Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

حبیب کیفوی
ARI Id

1688382102443_56116097

Access

Open/Free Access

Pages

158

 حبیب کیفوی (۱۹۱۰ء۔۱۹۹۱ء) کا اصل نام حبیب اﷲ ہے۔ کیفوی جموں میں پیدا ہوئے ۔لیکن قیام ِپاکستان کے بعد جموں سے سیالکوٹ ہجرت کی اور سیالکوٹ میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔(۵۱۸)

حبیب کیفوی کا ایک شعری مجموعہ’’آتشِ چنار‘‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور نے ۱۹۵۶ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے کا پیش لفظ محمد عبداﷲ قریشی مدیر’’حقیقت اسلام‘‘ نے لکھا ہے۔ یہ شعری کلام کشمیر اور آزادی کشمیر کے حوالے سے کہی گئی نظموں اور ترانوں پر مشتمل ہے۔

شاعری کے علاوہ کیفوی نے تنقید و تحقیق کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ جس پر حصہ نثر میں تفصیلاً بحث ہو گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیالکوٹ کے شعرا نے کشمیریات پر شاعری کی ہے۔ اقبال سمیت ہر سیالکوٹی شاعر کے کلام میں کشمیر کے حوالے سے شاعری دیکھی جا سکتی ہے۔ حبیب کیفوی کی ساری شاعری ہی کشمیر اور آزادی کشمیر کی محبت و داستان پر مشتمل ہے۔

کیفوی نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’آتش چنار‘‘ اقبال کے ایک شعر سے لیا ہے۔ اور وہ شعر بھی کشمیر کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ آتش چنار الفاظ کی کشمیر سے خاص مناسبت ہے۔اقبال کا شعر ملاحظہ ہو:

جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار

 

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند

حبیب کیفوی کی شاعری کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ غزل ہو یا نظم کیفوی کا شاعری کے حوالے سے موضوع صرف اور صرف کشمیر ہی رہا ہے۔ اس حوالے سے عبداﷲ قریشی رقم طراز ہیں:

آتشِ چنار حبیب کیفوی کی ان نظموں کا مجموعہ ہے جو پاکستان آنے کے بعد تحریکِ آزادی کشمیر کے مرحلوں پر مختلف واقعات و حالات سے متاثر ہو کر کہی گئیں۔ ترتیب تاریخ وار ہے جس سے تحریک کے اُتار چڑھاؤ کا پتہ چلتا ہے۔ جنگِ حریت کی ابتدا میں وہ پر امید اور مطئمن تھے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے۔ مایوسیاں بڑھتی جاتی ہیں۔تمام نظمیں حب الوطنی اور سوز و گداز کے جذبات سے لبریز ہیں ۔حبیب کی غزلوں میں وطن کی محبت غیرا رادی طورپر انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ ان کی نظموں کی کیفیت کیا ہو گئی جو خا ص طورپر آزادی وطن کے جذبے سے سر شار ہو کر کہی گئی ہیں۔(۵۱۹)

حبیب کیفوی نے اپنی نظمیں آزادی وطن کے جذبے سے سرشار ہو کر کہی ہیں۔ ان میں جوش بھی ہے اور خلوص بھی ،بلند آہنگی بھی ہے اورشکوہ الفاظ بھی۔ اثر پیدا کرنے کی خاطر کہیں کہیں منظر کشی اور مصوری بھی کی گئی ہے۔ اور کہیں غیرت دلانے کی خاطر طنز و ملامت سے بھی کام لیا گیا ہے۔ سوتوں کو جگانے اور جاگتوں کو فکر و عمل پر اُبھارنے کے لیے جس قسم کی سادگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان نظموں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے دل میں کشمیری قوم کا درد موجود ہے اور انھیں اس درد کے اظہار کا سلیقہ بھی آتا ہے:

بیتاب ہوں میں وادیٔ کشمیر کی خاطر

 

میرے لیے بیتاب ہر اک ذرۂ کشمیر

 

قبضہ میں دوسروں کے ہے کشمیر آج کل

 

وادی کے رہنے والے ہیں دل گیر آج کل

 

;بے فائدہ ہے گرمیٔ تقریر آج کل

 

9آئے گی کام بُرشِ شمشیر آج کل

 

اہلِ حوس کی حکمت تاخیر کے طفیل

 

پیرو جواں ہیں درد کی تصویر آج کل

(۵۲۰)

 

ماہی بے آب ہیں تیرے بغیر

 

7کس قدر بے تاب ہیں تیرے بغیر

 

-ساکنانِ خطہ خُلد آفریں

 

7سازِ بے مضراب ہیں تیرے بغیر

 

/مضمحل افسردہ و اندوہگیں

 

3کاشمیر اے خطۂ خُلد آفریں

(۵۲۱)

éحبیب کیفوی کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان میں مستقل آباد تو ہو جاتے ہیں لیکن کشمیر میں گزرے ہوئے ماضی کے لمحات انھیں بے قرار کر دیتے ہیں۔ اور بار بار یاد آتے ہیں۔ وہ خیالوں کے ذریعے کشمیر کی وادیوں میں چلے جاتے ہیں۔جہاں ان کی روح کو سکون ملتا ہے۔ وہ اپنی نظموں میں ذہنی طورپر کشمیر کی جنت نظیر وادیوں میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں- اس لحاظ سے حبیب کیفوی رومانوی شاعر ہیں اور ان کی نظموں میں رومانویت کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔رومانویت کے حوالے سے ان کی نظم ’’لولاب‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔لولا ب کشمیر میں ایک خوبصورت وادی کانام ہے۔ جس پر علامہ اقبال نے بھی ’’ضربِ کلیم‘‘ میں ایک خوبصورت نظم لکھی ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

پھر وطن کی یاد تڑپانے لگی

 

/پھر خیالِ وادی لولاب ہے

 

5دل ہے محرومِ سکوں تیرے لیے

 

/تر دیدۂ ناشناس خواب ہے

 

;جس کو تیری خاک سے نسبت ہے کچھ

 

1رات دن تیرے لیے بیتاب ہے

 

9تیرے رنگا رنگ پھولوں کی پھبن

 

3ضامنِ عظمت ترے اونچے چنار

 

5تیرے باغوں کی لطافت بے مثل

 

5دلنشیں منظر، ہوائیں مشکبار

 

3چشمِ بینا کے لیے جنت نظیر

 

;سبزہ زاروں میں بہارِ لالہ زار

(۵۲۲)

جذبہ شہادت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ حبیب کیفوی اپنی نظموں میں اس جذبے کی بیداری کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر کشمیری میدان کارزار میں بھارتی فوجیوں سے جہاد کرے کیونکہ ان کے نزدیک آزادی کشمیر کے لیے کشمیری قوم کے لیے جہاد ضروری ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ جہاد سے ایک طرف کشمیری مسلمان آزادی حاصل کر سکتے ہیں ۔تو دوسری طرف اخروی زندگی کے لیے جنت کا حصول آسان ہو سکتا ہے:

ہے اگر خواہش کہ جنت چاہیے

 

3سر میں سودائے شہادت چاہیے

 

9دُور اتنی بھی نہیں منزل کوئی

 

5ہاں ذرا تھوڑی سی ہمت چاہیے

(۵۲۳)

 

آزادیوں کی راہ میں مسلکِ شبیرؓ چاہیے

 

ملت کو سامنا ہے مصائب کا ان دنوں

ہر نوجوان کے ہاتھ میں شمشیر چاہیے

 

;ملت کا سر بلند رہا ہے جہاد سے

یہ جذبہ عزیز ہمہ گیر چاہیے (۵۲۴)

حبیب کیفوی رجائی شاعرہیں ۔ ان کی نظمیں رجائیت اور امید سے بھری ہوئی ہیں۔وہ اپنی شاعری میں کہیں بھی یاسیت سے دو چار نہیں ہوتے۔ اُنہیں امید ہے کہ کشمیری قوم مشکلات کے بعد ایک دن ضرورآزادی حاصل کرے گی:

لہرائے گا اسلام کا پرچم سر پنجال

 

دیکھے گی جسے خاکِ سمر قند و بخارا

 

طوفان و حوادث سے نکل آئی ہے کشتی

 

نزدیک ہے اُمید کے دریا کا کنارا

 

کشمیر میں اسلام کی عظمت کے نشان ہیں

 

ڈوبے گا یہاں ہند کی قسمت کا ستارا

 

کوئی دم میں ہمیں مل جائے گی نصرت کی خبر

 

قصرِ گپکارِ پہ جا اٹکی ہے غازی کی کمند

(۵۲۵)

حبیب کیفوی کی ہر نظم اپنی جگہ نہایت خوب اورعمدہ ہے۔ مگر بعض نظمیں تو ایسی ہیں جنھیں اردو ادب میں ایک خاص مقام دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’آبِ جہلم سے خطاب‘‘ ایک طویل نظم ہے۔ جس کے آٹھ بند ہیں اور ہر بند تاثیر میں ڈوبا ہوا ہے۔ شاعر جہلم کے کنارے بیٹھے بیٹھے اس وادی کے تصور میں کھو جاتا ہے۔ جہاں سے دریا نکل کر آتا ہے۔ کئی قسم کے خطرے اور خدشے اس کے دماغ میں طوفان برپا کرتے ہیں اور یہ اندیشہ چٹکیاں لینے لگتا ہے۔ کہ کہیں اس کے ہجرت کر جانے اور وادی کو نا محرموں کے حوالے کر آنے سے فطرت روٹھ تو نہیں گئی۔ اسی گبھراہٹ کے عالم میں وہ مچلتی لہروں سے سوال کرتا ہے۔ کہ کیا خزائن رنگ و بواب بھی پہلے کی طرح جمع ہوتے ہیں اور عید بہار کی لطافتوں میں صباحت کا رنگ بھرتے ہیں ۔پھر وہ ایک ایک کر کے چشمہ شاہی ،شالا مار ،نسیم اور نشاط باغ کا حال دریافت کرتا ہے اور آخر میں وطن کے جوانوں کو غیر کی غلامی سے آزاد ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

گلوں کے قافلے آتے ہیں اب بھی وادی میں

 

نسیم باغ کے اونچے چنار کیسے ہیں؟

 

مرے چمن کی بہاروں کا رنگ کیسا ہے؟

 

ہوائیں کیسی ہیں لیل و نہار کیسے ہیں؟

 

پھبن وہی ہے شکاروں کی سطح دریا پر

 

اسی طرح سے ہے جوبن پہ آبِ ڈل کہ نہیں؟

 

نظر کو دعوتِ نظارہ اب بھی دیتے ہیں

 

وہ سطحِ آب پہ پھیلے ہوئے کنول کہ نہیں

(۵۲۶)

اُن کی نظموں میں محض منظر کشی ،ماضی کا مرثیہ اور درد دل کا اظہار ہی نہیں بلکہ مستقبل کے لیے عزم و ہمت کا پیغام بھی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

ایک کشمیر پہ موقوف نہیں ہے ساقی

 

منتظر ہیں مری ہمت کے کئی اور مقام

 

اب فراغت ہی نہیں عیش و مسرت کے لیے

 

میری شمشیر اُٹھا لا میرے دامن کو نہ تھام

 

قبضہ غیر سے آزاد کرانا ہے وطن

 

ہے مرے پیشِ نظر ایک فقط ایک ہی کام

 

وہ رہی منزلِ مقصود بڑھو اور بڑھو

 

چند ہی گام مری جان فقط چند ہی گام

 

اپنی دیوانگیِ شوق کی تشہیر کریں

 

بازیابیٔ وطن کی کوئی تدبیر کریں

 

اپنے ہر عزم کو ناقابلِ تسخیر کریں

 

خاک کو ہاتھ لگا دیں اسے اکسیر کریں

 

دل ہے آزردہ و بے تاب اسے بہلائیں

 

آؤ کچھ ذکرِ دلآویزی کشمیر کریں

(۵۲۷)

5مغربی سیاستدانوں کی عیاری اور ہماری بے بسی نے کشمیر کے سلسلے کو جس پُراُمید اُلجھن‘‘ میں ڈال دیا ہے۔ حبیب کیفوی کی رائے اس بارے میں بڑی صاف اور واضح ہے:

یہ بھیک نہیں آزادی ہے ملتی ہے بھلا مانگے سے کبھی

 

دل جوش میں لا فریاد نہ کر تاثیر دکھا تقریر نہ کر

 

طوفاں سے اُلجھ شعلوں سے لپٹ مقصد کی طلب میں موت سے لڑ

 

_حالات کو اپنے ڈھب پر لا شمیشر اُٹھا تاخیر نہ کر

 

[طاقت کی صداقت کے آگے باتوں کی حقیقت کیا ہو گی

 

فطرت کے اصول زریں کی تضحیک نہ کر تحقیر نہ کر

 

[مغرب کے سیاستدانوں سے اُمید نہ رکھ بہبودی کی

 

یا طاقت سے کشمیر چھڑا یا آرزؤے کشمیر نہ کر

(۵۲۸)

óحبیب کیفوی قومی و ملی شاعر ہے۔ وہ پاکستان اور مقبؤضہ کشمیر کے مسلمانوں میں اپنی شاعری کے ذریعے بیداری پیدا کرتا ہے۔ وہ انھیں جھنجھوڑتا ہے اور عزت سے جینے کا درس دیتا ہے۔وہ انھیں کشمیر آزاد کروانے کے لیے اپنی نظموں میں جگہ جگہ اُکساتا بھی نظر آتا ہے:

جس جنگ سے وابستہ ہے تقدیر تمہاری

 

تم دُور سے اس جنگ کو دیکھا ہی کرو گے؟

 

اُٹھو گے کہ سوتے ہی رہو گے ابھی کچھ روز

 

یا اپنی تباہی کا تماشا ہی کرو گے؟

 

9آزادی کشمیر کے جانباز بنو گے

 

یا خود کو نثار رخِ مسلماہی کرو گے؟

 

جینا نہیں کہتے اسے جینا یہ نہیں ہے

 

اس کے لیے حجت کوئی پیدا ہی کرو گے؟

 

سنبھل ! سنبھل ! کہ زمانہ کا اور رنگ ہے آج

 

رباب و چنگ نہیں سازِ طبلِ جنگ ہے آج

 

دہانِ توپ سے ملتا ہے دم بہ دم یہ پیام

 

سکونِ گوشہ نشینی حرام و ننگ ہے آج

(۵۲۹)

 

ہمت کی ضرورت ہے ارادے کی ضرورت

 

لازم ہی نہیں جنگ میں سامان کی کثرت

 

سو سال کے خوابیدہ مسلماں کو ملی ہے

 

درگاہِ خداوند سے احساس کی دولت

 

9احساس بڑی چیز ہے اﷲ جسے دے

 

احساس سے قوموں کی بدل جاتی ہے حالت

 

طاقت کو کچل سکتے ہیں مضبوط ارادے

 

مضبوط ارادوں کو کچلتی نہیں طاقت

(۵۳۰)

اقوامِ متحدہ نے کشمیری قوم سے ۱۹۴۸ء میں مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کردینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے پر کشمیریوں نے جنگ بندی قبول کر لی۔جب جنگ بندی کے باوجود بھی کشمیر میں رائے شماری نہیں ہوتی۔ کہ انھیں بھارت یا پاکستان سے الحاق کرنا ہے تو حبیب کیفوی اقوام متحدہ کے کردار کو اپنی طنز کا نشانہ بناتے ہیں:

مجلسِ اقوام کی نیت کا سارا فتور

 

ورنہ کچھ مشکل نہ تھا کشمیر کے عقدہ کا حل

 

اس لیے انصاف سے کترا رہے ہیں اہلِ عرب

 

آ نہ جائے اس سے طاقتور کی پیشانی پہ بل

 

حق پسندوں سے عداوت اہلِ باطل سے سلوک

 

مصلحت بینوں کا ہے یہ دائمی طرزِ عمل

(۵۳۱)

±حبیب کیفوی اپنی نظم’’ رائے شماری ‘‘میں مغربی طاقتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں حق خود اردایت دیا جائے۔ استصواب رائے کے ذریعے ا نھیں اپنے مستقبل کے فیصلے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ جی سکیں:

ہماری رائے کا کیا پوچھنا کہ کیا ہو گی

 

ہماری رائے شماری کا اہتمام کرو

 

بھٹک رہا ہے جو طائر فضا میں آوارہ

 

کسی بھی حیلہ و حکمت سے اس کو رام کرو

 

دیارِ غیر نہیں ارضِ پاک بھی لیکن

 

ہمیں وطن میں بسانے کا اہتمام کرو

(۵۳۲)

وطنیت،وطن کی یاد،وطن کے باسیوں کی یاد بھی حبیب کیفوی کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ سیالکوٹ میں رہتے ہوئے کشمیر کی یاد ان کے لیے بے سکونی کا سبب بنتی ہے۔ تووہ یوں رقم طراز ہوتے ہیں:

اُداس رہتا ہے دل ہر گھڑی وطن کے بغیر

 

کہ جیسے طائر رنگیں نوا چمن کے بغیر

 

کہاں کہاں نہ مجھے لے گئی طلب اس کی

 

مگر سکوں نہ ملا تیری انجمن کے بغیر

 

غمِ حیات نے بخشا ہے درد وہ مجھ کو

 

علاج جس کا نہیں بادہ کہن کے بغیر

 

;رہی جو ہم نفسِ فطرت جمیل مدام

 

کٹے گی زندگی کیسے گل و سمن کے بغیر

 

برائے نام سی ہے زندگی میں لطف نہیں

 

نشاط و چشمہ شاہی و ہارون کے بغیر

(۵۳۳)

۵۱۸۔ڈاکٹر عادل صدیقی ،’’شعرائے سیالکوٹ اورنعت‘‘مشمولہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر ،لاہور، گورنمنٹ کالج شاہدرہ ،جلد اول، ۹۳۔۱۹۹۲ء،ص۳۲۵

۵۱۹۔عبداﷲ قریشی ،’’پیش لفظ‘‘ ،مشمولہ ’’آتش چنار‘‘ از حبیب کیفوی ، لاہور ،مکتبہ تعمیر انسانیت ۱۹۵۶ء،ص: ۱۰،۱۱

۵۲۰۔حبیب کیفوی،’’آتش چنار‘‘،ص :۵۳،۵۴

۵۲۱۔ایضاً،ص :۷۰

۵۲۲۔ایضاً،ص :۶۸

۵۲۳۔ایضاً،ص :۶۶

۵۲۴۔ایضاً،ص :۳۳

۵۲۵۔ایضاً،ص :۲۰،۲۱

۵۲۶۔ایضاً،ص :۷۷

۵۲۷۔ایضاً،ص :۱۳

۵۲۸۔ایضاً،ص :۱۳،۱۴

۵۲۹۔ایضاً،ص :۲۸،۲۹

۵۳۰۔ایضاً،ص :۳۸

۵۳۱۔ایضاً،ص :۷۲

۵۳۲۔ایضاً،ص :۴۴

۵۳۳۔ایضاً،ص :۹۰

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...