Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

سلیم واحد سلیم
ARI Id

1688382102443_56116106

Access

Open/Free Access

Pages

200

سلیم واحد سلیم(۱۹۲۱ء۔۱۹۸۱ء) کا اصل نام سلیم ہے جبکہ قلمی نام سلیم واحد سلیم ہے۔ آپ سلیمؔ تخلص کرتے تھے۔ سلیم آگرہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۲ء میں سلیم واحد سلیم نے طبیہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بورڈ آف انڈین میڈیسن اورسرجری میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ (۷۱۱) آپ کے والد خلیفہ عبدالواحد ملازمت کے سلسلے میں ہندوستان سے ایران چلے گئے۔ آپ بھی اپنے والد کے ساتھ ایران میں مقیم رہے۔ ایران سے واپس آنے کے بعد خلیفہ عبدالواحد نے اپنی بیگم اور بچوں سمیت سیالکوٹ میں رہائش رکھی۔ یہاں سیالکوٹ میں ہی سلیم واحد سلیم نے اپنا مطب بھی کیا۔ سلیم واحد سلیم کے بیوی بچے آگرہ میں مقیم تھے۔ ان کی اپنی بیوی ام حبیبہ سے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ اس لیے ۱۹۵۰ء میں آپ نے پاکستان میں منتقل ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ سلیم واحد سلیم سیالکوٹ کے علاوہ لاہور میں بھی مقیم رہے۔(۷۱۲)سیالکوٹ میں قیام کے دوران سلیم واحد سلیم سیالکوٹ کے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ آپ سیالکوٹ کی ادبی تنظیموں بزمِ ارباب سخن اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں شامل ہیں۔ سلیم بزم ارباب سخن سیالکوٹ کے پہلے سیکرٹری چنے گئے۔(۷۱۳) سلیم واحد سلیم کا کوئی شعری مجموعہ طبع نہیں ہو سکا۔ ان کا کلام ان کی ذاتی بیاضوں میں موجود ہے۔ جو کہ کسی رسالے اور جریدے میں شائع نہیں ہو سکا۔ تابندہ بتول نے اپنے ایم ۔فل اردو کے مقالے میں سلیم واحد سلیم کے شعری کلام کی تدوین کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی ان کے مکمل کلام کو مرتب نہیں کر سکیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے سارے کلام کو یکجا کرکے زمانی ترتیب سے مرتب کیا جائے۔

سلیم واحد سلیم کا کلام ادبی دنیا لاہور،ادبِ لطیف لاہور،اسلوب لاہور،دستور لاہور،ماحول لاہور،دوست لاہور،نیرنگ خیال لاہور، نقوش لاہور،مخزن لاہور،ہمایوں لاہور،سویرا لاہور،امروز لاہور،پرواز لائلپور،انقلاب لاہور،ساقی کراچی،حریت دہلی ،جامع دہلی ،آزادی نسواں دہلی ،پریم جموں ،قومی آواز کانپور اور علی گڑھ میگزین علی گڑھ جیسے رسائل و جرائد میں طبع ہوتا رہا۔

سلیم آگرہ کے مردم خیز علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم علی گڑھ میں مکمل ہوئی۔ان کی شاعری دہلی کے گردو نواح میں پروان چڑھی جس کی وجہ سے وہ دبستان دہلی کے شعرا میں شامل ہو گئے۔ ان کی غزل میں دبستان دہلی کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ جن میں داخلیت سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ سلیم واحد سلیم کی غزلیں پڑھنے سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری طورپر غالب کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ غالب کا شعور شعورِ ذات ہے کہ وہ صاحب انا ہیں اس لیے ان کے ہاں غموں کے ساتھ ٹکرانے کا انداز اور پھر تحرک کا احساس،انسان کو کائنات کے ازلی و ابدی سوالات ،دنیا و عقبی کے جھگڑے اور جنون و وحشت کی جانب جاتا ہے۔ یہی کچھ سلیم کے ہاں واضح اور نکھرا نکھرا نظر آتا ہے۔ سلیم نے بڑے وسیع شعوری اختیار کے ساتھ غالب کی پیروی کی ہے:

کچھ شکایت ہے اگر تو اس دل مضطر سے ہے

 

مصلحت دشمن ،جنوں پرور سکون نا آشنا

 

جلوۂ محفل ہو یا رنگینی بالائے بام

 

دل کی ہستی ایک مدت سے ہے صحرا آشنا

(۷۱۴)

اُردو شاعری حسن و عشق کے مضامین سے بھری پڑی ہے۔ لیکن ہر شاعر نے اپنے انفرادی تجربات کو نیا پیکر عطا کر کے حسن و عشق کے موضوعکو بیان کیاہے۔ سلیم بھی انھیں شعرا میں سے ایک قدآور شاعر ہیں۔ جنھوں نے مضامین حسن و عشق کو بھی ایک نیار نگ اور آہنگ عطا کیا ہے۔ ان کے عشقیہ اشعار میں تنوع،جدت طرازی،اور نکتہ آفرینی نظر آتی ہے۔سلیم کے کلام میں اجتہاد کے پہلو بہ پہلو روایت کی پائیداری سے جو شغف ہے وہ ان کی عشقیہ شاعری میں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے:

ابھی تو وہ مہرباں ہیں ابھی تو جی بھر کے پیار کر لیں

 

نہ جانے پھر اوج پر کب آئے ہماری تقدیر کا ستارہ

 

جہاں جہاں غم دوراں نے لی ہے انگڑائی

 

وہاں وہاں ترے انداز ہم کو یا د آئے

(۷۱۵)

óعشق وہیں ہوتا ہے جہاں حسن نظر آئے اور جہاں عشق ہو وہاں حسن ضرور نظر آتا ہے۔ وہ حسن کی رنگینی ،تاثر اور اس کی ساحرانہ کیفیت کا ذکر کرتے ہیں لیکن حسن کی تفصیلی تصویر کشی نہیں کرتے۔ وہ محبوب کے حسن کو مجموعی طورپر سامنے لاتے ہیں۔ سراپا نگاری نہیں کرتے:

جہانِ دل ترے جلووں سے ہو گیا معمور

 

کہاں کا شعلہ سینا کہاں کا جلوہ طور

 

وجود عشق سے قائم ہے حسن کی شہرت

 

اس نے کی ہیں تری بے نیازیاں مشہور

(۷۱۶)

سلیم کے نزدیک نسوانی حسن کے دیگر عناصر میں سے چشم و نگارکا حسن سب سے زیادہ پر کشش اور متاثر کن ہے۔ ایک جگہ وہ نگاہ کی طاقت گفتار کا ذخر کرتے ہیں کہ لبوں کی حرکت کے بغیرنگاہ کی جنبش کیسے کلام کرتی ہے:

بے صوت و لفظ سیل معانی تھا موجزن

 

تھا جنبش نگاہ سے کام اس کلام میں

 

چشم تر سے سیل اشک غم رواں ہوتا رہا

 

ماجرائے درد بے پایاں بیاں ہوتا رہا

(۷۱۸)

سلیم کی شاعری میں عشقِ مجازی کے ساتھ عشقِ حقیقی کے بھی جلوے بکھرے ہوئے ہیں:

ایک ہی حسن حقیقت ہے یہاں ہو یا وہاں

 

عالمِ ہستی میں بھی کون مکاں سے دور بھی

(۷۱۹)

سلیم کی شاعری داخلیت کا خوبصورت نمونہ ہے ۔سلیم اپنے دل کی دنیا میں جھانک کر اس کی واردات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر باہر کی دنیا کے بارے میں کچھ کہتا ہے تو اسے بھی شدید داخلیت میں ڈبو کر پیش کرتا ہے۔ ان کے ہاں داخلی جذبات اور ان کے بیان پر خوبصورت اظہار ملتا ہے:

رواں ہے دیدۂ پُرنم سے سیلِ اشک سلیمؔ

 

مثال شمع فروزاں پگھل رہا ہوں میں

 

سمجھ رہا تھا اسے بھول ہی گیا ہو گا

 

کہ دفعتاً مرے دل کو خیال یار آیا

(۷۲۰)

{سلیم کی شاعری میں سماجی نا انصافیوں اور انسان کی محرومیوں نے خاصی جگہ پائی ہے۔ وہ طبقاتی تقسیم سے نالاں ہیں۔ وہ سامراجیت کے خلاف لفظوں کے ذریعے جہاد کرتے ہیں۔ وہ ہر کمزور پر ظلم کرنے والے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کی شاعری پر ترقی پسند تحریک کے اثرات نمایاں طورپر نظر آتے ہیں۔ وہ معاشرے میں سرمایہ داری ،طبقاتی تقسیم اور آمریت کے سخت مخالف ہیں۔وہ معاشرے میں مساوات کے نظام کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک یہ نظام انقلاب کے ذریعے وجود میں آسکتا ہے:

جلا کے اک روز خاک کر دے گا قصر شاہی کے بام ودر کو

 

یہ شعلہ سر کشی جو پنہاں ہماری جانِ نزار میں ہے

 

آسماں بوس قصر جن میں چراغ جلتے ہیں عشرتوں کے

 

مٹا کے رکھ دو انھیں کہ مدت سے وقت اسی انتظار میں ہے

 

 (۷۲۱)

Ãسلیم واحد سلیم کو بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک محرومیوں اور ناکامیوں کا سامنا رہا۔ بچپن میں والدہ کی وفات کے بعد سوتیلی ماں کی سختیاں ،والد کی لا پروائی ،جوان ہونے پر جائیداد کا چھن جانا،مفلوک الحال،اعزا ء اور دوستوں کی سرد مہری ،ازدواجی زندگی میں بے اطمینانی ،اولاد سے دوری،سی آئی ڈی کا پریشان کن رویہ ،آشفتہ سری،عالم جنون میں دوستوں کی بیگانگی ،ان تمام باتوں نے ان کی زندگی کو ایک المیہ بنا دیا ہے۔ اپنی اس دکھ بھری داستان کو انھوں نے کئی جگہ اپنے اشعار میں بیان کیا ہے:

راز داروں نے دکھ دئیے ہیں بہت

 

9خامکاروں نے دکھ دئیے ہیں بہت

 

+ستمِ غیر کی شکایت کیا

 

اپنے پیاروں نے دکھ دئیے ہیں بہت

(۷۲۲)

 

نہ جانے کس لیے جو آشنا بھی ملتا ہے

 

ہمارے واسطے لاتا ہے درد کی سوغات

(۷۲۳)

5سلیم کی شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف جذبات وا حساسات کے شاعر ہی نہیں بلکہ ان کی شاعری پر تعقل اور تفکر کی فضا چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ چیزوں کے بارے سوچ کا عنصر ملتا ہے۔ کائنات کے ازلی و ابدی سوالات ،دنیا ،عقبیٰ،جنون،وحشت،جیسے مضامین جا بجا ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ وہ اشیاء کے باطن میں پہنچ کر ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کائنات کے مظاہر پر فلسفیانہ نظر ہے:

کیا خوب وجود بیکراں ہے

 

خود ہی زماں ہے خود ہی لا مکاں ہے

 

/ظاہر میں رنگ و روشنی ہے

 

5باطن میں بصارتوں کی جان ہے

(۷۲۴)

5سلیم انسانی عظمت کے قائل ہیں۔ وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اس کی وسعتوں کو بیان کرتے ہیں۔دنیا کی تمام رنگینی اور رونق انسان ہی کے لیے ہے۔ مخلوق خدا میں انسان کا رتبہ سب سے بلند ہے۔ وہ فطرت کی تمام قوتوں کو تسخیر کر سکتا ہے۔ انسان ہی کے دم سے کائنات میں حسن اور رنگینی ہے:

یہ کائنات کی رنگینیاں ہیں تیرے لیے

 

کہ آدمی کے لیے ہے جہان بو قلموں

 

فلک بھی عظمت انساں کے گیت گاتا ہے

 

یہ مت کہو کہ ستاروں پہ دسترس ہی نہیں

(۷۲۵)

Óسلیم نے غزل کی روایتی علامتوں اور استعاروں کو نئے معنوں میں استعمال کرکے انھیں اک حیات تازہ بخشی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو نئی علامتوں اور نئی تراکیب سے بھی مالا مال کیا ہے۔ جس کے باعث ان کی غزلوں میں انفرادیت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے:

ظلمتوں کے جنگل میں شعلہ صدا بھڑکا

 

دامنِ تصور میں کس کی خوش نوائی ہے

 

پھر دیدۂ پر آب میں ہے رنگ سکون کا

 

پھر اپنی ہی پلکوں میں جمال لب جو ہے

(۷۲۶)

åاگر مجموعی طورپر سلیم کی غزلیہ شاعری کو دیکھا جائے تو وہ مشکل پسند شاعر نظر آتے ہیں۔ یہ مشکل پسندی کئی سطحوں پر ہے کہیں کہیں یہ موضوعات میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ بنیادی طورپر فکر کے شاعر ہیں۔ان کا انداز آفاقی ،فلسفیانہ اور استدلالی ہے۔ زیادہ تر مشکل پسندی شعری طریق اظہا ریعنی اسلوب میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ فارسی تراکیب کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ او ر مشکل الفاظ لاتے ہیں:

مطلع زیست ہے غبار آلود

 

;دھندلی دھندلی سی بزمِ عالم ہے

 

ہر لمحہ نئی سوزن تدبیر رواں ہے

 

ہر لخطہ نیا چاک نئی طرز رفو ہے

(۷۲۷)

سلیم واحد سلیم اپنے ہم عصروں میں غزل گوکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی غزلیں ہی کثرت سے ادبی رسالوں میں شائع ہوئی ہیں۔لیکن غزل کے ساتھ ساتھ انھوں نے نظم پابند اور نظم آزاد بھی لکھی ہے۔ ان کی نظمیں انتہائی معیاری ہیں اورا مر واقعہ یہ ہے کہ ان کی نظموں میں نہ تو کوئی شعر کم کیا جا سکتا ہے کہ ربط ٹوٹ جائے ۔ اور نہ ہی کوئی شعر بڑھایا جا سکتا ہے۔ کہ بھرتی معلوم ہو ۔سلیم واحد سلیم کی ایک نظر ’’محاذ لاہور۔۷ ستمبر۱۹۶۵ء‘‘ کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

گولے آتے رہے جسم کٹتے رہے

 

ہم بھی نزدیک اور دور پھٹتے رہے

 

گولیاں مینہ کی صورت برستی رہیں

 

اُڑتے سانپوں کی مانند ڈستی رہیں

 

9دھول اُڑتی رہی شور بڑھتا رہا

 

9حملے کا ہر طرف زور بڑھتا رہا

 

;حملہ آور کے جب ٹینک بڑھنے لگے

 

7نوجوان سیج کی طرح چڑھنے لگے

(۷۲۸)

åسلیم واحد سلیم نے اپنی نظموں میں ہیئت کے نہایت ماہرانہ تجربات بھی کیے ہیں۔ زبان و بیان پر بھی سلیم کو قدرت حاصل ہے۔ اور وہ عروض کے بھی ماہر ہیں۔انھوں نے ایک نظم ’’سامراجی کتے مارے جائیں گے‘‘ میں عروض کے اعتبار سے نیا تجربہ کیا ہے۔ اس نظم کے آٹھ بند ہیں۔ہر بند میں پانچ مصرعے ہیں اس میں پہلے چار مصرعے رباعی نما ہیں اور پانچواں مصرع ہر بند کے پانچویں مصرعے کا ہم قافیہ ہے۔

سلیم نے کامیاب آزاد نظمیں بھی لکھیں ہیں ۔عارف عزیز لکھتے ہیں:

۱۹۴۰ء سے ۱۹۶۵ء کے درمیان نظم معریٰ میں انھوں نے جو کمال حاصل کیا وہ اپنا ایک مقام رکھتا ہے اور بعض نظموں کے مطالعے سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے ن ۔م راشد اور میرا جی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔(۷۲۹)

انھوں نے آزاد نظم میں بھی ارکان کی تعداد کو کم و بیش کرنے اور قافیے کے استعمال میں جدت کا ثبوت دیا ہے۔ اور قوافی کے استعمال کے ذریعے آہنگ کے مختلف تجربات کیے ہیں۔مثلاً ان کی ایک آزاد نظم ’’عجب سمان ہے‘‘ میں قافیے کے استعمال سے آہنگ پید اکیا گیا ہے:

عجب سمان ہے

 

غم بہار و نشاط عہد خزاں میں باہم

 

5خزاں کے پتے بھی گر رہے ہیں

 

3نئے شگوفے بھی کھل رہے ہیں

 

5ہوا میں بھی سر سراہیٹں ہیں

 

3بدن میں بھی سنسناہٹیں ہیں

(۷۳۰)

£سلیم واحد سلیم نے انگریز شاعروں سے متاثر ہو کر ان کی نظموں کے منظوم تراجم کیے ہیں۔ جن میں ایملی ڈکنسن اور رابرٹ فراسٹ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔انھوں نے انگریزی ادب کی وساطت سے بین الاقوامی ادب سے اپنا رشتہ استوار کیا تھا۔ انھوں نے روسی اور چینی شعرا کی نظموں کے بھی منظوم تراجم کیے ۔ بحیثیت مجموعی سلیم واحد سلیم کی نظموں میں فکری ،منطقی اور استدلالی رنگ نمایاں ہے۔ وہ تشبیہ ،استعارہ اور امیجری کو بنیاد بنانے والے شاعروں میں سے نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں جہاں کہیں شاعرانہ امیجری نظر آتی ہے۔ وہ بھی فکری سطح کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ان کی نظمیں موضوع اورہیئت ہر دو لحاظ سے جدت کا نمونہ ہیں۔

۷۱۱۔       تابندہ بتول،’’سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین‘‘،مقالہ برائے ایم فل اردو (غیر مطبوعہ) ،اسلام آباد،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،۱۹۹۶ء،ص: ۹۰۸

۷۱۲۔ایضاً،ص:۱۱

۷۱۳۔یوسف رحمت،’’عبدالنبی شجر طہرانی۔شخصیت و شاعری‘‘، مقالہ برائے ایم فل اردو (غیر مطبوعہ ) اسلام آباد،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،۱۹۹۵ء،ص ۴۲

۷۱۴۔سلیم واحد سلیم ،’’نگار‘‘(اصنافِ شاعری نمبر) کراچی نومبردسمبر،سالنامہ،۱۹۶۷ء،ص ۳۵

۷۱۵۔ایضاً،ص:۳۸،۳۹

۷۱۶۔سلیم واحد سلیم ،مشمولہ’’نیرنگِ خیال‘‘(سالنامہ)، لاہور، ۱۹۴۶ء،ص: ۲۷

۷۱۷۔ایضاً،ص:۳۲

۷۱۸۔ایضاً،ص:۳۵

۷۱۹۔سلیم واحد سلیم،مشمولہ ’’ہمایوں‘‘،ستمبر۱۹۴۹ء،ص :۳۷

۷۲۰۔ایضاً،ص:۳۷،۳۸

۷۲۱۔ایضاً،ص:۴۱

۷۲۲۔سلیم واحد سلیم،مشمولہ ’’آفاق ‘‘،لاہور،۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء،ص: ۲۱

۷۲۳۔ایضاً،ص:۲۲

۷۲۴۔ایضاً،ص:۲۴

۷۲۵۔سلیم واحد سلیم،مشمولہ ’’نقوش‘‘،لاہور،مارچ ۱۹۵۴ء،ص: ۴۰

۷۲۶۔ایضاً،ص:۴۱،۴۲

۷۲۷۔ایضاً،ص:۴۳

۷۲۸۔سلیم واحد سلیم،’’محاذ ‘‘لاہور،۷ ستمبر ۱۹۶۵ء،مشمولہ ’’نوائے وقت‘‘،لاہور،۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء،ص: ۸

۷۲۹۔عارف عزیز،’’اردو ادب کا ایک خاموش خدمت گار‘‘،روزنامہ ’’آفتاب جدید‘‘سنڈے ایڈیشن،بھوپال، اپریل،۱۹۸۱ء،ص:۹

۷۳۰۔سلیم واحد سلیم،’’عجب سمان ہے‘‘ ،مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘، لاہور:جنوری۱۹۶۶،ص :۵۵

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...