Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > ریاضؔ حسین چودھری

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

ریاضؔ حسین چودھری
ARI Id

1688382102443_56116132

Access

Open/Free Access

Pages

267

ریاضؔ حسین چودھری( ۱۹۴۱ء،پ)کا اصل نام محمد ریاض حسین ہے۔ آپ محلہ خراساں مسلم بازار سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔گورنمنٹ مرے کالج سے بی۔ا ے کیا۔ایل ایل بی اور ایم۔ اے اردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ آپ چھٹی کے طالب علم تھے جب آپ نے شعر و شاعری کا آغاز کیا۔(۱۰۱۱)شاعری میں ابتدائی رہنمائی آسی ضیائی رامپوری سے لی۔ آپ نے آغا صادق کے سامنے بھی زانوئے تلمذ طے کیے۔ ۱۹۵۹ء میں آپ نے بچوں کے لیے ایک نظم لکھی جو ماہنامہ ’’پھلواری‘‘ میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں آپ نے نظم اور غزل میں شاعری کی لیکن نعتیہ شاعری ان کی پہچان ہے۔ ان کی پہلی نعت، ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ سید آفتاب احمد نقوی کی ترغیب پر ریاض حسین چودھری کا رجحان نعت کی طرف بڑھا پھر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے اپنے آپ کو صرف نعت کے لیے وقف کر دیا ۔ بہترین نعت گو شاعر ہونے کی وجہ سے ۲۰۰۰ء میں آپ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔(۱۰۱۲)

ریاضؔ حسین چودھری کا پہلا شعری مجموعہ ’’خونِ رگِ جاں‘‘ ہے۔ جو ملی نظموں پر مشتمل ہے۔ جو ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ زرِ معتبر ‘‘ نعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں اور دوسری بار۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ دو سو اٹھاسی صفحات پر مشتمل ہے۔حفیظ تائب نے اس کتاب کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ریاض حسین چودھری نے ’’تحدیث نعمت‘‘ کے عنوان سے اس کتاب پر تعارفی مضمون لکھا ہے۔ اس مجموعے کا فلیپ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے۔ جس میں زرِ معتبر کی نعتیہ شاعری پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’رزقِ ثنا‘‘ہے جو پہلی بار ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ اور دوسری بار ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ اس نعتیہ مجموعے پر انھیں صدارتی ایوارڈ ملا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی اور حفیظ تائب نے اس کتاب کے فلیپ لکھے ہیں۔ جن میں ریاضؔ حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کا مختصراً فکری و فنی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی کا ریاض ؔکی نعت نگاری پر تبصرہ بھی شامل ہے۔ اس میں ریاض حسین چودھری کا مضمون ’’آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں انھوں نے عشقِ رسولؐ کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس مجموعے کی ضخامت ایک سو چھہترصفحات پر مشتمل ہے۔ ’’تمنائے حضوری‘‘ ریاض کا چوتھا نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ جو ایک سو چھہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ بیسویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم ہے۔ اس مجموعے کا فلیپ پروفیسر محمد اقبال جاوید نے لکھا ہے جس میں تمنائے حضوری پر تبصرہ کیا گیاہے۔ اس مجموعے میں ریاض ؔحسین چودھری کا مضمون ،’’لمحات حاضری کی تمنا لیے ہوئے‘‘ بھی شامل ہے۔ پانچواں نعتیہ شعری مجموعہ ’’متاعِ قلم‘‘ ہے جو ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کی ضخامت ایک سو چوراسی صفحات ہے۔ اس کتاب کا فلیپ ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے۔ جس میں ریاض کی ’’متاعِ قلم ‘‘ کی نعتوں کا مختصراً فکری و فنی جائزہ لیا گیاہے۔’’ کچھ متاعِ قلم کے بارے میں‘‘ کے عنوان کے تحت آسی ضیائی رامپوری نے اس کتاب کے بارے میں ایک تنقیدی مضمون لکھا ہے۔ جو اس کتاب میں شامل ہے۔ ’’کشکولِ آرزو‘‘ ریاض کا چھٹا نعتیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ جسے ۲۰۰۲ء میں القمر انٹر پرائزز لاہور نے شائع کیا۔ اس کی ضخامت ایک سو اڑسٹھ صفحات ہے۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی نے اس مجموعے کے فلیپ لکھے ہیں۔ جس میں انھوں نے اس مجموعے کی نعتوں کاتنقیدی جائزہ لیا ہے۔ پروفیسر عبدالعزیز نے ایک تنقیدی مضمون’’نعت میں تغزل اور شعریت کی ایک وہبی صورت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔ جو اس کتاب میں شامل ہے۔ جس میں مضمون نگار نے ریاض کے فکر و فن پر تبصرہ کیا ہے۔ساتواں نعتیہ شعری مجموعہ ’’سلام علیک‘‘ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۰۴ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کی ضخامت ایک سوچودہ صفحات ہے۔ اس کتاب کا فلیپ ریاض مجید نے لکھا ہے۔ جس میں ’’سلام علیک‘‘ کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے لکھا ہے۔ ’’خُلد سخن‘‘ ریاض کا آٹھواں نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ جسے القمر ا نٹر پرائزز لاہور نے ۲۰۰۹ء میں شائع کیا۔

اس مجموے کے فلیپ ابوا لا متیاز ،ع، س،مسلم اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لکھے ہیں۔ جن میں خلد سخن کی نعتوں کے بارے میں تبصرہ شامل ہے۔پروفیسر محمد اکرم رضا کا ایک تنقیدی مضمون’’خلدِ سخن میں نعتِ ریاض‘‘ کے عنوان کے تحت بھی اس مجموعے میں شامل ہے۔ اس مجموعے کی ضخامت دو سو بتیس صفحات ہے۔’’ غزل کا سہ بکف ‘‘ریاض کا نواں نعتیہ مجموعہ ہے۔ جسے مکتبہ تعمیرا نسانیت لاہو رنے ۲۰۱۳ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے کی ضخامت دو سو تیرہ صفحات ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی ،احمد ندیم قاسمی ،حفیظ تائب، ریاض مجید اور شیخ عبدالعزیز دباغ نے ’’غزل کا سہ بکف‘‘ کے فلیپ پر تنقیدی تبصرے لکھے ہیں۔ اس کتاب کا پیش لفظ بشیر حسین ناظم نے لکھا ہے۔ جس میں ریاض کی نعتیہ شاعری پر تبصرہ شامل ہے۔ شیخ عبدالعزیز دباغ نے ایک تنقیدی مضمون ’’لکھے عروس شہر غزل ،نعت مصطفی‘‘ عنوان کے تحت لکھا ہے۔ ریاض حسین چودھری نے بھی ’’غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے ان کی گلیوں میں‘‘ کے نام سے مضمون لکھا ہے۔ یہ نعتیہ مجموعہ غزل کی ہیئت میں لکھا گیا ہے۔ ’’طلوع فجر‘‘ ریاض کا دسواں نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ جسے القمر انٹر پرائزز لاہور نے ۲۰۱۴ء میں شائع کیا۔ طلوع فجر آقائے محتشم کے یومِ ولادت کے حوالے سے کہی گئی ۵۰۰ بنو د پر مشتمل طویل نعتیہ نظم ہے۔ اس کتاب کے ۵۰۰ صفحات ہیں۔ اس کے فلیپ پرزاہد بخاری نے ایک تنقیدی تبصرہ لکھا ہے۔ اس کا’’ پیش لفظ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی نے لکھا ہے۔ اور ایک مضمون ’’تاریخِ کائنات کا سب سے بڑا دن‘‘ ریاض حسین چودھری نے تحریر کیا ہے۔ جس کا موضوع حضورؐ کی ولادت ہے۔

ریاض حسین چودھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئین رسالت کے ساتھ ساتھ عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اٹھا ہے اور ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی ۔انھوں نے نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے نئے آفاق دکھائے ہیں۔ اور غزلیہ انداز کی نعتوں کو جدید اسالیب سے ہم آہنگ کر کے نیا وقار عطا کیا ہے۔ آزاد اور پابند نظموں میں جہاں سیرت کے بیکراں مضامین کا احاطہ کیا ہے وہاں ان کا ہر ہر مصرعہ اور ہر ہر سطر پیرائیہ غزل لیے ہوئے ہے۔ نعتیہ غزلیں شاعر کی جولانی ء طبع کی بدولت ایک طرف قصیدہ بنتی نظر آتی ہے۔ تو دوسری طرف ان میں نظم کا تسلسل در آیا ہے۔ نوبہ نو ردیفیں اور زمینیں اس پر مستزاد ہیں۔ جذبات و شعریت کا وفور اور گہراعصری شعور ہر صنف کو آگے ہی آگے بڑھاتا نظر آتاہے۔ ریاض کی کائنات نعت میں گھر اور وطن کا استعارہ ایک جاندار اور توانا اکائی کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ ریاضؔ تاجدار کائنات ؐ کی بارگاہِ میں پہنچتے ہیں تو اپنے بچوں اور وطن کی ہواؤں کا سلام بھی حضورؐ کی خدمت اقدس میں پیش کرتے ہیں۔ ریاضؔ کی نعت گوئی میں استغاثے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی دکھ حضورﷺ کی عدالت عظمیٰ میں پیش کر کے نظر کرم کا ملتجی ہے۔ ریاض کا اسلوب اردو شاعری میں تمام تر جمالیات سے مستیز ہے اور اسے جدت و شائستگی کا معیار دیا جا سکتا ہے۔احمد ندیم قاسمی ریاض کی نعت نگاری کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔

گزشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے ۔جن شعرا نے اس صنفِ سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کیے ہیں ان میں ریاض چودھری کا نام بوجہ روشن ہے۔ حفیظ تائب اور حفیظ لدھیانوی کی طرح ریاض نے بھی شاعری کا آغاز غزل سے کیا مگر اس کے بعد جب نعت نگاری شروع کی تو غزل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ریاض اس دور کا ایک بھرپور نعت نگار ہے۔ بھرپور کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ ان کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے۔ لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور وہ پھر وہ حدِ ادب بھی ہے۔ جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔(۱۰۱۳)

ریاض حسین چودھری کا شمار ان بلند ذکر شعرا میں ہوتا ہے۔ جن کا آغاز غزل سے ہوا مگر جب نعت کے چمن زاروں میں پہنچے تو نعت کی صورت میں اپنے عہد کو معتبر کر گئے ۔ تغزل ان کے ہاں بیان نہیں ہوتا۔ بلکہ چٹکتی ہوئی کلیوں کی صورت میں پھوٹتا ہے۔ دلوں کے مطلع پر الہام کی صورت اپنے وجود کو ضوبخشتا ہے۔تغزل تعریف کا محتاج نہیں بلکہ اشعار کی تاثیر انگیزی خود تغزل سے اپنی پہچان ڈھونڈ تی ہے۔ ریاض حسین چودھری کے ہاں ایسی ہی بلند پروازی جا بجا نظر آتی ہے۔

طلوعِ مہر شفاعت سروں پہ چھائے گا

 

نہیں ہیں خوفزدہ ہمنوا قیامت سے

 

مشامِ جاں کو معطر کریں گے محشر تک

 

چنے ہیں پھول سمن زارِ شہر رحمت سے

 

â۱۰۱۴)

 

 

 

 

دل میں خیال خُلد مدینہ ہے اس لیے

 

دامن قلم کا چاند ستاروں سے بھر گیا

 

آداب حاضری کے تھے معلوم کب مگر

 

میں اپنے ساتھ لے کے یہی چشمِ تر گیا

 

â۱۰۱۵)

 

 

 

 

سورج اُتر رہے ہیں فصیلِ شعور پر

 

نقشِ قدم کسی کا مری داستان میں ہے

 

;معراجِ آرزو ہے غبارِ رہِ حجاز

 

اوجِ خیال خاکِ درِ آستاں میں ہے

 

â۱۰۱۶)

è              ریاض حسین چودھری نے عہد حاضر کے پیمانے میں خمستان حجاز کی مئے عقیدت ڈال کر اس کے نشہ شوق کو مزید اثر انگیز بنا دیا ہے۔ ان کے ہاں جدید دور اپنی پوری والہانہ تب و تاب کے ساتھ بول رہا ہے۔ نعت فقط شاعری نہیں بلکہ یہ تو واردات ِ قلبی کا اظہار ہے۔ اور جب اس واردات قلبی کو عصرِ حاضر کی جدتوں کی شرح کمال کی پہچان ہو جاتی ہے۔ تو شاعرتو ایک طرف قاری کے قلب و فکر میں نئی ہمہ رنگی ،نیا جوش ،نیا خروش اور جدید لہجے کی حرارت ،بدولت سوزو گداز کی محبوب تر کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ریاض ؔکی کمند شوق سے نئی تراکیب و تشبیہات بمشکل ہی بچ کر نکلتی ہیں۔ یہ جدید پیرائیہ اظہار میں نعت کے قدیم حسن کو اس شان سے سموتے ہیں کہ افکار جھوم جھوم اٹھتے ہیں:

فصلِ یقیں اُگے جلی کشتِ خیال میں

 

اُمت کھڑی ہے قریۂ شام وصال میں

 

جیسے شعور نو سے کوئی واسطہ نہیں

 

حیران چشم تر ہے رہِ پائمال میں

 

کب سے گرفتِ حبس مسلسل میں ہیں حضورؐ!

 

آلودگی کا زہر ہے بادِ شمال میں

 

â۱۰۱۷)

 

 

 

 

مرنے کے بعد بھی ہے عشقِ نبیؐ کا موسم

 

مری لحد میں اُترے یہ روشنی کا موسم

 

لب پر جہالتوں کے کانٹے اُگے ہوئے ہیں

 

شاخِ ثنا پہ مہکے اب آگہی کا موسم

 

â۱۰۱۸)

                ریاضؔ حسین کے ہاں نعت کے حوالے سے وہی سوزو گداز ،ادب و احتیاط ،والہانہ پن ،خود سپردگی ،عجز و نیاز مندی اور نامِ رسولؐ پر مر مٹنے کے جذبات پوری شان کے ساتھ ملتے ہیں جو اوائل سفر نعت ہی سے ان کی نعت کا امتیاز رہے ہیں۔ ان کے والہانہ پن کے انداز بے اختیار پڑھنے والوں کی آنکھوں کو عقیدت کا نم عطا کرتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر ان کے ہاں دردوسلام ،ذوق و شوق ،عقیدت و احترام کی بدولت تازگی ،شگفتگی اور فکری تسلسل کے مظاہر اس کثرت سے ملتے ہیں۔ کہ ان کی نعت گوئی اپنے کمال کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔وہ لفظوں کے سودا گر نہیں بلکہ حسنِ عقیدت کے گہر پائے گراں مایہ کے تمنائی ہیں۔

                ان جواہرِ گراں بہاکو وہ اپنی خداد اد جذباتیت سے حسنِ دوام عطا کرتے ہیں۔ تاکہ گل ولالہ کے حسن سے رنگ و نور مستعار لینے کے بعد جب وہ انھیں بارگاہِ مصطفوی ؐمیں نذر کرنے کی سعادت حاصل کریں۔ تو پھر حضورؐ کی چشمِ رحمت انھیں مستقبل کے نعت گووں کے نشانِ راہ عقیدت بنا دے۔ریاض چودھری لکھتے ہیں:

آرزو کے گھروندے بناتے ہوئے شہر طیبہ کی گلیوں میں جائیں گے ہم اور کسی کونے کھدرے میں اے ہمسفر ایک چھوٹا سا گھر خود بنائیں گے ۔ہم ابرِ رحمت میں لپٹا ہوا قلم،آبِ کوثر میں ڈوبی ہوئی ہے زبان شہرِ حرف و بیان کے مضافات میں پیڑ صل علی کے لگائیں گے ہم۔(۱۰۱۹)

ادب کا یہ تقاضا ہے بوقتِ حاضری زائر

 

نگاہِ بے طلب سے لوحِ دل پر مدعا لکھے

 

میں ہر ساعت کے ہونٹوں پر گلاب نعت رکھتا ہوں

 

بہارِ جاوداں میرے مقدر میں ثنا لکھے

 

â۱۰۲۰)

t               یہ حضورؐ کی کرم نوازی ہے کہ وہ ریاضؔ کو حوصلہ سخن گوئی بھی دیتے ہیں اور نوید قبولیت سے بھی نوازتے ہیں ۔یہی وہ مقامِ شوق ہوتا ہے۔ جب ریاضؔ کے دل میں اپنی اور ملت کی پریشان حالیوں کے سر چشمے پھوٹنے لگتے ہیں کیوں کہ وہ ایک زمانے سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ وہ بارِ کرم بار ہے جہاں بے نام جذبوں کو رعنائی قبولیت عطا ہوتی ہے اور یہاں نہیں کا تصور ہی نہیں ہے۔ ریاضؔ کا دل ایک معصوم بچے کی طرح بلکتا ہے۔ ایک طائر بے پر کی طرح پھڑ پھڑا کر چشمِ حضورؐ کی عنایات میں کھو جاتاہے۔ لرزتے ہاتھ، خمیدہ و سر نہادہ افکار ان کی تمناؤں کی دنیا کا ہر گوشہ بارگاہِ رسالت مآبؐ میں پیش کردیتے ہیں۔

چھپا کر آپؐ کا اسمِ گرامی اپنے سینے میں

 

میں شہرِ ہجر میں ہوں اور رہتا ہوں مدینے میں

 

گناہوں کی دھری میں گھڑیاں کتنی مرے سر پر

 

ندامت ہی ندامت ہے ندامت کے پیسنے میں

 

â۱۰۲۱)

 

 

 

 

کوئی سکہ نہیں ہے جیب وداماں میں مگر پھر بھی

 

میں اٹی سوت کے لے کر سرِ بازار رہتا ہوں

 

مری کشتی کو بھی اُمید کا ساحل نظر آئے

 

پسِ گرداب بہتا ہوں سرِ منجدھار رہتا ہوں

 

â۱۰۲۲)

             ریاضؔ اُمت حضورؐ کا فسانۂ الم بھی سناتے ہیں تو خود کو الگ نہیں سمجھتے بلکہ ان کا جذبہ یہاں بھی امتِ حضورؐ کی داستان رنج و الم بیان کرتے ہوئے نمایاں ہے۔ ذرہ صحرا سے ،قطرہ سمندر سے اور پھول گلشن سے کس طرح الگ ہو سکتا ہے۔ ریاض کی عرض گزاری کا اندازہ دیکھے۔ تڑپ ہے۔سوزو گداز بھی ہے۔والہانہ پن بھی ہے،آنسوؤں کی چمک بھی ہے۔ جذبات کی شدت کی لپک بھی ہے۔اُمت حضورؐ کی بے بسی پر ہر شعر میں پوشیدہ کسک بھی ہے لیکن حوصلہ ہے تو یہی کہ ان سے کہوں تو کس سے کہوں :

آقا حضورؐ ،صرف ضعیفی کے جرم میں

 

سر پر ہمارے تاجِ فضیلت نہیں رہا

 

رسوائیوں کی گود میں لپٹے ہوئے بدن

 

قول و عمل میں نور مشیت نہیں رہا

 

â۱۰۲۳)

 

 

 

 

جلیں گے اپنی ہتھیلی پہ کیا دیے آقاؐ

 

ہر ایک سمت سے طوفان نے آن گھیرا ہے

 

ہر ایک سمت ہوا نے کماں اٹھائی ہے

 

ہر ایک سمت تضادات کا اندھیرا ہے

 

â۱۰۲۴)

ê              جہاں تک محبت رسولؐ کا تقاضا ہے تو ریاض ؔحسین و فورشوق میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں جہاں خواہش جنم لیتی ہے کہ ان کی یہ محبت لا شریک ہو ۔ ایسا ہونا ممکن تو نہیں مگر ان کی آرزوؤں کی تپش ان کے جذبوں کی دل افروزگی ان کے اشعار میں لفظ لفظ سے پھوٹتی ہوئی دید حضورؐ کی آرزو تاریخ ادب کی بہترین تشبیہات و تراکیب کو اسمِ محمدی کی تابانیوں کی نذر کرنا عشقِ حضورؐ میں بہتے ہوئے آنسوؤں کو زمانے بھر کے عشاق کی ترجمانی کا حسن عطاکرنا خیالات و احساسات کی بلند پروازی کا مرکز و محور فقط ذاتِ حضورؐ ہی کو قرار دینا فرسودہ و پامال تراکیب ،حسن عالمگیری سے مرصع کرنا، اپنے نالہ شوریدہ کو دورِ حاضر کی صدائے درد ناک کی لے عطا کرنا ریاضؔ کا قلم نعت رقم کرتے کرتے جلوہ صد رنگ میں سر مست ہوجاتا ہے۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے واپسی کا سفر ہے۔ کون کون سی آرزوؤں کے چراغ روشن کیے بیٹھے ہیں ،دل واپسی کو چاہتا بھی ہے مگر غیر محسوس جذبے مختلف آرزوں کے حوالے انھیں واپسی سے روکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں:

لکھا ہوا اسمِ حضورؐ جس پر قلم وہ ایسا خریدار کر لوں

 

میں ان کے دامن سے آج بھی کچھ حسین موسم کشید کر لوں

 

[حروف طاقِ دل و نظر میں چراغ بن کر جلیں سحر تک

 

یہ چاہتا ہوں میں اپنے جذبوں کی آنچ اتنی شدیر کر لوں

 

[چراغ پلکوں پہ رکھ رہا ہوں مری شریک سفر ،ہواؤ

 

اگرچہ دامن تہی ہے لیکن میں کچھ تو سامانِ دید کر لوں

 

میں دل کے سادہ ورق پہ توصیفِ مصطفےٰؐ کی سجادوں کلیاں

 

_شریکِ حرفِ ثناء چمن کو اے میرے ذہنِ جدید کر لوں

 

ازل سے اشکوں کے آئینوں میں نقوش پا کا ہے عکس روشن

 

میں دیدہ تر میں تیز عشق نبیؐ کی لو کو مزید کر لوں

 

â۱۰۲۵)

à              ریاضؔ تاجدار کائنات کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو اپنے ،بچوں ،گھر کی کنیزوں اور وطن کی ہواؤں کا سلام بھی حضورؐ کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتا ہے۔ وہ وطن عزیز کے مشرقی بازؤ کے کٹنے کا المیہ بھی رحمتِ عالمؐ کے حضور پیش کر کے شق القمر کی مقدس حقیقت کا انجام پھر سے دیکھنا چاہتا ہے۔ریاضؔ خاکِ وطن کے آنسو بھی طشتِ ہنر میں سجا کر حضورؐ کے قدموں میں رکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے:

غلامانِ محمدؐ کا حصارِ آہنی ہے یہ

 

وطن کے واسطے جتنی بھی ممکن ہو دعا لکھنا

 

جھوم کے اُٹھے گھٹا ارضِ محمدؐ سے ریاضؔ

 

شہرِ اقبال کی مٹی کا مقدر جاگے

 

â۱۰۲۶)

 

 

 

 

میرے بچوں کو وراثت میں ملے حُبِ رسولؐ

 

یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے

 

â۱۰۲۷)

Ü            ریاضؔ نے اپنی نعت میں ہر قدم پر احساسِ غلامی کو زندہ رکھا ہے۔ اس کا شعورِ غلامی عقیدت کے انھی گہرے پانیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ان کے ہاں مدینے سے دور رہ کر بھی حضوری کی کیفیتوں کی سرشاری ملتی ہے۔ اس کیفیت کے زیر اثر ان کا وجدان پکار اٹھتا ہے:

زنجیر سرہانے رکھ کر میں اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہوں

 

[جب شہرِ مدینہ آئے گا دیوانے کا عالم کیا ہو گا

 

جب میں پہنچوں گا مدینے کی گلی کوچوں میں

 

ایک عالم مرا پہلے سے شناسا ہو گا

 

â۱۰۲۸)

 

 

 

 

میں اُجالوں کا مسافر ہوں کہاں جاؤں حضورؐ

 

ہر طرف دیوارِ شب ہے راستہ کوئی نہیں

 

رستہ کسی سے پوچھنا تو ہین ہے مری

 

ہر رہگذر شہرِ پیمبرؐ کو جائے ہے

 

â۱۰۲۹)

V            ریاضؔ نے نظم معریٰ میں بھی اچھے خاصے تجربے کیے ہیں اور جدید نعت کے اساسی زاویوں کی بنیاد رکھی ہے، کومٹ منٹ ،یکتا وتنہا، وژن ،نئے دن کا سورج، حصارِ گنبد ،ہجر کی پہلی صدا، اس حوالے سے خوبصورت نظمیں ہیں۔ ریاض نے نعت میں ایک عجیب و غریب پیرائے کی طرح ڈالی ہے کہ مدح کی سرسبز وادیوں میں گھومتے ہوئے اس کا دھیان عصر ی آشوب کی طرف مبذول ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں حضورؐ سے اذنِ گزارش طلب کرتا ہے ۔نفسیاتی اعتبار سے اس عمل میں شاعر کی طبیعت کا بوجھ ہلکا ہو جاتاہے۔ جب کہ اس کا اصل مقصود طلبِ رحمت ہوتا ہے۔ ایک نعتیہ غزل میں مختلف مراحل کی صورتیں یوں بیان کرتے ہیں:

اُسی کا چہرہ نظر نظر ہے ،اُسی کا جلوہ سحر سحر ہے

 

کتابِ دل کے ورق ورق پر اُسی کی سیرت لکھی ہوئی ہے

 

طُلوع مہرِ حرا سے ٹوٹا حصارِ شب کا نظام باطل

 

تمدنوں کی جبیں کی کالک اسی کے قدموں کو ڈھونڈتی ہے

 

[حضورؐ اپنے غلام زادوں کو اذن بخشیں گزارشوں کا

 

فصیلِ شہر دُعا پہ میری صدا بھی آکر ٹھہر گئی ہے

 

مرے وطن کی گلاب گلیوں میں رنگ و بو کے کھلیں دریچے

 

سپاہ برگِ خزاں ادھر بھی ،اُدھر بھی ڈیرے جما رہی ہے

 

â۱۰۳۰)

             ریاضؔ حسین کا ایمان ہے کہ حضورؐ کی ثناہی اس کے نطق ونوا کے سارے قفل کھولتی ہے۔ آپؐ کا اسمِ مبارک دعاؤں کے طاقچوں کو ہمیشہ روشن رکھتاہے۔ اور آپ ؐہی کی ذات بابرکات ہر عہد کے انسان کو تشخص عطا کرتی ہے:

مرے نطق کے قُفل کھولے ہیں تو نے مجھے اذن اپنی ثنا کا دیا ہے

 

مرے رنگ آلود افکار لے کر مجھے تو نے ہی حرفِ تازہ دیا ہے

 

ترا نام طاقِ دعا میں ہے روشن، ازل سے ابد تک یہ روشن رہے گا

 

کہ تو نے رسولؐ خدا ہر صدی ،ہر زمانے کے انساں کو چہرہ دیا ہے

 

â۱۰۳۱)

Ò            ریاضؔ حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کا ہر شعر محبت و عقیدت رسولؐ کی کھلی تصویر ہے۔ اور اس میں سے ریاضؔ کے سچے،مخلصانہ ،جذبات پھوٹے پڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی ،قاری یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ نعت نگارنے اندازِ بیان میں بھی ،اور فکر وخیال میں بھی ،جدت طرازی کو ملحوظ رکھا ہے۔ جب کہ کہیں بھی احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی ہے۔ جدت اور ندرت کے حوالے سے کچھ شعر ملاحظہ ہوں:

جی چاہتا ہے مدحتِ شاہِؐ اُمم کروں

 

احوالِ زندگی کو سپُرد قلم کروں

 

نظر جاتی ہے جب رکارؐ کے دامانِ رحمت پر

 

رفو پھر ،خود بخود چاک گریباں ہونے لگتا ہے

 

â۱۰۳۲)

 

 

 

 

اب کے برس بھی قریہ جاں میں کھلیں گلاب

 

اب کے برس بھی سر پہ ’’غلامی کا تاج‘‘ ہو

 

بجھا ڈالیں گے سورج علم کے اہلِ ہوس آقاؐ

 

شریکِ جرم دانائی ،قلمداں ہونے والا ہے

 

â۱۰۳۳)

j               ریاض حسین چودھری کی اقلیم نعت تاجدار کائنات کی غلامی کے گہرے پانیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ سرشاری اور سپردگی کا کیف دوام اول سے آخر تک ان کی شعری فضا میں برقرار رہتا ہے کہ غلامی کا عمامہ باندھے وہ اپنے حضورؐ کی بارگاہ بیکس پناہ میں انفرادی اور اجتماعی مسائل اور مصائب کو پیش کر کے دربارِ مصطفویٰ سے ہدایت کی روشنی کے منتظر رہتے ہیں۔در حضور کو امید کا آخری مرکز قرار دے کر وہ کائنات کے لیے حضور ﷺکے نعلین اقدس کو سائبان کرم سے تعبیر کرتے ہیں۔

                ریاضؔ کی نعت بنیادی طور پر اس والہانہ جذبے سے عبارت ہے جو ان کے لیے زادِ سفر اور وسیلۂ بخشش کی حیثیت رکھتاہے اور انھیں حسانؓ و کعبؓ و حاجیؒ کے قبیلے سے مربوط کرتا ہے۔

                ڈاکٹر سلیم اختر ریاض حسین چودھری کی نعت نگاری کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

قیامِ پاکستان سے قبل صرف گنتی کے چند ہی ایسے معروف شعرا نظر آتے ہیں جنھوں نے مولانا ظفر علی خان یا علامہ اقبال کی مانند عشق رسولؐکا تخلیقی سطح پر اظہار کیا ہو جب کہ اب گلشنِ شعر میں ایسی دلکشی ہو اچلی ہے کہ ہر قابلِ ذکر شاعر ثنائے رسولﷺ کو باعث سعادت جانتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سب کچھ سن کر بھی بعض اوقات نعت ریڈیو اور ٹیلی ویژن تک ہی محدود رہتی ہے۔ لیکن ریاض نام و نمود کے سراب کے لیے سرگرداں نہیں۔ انھوں نے تو نعت گوئی داخلی کیفیات کے زیر اثر اختیار کی ہے۔ اسی لیے وہ مدحتِ رسولؐ کو مقصودفن اور ثنائے رسول ؐہی کو قبلہ فن جانتے ہیں ۔ریاض دنیا داری کے تقاضوں والے دنیا دار شاعر نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے خود کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ و ہ نعت کو توشۂ آخرت تسلیم کرتے ہیں۔(۱۰۳۴)

                یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ ریاض حسین اپنی نعت کو وسیلہ بخشش سمجھتے ہیں جس کا اظہار ان کی نعتیہ شاعری کے متعدد اشعار میں بھی واضح طور پر ہوتاہے۔ وہ اپنی شاعری میں دولت اور شہرت کے خواہش مند نظر نہیں آتے۔ بلکہ صرف اور صرف بخشش کے طلب گار نظر آتے ہیں:

ریاض اپنی لحد میں نعت کے روشن دیے رکھنا

 

چمک اٹھے گی قسمت شام رخصت کے دریچوں کی

 

â۱۰۳۵)

ڈاکٹر فرمان فتح پوری ریاض کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں :

ریاض حسین چودھری کو شرفِ نعت گوئی منجانب اﷲ ملا ہے،یہ عطیہ خدا وندی اور توفیق الہی ہے۔ کسب و ریاضت سے کیا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا مگر شرفِ نعت گوئی نہیں یہ صرف اور صرف حضورِ اکرمؐ سے والہانہ اور مجذوبانہ عشق کرنے والوں کو ملتا ہے۔یہ انھیں وافر مقدا ر میں میسر ہے۔ ریاضؔ کے اسلوب موضوع اور خیال سب کے سب دلکش و روح پرور ہیں۔ خاص کر ان کی نعتیہ منظومات قلب و روح کے ساتھ ذہن کو بھی خوشگوار حیرت سے ہمکنار کرتی ہیں۔(۱۰۳۶)

۱۰۱۱۔      راقم الحروف کا ریاض حسین چودھری سے انٹر ویو ،بمقام سیالکوٹ ،بتاریخ ۲ مارچ۲۰۱۱ء

۱۰۱۲۔راقم الحروف کا ریاض حسین چودھری سے انٹر ویو، بمقام سیالکوٹ ،بتاریخ ۳ مارچ ۲۰۱۱ء

۱۰۱۳۔احمد ندیم قاسمی ،(سرورق) ،’’زرِ معتبر‘‘

۱۰۱۴۔ریاض حسین چودھری ،’’خلدِ سخن‘‘ ،لاہور،القمر انٹر پرائزز ،۲۰۰۹ء ، ص:۵۸

۱۰۱۵۔ایضاً،ص:۷۵

۱۰۱۶۔ایضاً،ص:۹۳

۱۰۱۷۔ایضاً،ص:۱۳۵

۱۰۱۸۔ایضاً،ص:۱۴۱

۱۰۱۹۔ایضاً،ص:۱۲۷

۱۰۲۰۔ایضاً،ص:۱۳۸

۱۰۲۱۔ایضاً،ص:۱۴۸

۱۰۲۲۔ایضاً،ص:۱۵۲

۱۰۲۳۔ایضاً،ص:۱۷۰

۱۰۲۴۔ایضاً،ص:۳۹

۱۰۲۵۔ایضاً،ص:۳۱

۱۰۲۶۔ریاض حسین چودھری ،’’زرِ معتبر‘‘ ،لاہور ،خزینہ علم و ادب ۲۰۰۰ء ،ص:۲۷،۲۸

۱۰۲۷۔ایضاً،ص:۳۵

۱۰۲۸۔ایضاً،ص:۴۵

۱۰۲۹۔ایضاً،ص:۵۹

۱۰۳۰۔ایضاً،ص:۵۱

۱۰۳۱۔ایضاً،ص:۱۸

۱۰۳۲۔ایضاً،ص:۶۲،۶۳

۱۰۳۳۔ایضاً،ص:۷۵،۷۶

۱۰۳۴۔ڈاکٹر سلیم اختر(فلیپ)، ’’متاعِ قلم‘‘، از ریاض حسین چودھری

۱۰۳۵۔ریاض حسین چودھری ، ’’متاعِ قلم‘‘ ،لاہور ،القمر انٹر پرائزز ، ۲۰۰۱ء ،ص:۳۲

۱۰۳۶۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری (فلیپ) ’’کشکولِ آرزو‘‘،از ریاض حسین چودھری

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...