Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > آسی ضیائی رامپوری

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

آسی ضیائی رامپوری
ARI Id

1688382102443_56116107

Access

Open/Free Access

Pages

204

آسی ضیائی رامپوری(۱۹۲۰ء) کا اصل نام ضیاء اﷲ خان ہے۔ آپ رامپور میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم۔ اے اردو اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔ ۱۹۴۸ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد مرے کالج سیالکوٹ میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ آپ ۱۹۷۷ء تک مرے کالج میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ آپ کی غزلیں ،نظمیں ،اور نعتیں’’ مرے کالج میگزین‘‘ ماہنامہ’’ ساقی‘‘ کے علاوہ سہ روزہ’’ کوثر ‘‘،’’ایشیا‘‘،ماہنامہ’’ سیارہ‘‘ ،’’چراغِ راہ‘‘،’’سلسبیل‘‘،کراچی اور مختلف روز ناموں (’’نوائے وقت‘‘ ،’’جنگ‘‘ لاہور) میں شائع ہوئیں۔(۷۳۱) دو شعری مجموعے ’’گلدستہ نعت‘‘ اور’’ رگ اندیشہ‘‘ شائع ہو چکے ہیں ۔ان کا بہت سا شعری کلام مختلف رسائل و جرائد میں بکھرا پڑا ہے۔

آسی ضیائی نے نعت اور نظم کے ساتھ ساتھ غزل بھی لکھی ہے۔ بلکہ ان کے شعری کلام میں غزل کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کی شاعری پورے فنی لوازمات سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ آپ کی شاعری پر حالی اور اقبال کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ قومی و ملی شاعر ہیں۔آپ نے اپنی شاعری سے قوم و ملت کی اصلاح کاکام بھی لیا ہے۔ اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت ،دعوت عمل،انسانی محبت آسی ضیائی کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں:

نہ عاقبت اے واعظو ، تباہ کرو

 

خدا سے خوفزدہ خود کو بھی تو گاہ کرو

 

بنا لیا ہے جو اپنے کو تم نے بندہ نفس

 

کبھی تو نفس کو بھی بندہ الہ کرو

 

تمہارا دل ہے کہ نفرتوں کا بت خانہ

 

بدل کے اس کو محبت کی خانقاہ کرو

 

اٹھو کہ دعوت خیر العمل کی آمد ہے

 

ضمیر و ذوق و ذکاوت کو فرش راہ کرو

(۷۳۲)

نظم کے ساتھ ساتھ ان کی غزل میں بھی اعلی فکر کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کی غزل میں روایتی موضوعات نہیں ملتے۔ وہ اپنی غزل میں حقیقت پسند نظر آتے ہیں۔ حقیقت پسند اس لیے کہ وہ اردو ادب کے ایک کامیاب استاد بھی تھے۔ وہ انسانی زندگی کے حقائق کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔اس کی مثالیں ان کی غزل میں دیکھی جا سکتی ہیں:

یہ کوئی جو حل کر دے مسلہ ذرا سا ہے

 

[دورِ نو میں بھی کیوں شعر سب کے دل کو بھاتا ہے

 

چول چول بنتی ہے کہ کسی خلافت کی

 

اے بشر تیرے دل میں کون آبرا جا ہے

 

تم ہو میں ہوں ،یا قدرت کوئی بھی مصنف ہو

 

ہر نئی کہانی میں آدمی پرانا ہے

 

گریہ بھی تبسم بھی دونوں بے سبب آسیؔ

 

سوچتا ہوں ،لوگوں کو آج کل ہوا کیا ہے؟

(۷۳۳)

آسی ضیائی نے اعلیٰ پائے کی نعت گوئی کی ہے۔ ان کی نعتیہ نظموں میں منفرد اسلو ب اظہار،ندرت بیان اور فکری و جذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ ایک سچے عاشق رسولؐ ہونے کے ناطے آپ کی تب وتاب اور سوزو سا زسے ہم سب کے لیے عمل کا پیغام ہے۔ آپ کی تین نعتیہ نظمیں معذرت نعت ،دکھائی اور احتجاج بڑی شہرت کی حامل ہیں۔آسی محبت کے ساتھ اطاعت رسولؐ کے قائل ہیں کیونکہ اطاعت کے بغیر محبت کی کوئی حقیقت نہیں:

نعت گو کے لیے لازم ہے محبت اُنؐ کی

 

اور معیارِ محبت ہے اطاعت اُنؐ کی

 

جان سے بڑھ کر عزیزاس کو ہو سنت اُنؐ کی

 

روح تا جسم پہ چلتی ہو حکومت اُنؐ کی

 

یوں سدا اُنؐ کی رضا جوئی کو بے تاب رہے

 

جیسے پانی کے لیے ماہی بے آب رہے

(۷۳۴)

غزل کے معاملے میں آسی ضیائی کا خاص وصف زبان کا سلیقہ ہے۔ عروض و بحور پر مہارت کے باعث ان کی غزلیں فنی خصائص سے معمور ہیں۔

اساتذہ کی بحور میں غزلیں لکھنے کے باعث ان کے ہاں آمد سے زیادہ آورد کی کار فرمائی محسوس ہوتی ہے۔اسی وجہ سے کلام آسی میں وہ باتیں نہیں ملتی۔ جس سے غزل کی روایت بھری پڑی ہے۔ آسی کی شاعری کے اصل جوہر ان کی نظموں میں کھلتے ہیں۔نظموں میں وہ زیادہ تر عصری واقعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔بیان کی آزادی کی وجہ سے نظم میں آسی ضیائی کے اس شعری نقطہ نظر کی بھی وضاحت ہوتی ہے جس کی جڑیں اسلام ،انسانیت اور پاکستانیت میں پیوست ہیں اور جس کا جھکاؤ عامتہ الناس کی طرف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظم ان کی غزل سے زیادہ پر تاثیر اور نتیجہ خیز ہے۔

 

۷۳۱۔طلعت نثا ر خواجہ ،’’مرے کالج کے ادیب اساتذہ‘‘،مقالہ برائے ایم۔اے اردو (غیر مطبوعہ) لاہور،پنجاب یونیورسٹی ،ص :۵۵

۷۳۲۔آسی ضیائی رامپوری ،مشمولہ ’’ماہنامہ سیارہ‘‘،لاہور ،اکتوبر۱۹۸۲ء،ص :۲۸

۷۳۳۔آسی صیائی رامپوری،مشمولہ’’ماہنامہ شاعر‘‘،لاہور،جون ۱۹۶۹ء،ص :۱۸

۷۳۴۔آسی ضیائی رامپوری،مشمولہ’’ماہنامہ صبح نو‘‘،لاہور: جولائی ۱۹۶۹ء،ص: ۱۸

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...