Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > طفیل ہوشیار پوری

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

طفیل ہوشیار پوری
ARI Id

1688382102443_56116102

Access

Open/Free Access

Pages

179

طفیل ہوشیار پوری(۱۹۱۴ء۔۱۹۹۳ء) کا اصل نام محمد طفیل اور شہرت طفیل ہوشیار پوری کے نام سے ہوئی۔ طفیل ضلع ہوشیارپورکی تحصیل گڑھ شنکر کے ایک گاؤں بینے والی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں ہوشیار پور سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔یہاں انھوں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر منیمی(حساب کتاب) سکول قائم کیا۔ اس سکول میں سیالکوٹ کے ممتاز تاجر ان کے شاگرد رہے ہیں۔(۶۰۷)

۱۹۴۳ء میں طفیل آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۵۴ء میں ان کا ناطہ فلمی دنیا سے جڑ گیا ۔ اور آپ فلموں کے لیے گیت لکھنے لگے۔یہ گیت اردو اور پنجابی زبان میں ہیں۔۱۹۵۴ء میں ہی انھوں نے لاہور سے ایک ادبی اور علمی رسالے کا اجرا کیا جس کا نام ’’محفل‘‘ تھا۔ آپ ہفت روزہ رسالہ ’’صاف گو‘‘ کے مدیر اعلیٰ بھی رہے ہیں۔(۶۰۸)

حُب وطن پر مشتمل نظموں اور جنگی ترانوں پر مشتمل ’’میرے محبوب وطن‘‘ طفیل کا پہلا شعری مجموعہ کلام ہے۔ جوجنوری ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔مولانا ابو الا علیٰ مودودی نے حرفِ اول لکھا۔ جسٹس ایس۔اے رحمان نے ’’پیشِ لفظ‘‘ سید عابد علی عابد نے ’’دیباچہ‘‘ اور سید نذیرنیازی نے ’’مقدمہ ‘‘ اور طفیل نے’’میں خود کہوں تو‘‘ کے عنوان سے اپنی قومی نظموں کا پس منظر بیان کیا ہے۔ جامِ مہتاب طفیل کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ جو رباعیات و قطعات پر مشتمل ہے ۔یہ مجموعہ ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ حرفِ آغاز جسٹس ایس ۔اے رحمان نے لکھا۔’’تعارف و تقریظ‘‘ مولانا حامد علی خان نے لکھا۔ عرضِ حال کے عنوان سے طفیل نے اس کتاب میں اپنی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداﷲ نے ’’شعلہ جام پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے مضمون قلم بند کیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مقدمہ لکھا ہے۔ جب کہ شاعر لکھنوی نے ’’شعلہ جام سے طفیل ہوشیار پوری تک‘‘ کے عنوان سے طفیل کی غزلوں کا جائزہ لیا ہے۔ چوتھا شعری مجموعہ ’’تجدید شکوہ‘‘ اپریل ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا۔ اس کا دیباچہ جسٹس جاوید اقبال نے لکھا۔ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی نے تجدید شکوہ ……ایک نظر حکیم محمد بنی خان سویدا نے ’’تعارف‘‘ پروفیسر میر زا محمد منور نے ’’تقدیم‘‘ اور طفیل نے عرضِ مصنف تحریر کیا ہے۔ پانچواں شعری مجموعہ ’’سلام ورثا‘‘ ہے جس میں طفیل نے اہل بیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اس کا دیباچہ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے لکھا ہے۔ چھٹا شعری مجموعہ ’’سوچ مالا‘‘ ہندی غزلوں اور دوہوں پر مشتمل ہے۔ یہ ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں احمد ندیم قاسمی نے طفیل کی ہندی شاعری کا تعارف کرایا ہے۔ اس کا ایک صفحہ اُردو رسم الخط میں ہے اور سامنے کا صفحہ گورمکھی رسم الخط میں درج ہے۔ ساتواں شعری مجموعہ ’’رحمتِ یزداں‘‘ کے نام سے ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔ یہ نعتیہ اور حمدیہ کلام پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے اس کا مقدمہ اور احمد ندیم قاسمی نے’’ طفیل کی نعت نگاری‘‘ کے عنوان سے ان کی نعت پر رائے کا اظہار کیا ہے۔

اصناف سخن میں غزل طفیل ہوشیار پوری کے لیے محبوب کا درجہ رکھتی ہے۔ اگرچہ آپ نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن کوچہ غزل کا طواف ایک مدت تک کرتے رہے۔ انھوں نے غزل کے مزاج ،رنگ و آہنگ اور ہیت و انداز کو ایک ایسے پرستار کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ جس کی وفاداری شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اور یہ ان کی وفاداری ہی کا صلہ ہے کہ غزل نے انھیں عزت و شہرت کے بہت سے مرحلوں سے گزار کرنا مور شعرا کی صف تک پہنچا دیا ہے۔ طفیل عمر کے ابتدائی حصے میں ہی تھے جب ان کو شعر و شاعری سے شغف تھا۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے جب یہ شعر کہا :

ناز سے مسکرا گیا کوئی

 

/دل کی دنیا بسا گیا کوئی

(۶۰۹)

ابتدا میں طفیل نے شاعری میں کسی استاد فن سے اصلاح نہیں لی لیکن سیالکوٹ آمد کے بعد امین ِ حزیں سیالکوٹی اور مولانا توحید کے سامنے زانو ئے تلمذ تہہ کیے ۔ اس کے علاوہ مولانا تاجور نجیب آبادی نے بھی ان کو شاعری میں گرانقدر مشورے دئیے۔(۶۱۰) طفیل ہوشیار پوری ایک روایت پسند شاعر ہیں۔ انھوں نے پرانی روایات کو پسند کیا اور سراہا ۔ طفیل نے کلاسیکی شعرا سے اثر قبول کیا۔ لیکن ان تمام اثرات کے باوجود انھوں نے غزل میں اپنے لیے ایک الگ راستہ بنایا ۔ اور وہ ذاتی رنگ ان کی غزل کی پہچان بن گیا ہے۔ طفیل غزل میں سیدھا سادا اسلوب اظہار اختیار کرتے ہیں جو اپنی اثر انگیزی کی بنا پر سننے اور پڑھنے والوں کے ذوق و معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان کا شعور ان کے داخلی و خارجی مشاہدات کو ان کی ذات کے حوالہ سے اظہار کے صاف ستھر ے اور رواں دواں سانچے فراہم کرتا ہے۔ اورا ن سانچوں کو وہ فن کی آنچ میں شائستہ کرکے سخن کر لیتے ہیں۔ غزل کے لیے جس ہوش و ہنر کی ضرورت ہے۔اس کا انداز ان کے اس شعر سے لگا سکتے ہیں:

نگہ شوق میں کونین سمٹ آتے ہیں

 

دونوں عالم کی خبر ہو تو غزل ہوتی ہے

(۶۱۱)

ان کی باخبری کا سراغ ہمیں ان کے اس شعر سے بھی ملتا ہے:

میرے ذوقِ نظر کی وسعتوں کے

 

9مکاں سے لا مکاں تک سلسلے ہیں

(۶۱۲)

óطفیل نے اپنی شاعری میں متعدد اساتذہ ادب کا اـثر قبول کیا ہے۔ ان کی عمر کا خاصا حصہ اثر لکھنوی ،اثر صہبائی،امینِ حزیں سیالکوٹی ،مولانا اصلاح الدین احمد،جگر مراد آبادی ،حفیظ ہوشیار پوری ،احسان دانش ،ہری چند اختر،کنور مہندرسنگھ بیدی سحر،تلوک چند محروم،جوش ملیسانی اور صوفی تبسم کی صحبتوں میں گزرا۔ انہی بزرگوں کے فیض محبت کا یہ اثر ہے کہ طفیل کی شاعری میں پختگی کا احسا س ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سید عبداﷲ طفیل کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:

طفیل روایت کی پختہ مسلمات کا احترام کرتے ہوئے اپنے تجربات قلبی کو اپنے مزاج محبت سے آشنا میں ڈھال کر ایک ایسی غزل ہمیں عطا کرتا ہے جو کسی او رجگہ دستیاب نہیں ۔ترکیبیں شیریں مانوس دل پسند ودلآویز ،پیرایہ بے تکلف اور بے ساختہ ہے۔ زبان اجلی اور پاکیزہ ،بیان خلوص میں ڈھالا ہوا ۔غرض تعزل کی ہر ادا اس میں موجود ہے۔ جو ہر غزل آشنا کو مطئمن کر سکتی ہے۔(۶۱۳)

طفیل کی شاعری میں موضوعات اور فن کے اعتبار سے وہ سب کچھ موجود ہے۔ جو اچھی شاعری میں ہونا چاہیے۔طفیل نے روایا ت کو مد نظر رکھتے ہوئے حسن و عشق کے معاملات کا اظہار بڑے خوبصورت اور پاکیزہ انداز میں کیا ہے۔ ان کے ہاں حسن سے زیادہ عرفانِ حُسن ملتا ہے۔ ان کے ہاں عشق کا چھچھورا انداز نہیں ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں:

رقص جذبات کی لے شعلہ آواز کا رنگ

 

اب تک آنکھوں میں ہے اس جلوہ گہ ناز کا رنگ

 

تیرے عارض پہ جھلکتا ہے حیا کی صورت

 

میرے احساس ،تری شوخیٔ انداز کا رنگ

(۶۱۴)

اﷲ رے تیرے حسن فسوں ساز کے جلوے

 

پیغام گناہ دے کے بھی معصوم رہے ہیں

 

عشق پابند وفا ہو یہ ضروری ہے مگر

 

;حسن مجبور ہو یہ ضروری تو نہیں

(۶۱۵)

تخاطب کا ایک خوبصورت انداز ملاحظہ فرمائیے:

چاندنی جب ترے آنگن میں اُترتی ہو گی

 

تجھ سے اے دوست میرا ذکر تو کرتی ہو گی

(۶۱۶)

طفیل کا محبوب تاثیرا نسانی اور نسوانی حسن کا حامل ہے:

ایک تیرے پر تو رخسار سے اے زہرہ جمال

 

ان گنت ذرے ستاروں میں بدل جاتے ہیں

 

رنگِ عارض نہ نگہتِ گیسو نہ ملی

 

لالہ و گل میں کہیں بھی تری خوشبو نہ ملی

(۶۱۷)

!طفیل کے ہاں عشقِ مجازی سے حقیقی کی طرف بڑھنے کا رویہ نمایاں نظر آتا ہے۔ محبوب حقیقی سے لو لگانے کے بعد ان کو تمام دنیا کی محبتیں ھیچ نظر آتی ہیں:

نگاہیں ہوں تو پھر قید مکاں و لا مکاں کیسی

 

بصیرت ہو تو پھر جلوے بھی آسانی سے ملتے ہیں

 

بندہ نواز تجھ کو سمجھ کر طفیل آج

 

شعروں میں اپنا حال فقیرانہ کہہ گیا

(۶۱۸)

/طفیل کی شاعری بنیادی طورپر جذبے اور احسا س کی شاعری ہے۔ لیکن کہیں کہیں وہ ایسے تجربات بھی پیش کرتے ہیں ۔ جن کو حواس کی شاعری کے تحت شمار کیا جاسکتا ہے:

تیرے لب اور ترے عارض کی لو سے

 

3فلک کی چاندنی شرما رہی ہے

 

پھر سماعت میں کھلے پھول ترے نغموں کے

 

پھر ترا شعلۂ آواز بہت یاد آیا

(۶۱۹)

مختلف شعرا کے زندگی کے بارے میں نظریات ان کے کلام میں منفرد انداز میں ملتے ہیں۔ طفیل کے ہاں بھی زندگی کے حوالے سے ان کا نظریہ ان کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے:

غم کی سیاہیاں نہ مٹیں ہم سے عمر بھر

 

دامان زندگی میں ستارے پرؤے ہیں

 

1زندگی سے بڑی امیدیں تھیں

 

/زندگی نے مگر نباہ نہ کی

 

/زندگی نغمہ ہی نہیں ہوتی

 

5رقصِ برق و شرر بھی ہوتی ہے

(۶۲۰)

طفیل کی شاعری میں سب سے بڑا اور پھیلا ہوا موضوع غم و حوادث ہے ۔انھوں نے اپنی شاعری میں اور خاص طورپر غزلوں میں اپنے ذاتی آلام کو دل کھول کر بیان کیا ہے۔ طفیل نے بہت سے حادثے دیکھے اور ان کا شدید احساس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ طفیل کا غم ذاتی سطح کا بھی ہے اور اجتماعی سطح کا بھی۔ ان کا شعر ی مجموعہ’’شعلہ جام‘‘ سوزو گداز سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی اداسی ایک ایسے انسان کی اداسی ہے۔ جو زندگی کی مثبت قدروں کا قائل ہے۔ اور جس کے پاس اس کے کچھ معیارات بھی موجود ہیں:

ہر راہ پُر خطر سے سبک پاگزر گئے

 

کام آئیں اپنی بے سرو سامانیاں بہت

 

میرے ہی غم کدے میں اجالا نہ ہو سکا

 

دیکھی ہیں مہرو ماہ کی تابانیاں بہت

(۶۲۱)

یادوں اور ماضی کے حوالے سے طفیل کے ہاں آنسوؤں اور اشکوں کا بہت ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ماضی کو دل کھول کر یاد کیا ہے۔ ماضی کے لمحات کے ساتھ ساتھ کھوئے ہوئے حسین چہروں کو یاد کر کے آنسو بھی بہت بہائے ہیں۔طفیل کے تمام شعری مجموعوں میں یادِ رفتگاں کے حوالے سے اشعار موجود ہیں:

وہ اشک جو پلکوں سے شناسا نہ ہوئے تھے

 

رگ رگ میں شراروں کی طرح گھوم رہے ہیں

 

7غم عشق کے ترجمان بن گئے ہیں

 

;میرے اشک میری زبان بن گئے ہیں

(۶۲۲)

Åمعاشرے میں موجود طبقاتی فرق طفیل کی نگاہ میں بہت کھٹکتا ہے اور اس پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے:

سُنا ہے تو بھی مسیحائے غیر حاضر ہے

 

9مگر علاج غم روزگار ہو تو سہی

(۶۲۳)

¹معاشرتی اور معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل کو بھی طفیل نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔:

مقفل میکدے پیر مغاں معزول ،گم ساقی

 

مگر ہم ہیں کہ اس عالم میں بھی سرشار بیٹھے

 

7طور ہی پر نہیں ہے کچھ موقوف

 

1گفتگو دار پر بھی ہوتی ہے

(۶۲۴)

£طفیل نے محض تخیلاتی باتیں نہیں کی ہیں بلکہ حقیقت نگاری کی ہے۔ زندگی کی سچائیوں کو شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ان کی شاعری میں بلند حوصلگی اور نصیحت آموز باتیں بھی ہیں۔جس میں وہ ایک پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں:

اکثر اوقات سلگتے ہوئے ماضی کے نقوش

 

خواب بنتے ہیں خیالات میں ڈھل جاتے ہیں

 

رکاوٹیں ہی تو منزل کا پیش خیمہ ہیں

 

یہ پیچ و خم بھی ضروری ہے رہگزر کے لیے

(۶۲۵)

طفیل نے حمدو نعت،گیت اور دوہا، سلام و مراثی کے علاوہ طنزیہ شاعری میں بھی اپنے جوہر دکھائے تاہم وہ بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں ۔طفیل کی شاعری میں اعلیٰ درجے کاتغزل ملتا ہے۔ سادہ سی بات کو غزل کے لب و لہجہ میں اظہار کی توانائی اور اثر انگیزی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔طفیل کی غزلوں کے علاوہ ان کی نظموں میں بھیتغزل کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔طفیل کی غزلوں میں موجودتغز ل ہی کے باعث ان کے اشعار دل کی گہرائیوں تک اتر جاتے ہیں:

اب تو آ جاؤ کہ رسوا ہو نہ جائے ظرف دل

 

ضبط غم کے مرحلے آہ و فغاں تک آ گئے

(۶۲۶)

طے کر رہا ہوں دشتِ محبت کی منزلیں

 

غم کے بغیر کوئی شریکِ سفر نہیں

 

وقت کی گہرائیوں میں ڈوب کر اُبھرا ہے کون

 

اب کے بچھڑے ہم ملیں گے پھر خدا جانے کہاں

(۶۲۷)

طفیل کی شاعری میں موجودہ دور کی مادہ پرستی پر گہری طنز ملتی ہے۔ نت نئے سائنسی اکتشافات نے انسان سے انسان کا رشتہ کمزور کر دیا ہے۔مادی ترقی نے روحانی تقاضوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ روحانی تقاضوں کو نظر انداز کر کے کی جانے والی ترقی کو کسی صورت ترقی قرا ر نہیں دیا جا سکتا۔ طفیل نے اس نام نہاد ترقی پر کھل کر اظہار خیال کیاہے:

ابھی تو خاک کے پردے التفات طلب

 

;ابھی ارادہ تسخیر کائنات نہ کر

 

ذروں کے جگر چیر دئیے فکر و نظر نے

 

مستور ہے وہ جلوہ گہ ناز ابھی تک

(۶۲۸)

óطفیل کی شاعری اس امر کی مظہر ہے کہ عہد شباب میں وہ کسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے تھے۔ محبت میں ناکامی نے ان کی شاعری میں سوزو گداز پیدا کر دیا تھا۔ طفیل کی شاعری میں محبت کی نفسیات کا جو گہرا شعور ملتا ہے۔ وہ محبت کے تجربے سے گزرے بغیر ممکن نہیں:

یہ بات ایک راز ہے عہد شباب کا

 

کیوں دل نے میری بات نہ مانی نہ پوچھئے

 

دنیا نے کر دیا ہے مری حسرتوں کا خوں

 

مجھ سے طفیلؔ میری کہانی نہ پوچھئے

(۶۲۹)

ہم کو رسوائی کے الزام سے کیا خوب طفیلؔ

 

عشق میں کس کو نام و نسب ہوتا ہے

 

اک زمانہ ہو گیا ترک تعلق کو طفیلؔ

 

ان کی یادوں سے تعلق دل کا اب بھی کم نہیں

(۶۳۰)

۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا۔ تو خیال تھا کہ آزادی کے ثمرات سے ہر شخص یکساں طور پر بہرہ ور ہوگا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور آج آزادی کی نصف صدی گزر جانے کے باوجود طفیل کے یہ شعرا پنی تما م تر صداقت کے ساتھ ذہن و فکر پر تازیانہ بن کر برستے ہیں:

طلوع صبح مسرت کو مدتیں گزریں

 

تجلیوں کو مگر بام و در ترستے ہیں

 

7مسافر تھک گئے ہیں چلتے چلتے

 

/مسافت کا کہیں انجام آئے

(۶۳۱)

پھولوں کے طلب گار تھے ہم موسم گل میں

 

شعلے سے ہر اک شاخ پہ لہرائے ہوئے ہیں

(۶۳۲)

طفیل ایک محب وطن انسان تھے۔ انھوں نے سقوطِ ڈھاکہ پر جہاں اپنی نظموں میں آنسو بہائے۔ وہاں نعتوں میں بھی نبی رحمتؐ کے حضور’’دیارِ پاک سے بنگال ہو چکا ہے جدا‘‘ ایسے مصرعے کہہ کر سیاست دانوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا ہے۔ غزل میں چونکہ ایسے مضامین کو بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے طفیل نے استعارے کے پردے میں اس سانحہ کے ذمہ دار سیاست دانوں کے غلط طرز عمل پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے:

جو نا خداؤں کی فکر و نظر سے ڈوبے ہیں

 

کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں ان سفینوں کو

 

7نا خداؤں کا کرم کہیے طفیلؔ

 

9رہ گئی طوفاں میں کشتی ڈول کر

(۶۳۳)

 

ڈوبتی کشتی کو ساحل پر لگاتے کس طرح

 

نا خداؤں میں تلاطم آشنا کوئی نہ تھا

(۶۳۴)

طفیل نے اپنی شاعری کے ذریعے عالی حوصلگی اور بلند ہمتی کا درس دیا ہے۔ وہ کار زار حیات میں مشکلات کے مقابل حوصلہ نہ ہارنے اور عزم فولادی سے مسلح ہونے کا پیغام دیتے ہیں:

جس شخص کو کانٹوں سے اُلجھنا نہیں آتا

 

حاصل اسے پھولوں کی قبا ہو نہیں سکتی

 

بلند جن کے عزائم ہوں حوصلے بے باک

 

وہی تو وقت کے دھارے کا رخ بدلتے ہیں

(۶۳۵)

Óطفیل نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے قارئین کو کچھ پند و نصائح بھی کیے ہیں۔ ان نصیحتوں کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

راز رکھنا ہے تجھ کو راز اگر

 

3راز داروں کا اعتبار نہ کر

 

/نکہت حسن کا فریب نہ کھا

 

3ان نظاروں کا اعتبار نہ کر

(۶۳۶)

Çطفیل کی شاعری میں انقلابی آہنگ موجود ہے۔ اس انقلابی آہنگ پر اقبال کے حرکی افکار کی چھاپ نظر آتی ہے:

تابہ کے جام و سبو کی یہ روایات کہن

 

میکدے میں انقلاب اے پیر میخانہ کوئی

 

ہاں مہر لگا سکتے ہو تم میرے لبوں پر

 

زنجیر خیالات کو پہنا نہیں سکتے

(۶۳۷)

طفیل کی شاعری میں تصوف کے مضامین کا بیان بھی بکثرت ملتا ہے:

اب نہیں دل میں تمنا کا نشاں تک باقی

 

آئینہ عکس رخِ یار تک آ پہنچا ہے

 

دل کے آئینے میں آئے تو نظر آئے طفیلؔ

 

وہ ہے بے مثل بھلا کیسے مثالوں میں ملے

(۶۳۸)

¿طفیل ایک محب وطن شاعر تھے۔ وطن سے محبت کا جذبہ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ ملک و ملت کے سچے ہمدرد اور بہی خواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز پر کوئی مصیبت آتی یا ملت اسلامیہ پر کوئی آفت ٹوٹتی تو وہ تڑپ اٹھتے ۔ انھوں نے اپنے پیارے وطن کے لہلہاتے کھیتوں ،گیت گاتے آبشاروں ،فلک بوس پہاڑوں ،گل رنگ وادیوں اور حسین لالہ زاروں کے نغمے گائے ہیں۔ جن نظموں میں انھوں نے مادرِ وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان میں ان کی رومان پسندی اور حسن پرستی صاف جھلکتی ہے۔ جب وہ وطن کے حسن و دلکشی کی تعریف کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی محبوبہ کے حسن کے جلووں کے سحر میں گرفتا ر ہو کر اس کی تعریف کر رہے ہوں۔

سید عابد علی عابد ان کی نظموں کی پیکرتراشی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یوں معلوم ہوتا ہے جیسے شاعر نے اپنے وطن کو محبوب نہیں بلکہ محبوبہ بنا دیا ہے۔(۶۳۹)

رومانوی رنگ میں ڈوبے ہوئے طفیل کے اشعار دیکھیے جن میں وطن کو ایک محبوبہ دل نواز کی صورت میں پیش کیا گیا ہے:

اے نگارِ وطن اے نگارِ وطن

 

5روز روشن ترے حسن کا بانکپن

;شام تیرے حسیں گیسوؤں کا پھبن

 

3صبح تیرے تبسم کی پہلی کرن

1اے نگار وطن اے نگارِ وطن

 

تیری آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائیاں

7عکس قوس قزح تیری انگڑائیاں

 

;موجزن تیرے سانسوں میں مشک ختن

3اے نگارِ وطن اے نگارِ وطن

 

9مر مریں جسم ،پوشاک دھانی تری

1ہے فروغ گلستاں جوانی تری

 

1اﷲ اﷲ تری نکہت پیرہن

اے نگارِ وطن اے نگارِ وطن (۶۴۰)

طفیل نے اپنی آنکھوں کے سامنے وطنِ عزیز پاکستان کو بنتے دیکھا۔ وہ ان قربانیوں سے واقف تھے جو حصول آزادی کے لیے مسلمانوں کو دینا پڑی۔ ان کو سینے میں اس سرزمیں سے محبت کا لا فانی جذبہ موجزن تھا۔ وہ تعمیر پاکستان کے لیے غیروں کا دست نگر بننے کے بجائے اپنے زور باطن پر بھروسہ کرنے کا عہد کرتے ہیں:

غیروں کے سہارے ہمیں جینا نہیں آتا

 

;ہم اپنے سدا آپ مددگار رہیں گے

 

رگ رگ میں رواں کیف مئے حب وطن ہے

 

تاحشر اس کیف میں سرشار رہیں گے

(۶۴۱)

-طفیل اپنی نظموں میں قارئین کو اسلاف کے کارہائے نمایاں سے سبق حاصل کرنے کادرس دیتے بھی نظر آتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کو اپنا شعار بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں ہماری عظمت اور شوکت گم گشتہ پھر سے لوٹ آئے۔ طفیل ہمیں ماضی کی طرف جھانکنے کی یوں دعوت دیتے ہیں:

ملت کے جوانو تمہیں ملت کی قسم ہے

 

اجداد کے کردار کی رفعت کی قسم ہے

 

ماضی پہ تو ڈالو ذرا تحقیق کی نظریں

 

ماضی کی تمہیں عظمت و سطوت کی قسم ہے

(۶۴۲)

¹فکر اقبال سے طفیل کے دور کے تقریباً اکثر شعرا متاثر نظر آتے ہیں۔ طفیل کا بھی اقبال سے متاثر ہونا فطری بات تھی۔پھر اس پر مستزاد یہ کہ طفیل ہوشیار پورسے سیالکوٹ چلے آئے۔قیامِ سیالکوٹ کے دوران طفیل کو امینِ حزیں سیالکوٹی کی صحبت میسر آئی۔ انھوں نے امینِ حزیں سے باقاعدہ اصلاح بھی لی۔ امینِ حزیں اقبال سے بہت متاثر تھے۔ اولاً اقبال کا اس دور میں چرچا ،ثانیاً ،امینِ حزیں کی شاگردی اور ثالثاً ان کا قومی شاعری کی طرف میلان طبع…………ان کی قومی شاعری مذکورہ تینوں عناصر سے تشکیل پاتی ہے۔

طفیل کے ہاں اقبال کی فکر کو پیش کرنے کار نگ دیکھیے:

عمل کمند ستاروں پہ ڈال سکتا ہے

 

;سمندروں سے جواہر نکال سکتا ہے

 

عمل سے لرزہ بر اندام بحر و بر دیکھے

 

تباہیوں کے بھی شیرازے منتشر دیکھے

 

مزاج دور جہاں پھر ہے درہم و برہم

 

اُبھر رہے ہیں نگاہوں میں حادثے پیہم

 

عمل کا وقت ہے جذب عمل میں ڈھل جاؤ

 

رہِ وفا میں صفیں باندھ کر نکل آؤ

(۶۴۳)

ç ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت اپنے شر پسند جارحانہ عزائم کی تکمیل کے لیے رات کی تاریکی میں وطن عزیز پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ جہاں ہماری بہادر افواج نے ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے وہاں ہمارے شعرا نے جہاد بالقلم کے ذریعے اس جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔ طفیل نے بھی اس کڑے وقت میں اپنی نظموں اور ترانوں کے ذریعے اپنی جاں باز اور سرفروش افواج کا خون گرمایا۔کون ہے جس نے ان کا مشہور زمانہ ترانہ’’توحید کا پرچم لہرایا‘‘ نہ سنا ہو۔ یہ ترانہ سن کر خود بخود جذبہ شوق شہادت مچلنے لگتا ہے۔ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہماری پاک افواج اس ترانے کی دھن پر مارچ پاسٹ کرتی ہے۔ طفیل کو زندہ رکھنے کی لیے یہ ترانہ ہی کافی ہے۔اسی ترانے کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

اﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر

 

+اﷲ کی رحمت کا سایہ

 

)توحید کا پرچم لہرایا

 

)اے مرد مجاہد جاگ ذرا

 

'اب وقت شہادت ہے آیا

 

;اﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر

 

/سر رکھ کے ہتھیلی پر آنا

 

/ہے ظلم سے تجھ کو ٹکرانا

 

-ایمان کا ہے رکھوالا تو

 

+اسلام کا ہے متوالا تو

 

)ایمان ہے تیرا سرمایہ

 

-اے مرِد مجاہد جاگ ذرا

(۶۴۴)

طفیل کی قومی شاعری کی اہم خصوصیت ان کا رجائی انداز ہے۔ وہ کسی بھی مرحلے پر امید کا دامن نہیں چھوڑتے وہ ایک روشن مستقبل کے نقیب ہیں۔ ان کی شاعری میں مایوسی کا دور دور تک کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ ان کی شاعری ایک سہانے دل کش،روشن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں پاکستانیت کا عنصر بھی جگہ جگہ ملتا ہے:

سونے کے گھر بنائیں گے چاندی کی بستیاں

 

بدلیں گے رفعتوں میں مقدر کی پستیاں

 

لے کر جلو میں مست بہاروں کے مست خواب

 

مہکیں گے قریے قریے چمن در چمن گلاب

 

ہوں گی نہ اب خزاں کی کہیں چیرہ دستیاں

 

سونے کے گھر بنائیں گے چاندی کی بستیاں

(۶۴۵)

                طفیل اتحاد و یگانگت کے مبلغ اور اخوت و محبت کے پیامی ہیں۔ وہ مسلمانوں کے درمیان باہمی رنجشوں ،اختلافات اور تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر زور دیتے ہیں۔ کہ اس میں قومی سلامتی ،بقا ترقی اور استحکام کا راز مضمر ہے۔ وہ مسلمانوں کو آپس میں برسر پیکار رہنے کے بجائے گردش حالات کی رفتار پہنچاننے کا پیغام دیتے ہیں ۔وہ مسلمانوں کو عالم کفر میں ان کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے با خبر کرتے ہیں:

امتیازات رنگ و نسب سب غلط

 

نفرت انگیزیوں کے یہ ڈھب سب غلط

 

3جذب اثیار سے حسن کردار سے

 

/عام رنگِ اخوت کرو دوستو

 

/ایک اﷲ ہے ایک قرآن ہے

 

9ایک ہادیؐ ہے ایک اس کا فرمان

 

3مختلف راستے کس لیے ہو گئے

 

5سوچنے کی تو زحمت کرو دوستو

(۶۴۶)

 

مشتعل گردش ایام ہے کچھ فکر کرو

 

دوستو حشر کا ہنگام ہے کچھ فکر کرو

 

کس کو معلوم سحر آئے گی کس عالم میں

 

خون آلود رخ شام ہے کچھ فکر کرو

 

سازش کفر ہے ہر بزم میں سرگرم عمل

 

اک جہاں دشمنِ اسلام ہے کچھ فکر کرو

(۶۴۷)

¿کشمیری مسلمانوں پر بھارتی افواج نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ کئی شعراًخصوصا سیالکوٹ کے شعرا نے اپنی شاعری میں اس بھارتی تسلط اور ظلم و بربریت کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ طفیل نے بھی کشمیر پر خوب صورت نظمیں کہی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں کشمیر کے پاؤں میں پڑی ہوئی زنجیر کا مثردہ سناتے ہیں۔ان کی نظم’’اے وادی کشمیر‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئیے:

اے وادی کشمیر

 

ہر رنگ میں ہم کر کے رہیں تجھے تسخیر

اے وادی کشمیر

 

9اﷲ کا فرمان ہے ایمان ہمارا

ہم سے تو یہی کہتا ہے قرآن ہمارا

 

جنت کبھی ہو سکتی نہیں کفر کی جاگیر

'اے وادی کشمیر (۶۴۸)

اقبال نے اپنی شاعری میں مغربی تہذیب پر تنقید کی ہے۔ طفیل نے بھی طنز کے حربے استعمال کرتے ہوئے ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔ جن کے باعث ہماری قوم اپنے گلے سے مغربی تہذیب کی غلامی کا جوااُتار پھینکنے پر تیار نہیں۔

حقیقتوں پہ ہے مبنی یہ بات اے اقبال

 

ملی ہے مغربی تہذیب میں ہمیں تو پناہ

 

حدیث ساغر و مینا ہو جب متاعِ حیات

 

کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اﷲ

(۶۴۹)

 

ہمارا دل نہ کیوں تہذیب نو سے روشنی لیتا

 

نئی تعلیم سے آنکھیں چُرا لینا تھا نادانی

 

نہ کیوں دل جلوہ افرنگ سے مسحور ہو جاتے

 

فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی

(۶۵۰)

}طفیل ہوشیار پوری کی قومی شاعری کا ایک دھارا ان کا وہ کلام ہے۔ جس میں انھوں نے اخلاقیات کی تعلیم دی ہے۔ ان کی اخلاقی شاعری کا منبع و مصدر سرا سر اسلامی تعلیمات ہیں۔ وہ اﷲ تعالیٰ سے لو لگانے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونے کا درس دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا مضمون بار ہا باندھا ہے:

تم رشتہ جاں رب جہاں سے رکھو

 

7تم ربط نہاں سر نہاں سے رکھو

 

;یہ عمررواں ساتھ نہ دے گی ہرگز

 

;اُمید نہ کچھ عمر رواں سے رکھو

(۶۵۱)

 

اﷲ سے ڈر بندہ الحاد نہ بن

 

پیرو نہ ہو فرعون کا شداد نہ بن

 

نمرود کی تقلید کو ایماں نہ بنا

 

;قارون زمانہ کا تو ہمزاد نہ بن

(۶۵۲)

©طفیل نے غزل ،نظم گیت کے ساتھ ساتھ مرثیہ بھی لکھا ہے۔ مرثیے کو عمل خیر کا پیغام بنانے کے لیے طفیل نے مرثیے سے صرف رونے رلانے کا کام نہیں لیا۔بلکہ ان کے نزدیک مرثیے کا اصل مقصد اس پیغام کی روح کو سمجھنا ہے جو امام عالی مقام نے سر زمین کربلا پر اپنے اہل خاندان اور مخلص ساتھیوں کی قربانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ایک مرثیے کے دو بند ملاحظہ ہوں:

واقعات کربلا کوئی لب پہ لائے کیا

 

بیتی ہے کیا حسینؓ پر اب بھی کوئی بتائے کیا

 

اہل سوز و ساز کو اشک خوں رلائے کیا

 

ظلم اور جور کی داستاں سنائے کیا

 

راہ حق میں لُٹ گیا قافلہ حسین کا

 

خیرو شر کی جنگ تھی کائنات دنگ تھی

 

آسمان دور تھا اور زمین تنگ تھی

 

کربلا کی خاک تھی اور خون رنگ تھی

 

لشکر یزید کے دل کی یہ امنگ تھی

 

حق میں ہو یزید کے فیصلہ حسینؓ کا

(۶۵۳)

)طفیل نے غزل گوئی اور نظم گوئی کے ساتھ ساتھ گیت نگاری بھی کی ہے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے بہت سے غنائیہ فیچرز لکھے۔ ان فیچرز میں نہایت اعلیٰ گیت شامل تھے ۔اس کے علاوہ انھوں نے فلموں کے لیے سینکڑوں لا زوال اور سدا بہار گیت لکھے۔ ان کے فلمی گیتوں کے حوالے سے انور سدید رقم طراز ہیں:

طفیل ہوشیار پوری نے فلمی دنیا کے بھاگ جگانے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ انھوں نے اردواور پنجابی میں اتنے اچھے گیت لکھے کہ فلمی شاعری کو بھی ادبی معیار حاصل ہو گیا۔(۶۵۴)

طفیل نے ہندی غزل بھی کہی ہے۔ ان کی ہندی غزل انھیں دیگر ہندی غزل کہنے والے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی ہندی زبان پر کامل دستگاہ ہے۔ا ن کے پورے شعری مجموعے’’سوچ مالا‘‘ میں عربی یا فارسی کی کوئی ترکیب نہیں ملتی۔ البتہ عربی اور فارسی کے الفاظ ضرور ہیں ۔جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ طفیل کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے ستاو ن غزلیات،دو سو چالیس دوہوں اور آٹھ گیتوں میں ہندی کے سبک اور رواں الفاظ استعمال کیے ہیں اور ہندی الفاظ سے باہر بہت کم قدم رکھاہے۔ طفیل نے نہ صرف یہ کہ ہندی الفاظ سے کام لیا ہے۔ بلکہ ان کی اس شاعری کی فضا بھی ہندی ہے ۔ا نھوں نے جو تشبیہات و استعارات اور تلمیحات استعمال کی ہیں وہ تمام تر ہندی فضا سے تعلق رکھتی ہیں چند تلمیحات دیکھے:

جب سے رادھا شیام کے نین ہوئے دو چار

 

شام بنے ہیں رادھکا رادھے بن گئی شام

 

انگ انگ میں رچی ہوئی ہے یوں موہن کی پیت

 

ایک آنکھ بند رابن میری دوجی گو کل دھام

(۶۵۵)

طفیل کی ہندی غزلوں کے مطالعہ سے ان کی جمال پسندی اور حسن پرستی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ وہ ایک مشاق مصور کی مانند حسن کی جاندار اور متحرک تصویریں کھینچنے میں کمال رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں کے اشعار سے ان کی حسن پسندی کا رحجان نمایاں ہوتا ہے۔ ایک غزل کے اشعار میں محبوب کے سراپا کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

چھوڑ کر چل دیا ہے بالا پن

 

7رس میں ڈوبا ہے کامنی کا بدن

 

7روپ کے بوجھ سے کمر بل کھائے

 

-ہوا مشکل سنبھالنا جوبن

 

3رنگ میں چاندنی سموئی ہوئی

 

7روپ میں چاند رات کی سی پھبن

 

3گورے مکھڑے پہ لٹ ارے توبہ

 

1جیسے لہرائے چاند پر ناگن

(۶۵۶)

Óدوہا نگاری کے حوالے سے بھی طفیل ایک بلند مقام و مرتبے پر فائض ہیں ۔تلسی داس میرا بائی،بہاری اور خان خاناں کے دوہوں کے اثرات طفیل کے دوہوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔حمد بلند حوصلگی کا درس ،انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب ،بے ثباتی دہر اور رنگینی دہر میں نہ کھونے کا سبق اور اخلاقی پند و نصائح طفیل کے دوہوں کے اہم موضوعات ہیں ۔ان کے دوہوں میں پاکستان کے معاشرتی و سیاسی حالات کے حوالے سے عصری شعور بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ طفیل نے دوہا چھندی کی پیروی کی ہے۔ ان کے ہاں ہندی اسلوب کا تتبع پایا جاتا ہے:

ہر بندہ ہے ایک مسافر دنیا ایک سرائے

 

سانجھ سویرے لگا ہے تانتا اِک آئے اِک جائے

 

پگ پگ پر ہیں سندریوں نے روپ کے جال بچھائے

 

روپ نگر سے کوئی مسافر بچ کر کبھی نہ جائے

(۶۵۷)

 

پگ پگ سندر سندر مکھڑے پگ پگ نین کٹورے

 

رس چھلکا چھلکا کر ڈالیں دل پر پیار کے ڈورے

 

سچائی کا مول نہ کوئی جھوٹ کی جے جے کار

 

بے ایمان کو کہے زمان آج دیانت دار

(۶۵۸)

۶۳۹۔سید عابد علی عابد،’’دیباچہ‘‘ مشمولہ ’’محفل‘‘ طفیل ہوشیار پوری نمبر، ص:۱۲۲

۶۴۰۔طفیل ہوشیار پوری ،’’میرے محبوب وطن‘‘،لاہور ،احسان اکامی،۱۹۷۷ء،ص: ۱۵

۶۴۱۔ایضاً،ص :۲۳

۶۴۲۔ایضاً،ص :۱۰۸

۶۴۳۔ایضاً،ص :۵۶

۶۴۴۔ایضاً،ص :۶۶

۶۴۵۔ایضاً،ص :۵۳،۵۴

۶۴۶۔ایضاً،ص :۹۹

۶۴۷۔ایضاً،ص :۱۱۸

۶۴۸۔طفیل ہوشیار پوری،’’اے وادی کشمیر‘‘،مشمولہ ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘،ص:۴۶۷

۶۴۹۔طفیل ہوشیار پوری،’’تجدید شکورہ‘‘،لاہور،احسان اکادمی ،۱۹۸۷ء، ص :۶۷

۶۵۰۔ایضاً،ص :۶۸

۶۵۱۔طفیل ہو شیار پوری،’’جامِ مہتاب‘‘ ،لاہور،احسان اکیڈمی ،۱۹۷۵ء،ص :۳۰

۶۵۲۔ایضاً،ص :۴۶

۶۵۳۔ایضاً،ص :۱۲۹

۶۵۴۔ڈاکٹر انور سدید،’’سوتھا وہ بھی آدمی‘‘،مشمولہ ’’محفل‘‘ طفیل ہوشیار پوری نمبر،ص: ۵۳

۶۵۵۔طفیل ہوشیار پوری،’’سوچ مالا‘‘،لاہور،احسان اکیڈمی، ۱۹۹۱ء،ص: ۱۸،۱۹

۶۵۶۔ایضاً،ص :۵۴

۶۵۷۔ایضاً،ص :۴۳

۶۵۸۔ایضاً،ص :۴۹

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...