Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > مجید احمد تاثیرؔ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

مجید احمد تاثیرؔ
ARI Id

1688382102443_56116101

Access

Open/Free Access

Pages

173

مجید احمد تاثیرؔ (۱۹۱۲ء۔۱۹۸۶ء) کا اصل نام مجید احمد اورتاثیرؔ تخلص کرتے تھے۔ آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ میٹرک مادرِ علمی علامہ اقبال سے پاس کیا۔ ۱۹۳۳ء میں امر تسر کے ایم اے اوکالج کے طالب علم بھی رہے۔ جہاں ان دنوں ڈاکٹر رشید جہاں اور میاں ڈاکٹر محمود الظفر اُستاد تھے۔ مجید تاثیرؔ امر تسر کی ادبی محفلوں میں شعر و شاعری کرتے رہے۔ فیضؔسے ان کے پرانے تعلقات تھے۔طب کی تعلیم کے لیے تاثیر طبیہ کالج دہلی چلے گئے۔ اس زمانے میں نظم کی طرف توجہ ہوئی اور جوش ملیح آبادی سے دوستی ہوئی۔سیالکوٹ میں تاثیر نے بڑے بڑے مشاعرے کروائے۔ جن میں جوشؔ اور جگرؔ جیسے شاعروں کو مدعو کیا گیا۔(۵۸۴)

لاہور آکر تاثیر نے کچھ عرصہ ملازمت بھی کی۔ آپ نے انار کلی میں ہمدرد مطب قائم کیا۔ جو ش ملیح آبادی جب بھی لاہور آتے تھے ان کے ہمراہ جو چند اصحاب موجود رہتے تھے۔ ان میں تاثیر بھی تھے جوش صاحب مجید تاثیر کی رباعیات کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے۔(۵۸۵)

اُن کا شعری مجموعہ ’’رباعیات تاثیر‘‘ الوقار پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۰۰ء میں شائعکیا۔ یہ مجموعہ کلام رباعیات ،رومانی نظموں اور غزلیات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کے دو سو سات صفحات ہیں۔اس کتاب کے آغا ز میں ڈاکٹر وحید قریشی نے ’’پیشِ لفظ‘‘ احمد ندیم قاسمی نے تعارف’’مجید احمد تاثیر‘‘ ناہید سلمیٰ نے مضمون’’ تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے‘‘ ڈاکٹر سید عبداﷲ نے تعارف کتاب’’رباعیاتِ تاثیر ‘‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے تعارف’’رباعیاتِ تاثیر‘‘ اور جوش ملیح آبادی نے ’’تعارف مجید تاثیر ‘‘پیش کیا ہے۔ جوش نے تاثیرؔ کے تعارف کے ساتھ ایک رباعی بھی لکھی ہے۔ جو درج ذیل ہے:

چرخ شعر و ادب کے تارے تم ہو

 

;جوئے قند و شکر کے دھارے تم ہو

 

;رکھو مہ و مہر پر قدم اے تاثیر

 

7شبیر حسن خان کے دلارے تم ہو

(۵۸۶)

طبیہ کالج دہلی میں طالب علمی کے دور میں تاثیر کالج کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں سر گرمی سے حصہ لیتے تھے۔ یہ ان کی شاعری کا اہم دور ہے۔ روایتی غزل گوئی سے جوش اور اختر شیرانی کی پیروی تک کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہوا۔ ان کی نظم میں جوش کی قدرت زبان اور اختر شیرانی کی رومان پسندی دونوں کی جھلک نظر آتی ہے۔

تاثیرؔ صاف ستھری رباعی کہنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ رباعی کہنا بہت مشکل فن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رباعی کہنے کا شوق بھی کم ہو رہا رہے۔ مجید احمد تاثیرؔ اردو رباعی گو شعرا کی شاید آخری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔(۵۸۷)آپ اپنے دور کے ہر بڑے شاعر اور شاعری کی ہر تحریک سے متاثر تھے۔ مجید تاثیرؔ نے اپنے کلام میں اپنے دور کی نمایاں شعری روایات کو اپنانے کے ساتھ انھیں زندہ رکھا ہے۔ اور یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی تاثیرؔ کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں:

انھوں نے اپنے دور کی نظموں کی ہر ہیتٔ کو کامیابی سے برتا ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ جو شاعراتنی سہولت سے رباعی کہہ لیتا ہے وہ ہر نوع کے شعری اظہار پر قادر ہو جاتا ہے۔ تاثیر نے مثنوی اور وطن کے نغمے لکھے ہیں۔ تاثیر کی رباعیات اور نظمیں اردو شاعری کی تاریخ کاایک نا گزیر حصہ ہیں۔(۵۸۸)

مجید احمد تاثیر دیگر اصنافِ ادب کے ساتھ ساتھ رباعی جیسی مشکل صنفِ ادب پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ آپ کی رباعیاں فکر وفن کے لحاظ سے اردو ادب میں اپنا مقام و معیار رکھتی ہیں۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر عبادت بریلوی اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:

رباعی ایک مشکل صنف سخن ہے لیکن تاثیر صاحب کے مخصوص مزاج اور افتاد طبع نے اپنے لیے اس صنف کو آسان بنا لیا ہے۔ اور اس لیے ان کی رباعیاں نہ صرف بہ اعتبار مضامین و موضوعات بلکہ بہ اعتبار حسن و جمال اپنے اندر دلچسپی کا بڑا سامان رکھتی ہیں ۔فنی اعتبار سے تاثیر سیالکوٹی کی رباعیات میں ایک پختگی کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ فارسی کی شعری روایت اورشاعرانہ اسالیب سے پوری طرح آشنا ہیں۔(۵۸۹)

تاثیر سیالکوٹی کی رباعیات سے نظر آتا ہے۔ کہ وہ رباعی کے سب تقاضوں سے با خبر ہے۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ اردو رباعی کے اس دبستان کے قریب ہے۔ جسے اکبر وحالی کا دبستان کہنا چاہیے۔ اکبر کے یہاں حقائق زندگی ہیں۔ حالی کے یہاں عملی اخلاق و دانش زیست ہے۔ تاثیر سیالکوٹی کے یہاں دونوں رنگ موجود ہیں۔ تاثیر کا ایک اہم موضوع انسان اور اس کی تقدیر ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

نکلے بے نور چاند تاروں والے

 

3خالی دامن ملے بہاروں والے

 

منجدھار سے جب اُبھر کے دیکھا میں نے

 

9ڈوبے نظر آئے خود کناروں والے

 

تدبیر کو تھک کے بیٹھ جانا ہی پڑا

 

تقدیر کے در پہ سر جھکانا ہی پڑا

 

7آلام جہاں سے تھی طبیعت آزاد

 

آخر کو یہ تیر دل پہ کھانا ہی پڑا

(۵۹۰)

©انسان ،انسان سے محبت اور انسانی عظمت کا احساس تاثیر کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے:

ابنِ آدم کی کیا خطا ہے یا رب؟

 

9کس جرم کی زندگی سزا ہے یارب؟

 

;انسان کے زخم کا بھی مرہم کوئی

 

کہتے ہیں کہ ہر دکھ کی دوا ہے یارب

(۵۹۱)

 

بندے تری آشفتہ نوائی نہ رہے

 

7دردو غم رنج کی خدائی نہ رہے

 

کھل جائے اگر تجھ پہ حقیقت اپنی

 

پھر ہاتھ میں کاسہ گدائی نہ رہے

(۵۹۲)

 

ظالم کبھی مظلوم کی روداد سُنے

 

7انسان کی انساں پہ بیداد سنے

 

7اس شورش ہستی میں خدارا کوئی

 

5میرے لب خاموش کی فریاد سنے

 

;جب تک افق دھر پہ ہم زندہ رہیں

 

5مانند شعاع مہر تابندہ رہیں

 

مٹ جائیں مگر نام و نشاں ہو باقی

 

مر جائیں مگر زندہ و پائندہ رہیں

(۵۹۳)

÷مجید تاثیر انسانی جذبات کی اہمیت کا صحیح احساس و شعور رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں انسانی زندگی کے جذباتی پہلوؤں کے اسرار و رموز کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مجید تاثیر کے ہاں انسان کی عظمت کا احسا س لیکن اس عظمت کے باوجود زندگی میں اس کی محرومی کا خیال ،غم اور عرفانِ غم، تغیر ،فنا اور موت کا خیال ان کی رباعیوں کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کے ہاں فنا کے حوالے سے کثر ت سے رباعیات موجود ہیں۔رباعیات کی کثرت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تاثیر کو اس موضوع سے زیادہ دلچسپی ہے۔ فنا کے حوالے سے کچھ رباعیات ملاحظہ ہوں:

افسوس یہ طفلی ،یہ جوانی یا رب

 

5حاصل بھی ہوئی تو عمر یا رب

 

آتا ہے ذرا جو عقل خوابیدہ کو ہوش

 

7آ جاتی یہ مرگ ناگہانی یا رب

 

9جلووں سے ہزار رنگ دکھلاتی ہے

 

5اُمید کو سو لباس پہناتی ہے

 

3افسوس کہ ساری زندگانی آخر

 

;اِک خواب کی مانند گزر جاتی ہے

(۵۹۴)

 

مٹ کر رہ جائے گا یہ دفتر آخر

 

7ہو کا عالم ،فنا کا منظر آخر

 

اُٹھو کہ فراز آسماں کو چھو لیں

 

7جانا ہے زمین ہی کے اندر آخر

 

1ہر ذرہ صبح ہے دمکنے والا

 

3ہر سایہ شام ہے سرکنے والا

 

اب آخر شب ادھر بھی اے گردش جام!

 

3پیمانہ عمر ہے چھلکنے والا

(۵۹۵)

óمجید تاثیر کوئی صوفی شاعر تو نہیں تھے لیکن ان کے ہاں تصوف، معرفت اور مسلہ جبر و قدر کے حوالے سے بہت سی رباعیاں موجود ہیں:

خاموش فلک کے چاند تاروں میں ہے تو

 

اور زمزمہ ریز آبشاروں میں ہے تو

 

رنگینی جاں ہے تُجھ سے کہساروں میں

 

فردوس نگاہ لالہ زاروں میں ہے تو

 

;کچھ دیر سکوں پذیر ہو جا اے دل

 

اک عالم بے خودی میں کھو جا اے دل

 

میں ڈھونڈ رہا ہوں بزم انجم میں اُسے

 

;مت چھیڑ مجھے خموش ہو جا اے دل

 

باغوں کی ہوا بلا رہی ہے مجھ کو

 

7فطرت نغمے سنا رہی ہے مجھ کو

 

اے منہ سے نہ اک حرف بھی کہنے والے

 

3تیری آواز آ رہی ہے مجھ کو

(۵۹۶)

 

شایان عذاب ناز کہنے والو

 

3انساں کو گہنگار کہنے والو

 

7معقول دلیل بھی تو لاؤ کوئی

 

5اے جبر کو اختیار کہنے والو

(۵۹۷)

5اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کے دربار میں سر بسجود ہونا ہر مومن کی صفات میں شامل ہے۔ مجید تاثیر سچے اور کھرے مسلمان ہیں وہ اپنی شاعری میں خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اور انسانیت کے لیے اﷲ تعالی کے سامنے التجائیں اور دعائیں کرتے بھی نظر آتے ہیں:

دل اور دماغ کو منور کر دے

 

5خوشبوئے جمال سے معطر کر دے

 

7باغوں کونئی بہار دینے والے!

 

5ہر خار حیات کو گل تر کر دے

 

5مٹی کو فلک جناب کرنے والے!

 

9تلچھٹ کو شراب ناب کرنے والے!

 

اِک گوشہ بے کسی میں تاثیر بھی ہے

 

5اے ذرے کو آفتاب کرنے والے!

(۵۹۸)

مجید تاثیر رجائی شاعر ہیں۔ جدوجہد،بلند ہمتی ،بلند حوصلگی ،امید،جوش و ولولہ ،عزم و ہمت جیسے عناصر ان کی شاعری میں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں:

لیلیٰ کی ہے جستجو نہ محمل کی تلاش

 

کشتی کی ہے آرزو نہ ساحل کی تلاش

 

موجوں کا تلاطم ہو سفینہ جس کا

 

طوفان حوادث میں ہے اس دل کی تلاش

 

;بے باک شناور کہیں گھبراتے ہیں

 

;طوفان کی ہر موج سے ٹکراتے ہیں

 

7ہمت ہو بلند اور تمنا بے تاب

 

پھر ڈوبنے والے بھی اُبھر آتے ہیں

 

ہر موج مری طبع کی طوفاں بہ کنار

 

;ہر ذرہ مرے شوق کا خورشید وقار

 

;آتا ہی نہیں یہاں خزاں کا موسم

 

جاتی ہی نہیں مرے گلستاں سے بہار

(۵۹۹)

اگرچہ مجید تاثیر کی شاعری رجائیت سے بھری ہوئی ہے لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے وہ بھی دکھ اور غم کا سامنا کرتے ہیں اور پھر اس کو اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں ۔ مجید کے غم میں ہمیں سیاست نظر نہیں آتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے معاشی طو ر پر خوشحالی کی زندگی گزاری۔ دردو غم کے حوالے سے کچھ رباعیات ملاحظہ ہوں:

کیا لطف شراب زندگانی ساقی!

 

9ہر جام پہ ہے اشک فشانی ساقی!

 

اسباب ہیں جمع عیش و عشرت کے تمام

 

پھر بھی نہیں دل کو شادمانی ساقی!

 

5آلام سفر کی انتہا ہے یارو!

 

;دیکھا ہے جسے آبلہ پا ہے یارو!

 

;صحرا میں کوئی سایہ دیوار کہاں

 

5چلتے رہنا ہی مدعا ہے یارو!

(۶۰۰)

%مجید تاثیر اعلیٰ فکر و سوچ کے مالک انسان تھے۔ ان کی شاعری میں زندگی اورا س کے حقائق کے حوالے سے اشعار ان کے فکر و فلسفہ کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں:

ٹوٹے گا طلسم شیشہ باز ہستی

 

ہستی بھی نہ کر سکے گی ناز ہستی

 

7وہ وقت بھی ہے ضرور آنے والا

 

گونجے کی صدا’’کھل گیا راز ہستی‘‘

 

9ہو گا کوئی جو شادماں جاتا ہے

 

9ہر فرد بشر نوحہ کناں جاتا ہے

 

9آتا ہے کہاں سے غول نسلِ آدم؟

 

اے موت! یہ کارواں کہاں جاتا ہے؟

 

جو زندہ حقیقت تھے گماں ہیں وہ لوگ

 

بھولی بسری سی داستان ہیں وہ لوگ

 

جا کر نہیں جب وہاں سے آتا کوئی

 

پھر کون بتا سکے ،کہاں ہیں وہ لوگ

(۶۰۱)

ãمجید احمد تاثیر باقاعدہ طور پر کوئی قومی شاعر تو نہیں لیکن ان کی شاعری میں قومی و ملی عناصر موجود ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں اپنی مسلمان قوم کو بیداری ،حرکت و عمل اور احساس کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔تاثیر کے ہاں سماجی اور تاریخی شعور بھی موجود ہے:

جاگو کہ وہی خواب گراں ہے اب تک

 

گل چیں پہ گمان باغباں ہے اب تک

9زد پر بجلی کی آشیاں ہے اب تک

 

بچ سکتے ہو، اب بھی وقت کھونے والا!

غفلت کے بھنورمیں غرق ہونے والو!

 

اُٹھو اُٹھو بھڑک اُٹھے ہیں شعلے

;جاگو جاگو مکاں میں سونے والو!

 

بے اصل و حقیقت ہے نہ جانے کیا کیا

گزرے جو نہیں وہ ہیں زمانے کیا کیا

 

تاریخ کے اوراق میں کس کو معلوم

انساں نے تراشے ہیں فسانے کیا کیا (۶۰۲)

مجید تاثیرؔ روایتی شاعر نہیں ہیں لیکن وہ روایت سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ بھی نہیں کرتے۔ وہ روایتی ادب کا شعور رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں جدید شاعری کے ساتھ ساتھ روایتی شاعری کے موضوعات کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ حسن و عشق روایتی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ تاثیر کے ہاں بھی حسن و عشق کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں:

تیرے رُخ روشن کی ضیا ہو جاؤں

 

9تیرے لب نازک کی صدا ہو جاؤں

 

تیری ہے تلاش مجھ کو اے قلزم حسن!

 

جی چاہتا ہے تجھ میں فنا ہو جاؤں

 

ہاں بات سمجھ میں بھی تو آئے کوئی

 

7چہرے سے نقاب تو اٹھائے کوئی

 

7موہوم پہ جان کس طرح ہو صدقے

 

9نادیدہ سے کیسے دل لگائے کوئی

(۶۰۳)

±قناعت ،صبر و شکر اور برداشت جیسی صفات انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تاثیر کے ہاں بھی یہ صفات نظر آتی ہیں۔وہ صابر و شاکر انسان ہیں۔ وہ دولت کی حوس نہیں رکھتے بلکہ خدا نے جو عطا کر دیا اسی پر قناعت کرتے ہیں:

ہاں جہد حیات اصل ہستی ہے یہی

 

9بے رنج خمار مے پرستی ہے یہی

 

7دولت کی تلاش کر نہ اے غافل!

 

دولت کی ہوس کہ تنگ دستی ہے یہی

 

اندیشہ بیش و کم نہیں ہے مجھ کو

 

صد شکر کوئی الم نہیں ہے مجھ کو

 

9اتنا ہوں رہیں لطف نظارہ دوست

 

اب فرصت رنج و غم نہیں ہے مجھ کو

(۶۰۴)

}مجید تاثیر کی غزلیات میں روایتی موضوعات فراق ،عشق و جنوں ،سراپا نگاری ،محبوب کا ظلم و ستم ،یادِ محبوب، یاسیت اور بد قسمتی کے عناصر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ترا کرم تو نسیم بہار ہے لیکن

 

مرا نصیب وہ صحرا کہ گلستاں نہ ہوا

 

;رہی ہے تیرہ تاریک زندگی تاثیر

 

جمالِ یار چراغ حریم جاں نہ ہوا

 

7نسیم گل کدہ یاد یاد گزری ہے

 

دلوں کا چھین کے صبرو قرار گزری ہے

 

جفائے یار ترے بعد ہم جئے تو ضرور

 

تمام عمر مگر تجھ سے شرمسار رہے

(۶۰۵)

پھولوں جیسی تیری رنگ بوٹے جیسا تیرا قد

 

[یاد میں تیری بیٹھے ہیں باغ میں گویا پھرتے ہیں

 

کن حسرتوں کا خون رواں میرے تن میں ہے؟

 

اک آگ سی لگی ہوئی سارے بدن میں ہے

 

;قابل دید ہے نظارہ بے تابی عشق

 

آپ دیکھیں تو سہی آ کے لبِ بام مجھے

(۶۰۶)

مجید احمد تاثیر کی شاعری میں رومانیت کے عناصر بھی جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں انھوں نے اپنے شعری مجموعے میں ایک حصہ رومانی نظموں کے لیے مختص کیا ہے۔ ان نظموں میں فطرت سے محبت بھی ہے اور ماضی کے گزرے ہوئے لمحات کی یادیں بھی ہیں۔یہ یادیں شاعر کے دل و دماغ کو تروتازہ کر دیتی ہیں۔ ان رومانی نظموں میں مقامیت کے عناصر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔شاعر نے اپنے گاؤں کی زندگی کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے۔

بہار آگئی،عزم سفر ،الوداع، بدلتی رت ،نغمہ نشاط، زمانہ پھولوں کا ،میری شادی قریب ہے۔ ایک ہی رات ،دو گل دستے ،پیغام بہار، نیا دوست ،یادِ ایام،ساون کی رُت، وطن کے دوستوں کی یاد،ظفر وال،فصلِ بہار،کہسار کی شام،موسمِ گل،چوپاٹی کی شام،سلیمی اورجمال اور عقیدت کے پھول مجید تاثیر کی خوبصورت رومانی نظمیں ہیں جو ان کے شعری مجموعے رباعیاتِ تاثیر سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

۵۸۴۔ڈاکٹر وحید قریشی(پیش لفظ) باقیاتِ تاـثیر‘‘،از مجید احمد تایر،لاہور،الوقار پبلی کیشنز ۲۰۰۰ء ،ص :۶،۷

۵۸۵۔احمد ندیم قاسمی ،’’مجید احمد تاثیر‘‘،مشمولہ ’’رباعیات تاثیر‘‘،ص: ۲۶

۵۸۶۔جوش ملیح آبادی، ’’ایک رباعی‘‘، مشمولہ ’’رباعیات تاثیر‘‘، ص: ۹

۵۸۷۔احمد ندیم قاسمی،’’مجید احمد تاثیر‘‘،ص :۹۰

۵۸۸۔احمدندیم قاسمی،’’مجید احمد تاثیر‘‘،ص: ۱۰

۵۸۹۔ڈاکٹر عبادت بریلوی ،’’رباعیات تاثیر سیالکوٹی‘‘،مشمولہ’’ رباعیاتِ تاـثیر‘‘،ص: ۳۰،۳۱

۵۹۰۔مجید احمد تاثیر،’’رباعیات تاـثیر‘‘ ،لاہور،الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء،ص :۴۸،۴۹

۵۹۱۔ایضاً،ص :۴۵

۵۹۲۔ایضاً،ص :۵۶

۵۹۳۔ایضاً،ص :۶۷

۵۹۴۔ایضاً،ص :۴۰

۵۹۵۔ایضاً،ص :۴۴

۵۹۶۔ایضاً،ص :۳۴،۳۵

۵۹۷۔ایضاً،ص :۴۷

۵۹۸۔ایضاً،ص :۳۳،۳۴

۵۹۹۔ایضاً،ص :۶۱

۶۰۰۔ایضاً،ص :۴۲

۶۰۱۔ایضاً،ص :۴۲

۶۰۲۔ایضاً،ص :۴۸

۶۰۳۔ایضاً،ص :۵۷

۶۰۴۔ایضاً،ص :۶۲

۶۰۵۔ایضاً،ص :۹۷،۹۸

۶۰۶۔ایضاً،ص :۱۰۴،۱۰۵

۶۰۷۔زاہدہ پروین رضوی،’’طفیل ہوشیار پوری‘‘مقالہ برائے ایم ۔اے اردو ،لاہور، پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۸۸ء،ص: ۸

۶۰۸۔ایضاً،ص :۱۰

۶۰۹۔ایضاً،ص :۱۲

۶۱۰۔       ایضاً،ص :۲۰

۶۱۱۔        طفیل ہوشیار پوری،’’شعلہ جام پر ایک نظر‘‘،مشمولہ’’شعلہ جام‘‘ از طفیل ہوشیار پوری ،لاہور،احسان اکیڈمی،۱۹۷۸ء،ص و

۶۱۲۔ایضاً،ص :۷۲

۶۱۳۔ ڈاکٹر سید عبداﷲ، '' شعلہ جام پر ایک نظر '' مشمولہ '' شعلہ جام'' از طفیل ہوشیارپوری، لاہور، احسان اکیڈمی،۱۹۷۸ء، ص: و

۶۱۴۔طفیل ہوشیار پوری ،’’شعلہ جام‘‘،ص ۳۵

۶۱۵۔ایضاً،ص :۴۱،۴۲

۶۱۶۔ایضاً،ص :۵۱

۶۱۷۔ایضاً،ص :۵۳،۵۴

۶۱۸۔ایضاً،ص :۷۲،۷۳

۶۱۹۔        ایضاً،ص :۲۸،۲۹

۶۲۰۔ایضاً،ص :۸۲،۸۳،۸۴

۶۲۱۔       ایضاً،ص :۸۹،۹۰

۶۲۲۔ایضاً،ص :۹۳،۹۴

۶۲۳۔ایضاً،ص :۵۲

۶۲۴۔ایضاً،ص :۶۰،۶۱

۶۲۵۔ایضاً،ص :۶۴،۶۵

۶۲۶۔ایضاً،ص :۱۹۱

۶۲۷۔ایضاً،ص :۱۵۶،۱۵۷

۶۲۸۔ایضاً،ص :۲۰۱،۲۰۲

۶۲۹۔ایضاً،ص :۲۱۲

۶۳۰۔ایضاً،ص :۱۹۴،۱۹۵

۶۳۱۔ایضاً،ص :۴۰،۴۱

۶۳۲۔ایضاً،ص:۱۵۴

۶۳۳۔ایضاً،ص :۱۳۱،۱۳۲

۶۳۴۔ایضاً،ص :۸۹

۶۳۵۔ایضاً،ص :۱۹۶،۱۹۷

۶۳۶۔ایضاً،ص :۱۸۵

۶۳۷۔ایضاً،ص :۱۰۸،۱۰۹

۶۳۸۔ایضاً،ص :۶۶،۶۷

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...