Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

طاہر شادانی
ARI Id

1688382102443_56116104

Access

Open/Free Access

Pages

194

طاہر شادانی(۱۹۱۶ء۔۱۹۷۰ء)کا اصل نام محمد صدیق ہے۔ شادانی پسرورپیدا ہوئے ۔آپ نے یونیورسٹی اورنٹیل کالج لاہور میں شادان بلگرامی اور حافظ محموود شیرانی سے کسبِ فیض حاصل کیا۔ ان کی ساری زندگی تعلیم وتعلم میں گزری۔ تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۸۲ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ آپ نے ضیا محمد ضیا اور حفیظ صدیقی کی رفاقت میں پسرور میں حلقہ ارباب ذوق کے نام سے ادبی حلقہ قائم کیا۔ (۶۸۲)

طاہر شادانی نے اردو ادب میں شاعری کے ساتھ ساتھ تدوین اور ترجمے میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ کا کلام ’’فنون‘‘ ،’’شام و سحر‘‘ ،’’اقرار‘‘ ،’’الہلال‘‘،تحریریں ،’’سیارہ‘‘،اور ’’شاخسار‘‘ کے علاوہ دیگر ملکی سطح کے رسائل و جرائد میں چھپتا رہا۔ آپ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ لاہور سے بھی وابستہ رہے۔ اور چھٹی سے دسویں تک اردو کی درسی کتابیں مرتب کیں۔ اردو قواعد و انشا کے حوالے سے بھی شادانی نے علمی کتابیں تالیف کیں۔ آپ کا صرف ایک شعری مجموعہ’’شعلہ نمناک‘‘ ایوانِ ادب لاہور سے ۲۰۰۰ء میں ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ان کا بہت سا شعری کلام مختلف رسائل و جرائد میں بکھرا پڑا ہے۔

طاہر شادانی نے اپنے شعری مجموعے ’’شعلہ نمناک‘‘ کا آغاز حمدوں سے کیا ہے۔ لیکن شادانیؔ کی یہ حمدیں صرف روایت کاتتبع نہیں ہیں۔ حمد و نعت کی طرف ان کا ذہنی میلان ابتدا سے تھا۔ شادانی کی شاعری پر اقبال کے اثرات واضح طورپر محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ان کی حمدوں میں دعا کا وہی انداز ہے ۔جوا قبال کے ہاں ہے اقبال نے اپنی نظم دعا میں اﷲ سے نیک انسان بننے کی دعا مانگی ہے۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

 

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

}شادانی کے اکثر حمدیہ اشعار میں اس نظم’’دعا‘‘ کی گونج سنائی ہے:

حمایت کر سکیں مظلوم کی یا رب وہ جرات دے

 

ہلا دیں ظلم کی بنیاد بازو میں وہ طاقت دے

 

سہارا بن سکیں ہم بے نواؤں بے سہاروں کا

 

دلوں میں درد ہو احساس ہو آفت کے ماروں کا

(۶۸۳)

شادانی کی حمدوں میں اﷲ کی وحدانیت کا اقرار ملتا ہے۔ عقیدہ توحیدوہ عقیدہ ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتا ہے ۔ان کی حمد میں شکر کا موضوع ملتا ہے۔ ان کے ہاں اﷲ تعالیٰ کی ذات کا جمالی پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ انھیں کائنات میں ہر طرف اﷲ ہی کی جلوے نظر آتے ہیں۔شادانی کی حمدوں میں مناجات کا موضوع بھی ملتا ہے۔ وہ پر آشوب دور میں صرف اﷲ کی پناہ کا سہارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تمام مصائب و آفات میں اﷲ ہی سے مدد مانگتے ہیں:

حوادث کی موجیں بڑھی آ رہی ہیں

 

7سنبھلنے کی قوت عطا کر الٰہی

 

9ہجومِ مصائب میں محصور ہیں ہم

 

3ہمیں استقامت عطا کر الٰہی

(۶۸۴)

حمد کے ساتھ ساتھ شادانی کی شاعری کا بہت بڑا حصہ نعت گوئی پر بھی مشتمل ہے۔ شادانی نے حالی کی طرح نعت کو مقصدی رنگ دیا ہے۔ انھوں نے عصری مسائل کونعت میں بیان کرکے اور حضور ؐ کی اُمت کی زبوں حالی سے بے چین ہو کر اصلاح حال کی التجا پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے:

پھر آپؐ کی اُمت پہ مصائب کی ہے یورش

 

پھر دشمنِ جاں اس کی ہوئی گردش دوراں

 

دیکھی نہیں جاتی ہے زبوں حالی اُمت

 

ہو اس پہ نگاہ کرم اے رحمت یزداں

(۶۸۵)

µشادانی نے اپنی نعتیہ شاعری میں حالی کے اشعار کے مصرعوں کو تضمین کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے:

طوفانِ حوادث میں گھرا ہے یہ سفینہ

 

فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں

(۶۸۶)

 

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے

 

;سنگینی حالات سے دل ڈوب رہا ہے

(۶۸۷)

Ë شادانی کی نعت نگاری میں عشق رسولؐ کا جذبہ جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ عشق رسولؐکو خون رگ جاں میں شامل کرلیتے ہیں ۔ اور عاشق رسول بن جاتے ہی۔ ایک عاشق کے لیے اپنے محبوب کی یاد میں ہی ایسی چیز ہوتی ہے۔ جس میں وہ سکون محسوس کرتا ہے:

یاد آپؐ کی مرے لیے وجہ قرار جاں

 

میرا سکون دل مری سرکار آپؐ ہیں

(۶۸۸)

طاہر شادانی کی نعت میں عشق رسولؐ کے جذبے کے بارے میں حفیظ صدیقی رقم طراز ہیں:

طاہر شادانی کا دل حضورؐ سے محبت و عقیدت سے معمور ہے وہ اس محبت کا اظہار جگہ جگہ کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دل میں حضورؐ کی محبت کے چراغ روشن کر رکھے ہیں اور اس سعادت کے عطا ہونے کے لیے بھی آپ کے ممنون احسان رہتے ہیں۔(۶۸۹)

شادانی کی نعتوں میں زبان و بیان کا پختہ شعور ملتا ہے۔ انھیں زبان پر اتنا شعور حاصل ہے کہ ان کا ہر شعر زبان و بیان کے استعمال کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس حوالے سے جعفر بلوچ لکھتے ہیں:

انھیں زبان و بیان کے مختلف اسالیب پر اطمینان بخش عبور حاصل ہے۔(۶۹۰)

 ڈاکٹر انور سدید شادانی کی الفاظ پر قدرت رکھنے کا اعتراف اس طرح کرتے ہیں:

سیارہ کے وسیلے سے میں نے ان کی شاعری کے سب رنگ دیکھے ہیں اور ان سے یوں فیض اُٹھایا ہے کہ جب کسی لفظ کے استعمال پر شک پیدا ہوا تو میں نے شادانی صاحب کے کلام سے راہنمائی حاصل کی وہ میری ہر مشکل میں کام آئے۔ انھوں نے ہر مرحلے پر میری دستگیری کی۔(۶۹۱)

شادانی کی شاعری قومی و ملی موضوعات سے بھری پڑی ہے شادانی حالی و اقبال کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان کے پورے کلام پر مذکورہ شعرا کے اثرات موجود ہیں۔ حتی کہ ان کے مصرعے اور اشعار بھی تضمین کیے ہیں۔ شادانی ایک قومی اور اصلاحی شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی قوم کو مشرقی اقدار اور ملی روایات سے وابستہ رہنے کا درس دیا ہے اور قوم کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ وہ اپنی ایک نظم ’’مغرب زدہ سے ‘‘ میں مغرب سے مرعوب ہونے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے مشرقی اقدار اپنانے کا درس دیتے ہیں:

ادھر آ زندگی کا بادہ گلفام پیتا جا

 

ذرا میخانہ اقبال سے اک جام پیتا جا

 

نظر میں رکھ سلف کی راستی اور راست اخلاقی

 

کہ ان کے دیکھنے والے بھی کچھ لوگ ہیں باقی

(۶۹۲)

×شادانی اپنی اکثر نظموں میں اپنی قوم کے نوجوانوں اور مجاہدوں سے خطاب کرتے نظر آتے ہیں۔ ان نظموں پر اقبال کے اثرات بھی گہرائی کی حد تک نظر آتے ہیں۔ اپنی نظموں’’جوانانِ وطن سے‘‘ ،’’خطاب بہ جوانانِ ملت‘‘ ،’’دعوتِ عمل‘‘ ،’’درس عمل‘‘،’’مجاہدین وطن‘‘ اور ’’مجاہد سے خطاب‘‘ میں شادانی نوجوانوں اور مجاہدوں کو عملی جدوجہد کا پیغام دیتے ہوئے ان کا حوصلہ بڑھاتے نظر آتے ہیں:

زندگی طوفانِ باطل سے ہے ٹکرانے کا نام

 

ظلم کی بپھری ہوئی موجوں سے لڑ جانے کا نام

 

بحرِ آفات و بلا میں رقص فرمانے کا نام

 

خونِ دل سے جو لکھا جائے اس افسانے کا نام

 

حق پرستوں کے لیے اک امتحاں ہے زندگی

 

جبر و اسبداد سے دبنا کہاں ہے زندگی

(۶۹۳)

شادانی کی قومی شاعری میں وطن سے محبت کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کی وادیوں ،چناروں اور دلنشیں نظاروں کی تعریف خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔ وطن کے گاؤں ،شہر اور بستیوں سے محبت کا اظہار ان کی اکثر نظموں میں ملتا ہے۔ وہ اپنے وطن کو گلشن ،میرے محبوب اور خلد بریں کہہ کر پکارتے ہیں ان کی نظمیں ،خیر ہو ،اور نذر وطن ان کے جذبہ حب الوطنی کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:

ہے تری خاک میں اسلام کا نورِ ازلی

 

ہیں ترے ساز میں اک ساز نہاں دیکھتا ہوں

آج دنیا کو ہے جس گم شدہ منزل کی تلاش

 

میں ترا قافلہ اس سمت رواں دیکھتا ہوں

میرے محبوب وطن ،اے مرے محبوب وطن (۶۹۴)

ستمبر ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ میں پاک فوج نے جس بہادری سے مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کو دندان شکن جواب دیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس موقع پر پوری پاکستانی قوم اپنے جانباز سپاہیوں کے ساتھ کھڑی تھی مگر شعرا نے اس موقع پر خاص طورپر قلمی جہاد کیا۔ تقریباً تمام پاکستانی شعرا نے رجزیہ نظمیں لکھیں۔ طاہر شادانی کی ’’مجاہد سے خطاب‘‘ اور ’’ارضِ سیالکوٹ‘‘ اس حوالے سے یاد گار نظمیں ہیں۔ ’’ارضِ سیالکوٹ‘‘ نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:

ترے مجاہدوں نے بصد شوق و آرزو

 

خونِ جگر سے لکھی ہے تفسیر جاھدوا

رکھ لی ہے تو نے ہمت مرداں کی آبرو

 

ملت کو تو نے فتح و ظفر کا دیا پیام

ارضِ سیالکوٹ ،تری خاک کو سلام (۶۹۵)

۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی جس ہولناک فسادات اور قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور جس بے دردی سے پاکستان آنے والے مہاجرین کا قتلِ عام کیا گیا۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہمارے ادب کی ہر صنف پر تقسیم برصغیر کے اثرات کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ شادانی نے بھی یہ فسادات اپنی آنکھوں سے دیکھے ،ان کی نظم ہماری منزل مقصود تقسیم برصغیر کے دوران برپا ہونے والے فسادات ہی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے:

برستے ہیں شرارے ظلم کی خونیں نگاہوں سے

 

کوئی خائف نہیں مظلوم کی دلدوز آہوں سے

 

پڑے ہیں رہگزاروں میں یہاں لاشے وہاں لاشے

 

بشر کی بے حسی پر نوحہ خواں ،ماتم کناں لاشے

 

یہ کشت و خون یہ غارت گری یہ خانہ بربادی

 

یہی تھی کیا ہماری منزل مقصود آزادی

(۶۹۶)

5شادانی نے رثائی نظمیں بھی لکھیں جن میں ادبی قومی اور علمی مشاہیر کی وفات پر اظہار کیا گیا ہے۔ شادانی نے جن شخصیات کے مرثیے لکھے ان میں اقبال ؒ محمد علی جناح،مولانا ظفر علی خانؒ ،مولانا مودودی ،عبدالمجید سالک ،پروفیسر حمید احمد خان ،مولانا صلاح الدین ،احسان دانش،محمد طفیل (مدیر نقوش) اور ان کی والدہ مرحومہ اہم ہیں ۔شادانی نے قومی و ملی اور ادبی شخصیتوں کوا س لیے موضوع بنایا ہے کہ ان کے دل میں قوم کا درد موجود ہے۔ ان کی رثائی نظموں میں ایک چیز خاص طور پر متاثر کرتی ہے۔ اور وہ ہے موزونی الفاظ۔وہ لفظوں کے استعمال میں خاص احتیاط برتتے ہیں اور شخصیات کے شایان شان الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ شادانی اپنی شاعری میں مناظر فطرت کے سحر کے اسیر بھی نظر آتے ہیں۔ شادانی کی مناظر فطرت سے متعلق اہم نظمیں حسن نظر افروز ،جمال فطرت، برکھا رت ،انتخاب ہفت کشور اور بہار ہیں۔ شادانی کی ان نظموں میں طلوع صبح اور شام کے مناظر ،بہار کے مناظر،چاندنی رات کے مناظر،ندیوں کے بہتے ہوئے پانی کی تصویریں ،دیہات کے مناظر اور برسات کے نظارے واضح طورپر نظر آتے ہیں۔شادانی کے ہاں فطرت برائے فطرت ہی نہیں بلکہ ان کی فطرت نگاری میں کائنات اور خالق کائنات کے متعلق غور و فکر ملتا ہے:

ہر شب بساطِ چرخ پہ بکھرے ہوئے نجوم

 

گردوں پہ ہر طرف یہ ہجوم تجلیات

 

میں روز دیکھتا ہوں یہ بزمِ نظر فروز

 

سنتا ہوں گوش دل سے ستاروں کی بات بات

(۶۹۷)

éشادانی کے ہاں عشق حقیقی کے حوالے سے بھی بہت سے اشعار ملتے ہیں۔وہ اقبال کی طرح عشق کو عقل پر ترجیع دیتے ہیں اور عشق کے سامنے عقل کو بے بس قرار دیتے ہیں۔ اس فیض عشق کی بدولت انھیں خرد کے بل بوتے پر حاصل کیا گیا سودبھی زیاں لگتا ہے۔ شمع،چمن،رنگ و بو، کوشش نا تمام،گلستاں ،نشیمن،دیدہ و دل اور موجِ نفس جیسے الفاظ و تراکیب کسے استعما ل سے ان پر اقبال کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔

وہ اقبال کی فکر اور فنی کمالات سے بہت متاثر ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعا ر ملاحظہ ہوں:

نظر نظر ہے اسیر طلسم کم نظری

 

خدا کا خاص کرم ہے شعورِ دیدہ وری

 

ہے عبرتوں کا فسانہ تمام سعئی جنوں

 

خرد کے سارے کرشمے مسنونِ بے خبری

 

یہ فیض عشق تھا کہ خرد کی نہ چل سکی

 

واقف نہ ہو سکے غمِ سودو زیاں سے ہم

(۶۹۸)

Ýماضی کی یادیں اردو غزل کا ایک موضوع رہا ہے۔ ہر زمانے میں شاعروں نے اس نفسیاتی کیفیت کو محسوس کیا ہے اور اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ شادانی کے ہاں بھی یہ یادیں مختلف انداز سے اپنا جادو جگاتی ہیں۔ کبھی شادانی اپنے اس خوشگوار ماضی کو یاد کر تے ہیں جوا ب ان سے بچھڑ گیا ہے۔ اور کبھی یہی یاد اس اندا زسے ملتی ہے کہ لگتا ہے وہ بڑھاپے جوانی کی رعنائیاں یاد کر رہے ہیں:

نہیں اس دورِ راحت کا تصور بھی کہیں دل میں

 

کسے اب یاد ہیں رعنائیاں فصلِ بہاراں کی

 

7مجلا ہے تیرے تصور سے اب بھی

 

3مرے دل کا ٹوٹا ہوا آبگینہ

(۶۹۹)

شادانی کی شاعری میں زمانے کی بے مروتی ،منافقت اور خود غرضی کی شکایت بھی ملتی ہے۔ وہ لوگوں کی منافقتوں اور اخلاقی رویوں کی پامالی پر دکھ محسوس کرتے ہیں ۔ معاشرے کی بے حسی پر شادانی کڑھتے نظر آتے ہیں:

وفا بسمل ،مروت دم بخود، احساس ویراں ہے

 

متاعِ زندگی اک جنس ارزاں ہے جہاں میں ہوں

 

چلے تھے سوئے منزل جو امیرِ کارواں بن کر

 

انھیں دیکھا ہے اکثر یوسف بے کارواں میں نے

(۷۰۰)

ƒان کی شاعری میں تنہائی ،احساسِ تنہائی اور احساسِ محرومی کے عناصر بھی ملتے ہیں۔انھیں تنہائی میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ وہ محبوب سے مل کر بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ اسی احساس تنہائی سے ان کی غزل میں قحط الرجال کا موضوع جنم لیتا ہے۔ ان کو کوئی ایسا صاحبِ ادراک نہیں ملتا۔ جو ان کے زخم دل کی بخیہ گری کر سکے:

یہ بزمِ آشنائی اور یہ احساسِ تنہائی

 

وہاں صبح وطن شام غریباں ہے جہاں میں ہوں

 

کوئی نشانِ راہ نہ منزل نہ ہمسفر

 

ویرانۂ حیات میں تنہا کھڑا ہوں میں

(۷۰۱)

شادانی کی شاعری میں بے ثباتی کائنات کا موضوع بھی ملتا ہے۔ حیات و کائنات کے بارے میں وہ ایک واضح تصور رکھتے ہیں۔ وہ قدرت کے قانون کو ازلی اور ابدی حقیقت اور دنیا کی زندگی کو عارضی سمجھتے ہیں۔ انھیں زندگی مہیب ظلمت کی طرح لگی ہے۔ جس میں وہ زندہ ہے۔ وہ اس عالم رنگ و بو نظر کا فریب سمجھتے ہیں:

سمجھ سکا نہ وہ شاید یہ رازِ بودو عدم

 

کہ جس نے ڈالی ہے گلشن میں آشیاں کی طرح

 

یہ کائنات ہے عرفان و آگہی کا فریب

 

ہے رنگ و بو کا تصور نظر کی فتنہ گری

(۷۰۲)

ïشادانی کے ہاں عشق مجازی کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ یہ موضوع محض روایت کی تقلید میں برتا گیا ہے۔ کیونکہ حسن و عشق غزل کا جزوو لانیفک ہے ۔ وہ مجازی عشق کے زخم خوردہ نہیں ہیں مگرا نھیں اس عشق سے آشنائی ضرور ہے۔ ان کا محبوب ایک با حیا مشرقی محبوب ہے۔ انھوں نے محبوب کے آنسوؤں اور زلف و رخسار کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ بعض جگہ تو وہ روایتی عاشق کا روپ دھار ے نظر آتے ہیں:

نگہ بدلی ہوئی ہے آج حسنِ فتنہ سامان کی

 

بحمد اﷲ کھلی قسمت مرے حبیب و گریباں کی

 

کسی کے عارض سیمیں پہ آنسو جھلملاتے ہیں

 

کہ تاروں نے چرا لی ہے تجلی ماہِ تاباں کی

(۷۰۳)

شادانی کی غزل میں الفاظ و تراکیب زیادہ تر روایتی ہی برتی گئی ہیں لیکن بعض تراکیب ایسی بھی ہیں جو نسبتاً کم استعمال ہوئی ہیں۔زیادہ تر درمیانے درجے کی طوالت کی بحریں ملتی ہیں کہیں کہیں مختصربحر کا استعمال بھی ہے لیکن شادانی نے طویل بحروں سے اجتناب ہی کیا ہے۔ انھوں نے غالب ،اقبال اور فیض کی غزل کی زمین میں بھی غزلیں کہی ہیں۔ اس حوالے سے ’’شعلہ نمناک‘‘ کی متعدد غزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

۶۸۰۔ڈاکٹر انور سدید،’’شمع و محراب‘‘،مشمولہ’’دائرے‘‘،ص: ۱۰

۶۸۱۔ڈاکٹر وزیر آغا’’دیباچہ‘‘،مشمولہ’’برگِ گل‘‘،ص ۸

۶۸۲۔ڈاکٹر سلطان محمود حسین،’’تاریخ پسرور‘‘،ص ۵۷،۲۵۶

۶۸۳۔طاہر شادانی ،’’شعلہ نمناک‘‘،لاہور،ایوانِ ادب ،۲۰۰۰ء،ص ۳۰

۶۸۴۔ایضاً،ص :۳۷

۶۸۵۔ایضاً،ص :۴۸

۶۸۶۔ایضاً،ص :۴۸

۶۸۷۔ایضاً،ص :۴۹

۶۸۸۔ایضاً،ص :۴۰

۶۸۹۔پروفیسر حفیظ صدیقی ،’’طاہر شادانی کی نعتیہ شاعری‘‘، مشمولہ’’تحریریں‘‘،نعت نمبر،۱۷،اگست ۱۹۹۷ء،ص: ۴۱

۶۹۰۔جعفر بلوچ،’’شادانی اور ان کا کلام‘‘،مشمولہ’’شعلہ نمناک‘‘،ص :۴۴

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...