Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > پروفیسر محمود الحسن شاکرؔ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

پروفیسر محمود الحسن شاکرؔ
ARI Id

1688382102443_56116142

Access

Open/Free Access

Pages

296

                پروفیسر محمود الحسن(۱۹۵۹ء۔پ) شاکرؔ تخلص کرتے ہیں۔ آپ جسٹر نارووال میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایم ۔اے اردو بہاولپور یونیورسٹی سے کیا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج پسرور سے بطور لیکچرار اردو ملازمت کا آغاز کیا۔ آج کل گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سکول کے ادبی ماحول نے انھیں شعر لکھنے کی طرف راغب کیا۔ آٹھویں جماعت میں ۱۳ سال کی عمر میں شعرو شاعری کا آغا زکیا۔ ابتدائی راہنمائی احسان دانش سے لی اور احسان دانش ہی شاعری میں شاکرؔ کے اُستاد ہیں۔(۱۱۴۱)

                گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے میگزین ’’پطرس‘‘ میں سب سے پہلے طالب علمی میں آ پ کا شعری کلام شائع ہوا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’سسکیاں فرشتوں کی‘‘ عمیر پبلشرز لاہور نے ۱۹۹۷ء کو شائع کیا۔’’گلاب کھلنے دو‘‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ جسے عمیر پبلشرز لاہور نے ۱۹۹۸ء میں شائع کیا۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’آنکھیں چپ ہیں‘‘ پارس پبلشرز لاہور نے شائع کیا۔ ’’آدم زاد کو کیا سمجھائیں‘‘ چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ جسے خزینہ علم و ادب لاہور نے ۲۰۰۶ء میں شائع کیا۔ پانچواں شعری مجموعہ ’’الم ۔نشرح‘‘ ہے۔ شاکر نظم اور غزل کے شاعر ہیں لیکن ان کے ہاں دیگر اصناف سخن ،قطعہ اور گیت اور نظمِ آزاد بھی ملتی ہے۔

                سعد اﷲ شاہ شاکرؔ کی نظم کے بارے میں کہتے ہیں:

یہ زمانہ افسانچے اور چھوٹی نظم کا ہے۔ محمود الحسن شاکر نے پانچ مصرعوں پر مشتمل نظم کا تجربہ کیا ہے۔ جس کے آخری دو مصرعے ہم قافیہ ہیں۔ ان کی یہ کاوش انتہائی خوش گوار ہے۔ انھوں نے اپنے عصری مسائل کا احاطہ شاعرانہ انداز میں کیا ہے۔ وہ ظاہر و باطن میں پر خلوص پاکستانی نظر آتے ہیں۔ جو اپنے مستقبل سے مایوس نہیں بلکہ ان کی بعض نظموں میں اُمید کی روشن کرن نوید صبح بن کر ابھرتی ہے۔(۱۱۴۲)

                دکھ اور غمِ انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ شاکرؔ بھی ایک انسان ہیں وہ بھی غم و الم سے دو چار ہوتے ہیں لیکن مایوس نہیں ہوتے ۔ بلکہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد ہی منزل مراد ملتی ہے:

بھولے بھٹکے راہی دیکھ

اتنا غم زدہ مت ہو

اب جو ہم نے بالآخر

راستہ تراشا ہے

منزلوں کی آشا ہے(۱۱۴۳)

                شاکرؔ ایک مواحد انسان ہیں۔ اور اﷲ تعالیٰ کی ذات پر وہ یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ عملی زندگی میں خرافات ،بدعات اور غلط روایات کے قائل نہیں۔ ان کا یقین ہے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف خدائے بزرگ و برتر ہے۔ وہ اپنی نظموں میں توحید اور اطاعتِ خدا وندی کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں:

ہم خدا کے بندے ہیں

یہ ہمارامسلک ہے

ہر غلط روایت سے

انحراف کرتے ہیں

اعتراف کرتے ہیں(۱۱۴۴)

                شاکر ؔایک باعمل اور باکردار انسان ہیں۔ وہ حرکت اور محنت و مشقت کے قائل ہیں۔ سست انسانوں سے انھیں نفرت ہے۔ وہ خود محنتی انسان ہیں۔ اس لیے اپنی شاعری میں بھی وہ پوری انسانیت کو محنت و جدوجہد کا درس دیتے نظر آتے ہیں:

عشق کی کمائی پر

تم جو اتنے حیراں ہو

آ تمہیں بتا تا ہوں

ہاتھ میں جو تیشہ ہے

یہ توا پنا پیشہ ہے(۱۱۴۵)

                شاکرؔ نے اپنی شاعری میں حق بات کی تبلیغ بھی کی ہے۔ وہ بے عمل مُلّا کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو لوگوں کوتو عمل کرنے کی تاکید کرتا ہے لیکن خود بے عملی سے دو چار ہے۔ شاکر کے خیال میں بے عمل ملا مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے:

منبرمنبر سود و زیاں کی باتیں ہیں

 

9مذہب کا روبار دکھائی دیتا ہے

 

اس محفل میں دیکھ کے مجھ کو بتلاؤ

 

کس کس میں کردار دکھائی دیتا ہے

 

â۱۱۴۶)

æ            حق گوئی اور بے باکی بھی ان کی شاعری کا ایک اہم جزہے۔ وہ ہر حال میں حق بات کہتے ہیں اگرچہ سچی بات کرنا بہت مشکل ہے:

منہ پر سچی باتیں کرنا شاکرؔ جی

 

3کام بڑا دشوار دکھائی دیتا

 

â۱۱۴۷)

´              شاکرؔ کے ہاں سماجی شعور بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ اپنے گردو نواح سے آنکھیں بند نہیں کرتے۔ وہ جبر و تشدد اور بد امنی کے سخت مخالف ہیں۔ وہ جب دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں:

دیکھ کے خاک و خوں میں لتھڑے چہروں کو

 

خطرے میں گھر بار دکھائی دیتا ہے

 

â۱۱۴۸)

۱۱۴۱۔راقم الحروف کا محمود الحسن شاکرؔ سے انٹر ویو،بمقام سیالکوٹ ، بتاریخ ۲ اپریل ۲۰۱۱ء

۱۱۴۲۔سعداﷲ شاہ،’’ محمود الحسن شاکر……ایک سچا شاعر‘‘،مشمولہ ’’سسکیاں فرشتوں کی ‘‘از محمود الحسن شاکر،لاہور ،عمیر پبلشرز، ۱۹۹۷ء،ص:۱۱

۱۱۴۳۔محمود الحسن شاکر،’’سسکیاں فرشتوں کی ‘‘،لاہور، عمیر پبلشرز، ۱۹۹۷ء،ص:۲۳

۱۱۴۴۔ایضاً،ص:۲۴

۱۱۴۵۔ایضاً،ص:۲۵

۱۱۴۶۔محمود الحسن شاکر،’’گلاب کھلنے دو‘‘،لاہور ،عمیر پبلشرز ۱۹۹۸ء ، ص۲۳

۱۱۴۷۔ایضاً،ص:۲۴

۱۱۴۸۔ایضاً،ص:۲۴

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...