Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

اسلم ملک
ARI Id

1688382102443_56116134

Access

Open/Free Access

Pages

276

                اسلم ملک (۱۹۳۱ء پ) سیالکوٹ کے محلہ دھارو وال میں پیدا ہوئے ۔(۱۰۴۱) نثر نگاری ان کی پہچان ہے لیکن اظہار کے لیے انھوں نے شاعری کا لطیف پیرایہ بھی استعمال کیا ہے۔ اسلم ملک نے بچوں کے ادب کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس لیے ان کی شاعری کا بڑا حصہ بچوں کی شاعری پر محیط ہے۔اسلم ملک نے حمد سے نعت ،غزل نظم اور ہائیکو جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ اسلم ملک کا شعری مجموعہ ’’خواب اور خوشبو‘‘شائع ہو چکاہے۔ تصوف اور عشقِ حقیقی اسلم ملک کی شاعری کا ایک بڑا موضوع ہے۔ اسلم ملک کے نزدیک صرف خدائے رحیم و کریم ،تعظیم ،عظمت اور تمہیدو ستائش کا حقدار ہے۔ لالہ و گل میں اس کی خوشبو ہے۔ اور سورج چاند ستاروں کی روشنی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ نور اور نور کا منبع ہے:

لالہ و گل میں جو خوشبو ہے فقط تری ہے

 

چاند ستاروں کی چمک میں بھی ہے فیضان تیرا

 

گیت تیرے ہی سناتے ہیں پرندے سارے

 

بزمِ قیمتی کا ہر اک فرد ثنا خواں تیرا

 

â۱۰۴۲)

>             اﷲ تعالیٰ ہی کل کائنات کا خالق و مالک ہے۔ یہ ساری خلقت اس کا کنبہ ہے۔ وہ ساری مخلوقات کا پروردگار ہے۔ عرش و فرش اس کے جلال سے بھرپور اور معمور ہے۔ وہ بنی نوع انسان کے ہر درد کا درماں اور ہر مشکل میں عقدہ کشا ہے۔ اسلم ملک اپنی ایک حمدیہ نظم میں انھی خیالات کا اظہار اس طرح سے کرتے ہیں:

تو خالق و مالک ارض و سما

 

1سبحان اﷲ ، سبحان اﷲ

 

-تو داتا مرے دل میں بسا

 

1سبحان اﷲ ، سبحان اﷲ

 

+خلقت ساری ہے کنبہ ترا

 

1سبحان اﷲ ، سبحان اﷲ

 

1تو افضل و اکمل سب سے بڑا

 

1سبحان اﷲ ، سبحان اﷲ

 

â۱۰۴۳)

²              حمدکے ساتھ ساتھ ان کے شعری مجموعے میں نعتیہ شاعری بھی شامل ہے۔ حضورؐ کی ذات اور ان کی صفات سے عشقِ و محبت اسلم ملک کی شاعری کا مرکزی موضوع ہے۔ عشقِ رسولؐ کی موجزن لہریں جا بجا ان کی نعتیہ شاعری میں دیکھی جا سکتی ہیں:

شہ؂ دو جہاں کا کرم چاہتا ہوں

 

7سفر اپنا سوئے حرم چاہتا ہوں

 

;دیا ان کا روشن رہے طاقِ دل پر

 

میں الفت میں ان کا بھرم چاہتا ہوں

 

â۱۰۴۴)

j               اسلم ملک نے حمد و نعت کے ساتھ متعدد غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کی غزل روحِ عصر کی عکاس ہے۔ غزل اگرچہ حسن و عشق کے بیان سے معمور نظر آتی ہے۔لیکن زندگی کی حقیقت اور عکاسی بھی ان کی غزل کا طرہ امتیاز ہے۔ اسلم ملک کی غزل سماجی شعور اور آگہی سے بھرپور ہے۔ انسانی زندگی میں خوشیاں بہت کم اور غم زیادہ ہیں۔ انسانی زندگی اشک و تبسم کا نام ہے۔ اسلم ملک کی عمر کہانی بھی دکھوں سے عبارت ہے۔ وہ اپنے نہیں بلکہ دنیا کے غموں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:

چند اشکوں کے سوا عمر کہانی کیا ہے

 

اور اے جانِ وفا تیری نشانی کیا ہے

 

عمر گزری ہے یہی اُلجھن سلجھاتے ہوئے

 

صبح کا حسن ہے کیا شام سہانی کیا ہے

 

â۱۰۴۵)

:               دکھوں اور غموں کی اس فضا میں انسان خود غرض اور بے مہر ہو گیا ہے۔ ہر ایک اپنے غموں میں الجھا ہوا ہے۔ کسی کے پاس وقت نہیں کہ دوسروں کے درد کے بارے میں جان سکے۔ اس ظالم اور بے مہر زمانے نے ایسا انسان نگل لیا ہے۔ جس میں محبت و پیار تھا۔ ہر طرف بے وفائی اور بے مروتی کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔اسلم ملک کو ظلم و ستم کی ان تاریکیوں میں روشنی کی ایک کرن بھی نظرآتی ہے اور اُسے اُمید ہے کہ امید کی صبح روشن ضرور طلوع ہو گی:

انسان تھا انسان کے درد کا درماں

 

ہے کون وہ انسان بتا کیوں نہیں دیتے

 

3منزلوں کا نشان نہیں معلوم

 

پاؤں پھر بھی اُٹھائے جاتے ہیں

 

â۱۰۴۶)

Š             نامعلوم منزلوں کی طرف قدم اٹھانا روشنی کی کرن کی امید ہے لیکن روشنی کی کرن اور صبح درخشان خودبہ خود طلوع نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے عمل کرنا پڑتا ہے۔ اپنا چلن اور طور طریقے بدلنے پڑتے ہیں ۔خود فریبی کے بھنور سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ صرف خواب ہی نہیں دیکھنے پڑتے بلکہ نظم گلشن کو نئے رنگوں میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ پھول بننے کے لیے ہمیں کانٹوں میں پلنا پڑتا ہے۔ اسلم ملک کی شاعری عمل و حرکت کا درس دیتی ہے۔ رجائیت اور عزم و ہمت ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے:

آج خود اپنا چلن ہم کو بدلنا چاہیے

 

خود فریبی کے بھنور سے اب نکلنا چاہیے

 

صرف خوابوں سے حقیقت کا نہیں ملتا سراغ

 

نظمِ گلشن کو نئے رنگوں میں ڈھالنا چاہیے

 

ہم بسائیں گے نئی بستی نیا گلشن مگر

 

ہم کو منزل کی طرف ہمت سے چلنا چاہیے

 

بے ثمر ہو زندگی تو آدمی ہے بے ثمر

 

پھول بننا ہے تو پھر کانٹوں میں پلنا چاہیے

 

â۱۰۴۷)

 

 

 

 

7کیا ڈرائیں گے ظلمتیں مجھ کو

 

;دل میں اک چاندنی سی رکھتا ہوں

 

â۱۰۴۸)

ê              اسلم ملک کی غزل میں اعلانِ انقلاب اور صدائے احتجاج ہی نہیں بلکہ محبوب کی سراپا نگاری کا کومل اور لطیف موضوع بھی ملتا ہے۔وہ حسن محبوب کو اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول میں محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں ۔حسن و عشق کے بیان میں وہ روایت پسند نظر آتے ہیں:

جگنو کی چمک ہو یا ستاروں کی ضیا ہو

 

یا خاک کے ذروں میں کوئی پھول کھلا ہو

 

یہ حسن یہ رعنائی یہ مسکان تمہاری

 

آکاش سے اُتری ہوئی حوروں کی قبا ہو

 

â۱۰۴۹)

˜              اسلم ملک نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ نظم کی معروضیت کے ساتھ ساتھ ان کا پر شکوہ لیکن سادہ اسلوب ان کی نظم کو پرکشش بناتا ہے۔ ان کی نظموں میں ایک وارفتگی اور والہانہ پن پایا جاتاہے۔ جب وہ زندگی کے حقائق کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی زبان سنجیدگی کی عمدہ مثال بن جاتی ہے۔ انھوں نے نظم معریٰ،آزاد نظم اور قطعہ بند نظمیں لکھی ہیں۔ان کی ہائیکو اور ماہیے بھی ہمیں فکری اور شعری توانائی سے بھرپور نظر آتے ہیں۔ایک نظم ’’انتظار‘‘ سے اشعار ملاحظہ ہوں:

ہر شب تار نظر چاند ستاروں پہ رہی

 

ہر شب تار کچھ ایسے ہی سحر ہوتی ہے

 

راستے تکتے ہوئے دن تو نکل جاتا ہے

 

رات بھی یاد کے کانٹوں میں بسر ہوتی ہے

 

â۱۰۵۰)

Ô            ان کی نظموں کے موضوعات حب الوطنی کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں ۔اس حوالے سے پاکستان کا مطلب کیا‘‘ ،’’نغمہ پاکستان‘‘ ،’’پاکستان کے رکھوالے ‘‘،’’جیوے پاکستان‘‘ وطنیت پر مبنی خوبصورت نظمیں ہیں۔ ’’جیوے پاکستان‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

جیوے جیوے پاکستان جیوے پاکستان

 

;میرا دل اور میری جاں میری آن

اس کا ذرہ ذرہ مجھ کو جان سے پیارا

 

اس کی بستی بستی اُجلی اس کا قریہ قریہ اُجلا

اس کا بچہ بچہ سُندر سوہنا راج دلارا (۱۰۵۱)

                اسلم ملک نے اکثر چھوٹی بحر کی نظمیں لکھی ہیں تاکہ چھوٹے بچے ان نظموں کو روانی سے گانے کے انداز میں ترنم سے پڑھ سکیں:

سیدھی سچی راہ ٹٹول

 

#سچی بات بڑی انمول

 

'اس کو گلے لگائے کون

 

)بولتا ہے جو کڑوے بول

 

-علم کا بدلہ پیار سے دے

 

'کنکر لے کر ہیرے تول

 

â۱۰۵۲)

h             اسلم ملک کی بچوں کے حوالے سے بھی بہت سی نظمیں ہیں جن میں کہانیوں کی طرح اصلاحی پہلو خاصا نمایاں ہے ۔ بچوں میں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے دوسروں کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنے، وطن سے محبت کرنے اور بڑوں کا ادب کرنے کی تلقین کی ہے۔ اسلم ملک کی شاعر ی کے موضوعات بچوں کی ننھی منھی سوچ اور خواہشات کے مطابق نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بچے کے بچپن اور سوچ پر ایک جیسی چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ شاید اس لیے موضوعات میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ’’تتلی‘‘ ،’’اچھے بچے‘‘ ،’’قیمتی باتیں‘‘،’’صبح کا نظارہ‘‘ اور میری گڑیا اسلم کی بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں ہیں۔

                اسلم کے ہاں دو ہے بھی ملتے ہیں ان کے دوہے ،دوہے کی روایت کے علمبردار ہیں۔ ان کے موضوعات میں روانی ملتی ہے جو بڑے بڑے دوہا لکھنے والوں کا خاصا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:

ہم جوگی ہیں کان دھرو تو سن لو ہماری بانی

 

نیکی کر کے دریا ڈالو کس نے قدر ہے جانی

 

نگر نگر میں دیکھے ہم نے پھولوں کے انگارے

 

پیار کی جوت جگانے والے سدا رہے دکھیارے

 

â۱۰۵۳)

۱۰۴۱۔میمونہ اقبال ،’’اسلم ملک،ص:۱۷

۱۰۴۲۔اسلم ملک،’’خواب اور خوشبو ‘‘،ص: ۳۵

۱۰۴۳۔ایضاً،ص:۳۸

۱۰۴۴۔ایضاً،ص:۴۹

۱۰۴۵۔ایضاً،ص:۹۱

۱۰۴۶۔ایضاً،ص:۹۸

۱۰۴۷۔ایضاً،ص:۱۰۵

۱۰۴۸۔ایضاً،ص:۸۳

۱۰۴۹۔ایضاً،ص:۲۲

۱۰۵۰۔ایضاً،ص:۵۸

۱۰۵۱۔ایضاً،ص:۱۳۱

۱۰۵۲۔ایضاً،ص:۱۳۸

۱۰۵۳۔ایضاً،ص:۱۴۹

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...