Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > عطا اﷲ عطاؔ قاضی

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

عطا اﷲ عطاؔ قاضی
ARI Id

1688382102443_56116147

Access

Open/Free Access

Pages

311

                عطا اﷲ عطاؔ قاضی (۱۹۳۴ء پ) محلہ ٹلہ پسرور میں پیدا ہوئے میٹرک کے بعد منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ آرٹس میں ڈپلومہ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے کیا۔ شہر فہمی اور شعر گوئی کے علاوہ قاضی عطا نثر نگاری ، مصوری ،فوٹو گرافی اور خوش نویسی کے فن میں بھی ماہر ہیں۔(۱۲۰۹)

                آپ کے مزاج میں ادبی چاشنی رچی بسی ہے۔آپ کے شعری مجموعے ’’فراز سخن‘‘، (سورہ بقرہ کا منظوم ترجمہ) ،’’اعزازِ سخن‘‘،( توحیدی آیات کا منظوم ترجمہ)’’اعتزاز سخن‘‘،( سورہ نسا ،مائدہ کااورسورہ توبہ کا منظوم ترجمہ)’’رازِ سخن‘‘ ، (پارہ عم کا منظوم ترجمہ)’’امتیاز سخن‘‘( سورہ مائدہ کا منظوم ترجمہ) ناز سخن (حمد ونعت ،قرآنی دعائیں ،منظوم ترجمہ)اور ’’اشکوں کی لو ‘‘(غزلیہ مجموعہ ) ادبی سبھا پسرور سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان شعری مجموعوں کے علاوہ قاضی عطا کا سب سے بڑا کارنامہ ’’مفہوم القرآن ‘‘کے نام سے قرآن مجید کا مکمل منظوم ترجمہ ہے۔

                 یہ ترجمہ تین ہزار صفحات کی ضخامت اور تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اب تک ’’مفہوم القرآن ‘ ‘ کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ قاضی عطاؔ کا قلم کسی ایک موضوع الہیات کے موضوع ہی کا محتاج نہیں رہا ۔ اس کا خامہ زرفشاں زندگی کے ہر پہلو پر رواں رہا ہے۔ الہیات کے موضوع کو ملاحظہ کریں کس خوبصورت انداز سے اس کا اظہار کرتے ہیں:

لاکھ پردوں میں بھی ہے بے پردہ

 

1کل ہے اجزا میں آشکارا ہے

 

â۱۲۱۰)

 

 

 

 

ہر آئینہ جزو میں جلوہ نما ہے کل

 

پنہاں ہے گو نظر سے مگر وہ کہاں نہیں

 

â۱۲۱۱)

d             قاضی عطاؔ کے ہاں خدائے بزرگ و برتر کی حمدو ثنا کا موضوع بھی ملتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں بڑے سادہ پیرائے میں لوح و قلم بودو نا بود اور ہست و عدم کے مالک کی ستائش کرتے نظر آتے ہیں:

مجھ سے توصیف ہو کیسے تیری

 

/لوح تیری ہے قلم ہے تیرا

 

3بودو نا بود ہیں سارے تیرے

 

/ہست تیرا ہے عدم ہے تیرا

 

â۱۲۱۲)

                عرفان و آگہی او ر ادراک و شعور کا مضمون ان کے کلام میں بہت شرح و بسط سے جا بجا نظر آتا ہے۔ ان کی نظم اور غزل کے بیشتر اشعار میں عشق حقیقی کا تصور واضح طورپر ملتا ہے اورتیقّن کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ قاضی عطا اﷲ اپنے ذوق جبہ سائی کی عطا کردہ منازل ِ سلوک طے کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

پھول عرفان کا ادراک میں جب کھلتا ہے

 

شکل انسان میں ہر سمت خدا ملتا ہے

 

â۱۲۱۳)

 

 

 

 

;یہ آگہی و عرفاں نہیں ہوتے یوں

 

سر اپنا جھکا کے پی من اپنا جگا کے پی

 

â۱۲۱۴)

 

 

 

 

قلب و نظر کا نور خدا ہی کا نور ہے

 

بیٹھا ہوں ہر مقام پر اپنے خدا کے ساتھ

 

â۱۲۱۵)

 

 

 

 

پیکرِ فقر و غنا ،مست قلندر ہے عطاؔ

 

اُس کے دم دم میں نہیں کچھ بھی دما دم کے سوا

 

â۱۲۱۶)

 

 

 

 

کبھی کبھی انھی اشکوں کی لو سے رات گئے

 

دیارِ شب کو بھی بخشی ہے روشنی میں نے

 

â۱۲۱۷)

`              قاضی عطاؔ کی شاعری میں عالمگیر شاعری کا موضوع عظمت انسان بھی جا بجا ملتا ہے۔ عظمت انسان کے حوالے سے عطا کے اشعا ر ملاحظہ ہوں جن میں انسانیت کے مقام و مرتبہ کی عکاسی کی گئی ہے:

وہی انسان عظیم ہے جس کو

 

3دل میں انسانیت کی چاہت ہے

 

â۱۲۱۸)

 

 

 

 

3لفظ نفرت کا نہ ہوتا ایجاد

 

9’’پیار‘ انسان کا ایمان ہوتا

 

â۱۲۱۹)

 

 

 

 

قدو قامت نہیں ہے عظمت انسان کی دلیل

 

شخصیت حسنِ عمل ہی سے نکھرتی ہے عطاؔ

 

â۱۲۲۰)

¬             عظمتِ انسانی اور انسان کا کردار و عمل لازم و ملزوم ہیں اس حوالے سے قاضی عطاؔکہتے ہیں:

محض گفتار پہ قرباں نہیں کرتے کردار

 

ہم نے کردار کو گفتار بنا رکھا ہے

 

â۱۲۲۱)

 

 

 

 

پہلے کردار کے سورج کو تودے ذوقِ عمل

 

پھر یقین جان، یہ دنیا ترا حاصل ہو گی

 (۱۲۲۲)

                 جیسے عظمتِ انسان کی کردار و عمل سے پیوستگی ہے۔ ویسے ہی کردار و عمل کے ساتھ عزم و حوصلہ بھی لازم و ملزوم ہیں۔ اس حوالے سے قاضی عطا رقم طراز ہیں:

جن کو دنیا میں بڑے نام سے جینا ہو گا

 

ان کے طوفانوں میں موجوں کا سفینہ ہو گا

 

â۱۲۲۳)

 

 

 

 

جو چاہتے ہو ہما لائے زندگی سر ہو

 

تو دل سے موت کا زائل ہر اس کر لینا

 

â۱۲۲۴)

 

 

 

 

دیا ہے دل مجھے فطر ت نے شیر نر جیسا

 

دیارِ وحشت و غم میں کبھی ڈراہی نہیں

 

â۱۲۲۵)

0             قاضی عطاؔ چاہتے ہیں کہ انسان کے کردار و عمل میں محبت، اخلاص اور اخلاق جیسی خوبیاں موجود ہوں- ان کے نزدیک اگر یہ خوبیاں انسانی شخصیت میں موجود نہیں تو انسانی شخصیت مکمل نہیں۔ انسان ہونے کے ناطے کردارو عمل میں محبت او راخلاق و اخلاص کی روح پھونکتے ہوئے ان کا اسلوب اظہار ملاحظہ ہو:

آپ اخلاص کا کچھ ایسا تر شح ہے عطاؔ

 

جس کی ٹھنڈک تپش رنج کو کھا جاتی ہے

 

â۱۲۲۶)

 

 

 

 

دے ہمہ گیر محبت کا زمانے کو ثبوت

 

رہنما مانتے ہیں انفق و انفاس تمھیں

 

â۱۲۲۷)

 

 

 

 

حسنِ اخلاق ہر اِک شے سے روا رکھا ہے

 

یوں ہی دنیائے محبت کو سجا رکھا ہے

 

â۱۲۲۸)

`              قاضی عطا ؔکے قلم نے مخصوص موضوعات پر ہی قلمرانی نہیں کی بلکہ کائنات کے بہت سے موضوعات کا عمیق نظر سے مطالعہ کر کے انھیں شعری پیراہن عطا کیا ہے۔ انسان پیدائش سے موت تک جس حلقہ کار یعنی دنیا میں محولہ بالا موضوعات و عنوانات پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارتا ہے اس دنیا ئے دوں کا تذکرہ ان اشعار میں ملاحظہ ہو:

اصل بستی تو ہے بس شہرِ خموشاں ہی عطاؔق

 

یہ تو دنیا ہے فقط ایک سرا کی صورت

 

â۱۲۲۹)

 

 

 

 

+بے کنارا ہے سراب دنیا

 

/راہرو تھک گئے چلتے چلتے

 

â۱۲۳۰)

Ž             قاضی عطاؔ کی شاعری میں حقیقت پسندی کے عناصر بھی جا بجا ملتے ہیں ۔وہ دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہیں تو انسانی زندگی کا راز منکشف کرتے ہوئے مخلوقِ خدا کو اس کی اصلیت سے اپنے اشعار میں یوں آگاہ کرتے ہیں :

زندگی خواب ہے اس خواب کی تعبیر نہیں

 

اِک تصور ہے کہ جس کی کوئی تصویر نہیں

 

â۱۲۳۱)

 

 

 

 

3زندگی ہے ازل ،ابد کے میاں

 

-راستہ ایک آنے جانے کا

 

â۱۲۳۲)

                دنیا اور زندگی کے بعد لا فانی موت کے مضمون کو جب باندھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ کوزے میں سمندر کو گرا رہے ہیں ۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

سب عجزو کبر چاٹ گئی دیمکِ زمیں

 

;اس عالمِ فنا نے گوارہ کسے کیا

 

تھے نقش سطحِ آب پر عمررواں کے نقش

 

موجِ فنا نے چاہا جسے بھی ،بہا لیا

 (۱۲۳۳)

 

 

 

 

موت لا فانی ہے تخلیق دو عالم فانی

 

باغِ ہستی کی ہر چیز ہے آنی جانی

 

â۱۲۳۴)

              قاضی عطا ؔکے کلام میں زندگی کی اقدار کا اتنا پھیلاؤ ہے کہ ایک موضوع کے ساتھ دوسرے موضوع کے قلابے انتہائی خوبصورتی سے ملتے جلتے ہیں۔ اس دنیا ،زندگی اور موت پر جس دستِ قدرت کا کنٹرول و قبضہ ہے اور جس نے ہر ہر مخلوق کا مقدر تحریر کر رکھا ہے اور اس کی تقدیر کا پروانہ اس کے گلے میں ڈال رکھا ہے۔ اس کا اظہار قاضی عطا اس طرح کرتے ہیں:

تدبیر کی سوزن گو سیتی رہے اک مدت

 

کب بخت کے پنجے کا پھاڑا کوئی سیتا ہے

 

â۱۲۳۵)

 

 

 

 

تدبیر مقید ہے تقدیر کے زنداں میں

 

ممکن نہیں سوچوں سے مقدور بدل جائے

 

â۱۲۳۶)

 

 

 

 

عقل لاریب ہے تحسین کے قابل واﷲ

 

دستِ تدبیر مگر پنجہ تقدیر نہیں

 

â۱۲۳۷)

Ž             خدائے بزرگ و برتر نے قاضی عطاؔ کو ہمہ جہت احساسات کی دولت سے نواز ا ہے۔ وہ نازک سے نازک اور لطیف سے لطیف مضمون تحریر کرتے ہوئے اپنی خود داری اورا نا کا دامن چھوڑتے نظرنہیں آتے۔ اس حوالے سے کہتے ہیں:

آبرو مند انا اپنا اثاثہ ہے عطاؔ

 

اور سوا اس کے کوئی دو لت و جاگیر نہیں

 

â۱۲۳۸)

 

 

 

 

عمر بھر اپنی انا نے نہ سہارا ڈھونڈا

 

گو عطا ؔہم ہدفِ خنجر ادبار رہے

 

â۱۲۳۹)

Π             زمانہ کی حالت دیکھ کر روحانی طورپر متاثر ہوتے ہیں۔ تو دل میں دردو کرب سے تلملاتے ہوئے پکار اُٹھتے ہیں:

طلوع صبح کی کوئی خبر نہیں آتی

 

9سحر مقدر شب میں نظر نہیں آتی

 

â۱۲۴۰)

 

 

 

 

لٹکی ہوئی ہیں سولیاں حالات کی عطاؔ

 

گلشن ہے یا کہ کوچۂ دارورسن ہے دوست

 

â۱۲۴۱)

|               اور اس یاسیت و جمود کے ساتھ استحصال، جبر اور استبداد کی تصویر کی عکاسی کرتے ہوئے دلوں کو رُلا دینے والے اشعار ان کے لطیف ترین احساسات کا جوہر اڑاتے ہوئے صفحہ قرطاس پر یوں رقم ہونے لگتے ہیں:

سب کچھ نگل گیا ہے امارت کا اژدھا

 

غربت نے سانس عمر کے کتنے گھٹا دیے

 

کل شب امیرِ شہر نے کوٹھی کے واسطے

 

9سارے نقوش شہر خموشاں مٹا دیے

 

â۱۲۴۲)

                کائناتی موضوعات کو خوبصورت ادبی و شعری لباس پہناتے ہوئے قاضی عطا ؔکے قلم نے وجودِ کائنات کے اس فطری حُسن کو بھی فراموش نہیں کیا۔ جس کی رعنائیاں اور زیبائیاں ہی ہر پیکرِ جاں میں جا بجا رنگینیاں لاتی ہیں۔ ان کے اشعار میں حسنِ فطرت کے ترجمان کو ہ ودمن ،نباتات وجمادات ، بحر و بر کے ساتھ ساتھ جاندار مخلوقات بشمول حیوانات و انسان ،سب کی جلوہ گر ی نمایاں ہے۔ حسنِ فطرت کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

پلکوں پر کائنات کی کاجل کی فشاں

 

چلتے ہیں طور سرمئی بادل کے ساتھ ساتھ

 

â۱۲۴۳)

 

 

 

 

پھول پر اوس کے قطروں کی مرصع کاری

 

مجھ کو شبنم کے ستاروں کا محل لگتا ہے

 

â۱۲۴۴)

 

 

 

 

پھولوں کے کٹوروں میں شفاف مئے شبنم

 

خوشبوؤں کے آنگن میں آ، دستِ صبا سے پی

 

â۱۲۴۵)

Ê             حسن فطرت کے ساتھ ساتھ قاضی عطا کے ہاں حسن و شباب کا موضوع بھی ملتا ہے۔وہ اپنی شاعری میں حُسن پرست تو نظر نہیں آتے لیکن ان کے ہاں جا بجا حسنِ انسانی کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ موضوع شاید روایت کی پاسداری میں پیش کیا گیا ہے:

ریشمی زُلفیں صرف ہونٹ بلوری آنکھیں

 

روئے مہتاب سے آنچل کو ہٹا لینا پھر

 

â۱۲۴۶)

 

 

 

 

مر مریں جسم پہ کھلتے ہوئے عارض کا گلاب

 

ایک چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ پایا

 (۱۲۴۷)

 

 

 

 

دیکھنا اس کا ،خرام اس کا ،جوانی اس کی

 

ہر ادا شوخ کے اک حشر اُٹھا لائی ہے

 (۱۲۴۸)

 

 

 

 

کیا جانے کتنے عشق کے دیواں رقم ہوئے

 

سر سے سر کتے ریشمی آنچل کے ساتھ ساتھ

 (۱۲۴۹)

l               قاضی عطاؔ کی شاعری عجز، فقر اور فہم پر مبنی دکھائی دیتی ہے ۔جس میں غرور کا شمہ بھر بھی شائبہ نہیں اور جو تکبر سے نفرت کا پیغام دیتی ہے۔ دیکھئے فقر کی عظمت قاضی عطاؔ کے ان اشعار میں:

فقر والوں کا تو سچ مچ

 

/کشتیاں پار لگا دیتا ہے

 

â۱۲۵۰)

 

پیکر فقر و غنا مست قلندر ہے عطاؔ

 

ا س کے دم دم میں نہیں کچھ بھی دما دم کے سوا

 

â۱۲۵۱)

                قاضی عطا ؔکی شاعری مضامین عشق وعاشقی کے عامیانہ محبت کے مروجہ اظہار سے مبرّا ہے۔ وہ عشق حقیقی کے قائل ہیں اور اسی طرف ہی مائل ہیں۔ تاہم وہ سماجی شعور بھی رکھتے ہیں۔وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بالکل بے خبر بھی نہیں وہ معاشی بد صورتیوں اور ماحول کے بے رحمانہ جبر کی عکاسی بھی اپنے اشعار میں بخوبی کرتے ہیں:

نام انسان پہ اے عطاؔ کتنا

 

/خونِ انسانیت بہا ہو گا

 

â۱۲۵۲)

 

 

 

 

9فصلِ گل میں بھی خزاں کا موسم

 

7یہ اُجڑ بن کا سماں ہے کب تک

 (۱۲۵۳)

 

 

 

 

5گر رہی ہیں کہیں پہ دیواریں

 

5بن رہے ہیں کہیں پہ تاج محل

 (۱۲۵۴)

 

 

 

 

ہر کاروانِ زیست کو دھوکا دیا گیا

 

ہر راہبر نے لوٹ لیا چاہ چاہ میں

 (۱۲۵۵)

 

 

 

 

دولتِ درد کا بازارِ حصص ڈوب گیا

 

اب کسی سکہ اخلاص کی توقیر نہیں

 

â۱۲۵۶)

p             قاضی عطاؔ اخوت و محبت کا شاعر ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اتنے مشکل اور فکری مضامین اتنے آسان پیرائے میں لکھ دینا، غنائی نظام میں مربوط کر کے انھیں لا فانی جذبوں کی تصویر بنا دینا پھر جگہ جگہ محبت پھولوں کی پھلواڑی اگا دینا انھی کا حصہ ہے۔ قاضی عظا ؔاخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کا شاعر محسوس ہوتا ہے۔ اس نے زندگی بھر دکھی دلوں کی ترجمانی کی ہے۔ ٹوٹے رشتوں کو جوڑنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ نفرت کی دیواریں گرائی ہیں:

لفظ نفرت کا نہ ہوتا ایجاد

 

1پیار انسان کا ایماں ہوتا

 

â۱۲۵۷)

 

آنکھوں کے دریچے ہوں کہ دروازے ہوں دل کے

 

مخلوقِ خدا کے لیے وا کرتا رہوں گا

 

â۱۲۵۸)

ö             اچھی اور بڑی شاعری ہمیشہ مضافات کے حصے میں آئی ہے۔ ہمیشہ محروم طبقہ نے اسے بڑھا وادیا ہے۔ سیالکوٹ اقبال ،فیض اور صابر ظفرؔ کا شہر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے دلی اور لکھنو کے دبستان بھی ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ زمین نہیں سر زمین ہے اور یہاں سے پھوٹنے والی روشنی پورے ملک کو منور کرتی چلی گئی ہے۔ یہ مردم خیز خطہ زندگی کے ہر میدان میں مقدم رہا ہے۔ قاضی عطا ؔکی مٹی کا خمیر بھی یہیں سے اُٹھا ہے۔ اس کے ننھیال فارسی کے عظیم شاعر دل محمد دلشاد ،حکمت و طبابت کے ارسطو حکیم خادم علی او ر معرفت و آگہی کے شناوران مولانا محمد حسین سیالکوٹی ،مولانا نور احمد امر تسری ،مولا نا ظفر علی ،خلیفہ اول پیر جماعت علی شاہ ثانی سے بھرا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں سچائیوں کے باب کھلتے ہیں۔ ان کی شاعری کا ایک بڑا موضوع سخن انسان ، کائنات اور ذات سے کائنات کا سفر کچھ یوں ہے:

نبضِ حیات چُھوٹ رہی ہے خیال رکھ

 

تار نفس کی ٹوٹ رہی ہے خیال رکھ

 

جس شاخِ سبز پر تھا ترا نازک آشیاں

 

وہ خشک ہو کے ٹوٹ رہی ہے خیال رکھ

 

â۱۲۵۹)

 

 

 

 

جب کبھی بھی منزل مقصود پر جانا پڑا

 

راستے کے پتھرو ں کو خون سے نہلانا پڑا

 

â۱۲۶۰)

 

 

 

 

اُتر کر موت کی گہرائیوں میں ا ے مرے ہمدم

 

بطرحِ نو حیاتِ جاوداں لیتے ہوئے آؤ

 

â۱۲۶۱)

                بنیادی طورپر قاضی عطاؔ شاعر ہیں اور شاعری کے علاوہ دیگر فنون لطیفہ یعنی خطاطی او ر آرٹ میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے بعض اشعار میں بھی اپنے خیالات و احساسات کے کامیاب صورت گر نظر آتے ہیں۔ یہ تصویر کشی بلا شبہ انھیں کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

پھول پر شبنم کا قطرہ ،آنکھ میں آنسو فقط

 

آنکھ سے ٹپکا تو دُرِ شاہوار ہوتا گیا

 

â۱۲۶۲)

 

 

 

 

چاند اپنی چاندنی اور شوخ نشہ شباب

 

رات بھر عشاق کی محفل پہ برساتے رہے

 

â۱۲۶۳)

 

 

 

 

ادھر آؤ ،ذرا جھانکو تصور میں اسے دیکھو

 

کبھی لالہ ،کبھی چمپا ،کبھی موتیا ٹھہرا

 

â۱۲۶۴)

                قاضی عطاؔ کی شاعری جہاں قدیم و جدید طرزِ فکر کا حسین امتزاج نظر آتی ہے۔ وہاں ان کے نئے نئے قافیے اورردیف بھی ذہن و دل کو مسخر کرتے ہیں:

زندگی ایک کشمکش ہل چل……

 

3لمحوں میں اضطراب ہے پل پل

 

â۱۲۶۵)

 

تا ابد جلتی رہے گی شمع بے روغن مری

 

روشنی کرتی ہے مہر وماہ کو روشن مری

 

â۱۲۶۶)

3مدت اِک لگتی ہے اپنانے تک

 

7آنکھ سے دل میں اُتر آنے تک

 

â۱۲۶۷)

š              تکرار لفظی بھی ایک فن ہے اور اساتذہ نے اس فن کو بڑی چابکدستی سے برتا ہے۔ اور حسنِ کلام میں اضافہ کے ساتھ ساتھ غنائی نظام میں مزید رعنائی پیدا کی ہے۔ قاضی عطا کے ہاں بھی یہ فن جا بجا اُبھرتا اور نکھرتا ہے:

وہ جیت گئے ہم سے عطا ؔجیت گئے ہیں

 

ہم ہار گئے ہار گئے ہار گئے ہیں

 

â۱۲۶۸)

 

 

 

 

دشت بھی تھا دشت کیسا شوق بھی کیا شوق تھا

 

عمر بھر دامان وسعت دونوں پھیلاتے رہے

 

â۱۲۶۹)

 

 

 

 

_نہ تم ٹھہرے نہ ہم ٹھہرے نہ یہ ٹھہرا نہ وہ ٹھہرا

 

وہی ٹھہرا یہاں پر ہے جو ہے سب کا خدا ٹھہرا

 

â۱۲۷۰)

                قاضی عطاؔ نے نظمیں بھی لکھی ہیں،سلام ،منقبت ،رباعی اور نعت بھی کہی ہے ،قومی ترانے اور وطن کی محبت کے گیت بھی لکھے ہیں لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے اور غزل بھی روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ قافیے ردیف سے سجی سجائی مرصع غزل، رواں دواں، سلیس اور عام فہم انداز کی غزل بہت ساری شعری مثالیں بطور حوالہ لکھی جا سکتی ہیں:

کورِ چشمی میں عجب دیدہ بینا پایا

 

جس کو نا بینا تھے سمجھے اسے بینا پایا

 

â۱۶۷۱)

 

 

 

 

عمر بھر مہرو محبت کے طلبگار رہے

 

ہم خراباتِ مروت کے قدح خوار رہے

 

â۱۲۷۲)

 

 

 

 

اک قطرہ غلیظ تھا اور تار ہو گیا

 

کون و مکاں میں حسن کا شہکار ہو گیا

 

â۱۲۷۳)

                عوام الناس کے ساتھ روزمرہ بول چال اور گفتگو کا ذکر آتا ہے۔ قاضی عطاؔ اس بول چال کے انداز کو پرسوز ،دردمند اور دلگداز الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ روزمرہ بول چال کے انداز میں انھوں نے بڑے ہلکے پھلکے پیرائے میں اشعار کہے ہیں۔ جس سے قارئین لطف اندوز بھی ہوتے ہیں:

تول کر رکھنا ہر سمت قدم کو اپنے

 

بول میں عسلِ مُصفیٰ کی حلاوت رکھنا

 

â۱۲۷۴)

 

 

 

 

شبنم کی سی ٹھنڈک ہے مرے طرزِ سخن میں

 

مہتاب کی کرنوں سے اُڑاتے ہیں یہ جوہر

 

â۱۲۷۵)

 

 

 

 

آئیں گے ،آئیں گے ، ہم آئیں گے

 

/آپ فرمائیے! وہیں ہوں گے

 

â۱۲۷۶)

 

 

 

 

5آئیے ناں ، جانِ من فرمائیے

 

7حاضرِ خدمت ہے جو کچھ پاس ہے

 

â۱۲۷۷)

 

 

 

 

 

۱۲۰۹۔قاضی عطا اﷲ ،’’شعرائے پسرور‘‘،ص:۲۸۸،۲۸۹

۱۲۱۰۔قاضی عطا اﷲ ،’’اشکوں کی لو‘‘،پسرور ،ادبی سبھا،۲۰۱۰ء ،ص:۱۵

۱۲۱۱۔      ایضاً،ص:۶۵

۱۲۱۲۔ایضاً،ص:۷۱

۱۲۱۳۔ایضاً،ص:۷۲

۱۲۱۴۔ایضاً،ص:۸۴

۱۲۱۵۔ایضاً،ص:۳۴

۱۲۱۶۔ایضاً،ص:۴۲

۱۲۱۷۔ایضاً،ص:۹۴

۱۲۱۸۔ایضاً،ص:۷۸

۱۲۱۹۔ایضاً،ص:۳۵

۱۲۲۰۔ایضاً،ص:۳۹

۱۲۲۱۔ایضاً،ص:۴۰

۱۲۲۲۔ایضاً،ص:۲۰۱

۱۲۲۳۔ایضاً،ص:۲۰۸

۱۲۲۴۔ایضاً،ص:۲۱۸

۱۲۲۵۔ایضاً،ص:۲۱۵

۱۲۲۶۔ایضاً،ص:۲۵۰

۱۲۲۷۔ایضاً،ص:۲۷۱

۱۲۲۸۔ایضاً،ص:۲۸۴

۱۲۲۹۔ایضاً،ص:۲۳۴

۱۲۳۰۔ایضاً،ص:۲۲۴

۱۲۳۱۔ایضاً،ص:۲۲۸

۱۲۳۲۔ایضاً،ص:۲۱۱

۱۲۳۳۔ایضاً،ص:۳۱۲

۱۲۳۴۔ایضاً،ص:۳۱۸

۱۲۳۵۔ایضاً،ص:۳۱۹

۱۲۳۶۔ایضاً،ص:۳۲۵

۱۲۳۷۔ایضاً،ص:۳۳۱

۱۲۳۸۔ایضاً،ص:۳۱۵

۱۲۳۹۔ایضاً،ص:۳۰۹

۱۲۴۰۔ایضاً،ص:۳۰۲

۱۲۴۱۔ایضاً،ص:۳۰۰

۱۲۴۲۔ایضاً،ص:۶۰

۱۲۴۳۔ایضاً،ص:۲۷۱

۱۲۴۴۔ایضاً،ص:۲۸۲

۱۲۴۵۔ایضاً،ص:۲۹۰

۱۲۴۶۔ایضاً،ص:۳۴۱

۱۲۴۷۔ایضاً،ص:۳۸۴

۱۲۴۸۔ایضاً،ص:۳۶۲

۱۲۴۹۔ایضاً،ص:۳۶۷

۱۲۵۰۔ایضاً،ص:۳۶۰

۱۲۵۱۔ایضاً،ص:۳۶۹

۱۲۵۲۔ایضاً،ص:۵۴

۱۲۵۳۔ایضاً،ص:۵۸

۱۲۵۴۔ایضاً،ص:۹۱

۱۲۵۵۔ایضاً،ص:۹۲

۱۲۵۶۔ایضاً،ص:۴۱۱

۱۲۵۷۔ایضاً،ص:۴۰۱

۱۲۵۸۔ایضاً،ص:۴۰۸

۱۲۵۹۔ایضاً،ص:۴۰۵

۱۲۶۰۔ایضاً،ص:۴۰۰

۱۲۶۱۔ایضاً،ص:۴۲۴

۱۲۶۲۔ایضاً،ص:۴۳۷

۱۲۶۳۔ایضاً،ص:۴۵۱

۱۲۶۴۔ایضاً،ص:۸۸

۱۲۶۵۔ایضاً،ص:۸۹

۱۲۶۶۔ایضاً،ص:۹۸

۱۲۶۷۔ایضاً،ص:۴۷

۱۲۶۸۔ایضاً،ص:۳۱۳

۱۲۶۹۔ایضاً،ص:۳۵۲

۱۲۷۰۔ایضاً،ص:۲۴۲

۱۲۷۱۔ایضاً،ص:۴۵۱

۱۲۷۲۔ایضاً،ص:۴۶۱

۱۲۷۳۔ایضاً،ص:۴۶۷

۱۲۷۴۔ایضاً،ص:     ۴۸۱

۱۲۷۵۔ایضاً،ص:۵۶

۱۲۷۶۔ایضاً،ص:۷۸

۱۲۷۷۔ایضاً،ص:۴۲۱

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...