Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

آغا وفا ابدالی
ARI Id

1688382102443_56116113

Access

Open/Free Access

Pages

217

آغا وفا ابدالی (۱۹۲۹ء۔۱۹۹۸ء) کا اصل نام آغا ابو الحیات خان ابدالی تھا۔ آپ پٹنہ (عظیم آباد) کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آغا وفا ابدالی نے نواب سراج دین خان سائل دہلوی(جو داغ ؔدہلوی کے داماد تھے) کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔(۷۸۸) قیام پاکستان سے پہلے آپ کلکتہ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’چونچ‘‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ آپ ہندوستان میں دہلی کے روزنامہ ’’وحدت‘‘ اور ’’انصاری‘‘ میں بھی فکاہیہ کالم لکھتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آغا وفا ابدالی نے پسرور میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ روزنامہ ’’روشنی‘‘،’’کراچی‘‘،روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی ’’نوائے وقت ‘‘،لاہور ،’’کوہستان ‘‘،لاہور اور ’’سفینہ‘‘ لاہور سے بھی منسلک ہوئے اور ان میں کالم لکھتے رہے۔آپ نے پسرور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’نوائے پسرور ‘ ‘ کی بھی ادارت سنبھالی ۔(۷۸۹)

’’غبار دل‘ آغا وفا کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس کی پہلی اشاعت ۱۹۹۳ء میں پرفیکٹا پبلشرز لاہورسے ہوئی۔ اس میں قطعات کی تعداد ۲۵۲ ،۳ غزلیں اور ۴ نظمیں شامل ہیں۔ ’’شرار دل‘‘ دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ جسے ادبی سبھا پسرور نے ۱۹۹۴ء کو شائع کیا۔ اس میں قطعات کی تعداد ۱۷۲ ،۲ نظمیں اور ۱۲ غزلیں شامل ہیں۔ ’’بہار دل‘‘ آغا وفا کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جسے ادبی سبھا پسرور نے ۱۹۹۸ء میں شائع کیا۔ اس میں ۳۲ قطعات ،۹ غزلیں اور ۲۷ متفرق اشعار شامل ہیں۔

آغا وفا ابدالی بیسویں صدی کا ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری پاکستان کی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔ آغا وفا طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی بربادی پر خون کے آنسو بہاتا ہوا دکھائی دیتاہے۔ ان کی شاعری کا غالب حصہ قطعات پر مشتمل ہے۔

ہندوستان میں عہد غلامی کی دہکتی داستاں آغا وفا ابدالی کے سامنے تھی ۔جس کے سامنے بھیانک مناظر کو آغا وفا ابدالی نے اپنی سر گزشت میں بڑی تفصیل اور درد ناک انداز میں لکھا ہے۔ آغا وفا ان خونیں واقعات کے عینی شاہد تھے کیونکہ وہ خود اس قلزم خوں سے گزرے ۔جس میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا ،مسلمان لیڈروں کو زنداں میں ڈالنا،انھیں زندہ در گور کرنا اور مسلمانوں پرگولیاں چلانا غرضیکہ ان تمام واقعات میں وہ صداقت ہے جو دوسری جگہ کہیں نہیں ملتی۔ان حالات کے تناظر میں آغا وفا ابدالی اپنے جذبات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں:

کس قدر ہے خدمت انگریز کا جذبہ وفاؔ

 

کھیلتا ہے خون مسلم سے سکندر ہولیاں

 

تاکہ ہوں پامال انگریزوں کے دشمن ہند میں

 

خاکساروں پر چلائیں بے تحاشا گولیاں

(۷۹۰)

Åآغا وفا ابدالی میں جذبہ حریت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی جذبے نے ان کو آزادی کی ہر تحریک کے ساتھ وابستہ رکھا۔ سچا مسلمان کبھی بھی موت سے خائف نہیں ہوتا۔ ذرا تصور کیجیے کہ جب ہر طرف سے ظلم و ستم اپنے نقطہ عروج پر ہو تو آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے لیے کتنا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ آزمائش کے ایسے مشکل لمحے میں آغا وفا اپنے ساتھیوں کا حوصہ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

ہمت نہ ہارنا کبھی اے اہلِ حریت

 

سولی کا وقت آیا ہے موقع ہے دار کا

 

اس مرتبہ جو پکڑے گئے ہونگے توپ دم

 

;دھمکی دے رہا ہے گورنر بہار کا

(۷۹۱)

÷آغا وفا ابدالی اور ان کے پیروکار کی شبانہ روز محنت صبح آزادی کے سورج کے ساتھ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پوری دنیا کے نقشے پر منور ہونے لگی مگر آغا وفا ابدالی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہر لمحہ کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرکے اسے شعر کے قالب میں ڈھال دیا ہے جیسے:

ہو گئے آزاد صد سالہ غلام

 

5کھا گیا انگریز بالآخر شکست

 

-ہے یہی تاریخ آزادی وفا

 

5سال سینتالیس اور چودہ اگست

(۷۹۲)

قیام پاکستان کے بعد یہ نوزائیدہ مملکت گوناگوں مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ آغاوفا جواس مملکت کو ابتدا ہی سے مضبوط دیکھنے کے خواہاں تھے۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال ،راہنماؤں کے چال چلن اور سیاست دانوں کی سیہ کاریوں پہ آنسو بہانے لگے۔ جو سیاست دان سامراجی حکومت کے پالتو تھے وہی پاکستان کی تباہی کا سامان بنے ۔ا ن کی بدا عمالیوں کی بنا پر آغا وفا ہمیشہ کرب و بلا میں زنجیر پا رہتے اور ان کی ذہنی کیفیات پر ایسے اثرات مرتب ہوتے کہ ان کا قلم درد ناک جذبات رقم کرنے لگتا:

لغزش اہلِ سیاست نہیں دیکھی جاتی

 

رہنماؤں کی حماقت نہیں دیکھی جاتی

 

مسخرے راہ نمائی پہ کمر بستہ ہیں

 

اب یہ توہین قیادت نہیں دیکھی جاتی

(۷۹۳)

õملکی حالات کے پیش نظر آغا وفا کی بے چینی دن بدن بڑھتی چلی گئی جس سے وہ لمحہ بہ لمحہ سوچ کی گہرائیوں میں اُترتے چلے گئے کیونکہ آغا وفا نے چہروں کی تبدیلی کا نہیں بلکہ نظام میں تبدیلی کا خواب دیکھا تھا۔ جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے شاید وہ پہلے شاعر ہیں جو تھکے نہیں بلکہ مسلسل مصروف عمل رہے۔ وہ بڑی جرات و بے باکی کے ساتھ یوں اظہا ر کرتے ہیں:

قیادت کے طلب گاروں پہ لعنت

 

3وزارت کے پرستاروں پہ لعنت

 

/سیاست ابلہی بازی گری ہے

 

5سیاست کے سیہ کاروں پہ لعنت

(۷۹۴)

آغا وفا کے کلام میں سیاسی نظام سے زیادہ سیاستدانوں پر چوٹ دکھائی دیتی ہے ۔جس کی وجہ سے وہ دکھی تھے اور ملکی تباہی کے عجب طرح کے نظارے انھیں یہ کہنے پر اکساتے ہیں :

عجب طرح کے نظارے دکھائی دیتے ہیں

 

کہ اب تو دن میں بھی تارے دکھائی دیتے ہیں

 

اٹھائی گیروں میں کل تک شمار تھا جن کا

 

وہ آج راج دلارے دکھائی دیتے ہیں

(۷۹۵)

1آغا وفا زر پرست معاشرے کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔جس میں لوگوں کو ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کی ہوس ہوتی ہے۔ ایسے لوگ معاشرتی خوبیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہوس و لالچ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان وکیل بن جائے اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو لیڈری اختیار کرے:

یہ ہوس کا یہ تقاضا کہ جہاں میں اے دوست

 

زر کمانا ہے تو پڑھ لکھ کے پلیڈر بن جا

 

مگر کہتا ہے کہ اک بات مری یاد رہے

 

جب وکالت نہ چلے قوم کا لیڈر بن جا

(۷۹۶)

آغا وفا کے قطعات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ منافقانہ سیاست اور پاکستانی لیڈروں پر جب اشعار کہتے ہیں تو ان کا لہجہ زہر خند اور بیان تلخ ہوجاتا ہے۔ اسی لہر میں وہ ایسے الفاظ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے جو بظاہر شاعری کے الفاظ نہیں ہیں مگر اسے منفی رویوں کا ایک رد عمل سمجھنا چاہیے جو ایک حساس شاعر کا مسلہ ہوتے ہیں آغا وفا ملکی رہنماؤں کے افکار کا عمیق شعور وادراک رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی صحافتی زندگی کا ملکی لیڈروں سے گہرا ربط و ضبط تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ لیڈر ملکی رہنماؤں کی بجائے رہزنوں کا روپ دھار رہے ہیں ۔اس حقیقت کا اظہار آغا وفا درد دل کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں:

یہ بھی آذر کا اک کرشمہ ہے

 

7دل کو پتھر بھی لوٹ لیتے ہیں

 

7رہزنوں ہی پہ کچھ نہیں موقوف

 

7اب تو رہبر بھی لوٹ لیتے ہیں

(۷۹۷)

}آغا وفا پاکستان کی سا لمیت چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی کیونکہ صاحب اقتدار لوگ ہی ملک کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ پاکستان کی بقا صرف ایک صورت میں ہی ممکن ہے کہ تمام اہل سیاست کا خاتمہ ہو جائے۔انھیں ملکی سیاستدانوں سے اچھائی اور خیر کی کوئی امید نہیں اس حوالے سے وہ اس طرح رائے دیتے ہیں:

مری رائے غلط ہو رہبر و رہزن کے بارے میں

 

اگر ثابت جو ان کے درمیاں کچھ فرق ہو جائے

 

وطن محفوظ ہو جائے ہزاروں ابتلاؤں سے

 

وفا اہل سیاست کا جو بیڑا غرق ہو جائے

(۷۹۸)

¹آغا وفا کا معاشرہ اخلاقی محور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے اپنے معاشرے میں پیدا ہونے والی معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کو قدم قدم پر طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ آغا وفا گہرا سماجی شعور رکھتے ہیں۔ وہ اپنے معاشرے سے چو ر بازاری ،ڈکیٹی ،رشوت اوراسمگلنگ جیسی بد عنوانیو ں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ وہ ان سب برائیوں کا ذمہ دار بھی سیاسی لیڈروں کو قرار دیتے ہیں جن کے زیر اثر ہر برائی لا ینحل بنی ہوئی ہے۔ اور یوں عوام الناس کو ان خرابیوں میں مبتلا دیکھ کر آغا وفا پکاراٹھتے ہیں:

بے دھڑک پیدا ہوا بے ساختہ پیدا ہوا

 

ایک لیڈر جب مرا جھٹ دوسرا پیدا ہوا

 

چور بازاری ،گرانی ،رشوتیں ، اسمگلری

 

جو مرض پیدا ہوا ،سو لادوا پیدا ہوا

(۷۹۹)

ýآغا وفا ابدالی کے نزدیک جمہوریت سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور آخر کا ر عوام کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ وہ قوم و ملک کی خوشحالی کے لیے جمہوری نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ان کے کئی قطعے اس موضوع کی کڑی ہیں۔ آغا وفا پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

راہ طلب میں یارو مثبت قدم اُٹھاؤ

 

تقدیر کو سنوارو ،قسمت کو جگمگاؤ

 

جمہوریت ہے لعنت ،جمہوریت ہے لعنت

 

شاہی نظام لاؤ ،شاہی نظام لاؤ

(۸۰۰)

íآغا وفا کی پاکستان کے بین الاقوامی ممالک سے تعلقات پر بھی گہری نظر ہے۔ اس اعتبارسے آغا وفا کی شاعری آفاقی شاعری کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ آغا وفا مسلمانوں کے سامنے اس دور کو پیش کرتے ہیں جب ساری دنیا پر مسلمان حکمران تھے اور ہر لحاظ سے خود کفیل تھے مگر آج گردش دوراں نے انھیں مغربی طاقتوں کے ماتحت بنا دیا ہے۔ وہ مسلمانوں کی خودی کی موت پر طنز کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہیں:

دھوم تھی جن کی کشور کشائی کی وفا

 

ان کے ہاتھوں میں ہے اٹیم بم کے بدلے اب غلیل

 

اک قدم اپنی مرضی سے اٹھا سکتے نہیں

 

دستِ امریکہ میں ہے مسلم ممالک کی نکیل

(۸۰۱)

¹آغا وفا صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ توحید پر ان پختہ یقین و ایمان ہے۔ وہ زمانہ کے صوفی ازم اور تصوف سے نالاں ہیں ۔علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مگر آغا وفا نے اپنے انداز میں اس کی تصویر کشی یوں کی ہے:

رخ توحید دھندلایا تصوف کی سیاہی سے

 

مسلمانی ہوئی کمزور رسمِ خانقاہی سے

 

یہ اک واضح حقیقت ہے بقول شاعرِ مشرق

 

حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے

(۸۰۲)

áآغا وفا ادب میں مقصدیت کے قائل ہیں ۔ بے مقصدی ادب کو ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ۔ وہ مقصدی ،اصلاحی اور معنی خیز شاعری کرتے ہیں۔روایتی گل وبلبل اور حسن و عشق کے موضوعات کو وہ نا پسند کرتے ہیں۔جو کہ زمانہ حال و ماضی کے اکثر شعراکے موضوعات ہیں:

جسے دیکھو بزعم خود وہ شاعر

 

9وفاؔ چھوڑ اس پریشاں خاطری کو

 

3ادب پر وقت نازک ہے دعا کر

 

/خدا محفوظ رکھے شاعری کو

(۸۰۳)

ان کی شاعری میں مقامیت کے عناصر بھی ملتے ہیں۔ وہ پسرور کے مقامی شعرا و ادبا کو اپنی شدید طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ جو ادب کا بالکل شعور نہیں رکھتے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ادیب کہلانے کے دعوے دار ہیں:

کس قدر بد نصیب ہوتے ہیں

 

+آپ اپنے رقیب ہوتے ہیں

 

5یہ ہے پسرور اس نگر میں وفا

 

1بے ادب بھی ادیب ہوتے ہیں

(۸۰۴)

مسئلہ کشمیر دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ طویل عرصے سے اقوام متحدہ اس کے حل کے لیے سرگرداں ہے مگر کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے لیکن آغا وفا نے پاکستانی عوام کی دیرینہ خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے جو حل تلاش کیا ہے ۔ وہ ان کے مخصوص انداز کی بھر پور ترجمانی کررہا ہے:

بلا دقت ،بلا زحمت بلا تاخیر مل جائے

 

تمنا ہے یہ دیرینہ بلا شمشیر مل جائے

 

الٰہی معجزہ سرزد ہو کچھ ایسا جیالوں سے

 

کہ یہ ٹائر جلائیں اور جھٹ کشمیر مل جائے

(۸۰۵)

%آغا وفا کے قطعات کے حوالے سے اگر مجموعی طورپر دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے قطعات میں جہاں علم و فن ،زر پرستی ،معاشی ابتری ،معاشرتی ظلم و ستم ،وعدہ خلافی ،سیرتؐ،امن و امان ، حادثاتی ماحول کی پیداوار قسم کے رہنماؤں کی پیدائش ،قومی زبان اور اسلام کی بے بسی پر آنسو بہائے ہیں۔ وہاں انھوں نے خلاف شریعت اور بدعات پر نہایت زور دار الفاظ میں فقیہانِ مصلحت اور وارثانِ منبر و محراب کو بھی للکارا ہے۔ کلمہ حق کا اظہار وفا کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ان کی غزل کے موضوعات بھی ان کے قطعات کے موضوعات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی شاعری قیام پاکستان کے بعد جاگیردارانہ نظام اور سماجی برائیوں کے گرد گھومتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ موجودہ حالات کی ترجمانی بھی کرتی ہے۔ جس میں آغا وفا ابدالی نے زیادہ تر سیاسی اہل کاروں کے دور کی خرابیوں کو قلمبند کیا ہے۔ کچھ غزلیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

لوٹ ہے ڈاکہ زنی ہے لیڈروں کے راج میں

 

ہر طرف غارت گری ہے لیڈروں کے راج میں

 

جاں بلب ہر آدمی ہے لیڈروں کے راج میں

 

مبتلائے جاں کنی ہے ،لیڈروں کے راج میں

 

سہمی سہمی ہر کلی ہے ، لیڈروں کے راج میں

 

اوج پر عصمت دری ہے، لیڈروں کے راج میں

(۸۰۶)

{آغا وفا ابدالی کسی حد تک اکبر الہ آبادی کے مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی کا عہد بھی تہذیبی زوال کا عہد تھا۔ آغا وفا کا زمانہ بھی ایسی ہی صورت حال سے دو چار تھا۔ ملک میں امن و امان کے فقدان کا نتیجہ سیاسی بد حالی اور بے اعتباری کی صورت میں نکلا ۔طنز و مزاح کے حوالے سے بھی آغا وفا عہد جدید کے اکبر الہ آبادی ہیں۔ ان کی شاعری عطر کی شیشی ہے جس سے قاری کو اپنے عہد کی خوشبو آتی ہے۔ اس ضمن میں ان کی شاعری ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

آغا وفا ابدالی کی شاعری فنی محاسن کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ روانی ،تسلسل اور سادگی و سلاست ان کی شاعری کی خصوصیت اور پہچان ہے۔ ہندی زبان پر دسترس انھیں شاعری میں ان الفاظ کی آمیزش پر اکساتی ہے ۔بھکشا، سنگھا سن، پر جا جیسے الفاظ اجنبیت کی بجائے اپنائیت کا احساس پید اکرتے ہیں۔ ان کا ذخیرہ الفاظ و افر ہے۔ انھوں نے ادنیٰ سے ادنیٰ اور رکیک سے رکیک مضامین کو بھی خوبی سے باندھ کر عمدہ نتیجہ نکالا ہے ۔ان کا لہجہ عوامی ہے۔ ان کی شاعری میں موسیقیت اور مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔

۷۸۸۔نورین عارف،’’آغاو فا ابدالی۔شخصیت اور فن‘‘،ص:۱۸:۱۹

۷۸۹۔ایضاً،ص:۲۵،۲۶

۷۹۰۔آغا وفا ابدالی، ’’غبارِ دل‘‘،لاہور ،پرفیکٹا پبلشرز، ۱۹۹۳ء، ص:۲۲

۷۹۱۔ایضاً،ص:۲۳

۷۹۲۔ایضاً،ص:۳۱

۷۹۳۔ایضاً،ص:۳۶

۷۹۴۔ایضاً،ص:۴۲

۷۹۵۔ایضاً،ص:۵۹

۷۹۶۔ایضاً،ص:۴۵

۷۹۷۔ایضاً،ص:۳۷

۷۹۸۔ایضاً،ص:۶۸

۷۹۹۔ایضاً،ص:۸۷

۸۰۰۔آغا وفا ابدالی’’بہارِ دل‘‘، پسرور،ادبی سبھا ،۱۹۹۸ء،ص:۲۸

۸۰۱۔آغا وفا ابدالی’’شرار دل‘‘ ،پسرور ،ادبی سبھا، ۱۹۹۶ء ،ص:۲۴

۸۰۲۔آغا وفا’’غبار دل‘‘ ،ص:۹۰

۸۰۳۔ایضاً،ص:۱۲۶

۸۰۴۔آغا وفا ابدالی ’’شرار دل ‘‘،ص:۱۷۰

۸۰۵۔ایضاً،ص:۵۶

۸۰۶۔آغا وفا ابدالی، ’’غبارِ دل‘‘،ص:۱۶۴

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...