Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

محمد خالد
ARI Id

1688382102443_56116137

Access

Open/Free Access

Pages

294

                یوسف نیر(۱۹۴۷ء ۔۲۰۱۷) کا اصل نا م یوسف رحمت ہے اور نیر تخلص ہے ۔ آپ محلہ اٹاری گیٹ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔(۱۰۹۰) آپ نے ایم ۔اے اردو پنجاب یونیورسٹی اور ایم۔فل اردو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا۔ ۱۹۷۹ء میں آپ کی تعیناتی بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں ہوئی۔ گورنمنٹ کالج سیالکوٹ سے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر آپ ریٹائر ہوئے ۔(۱۰۹۱) آپ کالج میگزین lکے مدیر رہے اور ان کی ادبی تخلیقات اس میں شائع ہوتی تھیں۔ آپ کا شعری کلام ’’کاتھولک‘‘،’’نقیب‘‘ ،لاہور ،’’شاداب ‘‘ لاہور ، ’’شعاعِ نور‘‘ ،لاہور ،’’بیسویں صدی‘‘ ،لاہور اور ’’فنون ‘‘ لاہور میں شائع ہوتا رہا۔

                آپ مرے کالج کی مجلسِ سخن اور مجلسِ اقبال کے انچارج رہے۔ نیرمرے کالج کے علمی و ادبی مجلہ ’’الفیض ‘‘ کے نگران رہے اور مرے کالج سے اقبال نمبر اور غالب نمبر شائع کیے۔۱۹۸۸ء میں آپ پاکستان رائٹرز گلڈ کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ پنجابی ادب سنگت لندن نے انھیں ۲۰۰۰ء کاادبی ایوارڈ لندن میں ایک مشاعر ے میں پیش کیا۔ (۱۰۹۲)’’روشنی کا پہلا دن‘‘ یوسف نیر کا شعری مجموعہ الحمد پبلی کیشنز نے ۱۹۹۲ء کو شائع کیا۔

                یوسف نیر ادب میں ادب برائے زندگی نظریے کے قائل ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ غریب ،مظلوم اور پسماندہ معاشرے کے پسے ہوئے انسانوں کے دکھ اور محرومی کی بات کی ہے۔ وہ ظالم ،جابر اور استحصالی نظام اور افراد کی مـذمت کرتے ہیں۔ نیر گہرا سماجی شعور رکھتے ہیں وہ سماجی اور معاشرتی ظلم و ستم کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اسے محسوس کرتے ہیں اور اپنی شاعری میں جا بجا بیان کرتے نظر آتے ہیں:

راہ کوئی نہیں ہے بچنے کی……

 

1ہر طرف شیش ناگ بیٹھے ہیں

 

â۱۰۹۳)

 

 

 

 

7ہے دشمن جاں مسلسل کی گرانی

 

نایاب ہے پروا تو کوئی لوہی چلادے

 

â۱۰۹۴)

 

 

 

 

5تجھ کو کیا رات کی سیاہی سے

 

3تیرے گھر میں چراغ جلتا ہے

 

â۱۰۹۵)

 

 

 

 

1چھوڑ بھی دے بہار کا رستہ

 

3زرد شاخوں میں پھول آنے دے

 

â۱۰۹۶)

p             یوسف نیر ا من پسند انسان ہیں۔ وہ دنیا میں بھی امن و انصاف کی خواہش رکھتے ہیں۔ آئے دن کے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری سے وہ بے چین ہو جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں امن و انصاف کا خواب دیکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں روشنی کا پہلا دن آنے والے اس سنہری دور کا استعارہ ہے۔ جب زمین پر سچ کا پہلا سورج چمکے گا۔ صبح کی روشنی پھیلے گی اور آزادی کی ہوا اس کی انگلی تھام کر قریہ قریہ گھومے گی پھر نہ ماتم رہے گا نہ آہ زاری اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

تیز ہوا کے جھونکے آخر توڑیں گے

 

سوکھا پتا شاخ پہ کب تک ڈولے گا

 

â۱۰۹۷)

 

 

 

 

چونچ میں شاخ ہے زیتون کی لیکن اب کے

 

;خون آلود پروں سے ہے کبوتر آیا

 

â۱۰۹۸)

             انسان کی تخلیق کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ مل جل کر رہے ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھ سکھ میں شریک ہو کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے زیادہ ہوتی ہیں اور دکھ کم ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں بہت گھٹن ہے۔ انسان اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ پیار محبت کی جگہ گھٹن نے لے لی ہے۔ اس سلسلے میں یوسف نیر رقم طراز ہیں:

راہ کوئی نہیں بچنے کی

 

1ہر طرف شیش ناگ بیٹھے ہیں

 

â۱۰۹۹)

 

 

 

 

;ہے دشمن جاں جس مسلسل کی گرانی

 

نایاب ہے پروا تو کوئی لو ہی چلا دے

 

â۱۱۰۰)

â              آج کے ظالم سماج کو یوسف نیر کڑی تنقیدکا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ جا بجا اپنی شاعری میں سماج سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں:

تجھ کو کیا رات کی سیاہی سے

 

3تیرے گھر میں چراغ جلتا ہے

 

â۱۱۰۱)

 

 

 

 

1چھوڑ بھی دے بہار کا رستہ

 

3زرد شاخوں میں پھول آنے دے

 

â۱۱۰۲)

ž              نیر کی غزلیہ شاعری میں غم جاناں اور غم دوراں بیک وقت پایا جاتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ اگر وہ کسی چیز کو حاصل نہ کر سکے تو غم کا شکار ہو جاتاہے۔ وہ غم اس کو دنیا کی طرف سے ملے یا پھر وہ غم اپنے محبوب کی طرف سے ہو۔یوسف نیر کی شاعری میں یہ دونوں غم ملتے ہیں۔ اس حوالے سے نیر کی شاعری میں جدت اور روایت کا حسین امتزاج ملتاہے:

اس کے دامن میں جفاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں

 

بار ہا دل نے کہا ہے مجھے کچھ سوچنے دے

 

â۱۱۰۳)

 

 

 

 

در بدر پھرتے ہیں لوگ بہت ظالم ہیں

 

شاخ پر بیٹھے پرندوں کو اُڑا دیتے ہیں

 

â۱۱۰۴)

 

 

 

 

7بہت روئے تھے مسکانے سے پہلے

 

ہوئے تھے گم تجھے پانے سے پہلے

 

â۱۱۰۵)

$              یوسف نیر باعمل مذہبی انسان ہیں۔ان کی ساری زندگی عملی جدوجہد میں گزری ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بڑی محنت کی ہے۔ طالب علمی کے دور میں مزدوری بھی کی ہے اور معاشی ابتری کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ وہ غریب اور مظلوم انسانوں کو محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا درس بھی دیتے نظر آتے ہیں:

جل بجھے خود وہ وقت کے ہاتھوں

 

5جن کو شب میں دیے جلانے ہیں

 

â۱۱۰۶)

 

 

 

 

;جب سے طلوع صبح کے آثار ہو گئے

 

چلنے کو قافلے بھی ہیں تیار ہو گئے

 

â۱۱۰۷)

 

 

 

 

حائل ہے مشکلات کا دریا عبور کر

 

یہ کام شانتی کا ہے اس کو ضرور کر

 

â۱۱۰۸)

<             زندگی ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ یہ ہر وقت چلتی رہی ہے۔ اس کا پہیہ کبھی رکتا نہیں۔ انسان کو زندگی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ غموں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یوسف نیر بھی ایسے انسان ہیں جنھو ں نے خوشیوں کے ساتھ دکھوں کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن ان دکھوں سے وہ کہیں بھی مایوس نظر نہیں آتے۔ بلکہ وہ خدائے بزرگ وبرترپر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔ اور کہیں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتے ۔وہ زندگی کے مثبت پہلوؤں کی طرف دیکھتے ہیں:

کاش آجائیں میرے جیتے جی

 

3زندگی میں جو دن سہانے ہیں

 

â۱۱۰۹)

 

 

 

 

غموں کی آگ میں جل کر بنوں گا کندن

 

;مجھے ندیم محبت کے درد سہنے دے

 

â۱۱۱۰)

 

 

 

 

وہ جو گھنگھور اندھیروں کو ضیا دیتے ہیں

 

شمع اُمید کی لو اور بڑھا دیتے ہیں

 

â۱۱۱۱)

Ø            یوسف نیر کی شاعری میں آفاقیت کا پہلو بھی نمایاں ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں معاشرے کی بے حسی کا ذکر ایک حساس انسان بن کر کیا ہے۔ ان کے شعر مجبور اور بے کس لوگوں کے دل کی آواز ہیں جو اپنی زندگی پریشانیوں اور صعوبتوں میں گزارتے ہیں:

خواہشیں ان منزلوں تک لے گئیں

 

7لوٹنے کو جس جگہ رستہ نہ تھا

 

â۱۱۱۲)

 

 

 

 

کسی کو ریت سے انبار موتیوں کے ملے

 

کسی کو گہرے سمندر سے بھی گہر نہ ملا

 

â۱۱۱۳)

à              یوسف نیر کی شاعری میں ہمیں سماجی شعور بھی ملتا ہے۔ ان کے ہاں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی کا عنصر بھی موجو دہے۔وہ اپنے گردو نواح کے ماحول میں ہونے والے حالات و واقعات اور مسائل کو گہرائی تک سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں اجتماعی شعور کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ وہ ترقی پسند نظریات سے تعلق رکھتے ہیں اور ترقی پسند انفرادیت پر اجتماعیت کو فوقیت دیتے ہیں۔ وہ ظلم و ستم ،جبر و استبداد ،جنگ ،خونریزی ،حقارت ،تنگ نظری اور تعصب سے بے زار ہیں اور انسانی فلاح و بہبود اور حقوق العباد اور امن و آتشی کے زبردست داعی ہیں:

نفرتیں ہی تو جنگ جنتی ہیں

 

/جنگ جو خاک میں ملائے گی

 

â۱۱۱۴)

 

 

 

 

گندم کی جگہ کھیت میں اب بھوک اُگی ہے

 

نیرؔ یہ کس نے خاک کو بنجر بنا دیا

 

â۱۱۱۵)

 

 

 

 

تو زندگی کو چلنے کا رستہ دکھائے گا

 

حاصل تو زندگانی کا پہلے شعور کر

 

â۱۱۱۶)

¤             یوسف نیر کی شاعری میں حقیقت پسندی کے عناصر بھی موجود ہیں۔وہ صرف جذبات اور خیالوں کی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ وہ حقیقت نگاری کے قائل ہیں۔ وہ سیدھے سادے اور کھرے انسان ہیں۔ ان کی شاعری میں مکرو فریب کی چیز بالکل نہیں ہے ۔ انھیں روشنی سے محبت ہے اور روشنی میں ہر چیز واضح طورپر نظر آتی ہے۔ ان کی حقیقت نگاری کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

آئینہ لے کے جب سے گزرا ہوں

 

/شہر کا شہر ہو گیا ناراض

 

â۱۱۱۷)

 

 

 

 

میں جانتا ہوں گل و نسترن کی حالت کو

 

کہ جن کو باغ میں باراں نے پائمال کیا

 

â۱۱۱۸)

 

 

 

 

مرجھا گئے ہیں بوٹے اور خاک اڑ رہی ہے

 

بے ابر میرا گلشن ویران ہو گیا ہے

 

â۱۱۱۹)

                یوسف نیر ایک مذہبی انسان ہیں۔ ان کی شاعری میں مذہبی عناصر بھی ملتے ہیں۔ وہ خدائے بزرگ و برتر پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ذات دعاؤں کو سنتی ہے ۔اسی لیے وہ صرف اسی ذات سے دعائیہ لہجے میں التجا کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ امید کے ساتھ اپنی مشکلات اﷲ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہیں کیونکہ انھیں اﷲ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے۔ اور وہ اپنی شاعری میں انسان اور اﷲ تعالیٰ کا رابطہ ٹوٹنے نہیں دیتے۔

شگوفے بھیج مرے دل کی شاخِ ویراں میں

 

مرے خدا مجھے پھولوں کے پھر سے گہنے دے

 

â۱۱۲۰)

 

 

 

 

1اس طرف بھی کوئی گھٹا آئے

 

3ایک اُجڑ ادیار ہم بھی ہیں

 

â۱۱۲۱)

 

 

 

 

یار ب مرے وطن کی کشتی کو تو بچانا

 

طوفان ہیں چار جانب ملاح بھی نیا ہے

 

â۱۱۲۲)

¾            یوسف نیر بنیاد ی طورپر غزل گو شاعر ہیں۔ وہ شاعر جو خارجی عوامل اور ارد گرد کی دنیا سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ نظم گوئی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں ۔غزل گو شاعر جب بھی غزل کے سانچوں کو تنگ اور محدود سمجھتے ہیں تو وہ کھل کر بات کرنے کے لیے نظم گوئی کا سہارا لیتے ہیں۔ نیر ایک حساس شاعر ہیں وہ اپنے ماحول سے ہرگز کٹ کر نہیں رہ سکتے اس لیے وہ خارجی عوامل اور واردات کو بیان کرنے کے لیے نظم نگاری کا سہارا لے کر وہ مضامین جو غزل کے اشعار کے دو مصرعے بیان نہیں کر سکتے نظم کے وسیع کینوس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہر خیال اپنے ساتھ اپنی ہیئت بھی لے کر آتا ہے۔ وہ بات جو شاعر دو مصروں میں نہیں کہہ سکتا وہ اسے آزاد نظم ،نظم معریٰ اور قطعہ بند نظم میں آسانی سے کہہ لیتا ہے۔ ان کی نظم نگاری کی مختلف جہتیں ہیں- ان کی بیشتر نظموں میں تغزل کا عنصر غالب ہے۔ ان کی غزل اور نظم کے موضوعات ملتے جلتے ہیں۔ انھوں نے امن کی خواہش کے حوالے سے متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ اپنی ایک نظم ’’امن جزیروں کی سمت سفر‘‘ میں یوسف نیر ایک سفید کبوتر بننا چاہتے ہیں تاکہ ظلم کے ماروں ،کمزوروں اور مظلوموں کو امن جزیروں کی سمت لے جائیں:

طائر ہوتا

تو میں ہوتا ایک سفید کبوتر

امن سے عاری

ظلم کے ماروں کمزوروں ،مظلوموں کو

امن جزیروں کی جانب میں چلتا(۱۱۲۳)

                نیر کی نظموں میں وطن دوستی اور حب الوطنی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔وہ پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں وطن اور پاکستان سے محبت کے حوالے سے متعدد نظمیں ملتی ہیں۔ ان نظموں میں ان موضوعات کے علاوہ منظر کشی کے ساتھ جذبہ و احساس کا رچاؤ بھی ملتا ہے:

سات سمندر پار سے آیا

جس نے مکاری کے کتنے جال بچھائے

جس نے اک اک کر کے توڑے دوستوں کے بندھن

جس نے آزادی کے پاؤں میں زنجیر یں ڈالیں

جس نے میرے گھر کو لوٹا مجھے غلام بنایا

ایک سودا گر

تن کا اُجلا من کا کالا

رہبر بن کر لوٹنے والا

جس نے میرے سے چھینا ٹھنڈے پیڑ کا سایہ(۱۱۲۴)

                یوسف نیر کی غزلوں اور نظموں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اسلوب اتنا شفاف اور صاف ہے کہ ان کے اشعار کو سمجھنے کے لیے ذہن کو زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ ان کا طرزِ تحریر سادہ اور عام فہم ہے۔

                عدیم ہاشمی نیرکے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:

اردو غزل نے جس طرح پچاس کی دہائی کے آخر اور ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں آنکھیں جھپکیں ،جس ڈکشن اور حسنِ اسلوب نے اردو غزل کو پرانی غزل سے ممیز کر کے نئی غزل یعنی جدید غزل کا پیراہن پہنایا۔ یوسف نیر کی غزل اس غزل کی نمائندگی کرتی ہے۔(۱۱۲۵)

۱۰۹۱۔راقم الحروف کا یوسف نیر سے انٹر ویو ،بمقام سیالکوٹ ،بتاریخ ۱۸ جولائی ۲۰۱۱ء

۱۰۹۲۔راقم الحروف کا یوسف نیر سے انٹر ویو ،بمقام سیالکوٹ ،بتاریخ ۱۹ جولائی ۲۰۱۱ء

۱۰۹۳۔یوسف نیر، ’’روشنی کا پہلا دن‘‘ ،لاہور، الحمد پبلی کیشنز ،۱۹۹۹ء ،ص:۶۸

۱۰۹۴۔ایضاً،ص:۴۹

۱۰۹۵۔ایضاً،ص:۳۷

۱۰۹۶۔ایضاً،ص:۱۳۱

۱۰۹۷۔ایضاً،ص:۹۹

۱۰۹۸۔ایضاً،ص:۶۵

۱۰۹۹۔ایضاً،ص:۶۸

۱۱۰۰۔ایضاً،ص:۴۹

۱۱۰۱۔      ایضاً،ص:۳۷

۱۱۰۲۔ایضاً،ص:۱۳۱

۱۱۰۳۔ایضاً،ص:۲۵

۱۱۰۴۔یوسف نیر ،مسودہ ’’غم کا موسم گزرنے والا ہے‘‘ ،ص:۱۵

۱۱۰۵۔ایضاً،ص:۲۵

۱۱۰۶۔ایضاً،ص:۳۱

۱۱۰۷۔ایضاً،ص:۳۸

۱۱۰۸۔ایضاً،ص:۴۲

۱۱۰۹۔ایضاً،ص:۵۲

۱۱۱۰۔      ایضاً،ص:۵۹

۱۱۱۱۔       ایضاً،ص:۷۲

۱۱۱۲۔یوسف نیر ،’’روشنی کا پہلا دن‘‘ ،ص:۱۵

۱۱۱۳۔ایضاً،ص:۱۳

۱۱۱۴۔ایضاً،ص:۲۰

۱۱۱۵۔ایضاً،ص:۳۵

۱۱۱۶۔یوسف نیر ،’’غم کا موسم گزرنے والا ہے‘‘،ص:۳۵

۱۱۱۷۔یوسف نیر،’’روشنی کا پہلاد ن‘‘،ص:۱۰۶

۱۱۱۸۔یوسف نیر ،’’غم کا موسم گزرنے والا ہے‘‘ص:۷۲

۱۱۱۹۔       ایضاً،ص:۵۸

۱۱۲۰۔ایضاً،ص:۱۸

۱۱۲۱۔      ایضاً،ص:۱۵

۱۱۲۲۔ایضاً،ص:۳۸

۱۱۲۳۔یوسف نیر ،مسودہ ’’جیون رشتہ‘‘ ،ص:۱۸

۱۱۲۴۔ایضاً،ص:۳۵

۱۱۲۵۔عدیم ہاشمی ،فلیپ ،’’روشنی کا پہلا دن‘‘

 

 

                محمد خالد (۱۹۵۰ء) خالدؔ تخلص کرتے ہیں۔ وہ چونڈہ تحصیل پسرور میں پیدا ہوئے۔ آپ ۱۹۷۵ء میں اسلامیہ کالج آف کامرس لاہور لیکچرار کے عہدے پر تعینات ہوئے ۔(۱۱۲۶) افسردگی ،بے چینی ،بد امنی اور شکستہ دلی ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

اجڑے ہوئے ہیں شہر کے دیوار ودر نہ جا

 

دل کی وارداتیں ہیں بڑی معتبر نہ جا

 

پہنا نہ خواہشوں کو لباس برہنگی

 

شب کی مسافتوں میں برنگِ سحر نہ جا

 

â۱۱۲۷)

 

 

 

 

ہاں میں شکستہ دل ہوں مگر آئینہ تو ہوں

 

تو اپنا رنگ دیکھ مرے حال پر نہ جا

 

â۱۱۲۸)

 

 

۱۱۲۷۔ایضاً،ص:۵۹

۱۱۲۸۔ایضاً،ص:۵۵

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...