Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

آثم مرزا
ARI Id

1688382102443_56116115

Access

Open/Free Access

Pages

223

جابر علی سید(۱۹۲۳ء۔۱۹۸۵ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۲ء میں ادیب فاضل کیا اور بنگلور چلے گئے۔ جہاں اپنے بھائی تراب علی کے ساتھ انگریزوں کو اردوپڑھاتے رہے۔ عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد سیالکوٹ چلے آئے۔۱۹۴۷ء میں اورینٹل کالج سے فارسی میں ایم۔اے کیا۔ اس کالج میں آپ نے ڈاکٹر سید عبداﷲ اور صوفی تبسم جیسے اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ ۱۹۵۳ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ میں فارسی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔(۸۲۵)

جابر علی سید ایک اچھے شاعر، ادیب، نقاد ،محقق ،ماہر لسانیات و عروض اور مشفق متواضع اُستاد تھے۔ جابر علی سید کی وفات کے بعد حمید اختر فائق نے ان کے شعری مجموعے کو ’’موجِ آہنگ ‘‘کے نام سے ۱۹۹۹ء میں مرتب کر کے شائع کیا۔

جابر علی سید کے دور کے شعرا صنفِ نظم میں شاعری کر رہے تھے۔ آزاد شاعری کے لیے نئے نئے تجربات کیے جارہے تھے۔ جابر نے بھی نظم میں خیالات و افکار کو ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔ نظم کے ساتھ آپ نے غزل کو بھی اپنایا۔ آپ غزل کی فطری دلکشی ،اس کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح واقف تھے۔اس لیے آپ نے غزل گوئی کو ذریعہ اظہار بنایا۔ ان کی پہلی غزل ادبی دنیا میں شائع ہوئی۔(۸۲۶)آپ نے اردو غزل میں ہیئت اور بحر کے نئے نئے تجربے کیے۔ اس لیے کہ آپ علم عروض سے دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ نے اردو میں بعض بحروں کو روشناس کروایا۔ آپ نے اپنی غزلوں میں نئے الفاظ، نئے محاورے اور نئی ترکیبیں استعمال کیں۔ اُن کی غزلوں میں اُن کی شخصیت کی بہت سی داخلی کیفیات اور ان کے شعور و لا شعور میں اٹھنے والے ہنگاموں اور طوفانوں کا ذکرملتا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں زبان کی صفائی ،شائستگی اور عمدگی پر پوری توجہ دی۔ جب وہ مروجہ لفظوں کے ساتھ ساتھ نئی تراکیب اور شعری ترنم میں گو ناگوں اضافہ ہوتا ہے ۔انھوں نے تشبیہات کے سلسلے میں بھی اپنی جدت طرازی اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح ان کی غزلیں معنی اور موضوع و مواد کے لحاظ سے اپنے اندر ترفع رکھتی ہیں:

میرے ماضی کے شمون کی مہک

 

7میرے خوابوں کے معانی کے دیے

 

/قہر ہے قہر شب کی بیداری

 

;جیسے جلتے ہوں افگر آنکھوں میں

(۸۲۷)

{جابر نے غزل کی روایت کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کے ساتھ انھوں نے کچھ ایسے نئے تجربے کیے ہیں جو عام غزل گو شعرا کے یہاں کم ہی ملتے ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر غزلیں چھوٹی بحروں میں کہی ہیں۔ ان کی تمام چھوٹی بحر والی غزلیں جذبے کی شدت اور اس کی طوفانی کیفیت کے اظہار کا زبر دست محرک بنی ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

سارا عالم گرفت میں اس کی

 

3جذب اُلفت بھی ایک ساحر ہے

 

3دل سمٹتا نہیں ہے بڑھتا ہے

 

1دل تسلسل کا اِک مسافر ہے

(۸۲۸)

 

نغمہ بادِ سحر یاد آیا

 

5جیسے کھویا ہوا گھر یاد آیا

(۸۲۹)

 

اِک مکدر سبیل ہے دنیا

 

3گندے پانی کی جھیل ہے دنیا

 

/ہر نفس مانگتی ہے قربانی

 

1مثلِ خوابِ خلیلؑ ہے دنیا

(۸۳۰)

Ùچھوٹی بحروں کے ساتھ ساتھ جابر کے ہاں لمبی بحروں والی غزلیں بھی موجود ہیں۔ ایسی غزلوں میں موسیقیت اور ترنم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جذبات کی شدت اور فراوانی بھی ایسی غزلوں کی ایک خصوصیت ہے ۔ان غزلوں کے ایک ایک لفظ میں نشاطیہ رنگ بھی موجود ہے۔

یہ غزلیں اپنی موسیقی اور ترنم کے باعث پر کیف اور نشاط انگیز معلوم ہوتی ہیں جو قارئین کے لیے کشش کا سامان رکھتی ہیں:

وہ جو چہروں کے لیے موجِ صبا ہوتے ہیں

 

اتنے اچھے ہیں تو کیوں ہم سے جدا ہوتے ہیں

(۸۳۱)

 

اڑتے لمحوں کے پرندے نہ کبھی ہاتھ آئے

 

دل نے لہراتا ہوا دام بہت پھیلایا

 

جس طرح ٹوٹے گھروندوں کا شکستہ سایہ

 

جس نے جس سمت سے دیکھا مجھے سمٹا پایا

(۸۳۲)

آپ کی ایک انفرادیت ہے کہ آپ لمبی ردیفوں سے پرہیز کرتے ہیں ۔اور مختصر ردیف منتخب کرتے ہیں۔ ان کا کلام حسنِ صوری جمالِ معنوی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ غزلوں میں صوتی آہنگ کے ساتھ ساتھ تغزل کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں۔غزل کے ساتھ ساتھ ان کی نظم میں بھی داخلیت موجود رہی ۔وہ نظموں میں بھی تراکیب سازی اور ہیئت کے تجربات کی طرف مائل رہے ۔وہ فارسی زبان و ادب کے استاد تھے۔ وہ مغربی شعریات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔وہ شعری لسانیات، غنائیت اور جمالیاتی اقدار کے قائل تھے:

صورتِ محشر تخلیق جمال

 

-دل باندازِ دگر یاد آیا

 

7کس طرح گزرے گی معلوم نہ تھا

 

1کیسے ہوتی ہے بسر یاد آیا

 

1تھا عجب عالم مستی کا سفر

 

5دشت یاد آئے نہ گھر یاد آیا

(۸۳۳)

)بجھا دو ان چراغوں کو

یہ چُھبتے ہیں میری آنکھوں میں

پائے نازنیں میں جیسے نوکِ خارِ صحرا

خارِ گلشن بھی

مسلسل تیرگی میری محبت ہے

میں اس سے یوں لپٹ کر سوؤ نگا جیسے

محبت کرنیوالوں کو

تمنا خوابِ سر شاری کا جام ناب دیتی ہے(۸۳۴)

جابر علی سید کی نظموں پر سید عابد علی عابد کے اثرات بھی موجود ہیں۔ دونوں شعراء میں کئی مماثلتیں بھی موجود ہیں۔ دونوں شعرا کلاسیکی اقدارکے پاسدار تھے۔دونوں جمالیاتی نقاد ہونے کے ساتھ نئے خیال اور تجربے پر بھی ایک ہی زاویۂ نظر رکھتے تھے۔ دونوں کی شاعری میں عجمی روایت سے استفادے کے ساتھ ساتھ ارضی لہجے کی کشش بھی ملتی ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:

اے ستمبر کی ہوا

کتنے سالوں اور بھی آئے گی اس طرح کہ جیسے کوئی خواب

سرشوریدہ میں در آکے سلا دیتا ہے

اس کی ژدلیدہ گراں جانی کو

تجھ میں پیغام رسانی کی کوئی بات نہیں

نہ مرے دل میں کوئی بات ہے پیغام کی مانند جیسے

تیری موجوں کے حوالے کر دوں(۸۳۵)

۸۲۵۔مطاہرہ خرم کاظمی،جابر علی سید۔شاعر نقاد،محقق،مقالہ برائے ایم۔اے اردو ،لاہور، پنجاب یونیورسٹی، ۱۹۸۵ء،ص:۱۲،۱۳

۸۲۶۔ایضاً،ص:۱۳

۸۲۷۔جابر علی سید، ’’موجِ آہنگ‘‘،۱۹۹۹ء،ص:۳۱

۸۲۸۔ایضاً،ص:۳۵

۸۲۹۔ایضاً،ص:۳۷

۸۳۰۔ایضاً،ص:۴۱

۸۳۱۔ایضاً،ص:۲۸

۸۳۲۔ایضاً،ص:۳۹

۸۳۳۔ایضاً،ص:۵۷

۸۳۴۔ایضاً،ص:۲۰

۸۳۵۔ایضاً،ص:۳۲

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...