Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > عبد الحمید عرفانی

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

عبد الحمید عرفانی
ARI Id

1688382102443_56116096

Access

Open/Free Access

Pages

157

عبدالحمیدعرفانی (۱۹۰۷ء۔۱۹۹۰ء) سیالکوٹ کے ایک گاؤں مغلاں والی میں پیدا ہوئے۔عرفانی نے چکوال ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ سکول کے زمانے میں انھیں ایسے دوست ملے جو بعد میں پاکستان کی ممتاز شخصیات میں شمار ہوئے۔ ان میں ڈاکٹر غلام سرور،کرنل محمد خان،قاضی گل محمد،خواجہ عبدالعزیز اور نیاز محمد خان قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۵۶ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ فارسی زبان میں لکھا گیا ان کا مقالہ’’شرح احوال و آثار ملک الشعرا بہار‘‘ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلا مقالہ تھا۔(۵۰۸) عرفانی ۱۹۴۵ء میں بھارت کے شہر دہلی میں محکمہ تعلیم کی طرف سے ایرانیوں کوا نگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں وہ ایران میں پاکستان کی طرف سے پہلے کلچرل اینڈ پریس اتاشی مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں حکومتِ پاکستان کے فارن پبلسٹی کے شعبہ میں ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں وہ آر سی ڈی کے نمائندے کی حیثیت سے ایران میں مقیم ہوئے۔ (۵۰۹) ۱۹۵۵ء میں حکومتِ ایران کی طرف سے ’’نشان سپاس‘‘،اور’’نشانِ ورزش‘‘ عطاہوئے۔۱۹۶۲ ء میں ایران نے ان کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں ’’نشان رستا خیز ملی ‘‘سے نوازا ۔۱۹۶۶ء میں حکومت پاکستان نے انھیں ’’ستارہ امیتاز ‘‘ عطا کیا۔(۵۱۰)

خواجہ عبدالحمید عرفانی چار اردو ،بارہ فارسی اور ایک انگریزی کتاب کے مصنف ہیں۔ خواجہ عرفانی کے ’’کلیاتِ عرفانی‘‘ میں اردو فارسی شاعری کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ حصہ اردو میں غزلیات ،مانولاگ کے تراجم اور قومی نظمیں شامل ہیں۔ عرفانی نے چھٹی ساتویں جماعت میں ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے شروع کر دئیے۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق شاعری میں ان کی اصلاح کرتے تھے۔ وہ انھیں سکول کا سب سے اچھا شاعر سمجھتے تھے۔(۵۱۱) سکول کے زمانے میں عرفانی مولانا حالی اور مرزا غالب سے بہت متاثر تھے۔ عرفانی کی قومی موضوعات پر لکھی گئی نظموں میں حالی کا رنگ نظر آتا ہے۔ قومی نظموں کو کلیاتِ عرفانی (حصہ اُردو) سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ عرفانی نے غالب کی زمینوں میں بھی غزلیں کہی ہیں جو کلیاتِ عرفانی (حصہ اُردو ) میں موجو د ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ فارسی تراکیب کو اردو روزمرہ سے اس طرح پیوست کرتے ہیں۔ کہ بیگانگی اوراجنبیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ عرفانی کی غزل میں خواجہ میر درد کا صوفیانہ رنگ ،میر کا سوزو گداز ،اصغر کا نشاطیہ رنگ ،غالب کی جدت پسندی او راقبال کی فلسفہ طرازی کا رنگ جھلکتا ہے۔ غالب کی طرح وہ بھی شاہراہِ عام پر چلنا پسند نہیں کرتے ۔اور یہی چیز انھیں ہم عصر شعرا میں ممتا ز کرتی ہے ۔کلیاتِ عرفانی کے بعض مانولاگ انگریزی زبان سے ترجمہ کیے ہوئے ہیں اور بعض طبع زاد بھی ہیں۔کلیاتِ عرفانی کے مکالموں میں مغربی شعرا اور اقبال کا رنگ نظر آتا ہے۔ ایک مکالمے کا عنوان ’’نطشے کارل مارکس اور اقبال‘‘ ہے۔ جس میں یہ تینوں مفکر اپنا اپنا فلسفہ بیان کرتے ہیں ۔ایک مکالمے میں عرفانی ؔ نے ن ۔م راشد سے گفتگو کی ہے۔ مکالمے کا عنوان’’بیس سال بھر‘‘ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرفانی عمر رفتہ کو آواز دے رہا ہے۔ عرفانیؔ نے اس مکالمے میں ن ۔م راشد کو مخاطب کر کے ماضی کے حسین لمحوں کا ذکر کیاہے۔

عرفانی زودگو شاعر ہیں۔ اس کا ثبوت ان کا فارسی کلام ہے۔ ایرانی انھیں بہترین فارسی شعرا میں شمار کرتے ہیں۔ اقبال کو اندرون اور بیرون پاکستان متعارف کرانے میں پیہم سعی کی وجہ سے انھیں اردو شاعری پر زیادہ توجہ دینے کا موقع نہ مل سکا۔ ان کے اردو کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ پختگی کے دور میں شعر کہنا ترک نہ کرتے تو ان کا شمار صفِ اول کے شعراء میں ہوتا۔

عرفانی نظم اور غزل کے شاعر ہیں ۔ان کی غزلیات چھوٹی بحروں میں ہیں کلام میں جاذبیت اور اختصار ہے۔ عرفانی کی غزل میں روایتی رنگ نہیں ملتا۔ ان کی غزل میں محبت اور واردات ِ محبت کا بیان کم ہے ۔ان کی غزل پر عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔

عرفانی کے عارفانہ کلام کے حوالے سے رخشہ نسیم اپنے مقالہ میں لکھتی ہیں:

ان(عرفانی) کے کلام میں جگہ جگہ عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ کلام میں اتنی تاثیر ہے کہ ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اترجاتا ہے۔ (۵۱۲)

اختصار و جاذبیت اور معرفت کے حوالے سے ’’کلیاتِ عرفانی‘‘ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

حسن صبح بہار ہے تیرا

 

)لالہ زر نگار ہے تیرا

 

;میں ہوں اور کچھ شکستہ امیدیں

 

1اور جہاں پر بہار ہے تیرا

 

1جس کو اپنی خبر نہیں کوئی

 

/کیا وہی راز دار ہے تیرا

(۵۱۳)

9ساقی نوید رونق فصلِ بہار کیا

 

نا حق نمک چھڑکتا ہے زخموں پر یار کیا

 

موت سے اپنے آپ کی مجھ کو خبر نہیں

 

اے عشق بن گیا میرا مشت غبار کیا

 

چاروں طرف ہے اپنے تخیل کا عکس رنگ

 

یونہی الجھ رہے ہیں مگر ما سوا سے ہم

(۵۱۴)

 عرفانی کی غزلیات میں سوز و گداز کی ہلکی سی لہر بھی ڈوبتی اُبھرتی نظر آتی ہے۔ موسیقیت اورغنائیت کی لہر بھی ان کی غزلوں میں واضح نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں وہ تکرار لفظی سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی غزلیات پر فارسیت کا غلبہ بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سوزو گداز ،غنائیت اور فارسیت کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

داد ان سے چاہتا ہوں دل بے قرار کی

 

جن کو خبر نہیں ہے دل بے قرار کی

 

اپنے جنون عشق نے رسوا کیا حمیرؔ

 

اب ہم کیا کریں کس پہ بھلا اعتبار کریں

(۵۱۵)

 

میں آرزو ہوں تری آرزو سے زندہ ہوں

 

کسے خبر ہے کہ تیری بھی آرزو ہوں میں

(۵۱۶)

 

نے جُرات کلام نے تابِ بیاں مجھے

 

کیا فائدہ ملا جو تپ جادواں مجھے

 

;میں ہوں اسیر حلقۂ ایام زندگی

 

زنداں تنگ ہے یہ تیرا لا مکاں مجھے

(۵۱۷)

۵۰۸۔ضعید احمد،’’ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،حیات اردو ادب کی خدمات‘‘، مقالہ برائے ایم۔اے اردو (غیر مطبوعہ) لاہور ، پنجاب یونیورسٹی۱۹۸۸ء،ص:۳

۵۰۹۔ایضاً،ص :۴

۵۱۰۔ایضاً،ص :۵

۵۱۱۔        رخشہ نسیم ،’’سیالکوٹ میں اردو شاعری‘‘،ص :۵۹

۵۱۲۔ایضاً،ص :۶۰

۵۱۳۔ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،’’کلیاتِ عرفانی‘‘،ص:۱۵۰

۵۱۴۔ایضاً،ص :۱۵۶

۵۱۵۔ایضاً،ص :۱۵۹

۵۱۶۔ایضاً،ص :۱۷۱

۵۱۷۔ایضاً،ص :۱۷۲

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...