Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

سرمد صہبائی
ARI Id

1688382102443_56116135

Access

Open/Free Access

Pages

278

¦               سرمد صہبائی (۱۹۴۵ء پ) کا اصل نام خواجہ سلیم پال ہے۔ آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔(۱۰۵۴) آپ معروف غزل گو شاعر اثر صہبائی کے بیٹے ہیں۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔اے انگریزی کیا۔ (۱۰۵۵)گورنمنٹ کالج لاہور کی ادبی سر گرمیوں میں سرمدؔ نمایاں رہے۔’’کالج گزٹ‘‘ اور مجلہ ’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر اور سوندھی ٹرانسلیشن سو سائٹی کے صدر بھی رہے۔ گورنمنٹ کالج میں ۱۹۶۲ء میں سٹوڈینٹ یونین کے صدر بھی رہے۔ (۱۰۵۶) اردو ادب میں آپ شاعر کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

                آپ کا پہلا شعری مجموعہ’’تیسرے پہر کی دستک‘‘ دارالا شاعت لاہور نے ۱۹۷۰ء میں شائع کیا۔ ’’تیسر ے پہر کی دستک‘‘ ایک طویل اور بین الاقوامی نظم ہے۔ یہ نظم تیسری دنیا کے معاشی ،سماجی ،معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی ایک جامع دستاویز ہے۔ اس نظم میں سرمد نے مظلوم اقوام کی مکمل طورپر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سرمد کا دوسرا شعری مجموعہ ‘‘ان کہی باتوں کی تھکن‘‘ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ دارالاشاعت لاہور نے ۱۹۷۶ء میں شائع کیا۔ ’’پل بھر کا بہشت‘‘ سرمدؔ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ جسے الحمرا اسلام آباد نے ۲۰۰۸ء میں شائع کیا۔ سیالکوٹ کی مردم خیز زمین اور گھر کے شاعرانہ ماحول کا اثر تھا کہ سرمد صہبائی کی طبع موزوں کا میلان سکول کی تعلیم کے دوران ہی اشعار کی طرف ہوا اور انھوں نے اپنے سکول کے زمانے میں ہی اشعار لکھنے شروع کر دئیے سرمد صہبائی کی ابتدائی شاعری میں وطن کی محبت کا عنصر نمایاں ہے۔اور وہ نوجوانوں کو وطن سے محبت کرنے اور وطن کی خاطرجان قربان کرنے پر اُبھارتے ہیں۔ ان کی ابتدائی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں ان کا رجحان مذہب اور وطن سے محبت کی طرف تھا۔ ان کی نظمیں ’’بچوں کی دنیا‘‘ اور ’’استقلال‘‘رسالے میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اُن کی ایک حمدیہ نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

دے دولت ایمان تو

 

!داتا تو رحمان تو

 

)دشمن کو یا رب کر فنا

 

'اور روک دے طوفان تو

 

'اسلام پر ہم کو چلا

 

-دے جسم کو پھر ایمان تو

 

'سرمدؔکو یارب کر عطا

 

#ایمان ہی ایمان تو

 

â۱۰۵۷)

                ۱۹۵۸ء میں باقاعدہ سرمدؔ صہبائی کی نظمیں مختلف اخبارات اور رسائل میں نظر آنے لگتی ہیں۔ ان نظموں میں وطن کی محبت اور وطن کی خاطر کچھ کر گزرنے کے جذبات کا ر فرما ہیں۔ ۱۹۵۸ء میں ’’بچوں کی دنیا‘‘ میں ان کی ایک نظم بعنوان ’’ننھے مجاہد‘‘ شائع ہوئی۔

تلوار ہم اٹھائیں

 

!ہم آگے آگے جائیں

#دنیا کو ہم جگائیں

 

!باطل کو ہم مٹائے

#ننھے ہیں ہم مجاہد

دشمن جو سر اُٹھائے

 

)اپنے ہی منہ کی کھائے

#ہم سے سزا وہ پائے

 

%ڈر کر وہ بھاگ جائے

#ننھے ہیں ہم مجاہد

جھنڈا ہے پیارا پیارا

 

#ہم سب کا ہے سہارا

مالک خدا ہمارا

 

ہے ہم یہ پکارا

1ننھے ہیں ہم مجاہد (۱۰۵۸)

                سرمد صہبائی انگریزی ادب کے طالب علم رہے ہیں اس لیے انگریزی ادب پر ان کی نظر بہت گہری ہے۔ سرمد مغربی تحریکوں سے متاثر ہیں ۔خاص طورپر وجودیت کی تحریک سے، اسی لیے سرمد نے اردو کی روایتی شاعری میں طبع آزمائی کے بجائے جدید نظم کو ذریعہ اظہار بنایا اور اس سے انسانوں کے مجموعی دکھ اور کرب کی داستان کو واضح اور تمثیلی انداز سے پیش کیا ہے۔ انسان کے دکھ، کرب، آدمی کا آدمی سے دور ہو جانا۔ اس صنعتی ماحول میں انسان انسان سے بہت دور نکل چکا ہے۔ اس پر تشدد زدہ ماحول اور لا قانونیت نے انسان کی قدر و قیمت کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ سرمد صہبائی ایک انٹر ویو میں اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:

میری شاعری اور ڈرامے میری نفسیاتی کیفیات سے پیدا ہوتے ہیں۔ میں جو ایک خاص جبرو تشدداور لاقانون معاشرے میں مقید کیا گیا ہوں۔ اس بھیانک اور ڈراؤنے ماحول سے مسلسل تصادم میرے لیے تخلیق کا محرک بنتا ہے۔ یہ معاشرہ میرے لیے tہے لہذا میں اس معاشرے کی نفی کرتا ہوں اور میری شاعری اسی نفی کی پیداوار ہے۔(۱۰۵۹)

                سرمد صہبائی شاعری جدید رویوں اور جدید تر رحجانات کی نمائندگی کرتا ہوا ایک منفرد شاعر ہے۔ یوں تو سرمد کا خصوصی میلان نظم کی طرف ہے تاہم وہ غزل بھی کہتے ہیں۔ اردو نظم گو شعرا میں سرمدؔ ایک ممتاز مقام کے حامل شاعر ہیں۔سیاسی ،سماجی ،قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر سرمد کی لازوال نظمیں ہیں۔

                ’’تیسر ے پہر کی دستک‘ سرمدؔ کی بین الاقوامی نظم ہے۔ جس میں انھوں نے تیسری دنیا کے مسائل بیان کیے ہیں۔ فیض احمد فیض اس قسم کی نظمیں لکھ چکے ہیں۔ جن میں مظلوم اقوام کی داد رسی اور ان کی حمایت کی یقین دہانی ملتی ہے۔’’تیسرے پہر کی دستک‘‘ ایک مکمل ڈرامائی نظم ہے۔ تصادم کا تاـثر رکھنے والی اس نظم میں سرمدؔ فلسطین کے علاوہ ایشیاء اور افریقہ کی مظلوم اقوام کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں انھوں نے ان کے مسائل اورا نکی مشکلات اور ان پر ہونے والے ظلم و ستم کو بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے۔انھوں نے ان کی حمایت کا اعلان اور انھیں ظلم کے خلاف صف آراء ہونے کی ترغیب دی ہے۔سرمدؔ نے اس نظم میں گولان، بولان، صحرائے سینا، ہنوئی اور فلسطین کی مظلوم اقوام کو آزاد دلی کی طرف بڑھنے کا پیغام یا دستک دی ہے۔ اور ان محکوم قوموں کو ان کی قربانیوں کے بدلے آزادی کی خوشخبری سناتے ہوئے کہتے ہیں:

سُنو !کل کی دہلیز پر سارے محکوم ملکوں کی آزاد سانسوں سے سورج چڑھے گا

کہ ساری زمینوں کا مشرق یہی ہے

رگوں میں اچھلتے لہو ،پھڑ پھڑاتی ہوئی خواہشوں راتوں رات چلتی

سانسوں کی

منزل یہی ہے

یہی ہے

یہی ہے(۱۰۶۰)

                ’’تیسرے پہر کی دستک‘ تیسری دنیا اور خاص طورپر ہماری اپنی صورتِ حال کی ایک مکمل دستاویز ہے۔ اس نظم میں سرمد ؔنے مکمل طورپر جزئیات کے ساتھ تمام حالات و واقعات کو بیان کیا ہے اور انھیں یاسیت سے رجائیت کی طرف لے گئے ہیں۔ ان کی یہ نظم جزئیات اور احساسات سے بھرپور ہیں۔ اس نظم کے ذریعے سے سرمد نے آزادی کے لیے خون بہانے اور ہتھیار اٹھا کر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا جذبہ بیدار کرتے ہوئے کہا ہے:

سنو تیرہ خطوں کی پاتال محکوم نسلوں کے آزاد نعروں کی ہیبت سے گونجی ہے۔

گولان ،بولان ،صحرائے سینا ،ہنوئی ،فلسطین

دیکھو کہ اب زندگی خون کے وجد میں رقص کرتی ہے

سینوں کے دف پر تھرکتی ہوئی خواہشوں کی دھمک پر لہو ناچتا ہے

سنو الفتح الفتح الفتح الفتح،ایشیا ،ایشیا

بندی وانو اٹھو

سارے دکھیا رو جاگو، سنو ہم نئی زندگی خلق کرتے ہیں

چاروں طرف سے دمادم صد ا آرہی ہے ،اُٹھو بندی وانو اٹھو

سر اٹھاؤ کہ خون کی دہکتی ہوئی دھار پر تاجداروں کے سرکٹ چکے ہیں۔

اٹھو بندی وانو،اُٹھو(۱۰۶۱)

                سرمد کی شاعری بنیادی انسانی محسوسات اور مصروفیات کے نئے تجربات ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ہم قدم قدم پر محسوساتی واردات سے گریز یا لمحوں کی دھند میں گم بھی ہوتے ہیں اور اس دھند کے اس پا ر نئی واردات کے حقیقی کرب کے تیز اور تند ارتعاشوں کو اپنے ذہنی اور اعصابی عمل میں محسوس کرتے ہیں:

آپ اپنے ہی کڑے بوجھ سے اُکتائے ہوئے

 

لوگ پھرتے ہیں گلی کوچوں میں گھبرائے ہوئے

 

گھر کے تاریک درو بام سے ہو کر گزری

 

صبح سورج کا بدن دھند میں کفنائے ہوئے

 

â۱۰۶۲)

°              سرمدؔ کے ہاں وجودی کرب کی ایک صورت وہ ہے جہاں فرد اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہتا ہے۔ وہ مصروفیات سے اپنی ذات کا ربط تلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور اس بے ربطی کے باعث وہ اذیت و کرب کی حدوں سے آگے موت کی حدوں کو چھونے کی خواہش کرتا ہے اور چھولیتاہے۔ نئے شاعرو ں میں وجودیت کی اذیت تو بہت نمایاں ہے۔ مگر ان میں موت کے ان دیکھے ذائقے کی خواہش کی تکمیل کی آواز نہیں ہے۔سرمد کی نظموں میں اس کی یہ خواہش بڑی نمایاں ہے۔ اس حوالے سے نظم ’’ وہ مرچکا ہے‘‘کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

مگر وہ لفظوں کے دائروں کے سفر سے گزرا

پرانی سنسان سیڑھیوں کے بھنور سے نکلا

جو گھر سے باہر ہزار انجانے راستوں پر بکھر گیا تھا

کہ بجھتے سورج کا کھوج پائے

ہر ایک سائے کا بھید کھولے

جو اپنی آنکھوں میں خواہشوں کا الاؤ لے کر

اندھیرے جنگل میں چل رہا تھا

جو پوچھتاتھا

گیان کیاہے؟

جو پوچھتا تھا نجات کس میں ہے

اصل کیا ہے

وہ مر چکا ہے

وہ جس کے رستے پہ پال کیا

نگر کی سب لڑکیاں کھڑی ہیں(۱۰۶۳)

                ’’ان کہی باتوں کی تھکن‘ میں تنہائی اور محبوب کی تلاش ان کے مستقل موضوعات ہیں۔جب ہجر کی مدت حد سے بڑھ جائے تو محبوب کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور اسے ڈھونڈ لانے کی کوشش کرتے ہیں:

بکھرا ہوا ہوں صدیوں کی بے انت تہوں میں

 

مجھ کو کوئی کھوئے ہوئے لمحے کا پتہ دے

 

â۱۰۶۴)

 

 

 

 

بھول بیٹھے نہ کہیں اپنا پتہ بھی سرمدؔ

 

مدتیں ہو گئیں اس شخص کو گھر سے نکلے

 

â۱۰۶۵)

P             سرمد کی نظمیں انسانی کرائسس کی عکاسی کرتی ہوئی ہمارے اندر ایک نیا احساس جگاتی ہیں یعنی ان میں وجودیت کے عناصر کے ساتھ ساتھ آج کے انسان کو عذاب میں مبتلا دکھایا گیا ہے:

سارے بوجھ دھڑکتے دل کی سوئی پہ ٹھہر گئے ہیں

جسم کی کڑی کمان پہ تلتے رات اور دن

سال اور سن

سارے عناصر جانے کس کس بندھن میں ہیں

زندہ رہنے کے لالچ میں

سارے بوجھ توازن میں ہیں(۱۰۶۶)

                ڈاکٹر تبسم کاشمیری سرمدؔ صہبائی کی نظموں کے بارے میں لکھتے ہیں:

سرمدصہبائی کی نظموں میں نیا انسان اپنے کرائسس کے ساتھ موجود ہے۔ یہ انسان رات اورصبح کی علامتوں سے ہمارے سامنے آتاہے۔ اس انسان کا آدھا دھڑ رات کے گہرے پانی کے اندر ہے ۔ اور آدھا دن کے خونیں چوراہے پر لٹکا ہے۔(۱۰۶۷)

                سرمدؔ صہبائی نے جہاں جدت کی راہ کو پکڑ کر رکھا ہے۔ وہاں منفرد اسلوب بھی اپنایا ہوا ہے۔ نظموں کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر جدید زمانے کا طرفدار ہے۔ چند نظموں کے عنوان دیکھیں جو جدید سوچ کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دیکھنے والے کس کو دیکھتا رہتا ہے۔ ’’استعارے ڈھونڈتا رہتا ہے‘‘،’’ جس کی خاطر گھر سے نکلے ‘‘اور’’ یہ کس نے آنکھوں پر رکھا اپنا پھول ساہاتھ ‘‘جیسی نظمیں ان کی جدید سوچ کا پتہ دیتی ہے۔ اوران کی نظموں کے عنوانات سے پتہ چلتاہے کہ سرمد راشد اور فیض کی روایت کو چھوڑ کر گزرے ہیں۔ سرمدؔ کی کچھ نظموں کے عنوانات راشد، فیض اور جالب کی نظموں سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن ان کا خاص انداز لفظوں میں زمین و آسمان کا فرق ڈال دیتاہے۔ ’’ان کہی باتوں کی تھکن‘‘ ،کی نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے تبسم کاشمیری کہتے ہیں:

سرمد صہبائی کی ان نظموں کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ جیسے ہم دوبارہ شاعری کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ہماری یہ شعری مراجعت ایک عرصے کے بعد ہو رہی ہے۔ اور ہم ایک لمبا سفر طے کر کے شعری تجربات کی نئی کلیت کو اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔(۱۰۶۸)

                اردو یا پنجابی شاعری میں کافی کو بحیثیت شعری صنف کے صوفیا ہی نے استعمال کیا ہے۔سر مدؔ ظاہری طورپر صوفی نہیں ہیں اور نہ صوفیا کے کسی سلسلے سے وابستہ ہیں۔ بلھے شاہ، مادھو لعل حسین کی شاعری سے ان کو گہرا لگاؤ ہے جس کی وجہ سے ایک خاص وقت اور مخصوص ماحول میں اچانک سرمد کے اندر کا صوفی بیدا ر ہو گیا اور کافیوں پر مشتمل کتاب ’’نیلی کے سورنگ‘‘ تخلیق کی۔ جس کی وجہ کافی کی روایت میں ایک نئے دور کے شاعر کے احساسات اپنے کے دیس لوگوں کے لیے امنڈ آئے اور ایک سوئی ہوئی شعری صنف جاگ اُٹھی۔ سرمدؔ نے ’’نیلی کے سورنگ‘‘ میں جو کافیاں لکھی ہیں یہ آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں۔ اس شعری مجموعہ میں جہاں خوبصورت مقامی الفاظ موسموں اور رنگوں کی مٹھاس ہے ۔وہاں شاعر نے اپنے لاشعور کی باتیں شعور میں لا کر اپنے خیالات و احساسات اور محسوسات کو صدف بنا کر سیپی میں بند کر دیا ہے۔اس مجموعہ میں شاعر نے سچل سر مست اور بابا بلھے شاہ کے قدیم نظریہ تصوف کی ترجمانی بھی کی ہے اور اس منافقت کے دور میں رشد وہدایت کے نئے دروا کیے ہیں لیکن وعظ نہیں کیا بلکہ بات کو کسی نہ کسی کیفیت اور احساس میں رکھ کر بیان کیا ہے۔صوفی شعرا جن میں پنجابی ،ہندی اور سندھی صوفی شعرا کے بڑا ایوان ہیں لیکن سرمد نے خود کو ان ایوانوں سے دور رکھا ہے اور عوام کی بات عوام میں بیٹھ کر کی ہے۔سرمد نے لاشعوری اور شعوری کوشش سے علاقائی زبانوں میں جو کچھ صوفی شعرا نے لکھا خود کو اس سے جوڑ لیا۔ وہی لفظیات اپنائیں، جو صوفیا اکرام نے اپنائیں تھیں ۔سرمد نے پنجابی ،سندھی ،پشتو،سرائیکی ،پہاڑی اور دوسری علاقائی زبانوں کے الفاظ کو بے دریغ استعمال کیا ہے۔ اور بعض جگہ پر تویوں لگتا ہے۔ جیسے یہ اردو زبان نہیں بلکہ مختلف علاقائی زبانوں میں لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

پنج دریا جہاں گلے ملیں

اپنے سخن کی وادی

سانول

آکر دل آبادی(۱۰۶۹)

                ظاہری طورپر ایسے لگتا ہے کہ سرمد نے تصوف کے بارے میں اپنے جدید نظریات کو کافی کے مروجہ رنگ میں نہیں لکھا۔اور اس ضمن میں آزاد شاعری کو منتخب کیا ہے لیکن پھر بھی صوفیا کی چھاپ نظر آتی ہے۔

                ڈاکٹر انیس ناگی سرمد پر صوفی شعرا کے اثرات کے حوالے سے لکھتے ہیں:

اسے مہاتما بدھ ،سچل سرمست، میرا بائی اور بلھے شاہ کے خیالات کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح سرمد نے ثقافتی یکجہتی کی فضا قائم کی ہے۔ سرمد نے تصویری اشیاء سے مضامین نکالے ہیں جو صوفیا اکرام کا طریقہ کار ہے۔(۱۰۷۰)

                سرمد کی کافیوں میں ہماری دھرتی کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ زندہ استعاروں اور باطن سے اٹھنے والا کرب پڑھنے اور سننے والوں کے باطن میں چھپے غبار کو چھیڑتا ہے اور انسان کو اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کیوں کہ کافی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ غزل کی طرح کلاسیکی موسیقی سے جڑی ہوئی یہ براہ راست دل و دماغ پر اثرکرتی ہے۔ سرمد کلاسیکی موسیقی کا ذوق بھی جنون کی حد تک رکھتے ہیں۔ ان کی کافیوں میں موسیقیت بھی بلا کی ہے۔ ان کی کافیوں کی زبان و بیان اوررویے کے لحاظ سے اچھوتے نرالے اور نرول کلام سے مزین ہے۔ سرمد نے ان کافیوں کا مختلف علاقائی زبانوں کے تال میل سے دل کو لبھانے والا اسلوب پیدا کیا ہے۔ کچھ کافیاں ملاحظہ ہوں:

مکھ کی جوت بڑھی

پوہ ماگھ کے موسم ہیں یہ

کیسی دھوپ چڑھی

مکھ کی جوت بڑھی(۱۰۷۱)

 

سارے رنگ کے سنگ آگھر سائیں

موڑ مہار اُڑتے بادل کی

موج سند ھل کی (۱۰۷۲)

ہم سادہ بندے رب سائیں

لُچا دھرم سماج

میں نہ کل نہ آج(۱۰۷۳)

کافر سولہ سال کی

 

!چومیسا چترال کی

 

'گھونگٹ کالی زُلف کا

 

#اندر دھوپ سیال کی

 

â۱۰۷۴)

¸              سر مد صہبائی ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے مروجہ زبان و بیان سے بغاوت کی ۔سرمد نے زبان و بیان کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کو بیان کرنے کے لیے کافی کو بطور صنفِ سخن استعمال کیا ہے۔ سرمد نے ’’نیلی کے سورنگ‘ ‘میں اپنی تہذیب و ثقافت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ سرمد کی نظموں کے عنوانات سے بھی تہذیب وثقافت جھلکتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ’’دوہا چندی داس‘‘، ’’ٹھل ٹھل آئے موج سندھل کی‘‘ ،’’چیتررت کی جائی ہو‘‘، ’’میر ا بائی کے بھجن کا روپ‘‘ ،’’میں راوی دریا کی داسی‘‘ ،’’اپنا آپ نہ پورن ہو‘‘،’’اوہا ویر اومہاویر‘‘،’’اُٹھ گیا آب و دانہ سائیں‘‘ ،’’ہر ا سمندر گوپی چندر ‘‘،’’موہنجو داڑو کی رقاصہ کے نام‘‘ ،’’قصہ گاموں کمہار کی گھوڑی کا‘‘ ،’’آخر ی چڑھاوا ‘‘اور ’’خیر ہو سائیں‘‘ جیسی نظموں کے عنوانات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

                مذکورہ بالا تمام نظمیں اور ان کے علاوہ بھی تقریباً سبھی نظموں میں ہمیں اردگرد کے انسان چلتے پھرتے اپنے معاملات مصروف نظرآتے ہیں۔ اب شاعری میں چند شعری مثالیں ملاحظہ کیجیے:

ہاڑا دیس پنجاب کے لوگو

کھیڑے لے گئے ہیر

اور مہاویر اور مہاویر(۱۰۷۵)

 

تیرا سوت چڑ خڑے تیرے

اپنا تانا بانا سائیں

اُٹھ گیا آب و دانہ(۱۰۷۶)

 

ہر اسمندر

گوپی چندر

بول میری مچھلی کتنا پانی

کتنا پانی؟(۱۰۷۷)

                سرمد کی شاعری میں بدن کے حوالے سے بھی ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان کی کافیوں میں بہت زیادہ بدن کی شاعری کے حوالے بھی موجود ہیں۔

پھول کٹوری

دُدھ بھری گوری

ماتھے پہ بندھڑی

سینہ آم سندھڑی (۱۰۷۸)

 

تیری بیل چڑھوں میں سانول

تیری بیل چڑھوں(۱۰۷۹)

                سرمد کی شاعری ہمیں شہروں انسانوں سے دور کہیں ماورائی دنیا میں نہیں لے جاتی بلکہ ہم شاعری کے ذریعے شہروں میں داخل ہوتے ہیں ۔سرمد کے ہاں ہمیں عام آدمی اور عام آدمی کی خواہشات کا تذکرہ جا بجا ملتا نظر آتا ہے ۔اس حوالے سے ان کی نظم ’’ملاقات‘‘ اہم نظم ہے۔ جس میں ہمیں پاکستانی کلچر بھی دکھائی دیتا ہے۔اس میں جدائی ،تڑپ اور وصال کی طلب بدرجہ اتم موجود ہے:

دروازے پر کون کھڑا ہے

عمروں کی تنہائی میں لیٹی عورت نے

پل بھر سوچا

کون ہے شاید وہ آیا ہے

اِک لمحے کو اس نے اپنی دہلیزوں پر

دریا بادل اور ہوا کو رُکتے دیکھا

خواہش کی عمریاں بیلوں کو

اپنے دل کی محرابوں پر جھکتے دیکھا

اس کے بدن کے اندر جاگے

سرخ پرندے

کمرے میں جیسے یکدم سورج در آیا

کیا یہ تم ہو کیا یہ تم ہو

پیاسے ہونٹ پر اس کے نام کا رس بھر آیا(۱۰۸۰)

                سرمد کی جمالیاتی حس بہت تیز ہے۔ وہ جمال کو بیان کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ وہ محبوب کو خیالوں میں دیکھ کر اس کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے قائل ہیں۔ ان کی نظم ’’جل پری‘‘ اور’’ سورج‘‘ میں سراپا نگاری اور جمالیات کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں:

صبح کے صحن میں

رنگ تیرا بدن چوم کر

تتلیوں کا جنم لے کے اڑتے ہیں

چنچل ہوائیں

تیرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے

پرندوں کا بہروپ لے کر نکلتی ہیں

رس تیری سانسوں کو چھو کر

پھلوں میں اُترتے ہیں

کیسی ہے تیرے پراسرار جوبن کی جادو گری

جل پری جل پری (۱۰۸۱)

                سرمد کی شاعری گہرے سماجی شعور سے مزین ہے۔ وہ معاشرے میں ہونے والے ظلم و نا انصافی کا پردہ بڑی چابکدستی سے چاک کرتے ہیں کہ کس طرح مظلوم اور بے کس لوگوں کے نام پر مال و دولت اکٹھی کی جاتی ہے ۔ مگر جن بے سہارا لوگوں کے لیے دولت اکٹھی کی جاتی ہے۔ وہ بے سہارا ہی رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’آفت زدہ لوگوں کے لیے نظم‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ نظم کے چند ٹکڑے ملاحظہ کیجیے۔

                سرمد کی شاعری میں معاملہ بندی کی بھی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ بعض اوقات تو معاملہ بندی سے بھی بات نکلتی کسی چوتھی سمت میں چلتی جاتی ہے۔اور کہیں رکھ رکھاؤ کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ اور سرمد وصال کی ساری باتیں ایک خاص فنکارانہ انداز میں کر جاتاہے۔ اپنی نظم ’’پیپنی‘‘ میں سرمد محبوب سے ملاقات کا پورا منظر بیان کرتے ہوئے وصال کے لمحے کو قید کر لیتا ہے:

آہستہ سے

اُس کے ہاتھ سے پیپنی لے کر

میں نے اپنے ہونٹ کو جیسے

اس کے دو ہونٹوں پر رکھا

جیسے میں نے

اس کا گیلا تا لو چکھا

چشموں، ندیوں ، ڈھلوانوں میں

دروازوں روشن دانوں میں

پیپنی گونجی

پیپنی گونجی دور تک

عمروں کی شاخوں پر چڑھے بور تک(۱۰۸۲)

                سرمد کی شاعری میں محاکات نگاری کے عمدہ نمونے بھی ملتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب کی ایسی تصویر گری کرتے ہیں کہ محبوب کا پورا سراپا آنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ وہ اپنے محبوب کے جسم کے خدوخال اس فنکارانہ مہارت اور جزئیات نگاری سے بیان کرتے ہیں کہ سرمد کے جمالیاتی ذوق کی داد دئیے بغیر نہیں رہا جاتا۔ سرمد کی نظمیں مرقع نگاری کا بھی اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں:

گردن میں پھولوں کے مفلر

کانوں میں بل کھاتی مندری

جھومتے ننگ منگے بدن(۱۰۸۳)

 

رضائی میں منہ ڈھانپ کر

اپنی رانوں میں اُلٹا سرہانہ دبائے

وہ بے چینی سے میں یونہی

کروٹیں لیتی رہتی ہے

یکدم کوئی جسم میں آن گھستا ہے

لمبے گھنے بال کڑیل بدن

بل جھپکتے اندھیرے میں چیتے کی مانند

اس پہ جھپٹا ہے

ٹھنڈے پسینے میں تر

ہانپتی گرم سانسوں میں وہ

را ت بھر اس سے لڑتی ہے

لکنت بھرے ایک نمش سے تڑپ کر

بدن ہار دیتی ہے

باجی مجھے خوف آتا ہے

ہر رات بستر پر لیٹے ہوئے خوف آتا ہے(۱۰۸۴)

                سرمد نے نظم کے ساتھ ساتھ غزل بھی کہی ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک روایتی عنصر ملتا ہے۔ اردو شاعری میں غزل ایک روایتی صنف سخن ہے مگر سرمد نے اس میں اپنے عصری مسائل کو بھی بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔ آج کے دور میں انسان کا انسان سے رشتہ تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مشینوں نے انسان کی جگہ لے لی ہے۔ انسان نے جب سے دیہاتوں سے شہروں کی جانب سفر اختیار کیا وہ شہروں کی بھیڑ میں گم ہو کر رہ گیا۔ اس کی شناخت ختم ہوکر رہ گئی ۔ اس مضمون کو سرمد نے اپنی غزلیہ شاعری میں یوں بیان کیا ہے:

اس بھیڑ میں پکاریں کیسے دیکھیں کس طرف

 

دوڑے گی یہ نظر کہاں چہروں کے ساتھ ساتھ

 

â۱۰۸۵)

 

 

 

 

سرمدؔ ہم ایک دوسرے کو بھولتے گئے

 

عمروں میں پھیلتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ

 

â۱۰۸۶)

 

 

 

 

[شہروں میں اُتری ہے سرمدؔ نا آشنا چہروں کی رات

 

کن آنکھوں سے لوٹے گی یہ دیوار نقابوں کی

 

â۱۰۸۷)

 

 

 

 

خود میرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے

 

کون ہو گا جو مجھے میری شناسائی دے

 

اے میرے شہر لے سب رونق واپس اپنی

 

اور مجھے میرا وہی گوشۂ تنہائی دے

 

â۱۰۸۸)

 

 

 

 

منتشر ہوتے گئے لمحہ بہ لمحہ رابطے

 

روشنی سے آنکھ، چہرہ عکس سے عاری ہوا

 

â۱۰۸۹)

                سرمد کا اپنا ڈکشن ہے انھوں نے یہ لفاظی کسی سے نہیں چرائی۔ان کے ہاں فارسی تراکیب کی نسبت اپنی علاقائی زبانوں کے الفاظ کا کثرت سے استعمال ملتاہے۔ جس میں مقامی رس بھرا ہوا ہے ۔ سرمد کی شاعری میں لڑکیوں کا ذکر بھی دوسرے شعرا سے زیادہ ملتا ہے۔ لڑکیوں کے مسائل کو انھوں نے باریک بینی سے بیان کیا ہے۔ ان کی بہت نظمیں لڑکیوں کے نام لکھی ہوئی ہیں۔ ’’پل بھر کا بہشت‘‘ میں ان کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔

                سرمد کے معاصرین میں بیشتر جدیدیت کے مغز تک پہنچے ہیں اس لیے ناکام نظر آتے ہیں۔ کہ انھوں نے علامتوں یا علامت نگاری کو جبراً پکڑ کر اپنی نظموں میں گھسیڑا ہے جب کہ سرمد کے ہاں علامتیں خود بخود چلی آتی ہیں۔ اور نظم میں یونہی مدغم ہو جاتی ہیں کہ نظم کا جمالیاتی حسن زائل نہیں ہوتا۔ ان کی نظموں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ایک کامل افسانے کی طرح ان میں کوئی غیر ضروری لفظ ،غیر ضروری منظر نگاری اور تفصیل نہیں ہے۔ سرمد کی تشبیہیں ،استعارے اور علامتیں انجانی محسوس نہیں ہوتی۔ بڑے شاعروں کی طرح سرمد نے روایتی استعاروں اور علامتوں کو نئی معنویت بھی دی ہے۔ اور ساتھ ساتھ جدید استعاروں ،علامتوں اور تشبیہوں کو بھی تخلیق کیا ہے۔ فنی اعتبار سے دیکھیں تو ان کی شاعری راشدؔ او رمجید امجدکی روایت کا تسلسل ہے اور اس وراثت کو مثبت سمت میں آگے لے جاتی دکھائی دیتی ہے۔ ڈکشن کے اعتبار سے بھی سرمد نے پیش رؤں کی نسبت زبان کو زیادہ صاف اور مقامی بنایا ہے۔ راشد کے مفرس اسلوب، میرا جی کے مہند اسلوب کو چھلنی میں ڈالا اور مقامیت رکھ لی اور باقی سب نکال باہر کیا۔

 

۱۰۵۴۔محمد نوید، ’’سرمد صہبائی کی ادبی خدمات‘‘ ،لاہور ،جی سی یونیورسٹی، مقالہ برائے ایم ۔فل اردو (غیر مطبوعہ) ،۲۰۰۸ء ،ص:۱۲

۱۰۵۵۔ایم ۔اے انگریزی گورنمنٹ کالج لاہور سے سرمد صہبائی کو دی جانے والی سند پر جو تاریخ رقم ہے۔

۱۰۵۶۔محمد نوید،’’سر مد صہبائی کی ادبی خدمات‘‘،ص:۱۳

۱۰۵۷۔یہ نظم کے اشعار سرمد صہبائی کی ’’بیاض‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ اس غیر مطبوعہ نظم کی تاریخ دسمبر ۱۹۵۷ء درج ہے۔ ،مخزونہ ،سرمد صہبائی

۱۰۵۸۔سر مد صہبائی ،مشمولہ رسالہ ’’استقلال‘‘ ،لاہور ،مارچ ۱۹۶۰ء ،ص:۳۱

۱۰۵۹۔سرمد صہبائی (انٹر ویو:آزاد کوثری)مشمولہ رسالہ ’’تصویر‘‘ لاہور،۱۹۷۵ء ،ص:۹

۱۰۶۰۔ سر مد صہبائی ،’’تیسرے پہر کی دستک ‘‘ ،لاہور ،دارالاشاعت ،۱۹۷۵ء ،ص:۹

۱۰۶۱۔ایضاً،ص:۳۵

۱۰۶۲۔سرمد صہبائی ،’’ان کہی کی تھکن‘‘ ،لاہور ،دارالاشاعت ، ۱۹۷۶ء ، ص:۷۹

۱۰۶۳۔ایضاً،ص:۴۶،۴۷

۱۰۶۴۔ایضاً،ص:۷۷

۱۰۶۵۔ایضاً،ص:۸۰

۱۰۶۶۔ایضاً،ص:۱۱،۱۲

۱۰۶۷۔ڈاکٹر تبسم کاشمیری ’’نئے تجزیے‘‘ ،لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ،۱۹۸۷ء ،ص:۱۲۱

۱۰۶۸۔ایضاً،ص:۱۲۰

۱۰۶۹۔سر مد صہبائی ،’’نیلی کے سورنگ‘‘ کراچی ،کتب پرنٹرز اینڈ پبلشرز لمیٹڈ فروری ۱۹۸۹ء ،ص:۳۸

۱۰۷۰۔انیس ناگی(انٹر ویو) مشمولہ ہفت روزہ ’’مسلمان‘‘ اسلام آباد ۲۴ فروری تا یکم اپریل ۱۹۹۲ء ،ص:۵

۱۰۷۱۔سرمد صہبائی ،’’نیلی کے سورنگ‘‘،کراچی ،کتب پرنٹرز اینڈ پبلشرز لمیٹڈ ،فروری ۱۹۸۶ء ،ص:۱۵

۱۰۷۲۔ایضاً،ص:۲۱

۱۰۷۳۔ایضاً،ص:۵۴

۱۰۷۴۔ایضاً،ص:۱۱۹

۱۰۷۵۔ایضاً،ص:۶۶

۱۰۷۶۔ایضاً،ص:۷۳

۱۰۷۷۔ایضاً،ص:۱۲۶

۱۰۷۸۔ایضاً،ص:۴۸

۱۰۷۹۔ایضاً،ص:۱۳

۱۰۸۰۔سرمد صہبائی، ’’پل بھر کا بہشت‘‘،اسلام آباد، الحمرا پبلی کیشنز ،۲۰۰۸ء ،ص:۱۷

۱۰۸۱۔ایضاً،ص:۴۷،۴۸

۱۰۸۲۔ایضاً،ص:۴۳،۴۴

۱۰۸۳۔ایضاً،ص:۳۲

۱۰۸۴۔ایضاً،ص:۶۳،۶۴

۱۰۸۵۔سرمد صہبائی ،’’ان کہی باتوں کی تھکن‘‘ ،ص:۱۰۲

۱۰۸۶۔ایضاً،ص:۹۷

۱۰۸۷۔ایضاً،ص:۸۵

۱۰۸۸۔ایضاً،ص:۸۴

۱۰۸۹۔ایضاً،ص:۹۰

۱۰۹۰۔جیکب پال ،’’پاکستان کے مسیحی شعرا و شاعرات‘‘ ،مقالہ برائے ایم۔ فل اردو (غیر مطبوعہ)،اسلام آباد، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،۲۰۰۴ء ،ص:۱۴۴

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...