Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

شاہدؔ شاذ
ARI Id

1688382102443_56116144

Access

Open/Free Access

Pages

299

شاہدؔ شاذ(۱۹۷۰ء پ) شاہدؔ تخلص کرتے ہیں۔ آپ آدم کے ناگرہ پسرور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایم ۔فل اردو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آبادسے کیا ہے۔ آپ نے عملی زندگی کا آغاز گورنمنٹ ڈگری کالج ڈسکہ سے لیکچرار کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کیا۔ آپ ڈسکہ کی ادبی او ر ثقافتی تنظیم بزمِ علم و ادب کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کا آغاز ۱۹۸۸ء میں ہوا(۱۱۵۵) شاہد شاذ عبدالعزیز پرواز اور شاہد جعفری سے شاعری میں اصلاح لیتے تھے(۱۱۵۶)انھیں فکر کے ساتھ ساتھ شعر کو پورے فنی محاسن کے ساتھ صفحہ قرطاس پر اُتارنے میں کمال حاصل ہے۔ آپ نے غزل ،نظم ،قطعہ، گیت اورنعت میں طبع آزمائی کی ہے۔ اُن کا نعت کہنے کا انداز بڑا بھرپور اور تاثر انگیز ہے۔ غزل میں وہ اپنے محبوب کی خوبصورتی اور محبوبیت کا ذکر اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور اس کے حسن و جمال کے معدوم ہونے کی بات بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف حسنِ بُتاں اور عشق تپاں کے ہی قائل نہیں بلکہ وہ زندگی کی اس جہت کے بھی شاہد ہیں۔ جہاں انسان کی مجبوریاں حسنِ لطیف کو بھول کر حقائق کی ان سنگلاخ چٹانوں کو عبور کرتی ہیں۔جہاں اس کی بنیادی ضرورتوں کے محدود ذرائع معدوم ہو جاتے ہیں۔ شاہد شاذ محبت کے سفر میں اپنی انا کا زاد راہ پاس رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ کسی بھی میدان میں اپنی انا کے آئینے کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیتے اور نہ ہی وہ اپنی انا کی لو کو کسی بھی پہلو سے کسی طورپر مدھم ہونے دیتے ہیں۔غزل اور نظم کے پہلو بہ پہلو وہ قطعہ لکھنے میں بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ وہ زندگی کے ان احساسات کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے ہمارے معاشرے کا انسان لاچار ہے۔

                حسن و عشق، عشقِ رسولؐ اور انسانیت شاید شاذ کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

جب سے تیریؐ نعت میں لفظ میں نے لکھے ہیں

 

تب سے یہ حرف سیہ پُر نور ہوتے جاتے ہیں

 

â۱۱۵۷)

 

 

 

 

ہے فکر تُجھ کو نہ کوئی دیکھے یہ چہرہ مثل گلاب تیرا

 

[مجھے یہ ڈر ہے کہ آتش رخ جلا نہ ڈالے نقاب تیرا

 

ملا کسی دن تو پوچھ لوں گا تھا جس پہ تجھ کو غرور اتنا

 

[کدھر گئی وہ تری جوانی ،کدھر گیا وہ شباب تیرا

 

â۱۱۵۸)

 

 

 

 

اسی لیے شاعری رنگین ہوا کرتی تھی

 

شاعری میں ترے مضمون ہوا کرتے تھے

 

â۱۱۵۹)

 

 

 

 

جان حاضر ہے مگر تم کو مناسکتا نہیں

 

عشق ہے اپنی جگہ ، میری انا اپنی جگہ

 

â۱۱۶۰)

 

 

 

 

بڑے ہی پیچ ڈال کر وہ کر رہے ہیں گفتگو

 

میں اس کی بات مان لوں وہ بات صاف تو کرے

 

میں زندگی کا انتساب اس کے نام کردوں

 

مگر میرے پیار کا وہ اعتراف تو کرے

 

â۱۱۶۱)

۱۱۵۵۔ بحوالہ '' الابصار'' (خصوصی اشاعت دوم)، گورنمنٹ ڈگری کالج ڈسکہ، ۲۰۰۳ء، ص: ۵۵

۱۱۵۶۔ایضاً،ص:۵۷

۱۱۵۷۔ایضاً،ص:۵۸

۱۱۵۸۔ایضاً،ص:۵۹

۱۱۵۹۔ایضاً،ص:۷۰

۱۱۶۰۔ایضاً،ص:۷۱

۱۱۶۱۔ایضاً،ص:۷۲

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...