Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

سید سبط علی صبا
ARI Id

1688382102443_56116119

Access

Open/Free Access

Pages

244

سید سبط علی صبا(۱۹۳۵ء۔۱۹۸۰ء) کا اصل نام سبطِ علی اور صباؔ تخلص کرتے تھے۔ آپ سیالکوٹ کے قصبہ کوٹلی لوہاراں میں پیدا ہوئے۔ سبط علی صباؔ ابتدائی تعلیم کے بعد پاکستان فوج میں بھرتی ہو گئے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں لاہور محاذ پر بھارتی فوجیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پاک بھارت جنگ کے دوران بھی آپ نے چند بڑی نظمیں لکھیں جو ہفت روزہ’’واہ کاریگر‘‘ واہ کینٹ اور ہفت روزہ’’ہلال‘‘ راولپنڈی میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے ۱۹۶۸ء کی عوامی جمہوری تحریک اور مقامی مزدور تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔(۸۹۰)صباؔ کا شعری کلام ماہنامہ’’فنون‘‘ ماہنامہ’’ہلال‘‘ مجلہ’’ہماری زبان‘‘ دہلی’’ماہ نو‘‘ لاہور اور دیگر ملکی رسائل و جرائد میں شائع ہوتار ہا ہے۔ مجلس تصنیف و تالیف واہ کینٹ نے ۱۹۸۶ء کو سبط علی صبا کا شعری مجموعہ ’’طشت مراد‘‘ شائع کیا۔ سید سبط علی صباؔ نے پچاس کی دہائی میں باقاعدہ شاعری شروع کی تھی۔ صباؔ ابتدائے شاعری سے ہی طبقاتی اور رزمیہ طرز فکر کے حامل فنکا ر تھے۔ صبا ؔکی غزل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں کسی تحریک یا نظریہ سے وابستہ طبقاتی شعور نہیں بلکہ وہ پوری دنیا کو ظالم اور مظلوم ،حاکم اور محکوم ،جابر اور مجبور ،امیر و غریب ،جاگیر دار اور کسان اور آجر اور مزدور کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کرہ ارض کے ہر مظلوم کے ساتھ غیر مشروط و فاداری کا اعلان کرتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

وہ اپنے آنگن سے باہر کی دنیا تک چار طرف جب چھینا جھپٹی کے مناظر دیکھتا تھا اور زر پرست معاشرے میں پسنے والے کروڑوں عوام پر نگاہ ڈالتا تھا تو ایسا ایسا قیامت کا شعر کہہ جاتا تھا کہ تجربات اور محسوسات کی اتنی صداقت اور ساتھ ہی خیال کی اتنی ندرت اور جدت سے اردو غزل ابھی کچھ زیادہ آشنا نہ تھی۔(۸۹۱)

سبط علی صبا کی شاعری میں ان کی ذاتی مظلومیت اور مفلوک الحالی کا براہ راست تجربہ نظر آتا ہے جسے انھوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی شاعری میں منتقل کیا ہے۔ اس تجربے کو پیش کرنے کے لیے انھوں نے اقبال کا فلسفیانہ اندازا ختیار کیا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندوں کی نعرہ بازی اور خشک مقصدیت کو اپنی شاعری کی دہلیز پر قدم رکھنے نہیں دیاہے۔ طبقاتی سماج نے ان کی شب وروز کی محنت کے بدلے میں جو دکھ انھیں عنایت کیے ہیں انھی سے ان کے شعری نظریہ نے جنم لیا ہے۔ جو ان کی شخصیت کی طرح بالکل غیر مبہم ہے:

مرے سماج کی مجھ پر عنایتیں ہیں صباؔ

 

ہر ایک زخم کو موضوع فن بنائے رکھوں

 

لفظوں میں ڈھال ڈھال کے میں حادثات کو

 

ترتیب دے رہا ہوں کتابِ حیات کی

(۸۹۲)

 

 

 

 

جب سیلِ درد دل میں ہوا موجزن تو ہم

 

اظہار درد کے لیے فن کار بن گئے

(۸۹۳)

یہی اظہار درد ہے جو صباؔ کی غزل کو پیچ در پیچ علامتوں اور استعاروں کے سہارے کے بغیر بھی نعرہ بازی سے بچائے رکھتا ہے۔ اور اس میں تغزل کی چاشنی کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ صباؔ بنیادی طورپر ایک بہت ہی محب وطن شاعر تھے۔ وطن سے محبت کا ثبوت ان کی وہ نظمیں ہیں جو انھوں نے قائد اعظم ،علامہ اقبال، یومِ آزادی، یومِ استقلال اور شہدائے وطن کے حوالے سے کہیں۔صباؔ نے ہوش سنبھالا تو برصغیر کی تقسیم کی آوازیں ان کے کانوں پر پڑنا شروع ہوئیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے بجا طورپر تقسیم کے ساتھ کچھ اچھی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ مسلمانوں کو جو علیحدہ وطن حاصل ہوا۔ اس کی باگ دوڑ مفاد پرست طبقے کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ محب وطن،عوام اور دانش ور طبقے کے آزادی سے وابستہ خوابوں کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو گیا۔

صبا کی نظم اور غزل میں اس قسم کے خوابوں کی صورت گری ملتی ہے:

لبوں پہ پھول کھلیں، اور زبان سب کو ملے

 

وہ گھر بناؤں کہ جس میں امان سب کو ملے

(۸۹۴)

علیحدہ خطہ ارضی حاصل کرنے کے باوجود ایک فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ غریب کا غریب تر اور امیر کاامیر تر ہوتے جانا ۔اس پر مارشل لا انتخابی دھاندلیاں ،سماجی برائیاں ،جنگیں ،داخلی منافرت،قحط سالی اور سیلاب جیسی آفات میں عوام کو معاشی تحفظ کا فراہم نہ ہونا ایسے حالات تھے۔جنھوں نے صباؔ جیسے حساس شاعر کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا:

تیری جنت کا تصور مراد دشمن نکلا

 

موجزن دھوپ ہے ہر سمت شجر کوئی نہیں

(۸۹۵)

 

عمر بھر خون سے سیراب کیا ہے جس کو

 

ہائے اس پیڑ کی شاخوں میں ثمر کوئی نہیں

(۸۹۶)

µآئے دن بدلتے ہوئے سیاسی ڈھانچوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔اندرون ملک صنعتیں کم ہونے کی وجہ سے بے روزگاری اشیائے صرف کی قلت، مہنگائی اور چور بازاری جیسے سنگین مسائل روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان حالات میں کوئی بھی حساس شاعراس گردش حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ صباؔ نے بھی ان حالات کو اپنی شاعری میں درد ناک لہجے میں پیش کیا ہے:

خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا

 

چمن تو گردشِ حالات کا شکار رہا

 

غموں کی دھوپ میں مرجھا گئے کنول

 

µآئے دن بدلتے ہوئے سیاسی ڈھانچوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔اندرون ملک صنعتیں کم ہونے کی وجہ سے بے روزگاری اشیائے صرف کی قلت، مہنگائی اور چور بازاری جیسے سنگین مسائل روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان حالات میں کوئی بھی حساس شاعراس گردش حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ صباؔ نے بھی ان حالات کو اپنی شاعری میں درد ناک لہجے میں پیش کیا ہے:

خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا

 

چمن تو گردشِ حالات کا شکار رہا

 

غموں کی دھوپ میں مرجھا گئے کنول کیا کیا

 

چمن سے دور کہیں ابرِ نو بہار رہا

(۸۹۷)

۱۹۶۵ء کی جنگ میں سبط علی صبا پاک فوج میں شامل تھے۔۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کا منظر بھی انھوں نے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں ،ویت نام کی جنگِ آزادی ،فلسطین کے خونچکاں منظر،کشمیر کے حالات یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوا ۔ وحشیانہ کاروباری مسابقت اور زمینی توسیع پسندی کی دوڑ میں انسانوں کا درندوں کی طرح ایک دوسروں پر جھپٹنا ،مادی برتری اور شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کی خاطر کروڑوں بے گناہ انسانوں کے خون کے دریا رواں کرنا اور پھر جشن منانا ،صبا ؔکو یہ سراسر غیر انسانی سرگرمیاں خون کے آنسو رولاتی تھیں۔ صباؔ امن و آشتی کے قائل تھے۔وہ جنگ کے مخالف تھے۔وہ اپنی شاعری میں جنگ کی مخالفت اور حوصلہ شکنی کرتے نظر آتے ہیں:

ہر طرف عفریت ہیں اور گھاٹیاں ہیں خوں میں تر

 

بیشہ ہستی کی سب پگڈنڈیاں ہیں خوں میں تر

 

مسکراتے گاؤں آثارِ قدیمہ بن گئے

 

لشکری خوش ہیں کہ ان کی وردیاں ہیں خوں میں تر

 

جنگ میں انسان کے دل کی سیاہی دیکھ لی

 

کس طرح گاؤں اُجڑتے ہیں تباہی دیکھ لی

 

روشنی کی گرد جسموں کو اپاہج کر گئی

 

تاب کاری زہر کی ہر سو تباہی دیکھ لی

(۸۹۸)

صباؔ کو زندگی نے دکھوں کے سوا کچھ نہ دیا تھا لیکن ان کے سرمایہ غم میں حصہ ڈالنے میں احباب بھی پیچھے نہ رہے تھے۔ ان کے غم گسار اور ہمدرد دوستوں کی بھی کمی نہ تھی۔ لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو ان کو ہمہ وقت تضحیک کا نشانہ بناتے تھے اور بالواسطہ طورپر ان کی غربت کا مذاق اڑاتے ۔صبا کسی سے شکوہ نہ کرتے۔لیکن جو ان کے دل پر گزرتی رہی وہ رقم کرتے رہے۔ اپنوں اور غیروں کی نوازشات کو جس طرح واضح انداز میں صبا نے بیان کیا ہے۔ اس کی مثالیں کم ملتی ہیں:

کرب کی آگ سر شام لگانے آئے

 

میرے احباب مرے دل کو دکھانے آئے

 

مجھ کو زخموں کی نمائش سے گریزاں پا کر

 

9لوگ ہر روز نئے زخم لگانے آئے

 

احساس کی بھٹی میں جلایا بھی گیا ہوں

 

نفرت کی میں سولی پہ چڑھایا بھی گیا ہوں

 

میں وقت کا یوسف ہوں مرے بھائی ہیں دشمن

 

افلاس کے زنداں میں گرایا بھی گیا ہوں

 

ہوتی ہیں مرے گھر میں اسی شخص کی باتیں

 

جس شخص کے ہاتھوں سے ستایا بھی گیا ہوں

(۸۹۹)

Ãبچے کسی قوم کے مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔صبا کی غزل میں بچوں سے والہانہ محبت اور ان کے مستقبل کی فکر کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ وہ اپنے اور پرائے سب بچوں کے لیے یکساں طورپر محبت کرتے تھے۔ بچوں اور ان کے مستقبل کی فکر ان کو یہاں تک تھی کہ موت سے چند گھنٹے قبل بھی اپنے ایک دوست کے بچے کے داخلے کے سلسلے میں پریشان دیکھے گئے۔ بچوں سے ان کی محبت محض ایک باپ کی محبت نہیں بلکہ ایک قومی سوچ رکھنے والے دانش ور کی محبت ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جن حالات کا شکار وہ خود رہے ہیں۔آئندہ نسلیں بھی اپنے حالات کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ بچوں کے حوالے سے ان کی شاعری میں قومی نوعیت کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کے بچوں پر کہے گئے اشعار پڑھ کر ہماری توجہ حکومت کے ان حساس منصوبوں کے ناقص پہلوؤں کی طرف جاتی ہے۔ جن پر ہمارے قومی مستقبل کی عمارت کی بنیادیں استوار ہیں:

جب مرے بچے وارث ہیں ،ان کے جسم میں

 

سوچتا ہوں حدت خوں کی کمی اچھی نہیں

 

ہمارے بچے تو ’’ب‘‘ سے بجلی سمجھ نہ پائیں

 

جدید مکتب میں ہو رہی ہے پڑھائی کیسی

(۹۰۰)

 

بچے کا ذہن جتنی کتابوں میں بٹ گیا

 

مجبور باپ اتنے عذابوں میں بٹ گیا

(۹۰۱)

 

تم اپنے بچوں کو آدمیت کے خوں سے رنگیں نصاب دو گے

 

تو آنے والے عظیم کل کے حضور میں کیا جواب دو گے

 

جب چلی ٹھنڈی ہوا ،بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

 

ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو

(۹۰۲)

ùفنکارکی پہلی خصوصیت محبت ہوتی ہے۔ وہ ہر نوعیت کی نفرت کے خلاف نبرد آزما ہوتا ہے۔ نفرت کے ماحول میں اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ صبا عالمی انسانی برادری اور عالمی مساوات کا تصور رکھنے والے شاعرہیں۔ لیکن عملی زندگی میں ان کو قدم قدم پر نہ صرف نفرتوں کا سامنا رہا بلکہ انھوں نے اپنے عہد میں علاقائی ،لسانی ،فرقہ وارانہ ،منافرت بھی عروج پر دیکھی جس کی عکاسی ان کی غزلوں میں جا بجا ملتی ہے:

نفرتوں کے کنکروں سے جسم چھلنی ہو گیا

 

ماں نے اپنے لاڈلوں کی خیر خواہی دیکھ لی

(۹۰۳)

 

چاہتوں کے سب پنچھی اُڑ گئے پرائی اور

 

نفرتوں کے گاؤں میں جسم گھاؤ گھاؤ ہیں

 

دل کو ہے اس شہر کی گلیوں میں جینے کی طلب

 

نفرتیں رقصاں جہاں ہیں مختلف اشکال میں

(۹۰۴)

یہ احساسات کا نیا جغرافیہ ہی ہے جو صبا کے شعری منظر کو اردو کے بسیط سر زمین شعر میں منفرد اور ممتاز کرتا ہے۔ صنعتی مزدوروں کے مسائل محض کارخانے کی چار دیواری تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کی سماجی زندگی کے جملہ پہلوؤں میں نمایاں رہتے ہیں۔ صبا کی غزل جہاں دیگر مسائل زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ وہاں ان کے مسائل کو بھی خاص طور پر سامنے لاتی ہے۔ جو کارخانے کے گیٹ کے اندر آجر، اجیر اور مشین کے براہ راست تعلق سے جنم لیتی ہیں:

لہو جلتا رہے گا کارخانوں میں غریبوں کا

 

دھواں اٹھتا رہے گا آسماں تک چمنیوں سے کیا؟

 

جس کی پیشانی پہ تحریر تھا محنت کا نصاب

 

سر فہرست وہی شخص ہے بے کاروں میں

(۹۰۵)

 

کمر خم کھا گئی جن سے ،حریصان جہاں دیکھو

 

لکیریں پشت پر قائم ابھی ان بوریوں کی ہیں

(۹۰۶)

;۱۹۷۱ء میں ہمارے نام نہاد حلیفوں بالخصوص امریکہ کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی ۔لیکن اس کے باوجود اپنی معاشی ضروریات کے لیے اسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ،قرضے کا بوجھ آنے والی نسلوں پر ڈالتے جانا اور اس معاشی وسیاسی غلامی کے باوجود آزادی اور خود مختاری کا راگ الاپنا صبا کو خود فریبی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ قوم کی شکست اور ذلت کا سبب ارباب بست و کشاد کی اسی غیر حقیقت پسندانہ سوچ کو قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:

بلندیوں سے گرا ہوں میں اپنے سائے پر

 

فضا میں اُڑتا کہاں تک کہ تھے پرائے پر

 

اگرچہ زعم ہے اونچی اڑان کا مجھ کو

 

اڑوں فضاؤں میں اور پنکھ بھی پرائے رکھوں

(۹۰۷)

³صبا ؔایک محب وطن شاعر تھے۔ انھوں نے وطن کی خاطر جنگ بھی لڑی ،مزدوری کی اور مزدور تحریکوں کے علاوہ جمہوری تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی زندگی کی جملہ سرگرمیاں ان کے جمہوریت پرست اور محب وطن شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔۱۹۶۸ء کی عوامی جمہوری تحریک اور مقامی مزدور تحریکوں میں انھوں نے بھر پور حصہ لیا ۔اور اس عرصے میں ان کی شاعری نے نیا رنگ اختیار کیا۔ ۱۹۷۲ء سے ان کا کلام مجلہ’’فنون‘‘ میں چھپنا شروع ہوا توا نھیں ملک گیر شہرت و مقبولیت حاصل ہونے لگی۔ آپ ۱۹۷۷ء میں ملک میں مسلط ہونے والی آمریت کے خلاف بھی عمل اور تخلیقی لحاظ سے سر گرم رہے ۔ ان سب باتوں کی جھلک صباؔ کی شاعری میں نظر آتی ہے:

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

 

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

 

گلوں کو اوڑھ کے نکلے ہیں ابرسنگ میں لوگ

 

گلی گلی میں مہکتی شجاعتیں دیکھوں

(۹۰۸)

 

لب اظہار پہ جب حرف گواہی آئے

 

9آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئی

 

اتنی پر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی

 

شب کی دہلیز پہ جلتے کو دیا ہی آئے

(۹۰۹)

 

راہ رو منزل مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ

 

جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے

(۹۱۰)

صباؔ اپنی سر زمین کے پیداواری وسائل اور ان کی افزائش و نمو کے جملہ امکانات سے بخوبی آگاہ تھے اور یہ جانتے تھے کہ ہم اپنے وسائل کو برؤے کار لا کر باوقار اور خو د انحصاری کی زندگی گزار سکتے ہیں۔لیکن ہماری روایتی سہل پسندی اور دریوزہ گری کی مذموم عادات ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے نہیں دیتیں:

ہم سہل پسندوں نے آنکھیں ہی نہیں کھولیں

 

دھرتی تو ازل سے ہے گنجینہ زر کھولے

 

لہو چناب بدن میں رواں ،مگر ہم لوگ

 

اُٹھائے پھرتے ہیں بیساکھیاں کرائے پر

(۹۱۱)

Á۱۹۷۷ء کے سیاسی بحران میں بھٹو حکومت کو معزول کر کے ملک پر مارشل لاء مسلط کر دیا گیا۔ مارشل لاء مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اظہار رائے پر کڑی پابندیوں ،کوڑوں کی سزاؤں ،قیدو بند کی صعوبتوں اور سیاسی و سماجی جبر کے دوسرے حربوں نے پورے سماجی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اس صورت حال کے ادب پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اظہار رائے کی نئی راہیں دریافت ہوئیں اور مزاحمتی موضوعات کا بول بالا ہوا۔ صباؔ کی شاعری میں مزاحمتی عناصر کی گونج سنائی دیتی ہے:

وہ مجھ سے نامہ اعمال مانگتا ہے صباؔ

 

خود اتفاق نہیں جس کو اپنی رائے پر

 

بجھا سکیں نہ پُر آشوب آندھیاں اب کے

 

ہتھیلیوں پہ سروں کے چراغ جلنے لگے

(۹۱۲)

 

ہر صبح پرندوں نے سوچ کے پر کھولے

 

ان آہن پنجروں کے شاید کوئی در کھولے

 

ساون مری آنکھوں سے خوں بن کر برستا ہے

 

جب کوئی زمیں دربار میں سر کھولے

(۹۱۳)

ماں کا لفظ صباؔ کی شاعری میں اپنے اندر اپنی تمام تر رفعتوں اور عظمتوں کو سمیٹ کر جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور صبا کی شاعری کا مرکز و محور ٹھہرتا ہے۔ ماں ان کے ہاں بیک وقت حقیقی رشتے اور زمینی رشتے دونوں کا حوالہ بن کر آتی ہے۔ وہ اپنے اور اپنے اہلِ وطن کے تحفظ اور تمام تر کامیابیوں کے تیقن کو ماں کی عظیم ہستی کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں:

وہ اپنی بانہوں میں بھینچ لے تو برائی کیسی

 

زمیں ماں ہے تو ماں سے لڑائی کیسی

 

ڈرایا روشنی فکر سے جہاں نے مجھے

 

مگر بچایا ہے اس ڈر سے میری ماں نے مجھے

(۹۱۴)

                                               

ماں نے مجھے تنہا کہیں چھوڑا ہی نہیں ہے

 

چشمہ مرے پاؤں سے ابل کیوں نہیں سکتا

(۹۱۵)

¿سبط علی صباؔ نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم ،سلام ،اور نوحے بھی لکھے ہیں۔ راہ میں دیوار نہ بن، آرزو ہے،عید محرومی ،روشنی عمل، تمہیں یاد ہو گا،گواہ رہنا، آج کا دن جمہور کا دن ہے، عظیم قائد، وہ ایک شاعر اور یاد شہدا، صباؔ کی آزاد نظمیں ہیں۔ ان میں سے گواہ رہنا ،عظیم قائد، وہ ایک شاعر اور یادِ شہدا مصرعی تسلسل کی آزاد نظمیں ہیں۔ صباؔ کی نظمیں اپنا تمام مواد سر زمین وطن ،اس کی عسکری روایات اور اسلامی عسکری تاریخ سے حاصل کرتی ہیں۔ ان میں رنج، تاسف یاد ل کی شگفتگی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ ان نظموں میں مادرِ وطن کی زندگی میں سپاہی کے حقیقی کردار کو سمجھنے والے ایک پرعزم اور باشعور سپاہی کا بلند بانگ عسکری لہجہ ہے۔ جو اہلِ وطن کو تاریخی اور قومی شعور بیدار رکھتے ہوئے وطن کے دفاع کے لیے ہمہ اوقات تیار رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ان نظموں میں وطن کے دریاؤں ،کھیتوں ،کسانوں ، شہیدوں اور قومی رہنماؤں سے شاعر کی والہانہ عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔ الفاظ و تراکیب بھی عسکری زندگی کے لیے گئے ہیں۔علم، مشعل، پرچم وغیرہ کا بکثرت تذکرہ ملتا ہے۔ وطن کے سپاہیوں کی ہمت اور جذبہ حریت و شہادت کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ ان کو قلزم ہمت کے شناور، جراّر اور غضنفر جیسے خطابات دیے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت امام حسینؓ کی تاریخی قربانیوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دشمن کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے واقعات بھی بطور تلمیحات ان نظموں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا نظموں سے ایک سچے پاکستانی کے وطن کے بارے میں حقیقی احساسات و جذبات کا انکشاف ہوتا ہے۔ صبا نے زندگی میں جو کچھ محسوس کیا۔ اسے بیان ہی نہیں کیا بلکہ اصلاح احوال کے لیے آواز بھی اٹھائی ان کے ہاں غم کی لہروں سے دب جانے کا احساس نہیں ملتا بلکہ مزاحمت و پیکار کی فضا ملتی ہے۔ صبا ؔکی غزل جہاں دنیا بھر کے مظلوموں اور ارضِ وطن کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرتی ہے وہاں ان کی نظم عساکر پاکستان کے جذبوں اور عزائم کو مہمیز لگاتی ہے۔ اپنے موضوعات کے اعتبار سے ان کی شاعری زیردستوں کے مسائل کے خلاف احتجاج کی صورت میں اظہار پاتی ہے۔صبا کی شاعری کے فنی تجزئیے اور مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صبا ؔکا اسلوب ایک سپاہیانہ اسلوب ہے جو ان کی سپاہیانہ فکر نے پیدا کیا ہے ۔صبا ؔکی غزلوں کی بحر یں زیادہ تر سادہ اور رواں ہیں لیکن اپنے اسلوب، آہنگ، تمثال کاری ،تراکیب، تشبیہ و استعارہ ، علامات ،لفظیات اور صنائع بدائع کے حوالے سے یہ غزلیں اپنی فکری ندرت کی طرح اپنے اندر ایک غیر معمولی فنی ندرت بھی رکھتی ہیں۔

۸۹۰۔پروفیسر اختر شاد، ’’سبطِ علی صبا۔شخصیت و فن‘‘،ص:۲۰

۸۹۱۔احمد ندیم قاسمی ،’’پیش لفظ‘‘،مشمولہ’’طشت مراد‘‘ از سبطِ علی صبا، واہ کینٹ ،مجلس تصنیف و تالیف،۱۹۸۶ء،ص:۹

۸۹۲۔سبطِ علی صبا،’’طشت مراد‘‘ ص:۳۵،۳۶

۸۹۳۔ایضاً،ص:۴۲

۸۹۴۔ایضاً،ص:۲۵

۸۹۵۔ایضاً،ص:۳۹

۸۹۶۔ایضاً،ص:۵۲

۸۹۷۔ایضاً،ص:۵۴

۸۹۸۔ایضاً،ص:۸۲

۸۹۹۔ایضاً،ص:۸۵

۹۰۰۔ایضاً،ص:۸۸،۸۹

۹۰۱۔       ایضاً،ص:۹۵

۹۰۲۔ایضاً،ص:۹۷،۹۸

۹۰۳۔ایضاً،ص:۲۱

۹۰۴۔ایضاً،ص:۳۷،۳۸

۹۰۵۔ایضاً،ص:۸۶،۸۷

۹۰۶۔ایضاً،ص:۵۶

۹۰۷۔ایضاً،ص:۹۴،۹۵

۹۰۸۔ایضاً،ص:۱۱۰،۱۱۱

۹۰۹۔ایضاً،ص:۱۱۵،۱۱۶

۹۱۰۔       ایضاً،ص:۱۱۸

۹۱۱۔        ایضاً،ص:۱۲۲،۱۲۳

۹۱۲۔       ایضاً،ص:۱۳۱،۱۲۳

۹۱۳۔ایضاً،ص:۴۸،۴۹

۹۱۴۔ایضاً،ص:۶۰،۶۱

۹۱۵۔ایضاً،ص:۷۵

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...