Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

آثم فردوسی
ARI Id

1688382102443_56116114

Access

Open/Free Access

Pages

222

آثم مرزا (۱۹۳۳ء۔۲۰۰۳ء) کا اصل نام مرزا محمد طفیل بیگ تھا۔ آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ (۸۱۷) آثم مرزا بنیادی طورپر ایک افسانہ نگار ہیں لیکن انھوں نے شاعری بھی کی ہے۔ ان کا شعری کلام ملک کے اہم رسائل جرائد’’محفل‘‘،لاہور’’اظہار‘‘،کراچی’’اتالیق‘‘،سیالکوٹ’’جسارت‘‘کراچی’’ویمن ڈائجسٹ‘‘،’’حرم‘‘،لاہور ، ’’سیارہ ‘‘،لاہور’’امروز‘‘ لاہور اور ’’شام و سحر‘‘ لاہور میں چھپتا رہا۔ ابھی تک آثم مرزا کا کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔

ترقی پسند تحریک کے ہیجانی و جذباتی دور میں آثم مرزا نے افسانوی نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کے کوچے میں قدم رکھا۔ اور آزاد نظم کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کی شاعری میں سیاسی لہر کارفرما نظر آتی ہے۔ مگر انھوں نے خود کو مریضانہ محور پر اشتراکی فلسفے کے تابع نہ کیا بلکہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھا۔ آثم مرزا کی ایک مشہور نظم ’’مجھے بھی ہتھیاردو‘‘ کے عنوان سے اس کے سیاسی ہونے کا پتہ چلتا ہے لیکن انھوں نے اس نظم میں سیاسی پراپیگنڈہ سے کام نہیں لیا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

مجھے بھی ہتھیار دو کہ میں بھی

ستمگروں کے حصار ظلمت میں قید انسانیت کے بگڑے نقوش کو رنگ روپ دے کر

آزاد کر دوں گا

کہ اُجڑی راہوں میں گمشدہ نکہتوں کے

فانوس جمگمگائیں

کہ فصلِ گُل کی نوید

پت جھڑ کی اوٹ میں بے قرار راہوں کی زندگی کا سرور بخشے(۸۱۸)

اس نظم کے آخر میں وہ نئے عزم کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

مجھے بھی ہتھیار دو(۸۱۹)

آثم مرزا قلبی واردات کو شعری قالب میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ماحول،معاشرے اور جدید رجحانات کو بھی ذہن میں رکھتے ہیں۔ وہ جس دنیا میں رہتے ہیں اس کے نشیب و فراز تک رسائی کر کے دوسروں کو بھی اس کے حسن وقبح سے روشناس کرانے سے نہیں ہچکچاتے۔ان کی نظم ’’جڑ اور درخت‘‘ اسی پہلو کی عکاسی ہے۔ ان کی نظموں میں سماجی نا ہمواریوں ،وطن دوستی،انسان کے باطن میں موجودگھٹن اور کچھ کر گزرنے کی تمنا کا دلکش اور موثر اظہار ہے۔ا س سلسلے میں ان کی نظم’’مجھے اس سے محبت ہے‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔مذکورہ بالا نظم کے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

مجھے اس سے محبت ہے

شفق کی نیم واکھڑکی میں

دن کے آخری لمحوں کی ہچگی کی تڑپ

بے نور لمحوں کی دریدہ دامنی کے

زخم کو بے کل بناتی ہے

میں اس کے درد کی ہر لہر میں خود کو ڈبوتا ہوں

میرے اندر کے بنجر کھیت کی مٹی

سوالی ہے(۸۲۰)

ایک شاعرمعاشرے کا ایک حساس فرد ہوتا ہے۔ ملک و قوم پہ جب کبھی کرب و بلا کا وقت آتا ہے تو شاعر کا قلم اس گھڑی ضرور حرکت میں آتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر آثم مرزا کی ایک نظم ’’تجدید عہد‘‘ خوبصورت انداز میں اس قومی سانحہ کی عکاسی کرتی ہے۔اس نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:

جہاد کا طبل جب بجا تھا

ہر ایک چہرہ دمک اُ ٹھا تھا

ہر اک جواں صف شکن بنا تھا

ہر ایک بیٹی کے دل کی دھڑکن دعا بنی تھی

ہر ایک ماں کے کشادہ سینے میں کامرانی کا تھا بسیرا

ہر اک سہاگن کی آرزو تھی

کہ اس کی تقدیر کا ستارہ

نشانِ حیدر کے نور سے آفتاب و مہتاب بن کر اُبھرے(۸۲۱)

آثم مر زا نے اپنے قریبی عزیز و اقارب سمیت مشہور ادبی شخصیتوں صوفی ،تبسم ،انشا جی ،محمد حسن عسکری اور عبدالنبی کوکب کے آزادنظم کی ہیئت میں مرثیے بھی لکھے۔ ان نظموں میں آثم مرزا اپنے اندرونی غم کو بڑے غمگین انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے نظر آتے ہیں۔

نعت کے توسط سے شاعر عشق و سرمستی کی کیفیات رقم کرتا ہے۔ نعت اس کا اظہار فن بھی ہے اور سرمایہ حیات بھی ،نمو د عجز بھی ہے اور افتخار عشق بھی ،آثم مرزا نے بھی اس قافلے میں شامل ہو کر گدائے مصطفےٰؐ بننے کا شرف حاصل کیا ہے۔ آثم نے نعت کے لیے بھی آزاد نظم کا اسلوب اپنایا ہے۔ حضور ؐ سے عقیدت و محبت کا اظہار ملاحظہ کیجیے کہ شاعری نعت رسول کہنے کی خواہش رکھتے ہوئے لکھتے وقت کس طرح اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا ہے اور کس طرح اس ادراک کا حوالہ دے رہا ہے کہ انسان مدح رسولؐ کر ہی نہیں سکتا:

میں اک قطرہ

وہ بحر بیکراں سے بھی فزوں تر ہیں

وہ تخلیق جہاں کے مقصد اعلیٰ کا ہیں شفاف آئینہ

مرے سرکا ر کا رُتبہ

بیاں ہو کس طرح مجھ سے(۸۲۲)

حضورؐ کی سیرت کی جھلکیاں آپ کی نعتیہ نظموں میں بھی ہیں اور ان نظموں میں بھی ہیں جو میلادالنبیؐ کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔ انھوں نے جگہ جگہ حضورؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری کو انسانیت کو صدیوں کے جبرو استبداد کے چنگل سے نکلنے کی بشارت اور گرداب کے تھپیڑوں کی ماری ہوئی قوم کے لیے زندگی کی نوید قرار دیا ہے:

یہ آج کا دن

وہ دن ہے یارو

غلام صدیوں کے جبر کی تیرہ دستیوں سے

نجات پا کر

بنے تھے سردار لشکروں کے

بھڑک رہی تھی جو آگ نفرت کے معبدوں میں

وہ آج کے دن بنی تھی گلزار کامرانی

جہان کہنہ کی ظلمتوں کے مہیب زنداں کی سرحدوں سے

بلکتی انسانیت کو پھر سے اماں ملی تھی(۸۲۳)

نعت رسول ؐ تو ان کا محبوب موضوع ہے ہی شہدائے کربلا کے حضور بھی وہ اپنی زبان شاعری میں عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں ۔انھوں نے اس حوالے سے سلام،مرثیے اور نوحے بھی لکھے ہیں۔’’روشنی کے سفر‘‘ اور ’’حضرت زینب‘‘ بڑے خوبصورت سلام اور مرثیے ہیں۔جس میں انھوں نے اہلِ بیت سے جذباتی انداز میں اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

 حسینؓمیرے

حسینؓسب کے

جنھوں نے میدانِ کربلا میں

شجاعتوں کے صداقتوں کے

وہ بیج بوئے

کہ آج بھی جب

فصیلِ ظلم و ستم کی دہشت

لیے ہوئے بے سہارا لوگوں کو

تیرگی میں دھکیلتی ہے

تو اہلِ کربل کی جگمگاتی شہادتوں کو گواہ بنا کر

شجاعتوں کے صداقتوں کے علم اُٹھا کر

اُفق سے تابہ اُفق

لیے بے سہارا لوگوں کی ضرب کاری سے

ساری طاغوت کی رعونت بھی

ریزہ ریزہ بکھر رہی ہے(۸۲۴)

جہاں تک زبان و ادب کا تعلق ہے ان کی نعت اس معیار پر پورا اترتی ہے اور فن کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نعت کہنی ہو توا لفاظ کے انتخاب اور ان کے استعمال میں کس درجہ احتیاط درکار ہے۔ آثم مرزا کی نظموں میں اگرچہ زبان کی چند خامیاں بھی موجود ہیں مثلاً الفاظ کے چناؤ میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کہیں کہیں انداز اکھڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے لفظی گھن گرج ان کے ہاں مفقود ہے۔ نظموں کا انداز بیانیہ ہے ۔ کہیں کہیں ان کی نظموں میں افسانوی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس لیے کہ افسانہ نگاری ہی ان کا مستقل میدان ہے مگر چونکہ انھوں نے شاعری میں بھی آزاد نظم کی ہیئت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔لہٰذا ان کے اس ادبی پیرایہ بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

۸۰۷۔آثم فردوسی ،’’سفر آفتاب کا‘‘،سیالکوٹ،انتخاب پبلی کیشنز،۱۹۸۹ء،ص:۷،۸

۸۰۸۔ایضاً،ص:۳۱،۳۲

۸۰۹۔ایضاً،ص:۴۲

۸۱۰۔ایضاً،ص:۲۲،۲۳

۸۱۱۔       ایضاً،ص:۶۳،۶۴

۸۱۲۔ایضاً،ص:۷۱

۸۱۳۔ایضاً،ص:۲۷،۲۸

۸۱۴۔آثم فردوسی ،’’عرش رساؐ‘‘ ،لاہور ،حلقہ حروف احباب، ۱۹۹۶ء، ص:۳۱،۳۲

۸۱۵۔ایضاً،ص:۴۸

۸۱۶۔ایضاً،ص:۵۲

۸۱۷۔امتیاز بیگم’’آثم مرزا۔ احوال و آثار‘‘،ص:۱۶۴

۸۱۸۔آثم مرزا،’’مجھے بھی ہتھیار دو‘‘،مشمولہ روزنامہ امروز(ادبی ایڈیشن) ،اپریل ۱۹۸۷ء،ص:۵

۸۱۹۔ایضاً،ص:۶

۸۲۰۔آثم مرزا،’’مجھے اس سے محبت ہے‘‘،مشمولہ ماہنامہ ’’محفل‘‘،لاہور، شمارہ مئی۱۹۸۷ء،ص:۱۵

۸۲۱۔آثم مرزا،’’تجدید عہد‘‘،مشمولہ ماہنامہ’’اظہار‘‘ ،کراچی ،شمارہ مارچ ۱۹۸۶ء،ص:۲۵

۸۲۲۔آثم مرزا،’’نعت‘‘مشمولہ ماہنامہ’’اظہار‘‘ ،کراچی ،شمارہ جولائی ،۱۹۸۳ء،ص:۴

۸۲۳۔آثم مرزا،’’نعت‘‘مشمولہ روزنامہ ’’جسارت‘‘ ،کراچی ،۳۱ جنوری ۱۹۸۸ء،ص:۵

۸۲۴۔آثم مرزا،مشمولہ’’روشنی کے سفر‘‘، ’’شام و سحر‘‘ ،لاہور ،شمارہ اکتوبر ۱۹۸۲ء،ص:۲۵

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...