Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

صابر ظفرؔ
ARI Id

1688382102443_56116146

Access

Open/Free Access

Pages

303

                                صابر ظفرؔ (۱۹۴۸ء پ)کا اصل نام مظفر احمد اور ظفرؔ تخلص کرتے ہیں۔اقبال اور فیض کے بعد سیالکوٹ کے سب سے بڑے غزل گو شاعر ہیں ۔ صابر ظفرؔ کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابتدا‘‘ہے جسے التحریر ادارہ لاہور نے ۱۹۷۴ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں ۱۹۷۴ء تک کے دور کی غزلیں شامل ہیں۔ ’’دھواں اور پھول‘‘ صابر ظفر کا دوسرا شعری مجموعہ ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’پاتال‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا۔ چوتھا شعری مجموعہ ’’دکھوں کی چادر‘‘ ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ چھٹا شعری مجموعہ ’’بارہ دری میں شام‘‘ ،۱۹۹۶ء میں طبع ہوا۔ ساتواں شعری مجموعہ ’’اک تری یاد رہ گئی باقی‘‘ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔ آٹھواں شعری مجموعہ ’’عشق میں روگ ہزار‘‘ ۱۹۹۸ء میں طبع ہوا۔ ’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘‘ نواں شعری مجموعہ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔دسواں شعری مجموعہ ’’اپنے رنگوں میں ڈوب جانے دے‘‘ ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ’’عشق میں روگ ہزار ‘‘کا تسلسل ہے۔ بارہواں شعری مجموعہ’’کوئی لو چراغ قدیم کی‘‘ ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا۔ تیرھواں شعری مجموعہ ’’نامعلوم‘‘(۲۰۰۵ء) میر کی زمین میں کہی گئی غزلوں کا مجموعہ ہے۔’’ پرندوں کی طرح شامیں‘‘ چودھواں شعری مجموعہ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ پندرھواں مجموعہ ’’محبت دور کی آواز تھی‘‘۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ ’’سانول موڑ مہاراں‘‘ سولہواں مجموعہ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا۔ ’’زنداں میں زندگی امر ہے‘‘صابر ظفر کا سترھواں شعری مجموعہ ہے جو ۲۰۰۷ء میں طبع ہوا۔ اٹھارہواں شعری مجموعہ ’’خاموش بدن کی خوش کلامی‘‘ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔

                انیسواں شعری مجموعہ’’ہر چیز کلام کر رہی ہے‘‘ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔ بیسواں مجموعہ ’’ستارہ وار سخن‘‘ ۲۰۰۸ء اور اکیسواں شعری مجموعہ ’’آئینوں کی راہداریاں ‘‘۲۰۰۹ء میں طبع ہوئے۔بائیسواں شعری مجموعہ ’’سب اپنے خیال کی دھنک ہے‘‘۲۰۱۱ ء میں شائع ہوا۔’’غزل در غزل تیئیسواں شعری مجموعہ ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔چوبیسواں شعری مجموعہ ’’گردشِ مرثیہ‘‘ ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ جو ایک طویل غزل ہے۔ پچیسواں شعری مجموعہ ’’سرِ بازارمی رقصم ‘‘۲۰۱۲ء میں شائع ہوا جو ایک طویل غزل ہے۔ یہ بھی ایک طویل چار سوا شعار کی غزل ہے۔ چھبیسواں شعری مجموعہ’’جمال ماورائے جسم و جاں‘‘ ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔ ستائیسواں شعری مجموعہ’’رانجھا تخت ہزارے کا‘‘ ۲۰۱۳ء میں طبع ہوا جو ایک طویل غزل ہے جس میں صابر ظفر نے پنجاب کی لوک داستان ’’ہیر رانجھا‘‘ کو نظم کیا ہے۔ اٹھائیسواں شعری مجموعہ ’’آوارگی کے پر کھلے‘‘ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔ انتیسواں شعری مجموعہ ’’غزل خطاطی ‘‘ ہے تیسواں شعری مجموعہ ’’اباسین کے کنارے‘‘ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔ اکتیسواں شعری مجموعہ ’’اساطیر کم نما‘‘ ۲۰۱۴ء میں طبع ہوا۔ بتیسواں شعری مجموعہ ’’غزل نے کہا‘‘ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔ تینتیسواں شعری مجموعہ ’’صندل کی طرح سلگتے رہنا‘‘ ۲۰۱۴ء میں طبع ہوا۔ چونتیسواں شعری مجموعہ’’ پلکوں میں پروئی ہوئی رات ‘‘۲۰۱۵ء میں شائع ہوا۔

                صابر ظفرؔ جدید غزل گو شاعر ہیں۔صابر نے اپنی غزل میں داخلیت اور خارجیت کی پرانی بحث کو بالکل ختم کر دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ داخلیت خارجیت سے متاثر ہوتی ہے اور خارجیت داخلیت کے بغیر بلاغت سے محروم رہ جاتی ہے۔ آپ نے اپنی غزل میں حقائق حیات کی ترجمانی کی ہے۔ صابر ایک حقیقت نگار شاعر ہیں وہ زندگی کی حقیقتوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ تلخی اور طیش میں الجھ کر اور شکستگی ،ہیجان اور تذبذب میں سے گزر کر صابر ظفرؔ زندگی کے وسیع و عریض آفاق میں داخل ہو جاتا ہے۔اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ جذبے اور فکر کے اتصال کا شاعر ہے۔ صابر ظفر تخیل کے ریلے میں تعقل سے کبھی دست کش نہیں ہوتا۔ وہ خارجی آنکھ کھولے رکھتا ہے تا کہ اس کی باطنی آنکھ کی بصارت دھندلا نہ جائے ۔ تغزل میں شعور کی آمیزش کا آغاز اردو غزل میں غالبؔ نے کیا اور فراقؔ نے اسے اعتبار بخشا ۔ صابر ظفرؔ کے ہاں غزل حسن کار ی اور حقیقت نگاری کا ایک دلآویز سنگم بن کر نمودار ہوئی ہے۔ صابر کی غزل یقینا غزل کی کلاسیکی روایت سے پھوٹی ہے مگر اس نے اپنے دوسرے ہم سفروں کی طرح اس روایت میں اپنی شخصیت ،اپنا منفرد رویہ اور اپنے ہم عصر کی روح شامل کر کے ایک نئی روایت کی داغ بیل پڑنے کا امکان بھی پیدا کر دیا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا صابر ظفرؔ کی غزل کے بارے میں لکھتے ہیں:

نئی اردو غزل کا ذکر چھڑے تو بات صابر ظفرؔ تک ضرور پہنچتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے نئی غزل کی سمفنی میں ایک ایسی آواز کا اضافہ کیا ہے جو اس سے ہم آہنگ ہی نہیں۔ آوازوں کے جھرمٹ سے الگ بھی ہے۔ صابر ظفر ؔکے کلام میں ابھی سے ایک پائیدار نقش بننے کا وصف نمایاں ہو رہا ہے۔(۱۱۸۳)

                سحر انصاری صابر ظفرکے پہلے غزلیہ شعری مجموعے کے موضوعات کے حوالے سے یہ رائے پیش کرتے ہیں:

صابر ظفر نے بہت کم عرصے میں اپنی انفرادیت کے خدوخال واضح کر دیے ہیں۔اس کی غزل میں نئے انسان کی شکست و ریخت بھی ہے۔ دیہی اور صنعتی معاشرے کی کشمکش بھی ہے۔ وہ محبت کی جسمانی اور نفسیاتی حقیقتوں کو بھی جانتا ہے اور نظام زر کی سفاکیوں کا بھی اُسے احساس ہے۔ صابر ظفر کے ہاں ہمعصروں نے جوا ولین شعری مجموعے شائع کیے ہیں۔ ان میں ’’ابتدا‘‘ ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ جس کی ’’ابتدا‘‘ یہ ہو اس کی انتہا کیا ہو گی۔(۱۱۸۴)

                صابر ظفر کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت سلیس اور سہل انداز میں عہد جدید میں انسا ن پر طاری جبریت ،بے معنویت اور اجنبیت کو بیان کرتے ہیں ۔اور ان کا اسلوب اظہار ایسا ہے کہ ان کے اکثر اشعار ضرب المثل بن جاتے ہیں:

دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے

 

1اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے

 

میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں

 

7جہاں میر ے سوا کوئی نہیں ہے

 

9رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں

 

5چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے

 

کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن

 

9گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے

 

1کسی سے آشنا ایسا ہوا ہوں

 

3مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے

 

â۱۱۸۵)

                صابر ظفر نے نامونوس الفاظ یا گنجلک تراکیب پر توجہ دینے کے بجائے سادہ اور رواں دواں مصرعوں کی تشکیل پر توجہ دی اور شعر میں عصری معنویت کو اہم خیال کیا ہے۔ اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جذبات ہجر وو صال کو اہمیت نہیں دیتے۔ بلکہ جذبوں کے بیان کو اس وسعت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ان کی معنویت محدود نہیں رہتی اور یہی کمال صنف غزل کا رہا ہے۔ ظاہر پرست غزل کو حسن و عشق کی باتیں اور عورتوں سے گفتگو سمجھتے رہے جب کہ باطن آشنا غزل کے اشاروں میں عصری صورت حال کے بیان کو بو ضاحت سمجھتے رہے۔ ملاحظہ ہو یہ غزل کے اشعار جس میں اسمائے ضمیر کے اشارے کئی ایک معانی رکھتے ہیں:

ہم یوں کبھی گلہ کریں گے

 

کچھ بھی نہیں تُجھے کہا کریں گے

 

3چاہے گا نہ تو جہاں ٹھہرنا

 

9تُجھ کو وہیں لا کھڑا کریں گے

 

تجھ کو بھی نہ ہونے دیں گے یکجا

 

1تجھ سے تُجھے جدا کریں گے

 

+حالات کا ہے یہی تقاضا

 

1ہر بات پہ چپ رہا کریں گے

 

â۱۱۸۶)

¬             اردو غزل میں تسلسل بیان کے نئے قرینوں کی تلاش کے سلسلے میں صابر ظفرؔ نے بڑے متنوع تجریے کیے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی کوشش ان کا شعری مجموعہ ’’بارہ دری میں شام‘‘ہے جو طویل غزلیات پر مشتمل ہے۔ اس کی تمام غزلیں رومانی طرز احساس کی حامل ہیں ۔ جن میں عاشق و معشوق کی وصل و فراق سے سرشاری کے ساتھ ساتھ مختلف کیفیات محبت کو نظم کیا گیا ہے۔ جدیدحسیت سے مملو شاعری میں یہ اپنی نوعیت کا غالباً واحد تجربہ ہے جس میں آتشِ عشق کا گداز اور لذت گریہ کا تسلسل ایک خاص کیفیت پیدا کرتا ہے :

دکھا کے اپنے حسن کی ادا عجب عجب طرح

 

وہ رات مجھ پہ مہرباں ہوا عجب عجب طرح

 

وہ پہلا پہلا تجربہ تھا عشق میں وصال کا

 

چلی جو سسکیوں بھری ہوا ،عجب عجب طرح

 

ہم ایک دوسرے کے سنگ سنگ بھیگتے رہے

 

اُٹھایا لطف بوند بوند کا عجب عجب طرح

 

سمجھ رہا تھا میں کہ وہ بہت کھٹور ہے

 

شباب سے عیاں ہوئی حیا عجب عجب طرح

 

â۱۱۸۷)

                اردو غزل میں آپ بیتی کا پہلا تجربہ ناصر کاظمی کی ’’پہلی بارش‘‘ ہے جس میں ایک بحر اور زمین میں ایک داستانِ عشق منظوم کی گئی ہے۔تاہم ’’پہلی بارش‘‘ میں اختصار اور ایمائیت ہے اور مختلف کیفیتوں کو علامتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ صابر کی ’’بارہ دری میں شام‘‘ میں بھی ایمائیت کسی حد تک ہے لیکن وصل کی سرشاری کا اظہار اتنی شدت کے ساتھ ہے۔ کہ اس کا بہاؤ رموز وعلائم کے کناروں کا وجود برقرار نہیں رہنے دیتا:

وہ دور تھا قریب آگیا تو چین آگیا

 

اور آکے روح میں سماگیا تو چین آگیا

 

بدن تڑخ تڑخ اُٹھا بدل بدل کے کروٹیں

 

وہ میری پیاس جب بجھا گیا تو چین آگیا

 

بکھر رہا تھا اس کا جسم نثری نظم کی طرح

 

غزل میں جب پرو دیا گیا تو چین آگیا

 (۱۱۸۸)

2             اُن کی غزلوں میں محض ایک عاشق کی آپ بیتی نہیں اس میں معشوق کا احوال بھی رقم ہے۔ جہاں عاشق کلام کرتا ہے وہاں معشوق بھی اپنی کیفیتوں کا اظہار ایک سرور، گداز اور سرشاری کے ساتھ کرتا ہے۔ گویا یہ سلسلہ غزلیات عشق کا صحیفہ ہے۔ جس میں عاشق اور اس کے محبوب دونوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں:

رات ساری جاگتی سوتی رہی میں

 

ایک میٹھے درد میں ڈوبی رہی میں

 

رہ گئی تھی اس کی خوشبو پاس میرے

 

اپنی سانسیں اس سے مہکاتی رہی میں

 

فصل ایسی تھی ، سہاگن کوئی جیسے……

 

;بیج وہ بوتا رہا اگتی رہی میں……

 

مہرباں بھنورا تھا یوں مجھ پر کہ جیسے

 

سارے گلشن میں فقط کھلتی رہی میں

 

â۱۱۸۹)

€             صابر ظفرؔ کے مجموعہ کلام ’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘‘ کی غزلیں ان کی زندگی کے ایک کرب ناک سانحے سے متعلق ہیں۔ ان کے جواں سال فرزند شاہد مظفر کوقتل کر کے اس کی لاش نہر میں بہادی گئی ۔ یہ سانحہ ایسا معمولی نہیں کہ جس کا اظہار کسی ایک رثائی نظم یا چند اشعار میں کیا جاسکتا ہو چنانچہ شاعر نے اس دکھ سے وابستہ اپنی داخلیت کو ۶۰ غزلیات پر مشتمل اس مجموعے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ داخلیت سے بھری ہوئی غزلیں مسلسل بھی ہیں اور کلی حیثیت میں یک کیفیتی بھی:

وہ مجھے چھوڑ گیا دکھ بھری حیرانی میں

 

خاک پر قتل ہوا اور ملا پانی میں

 

عکس پہلے تھا جہاں اب ہے وہاں بہتا لہو

 

کیا چھپائے گا کوئی آئینہ عریانی میں

 

زندہ رہنے کی ظفرؔ آئے نظر شکل کوئی

 

اصل کی ایک جھلک بھی ہو اگر ثانی میں

 

â۱۱۹۰)

T             یہ غزلیں ایک سانحے کے غم کے تسلسل کا اظہار ہیں۔ تاہم صابر ظفرؔ نے اس ایک غم سے جو شعر کشید کیے ہیں ان میں اس واقعے کا دکھ زندگی کے دوسرے آلام سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ ان میں بعض ایسی غزلیں ہیں جن میں شاعر براہ راست اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرتابلکہ عمومیت کا رنگ دے کر کسی قدر مبہم انداز میں بات کرتا ہے۔ اظہار میں گر یہ و ماتم بھی ہے۔ یاس واُمید بھی ، وقت کا جبر بھی اور اس واقعے پر رد عمل کی مختلف شکلیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔

                اس مجموعے کی غزلیات میں موت کا سایہ ایک تیز روندی کی طرح سرایت کر تا اورپھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ اور کتاب کے ایک لفظ کو دائمی یاسیت رنج اور حزن کے غبار سے بھر کر تمام نوع بشر کے لیے دکھ اور احتجاج کا استعارہ بن جاتا ہے:

ہو گیا بے آرزو میں آرزو کرتا ہوا

 

ایک روح گم شدہ کی جستجو کرتا ہوا

 

ہر جانب پیغام اجل ہے ہر جانب ہے شامِ اجل

 

_کوئی نہیں ہے سحر کی صورت کہیں نہیں ہے کوئی نوید

 

â۱۱۹۱)

º              صابر ظفر ؔنے عہدِ حاضر کے جبر اور ترقی پسند طرز احساس کے اظہار کے لیے کلاسیکی اردو شاعری کے استعاروں سے استفادہ کیا ہے اور ان کی معنویت کو اپنے انداز میں اجاگر کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں محض زندانی تجربات ہی نہیں بلکہ وقت کے جبر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یوں ان کی شاعری کی معنوی وسعت زنداں سے پھیل کر قیدِ زماں تک پھیل جاتی ہے۔ صابر ظفرؔ کے ہاں ترقی پسند طرزِ احساس کے تحت مزاحمتی شاعری ایک تسلسل کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کبھی سیدھے یا براہ راست اسلوب میں شعر کہہ کر جمالِ سخن کو مجروح نہیں کرتی صابر ظفرؔ کی ایک غزل کے چند شعرملاحظہ ہوں، جن میں زندانی تجربات کی متفرق جہتیں سمٹ آئی ہیں:

ہم اس چمن سے اُڑائے ہوئے پرندے تھے

 

چہکتے کیا کہ رُلائے ہوئے پرندے تھے

 

قفس میں ڈالے گئے تھے تو کیا ملال کہ ہم

 

اک اور پنجرے سے لائے ہوئے پرندے تھے

 

ستارے ٹوٹ کے جیسے گریں زمین پہ ظفرؔ

 

ہم آسماں سے گرائے ہوئے پرندے تھے

 

â۱۱۹۲)

ê              صابر ظفرؔ کی شاعری اس جمال کی تمنا پر مرکوز ہے جو حسنِ ازل بھی ہے اور حسن مکمل بھی ۔ایسی شاعری میں حمد کے مضامین بھی ہیں اور نعت کا اسلوب بھی اپنی تابانی دکھاتا ہے۔ عشق حقیقی کے جذبات سے مملو ان کی شاعری مذہبی طرز احساس کاایک بالکل منفرد ذائقہ رکھتی ہے جس میں حسنِ ازل کی تحسین بھی ہے اور دوئی سے اکائی میں ڈھلنے کی تمنا بھی ان کی شاعری میں بعض اشعار میں مجاز کے رنگ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ رنگ مجاز اس زینے ہی کا پہلا قدم دکھائی دیتا ہے اور جو بامِ حقیقت تک رسائی کا وسیلہ بنتا ہے:

ملائم لمسِ خلوت کا اثر کچھ دیر رہنے دو

 

نظر اپنی مری تصویر پر کچھ دیر رہنے دو

 

جمالِ ماورائے جسم و جاں پر جب نظر ٹھہرے

 

تو اپنے آپ سے کچھ بے خبر کچھ دیر رہنے دو

 

â۱۱۹۳)

                صابر ظفرؔ کی غزل میں وارفتگی اور والہیت کی وہ تمثالیں بھی جگمگاتی ہیں جو صوفیا نہ تجربات سے تشکیل پاتی ہیں۔ وہ رقص درویش جو مرشد کے عشق کی سرشاری کے باعث عشاق کے وجود ہی نہیں ان کی روح کا بھی حصہ ہوتا ہے اور اس کی تسکین کا ذریعہ بھی صابر کی غزل میں مذکورہ صوفیانہ تجربے کا اظہار جس تخلیقی اسلوب میں ہوا ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

سرِ بزم تحیر رو برؤے یا رمی رقصم

 

وفورِ عشق سے امشب ستارہ وارمی رقصم

 

سبب جن کے ہے سرشاری انھی کے سامنے رقصاں

 

مثال بوئے گل پیشِ گل و گلزار می رقصم

 

جمالِ یار کے جلوے عیاں سارے جہانوں میں

 

مسلسل درمیانِ بارش انوار می رقصم

 

â۱۱۹۴)

:               صابر ظفرؔ کے ہاں بعض سماجی محرومیاں بھی تجسیم اور تمثال کے پیرا یوں میں بیان کی گئی ہیں۔ صابر ظفرؔ نے بعض بے جان اشیا اوزاروں کو زبان دے کر علامتی پیرائے میں مزدوروں اور کسانوں کے طبقہ محروم کے دکھوں کو بیان کیا ہے۔ جس طرح مجید امجد نے اپنی نظم ’’ہڑپہ کا کتبہ‘‘ میں ہل چلانے والے بیلوں کو دوکے بجائے تین کہا ہے کہ ہل چلانے والا بھی اُسی طرح مجبو ر ہے جیسے کہ وہ بے زبان حیوان۔ اسی طرح صابر ظفر ؔنے محنت کشوں کو دن کے زرعی اوزاروں کی مثال قرار دیا ہے کہ وہ بھی محض محنت کے عمل کا حصہ ہیں لیکن جو فصل یا پھل حاصل ہوتا ہے اس میں کوئی حصہ نہیں۔

                صابر ظفرؔ کے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں بے زبان اوزار اپنے دکھ بیان کرتے ہوئے مجبورِ محض طبقوں کی ترجمانی کر رہے ہیں:

میں جس کے ہاتھ میں ہوں اس کے ہاتھ میں ہے نصیب

 

اناج میرا مقدر نہیں مَسَل نے کہا

 

جو مجھ میں رکھے گئے ہیں مرے ثمر تو نہیں

 

اٹھاؤں بوجھ عبث دوسروں کا ڈل نے کہا

 

تماشا دیکھ چکے میرے سامنے ہاری

 

ہر ایک فصل ہماری ہے ٹڈی دَل نے کہا

 (۱۱۹۵)

6             فنا کا عمل ازل سے جاری ہے اور عناصر کائنات جو پیدا ہوتے ہیں نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ اردو شاعری کے تخلیقی ذخیرے میں فلسفہ مرگ پر شعرا نے ایک بڑا فکری اثاثہ شامل کیا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’مسجد قرطبہ ‘‘ میں سلسلہ روزو شب میں فنا کے عمل کی ایک وسیع کینوس پر تصویر دکھائی ہے۔ اجل کے قوافی میں کہے گئے اشعار میں صابر ظفرؔ نے موت کو محض فنا کے تصور کے ساتھ وابستہ نہیں کیا بلکہ اس کی مختلف فکری صورتوں پر توجہ کرتے ہوئے اسے کئی ایک مفاہیم دیے ہیں۔ ظفرؔ کے اشعار میں موت ایک کردار کے روپ میں پکارتی نظر آتی ہے۔ فنا کا نقارچی انسان سے کیا کیا کچھ کہتا ہے وہ زندگی اور اس کی دلچسپیوں کو کس رنگ میں دیکھتا ہے۔ نیز اس کے لہجے میں طنز کے کیا کیا اسلوب پائے جاتے ہیں۔ موت پر کہے گئے اشعار ان سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں اور غفلت انسان پر خندہِ استہزا بھی رقم کرتے ہیں:

بس اتنا زیست کو ہے اذنِ رَم کہ رُلتی ہے

 

قرار ہے تو مجھے ہے فقط اجل نے کہا

 

لگے کہ ہو گئی مجبور محض قدرت بھی

 

کوئی بھی کام سنورنے نہ دوں اجل نے کہا

 

یہ تم سے ہوتا نہیں صرَف تو مجھے دے دو

 

زرِ وجود اچکتی ہوئی اجل نے کہا

 (۱۱۹۶)

                صابر ظفرؔ کی غزل میں اجتماع سے فرد کی طرف مراجعت بھی ملتی ہے۔ جہاں سماج کے مسائل کے بجائے فرد کی داخلی بلکہ بدنی ضرورتوں پر ارتکاز کیا گیا ہے:

بدن نہاتا ہوا چاندنی میں دیکھا گیا

 

یہ معرفت کا عمل بندگی میں دیکھا گیا

 

â۱۱۹۷)

                ان کی غزلوں میں نہ صرف کیفیت وصل بیان کی گئی ہے۔ بلکہ حسرت وصل اور رنجِ فراق کی مختلف حالتوں کی تصویریں بھی ان کے ہاں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ ظفرؔ کے عشق کی خواہش وصل یا ملال ہجر محض مجاز تک محدو د نہیں ہیں ۔ یہ ان کا قرینہ اظہار ہے کہ وہ مضمون کو ایک خاص اسلوبیاتی طرز میں وسعت آشنا کر دیتے ہیں۔ کہیں کہیں تو وہ صوفیانہ تجربہ بھی ہے کہ جس میں قطرے کی عشرت دریا میں فناہو جانے میں ہوتی ہے:

مصر نہیں کہ سمندر میں گھر دیا جائے

 

شریک بس مجھے لہروں میں کر دیا جائے

 

â۱۱۹۸)

 

 

 

 

پانی میں جیسے رنگ ملے اس طرح ملو

 

;تم سے مری ترنگ ملے اس طرح ملو

 

â۱۱۹۹)

X            ’’رانجھا تخت ہزارے کا‘ شعری مجموعہ صابر ظفرؔ کی ایک طویل غزل ہے۔ جس میں انھوں نے پنجاب کی لوک داستان ’’ہیررانجھا ‘‘ کو نظم کیا ہے۔ ۴۰۸ اشعار پر مشتمل یہ غزل اپنے اندر حیران کن تجربات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ’’رانجھا تخت ہزارے کا ‘‘ہیر رانجھے کی داستان کے بیانیہ اظہار کے پیرائے میں ہے۔ اور اس داستان کو اس نے جملہ واقعات کے تسلسل کے ساتھ بیان کیاہے۔ اس طویل غزل میں کرداروں کے جذبات ،احساسات اور کیفیات کے اظہار کے لیے شاعر نے جو تشبیہاتی نظام تشکیل دیا ہے اس میں لوک روایت اور داستانوں کی مخصوص فضا کا بطور خاص لحاظ رکھا ہے۔ یہاں چند تشبیہات کا ذکر ناگزیر ہے:

رہتا تھا بجھا رانجھڑا ایسے اکثر

 

7پانی ختم ہو جس طرح حقے اندر

 

;گال نرم ہیں سسلی کے سیب جیسے

 

جیبھ شعلے کی شکل میں لپکے اندر

 

9جیسے خوف سے بھاگتی بکریوں کو

 

5چیر پھاڑ دے شیرنی غصے اندر

 

;ایسے تیزی سے بھاگ کے ہیر لپکی

 

پھرتی جس طرح ہوتی ہے شکرے اندر

 

9تیر ہجر سے ایسے ہے جسم چھلنی

 

نیزے لگتے ہیں جیسے مشکیزے اندر

 

â۱۲۰۰)

.               صابر ظفرؔ کی غزلیں ان کا تازہ تخلیقی اُفق ہیں جس کے اندر اس طرز احساس کی قوسِ قزح قدرے شوخ رنگوں میں عکس پذیر ہے جوان کی مجموعی شعری فضا میں تاباں رہتی ہے ۔ خیال کی نیرنگی اور ماورائیت کا احساس ان کی غزلوں کی اساس ہے اور یہی ان کے عنوان کا جواز بھی ۔ان کا شعری سفر رواں دواں ہے۔ انکی تخلیقی کاوشوں میں قابلِ ذکر عنصر اپنی مٹی اور اس سے وابستہ ثقافتوں کو اردو کے تہذیبی بادل سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کبھی افقی سطح پر نئے سے نئے راستے تراشتے ہیں تو کبھی عمودی سطح پر جسم کی حد سے ماوراخیالات کے جمال کی جستجو کرتے ہیں۔ صابر ظفر ایک تخلیق کار کے طور پر آوارگی کی اس تہذیب سے آگاہ ہیں جو ایک خلاق ذہن کو بنے بنائے راستوں پر چلنے کی جامد فطرت کا اسیر نہیں ہونے دیتے ۔وہ اپنی ہر تصنیف شعر میں ایک نئی توڑپھوڑ کے ذریعے ایک تازہ تعمیر کا سوچتے ہیں اور یہی آرزؤے شکست ان کا کمال ہُنر ہے:

تمھاری قید سے دنیا اگر نکل آئے

 

;اسی جہاں سے جہانِ دگر نکل آئے

 

ہم اپنے سامنے دیوار درد اٹھاتے ہیں

 

اور آرزو یہی رکھتے ہیں در نکل آئے

 

شکست و ریخت تھی یا تھا کوئی کمالِ ہُنر

 

کہ در بنائے گئے یا وہ در نکل آئے

 

â۱۲۰۱)

                تہذیبی عناصر کے سلسلے میں ادبی لحاظ سے پشتو کی ادبی اصناف اور لوک داستانوں کے کرداروں میں صابر ظفرؔ کی ایک خاص کشش بھی ان کی غزلوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ادبی اصناف کا ظفرؔ نے محض ذکر ہی نہیں کیا بلکہ بعض ادب پاروں کی تخیلی لہر سے بھی استفادہ کیا ہے اور انھیں غزل کے شعر کے پیکر میں ڈھال کر ایک منظوم ترجمے کی صورت پیدا کی ہے۔ لوک داستانوں کے سلسلے میں ’’آدم خان در خانئی ‘‘،’’بہرام و گل اندام‘‘ ،’’شیر عالم مامونئی‘ ‘،’’یوسف خان شہر بانو‘‘ کے کردار اپنے رومانی اصناف کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ صابر ظفرؔ ان کے کرداروں کو مصور کرنے کے لیے یقینا ان داستانوں کی تفصیل میں گیا ہو گا جبھی تو شعر کے مختصر فریم میں ان کی تصویروں کو ڈھال لیا ہے:

شہر بانو میں گم تھا یوسف خان

               

7لوگ جب بٹ رہے تھے ذاتوں میں

               

عشق میں جس کی رباب ایسا بجانے لگا تو

 

کیا نظر آیا تھا آدم ،تجھے در خانی میں

 

â۱۲۰۲)

|               ’’گردش مرثیہ‘‘ شعری مجموعہ صابر کی ایک طویل غزل ہے۔ جو بلوچستان کے معروضی حالات کے تناظر میں کہی گئی ہے۔ اس میں بلوچوں پر طاقت کے استعمال اور اس سے پیدا شدہ صورت حال پر گریہ زاری کرتے ہوئے سر زمین بلوچستان کے جاں نثاروں پر حرف تحسین رقم کیا گیا ہے لیکن تخلیقی حوالے سے اس مجموعے کی اہمیت وہ لسانی ماحول ہے جو بلوچستان کی تہذیب و ثقافت اور مختلف لسانی اکائیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح ’’ابا سین کے کنارے‘‘ میں خیبر پختونخواہ کی مختلف زبانوں اور تہذیبی نشانات کو غزل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح ’’گردشِ مرثیہ ‘‘طویل غزل کے ذریعے صابر ظفرؔ نے غزل کے دامن کو بلوچی الفاظ سے بھرا ہے۔ ’’گردش مرثیہ‘‘ میں لسانی اشتراک کے ذریعے دامنِ غزل کی وسعت کے لیے صابر ظفرؔ نے جو کوشش کی ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

تم جو آئے مسلط اس پہ ہوئے

 

1ہم نے ہم وار جو ڈگار کیا

 

-ہوئے سارے بلوچ یک قالب

 

/وار جو بھی کیا ادار کیا

 

9سامنے رکھ کے ہم نے لاش اپنی

 

+آپ اپنے کو موتکار کیا

 

1آ گھسا جو ہماری وادی میں

 

3اس نے چن چن ہمیں ہلا رکیا

 

3رم نے وہ جا اُجاڑ نا چاہی

 

1ہم نے پیدا جہاں ہلا رکیا

 

â۱۲۰۳)

ô             صابر ظفرؔ کی غزلیات میں اندرونی خود کلامی بھی ہے اور بعض کرداروں سے مکالمہ بھی ۔جن اشعار میں مکالمہ کا رنگ پیدا ہوا ہے وہاں یہ تعین قدرے مشکل ہے کہ گفتگو کا یہ سلسلہ کس سے ہے ۔ اردو غزل میں رمز و کنایہ کی روایت کا یہ اعزاز بھی ہے کہ کسی ایک سے گفتگو کی بھی متنوع جہات متعین ہو سکتی ہیں اور صابر ظفر کی غزلوں میں مقابل کردار کی محبوب ،مرشد، خدا، رازداں یا ہمزاد کسی بھی حوالے سے تشریح و توضیح کی جا سکتی ہے۔ اس مکالمے کے دوران میں لہجہ کہیں کہیں نشاطیہ بھی ہے مگر مجموعی طورپر ایک حزن و ملال کی لے غالب ہے:

میں اس لیے تجھے اتنا قریب پاتا ہوں

 

نہیں جدائی کا کوئی بھی ثانیہ معلوم

 

اُٹھاؤ پلکیں کہ آنکھوں کی روشنی میں چلوں

 

کسی طرح ہو محبت کا راستہ معلوم

 

نہ خوش گمان ہو اتنا کہ دل کا حال تجھے

 

9ہوا ضرور مگر سرسری ہوا معلوم

 

یہی تو دکھ ہے بے موت مر رہا ہوں میں

 

نہ تو ملا نہ ہوا دل کا فیصلہ معلوم

 

â۱۲۰۴)

æ            صابر ظفرؔ کے اہم تخلیقی نشانات میں اساطیرِ کم نُما‘‘ کی نمود اسلوب کے ایک نرالے رنگ ڈھنگ کے ساتھ ہوئی ہے۔اردو غزل میں اسطور کا ظہور کچھ نئی بات نہیں ہے۔ کلاسیکی ورثے میں بھی اسطوری علامات دیکھی جا سکتی ہیں۔ برطانوی نو آبادیاتی دور میں اقبال کے ہاں بھی اس کے واضح نشانات ملتے ہیں ۔ ’’اساطیر کم نما‘‘ میں صابر ظفر نے اسطور کے استعمال کے سابقہ قرینوں سے ہٹ کر وسیع تر پیرائے میں کیا ہے ۔ یہاں اسطور کا تعلق نہ تو محض عام داستانوی فضا سے ہے نہ ہی کسی ایک تہذیبی ورثے سے بلکہ انسانی تاریخ قرن ہا قرن سے جومراحل طے کرتی آئی ہے او ر مختلف جغرافیوں میں تاریخ کے الگ الگ ادوار میں جو اسطوری تصورات رائج رہے ہیں اور انھوں نے ذہنِ انسانی کو جن زاویوں سے متاثر کیا، نیز مختلف تہذیبوں میں جو رومانوی کردار محبت کی مہک بکھیرتے رہے ہیں ،صابر ظفر نے ان سب تصورات اور کرداروں سے استفادہ کرتے ہوئے اردو غزل کو ایک الگ طورسے ثروت مند کیا ہے۔ ’’اساطیر کم نما ‘‘۴۳۵ اشعار پر مشتمل ایک غیر مردف طویل غزل ہے۔ یہ غزل در غزل کی صورت میں ۴۶ غزلہ بھی ہے۔ اس کی ابتدا ایک خاص تصور خدا سے ہوتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی کہ خدا بھی اسطور کا ایک حوالہ ہے اور اس سے وابسطہ دنیا بھر کے بہت سے تصورات ایسے ہیں جن کی بنیاد بھی بعض اسطوری میلانات ہیں اور جدید عہد کے انسان نے ردِ خدا کے لیے ان افسانوں کی باتوں کو نہ صرف جھٹلایا بلکہ ان کا ٹھٹھہ بھی اڑایا۔ صابر ظفرؔ نے ابتدا میں خدا کے حوالے سے جواشعار کہے ہیں ان میں جدید عہد کے مذکورہ رجحان کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ لیکن ان کی توضیح کو محض اس دائرے میں محدود بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تُجھے بھی سمجھوں اساطیر کم نُما کا فسوں

 

کہ تو نہیں ہے تو میں کیوں تجھے تلاش کروں

 

پھر اس کے بعد مسلسل رہی ہے خاموشی

 

بس ایک بار سُنی تھی صدائے کن فیکون

 

â۱۲۰۵)

                جن علاقوں کی تہذیبوں کے اسطوری تصورات یا کرداروں کو ’’اساطیر کم نما‘‘ میں نظم کیا گیا ہے۔ ان میں مصر،عراق، یونان، ہندوستان،چین اور عرب و عجم کے خطے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی علاقائی تہذیبوں کے تصورات پر بھی توجہ کی گئی ہے۔ صابر ظفرؔ نے مذکورہ تہذیبوں کے اسطوری تصورات کو ایسے پیرائے میں نظم کیا ہے کہ قاری ان کے بارے میں آگاہ بھی ہوتا ہے اور شاعر کا تخلیقی وجدان بھی سامنے آتا ہے:

مری نظر میں ہے باغیچہ سلیمانی

 

میں جانوں رمزِ بہاراں کہ رنگِ راز دروں

 

â۱۲۰۶)

 

 

 

 

میں شاہ وقت کے تابوت پر دعائیں لکھوں

 

تو عاقبت کے لیے اس کو نذر خاک کروں

 

â۱۲۰۷)

ž              صابر ظفر نے اساطیر کم نما‘‘ میں قدیم تہذیبی ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے شعری ہنر کو بھی اس لیے آزمایا ہے اور اپنی چشم تخلیق کو اس توجہ کے پیش نظر سونے نہیں دیا کہ یہ تہذیبیں بھی جاگتی اور جگمگاتی رہیں:

مرے وجود میں جاگی ہیں کہنہ تہذیبیں

 

یہ سو نہ جائیں کہیں اس لیے میں جاگتا ہوں

 

â۱۲۰۸)

 

۱۱۸۳۔ڈاکٹر وزیر آغا(سرورق)،’’ابتدا‘‘،از صابر ظفر،لاہور ،التحریر ۱۹۷۴ء

۱۱۸۴۔سحر انصاری (سرورق) ،’’ابتدا‘‘

۱۱۸۵۔صابر ظفر،’’ابتدا‘‘،لاہور،التحریر، ۱۹۷۴ء،ص:۱۸

۱۱۸۶۔ایضاً،ص:۳۵

۱۱۸۷۔صابر ظفر،’’بارہ دری میں شام‘‘،کراچی ،دانیال ،۱۹۹۶ء ،ص:۳۷

۱۱۸۸۔ایضاً،ص:۴۸

۱۱۸۹۔ایضاً،ص:۵۶

۱۱۹۰۔صابر ظفر،’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘‘،کراچی ، دانیال،۱۹۹۹ء ،ص:۱۸

۱۱۹۱۔       ایضاً،ص:۲۹

۱۱۹۲۔صابر ظفر، ’’زنداں میں زندگی امر ہے‘‘،ص:۳۸

۱۱۹۳۔صابر ظفر ،’’جمال ماورائے جسم و جاں ‘‘،کراچی ،دانیال ، ۲۰۱۳ء ، ص:۷۵

۱۱۹۴۔صابر ظفر،’’سرِ بازار می رقصم‘‘،کراچی ،دانیال،۲۰۱۲ء ،ص:۲۸

۱۱۹۵۔صابر ظفر ،’’غزل نے کہا‘‘،کراچی ،دانیال ،۲۰۱۳ء ،ص:۸۷

۱۱۹۶۔ایضاً،ص:۹۴

۱۱۹۷۔صابر ظفر،’’خامو ش بدن کی خود کلامی‘‘،کراچی ،دانیال ، ۲۰۰۷ء ،ص:۳۸

۱۱۹۸۔ایضاً،ص:۴۵

۱۱۹۹۔ایضاً،ص:۵۹

۱۲۰۰۔صابر ظفر، ’’رانجھا تخت ہزارے کا‘‘،کراچی ،دانیا ل، ۲۰۱۳ء ، ص:۵۸

۱۲۰۱۔صابر ظفر،’’آوارگی کے پر کھلے‘‘،کراچی ،دانیال ،۲۰۱۴ء ،ص:۷۲

۱۲۰۲۔صابر ظفر،’’اباسین کے کنارے ‘‘،کراچی ،دانیال ،۲۰۱۳ء ، ص:۳۸

۱۲۰۳۔صابر ظفر ،’’گردشِ مرثیہ‘‘ ،کراچی ،دانیال ،۲۰۱۳ء ،ص:۸۵

۱۲۰۴۔صابر ظفر، ’’نامعلوم‘‘،کراچی ،دانیال ،۲۰۱۳ء ،ص:۵۲

۱۲۰۵۔صابر ظفر،’’اساطیرِ کم نما‘‘،کراچی ،دانیال ،۲۰۱۴ء ،ص:۸۱

۱۲۰۶۔ایضاً،ص:۹۱

۱۲۰۷۔ایضاً،ص:۹۸

۱۲۰۸۔ایضاً،ص:۲۴

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...