Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

رشید آفریںؔ
ARI Id

1688382102443_56116122

Access

Open/Free Access

Pages

252

رشید آفریںؔ(۱۹۳۸ء۔پ) کا اصل نام محمد رشید ہے۔ آپ محلہ مجید پورہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے اردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ آپ بچپن سے ہی شعر و شاعری کر رہے ہیں۔ اکبر لاہوری سے شاعری میں اصلا ح لیتے تھے(۹۳۳) آپ کا شعری کلام ماہنامہ’’حور‘‘ لاہور ماہنامہ’’شمع‘‘،لاہور ماہنامہ ’’ماہِ نو‘‘ لاہور ماہنامہ’’اقدار‘‘ کراچی ماہنامہ’’رابطہ‘‘ کراچی ماہنامہ ’’نئی قدریں ‘‘ حمید آباد ،ماہنامہ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور ،ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور ،ہفت روزہ’’برمنگھم‘‘ برطانیہ، ماہنامہ ’’اوراق‘‘ لاہور اور دیگر ملکی اور بین الاقوامی رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا۔ ’’وجہ آفریں‘‘ آپ کا پہلا شعری مجموعہ ہے جسے مکتبہ فردوس سیالکوٹ نے ۱۹۷۲ء میں شائع کیا۔ دستِ ساحل‘‘ آفریںؔ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جسے الحمد پبلی کیشنز نے ۱۹۹۵ء کو طبع کیا۔ ’’دامن احساس‘‘آپ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جسے الرزاق پبلی کیشنز نے ۲۰۰۲ء میں شائع کیا۔ ’’فخر دو عالم‘‘ رشید آفریں کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے۔

رشید آفریں غزل کے شاعرہیں لیکن غزل کے ساتھ ساتھ انھوں نے نظم ،حمد ،منقبت،سلام ،نعت اور قطعات بھی لکھے ہیں۔ کشمیریات کے حوالے سے خصوصاً ان کی نظمیں دردو غم میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اور کشمیر سے ان کی محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔اس کے علاوہ قومی ترانے ،قومی و ملی نظمیں اور بانیانِ پاکستان کے حوالے سے لکھی نظموں میں وطنیت اور قومیت کا واضح اظہار ملتا ہے۔

رشید آفریں ادب میں مقصدیت کے قائل ہیں ان کے ہاں غیر مقصدی ادب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں روایت اور جدت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا لہجہ پر درد اور موثر ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو پورے سماج کا ترجمان بنایا ہے۔ ان کی نظموں میں روانی و برجستگی اور خلوص فن کی صداقت کی جیتی جاگتی تصویریں نظر آتی ہیں۔محسن بھوپالی رشید آفریں کی نظموں کے حوالے سے لکھتے ہیں:

نظموں میں رشید آفریں کی درد مندی اور خلوص

 

بجا طور پر سراہے جانے کے لائق ہے

(۹۳۴)

رشید آفریں کی غزل میں کلاسیکی اورجدید غزل کا امتزاج بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ اپنی غزل میں کہیں بھی روایت سے بغاوت کرتے نظر نہیں آتے۔جگن ناتھ آزاد ان کی غزل کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:

رشید آفریں کی غزل کلاسیکی غزل اور نئی غزل کا حسین امتزاج ہے۔ اس میں نئے خیالات کی تازگی ہے اور کلاسیکی لے کی ہم آہنگی بھی ۔(۹۳۵)

رشید آفریں کی غزل کا ایک اہم موضوع ماضی اور ماضی کی یادیں ہے۔ ان کی غزلوں میں عہدِ ماضی کی یادیں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ان کی غزلوں میں کھو جانے کا احساس ،تلاش ،جستجو اور یادِرفتگاں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔جیلانی کا مران رشید آفریں کی غزلیات کے اس اہم موضوع کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

اچھی شاعری وہ ہے جو انسان کی یادداشتوں کو تازہ کرے اور یہ خوبی رشید آفریں کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔(۹۳۶)

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ رشید آفریں کے ہاں ہجر و فراق و وصال کے لمحے زندگی کی تلخ و شیریں حقائق ،واضح ،مبہم اور نیم مبہم یادیں ملتی ہیں۔ وہ اپنی شاعری کو ماضی کی خوشگوار اور نا خوشگوار یادوں سے خوبصورت بناتے ہیں :

اتر آیا ہے دل میں آفریں پھر یاد کا موسم

 

مہک اٹھی ہے جس کے دم سے میری شاعری پھر سے

(۹۳۷)

 

بسیط تنہائیوں کے جنگل میں یاد کی جب بھی چٹکیں کلیاں

 

_حسین رتوں ،پر خلوص لمحوں کی نکہتوں کو تلاش کرنا

 

دید کی آس میں جلتی گھڑیاں ،ہجر فراق وصال کے لمحے

 

سینے پر سے یادوں کے یہ بھاری کون اتارے پتھر

(۹۳۸)

£ان کی غزل میں روایتی شاعری کا رنگ بھی واضح طورپر نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں بھی محبوب کے ظلم و ستم کے خلاف شکایتیں موجود ہیں۔ وہ بھی محبوب کے جو روجفا پر آہ وزاری کرتے ہیں۔ ان کی غزل ایک معصوم دل کی فریاد بھی محسو س ہوتی ہے۔ جو بار بار لبِ گویائی پر اپنا فطرت شناس طلسم دکھاتی ہے۔ وہ جگہ جگہ اپنی غزلیات میں اپنے دل کی فریاد اس طرح کرتے ہیں :

حسن والے گو جفا کرتے رہے

 

9اہلِ دل پھر بھی وفا کرتے رہے

 

9کچھ رہے نالاں خزاں کے جور سے

 

5کچھ بہاروں سے گلہ کرتے رہے

 

;ہم بھی یادوں کو مٹا کر ذہن سے

 

1حال سے ماضی جدا کرتے رہے

 

9ان سے کیا کرتے گلہ اے آفریںؔ

 

7جان و دل جن پر فدا کرتے رہے

(۹۳۹)

ýاحساسات کی ترجمانی میں سلاست و سادگی ایک قابلِ تحسین امر ہے اور بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے تو شاعر اپنے دل کی بات کہہ دیتا ہے۔ رشید آفریں اپنے کردار کے آئینے میں جتنے کھرے پن کے حامل ہیں ا تنے ہی اپنے جذبات و احساسات میں حقیقت پسند اور صاف گو ہیں ۔ان کے نزدیک محبت،تخلیقِ کائنات کا جواز اور انسانیت کا شناختی امتیاز ہے۔ وہ عہدِ غم و الم میں بھی سچے جذبوں کے ہی پھول کھلاتے نظر آتے ہیں:

ہم رقیبوں سے ملے ہیں نہ ملیں گے لیکن

 

ان سے ملنا ہے تو یہ کام بھی کر دیکھیں گے

 

آفرین راہِ وفا میں جو مٹیں گے ایک دن

 

حسن والے ہمیں بادیدۂ تر دیکھیں گے

(۹۴۰)

+رشید آفریں کی شاعری میں سماجی شعور بھی ملتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے آشوب کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے عہد کے حالات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کی بد صورت اور نا انصافی کو بیان کرتے وقت جذباتی نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے بیان کے دوران حسنِ توازن برقرار رکھتے ہیں:

ہر اک دل میں کدورت کا دھواں دیکھا تھا کب پہلے

 

مکیں جس کو جلائے وہ مکاں دیکھا تھا کب پہلے

 

دلوں میں اک خلیج بے کراں دیکھا کیے اب تک

 

فصیل بے حسی کو درمیاں دیکھا تھا کب پہلے

 

برہنہ جس طرح تہذیب انساں آج ہے رقصاں

 

بشر کا ارتقا یوں بے گماں دیکھا تھا کب پہلے

(۹۴۱)

رشید آفریںؔ روایت پسندی میں حسن و عشق کے موضوعات بھی اپنی غزلوں میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے حسن و عشق کے بیان میں کہیں بھی بوالہوسی نظر نہیں آتی۔ وہ اپنے محبوب کے حسن کو بیان کرتے ہوئے مشرقی شرم و حیا کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ رشید کے محبوب کے حسن میں جادو گری بھی ہے جو عاشق کے لیے کشش رکھتی ہے۔

ترے سانسوں کی مہک پھولوں میں

 

-ہر کلی تری حیا ہو جیسے

 

نظارے رقص کرتے ہیں محبت کی فضاؤں میں

 

چمن میں جب کبھی وہ مہوش و گلفام آتی ہے

(۹۴۲)

 

وہ نظر تھی یا کہ تھا شعلہ کسی کے حسن کا

 

چھپ گیا ہے جو فضاؤں میں شرارے چھوڑ کر

 

;کرشمے ہیں حسن فسوں ساز کے لیے

 

7کبھی جاں بخشے کبھی مار ڈالے

(۹۴۳)

}رشید آفریں کی شاعری کا ایک اہم موضوع حقیقت نگاری بھی ہے۔ وہ مصلحت کے تحت کوئی حق گوئی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں ۔اپنے ضمیر کی آواز پر لکھتے ہیں عوام کے شعور کو بیدار کرنے کی تگ و دوان کی شاعری کا مطمع نظر ہے۔ ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں کہیں بھی کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ اس لحاظ سے وہ باعمل مبلغ اور مصلح کے طورپر بھی محسوس ہوتے ہیں۔وہ انسانی اقدار کے فروغ اور انسانی بہبود کے لیے بھی اپنی شاعری پیش کرتے نظر آتے ہیں:

نئے لمحے نئی رت ہے نیا بابِ سفر کھولو

 

جو دل میں ہے خواہشِ پرواز رکھتے ہو تو پر کھولو

 

بشر کے ہاتھ تذلیلِ بشر کی داستاں پڑھ لو

 

صحیفے بند کر دو اور حکایاتِ بشر کھولو

 

اندھیری شب مسلط ہے ابھی کاخِ بصیرت پر

 

سوادِ ظرف روشن ہو دریچہ سحر کھولو

 

عجب ہے سانحہ ہم سب بہم دست و گریباں ہیں

 

ستارو آؤ ملت کے مقدر کے بھنور کھولو

(۹۴۴)

شاعرکی ایک ذہنی کائنات ہوتی ہے۔ اس کا وجدان اس کی سوچ اور اس کے ذہنی رویے ایک دنیا آباد کرتے ہیں ۔ وہ وفا کا طلب گار ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کے سارے رویوں میں ایک تعمیری نکھار لانا چاہتا ہے اور جب وہ ماحول میں اپنی سوچ کے برعکس نفسا نفسی کو دیکھتا ہے تو ایک اضطراب کی صورت اس کے رگ و پے میں پیدا ہوتی ہے۔ آفرین بھی شاعر ہیں اور جب خود ہی زخم اور خود ہی مرہم کی صورت زمانہ کی بے رخی کا شکار ہو جاتا ہے تو اپنے اندھیرے کو اجالے دینے کے لیے کہتے ہیں:

اب جنس وفا دہر میں کم یاب ہوئی ہے

 

جو دل کی دوا تھی وہی نایاب ہوئی ہے

 

خود آ کے قدم میرے کناروں نے ہیں چومے

 

جب کشتیٔ دلِ مائل گرداب ہوئی ہے

 

اس قوم کو دنیا میں ابھرتے نہیں دیکھا

 

جو قوم کہ خود غرقِ مے ناب ہوئی ہے

(۹۴۵)

رشید آفریں روشنی اور امید کے شاعر ہیں وہ اپنے عہد کے تمام سچے جذبوں رویوں اور فکری عناصر سے آگاہ ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری میں ماحول کے ٹھہراؤ اور سیاسی و سماجی رویوں سے پیدا ہونے والی کیفیت کا اکثر تذکرہ کیا ہے اور معاشرے کا ایک حساس رکن ہونے کے سبب اپنے غمِ دوراں کا اظہار بھی بڑے لطیف احساسات کے ساتھ کیا ہے۔ وہ جو محسوس کرتے ہیں کہہ دیتے ہیں اور کسی نا خدا کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں:

جمال بحر و بر کو کون سمجھے

 

7کمالِ شیشہ گر کو کون سمجھے

 

;الجھ کر رہ گئے ہیں رتجگوں میں

 

/عنایات سحر کو کون سمجھے

 

1چلن ہی رہبری کا رہزنی ہے

 

1روایاتِ سفر کو کون سمجھے

(۹۴۶)

±جس طرح ہر نسل کا مجموعی رویہ پہلی نسل سے مختلف ہوتا ہے اس طرح ہر فرد کا رویہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کائنات کے پہلے انسان سے لے کرلمحہ موجودہ کے انسان تک کی سوچ اور اندر کے موسم میں تبدیلی بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ صدی پہلے انسان کی سوچ ذہن کے کینوس پر جو انسانی تغیر و تبدل کی تصویر بناتی تھی ۔ اس کا آج کے ذہنی کینوس پر پھیلاؤ منفرد ہو گیاہے۔ رشید آفریں کی شاعری بھی انھی عناصر سے ترتیب پاتی ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’دامنِ احساس‘‘ کی متعدد غزلیں انہی جذبوں کی عکاس ہیں:

نگاہوں میں حسیں سر سبز منظر آ گئے ہیں

 

جو موسم روح کے اندر تھے باہر آگئے ہیں

 

حصارِ ضبط یوں توڑا ہے اک اشکِ وفا نے

 

سمٹ کر گویا قطرے میں سمندر آ گئے ہیں

 

ہوئی ہے ماند ضو علم و ہُنر کی زر کے آگے

 

گُہر کی ہمسری کو جیسے کنکر آ گئے ہیں

(۹۴۷)

رشید کی شاعری میں سماجی اور تاریخی شعور کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور بھی ملتا ہے۔ رشید اپنے وطن کی سیاست اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی غزل مادی حالات کے ساتھ ساتھ سیاست کی طرف بھی مائل نظر آتی ہے:

طرزِ حیات آج ہے کتنا بدل گیا

 

فطرت کی سب حدوں سے اب انسان نکل گیا

 

اٹیم بہ دست آج کا انساں بہ زعمِ خود

 

یہ کہہ رہا ہے جنگ کا خطرہ ہی ٹل گیا

(۹۴۸)

Ñایک صادق آدمی عشق کرتا ہے تو ٹوٹ کر کرتا ہے۔ اس کے عشق میں بناوٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔اس کے ہجرو وصال کی واردات حقیقی ہوتی ہے اور اگر وہ شاعر ہو تو جس تجربے سے گزرتا ہے بے کم و کاست بیان کر دیتا ہے۔ اور قاری بھی یہی سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی ایسی ہی بیتی ہے۔ رشید آفریں کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔وہ اپنے نہاں خانوں تک رسائی بہم پہنچاتے ہیں ۔ ان کا مسلک ایسی ہی زندگی کی تخلیق ہے جس میں پیار،محبت اور امن آشتی ہو لیکن یہ ہمارا عہد دو عملی کا شکار ہے۔ ظاہر و بین میں تضادات کی ایک وسیع خلیج اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ لیکن رشتہ آفرین جب تضادات کی اس فضا میں اذیت سے گزرتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں:

اُجالے کے سفیرو! چھا نہ جائے گی تیرگی پھر سے

 

چراغِ دل جلاؤ جاوداں ہو روشنی پھر سے

 

بنامِ آدمیت ،آدمی کو کچھ تو سمجھاؤ

 

درندہ بن گیا ہے کب بنے گا آدمی پھر سے

 

سبق ہو یاد جس کو خود اخوت اور صداقت کا

 

میسر ہو وہ ملت کو خدایا رہبری پھر سے

(۹۴۹)

رشید آفریں محبِ وطن شاعر ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان کے بانیوں سے اپنے دلی لگاؤ کا اظہار کرتے ہوئے اپنی عقیدت سے مزین انھوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں ۔ اور فرزندان اسلام کو بھی اپنی شاعری کا عنوان بنایا ہے۔ مادرِ وطن کی سر زمین کے متعلق تو عزم و عمل کا زرہ بکتر پہن کر انھوں نے مجاہدجذبوں کی زبان میں یوم آزادی ،یوم پاکستان، اور یومِ دفاع کے موضوعات پر ملی نغمے بھی تخلیق کیے ہیں۔ ان کے ہاں کشمیر اور کشمیری مجاہدین کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے بھی بہت سے نغمے ملتے ہیں۔ ان کے ایک ملی نغمے کے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

کوہ و دمن جاذب نظر دل کش تیرا میدان ہے

 

ہر رہ گزر ہے کہکشاں خلدِ بریں کھلیان ہے

 

تو باعثِ امن و سکوں عشرت کا بھی سامان ہے

 

تیرے سدا گاتے ہیں گن ہم سب کی تو پہچان ہے

 

پیارے وطن رشکِ چمن تیری نرالی شان ہے

 

تیرے مجاہد تیرے غازی دل میں رکھتے ہیں لگن

 

کر کے رہیں گے ایک دن زندہ روایات کہن

 

بھولے نہیں ہیں آج تک محمود و غازی کا چلن

 

ہم ظلم سے ٹکرائیں گے سینے میں وہ طوفان ہے

 

پیارے وطن رشکِ چمن تیری نرالی شان ہے

(۹۵۰)

£ملی شاعری توانا جذبوں کی بیداری میں جس للکار کو جنم دیتی ہے۔ اس کی مہک رشید آفریں کی ملی شاعری کے بھی ماتھے کا جھومر ہے اور حریت پسند مجاہدوں کے جذبوں کی زبان بن کر محبتوں اور ولولوں کی نئی بستیاں آباد کرتیہے۔

نعتیہ شاعری بھی رشید آفریں کا محبوب موضوع ہے۔’’فخر دو عالم‘‘ ان کا باقاعدہ نعتیہ شعری مجموعہ بھی ہے۔ جس میں رشید کی حضورؐ سے محبت واضح طورپر دیکھی جا سکتی ہے ۔رشید کے نظمیہ اور غزلیہ شعری مجموعوں میں بھی نعتیہ کلام موجود ہے جب ہم رشید کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رشید کی جدید نعت جدید شعور سے بہرہ ور ہے۔ رشید کی نعت کی اس کیفیت کا نمونہ کچھ اشعار میں ملاحظہ ہو:

دل میں ہے موجزن شہِ کونینؐ کی ولا

 

جچتا نہیں نگاہ میں کوئی بھی کج کلاہ

 

مدحت سے آپؐ کی ملا مجھ کو وہ حوصلہ

 

آسان ہوا ہے جس سے ہر دشوار مرحلہ

 

جاری ہوا لبوں پہ درود و سلام جب

 

مجھ کو بھی نعت گوئی کا ادراک ہو گیا

(۹۵۱)

}رشید آفریں نے اظہار بیان کے لیے سادہ اور سلیس پیرائے اختیار کرکے دقیق اور بوجھل الفاظ و تراکیب سے پرہیز کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مافی الضمیر کو اصل ساخت میں اور فوری سطح پر قاری تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔اس لیے ان کے شعر و جد آفرین ہونے کے ساتھ ساتھ اثر آفرین ہوتے ہیں۔ پروفیسر اکرامؔ سانبوی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

رشیدآفریں کے اشعار کو سمجھنے کے لیے کسی ذہنی جمنا سٹک کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے۔(۹۵۲)

رشید آفرین نے تخلیق شعر کو محض مشغلے کے طورپر اختیار نہیں کیا بلکہ انھوں نے بڑی درد مندی اور سنجیدگی سے اسے باطن قرض سمجھ کر ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں مابعد الطبیعاتی فکر سے لے کرعمرانی اور نفسیاتی سوچ اپنی اپنی جگہ بڑے قرینے سے پروئی ہوئی ہے۔ جو ن ایلیا،رشید آفریں کی اس خصوصیت کا اقرار کرتے ہوئے ’’وجہ آفریں‘‘ کے فلیپ پر لکھتے ہیں:

شاعری رشید آفرین کے نزدیک الفاظ سے فن کارانہ طور کے ساتھ کھیلنے کا عمل نہیں ہے بلکہ وہ ذہن کی ایک اعلیٰ فعلیت کا درجہ رکھتی ہے ۔ایک ایسی فعلیت جو احساس، تخیل ،فکر اور جذبے کے جمالیاتی امتزاج سے عبارت ہے۔(۹۵۳)

ڈاکٹر محمد علی صدیقی بھی رشید آفریں کی شعری زبان کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے’’دامنِ احساس‘‘ کے فلیپ پر لکھتے ہیں:

رشید آفرین نے روایت اور درایت پر عمل پیرا ہو کر غنایت اور غورو فکر کا قابلِ مبارکباد امتزاج پیش کیا ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ شعری زبان کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اپنا ماضی الضمیر ہر صنفِ سخن میں ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کے لہجہ کا دھیما پن قابلِ غور ہے۔ رشید آفرین زبان اور محاورہ پر اپنی مضبوط گرفت کے بعد اّدعایت اور بلند آہنگ لہجہ بھی اختیار کر سکتے تھے لیکن انھوں نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو پر اعتماد شعرا کا طریقہ ہے۔ رشید آفرین نے حمد، نعت ،منقبت ،سلام ،نظم اور غزل کے فنی تقاضوں کو بہت عمدگی کے ساتھ پیش نظر رکھا ہے۔(۹۵۴)

۹۳۳۔راقم الحروف کا رشید آفریں سے انٹر ویو،بمقام سیالکوٹ، بتاریخ ۱۵اپریل ،۲۰۱۱ء

۹۳۴۔محسن بھوپالی ،’’تبصرہ دستِ ساحل‘‘ ،مشمولہ ’’دستِ ساحل‘‘ ،از رشید آفریں ،ص:۳۶

۹۳۵۔جگن ناتھ آزاد،فلیپ،’’دستِ ساحل‘‘

۹۳۶۔جیلانی کامران ،’’تقریب رونمائی دستِ ساحل‘‘،مشمولہ ہفت روزہ ،’’نوائے ڈسکہ‘‘،ڈسکہ، جلد نمبر ۷،شمارہ نمبر ۱،دسمبر ۱۹۹۵ء، ص:۴

۹۳۷۔رشید آفریں ،’’دامنِ احساس‘‘،لاہور ،الرزاق پبلی کیشنز ،۲۰۰۹ء، ص:۱۸

۹۳۸۔ایضاً،ص:۵۲،۵۳

۹۳۹۔رشید آفریں، ’’وجہ آفریں‘‘،لاہور، الحمد پبلی کیشنز ،۱۹۹۸ء، ص:۳۵

۹۴۰۔رشید آفریں،’’دستِ ساحل‘‘،لاہور،ا لحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۵ء، ص:۴۲

۹۴۱۔ایضاً،ص:۵۳

۹۴۲۔ایضاً،ص:۶۱،۶۲

۹۴۳۔ایضاً،ص:۳۱،۳۲

۹۴۴۔ایضاً،ص:۷۲

۹۴۵۔ایضاً،ص:۷۸

۹۴۶۔ایضاً،ص:۸۱

۹۴۷۔رشید آفریں،’’دامنِ احساس ‘‘،ص:۶۵

۹۴۸۔ایضاً،ص:۳۵

۹۴۹۔ایضاً،ص:۳۹

۹۵۰۔ایضاً،ص:۴۲،۴۳

۹۵۱۔ایضاً،ص:۲۵

۹۵۲۔پروفیسر اکرام سانبوی، (فلیپ)’’دستِ ساحل‘‘

۹۵۳۔جون ایلیا،(فلیپ) ’’وجہ آفرین‘‘

۹۵۴۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی، (فلیپ)’’دامنِ احساس‘‘

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...