Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

فیض احمد فیض
ARI Id

1688382102443_56116099

Access

Open/Free Access

Pages

168

فیض احمد فیض(۱۹۱۱ء۔۱۹۸۴ء) کا اصل نام فیض احمد خان تھا۔ اور فیضؔتخلص تھا۔ آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد خان بہادر سلطان خان ایک کامیاب بیرسٹر تھے۔ فیض نے ابتدائی تعلیم مولوی میر حسن اور مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔۱۹۲۹ء میں فیض نے مرے کالج سیالکوٹ سے ایف ۔اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۳۶ء میں آپ نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام میں بھر پور حصہ لیا اور پنجاب شاخ کے صدر مقرر ہوئے۔۱۹۴۶ء میں برٹش کونسل نے انھیں ایم بی ای کا خطاب دیا۔ ۱۹۶۲ء میں ان کو دنیا کا اعلیٰ ترین اعزاز لینن ایوارڈ دیا گیا۔ (۵۶۶) فیض نے لاہور ،کراچی اور مختلف شہروں میں قیام کیا۔ لیکن انھیں اپنے آبائی گاؤں کالا قادر سے بے حد محبت تھی۔ جب نارووال سے کالا قادر تک پختہ سڑک بنی تو انھوں نے ۱۹۸۰ء میں بیروت سے ’’گاؤں کی سڑک‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ جب تک وہ زندہ رہے اپنے گاؤں میں اپنے عزیز و اقارب سے ملنے آتے رہے۔ اپنی وفات سے تین دن پہلے ۱۷ نومبر ۱۹۸۴ء میں فیض نے اپنی زندگی کا آخری مشاعرہ نارووال (سیالکوٹ) کے شعرا کے درمیان پڑھا۔اسی دن فیض نے نارووال میں ’’فیض اکیڈمی‘‘ کی بنیاد بھی رکھی۔ فیض کے انتقال کے بعد ان کے آبائی گاؤں کالا قادر کانام تبدیل کر کے فیض نگر رکھ دیا گیا۔ اس گاؤں میں اب ہر سال فیض میلہ بھی منعقد ہوتا ہے۔(۵۶۷)

۱۹۴۱ء میں فیض کا پہلا شعری مجموعہ’’نقش فریادی‘‘ شائع ہوا۔ جس نے اُس زمانے کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی۔ یہ مجموعہ جدید شاعری میں ایک منفرد آواز ہے۔ اس میں فیض کی پہلے دور کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں اور غزلیات میں ایک مسحور کن اور رومانی کیفیت پائی جاتی ہے۔

دوسرا مجموعہ کلام ’’دست صبا‘‘ کے نام سے ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا۔ اس کا انتساب ایلس فیض کے نام ہے ۔اس مجموعے کی شاعری تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ سن بیالیس سے سن سنتالیس تک ہے۔ اس حصے کی نمائندہ نظمیں فاشزم کے خلاف جدوجہد کے زمانے کی یادگار ہیں۔ دوسرا دور قدرے مختصر ہے جو آزادی کے بعد ساڑھے تین سال پر مشتمل ہے۔ اس دو رکی نمائندہ نظم’’صُبح آزادی‘‘ ہے۔ تیسرا دور پسِ دیوار لکھا گیا ہے۔ دستِ صبا فیض کی احتجاجی شاعری کا زنداں نامہ ہے۔

فیض کا تیسرا شعری مجموعہ’’زنداں نامہ‘‘ ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کا مکمل کلام پسِ دیوار زنداں لکھا گیا۔ اس مختصر مجموعے میں انھوں نے اپنے جیل کے تجربات کو پیش کیا ہے۔ ’’دستِ تہ سنگ‘‘ فیض کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ جو مختصر کتاب پر مشتمل ہے ۔فیض کا پانچواں مجموعہ کلام ’’سرِ وادی سینا ‘‘ کے نام سے ۱۹۷۱ء میں کراچی سے شائع ہوا۔ عالمی منظر نامے میں سن سٹرٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ان کی نظم’’سرِ وادی سینا‘‘ اس کی واضح مثال ہے۔یہ نظم اس مجموعہ میں شامل ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر شاعری فلسطین اور مشرقی پاکستان میں کھیلی گئی ہولی کی صورت حال کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں فیض کا لہجہ کلاسیکی ہے۔ ۱۹۷۸ء میں فیض کا چھٹا مجموعہ کلام ’’شامِ شہریاراں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں فیض کا سات سال کا کلام شامل ہے۔ یہ دور خاصہ ہنگامہ پرور تھا۔ اس دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی ۔بلوچستان میں فوج کشی ہوئی۔ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا گیا اور عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ اس دور میں فیض نے جلا وطنی بھی اختیار کی۔ اس شعری مجموعے میں کچھ فرمائشی کلام بھی شامل ہے۔ جس میں مرثیہ اما م حسین ،ایک قصیدہ حسین شہید سہر وردی کے لیے، پنجابی کی تین نظمیں ،ایک قطعہ اور نظموں کے چار تراجم شامل ہیں۔

۱۹۸۰ء میں فیض کا ساتواں شعری مجموعہ ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ شائع ہوا۔ ان کی جلا وطنی کے دور کی شاعری پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا انتساب یاسر عرفات کے نام ہے ۔ اس مجموعہ کلام کانام مرے دل مرے مسافر ان کی مشہور نظم ’’دل من مسافر من‘‘ ہی کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ اس مجموعے میں آپ نے اس سلسلہ فکر کو آگے بڑھایا جو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد ہونے والے حالات کی وجہ سے پیدا ہوا۔اس دور میں بھی فیض نے جلا وطنی کا راستہ اختیار کیا اور دل من مسافر من جیسی عظیم نظم تخلیق کی۔(۵۶۸)

فیض نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں اور صورتِ شعر میں اظہار کا سلقیہ اپنایا۔ تو اقبال کے ساتھ ساتھ رومانیت کی لہر سی اُٹھی تھی جس کے زیر اـثر اختر شیرانی ،جوش ،یوسف ظفر، اور احسان دانش جیسے شعرا میدا ن میں تھے۔

دوسری طرف پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر لنین اور مارکس کے نظریات کا شہرہ تھا۔ اس دور میں ایک ادبی روایت جگر ،اصغر ،حسرت اور داغ کی صورت میں بھی موجود تھی۔ نظم نگاری کی ایک روایت اختر الا یمان ،ن م راشد اور میرا جی کے ہاں ملتی تھی۔ بیسویں صدی کے دوسرے ربع میں ترقی پسند تحریک کا غلغلہ بلند ہوا اور ایک عرصہ تک ترقی پسند تحریک کے شاعروں ،ادیبوں کے شور میں کوئی دوسری آواز سنائی نہ دے سکی۔ا یک حلقہ ارباب ذوق تھا۔ جس کے اردگر د ایسے ادیب اور شاعر موجود تھے جو ترقی پسند تحریک کے رد عمل کی حیثیت سے اُبھرے۔ ترقی پسند تحریک کی طبعی عمر چودہ سال سے زیادہ نہ ہو سکی۔ ۱۹۵۰ء میں اس تحریک پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اس تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں نے اس سے رشتہ منقطع نہ کیا۔ ان لکھنے والوں میں فیض بھی ہیں۔ ان کی شاعری کا جائز ہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مارکسزم کے فلسفہ اور مقاصد کے پُر خلوص مقلد ہیں۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک کی بے لچک نظریاتی وابستگی سے کبھی منہ نہ موڑا۔

فیض اپنے سینے میں درد مند دل رکھتے تھے۔ وہ انسانوں پر مظالم اور استحصالی رویوں کو بڑے دکھ کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہشمند تھے جو اس وقت کے استحصالی نظام کو بالکل بدل کر رکھ دے۔ ان کا خیال تھا کہ انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال اور بے مقصد جنگیں ختم ہو جائیں تو انسان کے حالات بدل سکتے ہیں اور انسان اعلیٰ و ارفع اقدار کا مالک بن سکتا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں خیر و امن کی آواز بلند ہوئی فیض نے اس کا ساتھ دیا۔ ترقی پسند شاعر ہونے کے باوجود اپنی شاعری کو انقلابی نعروں سے بچاتے ہوئے فیض نے اسے رومانی پیرایہ میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری دوامی ہے۔

فیض نے غزل میں کلاسیکی انداز کوقائم رکھا اور نئے مضامین بھی پیش کیے ۔انھوں نے سیاسی مضامین و موضوعات بیان کرنے میں بھی تعزل کا سہارا لیاہے۔ فیض ایک منفرد لہجے اور جمالیاتی و رومانی انداز کے شاعر ہیں ۔وہ بیسویں صدی کے ایک ایسے انقلابی شاعر ہیں جن کے ہاتھوں پر رومانیت اور سماجیت کے چراغ فروزاں ہیں ۔ان کے غنائی لہجے میں اتنی تاثیرہے کہ انھیں ہیتی تجربوں کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

فیض کے ہاں رومان اور انقلاب یکجا ملتے ہیں۔ فیض نے اپنی نظموں اور غزلوں میں وطن سے محبت اور مظلوم انسانوں سے محبت کا ذکر خالص رومانی لہجے میں کیا ہے ۔ ان کے ہاں جس محبوب کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی ایک ہتھیلی پرحنااور دوسری ہتھیلی پر لہو کی چمک نظر آتی ہے۔ فیض کی شاعری کا بڑا موضوع محبت اور زندگی کی اجتماعی جدوجہد کی واردات ہے:

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

 

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض کی شاعری کے ابتدائی دور میں فیض کا موضوع جنسی محبت ہی ہے۔ اس میں کوئی اعلیٰ و ارفع جذبہ موجود نہیں ہے۔ فیض کے ہاں غمِ دوراں اور غمِ جاناں ایک ہی پیکر شعر میں یکجا ہیں۔ فیض کے نزدیک ادب کی دنیا ٹھوس خارجی دنیا ہے۔ رومانویت ،انقلاب،اور حسن و عشق کی واردات یہ سب زندگی کے حوالے سے فیض کی شاعری کا جزو بنتے ہیں ۔ فیض کا فنی کمال یہ ہے کہ انھوں نے کلاسیکیت اور رومانویت کو قالب شعر میں ڈھال کر ایک منفرد اسلوب اور لہجہ تخلیق کیاہے۔

فیض نے تشبیہات و استعارات رومانی استعمال کیے ہیں۔ وطن کو اپنا محبوب قرار دے کر وطن سے محبت کا اظہار اس طرح کیا ہے۔ جس طرح کوئی اپنے محبوب سے عشق کر رہا ہو:

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

 

7دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

 

تیرے ہاتھوں کی شمعکی حسرت میں ہم

 

7نیم تاریک راہوں پہ مارے گئے

 

جب گُھلی تری راہوں میں شامِ ستم

 

7ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

 

لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم

 

9اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی

 

9دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم

 

;ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے

(۵۶۹)

9فاشزم ،سرمایہ د اری اور جاگیر داری کے خلاف تندو تیز جذبات کا اظہار کرنے والے فیض کے ہاں محبوب کے حسن کا تصور بھی مرکز نگاہ نظر آتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضمون ہوں گے

 

لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کُھلتے ہوئے ہونٹ

 

ہائے اس جسم کے کم بخت دل آویز خطوط

 

آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے

(۵۷۰)

فیض نے اپنی شاعری کو سامان تفریح نہیں بنایا ہے اور نہ اسے فلسفہ و حقیقت کا روپ دیا ہے بلکہ شبستانِ محبت میں محبت کے دیپ جلائے ہیں اور حسنِ محبوب کے ترانے لکھے ہیں۔فیض کے ہاں اختر شیرانی کی سی سطحی رومانیت نہیں ملتی۔ بلکہ انھوں نے بڑی خوبصورت تشبیہات کے ساتھ ان وارداتوں کا خوبصورتی سے تذکرہ کیا ہے۔ فیض کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی

 

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

 

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم

 

جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

(۵۷۱)

ïفیض کے ہاں عشقیہ معاملہ بندی بھی ملتی ہے۔ انھوں نے محبوب کے حسن سے نہ صرف اپنی وابستگی بلکہ عشق کا کھل کر اظہار کیا ہے:

راتوں کی خموشی میں

 

'چھپ کر کبھی رو لینا

 

مجبور جوانی کے

 

#ملبوس کو دھو لینا

 

'بھولی ہوئی یادوں کو

 

!سینے سے لگا لینا

(۵۷۲)

فیضؔ میر تقی میرؔ کی طرح عشق کے زخم خوردہ تھے۔ اپنی زندگی کے پہلے ہی عشق میں ناکامی کا غم فیض کو ساری زندگی رہا۔ اس عشق کا اظہار طرح طرح ان کی شاعری میں نظر آتا ہے:

ویراں ہے مے کدہ ، خم و ساغر اُداس ہیں

 

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

 

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

 

تُجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

(۵۷۳)

Õفیض کی شاعری میں غنایت،شگفتگی اور رنگینی و رعنائی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ زندگی کی سچی مسرتوں سے ہم کنار ہونے کو زندگی کاحاصل سمجھتے ہیں ۔ فیض کے ہاں صرف بزمِ حبیب میں جانے کے خیال سے رنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام

 

موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

 

دوستو! اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر

 

گلستاں کی بات رنگین ہے نہ مے خانے کا نام

(۵۷۴)

õتیسری دنیا کے ممالک میں اہل اقتدار کا حریت پسندوں پر ظلم و ستم بھی فیض کی نظموں کا ایک موضوع ہے۔ تیسری دنیا میں کسی قانون کی پاسداری اور سر بلندی کا لحاظ رکھے بغیر عوام کو قیدو بند کی سزائیں دی جاتی ہیں ۔اس حوالے سے فیض کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھیں تیری انجمن سے پہلے

 

سزا خطائے نظر سے پہلے ،عتاب جرم سخن سے پہلے

 

جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے

 

[مقام ہے اب کوئی نہ منزل فرار دارو رسن سے پہلے

(۵۷۵)

­فیض پاکستان اور دنیا میں استحصال سے پاک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام چاہتے تھے۔ا نھوں نے اپنی شاعری میں پرولتاری انقلاب کا بہت واضح تصور پیش کیا ہے۔ اگرچہ روس اور چین میں بھی اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ غیر طبقاتی نظام قائم نہیں ہو سکا لیکن فیض کا تصورِ انقلاب ایک شاعر کا تصور ہے۔ فیض مستقبل سے بہترین توقعات وابستہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

جب ارض خدا کے کعبے سے

 

-سب بت اٹھوائے جائیں گے

 

-ہم اہلِ صفا مردودِ حرم

 

/مسند پہ بٹھائے جائیں گے

 

3اُٹھے گا انا الحق کا نعرہ

 

9جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

 

1اور راج کرے گی خلقِ خُدا

 

9جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

 

/سب تاج اُچھالے جائیں گے

 

+سب تخت گرائے جائیں گے

(۵۷۶)

فیض نے اپنی شاعری میں علامتوں کے انفرادی اور اجتماعی مفہوم کو اکٹھا کر دیا ہے۔ آپ نے استحصالی طبقے کے لیے واعظ ،شیخ ،محتسب ،ناصح ،عدو ،مدعی ،اہلِ حکم،اغیار،اہلِ ستم، صیاد،گل چیں،اہلِ ہوس، رہزن،فقیہہ شہر،اہلِ حرم،قاتل ،ستمگر اور جلاد جیسی علامتیں استعمال کی ہیں۔ پرانی علامتوں کو نئے مفاہیم عطا کیے ہیں اور کئی نئی علامتیں بھی تخلیق کی ہیں۔ جمالیاتی سحر کا سماں پیدا کرنے کے لیے فیض نے سحر،لہو ،دیدہ تر،فصلِ گل ،مے خانہ اور صبحِ سخن جیسی علامتیں تخلیق کی ہیں۔ فیض کی علامت نگاری کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی

 

سُنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی

 

کب جان لہو ہو گی کب اشک گہر ہو گا

 

کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی

(۵۷۷)

فیض کی شاعری جمالیاتی عناصر سے بھی بھری ہوئی ہے۔ زنداں میں فیض کا جمالیاتی مشاہدہ انھیں ایک خوبصورت ذوقِ جمال کا مالک بنا دیتا ہے۔ جمالیات کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

قفس ہے بس میں تمہارے ،تمہارے بس میں نہیں

 

چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم

 

ہماری بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

 

;فروغِ گلشن و صوت ہزار کا موسم

(۵۷۸)

فیض نے اپنی شاعری میں اعلیٰ فکر کے ساتھ فنی ثقافتوں کو بھی مد نظر رکھا ہے۔فیض کا فن تاریخی شعور کی مدد سے زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے۔ احمد ندیم قاسمی فیض کے فن کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

فیض زندگی کا نباض ہے اس کا فن کسی تاریخی شعور کی مدد سے زندگی کے ارتقائی رخ یعنی اس کے نامیہ رحجان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ بعض اوقات اس سے بھی آگے بڑ ھ جاتا ہے۔ زندگی اور انسان کا ارتقا اور ارتفاع ہی ہمیشہ اس کا مرکزی نظریہ رہا ہے۔ اس لیے وہ حسین اور سچے اور تنو مند احساسات کا شاعر ہے۔ فیض ان شاعروں میں سے نہیں جو خلا میں شاعری کرتے ہیں ۔جو اپنے ماحول سے کٹ کر مراقبہ کرتے ہیں۔ فیض نے آج کی دنیا کے جملہ سیاسی ،سماجی اور اقتصادی محرکات کے شورو شغب میں شعر کہے ہیں ۔اس لیے ان کا نغمہ ارضی بھی ہے اور رجائی بھی ۔(۵۷۹)

کلیم الدین احمد فیض کے فن شاعری کے بارے میں اپنے مضمون ’’فیض‘‘ میں یہ رائے رکھتے ہیں :

فیض میں دو چیزیں ہیں جو دوسرے ترقی پسند شاعروں میں نہیں ملتیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ فیض کو نظم کے فنی تقاضوں کا احساس ہے اور وہ ان فنی تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔دوسرے ترقی پسند شعرا کو نظم کے فنی تقاضوں کا احساس نہیں اور یہی کمی ان کی ناکامیابی کا سب سے بڑا سبب ہے اور دوسری چیز خود ضبطی ہے۔ وہ دوسرے باغی شاعروں کی طرح اپنے نعروں سے آسمان کو نہیں ہلاتے۔(۵۸۰)

فیض کی شعری زبان اور اسلوب کے حوالے سے ڈاکٹر محمد علی صدیقی یوں رقم طراز ہیں:

فیض روایتی شعری زبان سے رشتہ انحراف بنائے بغیر ایک بڑے فن کار کے روپ میں جلوہ گر ہوئے ۔ جب کہ جدید دور کے بڑے فن کا ر مروجہ ڈکشن کو مسترد کیے بغیر اپنی مخصوص طرزِ فغاں ایجاد نہ کر سکے۔ یہ فیض ہی ہیں جوا پنے چراغوں کو حافظ ؔ اور عرفیؔ کے چراغوں سے جلاتے اور مصحفیؔ کی لفظیات کی حسی فضا میں باقاعدہ طورپر سانس لیتے ہوئے سوداؔ اور غالبؔ کی جانب بڑھتے ہیں۔(۵۸۱)

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...