Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > عبدالرحمن اطہر سلیمیؔ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

عبدالرحمن اطہر سلیمیؔ
ARI Id

1688382102443_56116126

Access

Open/Free Access

Pages

262

عبدالرحمن اطہر سلیمیؔ(۱۹۴۲ء۔۱۹۹۴ء) سلیمیؔ تخلص کیا کرتے تھے۔ آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۸۵ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج ناروال میں لیکچرار کی حیثیت سے آ پ کی تعیناتی ہوئی۔ پھر گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں تبادلہ ہوا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں تبدیل کر دئیے گئے۔ (۹۷۷) اطہر سلیمی ؔ اپنا شعری کلام اپنی زندگی میں شائع نہیں کروا سکے۔ البتہ ان کے کلام کے مسودے ان کے ورثا کے پاس موجود ہیں۔ ایک مسودہ نعتوں پر مشتمل ہے جس کا نام حمٰ ہے اسے سلیمیؔ کے بیٹے شمیل اجود نے ترتیب دیا ہے۔

اطہر سلیمیؔ بنیادی طورپر غزل گو شاعر ہیں لیکن انھوں نے نظم بھی لکھی ہے۔ وہ غزل میں روایت اور جدیدیت کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اطہرلفظ کے حسن اور اس کے استعمال سے باخبر ہیں۔ان کی ڈکشن ان کی غزل کو جدید شاعری میں شامل کرتی ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں خوبصورت تتلیوں، جگنوؤں ،چناروں ،آنگنوں ،چاندنی اور رنگوں کا ـذکر کیا ہے۔ اس طرح ان کی غزل فکری نکھار کے ساتھ لفظیاتی فن سے سجی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

دھوئیں میں ڈوبے ہیں پھول تارے چراغ جگنو چنار کیسے

 

نئی رتوں کے اُڑن کھٹولوں پہ آرہے ہیں سوار کیسے

 

تہوں کی کالی چٹائیوں پہ سسکتی لہروں کو کیا خبر ہے

 

کیے ہیں تتلی نے چاندنی میں کنول سے قول و قرار کیسے

(۹۷۸)

_اطہر اپنی شاعری میں منظر نگاری بھی کرتے ہیں۔مناظر کے علاوہ وہ انسان کے گردو نواح میں پائی جانے والی پریشانیوں ،دکھوں ا ور ظلم و ستم کی لفظوں سے تصویر کشی کرتے ہیں۔ اطہر کی شاعری میں ہمیں گہرا سماجی شعور ملتا ہے۔ وہ انسان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں ۔جس کی جھلک ان کی شاعری میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہے:

کالی زمین ، زرد شجر، سُرخ آندھیاں

 

مردہ ہیں صحن زیست میں رنگوں کی تتلیاں

 

خواب روحِ غم کے جزیرے میں آ گئی

 

سورج مکھی کی بڑھ گئیں کچھ اور زردیاں

(۹۷۹)

¥اطہر کی شاعری کا ایک اہم موضوع غم وا لم بھی ہے۔ اطہر جب اپنے ارد گرد انسانیت کو غموں اور دکھوں سے دوچار دیکھتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں ۔ وہ زمانے کے کرب کو اپنا کرب سمجھتے ہیں۔ دہشت گردی ،بد امنی ،قتل و غارت گری اور سماجی مسائل کا ذکر اطہر کے ہاں جا بجا دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری غم ،درد ،مسائل ،زخم اور لہو کی داستان محسوس ہوتی ہے:

نئے زمانے کے حرف گرنے حرف کا معنی الٹ دیا ہے

 

[صحراؤں کو چمن اور سمندروں کو سراب بنا دیا ہے

 

نئے زمانے کے حرف گرنے ہر اک معنی اُلٹ دیا ہے

 

چمن کو صحرا کا نام دینا، سمندروں کو سراب لکھنا

 

جو لکھنے بیٹھو کبھی کہانی ،گلاب وادی کے موسموں کی

 

دھوئیں میں ڈوبی فضا بتانا، لہو میں بھیگے سحاب لکھنا

(۹۸۰)

óاطہر جانتے ہیں کہ جبر کے موسم میں سچ کہنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ لیکن وہ سچ کہنا جانتے ہیں ۔انھیں یقین ہے کہ موسم گل ایک دن ضرور آئے گا۔ ان کے ہاں رجائیت اور حقیقت پسندی بہت زیادہ ملتی ہے۔ جو ان کی شاعری کو جدید شاعری میں ایک بلند مقام پر فائز کرتی ہے۔

نعت گوئی بھی اطہر کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی متعدد اشعاردیکھے جا سکتے ہیں۔ جو نعت نگاری ،اور عشق رسولؐکا بہترین نمونہ ہیں ۔کچھ نعتیہ اشعا ر ملاحظہ ہوں:

دل کو خیالِ گلشن بطحا ہے آج کل

 

پیشِ نظر حضورؐ کا روضہ ہے آج کل

 

 

 

 

 

ہر گام مل رہی ہے نئی زندگی مجھے

 

ہر پل خیال گنبدِ خضرا ہے آج کل

(۹۸۱)

۹۷۷۔طلعت نثار خواجہ، ’’مرے کالج کے ادیب اساتذہ‘‘،ص:۲۸۴

۹۷۸۔اطہر سلیمیؔ، ’’مسودہ نمبر ۱‘‘،ص:۳۸

۹۷۹۔ایضاً،ص:۱۸

۹۸۰۔ایضاً،ص:۸۲

۹۸۱۔ایضاً،ص:۷۵

 

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...