Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > حفیظ الرحمان احسنؔ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

حفیظ الرحمان احسنؔ
ARI Id

1688382102443_56116118

Access

Open/Free Access

Pages

239

حفیظ الرحمان احسنؔ(۱۹۳۴ء۔پ) کا اصل نام حفیظ الرحمان اور احسن ؔتخلص کرتے ہیں۔ آپ پسرور کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۹ء میں اسلامیہ کالج سول لائن لاہور سے ایم۔اے عربی کیا اور گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج فیصل آبادمیں عربی لیکچرا ر کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ ۱۹۶۳ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں عربی کے لیکچرا ر کے طورپر تقرری ہوئی۔ ۱۹۶۶ء میں لاہور میں ایوانِ ادب ادارہ قائم کیا۔ (۸۶۴) حفیظ الرحمن احسنؔ کا پہلا شعری مجموعہ ’’ننھی منھی خوبصورت نظمیں‘‘ ایوانِ ادب لاہور سے ۱۹۸۳ء کو شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’فصلِ زیاں‘‘ سدا بہار پبلشرز لاہور نے ۱۹۹۰ء میں طبع کیا۔ ’’ستارہ شامِ ہجراں‘‘ ،’’موجِ سلسبیل‘‘ ،’’نغماتِ طفلی‘‘،’’غبار خزاں‘‘،’’نوائے راز‘‘ ،’’ارشحاتِ تسنیم‘‘ اور ’’کلامِ احسن‘‘ احسنؔ کے سات شعری مجموعے غیر مطبوعہ ہیں۔

احسنؔ نے اردو میں تمام موضوعات میں عمدہ شاعری کی ہے مگر ادبی حلقوں میں ان کی وجہ شہرت خاص طورپر ان کی مزاحمتی شاعری ہے۔ وہ غزل کے شاعر ہیں اور انھوں نے اپنی غزل میں اپنی ملت کی ترجمانی کی ہے۔ حفیظ کے پیرائیہ اظہار کی غزل میں دو انداز نمایاں ہیں۔ایک تو غزل کے روایتی محبوب کا وہ تصوراتی پیکر ہے جو ہماری غزل کا سرمایہ خاص رہا ہے۔ جس میں عشوہ طرازی، عشاق کشی اور ہرجائی پن کی صفات ایک سیاسی راہنما کی ذات کو وسیلہ اظہار بناتی ہیں۔ اس طرزِ کلام میں ایک خاص طرح کی شوخی ،جدت ،گرمی اور سرشاری دکھائی دیتی ہے:

نہ تھے ہم خوش گماں تُجھ سے خبر یہ بھی نہ تھی لیکن

 

لبِ اغیار پریوں بھی تر افسانہ آئے گا

(۸۶۵)

 

کم نوائی پر نہ جا طوفاں اُٹھا سکتے ہیں ہم

 

ضبط ہے کچھ اور خوئے بے زبانی اور ہے

(۸۶۶)

 

تری غم خواری مفلس کے چرچے عام ہیں لیکن

 

فقیر بے نوا کی چشم تر کچھ اور کہتی ہے

(۸۶۷)

مذکورہ بالا اشعار میں احساساتی سطح ایک منجھے ہوئے رومانوی شاعر کی ہے ۔دوسرا پیرایہ محاکاتی ہے جس میں احسنؔ نے زیادہ کھل کر باتیں کی ہیں۔ وہ جب محاکات کا سہارا لیتے ہیں تو ان کی غزل کا جمال نکھرتا ہے:

فضا میں گرم ہے شاید خبر تبدیل موسم کی

 

پرندے اڑتے پھرتے ہیں جو باہر آشیانوں سے

(۸۶۸)

 

ہمدلی تھی یا مرے سوزِ تمنا کا کمال

 

درد میرا اس کی آنکھوں سے عیاں کیسے ہوا

(۸۶۹)

3حفیظ الرحمان احسنؔ نے اپنی شاعری میں طنز یہ تغزل اور سیاسی تغزل کا امتزاج پیش کیا ہے۔ سیاسی تغزل تو نئی چیز نہیں ہے کیونکہ اقبال ،ظفر علی خاں، مجاز اور فیض پہلے ہی اس میدان میں جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور عہدِ حاضر کے ایک اہم شاعر ظفر اقبال نے ضیاالحق کے دور میں ’’عہدِ زیاں‘‘ کے نام سے ایک نئی فضا پیدا کی ہے۔ اور اس طرح پوری غزل طنزیہ کہی ہے کہ ہر شعر میں تغزل کا رنگ غالب ہے۔پروفیسر کلیم اس ضمن میں رقم طراز ہیں:

’’فصلِ زیاں‘ کے اشعارمیں شاعر کا بے باک لہجہ، سیاسی تنقید، طنزیہ انداز بیاں،غزل کی محدود موضوع میں وسعت پیدا کر دیتا ہے ۔اور قاری یہ سمجھنے پر مجبورہوتا ہے کہ غزل عشق و محبت کے علاوہ آج کل کے موضوعات وسائل کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ سکتی ہے۔(۸۷۰)

اب احسنؔ کے حال کے حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں جس میں انھوں نے موجودہ زمانے کے موضوعات اور مسائل پر گہرائی سے تبصرہ کیا ہے:

جومے نوشی کا سب کے ہاتھ میں پروانہ آئے گا

 

تو مے خانے میں کیا دیوانہ ،کیا فرزانہ آئے گا

 

یہی سلطانی جمہور کا مفہوم اصلی ہے

 

زنانہ دور آئے گا، کبھی مردانہ آئے گا

(۸۷۱)

 

یہ فحاشی ، حیا سوزی ،تعیش رقصِ خرمستی

 

ہیں کس کے عہد نا مسعود کا نام کیا کہیے

 

زنانِ مجلس آرا بن گئیں اقوام اس گھر کی

 

یہ توہینِ شعارِ ملتِ اسلام؟ کیا کہیے

(۸۷۲)

Ùحفیظ الرحمن جہاں طنزیہ لہجہ اپناتے ہیں وہیں وہ اپنے نشانہ طنز وا ستہزا سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں۔ انھیں کسی سے ذاتی عناد نہیں۔ وہ معاشرے میں خیرو برکت کے طالب ہیں۔ وہ اجتماعی فلاح کے آرزو مند ہیں۔ تخاطب اگرچہ بظاہر انفرادی ہوتا ہے لیکن اصل مقصد اجتماعی ہی ہوتا ہے۔ وہ فرد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا یہ اجتماعی رویہ ان کی وسعت فکر اور وسیعالنظر فی کی علامت ہے:

اُٹھاؤ مت فصیلیں رنگ و خوں کی ،درمیاں اپنے

 

[کہ لے ڈوبے گا یہ نفرت کا طوفان ہم نہ کہتے تھے

 

یہ خوئے انتقام اچھی نہیں انسان کے حق میں

 

بنا دیتی ہے یہ انسان کو حیوان ہم نہ کہتے تھے

(۸۷۳)

ùعلمی و دینی گھرانے کی بنا پر احسن کو حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے خاص شغف ہے۔ حمد یہ و نعتیہ شاعری ان کے اسلوب کا خاص وصف ہے ۔اس فن میں ان کا جذبہ اور خلوص دونوں پاکیزہ اور کامل نظر آتے ہیں۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری زیادہ تر غزل کی ہیئت میں کی ہے۔ احسن کی متعدد حمدیہ غزلوں میں مناجات کا رنگ نمایاں ہے جس میں وہ بڑی عاجزی اور انکساری سے اﷲ تعالیٰ سے طلب رحمت کرتے نظر آتے ہیں:

تیری رحمت کا آسرا چاہوں

 

7اور پھر اس کے بعد کیا چاہوں

 

;تیری چوکھٹ پہ جا کر بیٹھ رہوں

 

/قرب کا تیرے سلسلہ چاہوں

(۸۷۴)

Ñاحسن کا دور ابتری اور زبوں حالی کا دور ہے۔ حالات سیاسی و سماجی لحاظ سے پہلے سے زیادہ بگڑ چکے ہیں ۔تمام معاشرتی ،تہذیبی اقدار مٹ کر نابو د ہو چکی ہیں۔ مسلمانوں اور مسلمان ممالک کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ احسن بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں اور بحیثیت شاعرحالات کی ستم ظریفی پر ان کا دل زیادہ کڑھتا ہے۔ چنانچہ وہ خدائے بزرگ و برتر کی نگاہ التفات کے منتظر ہیں :

ہیں بحر و بر فساد کے مسکن بنے ہوئے

 

ہر سو ہیں مکر و زور نے جالے تنے ہوئے

 

ٹوٹیں گے کب تمدنِ حاضر کے سومنات

 

اے رب کائنات

 

جو روستم کی گرد سے راہیں اٹی ہوئیں

 

بارود کے دھویں سے فضائیں پٹی ہوئیں

 

کیوں چھا رہی ہے زیست پر غم کی سیاہ رات

 

اے رب کائنات

(۸۷۵)

حفیظ الرحمان احسن سچے عاشقِ رسولؐ بھی ہیں۔ اپنے بے پایاں عشق کا اظہاار انھوں نے اپنی نعتیہ شاعری میٍں انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ کیا ہے۔ وہ حضورؐ کی ثنا کے لیے الفاظ کا چناؤ بڑے سو چ بچار کے بعد کرتے ہیں۔ وہ واقعات اور مناظر کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں۔ کہ قاری پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے:

گونجا ہوا ہے ان کا ترانہ مکاں مکاں

 

دہرا رہی ہے ان کا فسانہ اذاں اذاں

 

ہے جلوہ گاہِ طور کا عالم وہاں وہاں

 

پہنچا ہے ان کا نورِ نبوت جہاں جہاں

 

آئے جب آپؐ پھیلے اُجالے اُفق اُفق

 

ہر منظرِ جمال تھا پہلے دھواں دھواں

(۸۷۶)

ان کی نعت کا صوتی آہنگ اور طرز ادا اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ روح سر شار ہو اٹھتی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ آپؐ کا اسوہ تمام بنی نوع انسان کے لیے نمونہ ہے۔ دورِ حاضر میں ترقی اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے نام پر معاشرے میں جو بے راہ روی نظر آتی ہے۔ احسنؔ اس سے خائف تو ہیں لیکن وہ اپنے نبیؐ سے پرا مید بھی ہیں کہ ظلمت کا اندھیرا ضرور چھٹے گا اور ان کا یہ رویہ بہت صحت مندانہ ہے۔ ان کے ہاں رجائیت کے عناصر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں:

بھٹک رہے ہیں سفینے محیط ظلمت میں

 

منارِ نور نبیؐ کا نظام ٹھہرے گا

 

وہ دن قریب ہیں جب ہر نگاہ کا مقصود

 

جمالِ اسوہ خیر الانامؐ ٹھہرے گا

 

برائے تشنہ لباں ، لطفِ ساقیؐ کوثر

 

مدارِ گردش کاسُ الکرام ٹھہرے گا

(۸۷۷)

÷احسن کے غزلیہ مجموعے’’ستارہ شامِ ہجراں‘‘ پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ابھی اردو شاعری اور خصوصاً غزل میں بڑے امکانات پوشیدہ ہیں اور زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ یہ اپنے اندر بہت کچھ سمونے اور کہنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اردو غزل ہمیشہ تصفیہ باطن کا ذریعہ بنی رہے گی۔ ’’ستارہ شامِ ہجراں کا‘‘ کلاسیکیت اور رومانیت کا حسین امتزاج ہے۔ یہ خوبصورت جذبات وا حساسات سے مرصع کلام ہے۔ اس میں واردات عشق کا بیان بھی ہے اور واردات قلب کا۔ محبوب کی شوخیوں اورعشوہ و انداز کی لذتیں بھی ہیں۔ اور عاشق کی حسرتیں بھی:

صبحدم خاک اُڑی تھی دل کی

 

5غم کی شب کیسے کٹی یاد نہیں

(۸۷۸)

ƒحفیظ الرحمن نے اپنی شاعری میں جمالیاتی اظہار کے لیے جو زبان استعمال کی ہے وہ زندگی سے بھر پور ہے۔ اس میں جو لانی اور تازگی ہے ۔مجموعی طورپر ان کی غزلوں میں ایک وقار ،شائستگی اور ادبی آن بان کی فضا پائی جاتی ہے۔ انھوں نے پرشکوہ الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔ الفاظ انگوٹھی میں نگینے کے مصداق اپنی اپنی جگہ موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ان الفاظ کا صوتی آہنگ ایک ایسی مترنم موسیقیت اور نغمگی کا احساس دلاتا ہے جو دیر تک روح کی غذا بن کر اسے سرشار رکھتا ہے:

ملا جو بلبل کو سوزِ نغمہ گلوں کو نکہت صبا کو مستی

 

_یہ فیض سوزِ دروں مجھے بھی ملی ذوقِ سخن کی خوشبو

(۸۷۹)

حفیظ الرحمن سیدھے سادھے پیرائے میں اور سادہ انداز میں بات کہنے کے عادی ہیں۔یہی سادگی ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز بھی ہے اور خاص وصف بھی ۔انھوں نے تشبیہات و استعارات سے خلاقی اور معنی آفرینی میں مدد لی ہے:

مے تری ، بزم تری ساغر و پیمانہ ترا

 

میرے ساقی ،رہے آباد میخانہ ترا

(۸۸۰)

 

یوے اُڑتے پھرتے ہیں بھولی ہوئی یادوں کے ورق

 

دل کے ویرانے میں پت جھڑ کا سماں ہو جیسے

(۸۸۱)

محبوب کے ظلم و ستم اور عاشق کا انھیں بخوشی سہنا اردو شاعری کا روایتی موضوع ہے۔ چنانچہ دوسرے شعرا کی روایت میں حفیظ الرحمن احسنؔ نے بھی محبوب کے جورو ستم کا نشانہ بننے والے اشعار کہے ہیں:

مت ہم پہ ہنسو ،شوق میں ٹھکرائے ہوئے ہیں

 

ہم لوگ غمِ یار کے بہکائے ہوئے ہیں

 

اب ہم پہ کرم ہو کہ ستم اے ستم ایجاد

 

ہم خوش ہیں کہ نظروں میں تری آئے ہوئے ہیں

(۸۸۲)

ãاردو شاعری کی عام روایت کے برعکس حفیظ الرحمن کے ہاں لہجے میں توانائی کا احساس اُبھرتا ہے۔ عام شعراکی عشقیہ شاعری میں شکست خوردگی اور احساس محرومی و خوفزدگی کے انداز نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ روایتی شعرا کی طرح آہ و بکا نہیں کرتے بلکہ عشق و عاشقی کے غم و الم ہنستے مسکراتے انگیخت کرنے کے قائل نظر آتے ہیں۔ ان کے لہجے کی توانائی ان کے درج ذیل اشعا ر میں واضح طورپر نظر آتی ہے:

غم سے دامن چُھڑا لیا ہم نے

 

1دل کو پتھر بنا لیا ہم نے

 

1نقدِ دل ہے یہ داغ محرومی

 

/دُرِ شہوار پا لیا ہم نے

 

5دشتِ غم میں غبار بن کے اڑے

 

3اپنی منزل کو جا لیا ہم نے

(۸۸۳)

»زمانہ متلوّن مزاج ہے۔ ہر آن اس میں تغیر و تبدل ہو رہا ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کے دور تک معاشرے میں آنے والے نشیب وفراز کو حفیظ الرحمن نے نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ اس اتار چڑھاؤ کو دل کی گہرائیوں سے محسوس بھی کیا ہے۔ وہ حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو قبول تو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات حالات کی ستم ظریفی پر شکوہ کناں بھی ہو جاتے ہیں:

جو خاص تھیں ترے غم سے وہ لذتیں نہ رہیں

 

وہ فاصلے نہ رہے اور وہ قربتیں نہ رہیں

 

جو بات خاص تھی عہد وفا سے اب وہ کہاں

 

کسی کے ناز اُٹھانے کی طاقتیں نہ رہیں

 

بدل کے رہ گئے کیا خیر وشر کے سب معیار

 

محبتیں نہ رہیں اور وہ نفرتیں نہ رہیں

 

وہ کیا ہوئے مرے یارانِ با صفا احسنؔ

 

خلوص و مہر کی پہلی حلاوتیں نہ رہیں

(۸۸۴)

حفیظ الرحمن نے غزل میں ہر طرح کا مضمون باندھا ہے۔ عشق کی وارداتوں کا بیان ہے تو ساتھ ہی محبت کی سوغاتوں کی بھی نشاندہی ہے ۔ایک طرف غمِ ہجراں کا رونا ہے تو دوسری طرف غمِ دوراں کا ذکر بھی ملتا ہے:

قدم بڑھتے رہیں راہِ وفا میں استقامت سے

 

کہ ہر اک رستہ آخر کسی منزل سے ملتا ہے

 

وہی بے تابیاں ،سرتابیاں ،بربادیاں احسنؔ

 

مزاجِ گردشِ دوراں ہمارے دل سے ملتا ہے

(۸۸۵)

Ûدنیا کی بے ثباتی و ناپائیداری کا احساس ایک حقیقت پسندانہ رویہ ہے۔ حفیظ الرحمن کے ہاں بھی دنیا کی بے ثباتی کا احساس گہرائی کی حد تک پایا جاتا ہے۔ وہ دنیا کو مختلف حیثیتیں دیتے ہیں ۔ایک جگہ وہ دنیا کو ایک بلبلے سے بھی کم تر حیثیت دیتے ہیں:

ہر اک نفس ہے ہوا کا جھونکا ثباتِ ہستی حباب سا ہے

 

ہر اک حقیقت ہے خواب جیسی ہر ایک منظر سراب ساہے

 

 (۸۸۶)

!حفیظ الرحمن احسنؔ اقبال کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں ۔اقبال کا حکیمانہ انداز، دین اسلام سے کھری او رسچی محبت ایسی وجوہات ہیں ۔ حفیظ الرحمن جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان سے تعلق رکھنے والے اکثر حضرات اقبال کے نظریات سے خاصے متاثر ہیں۔ دونوں کا تعلق سرزمین سیالکوٹ سے ہے۔ا یک اور قدر مشترک مرے کالج اور اورینٹل کالج کی تعلیم بھی ہے۔احسنؔ نے اپنی شاعری میں جا بجا اقبال کو زبر دست خراج عقیدت پیش کی ہے:

رُوح اقبال سے ہے روح مخاطب میری

 

مشعلِ راہ بنا ،حرف حکیمانہ ترا

 

فکرِ اقبال کا یہ فیض ہے تجھ پر احسنؔ

 

;نغمۂ طور ہوا نعرہ مستانہ ترا

(۸۸۷)

حفیظ الرحمن نے اردو غزل کو ایک نیا انداز ،نیا روپ ،نیا لہجہ اور نئی قوت و توانائی بخشی ہے۔ ان کی غزل کلاسیکی رنگ تغزل کے باوجود جدید دور کے عصر حاضر کی غزل ہے جس میں بے پناہ وسعتیں ہیں۔ زبان و بیان کی شگفتگی ،خیال کی جولانی ،حسن کی رعنائی اور قلبی سوزو گداز کی بے پناہ تڑپ ان کو کسی بھی ممتاز شاعر کے برابر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کا مجموعہ ’’ستارہِ شامِ ہجراں کا‘‘ موجودہ پُر آشوب دور میں بادِ نو بہار کا ایک معطرجھونکا کا ثابت ہو گا۔

حفیظ الرحمنؔ احسن کی شاعری کا ایک بڑا موضوع بچوں کی شاعری کے گرد گھومتا ہے۔ اور اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ :

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں بچوں کے لیے شاعری تخلیق کروں گا مگر ایک ضرورت مجھے اس طرف لے آئی ۔اگرچہ اب میں نے شعر گوئی سے عارضی کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے مگر آج بھی مجھے موقع ملے تو بچوں کے لیے شاعری کے حوالے سے کام ضرور کروں گا۔(۸۸۸)

بچوں کی شاعر ی کے حوالے سے ’’ننھی منھی خوبصورت نظمیں‘‘ حفیظ الرحمن کا خوبصورت تخلیقی سرمایہ ہے۔ بچوں کے حوالے سے حفیظ کی نظموں میں ڈرامائیت ،سادگی و پرکاری ،اختصار اور سہل انگاری جیسی خصوصیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک نظم’’دعوت میری گڑیا کی‘‘ سادگی اور پرکاری کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ ہو:

دعوت پر ہم جائیں گے

 

)خوشیاں خوب منائیں گے

 

%بسکٹ کیک اڑائیں گے

 

)دودھ سویاں کھائیں گے

 

%دودھ سویاں بھیا کی

 

#دعوت میری گڑیا کی

(۸۸۹)

Ýاحسن کا بچوں کے لیے ایسی نظمیں تخلیق کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کے لیے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق دلچسپ اور عمدہ شاعری پیش کرنے کے علاوہ ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت بھی کی جائے جو ان کے اندر اخلاقی اور قومی و ملی احساسات کو پروان چڑھائے۔

۸۶۴۔قاضی عطا ء اﷲ، ’’شعرائے پسرور‘‘، ص:

۸۶۵۔حفیظ الرحمن احسن،’’فصلِ زیاں‘‘،لاہور ،سدا بہار پبلشرز،۱۹۹۰ء ،ص:۶۷

۸۶۶۔ ایضاً،ص:۳۷

۸۶۷۔ایضاً،ص:۴۸

۸۶۸۔ایضاً،ص:۶۵

۸۶۹۔ایضاً،ص:۷۵

۸۷۰۔پروفیسر کلیم ،’’فصلِ زیاں مجموعہ کلام‘‘،مشمولہ ،ماہنامہ ’’سیارہ ‘‘ ، لاہور ،شمارہ نمبر ۳۴، ص:۳۴۰

۸۷۱۔حفیظ الرحمن احسن،’’فصلِ زیاں‘‘،ص:۳۷

۸۷۲۔ایضاً،ص:۵۸

۸۷۳۔ایضاً،ص:۹۴

۸۷۴۔حفیظ الرحمن،’’موجِ سلسبیل ‘‘(غیر مطبوعہ) ،ص:۱۹

۸۷۵۔ایضاً،ص:۲۵

۸۷۶۔ایضاً،ص:۳۸

۸۷۷۔ایضاً،ص:۴۱

۸۷۸۔حفیظ الرحمان،’’ستارہ شام ہجراں کا‘‘،(غیر مطبوعہ)،ص:۲۸

۸۷۹۔ایضاً،ص:۳۹

۸۸۰۔ایضاً،ص:۴۲

۸۸۱۔ایضاً،ص:۴۷

۸۸۲۔ایضاً،ص:۴۸

۸۸۳۔ایضاً،ص:۵۷

۸۸۴۔ایضاً،ص:۸۱

۸۸۵۔ایضاً،ص:۷۲

۸۸۶۔ایضاً،ص:۷۵

۸۸۷۔ایضاً،ص:۸۲

۸۸۸۔حفیظ الرحمان احسن،’’ننھی منھی خوبصورت نظمیں‘‘،لاہور ، ایوانِ ادب، ۱۹۸۳ء،ص:۴

۸۸۹۔حفیظ الرحمان احسن،’’ننھی منھی خوبصورت نظمیں‘‘،ص:۷۸

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...