Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

اصغر سودائی
ARI Id

1688382102443_56116108

Access

Open/Free Access

Pages

206

اصغر سودائی(۱۹۲۶ء۔۲۰۰۷ء) سیالکوٹ کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ نے مرے کالج سیالکوٹ سے بی ۔اے کیا ۔طالب علمی کے دوران آپ’’ مرے کالج میگزین‘‘ کے نائب مدیر تھے۔ ۱۹۵۲ء میں جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے ۔۱۹۸۴ء میں انھیں ان کی تعلیمی خدمات کے پیشِ نظر ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ آپ کی شہرت اس لحاظ سے بھی ہے کہ آپ تحریک پاکستان کی اساس بننے والے نعرہ پاکستان ،’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ ‘‘ کے خالق بھی ہیں۔ (۷۳۵)اصغر سودائی کا پہلا شعری مجموعہ ’’شہ دوسرا‘‘ بزم رومی و اقبال سیالکوٹ نے ۱۹۸۹ء میں طبع کیا۔ دوسرا مجموعہ کلام ’’چلن صبا کی طرح‘‘ صدیقی پبلی کیشنز لاہور نے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا۔ آپؐ کا تیسرا شعری مجموعہ’’ کرن صدا کی طر ح ‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اصغر سودائی کے نظریات ا ن کی اکہتر سالہ زندگی کا نچوڑ ہیں۔ انھوں نے مختلف تحاریک کازمانہ دیکھا اصغر نے تحریکِ پاکستان کی پرزور جدوجہد کو پروان چڑھتے اور پاکستان کو وجود میں آتے دیکھا۔ ادبی تحاریک میں انھوں نے رومانی اور ترقی پسند تحریک کا زمانہ دیکھا۔

ان کے نظریات میں اقبال کے افکار کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ بھی مغرب کی غلامی کو ملتِ اسلامیہ کے لیے باعث ِہلاکت و تباہی قرا ر دیتے ہیں۔ اصغر کے خیال میں اسلام دین فطرت ہے اور اس میں تمام مروجہ علوم کا نچوڑ موجود ہے۔ وہ اسلا م ہی کو انسانی زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں اور اسلام کی صداقتوں او ربین الاقوامیت کے قائل ہیں۔

اصغر سودائی بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔قیام پاکستان کے بعد جن شعرانے میر کے رنگ سخن کی پیروی کی ان میں ناصر کاظمی ،خلیل الرحمان اعظمی اور شہرت بخاری شامل ہیں۔ان شعر امیں اصغر سودائی کانام بھی آتا ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا ہے۔ ان کی غزل قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں اپنے وطن سے بے پناہ محبت ہے جیسا بھی ہے اچھا ہے یا برا ان کا اپنا وطن ہے۔ حصولِ وطن ان کے لیے خوشی کا باعث ہے:

گو اندھیرا ہے در و دیوار اپنا تو ہے

 

جس طرح کا بھی ہے جیسا بھی گھر اپنا تو ہے

(۷۳۶)

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد یہاں استحصالی قوتوں نے بہت زور پکڑا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو کوئی ایسا حکمران میسر نہ آسکا۔ جو اس معاشرے کوان اقدار سے روشنا س کراتا۔ جن کے فروغ کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ اقتدار کی حوس میں حکمران طبقے نے ملکی مفادات کو پس ِ پشت ڈال دیا۔ اصغر کہتے ہیں کہ وطن کی خاطر جان کی قربانیاں اس لیے دی گئیں تھیں کہ لوگ اپنی زندگیاں امن و امان میں گزار سکیں ۔لوگوں کو اپنی اقدار، رسم ور واج اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا ماحول میسر آسکے۔ لیکن جب اصغر اقدار کی پامالی دیکھتے ہیں تو وہ پکار اٹھتے ہیں:

یہ بے چہرگیوں کا منظر دھیان میں کب تھا

 

ایسا موسم میرے سان گمان میں کب تھا

 

میرے سامنے اک اک منظر ڈوب رہا تھا

 

میں اندھا ان لمحوں کے دوران میں کب تھا

 

یہ کتاب وفا کی کہانی سہی ختم ہونے کو آئے گی کس موڑ پر

 

اور ٹپکے گا کس کس بدن سے لہو اور کتنے ورق زر نگار آئیں گے

(۷۳۷)

اصغر اپنے دور کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ایک مشاق کی طرح زمانے کی نبضوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے ترتیبی ،معاشرتی بگاڑ اور انسانی اقدار کے بے قدروقیمت ہوجانے کا دکھ کاا ظہار اور گہرے طنز کو شاعری میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں انسانی کج روی اور تیز رفتارزمانے کے عیارانہ رویوں پر نوحہ کناں ہیں۔ ان کے ہاں غزل کے بنیادی موضوع کے علاوہ زندگی اور خاص طورپر معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہوئے اشعار بھی جا بجا ملتے ہیں:

پانی دے کر سینچے کچھ بے نام شجر کچھ سائے

 

مسلسل سوچ رہا ہوں ان میں میٹھا پھل کب آئے

 

داموں بک سکتے ہیں پیلا سونا نیلے پتھر

 

مٹی خالص مٹی اس کی قیمت کو چکائے

(۷۳۸)

 

کون بتائے میری بستی چین میں ہے یا عذاب میں ہے

 

سارے دریا جاگ رہے ہیں اور سمندر خواب میں ہے

(۷۳۹)

½غزل گو اپنے لیے جس طریقہ اظہار یا لب و لہجہ کا انتخاب کرتا ہے۔ اِس کا تعلق اِس کی ذات کی کشمکش اور اس کے ذاتی کرب سے ہوتا ہے ۔لیکن اس کے ذاتی کرب کے پس پردہ معاشرتی زندگی ،اس کی کشمکش ،اس کی زندگی کے تضادات اور اسکیکشمکش اس کی زندگی کے تضادات اورا س میں پائی جانے والی پیچیدگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں معاشرتی تضاد کا ذکر بھی کرتے ہیں:

سارے مغنی اک جیسے ہیں اس گنبد کے اندر پھر بھی

 

اک آواز سے لوری نکلے اک آواز سے نکلے ہائے

(۷۴۰)

 

اس اعتماد ذات پر قربان جائیے

 

کتنے وثوق سے مجھے دھوکا دے گیا

 

طوفاں کی اس ادا میں بھی کتنا خلوص ہے

 

ساحل تک آ گیا ہے مجھے ڈھونڈتا ہوا

(۷۴۱)

اصغر سودائی کی شاعری میں کلاسیکی روایت کا ایک بھر پور احسا س ملتا ہے۔ اس میں اردو غزل کے نمایاں لہجوں کا دلکش رچاؤ ہے۔ جسے انھوں نے اپنی ذہنی پختگی کی بنا پر بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی غزل میں سمویا ہے۔ کلاسیکی شعرا میں غالب ان کے پسندیدہ ترین شاعر ہیں۔ ابتدائی شاعری پر غالب کے اثرات ملتے ہیں۔اصغر نے ان کے رنگ میں شاعری بھی کی ہے:

اپنے زخموں کو کریدیں تو ہمیں چین آئے

 

کوئی ہم سا بھی نہ آزاد طلب ہو جائے

 

9ہائے وہ ہنگامہ ہائے روز و شب

 

ہم کہاں ہیں وہ نہ تھے جن کے لیے

(۷۴۲)

اصغر سودائی کی غزل میں عشق مجازی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کا محبوب بھی اردو غزل کا روایتی محبوب لگتا ہے۔ جو عاشق پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔ ان کی شاعری میں عشقیہ اشعار دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی روایتی عشقیہ داستان بیان کی جارہی ہے۔ ان کے ہاں حسرت کا ساانداز ابھرتا ہے کہ محبوب خود کو چھپاتا بھی ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے:

جو دل کی بات زباں تک نہ لا سکے دونوں

 

ادھر حیا کا تکلف ادھر حجاب سا تھا

 

اس جان تماشا کو محتاط اگر دیکھو

 

رہ رہ کے نظر اٹھے بھر بھر کے نظر دیکھو

(۷۴۳)

ان کی شاعری میں روایتی عشقیہ واردات و کیفیات جا بجا ملتی ہیں۔ا ن کی غزل پڑھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا قدم روایت میں ہے۔ جس میں غم دوراں بھی ہے اور غم جاناں بھی :

بہار آتی ہے لیکن خانہ ویرانی نہیں جاتی

 

نہیں جاتی گلوں کی چاک دامانی نہیں جاتی

 

رات کلیوں نے بہت روپ چمن میں بدلے

 

تیری آنکھوں سے مگر نیند چرائی نہ گئی

(۷۴۴)

)محبوب کی سراپا نگاری میں ہماری اردو غزل کی روایت ہے۔ ولی سے لے کر غالب تک شعرا نے اپنے اپنے انداز سے او ر عصری حالات کے مطابق محبوب کی سراپا نگاری کی ہے۔ اصغر سودائی کے ہاں بھی محبوب کے سراپے کا بیان بہت زیادہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے محبوب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ کہیں کہیں اس کا مطالعہ حیاتیاتی نقطہ نظر سے بھی کرتے ہیں۔ محبوب کی آنکھ ،زلفیں ،قد و قامت ،چال غرض کہ ہر چیز کو بیان کرتے ہیں:

ہونٹ مصری کی ڈلی بول رہی ہو جیسے

 

آنکھ سے اڑنے کو پر تول رہی ہو جیسے

 

گال مکھن میں ملائے ہوئے سیندور کا عکس

 

چاندنی بند قبا کھول رہی ہو جیسے

 

چال مخمور نگاہی کی سر شام فراق

 

دل مہتاب کی رگ ڈول رہی ہو جیسے

(۷۴۵)

اصغر سودائی اپنی شاعری میں حسن پرست معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ حسن سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انھیں اپنا محبوب اس قدر خوبصورت لگتا ہے کہ اس کے سامنے پھولوں کی نزاکت و حسن بھی بے معنی ہے:

پھول کو یوں نہ لگا منہ کہ غضب ہو جائے

 

برگ گل کو تو ہوس ہے ترا لب ہو جائے

 

3کیا شعلہ بدن ادھر سے گزرے

 

-مٹی بھی شرار ہو گئی ہے

(۷۴۶)

شاعر کسی بھی معاشرے کا حسا س ترین فر د ہوتا ہے۔ مگر معاشرے کا یہ دستور رہا ہے کہ فنکار کو زمانے کی نا قدری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاعر ہی وہ فرد ہے جو معاشر ے میں کھوئی ہوئی اقدار کو واپس لانے کے لیے تگ و دو کرتا ہے مگر اس کے صلے میں سوائے دکھ کے کچھ نہیں ملتا۔ زمانہ اس کی قدر نہیں کرتا۔ زمانے کی ناقدری و نا شناسی کا شکار اصغر سودائی بھی ہیں۔اگرچہ وہ نا قدری کا شکار ہیں مگر ان میں ایک انا بھی ہے۔ ورنہ وہ کئی طریقے استعمال کر کے منظر عام پر آسکتے تھے مگر انھیں خود پر فخر ہے۔ اور وہ اپنی انا و خودی کو کبھی جھکنے نہیں دیتے:

لوگ سب بھول گئے اصغر سودائی کو

 

اس بھرے شہر میں ایک ہی دیوانہ تھا

 

تمہارا دردہوں صورت تو میری پہچانو

 

تمہارا کرب ہوں اے میرے اجنبی یارو

(۷۴۷)

 

جھک کے ملتا نہیں ہے سودائی

 

3آن اس دھان پان میں کچھ ہے

 

میری ماں سے میری جنم بھومی سے پوچھو

 

مجھ جیسا اکلوتا سارے جہاں میں کب تھا

(۷۴۸)

1موضوعاتی لحاظ سے اصغر کی غزل میں زمانے کی ناقدری کی شکایت ،معاشرتی صورت حال،او ر محبت جیسے موضوعات نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر ان کی شاعری کا فنی جائزہ لیں تو ان کے اسلوبیاتی مطالعے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شاعری میں زبان کی اہمیت مسلم ہے۔ شاعرکے دل میں جو خیال پیدا ہوتا ہے وہ اس کا اظہار زبان کے ذریعے کرتا ہے۔ اصغر نے نہ صرف موضوعات و فکر میں روایت سے فیض پایا ہے۔ بلکہ اس کا اسلوبیاتی مطالعہ بھی اہمیت کے قابل ہے۔ہر بڑے شاعرکے بعد ایک تقلیدی دور آتا ہے۔ جس دور میں ہر شاعر اس بڑے شاعر کے رنگ ِسخن کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میر کے تقلیدی دور کے بعد غالب و اقبال کا دور آتا ہے۔ اصغر سودائی کے رنگ سخن پر بھی اس شعری روایت کا اثر موجود ہے۔ ان کے اسلوب میں فارسی آمیز لہجہ اور تراکیب ملتی ہیں جو فارسی کی شعری روایت سے استفادہ کرتی معلوم ہوتی ہیں جس میں غالب اور اقبال کا اثر دکھائی دیتا ہے:

با وفا ہونے کا ایک اور بھی اعزاز ملا

 

اب ہیں گردن زدنی جب تھے فقط دل زدگاں

(۷۴۹)

 

آج ہر رنگ کی تلخی بھی گوارہ ہوگی

 

رونق بزم ہوئے خر و شیریں دہناں

 

/لب تشنہ نظر اُداس تو ہو

 

1اس غم کا کوئی نکاس تو ہو

(۷۵۰)

{اصغر سودائی نے غزل گوئی اور نظم گوئی کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں نعتیں بھی لکھی ہیں ۔وہ اردو شاعری میں بطور نعت گو ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ان کا نعتیہ مجموعہ’’شہِ دوسرا‘‘ تعجب انگیز اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اصغر کے نعتیہ کلام کا آغاز حمد سے ہوتا ہے۔جس میں خدا تعالیٰ کی توصیف اس کے مختلف اوصاف و صفات کے حوالے سے کی گئی ہے۔ انھیں پوری کائنات میں اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ واحد کا جلوہ نظر آتا ہے۔ جس کا اظہار ان کی شاعری میں نمایاں طورپر ملتا ہے:

دنیا کے اک اک گوشے میں تیرا نور ظہور

 

غارِ حرا ہو کوہ صفا ہو یا ہو منزل طور

 

_پھول اور کلیاں چاند اور تارے عرش و فرش ہیں تیرے

 

معجزہ کن کے جلووں سے دونوں جہاں معمور

(۷۵۱)

{اصغرسودائی نے نعت کہنے کے لیے غزل کا پیرایہ استعمال کیا ہے۔ ان کی نعت گوئی میں ملی درد جھلکتا ہے ۔ ان کے لیے معاشرتی بگاڑ نا قابل برداشت ہے۔ وہ موجودہ اخلاقی قدروں کی پامالی کی ذمہ داری تعلیمات نبوی سے دوری کو قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں ملت اسلامیہ جس اخلاقی اور تہذیبی زوال سے دوچار ہیں۔ وہ سب آنحضرت کی اتباع نہ کرنے کے وجہ سے ہے۔ انھوں نے اپنی نعتوں سے مسلمانوں کی اصلاح اور تبلیغ کاکام بھی کیا ہے۔ ان کی نعت کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ نبیؐکی شخصیت کے جلال و جمال اور سیرت مطہرہ کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے الہامی پیغام درخشاں تعلیمات کو بھی شامل کرتے چلے جاتے ہیں۔

نعت کے لیے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ حضورؐ کے ساتھ والہانہ محبت ہو ۔اصغر سودائی نبی اکرم ؐکے ساتھ ہر سچے مسلمان کی طرح غیرمعمولی محبت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتوں میں والہیت اور سپردگی بدرجہ اتم موجود ہے:

ازل کے نور کی تابندگی حسن بدن میں ہے

 

ابد کے ساز کی آواز ان کے ہر سخن میں ہے

 

جھلک شاید کہیں دیکھ لی جاتی ہے تجلی کی

 

کہ بے چینی ہے سورج میں تو بے تابی کرن میں ہے

(۷۵۲)

اصغر کی نعت میں انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے نعت کو وصف رسولؐ کے ساتھ ساتھ تاریخ و عمرانیات سے بھی ہم آہنگ کر دیا ہے۔ عربی زبان سے بھی انھیں شغف ہے۔ عربی الفاظ اور بعض جگہوں پر انھوں نے پورے مصرعے عربی میں استعمال کیے ہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی سودائی کی اس خصوصیت کا ذکران الفاظ میں کرتے ہیں:

ان کی نعت کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھیں زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل ہے۔چند مقامات پر انھوں نے بعض قرآنی آیات ان کے معنی و مفاہیم کو بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی نعت میں سمویا ہے۔ اس قدرت کلام نے ان کی نعت کو اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک ممتاز مقام بخشا ہے۔(۷۵۳)

اصغر سودائی کے اسلوب نعت میں عربی لفظوں اور آیتوں کے ساتھ ساتھ تلمیحات اور حوالے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ تاریخ یا قدیم قصوں کے بیان میں اصغران افراد کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جن کا آپ کی حیات مبارکہ سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق بنتا ہے۔ ان کی نعتوں کا ایک اہم عنصر ان کی تراکیب بھی ہیں۔ جن کا انھوں نے بہت استعمال کیا ہے۔ یہ ترکیبیں ان کے کلام میں پھولوں کی طرح بکھری ہیں۔فارسی تراکیب کا استعمال زیادہ اس لیے کرتے تھے کہ حافظ کا دیوان ہمیشہ ان کے زیر مطالعہ رہا۔ ایک طرف فارسی آمیز لہجہ اور دوسری طرف ہندی زبان کا اثر بھی ان کی شاعری میں موجود ہے۔انھوں نے ایک عمر ہندوؤں کے ساتھ گزاری جس کی وجہ سے ان کے ہاں ہندی الفاظ بھی مل جاتے ہیں:

تو جیسے میرا کٹھور سجن کچ ڈور چت چور سجن

 

تیرے دھیان سمے کا بھروسا تیرے دھرم میں آج نہ کل بادل

 

سب پنکھ پکھیرو جنگل کے سرداب کے اکڑوں بیٹھ گئے

 

پھر کال پڑا بوندوں کا پھر شور ہوا بادل بادل

(۷۵۴)

۷۳۵۔رضوانہ کوثر،’’اصغر سودائی ۔فن اور شخصیت ‘‘مقالہ برائے ایم ۔اے اردو (غیر مطبوعہ) لاہور،یونیورسٹی ۱۹۹۷ء،ص: ۹،۱۰

۷۳۶۔اصغر سودائی ،’’چلن صبا کی طرح‘‘،لاہور،صدیقی پبلی کیشنز،۱۹۹۹ء،ص: ۱۹

۷۳۷۔ایضاً،ص:۳۷،۳۸

۷۳۸۔ایضاً،ص:۴۱،۴۲

۷۳۹۔ایضاً،ص:۴۵

۷۴۰۔ایضاً،ص:۵۰

۷۴۱۔ایضاً،ص:۵۱،۵۲

۷۴۲۔ایضاً،ص:۵۳،۵۴

۷۴۳۔ایضاً،ص:۷۱،۷۲

۷۴۴۔ایضاً،ص:۲۳،۲۴

۷۴۵۔ایضاً،ص:۷۰

۷۴۶۔ایضاً،ص:۸۱،۸۲

۷۴۷۔ایضاً،ص:۸۳،۸۴

۷۴۹۔ایضاً،ص:۹۰

۷۵۰۔ایضاً،ص:۹۱،۹۲

۷۵۱۔اصغر سودائی،’’شہ دوسرا‘‘،سیالکوٹ،بزم رومی اقبال، ۱۹۸۹ء، ص ۱۵

۷۵۲۔ایضاً،ص:۲۵

۷۵۳۔تحسین فراقی،’’اصغر سودائی کی نعت گوئی‘‘،مشمولہ ’’شہِ دوسرا‘‘

۷۵۴۔اصغر سودائی،’’چلن صبا کی طرح‘‘،ص :۴۸

۷۵۵۔اصغر سودائی ،’’میرے تاثرات‘‘،مشمولہ ’’میرے گیت میرے آنسو‘‘،از یونس رضوی ،سیالکوٹ،زمزمہ،پرنٹنگ پریس، ۱۹۷۲ء،ص: ۱۰

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...