و رضا کے الفاظ رہے ۔اور وہ ساری زندگی اسی مسلک پر قائم و دائم رہے۔ انھوں نے ہر حال میں امید کا دامن تھامے رکھا اور جس کی وجہ سے رجائیت پسندی کا عنصر ان کی شخصیت اور فکر کا حصہ بن گیا:

عرضِ ہمت کا نہ جب تک جائزہ لیا تو نے

 

ترے لب پہ شکوہ بے مہری ایام تھا

 

باغِ ہستی میں مضطرؔ کون گلچیں مراد

 

میں نے جس غنچے کو دیکھا تشنہ پیغام تھا

(۴۷۹)

پھر جوش پر ہے گر یہ طوفانِ آرزو

 

پھر سبز ہو رہے گا گلستانِ آرزو

 

پھر بہار آئی ہے پھر بادہ پیمائی کر

 

9پھر دل قیس تلاش رہ لیلائی کر

(۴۸۰)

میں نے آباد کیا شہر تمناؤں کا

 

آؤ دیکھو تو کبھی اے صنم خانہ دل

 

3دوائے غمِ روزگار آ رہی ہے

 

1حسینہ فصلِ بہار آ رہی ہے

(۴۸۱)

Éمضطرؔ کی شاعری میں تصوف کا مضمون بکثرت ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک طرح کی پاکیزگی اور تقدس کا احساس پایا جاتا ہے۔ تصوف کی وجہ سے مضطرؔ نے بعض اوقات محبوبِ حقیقی کا عکس دکھایا ہے۔ معرفت کے رموز وبیان کیے ہیں اور زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کو بھی اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ وہ ایک صوفی نہ سہی لیکن تصوف کا رنگ ان کی شاعری میں نمایاں ہے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہر شاک سر بسجدہ رب الانام ہے

 

5حمد و ثنائے ذات ہے طیور کا

 

شاہ و گدا کا خالق و مالک ہے تو کریم

 

روزی رساں ہے تو ہی سلیمان و حور کا

 

سر جھکا سکتا نہیں مضطرؔ بتوں کے سامنے

 

وہ خدا کیا نہیں مختار جو قطمیر کا

 

 (۴۸۲)

 

کر شکوہ نہ بے مہری احباب کا مضطرؔ

 

کوئی نہیں تیرا تو میری جان خدا ہے

 

دل بادہ توحید سے پر نور ہے مضطرؔ

 

ساقی کا کرم ہے غمِ صہبا نہیں رکھتی

(۴۸۳)

ûمضطرؔ کی شاعری عشقِ رسول ؐ کی آئینہ دار ہے۔ا نھیں سرور کونین سے خاص عشق تھا۔ جس کا اظہار انھوں نے اپنی تمام اصنافِ سخن میں کیاہے۔ عشقِ رسول ؐ ان کی شاعری کی مرکزی روح ہے۔ ان کی نعت گوئی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

جمال پاک کو دیکھے بشر کی تاب نہیں

 

وہ بے نقاب ہوئے پر بھی بے نقاب نہیں

 

دامنِ امروز میں ہے ہی دولتِ کونین

 

خوش بخت وہ لوگ ہیں جو غمِ فردا نہیں رکھتے

(۴۸۴)

حرم پاک کی طرف ہے مری جان مضطرؔ

 

شمع کی طرف سے کیا مانع ہے پروانے کو

 

مل ہی جائے گا کبھی مضطرؔ حضوری کا شرف

 

گھر در محبوب پر اپنا بناتے جائیے

(۴۸۵)

زندگی کے بارے میں زیرک،صاحب بصیرت اور علما و صلحا نے اپنے اپنے مشاہدات ،تجربات ،اور محسوسات کے بعد مختلف نظریات قائم کیے ہیں۔ مضطرؔ کے ہاں زندگی ایک عمل پیہم اور جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کے نزدیک زندگی مصائب و آلام اور رنج و راحت کا مسکن ہے۔ زندگی کی مشکلات ہی انسان میں جستجو ،تگو دو ،محنت و مشقت،اور سعی لا حاصل کی خصوصیات پیدا کرتی ہیں ۔جس کے بغیر زندگی بے کیف اور بے مزہ ہو کر رہ جاتی ہے:

زندگی جاوید ہو عمل تیرا

 

1حرف اُمُّ الکتاب کی صورت

 

1ذرے ذرے میں زندگی بھر دے

 

'چشمۂ آفتاب کی صورت

(۴۸۶)

کوہ غم ٹوٹا اگر سر پر تو غم اصلا نہ کر

 

جاں شیریں کے لیے توسعی فرہادانہ کر

 

رنج ہی راحت فزا ہے ہمت مردانہ کر

 

مر کے برگِ زندگی پیدا مثالِ دانہ کر

(۴۸۷)

-مضطر کی شاعری میں زندگی کا یہ رخ بھی نمایاں ہے کہ انساں کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ بشرط کہ اسے عرفانِ ذات اور عرفانِ خدا وندی حاصل ہو جائے اور وہ اپنا مقام و مرتبہ پہچان لے تو وہ خاک سے اکسیر بن جاتا ہے۔ اسی کیفیت کی باز گشت مضطر کی شاعری میں نمایاں ہے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

مہ و ستارہ تو ادنیٰ غلام ہیں تیرے

 

مہ و ستارا سے اعلیٰ مقام پیدا کر

 

جسے نہ توڑ سکے گردشِ ضربِ افلاک

 

کرم اے ساقی مہوش وہ جام پیدا کر

(۴۸۸)

انسان جب تک زندگی میں عشق کی دولت سے مالا مال نہیں ہوتا اس وقت تک وہ زندگی میں اہم مقام پیدا نہیں کر سکتا۔مضطرؔ کی شاعری میں یہ درس عام ملتا ہے۔ انھوں نے انسان کے اندر عشق کی قوت لا زوال کو پیدا کرنا چاہا ہے۔ جس کے فیضان سے انسان زندگی کی حقیقتوں اور رفعتوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتا ہے:

اپنی صدا کے دل سے تو بانگِ درا کاکام لے

 

دم کہیں کارواں نہ دے اس کا اعتبار نہ کر

(۴۸۹)

مرتا ہے عشق بھی کہیں مرتا ہے عشق بھی

 

تکلیف اس رہن و دار کے قربان جائیے

(۴۹۰)

پہلے منصور صفت سر تو کٹا لے اپنا

 

پھر کہیں دعویٰ بھی اے عاشق ہر جائی کر

(۴۹۱)

تغزل کیفیات حسن و عشق کے اس ایمائی اظہار کا نام ہے۔ جس میں شدت ہوتی ہے۔ مگر شائستگی اور خلوص لے کر آتی ہے۔ حسنِ ادا کے ساتھ ساتھ فلسفہ و تصوف کے مضامین میں تغزل تب آتا ہے۔ جب انھیں عشق و محبت کے انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ تغزل میں تفصیل سے زیادہ ایجاذ و اختصار ،ہیجان کی بجائے ضبط اور وضاحت کی بجائے ایمائیت ہوتی ہے۔ مضطرؔ کی شاعری میں مذکورہ بالا تعزل کے سبھی رنگ ،انداز اور موضوعات پائے جاتے ہیں:

ڈھونڈتی پھرتی ہے آنکھ اس نگاہ ناز کو

 

چھپ گیا ہے چھوڑ کر جو صورت بسمل مجھے

 

کوئی ظاہر پہ مرتا ہے کوئی باطن پہ اے مضطرؔ

 

کسی کا دل حسیں ہے اور کسی کی ہیں حسین آنکھیں

(۴۹۲)

ہم غفلت محبوب کا شکوہ نہیں کرتے

 

;اک راز محبت ہے افشا نہیں کرتے

 

خوباں کی ولایت کے دستور نرالے ہیں

 

زندانی اُلفت کو آزاد نہیں کرتے

(۴۹۳)

Í عقل و عشق اردو اور فارسی شاعری کا قدیم موضوع ہے۔ عشقیہ شاعری میں عقل مصلحت اندیشی اور احتیاط کے معنی میں آتا ہے۔ اور عشق اس والہانہ محبت کا نام ہے۔ جو آداب مصلحت سے نا آشنا ہے۔ مضطرؔ نے عقل و عشق کے تصورات صوفی شعرا سے لے کر ان پر جدید فلسفہ و احدانیت کا رنگ چڑھایا ہے۔ انھوں نے اپنی جدتِ فکر سے اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو حل پیش کرتی ہے۔ لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ عشق ہے مضطرؔ کے ہاں عشق سے مراد یقین و ایمان ہے۔ ان کے نزدیک عقل اور علم کی سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ اس کی بنیاد شک پر قائم ہے۔عقل و عشق کے موازنے کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

عشق محبوب سے ہمکنار ہو گیا

 

7عقل زادِ سفر باندھتی رہ گئی

 

5عقل بت بن گئی سوچتی رہ گئی

 

7کھیل تقدیر کے دیکھتی رہ گئی

(۴۹۴)

 

عشق صادق کے فیض سے مضطرؔ

 

3آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں

1بندہ عقل سے اسرار کی بات

 

1بندہ عقل سے اسرار کی بات

تیرے دیوانے کہاں کرتے ہیں (۴۹۵)

مضطرؔ کی شاعری میں تصورِ خودی بکثرت ملتا ہے۔ کچھ اشعار نمونے کے طورپر پیش کیے جاتے ہیں۔ جن میں فلسفہ خودی نمایاں طورپر نظر آتا ہے:

 اے کاش کہ حاصل ہو پھر نورِ خودی مضطرؔ

 

تو مومن کامل تھا میں مردِ کامل تھا

 

تیرے عمل میں نہیں جو روح تقویٰ کی

 

;زیاں مال ہے تیرا کمال ادرا کی

 

نور عرفاں سے جب تک نہ منور دل ہو

 

آنکھ پر کھلتے ہیں اسرار بڑی مشکل سے

(۴۹۶)

مضطرؔ کی شاعری کی اثر پذیری کا سبب موسیقی بھی ہے۔اُن کے کلام میں موسیقیت اور غنائیت کا باقاعدہ اہتمام ملتا ہے۔وہ مترنم بحریں استعمال کرتے ہیں۔ردیفوں کی تکرار سے بھی عمدہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ہر شعر میں مناسب قافیہ بار بار آنے کی وجہ سے دل کشی اور دل آویزی کا باعث بنتا ہے۔ اور شعر کی موسیقی میں اضافہ ہو جاتا ہے:

حسن کی پردہ داریاں نہ گئیں

 

5عشق کی آہ و زاریاں نہ گئیں

 

/حسن کی بے وفائیاں مشہور

 

5عشق کی جاں نثاریاں نہ گئیں

(۴۹۷)

 

دل ڈھونڈتا ہی رہ گیا اس نگہ ناز کو

 

9مانند برق سامنے آ کر چلے گئے

 

حاصل ہے بے خودی میں مجھے کیف سرمدی

 

7ایسی ہے طہور پلا کر چلے گئے

(۴۹۸)

éمضطرؔ کا تعلق شعرا کے اس گروہ سے ہے۔ جو شعر کو معّمہ اور الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں بناتے بلکہ سامع اور قاری پرا پنی قلبی واردات کا انکشاف سیدھے سادھے الفاظ اور اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں زبان و اسلوب کی سادگی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے:

جوانی جو دیکھی جوانی لٹا دی

 

3رہ عشق میں زندگانی لٹا دی

 

-حسرتِ دید کا علاج نہیں

 

5دلِ ناداں سُنا گئیں آنکھیں

(۴۹۹)

 

حجابات اُٹھتے چلے جا رہے ہیں

 

9کوئی خود بخود سامنے آ رہا ہے

 

-کائنات جمال میں گم ہیں

 

1جلوہ لا زوال میں گُم ہیں

(۵۰۰)

ƒمضطر ؔ کی شاعری میں بے شمار غزلیں ایسی ہیں جن کو غزل مسلسل کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔طوالت کے پیش نظر غزلوں کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مسودہ نقشِ حیات سے متعدد غزلیات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

مضطرؔ کی شاعری میں ان کے دور کے حالات ،اخلاقی اور معاشرتی قدروں ،ماحول اور واقعات و مشاہدات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔مضطرؔ نے اپنے گردو نواح میں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں حالات کی تلخیوں ،کم مائیگی اور جبرو استبداد کی سچی تصویریں ملتی ہیں:

اثر حاضر کی دانش و تہذیب

 

)باعـث سنگ دیکھتا ہوں

 

-سہل انگار با مراد نہیں

 

+راہ آسان اختیار نہ کر

(۵۰۱)

 

ہے نمود اہل زر مثل سراب

 

5دیدہ دل تنگ ہے پوچھ نہ کچھ

 

آدمی تعمیر کرتا ہے اُمیدوں کے محل

 

زندگی ریگ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں

(۵۰۲)

åمضطرؔ کا شمار حساس اور درد دل رکھنے والے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں اصلاحی ،معاشرتی اور اخلاقی موضوعات پر کئی نظمیں موجود ہیں وہ اصلاحی پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ وہ ان نظموں میں قوم کو تعمیری کاموں کی طرف راغب کرتے نظر آتے ہیں تاکہ وطن میں خوشحالی کا دور دورہ ہو سکے۔ ’’آئینہ حیرت‘‘،’’انقلاب‘‘،’’معارف‘‘ ،’’ناکام آرزو‘‘ ،’’فراق دوست‘‘،’’نوائے سروش‘‘،اور ’’موجِ نسیم‘‘ جیسی نظمیں انھی موضوعات کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ نظمیں مسودہ ’’متفرق نظمیں‘‘ اور مسودہ’’نقشِ حیات‘‘ سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

مضطرؔ نے مناظرِ فطرت کے مختلف پہلوؤں پر بھی متعدد نظمیں لکھی ہیں۔’’صبحِ سعید‘‘،’’ماہتاب‘‘،’’پیامِ بہار‘‘، ’’بہاریہ‘‘ اور ’’برسات کا گیت‘‘،مناظر فطرت کے حوالے سے خوبصورت نظمیں ہیں۔یہ نظمیں مضطرؔ کے ’’متفرق نظمیں ‘‘ مسودہ میں موجود ہیں۔ ان نظموں کے مطالعہ سے اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ مضطرؔ کو ان مناظر سے گہری دلچسپی ہے۔ وہ ان نظموں میں فطرت کے مختلف رنگوں کو مختلف زاویوں سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ فطرت کے حوالے سے نقشِ حیات کی نظم پیامِ بہار کا ایک بند ملاحظہ ہو:

بہشت بن گیا جہاں

 

کہ موسم بہار ہے

 

ہوائے مشکبار ہے

 

!نوائے مرغ زاد ہے

 

#ضیائے روئے زار ہے

 

عطائے کردگار ہے

(۵۰۳)

Ëمضطرؔ کی شاعری میں قومی مسائل کے موضوعات بھی بکثرت ملتے ہیں۔ ان کی شاعری اس سلسلے میں بھی خاص نمایاں ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظمیں’’تو اور اسلام‘‘ ،’’مرغِ سحر‘‘،میں کیا دیکھتا ہوں،’’کشمیر کے مجاہد‘‘،’’درسِ حیات‘‘،’’زندگی‘‘ ،’’قوم کی لڑکیوں اور عورتوں سے خطاب‘‘ اور ’’جوانو کر کے دکھاؤ کام‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ یہ نظمیں مسودہ ’’نقش ِ حیات‘‘ میں موجود ہیں۔

مضطرؔ نے مختلف اور متنوع موضوعات پر بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھی ہیں۔ ان میں ’’دعا‘‘،’’وقت کی قدر‘‘،’’اے خدا مجھے علم عطا کر‘‘ ،’’طلبا سکول کے نام‘‘،’’ماں‘‘ ،’’حضرت ابراہیم کی دعا‘‘ اور ’’حضرت اسماعیل کی قربانی‘‘ پیش پیش ہیں۔ یہ عنوانات اگرچہ متنوع ہیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان سب میں مضطر نے بچوں سے کچھ نہ کچھ کہنے بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح بچے ان نظموں سے بہت سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

تعلیم جو قوموں کی ترقی اور خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مضطر کے ہاں اس کے آفاقی پہلو کا رحجان بھی خاصا نمایاں ہے۔ انھوں نے بچوں میں تعلیم کی اہمیت و افادیت اور اس کی قدرو منزلت ذہن نشین کروانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ا ن کی نظم’’اے خدا مجھے علم عطا کر‘‘ تعلیم کی مسلّمہ حقیقت کا پرچار کرتی ہے۔ یہ خاصی طویل نظم ہے۔ جو ’’نقشِ حیات‘‘ میں شامل ہے۔ اس نظم میں بچوں کو کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ایک خوبصورت زاویہ نگاہ دیا گیا ہے۔ جن پر عمل پیرا ہو کر بچے اپنی زندگیوں کو قابلِ رشک بنا سکتے ہیں۔مضطر نے اسلامی تاریخ کے اہم اور مذہبی واقعات کو بچوں کے لیے آسان اور سادہ زبان میں چھوٹی بحر استعمال کرتے ہوئے منظوم انداز میں پیش کیا ہے۔مضطرؔ کی شاعری میں حُبِ وطن اور وطن پرستی کے تصور کا رحجان بھی موجود ہے۔ ان کے ہاں وطن پرستی کا والہانہ احساس بعض اوقات انسان دوستی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور وہ انسان دوستی کو مذہب بنا لیتے ہیں۔ مضطرؔ کی نظمیں ’’میں اورتو‘‘ اور ’’شہیدو تم کو میرا سلام‘‘ حُبِ وطن،وطن پرستی اور آزادی کی عکاس ہیں۔ یہ نظمیں نقشِ حیات مسودے سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

تعلیمی معاملات کی زندہ معاشرے کے لیے مسلّمہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس موضوع میں مضطر نے بہت سی نظمیں لکھی ہیں- ان میں ’’کارِ عظیم‘‘ ،’’خدا کی شان‘‘،’’معلم‘‘ ،’’گلدستہ عقیدت‘‘،’’پاک درس گاہیں‘‘،خداوندان مسجد و مکتب سے اور ’’الوداع ‘‘ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔مضطرؔ کی تعلیمی موضوع کے ساتھ دلچسپی کا اندازہ نظم پاک درس گاہیں کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔ جو پاکستان کے تقریباً ہر تعلیمی ادارے کے باہر رقم ہیں:

قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں

 

اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

 

صرف کرتا ہے جگر کا خون معمار عظیم

 

قوم کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے یہاں

(۵۰۴)

ãتعلیمی معاملات کے ساتھ ساتھ مضطرؔ کی شاعری میں مذہبی اقدار کا احساس بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ وہ مذہب کے بنیادی اصولوں کو انسانی زندگی کی ترقی کے لیے بہت ضروری سمجھتے ہیں۔مضطر کی مذہبی اقدار کی حامل نظموں میں ’’ولا وزرۃ وزرا اخرای‘‘،’’جنگِ بدر‘‘ ،’’فرض کا احساس‘‘ ،’’رفاقت‘‘،’’وعدہ کا پاس‘‘،اور ’’مطالبہ نمایاں ہیں۔ یہ نظمیں ’’متفرق نظمیں ‘‘ مسودے سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

مضطرؔ کو قومی شاعر تو نہیں کہا جا سکتا البتہ ان کی شاعری میں قومی شاعری کے رحجانات خاصے نمایاں ہیں انھوں نے بلا تخصیص مذہب ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ مضطر کی شاعری میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مذہبی تہواروں کے بارے میں نظمیں ملتی ہیں۔

مضطرؔ میں اپنے پیش روؤں سے خصوصاً میرؔ،غالبؔ،حسرتؔ،اقبالؔاور تپشؔ سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ مضطر کی شاعری پر اقبال کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ کیونکہ مضطر فکری اور فنی طورپر اقبال سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اقبال کا اثر ان کی نظم اور غزل دونوں پر نمایاں ہے۔ دوسری طرف مضطر نے پروفیسر عبداللطیف تپشؔ کے سامنے زانو تلمذ طے کیا۔ اس سے ان کا ایک خاص رنگ بھی ان کی شاعری پر نمایاں نظر آتا ہے۔

مضطر ؔ کے ہاں سب سے زیادہ اقبال کے موضوعات ِ شاعری کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے تیرا

 

فلک رکاب نہیں تو فلک جناب نہیں

 

مہ و ستارہ تو ادنیٰ غلام ہیں تیرے

 

مہ و ستارا سے اعلیٰ مقام پیدا کر

(۵۰۵)

 

مرتا ہے عشق بھی کہیں مرتا ہے عشق بھی

 

تکلیف اس رسن و دار کے قربان جائیے

 

/اے غم عشق تیری عمردراز

 

5عمر بھر غم گساریاں نہ گئیں

(۵۰۶)

 

کر آپ مدد اپنی رکھ آپ خیال اپنا

 

کہتے ہیں وہ غافل کی امداد نہیں کرتے

 

بیٹھ جانا کہیں تھک کر راہ میں یارو

 

دور ہو جاتی ہے منزل مجھے معلوم نہ تھا

(۵۰۷)

 ۴۶۲۔ڈاکٹر سلطان محمود حسین،’’تاریخِ پسرور‘‘،لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ،اپریل۱۹۸۱ء،ص: ۲۷۲

۴۶۳۔مضطر نظامی کی اپنی خود نوشت ڈائری میں اس بات کا ذکر ملتا ہے۔

۴۶۴۔مضطرؔ نظامی،’’مسودہ نقش حیات‘‘،ص: ۲۶

۴۶۵۔ایضاً،ص :۲۵۲

۴۶۶۔ایضاً،ص :۳۳۷

۴۶۷۔ایضاً،ص :۲۶

۴۶۸۔ایضاً،ص :۶

۴۶۹۔ایضاً،ص :۸۷

۴۷۰۔ایضاً،ص :۴۸

۴۷۱۔ایضاً،ص :۳۱

۴۷۲۔ایضاً،ص :۱۴۵

۴۷۳۔ایضاً،ص :۱۸۰

۴۷۴۔ایضاً،ص :۸۰

۴۷۵۔ایضاً،ص:۴۳

۴۷۶۔ایضاً،ص :۴۳

۴۷۷۔ایضاً،ص :۱۱۹

۴۷۸۔ایضاً،ص :۱۲۶

۲۷۹۔ایضاً،ص :۱۸

۴۸۰۔ایضاً،ص :۱۰۹،۱۱۵

۴۸۱۔ایضاً،ص :۱۲۰،۱۲۴

۴۸۲۔ایضاً،ص :۱

۴۸۳۔ایضاً،ص :۹،۴۱

۴۸۴۔ایضاً،ص :۲،۳۰

۴۸۵۔ایضاً،ص :۱۸۲،۱۸۷

۴۸۶۔ایضاً،ص :۳۵

۴۸۷۔ایضاً،ص :۱۵۶

۴۸۸۔ایضاً،ص :۳۱

۴۸۹۔ایضاً،ص :۱۰۰

۴۹۰۔ایضاً،ص :۱۱۴

۴۹۱۔ایضاً،ص :۱۱۷

۴۹۲۔ایضاً،ص :۱۲۰،۱۲۲

۴۹۳۔ایضاً،ص :۱۹۲،۱۹۳

۴۹۴۔ایضاً،ص :۲۵۰

۴۹۵۔ایضاً،ص :۲۶۳

۴۹۶۔ایضاً،ص :۱۸۶،۲۰۲

۴۹۷۔ایضاً،ص :۸۱

۴۹۸۔ایضاً،ص :۱۳۲

۴۹۹۔ایضاً،ص :۴۸،۲۶

۵۰۰۔ایضاً،ص :۱۸۶،۱۹۸

۵۰۱۔ایضاً،ص :۲۴۴،۲۴۹

۵۰۲۔ایضاً،ص :۲۵۳،۲۶۸

۵۰۳۔ایضاً،ص :۱۰۸

۵۰۴۔ایضاً،ص :۲۷۳

۵۰۵۔ایضاً،ص :۹،۲۱

۵۰۶۔ایضاً،ص :۸۱

۵۰۷۔ایضاً،ص :۱۸۸،۲۶۰

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...