Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

محمد اسلم تاب
ARI Id

1688382102443_56116112

Access

Open/Free Access

Pages

211

تاب(۱۹۲۹ء ) کا اصل نام محمد اسلم ہے۔ لیکن ان کی پہچان تابؔ اسلم کے نام سے ہے ۔آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں محکمہ برقیات میں ملازم ہو گئے۔ ۱۹۴۹ء میں ان کی پہلی نظم ’’ادب لطیف‘‘میں مرزا ادیب نے شامل کی۔ تابؔ نے شاعری کا آغاز سکول کے زمانے سے ہی کر دیا تھا۔ مقامی ادبی تنظیموں اور مشاعروں میں باقاعدگی سے ایک سامع کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔(۷۶۴)تابؔ کے ابتدائی کلام میں سادگی اور معصومیت نظر آتی ہے۔ ان کا شعری کلام ’’فردوس ادب‘‘، ’’اوراق‘‘،’’افکار‘‘،’’لیل و نہار‘‘،’’امروز‘‘، ’’مشرق‘‘،’’لاہور‘‘،’’رابطہ‘‘،’’کراچی‘‘،’’ادب لطیف‘‘،’’ادبی دنیا‘‘،’’ہمایوں‘‘،’’نیرنگ خیال‘‘،’’فنون‘‘، ’’ساقی‘‘کراچی اور ’’ید بیضا‘‘سیالکوٹ میں شائع ہوتارہا۔ تابؔ جگر مراد آبادی کے ساتھ سیالکوٹ کے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں ’’بزمِ فکر و فن‘‘ ایک ادبی تنظیم کے تاب سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں تابؔ نے سیالکوٹ میں ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ نے نام سے ایک انجمن قائم کی جس کے کئی سال تابؔ سیکرٹری رہے۔(۷۶۵) تاب کا پہلا شعری مجموعہ ’’زخمِ وفا‘‘ ۱۹۷۲ء کو مکتبہ عالیہ لاہورنے شائع کیا۔ دوسرا شعری مجموعہ’’نقشِ آب‘‘ ۱۹۷۵ء کو مکتبہ عالیہ نے طبع کیا۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’سراب جاں‘‘ بنگش بک ڈپو لاہور نے ۱۹۹۵ء میں شائع کیا۔ چوتھا شعری مجموعہ ’’تیرے یاد کے سارے موسم‘‘ الحمد پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۰۱ء میں طبع کیا۔ تابؔ اسلم کا پانچواں شعری مجموعہ’’درد تیرے فراق کے ‘‘ نام سے زیر تکمیل ہے۔

تاب نے۱۹۴۹ء میں اپنی شاعری کی ابتدا کی تو ان کی زیادہ توجہ نظم کی طرف تھی ۔انھوں نے کم وبیش ہر موضوع پر نظم تحریر کی۔ بعد میں ان کا غالب رجحان غزل کی طرف رہا۔ آج بھی وہ غزل لکھ رہے ہیں مگر کہیں کہیں نظم بھی لکھتے ہیں۔ وہ روایت میں جدت اور انفرادیت پیدا کرتے ہیں مگر روایت سے ہٹتے نہیں ہیں۔وہ اپنی شاعری میں سماجی حالات اور معاشرتی نا ہمواریوں کو جگہ دیتے ہیں۔ انھوں نے عصری خیالات، رجحانات اور واقعات کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی۔ انھوں نے رومانوی شاعری بھی کی اور ان کے خیالات کسی قدر ترقی پسند بھی ہیں۔انھوں نے معاشرتی بے حسی، نا انصافی ، ظلم و تشدد، جبر اور جہالت کے خلاف قلم اٹھایا۔ ان کی آواز کسی حد تک فیض ؔکی آواز سے ملتی ہے مگر ان کی آوا ز دبی دبی سنائی دیتی ہے۔ وہ تشدد اور زیادتی کے قائل نہیں۔وہ اپنے قلم کو کسی آمر کے سامنے جھکنے نہیں دیتے۔ تابؔ کی شاعری میں حالات کی تلخیوں اور جبرو استبداد کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ معاشرے میں اقدار کی پامالی ،لوٹ کھسوٹ اور طاقتور کے ہاتھوں کمزور کا استحصال ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں:

سقراط میں نہیں ہوں تو پھر تابؔ کس لیے

 

9زہرِ سکوت مرگ پلایا گیا مجھے

 

منجمد روحیں ملیں اور برف سے پیکر ملے

 

ہر قدم پر زندگی کے ہاتھ میں خنجر ملے

(۷۶۶)

 

بڑھا ہے جس نواب ابرِ خوں بھی برسے گا

 

یہ راز فاش کرو شہر کے مکینوں پر

 

شور اتنا تھا کہ کوئی بھی صدا آتی نہ تھی

 

بھیڑ اتنی تھی کہ میں شہروں میں تنہا ہو گیا

(۷۶۷)

 

نقش اپنے ڈھونڈتے ہیں سبزۂ پامال میں

 

ہم کہ مٹی کی طرح ہیں دستِ ماہ و سال میں

 

کل یہاں انسان کے آنسو بھی تھے محشر بدوش

 

اب تو سکے خون کے ڈھلنے لگے ٹکسال میں

(۷۶۸)

اردو غزل کو حیاتِ دوام، جدت ،انفرادیت اور استحکام دینے والوں میں تابؔ سر فہرست ہیں۔ وہ استعارے،اشارے اور علائم کے پردے میں اپنی قلبی وارداتیں ،جذبات اور ذہنی امور کی اس طرح ترجمانی کرتے ہیں کہ ان کے ہر قاری کو ان کی اپنی داستان کا گمان گزرتا ہے۔ زندگی کے نئے تقاضوں اور ضرورتوں نے تابؔ کو موضوعاتِ شعری کی ایک نئی جہت عطا کی ہے۔

صورتِ مرگ ہے شہروں پہ شبِ درد محیط

 

اے نئے دن میں کہاں تک ترا رستہ دیکھوں

 

فاصلے پھیل گئے راہ میں صدیوں کی طرح

 

اب تو شاید مرا تجھ سے کبھی ملنا ہی نہ ہو

(۷۶۹)

تابؔ کی غزل میں جمالیاتی پہلو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ جمال ہیئت ،معانی اور صورت کی رعنائیوں سے اُجاگر ہوتا ہے۔ان کی غزل داخلیت سے عبارت ہے۔داخلیت ہی سے سوزو گداز پیدا ہوتا ہے۔ اسی داخلیت اور سوزو گداز سے رمزیت اور ایمائیت، موسیقی اور غنائیت جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں غزل کی جمالیاتی ہیئت کا وجود ہوتا ہے۔ تابؔ کی غزل موضوع ،مواد،ہیئت اور جمالیاتی حسن سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

عکس جس کے حُسن دلآویز کا پھولوں میں ہے

 

وہ کرن مہتاب کی اب تک مری آنکھوں میں ہے

 

رنگ دھنک کے چاند کی کرنیں تیرے نام

 

میرے خواب اور میری آنکھیں تیرے نام

(۷۷۰)

 

ہر اک غنچہ مہک رہا ہے ہر اک پنچھی چہک رہا ہے

 

چمن چمن میں اُتر رہی ہو بہارِ نو کی برات

 

میں دیکھ کر جنھیں حیرت بحال ہوں تابؔ اسلم

 

وہ لب گلاب سے تھے چہرہ آفتاب سا تھا

(۷۷۱)

Ýتاب کی شاعری میں حسن و عشق کے عناصر بھی جا بجا ملتے ہیں۔ حسنِ محبوب ان کی شاعری کا ایک اہم موضوع بھی ہے۔ وہ حیات کے شاعر ہیں۔ وہ رنگ ،لمس ،خوشبو اور زندگی کے مختلف رنگوں کے عکاس ہیں ۔ وہ محبوب کے حسن کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں:

نرم و نازک تیرے قامت کی طرح

 

;پھول بھی ہیں تیری صورت کی طرح

 

ہونٹ تیرے، تیری آنکھیں، ترا چہرہ دیکھوں

 

میں تری یاد میں کھو جاؤں تو کیا کیا دیکھوں

(۷۷۲)

تصوف میں خدا کے حوالے سے کائنات ،موجودات اور اسرارو رموز کا بیان کیا جاتاہے تاب اسلم کی شاعری میں بھی جا بجا تصوف کے عناصر ملتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کی سچائیوں سے بھی اپنی شاعری کے لیے مواد حاصل کیا ہے۔ وہ بہاروں کے حسن،پھولوں کی رنگینی ،بلبلوں کی چہک اور کائنات کی ہر چیز کے رنگ و بو میں محبوبِ حقیقی کے جلوے دیکھتے نظر آتے ہیں:

فضا کی زد میں اگر ساری کائنات ہے تابؔ

 

تو کوئی خواب محل ہم یہاں بنائیں کیا

(۷۷۳)

 

یہ کائنات یہ خوابوں کی وادیوں کا نگر

 

کسی کے بس میں کہاں اس کتاب کا پڑھنا

 

کنج دل میں میری چشم تر میں کون ہے

 

سوچتا ہوں گھُپ اندھیروں کے سفر میں کون ہے

(۷۷۴)

زندگی میں خوشیاں کم اور غم لا تعداد ہیں۔ مسلسل غم اور دکھ درد انسان کو مغموم اور مایوس کر دیتے ہیں لیکن مایوسیوں کے اندھیروں میں رجائیت کی شمع مایوسیوں کی تاریکیوں کو ختم کر سکتی ہے۔ تاب دکھ درد اور مایوسی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن مایوسی کا حصہ نہیں بنتے۔ وہ اپنی شاعری میں مشکلات سے دوچار نظر آتے ہیں۔ لیکن ان مشکلات کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتے۔ وہ ہر حال میں رجائیت اور امید پرستی کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں موجود رجائیت کا عنصر ان کی فکر کا حصہ بن گیاہے۔ وہ شام سے مایوس نہیں ہوتے کیونکہ انھیں امید ہے کہ ہر شام کے بعد ایک سحر بھی آتی ہے۔ وہ بجلیوں سے تنگ آکر آشیانہ بنانا نہیں چھوڑتے وہ ہر حال میں اپنے عزم کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں:

فلک سے پھول گرتے ہیں زمین پر

 

9یہ نظارہ میں اکثر دیکھتا ہوں

 

[دکھ اور سکھ کے سارے موسم اپنے دھیان میں رکھنا

 

[رات ہے سر پر دیا جلا کر تم بھی مکان میں رکھنا

(۷۷۵)

 

تمام عمر کٹ گئی ہے خواب دیکھتے ہوئے

 

خزاں کے زرد ہاتھ میں گلاب دیکھتے ہوئے

 

ایک گلاب مہکتا جائے رات کے سونے آنگن میں

 

جانے یہ آواز ہے کس کی مرے دل کی دھڑکن میں

(۷۷۶)

¯زندگی کے بارے میں مختلف لوگوں نے اپنے تجربات، محسوسات اور مشاہدات کے بعد نظریے قائم کیے ہیں۔ تاب نے بھی زندگی کے مختلف طور ،رنگ اور دور دیکھے۔ زندگی میں دھوپ سایہ اور شادی و غم کے مختلف ذائقے چھکے ہیں۔ تاب کے نزدیک زندگی کا تغیر مسلسل یعنی اس کا تحرک اور روانی زندگی کے ہر دم جواں پیہم رواں رکھتی ہے۔ بہتی زندگی میں انسان کبھی ڈوب جاتا ہے۔ اور کبھی اُبھرتا ہے۔ کبھی وہ زندگی کی تلاش میں زندگی کا شعور پا لیتا ہے اور کبھی زندگی اسے بے معنی نظر آتی ہے۔ موت بھی زندگی کی ایک صورت ہے اور موت کی حقیقت پا جانے سے ہی زندگی کو دوام ملتاہے ۔گویا زندگی اور موت دو الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں:

فسوں زدہ ہے یہاں زندگی کا سب ماحول

 

سراب دہر سے گزرو مسافروں کی طرح

 

7زندگی تھی یا کوئی شہرِ خیال

 

;تابؔ جس کا کوئی دروازہ نہ تھا

(۷۷۷)

 

زندگی تلخ حقیقت تھی مگر تابؔ اسلم

 

اپنے احباب اسیر لب و گیسو نکلے

 

دیکھ تو ایک خواب کا منظر ہے زندگی

 

سوچو تو ہر نشاں زمانہ ہے بے نشان

(۷۷۸)

ïتابؔ اسلم کی شاعری میں ان کے ماضی اور ماضی کی یادیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ان کا کلام کچھ کھو جانے کا احساس ،تلاش ،جستجو اور بچھڑنے والوں کی یادوں سے مزین ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ماضی کو فراموش نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے آپ کو یادوں کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتے ہیں اور پھر باہر نکلنے کا احساس ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر حال جلد انھیں ماضی کے دھندلکوں سے باہر نکال لاتا ہے:

ذہن میں اُڑتی ہیں اب بھی ان گنت یادوں کی دھول

 

جیسے روحیں چیختی ہوں شب کے قبرستان میں

(۷۷۹)

 

یاد ماضی جب بھی آئی دیر تک

 

7پھول اور خوشبو گلے ملتے رہے

 

دیدہ و دل میں بھڑک اُٹھتے ہیں یادوں کے چراغ

 

اب تیرے بعد اگر شام کا منظر دیکھوں

(۷۸۰)

Çتابؔ کی شاعری حق گوئی اور کلمۂ حق سے بھری ہوئی ہے۔حق اور سچ کی آواز کو بلند کرنا وہ اپنا مذہبی او ر اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔تابؔ آمریت کے سخت مخالف ہیں ۔اس لحاظ سے وہ ترقی پسند تحریک کے نظریات کے حامی نظر آتے ہیں۔ وہ آزادی خیال کے قائل ہیں ۔ان کی شاعری میں مزاحمتی عناصر بھی ملتے ہیں۔ ۱۹۵۸ء میں لگنے والا مارشل لاء آزادی خیال کے خلاف تھا۔ تابؔ نے اس کے خلاف اپنی نظم’’آواز شکست ساز‘‘ میں آواز بلند کی۔ اس نظم میں تابؔ نے زبان بندی اور آواز حق پر لگائے گئے پہروں کے خلاف احتجاج کیا ہے:

اتنی گھمبیر اُداسی ہے فضاؤں پہ محیط

 

سوچتا ہوں کہ یہاں ہونٹ ہلاؤں کیسے

 

وہی زنجیر، وہی طوق، وہی دارو رسن

 

تیری آواز میں آواز ملاؤں کیسے

 

میں کہ اک ذرہ نا چیز ہوں بتلا مجھ کو

 

اُڑ کے مہتاب کی آغوش میں آؤں کیسے

(۷۸۱)

شاعر بہت حساس ہوتا ہے وہ اپنے سماج سے کسی صورت بھی کٹ کر نہیں رہہ سکتا ۔وہ داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت سے بھی منہ نہیں موڑ سکتا ۔شاعر اورشاعری معاشرے کی عکاس اور نقاد ہوتی ہے۔ شاعر جو کچھ دیکھتا ہے اسے فن کا لباس پہنا کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دتیا ہے۔ تابؔ اسلم ایسے ہی شاعر ہیں جو اپنی شاعری میں گہرا سماجی شعور رکھتے ہیں۔ وہ اپنے سماج کے لیے درد مند اور لطیف دل رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے پاکستان میں مفلسی اور عدم ترقی کی وجہ سے بہت سے مسائل اور دکھ جنم لے رہے ہیں۔ وہ انسانوں کے دکھوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔وہ انسانیت کے دکھوں اور آہوں کو لفظوں کی زبان دیتے ہیں:

کتنی شامیں یونہی گزریں دل کا خون ہوتے ہوئے

 

کون آیا ہے ابھی تک کون آئے گا یہاں

 

اپنی منزل چادر ظُلمت میں لپٹی ہوئی

 

زندگی اشک مسلسل، زندگی بار گراں

(۷۸۲)

تابؔ اسلم ایک سچا پاکستانی شاعر ہے۔ اس نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا۔ اس نے خون کی ندیوں کو بھی دیکھا جو پاکستان کے نام پر بہائی گئیں۔ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ نئی نسل پاکستان کی قدرو قیمت اور آزادی کی وقعت سے واقف نہیں ہے ۔تاب ؔکی نظموں اور غزلوں میں آزادی کے واقعات کا خوبصورت اظہار ملتاہے۔ وہ اپنی شاعری میں پاکستان کی مغموم فضا اور عوام کے کرب کا اظہار بڑے درد ناک لہجے میں کرتے ہیں۔وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے پاکستان اس لیے حاصل نہیں کیا گیا کہ یہاں ظلم ،نا انصافی اور بدا منی کا راج ہو ،وہ پاکستان کے حالات بہتر نہ ہونے پر پکا ر اٹھتے ہیں:

عدل و انصاف کی قندیل جلانے والو

 

ظلم کی رات مرے دل پہ گراں ہے اب بھی

 

امن و تہذیب کے گلزار سجانے والو

 

میرے سینے پہ وہی دورِ خزاں ہے اب بھی

 

وہی دم توڑتی مخلوق کا سیلاب عظیم

 

وہی زنجیر غلامی ،وہی زنداں کی فضا

 

وہی افلاس وہی بھوک کے مارے ہوئے جسم

 

وہی مقتل ،وہی مظلوم ،وہی تیغ جفا

(۷۸۳)

۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کی رات بھارتی فوج نے شہر اقبال سیالکوٹ پر بھی حملہ کر دیا۔ بھارتی فوج کو اس محاذ پر بہت بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔سیالکوٹ کے محاذ پر دنیا کی ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ہوئی۔ پاکستان کے ایک سو ٹینکوں اور جیالوں نے بھارت کے ایک بھاری لشکر اور چھ سو ٹینکوں کے پرخچے اڑا دئیے۔ تابؔ قومی و ملی شاعر ہیں۔وہ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی عوام اور فوج کی بہادری کو اپنی نظموں میں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ایک نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہو:

ظلم کی رات پر افشاں تھی افق تا بہ اُفق

 

امن کی شمع درخشاں کو بجھانے کے لیے

 

اپنے سینوں میں جو مدت سے تھا اکِ نقش کلیم

 

دست فرعون اٹھا اس کو مٹانے کے لیے

 

ان گنت چور بڑھے ارضِ وطن کی جانب

 

ظلم اور جبر کے طوفان اٹھانے کے لیے

 

ہم کہ تھے عظمتِ اسلاف کی قدروں کے امیں

 

بجلیاں بن کے گرے جنگ کے میدانوں میں

 

پرچم سبز کا ناموس بچانے کے لیے

 

مشعلیں لے کر بڑھے شب کے بیابانوں میں

 

ہم نے ان زندہ حقائق کو نیا رنگ دیا

 

بند اب تک تھے جو تاریخ کے زندانوں میں

(۷۸۴)

åستاون سال گزرنے کے باوجود کشمیر اور کشمیری عوام اب بھی زنجیر غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بھارت اپنی لاکھوں افواج کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچل رہا ہے۔ کشمیری آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ عدل و انصاف کے عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی طاقت کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔ ان مشکل حالات میں بھی کشمیری مجاہدین اپنی قوم کی آزادی کے لیے لہو کے چراغ جلا رہے ہیں۔تابؔ اسلم کو بھی سیالکوٹ میں کشمیری عوام کی چیخو و پکار کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ وہ ان حالات میں خاموش نہیں رہتے بلکہ کشمیری حریت پسندوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

میرے بیٹو مری آنکھوں کے درخشاں تارو

 

جاگ اُٹھو ظلم کی دیوار گرانے کے لیے

 

خون سے طاق و درو بام فروزاں کر دو

 

;جشنِ آزادی جمہور منانے کے لیے

(۷۸۵)

۲۸ مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان نے پہلا اٹیمی دھماکہ کر کے دنیا میں ساتویں اٹیمی طاقت بننے کا اعلان کر دیا ۔تاب نے اس دن کو روشن دن کہا ہے۔ ہندوستان کے ظلم کی تاریکی میں واقعی یہ دن روشن ہے ۔پاکستان کی قومی تاریخ میں یہ دن ایک عظیم روشن دن ہے ۔تابؔ اسلم کے خیال میں پاکستانی قوم نے اس روشن دن میں اپنے آپ کو پہچانا ہے۔ وہ اس دن کے بارے میں اپنی ایک قومی نظم ’’وہ دن کتنا روشن تھا‘‘ میں کہتے ہیں:

وہ دن کتنا روشن تھا

جب صدیوں کی سوئی آنکھیں نیندوں سے بیدار ہوئی تھیں

جب پتھر جیسے ہونٹوں پر گویائی کا رس ٹپکا تھا

جب بے حس بے جاں جسموں میں خوں کی حرارت جاگ اٹھی تھی

جب بے انت دلوں کی دھڑکن یک دم ایک آواز بنی تھی

میرے وطن کے پیارے لوگو

اس دن کی ساری خوشبوئیں ،ساری صدائیں ،سارے جذبے زندہ رکھنا

ہم نے جو تاریک اُفق سے

چاند اُبھارا تھا اس کو تابندہ رکھنا(۷۸۶)

تاب ؔاسلم اپنی بعض نظموں میں فیض کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ وہ ترقی پسند نظموں میں رومانیت کی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ترقی پسند نظم پر بعض ناقدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ترقی پسند نظم کی مقصدیت بیان نظم کو نظم کم اور پروپیگنڈہ زیادہ بنا دیتا ہے۔ تابؔ کی نظم میں کہیں بھی پروپیگنڈہ نہیں بنی اور اس کا سبب ان کا رومانوی لہجہ ہے۔ ان کی تراکیب، استعارے،تشبیہات اور رموز وعلائم میں بھی ایک تازگی اور نیا پن ہے۔ ’’شریک سفر‘‘، ’’تیرے بعد‘‘،’’یہ رشتہ کتنا سچا ہے‘‘،’’خود فریبی‘‘،’’ہم شاعرہیں‘‘،اورا ن کی متعدد نظموں میں تابؔ کا اسلوب اور لہجہ رومانیت کی توانائیوں سے مزین ہے۔ان کی غزل میں تغزل اپنی بھرپور صورت میں موجو د ہے۔ تاب ؔکی غزل اور تعزل کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ان کی شاعری میں تغزل کے سبھی رنگ انداز و مضامین پائے جاتے ہیں ۔ان کے ہاں زبان و بیان کا حسن بھی ہے۔ معاملہ بندی، شوخی ، طرفگی ،ایمائیت اور فلسفہ و تصوف بھی ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں تفصیل کی بجائے اختصار ،پہچان کے بجائے ضبط اور وضاحت کے بجائے ایمائیت جا بجا ملتی ہے۔ تاب ؔکی غزل میں تغزل اس کی روح بن گیا ہے:

نہ برگ و بار نہ سایہ شجر ہی ایسا ہے

 

5سراب جاں کا سفر ہی ایسا ہے

 

زرد زرد شاخوں پر کس طرح گلاب آئیں

 

گرد گرد چہروں پر خون کی ضیا کیسی

(۷۸۷)

تابؔ اسلم کا لہجہ نرم رو اور دھیما ہے۔ ان کی نظموں کا بڑا حصہ ایسا ہے جسے ترقی پسند کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے ہاں ترقی پسندوں کا وہ لہجہ نہیں ہے جس میں گھن گرج اور طوفانوں کا شور ہو۔ ان کی نظموں کی آواز ایک نرم روندی کی طرح ہے۔ ان کی شاعری کا لہجہ خطیبانہ نہیں۔تاب کی ڈکشن اشک فشاں مہر بلب، زخمی ہونٹ، زنجیر،طوق، امید کے صحرا ،نور سحر،صحن چمن، شام ،خزاں ،کاروان، فصل گل تر، آتش گل، دستِ شبنم، زنجیر گراں، سحر کا جھومر ،رات کی دہلیز ،تاج محل ،زنداں کی فضا، مقتل، پائل کا چھنا کا الغرض کتنی ہی ایسی تراکیب استعارے، علامات اور لفظیات ہیں جو تاب کی ڈکشن مرتب کرتی ہیں۔

تاب ؔنے اپنی نظم کے لیے نظم معریٰ، نظم ِ آزاد، قطعہ بند، پابند نظم ،نظم ثلاثہ اور سانیٹ کی ہییٔتں استعمال کی ہیں۔ ان کے اسلوب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی نظم کو معمہ نہیں بننے دیتے۔وہ ابلاغ اور تفہیم کو زیادہ ترجیع دیتے ہیں۔ان کے لفظ پوری معنویت کے ساتھ قاری کے دل و دماغ میں اُتر جاتے ہیں۔

۷۶۴۔زوبیہ چودھری ،’’شخصیت اور شاعری‘‘،ص:۱۲

۷۶۵۔ایضاً،ص:۱۳

۷۶۶۔تاب اسلم’’نقشِ آب‘‘،لاہور، مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۵ء، ص:۳۲، ۳۳

۷۶۷۔ایضاً،ص:۴۲،۴۳

۷۶۸۔ایضاً،ص:۷۵

۷۶۹۔ایضاً،ص:۸۰،۸۱

۷۷۰۔ایضاً،ص:۵۸،۵۹

۷۷۱۔ایضاً،ص:۲۱،۲۲

۷۷۲۔ایضاً،ص:۵۴،۵۵

۷۷۳۔ایضاً،ص:۶۰

۷۷۴۔ایضاً،ص:۶۲،۶۳

۷۷۵۔ایضاً،ص:۸۴،۸۵

۷۷۶۔ایضاً،ص:۹۵،۹۶

۷۷۷۔،’’زخمِ وفا‘‘،لاہور،مکتبہ عالیہ،۱۹۷۲ء،ص:۳۵،۳۶

۷۷۸۔ایضاً،ص:۵۲،۵۳

۷۷۹۔ایضاً،ص:۳۵

۷۸۰۔ایضاً،ص:۳۷،۳۸

۳۸۱۔ایضاً،ص:۵۸

۷۸۲۔ایضاً،ص:۱۴۶

۷۸۳۔ایضاً،ص:۱۵۰

۷۸۴۔ایضاً،ص:۲۰۰

۷۸۵۔تاب اسلم، کشمیر۔ایک صلیب،مشمولہ،’’ادبی دنیا‘‘، مارچ۔ اپریل۱۹۹۶ء،ص:۳۸

۷۸۶۔تاب اسلم، ’’وہ دن کتنا روشن تھا‘‘،مشمولہ، ماہنامہ’’ید بیضا‘‘ جولائی ۔اگست ۲۰۰۰ء،ص:۱۵

۷۸۷۔تاب اسلم’’تیری یاد کے سارے موسم‘‘،لاہور ،الحمد پبلی کیشنز،۲۰۰۱ء،ص:۳۲

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...