Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

ساغر جعفری
ARI Id

1688382102443_56116103

Access

Open/Free Access

Pages

189

ساغر جعفری(۱۹۱۳ء۲۰۰۲ء) کا اصل نام محمد حسین جعفری ہے۔ آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ساغر جعفری ایک پختہ گو شاعر تھے۔ ان کا کلام’’ادبِ لطیف‘‘،’’ساقی‘‘،’’رومان‘‘ اور دیگر ملکی سطح کے رسائل و جرائد میں چھپتا رہا۔ساغر جعفری رومانوی تحریک سے وابستہ رہے۔ (۶۵۹) انھوں نے غزل ،نظم،گیت ،قطعہ ،نعت ،منقتبت،مرثیہ ،سلام،ماہیہ ،اور ہائیکو میں طبع آزمائی کی۔ آپ اقبال کی قومی و ملی شاعری سے بہت متاثر تھے۔ قومیت و وطنیت کے حوالے سے اقبال کا رنگ ساغر جعفری کی شاعری میں واضح طورپر نظر آتا ہے۔

’’بہارو نگار‘‘ ساغر جعفری کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے صفحات دو سو چوبیس ہیں۔ا س کا پیش لفظ ڈاکٹر وحید قریشی اور تعارف احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے۔ اس مجموعے میں غزلیں ،ہائیکو اور ماہیے شامل ہیں۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’برگِ گل‘‘ کے نام سے ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے صفحات کی تعداد ایک سو چھہتر ہے۔ اس میں ان کی نظمیں ،غزلیں اور گیت شامل ہیں۔ برگِ گل میں مشاہیر پاکستان بالخصوص قائد اعظم اور اقبال کی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ میرانیس اور مرزا دبیر کے فکری و فنی اثرات کا اظہار بھی ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر وزیر آغا اور تعارف ظہیر کا شمیری نے لکھا ہے۔

ساغر جعفری کا تیسرا شعری مجموعہ ’’دائرے‘‘ ہے۔ جو ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا۔ اس کے صفحات کی تعداد ایک سو چوراسی ہے۔ اس مجموعے میں غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر انور سدید نے لکھا ہے۔ اس کے قطعات کا بڑا موضوع اخلاقی ،معاشرتی اور سماجی مسائل ہیں۔

’’جامِ مودت‘‘ ساغر کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ اس کا فلیپ علامہ عقیل ترابی اور محاکمہ پروفیسر سید حسن عسکری کاظمی نے لکھا ہے۔اس کے صفحات کی تعداد دو سو چوبیس ہے۔ اس مجموعے میں حمد ،نعت ،منقبت ،قصائد،مراثی اور سلام شامل ہیں۔مذکورہ بالا مطبوعہ کتب کے علاوہ بھی ساغر جعفری کی متعدد غزلیں ،نظمیں اور قطعات غیر مطبوعہ موجود ہیں۔ جو شائع نہیں ہو سکے۔

ساغر جعفری کی غزلیات ان کے تین مجموعہ ہائے کلام میں شامل ہیں۔ ان کی غزلیں قدیم و جدید روایت کا حصہ ہیں۔ ساغر جعفری کی شاعری میں کلاسیکیت کی خوبی موجود ہے۔ انھوں نے کلاسیکی شعرا کی طرح حسن و عشق کی مختلف کیفیات کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔ عشقیہ اشعار کی غالب تعداد ان کی غزلوں کا حصہ ہے۔ انسانی فطرت کے لا محدود پہلو جذبہ عشق کے ماتحت جس طرح سنورتے ،بگڑتے ،پگھلتے ،اور ڈھلتے ہیں اس کی ترجمانی ساغر جعفری کے اشعار میں بھی کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک جذبہ عشق و محبت کے سامنے ہر دولت ہیچ ہے۔ جذبہ عشق و محبت لازوال دولت ہے۔ اور راہِ عشق میں ملنے والے زخم کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ ساغر جذبہ عشق کو زندگی میں کامیابی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں:

متاعِ درد اُلفت ہے گراں ساری خدائی سے

 

کتاب عشق ہے مرقوم خوں کی روشنائی سے

 

دل کو تو ہونا ہی تھا ساغر اسیر دام عشق

 

تھا ازل سے یہ نوشتہ کاتب تقدیر کا

(۶۶۰)

انسان ذرا سی تکلیف پر آہ و فغاں شروع کردیتا ہے۔ دردو غم سے نجات کے لیے ہر طرح کے جتن کرتا ہے۔ ساغر اس عمل کو درست خیال نہیں کرتے بلکہ غم عشق ہی ہر درد کی دوا ہے:

رُت تو ہر اک آکے آخر لوٹ جاتی ہے مگر

 

جو نظر کے سامنے منظر ہے وہ جاتا نہیں

 

رنگ و بوئے دہر سے لاکھ یہ بیزار ہو

 

دل مگر حرفِ محبت سے تو اُکتاتا نہیں

 

سُن تو لیتا ہے قریب آکے مرے دل کی صدا

 

اپنی بے مہری پہ لیکن وہ کچھ پچھتاتا نہیں

(۶۶۱)

معاملات حسن و عشق میں ساغر جعفری نے جہاں روایت کی پاسداری کی ہے وہاں ان کے ہاں احساس حسن و جمال میں جدیدیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان کے احساس حسن و جمال کے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

’’کسی زمانے میں انھیں اختر شیرانی کی معیت میں رہنے کا جونا درو نایاب موقع ملا اس نے ان کے انداز نظر اور فلسفہ حیات پر گہرے اثرات کچھ اس طورپر مرتب کیے کہ وہ حسن کے ناظر ہی نہیں بلکہ اس کے پارکھ اور نباض بھی بن گئے چنانچہ ان کے ہاں حسن کوشی محض رخ زیبا کی تلاش تک نہ محدود رہی بلکہ سر زمین وطن کے خدوخال فطرت کے تمام کمال اور آسمان کے پارو مائے نور تک پھیلتی چلی گئی۔(۶۶۲)

ساغر جعفری کی غزل میں سوز و گداز کا عنصر بھی موجود ہے۔ مگر سوز و گداز کی یہ کیفیت زیادہ شدت کے ساتھ دکھائی نہیں دیتی ساغر کے کلام میں حوادث زمانہ ،ذاتی رنج و غم اور معاشرتی نا ہمواریوں کی کیفیت واضح دکھائی دیتی ہے۔ مگر ان کے دکھ اور غم سے مایوسی اور نا امیدی پیدا نہیں ہوتی:

چشمِ نمناک بے قرار ہے دل

 

3جانے کیوں آج سوگوار ہے دل

 

3سوزِ غم سے ہے سوختہ ساماں

 

3عہدِ الفت کی یادگار ہے دل

 

/دیکھ او فتہ گر جفا پرور

 

7تیری فرقت میں اشک بار ہے دل

(۶۶۳)

اُردو غزل گو شعرا نے تصوف کے مختلف مسائل ،معرفتِ الہی ،شانِ عبودیت ،وحدت و کثرت ،اخلاصِ نیت اور بے ثباتی دنیا کو بیان کیا ہے۔ ساغر جعفری نے بھی تصوف کی اس روایت سے استفادہ کیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں کسی چیز کو بھی ثبات حاصل نہیں ۔ دنیا کی بے ثباتی کا درس جا بجا ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے:

ساغر میں عمر بھر جسے کرتا رہا تلاش

 

وہ تو تھا میرے خانہ دل میں چھپا ہوا

 

بس نہیں چلتا اس وقت کسی کا ساغر

 

دوڑ کر جب گلے ملنے کو قضا آتی ہے

(۶۶۴)

 

دہر کی ہر ایک شے زندانی تقدیر ہے

 

شاخ پر جو پھول مرجھاتا ہے پھر کھلتا نہیں

(۶۶۵)

“ساغر کی شاعری میں زندگی کے بارے میں گہرے شعور کا پتہ چلتا ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ان کا علم اور مشاہدہ وسیع ہے۔ زندگی کے حقائق کا ادراک اور شعور ان کی شاعری میں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے:

یہی بشر کہ تصرف میں جس کے ہے دنیا

 

;فراز عرش سے ٹوٹا ہوا ستارا ہے

 

5زندگی کا کارواں رُکتا نہیں

 

3چل رہا ہے سلسلہ دن رات کا

(۶۶۶)

ñساغر جعفری کی شاعری میں وطنیت کے عناصر بھی ملتے ہیں۔ ان کے نظریات پاکستان سے وفاداری اور محبت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں:

ساغر اُٹھا ہے خاک وطن سے میرا خمیر

 

بے انتہا پیار مجھے اس زمیں سے ہے

(۶۶۷)

ïساغر نے اپنی زندگی میں مسلمانانِ ہند کی جدوجہد آزادی اور قیامتِ پاکستان کے مناظر دیکھے۔قیام پاکستان کے بعد اسے در پیش مسائل بھی ان کے سامنے تھے۔پاکستانیوں کی نا اتفاقی ،فرقہ پرستی ،عدم برداشت اور لوٹ کھسوٹ کو پاکستان کے لیے تباہ کن خیال کرتے تھے:

ہر ایک دیوار نعروں سے ہے رنگین

 

1عجب معیار اپنے شہر کا ہے

 

یونہی اُلجھے رہے باہم اگر ہم اے وطن والو

 

بتاؤ ملک و ملت کے مسائل ہوں گے حل کیسے؟

(۶۶۸)

قیامِ پاکستان سے قبل اور ما بعد اردو شعرانے اپنے قلم سے استحصالی طاقتوں کو بے نقاب کیا ۔ان میں اقبال کے علاوہ ترقی پسند تحریک کے شعرا جوش ،مجنوں ،فیض ،مجاز ،جاں نثاراختر،جذبی ،ندیم کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان سے قبل سرمایہ داری اور جاگیر داری اور قیام پاکستان کے بعد فوجی آمروں اور افسر شاہی کی شکل میں یہ استحصالی قوتیں موجود تھیں۔ مذکورہ بالا شعرا نے ان قوتوں کے خلاف لکھا۔ ساغر کا تعلق بھی ان شعرا کے قبیلے سے تھا۔ وہ بھی معاشرے کے زرداروں اور استحصالی گروہوں کے خاتمے کی بات کرتے ہیں جو مفلسوں کے خون پی کر مست ہیں اور زمین پر خدا بنے ہوئے ہیں:

زردار مفلسوں کا لہو پی کے مست ہیں

 

انداز جور اہلِ جفا دیکھتا ہوں میں

 

ہیبت بڑھی ہوئی ہے خدایانِ جور کی

 

یا رب تیری زمین پہ کیا دیکھتا ہوں میں

(۶۶۹)

آمرانہ نظامِ زندگی میں آزادی اظہار پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ غیر آئینی طریقوں سے برسر اقتدار آئے ہوئے آمر عوام کے حقوق غصب کرنے کے لیے تمام آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ان کے تخت و تاج کو خطرہ ہو۔ایسے جبراور استحصالی رویوں کے خلاف ساغر کی شاعری دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں مزاحمتی عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں:

اظہار خیالات پر پہرے نہ بٹھاؤ

 

تم فنِ ادب پر کوئی قدغن نہ لگاؤ

(۶۷۰)

 

فکر و تحریر بھی پابند ہوں ساغرؔ

 

راز سر بستہ دل کیسے بتایا جائے

 

3ستم کی یورشوں پر ہے خموشی

 

زبانوں پر یہاں تالے لگے ہوئے ہیں

(۶۷۱)

­ساغر جعفری کی شاعری میں معاشرتی و اخلاقی اقدار پر مشتمل اشعار کی غالب تعداد موجود ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی اقدار معاشرے کی ترقی و خوشی کا آئینہ ہوتی ہے۔ ساغراپنی ذات اور قوم کے افراد میں اعلیٰ اوصاف دیکھنا چاہتے تھے:

آج کا کام آج ہی کر ڈالو

 

7کل پہ اس کو نہ ڈال کر رکھنا

 

5سچ ہے جذبوں کی آنچ کو ساغر

 

7اپنی سوچوں میں ڈال کر رکھنا

(۶۷۲)

-ساغر جعفری کی شاعری میں کلاسیکی اقدار کے ساتھ ساتھ رومانیت کی جھلک بھی موجود ہے۔ رومانوی تحریک کے زیرِ اثر جوش،اختر شیرانی،احسان دانش،حفیظ جالندھری اور دوسرے شعرا نے اردو ادب کو نئے جذبوں کی دنیا سے آگاہ کیا۔ ساغر جعفری کی شاعری میں میرؔ ،غالبؔ اور اقبالؔ کے ساتھ ساتھ جوشؔ ،حفیظ جالندھری ،احسان دانش اور اختر شیرانی کے اثرات نمایاں ہیں۔ ساغر جعفری کے رومانوی نظریات کے بارے میں ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں:

’’ساغر جعفری دراصل رومان کی تحریک سے وابستہ تھے۔ اختر شیرانی نے جن نئے شاعروں کو ادب میں روشناس کرایا ان میں ساغر جعفری ،احمد ندیم قاسمی اور باقی صدیقی کے نام سر فہرست ہیں۔ وہ بنیادی طورپر رومانی شاعرہیں۔ اور اختر شیرانی کی شعری روایت کے پرستار ہیں۔(۶۷۳)

ساغر اپنی شاعری میں جا بجا مظاہر ہر فطرت اور فطرت سے مخاطب نظر آتے ہیں۔فطرت کی عکاسی ان کی جدت طبع اور مزاج کی آئینہ دار ہے:

موسمِ گل میں اُمڈ آتا ہے جب جوش نمو

 

رقص کرتی ہوئی رنگین فضا آتی ہے

(۶۷۴)

—ساغر کی شاعری اُمید ،رجائیت او ر یقین کے پیغام سے لبریز ہے۔ نا امیدی یاسیت اور وہم و بدگمانی ان کی زندگی اور کلام میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی وہ مشکل حالات میں بھی امید اور یقین کا دیا جلائے رکھتے ہیں:

چمن میں ناز سے آؤ، گلوں کا موسم ہے

 

حسین جلوئے لٹاؤ ،گلوں کا موسم ہے

 

یہ کہہ گئی ہے عنادل سے آج موجِ نسیم

 

خوشی میں جھوم کے گاؤ گلوں کا موسم ہے

(۶۷۵)

3ساغر جعفری سچے اور کھرے عاشق رسولؐتھے ۔ ان کی نعتیہ شاعری سے ان کی شمع رسالتؐ سے محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنی نعتیہ شاعری میں ساغر نے حضورؐ کی صداقت و شجاعت اور مقام و مرتبہ کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے نہایت عجز و انکساری سے بارہ گاہِ رسالتؐ میں اپنے جذبات کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اور حضورؐ کی انسانیت کے لیے تڑپ اور ان تھک کاوشوں پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ نعت نگاری کے حوالے سے ساغر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

تخلیق کائنات کا باعث ترا وجود

 

رونق فزائے عالم امکاں ہے تیرا نام

 

تاریکیوں میں نور کی قندیل تیری یاد

 

ظلمت کدے میں سرو چراغاں ہے تیرا نام

(۶۷۶)

åساغر جعفری کی شاعری میں حضرت علیؓ ،حضرت امام حسینؓ ، اور آئمہ کرام کی تعریف و توصیف اور سیرت و صورت پر مشتمل متعدد نظمیں (منقبت) شامل ہیں۔ ساغر نے حضرت علیؓ کی شان میں ’’قندیلِ کعبہ‘‘ ،’’خورشید امامت‘‘ اور ’’جوش ولہ‘‘ اور حضرت امام حسینؓ کے لیے گل ہائے عقیدت ،سالار دین اور پیکر ثبات جیسی منقبت لکھی ہیں۔ حضرت علیؓ کے مقام و منصب کو حدیث نبیؐ کی روشنی یوں بیان کرتے ہیں:

کہتے ہیں تجھ کو شہر علوم نبی کادر

 

7تو صاحب نیابت خیر الانام ہے

 

مشہور دو جہاں میں علی کی شجاعتیں

 

;یزداں شیر فاتح خیبر کا نام ہے

(۶۷۷)

ïساغر جعفری کی شاعری میں کشمیر اور جہادِ کشمیر کے حوالے سے نظمیں ملتی ہیں۔ جوان کی مظلوم کشمیریوں سے ہمدردی اور محبت سے لبریز ہیں۔’’کشمیر جل رہا ہے‘‘ نظم میں ساغر جعفری کشمیریوں کے مسکن ،کشمیر کی دل پذیر ،جنت نظیر وادی کی ہندوستان کے ہاتھوں تباہی ،کشمیریوں کی جانوں کے نذـرانوں ،عزتوں کی پامالی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس نظم میں ساغر بھارت کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہیں:

مٹنے نہ پائے ہرگز یہ جذبہ شہادت

 

بھارت کی جب تک ہے کشمیر پر حکومت

 

اسلام کی بالآخر اُبھرے گی شان و شوکت

 

کسی طور سے زمانہ کروٹ بدل رہا ہے

(۶۷۸)

‡ساغر کی غزل کے ساتھ ساتھ ان کی نظم میں بھی محبوب کی سراپا نگاری کے بارے میں متعدد اشعار ملتے ہیں۔ ’’مجھے آج وہ مہ جبیں یاد آئی‘‘ نظم میں ساغر جعفری نے محبوب کے ساتھ بیتے ہوئے خوبصورت ،پرکیف اور حسین لمحات کا ذکر کیا ہے۔ اس نظم میں محبوب کی سراپا نگاری بڑی جاندار ہے۔ ساغر جعفری نے اپنی زندگی کے کچھ ایام رومانی شاعر اختر شیرانی کی معیت پر گزارے۔ اختر شیرانی کی فکر اور خیالات ان کی شاعری پر بھی اثر انداز ہوئے۔ حسن پرستی اور مظاہر فطرت کی رنگینیوں کو ساغر کے ہاں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔اُن کی نظم’’ ساقی‘‘ اختر شیرانی کے رنگ اور شاطرانہ طرز کا اظہا ر ہے۔ فطری مناظر کی خوبصورت اور فطرت پرستی اس نظم سے عیاں ہے۔ فطرت پرستی اور منظر نگاری کے حوالے سے ’’شبِ مہتاب‘‘ اور ’’ماہِ نو‘‘ ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔

ساغر نے جامِ مودت میں متعدد قطعات بھی لکھے ہیں۔ جو مذہبی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان کے اکثر قطعات اﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف پر مشتمل ہیں۔ ساغر کے نزدیک خدا کی عظمت و کبریائی اور شان و شوکت کو قلم بند کرنا انسانی عقل و شعور سے ماوراء ہے:

ہر غنچہ نورس میں چٹک تیری ہے

 

ہر پھول کی پتی میں مہک تیری ہے

 

5اے گلشن ہستی کو سجانے والے

 

ہر قلب کی دھڑکن میں کسک تیری ہے

(۶۷۹)

/ساغر جعفری ایک پختہ گو شاعر تھے اور ان کی فنی پختگی ان کے کلام میں واضح طورپر دیکھی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید ان کے اسلوب بیان کے حوالے سے لکھتے ہیں:

پختگی کلام اور گہرائی فکر کے ساتھ ساتھ زندگی کے حقائق ،عروس فطرت کے جلوے اور متنوع مضامین و مشاہدات کو سادگی و بیان کی صفائی سے عمدہ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔(۶۸۰)

ساغر جعفری کے اسلوب کے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا یہ رائے رکھتے ہیں:

ساغر جعفری نے غزل ،نظم ،گیت ،ثلاثی اور سانیٹ میں فنی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جو آج کے دریدہ بدن زمانے میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ان کو پڑھتے ہوئے الفاظ اور تراکیب کی گراں باری کا احساس بالکل نہیں ہوتا۔(۶۸۱)

 

۶۵۹۔صوفیہ بٹ،’’اقبال اور سیالکوٹ کی معاصر شخصیات‘‘،ص: ۱۲۵

۶۶۰۔ساغر جعفری،’’بہارو نگار‘‘ ،سیالکوٹ،اردو ادب اکیڈمی،۱۹۹۵ء،ص: ۹۹

۶۶۱۔ساغر جعفری ،’’دائرے ‘‘،سیالکوٹ ،اردو ادب اکیڈمی۱۹۹۶ء،ص: ۱۴۹

۶۶۲۔وزیر آغا ،’’دیباچہ‘‘،مشمولہ’’ برگ گل‘‘ سیالکوٹ ،۱۹۹۵ء ،ص: ۵

۶۶۳۔ساغر جعفری،’’دائرے‘‘،ص: ۷۶

۶۶۴۔ساغر جعفری،’’بہارو نگار‘‘،ص :۶۷،۶۸

۶۶۵۔ساغر جعفری ،’’برگ گل‘‘،ص: ۱۱۴

۶۶۷۔ایضاً،ص:۱۴۴،۱۴۵

۶۶۸۔ایضاً،ص :۹۹،۱۰۰

۶۶۹۔ایضاً،ص :۳۳

۶۷۰۔ایضاً،ص :۵۰

۶۷۱۔ساغر جعفری،’’برگ گل‘‘،ص :۱۱۱

۶۷۲۔ایضاً،ص :۱۵۳

۶۷۳۔ڈاکٹر وحید قریشی ،’’پیشِ لفظ‘‘،مشمولہ’’بہارو نگار‘‘،ص: ۵

۶۷۴۔ساغرجعفری،’’برگ گل‘‘،ص: ۱۱۴

۶۷۵۔ساغر جعفری ،’’بہارو نگار‘‘،ص: ۴۱

۶۷۶۔ساغر جعفری،’’جامِ مودت‘‘،سیالکوٹ،اردو ادب اکیڈمی،۱۹۹۷ء،ص: ۳۶

۶۷۷۔ایضاً،ص :۱۶

۶۷۸۔ساغر جعفری ،’’برگ گل‘‘ص: ۸۹

۶۷۹۔ساغر جعفری،’’دائرے‘‘،ص :۱۵

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...