Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > محمد جمیل پروازؔ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

محمد جمیل پروازؔ
ARI Id

1688382102443_56116123

Access

Open/Free Access

Pages

258

محمد جمیل پروازؔ(۱۹۳۹ء۔۲۰۰۲ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔لیکن ان کی رہائش تحصیل سمڑیال میں تھی۔ آپ حبیب بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ ۱۹۶۰ء میں انھوں نے شعر و شاعری کا آغاز کیا۔ (۹۵۵)’’ لب اظہار ‘‘جمیل پرواز کا پہلا غزلیہ شعری مجموعہ ہے۔ جو ۱۹۹۷ء میں کاغذی پیرہن لاہور نے شائع کیا۔ دوسرا شعری مجموعہ ۱۹۹۹ء میں ’’پرواز‘‘ بھی کاغذی پیرہن نے شائع کیا۔ جمیل پرواز کا تیسرا شعری مجموعہ’’ کانٹوں کے ساتھ ساتھ‘‘ کاغذی پیرہن لاہور سے اپریل ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ آپ کا چوتھا شعری مجموعہ ’’جلتے ہاتھ‘‘ علم و عرفان پبلشرز لاہور نے طبع کیا۔

جمیلؔ پرواز ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ انھوں نے غزل کے ساتھ ساتھ دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ پرواز ایک رجائی شاعر ہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں ان کے ہاں نا امیدی اور یاسیت نظر نہیں آتی۔ وہ زندگی کے مثبت پہلوؤں کو دیکھنے والے انسان اور شاعر ہیں:

زندگی کا ہر کسی کو حوصلہ دیتا ہوں میں

 

گردشِ دوراں کو یوں اکثر سزا دیتا ہوں میں

 

سوادِ تیرگی میں روشنی تقسیم کرتا ہوں

 

دیارِ بے دلاں میں زندگی تقسیم کرتا ہوں

(۹۵۶)

¿جمیل پروازؔ کی شاعری میں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جن میں آپ نے اپنے اندر کی دنیا کا منظر دکھانے کی کوشش کی ہے ۔وہ بڑے مخلص انسان تھے لیکن زندگی میں انھیں کوئی مخلص انسان نہیں ملا۔ جس کا اظہار ان کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ داخلیت ان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوستوں کی بے وفائی اور بے مروتی کا اظہار بھی اکثر ان کے اشعار میں دیکھا جا سکتاہے:

ہمارے ساتھ چلے تھے جو رہبروں کی طرح

 

وہ پیش آئے ہیں رستے میں رہزنوں کی طرح

 

عجب سی رہنے لگی بے بسی فضاؤں میں

 

کہ اب تو سانس بھی گھٹنے لگا ہواؤں میں

(۹۵۷)

جمیل پرواز ؔکی شاعری میں ہمیں سماجی شعور بھی ملتا ہے۔ وہ اپنے گردو نواح سے کٹ کر رہنے والے نہیں۔ وہ بہت حساس انسان ہیں ۔ وہ معاشرے میں ظلم و ستم برداشت نہیں کرتے۔ وہ امن و آشتی کے داعی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اس کے چپے چپے میں امن ہو ،وہ بدامنی کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔جب وہ اپنے ملک میں بدا منی قتل و غارت گری دہشت گردی اور طوائف الملوکی کودیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں:

امن و سکوں کے رابطے چہروں سے کٹ گئے

 

اخبار اس برس بھی جنازوں سے اٹ گئے

 

شہر کے لوگ ہیں اس غم میں پریشاں پروازؔ

 

کس طرح شہر کو ویرانہ بنایا جائے

(۹۵۸)

دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں گزرا کہجو غم و الم سے دوچار نہ ہوا ہو۔ غم کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔وہ زندگی ہی نہیں کہ جس میں غم نہ ہو۔ دنیا کے ہر انسان کی طرح پروازؔ کی زندگی میں بھی غم موجود تھے۔ لیکن وہ غموں کا سامنا کرتے رہے۔ غم و دکھ کی وجہ سے ان کے ہاں یاسیت پیدا نہیں ہوتی۔ پرواز غم کا فلسفہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

اے پالنے والے تری تخلیق پہ قرباں

 

دل جس کو دیا ہے اسے غم ساتھ دیا ہے

 

غم ہستی ،غم دنیا، غم جاناں کے سوا

 

واقعہ کوئی نہیں اور سنانے کے لیے

(۹۵۹)

 

 

 

 

اک میں ہی نہیں شکوہ طرازِ غم انساں

 

اس دور کے انساں سے تو عاجز ہے خدا بھی

(۹۶۰)

جمیل پرواز کی شاعری میں حقیقت پسندی کے عناصر بھی ملتے ہیں۔ حق گوئی اور سچائی ان کی شاعری کی ایک اہم خوبی ہے۔ حقیقت نگاری میں وہ اپنے آپ کو سقراط کے ہم پلہ سمجھتے ہیں:

میں بھی سقراط کی مانند ہوا ہوں پروازؔ

 

ڈھونڈ کے لاؤ کوئی زہر پلانے کے لیے

(۹۶۱)

پیارو محبت ،ہماری روایتی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ بڑے بڑے نامور شعرا نے بھی اس موضوع پر بہت زیادہ اشعار کہے ہیں۔ پروازؔ کے ہاں بھی پیارو محبت کے حوالے سے متعدد اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:

اعجاز محبت نے مجھے ایسا دیا ہے

 

آفاق کے ہر زہر کو تریاق کیا ہے

(۹۶۲)

پروازؔ کی شاعری میں تنہائی بھی ایک اہم موضوع ہے۔ وہ تنہائی کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ وہ بھر ی محفل میں بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ وہ تنہائی کو اپنا دوست تصور کرتے ہیں:

درِ تنہائی پہ دستک دینے

 

7آؤ اب اپنے ہی گھر چلتے ہیں

(۹۶۳)

جمیل پرواز کی شاعری میں ہر طرح کے موضوعات ملتے ہیں ۔انھوں نے شعر گوئی کو اپنی ذات کا مقصد سمجھا ۔ وہ فن برائے فن کے قائل نہیں بلکہ مقصدیت کے قائل ہیں۔و ہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو کسی غرض اور ثانوی مقصد کے تابع نہیں کرتے۔ ان کے اشعار میں ایک توانائی، اعتماد اور روشنی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ ذات کی غواصی کا نتیجہ ہے۔ غواصی کے اس عمل میں پروازاپنے عمل سے بھی آگاہ ہیں اور ان کا یہ منصب روشنی اور زندگی تقسیم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا پروازؔ کی شاعری پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

جمیل پرواز کی شاعری میں ایک طرف تو زمانے کی سنگ زنی اور دوستوں کی سنگ دلی سے پیدا ہونے والے کرب کا بیان ہے اور دوسری طرف نا مساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی نظر آتا ہے۔ وہ خودکو فراق اور وصال کے مضامین تک محدود نہیں رکھتا بلکہ زندگی کو تازہ دم کرنے کا عزم بھی رکھتاہے۔ دکھ سہہ کر روشنی اورآگہی تقسیم کرنا اس کا مسلک نظر آتا ہے۔ (۹۶۴)

۹۵۵۔محمد جمیل پرواز(فلیپ) ’’کانٹوں کے ساتھ ساتھ‘‘

۹۵۶۔محمد جمیل پرواز، ’’کانٹوں کے ساتھ ساتھ ‘‘،لاہور ،کاغذی پیرہن ،۲۰۰۰ء،ص:۱۸

۹۵۷۔ایضاً،ص:۳۰،۳۱

۹۵۸۔ایضاً،ص:۲۵،۲۶

۹۵۹۔جمیل پرواز، ’’جلتے ہاتھ‘‘،لاہور، علم و عرفان پبلشرز،۲۰۰۱ء ، ص:۱۸،۱۹

۹۶۰۔ایضاً،ص:۲۵

۹۶۱۔        ایضاً،ص:۳۷

۹۶۲۔ایضاً،ص:۳۹

۹۶۳۔ایضاً،ص:۴۵

۹۶۴۔ڈاکٹر وزیر آغا، ’’سرورق‘‘ ،’’کانٹوں کے ساتھ ساتھ‘‘

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...