Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > خلیق حسین ممتازؔ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

خلیق حسین ممتازؔ
ARI Id

1688382102443_56116121

Access

Open/Free Access

Pages

251

خلیق حسین ممتازؔ (۱۹۳۷ء۔پ) اصل نام ہے اور ممتازؔ تخلص کرتے ہیں۔ آپ پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم نیا زحسین نیاز اردو اور پنجابی کے اچھے شاعر تھے۔(۹۲۵)آپ کا شعری کلام’’ابلاغ‘‘ ،’’امروز‘‘،’’آدابِ عرض‘‘،’’تجوید نو‘‘ اور ’’ادبی ایڈیشن‘‘ جنگ میں چھپتا رہا۔ آپ کا شعری مجموعہ ’’اساس فکر‘‘ ۲۰۰۵ء میں طہٰ پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا۔

یہ کتاب غزلیات پر مشتمل ہے۔ ’’صحیفہ مودت‘‘ ایک شعری مجموعہ زیر طبع ہے جو حمد،نعت ،منقبت اور سلام پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور مسودے ہیں جن کے نام ابھی زیر غور ہیں۔خلیق حسین ممتاز ایک قادر الکلام استاد شاعر ہیں۔ سیالکوٹ کے کئی شعراان کی شاگردی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انھیں علم عروض پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ممتاز شاعروں کے ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کائنات کی ہتھیلی پر اُبھرے ہوئے خط جمال کو مزید گہرا اور تابناک بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری زندگی کو حسن عطا کرتی ہے۔ ان کی شاعری انسان میں امید پیدا کرتی ہے اور مایوسیوں کے اندھیروں سے باہر نکالتی ہے۔رجائیت ان کی شاعری میں جگہ جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے اشعار ابہام سے پاک ہوتے ہیں مصروں میں روانی اور چاشنی محسوس ہوتی ہے۔ وہ روایت کے ساتھ جدیدیت کے قائل ہیں۔ روایت اور جدیدیت نے ان کی سوچ کو آفاقی بنا دیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سبھی رنگ موجود ہیں ۔موضوعاتی نظم ان کا حصہ ہے وہ ایک مکتب فکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کا کلام زیادہ تر مروجہ اور بنیادی شعری اصولوں اور پیمانوں کی میزان پر پورااترنے کے ساتھ سا تھ حقیقت کے قریب تر ہے۔ آپ کے لفظوں میں سچائی نظر آتی ہے۔

عشق و محبت ممتازؔ کی غزلیات کا ایک اہم موضوع ہے ۔ممتاز کے ہاں پاکیزہ عشق و محبت ملتا ہے۔ کہیں بھی بوالہوسی نظر نہیں آتی:

وہ جس کا رہتا ہے آنکھوں میں عکس آویزاں

 

وہ ماہتاب صنعت، بام پر ملے تو سہی

(۹۲۶)

 

بڑا آساں ہے اظہار محبت

 

5بڑا مشکل ہے دکھ تحریر کرنا

 

5یہ عادت سی ہماری ہو گئی ہے

 

3تصور میں انھیں تصویر کرنا

(۹۲۷)

 

وصل ممکن نظر نہیں آتا

 

'آرزؤے وصال کون کرے

(۹۲۸)

عشق ِ مجازی کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں تقدیر پر بھی بہت سے اشعار ملتے ہیں۔ انھیں تقدیر پر کامل یقین ہے۔ وہ تقدیر جیسی تلخ حقیقت کو اپنی ہر صنف سخن میں ایمان و توکل کے ساتھ پیش کرتے ہیں:

مقدر میں جو ہو رہتا ہے ہو کر

 

7تو پھر کیا شکوۂ تقدیر کرنا

(۹۲۹)

3اخلاقیات اور انسانی ہمدردی آفاقی شاعری کے بڑے اہم موضوعا ت ہیں۔ ممتاز کی شاعری میں بھی اخلاقی اقدار کی جھلک اور انسانی ہمدردی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے:

گھروندے ریت کے تعمیر کرنا

 

3ذرا اس خواب کی تعبیر کرنا

 

شجر لگانا مرا کام تھا کیا میں نے

 

ملے کسی کو ہی اس کا ثمر ملے تو سہی

(۹۳۰)

ممتاز کے ہاں سماجی شعور بھی ملتا ہے۔ وہ اپنے گردو نواح پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں۔ اور اپنے سماج کے حالات کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ وہ معاشرے میں بدا منی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اپنے معاشرے میں امن و آشتی کے خواب دیکھتے ہیں:

کہیں سے کوئی نوید سحر ملے تو سہی

 

چڑھے گا خیر سے دن یہ خبر ملے تو سہی

 

کبھی ہوا ہی کی دستک سنائی دے ممتازؔ

 

کچھ انتظار کا ہم کو ثمر ملے تو سہی

(۹۳۱)

'ممتاز ؔسچے اور کھرے انسان ہیں ۔معاشرے کی بے لوث خدمت کرنا ان کی شخصیت کی ایک اہمصفت ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں خود غرضی ،بے مروتی ،حد اور کینہ و بغض جیسی اخلاقی برائیاں نہ ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک اچھے معاشرے میں ان انسانی برائیوں کا وجود نہیں ہونا چاہیے:

زندگی کو وبال کون کرے

 

-ہر کسی کا ملال کون کرے

 

/اپنا اپنا خیال ہے سب کو

 

-دوسروں کا خیال کون کرے

 

1ہر کوئی شخص ٹال دیتا ہے

 

-اب کسی سے سوال کون کرے

 

3ہے ہمیں جس طرح خیال ان کا

 

-یوں ہمارا خیال کون کرے

(۹۳۲)

۹۲۵۔راقم الحروف کا خلیق حسین ممتاز سے انٹر ویو ،بمقام سیالکوٹ ،بتاریخ ۵اگست ،۲۰۱۱ء

۹۲۶۔خلیق حسین ممتاز، ’’اساس فکر‘‘،لاہور ،طٰہ پبلی کیشنز ،۲۰۰۵ء، ص:۳۴

۹۲۷۔ایضاً،ص:۳۷

۹۲۸۔ایضاً،ص:۵۱

۹۲۹۔ایضاً،ص:۳۷

۹۳۰۔ایضاً،ص:۳۷،۳۸

۹۳۱۔ایضاً،ص:۴۱

۹۳۲۔ایضاً،ص:۲۵

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...