Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > بشیر احمد چونچال

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

بشیر احمد چونچال
ARI Id

1688382102443_56116098

Access

Open/Free Access

Pages

163

چونچال (۱۹۱۰ء۔۱۹۸۵ء) کا اصل نام بشیر احمد اور چونچالؔ تخلص کرتے تھے۔ چونچال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ (۵۳۴) ان کی زندگی عسرت اور عدم آسائش کا شکار رہی لیکن وہ اپنے وقت میں مشاعروں کے مقبول ترین شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’منقار‘‘ دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے ۲۰۰۰ء میں شائع کیا۔ جو طنز یہ ومزاحیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں غزلیں ،نظمیں اور قطعات شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں کامران مسعود کا مضمون’’ابتدائیہ‘‘ اصغر سودائی کا مضمون ’’چونچال ایک منفرد شاعر ‘‘،انور مسعود کا مضمون’’سیالکوٹ کا واحد ظریف شاعر‘‘ اور ضمیر جعفری کا تبصرہ ’’کلام بولتا ہے ‘‘ شامل ہیں۔

’’منقار‘ کے علاوہ ان کا کلیات زیر ترتیب ہے ابھی تک ان کا مجموعی کلام دسیتاب نہیں ہو سکا۔

بشیر احمد چونچال عظیم مزاح نگار شعرا میں ایک امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ اس امر کے کہ وہ عصر حاضر کے مزاح نگاروں میں صفِ اول کے شاعر تھے انھیں وہ مقام و مرتبہ نہ مل سکا جو ان سے کم تر درجے کے شاعروں کو مل چکا ہے یا مل رہا ہے۔اصغر سودائی چونچالؔ کی عظمت کے حوالے سے رقم طرا ز ہیں:

اگر میں یہ کہوں کہ چونچالؔ اکبر الہ آبادی کے بعد دوسرا بڑا شاعر ہے ۔ جس نے فلاح قوم کا بیڑا اٹھایا اور ساری عمر اسی دشت کی سیاہی میں گزار دی تو ہر لحاظ سے یہ ایک ایسا دعویٰ ہو گا جس کی دلیل ان کا کلام ہے۔(۵۳۵)

اپنے مضمون’’سیالکوٹ کا واحد ظریف شاعر‘‘ میں انور مسعود چونچال سیالکوٹی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

میں سمجھتا ہوں کہ سیالکوٹ کے واحد ظریف شاعر چونچال بھی عدیم المثال ہیں۔ سچی بات یہی ہے کہ چونچال ہر اعتبار سے پیرو اکبر ہیں ۔اکبرکی طرح اپنی عظمت رفتہ ان کا خاص الخاص حوالہ ہے۔ وہ قومی حمیت سے بھی سرشار ہیں اور مغربی اقدار کی پیروی سے بھی انتہائی بیزار ہیں۔(۵۳۶)

سید ضمیر جعفری چونچالؔ سیالکوٹی کے دوست تھے اور متعدد مرتبہ سیالکوٹ میں چونچال سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔چونچال اور ضمیر جعفری اکٹھے مشاعر ے بھی پڑھتے رہے۔ ضمیر جعفری چونچال کے بارے میں چونچال کے شعری مجموعے پر اپنے ایک تبصرے میں کہتے ہیں:

چونچال اپنے وقت میں مشاعروں کے مقبول ترین شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ مگر ان کا شمار ان چند شعرا میں بھی ہوتا تھا۔ جن کا شعر صرف مشاعرے ہی میں نہیں چمکتا تھا بلکہ ’’کاغذ‘‘ پر بولتا تھا۔ ان کا تخلص چونچال تھا۔ ان کے کلام میں چونچال پن کی لہر بھی یقینا رواں دواں رہتی تھی ۔کہ یہ بشاشت تو کھرے مزاح کی پہلی شرط ٹھہری لیکن میرے نزدیک ان کے کلام کی بنیادی خصوصیت ملی اور وہ معاشرتی درد مندی کا وہ احساس تھا جو شگفتگی کے ایک نادر تہذیبی شعور کے امتزاج کے ساتھ ان کے شعر کے باطن میں روشن دکھائی دیتی ہے۔(۵۳۷)

اپنے معاصر مزاح نگار شعرا کی طرح چونچال کو خودبھی اپنے مزاح نگار ہونے اور سیالکوٹ کی مٹی سے تعلق ہونے کا گہرا شعور تھا:

تمہیں خبر نہیں چونچال کون ہے وہ تو

 

;سیالکوٹ کا واحد ظریف شاعر ہے

(۵۳۸)

Õاکبر الہٰ آبادی ،مذاق اور ظرافت میں یکتائے روزگار ہیں۔اُن کی شہرت،ان کی ظرافت،بذلہ سنجی اور لطیف طنزیات پر مبنی ہے۔یہی حال چونچال کا ہے کہ شاعرانہ دل و دماغ کے ساتھ ظرافت کے بھی مالک ہیں۔ نئے نئے بامذاق الفاظ خاص طور پر انگریزی کو بطور قافیہ استعمال کرتے ہیں۔ اکبر کی ظرافت میں جو لطیف اور عمیق معنی پنہاں ہیں چونچال کی ظرافت میں بھی وہی جامعیت اور وسعت موجود ہے:

وہ لے سے آشنا ہیں نہ ماہر ہیں تال کے

 

بیٹھے ہوئے خیر سے طبلہ سنبھال کے

 

افسانے ابتدا کے سنے جا چکے بہت

 

اب دیکھنے ہیں ہم کو ڈرامے مآل کے

 

مایوسیوں کے خار ہیں چاروں طرف یہاں

 

دشتِ طلب میں رکھنا قدم دیکھ بھال کے

(۵۳۹)

Ã۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد جو بے ڈھنگی طرزِ معاشرت اور جو بے معنی طرز بودوباش ہم نے من حیث القوم اختیار کر لی تھی اس کا مداواصرف اسی میں تھا کہ ہم مانگی ہوئی معاشرت اور اوپری تہذیب کی چکا چوند کا جوا اپنے گلے سے اُتار پھینکیں اور اپنے ماضی کی تاریخ کے آئینے میں جھانک کر ان چمکتی ہوئی اور ہمیشہ رہنے والی اقدار سے لو لگائیں جو ہمارے ملی وجود کاطرہ امتیاز ہیں اور جن پر چل کر ہمارے سلف کے عمائدین نے تمام دنیا کی امامت کا علم تھام لیا تھا۔ چونچال کی نگاہ میں ہماری قومی ابتری کی یہی دلکش تصویر تھی جس میں وہ از سر نو نئے رنگ بھرنے کی کوشش میں مگن رہے۔ قومی صفوں میں انتشار کی عکاسی کرتے ہوئے وہ پکار اُٹھتے ہیں:

عالمِ اسلام میں یہ کیا خرابی ہو گئی

 

یہ ہوئی سُنیّ تو وہ مسجد وہابی ہو گئی

(۵۴۰)

ïقوم کے شیوخ و واعظین جس دوغلی پالیسی کے علمبردار بن گئے تھے ان کی بھرپور انداز میں تصویر کشی مندرجہ ذیل شعر سے ہوتی ہے:

پی رہے تھے وہ کسی مس کا عطا کردہ سگار

 

شیخ کی ریش مبارک نذر آتش ہو گئی

(۵۴۱)

Ýہماری صفوں میں شیطانی قوتوں نے جس بُری طرح گھر کر لیا ہے۔ اسے گھر کی مثال دے کر کس اچھوتے پن کے ساتھ واضح کیا:

خدا کا جب دل کجرو سے بائیکاٹ ہوا

 

یہ بنگلہ پھر کسی شیطان کو الاٹ ہوا

(۵۴۲)

µحقیقت یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں جہاں نیکی کے سر چشمے موجود ہونا تھے۔ وہاں طاغوتی طاقتیں براجمان نظر آتی ہیں۔جو چونچال کے لیے وجہ اضطراب تھیں اور اسی لیے انھوں نے اپنے کرب کا برملا اظہا ر کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔

چونچال ساری زندگی غربت سے دوچار رہے۔ ایک حال فاقہ کشی کے ساتھ ساتھ رہا ۔پیٹ کے دھندے سے انھیں عمر بھر فراغت نہ ملی ۔رزق ملتارہا لیکن گزر اوقات کی حد تک ،تنگدستی کے باعث وہ گرانی کے ہاتھوں بھی نالاں رہے۔ ان کے گھر میں خیریت کے سوا سب کچھ تھا ۔اولادکثرت سے تھی۔

بہت بچوں کی کثرت ہو رہی ہے

 

1ولادت پر ولادت ہو رہی ہے

(۵۴۳)

· چونچال کو مرغن غذائیں بہت پسند تھیں لیکن میسر نہیں تھیں۔ غریبی میں خودی کی نگہبانی کا بوجھ بھی اُٹھاتے ہوئے تھے۔ کسی کا احسان لینا انھیں گوارا نہیں تھا۔ لذت کام و دہن کے لیے سادہ اور معمولی غذ ا ہی ان کے لیے سب کچھ تھا:

سُن کے ان کی چٹ پٹی باتیں مزے لیتے رہے

 

بزم دل آلو ،کچالو، لوبیا ہوتی رہی

(۵۴۴)

ëاشیائے خورد نی میں دال کا تذکرہ ان کے یہاں سر فہرست ہے ۔ محبوب کو پیش کرنے کے لیے ان کی استطاعت اس سے بڑھ کر نہیں تھی:

چونچال شبِ وصل ہے وہ آئے ہوئے ہیں

 

جلدی سے کوئی ان کے لیے دال پکا لیں

(۵۴۵)

{چونچال کو نا مساعد حالات کی ایک شدید گھٹن کا سامنا تھا۔ جس سے بچنے کے لیے انھیں ایک ایسا دریچہ درکار تھا جس سے آکسیجن وافر مقدار میں حاصل ہو سکے ان کی خوش مزاجی نے انھیں یہ دریچہ فراہم کیا:

خدا کی دین ہے چونچال خوش مزاجی بھی

 

9علاج غم ہے طبیعت مزاحیہ میری

(۵۴۶)

¥چونچال اپنے ذاتی غموں سے چور چور ہو کر بھی پاکستانی معاشرے کی ناہمواریوں اور بد ہیتؤں کے زخم بھی اپنے دل پر لیے ہوئے تھے۔ہمارے اجتماعی وجود کو جہاں جہاں کوئی دیمک چاٹ رہی ہے چونچال نے اس کی بھرپور نشاندہی کی ہے۔ انھیں اس بات کا قلق ہے کہ سیاسی قیادت نے سیاست کو محض آمدن اور حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ چونچال کے طنزیہ حملوں کا سب سے بڑا ہدف قیادت سرِ منبر ہے۔ شیخ و واعظ پر اس مرد مسلمان نے جوا عتراضات وارد کیے ہیں ۔ان کی ایک طویل فہرست مرتب ہو سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ واعظ ہوس اقتدار کا پتلا ہے قرآن طوطے کی طرح پڑھتا ہے اسپِ معانی کی باگ اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کی وعظ بے اثر ہے ۔انداز بیان کہنہ اور فرسودہ ہے۔ پیشانی بے ریا سجدوں سے خالی ہے۔ حلقومِ مسلمانی پر خنجرِ تکفیر لیے کھڑا ہے۔ اور تفرقہ پروازی کے بیج بوتا ہے:

عالمِ اسلام میں یہ کیا خرابی ہو گئی ہے

 

یہ ہوئی سُنی تو وہ مسجد وہابی ہو گئی

 

ملتِ توحید اور تفریق اﷲ رے رستم

 

کفر کے فتوے لگانا ان کی ہابی ہو گئی

(۵۴۷)

;سر حرم نہ سیاست کی گفتگو کرتے

 

نصابِ دیں کو اگر شیخ گوتھرو کرتے

 

الگ امام ،الگ مسجدیں ،نماز الگ

 

اِک آدھ زخم جو ہوتا تو ہم رفو کرتے

(۵۴۸)

 

روٹیاں تھر سڈے کی کھاتا ہے

 

/صحن مسجد میں دندناتا ہے

 

+آخرت کے عذاب سے مُلّا

 

3خود تو ڈرتا نہیں ڈراتا ہے

(۵۴۹)

 

جبین شیخ شب و روز سجدہ ریز رہی

 

پر اس کے سجدوں میں اک سجدہ بے ریا نہ ملا

(۵۵۰)

نام نہاد مفکرین پر تنقید کرتے ہوئے خود چونچال کا اپنا مشورہ نہایت مخلصانہ بھی ہے اور انتہائی مفکرانہ بھی کہ ہمارے باہمی افتراق میں جس دشمن کا ہاتھ ہے ہماری توپوں کا رخ اس کی طرف سے ہونا چاہیے:

بھلا آپس میں لڑنے سے تمہیں چونچال کیا حاصل

 

لڑو اس سے کہ جس کا ہاتھ ہے تم کو لڑانے میں

(۵۵۱)

چونچال کا قلب حساس ہمارے سرکاری محکموں کی کالی کارکردگی سے سخت نالاں ہے جو ترقی کے مفہوم کے ادراک ہی سے قاصر ہیں اور عمل سے بالکل فارغ:

ترقی اس سے بڑھ کر اور پاکستان کی کیا ہو

 

دفاتر میں لگی رہتی ہے فوٹو اس کے بانی کی

(۵۵۲)

واپڈا کی ناکردہ کاری بلکہ سیہ کاری کا چونچال نے سب سے زیادہ نوٹس لیا ہے۔ ان کے نزدیک اس سرکاری محکمے نے تو چراغ ظلمت جلا رکھے ہیں:

ہنگام وصل روٹھ کے بجلی چلی گئی

 

کچھ دے کے واپڈا کو منانا پڑا مجھے

(۵۵۳)

 

شہر میں ہر طرف اندھیرا ہے

 

/یہ بھی انداز واپڈائی ہے

(۵۵۴)

وطن کی مجموعی صورت حال پر اس سے بڑھ کر کیا تبصرہ ہو سکتا ہے:

بجلی کی ضیا بجلی کے پنکھوں کی ہوا ضبط

 

سکھ چین شب و روز کا نیندوں کا مزا ضبط

 

اﷲ کا ڈر ،عدل و وفا،شرم و حیا ضبط

 

اس دور میں فرمائیے کیا کیا نہ ہوا ضبط

 

اس ملک کا انجام ہو کیا جانے کہ جس میں

 

ہے خیر سے ہر چیز برائی کے سوا ضبط

(۵۵۵)

çچونچال نے صنفِ غزل کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ غزل اور بالخصوص مزاحیہ غزل بڑی ریاضت مانگتی ہے ۔چونچال نے زلف غزل کی مشاطگی میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ بالعموم چھوٹی بحر استعمال کی ہے۔ زبان نہایت چست اور انداز بیان نہایت نپا تُلا ہے۔ غزل کے لطیف تلازموں کی رعایت کا ملاًملحوظ رکھی ہے۔ کمیت سے زیادہ کیفیت کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اور اپنے نظریہ فن پر بھرپور عمل کیا ہے:

مت پڑھو بزم میں غزل جب تک

 

3گیسوئے شعر کو سنوار نہ لو

 

1شعر دو چار ہوں مگر ستھرے

 

1قافیہ ہائے بے شمار نہ لو

(۵۵۶)

چونچال کی غزل میں کہیں تقصید نظر نہیں آتی۔ زبان کے سادہ اور فطری بہاؤ میں کوئی گرہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

نازو ادا و غمزہ و چشم فسوں طراز

 

دل کا مقابلہ ہے تری آدمی کے ساتھ

(۵۵۷)

 

میں جس کو چاہوں دل دوں میرا دل ہے

 

3ترے باوا کی ملکیت نہیں ہے

(۵۵۸)

áاُردو غزل فارسی کا تسلسل ہے ۔فارسی زبان کا سہارا لیے بغیر اب بھی اس کا قدم اُٹھانا محال ہے۔چونچال نے اس روایت کو اس قدر ملحوظ رکھا ہے کہ ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ میں نے غزل کو اصفہان کی سڑک پر چلایا ہے۔ ان کی ترکیب سازی پر فارسی کا ہی نہیں عربی کا بھی گہرا اثر ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے بڑی ہُنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے استعمال کی ہوئی تراکیب سے کچھ ملاحظہ ہوں۔

چشمِ بم فگن،بارِ سنگِ اخراجات، خنجرِ تکفیر،بیمار خود ستائی، وقفہِ اظہارِ مدعا،ہنگامہ ِافرایش تولید،قفلِ حسد،تلقینِ ریش،جرأ تِ تکذیبِ حق،محرومِ ذکرِ ربِّ صمد، گنجینۂ شبہات ،کشتِ مملکت،درِ لب اُن کے ہاں لفظی مزاح کے حوالے سے بھی اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:

نظم لکھ کر وہ نظامی بن گئے

 

7میں غزل کہہ کر غزالی ہو گیا

(۵۵۹)

õچونچال کے لسانی شعور کی ایک مثال ملاحظہ کیجئیے کہ مختلف ملکوں کی آب و ہوا ایک ہی لفظ کے تلفظ کو کس طرح بدل کے رکھ دیتی ہے:

وطن بدلنے سے لفظوں نے پیرہن بدلے

 

جو لفظ کھاٹ تھا انگلینڈ جا کے کاٹ ہوا

(۵۶۰)

اسلام کی ابدی سچائیوں اور عالمگیر اصولوں پر چونچال کا ایمان انتہائی محکم ہے۔ ان کے نزدیک خدا کا خوف ہی وہ بنیاد ہے جس کے بغیر انفرادی اورا جتماعی اصلاح احوال نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے:

نکلتی ہے دہن سے وہ بھی سگریٹ کا دھواں بن کر

 

ہماری آہ بھی چونچال فیشن دار ہوتی ہے

(۵۶۱)

»اکبر نے جس طرح میم ،مس اور شیخ کے الفاظ کو علامات کی حیثیت سے وسیع تر مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ چونچال کے یہاں بھی یہی عالم ہے۔ میم پر توا ن کے درج ذیل اشعار ان کے نوادرات میں شمار کیاجا سکتے ہیں ۔ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

میم پر کچھ وقت سے پہلے بڑھاپا آگیا

 

تھی تو وہ انگور لیکن جلد کشمش ہو گئی

 

خدا کی شان وہ مسِ بے نقاب ہو کے رہی

 

-کتاب غیر مجلا خراب رہی

(۵۶۲)

چونچال اپنی شاعری میں تبلیغِ اسلام کا فریضہ بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں:

اپنے کئے کی اس کو ملے گی سزا ضرور

 

ہر چند کوئی نوح کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو

 

وہ ہے خدا کادوست عمل جس کا نیک ہے

 

اس میں نہیں ہے قید کوئی ذات پات کی

(۵۶۳)

فنی اور فکری اعتبار سے بھی چونچال کی شاعری پر اکبر کے اثرات موجود ہیں:

خوشاناں جویں جو ہضم ہو جائے سہولت سے

 

خلل ہو جس سے کچھ معدے میں لعنت اس متنجن پر

(۵۶۴)

چونچال کی غزل میں انگریزی الفاظ کا حسنِ استعمال بھی اکبر کی یاد تازہ کرتا ہے۔ چونچال کی بعض غزلوں کے سارے قافیے ہی انگریزی کے ہیں مگر بے ساختہ اور بر جستہ ۔چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

دنیا سے ربط رکھئے بڑے شوق سے مگر

 

چونچال دل میں خوفِ خدا میکسیمم رہے

 

1آئے دن کرنا بلف اوور بلف

 

9کس قدر ہے اس کا اٹیمی چیوڈرف

 

لفظ ’’کن‘‘ سے جس نے پیدا کی ہے ساری کائنات

 

کوئی اس جیسا نہیں چونچالؔ مینو فیکچرر

(۵۶۵)

/چونچالؔ کی شاعری میں زور دار قہقہہ نہیں البتہ برقِ تبسم کی ایک لہر سارے کلام میں برابر دوڑ رہی ہے۔ ان کی شاعری میں مزاح زیادہ تر حسنِ ترکیب ،حسنِ تشبیہ ،انگریزی الفاظ کے حسنِ استعمال ،شوخی اور غیر متوقع صورت حال سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس مزاح آفرینی میں وہ انتہائی کامیاب شاعر ہیں۔

۵۳۴۔کامران مسعود،’’ابتدائیہ‘‘،مشمولہ ’’منقار‘‘ از بشیر احمد چونچال، اسلام آباد،دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء ،ص :۵

۵۳۵۔اصغر سودائی ،’’چونچال ایک منفرد شاعر‘‘ مشمولہ’’منقار‘‘ ،ص: ۱۹

۵۳۷۔سید ضمیر جعفری ،’’کلام بولتا ہے‘‘،مشمولہ’’منقار‘‘،ص :۲۳

۵۳۸۔چونچال سیالکوٹی،’’منقار‘‘ ،ص ۱۳۳

۵۳۹۔ایضاً،ص :۸۵

۵۴۰۔ایضاً،ص :۱۵۰

۵۴۱۔ایضاً،ص :۲۸

۵۴۲۔ایضاً،ص :۹۷

۵۴۳۔ایضاً،ص :۱۱۴

۵۴۴۔ایضاً،ص :۶۸

۵۴۵۔ایضاً،ص :۶۷

۵۴۶۔ایضاً،ص :۱۴۰

۵۴۷۔ایضاً،ص :۱۵۰

۵۴۸۔ایضاً،ص :۳۶،۳۷

۵۴۹۔ایضاً،ص :۱۴۹

۵۴۹۔ایضاً،ص :۱۳۰

۵۵۰۔ایضاً،ص :۱۳۰

۵۵۱۔ایضاً،ص :۵۹

۵۵۲۔ایضاً،ص :۵۸

۵۵۳۔ایضاً،ص :۷۰

۵۵۴۔ایضاً،ص :۹۹

۵۵۵۔ایضاً،ص :۸۴

۵۵۶۔ایضاً،ص :۵۱

۵۵۷۔یضاً،ص :۶۸

۵۵۸۔ایضاً،ص :۸۹

۵۵۹۔ایضاً،ص :۴۰

۵۶۰۔ایضاً،ص :۴۵

۵۶۱۔ایضاً،ص :۵۸

۵۶۲۔ایضاً،ص :۹۵

۵۶۳۔ایضاً،ص :۱۲۵

۵۶۴۔ایضاً،ص :۱۴۱

۵۶۵۔ایضاً،ص :۱۴۷

۵۶۶۔سرورا رمان’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘،لاہور،ارباب ادب پبلی کیشنز ،۲۰۰۲ء،ص :۵۸،۵۹

۵۶۷۔ایضاً،ص :۱۸۶

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...