Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > باب سوم : خطہء سیالکوٹ نثری ادب

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

باب سوم : خطہء سیالکوٹ نثری ادب
ARI Id

1688382102443_56116148

Access

Open/Free Access

مولوی فیروز الدین ڈسکوی

مولوی فیروز الدین ڈسکوی(۱۸۶۴ء۔۱۹۰۷ء) کی شاعری کے ساتھ ساتھ نثری ادب میں بھی نمایاں خدمات ہیں۔نثر میں وہ بہترین سوانح نگاروں میں شامل ہیں۔ سوانح نگاری کی صنف باقی اصنافِ نثر کے مقابلے میں اپنے ماحول اور اس کے رحجانات کی عکاسی زیادہ بہتر انداز میں کرتی ہے۔ اُردو میں سوانح نگاری کا آغاز عہد سر سید سے ہوتا ہے۔ حالی کی ’’حیاتِ جاوید ‘‘ ،’’یادگارِ غالب‘‘ شبلی کی ’’سیرت النبیؐ ‘‘ اور ’’سیرت النعمان‘‘ میں سوانح نگاری کے قائم کردہ معیار کی پیروی ایک عرصے تک کی جاتی رہی۔ سرسید کا دور مذہبی مناظر ے اور بحث و مباحثے کا دور ہے لہٰذا اس دور کی سوانح عمریاں اپنے عہدکی عکاس ہیں۔
اس دور کے مشہور سوانح نگاروں میں : مرزا حیرت دہلوی، احمد حسن خان، عبدالحلیم شرر، منشی محمد الدین فوق، مولوی احمد دین ،احمد حسین الہٰ آباد ی ، مولوی ذکاء اﷲ ، سراجدین احمد ،نذیر احمد ،قاضی سلیمان ،عبدالرزاق کانپوری اور مولوی فیروز الدین ڈسکوی اہم ہیں۔
فضائل اسلام فی ذکر خیر الانام المعروف سیرت النبیؐ یا تاریخ نبویؐ مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی پہلی باقاعدہ نثری تالیف ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مفید عام پریس لاہور سے ۱۸۸۶ء میں شائع ہوا اور’’ نماز اور اس کی حقیقت‘‘ مولوی صاحب موصوف کی دوسری نثری تالیف ہے ۔یہ کتاب منشی فیض علی نے پنجاب پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۰ ء میں شائع کی۔ ’’تفسیر فیروزی پارہ اول‘‘ مولوی صاحب کی تیسری تصنیف ہے۔ یہ کتاب ۱۸۹۰ء میں سیالکوٹ مفید عام پریس سے شائع ہوئی۔ ’’تکذیب و ید‘‘ مولوی صاحب کی چوتھی تصنیف ۱۸۹۰ء میں پنجاب پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’تصدیق الا لہام‘‘ مولوی صاحب موصوف کی مناظراقی تصنیف ہے جو ۱۸۹۰ء میں پنجاب پریس سیالکوٹ سے طبع ہوئی۔’’ دعائے گنج العرش و تعویز گنج العرش‘‘ مولوی فیروز کی چھٹی نثری کتاب ہے جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی۔ ’’فضائل اسلام فی ذکر خیرا لا نام المعروف سیرت النبیؐ‘‘ پنجاب پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی۔ ’’عشرہ کاملہ‘‘ مولوی صاحب موصوف کی آٹھویں نثری تصنیف ہے۔ یہ کتاب ۱۸۹۱ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہو ئی۔
’’سورت رحمن کی نادر تفسیر ‘‘مولوی صاحب کی دسویں تصنیف ہے جو ۱۸۹۲ء میں مطبع مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’مسلمانوں کا مسیح اور عیسائیوں کا‘‘ مولوی صاحب کی ایک مناظراتی تصنیف ہے۔ جو سیالکوٹ مفید عام پریس سے ۱۸۹۲ء میں شائع ہوئی۔ ’’اسم اعظم ‘‘مولانا موصوف کی بارہویں کتاب ہے جس میں پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی سوانح عمری ،تعلیمات اور کرامات کا بیان ہے۔ یہ کتاب مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۲ء میں شائع ہوئی۔ ’’طریقت الحقیقت ‘‘ مولوی صاحب کی تیرھویں کتاب ہے جو ۱۸۹۲ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’رسالہ ہدایت القاری ‘‘ تصنیف ۱۸۹۲ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔
’’روزہ اور اس کی حقیقت ‘‘ مولوی صاحب کی پندرھویں نثری تصنیف ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔’’ الوہیت مسیح اور تثلیث کا رد ‘‘مولوی صاحب کی سولہویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سے شائع ہوئی۔ ان کی سترھویں کتاب ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔’’عصمت النبی عن الشرک الجلسی ‘‘مولوی فیروز کی اٹھارویں تصنیف ہے جو ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔ ’’تقدیس الرسول عن طعن الجہول‘‘ اُنیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سے شائع ہوئی۔ ’’برآت الرسولؐ العرب عن طعن نکاح زینبؓ المعروف بہ دفع طن نکاح زینبؓ ‘‘ بیسویں کتاب ہے جو ۱۹۹۳ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ اسرارا لتنزیل‘‘ مقالہ مولوی صاحب موصوف کا مقالہ ہے جسے انجمن حمایت اسلام لاہور نے ۱۸۹۶ء میں شائع کیا۔ ’’ضمیمہ آریہ مت کی عکسی تصویر‘‘ مولوی فیروز کی تیئسویں تصنیف ہے جو ۱۸۹۸ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’پچاس مذہبی سوالات کے جواب‘‘ چوبیسویں کتاب ہے جو ۱۸۹۹ء میں شائع ہوئی ’’نماز کی خوبیاں‘‘ پچیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’نماز حضوری ‘‘ مولوی صاحب موصوف کی چھبیسویں کتاب ہے جو ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’سورہ فاتحہ کی تفسیر‘‘ مولوی صاحب کی ستائیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات جلد اول‘‘ مولوی فیروز کی اٹھائیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔
’’مجموعہ خطبہ فیروزی ‘‘ مولوی صاحب کی تیسویں تصنیف ہے جو ۱۹۰۱ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’اسلام اور اس کی حقیقت‘‘ مولوی صاحب کی اکتیسویں تصنیف ہے جو ۱۹۰۱ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’اسلام کی پہلی کتاب‘‘ جو ۱۹۰۲ء کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’اسلام کی دوسری کتاب‘‘ تینتیسویں کتاب ہے۔ مولوی صاحب کی چونتیسویں کتاب’’اسلام کی تیسری کتاب‘‘ ہے جو ۱۹۰۴ء کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ اسلام کی پانچویں کتاب‘‘ مولوی صاحب کی چھتیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ انسان اور اس کی تقدیر ‘‘مولوی صاحب کی انتالیسویں کتاب ہے جو ۱۹۰۲ء کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت ‘‘مولوی فیروز الدین کی چالیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی ہے۔
’’تفسیر فیروزی سور ہ عم‘‘ مولوی صاحب کی اکتالیسویں کتاب ہے جو ۱۹۰۲ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’اسلام اور عیسائیت کا قطعی فیصلہ‘‘ مولوی صاحب کی بیالیسویں کتاب ہے جو سیالکوٹ مفید عام پریس سے ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔ ’’قرآن شریف کی قسمیں اور ان کی فلاسفی‘‘ مولوی صاحب کی تینتالیسویں کتاب ہے۔ جو ۱۹۰۴ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’تفسیر فیروزی تیسواں پارہ‘‘ ،مولوی فیروز کی سنتالیسویں کتاب ہے۔ ’’تفسیر فیروزی پارہ دوم‘‘ مولوی صاحب کی اڑتالیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ مولوی صاحب کی انچالیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’تفسیر فیروزی پارہ چہارم ‘‘ مولوی صاحب کی تصنیف ہے جو پنجا ب پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔
’’گلزار یوسفی ‘ ‘ مولوی صاحب کی ۵۲ ویں کتاب ہے جو لاہور سے ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔ ’’پیارے نبی کے پیارے حالات (جلد سوم)‘‘ مولوی صاحب کی ۵۳ ویں تصنیف ہے جو مفیدعام پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔’’مختصر قانونی اصطلاحات‘‘ مولوی صاحب کی ۵۴ ویں کتاب ہے جس کا پہلا ایڈیشن مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی لغات اور قواعد کے حوالے سے شہرہ آفاق کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ جن کا مولوی فیروز کی اردو ادب کی نثری خدمات کے حصے میں ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔
اُنیسویں صدی کو ،نصف آخر کے حوالے سے استدلال اور مناظرے کی صدی کہا جا سکتا ہے اور ہر قسم کے ادب کی تخلیق انھی پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ کر کی جارہی تھی۔سوانح نگاری کو بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ سر سید کی ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے بعد اردو میں رسول کریمؐ کی سوانح عمریاں لکھنے کا رواج شروع ہو گیا۔ اس زمانے اور اس سے قبل لکھنے والوں میں ایک قابل ذکر نام مولوی فیروز الدین کا بھی ہے۔ (۱) ذیل میں مولوی صاحب موصوف کی تین سوانحی تصانیف ،’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ ،’’فضائل اسلام فی ذکر خیر الا نام ‘‘ المعروف ’’بہ سیرت النبیؐ ‘‘ یا’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ ،سیرت پر لکھی ہوئی کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مقدس انبیاء کے حالات بابرکات، تیسرے میں حضورؐ کے اخلاق وعادات ،چوتھے میں تورات و انجیل کی بشارات ،پانچویں میں آنحضرتؐ کے معجزات چھٹے میں حضورؐ کی مختصر تعلیمات اور ساتویں باب میں حضورؐ کی زندگی کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔
پہلے باب میں مولوی صاحب موصوف نے ان بائیس انبیاکے اجمالی حالات بیان کیے ہیں جن کا ذکر قرآن سے ملتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انبیاء کے حالات کے وہی پہلو اُجاگر کیے ہیں جن کا تعلق ثبوت نبوت ،ثبوت قرآن یا کسی اور صداقت سے ہے۔ مثال کے طورپر حضرت صالحؑ کے حالات لکھنے کے بعد انھوں نے آخر پر لکھا ہے:
حضرت رسول کریمؐ کے ساتھ اس قصہ کا تعلق ،بہ حیثیت اثبات نبوت کے یہ ہے کہ جس طرح یہ قوم اپنے پیغمبر کی تکذیب کی وجہ سے تباہ اور ہلاک ہوئی۔ اسی طرح مکہ کے کفا ر اوراسلام کے مخالف ہلاک ہوں گے۔(۲)
مولوی موصوف نے صرف انبیا کے قصے ہی بیان نہیں کیے، بلکہ واقعات سے نتائج اخذ کر کے قارئین کو اخلاقی سبق بھی دیا ہے:
جب کوئی خلیفہ کسی خاص خدمت کے انجام دینے کے لیے خدا کی طرف سے مامور ہوا۔ شیطان اور شیطانی لشکر بھی پوری قوت اور پورے زور کے ساتھ مقابلے کے لیے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ان کی مخالفت میں یہ سر ہوتا ہے کہ اہلِ بصیرت کو معلوم ہو جائے کہ وہ کسی زمینی بھروسے سے کامیاب نہیں ہوتے بلکہ صرف تائید الہیٰ اور آسمانی ہتھیاروں سے۔(۳)
پیارے نبی ؐکے پیارے حالا ت کے سلسلے میں مولوی صاحب نے بائبل کی خاص بشارات بھی درج کی ہیں۔ آپؐ کے معجزات نشانات، خوراق، عادات اور پیش گوئیاں درج کی ہیں۔ مولوی صاحب نے وہ پیش گوئیاں درج کی ہیں جن کی صداقت کی گواہی متعصب سے متعصب آدمی بھی دینے پر مجبور ہے۔ واقعات نبوی ؐکے بیان کے بعد حضورؐ کے اخلاق و عادات خصوصاً عقل وکمال ،حسن و جمال ،فصاحت و بلاغت، سخاوت، شجاعت ،حلم و عفو، رحم و تحمل ،سادہ اور بے تکلف زندگی کی عملی مـثالیں بیان کی ہیں:
ظرافت کے سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
ایک اعرابی آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور کچھ کہنا چاہا ۔اس وقت آپؐ اُداس تھے۔ صحابہؓ نے اسے منع کیا۔ اس نے کہا قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپؐ کو نبی بر حق بنا کے بھیجا۔میں آپؐ کو بے ہنسائے نہیں چھوڑوں گا۔ پھر یوں بولا کہ یا رسول اﷲ ۔ہم نے سنا ہے کہ دجال لوگوں کے لیے ثرید لائے گا۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں اس ثرید سے محروم رہوں اور نہ مانگوں ؟ یہاں تک کہ لاغری سے مرجاؤں یا یہ حکم دیتے ہیں کہ اس کوثر یدپر ہتے لگادوں اور جب خوب سیر ہو جاؤں تو اﷲ پر ایمان لاؤں اور اس کا منکر ہو جاؤں ؟ یہ سن کر آپ ؐ کی کچلیاں کھل گئیں اور بہت زیادہ ہنسے، اور فرمایا کہ جس چیز سے اﷲ تعالیٰ مومنوں کو غنی کر دے گا۔ اس سے تجھ کو بھی اس کی پروا نہ رہے گی۔(۴)
آخر پر آپ ؐ کی بعثت اور زندگی کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں جن میں گہری حکمت ہے۔ اس سے الہیات کے بہت سے اصول حل ہو جاتے ہیں۔ان مقاصد پر غور کرنے سے آنحضرتؐ کی نبوت کی صداقت میں کوئی شک نہیں رہتا۔ آنحضرت ؐکا دنیا میں عملی توحید قائم کرنا، اخلاق حسنہ کی تکمیل ، حق کی ظاہری اور باطنی فتح ،بطلان کی ہلاکت ،احکام الہٰی میں سطوت و جبروت ،عقبیٰ کی جزاو سزا اور قیامت کا آنحضرت ؐکے واقعات عصری سے قطعی ثبوت اور حضورؐ کی عملی زندگی سے آپؐ کی نبوت کا ثبوت سب کچھ بین طور پر بیان کیا گیا ہے۔
’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ میں تذکرہ نگاری، سیرت نگاری اور تاریخ نگاری سے مدد لی گئی ہے۔ اختصار اور جمال اس کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔ تمام تاریخی واقعات نبویؐ جن کو آپ ؐ کی زندگی میں زبردست اہمیت حاصل ہے۔ نہایت اختصار سے بیان کر دیے گئے ہیں۔ ’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ میں لمبی چوڑی عبارت آرائی نہیں کی گئی بلکہ سادہ اور صاف طورپرحضورؐ کے حالات بیان کر دیے گئے ہیں۔ مولوی موصو ف نے سادگی اور اختصار کو حد درجہ ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ان کا اسلوب تحریر سلیس واضح اور منطقی ہے۔ جملے چھوٹے چھوٹے اور خطِ مستقیم میں آگے بڑھتے ہیں اور مطلب اداکرنے میں کسی قسم کی دشواری کا احساس نہیں دلاتے۔
پادری عماد الدین پانی پتی نے ۱۸۷۲ ء میں ’’تواریخ محمدیؐ ‘‘ امرت سر سے شائع کی۔ پادری نے اس کتاب میں نبی اکرم کی ذات اقد س پر نہایت رکیک الزامات لگائے۔ اگرچہ علمائے اسلام نے اپنے اپنے انداز میں پادری کی ہرزہ گوئی کا جواب دیا۔ مولانا حالی کی’’ تواریخِ محمد یؐ ‘‘ پر منصفانہ رائے اور مولوی چراغ علی کی تعلیمات اس سلسلے میں عمدہ جواب ہیں لیکن مولوی موصوف کی ’’فضائل اسلام فی ذکر خیرالا نام المعروف بہ سیرت النبیؐ‘‘ ،’’کتاب تواریخ محمدیؐ‘‘ کا دندانِ شکن جواب ہے ۔’’فضائل اسلام فی ذکر خیرا لا نام‘‘ میں حضورؐ کا قریباً کل حال ترتیب وار ،مفصل ،معتبر علمائے نصاری کے اقوال انتخاب کر کے مرتب کیا گیا ہے اور جو جو اعتراضات عیسائی آنحضرتؐ کی سیرت پر کرتے ہیں ان کا جواب انھیں کے علما سے لایا گیا ہے۔’’ فضائل اسلام فی ذکر خیرا لانام‘‘ کی خاص خوبی یہ ہے کہ ساری کتاب مستند مخالفین ہی کی کتب سے اقتباسات انتخاب کر کے مرتب کی گئی ہے اور عماد الدین کے اعتراضات کا انھیں کے بڑے بڑے ثقہ اور معتمد علما و فضلا کے اقوال سے جواب دیا گیا ہے ۔جس امر کو وہ اعتراض کی صورت میں پیش کرتا ہے ان کا جواب اسی طرح دیا گیا ہے کہ جب آپ ہی کے بڑے بڑے علما آنحضرتؐ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔آپ کے شبہات اور اباطیل کیا وقعت رکھتے ہیں؟
ساری کتاب محض اقتباسات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر موئف نے اقوال کی تائید اور بطورِ حاشیہ یا ضمیمہ اقوال کی تشریح اور توضیح بھی کی ہے۔ یہ اضافے انھوں نے اس طرح کیے ہیں کہ عام قاری کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کہ کونسا بیان موئف کا ہے اور کونسا علمائے نصاریٰ کا؟
’’فضائل اسلام فی ذکرِ خیرالا نام‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں رسولِؐ خدا سے پیشتر عرب کاجو حال تھا وہ مخالفین ہی کی زبان میں مندرج ہے۔ اس میں رسومات ،جاہلیت ،دستورات عرب اور طرزِ حکومت وغیرہ کا حال درج ہے۔ پہلے باب میں آنحضرتؐ کی ولاد ت سے آغاز نبوت تک کا حال اور تمام اعتراضات کی تردید مخالفین کے اقوال سے ہی کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں آغاز نبوت سے ہجرت تک کا حال علمائے نصاریٰ کے اقوال کی صورت میں درج کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں ہجرت سے وفات تک کا حال معہ غزوات ،ترتیب وار، سال بہ سال ،اعتراضات کے جواب کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ اس باب میں جہاد، تحویل قبلہ ،کثرت ازدواج اور تقدیرپر خصوصی بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں عیسائی علماکے اقوال درج کیے گئے ہیں۔چوتھا اورآخری باب نہایت اہم ہے جس میں اسلام کی فضیلتیں ،مسلمانوں کے علوم اور کارہائے نمایاں ،پیغمبر اسلامؐ کے کارنامے اور جانفشا نیاں ،اسلام کی صداقتیں اور اس کی تعلیمات ،واحدانیت اور امر ونہی مستند اور معتبر علمائے نصاری کے اقوال کے بموجب درج کیے گئے ہیں۔چونکہ مخالفین کا اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اس قسم کی شہادت دینا اسلام اور اس کی کمال عظمت اور فضیلت کا بین ثبوت ہے۔ اس لیے اس تالیف کا نام ’’فضائل اسلام فی ذکر خیر الا نام ا لمعروف سیرت النبیؐ ‘‘ یا ’’تاریخ محمدی ؐ ‘‘رکھا گیا ہے۔
مولوی صاحب موصوف نے اس تالیف کوجن علمائے نصاریٰ کے اقوال اور آرا سے مزین کیا ہے۔ ان کے اسماء اور تصانیف و تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:ایڈورڈگبن ،جارج سیل (ترجمہ قرآن)،پادری فانڈر(تواریخ محمد یؐ ) بشب مڈلٹن ،جارج ڈیپنورپ(اپالوجی فار محمد اینڈ قرآن )،(اردو ترجمہ )،عطاالحق یا موید الاسلام ،ریورینڈر راڈ ویل (ترجمہ قرآن) ،مسٹر طامس کار لائل (ہیروز اینڈ ہیروزشپ) ،ماسٹر رامچندر (تحریف القرآن) جے ولسن ،سر ولیم میور(لائف آف محامسٹ،اُردو تواریخ کلیسا ،تاریخ محمدیؐ) پادری صفدر علی ، ڈاکٹر اے سپر نگر (سیرت محمدیؐ) ،پادری رجب علی ،ہارن صاحب (تفسیر قرآن )پادری باس ورتھ سمتھ او ر ایزک ٹیلر علاوہ ازیں انا جیل مروجہ اور چیمبرس انسائیکلوپیڈیا سے بھی مدد لی گئی ہے۔
اس تالیف کا اسلوب مولوی صاحب کی باقی تصانیف کے اسلوب سے قدرے مختلف ہے کیونکہ یہ مولوی صاحب کی پہلی تالیف ہے اور اس وقت تک ان کا قلم اتنی روانی سے نہیں چلتا تھا ۔اگرچہ اس میں زیادہ تر علماء نصاریٰ کے اقوال ہی درج ہیں۔ تاہم اقوال پر تبصرے کی صورت میں ان کا اسلوب نمایاں نظر آجاتا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے سادہ اور چھوٹے چھوٹے جملے اور آسان الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ قائل کرنے کا انداز منطقی ہے۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی مولوی فیروز الدین کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:
مولانا ڈسکوی کا طریق استدلال منطقی ہے۔ لیکن ان کی عام فہم اور دلچسپ عبارت، مطالب کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔(۵)
سیرت النبیؐ کے سلسلے میں مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی تیسری تصنیف ’’سیرت المصطفےٰؐ‘‘ہے۔ اس میں موئف نے آنحضرتؐ کے اخلاق فاضلہ و اوصاف جمیلہ کا بیان کیا ہے مگر شروع میں آپؐ کی مختصر سوانح عمری بھی دی گئی ہے۔ جس کے پڑھنے سے حضورؐ کی صداقت رسالتؐ کی حقیقت آفتاب نصف النہار کی طرح منکشف ہو جاتی ہے۔ اس سوانح عمری میں آنحضرتؐ کی زندگی کے اہم واقعات:نبوت و شریعت کا عطا ہونا ،اعلانیہ دعوتِ اسلام ،ہجرتِ حبشہ، حضرت عمر ؓ اور حضرت حمزہؓ کا اسلام لانا، شعبِ ابی طالب میں محصور ہونا، سفر طائف ،ہجرتِ مدینہ ،مدینہ کے حالات ،مدینہ میں آپؐ کی تشریف آوری ،مسجد نبویؐ کی تعمیر ،اذان کا تقرر ،جہاد کی ابتدا ،جنگِ بدر کا معرکہ، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، صُلح حدیبیہ ، بادشاہوں کو دعوتِ اسلام ،فتح خیبر ،فتح مکہ ،جنگِ تبوک ،مسجد ضرار، نصارائے بخران سے مباہلہ ،حجتہ الوداع اور آپؐ کا حلیہ مبارک نہایت اختصار سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد آپؐ کے اخلاق و اوصاف کا حصہ شروع ہوتا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے آپؐ کی بے تکلفی و ظرافت ،عقل و دانائی ،حلم و ملائمت ،عفو و رحم ،شجاعت و مردانگی ، جو دو سخاوت ،خوش بیانی ، صحابہؓ پر آپؐ کی تعلیم کا اثر ، دوسروں کی عزت وتکریم ،عبادت وریاضت تقوی ،زہد ،دنیا سے بے رغبتی ،رسالتؐ ،خدا کے لیے تبلیغ ، توحید الہی کے خیال سے اپنی تعظیم کی ممانعت ،سادہ گزران ، فقرو فاقہ ،راست بازی ،صداقت ،کتاب الہی کی تعلیم ،حکمت اور تہذیب کی باتوں کو عقیدت مندانہ اسلوب میں بیان کیا ہے ۔اس کے بعد دو سو منتخب احادیث نبویؐ کا منظوم اردو ترجمہ دیا ہے۔ آپ کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد خلفائے راشدینؓ اور حضرت حسنین ؓ کی مختصر سوانح عمری اور کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیں۔
اس مختصر کتاب میں حالات نبویؐ کا ذخیرہ اس قدر جمع ہے کہ بڑی بڑی کتابوں سے بے نیا ز کر دیتا ہے۔ اس میں اخلاق محمدؐ کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ سرکارِ دو عالم ؐ کی زندگی سے مثالوں سے اس کتاب کو آراستہ کیا ہے۔ آنحضرتؐ کے اخلاق فاضلہ کا بیان اس طرح کیا ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آپؐصرف اعتقادی طورپر ہی نہیں بلکہ عملی طورپر بھی سید المرسلین ؐ،افضل البشرؐ ،خاتم الانبیا ؐہیں۔
اس کتاب کا اسلوب بہت سادہ ہے۔ اس میں عبارت آرائی سے پرہیز ہے۔ ہر جملے سے عقیدت اور محبت ٹپکتی ہے۔ اس کتا ب میں بھی مولانا موصوف نے ضمناً عیسائیوں اور آریاؤں کے اسلام اور قرآن پر اعتراصات کا جواب دیا ہے۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس سے ان کے اسلوب کی خصوصیات واضح ہو جائیں گی:
آپؐ پڑھے لکھے نہ تھے، مگر عالم و جاہل دونوں کو ہی تعلیم کرتے تھے۔ آپ ؐ کے چہرے پرایسا عظمت و جلال کا نور برستا تھا کہ اس کا اثر ہر شخص کو پہنچتا تھا۔ آپؐ حیا میں ناکتخدا یعنی بن بیاہی لڑکی سے بڑھ کر تھے۔ آپؐ اپنے ماتحتوں پر بہت مہربان تھے۔ اپنے خادم کو کبھی نہ جھڑکتے ۔آپؐ کے خادم انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں دس برس تک آپؐ کی خدمت میں سرفراز رہا ۔ اس درمیان میں آپ نے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ آپؐ اپنے عزیزوں سے بہت محبت رکھتے ۔(۶)
مولوی فیروز الدین کی تصنیف ’’الوہیت مسیح اور تثلیث کا رد‘‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں فاضل مصنف نے اﷲ تعالیٰ کی صفات قرآن اور خصوصاً سورۃ اخلاص کی روشنی میں بیان کر کے عیسائیوں کے تصورِ خد اور عقیدہ تثلیث پر روشنی ڈالی ہے۔ براہین عقلی سے ان کے تضادات کے خلافِ عقل او رخلافِ فطرت ہونا ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ عیسائیوں کے یہ اعتقادات خود تراشیدہ خیالات ہیں جن پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم ہوتی ہے اور نہ نقلی بلکہ اصل تورات اور انجیل سے ان کے ان اعتقادات کی نفی ہوتی ہے۔ مولانا موصوف کا طرزِ استدلال ملاحظہ ہو:
باپ،بیٹے کا عمر، درجہ اور ہربات میں مساوی ہونا کس قدر قابلِ تمسخر اور واہیات ہے۔مسیح اگر خدا کا بیٹا ہے تو ازلی نہیں جو ازلی ہے تو خدا کا بیٹا نہیں۔ یہ دونوں صفات متضاد وجود واحد میں جمع نہیں ہو سکتیں۔مسیح اگر خدا کا بیٹا ہے تو ازلی نہ ہونے کی وجہ سے خدائی کے لائق اور خدا نہیں۔دونوں باتیں نہیں ہو سکتیں۔چوپڑی اور دو دو ،ایسا ٹھیک نہیں۔ خدا کا بیٹا قرار دو توا زلی نہ ہونے کی وجہ سے خدامت سمجھو ازلی قرار دو تو بیٹے کا مفہوم بعدیت کو چاہتا ہے۔بیٹا مت کہو یہ کیا بات ہے کہ تم بیٹے کا وجود باپ سے ۱۰۔۱۵ برس بھی موخر نہیں سمجھتے ہو اور پھر بیٹا کہتے ہو، ایسا بیٹا کہاں سے آگیا؟(۷)
مولوی صاحب نے عیسائیوں کے عقائد کا بطلان اور اسلامی عقائد کو برحق کرنے کے لیے قرآن مجید ،تورات،انجیل دیگر آسمانی کتابوں سے آیات اور علمائے نصاریٰ کے اقوال کو بھی بطور دلیل درج کیا ہے۔ ’’الوہیت مسیح اور تثلیث کا رد‘‘ کے دوسرے حصے میں مولوی صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل میں جہاں کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تثلیث کاذ کر ہے وہ جعلی اور الحاقی ہے۔ انھوں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش محض امر الہی سے ہوئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل تورات اور انجیل سے خالص توحید کا ثبوت ملتا ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے عیسائی علما کے اقوال کو ہی سند کے طورپر پیش کیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں:
ایک نہایت مشہور انگریز ،مسٹر جان ڈینپورٹ صاحب اپنی کتاب ’’اپالوجی فارمحامٹ اینڈ قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نیٹن صاحب،افضل حکما انگلستان اور گبن صاحب اور علماو مورخین نصاریٰ نے بڑی کوشش سے ثابت کیا ہے کہ جن آیات انجیل سے مسئلہ توحید مستنبط کیا گیا ہے۔ یعنی یوحنا کا پہلا خط ۵ با ب اور ۷ وہ آیات اختراعی ہیں۔(۸)
اس کتاب کا اسلوب نہایت سادہ ہے ۔چھوٹے چھوٹے جملے ہیں اور ان میں لفظی مناسبت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں:
پادری عماد الدین پانی پتی، جوا پنی پت پرانے پادریوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ ہدایت المسلمین کے صفحہ نمبر ۱۰۳ میں مقر ہو گئے کہ ضرور آیت نامہ اول یوحنا کی ۵ باب اور۷ آیت مشکوک ہے یعنی نہیں معلوم مصنف کی ہے یاحاشیہ ہے۔(۹)
’’عیسائیوں کی دینداری کا نمونہ‘‘ تصنیف میں مولانا ڈسکوی نے مختلف دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل مروجہ محرف ہیں اور اس کے مقابلے میں قرآن از اول تا ابد دم اپنی اصل حالت میں موجود ہے:
عیسائیوں کی کتاب مقدس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس قدر الحاق و اختلاف تبدیل و تحرف کو دخل ہوا ہے کہ عیسائی علما مجبوراً قائل ہو گئے ہیں کہ اس میں اس حد تک اختلاف عبارت یا الفاظ ہیں جسے وہ سہو کاتب کے نام سے منسوب کرتے ہیں کہ ہر حال میں تمام یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صحیح کون ہے؟(۱۰)
مولوی فیروز الدین ڈسکوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب ان کی کتاب ہی اصلی حالت میں نہیں ہے تو اس سے عقائد کیسے اخذ کیے جا سکتے ہیں؟ وہ اپنی اس تصنیف کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں:
میں چاہتا ہوں کہ عیسائیوں کی مقدس کتاب کا مشتبہ اور محرف ہونا، بطور نمونہ اس رسالہ میں درج کروں تا کہ تمام دنیا پر آشکار ہو جائے کہ عیسائی صاحبان کی کتاب میں یہاں تک تبدیل و تحریف اور الحاق و اختلاف کو دخل ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے۔ تو وہ کیسے قابلِ استشنا ہو سکتی ہے۔ اور اس پر عیسائی مذہب کی بنیاد گویا ریت پر بنیاد ہے یا نہیں؟(۱۱)
مولانا موصوف نے انجیل کے مختلف چھپے ہوئے نسخوں کا موازنہ کر کے مثالوں،دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ اناجیل مروجہ محرف ہیں لیکن عیسائی بڑی چالاکی سے اس تحریف کا انکار کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے صرف چھے نمونے دینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ انھوں نے اناجیل کے محرف اور قرآن کے غیر محرف ہونے کی نسبت مندرجہ ذیل علمائے نصاریٰ کے اقوال کوبطور دلیل درج کیا ہے۔ گاڈ فری ہیگنس ،مسٹر جان ڈینیورٹ، مسٹر لارڈنر صاحب، ہارن صاحب ،پادری فانڈر، سر ولیم میور،پلوس صاحب، فاسٹس صاحب اور پادری دیر صاحب۔ مولوی فیروز الدین نے ایک مقالہ ’’اسرارالتنزیل ‘‘ ۲۴ جنوری ۱۸۹۶ء میں انجمن حمایت اسلام کے گیارہویں سالانہ جلسے منعقدہ ۲۴ جنوری کے لیے تحریر کیا۔ مگر اچانک طبیعت علیل ہو جانے کی وجہ سے وہ جلسے میں نہ جا سکے۔ خلیفہ عبدالرحیم نے ان کی طرف سے یہ مقالہ پڑھا(۱۲) ’’نما ز اور اس کی حقیقت‘‘ تصنیف میں مولانا نے نماز کی فضیلت کو معترفین اسلام کا جواب دیتے ہوئے بیان کیا ہے۔ مضامین کی فہرست میں ۳۸ مطالب شامل ہیں۔ نماز کی فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں :
اگر غورو فکر او ر تامل سے تمام خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر نگہ کرے ۔تو سب کی سب اپنے اپنے طورپرخدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ چوپائے اور طیور اسی کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ رینگنے والے جانور اس کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ افلاک اور کواکب اس کے ولولہ عشق میں گھوم رہے ہیں اور حرکت دوری سے نماز ادا کررہے ہیں۔ اگر اس کی عبارت میں یہ سب مخلوقات کے طریق عبادت جمع ہو جائیں تو کیا ہی افضل بات ہے۔(۱۳)
مولانا فیروز الدین کی تصنیف ’’سلسلہ جدید فیروزی‘‘ اسلام کے بارے میں پانچ ا بواب پر مشتمل ہے۔ جس میں اسلام کے بنیادی مسائل نہایت آسان اور سلیس زبان میں سمجھائے گئے ہیں۔ یہ کتابیں بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں اور زبان بھی بچوں کی استعداد کے مطابق استعمال کی گئی ہیں۔ ہر ایک کتاب میں نثر کے ساتھ ساتھ نظم کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ ہر کتاب کا تعلق اسلام کے کسی رکن کے ساتھ ہے۔ ان کی ایک کتاب نماز پر دوسری روزہ پر ،تیسری حج پر ،چوتھی زکوۃ پر اور پانچویں ایمان کے موضوع پر ہے۔ یہ تصانیف اس اعتبار سے اہم ہیں کہ آج سے تقریباً ایک صدی پہلے جب کہ برصغیر پر کفر و الحاد اور اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے تھے۔ مولانا ڈسکوی نے نہ صرف پختہ عمر کے لوگوں کے لیے اسلام کی تعلیم عام کی بلکہ بچوں کے لیے بھی مذہبی تعلیم کا ان کتابوں کے ذریعے اہتمام کیا۔ مولوی صاحب نے قرآن مجید کا ترجمہ،اُردو نثر ،اردو نظم اور پنجابی نظم میں کیا ہے۔تفسیر طلب امور کی تفسیر حاـشیے میں دی گئی ہے۔ اس تفسیر میں مسائلِ اسلام کو مفصل بیان کیا گیا ہے۔ ضمناً عیسائیوں اور آریہ مت والوں کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اس تفسیر کو پڑھ کر ہر آدمی کامل مناظر اور مباحث بن سکتا ہے۔
انھوں نے سورہ یٰسین ،سورۂ رحمن ، سورہ ملک ، سورہ مزمل اور سورہ نبا کا اُردو نثر میں ترجمہ ’’پنجسورہ بے نظیر‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ آخری چار سورتوں کی تفسیر ’’ربع اخیر کی نادر تفسیر‘‘ کے نام سے کی ہے۔ مولوی صاحب کے اُردو ترجمے کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ ترجمے کی خاص خوبی یہ ہے کہ قوسین میں مطلب کی ادائی اس طرح کر جاتے ہیں کہ تفسیر خود بخود ہی ہو جاتی ہے۔
سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
اے سرورؐ عالم قرآن کی قسم ،جس میں سراسر ،حکمت کی باتیں ہیں کہ یقینا تو پیغمبروں کے سلسلے میں ایک ہے اور دین کی سیدھی راہ پر قائم ہے۔ یہ قرآن زبردست اور مہربان خدا نے اتارا ہے تا کہ توان لوگوں کو قہر الٰہی سے ڈرائے جن کے باپ دادا مدت سے نہیں ڈرائے گئے اور اس لیے وہ دین سے غافل ہیں۔(۱۴)
مولوی صاحب کے بیان میں زور ہے۔ سورہ رحمن کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اﷲ اکبر ،اس سورہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ظاہری باطنی ،دینی اور دنیاوی نعمتوں کو کس شان و شوکت اور دھوم دھام سے بیان کیا ہے اور کس اعلیٰ ترین فصاحت اور بلاغت کے ساتھ اپنے احسانات و انعامات کو ظاہر کیا ہے۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے تو پورا قرآن مجید یکساں واقع ہے۔ کہیں تفاوت نہیں ،مگر طرز اور اسلوب ہر سورت کا ایک دوسرے سے نرالا ہے۔ اور اس سورت کا ڈھنگ اور نظم بیان تمام سورتوں سے نادر اور عجیب تر ہے۔(۱۵)

۔ الطا ف فاطمہ ’’ اردو میں فنِ سوانح نگاری کا ارتقا‘‘ ،لاہور ،عشرت پبلشنگ ہاؤس ،س ۔ن ،ص:۶۷
۲۔ مولوی فیروز الدین ،’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ ،سیالکوٹ،مفید عام پریس ،بار اول، ۱۳۱۸ھ ،ص:۶۷
۳۔ ایضاً،ص:۲۷
۴۔ ایضاً،جلد دوم، ص:۳۱
۵۔ تحقیقی زاویے، ص:۲۶۲
۶۔ مولوی فیروز الدین ،سیرت المصطفےٰؐ ،سیالکوٹ، مفید عام پریس ،۱۹۰۱ء ص:۴۱
۷۔ مولوی فیروز الدین،’’الوہیت مسیح اور تثلیت کا رد‘‘،سیالکوٹ،مفید عام پریس ،س ن،ص:۱۱
۸۔ ایضاً،ص:۱۵۱
۹۔ ایضاً،ص:۱۱۶
۱۰۔ مولوی فیروز الدین ،’’عیسائیوں کی دینداری کا نمونہ‘‘،سیالکوٹ،مفید عام پریس ،۹۶،۱۸۹۵ء،ص:۱
۱۱۔ ایضاً،ص:۲
۱۲۔ ’’رسالہ انجمن حمایت اسلام‘‘ ،مارچ ،اپریل ۱۸۹۶ء،ص:۳
۱۳۔ مولوی فیروز الدین ’’نماز اور اس کی حقیقت‘‘ ،سیالکوٹ،مفید عام پریس ،بار اول، ۱۸۹۰ء ،ص:۲
۱۴۔ مولوی فیرو ز الدین ’’پنجسورہ بے نظیر‘‘ سیالکوٹ،مفید عام پریس ۱۹۰۲ء ،ص:۳
۱۵۔ مولوی فیرو ز الدین ’’سورہ رحمن کی نادر تفسیر ‘‘،سیالکوٹ، مفید عام پریس، ۱۹۰۳ء ،ص:۳

مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی

مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ (۱۸۷۴ء ،۱۹۵۶ء) سیالکوٹ کے محلہ میانہ پورہ نزد تحصیل بازار میں پیدا ہوئے۔ (۱۶)قرآن مجید ناظرہ بچپن میں گھر ہی میں پڑھا۔ پھر سکاچ مشن ہائی سکول گندم منڈی سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔ اس سکول میں آپ علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت تھے۔ سکول کی تعلیم کے دوران ہی انھوں نے سیالکوٹ کے ایک متقی و متجرعالم مولانا ابو عبداﷲ المعروف غلام حسن(یہ عالم دین علامہ اقبال کے ابتدائی اُستاد تھے) کے سامنے زانوئے شاگردی تہہ کیا اور دینی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔(۱۷)۱۸۹۵ء میں میٹرک کے بعد آپ نے مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔ جہاں ان کو مولوی میر حسن کی شاگردی میسر آئی۔ آپ نے عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی مہارت حاصل کر لی، سکول کی طرح کالج میں بھی آپ کو علامہ اقبال کی ہم نشینی و صحبت حاصل رہی۔(۱۸)
مولوی ابراہیم نہایت ذہین و فطین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ شعبان ۱۳۱۹ھ بمطابق ۱۹۰۱ء کے آخری دنوں میں آپ کی والدہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ رمضان کی نماز تراویح میں قرآن سنائیں انھوں نے ایک ماہ میں پورا قرآن حفظ کرلیا(۱۹) ہر روز ایک پارہ حفظ کرتے رات نمازِ تراویح میں سنا دیتے۔ سورہ نجم کے مقدمہ میں خود فرماتے ہیں:
اکیس سال کی عمر میں میں نے کالج چھوڑا اور چھوڑنے کا واحد سبب یہی قرآن شریف کا شوق تھا۔ جو عشق کے درجے پر تھا۔ اسی دھن میں خدا کی توفیق سے ایک مہینہ میں قرآن حفظ کر لیا۔(۲۰)
مولانا نے اپنی تعلیم کا آغاز دنیاوی تعلیم سے کیا مگر اﷲ کا فیصلہ ان کے حق میں کچھ اور تھا۔ جس کی طرف اشارہ مولانا کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رویامیں ہوا۔ بیسویں صدی کے عالم باعمل حضرت عبدالمنان وزیر آبادی ؒ سے مولانا کے والد قادر بخش کے دوستانہ مراسم تھے۔انھوں نے آپ کے والد سے کہا کہ تم اپنے بیٹے کو وزیر آباد بھیج دو ہم اسے دینی تعلیم دینا چاہتے ہیں ۔مولانا نے ۱۸۹۶ء میں مرے کالج چھوڑ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے حافظ عبدالمنان ؒ کے حلقہ درس میں داخل ہو گئے۔ (۲۱) جہاں تفسیر،حدیث اور دیگر متدا ول علوم دینیہ اور عربی زبان پر مہارت حاصل کی۔ حافظ عبدالمنان وزیر آابادی سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد ۱۸۹۸ء میں حافظ صاحب کی معیت میں پہلی بار حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(۲۲) کچھ عرصہ ان کی خدمت میں رہے اور مسندو اجازۂ حدیث سے منفتحر ہوئے۔
مُلاْ عبدالحکیم سیالکوٹی(۱۵۶۳ء پ) کے بعد ان کے شاگردوں سے انتقال علم کا سلسلہ چلتا رہا۔ چنانچہ سیالکوٹ کی تاریخ میں شعبہ علم و دانش میں ایسے مشاہیر کے اسمائے گرامی نظر آتے ہیں۔ جنھیں شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوا۔ ان میں مولانا محمد افضل سیالکوٹی اُستاد حضرت شاہ ولی اﷲ و حضرت مظہر جان جاناں ،مولانا عبیدا اﷲ سندھی ، مولانا ابو عبید اﷲ غلام حسن سیالکوٹی اور مولوی میر حسن سیالکوٹی جیسے متقی اور نا بغہ روزگار علما دین شامل ہیں۔ جن سے مُلاْ عبدالحکیم کا علم سینہ بسینہ منتقل ہوکر مولانا ابراہیم میرؒ سیالکوٹی تک پہنچا جو واقعتامُلاْ عبدالحکیم کے علوم کے حاصل بہترین مفسر اور زبردست مناظر تھے۔
مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی نہ صرف نامور مشاہیر کے شاگرد تھے۔ بلکہ وہ عظیم مشاہیر کے اُستاد بھی تھے۔ فیض احمد فیضؔ کے والد محترم سلطان محمد خان مولوی موصوف کے بڑے معتقد تھے ۔ان کا مکان مولوی صاحب کی مسجد کے قریب تھا۔ فیض اور ان کے والد مولوی صاحب کا درس قرآن مسجد میں سنتے ۔فیض صاحب نے قرآن مجید کے ابتدائی پارے بھی مولوی ابراہیم کے مدرسے میں حفظ کیے اوران کی شاگردی اختیار کی۔ابتدائی تعلیم کے بعد فیض احمد فیض کو ۱۹۱۶ء میں اسکاچ مشن ہائی سکول میں بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے علوم مشرقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔(۲۳)
اشفاق حسین اپنے مقالے ’’فیض احمد فیض۔ شخصیت اور فن‘‘ میں مولوی ابراہیم میر اور فیض کے تعلق کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
فیض احمد فیض نے جب بھی اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کیا تو اپنے اس شفیق اُستاد (مولوی ابراہیم میر) کو ضرور یا د کیا۔ میر صاحب اپنے وقت کے بڑے باکمال اور صاحبِ علم شخصیت مانے جاتے تھے اور ایک استاد کی حیثیت سے پورے علاقے میں ان کا بڑا احترام کیا جا تا تھا۔ اس سکول میں ان کے دوسرے استاد مولوی میر حسن بھی تھے۔(۲۴)
مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی عالم باعمل تھے اور مذہبی و دینی نثر نگار تھے۔ ان کی اُردو نثری کتابیں تفسیرِ قرآن مجید ،سیرت النبیؐ اور مناظروں پر مشتمل ہیں۔ مولوی موصوف عربی ،فارسی اور اردو زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ ڈاکٹر وحید قریشی مولوی ابراہیم کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
برطانوی عہد کے آغاز میں بھی سیالکوٹ میں عربی فارسی اور اردو کی روایت خاصی مستحکم دکھائی دیتی ہے۔ مولانا غلام حسن اور شمس العلماء مولوی میر حسن کی علوم مذہبی میں دسترس اور فارسی زبان و ادب پر قدرت کے چرچے آج تک سنے جاتے ہیں۔ دینی تحریکوں میں سیالکوٹ اہلِ حدیث کا بہت بڑا مرکز بنا اور مولوی ابراہیم میر کے نام کا ڈنکا آج بھی بجتا ہے۔(۲۵)
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کثـیر مطالعہ عالم تھے۔ تفسیر ، حدیث ،فقہ و اُصول ،سیرت ،تاریخ و تذکرہ ،فلسفہ و منطق ،لغت ،علومِ بلاغت اور تقابل ادیان سے متعلق ان کا ذخیرہ معلومات بہت وسیع و عمیق تھا۔ آپ ایک مبلغ ،خطیب ،مناظر اور بہت بڑے مصنف تھے۔ آپ کی تمام تر زندگی مطالعہ اور تالیف و تصنیف میں گزری ۔مولانا سیالکوٹی کی تمام تصنیفات اُردو زبان میں ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے نام عربی قسم کے ہیں۔عبدالرشید عراقی مولانا سیالکوٹی کی کتب کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں:
آپ نے اپنی ۸۲ سالہ زندگی میں گرانقدر کتب و رسائل تصنیف کیے۔ جن کی تعداد نوے تک بتائی جاتی ہے۔(۲۶)
مولانا محمد اسحاق بھٹی اپنی کتاب ’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدام القرآن ‘‘ میں مولانا عراقی سے اختلاف کرتے ہوئے صفحہ نمبر ۴۸۱ میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی کتب کی تعداد ۸۴ لکھتے ہیں۔ مولانا سیالکوٹی کی کچھ کتب غیر مطبوعہ بھی ہیں۔ شاید یہ اختلاف اس وجہ سے ہے۔
مولانا سیالکوٹی نے اپنی تصنیفات و رسائل مختلف موضوعات پر لکھے ہیں۔ جن کا تعارف موضوعاتی ترتیب سے پیش کیا جاتاہے۔ سب سے پہلے قرآن و تفسیر قرآن سے متعلقہ تصنیفات کے بارے میں معلومات پیش کی جاتی ہیں۔’’واضح البیان‘‘ مولانا کی تفسیری تصنیفات میں بڑی اہمیت و شہرت کی حامل ہے۔ اس کا مکمل نام ’’واضح البیان فی تفسیر اُم القرآن‘‘ ہے۔ یہ سورت الفاتحہ کی طویل و مفصل تفسیر ہے۔ سورہ الفاتحہ کی آیات صرف سات ہیں مگر یہ مختصر آیات تمام مضامین قرآن پر مشتمل ہیں۔ مولانا نے تفسیر اس طرز سے کی ہے کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورت الفاتحہ تمام قرآنی مباحث کا مجموعہ اور حقیقتاً اُم القرآن ہے۔ ’’واضح البیان‘‘ تفسیر میں مولانا نے ۳۹۰ عنوانات پر بحث کی ہے۔ یہ تفسیر پہلی مرتبہ ۱۹۳۳ء میں ’’الھادی‘‘ سیالکوٹ سے مولانا نے خود شائع کی جو ۴۴۸ صفحات پر مشتمل تھی۔ ۱۹۳۱ء میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اسی انداز سے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر شائع کی۔ حسن عبارت و ادبی و چاشنی کے ساتھ اس تفسیر میں بعض مقامات پر ایسی مبہم عبارات تھیں۔ جن کی غلط فہمی سے عقائد کی گمراہی کا خدشہ تھا۔ چنانچہ مولانا سیالکوٹی نے عالمانہ و محققانہ اندا زمیں ایسی واضح تفسیر بیان کی کہ کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہتا۔
مولانا حنیف ندوی (دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طالب علم) مولانا ابو الکلام آزاد اور مولوی ابراہیم میر کی تفسیر قرآن کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ابوا لکلام کی تفسیر میں الفاظ ہیں اور یہاں (مولانا سیالکوٹی کی تفسیر میں ) شروع سے آخر تک علم ہی علم ہے۔(۲۷)
مولانا سیالکوٹی تمام عمر تفسیر قرآن کی زبانی و تدریسی خدمات سرا نجام دیتے رہے مگرانھوں نے قرآن کی مکمل تفسیر کوئی تالیف نہیں کی ، البتہ زندگی کے آخری سالوں میں اصحاب کے اصرار سے قرآن کی بعض سورتوں کی تفاسیر لکھی ۔ مولانا نے اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں قرآن کی مکمل تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا، اس سلسلے میں وہ صرف تین اجزا ہی مکمل کر پائے تھے۔ کہ انتقال فرما گئے اور ’’تبصیر الرحمن‘‘ کا جزسوم ان کی وفات کے بعد زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ تفسیر کا ہر ایک جُز ایک پارہ پر مشتمل ہے جن کی ضخامت ۲۵۰ صفحات ہے۔ یہ تفسیر شیخ علی مہائمی کی تفسیر رحمانی کی طرز پر لکھی ہے۔ تفسیر میں ربطِ عبارت اس کی خصوصیت ہے۔ ترجمہ او ر تفسیر کی اردو عبارت کے ساتھ قرآن کے عربی الفاظ کو ایسے جمع کیا ہے کہ یہ تسلسل ٹوٹتا نہیں، بلکہ ہر کلمہ دوسرے سے جُڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جس سے کمالِ حظِ قلبی حاصل ہوتا ہے ۔ یہ تفسیر مسلمان کمپنی سوہدرہ سے شائع ہوئی۔ ’’احجاف اللھف فی تفسیر سورۃ الکہف ‘‘سورۃ الکہف کی تفسیر مولانا سیالکوٹی کی تیسری کتاب ہے جو ’’تبصیر الرحمن‘‘ کے انداز سے لکھی۔ یہ تفسیر نہایت علمی و تحقیقی اسلوب میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اس میں بہت سے اہم مباحث کما حقہ بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے قصے اور اصحاب کہف کے قصے کے اہم نکات پر گہری تحقیق پیش کی گئی ہے۔ یہ تفسیر پہلی مرتبہ ستمبر ۱۹۳۹ء میں مولانا نے خود شائع کی۔ تقریباً نصف صدی کے بعد دوبارہ مکتبہ ثنائیہ سرگودھا میں دوبارہ شائع کی۔
’’الدرا لنظیم‘‘ فی تفسیر سورۃ القرآن العظیم ‘‘قرآن مجید کی آٹھ سورتوں کی تفسیر کا مجموعہ ہے۔ جن میں سورہ الحجرات ،سورۂ ق ، سورۂ البلد، سورۂ البینہ ،سورۂ العصر ،سورۂ الفیل ، سورۂ القریش ، سورۂ الکوثر یہ تفسیر ۱۲۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مولانا نے اپنے دفتر تبلیغ سنت سیالکوٹ سے ۱۹۴۶ء میں شائع کی۔ یہ تفسیر اگرچہ آٹھ سورتوں پر مشتمل ہے لیکن تحقیقی لحاظ سے سوا سو صفحے کی یہ تفسیر بلا شبہ شاہکار ہے۔ اس میں بعض ایسے نکات لکھے ہیں جو دیگر اُردو تفاسیر میں بالکل نظر نہیں آتے۔
’’تفسیر سورہ ثلاثہ ‘‘ مولانا کی پانچویں تفسیری تصنیف ہے۔ یہ ’’سورۂ نجم ‘‘،’’سورۂ الرحمن‘‘ اور’’ سورۃ الواقعہ ‘‘کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ یہ بیاسی صفحات پر مشتمل تفسیر ۱۹۴۰ء میں مولانا نے خود شائع کی۔ریاض الحسنات مولانا کی چھٹی تصنیف پانچ سورتوں السجدہ ،یٰسین ،الملک ،نوح اور المزمل کے ترجمہ اور اہم حواشی کے ساتھ پہلی مرتبہ ۱۹۴۶ء میں’’ پنجسورہ محشیٰ ‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔
مولا نا کی ساتویں تصنیف’’ حلاوۃ الایمان بتلاوۃ القرآن ‘‘ ایک رسالے پر مشتمل ہے۔ یہ رسالہ قرآن کے فضائل و آداب ،قرات و تجوید او رمخارج حروف کا بیان ہے۔ یہ رسالہ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ آٹھویں تصنیف ’’تفسیر القرآن ‘‘ ہے۔ جس میں تفسیر قرآن کے وہ اصول جو متقد مین نے بیان کیے ہیں ان تمام اصول و ضوابط کو جمع کر دیا گیا ہے۔ بعض دیگر قرآنی مباحث بھی اس میں تحریر فرمائے ہیں۔ ’’تائید القرآن‘‘ مولانا کی نویں تصنیف ہے۔ یہ کتاب عیسائی اکبر مسیح کی کتاب ’’تاویل القرآن‘‘ کے جواب میں لکھی جس میں اکبر مسیح نے قرآن کو ہدف اعتراض قرار دیا ہے۔ آپ نے اس کا عالمانہ و محققانہ جواب ’’تائید القرآن‘‘ کے نام سے لکھا جو رسالہ ’’الھادی‘‘سیالکوٹ میں ۱۹۰۵ء سے مسلسل بالاقساط چھپتا رہا او رمسٹر اکبر مسیح کی زندگی میں چھپا اور مسیحی رسالہ ’’ترقی و تجلی‘‘ کے تبادلہ میں عیسائیوں کو پہنچایا جا تارہا۔ بعد میں یہ کتاب باقاعدہ ۲۹۹ صفحات میں شائع ہوئی۔ جمع و تالیف قرآن کے متعلق یہ ہندوستان کی سب سے پہلی کتاب ہے۔(۲۸)
’’اعجاز القرآن‘‘ مولانا کی دسویں تصنیف ہے جس میں مولانا نے اکبر مسیح کی کتاب ’’تنویر الا ذہان فی فصاحتہ القرآن ‘‘ کا جواب دیا ہے۔ ۱۴۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔’’تعلیم القرآن‘‘ مولانا موصوف کی گیارہویں تصنیف ہے جس میں قرآن مجید کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔ یہ کتاب ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی۔
’’اربعین نبویہ‘‘ مولانا سیالکوٹی کی چالیس صفحات پر مشتمل بارہویں تصنیف ہے۔ یہ کتاب چالیس احادیث نبویہ کا مجموعہ بمع ترجمہ و تشریح ہے۔ یہ پہلی دفعہ ۱۹۳۵ء میں مولانا نے خود شائع کی۔ ’’گلدستہ سنت‘‘ مولانا کی کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سنت نبویہؐ کا بیان ہے۔ مولانا کی چودھویں کتاب ‘’نماز مسنونہ مترجم‘‘ ہے ۔جس میں نمازِ مسنونہ کا طریقہ ،طہارت کے مسائل ،نماز عیدین کے مسائل ،قربانی کے مسائل،جمعہ و نمازِ جنازہ کے مسائل بڑی وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ ’’الحج و الثج‘‘ رسالہ مولانا سیالکوٹی نے حج اور قربانی کے مسائل کے بارے میں لکھا۔
’’فرقہ ناجیہ‘‘ رسالہ مولانا نے اہلِ حدیث اور حضرات حنفیہ میں طریقِ اعتدال پیدا کرنے کے لیے تصنیف کیا۔ اس میں فرقہ ناجیہ کی تحقیق ہے کہ وہ کون سا ہے۔؟ اور اجہتاد وتقلید کی حقیقت اورا ن کی حدود کیا ہیں؟ یہ رسالہ مولانا نے انگریزی ترجمہ کے ساتھ بھی شائع کیا۔ ’’قرۃ العین بمسرۃ العیدین‘‘ مولانا کی اکیسویں تصنیف ہے۔ جس میں عیدین کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ’’خطبہ رمضان‘‘ مولانا کی بائیسویں کتاب ہے۔ جس میں مولانا نے حضرت سلمان فارسیؓ کے ایک مشہور خطبہ حدیث کی تشریح کی ہے۔ اور اس میں بہت سے مسائل بیان کیے ہیں۔
’’تاریخ نبویؐ‘‘ مولانا کی تیئسویں کتاب ہے جو سیرت النبیؐ پر اختصار کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اردو زبان میں لکھی جانے والی اولین کتاب ہے۔(۲۹)
’’رحمتہ اللعالمین ‘‘،’’سیرت النبی‘‘ اور’’ سیرت خیر البشرؐ‘‘ سب اس کے بعد کی تصانیف ہیں۔’’ سیرت مصطفی‘‘ مولانا کی چوبیسویں تصنیف ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ دونوں جلدوں کے ۵۵۱صفحات ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی۔ مولانا نے سیرت ؐطیبہ کو چار جلدوں میں مکمل کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ صرف دو جلدیں ہی مکمل کر پائے اور وہ دونوں جلدیں شائع ہو گئیں۔اس کتاب میں سیرت النبیؐ کے ان پہلوؤں پر خصوصاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً رسولؐ اﷲ کے اجداد ،مذہب ،حضرت حلیمہؓ کے حالات اور حضرت ابو طالب کی بیوی کا نبیؐ سے شفیق رویہ ۔ سیرت النبیؐ کی تحریر سادہ زبان میں ہے۔ مولانا نے اپنی تمام تصانیف میں عام فہم اور سادہ اسلوب و بیان اختیار کیا ہے تاکہ قارئین کو بات سمجھنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کے اسلوب میں رنگین بیانی اورتکلف و تصنع کہیں بھی نہیں ملتا۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی طرز ِ تحریر و طریق بیان اور اسلوب کے حوالے سے سیرت مصطفی کی ایک مختصر تحریر ملاحظہ ہو:
سیرت و تاریخ کی کتابوں میں عبارت سادہ ہونی چاہیے تاکہ واقعہ اپنی صورت و نوعیت سے خودا ثر ڈالے، اگر مضمون کو عبارت آرائی سے رنگین کیا جائے تو اس میں مصنف کے تکلف و تصنع کا وہم ہو سکتا ہے۔ کہ اس نے اپنی صنعت سے واقعہ کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے جیسا کہ بہت سے ہمعصراس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، ہاں طرز بیان دلکش اور عبارت شستہ اور معنی خیز اور مناسب موقع ہونی چاہیے جس طرح سے پڑھنے والے کے دماغ میں واقعہ کی اصل صورت کا فوٹو اُتر سکے۔(۳۰)
مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کے سادہ اسلوب کے حوالے سے ’’سیرت ِمصطفیؐ‘‘ کے باب دوم سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
آنحضرتؐ کی ولادت کی خبر آپ ؐ کے ضعیف العمر دادا کو پہنچائی گئی جس پر وہ از حد خوش ہوئے کیونکہ آپ ؐان کے پیارے اور فوت شدہ بیٹے کے یادگار تھے۔ ۱۸ سالہ نوجوان بیٹے کی موت سے ضعیف العمر باپ کے دل پر جو زخم لگا تھا۔ آپؐ کی ولادت اس کے لیے مرہم اندمالی ثابت ہوئی۔ اس طرح عبدالمطلب کے دوسرے بیٹوں کے گھروں میں نہایت خوشی ہوئی ۔قدرتی طورپر آپؐ کا حلیہ خدو خال اور حسنِ خداداد اپنے والد کے حلیہ اور حسن کا جواب تھا۔(۳۱)
مولوی ابراہیم میر’’سیرتِ مصطفیؐ ‘‘میں اقعات پررائے زئی کے وقت علل و اسباب پر بحث کرتے ہوئے حالات و اجزائے واقعہ کے خلاف محض خود ساختہ وجوہ پر فیصلہ نہیں دیتے جیسا کہ یورپ کے بعض متعصب مصنفین خصوصاً سر ولیم میور کی روش تھی۔ مولانا نے واقعات کے بیان میں طوالت محل اور اختصار مخل سے پرہیز کیا ہے۔ بعض مورخین نے تاریخ و سیرت کوبعض شخصی حالات اور بعض حروب وفتوحات اور بعض اہم انقلابات کے بیان میں محصور کر دیا ہے اورا ن امور کے متعلق بعض طویل و بے سروپا قصے اور کہانیاں بھی بھر دی ہیں۔ مولانا کی سیرت پر لکھی کتاب مذکورہ بالا خامیوں سے پاک ہے۔ بعض مصنفین سیرت نے فن سیرت کو آنحضرتؐ کے فضائل و خصائل اور اہم تاریخی واقعات کے بیان تک محدود رکھا ہے لیکن’’ سیرت مصطفیؐ ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس میں فضائل و خصائل اور سیاسی و تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ اشاعت اسلام اورا س کے مناسب حال آیاتِ قرآنیہ کا نزول سب کچھ مذکورہ ملتا ہے۔ کیونکہ آنحضرت ؐکی بعثت سے اصل مقصود اعلائے کلمتہ اﷲ ہے گویا اس کتاب میں ضمناً ایک پہلو بھی قرآن شریف کے بعض مقامات کی تفسیر بھی ملتی ہے۔ جس طرح کہ’’ سیرت ابنِ ہشام‘‘ اور امام ابن قیمؓ کی ’’زاد المعاد‘‘ میں ہے۔
’’حبیب خداؐ‘‘ مولانا سیالکوٹی کی چھبیسویں تصنیف ہے۔ یہ بھی سیرت پر مختصر تصنیف ہے۔ اس کا مکمل نام ’’اوجز السیر فی احوال سید البشرؐ‘‘ہے۔ ’’اخلاق ِ محمدیؐ ‘‘ اور ’’اصلاحِ عرب ‘‘ تصنیفات مقاصد نبوت میں کامیاب ہونے کے بارے میں ہیں۔ اصلاح عرب میں رسولؐ کی بعثت سے قبل کی حالت بیان کی گئی ہے اور پھر آپؐ کے بعد عربوں میں جو زبردست اصلاحی انقلاب آیا اس کی تفصیل معرضِ تحریر لائی گئی ہے۔ ’’سراجاً منیرا‘‘ تصنیف میں نبیؐ کے فیوض روحانیہ بیان کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۴۴ء میں طبع ہوئی۔ ’’علمائے اسلام‘‘ رسالہ مولانا سیالکوٹی کے رسالہ ’’الھادی‘‘ میں شائع شدہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جن میں علمائے اسلام کی دینی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ دراصل اس رسالہ کا مقصد رسولؐ اﷲ کے فیو ض کی بقا کو بیان کرنا ہے۔
’’سیرتِ محمدیہؐ‘‘ مولانا کا ۲۴ صفحات کا رسالہ ہے جو اکتوبر ۱۹۳۱ء کوچھپا۔ یہ رسالہ ایک غیر مسلم معترض کے جواب میں لکھا گیا جس نے لکھا تھا کہ آپؐ بیس برس تک بھیڑ بکریاں چراتے رہے۔ یہ اعتراض مولانا کو انگریزی زبان میں ملا۔ مولانا نے اس کو جواب بنام’’سیرت ِ محمدیہؐ‘‘ لکھا اور اس کا ترجمہ کرا کر انگریزی میں بھی چھپوایا گیا ۔اسے ملا یا اور ڈچ زبان میں بھی پچپن ہزار کی تعداد میں طبع کیا گیا۔
’’بشارتِ محمدیہؐ‘‘ تصنیف اثباتِ نبوت کے ضمن میں بہت اہم ہے۔ اس میں دیگر مذہبی کتابوں سے رسولؐ کے بارے میں دی گئی بشارتوں کا ذکر ہے۔ اس میں الہامی مذاہب کے علاوہ ہندو مذہب کی کتاب سام وید سے بھی ایک بشارت کا ذکر ہے۔ جس کا جواب کسی ہندو نے نہیں دیا۔(۳۲)
’’وہ نبیؐ اور عہد کا رسول‘‘ تصنیف بھی بائبل کی بشارات پر مبنی ہے جو رسول اﷲ کے بارے میں آئی ہیں۔ یہ کتاب تاریخی اور جغرافیائی حوالہ جات سے مزین کی گئی ہے۔ یہ کتاب مولانا نے تبلیغ سنت کے دفتر سے ۱۹۴۶ء میں شائع کی ۔’’اسوہ حسنہ‘‘ مولانا کا سیرت رسولؐ کے حوالے سے سولہ صفحات پر مشتمل رسالہ ہے جو اکتوبر ۱۹۳۷ء میں چھپا۔ اس میں مولانا نے قرآن مجید کی روشنی میں مسلمانوں کو اتباعِ سنت کی تلقین کی ہے۔
’’احکام المرام با حیاء مآثر علما الا سلام‘‘ مولانا کی چونتیسویں کتاب ہے جس میں بائیس فقہا و محدثین کے حالات بیان کے گئے ہیں۔ یہ کتاب ۱۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ۱۹۰۶ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب دراصل مولانا میر کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ ’’الھادی‘‘ سیالکوٹ کی جلدا شمارہ ۴ تا ۱۲ اور جلد ۲ کے شمارہ ۱ تا ۱۱ میں شائع ہونے والے مضامین پر مشتمل ہے۔ ’’زاد المتقین‘‘ رسالہ میں مولانا نے اُمہات النبیؐ اور ازدواج مطہرات کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ رسالہ مولانا نے ’’الھادی ‘‘ کے دفتر سے ۱۹۴۲ء میں شائع کی۔
’’تاریخ اہلِ حدیث‘‘ کتاب مولانا نے اہلِ حدیث فکر کے بارے میں پیدا شدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے تحریر کی ۔ جس کے حصہ اول میں رسولؐ کے بعد ملت اسلامیہ میں مختلف فرقوں کا ظہور اس کی وجوہات اور ان کے عقائد بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں علم حدیث کی تدوین کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے اور تیسرے حصے میں ہندوستان کے علمائے اہل حدیث کی خدمات و حالات کا جائز ہ لیا گیا ہے۔ ’’خیرا لخلائق و الخصائل ‘‘ رسالہ مولانا نے ۱۹۴۳ء کو تحریر کیا ۔ جس کو ’’سیرت مصطفیؐ‘‘ جلد دو م کے تتمے کی حیثیت حاصل ہے۔ ’’تحفتہ الا ذکیا ء وطرفتہ الا صفیاء فی الا عتبار وا لا اقتباس با حوال الا نبیاء ‘‘ رسالے میں مولانا نے وضاحت کی ہے کہ انبیاء کرام کو دین و دنیا کے ہر معاملے میں ہادی و رہنما ماننا چاہیے ۔یہ رسالہ غیر مطبوعہ ہے۔
’’انارۃ المصابیح لا داء صلواۃ التراویح ،فضائل شعبان‘‘ ،’’برکات الصلوۃ‘‘ ،’’نمازِ تہجد‘‘ ،’’ثبوت جنازہ‘‘،’’رسالہ یک روزہ‘‘ ،’’ نمازہ غائب برائے جنازہ غائب‘‘ ، اور’’ انہتر خصائل ایمان‘‘ مولانا سیالکوٹی کی فضائل و عبادات سے متعلقہ تالیفات ہیں جو ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۵ء تک سیالکوٹ سے طبع ہوئیں۔’’شہادت القرآن ‘‘ حصہ اول کتاب میں مولانا نے حضرت عیسیٰؑ کی حیات او ررفع آسمانی کا ذکر کیا ہے ۔مرزا قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع آسمانی کا ذکر کیا ہے ۔ مرزا قادیانی نے حضرت عیسی ٰ علیہ اسلام کی حیات اور ارفع آسمانی سے انکار کیا اور خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ مولانا سیالکوٹی نے مذکورہ کتاب میں حضرت عیسیٰؑ کے رفع جسمانی کو قرآن کی نو آیات سے ثابت کیا ہے۔ یہ بحث مکمل ،مدلل اور سیر حاصل ہے ۔یہ کتاب پہلی بار ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔
’’شہادت القرآن ‘‘ حصہ دوم میں مولانا میر نے ان تیس دلائل کا جواب دیا ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت عیسیٰؑ کی وفات قبل النزول پر بزعم خود قرآن سے پیش کیے، یہ حصہ مرزا قادیانی کی زندگی ہی میں ۱۹۰۵ء میں طبع ہوا مگر وہ اس کا جواب نہ لکھ سکا۔ عصمتِ انبیاتصنیف مولانا نے عیسائی مصنف کی کتاب ’’بے گناہ نبی‘‘ اور پادری اکبر مسیح کی کتاب ’’انکارِ عصمت انبیا ‘‘ کے جواب میں لکھی کیوں کہ ان کتب میں حضرت عیسیٰؑ کے علاوہ اکثر انبیا کو گناہ گار لکھا گیا تھا۔ مولانا نے تمام انبیا کو معصوم ثابت کیا ہے۔ ’’عصمت النبیؐ ‘‘ ،’’عصمت ِنبوتؐ‘‘ اور’’ کسر الصلیب‘‘ تینوں کتب مولانا نے عیسائیت کے رد میں لکھی ہیں۔ ان میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب نہیں دی گئی تھی۔ ’’آئینہ قادیانیت‘‘ اور ’’مرقع قادیانیت‘‘ مولانا نے قادیانیت کے حوالے سے لکھی ہیں ۔
’’پیغام ِ ہدایت در تائید مسلم لیگ‘‘ مولانا سیالکوٹی کے گیارہ مضامین کا مجموعہ ہے جو ’’الھادی ‘‘ میں شائع ہوئے۔ مولانا سیالکوٹی مسلم لیگ کے سر گرم کارکن تھے او ریہ مضامین کانگریس کی مخالفت اور مسلم لیگ کے حق میں لکھے جو ایک مجموعے کی صورت میں بھی شائع ہوئے۔’’تائید مودودی در مخاطبت مودودی‘‘ مولانا سیالکوٹی کے خطوط کا مجموعہ ہے جو بعض مسائل میں مولانا سیالکوٹی کو مولانا مودودی سے اختلاف تھا۔ انھوں نے ۱۹۴۶ء میں مولانا مودودی سے خط و کتاب کی ۔اس مجموعہ میں وہ تمام خطوط جمع ہیں۔ یہ مجموعہ غیر مطبوعہ ہے۔’’فلسفہ ارکانِ اسلام ‘‘تصنیف میں مولانا سیالکوٹی نے ارکانِ اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے۔’’ توحیدا لہی اور مسنون زندگی ‘‘میں مولانا نے بتایا ہے کہ توحید یہ ہے کہ اپنی زندگی کو نبیؐ کے تابع کیا جائے ۔’’احیاء ا لمیت ‘‘ کتاب مولانا سیالکوٹی نے آئمہ اہل سنت اور آئمہ اہلِ بیت کی تعظیم وتکریم کے موضوع پر لکھی ہے۔
سلم الوصول الی اسرار اسراء الرسولؐ، الخبر الصیح عن قبر المسیح ، نزول الملالکتہ والروح الی الارض، رسائل ثلاثہ ،صدائے حق ،تردید مغالطاتِ مرزائیہ ،ختم نبوتؐ، ختم نبوتؐ اور مرزا قادیانی ،قادیانی مذہب، خلاصہ مسائل قادیانیہ ،فیصلہ ربانی ،برمرگ ِ قادیانی ،رحلت قادیانی بمرگِ ناگہانی ،تبصیر بخواب اشتہار تنویر، الکواکب المضیتہ لا زالتہ شبہات الشعیہ ،خلافت راشدہ ،قوم و مذہب ،الخیر الجاری ،نعم الرقیم فی مولد النبیؐ، افتراق اُمت اور طریق سنت ،المحقق ھو الا وّل اور العجالۃالخضریتہ فی جمع الرسالتہ والبشریتہ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی مناظرانہ اور عقائد سے متعلقہ تصانیف ہیں۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کا تفسیر قرآن مجید کا اسلوب کچھ یوں ہے کہ ہر آیت کا ایک الگ باب الگ نام سے قائم کرتے ہیں۔ جس میں ہر لفظ کی خطی ترکیب اور اس کی لغوی تحقیق و تشریح کرتے ہیں اور اکثر لغوی بحوث میں عربی شاعری سے استشہاد بھی کرتے ہیں ، صرفی و نحوی تحقیق اور بلاغی نکات کا بیان کرنے کے بعد الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے اسرارو حکم کی وضاحت اور ضروری فقہی نکات پر مدلل بحث کرتے ہیں۔ جہاں کہیں عربی عبارت بطور اقتباس درج کی ہے۔ اس کے اُردو ترجمہ کا بھی التزام کیا ہے اور اس کا حوالہ بھی متن کے اندر ہی درج کیا ہے۔ مولانا پنجابی زبان کے شاعر تھے چنانچہ اس ادبی ذوق کا رنگ ان کی تفسیر میں بھی جھلکتا ہے اور اکثر مقامات پر بحث کے خاتمہ پر فارسی اور اردو اشعار نظر آتے ہیں۔
ہر مفسر اپنے ذوق و رجحان کے مطابق تفسیر کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں تفاسیر کے اسلوب میں تنوع نظر آتا ہے۔ کہیں محدثانہ رنگ غالب ہے تو کہیں ادیبانہ اسلوب اور کہیں متکلمانہ انداز نظر آتا ہے۔ لیکن مولانا سیالکوٹی نے کسی ایک منہج و رجحان کو نہیں اپنا یا بلکہ تمام مسالک کی تفسیر کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ اسی لیے اس میں حدیث و سنت سے استدلال بھی ہے اور بلاغت کی ابحاث بھی ،صرفی و نحوی نکات کا بیان بھی ہے اور متکلمانہ مجادلہ بھی ،سلف کے مقرر کردہ تفسیر قرآن کے اُصول مد نظر رکھتے ہوئے تفسیر بالرائے سے گریز کیا ہے۔ مگر تفسیر کو متقدمین کے بیان تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے زمانے کی ذہنیت و روش کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ براہین منقولہ و معقولہ دونوں کی مدد سے اپنے دور میں پیدا ہونے والے انکارِ حدیث اور ختم نبوت جیسے فتنوں سے پیدا ہونے والے شکو ک وشبہات کا ازالہ کیا ہے۔
مولانا سیالکوٹی کی تفسیر قرآن میں جہاں کہیں علمی بحث طویل ہو جاتی ہے وہاں بحث کے آخر میں تتمہ بحث کے عنوان سے تمام بحث کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیتے ہیں تاکہ قاری کا ذہن اصل موضوع تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکے۔ نیز مقصودِ مخاطب کو طوالت بحث ـذہن سے محو نہ کر دے۔ مثلاً سور ہ فاتحہ کی تفسیر کے چوتھے جز میں (مالک یوم الدین) کی تفسیر میں اُخروی جزا و سزا کی بحث صفحہ ۱۸۴ سے ۲۲۷ تک چلتی ہے ۔اس کا لب لباب آخر میں انھوں نے ایک صفحہ میں بیان کر دیا ہے۔ اس طرح دوسرے جز میں (الحمد اﷲ ) کی تفسیر صفحہ ۱۱۶ تا ۱۶۸ تک ۵۲ صفحات پر محتوی ہے۔ چنانچہ جز کے آغاز میں اس آیت کا سادہ اردو ترجمہ تو دیتے ہیں ۔تفسیر کے خاتمے پر ’’الاجمال بعد التفصیل ‘‘کے عنوان سے ترجمہ کو یوں جامع کلمات میں دیا ہے کہ ہر آیت کا مفہوم بھی واضح ہو جائے اور آیات کا باہمی ربط و نظم بھی اور باعث اختصار حفظ میں سہولت بھی ہو۔ تفسیر میں مولانا جہاں کہیں عربی اقتباس دیتے ہیں ۔اس کا ترجمہ اُردو مع حوالہ متن کے اندر ہی درج کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کے حوالہ میں صرف سورت کا نام اور پارہ کا نمبر ذکر کرتے ہیں آیت یا رکوع کا نمبر درج نہیں کرتے۔ جہاں تک احادیث نبویہؐ کے حوالہ کا تعلق ہے کبھی صرف کتاب کانام ذکر کرتے ہیں اور کبھی جلد نمبر ۱ اور صفحہ نمبر بھی دے دیتے ہیں اور بعض اوقات تو موئف کا نام بھی ذکر کر دیتے ہیں جب کہ کچھ مقامات پر پور نام بھی نہیں لکھتے مثلاحصن الحصین کو صرف الحصن یا تیسرا الوصول کی بجائے صرف تیسر ہی لکھنے پر اکتفا کیا ہے۔(۳۳)
مولانا سیالکوٹی تفاسیر سے بالواسطہ اور براہ راست ہر دو طرح سے اقتباس لیتے ہیں،براہ راست اقتباس لینے کی صورت میں اقتباس سے پہلے مفسر کا نام ذکر کرتے ہیں۔ جب کہ اقتباس کے بعد حوالہ میں تفسیر کا نام جلد نمبر اور صفحہ نمبر درج کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر براہ راست اقتباس کی بجائے صرف مفہوم ہی کو اپنے لفظوں میں بیا ن کرتے ہیں۔ اس صورت میں فٹ نوٹ پر مآخذ کا ذکر کرتے ہیں۔ جب ایک ہی مضمون و مفہوم ایک سے زیادہ تفاسیر میں پاتے ہیں تو ایک معروف تفسیر سے اقتباس لے کر حاشیہ میں دیگر تفاسیر کا ذکر کر دیتے ہیں۔ مثلاً (غیر المغضوبِ علیھم ) کی تفسیر میں علامہ زمحشری ؒ کی’’ تفسیر الکشاف‘‘ سے اقتباس لیتے ہیں۔(۳۴)
جہاں تک شروحات کتب احادیث و کتب فقہ وغیرہ کا تعلق ہے تو مصنف کا نام اقتباس سے پہلے ذکر کرتے ہیں جب کہ اقتباس کے بعد حوالہ دیتے ہوئے جلد نمبر اور صفحہ نمبر لازماً درج کرتے ہیں اور بعض مقامات پر مطبوعہ دہلی یا مصر بھی لکھا ہے۔ مگر سالِ اشاعت کا کہیں ذکر نہیں ،مثلاً ’’فتح الباری ‘‘کا حوالہ میں یوں اندراج ہے ۔(۳۵)فتح الباری مطبوعہ دہلی جز ۳،ص:۴۲۶،اسی طرح ابم قیم کی’’ اعلام الموقعین ‘‘سے اقتباس لینے کے بعد حوالہ یوں درج کرتے ہیں۔ (۳۶)اعلام الموقعین ،جلد ۲،ص:۴۔جہاں ضروری سمجھیں تشریح کو صفحہ کے آخر پر حاشیہ میں بیان کر دیتے ہیں۔ مثلاً قرات فاتحہ خلف الا مام کی دلیل کے طورپر پیش کی جانے والی حدیث عبادہ بن صامتؓ (۳۷) کے متعلق امام بیہقیؒ کی توضیح بیان کرنے کے بعد حاشیہ میں اس توضیحی عبارت سے متعلقہ ضروری تشریح بھی دیتے ہیں۔(۳۸)
مولانا ابراہیم میرؒ کی تمام تفاسیر قرآن میں منطقی ترتیب اور نظم موجو د ہے۔ بیانِ مقصود میں تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور تمام عبارت باہم مربوط و منظم ہے۔ بے ساختگی کے باوجود جملوں اور الفاظ میں عدم تکرار ہے اگرچہ تسہیل عبارت کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور اکثر عبارت آسان اور عام فہم ہے۔ مگر بعض مقامات پر عبارت میں قدرے مشکل الفاظ کا انتخاب بھی نظرآتا ہے۔مثلاً:
خداوند! میں کس دل اور کس زبان سے تیرا شکر کروں کہ باوجو د ہجوم ،ہموم و غموم ،تواتر امراض و احزان ،کثرت اشغال و اسفار ،وفور تکاسل و تانی اور عموم تسویف و تعویق جو اکثر میرے شامل حال رہتے ہیں تو نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھ ناتواں کو توفیق بخشی اور ہمت دی کہ میں اس تفسیر کوا نجام دے سکا۔(۳۹)
۱۶۔ عبدالرشید عراقی ’’النبلاء فی تراجم العلماء ‘‘،لاہور،بیت الحکمت ،۲۰۰۴ء ،ص:۲۸۴
۱۷۔ اسحاق بھٹی،’’ برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن‘‘، لاہور ،مکتبہ قدوسیہ ،۲۰۰۵ء ،ص:۴۷
۱۸۔ عبدا لرشید عراقی ،’’النبلاء فی تراجم العلماء‘‘ ،ص:۲۸۴
۱۹۔ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی ’’شہادت القرآن‘‘ ،سرگودھا ،مکتبہ ثنائیہ، ۱۴۲۲ھ ،ص:۱۰
۲۰۔ مولوی ابراہیم میر، ’’تفسیر ثلاثہ ‘‘ مقدمہ نجم الھدی ،سیالکوٹ ،الھادی، ۱۹۵۳ء ،ص:۲۵
۲۱۔ مولوی ابراہیم میر ’’النبلاء فی تراجم العلماء ‘‘،ص:۲۸۴
۲۲۔ مولونا محمد عبدہ الفلاح ’’مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی‘‘مشمولہ ’’سوانح حیات مولانا ابراہیم میر‘‘،فیصل آباد، جامع تعلیم القرآن ،۱۹۹۴ء ،ص:۴۲
۲۳۔ اشفاق حسین ’’فیض احمد فیض ،شخصیت اور فن ‘‘ ،مقالہ برائے ایم ۔اے اردو کراچی ، جامعہ کراچی ۱۹۷۴ء ،ص:۶
۲۴۔ ایضاً،ص:۷
۲۵۔ ڈاکٹر وحید قریشی ’’پیش لفظ‘‘ ،مشمولہ ’’باقیاتِ تاثیر‘‘ ،از مجید احمد تاثیر سیالکوٹی ،لاہور،الوقار پبلی کیشنز ،۲۰۰۰ء ،ص:۵
۲۶۔ عبدالرشید عراقی ،’’تذکرہ النبلاء ‘‘،ص:۲۸۴
۲۷۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی ’’مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی‘‘ مشمولہ سیرت المصطفیٰؐ از مولوی ابراہیم میر، سیالکوٹ ،مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سیالکوٹ، ۲۰۰۲ء ،ص:۱۴،۱۵
۲۸۔ مولوی ابراہیم میر، ’’تبصیر الرحمن‘‘ ،ص:۱۸۸
۲۹۔ مولوی ابراہیم میر’’سیرت مصطفی‘‘ ،دیباچہ طبع ثانی ،ص:ج
۳۰۔ مولوی ابراہیم میر’’طرزِ تحریر و طریق بیان‘‘ ،مشمولہ ،’’سیرت مصطفیؐ‘‘ ،ص:۲۳
۳۱۔ مولوی ابراہیم میر، ’’سیرت مصطفیؐ‘‘،ص:۱۵۴
۳۲۔ ایضاً،ص:۲۲۳
۳۳۔ مولوی ابراہیم میر،’’ تفسیر واضح البیان ‘‘ ،ص:۱۳۲
۳۴۔ ایضاً،ص:۴۲۶
۳۵۔ ایضاً،ص:۴۹۲
۳۶۔ ایضاً،ص:۴۹۴
۳۷۔ مولوی ابراہیم ’’لا صلاۃ لن لم یقر ا بفاتحۃ الکتاب‘‘ص:۱۰
۳۸۔ تفسیر واضح البیان،ص:،۵۳۱
۳۹۔ ایضاً،ص:۶۱۵

محمد الدین فوق

محمد الدین فوق(۱۸۷۷۔۱۹۴۵ء ) ایک شاعر کے ساتھ ساتھ مورخ صحافی ،سوانح نگار، مصلح ناول نگاراور ڈرامہ نگار کے طورپر بھی اردو ادب میں اپنا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ کسی بھی صنفِ سخن میں لکھتے ہوئے فوق کی شخصیت میں مورخ اور مصلح یک جان ہو کر ہمیشہ موجود رہے۔ صحافت، سوانح اور شاعری میں بھی تاریخ کے ساتھ ان کی وابستگی پوری طرح محسوس ہوتی ہے۔ قوم و معاشرہ کی اصلاح اور فلاح کا جذبہ ان کے خون میں گُھلا ہوا تھا۔ تاریخ نویسی کے دوران بھی یہ لگن موجزن رہی ۔ان کی ذات مورخ اور مصلح کا ایک مرقع ہے۔ اپنے زمانے میں وہ ایک بے حد متاثر کرنے والے انسان کے طورپر معروف ہوئے۔ بالخصوص کشمیر ،بالعموم برصغیر اور کسی حد تک عالم اسلام کی پرانی بازیافت ان کی منزل تھی۔ علمی و ادبی سرگرمیوں کے علاوہ وہ عملی طورپر بھی مختلف تنظیموں اور تحریکوں میں شامل رہے۔ تاریخ نویسی سوانح نگاری ، شاعری اور صحافت کے علاوہ فوق نے ناول ،ڈرامے اور حکایات لکھیں۔ تاریخ نویسی اور سوانح نگاری سے پہلے فوق کی افسانوی نثر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
فوق کا پہلا ناول ’’انار کلی ‘‘ ۹۰ صفحات کی ضخامت پر مشتمل ہے۔ یہ ناول پہلی مرتبہ ۱۹۰۰ء میں مترولاس لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ فوق کا دوسرا ناول ‘‘اکبر‘‘۱۹۰۹ء میں راجپوت گزٹ مشین پریس لاہور کے زیرا ہتمام شائع ہوا۔ اس کی ضخامت ۱۷۴ صفحات ہے۔ فوق کا تیسرا ناول ’’رام کہانی‘‘ پہلی بار ۱۹۰۰ء میں مترولاس پریس لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ یہ ناول ۸۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ فوق کا چوتھا ناول ’’ناکام‘‘ صدائے ہند پریس لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ یہ ناول ۱۰۸صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کا پانچواں ناول ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ راجپوت پرنٹنگ پریس لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس کی ضخامت ۱۱۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ تاریخ انسانی میں حکایت کی روایت بہت پرانی ہے۔ قصہ کہانی ،واقعہ اور دلچسپ بات مزیدار اسلوب میں پیش کی جائے تو وہ حکایت کا روپ دھار لیتی ہے۔ فوق نے حکایات کے حوالے سے تین کتابیں لکھی ہیں اور تینوں بچوں اور طالب علموں کے لیے ہیں۔ ’’حکایاتِ کشمیر‘‘، ’’سبق آموز کہانیاں ‘‘ اور دبستانِ اخلاق ‘‘ تین حکایات ہیں۔ ’’حکایاتِ کشمیر‘‘ ظفر برادرز لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ۲۳ حکایات ہیں جو کشمیر کے راجوں ،مہاراجوں اور بادشاہوں سے متعلق ہیں۔’’سبق آموز کہانیاں ‘‘ بھی ظفر برادرز لاہورکے زیر اہتمام پہلی بار ۱۹۲۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ۱۲۸ صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے ۱۱۲ صفحات ہیں اور اس میں ۳۶ کہانیاں ہیں جو دنیا بھر کی تاریخ سے لیے گئے واقعات پر مشتمل ہیں۔
’’دبستانِ اخلاق‘‘ پہلی بار ۱۹۳۵ء میں مولوی فیروز سنز اینڈ پبلشرز لاہو رکے زیر اہتمام شائع ہوئی جو ۱۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ۵۹ چھوٹی چھوٹی کہانیاں شامل ہیں۔ فوق نے ’’زمیندار کی سرگزشت‘‘ (ڈرامہ) ۱۹۴۰ء میں لکھا جو غیر مطبوعہ ہے۔ فوق نے اس کا مسودہ کتابی انداز میں مرتب کر دیا تھا۔ یہ ڈرامہ دیہی زندگی کی فلاح و بہبود کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
فوق نے افسانوی ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ نگاری اور سوانح نگاری پرتصنیفات بھی لکھیں۔ فوق کی پہلی تاریخی کتاب ’’مکمل تاریخ کشمیر ‘‘ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد ۱۹۱۰ء مئی میں دوسری جلد دسمبر ۱۹۱۰ء اور تیسری جلد جولائی ۱۹۱۱ء میں مکمل ہوئی۔فوق کی دوسری تاریخی کتاب ’’تاریخِ اقوام کشمیر‘‘ بھی تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول ۱۹۳۴ء ،جلد دوم ۱۹۴۳ء اور جلد سوم ۱۹۴۶ء میں ظفر برادرز لاہور سے شائع ہوئیں۔فوق کی تیسری تاریخی کتاب ’’تاریخ اقوام پونچھ‘‘ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول ۱۹۳۶ء اور جلد دوم ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئی۔ فوق کی ’’تاریخ لاہور‘‘۱۹۲۰ء میں ظفر برادرز لاہور سے شائع ہوئی۔ ’’تاریخ شالا مار ‘‘ پہلا ایڈیشن فروری ۱۹۰۰ء میں چھپا۔ ’’یادِ رفتگاں‘‘ فوق نے ۱۹۰۴ء میں سٹیم پریس لاہو سے شائع کی۔ ’’تذکرۃ العلماء وا لمشائخ لاہور‘‘۱۹۲۰ء میں گلزار محمد ی سٹیم پریس لاہور سے طبع ہوئی۔ فوق کی ’’لاہور عہدِ مغلیہ میں ‘‘ تصنیف ۱۹۲۷ء میں ظفر برادرز لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ مآـثر لاہور ۱۹۴۴ء میں طبع ہوئی۔ ’’تاریخ ریاست ہائے بگھیل کھنڈ‘‘ مع ’’تحقیقات طلسم بکاؤلی‘‘ کتاب پنجہ فولاد پریس لاہور سے پہلی بار ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی۔ ’’تاریخ انگورہ ‘‘ ظفر برادر ز سے ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئی۔ ’’وجدانی نشتر‘‘ انجمن معین الا سلام نے لاہور سے ۱۹۱۵ء میں طبع کی۔ ’’تاریخ حریت اسلام ‘‘ اور ’’تاریخ کا روشن پہلو‘‘ ظفر برادرزسے ۱۹۲۱ء اور ۱۹۲۹ء میں شائع ہوئیں۔ ’’نواب دبیر الدولہ‘‘ اور ’’تذکرۃ الصالحین‘‘ ہندوستان سٹیم پریس سے ۱۹۱۲ء میں طبع ہوئیں۔ ’’مشاہیر کشمیر ‘‘ اور ’’ملا دو پیازہ‘‘ ظفر برادرز لاہور سے ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئیں۔ ’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ اور سلطان زین العابدین دفاعِ عامہ سٹیم پریس سے ۱۹۱۰ء میں طبع ہوئیں ۔ ’’حیاتِ مولانا روم ‘‘اور ’’شمس تبریز‘‘ جلالی سٹیم پریس منڈی بہاؤ الدین سے ۱۹۱۴ء میں شائع ہوئیں۔ ’’ابراہیم ادھم ‘‘ راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور سے ۱۹۱۴ء میں طبع ہوئی ۔ ’’داتا گنج بخش‘‘ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور سے ۱۹۱۴ء میں شائع ہوئی۔ ’’خاتونِ جنت‘‘ مطبوعاتِ فوق منڈی بہاؤ الدین سے۱۹۱۴ء میں شائع ہوئی۔ ’’حیاتِ نور جہاں و جہانگیر ‘‘ راجپوت پریس لاہور سے ۱۹۱۴ء میں طبع ہوئی۔
’’ٹوڈرمل ‘‘ کتب خانہ جڑی بوٹی لوہاری دروازہ سے ۱۹۱۴ء میں طبع ہوئی۔’’مہاتما بدھ‘‘ کا پردازان ناول ایجنسی لاہور سے ۱۹۱۶ء میں شائع ہوئی۔ ’’حیاتِ فرشتہ ‘‘ اور ’’تذکرہ خواتین دکن‘‘ گلزار محمد ی پریس لاہو رسے ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء میں طبع ہوئیں۔ ’’محب وطن خواتین ہند‘‘ ،’’سعد زا غلول پاشا‘‘ ،’’مُلّاعبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ ظفر برادرز لاہور سے ۱۹۲۱ء ، ۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئیں۔ ’’تذکرہ رہنمائے ہند‘‘ اور ’’بتانِ حرم‘‘ ظفر برادرزلاہو رسے ۱۹۲۶ء اور ۱۹۲۷ء میں طبع ہوئیں۔ ’’فاتح ملتان‘‘ حکیم رام کشن جنرل بک مرچنٹ لاہور سے ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ ’’راجہ بیربر‘‘ کشو ررام جنرل بک مرچنٹ لاہور سے ۱۹۲۸ء میں طبع ہوئیں۔ ’’شبابِ کشمیر‘‘ اور’’لہ عارفہ‘‘ ظفر بردارز لاہور سے ۱۹۲۹ء میں شائع ہوئی۔ ’’خواتینِ کشمیر‘‘ علی محمد تاجر کتب سری نگر سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’اہلیا بائی‘‘ اتحاد پریس بل روڈ لاہور سے ۱۹۴۱ء میں طبع ہوئی۔ ’’ہندوستان وی ۔ سی ‘‘ اور ’’تاریخ بڈ شاہی‘‘ ظفر برادرز لاہور سے ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۴ء میں طبع ہوئیں۔ ’’حسن بصری‘‘ اور ’’مجدد الف ثانی‘‘ مطبوعات فوق منڈی بہاؤ الدین سے شائع ہوئیں۔ ’’سر جگدیش چندر بوس‘‘ ،’’تان سین‘‘ اور ’’مہاراجہ رنجیت سنگھ ‘‘ علی محمد تاجر کتب سری نگر سے شائع ہوئیں۔’’کشمیر کا نادرشاہ ‘‘ ،’’موجد اور ایجادیں ‘‘ ،’’مہاراجہ گلاب سنگھ ‘‘ ،شیخ نور الدین ولی ‘‘اور ’’راجہ سکھ جیون مل‘‘ فوق کی غیر مطبوعہ کتابیں ہیں جو ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۲ء میں تحریر کی گئی ہیں۔ ’’سرگزشت فوق ‘‘ خود نوشت تصنیف ہے جو غیر مطبوعہ ہے۔ ’’مرزا الشعرائے کشمیر‘‘ فوق کی آخری نثر ی تصنیف ہے جو شعرائے کشمیر کا تذکرہ ہے یہ کتاب فوق کی وفات کے بعد ۱۹۶۶ء میں اتحاد پریس لاہور سے شائع ہوئی ۔’’سفر نامہ کشمیر‘‘ ،’’رہنمائے کشمیر‘‘ اور ’’شاہی سیر کشمیر‘‘کریمی پریس لاہور سے ۱۹۰۷ء ،۱۹۲۳ء اور ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئیں۔’’دیہاتی و پنچایتی سفر نامہ‘‘ ’’دیہاتی دنیا‘‘سری نگر سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہوئی۔ ’’سفر نامہ ڈھاکہ‘‘ کشمیری میگزین لاہورسے ۱۹۱۷ء میں شائع ہوئی۔ ’’زنانہ حاضر جوابیاں‘‘ ،’’دیوان حافظ کی تاریخی فالیں‘‘ اور’’ جغرافیہ ریاست‘‘ پونچھ ظفر برادرز۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۸ء میں شائع ہوئیں۔ ’’پنجہ فولاد ‘‘،’’کشمیری میگزین ‘‘ ،’’اخبار کشمیری ‘‘ ،’’طریقت ‘‘ اور’’نظام ‘‘ فوق کے رسائل وا خبارات ہیں جو لا ہور سے نکلتے رہے جب کہ ’’کشمیر جدید‘‘ سری نگر کشمیر سے نکلتا رہا۔ اس کے علاوہ فوق کے بہت سے ادبی مضامین ہیں جو کتابی شکل میں آنا ضروری ہیں۔
فوق کی ناول نگاری پر بات کرتے ہوئے یہ واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فوق کی ناول نگاری کے حوالے سے یہ امر تعجب خیز ہے کہ ان کے ناولوں کے بارے میں ادبی تاریخوں اور ناول کے تنقیدی جائزوں میں کوئی مواد نہیں ملتاجب کہ فوق کی دیگر حیثیات پر مشاہیر اور اہم ہم عصروں کی آرا موجود ہیں ۔ لیکن ناول نگاری کے فن پر کسی متعلقہ کتاب یا مضمون میں فوق کا ذکر نہیں ملتا۔ صرف ایک مضمون’’محمد دین فوق بحیثیت ناو ل نگار‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ جو کلیم اختر نے لکھا ہے(۴۰) یہ مضمون بھی فوق کی ناول نگاری پر ایک عمومی تبصرے سے زیادہ نہیں۔ اس بات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مورخ ،سوانح نگار، شاعر اور صحافی کے طور پر فوق کی حیثیت اس قدر اہمیت اختیار کر گئی تھی کہ ان کی ناول نگاری کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ورنہ ان کی شخصیت اور فن کے مطالعے اور تجزیے کے لیے ان کے ناول اور حکایات بھی معاون ہو سکتے ہیں۔
فوق اہم ناول نگار نہ تھے نہ ہی انھوں نے ناول نگاری میں کوئی نیا تجربہ کیا مگر ان کی تحریریں اردو ناول کی تاریخ و ارتقا کے سلسلے میں قابلِ مطالعہ چیز ہیں۔ فوق نے اُسی زمانے میں ناول نویسی شروع کی جب اُردو میں ناول کا آغا زہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی ۔فوق کے دو ناولوں پر ۱۹۰۰ء کا سال لکھا ہوا ہے۔ تاریخ و مہینہ درج نہیں۔لہذا یہ فیصلہ ممکن نہیں کہ ’’انار کلی‘‘ تاریخی ناول ہے اور ’’رام کہانی‘‘ معاشرتی ،فوق کے ناول اپنی حدود کے اندر کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتے ہیں۔اگر فوق نے صرف ناول لکھے ہوتے اور ان کی دوسری حیثیتیں زیادہ معروف نہ ہو جاتیں۔ تو وہ ناول نگارکے طورپر قابلِ ذکر حیثیت کے حامل ہوتے انھوں نے خود بھی اپنے ناول نگار ہونے کی حیثیت کو خا ص طور سے سامنے لانے کی کوشش نہیں کی ۔انھوں نے یہ سوچ کر ناول نہیں لکھے تھے کہ اُنھیں بڑا ناول نگار تسلیم کیا جائے۔
فوق نے سر سید ،شبلی ،حالی اور شرر کی اپنے اپنے میدان میں تقلید کی۔ حالی ،شبلی اور شرر نے تاریخ اسلام کی عظمتوں کی یاد تازہ کر کے مسلمانوں کے اندر جوش و جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ فوق نے تاریخ اسلام کے ساتھ مسلم ہندوستان کی تاریخ کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ فوق نے اپنے سماجی ناولوں میں پہلے سے موجود معروف انداز کی پیروی کی۔ ان کے سماجی ناول ان کے تاریخی ناولوں کے مقابلے میں نسبتاً کم درجے کی تصانیف ہیں۔ فوق کا تاریخی ناول’’اکبر‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
فوق نے تاریخ نگاری کی لگن میں کئی انداز اختیار کیے۔ انھوں نے جو سوانح عمریاں تحریر کی ہیں ۔ان میں قصوں کے ذریعے دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ متعدد سوانح عمریو ں میں سے تین سوانح عمریاں اکبر کے نورتنوں راجہ بیر بر ، راجہ ٹوڈر مل اور ملادوپیازہ کے بارے میں ہیں۔ راجہ بیربر اورملا دو پیازہ کی سوانح حیات مختلف واقعات اور لطائف سے ترتیب دے کر تحریر کی گئی ہے۔ زیادہ تر واقعات کا تعلق اکبر کے دربار سے ہے۔ اکبر اعظم کے ساتھ فوق کو قلبی لگاؤ تھا۔ فوق نے اکبر کے بارے میں ناول لکھ کر مسلم ہندوستان کے ایک بہت بڑے نمائندے اور متحدہ قومیت کے ایک بڑے ترجمان کی حیثیت سے اسے لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی ۔ فوق کے دل میں ناول لکھتے ہوئے اکبر کے ساتھ تمام نسبتیں زندہ تھیں۔ اور عہد اکبری کی مکمل تصویر ان کی آنکھوں میں موجود تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ شرر اور فوق میں بہت حد تک فنی اور فکری یگانگت دکھائی دیتی ہے۔ کلیم اختر اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
فوق ناول نویسی میں مولانا عبدالحلیم شرر سے متاثر نظر آتے ہیں۔ (۴۱) شرر نے تاریخ نویسی کی بنیاد رکھی اور اردو ناول کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ فوق نے نذیر اور شرر سے ملاقات کی تھی۔ انھوں نے شرر سے کشمیر کے پس منظر میں ناول لکھنے کی فرمائش بھی کی تھی۔ شرر بوجوہ یہ ناول نہ لکھ سکے۔(۴۲)
فوق نے اپنی اس خواہش کی تکمیل اپنے ناول ’’اکبر‘‘ کے ذریعے کی ۔ اس ناول کا آغاز ایک کشمیری نوجوان سدھا کی ایک گوشہ نشین اور اپنی منگیتر کے ساتھ ملاقات سے ہوتا ہے۔ بعد میں سدھا اکبر کے دربار میں پہنچتا ہے۔ کشمیر پر اکبر کے کامیاب حملے تک پورا ناول سدھا کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ فوق ،سدھا کو ’’ہمارا نوجوان‘‘ کہہ کر پکارتا ہے۔ ناول میں کشمیر میں طوائف الملوکی مسلمان حکمرانوں کی عیاشیوں اور ان کے خلاف ہندو امیروں کی سازشوں کی طرف بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ اس ناول کی صورت میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فوق نے ہر صنف سخن میں لکھتے ہوئے کشمیر کواپنے ساتھ رکھا ہے۔
فوق کا ناول ’’انار کلی‘‘ بھی اکبر کے عہد کا واقعہ ہے۔ ناول میں اکبر کا کردار نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ گویا فوق کے دونوں ناولوں کا تعلق عہدِ اکبری سے ہے۔ یہ دونوں ناول ایک مخصوص مغل عہد کے معاشرے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ تاریخی ناولوں میں مذکورہ عہد کا معاشرہ مکمل طورپر دکھائی نہ دے تو وہ کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معاشرتی ناولوں میں زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی تاریخ بھی بیان ہوتی چلی جاتی ہے۔
معاشرتی ناولوں میں نام فرضی ہوتے ہیں لیکن واقعات بہت حد تک صحیح ہوتے ہیں۔ اس بحث کی روشنی میں معاشرتی اور تاریخی ناولوں میں فرق اتنا زیادہ اہم نہیں رہتا۔ فوق کے ناول ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ میں جس مرکزی کردار کا تذکرہ ہے وہ ہر دور میں موجود رہا ہے یہ ایک ایسا کردار ہے کہ جب تک تعلیم عام نہیں ہوتی جدید سائنس کا نقطہ نظر لوگوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح کے نیم حکیم سے ہمارا واسطہ پڑتا رہے گا۔ فوق صاحب نے ایک عام شخص کو بتدریج حکیم صاحب اور پھر ڈاکٹر صاحب بنتے ہوئے دکھایا ہے۔ یہ شخص اپنے معاملات میں ایسا ماہر ہے کہ آخر وقت تک لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود فوق کا یہ ناول بھی کردار نگاری کے حوالے سے اپنا تاثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔ اس معاملے میں فوق بھی نیم حکیم ہی لگتے ہیں۔
’’مسٹر یز آف امر تسر‘‘ ناول میں امرتسر کے ایک ایسے خاندان کا حال بیان کیا گیا ہے جس کی عورتیں خراب ہیں ۔یہ گھرانہ بے راہروی کا ڈیرہ ہے۔ ایک ترقی پذیر معاشرے میں اس طرح کی مثالیں عام ہیں۔ ’’خانہ بربادی ‘‘ ناول میں ایک امیر کبیر گھر اپنے نفاق اور لڑائی جھگڑے کی بدولت تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اس ناول کے کردار غلط مشیروں کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں اور دولت کا زعم انھیں خود غرض لوگوں کی محبت میں مبتلا کر کے ذلیل و خوار کرتا ہے۔ یہ واقعہ بھی ہمارے ہاں کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات ہماری روزمرہ زندگی میں ہوتے رہتے ہیں۔ فو ق اپنے اردگرد کے ماحول میں چھوٹے چھوٹے واقعات چن چن کر ناول بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ جس واقعہ سے متاثر ہوتے ہیں اسے ناول بنا دیتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ایسے واقعات کا بھی انتخاب کرتے ہیں جن میں سانحہ بننے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ان کے ناول’’ناکام ‘‘اور ’’عصمت آرا ‘‘ اس طرح کے خاص مسائل پیش کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنیک بعض اوقات ایک کامیاب ناول کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ بالعموم ناول نگار واقعے کی سطحی جذباتیت کا شکار ہو کر اس کے پس منظر میں چھپی ہوئی حقیقتوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ خبر میں بھی کہانی ہوتی ہے مگر یہ کہانی فوری طورپر متاثر کرنے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ فوق صحافی بھی تھے وہ بیان واقعات میں ایک اکہری دلچسپی پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر وہ گہرائی جو کسی کہانی کو تخلیقی لہر عطا کرتی ہے۔ ان کے ناولوں میں کم کم دکھائی دیتی ہے۔ ان کے تاریخی ناول ’’اکبر‘‘ میں اسلوب و بیان کے حوالے سے خاصی توانائی نظر آتی ہے۔ اکبر اعظم اس ناول میں ایک عام انسان کی حیثیت سے متعارف ہوتا ہے۔ یہی تاریخ اور تاریخی ناول کا فرق ہے۔ فوق اکبر کو جس پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ پڑھنے والے کے دل میں بھی جاگ اٹھتی ہے۔ تاریخی ناول کا مقصد بھی یہی ہے’’ اکبر‘‘ فوق کا ایک کامیاب تاریخی ناول ہے۔ فوق اپنے ناول ’’انار کلی‘‘ میں انار کلی کے لیے کوئی خاص ہمدردی قاری کے دل میں پید اکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انار کلی سے انھیں کوئی ایسا لگاؤ بھی نہیں۔ البتہ ’’اکبر‘‘ میں کشمیری لڑکی اراوتی قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہتی ہے۔ وہ اپنے محبوب سدھا کی بے وفائیوں کا ذکر سننے کے باوجود شہزادہ سلیم کے مکمل اظہار محبت اور بے تاب آمادگیوں کے سامنے نا قابلِ تسخیر چٹان بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ انار کلی بھی محبت میں قربانی کے بعد مظلومیت کا پیکر بن جاتی ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں اراوتی شہزادہ سلیم کی محبت کو ٹھکرا کر ایک ان جانی مقبولیت کی علامت بنتی ہے۔ اراوتی کے ساتھ فوق کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک کشمیر ی لڑکی ہے۔ فوق کے معاشرتی ناولوں کے کرداروں میں سے کوئی بھی مولوی نذیر احمد کے کرداروں جیسی اہمیت حاصل نہیں کر سکا۔ فوق کے نسوانی کرداروں میں ایک بھی اصغری جیسا نہیں۔ البتہ یہ اہم ہے کہ فوق کے معاشرتی ناولوں کے کردار کسی کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں تو وہ نذیر احمد کے کردار ہیں۔ فوق کے کردار حسنِ اخلاق اور نیکی کے نمائندے بن کر رہ گئے ہیں اور باقی برائی اور بد اخلاقی کے ترجمان بن چکے ہیں۔ ’’عصمت آراء ‘‘ ،’’ناکام‘‘ ،’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ ،’’مسٹر یز آف امر تسر‘‘ اور ’’خانبربربادی ‘‘ کے کردار اس طرح کی نمایاں مثالیں ہیں۔ان ناولوں کا انداز اصلاحی ہے ۔باقاعدہ نتائج اخذ کر کے سماجی برائیوں سے اجتناب کرنے کے لیے تنبیہ کی گئی ہے۔ان کی دوسری تصانیف کی طرح ان کے ناول بھی اس ذہنی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس زمانے میں اصلاح معاشرہ کے لیے ناول ایک موثر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ فوق کا ناول ’’رام کہانی‘‘ ،’’غم نصیب‘‘ اور محروم تمنا‘‘ معاشرتی ناول ہیں مگر ان میں ایک رومانوی فضا فوق کے اسلوب کو ایک البیلا پن عطا کردیتی ہے۔ فوق کے تاریخی اور دوسرے ناولوں میں تمام کردار با ذوق لوگ ہیں۔ وہ اکثر اشعار میں باتیں کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اشعار بر محل اور موثر ہوتے ہیں۔ لیکن اشعار کی تکرار بیت بازی کا سماں پیدا کر دیتی ہے۔ فوق کو جتنے اشعار یاد ہیں وہ اپنے کرداروں کے مکالموں میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔فوق کے ہاں مکالموں میں اشعار کا استعمال طبیعت پر بار گزرتا ہے۔ فوق کے اپنے اشعار بھی خاصی تعداد میں ان ناولوں میں موجود ہیں ۔ اس طرح فوق کے ناولوں میں اپنے عہد کے معروف شعراکے اشعار کا ایک انتخاب موجود ہے لیکن کوئی ناول شعرا کا مجموعہ کلام تو نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کوئی کردار پوری پوری غزل باقاعدہ ترنم سے پڑھنا شروع کر دیتاہے۔ فوق کے ناول ’’ناکام ‘‘ میں یہ عمل کثرت سے دکھائی دیتا ہے۔ فوق اشعار کے ساتھ شاعر کا نام بھی لکھ دیتے ہیں تو یہ مکالمہ نہیں بن پاتا۔ اشعار کے استعمال سے ناول میں ماحول کی فضا بندی میں خلل پڑتا ہے۔ کبھی کبھی بے محل شعر عبارت میں اکھڑی ہوئی اینٹ کی طرح لگتا ہے۔ فوق کے ناولوں میں احسان شاہ جہان پوری کی غزلیں اور اشعار بہت زیادہ ملتے ہیں۔
فوق کے ناولوں میں مکالموں کی کثرت سے ڈرامے کا سا انداز پیدا ہو گیا ہے۔ فوق کے ناولوں کو تھوڑی سی کوشش کے بعد ڈرامے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ فوق کے ناولوں میں کہانی مکالموں کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔ بعض اوقات ان کے ناولوں میں مکالموں کے علاوہ صرف اتنی ہی بات تحریر کی گئی ہے جو صورت حال کی وضاحت اور منظر بدلنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ناول’’ اکبر‘‘ میں فوق کی مکالمہ نگاری کمال پر ہے۔ گیارہویں باب میں شہزادہ سلیم اور اراوقی کا مکالمہ بہت زور دار ہے۔ جس میں اراوتی اپنی وفا کی حفاظت کے لیے شہزادے کے اظہار محبت کے جواب میں احتیاط کا ایک خاص سلیقہ اپناتی ہے۔ ناول’’اکبر‘‘ میں اراوتی اپنے محبوب سدھا سے ان الفاظ میں مخاطب ہوتی ہے:
تمھاری محبت بھری باتوں پر کتنا ہی اعتبار کیوں نہ ہو۔ مگر کون جانتا ہے کہ آگرہ میں کونسی زبردست ترغیب تمھیں کشاں کشاں لیے جارہی ہے ۔ یک عشق و ہزار بد گمانی لیکن میں مانتی ہوں اور دل سے جانتی ہوں کہ سدھا اب بھی آئندہ بھی ہمیشہ کے لیے میرا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی حسین عورت نہیں ہے جو مجھ سے اس کے دل کو چھین کر لے جا سکتی ہو۔(۴۳)
بلا شبہ فوق کا ناول ’’اکبر ‘‘ ایک مکمل ناول ہے۔ شرر نے اپنے ایک ناول ’’فردوس بریں‘‘ کے ذریعے ناموری حاصل کی ۔ فوق کے ناول ’’اکبر‘‘ کے گہرے مطالعہ کے بعد ناول نگار کے طور پر ان کی بھی حیثیت متعین کی جا سکتی ہے۔ اس ناول کا پلاٹ اور اسلوب بیان خوبصورت اور جامع ہے۔ کرداروں کی تعمیر میں فوق نے مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ تاریخی کرداروں کو ماضی کی راہگزاروں میں اس طرح پیش کیا ہے۔ وہ لمحہ موجود کے ساتھ بھی مربوط ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’اکبر‘‘ میں کئی کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر کسی جگہ بھی مرکزی کہانی سے بہت دور نہیں جاتیں۔ آخر کار یہ سب کہانیاں مرکزی کہانی میں مل جاتی ہیں۔فوق کے معاشرتی ناول’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ میں بھی دو کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور وہ دونوں بھی ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ فوق نے اپنے ناولوں میں زبان کا خاص خیال رکھا ہے۔ ناول ’’اکبر‘ ‘ میں فوق نے اس فن کے لیے اعلیٰ زبان کے معیار کونبھانے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔ زبان سادہ ہے مگر اس میں شان و شوکت پوری طرح موجود ہے۔ زبان و بیان کے حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
دھیمی اور خوشگوار ہوا ، ان درختوں اور پھولوں کی خوشبو جو صبح سے شام اور شام سے صبح تک گھاٹیوں میں اڑتی رہتی ہے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچا رہی تھی۔ غروب ہونے والے سورج کی ارغوانی رنگ کی آخری کرنیں بدری ناتھ کی برفوں اور ہمالہ کی چوٹیوں پرا پنا سنہری عکس ڈالنے لگیں۔ یہ چوٹیاں اور برفانی مقام انسانی قدوم سے بالکل نا آشنا تھے۔ اور یہ کہنا بھی قرین قیاس ہے کہ اڑتے ہوئے پرندوں کی آواز یا کپڑوں کی بھنبھناہٹ نے بھی شاذو نادر ہی اس مقام کی سنسانی اور خاموشی میں دخل دیا،تاہم یہ جگہ اتنی ویران نہ تھی جتنی ایک بے پردا اور غافل ناظر خیال کر سکتا ہے۔(۴۴)
اپنے ناول’’اکبر ‘‘ کے دیباچے میں فوق نے وہ بات کہہ دی ہے جو ان کے نظریہ فن اور ناول نگاری کے اسلوب کی وضاحت کرتی ہے۔ فوق لکھتے ہیں:
میرے خیال میں اب وہ زمانہ نہیں ہے جو آج سے دس سال پہلے تھا جس میں ان ناول اور افسانوں کی قدر کی جاتی تھی ۔جو چوماچاٹی ،ہجرو و صال بلکہ فسقِ و فجور کے مضامین سے لبریز اور قریباً بے نتیجہ او رمحزب الاخلاق ہوتے تھے۔ اب پبلک بری اور بھلی کتابوں میں تمیز کرنا سیکھ گئی ہے۔ اس لیے جو کتاب ملکی اور قومی بہبود کے خیالات لے کر نکلے گی وہ ضرور دل میں جگہ کرے گی۔(۴۵)
فوق کے زمانے میں طوائف کا کردار خاص حیثیت رکھتا تھا۔ اُردو ناولوں میں طوائف کا ذکر بہت دلچسپی سے ہواہے۔ رسوا کا ناول’’امراؤ جان ادا‘ ‘ ستم رسیدہ عور ت کی کہانی ہے جو طوائف بننے پر مجبور ہوئی ۔ فوق کے ناولوں میں وہ صرف گانا سنانے کے لیے بلائی جاتی ہیں۔ یہی صورت نذیر کے ’’فسانہ مبتلا‘‘ میں نظر آتی ہے۔ فوق کے ناول مختصر ہوتے ہیں۔ مختصر ناول زیادہ موثر ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح قاری کی توجہ بکھرتی نہیں اور کہانی کا تاثر قائم رہتا ہے۔ فوق کے بہت سے ناولوں کوطویل مختصرا فسانہ کہا جا سکتا ہے۔
کلیم اختر ناول نگاری میں فوق کا مقام و مرتبہ متعین کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
اگر فوق ناول نگاری کی طرف پوری توجہ دیتے تو بلا شبہ ان کا مقام نذیر احمد، سرشار، شرر ،رسوا اور پریم چند کی صف میں ہوتا۔(۴۶)
فوق نے جو ناول لکھے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد اگر نقاد ہمدردانہ انداز میں دیکھے تو سرشار کے بعد ایک اور کشمیری النسل ناول نگار اردو ناول کی تاریخ میں ظاہر ہو گا ۔سرشار کا خاندان کشمیر سے آکر لکھنو میں آباد ہوا تھا۔ فوق کا خاندان بھی کشمیر سے آکر سیالکوٹ میں آباد ہوا۔ سرشار کے ناول فسانۂ آزاد کا ہیرو کشمیر ی ہے ۔ فوق کے ناول’’اکبر‘‘ کا ہیر و بھی کشمیری ہے۔
فوق کے ناولوں میں بڑے ناول نگاروں کی طرح منظر نگاری بھی نظر آتی ہے۔ منظر نگاری میں فوق نے اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لیا ہے۔ وہ مکمل نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔ منظر دیکھنے والے کردار کی اندرونی کیفیات بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
شمس النسابیگم جب کبھی اس باغ میں آنکلتی تھیں تو باوجود آزادی اور از خودرفتگی کے اس طائر تیز پر کی طرح کچھ دیر اسیری اور دل بستگی کے لُطف اٹھا لیا کرتی تھی جو ہوا پر اُڑتا آرہا ہوا اور ایک جگہ جال بچھا ہوا دیکھ کر پڑا ہو لیکن پھڑک پھڑک کر پھر اس طرح نکل گیا ہو کہ جس طرح سنبلستان سے نگاہوں کے تیر یا ہوا کے نرم نرم جھونکے پارہو جاتے ہیں۔ مگر اب وہ عالم ہی نہیں تھا۔ دل کچھ اس طرح بجھ گیا تھا کہ باوجود اس فرخ بخش باغ کی ہوا دینے کے بھی ایسا مشتعل نہیں ہوتا تھا جیسا کہ ہونا چاہیے۔(۴۷)
افسانوی ادب میں فوق نے ناول کے ساتھ ساتھ حکایات اور ڈرامہ بھی لکھا ہے۔ اب ان کی تین حکایات اور ڈرامے کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ ’’حکایاتِ کشمیر‘‘ میں فوق نے ۲۳ حکایات پیش کی ہیں ۔ یہ حکایات کشمیری مہاراجوں ،راجوں اور مسلمان بادشاہوں کے بارے میں ہیں۔ ان میں کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق موجود ہے۔ کتاب کے آغاز میں ’’کشمیرِ جنت نظیر‘‘ کے نام سے ایک مختصر دیباچہ لکھا گیا ہے۔ جس میں کشمیر کے حسن ،اس کا حدود اربعہ اور مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ان حکایات کے ذریعے انھوں نے کشمیر کے ساتھ اپنی وابستگیوں کو دلوں میں جاگزیں کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کافی حد تک کشمیر کی تاریخ ہے جسے ذرا مختلف انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں راجہ ہرن دیو، راجہ سُندر سین، راجہ جلوک ،راجہ توبخین ،راجہ سندھی متی ،راجہ میگ واہن، راجہ ماثر گپت، پرورسن راجہ چندرا پیڈ ،راجہ للتا دتیہ ،راجہ جیاپیڈ، اور اس کا جانثار وزیر دیو شرما، راجہ اونتی ورسن اور وفادار وزیر شدرورمن ،راجہ اونتی ورمن اور ایک کمہار کا عقل مند بیٹا ،رانی سوگندھا، راجہ یشکر ،راجہ اوپل ،راجہ عجب دیو، راجہ رنجیت دیو، کرنل میاں سنگھ کمیدان ،مہاراجہ رنبیر سنگھ، راجہ دھیان سنگھ، ہر دلعزیز سلطان زین العابدین اور عیاش بادشاہ یوسف خانچک ۲۳ حکمرانوں کی حکایات پیش کی گئی ہیں۔ان تاریخی حکایتوں کے ذریعے بعض حیات آموز نتائج کی طرف نشاندہی کی گئی ہے اور تعمیر و اصلاح کا پہلوان میں سے نکالا گیا ہے۔ یہ حکایات اعلیٰ اخلاق، بہادری ،جانثاری ،وفاداری ،علم دوستی اور غریب پروری سے لبریز ہیں۔ کچھ لوگوں کے حالات سے عبرت کا نقش بٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ واقعات زیادہ ہیں جن سے مثبت کردار و سیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ فوق خود محب الوطن تھے اور حب الوطنی کے اوصاف دلوں میں بیدار کرنے کے متمنی تھے ۔راجہ ماتر گپت اور ایک فوجی سالار پرورسن کی حکایت میں فوق لکھتے ہیں:
پرورسن نے پنجاب کا بہت سا علاقہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد اس کے اصلاح کاروں نے اس کو مشورہ دیا کہ اپنے آبائی ملک کشمیر پر حملہ کیا جائے۔ اس نے جواب دیا کہ دو باتیں ہیں جو مجھے اپنے آبائی ملک پر حملہ کرنے سے روک رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ماتر گپت ایک شاعر ہے۔ا س پر حملہ کرنا ایک ایسے شخص کی شان سے بعید ہے جس کی رگوں میں نسلاً بعد نسلاً بادشاہی خون حرکت کر رہا ہو۔ دوسرا یہ کہ کشمیر میرا وطن ہے۔میرا ملک ہے اگر میں نے وہاں حملہ کیا تو میرے اہلِ وطن ہلاک ہوں گے۔ ان کی فصلیں تباہ ہوں گی ۔ وہ فاقہ کشی کا شکار ہوں گے اور کئی لوگ بے موت مر جائیں گے۔(۴۸)
’’سبق آموز کہانیاں‘‘ کتاب میں ۳۶ کہانیاں ہیں۔ یہ مختلف قوموں کے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنھیں پڑھ کر بچوں میں اعلیٰ صفات کے جو ہر پیدا ہو سکتے ہیں۔ فوق نے ہر کہانی کے بعد باقاعدہ انجام یا نتیجہ بھی تحریر کیا ہے۔ جس میں سے نصیحت کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ اس سے واقعے کے بیان کی غرض و غایت اور مقصد بھی ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ یوں تو فوق کی کہانیوں کے جوعنوانات قائم ہیں۔ ان سے بھی نفس مضمون کی بخوبی وضاحت ہو جاتی ہے۔
مہمان نواز کی شرافت ،بخل کا انجام،ملاح کی دانش مندی ، ایک غریب لوہا رکی نورانی ایجاد، وطن کی محبت ، مودبانہ گفتگو کا آزادنہ طریقہ ، منہ دیکھے کی عبادت اور مردانہ استقلال فوق کی چند ایک کہانیوں کے عنوانات ہیں۔
فوق نے کہانیوں میں خاص طورپر اختصار سے کام لیا ہے۔ کہانی طویل ہو جائے تو وہ بچوں کے ذہن پر اپنا اثر پوری طرح قائم نہیں رکھ سکتی۔ زبان کی سادگی اور بیان کی سلاست کے اعتبار سے ان کہانیوں میں یاد رہ جانے والی خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوق کی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس میں دنیا بھر کے لوگوں کے واقعات شامل ہیں۔
’’دبستان اخلاق‘‘ کتاب میں فوق نے ۵۹ چھوٹی کہانیاں پیش کی ہیں ’’دبستانِ اخلاق‘‘ میں شامل کہانیوں کا انداز و اسلوب اور زبان و بیان ’’حکایات ِ کشمیر ‘ ‘ اور ’’سبق آموز کہانیاں‘‘ سے ملتا جلتا ہے ۔یہ کتاب اس سلسلے کی کڑی ہے۔ جس کے تحت دوسری دو کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ زندگی کی روزمرہ صورت حال میں پیش آنے والے واقعات میں دانائی اور عبرت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں بچوں کی عام نفسیات اور دلچسپیوں کو سامنے رکھا گیا ہے۔
فوق نے افسانوی ادب میں ’’زمیندار کی سرگزشت‘‘ کے عنوان سے ایک ڈرامہ بھی لکھا۔ فوق کے زمانے میں ڈرامے کا بڑا چرچا تھا۔ فوق اپنے ارد گرد کے ماحول میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ خاص طورسے کشمیر میں زیادہ انقلاب لانے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ محمد حسن عسکری اپنے مضمون ’’ہمارے ہاں ڈرامہ کیوں نہیں‘‘ میں لکھتے ہیں:
ڈرامہ تو ہے ہی تبدیلی کا نام جو لوگ تبدیلی کے خواب نہ دیکھ سکیں وہ ڈرامہ کیسے لکھ سکتے ہیں۔(۴۹)
فوق کے اس غیر مطبوعہ ڈرامے میں ایک زمیندار خاندان شادی و غمی کی بری رسموں اور دکھاوے کی فضول خرچیوں کے خطرناک جال میں پھنس کر تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم بالغاں کی برکت سے دوبارہ عروج حاصل کرتا ہے۔ دراصل یہ ڈرامہ دیہی زندگی کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں لکھا گیا ہے۔
اس ڈرامے میں دو کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ایک کہانی پنچایت کے ایک اکٹھ سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں حسن ڈار اور یوسف بٹ دو کرداروں کا جھگڑا زیرِ غور ہے۔ دونوں کے درمیان ایک بیل کی ملکیت کا مقدمہ چل رہا ہے۔ مقدمے کا فیصلہ ہونے پر حسن ڈار اپنے مال کے حصے کی ادائیگی معاف کر دیتا ہے۔ حسن ڈار اپنی بیوی کے مشوروں پر سوچے سمجھے بغیر عمل کرتا ہے۔ جھوٹی نیک نامی کی خاطر وہ طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتا ہے۔ اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی بہت دھوم دھام سے کرتا ہے۔ اس شادی پر خرچ ہونے والا بہت سا روپیہ اُدھار لیا جاتاہے جس کی وجہ سے بعد میں اسے اپنی زمینوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور بڑی ذلت و خواری اٹھانی پڑتی ہے۔ وہ مجبوراً زمینداری چھوڑ کر مزدوری کرنے لگتا ہے۔ اور کشمیر سے پنجاب آجاتاہے جہاں وہ مزدوری کے بعد ٹھیکیداری کا پیشہ اختیار کر تاہے۔ ادھر اُدھر سے کمائی کر کے اپنی حیثیت بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
دوسری کہانی دیہات کی ترقی اور اصلاح کے حوالے سے ڈرامے میں ڈالی گئی ہے۔ یہاں پنچایت کے علاوہ دیہات سدھار کے اجلاس کی کاروائی کی روداد پیش کی جاتی ہے۔ جس میں ا نسپکٹر صاحب گاؤں والوں کو مفید مشورے دیتے ہیں ۔ایک جلسے میں وہ بتاتے ہیں کہ اگر گاؤں والے اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ گاؤں سے باہر گڑھے کھود کر دبا دیا کریں تو ایک توان کا گاؤں بیماریوں سے محفوظ رہے گا اور اس کے علاوہ ان کے کھیتوں کے لیے کھاد بھی تیار ہو جائے گی۔ جس سے ان کی فصل اچھی ہوگی۔ پھر تعلیم بالغاں کے لیے کمیٹیاں بنتی ہیں تاکہ لوگ اپنے طورپر اس قابل ہو سکیں ۔جدید تقاضوں کو سمجھ سکیں۔ پھر یہ دونوں کہانیاں ڈھیلے ڈھالے انداز میں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ حسن ڈار دیہات میں گروی رکھی ہوئی اپنی تمام زمینیں واپس لیے لیتا ہے اور دیہات کی ترقی کی کوششوں میں شریک ہوتا ہے ۔گاؤں میں جگہ جگہ پنچایت کا نظام تعلیم بالغاں کی برکت سے ایک نئی کامیابی کے ساتھ شروع ہوتاہے۔ اورا س کے اثرا ت اور ثمرات پورے دیہات میں ہر کہیں لوگوں تک پہنچنے شروع ہو جاتے ہیں۔
قیامِ پاکستان سے پہلے کی کشمیری دیہاتی زندگی اس ڈرامے میں نظر آتی ہے۔ اس زمانے کے باشندوں کے سماجی مسائل اور معاشرتی صورتِ حال کو دیہی زندگی کے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کشمیری دیہات پنجاب یا کسی بھی علاقے کی دیہاتی زندگی سے زیادہ مختلف نہیں۔ اس طرح یہ ڈرامہ ہمارے ملک کی مخصوص دیہاتی پس منظر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس ڈرامے کا مقصد یہی ہے کہ دیہاتی عوام کے اندر سماجی اور معاشرتی اقدار کا شعور پیدا کیا جائے۔ اس ڈرامے کو سیدھے سادھے طریقے سے مکالموں کی مدد سے مکمل کیا گیا ہے۔
اس کی تکنیک بالکل سادہ ہے۔ ہر منظر کسی نہ کسی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہر منظر کے بعد کسی حد تک جگہ اور کرداربدل جاتے ہیں ۔ مسئلے کی نشاندہی کے بعد اس کی اصلاح کسی ایسے کردار سے کرائی جاتی ہے جو باشعور ،مخلص اور نیک ہو۔ نذیر احمد کے کرداروں کی طرح فوق کے بھی پسندیدہ کردار چھائے ہوئے نظر آتے ہیں اورا ن کے پردے میں خود فرق بولتے ہیں۔ حتیٰ کہ اصلاح کے جو ش میں کئی کردار لمبی لمبی تقریریں بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چونکہ اس ڈرامے کا مقصد تربیت ہے۔ اس لیے بات کو ادھورا نہیں چھوڑا گیا۔ تمام ممکنہ پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔
ڈرامے کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اس طرح دس منظر بنائے گئے ہیں۔ پنچایت کی برکت، سود کی لعنت، تعلیم بالغاں ،دیہات سدھار ،موسمی بخار اور صحت، فضول رسومات ،انجمن ہائے امداد باہمی وغیرہ چند ایک عنوانات ہیں جن کو مختلف منظروں کا موضوع بنایا گیا ہے۔ کردار سادے اور دیکھے بھالے ہیں۔ کردار اتنے متحرک نہیں کیونکہ ان پر مقصدیت اور خیالات کا بوجھ ہے۔ البتہ دیہات کی عملی زندگی کے حالات جیتے جاگتے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ جوواقعات اس ڈرامے میں پیش کیے گئے ہیں وہ سبق آموز ہیں۔ ڈرامے میں مختلف اصلاحی انجمنوں کے نمائندے ہمیں کوئی نہ کوئی درس دیتے نظر آتے ہیں۔فوق کی تحریروں کو فلاحی ادب کے مقاصد کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی صحیح قدرو قیمت متعین کی جا سکتی ہے۔ ان کے ڈرامے زمیندار کی سرگزشت کی زبان پختہ اور مطلب کی وضاحت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کی تکنیک ریڈیو ڈرامے سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس ڈرامے کا ہر باب یا منظر جامعیت اور اختصار کا ایک نمونہ ہے۔
ناول نگار ،حکایت نگاراور ڈرامہ نگار کے ساتھ اردو ادب میں فوق مورخ کشمیر ولاہور اور سوانح نگار کے طورپر بھی مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ بحیثیت مورخ ،سوانح نگار اور تذکرہ نگار جب بھی منشی محمد الدین فوق کا ذکر آئے تو ان کے مورخ ہونے اور بالخصوص مورخ کشمیر ہونے کی حیثیت نمایاں طور پر ذہن میں ابھرتی ہے۔ وہ ایک بسیار نویس ادیب تھے۔ انھوں نے متنوع موضوعات پر بہت کچھ لکھا۔ فوق سے پہلے تاریخ ادب اردو میں دوسری شخصیت کا نام ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وہ شبلی نعمانی ہیں۔ وہ بھی ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے مگر اپنی دوسری حیثیتوں کے باوجود مورخ شبلی نے اتنی اہمیت حاصل کر لی کہ ان کے دوسرے سارے کمالات اس میں اکٹھے ہوتے چلے گئے ۔ وہ سوانح نگار کے روپ میں مورخ ہیں اور مورخ کے پردے میں سوانح نگار ہیں- محمد الدین فوق کے بارے میں بھی کسی قدر یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ یہاں مورخ ،سوانح نگار اور تذکرہ نگار کے طورپر ایک متحد اور مشترک شخصیت کے روپ میں فوق صاحب کے فن کا ایک ساتھ جائزہ لینا بے محل نہیں ہو گا۔ منشی محمد الدین فوق کی تصانیف اور سوانح عمریوں کے مطالعہ سے شبلی کے نظریہ نتائج کی پوری پوری تائید ہوتی ہے۔ فوق کی تمام شہرت مورخ کشمیر کے طور پر ہے۔ انھیں مورخ لاہو رکے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ انھوں نے تاریخ سیالکوٹ اور مشاہیر سیالکوٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اپنے معاصرین میں سے شبلی ہی وہ شخصیت ہیں جو فکری میدان میں ہمیں فوق کے رہبر دکھائی دیتے ہیں۔
الطاف فاطمہ اپنی کتاب ’’اردو سوانح نگاری کا ارتقا ‘‘ میں لکھتی ہیں:
فوق صاحب نے سوانح نگاری میں کارناموں کے ذکر پر زور دیا ہے۔ ان کا رجحان تاریخ کی طرف ہے۔(۵۰)
فوق صاحب جب لکھتے ہیں تو ان کی اکثر تحریروں میں مورخ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی دوسری حیثیتوں کو کمتر کر رہے ہیں۔ فوق کا تذکرہ سوانح نگاری کے نقادوں نے اپنی تنقیدی تصنیفات میں کیاہے۔ ڈاکٹر شاہ علی نے مجموعی تاریخی ،سیاسی اور سماجی سوانح عمریوں کے موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا دائرہ سلاطین اودھ اور ہندوستان کی راینوں سے لے کر اخبار نویسوں تک پھیلا دیا ہے۔ انھوں نے مثال کے طورپر فوق کی کتاب ’’اخبار نویسوں کے حالات‘‘ کو پیش کیا ہے۔ (۵۱) حالانکہ اصل میں یہ ’’کشمیری میگزین‘‘ کا ایڈیٹر نمبر تھا۔ ڈاکٹر شاہ علی نے ’’تذکرہ خواتین دکن‘‘ اور ’’تذکرہ العلماو المشائخ لاہور‘‘ کا ذکر مختصر سوانحی خاکوں کی ذیل میں کیا ہے۔ (۵۲) کتابیات میں فوق صاحب کی ’’حالاتِ شمس تبریز‘‘ اور ’’حیاتِ فرشتہ‘‘ بھی شامل ہیں۔(۵۳)
الطاف فاطمہ نے بھی اپنی کتاب میں فوق صاحب کی سوانح عمریوں کا جائزہ لیا ہے اور ان کی سوانح نگاری پر تنقید بھی کی ہے۔(۵۴)
دہلی کالج کی شعبہ اردو کی استاد ڈاکٹر ممتاز فاخرہ نے اپنی کتاب ’’اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقا‘‘ میں فوق کی سوانح عمریوں کو موضوع بنایا ہے۔ ان کی مجموعی رائے بھی اہم ہے اور فوق کے اس رجحان کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وہ مشاہیر کے کارناموں کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں اور مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا چاہتے تھے اور اپنے اس رویے میں وہ سر سید اور اس کے رفقا کے پیرو کار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب کا نام بھی وہی ہے جو الطاف فاطمہ کی کتاب کا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ لکھتی ہیں:
مصنف فوق کی نظر میں ہیر و کی مکمل شخصیت کی بجائے اس کے ایسے مخصوص پہلو ہیں جو شہرت کاباعث ہوئے ۔ہیر و کے کمزور پہلوؤں کو بیان کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔(۵۵)
ان تینوں مثالوں سے سوانح نگار کے طورپر فوق کی حیثیت اُجاگر کرنے کے علاوہ یہ بتانا مقصود ہے کہ انھوں نے تاریخ نویسی کے لیے سوانح عمری کے فن کو بہت عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ ان کی دو سوانح عمریاں ’’سوانح عمری ملک العلماعبدالحکیم سیالکوٹی ‘‘ اور ’’تاریخ بڈشاہی‘‘ بہت اعلیٰ پائے کی سوانح عمریاں ہیں۔ یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ انھوں نے اپنی ایک بہت اہم سوانح عمری کا نام’’تاریخ بڈ شاہی‘‘ رکھا ہے۔ بڈ شاہ کشمیر کا ہر دلعزیز حکمران تھا۔ تب وادی کشمیر معاشی و معاشرتی تہذیبی اور ـثقافتی لحاظ سے اپنے کمال پر پہنچ گئی تھی۔ یہ وہ کتاب ہے جو پہلے ’’سلطان زین العابدین ‘‘اور ’’شباب کشمیر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ’’شبابِ کشمیر‘‘ کی اشاعت پر علامہ اقبال نے فرمایا:
آپ کی کتاب’’شباب کشمیر‘‘ کشمیر کی تاریخ میں قابل قدر اضافہ ہے۔ اس سے پہلے بھی جو لٹریچر آپ نے کشمیر کے متعلق پیدا کیا ہے ۔میرے نزدیک مفید اور آپ کی حب الوطنی اور عملی ذوق پر شاہد عادل ہے۔(۵۶)
پھر فوق صاحب نے اس پر مسلسل کام کر کے وسیع ترمیم و اضافے کے ساتھ ’’تاریخ بڈ شاہی‘‘ کے نام سے چھپوایا۔ اس کتاب پر فوق صاحب کو اسی طرح ناز تھا۔ جس طرح شبلی ’’المامون‘‘ کو اپنی پسندیدہ کتاب قرار دیتے تھے۔ ’’سوانح عمری ملک العلما عبدالحکیم سیالکوٹی ‘‘ بھی ایک مکمل سوانح عمری ہے۔ یہ ایک بہت بڑے عالم دین کی زندگی کا خاکہ ہے۔ اس سوانح عمری میں تاریِخ سیالکوٹ ،۳۸ مشاہیرسیالکوٹ کا مختصر تذکرہ بھی ہے۔ مولانا سیالکوٹی پر لکھے گئے تمام تذکروں کے مقابلے میں یہ کتاب فوقیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا دیباچہ علامہ اقبال نے لکھا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے شبلی کی ’’النعمان ‘‘کی طرف دھیان جاتاہے۔
منشی محمد الدین فوق نے ’’تاریخِ کشمیر‘‘ تین جلدوں میں لکھی ہے۔ پہلی جلد قدیم ہندو راجگان کے بارے میں ہے۔ دوسری جلد کشمیر کی اسلامی حکومت کے بارے میں ہے۔ اس میں سلاطینِ کشمیر ،مغل شاہان اور افغان حکمرانوں کے حالات درج ہیں۔ تیسری جلد جو سکھوں کے ستائیس سالہ عہدِ حکومت پر مشتمل ہے۔ فوق نے ’’تاریخ اقوام کشمیر‘‘ لکھ کر خطہ کشمیر کی مختلف ذاتوں کی تاریخ و تعارف کے ذریعے انسانوں کی طبائع اور سیرت و کردار کی رنگا رنگیوں کی طرف نشاندہی کی ہے۔ فوق نے ثابت کیا کہ وادی کشمیر نام و نسب کے اعتبار سے ایک مالدار خطہ ہے مگر ذاتوں کے عجائبات کے باوجود اصل اعزاز کشمیری ہونا ہے۔ مختلف قومیتوں کی قوت متحد ہونے میں پوشیدہ ہے علامہ اقبال نے کہا ہے:
مل کے دنیا میں رہو مثل حروفِ کشمیر(۵۷)
فوق نے ’’تاریخِ اقوام ِپونچھ‘‘ دو جلدوں میں مرتب کی ہے۔ دیباچے میں فوق نے لکھا ہے کہ’’ اس تالیف کا مقصد یہ نہیں کہ ایک قوم دوسری ا قوام پر ایک خاندا ن کو دوسرے خاندان پر فوقیت دی جائے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ذاتوں اورگوتوں کی اصلیت اور بناوٹ کی تحقیق کی جائے اور اس سلسلے میں کوئی خاندان تاریخی ،عملی یا مذہبی لحاظ سے یا کسی خاص وجہ سے قابلِ ذکر نظر آئے تو اس کا تذکرہ کر دیا جائے تاکہ اس خاندان کی تاریخی یادگار قائم رہ جائے اور آنے والی نسلوں کو معلوم ہوکہ ان کے اسلاف اگر غریب اور گمنام تھے تو انھوں نے امارت و شہرت اور عزت محض وسائل سے حاصل کی اور اگر وہ امیر اور صاحبِ اقتدار ہوتے تو ان کا تمول اور اقتدار کن وجوہ اور طریقوں سے جاتار ہا۔‘‘(۵۸)
فوق نے ’’تاریخ لاہور‘‘ لکھتے ہوئے وہاں کی علمی وا دبی ،تہذیبی وثقافتی صورتِ حال کا جائزہ بہت ضروری سمجھا ۔ اس کتاب میں مورخین لاہور کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سید محمد لطیف جج ،رائے بہادر لالہ کہنیا لال مولوی نور احمد چشتی اور مولوی محمد الدین فوقی کے مختصر حالات بھی لکھے ہیں۔ فوق نے علی ہجویریؒ کے بقول قطب البلاد (لاہور) کی وہ تصویر پیش کی ہے جو اس کے زندہ مستقبل کی علامت بنے ۔ فوق نے لاہور کے روحانی رہنما علی ہجویری کی سوانح بھی لکھی ہے جو اپنی جگہ لاہور کی ایک تاریخ ہے۔ ’’یاد رفتگاں‘‘ میں بھی تاریخ لاہور جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی مضامین بھی لکھے جو وقتاً فوقتاً لاہور کے مشہور رسائل ’’شبابِ اردو‘‘ ،’’قوسِ قزح‘‘ ،’’نیرنگ خیال‘‘ اور ’’عالمگیر‘‘ میں شائع ہوئے۔
’’شالا مار باغ‘‘ میں فوق نے اس عظیم الشان باغ کی تاریخ بیان کی ہے۔ باغ کی تعمیر اور اس کے ساتھ مختلف حکمرانوں کی دلچسپی اور توجہ کے حوالے سے تاریخ لاہور کو ایک نسبتاً مختلف انداز سے تحریر کیا گیا ہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کے مطالعے اور باغ کے گہرے مشاہدے کے بعد یہ کتاب مرتب کی ہے۔ اس ایڈیشن کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ قطعہ لکھا ہے:
حسن سعی فوق راصد مرحبا
ہمت ہر سطر کتابش دلربا
از سرِ نازش پئے تاریخ او
می سزد تصویر باغ جانفزا (۵۹)
’’یاد رفتگاں ‘‘ فوق صاحب نے لاہور کے صوفیا کے بارے میں لکھی ہے۔ جن کے قلبی کمالات کی مشعل فوق لوگوں کے دلوں میں جلانا چاہتے تھے وہ اہلِ دل جن کی زندگیاں لاہو ر میں گزریں ،فوق نے کچھ غیر مسلموں کے احوال بھی لکھے ہیں ۔یہ لوگ اپنی قوم کے لوگوں کے لیے عقیدتوں کا مرکز تھے۔ برصغیر میں مسلم صوفیا کی خدمت میں ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی حاضر ہوتے تھے۔ ان حالات کے بیان میں وہ ساری روحانی فضا آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے جوان بزرگوں کی موجودگی سے لاہور میں قائم ہوئی تھی۔
اس کتاب کے بارے میں اقبال کا فوق کے نام ایک خط بہت اہم ہے جو اکتوبر ۱۹۲۰ء میں لکھا گیا:
اہل اﷲ کے حالات نے جو آپ نے بنام ’’یادِ رفتگاں ‘‘ تحریر فرمائے ہیں۔ مجھ پر بڑا اثر کیا۔ اور بعض باتوں نے جو آپ نے اس چھوٹی سی کتاب میں درج کی ہیں ۔ مجھے اتنا رولایا کہ میں بے خود ہو گیا۔ بھائی فوق !خود بھی اس گوہر نایاب کی تلاش میں رہو جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں مل سکتا۔بلکہ کسی خرقہ پوش کے پاؤں کی خاک میں اتفاقیہ مل جاتا ہے۔(۶۰)
اس کتاب سے متاثر ہو کر علامہ اقبال نے اپنی یہ مشہور غزل کہی جس کے دو اشعار یہ ہیں:
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آسینوں میں (۶۱)
’’تذکرۃ العلماو المشائخ لاہور‘‘ میں فوق صاحب نے سوا سو علمائے کرام اور مشائخ عظام کا ذکر کیا ہے۔ فوق تاریخ نویسی میں ترسیل فن کے سارے پہلوؤں سے واقف تھے۔ مسلم بادشاہوں کے علاوہ ایک تاریخ اسلام علما اور اولیا نے بھی بنائی ہے۔ اور یہ تاریخ سچی تاریخ ہے۔ علمی و روحانی اور تہذیبی و ثقافتی میدانوں میں جو کچھ ہوا وہی اپنے زمانے بلکہ ہر زمانے کے تسلسل اور ارتقا کا ضامن بنتا رہا۔ اور اس کی تصدیق خود فوق نے دیباچے میں کردی ہے۔ یہ کتاب ان کی کتاب ’’یادِ رفتگاں‘‘ میں لاہور کے ثقافتی جائزے کا ایک تسلسل ہے۔ انھوں نے اولیائے کرام کے بارے میں اور بھی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ علمااور اولیا کو انسانیت کا اصل رہنما سمجھتے تھے اور ہر طرح کے تاریخی ارتقا میں ان کی خدمات کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کتاب میں پانچویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی کے اواخر تک لاہور کو دینی علمی مجلسوں اور برکتوں کی و جہ سے فخر البلاد بنانے والے صوفیا کو شامل کیا گیا ہے۔
’’لاہور عہدِ مغلیہ میں‘‘ کا اصل نام’’شباب لاہور ‘‘ ہے۔ لاہور قدیم ،شباب لاہور اور زوال لاہور ،سکھی لاہور اور عہد جدید کا لاہور اس کتاب کے پانچ حصے ہیں۔ اس کتاب کا آغا زعہدِ بابر سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام عالمگیر پر ہوتا ہے۔ اس میں لاہور کی تاریخی اہمیت ،یہاں مختلف بادشاہوں کا قیام ،ان کی تعمیرات اور ان کے عہد میں لاہور کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ خاص طورپر لاہور میں تاریخی نوعیت کی عمارات کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ فوق نے لاہور کے مختلف علاقوں اور عمارتوں کی وجہ تسمیہ بیان کی ہے۔ فوق نے چوبر جی کے بارے میں اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے:
باغ کی چار دیواری نہایت مضبوط اور چونا تھی ۔جب دریا کی شورش انگیز لہریں چار دیواری تک آ پہنچیں تو نہ صرف چار دیواری بلکہ باغ کے اندر کی شاندار عمارتیں بھی مسمار ہو گئیں۔ یہاں تک کہ اب صرف ڈیوڑھی کادروازہ جس کا نام چوبر جی ہے۔ باقی رہ گیا ہے۔(۶۲)
’’مآثر لاہور‘‘ میں فوق صاحب نے لاہور کے باغات اور مقبروں کے بارے میں لکھا ہے۔ ’’مآثر لاہور‘‘ لکھتے وقت کسی باغ یا کسی صاحب مزار کے حالات سے متاثر ہوکر فوق کے قلم سے اتفاقیہ طورپر کوئی شعر نکل گیا پھرا نھوں نے اپنے اوپر پابندی عائد کر لی کہ ہر نئے عنوان کے تحت مضمون کے مطابق اسی زمین اسی قافیہ اور ردیف میں ایک آدھ شعر ضرور ہونا چاہیے۔ اس پابندی کو آخر تک کامیابی سے نبھا گئے۔ اور اس طرح تاریخ نویسی کے ایک انوکھے اسلوب کی ترقی یافتہ شکل ہمارے سامنے آئی۔
’’تاریخ ریاست ہائے بگھیل ‘‘مع ’’تحقیقات طلسم بکاؤلی‘‘ فوق کی تاریخی اور تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے۔ قلعہ بکاؤلی ریاست ریواں میں واقع ہے۔ جو بگھیل کھنڈ کی ایک ریاست ہے۔ فوق وہاں خود گئے۔ چونکہ وہ ا مور خانہ ،ذوق و شوق کے آدمی تھے اس لیے تحقیقات طلسم بکاؤلی کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے تاریخی حالات بھی بیان کر دیے ہیں۔ ان حالات کے بیان میں فوق نے وہی اسلوب اختیار کیا جو وہ اپنی دوسری تاریخی اور سوانحی کتابوں میں استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی معروف کتاب ’’اُردو کی نثری داستانیں‘‘ میں ’’قصہِ گل بکاولی کی اصل‘‘ کے عنوان سے بحث کرتے ہوئے فوق کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
نقوش (جون ۱۹۵۸ء ) میں محمد عبداﷲ قریشی کا ایک مضمون ’’ گل بکاؤلی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ مضمون’’ نقوش‘‘ کے ادب عالیہ نمبر میں بھی شامل ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ پچاس سال پہلے ایک طلسم بکاؤلی ایکسپلو رنگ ایسوسی ایشن قائم کی گئی تھی۔ جس نے اس قلعہ اور باغ وغیرہ کے بارے میں تفتیش کی ۔محمد دین فوق نے اخبار کشمیری لاہور میں ۱۹۱۰ء میں لکھا تھا کہ اس علاقے کو اب بکاؤلی کا باغ کہتے ہیں۔(۶۳)
’’تاریخ حریتِ اسلام‘‘ میں فوق نے زمانہ رسالت ؐ،عہد خلافت راشدہ ،دور خلفائے بنی اُمیہ و عباسیہ ،عہد بنی بویہ و سلجوقیہ ،دولت ہسپانیہ وغزنویہ کے علاوہ ترکی و مصر ،الجزائر و مراکش ،فرماں روایان ہند(خاندان افاغنہ و غلامان وعہد مغلیہ) اور مسلمان بادشاہان دکن ،سندھ و کشمیر کے عہدِ گزشتہ کے راست باز اور حق پرست بزرگوں کے حیرت انگیز جرأ ت آفریں او رولولہ انگیز ،استقلال اور جوش و اثیار کے حریت آموز حالات او رعدل و انصاف آزادی و مساوات ،خدا ترسی و پاکیزہ نفسی کے حامی بادشاہوں کے سبق آموز واقعات کے علاوہ پرستار ان حق وصداقت او رخدائے مذہب و ملت عورتوں کے سوانحات درج ہیں۔
ابھی یہ کتاب شائع نہیں ہوئی تھی کہ اس کتاب کا چرچا ہونے لگا تھا۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو فوق کے نام علامہ اقبال نے ایک خط میں لکھا:
مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آ پ نے ’’تاریخ حریت اسلام‘‘ لکھی ہے۔ یہ کتاب لا جواب ہو گی اور مسلمانوں کے لیے تازیانے کاکام دے گی ۔آپ بڑا کام کر رہے ہیں۔ اس کااجر خدا تعالیٰ کی درگاہ سے ملے گا۔(۶۴)
محمد الدین فوق کی تاریخ نویسی اور سوانح نگاری واضح طورپر مقصدیت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ وہ اپنی سوانح نگاری کے ذریعے سے انسانی عظمت کی بعض روشن مثالوں کا ذکر کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ انھوں نے اولیائے کرام اور علما کی سوانح عمریاں بھی لکھیں۔ برصغیر میں صوفیا نے انسانی اور اسلامی فلاح و بہبود اور اتحاد واتفاق کا جو معاشرہ تخلیق کیا وہ فوق کے لیے بہت بڑا محرک تھا یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے فقیری میں بادشاہی کی۔۔ فوق تو بادشاہوں کے ضمن میں بھی اپنی پسندیدگی کے لیے فقیرانہ مزاجی کو ترجیع دیتے ہیں۔ فوق نے اپنی سوانح عمریوں کے لیے ان حضرات کو منتخب کیا ہے۔ جو علوم ظاہری اور علوم باطنی میں کمال رکھتے تھے۔ ان کی سیرت و سوانح کے ذریعے وہ لوگوں کو اندر سے زندہ رکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ یہ سوانح عمریاں اپنی سادگی بیان اورتاثیر کے اعتبار سے ایک عمدہ نمونہ قرار دی جاسکتی ہیں۔’’تذکرۃ الصالحین ‘‘ ، ’’حالات حضرت شمس تبریز‘‘ ،’’حضرت ابراہیم ادھم ‘‘،’’مجددالف ثانی‘‘ ،’’حضرت خواجہ حسن بصری ‘‘،’’حضرت علی ہجویری‘‘ اور’’ ملک العلمامولانا عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ کے نام سے یہ فوق کی چھ مکمل سوانح عمریاں ہیں۔
علمااولیا کے علاوہ فوق نے سلاطین کی سوانح عمریاں بھی لکھی ہیں جن کی تعداد کم ہے ۔ان میں سے سوائے جہانگیر کے تمام کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ’’نور جہاں و جہانگیر‘‘ ایک کتاب ہے جس میں نور جہاں اور جہانگیر کا الگ الگ تذکرہ ہے۔ ’’کشمیر کا نادر شاہ‘‘ اور ’’مہاراجہ گلاب سنگھ‘‘ غیر مطبوعہ ہیں۔یہ دونوں سوانح عمریاں اپنی اہمیت کے اعتبار سے شائع ہونا چاہیے۔ فوق کی سب سے اہم اور بہترین سوانح عمری’’تاریخ بڈشاہی‘‘ ہے۔ اس کتاب میں فوق کی دوسوانح عمریاں ’’سلطان زین العابدین ‘‘ اور ’’شباب کشمیر‘‘ بھی موجود ہیں۔
فوق صاحب نے خواتین کے بارے میں بھی چھ سوانحی تصانیف تحریر کی ہیں۔ ان میں ’’ﷲہ عارفہ‘‘ اور’’ اہلیا بائی‘‘ مختصر مگر مکمل سوانح عمریاں ہیں ۔دوسری چاروں کتابوں میں سے ہر ایک کتاب میں کئی خواتین کے بارے میں سوانحی مضامین اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح انھوں نے زیادہ سے زیادہ خواتین کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ فوق نے زیادہ تران عورتوں کوا پنی سوانح نگاری کے لیے منتخب کیا ہے جو امورِ مملکت چلانے میں کسی سے کم نہ تھیں۔ انھوں نے معاملات حکومت میں اپنے عزیزوں کی معاونت کی ۔آزادی ہند کی تحریک بھی ایک بہت بڑی سیاسی سرگرمی تھی۔ فوق ثابت کرنا چاہتے تھے کہ حکومت اور قیادت پر صرف مردوں کی اجارہ داری نہیں۔ یہ کام ایک عورت بھی بڑی خوش اسلوبی سے کر سکتی ہے۔ کئی حکمرانوں کی کامیابیوں میں ان کی بیویوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا برابر کا حصہ شامل ہے۔ البتہ فوق کی کتابیں ’’ﷲہ عارفہ‘‘ اور ’’خواتین کشمیر‘‘ مختلف انداز رکھتی ہیں۔ اس کتاب میں ان خواتین کا تذکرہ ہے جو درباروں اور ایوانوں سے دور تھیں مگر اعلیٰ اوصاف کی مالک تھیں۔ درویش،شاعر، فنکار، صاحب فقر و غنااور خوبصورت جذبوں کی مالک عام گھریلو خواتین کی زندگیوں سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’خواتین کشمیر‘‘ مختلف رنگوں کا ایک گلدستہ ہے۔ دوسری کتابوں میں فوق نے زندگی کے ایک خاص شعبے سے متعلق عورتوں کا ذکر کیا ہے۔
’’محبِ وطن خواتین ہند‘‘، ’’بتانِ حرم‘‘،’’ﷲہ عارفہ‘‘ ،’’تذکرہ خواتین دکن‘‘ ،’’خواتین ِ کشمیر‘‘ اور ’’اہلیا بائی‘‘ ، فوق کی خواتین کے حوالے سے چھ اہم سوانح عمریاں ہیں۔ان چھ کتابوں کے علاوہ بھی فوق نے اپنی کئی دوسری کتابوں میں عورتوں کے بارے میں لکھا ہے۔ ان سوانح عمریوں میں بھی فوق نے عام فہم انداز اختیار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ان کے اسلوب نگارش میں ایک پختگی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی تحریریں پرتا ثیر ہیں کیونکہ فوق متاثر کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ان کے سامنے کئی مقاصد تھے مگر وہ مقصدی اور اصلاحی ادب کو پر تاثیر بنانے کے فن سے واقف تھے۔فوق نے متفرق سوانح عمریاں بھی لکھیں جو دربار اکبری سے منسلک صاحبانِ دماغ کی ہیں۔فوق اکبر کی اعلیٰ ظرفی ،مردم شناسی اور فطری صلاحیتوں کا بہت قائل تھا۔ دربار اس زمانے میں ایک مرکز تھا اور مختلف لوگ وہاں جمع ہو جاتے تھے۔ نواب دبیر الدولہ بھی دربار سے متعلق تھے۔ وہ اکبر شاہ ثانی کے مصلح جنگ اور وزیر اعظم تھے۔ مگر ان کی حیثیت یہ بھی تھی کہ وہ سر سید کے نانا تھے۔ ملا دو پیازہ اور راجہ بیرلبر اپنی خدا داد ذہانت ،بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کی بدولت دربار میں دل لگی اور خوش طبعی کا ماحول پیداکرنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ راجہ ٹوڈر مل انتظامی معاملات کے علاوہ حساب کتاب کے سلسلے میں کمال کی حیثیت کا مالک تھا۔ یہ تینوں سوانح عمریاں اکبرِ اعظم سے فوق کی عقیدتوں کی بھی مظہر ہیں۔
فوق کی متفرق سوانح عمریوں میں ’’مہاتما بدھ‘‘ ،’’حیاتِ فرشتہ‘‘،’’سعدزا غلول پاشا‘‘،’’فاتح ملتان‘‘،’’مشاہیر کشمیر‘‘ ،’’ہندوستانی وی۔ سی ‘‘،’’موجد اور ایجادیں ‘‘،’’سرگزشت فوق ‘‘ اور ’’مزارالشعرائے کشمیر ‘‘ اہم سوانح عمریاں ہیں۔
’’مہاتما بدھ ‘‘ سوانح عمری میں فوق نے بدھ مت کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں کہیں لگتا ہے کہ وہ ایک مصنف کے طورپر اس مذہب کے عقائد پر خیال آرائی کر رہے ہیں لیکن انھوں نے اسلام کے ساتھ بد ھ مت کا تقابلی جائزہ نہیں لیا۔ یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ بدھ مت بہر حال ہندو مت کی ایک اصلاح شدہ شکل ہے۔ بدھ کے لیے فوق کے جذبات احترام میں کمی کہیں دکھائی نہیں دی۔
’’تاریخِ فرشتہ‘‘ کے مصنف کے بارے میں فوق نے ’’حیاتِ فرشتہ ‘‘ کتاب لکھ کر ایک مورخ نے ایک دوسرے مورخ کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ بات فوق کے اس وصف کو سامنے لاتی ہے کہ وہ ہر طرح کے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ یہ کتاب ایک طرح سے ہندوستان کی تاریخ کو محفوظ کرنے والے کی زندگی کو محفوظ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ فوق نے تاریخ فرشتہ کو فرشتہ کی بہترین یاد گار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
فرشتہ نے اپنے خاندان کا کہیں ذکر کیا ہے نہ وطن بتایا ہے ۔ اپنے سوانحات عمر سے بھی اس نے بے خبر ہی رکھا ہے۔ مگرجب تک دنیا میں تاریخ کا علم رائج ہے ، اس کی شہرت ’’ثبت برجریدہ عالم دوام ما‘‘ کی طرح قائم رہے گی۔(۶۵)
’’تاریخ فرشتہ‘‘ کا مصنف اپنی ا مورخانہ عظمتوں کی وجہ سے مورخ کشمیر ولاہور فوق کی توجہ کا مرکز بنا۔ ’’مشاہیر کشمیر‘‘ کا تذکرہ کشمیر کے ساتھ فوق کی وابستگیوں کا مظہر ہے۔ ’’فاتح ملتان‘‘کے نام سے ایک انگریزکی سوانح عمری بھی تحریر کی گئی ہے۔ ہر برٹ بینجمن ایک بہادر سپاہی تھا اور ایک سچا عیسائی بھی تھا۔ اس کی انھی خصوصیات نے فوق کو اس کی سوانح عمری لکھنے کی طرف مائل کیا۔ فوق نے اپنی سوانح عمریوں میں سادگی بیان کے باوجود کہیں کہیں انشاپردازی کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔ ہمایوں کی جلا وطنی کے دوران اکبر کی پیدائش کے واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
مگر ہمایوں کے ادبارو افلاس میں بھی ایک ایسا چمکتا ہوا جوہر تھا۔ جس کی قدرو منزلت سے تو ابھی اہلِ علم بے خبر تھے مگر تقدیر دست بستہ التماس کر رہی تھی کہ اے مصیبت و نکہت کے زمانے میں پیدا ہونے والے بچے اپنے باپ ہمایوں کا مثردہ سنا کے میری یہ ریگستان کی پیدائش تیرے لیے سر سبزی و شادابی کا باعث ہو گی۔(۶۶)
فوق کی متفرق سوانح عمریاں ان کی ہمہ گیر صلاحیتوں کی غمازی کرتی ہیں۔ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر اپنی نظر رکھتے تھے۔ اپنے لوگوں کو ترقی و اصلاح کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ سوانح عمری کا مطالعہ انسانوں کی ذہنی ،جذباتی اور عملی تربیت اور ذوق کا سامان مہیا کرتا ہے۔ جہاں تک طرز ِتحریر کا تعلق ہے تو فوق نے آغاز تحریر و تصنیف میں جوانداز اپنایا تھا۔ ساری عمر اس پر کار بند رہے۔وہ بات اس انداز میں کرتے ہیں جو فوری طورپر اور آسانی سے سمجھ میں آجائے ۔ کچھ اس اسلوب بیان کو بے مزہ اور پھیکا قرار دیتے ہیں۔الطاف فاطمہ نے بھی ایسا ہی اعتراض کیا ہے۔ (۶۷) مگر لوگ انشا پردازی کے جوہر دکھانے والوں پر بھی اعتراض کرنے سے نہیں چوکتے۔ ہر انداز بیان کی اپنی کچھ خوبیاں اور خرابیاں ہوتی ہیں ۔ کوئی ادیب ان میں توازن پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ بہت مرتبے کی بات ہے۔ فوق کہیں کہیں اس کوشش میں ناکام بھی ہوئے ہیں مگر انھو ں نے کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ وہ ان ادیبوں میں سے نہیں جنھیں حظ اُٹھانے کے لیے پڑھا جاتا ہے۔و ہ دبستانِ فکر کے آدمی تھے مگر انھیں پڑھتے ہوئے اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں اسلوب بیاں کی خشکی کا گماں ہوتا ہے۔ اختصار نویسی فوق کا مستقل وصف ہے۔ بسیار نویسی کے باوجود ان کی اختصار نویسی قائم رہی۔
۴۰۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور، ۳۔ اگست ۱۹۸۱ء ،ص:۳۷
۴۱۔ ایضاً،ص:۳۷
۴۲۔ ’’سرگزشت فوق ‘‘،صفحہ ۱۱۶
۴۳۔ محمد الدین فوق ’’اکبر‘‘ ،لاہور ،راجپوت گزٹ مشین پریس ۱۹۰۹ ،ص:۱۷
۴۴۔ ایضاً،ص:۳
۴۵۔ ایضاً،ص:۵
۴۶۔ ہفت روزہ’’چٹان‘‘،لاہور ۳ اگست ۱۹۸۱ء ،ص:۳۸
۴۷۔ محمد الدین فوق، ’’انار کلی‘‘ ،لاہور ،مترولاس ،۱۹۰۰ء ،ص:۵۱
۴۸۔ محمد الدین فوق،’’حکایاتِ کشمیر‘‘ ،لاہور،ظفر بردارس ،۱۹۲۸ء ،ص:۳۹
۴۹۔ محمد حسن عسکری ’’ستارہ یا بادبان‘ ‘،کراچی ،مکتبہ سات رنگ ،طبع اول ،۱۹۶۳ء ،ص:۲۲۵
۵۰۔ الطاف فاطمہ ’’اردو میں سوانح نگاری کا ارتقاء ‘‘،کراچی ،اردو اکیڈمی سندھ،طبع اول ،۱۹۶۱ء ،ص:۱۷۵
۵۱۔ ڈاکٹر شاہ علی ، ’’اردو میں سوانح نگاری ‘‘کراچی، گلڈ پبلشنگ ہاؤ س، طبع اول،۱۹۶۱ء ،ص:۲۵۷
۵۲۔ ایضاً،ص:۳۰۳
۵۳۔ ایضاً،ص:۳۵۳
۵۴۔ الطا ف فاطمہ ،’’اردو میں سوانح نگاری کا ارتقاء ،ص:۱۷۶
۵۵۔ ڈاکٹر ممتاز فاخرہ،’’اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء ‘‘ ،دہلی ،رونق پبلشنگ ہاؤ س،طبع اول ۱۹۸۶ء ،ص:۱۰۲
۵۶۔ عبداﷲ قریشی ’’حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں ‘‘،لاہور ،بزمِ اقبال ،طبع اول، ۱۹۸۲ء ،ص:۳۷۲
۵۷۔ عبداﷲ قریشی ،’’باقیات ِ اقبال‘‘(مرتبہ) ،لاہور ،آئینہ ادب،۱۹۸۷ء ،ص:۳۲
۵۸۔ محمد الدین فوق’’تاریخ اقوام پونچھ‘‘ ،ص:دیباچہ
۵۹۔ عبداﷲ قریشی ’’حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں‘‘ ،ص:۲۵۹
۶۰۔ ایضاً،ص:۲۶۰
۶۱۔ ایضاً،ص:۲۶۱
۶۲۔ محمد الدین فوق ’’لاہور عہد مغلیہ میں ‘‘،لاہور ،ظفر برادرس۱۹۲۷ء ،ص:۱۰۴
۶۳۔ ڈاکٹر گیان چند جین ’’اردو کی نثری داستانیں‘‘،کراچی ،انجمن ترقی اردو طبع اول،۱۹۵۴ء ،ص:۲۱۹
۶۴۔ ڈاکٹر بشیر احمد ’’انوارِ اقبال ‘‘ ،لاہور ،اقبال اکادمی پاکستان ‘‘،۱۹۷۷ء ،ص:۶۹
۶۵۔ محمد الدین فوق’’حیاتِ فرشتہ‘‘ ،لاہور ،گلزار محمد سٹیم پریس،۱۹۱۹ء ،ص:۴۴
۶۶۔ محمد الدین فوق’’ملا دو پیازہ‘‘ ،لاہور ،ظفر برادرس ،۱۹۱۱ء،ص:۴۴
۶۷۔ الطا ف فاطمہ ’’اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء ‘‘،ص:۱۷۵

مولانا ظفر علی خان

مولانا ظفر علی خان (۱۹۵۶ء۔۱۸۷۳ء) اُردو نثر میں بطور نثر نگار ،مصنف ،مترجم اور صحافی تین حیثیتوں سے پہچان رکھتے ہیں۔ شاعری کی طرح نثر میں بھی مولانا ظفر علی خان کی ادبی خدمات ہیں۔ نثر میں ترجمہ ہو تصنیف و تالیف نسبتاً سکون ،اطمینان ،فرصت اور فراغت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مواقع جب بھی ظفر علی خان کو ملتے رہے وہ علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ حیدر آباد دکن میں قیام کا ابتدائی دور ان کی نثری تخلیقات (ترجمہ و تالیف) کے لیے بہت ساز گار تھا۔ پھر نظر بندی یا زندانی زندگی میں ہی ایسے مواقع ملتے رہے جب وہ شاعری کے علاوہ نثری تخلیق سے بھی اپنا جی بہلا سکیں اور اپنے مقصد کی پیش رفت کے علاوہ ادبیات کی خدمات کر سکیں۔ حیدر آباد دکن کے زمانہ فرصت و فراغت میں علمی تراجم کے علاوہ افسانوی ادب کی طرف ظفر علی خان کی خصوصی توجہ رہی۔ بعد کے زمانے میں افسانوی ادب سے توجہ ہٹتی گئی اور تاریخ ادب و سیاست و تہذیب ان کا موضوع خاص رہے۔
سب سے پہلے ظفر علی خان کے تراجم کا ذکر کیا جاتا ہے جو انھوں نے دیگر زبانوں سے اردو زبان میں ترجمہ کیے۔ ظفر علی خان شاعری کی طرح بطور مترجم بھی اردو ادب میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ انھیں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً انگریزی زبان پر عبور تھا۔ ان کے زیادہ تر تراجم انگریزی سے اردو زبان میں ہیں۔ ظفر علی خان کی ’’خیابانِ فارس‘‘ پہلی نثری کتاب ہے جو ۱۹۰۲ء میں مطبع شمسی حیدر آباد دکن سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب ۶۱۲ صفحات کی ضخامت پر مشتمل ہے۔ یہ لارڈ کرزن کی تالیف"Persia and persian question"کی پہلی جلد کا ترجمہ ہے جس میں ایران کے سیاسی جغرافیے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ معرکہ مذہب و سائنس کو مولانا ظفر علی خان نے ۱۹۱۰ء میں لاہور سے شائع کیا۔ اس کتاب کی ضخامت ۲۸۶ صفحات ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کی تالیف "A history of conflict between religion and science"کا اردو ترجمہ ہے۔
کتاب کی اہمیت کے بارے میں حالی اور شبلی کی رائے درج کی جاتی ہے ۔مولانا حالی کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں :
معرکہ مذہب و سائنس کی نسبت بلحاظ ترجمہ کی خوبی کے جو کچھ مولوی عبدالحق صاحب نے لکھا ہے اس کو مبالغے سے بالکل پا ک سمجھتا ہوں اور ترجمہ کے لیے اس کتاب کے انتخاب کو میں آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوت ممیزہ کی ایک روشن علامت سمجھتاہوں۔اس باب میں جو خط میں نے پہلے لکھا تھا اس کا جواب آنے پر جس طرح ہو سکا میں نے جستہ جستہ اس بے مثل کتاب کے اکثر حصے دیکھے اور اگر کچھ روز زندگی نے وفا کی تو جب موقع ملے گا۔ اس کو بار بار دیکھوں گا۔(۶۸)
مولانا شبلی نعمانی ’’معرکہ مذہب و سائنس‘‘ پر طویل تبصرے کے دوران لکھتے ہیں:
مترجم صاحب مشہور مترجم ہیں۔ ان کی کتاب ’’خیابانِ فارس‘‘ متداول ہو چکی ہے۔ ’’دکن ریویو‘‘ نے بھی ان کو کچھ کم روشناس نہیں کیا ہے۔ ترجمہ کی خوبی پر میں کچھ رائے نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میں انگریزی نہیں جانتا۔ اس لیے ترجمے کی صحت اور غلطی کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ البتہ اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ کسی علمی کتاب کا صحیح ترجمہ اس سے زیادہ صاف اور قریب الفہم نہیں ہو سکتا…… مترجم صاحب اگرچہ بہت متین لکھنے والے ہیں لیکن کہیں کہیں نحیف محاورے آگئے ہیں جو ایک علمی کتاب کے شایان نہیں۔مترجم کا یہ خاص احسان ہے کہ مصنف نے جہاں کوئی بات اسلام کے خلاف لکھی ہے انھوں نے نوٹ میں اچھی طرح اس کی پردہ دری کی ہے۔ اور اس وقت وہ مترجم نہیں بلکہ اچھے خاصے تند مزاج مولوی ہیں۔(۶۹)
’’جنگل میں منگل‘‘ رڈیارڈ کپلنگ کی کتاب’’ The Jungle Book‘‘کاسلیس و با محاورہ ترجمہ ہے۔ ظفر علی خان نے ۱۹۰۲ء میں یہ کتاب شائع کی ۔ اس کتاب کے ۱۹۴صفحات ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کتاب بہت مقبول رہی۔ اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ’’سیر ظلمات‘‘ رائیڈ رہیگرڈ کے ناول The people of the mistکا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ حیدر آباد میں قیام کے ابتدائی ایام میں مولوی عزیز مرزا کی تحریک پر کیا۔ اس کتاب کی ضخامت ۴۲۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۹۰۳ء’’اسرار کندن‘‘My stries of court of London کا اردو ترجمہ ہے جو ۱۹۰۲ء اور ’’دکن ریویو‘‘ میں بالا قساط شائع ہوتا رہا۔
’’جنگ روس و جاپان‘‘ مولانا ظفر علی خان کا طبع زاد ڈراما ہے جو ۱۹۰۵ء میں لکھا گیا۔ اور دکن ریویو جلد سوم کے شمارہ نمبر ۹ تا ۱۲ میں شائع ہونے کے علاوہ ۱۹۰۵ء ہی میں حیدر آباد سے اور دوسری بار ۱۹۱۴ء میں اسلامیہ اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس ڈرامے کی ضخامت ۱۹۱ صفحات ہیں۔ چار ایکٹ کے اس ڈرامے کے ۳۹ منظر ہیں۔ اس ڈرامے کا دیباچہ مولوی عبدالحق نے لکھا ہے۔
پنجاب میں آکر ظفر علی خان نے ہفتہ وار ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ ’’پنجاب ریویو‘‘ ماہوارجاری کیا تو اس میں ان کے نثری مضامین(ترجمہ و تالیف) بھی شائع ہوتے رہے۔ سید جمال الدین افغانی اور ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر (اقبال کے انگریزی لیکچر کا اردو ترجمہ) پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوتے رہے۔ ’’میری عینک‘‘،’’نازلی بیگم‘‘ ،’’معاشرت‘‘یا افسانوی مجموعے (ترجمہ اور تالیف)بھی پنجاب ریویو میں’’زمیندار‘‘ اور’’ستارہ صبح‘‘ میں متعدد بار شائع ہوئے۔ ’’روح معافی‘‘ ان کے دو خطبات اور کچھ نظموں کا مجموعہ لاہور سے ایک ہی بار ۱۳۳۹ھ میں شائع ہوا۔ ’’غلبہ روم‘‘ قرآن کریم کی سورہ روم کی تفسیر منٹگمری جیل میں لکھی گئی اور لاہور سے ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی۔ نظر بندی کے زمانہ میں ’’ستارہ صبح‘‘ میں شائع ہونے والے اور منٹگمری کے زندان میں لکھے جانے والے تاریخی ،تہذیبی و ادبی مقالے حقیقت و افسانہ لطائف الادب ،حقائق و معارف ،جواہر الادب کے عنوان سے مختلف مجموعوں میں شائع کیے گئے ۔ بہت سے غیر مدون مضامین بھی ابھی تک زمیندار کے بوسیدہ اوراق میں بکھرے پڑے ہیں۔ انھیں میں قتل مرتد اور افسانہ حجاز بھی شامل ہیں۔اخباری اداریے،جواہر ریزے اور حکایات و مکتوبات اس کے علاوہ ہوں گے ۔ اس طرح ظفر علی خان کا اردو نثری سرمایہ مدون اور غیر مدون خاصی بڑی تعداد میں ان کی یادگار ہے۔ اردو نثر کے علاوہ انگریزی نثر میں بھی ان کا کچھ سرمایہ دستیاب ہے اور کچھ نایاب ہے
ظفر علی خان نے اپنی نثر ی ادبی زندگی کا آغاز ترجموں سے کیا۔ علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں انگریزی کتب بینی کا شوق اور پروفیسر آرنلڈ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مطالعہ شدہ کتب کا ملخص تیار کرنے کی عادت نے بہت اثر کیا۔حیدر آ باد کی ملازمت کے دوران ظفر علی خان نے کئی علمی و ادبی کتابوں کے ترجمے کیے ۔ا ن کی جودت طبع نے ان تراجم میں اپنے پور ے جوہر دکھائے ہیں۔ اصل مضمون کی لفظی ومعنوی خوبیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھوں نے ترجمے میں سلاست اور صفائی کا ایسا شستہ اور برجستہ انداز اختیار کیا ہے کہ ترجمہ ،ترجمہ معلوم نہیں ہوتا۔ بلکہ اصل تصنیف معلوم ہوتا ہے۔ ترجمے کا یہ سلیقہ کہ اصل مفہوم کو برقرار رکھتے ہوئے وہ تخلیق کے درجے تک جا پہنچے اس فن کی معراج ہے۔ عام ترجمہ کرنے والا لفظوں اور ترکیبوں کے چکر میں الجھ کر تکلفات کا اسیر ہو جاتاہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مضمون کی اصل روح ترجمے میں پرواز کرجاتی ہے۔ ظفر علی خان کے تراجم میں یہ تکلف اور اہتمام کہیں نہیں ملے گا ۔ وہ اصل مفہوم کو ملحوظ رکھتے ہوئے آزاد ترجمہ کرتے ہیں اور بعض اوقات ترجمہ لطف زبان اور حسنِ بیان کے اعتبار سے اصل عبارت سے بھی بڑھ جاتاہے۔ ’’معرکہ مذہب وسائنس‘‘ کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے تا کہ موازنے میں سہولت رہے اور ظفر علی خان کے ترجمے کی خوبیوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔
فتح! اور وہ بھی بیت المقدس کی !عیسائیت کے پایہ تخت کی!!کس طرح ممکن تھا کہ لوگ اس واقعہ کو اسلام کے غلبہ اور مسیحیت کی شکست سے تعبیر نہ کریں۔دونوں مذاہب میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو سچا سمجھ کر اس یقین کے ساتھ کہ فتح سچائی کی ہو گی۔ ایک دوسرے کا مقابلہ کیا تھا اور فیصلہ خدا پر چھوڑا تھا۔ خدا نے فتح اسلام کو عطا کی اور فتح کا تمغہ بیت المقدس کی شکل میں مسلمانوں کو دیا اور اگرچہ حروب صلیبیہ کے دوران عیسائیوں کو تھوڑی دیر کے لیے کامیابی حاصل ہو گئی۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ ہزار سال کی جدوجہد کے بعد آج بھی وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہیں۔(۷۰)
"The fall of Jerusalem !the loss of the metropolis of christuanity in the ideas of that age the two antagonistic forms of faith had submitted themselves to the ordeal of the judgment of God. victory had awarded the prize of battle, Jerusalem to the mohammedan,and not with standing the tempoary successes of the crusaders after much more than a thousand years in his hands it remains to this day."
معرکہ ’’مذہب و سائنس‘‘ ایک علمی کتاب ہے۔ ظفر علی خان نے جس سادگی و سلاست کے ساتھ اسے اردو میں منتقل کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کتاب ترجمہ معلوم نہیں ہوتی۔ اردو محاورات کا بر محل استعمال ،نئی تراکیب اور مصطلحات علمیہ کا اختراع اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ ظفر علی خان نے اپنی جولانی طبع اور شگفتہ مزاجی کی بدولت فلسفے اور تاریخ کی ایک خشک کتاب کو دلچسپ اور پر لطف بنا دیا ہے اور یہی ان کا کمال فن ہے۔
علمی کتابوں کے علاوہ ظفر علی خان نے انگریزی کے صاحب طرز ادیبوں رڈیا رڈ کپلنگ ،رائیڈ ر ہیگرڈ اور ایڈگر ایلن پو کے افسانوی ادب کو بھی اردو ادب کا جامہ پہنا یا ۔ یہاں بھی انھوں نے لفظی ترجمے کی بجائے مفہوم کو اہمیت دی ہے اور اردوئے معلی کی با محاورہ زبان میں اصل قصے کو اس طرح سمو دیا ہے کہ یہ ترجمہ تخلیق کے مرتبے کو پہنچ گیا ہے ۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
گھنی جاڑیوں کے پتوں میں ذرا سا کھڑکا ہوا اور بھیڑیا اپنے پچھلے پنجوں کے بل جست بھرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس وقت اگر تم نے دیکھا ہوتا تو ایک نہایت ہی حیرت انگیز نظارہ تمہارے دیکھنے میں آیا ہوتا۔ اوروہ یہ کہ بھیڑیے کا زقند بھرتے اپنے تیئں روک لیتا ۔ بھیڑیے نے جست لگائی ہی تھی کہ اس نے دیکھا میں کس شے پر کودا ہوں اور تب اس نے اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ چار یا پانچ فٹ بلند اوپر کو اچھلا اور جہاں سے کودا تھا وہیں آرہا۔ اپنی مادہ سے اس نے کہا ۔اجی یہ تو انسان ہے۔ ایک ننھے سے آدمی کا بچہ دیکھو تو آکر ۔(۷۱)
ظفر علی خان کے تراجم کی زبان و بیان میں سادگی ،سلاست اور روانی ہے۔ محاورات کا استعمال بھی بیشتر موقع و محل کے مطابق ہے۔ علمی تراجم میں عربی ،فارسی کے الفاط اور تراکیب جا بجا نظر آتی ہیں لیکن افسانوی ادب میں یہ صورت بہت کم نظر آئے گی۔ وہ رنگین پر شکوہ اور پیچ و خم کھاتا ہوا بلند آہنگ اسلوب جو ظفر علی خان کی بعد کی تحریروں میں ملتا ہے۔ ابتدائی دور میں کم ملے گا۔
ظفر علی خان کا ابتدائی دکنی دور ان کی ادبی نگارشات کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ اس دور میں اگرچہ انھوں نے زیادہ تر ایک مترجم کی حیثیت سے شہرت حاصل کی تاہم ’’دکن ریویو‘‘ اور ’’پنجاب ریویو‘‘ کے بعض مضامین ،افسانے ،ڈرامے ادارتی مقالے اور تبصرے ان کے طبع زاد تصنیفی سرمائے میں شامل ہیں۔اس دور کے بعد ان کی زندگی کا بڑا محور سیاست کا میدان تھایا صحافت کا خار زادہ جن سے کبھی کبھی جبری فرصت ملتی تھی تو ادب کے مرغزار میں چہل قدمی کے مواقع میسر آجاتے تھے۔’’ پنجاب ریویو‘‘کے علاوہ ہفتہ وار’’ زمیندار‘‘ اور ہفتہ وار’’ ستارہ صبح ‘‘کا زمانہ اسی قسم کی فرصت و فراغت کا تھا۔ جس میں ظفر علی خان نے کئی مقالات(تاریخی ،تحقیق و تنقیدی) اور طبع زاد مضامین اور افسانے لکھے۔ اسے ان کی تصنیفی زندگی کا دوسرا دور کہا جا سکتا ہے۔
پہلے دور کی نثر میں تراکیب و محاورات اور رنگینیٔ بیان کے جو نقوش ذرا ہلکے تھے وہ دوسرے دور میں خاصے گہرے ہو جاتے ہیں ۔ عربی ،فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال بھی کثرت سے ہونے لگتا ہے۔ ’’ستارہ صبح‘‘ کی زبان و بیان پر بعض لوگ معترض ہوئے تو اس کا جواب ظفر علی خان نے اس طرح دیا:
افتاد طبیعت کی طرح طرز تحریر و انداز بیان بھی انسان کے اختیار سے باہر ہوا کرتا ہے اور اس لیے ہم سے اس بات کی توقع رکھنا کہ اپنی تحریر کو عربیت اور فارسیت کے پیرایہ سے عاری کر کے بھی ہم اس کی شگفتگی برقرار رکھ سکیں گے ۔ایساہی ہے جیسا مہر منیر سے اس بات کا متوقع ہونا کہ ابر سیاہ منہ پر ڈال کر بھی وہ اپنی شان جہانتابی قائم رکھ سکے گا۔ اس کے علاوہ ’’ستارہ صبح ‘‘کا ایک بڑا مقصد ادب آموزی ہے کہ اس کے مطالعہ سے نئے نئے استعارے ،نئی نئی بندشیں اور نئے نئے اسلوب بیان پیشَ نظر ہو جائیں اور یہ ظاہر ہے کہ اردو لٹریچر میں یہ شیفتگی عربی و فارسی کے امتزاج ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔(۷۲)
پہلے دور کی تصانیف میں سلاست اور رنگینی بیان کا امتزاج پایا جاتاہے ۔یہ طرزِ بیان کسی قدر پر تکلف او ر تراجم سے قدرے مختلف ہے۔ تراجم میں نسبتاً سادگی ہے ۔طبع زاد مضامین میں اسلوب ساد ا اور رواں نہیں بلکہ پیچ و خم کھاتا ہوا ہے۔ محاورات و تراکیب کے ساتھ کہیں کہیں قافیوں کا استعمال اور ہم آواز لفظوں کا التزام عبارت کو دلکش بناتا ہے۔ اس دور کے مختلف مضامین اور افسانوں کے جستہ جستہ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے جو اس دور کے نثری اسلوب کی نمائندگی کرتے ہیں:
یہ ایک حقیقت نفس الامری ہے کہ جس قدر کوششیں موجودہ زمانہ میں مسیحی دنیا نے نوع بشر میں تـثلیثی عقائد پھیلانے کے متعلق کی ہیں اس کا عشر عشیر بھی مسلمانوں کی طرف سے ظاہر نہیں ہوا۔ اور جب یہ دیکھا جاتاہے کہ باوجود ان دلچسپ اور دلکش ترغیبوں کے جن کا جال پری جمال وعظ کرنے والیوں اور سیم و زر کی تھیلیوں کی شکل میں بیچار ے سراپا لغزش انسان کے لیے بچھایا گیا ۔ جس کی کل کائنات لے دے کر ایک تہمد اور ایک بوریا تھی، اوس نے اس حالت مسکنت کو اس شان تمکنت پر پھر بھی ترجیح ہی دی ، توا س امر کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کو اپنے متعقدین کے دلوں پر کہاں تک قابو ہے۔(۷۳)
لیکن زمانے کے زبردست پہلوان نے اڑنگے پر لا کر ہمیں ایسی پٹخنی دی اور ایسا ذلیل کیا کہ اب بجز اس کے چارہ نہیں کہ اگر اور کسی خیال سے نہیں تو کم از کم اپنی جان بچانے کے خیال سے ہم سب ایک ہو جائیں ،شیعہ ، سنی اور مقلد وغیرہ مقلد کے باہمی اختلافات کی اب ہمیں فرصت نہیں ۔ یہ سب اختلافات اب ایک عالمگیر غرض میں ضم ہو جانے چاہیں۔ اور وہ غر ض ہونی چاہیے ترقی اسلام۔(۷۴)
دوسرے دور کی نثر میں پر شکوہ الفاظ بلند آہنگ تراکیب کا استعمال جذبات کے جوش و خروش کے ساتھ ساتھ بڑ ھ جاتا ہے۔ سر سید کے دور کی عقل پسندی کے برعکس یہ جذبات پسندی کا دور تھا۔ سیاسی حالات اضطراب انگیز صورت اختیار کر چکے تھے۔ محکومی کا تلخ احساس جذبات میں ہل چل پیدا کر رہا تھا۔ بلاد اسلامی کے حادثات ہیجان انگیز تھے۔ اس دور کے ہیجان و اضطراب نے صحافت اور خطابت کے ذریعے اظہار کا نیا راستہ تلاش کیا۔ ابوالکلام آزاد کا’’ الہلال ‘‘بھی اسی زمانے میں منصہ شہود پر آیا اور اس رومانی رجحان کا نمائندہ بن گیا۔ جس میں جذبات اور استدلال گھلے ملے تھے۔ظفر علی خان بھی اسی رجحان کے ادیب تھے ۔ ان کی ذات میں صحافت اور خطابت کے عناصر نے مل کر جوش انگیزی کی جو صورت اختیار کی اس سے ان کی اس دور کی نثر خاصی متاثر ہوئی ہے۔ پہلے دور کی نثر میں جو رنگ ہلکے اور معتدل تھے وہ اس دور میں شوخ ہوگئے۔ تاہم یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ یہ شوخ رنگ وہیں تک ہیں جہاں جذبات کو بھڑکانا مقصود ہے اور جہاں معتدل انداز میں کسی مسئلے کو بحث و استدلال کے ساتھ پیش کیا جاتاہے وہاں اسلوب نگارش ٹھوس اور منطیقانہ ہوتا ہے۔ اس دور کی نثر کے اسلوب کے نمونے کے حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
صاحب دلوں کے لیے تو صرف یہی شہادت کافی ہے۔ لیکن بے بصروں کو اگر روشنی کی ضرورت ہو تو وہ ۱۹۲۲ء کے واقعات پر نظر ڈال لیں کہ کس طرح جب طواغیت کفر و جبولت ضلالت کے ہجوم سے خلافتِ الہیہ پر جہان تنگ ہو گیا تھا دفعتاً وہی از غیبی پتھر جو تیرہ صدی پیشتر اوج بطحا پر بلند ہو اتھا فضائے انگورہ میں نمودار ہو کر ان کے کاسۂ سر پر گر ا اور انھیں خاک میں ملاتا گیا اور اب رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے کہ تمام دنیا پر از سر نو چھا جائے۔(۷۵)
شاعری کی طرح ظفر علی خان کی نثر میں بھی ہیبت و جلال کے عناصر فراوانی سے مل جاتے ہیں۔ ان کی نثر میں پر شکوہ اور بلند آہنگ تراکیب کا جا بجا استعمال اس رجحان طبع کے نتیجے میں ہوا ہے۔ مثلاً یہ الفاظ و تراکیب ظفر علی خان کے مخصوص مزاج کا پتہ دیتی ہے۔ کاسہ لیس ، کامہ لیسان ازلی ،حقیقت نفس الا مری ،رُبع مسکونِ ،ظلمت کدہ فرنگ ، ببانگ دُھل ،جابر و قاہر ،آن بان ،گجردم ، اڑا اڑا دم، فیروزہ گوں ، زلزلہ ، آتش صاعقہ ،برق، طاغوت ،استبداد ، قہر ذوالجلال ،کفر سوز ،آویزہ گوش، دادو دھش ،جلال و جبروت ،فضا و قدر وغیرہ ۔ظفر علی خان کی نثر میں محاورات کا استعمال بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ اکثر اوقات تو یہ محاورے بڑے بر محل ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ محاورات موقع بے موقع ٹھونسے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔بعض محاورے حسن و لطافت کا مظہر ہوتے ہیں اور بعض بڑے نحیف اور عامیانہ نظر آتے ہیں جو مذاق سلیم پر گراں گزرتے ہیں۔ مثلاً اس قسم کے محاورات کا استعمال وہ اپنی تحریروں میں بڑے شو ق اور کثر ت سے کرتے ہیں۔ اڑنگے پرلا نا، پٹخنی دینا، کرارے پر چڑھنا، دیدے پٹم کرنا وغیرہ یہ محاورے ظفر علی خان کے مزاج سے تو ایک خاص مناسبت رکھتے ہیں لیکن ان کی سنجیدہ علمی یا خطیبانہ تحریروں کو پایۂ ثقاہت سے گرا دیتے ہیں۔
ظفر علی خان کی نثر میں جذبے کے علاوہ تخیل کی بھی کار فرمائی ہے۔ اس لحاظ سے وہ ایک رومانی نثر نگار تھے۔ ٹھوس حقائق کو بیان کرتے ہوئے بھی ان کا ذہن تخیل کے شہروں پر سوا ر ہو کر انجانی فضاؤں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے۔ جہاں عقل کے بھی پر جلتے ہیں۔عقل انسانی صحراؤں کو چھانتی ،گلزاروں کو روندتی ،سمندروں کو کھنگالتی ،ہواؤں کو چیرتی ہوئی ،آسمانوں کو بھی توڑ کر نکل گئی لیکن اس گھاٹی میں سے ہو کر نہ گزر سکی جو آدمیت کا اولین مرحلہ تھا۔(۷۶)
یہ عبارت صاف بتارہی ہے کہ یہ ایک رومانی ادیب کا لہجہ ہے۔ اس کے آہنگ میں خطیبانہ جوش بھی بل کھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دھیمی دھیمی آنچ کے مقابلے میں انھیں بھڑکتے ہوئے شعلے اور آتش باز شرارے عزیز تھے۔ جوئے نغمہ خواں کے مقابلے میں انھیں جوئے کہسار کا مہیب شور پسند تھا۔ طبیعت کی اس شورش پسندی نے ان کے نثری آہنگ میں مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ کبھی وہ ہم صوت حروف کی تکرار سے ،کبھی ہم آواز الفاظ کے استعمال سے اور کبھی فقروں کے باہمی تصادم اور ٹکراؤ سے ایک ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں جس میں عبارت کا زیرو بم ایسے شخص کے دل کی دھڑکنوں کو ظاہر کرتا ہے جو میلوں پیادہ پا اور تیزروچلنے کے بعدبھی اپنے تنفس کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ اور اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کر سکتا ہے۔ حروفِ ربط و اتصال کی مدد سے وہ ایک ہی بات کو مختلف صورتوں میں پیش کرتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو ایک ہی طویل فقرہ پیچ و خم کھاتا ہوا بلا تکان ایک طویل پیرا گراف کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ذیل کے پیرا گراف میں طویل فقرات کا آہنگ ملاحظہ فرمائیے:
مسیحیوں نے ان گنت شکستوں کا بدلہ مسلمانوں سے گن گن کر لیا بیت المقدس میں پہنچ کر ستر ہزار مردوں ،عورتوں اور بچوں کے خون سے ہاتھ رنگے، اندلس کے لاکھوں فرزندانِ توحید کو آگ میں جلا کر پھانسی پر لٹکا کر یادیس نکالادے کر ان کا نا م نشان ایسا مٹایا کہ آج وہاں خدائے واحد کا ایک پرستار نظر نہیں آتا۔ مراکش ،تونس ،الجزائر اور طرابلس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ ترکستان ،ماوراء ،النہرا اور خوارزم کے کان میں اپنے تعبد کا حلقہ ڈال دیا۔ ہندوستان کے اسلامی اقتدار کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اُڑا دیں۔ بلقان میں کلمہ گویوں کے خون کی ندیاں بہا کر ان کی مسجدوں اور مدرسوں اور خانقاہوں کو اپنا اصطبل بنا لیا۔ مسیحی دنیا نے یہ سب کچھ کیا ،مگر اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔(۷۷)
ظفر علی خان کی نثر میں رومانی خطابت کا پر جوش اندا ز بھی ملتا ہے۔ جس میں کوئی منطقی ربط شاذ ہی ہوتا ہے۔ جذبہ اور جنون اس انداز کی خصوصیت ہے۔ ساز کے جس تار کو بھی چھیڑ دیجیے اس میں سے پر خروش زمزمے نکلنے لگیں گے۔ بعض اوقات ایک ایک فقرہ اپنے دامن میں کوہ آتش فشاں کی حرارت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ مثلاً:
داس کے چتا کے شعلوں میں مجھے برطانوی مملکت کا سنگھاسن لرزتا ہوا نظر آتا ہے۔
داس کی موت برطانوی ملوکیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔(۷۸)
یہ ایک رومانی انقلاب پسند کا لہجہ ہے کبھی دلائل و برا ہین کے طویل سلسلے کے بعد فیصلہ کن انداز میں ایک بلند آہنگ فقرہ ، جو تھوڑے سے پیچ و خم کے بعد قاری کے ذہن کو ایک حتمی نتیجے پر پہنچا کر تحسین و آفرین کہنے پر مجبور کر دیتا ہے:
کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے باشندے مصنوعات میں اپنی ضروریات زندگی کے متکفل آپ نہ ہوں۔ وہ ملک جو اپنے لوازمِ تمدن کے لیے اغیار کا دستِ نگر ہے۔ کلا غ بے پرو بال کی طرح طفیل خوارہ ہے۔ اس پر بھی اگر اسے شاہین تیز پرواز کی ہمسری کا دعویٰ ہو تو اس کی حالت پر رونا چاہیے۔(۷۹)
ظفر علی خان کی نثر میں شاعرانہ وسائل سے بھی کام لیا گیا ہے۔ وہ طبعاً اور عملاً ایک قادر الکلام شاعرکی حیثیت رکھتے تھے۔ نـثر میں صنائع بدائع کا استعمال ، گاہے گاہے ،قافیوں کا التزام اور مسجع فقروں کا اہتمام ان کی نثر کو شاعری کے قریب قریب لے آتا ہے۔ یہ عناصر جب پر سکون فضا میں بے ساختگی کے ساتھ تحریر میں آتے ہیں اور جذبے اور تخیل کی لہروں کے ساتھ مل کر پر کیف نغمگی پیدا کرتے ہیں تو عجیب لطف و کیف کا سماں ہوتاہے۔ مثلاًذ ـیل کی عبارت نثر میں شاعرانہ مرقع کشی کا ایک دل آویز نمونہ پیش کرتی ہے:
شام کا سہانا وقت تھا، ہوا کے جھونکے تازگی اور فرحت میں بسے ہوئے تھے۔ آسمان کا فیروزہ گون دامن ابر کے ہر داغ،غبار کے ہر دھبے سے پاک و صاف تھا ۔دامنِ کوہ کے خودرو پھولوں سے بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ سورج مغربی اُفق کے نارنجی آنچل میں اپنا منہ چھپانے کے قریب تھا اور اس کی تمام تجلیاں سمٹ کر پہاڑی کی چوٹی پر پھیل گئی تھیں۔ جہاں سے ان کا عکس سمت مقابل کی زمردیں ڈھلواں پر پڑ کر کچھ بھیڑوں اور ان کے چرواہوں کو موج ِ نور میں غوطہ دے رہا تھا۔(۸۰)
شبلی کی طرح ظفر علی خان کی نثر میں بھی کہیں کہیں حروف کی صوتی تکرار اور الفاظ کے جوڑے پر کیف شاعرانہ رنگ پید اکر دیتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
زمانہ ماضیہ کے تذکرے میں ہے کہ کیسے کیسے پیغمبر کیسے کیسے بادشاہ گزرے ہیں جن کی سرتیں کس کس نہج کی تھیں۔ اس طرح اقوام و ممالک کے حالات میں ہے کہ کون کون سی قومیں کن کن ملکوں میں آباد ہوئیں اور انھوں نے کیا کیا آبادیاں بسائیں۔(۸۱)
جذبے ،تخیل ،آہنگ اور صوتی کیفیات کے یہ وہ عناصر ہیں جو ظفر علی خان کی نثر اور شاعری کے مقام اتصال پر واقع ہیں اور جن کے ذریعے ان کی تحریروں میں ایسی دلآویزی پیدا ہوتی ہے جو پڑھنے والوں کو مسرور بھی کرتی ہے اور مسحور بھی ۔ ظفر علی خان کی نگارشات اپنے ماحول کی پیداوار او ر اپنے زمانے کی ترجمان ہیں۔ اس لیے ان کا شمار ادب عالیہ کی صف میں ہونا چاہیے۔ ظفر علی خان کا مرتبہ بحیثیت صاحبِ طرز ادیب و انشا پرداز مسلم ہے اور اردو کے رومانی ادیبوں میں انھیں ایک بلند حیثیت حاصل رہے گی۔

۶۸۔ بحوالہ ’’پنجاب ریویو‘‘ ،ستمبر ۱۹۱۰ء،مکتوب مولانا حالی، بنام ظفر علی خان، مورخہ ۱۵ اگست ۱۹۱۰ء ،ص:۸۹
۶۹۔ بحوالہ ’’مقالات شبلی‘‘ ،جلد چہارم ،اعظم گڑھ، ۱۹۵۶ء ،ص:۹۲
۷۰۔ مولانا ظفر علی خان ’’معرکہ مذہب و سائنس ‘‘ ،لاہور،۱۹۱۰ء ،ص:۳۸
۷۱۔ مولانا ظفر علی خان’’جنگل میں منگل‘‘ ،لاہور ،س ن
۷۲۔ ’’ستارہ صبح‘‘ جلد نمبر ۱، نمبر ۵، ص:۲۵
۷۳۔ ’’دکن ریویو‘‘ ،جلد ۱ نمبر ۶ تا ۱۰ ،ص:۱۲
۷۴۔ ایضاً،ص:۲۳
۷۵۔ مولانا ظفر علی خان ،’’لطائف الادب ‘‘،لاہور، ۱۹۲۵ء ،ص:۱۰
۷۶۔ ایضاً،ص:۲۵
۷۷۔ ایضاً،ص:۲۱
۷۸۔ ایضاً،ص:۳۵
۷۹۔ مولانا ظفر علی خان ’’روح معانی‘‘ ،لاہور ۱۹۲۰ء ،ص:۲۴
۸۰۔ ظفر علی خان’’حقیقت اور افسانہ ‘‘،لاہور ،۱۹۲۵ء ،ص:۶۳
۸۱۔ ظفر علی خان ،’’حقائق و معارف‘‘،لاہور ۱۹۴۰ء ،ص:۹۶

علامہ محمد اقبال

علامہ محمد اقبال (۱۹۳۸ء۔۱۸۷۷ء) علامہ اقبال ایک فطری شاعر تھے۔ شعر گوئی کے معاملے میں ان کی طبیعت میں سیل ہمہ گیر کی سی روانی او ر بے قراری ہوتی تھی حتیٰ کہ زبان بھی اس راہ میں رکاوٹ نہ بن پائی اور وہ اردو ،فارسی دونوں زبانوں میں یکساں روانی اور سہولت سے شعر کہتے چلے جاتے۔ چنانچہ اقبال کی شہرت ایک شاعرکی حیثیت سے مسلم ہو گئی۔ ان کی اس حیثیت کو تحریر و تقریر کے ذریعے مزید نمایاں کیا گیا مگر وہ نامور شاعر کے ساتھ ساتھ مفکر ،معلم ،محقق اور نثر نگاربھی ہیں۔ نثر نگار کی حیثیت سے اقبا ل کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ لکھنا ایک اکتسابی فعل ہے جسے اقبال نے بہ امر مجبوری انجام دیا۔ اقبال ذاتی طورپر بھی نثر نگاری کی طرف سے بے نیاز رہے۔ اس لیے نثر میں جو کچھ تحریر کیا اسے یا تو درخورا عتنا نہ جانا یا پھر ضائع کر دیا۔ اقبال نثر میں اظہار خیال سے کتراتے رہے تاہم انھوں نے جو لکھا وہ مدلل ،جامع اور مفصل ہے۔ ان کی نثر کا مطالعہ کرتے ہوئے کہیں ادھورے پن اور تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے بہت سے ایسے موضوعات پر نثر میں قلم اُٹھایا جو قبل ازیں شعر میں بیان کر چکے تھے۔ ان کی نثر ،شعر کی تفہیم میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے اور ان کے افکار اور شخصیت کے مخفی گوشوں کو جانچنے اور پرکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ نثر نگارکی حیثیت سے علامہ اقبال نے جو کچھ لکھا ،مقالے کے اس نثری حصے کا موضوع ہے۔ نثر میں علامہ کا اولین کارنامہ اقتصادیات کے موضوع پر ایک مستقل علمی کتاب ہے۔ جو ’’علم الا قتصاد ‘‘ کے نام سے پہلی مرتبہ پیسہ اخبار خادم التعلیم پریس لاہور سے ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’شادِ اقبال‘‘ سب رس کتاب گھر حیدر آباد دکن سے ۱۹۴۲ء میں طبع ہوئی۔ اسے ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے مرتب کیا۔ تیسری کتاب مضامین اقبال کو احمد حسین جعفرعلی تاجر کتب نے حیدر آباد سے ۱۹۴۴ء میں شائع کیا۔ اسے تصدق حسین تاج نے مرتب کیا۔ چوتھی کتاب ’’اقبالنامہ حصہ اول‘‘ شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہور سے ۱۹۴۴ء میں طبع ہوئی۔ اسے شیخ عطاء اﷲ نے مرتب کیا۔پانچویں کتاب ’’اقبالنامہ حصہ دوم‘‘ بھی اسی مکتبہ سے شیخ عطا اﷲ نے مرتب کی۔ چھٹی کتاب مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین بزم اقبال لاہور سے ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی۔ ساتویں کتاب ’’مکتوباتِ اقبال‘‘ اقبال اکادمی کراچی سے ۱۹۵۷ء میں طبع ہوئی اسے سیدنذیر نیازی نے مرتب کیا۔ آٹھویں کتاب ’’مقالاتِ اقبال‘‘ کو شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہورنے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کو سید عبدالواحد نے مرتب کیا ۔ نویں کتاب ’’انوارِ اقبال‘‘ ،اقبال اکادمی کراچی سے۱۹۶۹ء میں طبع ہوئی۔ جسے بشیر احمد ڈار نے مرتب کیا۔ دسویں کتاب ’’مکاتیب اقبال بنام ’’گرامی ‘‘ اقبال اکادمی کراچی سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی جسے محمد عبداﷲ قریشی نے مرتب کیا۔ گیارہویں تصنیف ’’خطوط ِ اقبال‘‘ مکتبہ خیابانِ ادب لاہور سے ۱۹۷۶ء میں طبع ہوئی جسے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا۔’’روحِ مکاتیب اقبال ‘‘ اقبال کی بارہویں تصنیف ہے۔ جسے اقبال اکادمی لاہو رنے ۱۹۷۷ء میں طبع کیا۔ اس کتاب کو محمد عبداﷲ قریشی نے مرتب کیا۔ ’’اقبا ل کے نثری افکار‘‘ انجمن ترقی اردو ہند دہلی نے ۱۹۷۷ء میں شائع کیااس تصنیف کو عبدالغفار شکیل نے مرتب کیا۔
’’Letters of Iqbal‘‘اقبا ل کی چودھویں تصنیف ہے جسے اقبال اکادمی لاہور نے ۱۹۷۷ء میں طبع کیا۔ اس تصنیف کو بشیر احمد ڈار نے مرتب کیا۔خطوط اقبال بنام’’ بیگم گرامی‘‘ فیصل آباد سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی جسے حمیدا ﷲ ہاشمی نے مرتب کیا۔ ’’اقبال نامے‘‘ اقبال کی سولہویں کتاب ہے۔ جسے طارق پبلی کیشنزبھوپال نے ۱۹۸۱ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کو ڈاکٹر اخلاق اثر نے مرتب کیا۔ ’’اقبال جہان دیگر‘‘ اقبال کی سترھویں تصنیف ہے جسے گردیزی پبلشرز کراچی نے ۱۹۸۳ء میں طبع کیا۔ محمد فرید الحق نے اس تصنیف کو مرتب کیا۔ تاریخ تصوف کو مکتبہ تعمیر انسانیت لاہو رنے ۱۹۸۵ء میں شائع کیاجسے صابر کلوروی نے مرتب کیا۔ ’’اقبال بنام شاد‘‘ اقبال کی انیسویں تصنیف ہے۔ جسے بزمِ اقبال لاہور نے ۱۹۸۶ء میں شائع کیا۔ ’’کلیاتِ مکاتیب اقبال جلد اول‘‘ کو اردو اکادمی دہلی نے ۱۹۸۹ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کو سیدمظفر حسین برنی نے مرتب کیا۔ کلیاتِ مکاتیب اقبال جلد دوم ۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی۔ کلیاتِ اقبال جلد سوم ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی۔ ’’مکاتیب سر محمد اقبال بنام سید سلیمان ندوی‘‘ المخزن پرنٹرز مکتبہ رشید یہ کراچی نے ۱۹۹۲ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کو سید شفقت رضوی نے مرتب کیا۔ اقبال کی چوبیسویں تصنیف ’’نگارشات اقبال‘‘ کو مکتبہ تعمیرِ انسانیت لاہور نے ۱۹۹۳ء میں طبع کیا۔
’’علم الاقتصاد‘‘ کے علاوہ باقی تمام نثری تصانیف اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔یہ تمام تصنیفات مختلف اقبال شناسوں نے مرتب کیں- یہ نثری تصنیفات اقبال کے افکار ،مضامین ،خطوط اور نگارشات اقبال پر مشتمل ہیں۔
’’علم الاقتصاد‘‘ علامہ اقبال نے آرنلڈ کی تحریک پر لکھی اور مولانا شبلی نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کی اصلاح و درستی کی۔ گویا زبان کے معاملے میں کتاب کو شبلی جیسے عالم فاضل شخص کی سند حاصل ہے۔(۸۲) یہ کتاب پانچ حصص اور بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے ُحصے میں ’’علم الا قتصاد ‘‘کی ماہیت او ر دولت کی تعریف کی گئی ہے۔ اور باقی چار حصوں میں معاشیات کے چار بنیادی شعبوں سے تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔ اقبال نے ان موضوعات پر نہ صرف افکار و نظریات کو پیش کیا ہے ۔ بلکہ ان پر تنقید بھی کی ہے اور ذاتی رائے بھی دی ہے۔ ’’علم الاقتصاد ‘‘کی اشاعت سے پہلے اقبال واکر کی پولیٹکل اکانومی کا ملخص ترجمہ کر چکے تھے۔ جب ہم’’ علم الاقتصاد ‘‘کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس مختلف یورپی مصنفین کی تصانیف کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’ علم الا قتصاد‘‘ ترجمہ ہے یا طبع زاد؟ علامہ اقبال نے طبع اول کے دیباچہ میں لکھا ہے:
یہ واضح کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کیے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔(۸۳)
’’علم الاقتصاد ‘‘ ایک طبع زاد کتاب ہے۔ اگرچہ بعض انگریز مصنفین کی کتب کے اثرات اس میں موجود ہیں لیکن پوری کتاب کو ترجمے کی ذیل میں نہیں رکھ سکتے۔ اس کتاب کے حوالے سے سید افتخارحسین شاہ لکھتے ہیں۔
علم الاقتصاد میں اخذ و ترجمہ کے علاوہ انفرادی غورو فکر کی بھی ایسی راہیں ملتی ہیں کہ جن پر علامہ اگر بعد کی زندگی میں بھی گامزن رہتے تو یقینا ایک ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے شہرت حاصل کرتے۔(۸۴)
اردو نثر میں اقبال کا پہلاعلمی کارنامہ علم معاشیات پر ایک با ضابطہ کتاب ہے۔ علامہ اقبال نے جس دور میں یہ کتاب لکھی اس وقت اردو میں اس موضوع پر کوئی باقاعدہ تصنیف موجود نہیں تھی البتہ بعض انگریزی کتب کے اردو تراجم کیے گئے لیکن یہ تراجم طبع زاد کی ذیل میں نہیں آتے۔ اقبال ایک شاعر تھے اور شاعر فطرتاً حساس، جذباتی اور پرجوش ہوتے ہیں۔ علم الاقتصاد یات خالصتاً ایک خشک موضوع ہے۔ اس میں جذبات کی رنگ آمیزی ممکن نہیں ہوتی ۔اقبال نے ایک شاعرہونے کے باوجوداپنے نثری کارنامے کا آغاز علمی موضوع سے کیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اس حوالے سے لکھتے ہیں :
علم الاقتصاد کے دور(بیسویں صدی کے آغاز)میں ایک علمی زبان کی حیثیت سے اردو کچھ ایسی ترقی یافتہ نہ تھی۔ اور معاشیات جیسے سائنسی فن پر اردو میں کچھ لکھنا خاصا مشکل تھا پھر بھی اقبال نے یہ کتاب اردو میں لکھی۔(۸۵)
زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ’’علم الاقتصاد ‘‘ موجودہ قواعد زبا ن اور جدید اسلوب کے قریب ترین ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں املاء قدیم قاعدے کے مطابق ہے جس دور میں اقبال نے یہ کتاب لکھی اس وقت اردو زبان علمی اعتبار سے اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ اس میں مستند علمی کتاب لکھی جا سکے۔ اس کے باوجود اقبال نے معاشی مسائل نہایت آسان اور سلیس زبان میں بیان کیے ہیں۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں :
علم الاقتصاد کا اندازِ بیان بڑا سلجھا ہوا صاف اور سلیس ہے۔ زبان سر تا سر علمی ہے۔(۸۶)
اقبال نے ’’علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچے میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں اہلِ زبان نہیں ہوں ۔ اس حوالے سے لکھتے ہیں :
زبان او رطرزِ عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہلِ زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اردو زبان میں اس متین طرز عبارت کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے۔(۸۷)
اقبال نے فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کے ذریعے نظریہ خودی پیش کیا تو بعض لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا۔ در حقیقت ایسا نہیں تھا بلکہ اقبال کی مثنوی تصوف کے صرف ان غیر اسلامی عناصر کے خلاف ایک احتجاج تھی جو امتدادزمانہ سے اس میں داخل ہو گئے تھے۔ اقبا ل کا نظریہ خودی تصوف اسلام کے نظامِ تربیت کا ایک جزو ہے۔یہ اس سے متصادم نہیں ،دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں بلکہ لازم وملزوم ہیں۔ خودی کی استواری اور استحکام کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کا جاننا اور ان پر سختی سے کار بند رہنا ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے اس مخالفت کے پیشِ نظر عزم کر لیا تھا کہ اسلامی تصوف کی ایک مضبوط تاریخ لکھ کر اپنے نظریے کی صحت کو ثابت کریں ۔ان کے مکاتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کام کا آغاز بھی کر دیا تھا مگر بہ وجوہ اپنے اس عزم کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور ایک دو باب لکھ کر اس کام کو ادھورا چھوڑ دیا ۔مثلاً ایک خط میں خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں:
تصوف کی تاریخ لکھ رہا ہوں دوباب لکھ چکا ہوں یعنی منصور حلاج تک پانچ چا ر ابواب اور ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی علامہ ابن جوزی کی کتاب کا وہ حصہ بھی شائع کردوں گا جو انھوں نے تصو ف پر لکھا ہے گو ان کی ہر بات میرے نزدیک قابلِ تسلیم نہیں مگر اس سے اتنا ضرور معلوم ہو گا کہ علمائے محدثین اس کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں۔(۸۸)
اِسی طرح سید فصیح اﷲ کاظمی کے نام ۱۴ جولائی ۱۹۱۶ء کے خط میں لکھتے ہیں :
تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں میرے نزدیک حافظ کی شاعری نے بالخصوص اور عجمی شاعری نے بالعموم مسلمانوں کی سیرت اور عام زندگی پر نہایت مذموم اثر کیا ہے۔ اِسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے مجھے اُمید تھی کہ لوگ مخالفت کریں گے اور گالیاں دیں گے لیکن میرا ایمان گوارا نہیں کرتا کہ حق بات نہ کہوں ،شاعری میرے لیے ذریعہ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔(۸۹)
لیکن علامہ اقبال اپنے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور محض دو باب ہی مکمل کر سکے،ایک خط بنام اسلم جیرا جپوری ،محررہ ۱۷ مئی ۱۹۱۹ء میں لکھتے ہیں:
میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا ۔پروفیسر نکلسن ،اسلامی شاعری اور تصوف کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ جو عنقریب شائع ہو گی ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا۔(۹۰)
اقبال کی تصنیف ’’تاریخ تصوف‘‘ کے دو ابواب کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ عبارت کو ثقیل ،گنجلک اور بھاری بھر کم صوفیانہ اصطلاحات سے بوجھل نہیں بنایا۔ خیالات میں ایک بہاؤ اور روانی ہے۔ اندازِ بیان مختلف مقامات پہ وضاحتی اور تشریحی نوعیت کا ہے۔ اپنی بات کے ثبوت میں مختلف طرح کی تاریخی مثالیں پیش کی ہیں۔ یہ مثالیں قاری کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہیں۔
علامہ اقبال کی اردو نثر کی مختلف صورتیں ہیں ، ان کے نثری ذخیر ے میں خاصا تنوع ہے۔تفاریظ اور آرا’’ علم الاقتصاد‘‘ اور’’ تاریخ تصوف ‘‘کے علاوہ بہت سے مقالات و مضامین ،سینکڑوں مکاتیب اور متعدد دیگر نثر پارے دیباچے ،اور آراء وغیرہ یہ تمام سرمایہ ان کے افکار کو سمجھنے میں ممدو معاون ثابت ہوتاہے۔ جس زمانے میں علامہ نے ’’علم الاقتصاد‘‘ لکھنے کا آغاز کیا۔ عین اسی زمانے میں انھوں نے مضمون نویسی شروع کر دی تھی۔ ان کا پہلا مضمون ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ مخزن کے شمارہ جنوری ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا۔ اور یہ سلسلہ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۳۸ء تک وقفے وقفے کے ساتھ جاری رہا۔ اس دوران میں انھوں نے متعدد موضوعات پر مضامین تحریر کیے۔
اقبال نے بیشتر مضامین فرمائشوں پر تحریر کیے یا پھر بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لیے تحریر کیے۔ بہر حال علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں’’ علم الاقتصاد ‘‘کے علاوہ کوئی نثری مجموعہ شائع نہیں کروایا او رنہ عقیدت مندانہ اقبال میں سے کسی کو خیال آیا۔ اقبال کی وفات تک ان کا کوئی نثری مجموعہ منظر عام پر نہ آیا ۔ اس طرح قارئین اقبال ایک مدت تک اقبال کی اردو نثر سے نا آشنا رہے۔ اقبال کے نثری مجموعوں کی اشاعت کا خیال سب سے پہلے احمدیہ پریس حیدر آباد دکن کے تصدق حسین تاج کو آیا۔ انھوں نے ’’مضامینِ اقبال‘‘ اقبال کے نام سے ۱۹۴۴ء میں اقبال کا پہلا نثری مجموعہ مرتب کر کے چھاپا۔
’’مضامینِ اقبال‘‘ میں اقبال کے چودہ نثر پارے شامل ہیں۔ ان میں سے نصف انگریزی مضامین کے اردو تراجم ہیں اور نصف اردو مضامین ہیں۔ زبان اردو ،اردو زبان پنجاب میں ،قومی زندگی ،دیباچہ مثنوی اسرار خودی ،دیباچہ رموزِ بے خود ی، دیباچہ پیامِ مشرق،فلسفہ سخت کوشی ،جناب رسالت مابؐ کا ادبی تبصرہ ، ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ،خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ منعقدہ الہ آباد ،دسمبر ۱۹۳۰ء ،ختم نبوت ،جغرافیائی حدود اور مسلمان ،دبیاچہ مرقع چغتائی اور تقریر انجمن ادبی کاہل چودہ نثر پاروں کے عنوانات ہیں۔ مضامین اقبال کی دوسری اشاعت میں نثر پاروں کی کل تعداد سترہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اردو نثر پاروں کی تعداد میں اضافہ خاطر خواہ نہیں ہوا۔ کیونکہ نئی تحریروں میں سے دو انگریزی نثر پاروں کے تراجم ہیں۔ صرف ایک تحریر (خطبہ صدارت) اردو کی ہے۔ ہمارا موضوع ’’اقبا ل کے اردو مضامین‘‘ ہے اور اس میں ترجمہ شدہ مضامین ،دیباچے اور تقاریر شامل نہیں ہیں۔ اس طرح اردو مضامین کے حوالے سے’’ مضامینِ اقبال طبع اول و دوم‘‘ میں اردو مضامین کی تعداد پانچ بنتی ہے۔ یعنی زبانِ اردو ،اردو زبان پنجاب میں ،قومی زندگی ،جغرافیائی حدود اور مسلمان اورخطبہ صدارت اردو مضامین ہیں۔
’’مقالات اقبال‘‘ (طبع اول) ’’مضامین اقبال‘‘ کی اشاعت کے بیس برس بعد ۱۹۶۳ء میں سید عبدالواحد معینی نے ’’مقالات اقبال‘‘ کے نام سے اقبال کے مضامین شائع کیے۔ اس کتاب میں کچھ اضافہ شدہ مضامین شامل کیے گئے ۔دو مضامین بچوں کی تعلیم وتربیت اور اقبال کے دو خطوط ایڈیٹر ’’وطن‘‘ کے نام ۱۹۰۵ء اضافہ شدہ ہیں۔ جو’’ مضامین اقبال‘‘ میں شامل نہیں تھے۔ علامہ کے دو خطوط جو علامہ نے ۱۹۰۵ء میں ایڈیٹر’’ وطن‘‘ لاہور کو عدن اور کیمبرج سے لکھے تھے دراصل خطو ط نہیں ہیں وہ اردو انشا پردازی کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں اور اس زمانہ کے سفر انگلستان کے حالات ہیں۔ ان دونوں خطوں میں علامہ کی دلچسپ شخصیت کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ’’مقالاتِ اقبال‘‘ طبع دوم کی دوسری اشاعت میں تقریباً نو نثر پاروں کا اضافہ کیا گیا ۔ یہ نثر پارے ’’علم ظاہر و باطن‘‘ ،’’اسلام اور تصوف‘‘ ،’’اسلام ایک اخلاقی تصور کی حیثیت ‘‘ ،’’شریعت اسلام میں مرد اور عورت کار تبہ‘‘،’’ حکمائے اسلام کے عمیق مطالعے کی دعوت‘‘ ،’’ حکمرانی کا خداد اد حق‘‘ ،’’لسان العصر اکبر کے کلام میں ہیگل کا رنگ‘‘،’’ افغانستان جدید‘‘ اور’’ اسلام کا مطالعہ زمانہ حال کی روشنی میں‘‘ کے عنوانات سے ’’مقالاتِ اقبال ‘‘ شامل ہیں۔ اس طرح’’ مقالاتِ اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں اضافہ شدہ نو نثر پاروں میں سے اصلاحاً اردو مضمون صرف ایک( علم ظاہر و علم باطن ہے) ۔ باقی تمام کے تمام نثر پارے یا تو تقاریر، پیش لفظ ،یا خط کی صورت میں ہیں۔ یا پھر کسی انگریزی مضمون کا ارد و ترجمہ یا تلخیص ہیں۔ اس جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مقالاتِ اقبال (طبع اول و دوم)میں اصلاحاً اردو مضامین کی تعداد سات ہے۔ ’’انوارِ اقبال‘‘ اقبال کے مضامین کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں اقبال کی متفرق تحریریں شامل ہیں۔ مثلاً خطوط، تقاریر، مضامین ،تقاریظ او ربیانات اس مجموعہ نثر میں خطو ط کی تعداد زیادہ ہے۔ اس مجموعے میں ’’سو دیشی تحریک اور مسلمان ‘‘،’’اقبال سے مجید ملک کی ملاقات کا حال‘‘،’’ مذہب اور سیاست کا تعلق‘‘ ، ’’نبوت پر نوٹ‘‘،’’ حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘ ،’’علم ظاہر و باطن‘‘، اور’’ مسلمانوں کا امتحان‘‘ جیسے مضامین شامل ہیں۔
محمد دین فوق نے ایک دن اقبال سے اسلامی تصوف سے متعلق چند سوالات کیے۔ اقبال کے جوابات کوا نھوں نے مختصراً اپنے ہفتہ وار’’ اخبار کشمیر ی‘‘ ۱۴ جنوری ۱۹۱۳ء میں’’ مسلمانوں کا امتحان‘‘ عنوان سے شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال’’ اسرارِ خودی ‘‘کی تصنیف میں مشغول تھے۔ ’’تربیتِ خودی‘‘ کے دوسرے مرحلے میں ضبطِ نفس کے عنوان کے تحت اقبال نے ان ہی شعائر اسلام کی افادیت ایک دوسرے رنگ میں بیان کی ۔ (۹۱)
عبدالغفار شکیل نے علامہ اقبال کے نایاب کلام کو کتابی صورت میں ’’نوادرِ اقبال ‘‘ کے نام سے علی گڑھ سے شائع کیا۔’’ اس کتاب کی تحقیق کے دوران انھیں علامہ اقبال کے کچھ مضامین مختلف رسائل سے ملے ،جو انھوں نے نقل کر لیے اور بعد میں انھیں ’’اقبال کے نثری افکار‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں چھاپ دیا۔‘‘(۹۲)
جب ہم مذکورہ بالا تمام مجموعوں (مضامین اقبال، مقالاتِ اقبال طبع اول و طبع دوم ،انوارِ اقبال او راقبال کے نثری افکار) کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں اقبال کی تقریباً ہر طرح کی تحریریں ملتی ہیں لیکن چونکہ ہمارے موضوع سے اقبال کی ہر قسم کی تحریریں متعلق نہیں ہیں۔ اس لیے ہم ان مجموعوں میں شامل صرف اردو مضامین کی تعداد کا یقین کرتے ہیں۔ اس طرح اردو مضامین کے عنوانات بچوں کی تعلیم و تربیت ،زبان اردو، اردو زبان پنجاب میں ،قومی زندگی ،جغرافیائی حدوداور مسلمان ،خطبہ صدارت ۱۹۳۱ء ،اسرار خودی اور تصوف ،اسر ار خودی ،تصوف وجودیہ ، اسلام اور علوم جدیدہ ،خطبہ عیدا لفطر ،علم ظاہر و علم باطن ،ایک دلچسپ مکالمہ، سو دیشی تحریک اور مسلمان ، نبوت پر نوٹ، مسلمانوں کا امتحان اور شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ ہیں جن کی تعداد سترہ بنتی ہے۔
’’بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘ایک ٹیکینکی موضوع ہے۔ جس میں بچے کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر اس کی تعلیم و تربیت کے مختلف امور سے بحث کی گئی ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے جو اصول وضع کیے ان کے پیچھے ان کا تجربہ اور مشاہدہ کار فرما تھا۔ اگر چہ یہ مضمون ۱۹۰۲ء میں لکھا گیا لیکن اقبال ابتدا سے ہی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی ضرورت محسو س کرتے ہیں۔ علامہ قبال نے اس مضمون میں جا بجا گفتگو اور مکالمے کا پیرایہ اختیار کیا ہے۔ اکثر جگہ انداز تشریحی اور مدرسانہ نوعیت کا ہے ۔ مگر ناگوار نہیں گزرتامضمون کے آخر میں علامہ اقبال معلم کے مرتبے اور اس کے فرائض کا تعین کرتے ہوئے کہتے ہیں:
معلم قوم کے محافظ ہیں ،کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انھیں کی قدرت میں ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجہ کی محنت اور سب کا رگزاریوں سے زیادہ بیش قیمت کا ر گزاری ملک کے معلموں کی کار گزاری ہے۔ معلم کا فرض تمام فرضوں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔ کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سر چشمہ اسی کی محنت ہے۔(۹۳)
’’قومی زندگی ‘‘ علامہ اقبال کا ایک جذباتی انداز کا مضمون ہے۔ مگر مصنف نے جذبات و تخیل کی رو میں بہہ کر حقیقی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا۔ ان حقیقی اور تلخ حقائق کو درد مندانہ پیرائے میں سادگی و سلاست او رروانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا نقشہ فکر انداز میں کھینچا ہے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں :
اس میں تاریخ ،عمرانیات اور فلسفے کا علم ،بااعتبار موضوع گہرائی کی لہر سی دوڑاتا ہے۔ واقعات عالم کے محرکات اور اس کے نتائج پر علامہ کی نظر بڑی گہری ہے۔ (۹۴)
جذبے اور عقل کا خوشگوار امتزاج اس مضمون کا خاصا ہے۔ اس کی ا ہمیت کا احساس آغاز ہی میں ان سطور سے ہو جاتاہے۔ جہاں مصنف اقوام عالم کی تاریخ کے اس نازک دور میں قلم اور تلوار کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ایک زمانہ تھا جب کہ اقوام دنیا کی باہمی معرکہ آرائیوں کا فیصلہ تلوار سے ہوا کرتا تھا اور یہ فولادی حربہ دنیا ئے قدیم کی تاریخ میں ایک زبردست قوت تھی مگر حال کا زمانہ ایک عجیب زمانہ ہے۔ جس میں قوموں کی بقا ان کے افراد کی تعداد، ان کے زور بازو اور ان کے فولادی ہتھیاروں پر انحصار نہیں رکھتی بلکہ ان کی زندگی کا دارو مداراس کا ٹھ کی تلوار پر ہے جو قلم کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔(۹۵)
قدیم و جدید اقوام کی ترقی کے اسباب کا ذکر کرنے کے بعد اقبال ہندوستان کے مایوس کن حالات کا نقشہ کھینچتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ قوم اپنی عظمت و بزرگی کے باوجود اپنی معمولی معمولی ضروریات کے لیے اقوامِ غیر کی محتاج ہے لکھتے ہیں:
یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے۔ صنعت کھو بیٹھی ہے۔ تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔(۹۶)
اسلوبیاتی سطح پر یہ مقالہ اپنے دامن میں بہت سی فنی خصوصیات سمیٹے ہوئے ہے اور جذبے اور فکر کی آمیزش نے اس مضمون کے اسلوب میں سلاست اور روانی پیدا کر دی ہے۔ خیالات کا ایک بہاؤ ہے جس میں بے ساختہ طورپر بعض برجستہ فقرے تصویر پیرائے میں نظروں کے سامنے آجاتے ہیں کہ جنھیں ادبی لحاظ سے خیال افروز کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
برق جس کی مضطر بانہ چمک تہذیب کے ابتدائی مراحل میں انسان کے دل میں مذہبی تاثرات کا ایک ہجوم پیدا کر دیا کرتی تھی۔ اب اس کی پیام رسانی کا کام دیتی ہے۔ سٹیم اس کی سواری ہے اور ہوااس کے پنکھے جھلا کرتی ہے۔(۹۷)
اقبال کا مذکورہ بالا مقالہ گہرے ملی و عمرانی مسائل کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی خصوصیات بھی رکھتاہے۔’’سو دیشی تحریک اور مسلمان‘‘ علامہ اقبال کا ایک فکری اور حقیقت پسندانہ نوعیت کا مضمون ہے۔ اس تحریک کے سلسلے میں انھوں نے جوش سے نہیں ہوش سے کام لیتے ہوئے اس کی افادیت اور نقصان پر اجمالاً روشنی ڈالی ہے۔ اقبال ملک میں صنعتی ترقی کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’قومی زندگی‘‘ میں بھی اس پہلو پر خاص زور دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ سو دیشی تحریک ہندوستان کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ملک کے لیے جس کے اقتصادی اور سیاسی حالات ہندوستان کی طرح ہوں مفید ہے اس سے ملک میں خوشحالی بڑھے گی اور اقتصادی حالات درست ہوں گے۔ لیکن انھیں افسوس ہے کہ موجودہ تحریک منفی تحریک ہے لہذا وہ اس جوش و خروش کو طفلانہ حرکات قرا ر دیتے ہیں لکھتے ہیں:
بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ امریکہ اور جرمن کی چیزیں خریدو مگر انگلستان کی چیزوں کو ہندوستان کے بازاروں سے خارج کر دو۔ اس طریق عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان سے ہم کو سخت نفرت ہے نہ یہ کہ ہم کو ہندوستان سے محبت ہے۔ (۹۸)
سو دیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لیے علامہ نے کچھ آرافراہم کی ہیں۔ علاوہ ازیں اس تحریک کی کامیابی کے لیے سرمائے کی فراہمی کے مسئلے کے بارے میں بھی اہم تجاویز پیش کی ہیں ۔ اقبال کی رائے میں اگر سو دیشی تحریک صحیح خطوط پر چلائی جائے یعنی ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور ملکی مصنوعات کے مقابلے میں کسی تخصیص یا امتیاز کے بغیر بیرونی مصنوعات کا مقا طعہ کیا جائے تو اس کامیابی میں مسلمانوں کا بھی فائدہ ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں وہ اس تحریک کی کامیابی کے لیے صبرو استقلال ،مناسب منصوبہ بندی اور عملی تنظیم پر زور دیتے ہیں۔’’ غرض اقبال کی یہ مختصر تحریر ان کے متوازن ، سائنٹیفک ،تجزیاتی اندازِ فکر اور ان کی بے باکی وبے ریائی کا آئینہ ہے۔ ‘‘(۹۹)
اقبال کے مضمون ’’شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ‘‘ میں اقبال کے عورتوں کے بارے میں تصورات سمجھنے میں مدد ملتیہے۔ عام طورپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرد کو عورت پر فوقیت ہے اور عورت درجے میں مرد سے کمتر ہے ۔اقبال کا موقف ہے کہ اسلام میں مردو زن میں قطعی مساوات ہے۔ علامہ اقبال’’آزادی نسواں‘‘ کے خلاف تھے۔ کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں۔ جیسا کہ انھوں نے انگلستان اور ترکی کی مثالیں دے کر واضح کیا ہے ۔علامہ اقبال کہتے ہیں کہ عورت پردے میں رہ کر بھی جائز اور نمایاں کام کر سکتی ہے۔ علامہ نے عورتوں کے لیے بہترین اسوہ حضرت فاطمہ الزہرؓا کی ذات قرار دی ہے۔ بہترین راہنمائی کے لیے انبیا کے طبقے سے رجوع کرنے کی تلقین کی ہے۔ وہ عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں تا کہ مردان کے حقوق غصب کرنے کا موقع حاصل نہ کر سکے ۔ا س حوالے سے لکھتے ہیں :
اگر عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت پر پورے طورسے آمادہ ہو جائیں اور وہ حق جو شریعت اسلامی نے عورتوں کو دے رکھے ہیں۔ آپ مردوں سے لے کر رہیں ،تو میں سچ کہتا ہوں کہ مردوں کی زندگی تلخ ہو جائے۔ (۱۰۰)
اس نثر پارے کا انداز سادہ ،دلچسپ اور رواں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہنے والا ایک جذب کے عالم میں اپنے خیالات کاا ظہار کررہا ہے۔ خیالات کا ایک بہاؤ ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نصیحت آموز فقرے واقعات اور قرآنی آیات قاری کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔
’’خطبہ عیدا لفطر‘‘ میں اقبال نے اس اسلامی تہوارکے منانے کی غرض و غایت پر پرتاثیر انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ عید الفطر رمضان کے بعد آتی ہے ۔یہ ایک طرح سے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا انعام ہے جو وہ ان روز ے داروں کو عطا کرتا ہے جنھوں نے اس کی اطاعت و خوشنودی کی خاطر ماہ رمضان کے پورے روزے رکھے۔ علامہ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:
بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجا آوری میں پورا نکلے او ر قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرمانبرداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔(۱۰۱)
’’نبوت پر نوٹ‘‘ علامہ اقبال کا ایک معلومات افزا او ر تشریحی نوعیت کا مضمون ہے۔ جو انھوں نے قادیانی تحریک کے خلاف تحریر کیا تھا۔ اس میں علامہ نے نبوت کے دوا جزا بتائے ہیں اور کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دواجزا نبوت کے موجود ہیں۔ یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے۔ اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے۔(۱۰۲)
’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ اقبال کا آخری نثری مضمون تھاجو ان کی وفات سے محض چند ماہ پہلے لاہور کے ایک روزنامے ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا۔’’ یہ مضمون اس امر کی شہادت ہے کہ اقبال نے اسلام ، وطنیت اور برصغیر میں مسلمانوں کی سیاست کے بارے میں جو موقف ولایت سے واپسی پر اختیار کیا تھا ،آخری وقت تک وہ اس کی اشاعت و استحکام میں لگے رہے۔ اور اس پر جب اور جس جانب سے بھی کوئی وار ہوا اس کا جواب دینے اور اپنے موقف کی سچائی اور حقانیت ثابت کرنے کے لیے انھوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔(۱۰۳)
اس مضمون میں علامہ اقبال نے جدید وطنیت کی انسانیت کش اصل کو بے نقاب کیا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں اسلام نے نسلِ آدم کو جن انسانی بنیادوں پر متحد ہونے کی عملاً دعوت دی ہے۔ اس کی حقیقت بڑے موثر دلائل کے ساتھ بیان کی ہے:
جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے۔ اس کی روسے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عام بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے کہ جو اس نے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی ہے نہ انفرادی ہے نہ پرائیوٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔ ایسا دستور العمل قوم اور نسل پر بنا نہیں کیا جا سکتا۔(۱۰۴)
لسانیات کے موضوع پر اقبال کا پہلا مضمون ۱۹۰۲ء کے’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون خودعلامہ اقبال نے نہیں لکھا بلکہ وائٹ برجنٹ کے مضمون کا ترجمہ ہے۔ علامہ اقبال نے شوق اور دلچسپی سے کیا۔ یہ مضمون چونکہ ترجمہ ہے۔ اس لیے اس موضوع پر علامہ اقبال کے خیالات کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس میں اسلوب کی کئی خصوصیات نظرآتی ہیں،یعنی یہ کہ ترجمہ طبع زاد کا گمان ہوتا ہے کیونکہ ترجمے کا انداز شستہ اور رواں ہے ۔شاید اتنی روانی اصل متن میں موجود نہ ہو۔ جتنی کہ اس ترجمے کو پڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اردو زبان کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔
’’اردو زبان پنجاب میں‘‘ میں کے عنوان سے اقبال کا ایک مضمون’’ مخزن‘‘ میں چھپا۔ اس مضمون سے زبان اور لسانی معاملات پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ اقبال کی شہرت جیسے جیسے پھیلتی گئی ان کے مداحوں او ر معترضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اکثر لوگوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ اقبال زبان و بیان کی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے ،یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بہت سے الفاظ گرائمر کی رو سے صحیح نہیں ہیں۔ علامہ اگرچہ اس قسم کے اعتراضات کی بالعموم پر واہ نہیں کرتے تھے۔کیونکہ ان کا مدعاو مقصد عوام تک اپنی بات پہنچانا تھا نہ کہ اسلوب کی خوبیاں گنوانا، علامہ پر جب اعتراضات کی تعداد بڑھنے لگی تو انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس کا جواب دیں چنانچہ انھوں نے یہ مضمون لکھا اس سے علامہ کے خیالات کی وضاحت زیادہ صراحت سے ہو جاتی ہے۔
مضمون کے ابتدائی حصہ میں علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ آج کل بعض لوگ اہل پنجاب کی ہنسی اُڑاتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ پنجابی غلط اردو پھیلارہے ہیں۔ اقبال کا موقف یہ ہے کہ جو زبان ابھی بن رہی ہو اس کے متعلق صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا درست نہیں ہے۔ ڈاکٹرسلیم اختر کا کہنا ہے کہ یہ مقالہ محض اس لیے اہم نہیں کہ اس میں ایک ’’مصنف مزاج پنجابی ‘‘نے دہلوی اور لکھنوی اساتذہ کے اشعار کو اعتراضات کے جواب میں بطور سند پیش کیا اس کی اصل اہمیت اس امر میں مضمر ہے کہ علم اللسان کا ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی اقبال نے تبدیلی زبان کے عمل سے آگہی کا ثبوت دیا ہے۔ (۱۰۵) علامہ اقبال لکھتے ہیں:
ابھی کل کی بات ہے اردو زبان جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدو د تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا۔ اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کیا اور کیا تعجب ہے کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریقِ معاشرت، ان کے تمدنی حالات اور طرزِ بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے ۔علم السنہ کا یہ ایک مسلم اصول ہے۔ جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہو جاتی ہے۔ اور یہ بات کسی لکھنوی یاد دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے۔(۱۰۶)
ڈاکٹر سلیم اخترنے ’’اردو زبان پنجاب میں ‘‘ مقالے کی اہمیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے۔
اردو زبان پنجاب میں اس لحاظ سے بے حد اہم تحقیقی مقالہ ہے کہ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کو نہ صرف الفاظ کے تخلیقی استعمال کا سلیقہ تھا بلکہ اس معاملے میں ان کی معلومات اور مطالعہ کی اہلِ زبان شاعر سے فروتر نہ تھا۔(۱۰۷)
علامہ اقبال نے تصوف کے موضوع پر متعدد مضامین لکھے۔ انھیں ابتدا ہی سے صوفیانہ ماحول ملاتھا۔ انھوں نے عجمی و عربی تصوف کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔ ’’مسلمانوں کا امتحان‘‘ عنوان کے تحت اقبال نے تربیت خودی کے دوسرے مرحلے ضبطِ نفس کو ایک مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی زمانے میں اقبال ’’اسرارِ خودی‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے۔ اس مثنوی میں بھی انھوں نے ضبطِ نفس کے تحت اشعار درج کیے ہیں۔ مذکورہ بالانثر پارے میں اقبال کہتے ہیں کہ انسانی زندگی ،اسلامی نقطہ نظر سے قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتی ہے۔ اس مضمون میں اقبال نے اسلامی ارکان کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو کس کس طرح سے آزماتا ہے۔ مثلاً اﷲ تعالیٰ نے نماز کے اوقات ایسے مقرر کیے ہیں ۔ جن میں انسان آرام کا طالب ہوتا ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ زکوۃ و صدقات مقررکیے ہیں کہ میرے بندے میری راہ میں اپنا مال خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں۔اس مختصر تحریر کے آخر میں علامہ اقبال لکھتے ہیں:
غر ض ارکان اسلام کی پابندی مسلمانوں کا ایک عظیم امتحان ہے اور دراصل اسی کا نام اسلامی تصوف ہے کیونکہ شعائر اسلام کی پابندی سے روح کو وہ تدریجی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس میں تیتیل اﷲ کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔(۱۰۸)
غرض اقبال نے اپنی اس مختصر مگر جامع تحریر میں نماز، زکوۃ و صدقات کا ذکر کیا ہے۔ دقیق اور ثقیل الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ سادہ و دل نشین انداز میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔
علامہ اقبال نے ’’اسرار خودی ‘‘میں ادب اور تصوف کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے حافظ کی شاعری اور افلاطون کے فلسفے پر خاص طور پر نکتہ چینی کی تھی۔ چونکہ حافظ کی شاعری ذوق عمل کے لیے تباہ کن تھی۔ اس لیے علامہ نے اسے مسلمانوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ مگر کچھ لوگ علامہ اقبال کے نقطہ نظر کو صحیح طور سے سمجھ نہ سکے۔ اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ چنانچہ علامہ اقبال نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے اردو نثر میں چند مضامین لکھے اس سلسلے میں پہلا مضمون ’’اسرا ر خودی اور تصوف‘ ‘ہے۔ جو ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء کے ’’وکیل‘‘(امر تسر) میں شائع ہوا۔ اس میں حافظ کی شاعری اور مسئلہ وحدت الوجود کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح اسلامی فکر و ادب میں یونانی اثرات کے ذریعے داخل ہوا ۔ اس مضمون کی ا بتدا میں علامہ اقبال لکھتے ہیں :
……اس وقت اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ یہ تحریک غیر اسلامی عناصر سے خالی نہیں اور میں اگر مخالف ہوں تو صرف ایک گروہ کا ،جس نے محمد عربیؐ کے نام پر بیعت لے کر دانستہ یا نا دانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی ہے جو مذہب اسلام سے تعلق نہیں رکھتے ۔حضرات صوفیہ میں جو گروہ رسولؐ کی راہ پر قائم ہے اور سیرت صدیقی کو اپنے سامنے رکھتا ہے میں اس گروہ کا خاک پا ہوں اور ان کی محبت کو سعادت دار ین کا باعث تصور کرتا ہوں۔(۱۰۹)
گویا اس سے واضح ہو گیا ہے کہ اقبال اسلامی تصوف کے نہیں بلکہ غیر اسلامی تصوف کے خلاف ہیں۔ اقبال حافظ کی شاعرانہ عظمت کے منکر نہ تھے مگر اس کی شاعری نے جو کم ہمتی ،پست اخلاق اور یوں کہیے کہ ایک طرح کی توہم پرستی کو مسلمان معاشرے میں جنم دیا ہے۔ اقبال اس کے شدید مخالف تھے ۔اس بحث کے ضمن میں ایک جگہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی مندرجہ ذیل الفاظ میں وضاحت کی ہے:
شاعرانہ اعتبار سے میں حافظ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں۔ جہاں تک فن کا تعلق ہے یعنی جو مقصد شعرا پوری غزل میں بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ خواجہ حافظ اسے ایک لفظ میں حاصل کرتے ہیں۔ اس واسطے کہ وہ انسانی قلب کے راز کو پورے طورپر سمجھتے ہیں ۔لیکن فردی اور مادی اعتبار سے کسی شاعر کی قدرو قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔(۱۱۰)
’’سراسرار خودی‘‘ مضمون اقبال نے خواجہ حسن نظامی کے چند اعتراضات کے جواب میں لکھا۔ اس مضمون سے ’’اسلام اور تصوف ‘‘کے موضوع پر مزید روشنی پڑتی ہے اور بے عملی اور دنیا سے کنارہ کشی (راہبانیت )کے خلاف اقبال اور اسلام کاموقف واضح تر ہوتا ہے۔ اس مضمون سے ضمناً ہم کو یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ اقبال کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کا حدود اربعہ کیاتھا اور معترضوں کے جواب میں اقبال کس بردباری اور عالمانہ وقار کا ثبوت دیا کرتے تھے۔
اقبال کے اردو مضامین اپنے اندر مقصدیت کے ساتھ ساتھ دیگر فنی محاسن بھی رکھتے ہیں۔ ان مضامین میں یکسانیت ،پھیکا پن اور خشکی کا غلبہ نہیں ہے بلکہ رومانی تحریک کے زیر اثر مقصدیت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی چاشنی اور تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے جس سے مضامین میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ روانی اور سلاست بھی پیدا ہو گئی ہے۔
اقبال نے بعض ضروریات کے تحت مختلف شخصیات کو ہزاروں خطوط بھی لکھے ہیں۔ ان خطوط میں کچھ خالصتاً ذاتی نوعیت کے ہیں۔ کچھ علمی و فکری اور بعض کی نوعیت محض رسمی ہے۔ اقبال بھی غالب کی طرح خطوط اشاعت کی غرض سے نہیں لکھتے تھے۔ (سوائے ان خطوط کے جو مختلف اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام لکھے گئے) جب انھیں اس امر کا علم ہوا کہ ان کے دوست احباب ان کے خطوط اشاعت کی غرض سے محفوظ رکھتے ہیں تو انھوں نے اس پر خان محمد نیاز الدین خان کے نام ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۹ء کے ایک خط میں اس طرح تبصرہ کیا:
مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔کچھ عرصہ ہوا ،جب انھوں نے میرے بعض خطوط ایک کتاب میں شائع کر دیے تو مجھے پریشانی ہوئی ،کیونکہ خطوط ہمیشہ عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور ان کی اشاعت مقصود نہیں ہوتی ۔عدیم الفرصتی تحریر میں ایک ایسا انداز پیدا کر دیتی ہے۔ جس کو پرائیوٹ خطوط میں معاف کر سکتے ہیں، مگر اشاعت ان کی نظرثانی کے بغیر نہ ہونی چاہیے۔(۱۱۱)
اقبال خط کا جواب خاصی مستعدی ،تعجیل اور باقاعدگی سے تحریر کیا کرتے تھے علامہ کو جو خط موصول ہوتا وہ اس کا جواب فوراً دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبداﷲ چغتائی لکھتے ہیں:
دستور یہ تھا کہ ادھر ڈاکیا خطوط دے کر جاتا تھا اور ادھر وہ اپنے خدمت گار علی بخش کو فوراً قلم دان اور کاغذات کا ڈبہ لانے کی ہدایت فرماتے تھے۔ پھر فوراً جواب لکھتے تھے اوراسی وقت علی بخش کے حوالے فرماتے تھے کہ لیٹر بکس میں ڈال آئے۔(۱۱۲)
چنانچہ علامہ اقبال نے زمانہ طالب علمی سے لے کر وفات تک بلا مبالغہ ہزاروں خطو ط اردو ،انگریزی ،جرمنی ،فارسی اور عربی میں لکھے۔قدیم ترین دستیاب خط مولانا احسن مارہروی کے نام ہے جو گورنمنٹ کالج لاہو ر کے ہوسٹل سے ۲۹ فروری ۱۸۹۹ کو لکھا گیا۔ (۱۱۳) آخری خط ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء کا ہے ۔ جو ممنون حسن خان کے نام لکھا گیا ۔آخری برسوں میں ضعف بصارت کے سبب بقلم خود ،جواب لکھنے سے قاصر ہو گئے تو املا کرا کے خود دستخط کر دیتے ۔خطوط اقبال کے کاتبین میں منشی طاہر الدین ،میاں محمد شفیع ،ڈاکٹر عبداﷲ چغتائی ،سید نذیر نیازی ، مس ڈور اینٹ ویرا اور جاوید اقبال شامل ہیں۔(۱۱۴)
اردو کے مکاتیبی ادب میں خطوط غالب نمایاں حیثیت کے حامل ہیں،مگر ان کی حیثیت ادبی ہے فکری نہیں ۔ اقبال کے خطوط کی قدرو قیمت ادبی نہیں بلکہ فلسفیانہ ہے۔ وہ ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ بعض اوقات تو ان پر نظر ثانی بھی نہیں کی گئی ۔اس عدم اہتمام کی وجہ سے کہیں کہیں لفظ بھی چھوٹ گئے ہیں- انھیں خیال بھی نہیں تھا کہ یہ خطوط شائع ہوں گے۔ (۱۱۵)
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:
علامہ کے خطو ط تین لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں:
۱۔ ان کے شعری افکار کی توضیح و تشریح کے لیے
۲۔ ان کے خیالات کے تدریجی ارتقا اور پس منظر کی وضاحت کے لیے
۳۔ ان کے سوانحی حالات، کردار ،شخصیت کو سمجھنے کے لیے(۱۱۶)
مکاتیب اقبال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض نوآموز شاعر بڑی کثرت سے اپنی شعری کاوشیں اصلاح کی خاطر ان کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے مگر یہ کہہ کرکہ میں زبان دان نہیں ہوں۔ اور نہ ہی زبان کی باریکیوں پر میری نظر ہے۔ اصلاح دینے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔ ایک صاحب شاکر صدیقی نے اسی طرح کی خواہش کی تو اقبال نے لکھا:
اردو زبان میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا کہ آپ کے کلام کی اصلاح دوں ۔باقی رہے شاعرانہ خیالات و سوز گداز ،یہ سیکھنے سکھانے کی شے نہیں۔قدرتی بات ہے ان سب باتوں کے علاوہ مجھ کو اپنے مشاغل ضروری سے فرصت کہاں کہ کوئی ذمہ داری کا کام اپنے سر کرلوں۔میں نے آپ کے اشعار پڑھے ہیں میری رائے میں آپ اس جھگڑے میں نہ پڑیں تو اچھا ہے۔(۱۱۷)
مگر بعد میں جب مجبور ہو کر انھیں یہ نا خوشگوار کام انجام دینا پڑا تو ان کے مشوروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زبان اور محاورے کی باریکیوں اور شاعرانہ محاسن پرا ن کی بڑی گہری اور وسیع نظر تھی۔ بہ قول ڈاکٹر عبدالحق ’’بہت سے خطوط شعری اصلاحات اور نکاتِ فن سے متعلق ہیں۔ ان کی نکتہ شناسی اور فن کا معیار پورے عروج پر دکھائی دیتاہے۔ (۱۱۸) چنانچہ شاکر صدیقی کو اپنے خطوط میں بہت ہی مفید اور اہم مشورے دیے ہیں۔ مثلاً ایک خط میں انھیں لکھتے ہیں:
……الفاظ حشو سے پرہیز کرنا چاہیے، آپ کی نظم میں بہت سے الفاظ حشو ہیں۔ محاورہ کی درستی کا بھی خیال ضروری ہے۔’ سودا‘، سر میں ہوتا ہے نہ دل میں ،علی ہذا القیاس عہد کو یا وعدہ کو بالائے طاق رکھتے ہیں۔ نہ بالائے بام وغیرہ اسی طرح مرکب کی عناں ہوتی ہے۔ نہ زمام بہت سے الفاظ مثلاً چونکہ تعاقب وغیرہ اشعار کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ ان سے احتراز اولیٰ ہے خوشی تجھ کو کمال الخ کے دوسرے مصرعے میں’’ ہر‘‘ کی’’ ہ ‘‘تقطیع میں گرتی ہے۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ نظم طویل ہے۔(۱۱۹)
اقبال کے خطوط سے ان کے نظریہ فن کے متعلق بیش قیمت معلومات و نکات فراہم ہوتے ہیں۔ انھوں نے غالباً نظری تنقید نگاروں مثلاً ڈرائیڈن ،آرنلڈ وغیرہ کا خصوصی مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ قدیم یونان اور جدید مغرب کے تمام فلاسفروں اور فن کے بارے میں ان کے نظریوں کو غور سے پڑھا تھا۔ اس لیے ان کے نظریہ فن میں غیر معمولی شادابی اور توانائی ہے اورا ن کے ادبی اور تنقیدی نقطہ نظر میں شروع سے آخر تک زندگی و تازگی اور صحت و انفرادیت ملتی ہے۔اقبال فن برائے فن کے مخالف تھے اور وہ آرٹ کو اخلاقیات اور حیاتیات سے علیحدہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ (۱۲۰) ایک جگہ انھوں نے اس مہلک نظریے پر سختی سے نکتہ چینی کی ہے۔ سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمع نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں ،مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس ،اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں ،ا س واسطے کہ آرٹ(فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔(۱۲۱)
اقبال کے نزدیک ایسا آرٹ جو معنوں کو پست اور جذبات کو مردہ کرنے والا ہو اہم نہیں ہے۔ اس طرح زبان کے معاملے میں بھی ان کا نظریہ زندگی سے علیحدہ نہیں ہے ، وہ اسے جامد اور میکانکی چیز نہیں سمجھتے۔ سردار عبدالرب نشتر کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا، جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذا ق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔(۱۲۲)
اقبال کے خطوط کے مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طورپر لکھنا چاہتے تھے، جس سے لوگوں کو ان کی شاعری اور افکار کو سمجھنے میں سہولت ہو،لیکن یہ کام وہ نہ کر سکے۔ تاہم ان کے خطوں میں ایسا مواد موجود ہے جو ان کی نظموں اور تنقیدی صلاحیتوں پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ عطیہ بیگم فیضی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
مجھے نظموں کے انتخاب میں بے حد مشکل پیش آرہی ہے۔ گذشتہ ۵،۶ برس کے عرصے میں جتنی بھی نظمیں کہی ہیں وہ نجی حیثیت رکھتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ عوام کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی ۔ ان میں سے بعض میں نے ضائع بھی کر دی ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی چُرا کر چھپوا دے۔(۱۲۳)
اقبال کے خطو ط سے ان کے افکار پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ وہ تصوف سے بخوبی واقف تھے لیکن گو سنفندی کی طبیعت اور خانقاہی مزاج کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ان کے نظام فکر میں مسکینی و محرومی کو دخل نہیں ہے اس لیے انھوں نے عجمی تصوف کی افیونی خصوصیت کی جا بجا مخالفت کی ہے۔ اقبال ادب اور تصوف پر بحث کرتے ہوئے منشی سراج الدین کے نام خط میں لکھتے ہیں:
یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹیکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی۔ اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا ۔جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی۔ تو پھر اس قوم کا نکتہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہوجاتی ہے۔ اور ترک دنیا موجب تسکین اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جوان کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا۔(۱۲۴)
اقبال کے خیالات کا اصلی سرچشمہ قرآن ہے اور انھوں نے اکثر جگہ اس کے صحیح مطالعے پر زور دیاہے ۔ وہ خود بھی چاہتے تھے کہ عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں قرآن کی تشریح کریں ۔ سرراس مسعود کو لکھتے ہیں:
اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیرِ غور ہے لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر کوئی پیش کش مسلمانانِ عالم کو نہیں کر سکتا۔(۱۲۵)
اقبال کے خطوط کی زبان اور اسلوب بالعموم سادہ اور آسان ہے۔ البتہ کہیں کہیں مشکل اور غریب الفاظ آگئے ہیں ۔ مثلاً تعزز ،خطوظ،ارقام ،مرئیات اعصاد(اعصا)، اور ایقاطی وغیرہ۔ وہ فقروں کی بناوٹ میں طوالت سے پرہیز کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فقرے ان کی اختصار پسند طبیعت سے فطری مناسبت رکھتے ہیں۔ اس سے بیان کی سادگی قائم رہتی ہے اور اثر آفرینی بھی بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً:
اب اسلامی جماعت کا محض خدا پر بھروسہ ہے میں بھلا کیا کر سکتا ہوں ،صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں،قوتِ عمل مفقود ہے۔ ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوق خداداد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں۔(۱۲۶)
اسلوب شخصیت کا آئینہ دار ہوتاہے اگر اسلوب نگار مزاجاً درویش منش ہے تو اسلوب بھی اس رنگ میں رنگا ہوا ملے گا۔ لکھنے والا اگر مبالغے کو پسند کرتا ہے تو اس کی تحریر میں بھی بے جا تکلفی کا انداز غالب نظر آئے گا۔ علامہ اقبال چونکہ فطری طورپر بے نیاز ،منکسر المزاج ،سادہ لوح اور درویش منش انسان تھے لہذا ان کے نثری اسلوب میں بھی ان کے مزاج کے یہ اوصاف بخوبی دکھائی دیتے ہیں۔
علامہ اقبال کی نثری تحریروں میں ہمیں انفرادی اسلوب کے علاوہ معاصرین کے اثرات بھی واضح طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال ایک طرف تو سر سید تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اور دوسری طرف’’ مخزن ‘‘کی رومانی تحریک سے بھی کسی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے سر سید تحریک سے مقصدیت ،منطقیت ،استدلال اور’’ مخزن‘‘ تحریک سے شگفتگی ،لطافت اور تشبیہ و استعارہ جیسی صفات مستعار لی ہیں لیکن ہم نہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ کا اپنا کوئی انفرادی اسلوب نہ تھا۔ علامہ نے مقصدیت اور شگفتگی و لطافت کی آمیزش سے ایک ایسا اسلوب وضع کیا، جو زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اقبال کے اسلوب کے حوالے سے کہتے ہیں:
اقبال کی ساری تحریریں سر سیداحمد خان اور مولانا حالی سے گہرا معنوی رشتہ رکھتی ہیں لیکن شاعری کی طرح ، اقبال کی نثر کا اسلوب بھی سر سید اور حالی سے بہت الگ ہے۔ اسے الگ ہونا بھی چاہیے کہ اقبال کو مشرق و مغرب کے جن دقیق و پیچیدہ فلسفیانہ مسائل سے واسطہ تھا۔ ان کے پیش رو اصلاح پسند نثر نگاروں کو نہ تھا۔(۱۲۷)
اقبال نے کسی خاص ضابطے اور قلبی لگاؤ سے نثر نہیں لکھی مگر ان کا جتنا بھی نثر ی سرمایہ ہے وہ مواد اور طرزِ بیان پر ہردو اعتبار سے اس قابل ہے کہ اسے اردو نثری تاریخ میں نمایاں مقام دیا جائے ۔ان تحریروں میں ایک اسٹائل ہے جو ان کی شخصیت اور مزاج کا پر تو ہے ۔ انھوں نے کلیتاً کسی کی پیروی نہیں کی البتہ اپنے دور کے رجحانات اور اسٹائل کو اپنے مزاج میں شامل کر کے ایک خا ص انداز کی طرح ڈالی ہے ۔خاص طرز ادا ان کی تحریروں میں رچا بسا ہوا ہے۔ لہذا اہم انھیں صاحبِ طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں۔
بہ حیثیت مجموعی علامہ کی نثری تحریریں (علم الاقتصاد ،تاریخ تصوف، اردو مضامین ،اردو خطوط ،دیباچے اور تقاریظ) اردو ادب میں ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ بسا اوقات ان کی نثر، ان کی شاعری سے زیادہ وقیع نظر آتی ہے۔ بہت سے اہم اور دقیق مباحث جو شعر کی محدود دنیا میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔وہ علامہ نے نثر میں بیان کیے ہیں۔ علاوہ ازیں علامہ کے کئی اشعار کا صحیح مفہوم اور پس منظر ان کی نثر کے مطالعے سے ہی متعین ہوتا ہے۔
۸۲۔ زیب النساء ’’اقبال کی اردو نثر ایک مطالعہ‘‘ ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،۱۹۹۷ء،ص:۱۵
۸۳۔ علامہ اقبال’’علم الا قتصاد ‘‘(دیباچہ)، لاہور ،خادم التعلیم پریس ،طبع دوم ،۱۹۰۴ء ،ص:۶
۸۴۔ افتخار حسین شاہ ’’اقبال اور پیروی شبلی‘‘ ،لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ،۱۹۷۷ء ،ص:۱۴۰
۸۵۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی’’تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ‘‘،لاہور،اقبال اکادمی ،۱۹۸۵ء،ص:۲۸۴
۸۶۔ سید نذیر نیازی ’’دانائے زار‘‘،لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۷۹ء،ص:۱۴۳
۸۷۔ علامہ اقبال ،’’علم الاقتصاد‘‘ (دیباچہ)،ص:۶
۸۸۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان،لاہور، بزمِ اقبال، ۱۹۵۴ء،ص:۲۰
۸۹۔ خطوط اقبال ،مرتبہ رفیع الدین ہاشمی،لاہور،خیابانِ ادب،۱۹۷۶ء،ص:۱۲۸
۹۰۔ اقبالنامہ،حصہ اول،مرتبہ شیخ عطاء اﷲ ،لاہور،شیخ محمد اشرف تاجر کُتب ،طبع اول،۱۹۴۴ء،ص:۵۴
۹۱۔ ’’انوارِ اقبال‘‘ ،مرتبہ بشیر احمد ڈار، کراچی ،اقبال اکادمی ،طبع اول، ۱۹۶۹ء،ص:۲۷۸
۹۲۔ ’’اقبال کے نثری افکار‘‘مرتبہ ،عبدالغفار شکیل، دہلی ،انجمن ترقی اردو ہند،۱۹۷۷ء ،ص:۱۰
۹۳۔ ’’مقالاتِ اقبال‘‘،مرتبہ سید عبدالواحد معینی ،لاہور،محمد اشرف تاجر کتب، ۱۹۶۳ء،ص:۹
۹۴۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی’’اقبال کی اردو نثر‘‘ ،لاہور ،مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۷ء ،ص:۱۸۵
۹۵۔ ’’مقالاتِ اقبال‘‘،طبع دوم،ص:۷۴
۹۶۔ ایضاً،ص:۸۷
۹۷۔ ایضاً،ص:۷۵
۹۸۔ ’’انوارِ اقبال ‘‘،مرتبہ بشیر احمدڈار، ص:۲۷،۲۸
۹۹۔ ڈاکٹر افتخا ر احمد صدیقی ’’عروج اقبال‘‘،لاہور ،مجلس ترقی ادب،۱۹۸۷ء،ص:۳۴۹
۱۰۰۔ ’’مقالاتِ اقبال، طبع دوم،ص:۳۲۵
۱۰۱۔ ایضاً،ص:۲۸۳
۱۰۲۔ ’’انوارِ اقبال ‘‘،مرتبہ بشیر احمد ڈار، ص:۴۵، ۴۶
۱۰۳۔ پروفیسر محمد عثمان ’’اقبال کی عظیم نثر‘‘،مشمولہ حیات اقبال کا ایک جذباتی دور اور دوسرے مضامین، لاہور مکتبہ جدید ۱۹۶۴ء ،ص:۱۷۰
۱۰۴۔ ’’مضامینِ اقبال‘‘،ص:۱۸۳
۱۰۵۔ ڈاکٹر سلیم اختر ’’اقبال کی نثر کا مزاج‘‘مشمولہ سہ ماہی ،’’اقبال ‘‘،ص:۹۷
۱۰۶۔ ’’مضامینِ اقبال‘‘،ص:۹
۱۰۷۔ ڈاکٹر سلیم اختر’’اقبال کی عظیم نثر‘‘،مشمولہ مجلہ سہ ماہی ’’اقبال ‘‘،لاہور، اکتوبر ۱۹۷۶ء،ص:۹۷
۱۰۸۔ ’’انوارِ اقبال ،مرتبہ بشیر احمد ڈار، ص:۲۷۹
۱۰۹۔ ’’مقالاتِ اقبال‘‘،طبع دوم، ص:۲۰۶
۱۱۰۔ ایضاً،ص:۲۰۶
۱۱۱۔ ’’مکاتیبِ اقبال ‘‘،بنام خان محمد نیاز الدین خان،ص:۲۴
۱۱۲۔ محمد عبداﷲ چغتائی ’’اقبال کی صحبت میں ‘‘،لاہور مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۷ء ،ص:۴۷۰
۱۱۳۔ ’’اقبال نامہ‘‘ ،مرتبہ شیخ عطاء اﷲ ،ص:۳،۴
۱۱۴۔ ملفوظات ،ص:۱۲۰:بحوالہ ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ‘‘از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ،ص:۲۰۷،۲۰۸
۱۱۵۔ مولوی عبدالحق ،’’تنقید اقبال اور دوسرے مضامین‘‘،دہلی ،۱۹۷۶ء،ص:۷۱
۱۱۶۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ،’’اقبال ایک مطالعہ ‘‘،لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۸۷ء،ص:۲۴۵
۱۱۷۔ ’’انوارِ اقبال‘‘ ،مرتبہ بشیر احمد ڈار،طبع دوم، ۱۹۷۷ء،ص:۱۱۰
۱۱۸۔ مولوی عبدالحق ’’تنقید اقبال اور دوسرے مضامین‘‘،ص۶۳
۱۱۹۔ ’’انوارِ اقبال ‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار، ص:۱۱۱، ۱۱۲
۱۲۰۔ ’’اقبا ل کے خطوط‘‘ از ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی ،مشمولہ ’’اقبال آئینہ خانے میں ‘‘مرتبہ آفاق احمد، بھوپال ،مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،ص:۱۳۲
۱۲۱۔ ’’اقبال نامہ‘‘ ،حصہ اول ،ص:۱۰۸
۱۲۲۔ ایضاً،ص:۵۶
۱۲۳۔ عطیہ فیضی’’اقبال ‘‘ ،کراچی ،اقبال اکادمی، طبع اول ،۱۹۵۶ء ،ص۷۳
۱۲۴۔ ’’اقبال نامہ‘‘ ،حصہ اول ،ص:۴۴،۴۵
۱۲۵۔ ایضاً،ص:۳۵۷،۳۵۸
۱۲۶۔ ایضاً،ص:۴۹
۱۲۷۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری’’اقبال سب کے لیے ‘‘،کراچی اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۸ء ،ص:۳۸

ڈاکٹر جمشید علی راٹھور

ڈاکٹر جمشید علی راٹھور(۱۹۵۸۔۱۸۹۰ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ (۱۲۸) ان کا شمار ان شخصیتوں میں ہوتا ہے جن کے بغیر سیالکوٹ کی علمی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ۱۹۰۸ء میں میٹرک کے بعد انھوں نے مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لے لیا یہاں وہ مولوی میر حسن کے شاگرد تھے۔ ڈاکٹر موصوف ۱۹۲۲ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں فارسی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں وہ مرے کالج میں شعبہ علوم مشرقی کے صدر بنا دئیے گئے۔ ۱۹۴۳ء میں فارسی شاعر خو اجہ کرمانی پر مقالہ پر لکھ کر انھوں نے پی ایچ ڈی فارسی میں ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کے بعد انھوں نے ڈی ایل ٹی کرنے کا ارادہ کیا۔ (۱۲۹) کالج میں وہ ایک عرصہ تک سٹاف کونسل کے سیکرٹری بھی رہے اور ساتھ ہی ادبی مجلے ’’مرے کالج میگزین‘‘ کی ادارت کا فریضہ بطریق احسن انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر راٹھور مرے کالج میں ۱۹۵۰ء تک پڑھاتے رہے۔ (۱۳۰)
ڈاکٹر جمشید علی راٹھور نے عمر بھر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی سر انجام دیا۔ فارسی ،انگریزی، اور اردو زبان میں متعدد کتابیں لکھیں۔انگریزی میں ان کے دو شعری مجموعے’’Kerbala‘‘اور’’Lay of the Hedijazٗٗٗٗ‘‘کے دو ایڈیشن ۱۹۳۰ ء اور ۱۹۳۸ء میں شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے مرے کالج میگزین کے لیے ادبی اور علمی مضامین بھی لکھے ۔جو میگزین میں چھپتے رہے۔ فارسی صرف و نحو کے حوالے سے ’’قواعد فارسی‘‘ان کی مستند تصنیف ہے۔
"A graphic servey of persian Literature" ,"Prictorial English Grammer" ,A "tabulater ango persian grammer"اور ڈاکٹر راٹھور کی تین انگلش کتابیں ہیں ،جو اس دور میں کالجوں اور سکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ یہ تینوں کتابیں سٹاف کالج کوئٹہ کی لابئریری میں موجود ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے اردو نثر میں بھی متعدد مضامین اور تصانیف لکھیں جو اب نایاب ہیں۔ یہ علمی و ادبی سرمایہ ان کے عزیز و اقارب کے پاس بھی موجود نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو نثر میں دینیات اور اخلاقیات کے موضوع پر تین کتب لکھیں ،مگر کوشش کے باوجود ڈاکٹرصاحب کی دینیات کی صرف ایک کتاب ہی مل سکی ہے۔
یہ کتاب ڈاکٹر جمشید علی راٹھور کے سب سے چھوٹے بیٹے حلیم سے ’’گورنمنٹ مرے کالج کے ادیب اساتذہ‘‘ تحقیقی مقالے کی محقق نے حاصل کی۔ حلیم نے مذکورہ بالا مقالے کی تحقیق کار کو بتایا :
ڈاکٹر صاحب کی بہت سی کتابیں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ ان کو دیمک لگ گئی جس کی وجہ سے انھوں نے ان کتابوں کو نہر میں بہا دیا۔(۱۳۱)
جو کتاب دستیاب ہوئی وہ راٹھور صاحب کی وفات کے بعد ۱۹۵۶ء میں طور پرنٹنگ پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔
قناعت،حلم،بچوں سے پیار ،آداب دعوت، مہمان نوازی ،قدر دانی ،علم کی نعمت ،معراج شریف ،عاجزی ،حضورؐ اسلام اور دعا مذکورہ بالا تصنیف کے اہم مضا مین ہیں۔
اس کتاب کا مقصد بقول صاحب کتاب ڈاکٹر جمشید علی راٹھور یہ ہے ’’کہ عام بچوں کو آسان عبارت میں اسلام کی چھوٹی چھوٹی باتیں سکھائی جائیں ۔‘‘(۱۳۲)
یہ کتاب سادہ ،سلیس اور عام فہم اسلوب میں لکھی گئی ہے تاکہ بچوں کو سمجھنے میں دقت پیدا نہ ہو۔
’’مفکر‘‘ میگزین میں ڈاکٹر جمشید علی راٹھور کے مضامین اور غزلیں شائع ہوتی رہی ہیں۔’’ حقیقت‘‘،’’ در شباب نو روز‘‘، ’’پیارے ہر جائی‘‘ اور’’ خواجو اور موضوع محبت ‘‘،ڈاکٹر موصوف کے اہم خوبصورت ادبی مضامین ہیں جو مفکر میگزین میں نومبر ۱۹۲۲ء ،دسمبر ۱۹۲۲ء ستمبر ۱۹۲۴ء اور فروری ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئے۔ڈاکٹر جمشید علی راٹھور کے بارے میں سالنامہ ’’مفکر‘‘ میں خواجہ نسیم اصغرلکھتے ہیں:
ڈاکٹر صاحب پرہیز گار ،متقی ،خدا ترس انسان تھے، انھیں علم و ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ آج بھی ان کے سینکڑوں شاگردان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔(۱۳۳)

پنڈت بدری ناتھ سدرشن

پنڈت بدری ناتھ سدرشن(۱۸۹۵۔۱۹۶۷ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ (۱۳۴) ان کا قلمی نام مہاشہ سدرشن تھا۔ انھوں نے بی ۔اے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ مہاشہ سدرشن سیالکوٹ میں تھے لیکن ان کی ادبی سر گرمیوں کا مرکز و محور لاہور رہا۔ ۱۹۲۲ء میں انھوں نے بنارس جا کر سرسوتی پریس قائم کیا اور بنارس ہی سے ایک ادبی مجلہ ۱۹۳۰ء میں جاری کیا۔ ۱۹۳۰ء میں ہی لاہور میں سدرشن پبلشنگ ہاؤس قائم کیاجہاں سے ان کا افسانوی مجموعہ ’’طائرِ خیال‘‘ شائع ہوا۔ (۱۳۵) ۱۹۳۱ء میں انھوں نے ماہنامہ’’ چندن ‘‘جاری کیا۔ (۱۳۶) آپ نے مختلف کتابوں کے تراجم کیے، لاہور کی ایک فلم کمپنی کے لیے کہانیاں ،سکرین پلے اور مکالمے بھی لکھے۔ ۱۹۴۵ء تک فر ی لانسر کی زندگی گزارنے کے بعد منروا اسٹوڈیو کے باقاعدہ ملازم ہو گئے۔ ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے بمبئی منتقل ہو گئے۔ (۱۳۷) مرزا حامد بیگ کی تحقیق کے مطابق سدرشن کا پہلا افسانہ ’’پھول‘‘ ۱۹۱۲ء کے لگ بھگ شائع ہوا۔(۱۳۸) اس طرح سدرشن پہلے باقاعدہ افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں کے علاوہ سدرشن نے ڈرامے، ناول اور بچوں کے لیے کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بیشتر بنگالی زبان سے تراجم ہیں۔ ’’طائرِ خیال‘‘ سدرشن کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۳۰ء میں سدرشن پبلشنگ ہاؤ س لاہور سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ۱۲ افسانوں پر مشتمل ہے۔ عروس شاعری گور منتر ،مصور زندگی ،سدا سکھ، باپ ،ایک نا مکمل کہانی ،دوسروں کی طرف دیکھ کر ،دوا خدا،جب لاش نے شہادت دی ،شعلہ منتظر کا یا پلٹ اور بچپن کا ایک واقعہ ان افسانوں کے عنوانات ہیں۔
سدرشن کا ’’سدا بہار پھول‘‘ افسانوی مجموعہ ۱۹۲۱ء میں رام کٹیا بک ڈپو لاہور سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں۔ ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’چندن‘‘ رام کٹیا بک ڈپو لاہور سے ۱۹۲۰ء میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۵ افسانے ہیں اور اس کا دیباچہ خواجہ حسن نظامی نے لکھا ۔چوتھا افسانوی مجموعہ’’ قوسِ قزح‘‘ ۱۹۲۱ء میں رام کٹیا بک لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں آٹھ افسانے شامل ہیں۔ گل خارستان ، باجو باورا، جنسِ صداقت، رشوت کا روپیہ، آزمائش ، تھوڑا سا جھوٹ، محبت کا گنہگار اور سبق ان افسانوں کے عنوانات ہیں۔’’ چشم و چراغ‘‘ سدرشن کا پانچواں افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۴۵ء میں تاج کمپنی لاہور سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں پندرہ افسانے ہیں پرانی دلی کا آخری چراغ ،راہبہ ،دو عورتیں ، روح کی آنکھ، اندھیرا ، مذہب کی چوکھٹ پر ،شب وعدہ ،حسرت و یاس ،کھرا کھوٹا، اعجاز خدمت،ہو س جاہ ،اٹھنی کا چور دنیا کی سب سے بڑی کہانی ،چراغ ہدایت اور رام بان اس مجموعے کے افسانوں کے عنوانات ہیں۔
سدرشن کا چھٹا افسانوی مجموعہ ’’بہارستان‘‘ ہے جو سولہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ رام کٹیا بک ڈپو لاہور سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کا دیباچہ پریم چند نے لکھا ہے۔ان کا ساتواں افسانوی مجموعہ ’’سولہ سنگھار‘‘ ہے جو سولہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ لالہ لاجپت رائے لاہور سے ۱۹۳۸ء میں طبع ہوا۔ ’’صبح وطن‘‘ سدرشن کا آٹھواں افسانوی مجموعہ ہے۔ جو بارہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ رام کٹیا بک ڈپو لاہور سے ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ ’’پارس‘‘ سدرشن کا نواں افسانوی مجموعہ ہے جو پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ مقبول عام پریس لاہو ر سے ۱۹۲۶ء میں طبع ہوا۔
افسانوں کے علاوہ سدرشن نے ’’پتھروں کا سودا گر‘‘،’’گناہ کی بیٹی‘‘ ،’’راج سنگھ‘‘ ، ’’قدرت کا کھیل‘‘ ،’’بے گناہ مجرم‘‘ ،’’کنج عافیت ‘‘ اور ’’خوش انجام ‘‘ جیسے اعلیٰ پائے کے ناول میں بھی لکھے جو شائع ہو چکے ہیں۔ ’’عورت کی محبت‘‘ ، ’’محبت کا انتقام ‘‘،’’قوم پرست‘‘،’’ اندھے کی دنیا‘‘ ،’’ سنگیت مہابھارت‘‘،’’ رش دیانند‘‘،’’ پربلا‘‘،’’ راجپوت کی شکست‘‘، ’’چھایا‘‘ ،’’گناہ کا پرائشچت کنڈ‘‘اور ’’رستم و سہراب ‘‘سدرشن کے گیارہ شاہکار ڈرامے بھی ہیں جو طبع ہو چکے ہیں۔(۱۳۹)
سدرشن نے پہلا افسانہ لکھا تو وہ پریم چند سے متاثر تھے ۔سدرشن کے افسانوں میں شہر کی زندگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن وہ دیہاتی زندگی کو بھی پیش کرتے ہیں۔ سدرشن کے بہت سے افسانے انسان کی نفسیاتی کمزوریوں او ر جذباتی کشمکش پر بھی تشکیل دیے گئے ہیں ۔’’ترکِ نمود‘‘ اور ’’مہر مادری‘‘ میں اس قسم کی کشمکش نمایاں نظر آتی ہے۔ سدرشن کے ہاں شہرکی زندگی کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے کیونکہ وہ سیالکوٹ اور لاہور میں رہتے تھے اس لیے ان کے افسانوں میں شہری زندگی سے زیادہ قرب قدرتی ہے۔
مرزا حامد بیگ سدرشن کے افسانے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
سدرشن لہجے کے اعتبار سے رومانی ہیں او ران کے اظہاربیان میں شاعرانہ تشبیہات سے انسانی جذبات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ افسانوی تدبیر کاری کے اعتبار سے سدرشن نے اردو افسانے میں نفسیاتی الجھنوں پر سے پردے اُٹھائے ہیں ۔یہاں اہمیت کے قابل بات یہ ہے کہ سدرشن کے کردار طے شدہ نفسیات کے حامل نہیں ہیں۔ اردگرد کا تبدیل ہوتا ہوا ماحول ان کی شخصیت سازی کرتا ہے۔(۱۴۰)
سدرشن کے افسانوں کا موضوع شہر کا سفید پوش ہندو طبقہ ہے۔ اور اس کی زندگی کا وسیع مطالعہ مثلاً ’’اپنی طرف دیکھ کر‘‘ ،’’صدائے جگر خراش‘‘ اور’’ خانہ داری سبق ‘‘،جب کہ ان کا دوسرا موضوع دیہات کی سیاسی بیداری سے متعلق ہے جو کہ پریم چند کی پیروی کرنے کے نتیجے میں آیا۔ سدرشن کے افسانے نثر اور شاعری کے باہمی میل کی ابتدائی مثالوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ خصوصی طور پر ان کا افسانہ ’’شاعر‘‘ ایک کامیاب ترین کوشش ہے۔
سدرشن کے ہاں زیادہ تر کردارایسے ہیں جو یا تو صرف شہر میں رہتے ہیں یا دیہات میں اور ان کے کرداروں میں بھی شہری کردار زیادہ ہیں۔ سدرشن کے افسانے کسی نئے رجحان کا احساس نہیں دلاتے۔ ان کے ہاں فنی پختگی نا پید ہے ۔سدرشن کا زندگی کے بارے میں نکتہ نظر متصوفانہ ہے ان کے کردار زندگی کا تلخ تجربہ کر کے لالچ سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں حتی کہ قناعت پسندی کی حدوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ان کے افسانوی مجموعوں ’’چندن‘‘،’’ بہار ستان‘‘ ،’’طائر خیال‘‘ اور’’ سدا بہار پھول‘‘ میں جا بجا بکھری ہوئی ہے۔ سدرشن کے افسانوں میں کہیں کہیں جذبات نگاری کی کچھ تصویریں بھی نظر آتی ہیں۔ سدرشن جذبات کو موثر بنانے کے لیے اکثر جگہ تشبیہات ،محاوروں اور مثالوں سے بھی کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سدرشن کے بارے میں ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں :
میرے خیال میں سدرشن کی اہمیت محض تاریخی ہے۔ ان کے ہاں پریم چند کے ابتدائی دور کی مثالیت ،روحانیت اور جذباتیت ملتی ہے۔ حالانکہ ان کے سامنے نیاز مانہ اور نئی قدریں ابھر رہی تھیں- مگر وہ جاگیر دارانہ اخلاقیات کو سینے سے لگائے کسی حد تک داستانوی عہد میں سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے محض عنوان ہی اس روحانی فضا کے ترجمان ہیں جس کا ذکر ہوا مثلاً ’’پرماتما کی آواز‘‘ ،’’پرماتما کے حضور میں ‘‘ ،’’روح کی آنکھ‘‘ ،’’مذہب کی چوکھٹ پر ‘‘ ،’’چراغ ہدایت‘‘ اور ’’گورو منتر ۔(۱۴۱)
اگرچہ سدرشن’’ طائرِ خیال ‘‘کے دبیاچے میں لکھتے ہیں:
دورِ حاضر کا افسانہ نویس باہر کا افسانہ نویس نہیں اندر کا افسانہ نویس ہے۔ باہر کو دیکھنے والے بہت ہو چکے ہیں اب دل کو اور گھر کو دیکھنے والوں کی ضرورت ہے۔(۱۴۲)
سدرشن کے افسانوں کے کسی کردار میں داخلی تصادم یا کسی مرکب کیفیت کا شائبہ بھی نہیں ملتا۔ وہ سیدھی سادی روحانیت یا اس کے پیدا کردہ فریب کے زیر اثر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں سو نمک حلال ملازم آقاؤں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سدرشن کا افسانہ ’’نمک خوار جاں نثار‘‘ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ انسان دوست حکیم اپنی بیٹی کی عصمت دری کے واقعے کو فراموش کر کے سیٹھ کشوری لال کا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ماں کی مامتا افسانہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ سدرشن کے راہِ حق پر چلنے والے کرداروں کو ہمیشہ سکھ ملتاہے۔ اس حوالے سے ’’سدا سکھ افسانہ‘‘ دیکھا جا سکتا ہے۔ سدرشن کے افسانوں میں ہمیشہ سچائی کو فتح ہوتی ہے۔ اس کی تصویر کشی ان کے افسانے ’’راستی کی فتح‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ گویا یہ وہ دنیا ہے جس کا ہماری معلوم دنیا سے اس کے سوا کوئی رشتہ نہیں کہ کرداروں کے نام جانے پہچانے اور مانوس ہیں۔
سدرشن کی مثالیت اور سطحیت سے قطع نظر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دلچسپ انداز میں کہانی لکھنا جانتے تھے۔ انھوں نے جرم و سزا کے قصوں اور کہانیوں کے جو تراجم کیے، ان کار نگ بھی ان کی کہانیوں میں واضح طور پر نظر آتاہے۔ اس حوالے سے سدرشن کے افسانے ’’صلہ ‘‘،’’نیکی‘‘، ’’نمک خوار‘‘، ’’ماں کی مامتا‘ ‘،’’جب لاش نے شہادت دی‘‘ ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔سدرشن نے عورت کے جذباتی مسائل پر تو کئی کہانیاں لکھیں مگر زیادہ سنگین مسائل پر قلم نہیں اٹھایا ۔البتہ اچھوت کے مسئلے پرا نھوں نے کافی افسانے لکھے ہیں۔ جن میں ’’چراغِ ہدایت‘‘ افسانہ اہم ہے۔ سدرشن کے افسانوں میں طبقاتی امتیاز بھی دیکھا جا سکتا ہے اور بعض افسانوں میں یہ امتیاز طبقاتی شعور کی شکل میں واضح طور پر نظر آتاہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
رات کے وقت جب ایک ہزار کے اور پان سو کے اور پانچ روپے کے چور اپنے اپنے شاندار مکانوں سے مکلف بستروں پر آرام کی نیند سو رہے تھے۔ اٹھنی کا چور ،جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند تھا اور جسم کو دوسرے دن کی اذیت کے لیے تیار کر رہا تھا۔(۱۴۳)
سدرشن المیہ تاثر کا افسانہ لکھنے میں ایک منفرد سکول کا درجہ رکھتے ہیں۔ سدرشن کے ننانوے فیصد افسانے اس تاثر کے حامل ہیں۔ مثلاً ان کے افسانوی مجموعے ’’چشم و چراغ ‘‘ کے سات افسانوں کا اختتام مرکزی کردار کی موت پر ہوتاہے۔ جب کہ ان کے افسانے ’’کھرے کھوٹے‘‘ کا مرکزی کردار کہانی کے آخر پر غائب ہو جاتاہے۔سدرشن کے افسانوں میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کے افسانے کے اختتام سے پہلے منتہا کی آگئی ہو جانا ہے۔اورا س سے ان کے افسانوں میں تاثر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان کے بہترین افسانوں میں ’’وزیر عدالت ‘‘ ،’’جانثار‘‘ ،’’آزمائش ‘‘ ،’’روح کی آنکھ‘‘ اور ’’پر ماتما کی آواز ‘‘ شامل ہیں۔
وزیر عدالت افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
وزیر عدالت کو اختیار نہیں کہ اس کو سزا دے۔ اس لیے میں حکم دیتا ہوں کہ قاتل کے بت کو پھانسی پر لٹکا دیا یائے اور مہاراج کو تبنیہ کر دی جائے۔ یہ کہا اور ششو پال نے عدالت کی مہراشوک کے سامنے رکھ دی اور اپنے گاؤں واپس جانے کی اجازت مانگی لیکن اشوک نے اس کی طرف احترام کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا،آپ کی جرات تاریخ ہند میں یادگار رہے گی۔ یہ بار آپ ہی اٹھا سکتے ہیں۔(۱۴۴)
سدرشن کا اسلوب پریم چند کے اسلوب سے ملتا جلتا ہے۔ کیونکہ سدرشن پریم چند کے مقلد تھے ۔دوسری بات یہ کہ وہ پریم چند کے معاصرین میں بھی شامل تھے۔ ان کے افسانوی اسلوب کی جھلک ان کے افسانوں کے دو اقتباسات سے دیکھی جا سکتی ہے:
سدا سکھ کو بڑھاپے میں بیٹی کی پاکیزہ محبت ملی، اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کو بھگوتی اور رامو نہیں ملے تھے اس کے اجڑے ہوئے چمنستان دل میں پیار کی بہار آگئی تھی اس کی روح کی خشک ندی میں برسات کی باڑھ آگئی تھی۔ لیکن تقدیر کے فرشتے اس کے لیے کچھ اور سوچ رہے تھے۔ (۱۴۵)
دوسرا اقتباس ملاحظہ ہو:
ماں بھی مارتی ہے ماسٹر بھی مارتا ہے بلا شبہ دونوں کے دل میں میری بہتری کا خیال ہے لیکن دونوں کے مارنے میں کتنا فرق ہے ماں مارتی ہے اور روتی ہے ماسٹر مارتا ہے اور بھول جاتاہے۔ (۱۴۶)
اثر (۱۹۰۹ء ۔پ) کی کوئی نثری تصنیف تو شائع نہیں ہوئی البتہ ’’مرے کالج میگزین ‘‘میں ان کی کہانیاں اور افسانے شائع ہوتے رہے۔ ۱۹۲۸ء میں ان کا ایک خوبصورت افسانہ ’’جدائی‘‘ مرے کالج میگزین میں چھپا ۔ا س افسانے میں اثر نے بڑی ہی خوبصورتی سے ایک ماں کی تڑپ اورآہ وزاری کو بیان کیا ہے۔ یہ افسانہ ماں کی مامتا کے جذبے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ مہر النساکا پہلا خاوند فوت ہو جاتا ہے اور بعد میں اس کا بیٹا دریا میں ڈوب جاتاہے۔ کافی عرصہ کے بعد جب مہر النسا گلی کے ایک لڑکے کو گزرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اسے اپنے بیٹے باقر کی جھلک اس میں نظر آتی ہے ۔باقر جب اسے اپنی کہانی سناتا ہے کہ میرے والدین سگے نہیں بلکہ انھوں نے مجھے دریا سے ڈوبتے بچایا ہے۔ مہر النسا کو شک گزرتا ہے کہ وہ اس کا دایاں بازو دیکھے جہاں اسے وہ نشان نظر آجاتا جو بچپن میں اس کے بیٹے کے بازو پر تھا۔ اس افسانے میں انداز نگارش بہت رواں اور سادہ ہے۔ فیض احمد (۱۹۱۰ء۔پ ) بھی بہت اچھے افسانہ نگار اور کہانی کار ہیں۔ ان کے افسانے’’ مرے کالج میگزین‘‘ اور سیالکوٹ کے دیگر رسائل و جرائد میں چھپتے رہے۔ ان کا ایک افسانہ ’’مرے کالج میگزین ‘‘میں ’’دل بنا دیا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ فیض احمد نے اس افسانے میں افسانہ نگاری کے پورے لوازمات کو مد نظر رکھا ہے اور ان کے انداز تحریر کی دلکشی سے بھی انکار نا ممکن ہے۔ اس افسانے کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
میرے وہم سے بڑھ کر خوش پیکر میرے تخیل سے بڑھ کر مسحور کن ایک مجسمہ حسن و رنگ ایک پیکر عیش و جمال بڑی بے ساختہ ادا سے زمین پر متمکن تھا ۔ پنسل ہاتھ سے گر پڑی اور میں صورتِ سوال بنا کھڑا رہ گیا۔(۱۴۷)

ساغر صہبائی

ساغر صہبائی (۱۹۰۸ء۔پ) بھی اچھے افسانہ نگار ہیں ۔ ان کے افسانے بھی سیالکوٹ کے رسائل و جرائد میں چھپتے رہے۔ ساغر صہبائی کا ایک افسانہ’’ ناکام آرزو‘‘ اپریل ۱۹۳۲ء کے ’’مرے کالج میگزین‘‘ میں چھپا ۔یہ ایک نہایت دلکش اور دلچسپ افسانہ ہے۔ یہ دو محبت کرنے والے متوالوں کا افسانہ ہے جنھیں دنیا والوں نے جدا کر دیا ہے۔ مگر وہ موت کو گلے لگا کر امر ہو گئے۔ انھوں نے ایک دوسرے کے بغیر زندہ رہنا گوارہ نہ کیا۔ محمود احمد(۱۹۱۲ء۔پ) ایک اچھے کہانی نویس اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے ’’مرے کالج میگزین‘‘ اور سیالکوٹ کے دیگر رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہے۔ ان کے افسانوں میں خاندانی رسوم و رواج اور ذات پات کے نظام پر کڑی تنقید ملتی ہے۔ محمود احمد سماجی برائیوں کے خلاف اپنے افسانوں کے ذریعے جہا د کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک خوبصورت افسانہ ’’سماج کی قید‘‘ ،’’مرے کالج میگزین‘‘ میں مئی ۱۹۳۶ء کو شائع ہوا ۔محمود احمد نے اس افسانے میں نہایت فنکارانہ انداز میں مذہب اور ذات پات کی رکاوٹوں کو بیان کیا ہے اس بات کو بھی خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔ کہ محبت ذات پات اور امیری غریبی کچھ نہیں دیکھتی ۔ محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہو جاتی ہے۔ اس میں شیلا اور موہن دو مرکزی کردار ہیں جو آپس میں محبت کرتے ہیں۔ یہ کردار سماج کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کا عزم کرتے ہیں۔

جوگند ر آرزو

جوگند ر آرزو( ۱۹۱۸ء۔پ ) بھی مرے کالج میگزین کے بہترین افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانے’’ مرے کالج میگزین‘‘ میں چھپتے رہے۔ انھوں نے نہایت خوبصورت اور دلچسپ افسانے تحریر کیے۔ ان کا افسانہ تعبیر ان کے اندازِ نگارش کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ یہ افسانہ جنوری ۱۹۴۲ء کے ’’مرے کالج میگزین ‘‘میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں انھوں نے شوری اور شامی دو کرداروں کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ شوری شامی کی دبی ہوئی مسکراہٹوں میں کوئی رنگین سپنا دیکھا کرتا تھا۔ شامی کے حریص باپ نے اس کی شادی بوڑھے زمیندار سے کردی۔ شوری کی برسوں کی جمع کی ہوئی پونجی کے لیے دولت مند زمیندار کی ایک ہی جھپٹ کافی تھی۔ دولت نے محبت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔ شوری پھر وہ دلکش مسکراہٹیں نہیں دیکھ سکا۔ جوگندرآرزو کا افسانہ تعبیر افسانہ نگاری کے پورے لوازمات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔مسعودہ صدیقی (۱۹۲۰ء ) بھی’’ مرے کالج میگزین ‘‘کی لکھاری تھیں۔ آپ ایک اچھی کہانی کار اور افسانہ نگار تھیں۔ ان کا ایک خوبصورت افسانہ ’’حرمان نصیب ‘‘ مارچ ۱۹۴۲ء کے ’’مرے کالج میگزین ‘‘میں شائع ہوا۔ یہ افسانہ ان کے حسن ِ تخیل اور خوبی بیان کا ایک لطیف امتزاج ہے۔ مصنفہ نے یہ افسانہ گاؤں کے ایک ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے سے شروع کیا ہے۔ غریب کے بھیانک نظارے کی شاید اس سے اچھی تصویر کوئی بھی نہیں کھینچ سکتا۔ امجد بیوہ ماں کی زندگی کا آخری سہارا تھا۔ اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے مصیبتوں کا گلا گھونٹنا چاہا لیکن اجل کی بے رحم پھونک نے اس کی زندگی کی شمع کو بجھا دیا۔ بڑھیا کی ناؤ عین منجدھار میں ٹوٹ گئی۔ اس کی زندگی کا سرمایہ لٹ گیا اور موٹر سے ٹکرا کر اپنے بیٹے امجد کے پاس پہنچ گئی۔
اس افسانے میں ماں کی مامتا اور غربت کی بھرپور انداز میں عکاسی ملتی ہے۔ ۱۹۴۱ء کو’’ مرے کالج میگزین ‘‘میں افسانہ نگاری نکھر کر سامنے آنے لگی اور بہت سے خوبصورت اور دلچسپ افسانے چھپنے لگے۔ مثلاً عبدالحق کا ’’تصویرکا دوسرا رخ ‘‘،ایس کے روانی کا’’ غریب الدیار ‘‘،کنور عبدالٔحی کا’’ حقیقت ‘‘اور سمندر سنگھ دلال کا ’’عورت‘‘ جیسے دلکش افسانے تحریر کیے گئے ہیں۔
’’مرے کالج میگزین‘‘ نے سیالکوٹ کے اردو ادب کی بیش بہا خدمت کی ہے۔ بہت سے مشہور ادیب اور مصنفین اس میں چھپتے رہے۔ میرزا ریاض کا نام بھی ان میں سے ایک ہے۔ ان کا نام افسانہ نگاری کے افق پر ستارے کی مانند چمکا ہے۔ میرزا ریاض کی افسانہ نگاری کی تحریک’’ مرے کالج میگزین ‘‘سے ہوئی ۔انھوں نے میگزین کے لیے بہت خوبصورت افسانے تخلیق کیے۔’’ پی کہاں ‘‘فروری ۱۹۴۴ء ایک ’’تاریکِ شام‘‘ جنوری ۱۹۴۶ء کے علاوہ اور بھی بہت سے افسانے لکھے گئے۔ کالج کی زندگی کے بعد میرزا ریاض نے افسانہ کی طرف خاص توجہ کی اور جلد ہی ان کا شمار بہترین افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ محمد اکرام (۱۹۲۵ء۔پ ) نے بھی مرے کالج میں طالب علمی کے دوران’’ مرے کالج میگزین ‘‘ میں دلکش اور خوبصورت افسانے تخلیق کیے۔ جنوری ۱۹۴۴ء’’ مرے کالج میگزین‘‘ میں ان کا افسانہ ،’’افسانے کا پلاٹ‘‘ چھپا، انھوں نے اس افسانے میں سعیدہ اور وسیم کے مرکزی کردار وں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ سعیدہ افسانے لکھتی ہے۔ افسانے کے چند صفحات پڑھ کر وسیم َغلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لیکن جب سعیدہ سارا افسانہ اکٹھا کر کے پڑھنے کو دیتی ہے تا کہ وسیم کی غلط فہمی دور ہو جائے وسیم جب ساراافسانہ پڑھتا ہے تو اس کو ندامت ہوتی ہے کہ اس نے اپنی بیوی پر شک کیا۔
جوگندر پال کی شخصیت اور فن پر اردو کے پروفیسر حمید سہروردی نے مہرہٹواڑہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ۔ جوگندر پال کو مرے کالج سیالکوٹ میں طالب علمی کے زمانے میں افسانہ نگاری کا شوق پیدا ہوا اور’’ مرے کالج میگزین‘‘ نے ان کے شوق کو جلا بخشی اور کالج میگزین میں افسانے لکھنے والا جوگندر پال بعد میں ادب کے افق پر ستاروں کی مانند جگمگاتارہا۔

شفقت قریشی

شفقت قریشی (۱۹۲۶ء پ) کے افسانے اور کہانیاں بھی’’ مرے کالج میگزین ‘‘میں چھپتی رہی۔ نومبر ۱۹۴۵ء میں عالمگیر جنگ کے شعلے سر دپڑ گئے ۔جہاں اس کا اثر زندگی کے دوسرے شعبوں پر پڑا اوہاں ادب بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس دور میں لکھے گئے افسانوں میں یہ اثرات واضح طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ شفقت قریشی کاا فسانہ ’’ادھورے سپنے‘‘ صحیح رومان کا حامل افسانہ ہے۔ اور ا س وقت کی زندگی کا آئینہ دار بھی ہے مثلاً:
جنگ زوروں پر تھی ہر روز ہولناک خبریں سننے میں آتیں۔ عذرا بے چین ہو جاتی ایک روز جب عذرا پوسٹ آفس گئی تو خوشخبری سنی کہ رفیق کو جاپانیوں کے خلاف بے جگری سے لڑنے کے صلہ میں لفٹیننٹ بنا دیا گیا ہے۔ عذرا کی خوشی کی حد نہ رہی گاؤں بھر میں رفیق کی بہادری کا چرچا تھا۔ اب تو عذرا سپنوں میں بھی دیکھتی کہ وہ پہاڑی پر بیٹھی ہے اور رفیق چپکے سے آکر اسے گدگداتا ہے اور کہتا ہے دیکھو عذرا میں اس وردی میں کیسادکھائی دیتا ہوں۔(۱۴۸)
جنوری ۱۹۴۶ء کے’’ مرے کالج میگزین‘‘ میں ’’مجرم‘‘ (سید رفاقت)،’’اسیر‘‘(محمد انور فاروق )’’کنارہ ‘‘پرشوتم راحت اور’’ محبت کے پھول ‘‘(بکر ماجیت) جیسے عنوانات کے تحت خوبصورت افسانے شائع ہوئے۔ یہ افسانے افسانہ نگاری کی بہترین مثال ہیں۔ ’’مجرم ‘‘اور ’’کنارہ ‘‘ایسے افسانے ہیں جنھیں اگر قاری ایک بار پڑھ لے تو بار بار پڑھنے پر مجبو ر ہوجاتاہے۔

 

جمیل علوی

 

جمیل علوی (۱۹۱۱ء ۔پ) صاحب کے مزاحیہ مضامین اپنی مثال آپ ہیں ۔ان مضامین میں ’’شبلی صاحب کی گھڑی‘‘ ،اور’’ شبلی صاحب کی بائسیکل‘‘ نہایت دلچسپ مزاحیہ مضامین ہیں۔ یہ مضامین اپریل ۱۹۳۶ء کے’’ مرے کالج میگزین ‘‘سیالکوٹ میں شائع ہوئے۔ عبدالقیوم (۱۹۱۲ء۔پ ) کا مزاحیہ مضمون ’’ہاکی ‘‘مئی ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا۔ ہاکی کھیلنے کے شوق اور ہاکی کھیلنے کا حل دل موہ لینے والے مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اسیر (۱۹۱۳ء۔پ ) کا مضمون’’ میری پیاری گھڑی ‘‘مارچ ۱۹۳۱ء کے’’ مرے کالج میگزین ‘‘میں شائع ہوا۔اسیر نے یہ مزاحیہ مضمون نہایت دلچسپ انداز میں گھڑی کے بارے میں لکھا ہے۔ گھڑی کے خراب ہونے پر اسیر طرح طرح کے طریقے استعمال کر تاہے۔
ہائے افسوس!’صد افسوس! کہ میری ملکہ کو جو بیتی وہ سب میری وجہ سے بیتی ،گو میں نے اس بیچاری کے علاج میں دقیقہ تک نہ چھوڑا لیکن پھر بھی ناقابل اورنا تجربہ کار ثابت ہوا۔‘‘(۱۴۹)

عاشق حسین قریشی

عاشق حسین قریشی(۱۹۲۵ء۔پ ) کا مزاحیہ مضمون ’’ہم تھے بڑے ادیب‘‘ جون ۱۹۴۶ء کے ’’مرے کالج میگزین‘‘ میں شائع ہوا۔(۱۵۰) ان مضامین کے علاوہ اور بھی کچھ دلچسپ مزاحیہ تحریریں میگزین میں ملتی ہیں۔ ان تحریروں میں کہیں کہیں مزاحیہ انداز میں اصلاحی پہلو نمایاں ہے اور کہیں ہلکے پھلکے طنز سے کسی برائی کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن طنز میں نشریت نہیں۔
جوگندر پال (۱۹۲۶ء۔) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔(۱۵۱) انھوں نے میٹرک گنڈا سنگھ ہائی سکول سیالکوٹ سے کیا۔ بی۔ اے مرے کالج سیالکوٹ سے ۱۹۴۵ء میں کیا۔ ایم ۔اے انگریزی پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے کیا۔(۱۵۲) ۱۹۴۹ء تا ۱۹۶۴ء میں جوگندر پال اور اس کی بیوی کرشنا نے کینیا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈیوگ گلاسٹر اسکول نیروبی میں تدریسی فرائض سر انجام دیے۔(۱۵۳) ۱۹۶۴ء تا ۱۹۶۵ء ایس بی کالج اورنگ آباد میں شعبہ انگریزی کے پروفیسر رہے۔ اور ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۸ء میں اسی کالج میں پرنسپل رہے ۔(۱۵۴) ۱۹۷۸ء میں استعفیٰ دے کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کی۔(۱۵۵)
جوگندر پال برصغیر پاک و ہند کے شہرت یافتہ افسانہ نگار ہیں ۔ وہ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۵ء تک مرے کالج میں سیالکوٹ کے طالب علم رہے۔ اورا ن کی افسانہ نگاری کی ابتداء ’’مرے کالج میگزین‘‘ سیالکوٹ سے ہوئی۔(۱۵۶) ۱۹۴۴ء میں ان کا پہلا افسانہ ’’تعبیر‘‘،’’ مرے کالج میگزین ‘‘میں شائع ہوا تھا۔(۱۵۷)
’’دھرتی کا کال‘‘ جوگندر پال کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو، حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ یہ گیارہ افسانوں کا مجموعہ افریقی سر زمین کی بو باس لیے ہوئے ہے۔ اس مجموعے میں کرشن چندر کا ابتدائیہ اور دیوندر ستیارتھی کا خاکہ ‘‘جامبوجوگندر پال‘‘ شامل ہے۔ جوگندر پال کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’میں کیوں سوچوں ‘‘ ادبستان اردو امرت سر سے ۱۹۶۲ء میں طبع ہوا۔ یہ مجموعہ چھ فینٹسی ،چھ افسانوں اور چھ افسانچوں پر مشتمل ہے۔ ان کی تیسری کتاب ’’اِک بوند لہو کی ‘‘ (ناول ) مکتبہ افکار کراچی سے ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۔ ’’رسائی‘‘ جوگندر پال کا آٹھ طویل مختصر افسانوں کا مجموعہ ہے جو، نصرت پبلشرز لکھنو سے ۱۹۶۹ء میں طبع ہوا ۔’’مٹی کا ادراک ‘‘ جوگندر پال کا تیرہ افسانوں پر مشتمل افسانوی مجموعہ ہے۔ جو لاجپت رائے ا ینڈ سنز دہلی سے ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا۔ ’’سلوٹیں‘‘ افسانچوں پر مشتمل جوگندر پال کا مجموعہ ہے جو، لاجپت رائے اینڈ سنز دہلی سے ۱۹۷۵ء میں طبع ہوا۔ ’’آمدورفت‘‘ جوگندر پال کا ایک خوبصورت ناولٹ ہے۔ جو انڈین بکس پبلی کیشنز اورنگ آبا د سے ۱۹۷۵ء میں طبع ہوا۔ ’’بیانات‘‘ بھی اُن کا ایک اچھا ناولٹ ہے جو، انڈین بکس پبلی کیشنز اورنگ آباد سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔’’ لیکن‘‘ جوگندر پال کا بیس افسانوں پر مشتمل افسانوی مجموعہ ہے۔ جو اردو پبلشرز لکھنؤ سے ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔
’’بے محاورہ ‘‘ جوگندر پال کا چوبیس افسانوں پر مشتمل افسانوی مجموعہ ہے جو، کیلاش پبلی کیشنز اورنگ آباد سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ ’’بے ارادہ‘‘ جوگندر کا تیئس افسانوں پر مشتمل افسانوی مجموعہ ہے۔ جو زم زم بُک ٹرسٹ دہلی سے ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ جوگندر پال کا ایک خوبصورت ناول ’’نادید‘‘ رابطہ گروپ دہلی سے ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ ’’پریم چند کی کہانیاں ‘‘ کتاب کو جوگندر پال نے مرتب کیا جو، ترقی اُردو بورڈ نئی دہلی سے ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔’’کتھا نگر ‘‘جوگندر کا افسانچوں پر مشتمل مجموعہ ہے جو، ترقی اُردو بورڈ نئی دہلی سے شائع ہوا۔ ’’جوگندر پال کے منتخب افسانے‘‘ افسانوں پر مشتمل اُن کا انتخاب ہے ۔’’کھلا‘‘ جوگندر کا افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے جو، بک چینل لاہور سے شائع ہوا ۔’’جوگندر پال کے شاہکار افسانے ‘‘ ان کے چھیالیس افسانوں پر مشتمل ہے جو، ۱۹۹۶ء میں بک چینل لاہور سے شائع ہوا۔ ’’خواب رو‘‘ جوگندر کا ایک خوبصورت ناولٹ ہے جو، بک چینل لاہور سے ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا۔ ’’رابطہ‘‘ اور ’’بے اصطلاح ‘‘ جوگندر پال کے دو تنقیدی مضامین پر مشتمل تنقیدی مجموعے ہیں جو ۱۹۹۸ء اور ۱۹۹۹ء میں بُک چینل لاہور سے شائع ہوئے۔
جوگندر پال نے روایتی انداز میں خاص طور پر اپنے عہد کی مقبول کہانیوں کے گنبد میں کچھ عرصہ اسیر رہ کر افسانے لکھے اور رفتہ رفتہ یہ نقطۂ نظر ظاہر کیا کہ واقعات اہم نہیں ہوتے۔ ان پر افسانہ نگار کے تاثرات اہم ہوتے ہیں۔ جوگندر پال نے اردو افسانے کی دنیا میں ایک نئے ماحول کا اضافہ کیا ہے۔ افریقہ ،افریقہ ہرے ہرے طوطوں اور لمبی گردن والے زرافہ کا افریقہ نہیں ۔اس وحشی فطرت والے افریقہ کے بارے میں تو بہت سے لوگ اپنی باتیں سناتے ہیں اور قصے بیان کرتے ہیں۔ جو گندر پال نے ملازمت کے سلسلے میں افریقہ میں قیام کیا ۔ انھوں نے نئے ماحول کے نئے انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے افریقہ کے بارے میں اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں بتائی ہیں اور بہت سی غلط باتوں کی تردید بھی کی ہے۔ اس ضمن میں وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں ۔جنھوں نے افریقی زندگی کو اس شدت سے ہم سے روشناس کرایا ہے۔
جوگندر پال نے روایتی اور علامتی افسانے کے امتزاج سے اپنے فن کو جلا بخشی ۔ان کے افسانوں میں سیاست، رومان ،حقیقت نگاری ،مارکسی طرزِ فکر اور مختلف رجحانات ملتیہیں۔ یہ رجحانات روایتی انداز کی بجائے علامتی انداز میں سامنے آتے ہیں اور افسانویت کومجروح کیے بغیر افسانوں میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ ان کے بعض افسانوں میں طنز کی ہلکی ہلکی لہریں بھی نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے جوگندر پال کا افسانہ ’’بے گود‘‘ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید جوگندر پال کے افسانے کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
جوگندر پال نے افسانے کو متوازن سماجی تنقید کا وسیلہ بنایا ہے۔ معاشرتی اور تہذیبی انسان کی کایا کلپ سے انھوں نے داخل کو ہلا دینے والی کیفیات مرتب کی ہیں۔ ’’دھرتی کا کال‘‘ ان کی افریقی کتابوں کا مجموعہ ہے۔ رسائی ،لیکن ،مٹی کا ادراک ،بے محاورہ اور بے ارادہ ان کے دیگر افسانوں کے چند مجموعوں کے نام ہیں۔(۱۵۸)
جوگندر پال کے افسانے بالعموم مختصر ہیں لیکن معنویت اور تاثیر کے اعتبار سے مکمل افسانے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار زندہ اور متحرک ہیں۔ ان کے بعض افسانوں میں محبت کے جذبہ کی عکاسی کی گئی ہے۔
جوگندر پال کا ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کا کوئی زاویہ نگاہ نہیں ہوتا سوائے اس کے ’’ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا اور چل نکلے‘‘ حالانکہ یہ بھی ایک زاویہ نگاہ ہے۔ مگر بے حد سطحی ہے ۔ جوگندر پال بھی دیکھتا ہے ۔دل شاد کرتا ہے۔ اور دیکھ کر چلا بھی جاتا ہے۔ مگر دیکھ کر جانے کے بعد بھی ہم اس کے افسانے کا مزہ لیتے رہتے ہیں۔ کیونکہ جو تصویر اس نے ہمیں دکھائی ہے اس میں صرف سطح کی کیفیت نہیں ہے۔ جیسی اکثر تصویروں میں ہوتی ہے۔ اس میں اور نہیں بھی ہوتی جنھیں ذہن آہستہ آہستہ کھولتا ہے۔
جوگندر پال کے افسانوں میں لفاظی نہیں ملتی او رضرورت سے زیادہ الفاظ یا عبارت آرائی کی کوشش ان کے افسانو ں میں کم ہے۔ مختصر اور چند جملوں میں وہ مکمل تاثر کر لینا جس کو افسانے کے ذریعے پیش کرنا ہو مشکل کام ہے لیکن جوگندر پال اس مشکل کام پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔جوگندر پال بڑی آسانی سے امیر غیر ملکیوں کی جگمگاتی ہوئی زندگی کے مطالعہ میں اپنے آپ کو کھو سکتا تھا۔ اس طرح کہ داستان کا لطف بھی حاصل ہو جائے اور خود غرض حقائق کی پردہ پوشی بھی ہو جائے۔ داستان کا لطف تو اس نے اب بھی پورا پورا برقرار رکھا ہے کیونکہ وہ مغربی فن کا بڑا قائل ہے۔ Suspenseمیں اسے بڑا مزا آتا ہے اور سسپنس کے بعد جھٹکا دینا بھی خوب جانتا ہے۔
جوگندر پال کا افسانہ ’’عفریت‘‘ بظاہر ایک معصوم بچے کے تجسس کی کہانی ہے جو، یہ معلوم کرنے کا آرزو مند ہے کہ راون کے دس سر کس طرح ہو سکتے ہیں اور راون اگر زندگی کا سچار کردار ہے تو ہر سال کا غذ کے راون کو آگ کیوں لگاتے ہیں۔دسہرے کے ہجوم میں باپ اور بیٹا معاملے میں مصروف ہیں اور زندگی اپنی گرہیں کھولتی جاتی ہے۔ موہت جو دوسری جماعت کے طالب علم کے سوالات سے باپ کے اندر کا راون آشکار ہونے لگتا ہے۔بقول ڈاکٹر انور سدید:
جوگندر پال کی منفرد خوبی یہ ہے کہ انھوں نے زندگی کو استہزا میں اُڑانے کی بجائے اس میں اعتماد اور یقین پیدا کیا۔ ان کا طویل افسانہ لمبی نظم کی طرح اور بے حد مختصر افسانہ غزل کے شعر کی طرح ہوتا ہے۔ ’’کتھا نگر‘‘ میں انھوں نے کہانی کو چند جملوں میں پوری تاثر آفرینی سے پیش کرنے کا تجربہ کامیابی سے کیا ہے۔(۱۵۹)
جوگندر پال کے افسانوں میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں انھوں نے جس احساس کی بھی عکاسی کی ہے۔ اس کو قاری محسوس کر لیتا ہے۔ ان کے افسانے جذبہ سے خالی ہو کر مضمون نہیں بن جاتے۔ بلکہ ان کے افسانوں میں انسان نظر آتے ہیں۔ یہ عام انسان ہیں جن میں بھوکے بھی ہیں ،مجبور بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس کوئی سہارا نہیں ہے لیکن وہ ذہن کے سہارے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ جوگندر پال کے افسانوں میں حقیقت انسانیت، پاکیزگی اور لطافت کی ہم آہنگی کچھ یوں بنتی ہے۔ جیسے سُرخ و سفید،سینری کے گرد سیاہ حاشیے اور یہ سیاہ حاشیے اپنی تاریکی کے باوجود اس سینری کے حُسن میں اضافہ کرتے ہیں۔
جوگندر پال کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے افسانے کی داخلی ضرورت کے مطابق نئی تکنیکیں وضع کی ہیں اور بے ریا صداقت معصومانہ انداز میں یوں پیش کی ہیں کہ افسانہ جوگندر پال پر بیتی ہوئی واردات نظر آنے لگا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں :
جوگندر پال کے افسانے زندگی کی انوکھی مگر سچی وارداتوں کو سامنے لاتے ہیں اور ایک جہان دیگر روشن کر دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ راجندر سنگھ بیدی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا تھا اسے جوگندر پال کے فن نے پورا کر دیا ہے۔ (۱۶۰)
جوگندر پال کے افسانوی مجموعے ’’دھرتی کا کال‘‘ میں تدبیر کاری کی سطح پر داخلی خود کلامی کا طریقہ کار اپنی پہلی جھلک دکھاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ تدبیر کاری ان کی نمایاں پہچان بن گئی۔ اس حوالے سے جوگندر پال کے افسانے ’’پاتال‘‘ اور ’’باہر کا آدمی‘‘ ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ جوگندر پال نے کردار کو دو لخت کر کے گہری نفسیاتی بصیرت کے ساتھ سماجی اور ثقافتی مسائل کے اُلجھا وے کو فلسفیانہ سطح پر رفع کیا ہے۔ پستیوں میں گرتے ہوئے فرد کا ذہنی اور اخلاقی تجزیہ ’’روشن پہاڑ‘‘ ہے۔ لیکن ایسے افسانے لکھتے وقت جوگندر پال نے ہمیشہ ابلاغ کے مسئلہ کو سر اٹھاتے ہوئے محسوس کیا۔ انھیں اپنی رو میں لکھتے ہوئے بھی غیر تربیت یافتہ قاری کی اُلجھنوں کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ ’’ہارو یسٹ‘‘ افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
میں اپنے آپ سے وعدہ کرکے لکھنے بیٹھا ہوں کہ میری یہ کہانی بڑی شریف ہو گی،ا تنی شریف کہ ہر ایک کی سمجھ میں یوں آسانی سے آجائے جیسے غیر شریف(عورت) بلا جھجھک ہر کسی کا پرائیوٹ ایریا ہی ہے۔(۱۶۱)
افسانہ لکھتے ہوئے یہ بے تکلفی کسی دوسرے افسانہ نگار کے افسانوں میں کہیں نہیں ملتی۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
لیجیے جناب۔یا جناب !کہانی کا رنگ روپ خوب نکھر آیا ہے۔ اور اپنے سیکس کے عین مطابق دکھائی دینے لگی ہے۔ عورت کا عورت پن ،کہانی کا کہانی پن ، میری اس بھولی بھالی کہانی نے برقع اوڑھ رکھا ہے تاکہ بری نظروں سے بچی رہے یا کوئی منچلا اسے دیکھنے پر تل ہی جائے تو آنکھیں بند کر کے اپنی توفیق کی حد تک اسے دیکھ سکے۔(۱۶۲)
اس حوالے سے ’’لیکن ‘‘ ،’’بے ارادہ‘‘ اور ’’بے محاورہ‘‘ کے افسانے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ۔
جوگندر پال نے افسانہ ’’رسائی‘‘ کے ایک داخلی مونو لاگ میں اظہار کی پابندیوں اور اسالیب کے الجھیڑوں کو موضوع بنایا تھا۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
نئے واقعات ،نئے خیالات،زندگی کے نئے اسالیب کی راہیں ہم پر کیوں بند کر دی ہیں۔ ہم نے اپنی اپنی جان کی بازی کھیل کر اپنی رہائی کا یہ اقدام کیا ہے۔ آؤ اس کھڑکی کی راہ سے نکل جائیں۔ آؤ جلدی کرو،باہر نئی زندگی ہمارا انتظار کررہی ہے۔(۱۶۳)
جوگندر پال نے اپنی پہچان کے تمام حوالے یکسر بھلا کر اسلوب او ر موضوع کا چناؤ کیا۔ جب سے اب تک جوگندر پال کے ہاں موضوع کو اولیت حاصل ہے اور انھوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ہر موضوع اپنا طرز اظہارساتھ لے کر وارد ہوتا ہے۔ ’’سلوٹیں‘‘ کے افسانچے اسی بولڈ اقدام کے غماز ہیں۔
جوگندر پال کے افسانوں میں معاشی غرض سے عارضی طور پر ترکِ وطن کرنے والے بھارتیوں کا تجربہ بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف ثقافتوں کا شعور اور احساس بھی ۔ ہندوستان میں آزادی سے گھومنے پھرنے والے ہمدرد انسان دوست شخص کو مختلف عقیدوں زبانوں، نظریوں اور عادتوں کے لوگوں سے ملنے سے انسانی فطرت ،اپنی دھرتی اور تہذیب کے تنوع اور نقطہ ارتباط کے لیے سر گردانی کے حوالے سے جو، تخلیقی تجربہ مل سکتا ہے۔وہ جوگندر پال کو ملا مگر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک انچ کی کمی ہے کہ اُس کا نام صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں شامل نہ ہو سکا۔ حالانکہ کہ وہ ہر دور میں ایک مقبول افسانہ نگار رہا ہے۔
جوگندر پال کے ہاں موت ایک آسیب کی طرح ہے، کہیں نعشوں کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے تو کہیں کوئی مردہ گم ہوگیا ہے یا کسی زندہ کو مردوں میں شمار کیا جا رہا ہے ۔اس لیے ایک آدھ افسانے کے سوا پھر یہ تکرار کا ماجرا نظر آتا ہے۔ یا کہیں کہیں اس خوف پر قابو پانے کے لیے ستم ظریفی کرنے والے لہجے کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
مردے بھی ضرور کہیں نہ کہیں ہماری طرح بس جاتے ہوں گے ۔ٹھہرو بولو نہیں کیا پتہ ہم بھی مردے ہوں۔ میں نے کہیں پڑھ رکھا ہے کہ ہر شخص دراصل اپنی موت سے پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے۔ نا معلوم کب سے ۔مجھے بڑی دھندلی سی یاد آرہی ہے میں نے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دی تھی اور پھر مجھے یہاں مردہ خانے میں بھیج دیا گیا تھا۔ پچھلے پندرہ سال سے میں یہاں گل سڑ رہا ہوں۔(۱۶۴)
جوگندر پال کے افسانے ’’چور سپاہی‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
میری جیب میں پانچ روپے کا نوٹ نہ ہو تو میں اپنے بچوں کے لیے گولیاں بھی نہیں خرید سکتا۔(۱۶۵)
اِسی طرح ’’کوئی نجات‘‘ افسانے کا اقتباس ملاحظہ ہو:
مجھے یاد نہیں مجھے مرے کتنا عرصہ بیت چکا ہے ۔ میری ساری یادیں پسِ مرگ ہی شروع ہوتی ہیں۔(۱۶۶)
اپنے افسانے ’’کوئی نجات‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
اُن کے رونے کی آواز نہیں دے رہی ہے ۔ میں بھی وہاں اپنی لاش کے سرہانے بیٹھ کر رونا شروع کر دیتا ہوں ۔ اور روتے روتے میری گھگی بند ھ گئی ہے۔(۱۶۷)
’’دادیاں‘‘ افسانے میں یوں لکھتے ہیں :
پورے چاند کی روشنی میں دادی کی نعش کو دادیاں ہی دادیاں گھیرے ہوئے تھیں۔(۱۶۸)
جوگندر پال جب اپنے اس آسیب کو اپنے سماجی شعور کے ساتھ ’’بے گور‘‘ جیسا افسانہ لکھتا ہے تو تکرار کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اس کی تخلیقی دنیا میں خود بہ خود ایک وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ امریکیوں کو کچھ نعشوں کی ضرورت ہے۔ بھارتی ٹھیکیدار انھیں یہ کہہ کر زندہ لوگ فراہم کرتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
صاحب مردوں کو تو اپنے مر چکنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ مگر انھیں غور سے دیکھیے ہر ایک کو پورا احساس ہے کہ وہ مر چکا ہے ۔ ان سب کو آج کل میں مر ہی جانا ہے۔ بہت سے تو راستے میں جہاز پر ہی دم توڑ دیں گے۔(۱۶۹)

 

مضطر نظامی

 

مضطر نظامی کی ادبی زندگی کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا زیادہ تر رجحان شعری کاوشوں کی طرف رہا ہے۔ جہاں تک مضطر نظامی کی نثری تصانیف کا تعلق ہے اس سلسلے میں ان کے جن مسودات تک رسائی ہوئی ہے۔ ان میں ایک آدھ مطبوعہ اور باقی غیر مطبوعہ ہیں۔ ان کا تعلق چونکہ ساری زندگی درس و تدریس کے شعبہ سے رہا ہے۔ اس لیے ان کی زیادہ تر تصانیف و تالیف اسی شعبہ سے متعلق ہیں۔ جن میں دانشکدہ (مطبوعہ) ،ادبستان ،شان اردو، روح القواعد ،میزانِ اردو ،تاریخی مکالمے، ڈراما’’ قریبِ آرزو ‘‘اور تلخیص نکاتِ سخن پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مختلف مضامین مختلف موقعوں پر لکھے جو عدم توجہ کی وجہ سے ضائع ہو چکے ہیں یا پھرکسی اور وجہ سے منظرِ عام پر نہ آسکے ہیں ۔ اور ان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
مضطر کی پہلی نثری کتاب دانش کدہ‘‘ فارسی آموز کے لیے ایک نادر کتاب ہے جو، چھیالیس اسباق پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی۔ ان کی دوسری کتاب ’’ادبستان ‘‘ (غیر مطبوعہ) اردو آموز کے لیے ایک نادر مسودہ ہے۔ جو دوہزار یا اعراب الفاظ ، ادبی جواہر ریزوں اور بہترین اشعار کا نغزونادر مجموعہ ہے جو، چھیالیس صفحات پر مشتمل ہے اور خود نوشت ہے۔
ان کی تیسری تصنیف ’’شانہ اردو‘‘ (غیر مطبوعہ ) پرائمری اور مڈل درجہ کے طلباو طالبات کے لیے خطِ نسخ و نستعلیق میں املائی مشق کے لیے دو ہزار الفاظ کا نادر مجموعہ ہے۔ جو تیس صفحات پر مشتمل ہے ۔یہ مسودہ بھی خود نوشت ہے۔
’’روح القواعد‘‘ مضطر کی چوتھی نثری کتاب ہے۔ جو فارسی آموزکے لیے ثانوی سطح کی معیاری اور مستند گرائمر کاایک نادر مسودہ ہے۔ یہ کتاب غیر مطبوعہ ہے ، جو نواسی صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مسودہ بھی خود نوشت اور سات ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ ثانوی مدارس کے طلباو طالبات کے لیے اردو قواعد کی جامع اور نادر طرز کی تخلیق ہے۔ یہ خود نوشت مسودہ ۳۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ضخیم مسودہ اٹھارہ ابواب میں منقسم ہے۔ ’’تاریخی مکالمے‘‘ مضطر کی چھٹی تصنیف ہے۔ مضطر نے تاریخ اسلامی کی اہم ترین شخصیات کے اہم ترین مواقع پر مکالمہ بازی کو ضبطِ تحریر میں لا کر تاریخی مکالمے کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔ یہ مسودہ اکہتر صفحات پر مشتمل ہے جو، غیر مطبوعہ ہے۔ مضطر نظامی نے ایک ڈرامہ ’’فریبِ آرزو ‘‘ کے نام سے تحریر کیا ہے۔ یہ تحریر بتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’تلخیص نکات ِ سخن‘‘ مضطر کی آٹھویں نثر ی کتاب ہے۔ نکاتِ سخن اصل میں حسرت موہانی کی صنفِ شاعری کے متعلق کتاب ہے جو، پہلی بار جنوری ۱۹۳۵ء میں کراچی سے شائع ہوئی۔ جس میں متروکات سخن، مصائب سخن ، محاسنِ سخن ،نوادرِ سخن اور اصلاح سخن کی تحقیق و تفصیل پیش کی ہے۔ یہ کتاب کئی جامعات میں ایم۔ اے اردو کے نصاب میں شامل رہی ہے۔
مضطر نظامی کے نثری کارنامے کئی اصناف پر محیط ہیں جہاں تک ان کی نثری تصانیف کا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں اُن کے جن مسودات تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ان میں سے دو مطبوعہ اور باقی غیر مطبوعہ ہیں۔ اب ان کی نثری تصانیف کا سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
’’دانش کدہ‘‘ فارسی آموز کے لیے نادر نسخہ ہے جو چھیالیس اسباق پر مشتمل ہے یہ ۱۹۶۲ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ مضطر نے فارسی تدریس کے عرق ریز تجربوں کے نچوڑ کی بناپر اس کو تخلیق کیاہے جو،طالب علم کی ذہنی استعداد کو فارسی زبان میں بڑھانے کے لیے اور اس میں دسترس حاصل کرنے کے لیے بہت ہی کارآمد تالیف ہے۔ اس کی زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ جملے تخلیقی ہیں۔ ہر مشق کے آخر میں سبق کو ذہن نشین کرانے کے لیے مشق کا اہتمام ملتا ہے۔
’’ادبستان‘‘ اردو آموز کے لیے نادر مسود ہ ہے۔ اس مسودے کی ابتدا میں مضطر نے اس کی ترتیب دینے کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ’’غلطیائے مضامین مت پوچھ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ پروفیسر شیخ سراجد ین آذر اپنی لائبریری(چونڈہ) میں بیٹھے ہوئے تھے۔تحقیق تلفظ موضوع سخن تھا ۔ ہنس کر فرمایا کہ ایک دن لاہور میں نہایت مہذب و معقول احباب کا مجمع تھا۔ مختلف موضوعات پر بحث ہو رہی تھی کہ ایک صاحب نے اپنے کسی جملے میں ’’وَلْوّلے‘‘ کو ’’ولولے‘‘ کہہ دیا۔ محفل قہقہہ زار بن گئی۔ تلفظ کا صحیح جاننا اور اد اکرنا ہی علم اور زبان دانی ہے۔ تلفظ و املاکی ایک ذرا سی لغزش وسہوسے الفاظ و عبارت کا مفہوم یکسر بدل جاتا ہے۔ جو سامع اور قاری کو پریشان کر دیتا ہے۔ (۱۷۰) مضطر نے ’’ادبستان ‘‘ کے اس مسودے کو اس موضوع (صحیح تلفظ کا جاننا اور ادا کرنا) کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا ہے۔ تاکہ قاری تلفظ کو صحیح جان کر ادا کر سکے۔
اس مسودے کی ابتدا ’’اردو ہماری قومی زبان‘‘ ہے کی نظم سے ہوتی ہے۔ اس نظم کے کل پندرہ اشعار ہیں۔ مضطر نے ادبستان کے پہلے صفحے پر اُن الفاظ کو رقم کیا ہے۔ جو ’’الف ‘ ‘ سے شروع ہوتے ہیں ’’ع‘‘ سے نہیں ۔ انھوں نے اس مسودے کی ابتدا میں تلفظ کی تصیح کے لیے ’’الف‘‘ سے شروع ہونے والے الفاظ رقم کیے ہیں۔ ان الفاظ کو ’’ع‘‘ سے شروع نہیں کیا جا سکتا ورنہ وہ غلط تصور ہوں گے۔
وہ الفاظ جن کے شروع میں ’’الف‘‘ ہے ’’ع‘‘ نہیں ۔
اَبد، ابصار، ارتقا، ارم ،اجمل، ارمان ، اسما،ارشاد، اشارہ ، اشہر، اصل، اضطراب، اطراف، اظہر ،اعتبار ،اقربا ، اکناف ،امم ،امارت،امانت ،انبیا ،انصار ،انفاس ، انقلاب، اولیا اور ایاغ وغیرہ۔(۱۷۱)
تلفظ کی تصیح اور ادائیگی کے لیے مضطر نظامی نے مشہور اشعار سے بھی مدد لی ہے۔ مثلاً :
ارم ۔اقبال ۔ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار
اَرم بن گیا دامنِ کہسار
اصل۔محمد علی جوہر۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد(۱۷۲)
اس کے بعد مصنف نے قرآنی آیات، احادیثِ نبویﷺ ،اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات کے بارے میں مختصراً مگر جامع اور جاندار ادبی تحریر رقم کی ہے جو، ایک طرف ادب کا درجہ رکھتی ہے۔ تو دوسری طرف انسانی شخصیت کی تعمیر و تشکیل اور درستگی کردار میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پہلے صفحے کا آخری اقتباس ’’خالقِ کائنات‘‘ کے عنوان سے درج ہے ، اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اقتباس بعنوان ملاحظہ ہو:
خالق کائنات:
حق جل شانہ نے اپنی قدرت سے اس تمام عالم کو خیر و شر سے مرکب کیا۔ نور اور ظلمت ، سیاہی اور سفیدی ،حق اور باطل ،پاک اور ناپاک ،بھلا اور بُرا ،عاقل او رغَبی ،جن و انس ، شیطان اور فرشتہ، امیر و فقیر ،سب اس نے پیدا کیے۔ یہ سب حق تعالیٰ کی کل کائنات اور مخلوقات ہیں۔(ایک قرآن )(۱۷۳)
اِسی طرح مصنف نے حروف ِتہجی کی ترتیب مختلف لفظوں سے شروع ہونے والے الفاظ کی تفصیل ہر صفحہ پر پیش کر کے درج ذیل عنوانات سے مزین کیا ہے:
انبیا و فلاسفہ ،عشقِ رسول، صحابہ اکرام کی ایمانی قوت، خالد کا ایمان لانا، مولانا محمد علی جوہر،حضرت ابراہیم کا خواب، عمر و بن عاص ،فاتح مصرو طرابلس ،عمرو بن عاص ،محمد بن قاسم ،نصب العین ،مروت حسن عالمگیر ہے۔ طارق بن زیاد کی تقریر، سلطان محمود کا مبارک خواب، سلطان علاؤ الدین ،یوسف بن تاشفین ،سلطان صلاح الدین کا کردار۔(۱۷۴)
مضطر نے ہرصفحہ کے آخر میں اوپر درج شدہ عنوانات کے تحت بہت ہی خوبصورت دلکش اور شگفتہ ادب پارے تخلیق کیے ہیں۔ جس کی صحیح قدرو قیمت کا اندازہ اس مسودے کے مطالعہ سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے طلبا کی ادبی زبان یقینا نکھر جاتی ہے۔ یہ مسودہ مضطر کے تیس سالہ تدریسی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ جس کو طلبہ اور اساتذہ نہ صرف اردو آموزی کے لیے بلند پائے کی کتاب پائیں گے۔ بلکہ تطہیر افکار، تشکیل کردار ،ملی و قومی مشاہیر سے محبت و الفت اور اسلامی تاریخ سے واقفیت کے لیے ایک نغزو نادر مجموعہ پائیں گے۔
’’شانہ اردو‘‘ میں مضطر نظامی نے پرائمر ی اور مڈل درجہ کے طلبا و طالبات کے لیے خطِ نسخ و نستعلیق میں املا کی مشق کے لیے دو ہزار الفاظ کا نادر مجموعہ ترتیب دیا ہے۔ مصنف نے حروفِ تہجی کی ترتیب کے مطابق ’’الف‘‘ سے ’’ی‘‘ تک لفظ سے شروع ہونے والے الفاظ کو ذہن نشین کروانے کے لیے باقاعدہ مشقوں کا اہتمام کیا ہے۔
جس میں آسان ،سادہ اور رواں زبان استعمال کی گئی ہے۔ جملے عام فہم اور سادہ ہونے کے ساتھ بچوں میں ادب، اخلاق ،توحیدو رسالت جیسے اوصاف سے مالا مال ہیں۔ مصنف نے اس کتابچے میں طلباو طالبات کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ ’’شانہ اردو‘‘ میں سے چند مثالیں نمونے کے طورپر پیش کی جاتی ہیں۔ تاکہ اس کی اہمیت کا کسی قدر اندازہ ہو سکے۔
مصنف نے ’ب‘ کی تختی میں آب ،تب ،جب ،رب ،شتاب اور کتاب وغیرہ کے الفاظ کا ذکر کیا ہے۔ اور اس لفظ کو ذہن نشین کروانے کے لیے ان جملوں کا استعمال کیا ہے:
اَب غم نہ کھا، اُستاد کا ادب کر، سب سے مل، لب بند رکھ، صبر سے کام لے، ماں باپ کی خدمت کر۔(۱۷۵)
لفظ ’چ‘ کا استعمال اس طرح کیا ہے:آنچ ، پانچ، سانچ اور چاند وغیرہ ،چاند نکل آیا۔ سانچ کو آنچ نہیں۔ پانچ وقت کی نماز پڑھ۔ناچ نہ دیکھ۔(۱۷۶)
’’روح القواعد‘‘ کے باب اول شروع کرنے سے پہلے مصنف نے تمہید کے طورپر کسی زبان کی گرائمر کو سمجھنے کے لیے ابتدائی طورپر اس زبان کے اصول و قواعد پر بحث کی ہے۔ جس پر کسی زبان کی صحت و درستی کا دارو مدار ہوتاہے ۔ اس ضمن میں علم ہجا، حرکات، اصطلاحات ،علم حرف، لفظ اور اقسام اور لفظ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ باب اول میں تذکیر و تانیث اور اس کے متعلقات سے بحث کی ہے۔ باب دوم میں اسمِ صفت کی اقسام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ تیسرے باب میں اسمِ ضمیر اورا س کی اقسام پر بحث کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں مصادر اور اس کے متعلقات زیرِ بحث آئے ہیں۔ پانچویں باب میں فعل اور اس سے متعلقہ امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد مصنف نے باب حرف رقم کیا ہے۔ جس میں حروف کی اقسام اور اس سے متعلقات پر بحث کی گئی ہے۔ آخری باب میں سخنوران ِقدیم اور دورِ جدید کے عنوان کے تحت نامور قدیم اور جدید شعراکا تعارف اور نمونہ کلام پیش کیا گیا ہے۔
’’میزانِ اردو‘‘ کا پہلا باب حروف اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ جس پر مصنف نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے باب میں حرف، لفظ ،اس کی اقسام اور کلمے کی اقسام کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ تیسرے باب میں تذکیر و تانیث اور اس کے متعلقہ امور کے بارے میں بحث کی ہے۔ پانچویں باب میں اسم کی مختلف حالتوں کے بارے میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں مصادر کی اقسام اور اس کے متعلقات کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ ساتویں باب میں علامت، فاعل کا استعمال اور اسم کی مختلف حالتوں کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔ آٹھویں باب میں صفت اور اس کے متعلقہ امور کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ نویں باب میں فعل کی اقسام ،فعل بنانے کے قواعد اور اس کے متعلقات کے بارے میں بحث ملتی ہے۔دسواں باب حروف ،اس کی اقسام اور اس کے دوسرے امور کے لیے وقف ہے۔ گیارہویں باب میں نحو ،مرکب اور اس کی اقسام کے بارے میں تفصیلی بحث ملتی ہے۔ بارہویں باب میں جملے کے اجزاء اور اس کی اقسام کے بارے میں مصنف نے تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔ تیرھویں باب میں سابقے،لاحقے اور اس کے متعلقہ امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چودھویں باب میں فقروں کی ترتیب اور نامکمل فقرات کی تکمیل کے بارے میں مباحث ہے، پندرھواں باب رموزِ اوقاف، متضاد الفاظ اور غلط فقرات کی درستگی کے لیے وقف ہے۔ سولہویں باب میں روزمرہ ،محاورہ ،محاورہ کی اقسام ،ضرب الا مثال اور کہاوتوں کے بارے میں تفصیل ملتی ہے۔ سترھواں باب تلمیحات و اشارات کے بارے میں وقف ہے۔ آخری باب میں اُردو نثر و نظم کی اقسام کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
مضطر نظامی کے اس ضخیم مسودے ’’میزانِ اردو‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ثانوی سطح کے لیے اردو قواعد پرا یک مکمل جامع ،معیاری اور نادر نسخہ ہے جو، ثانوی اور کالج کی سطح کے طلبہ و طالبات کی اردو گرائمر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
’’تاریخی مکالمے‘‘ مسودے میں مضطر نظامی نے اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات کی اہم ترین مواقع پر جو مکالمہ بازی ہوئی اس کو ضبطِ تحریر میں لا کر تاریخی مکالمے کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس مسودے میں مصنف نے چھبیس موضوعات پر تاریخی مکالمے رقم کیے ہیں۔ نمونے کے طورپر ان مضامین میں سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔ تاکہ مضطر کے ان ادب پاروں کی ا ہمیت اور قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ مصنف نے عقل و عشق کے عنوان سے حضرت خضرؑ اور حضرت موسیٰؑ کے درمیان مکالمے کو قلمبند کرتے ہوئے اظہار خیال کرتے ہیں:
حضرت خضر ؑ کو علم ارنی حاصل تھا جس کے تحت ان پر غیب کی خبریں منکشف ہو جاتی تھیں۔ چنانچہ ان اخبار واحکام الہی کے سلسلے میں ان سے ایسی حرکات ظہور میں آتی تھیں کہ اور تو اور علم موسی ٰ بھی انھیں دیکھ کر حیرت فروش بن جاتا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ دریا کے کنارے حضرت خضر کی زیارت کرتے ہیں تو انتہائی نیاز مندی سے کہتے ہیں۔:
اے حریم ذات کے راز دار خضر! اے سیر و سیاحت اور تحصیل معرفت کے تشنہ کام مسافر! مجھے بھی فہم و بصیرت کے اس گنجینے سے بہرہ ور کر جس سے خدائے ذوالجلال کی بے دریغ فیاضی نے تجھے مالا مال کیا۔(۱۷۷)
مضطر نظامی کے ڈرامے ’’فریبِ آرزو‘‘ کے بنیادی طورپر پانچ کردار ہیں۔ زینت(اشرف کی بیوی) ،اشرف( ایک ادھیڑ عمر مدرس) ، داؤد (اشرف کا رنگیلا دوست) ،شاہد(اشرف کا بیٹا) اور مس پروین(ایک اُستانی ) اس ڈرامے کا زمانہ بیسویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور محل وقوع ایک شہر کا ہے۔ اشرف اس ڈرامے کا بنیادی اور مرکزی کردار ہے۔ جو ایک ادھیڑ عمر مدرس ہے۔ زینت اس کی ان پڑھ بیوی ہے۔ ایک عرصہ سے وہ اپنے خاوند سے ان پڑھ ہونے کا طعنہ سنتی رہتی ہے۔ اشرف کا دوست داؤ د اسے دوسری شادی کا مشورہ دیتا ہے اور وہ دوسری شادی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دوسری شادی کے چکر میں اشرف پہلی بیوی کو کوستا رہتا ہے اور حیلوں بہانوں سے اس کو گھر سے بھگا دیتا ہے۔ ایک سکول ٹیچر مس پروین سے اس کی شادی کی بات چیت ہوتیہے۔ مس پروین کے روپ میں اس کی اپنی ہی بیوی اس کو زچ کرتی ہے۔ جب حقیقت حال کھلتی ہے تو اشرف بہت شرمندہ ہوتا ہے۔
زینت خاوند کی جلی کٹی باتیں سن سن کر تنگ آچکی ہے۔ مضطر نے زینت کی دلی کیفیت کا اظہار کردار کی زبان میں یوں کیا ہے:
’’زینت: میرا خدا مالک ہے وہی سب کو رزق دیتا ہے۔ میں تمھاری باتوں سے سخت دق آگئی ہو ں۔ کئی برس سیذکر سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ آخر میرا بھی دل ہے۔ اب میں برداشت نہیں کر سکتی ۔پیمانہ چھلک گیا ہے میں ابھی میکے چلی جاتی ہوں(روتی ہے)(۱۷۸)
ڈرامے کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ڈرامے کی ابتدا، کردار اور مکالمے بہت جاندار ہیں۔ ڈرامے کا انداز بیان اچھوتا ،زبان معیاری اور ادبی آہنگ کی آئینہ دار ہے۔ مصنف کو زبان پر بے پناہ گرفت حاصل ہے یوں لگتا ہے کہ مضطر کو ڈراما لکھنے میں کمال حاصل تھا۔ اگرچہ انھوں نے ایک ہی ڈراما لکھا لیکن ان کی یہ کاوش ان کے اس فن میں دسترس کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ یہ ڈراما فنی اعتبار سے فن کی بلندیوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
مضطر نظامی کی تخلیقی کاوشوں کی تحقیق و جستجو میں ان کے بہت سے نثری مکتوبات تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ جو نثری ادب کے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مکتوبات انھوں نے اپنے دوست احباب ،عزیز واقارب ،اساتذہ اور مشاہیر ادب کے نام رقم کیے ہیں۔ان مکتوبات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو، ان کے رشتہ داروں ، دوست احباب اور ان کے بیٹے طاہر نظامی کے پاس محفوظ ہیں۔
مضطر نظامی کی شخصیت کے بہت سے پہلو ان کے خطوط کی روشنی میں سامنے آتے ہیں بصورت دیگر شاید وہ تاریکی میں ہی رہ جاتے۔ ان کے خطوط میں ان کی شخصیت کی بو جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ ان مکتوبات میں ان کی قناعت پسندی ، گوشہ نشینی ،ہمدردی اور محبت و مروت جیسی خصوصیات نمایاں نظر آتی ہیں۔ انھوں نے زندگی بھر کسی کا دل نہیں دکھایا۔ اس سلسلے میں ایک خط کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:
بھئی میں ناراض کیوں ہونے لگا اور وہ بھی یار ان صفا کیش اور وفا کیش سے ،ایک مدت سے بلکہ صبحِ ازل سے اپنا یہ حال و مسلک ہے۔(۱۷۹)
مضطر کے مکتوبات میں اُن کی ادبی زندگی کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ انھوں نے ساری زندگی گھر کی چار دیواری میں بیٹھ کر معیاری ادب تخلیق کیا ہے۔ اس کیفیت کا اظہار کہیں کہیں ان کے مکتوبات میں نظر آتا ہے ۔مثلاً:
میری سفارشات ظہور قدسی جہل احادیث، رحمت کدہ وغیرہ کا بھی خیال رہے۔ اغلاط دانش کدہ کی اصلاح سے ممنون فرمائیں۔(۱۸۰)
مضطر کے مکتوبات سے ان کی نجی زندگی کا رنگ نمایاں ہے۔ خط نجی چیز ہے لیکن انسان جب اپنے دکھ درد کا اظہار اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب سے کرتا ہے تو وہ چیز محفوظ ہو جاتی ہے۔ ایک خط میں ان کی نجی زندگی کا رنگ یوں نمایاں ہے۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں:
تعزیت نامہ ملاسپاس غم گساری ،پیارے اظہر کی بے وقت موت ہمیشہ خون کے آنسو رلاتی رہے گی ۔دل لبریز حکایات ہے مگر تاب تحریر نہیں۔ابھی طبیعت نہایت آشفتہ مضمحل اور علیل ہے۔(۱۸۱)
مضطرکے مکتوبات سے ان کا مشاہیر ادب کے ساتھ تعلق اور رابطے کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اکثر علمی وا دبی شخصیتوں سے اپنے کلام اور تخلیقات کے بارے میں آرا حاصل کرتے تھے۔ ان کے مکتوب الیہ میں پروفیسر سید میرک شاہ اندرا بی ،پروفیسر عبداللطیف تپش، پروفیسر ابو ظفر حنیف ،صوفی محمد رفیق مصنف ،انوار لا ثانی ، الحاج حکیم خادم علی سیالکوٹی ، پیرزادہ انصاری ،صوفی عبدالکریم اور سید ابرار حسین شیرازی جیسی نادرروز ہستیاں پیش پیش تھیں۔ یقینا ان کے خطوط دیگر مشاہیر کے نام بھی ہوں گے جواب تک ہمارے علم میں نہیں ۔اس کے علاوہ بہت سے علمی وا دبی ناموں کا ذکر ان کے مکاتیب میں ملتا ہے۔
جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں سے مضطر کے کس قدر گہرے مراسم تھے۔ مضطر کے مکاتیب کے مطالعہ سے ان کی زبان دانی کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ انھیں اردو اور فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے مکاتیب کو خوبصورت ادبی زبان ،بے ساختہ اشعار اور قرآنی آیات سے مزین کیا ہے۔ جس سے ان کی تحریر کا حسن نکھر گیا ہے۔ ان کے مکاتیب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو قرآن پاک سے بہت محبت تھی اور ان کی قرآن پاک پر بہت گہری نظر تھی۔ جا بجا انھوں نے اپنی تحریروں میں قرآن آیات کا بے ساختہ استعمال کیا ہے۔ ایک خط کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہوا۔ تمہارے اباجی نے مجھے لکھا تھاکہ عطاء اﷲ کو گھر پیسے بھیج دیے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ انتظام ہوتے ہوتے رہ گیا ہو گا۔’’ وما تشاؤن الا ان یشااﷲ ‘‘ خیر گذشت آں چہ گذشت، تم بالکل گھبراؤ نہیں محنت کیے جاؤ۔ در خدائے پاک کی رحمت پر بھروسہ رکھو۔ ان مع العسرِ یسراً خورشید نکلتا ہے سدا پردہ شب سے ۔(۱۸۲)
مضطر نظامی کے مکاتیب مختلف النوع خصوصیات کی بنا پر اُردو ادب میں خاصے کی چیز ہے۔ وہ نہایت اختصار کے ساتھ مکتوب الیہ تک اپنی بات پہنچانے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ ان کے مختصر جملے سیدھے سادھے ،واضح ،صاف اور ہر قسم کی بناوٹ سے مبرا ہیں۔ یہ مکاتیب صحیح معنوں میں مکاتیب ہیں جو مکتوب الہیم کی شخصیات کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ انھوں نے لمبے چوڑے القابات سے گریز کیا ہے۔ اختصار کی خشکی کو ظرافت اور اکثر موقعوں پر اپنے اشعار کی شیرینی سے دور کرتے ہیں۔ مضطر کے مکتوبات غالباً اقبال اور اکبر کے مکاتیب جتنے اہم نہ سہی پھر بھی مضطر کی شخصیت کے کلام کے پس منظر اور نثر کے منفرد اسلوب کی بناء پر ان کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ مضطر کے مکاتیب کو اگر کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو نثری ادب میں بہترین اضافہ ہو گا۔
فیض احمد فیض ،بیسویں صدی کے ایک اہم شاعر کے ساتھ ساتھ نثر نگاربھی ہیں۔ فیض کی نثری کتاب ’’میزان‘‘ اور ’’اقبال‘‘ پر آئیندہ ابواب میں ’’اقبال شناسی ‘‘ اور ’’دیگر تنقیدات ‘‘عنوانات میں بحث ہو گی۔ یہ کتابیں چونکہ تنقید اور اقبالیات کے حوالے سے تحریر کی گئی ہیں لہٰذا نثری حصے میں فیض کی دیگر نثری تصنیفات پر بات ہو گی۔ صلیبیں مرے دریچے میں فیض کی خطوط پر مشتمل کتاب ۱۹۷۱ء میں پاک پبلشرز لمیٹڈ کراچی سے شائع ہوئی۔فیض صاحب کو ۹ مارچ ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا اور وہ سزایابی کے بعد اپریل ۱۹۵۵ء کو رہا ہو گئے۔ اسیری کی یہ مدت فیض نے چار شہروں میں گزاری ۔ فیض نے اپنی بیوی ایلس کو ۱۳۵ خطوط انگریزی زبان میں لکھے۔آٹھ مختصر خطوط ان کی بیٹیوں سلیمہ اور منیزہ کے نام تھے۔ اسی طرح ان کی تعداد ۱۴۳ ہو جاتی ہے۔ ان خطوں کو کتابی صورت میں مرزا ظفر الحسن نے ،اردو میں فیض صاحب سے ترجمہ کروا کر ،۱۹۷۱ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کی ضخامت ۲۰۸ صفحات ہے۔
ان خطوط کے ذریعے ایلس(بیوی ) سے فیض کی محبت اور سلیمہ منیزہ کے متعلق ان کے پدرانہ تاثرات کا پتہ چلتا ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ ادبی تصنیف نہیں ہے محض نجی خطوط ہیں جو قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں۔ لہٰذا ان میں کسی مربوط اور سنجیدہ بحث کی تلاش بے کار ہے۔ تمام خطوط انگریزی میں لکھے گئے تھے۔ مرزا ظفر الحسن نے فیض سے ہی ان کا اردو میں ترجمہ کروایا۔’’ گذارش احوال واقعی ‘‘کے عنوان سے فیض کتاب کی ابتدا میں خود اعتراف کرتے ہیں :
اس کتاب میں جو خطوط شامل ہیں، وہ تو میں نے ہی لکھے تھے لیکن یہ کتاب نہ تو میں نے لکھی ہے اور نہ چھپوائی ہے۔ اسے لکھوانے اور چھپوانے کے واحد ذمے دار ’’ادارہ یادگار غالب‘‘ والے مرزا ظفر الحسن ہیں۔ اب سے چند ماہ پہلے مرزا صاحب نے تقاضا شروع کیا کہ میں اپنی سرگزشت یا تجربات زندگی وغیرہ کے بارے میں کچھ لکھوں اور اصرار کرتے رہے اور میں ٹالتار ہا۔ آخر پیچھا چھڑانے کی خاطر میں یہ خطوط اپنی بیوی سے لے کر ان کے حوالے کیے کہ ان میں کانٹ چھانٹ خود ہی کر لیجیے ۔ اس کے بجائے وہ نہ صرف ان خطوط کی اشاعت کے در پے ہو گئے۔ بلکہ ان کے ترجمے پر بھی مجھ کو ہی مامور کر دیا۔ بات یہیں تک رہتی تو مضائقہ نہ تھا۔ اس لیے کہ ہمیں کام چوری کے بہت سے گر یاد ہیں لیکن یہ حضرت کاغذ قلم سنبھال کر سر پر سوار ہو گئے کہ آپ ترجمہ لکھوائیں ،میں لکھتا ہوں ۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔(۱۸۳)
فیض صاحب کی ہر تخلیق چاہے وہ شعر ہو، نثر ہو، یا نجی مکتوبات ادب کا بیش بہاسرمایہ ہے۔ ایلس فیض نے بیس سال تک ان خطوں کو حفاظت سے رکھا۔ ان تمام خطوط میں عام سی باتیں ہیں کہیں موسم کی بات ہے ،کہیں کسی کی کتاب کا تذکرہ اور کہیں داخلی محسوسات کا بیان ، کہیں فیض نے شب و روز کا ذکر کیا ہے اور کہیں گھر والوں کی خیریت دریافت کی ہے۔ کیوں کہ سیاسی حالات لکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مرزا ظفر الحسن رقم طراز ہیں:
فیض کی تخلیق زندگی کا اہم ترین باب شاعری ہے۔ ان کی نثری تخلیقات میں سب سے بیش بہا نگینہ میری نظر میں خطوط کا یہ مجموعہ ہے ۔ میں اسے ’’میزان ‘‘ سے زیادہ اہم سمجھتا ہوں۔ اس میں فیض کی فکر ،کردار ،زندگی کے اصول ،مزاج کا عکس، محبت کا نچوڑ ،انسانیت کا احترام ،حوصلے کی بلندی ،راحت اور خوشی کے بنیادی اصول، زندگی کا حُسن ،جدائی کا دکھ، پریشانی کے وجود سے انکار ،گذشتہ غربت کا تذکرہ ،روشن مستقبل کی آس، پاکستانی عوام کی صلاحیت اور جوہر کا اعتراف، زندگی کو برتنے کے تعلق سے اقوال ،دوستی اور پیار قائم رکھنے کی باتیں ،ادبی نکات، ادیبوں اور ادب پاروں پر تبصرے اور سب سے بڑھ کر ایلس فیض کے صبر ،ہمت اورا یثار کا اعتراف ملتا ہے۔ (۱۸۴)
فیض ان خطوط کے بارے میں ’’گذار ش احوال و اقعی ‘‘ میں لکھتے ہیں :
جیسے قلم برداشتہ یہ خط لکھے گئے تھے ،ویسے ہی میری زبانی ان کا ترجمہ کیا گیاہے۔(۱۸۵)
فیض کے نزدیک ان خطوط کی اشاعت کا ایک جواز نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ چونکہ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کے لیے قید و بند کوئی غیر متوقع سانحہ یا حادثہ نہیں بلکہ معمولات زندگی میں داخل ہے۔ اس لیے بہت ممکن ہے کہ ہمارے شعبہ عمرانیات میں ’’حسیات ‘‘ بجائے خود ایک موضوعِ تحقیق ٹھہرے۔ اس صورت میں شاید یہ خطو ط طویل اسیری کے نفسیاتی تجربے کا ایک آدھ پہلو اُجاگر کر سکیں۔(۱۸۶)
ان خطوط میں فیض کے شخصی تاثرات اور عام گھریلو باتیں جس انداز میں موجود ہیں ،انھیں پڑھ کر ان کی شخصیت کی بڑی حد تک عکاسی ہوتی ہے۔ یہ خطو ط ان کے بارے میں مستند تفاصیل اور سچی معلومات مہیا کرتے ہیں- مرزا ظفر الحسن اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
ان میں فیض کا فلسفہ زندگی اور اس کے سفر کے متعلق فیض کا تصور، خوش دلی کے متعلق فیض کی رائے ،ایلس سے فیض کی محبت اور ان کے لیے احسان مندی کے جذبات ،چھیمی اور میزی کو بڑا ہوتا ہوا دیکھ کر اور سن کر ان کے متعلق فیض کے تاثرات ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو، فیض کے ذہن و زندگی پر پوری طرح نہ سہی مگر پہلی مرتبہ روشنی ڈال رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شخصیت پر لکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک اہم سنگِ میل کا کام دے گی۔(۱۸۷)
ایلس فیض کے ایک خط میں فیض اپنی جوانی کے دنوں کے واقعات یاد کرواتے ہیں اور ماضی کو یاد کرتے ہیں ۔ فیض کے خط نمبر ۳۱ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
اس نفرت بھری دنیا میں کوئی پیار کی بات کرے تو اچھا لگتا ہے اور اپنی جوانی کے دن یاد آتے ہیں۔ ان دنوں کی بات چلی ہے تو مجھے دو بہت خوبصورت منظر یاد آئے۔ ایک امر تسر میں جیل خانے کے پیچھے سوکھی ہوئی نہر کا کنارا اورا یک شعلے میں جا کر پہاڑی پر ایک ایسا گوشۂ تنہائی جہاں سے ہم نیچے کی پوری وادی دیکھ سکتے تھے۔ لیکن ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ دن بعض اعتبار سے تکلیف دہ بھی تھے، لیکن یاد کے تکلیف دہ پہلو یاد بھی نہیں آتے۔(۱۸۸)
’’صلیبیں مرے دریچے میں‘‘ کے خطوط چار سال میں لکھے گئے۔ ان خطوط کے ذریعے فیض کی گذشتہ زندگی اور آئندہ آنے والی زندگی کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ فیض کی اسیری کا یہ زمانہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ان دنوں ان کی تخلیقی صلاحیت اپنے نقطۂ عروج پر تھی۔ اس لیے اس زمانے میں جو،تخلیقات وجود میں آئیں ،وہ فیض کی شاعری کا اعلیٰ ترین حصہ ہیں۔
’’متاعِ لوح و قلم‘‘ فیض صاحب کی نثری تحریروں کا تیسرا مجموعہ ہے جو، پہلی دفعہ ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا۔ اس کا نیا ایڈیشن ۱۹۸۷ء میں مکتبہ دانیال کی طرف سے شائع ہواہے۔ اس کتا ب کو بھی مرزا ظفر الحسن نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی ضخامت ۳۶۰ صفحات ہے۔ اور اس کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں تقریر یں ،مضامین اور انٹر ویو ہیں۔ دوسرے حصے میں دیباچے ، خطوط اوررائیں ہیں۔تیسرے حصے میں نشریات ،طنزیات اور ڈرامے ہیں اور چوتھے حصے میں چار محبانِ فیض سجاد ظہیر ،سبطِ حسن ،مرزا ظفر الحسن اورسحر انصاری کی تحریریں ہیں۔ گیارہ تقریریں ،پانچ مضامین اور چھ انٹر ویو پہلے حصے میں شامل کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں تیرہ دیباچے ،اڑتالیس خطوط ،تین دعوت نامے ،بارہ مطبوعات (کتب و رسائل) اور ادبی عنوانات پررائیں ہیں ۔تیسرے حصے میں چار ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات ،دو طنزیات اور تین ڈرامے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن اس مجموعے کے بارے میں لکھتے ہیں :
متاع لوحِ و قلم ایک سوسات متنوع اور منتشر تحریروں کا مجموعہ ہے۔ بجا طورپر ایک ایسی دستاویز ہے جس سے ناقدوں اور ادب کے مورخوں کو بہت سی سہولتیں حاصل ہوں گی۔ یہ کوئی نظر انداز کی جانے والی خصوصیت ہے کہ اس میں گیارہ ٹیپ شدہ تصاویر کے مسودے موجود ہیں۔کیا اس اہمیت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ اس میں بعض چالیس پینتالیس سال پرانی تخلیقات بھی شامل ہیں۔ (۱۸۹)
فیض کی یہ تقاریر اور تنقیدی مضامین ان کے علمی وا دبی نظریات اور زندگی کے ذاتی اور اجتماعی عمل کے بارے میں ان کے مخصوص نقطہ نظر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن لکھتے ہیں :
میں یہ نہیں کہتا کہ شاہکاروں کا مجموعہ ہے۔ اس میں فیض کی کچھ کمزور تحریریں بھی ہیں ۔ جب ان کا شعور ابھی پختہ نہیں ہوا تھا۔ ایسے مضامین بھی ہیں جو ،مجبوری کے تحت لکھے گئے یعنی خطوط جو بائیس احباب کے نا م ہیں۔ تاہم کمزور تحریروں میں بھی کبھی کبھار کوئی آدمی،سراغ یا نکتہ مل جاتا ہے۔ (۱۹۰)
’’متاعِ لوح و قلم ‘‘ کی تحریروں کے بارے میں فیض صاحب لکھتے ہیں :
ان تحریروں کے بارے میں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر قلم برداشتہ لکھی گئیں یا رواروی میں کہی گئیں اور مرزا صاحب نے ان پر نظر ثانی کی مہلت مجھے نہیں دی۔(۱۹۱)
’’ہوسٹل کی ایک شام‘‘ جو مئی جون ۱۹۳۴ء کی تخلیق ہے۔ اس میں فیض نے افسانوی انداز میں ایک عشقیہ قصہ بیان کیا ہے۔ دوسرا مضمون ’’شعر میں اظہار و ترجمانی ‘‘ ہے جو پہلے پہل ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور کے ۱۹۳۹ء کے سالنامے میں شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے اس مسئلے پر غور کیا ہے کہ شعر کی ادبی قیمت کامیاب اظہار پر منحصر ہے یا کامیاب ترجمانی پر۔ شاعری میں ترجمانی کا مقصد کیا ہے؟ اظہار اور ترجمانی میں کیا فرق ہے؟ اور کسی شعر کی قدرو قیمت معلوم کرنے کا صحیح معیار کیا ہے؟ ساری بحث سے فیض یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ شعر کی کامیابی اظہار پر نہیں ترجمانی پر منحصر ہے۔ ہم کسی اظہار کو اس وقت تک کامیاب نہیں کہہ سکتے جب تک وہ دوسروں کے لیے ترجمانی کا حق ادا نہ کرے۔
’’السنہ مشرق ومغرب کے ماہر مولوی محمد شفیع‘‘ اور ’’راجہ صاحب کا دلی دربار‘‘ فیض احمد فیض کے لکھے ہوئے شخصی خاکے ہیں۔ مولوی محمد شفیع فیض کے یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں استاد رہ چکے تھے۔ اور راجا غضنفر علی فیض کے دوست اور کرم فرما تھے۔ دونوں بزرگوں کی خوبیوں کی وجہ سے یکساں عقیدت تھی۔ فیض نے ان دونوں شخصیات کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے۔ یہی حال تیسرے مختصر خاکے کا ہے،یعنی رلانے کو بہت کچھ ’’ہنسانے کو صرف شوکت تھانوی‘‘ جو ،اگرچہ دو صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس مختصر خاکے میں شوکت تھانوی کی تمام خصوصیات سمٹ آئی ہیں۔ مرزا ظفر الحسن لکھتے ہیں :
متاع لوحِ و قلم کے مضامین کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا ہی مضمون (ہوسٹل کی ایک شام) جو،راست جواب نہ ہونے کے باوجو د اس زہر کا توڑ ہے جو، ایک جریدے کی پانچ قسطوں میں فیض کے خلاف اُگلا گیا تھا۔(۱۹۲)
’’متاعِ لوح و قلم ‘‘ میں مضامین کے بعد چھ انٹر ویوز بھی شامل ہیں۔ یہ انٹر ویوز ’’بچپن کی قرآت سے جوش کی بزرگی تک ‘‘ ،ادبیاتِ عرب و عجم‘‘ ،’’تحریک اور تنظیم‘‘ ،’’غالب‘‘ ،’’جہدِ کاوش کی دو صورتیں ‘‘ اور ’’ادب اور ادیب‘‘ عنوانات کے تحت پیش کیے گئے ہیں۔ پہلا انٹر ویو ۱۹۶۴ء میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لندن میں لیا اورا س میں فیض سے ان کی زندگی اور شاعری کے بارے میں سوالات پوچھے گئے۔ فیض نے اپنے پسندیدہ شعراء میں غالب، سودا اور میر کے نام لیے ہیں۔ اور جدید شاعروں میں ن ۔ م راشد کا خاص طورپر ذکر کیا اور اقبال او رجوش کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کیے ہیں۔
مذکورہ بالا کتاب کے دوسرے باب میں فیض صاحب کے لکھے ہوئے دیباچے ،خطوط اور تنقیدی آراء ہیں۔ دیباچے درج ذیل کتابوں پر ہیں:
آہنگ (اسرار الحق مجاز) ،نقش فریادی(فیض)، چند روز اور(خدیجہ مستور) ،دستِ صبا(فیض)، خم کاکل(سیف الدین سیف)،میزان(فیض)، وہ لوگ(ہاجرہ مسرور)، راگ رنگ(عنایت الہی ملک)،دستِ تہِ سنگ(فیض ) ،دیوانِ غالب (نسخہ صادقین) ،ذکر یا رچلے(مرزا ظفر الحسن )،صلیبیں مرے دریچے میں (فیض) ،باتوں کے خربوزے(ممتاز زمن)،سات ڈرامے(آغا ناصر)۔نقش فریادی کے دیباچے میں فیض صاحب لکھتے ہیں :
اس مجموعہ کی اشاعت ایک طرح کا اعترافِ شکست ہے۔ اس میں دو چار نظمیں قابلِ اشاعت ہیں پہلے حصے میں طالبِ علمی کے زمانے کی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں میں نے روایتی اسالیب سے غیر ضروری انحراف مناسب نہیں سمجھا۔ ان نظموں میں جس کیفیت کی ترجمانی کی گئی ہے وہ اپنی سطحیت کے باوجود عالمگیر ہے۔ قوالی میں دو ایک جگہ صوتی مناسیت کو لفظی صحت پر ترجیح دی گئی ہے۔(۱۹۳)
’’متاعِ لوح و قلم‘‘ کے اس دوسرے باب میں فیض صاحب کے لندن اور مختلف جگہوں سے لکھے ہوئے دوستوں اور عزیزوں کے نام اڑتالیس کے قریب خطوط ہیں۔ یہ خطوط ابراہیم جلیس ،احمد ندیم قاسمی ، اختر انصاری اکبر آبادی ، اظہر قادری ،چراغ حسن حسرت، حزیں لد ھیانوی ،حمیدہ اختر، خدیجہ مستور، سحر انصاری ،سلام مچھلی شہری ، سبط حسن ،صبہا لکھنوی ،عبادت بریلوی ، عبدالرحمن چغتائی ،غلام رسول مہر، مرزا ظفر الحسن ،ڈاکٹر محمدا جمل ، محمد ایوب اولیا ، محمد طفیل اور نسیم سید جیسی شخصیات کے نام لکھے گئے ہیں۔ ا س کے علاوہ اس میں فیض کے لکھے ہوئے تین دعوت نامے بھی شامل ہیں۔ایک عبداﷲ ہارون کالج کے مذاکرے کا دعوت نامہ ہے۔ دوسرا ان کی بڑی بیٹی سلیمہ سلطانہ کی شادی کا دعوت نامہ ہے۔ اور تیسرا ان کی چھوٹی بیٹی منیزہ گل کی شادی کا دعوت نامہ ہے۔
اس کتاب کے تیسرے باب میں فیض صاحب کی نشریات ، طنزیات اور ڈرامے شامل ہیں۔ نشریات چار ہیں۔ جن میں سے دو ریڈیو اور دو ٹی ۔ وی پر نشر کی گئیں۔ اردو کے صوفیانہ اشعار اور ’’میرا پیغام محبت‘‘ ریڈیو سے نشر ہونے والی تحریریں ۔ ۱۴۔اگست ۱۹۷۱ء کو پاکستان کی۴۴ سالگرہ کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کا رپوریشن نے بتایا کہ ہر اتوار کی صبح کو ایک پاکستانی فلم دکھائی جائے گی۔ چھ فلموں کا انتخاب ہوا ۔ جس میں مصنفین کے فرائض فیض صاحب اور کچھ اور لوگوں نے انجام دئیے۔ کتاب کے تیسرے حصے میں فیض کے دو طنزیے بھی ہیں۔ ایک طنز کا نام ’’دی احباب ‘‘ اور دوسری طنز کا نام ’’شکست‘‘ ہے۔ کتاب کے اس حصے میں فیض صاحب نے تین ڈرامے بھی پیش کیے ہیں۔ پہلا ڈرامہ ’’ہوتا ہے شب وروز‘‘ ایک مختصر ڈرامہ ہوتا ہے۔ جس میں تیرہ کردار ہیں۔ یہ بہت خوبصورت کہانی ہے۔ جس میں ایک مکان کے مختلف حصے ہیں اور ان میں مختلف لوگ رہتے ہیں۔ اس ڈرامے میں مزاح بھی ہے اور چونکہ یہ ڈرامہ طربیہ ہے۔ اس لیے ہنسی خوشی لوگوں کے تمام مسائل حل ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا ڈرامہ نثری ڈرامہ ’’سانپ کی چھتری‘‘ ہے۔ جس میں گیارہ کردار ہیں۔ ایک اور مختصر ڈرامہ ’’پرائیوٹ سیکرٹری ‘‘ ہے۔ اس میں بارہ کردار ہیں۔ کتاب کے آخری باب میں سبطِ حسن، سجاد ظہیر، مرزا ظفر الحسن ،سحر انصاری کے فیض کے بارے میں تاثرات موجود ہیں۔ فیض ۔شامِ غزل(سجاد ظہیر) ،پارہ پارہ دامن صدق و صفا(سبطِ حسن) ،فیض اور ان کی ساتویں کتاب،مرزاظفر الحسن اور نقش فریادی۔ ایک مطالعہ (سحر انصاری) جیسے مضامین شامل ہیں۔
فیض کی تصنیف ’’ہماری قومی ثقافت‘‘ ادارہ یادگارِ غالب کراچی سے ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے مرتب بھی مرزا ظفر الحسن ہیں- یہ کتاب ۱۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں فیض کی چار تقریریں ہیں۔ جن میں سے پہلی تین انھوں نے گورنمنٹ کالج مظفر آباد میں کی تھیں۔ ان کی پہلی تقریر کا عنوان ’’تہذیب کیا ہے‘‘ دوسری تقریر انھوں نے ’’پاکستانی ثقافت کے اجزائے ترکیبی ‘‘پر کی ۔ تیسری تقریر میں ’’پاکستانی ثقافت کی ممکن صورتیں ‘‘ بیان کیں اور ایک تقریر پاکستان ٹی۔وی سے نشر کی گئی جو،’’پاکستانی ثقافت اور اجزائے ترکیبی‘‘ پر کی ۔تیسری تقریر میں ’’پاکستانی ثقافت کی ممکن صورتیں‘‘ بیان کی اور ایک تقریر پاکستان ٹی ۔وی سے نشرکی گئی جو، ’’پاکستانی ثقافت اور اس کے مسائل‘ ‘ کے عنوان سے شاملِ کتاب ہے۔ اس کتاب میں فیض نے اپنی پہلی تقریر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ تہذیب یا کلچر کیا چیز ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟فیض صاحب لکھتے ہیں :
ہمارے ہاں پچھلے بیس، پچیس برس سے ایک لفظ رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی ثقافت کا لفظ۔ یہ لفظ آج سے تیس برس پہلے ہم تک نہیں پہنچا تھا بلکہ اس کی بجائے پرانا لفظ تہذیب استعمال ہوتا تھا۔ میں بھی آج اپنی تقریرمیں یہی لفظ استعمال کروں گا جس سے ہم سب مانوس ہیں۔ تہذیب کا مفہوم بھی وہی ہے جو لفظ کلچر کا ہے۔ کلچر کا لفظ اس کے موجودہ مفہوم میں یورپ میں اٹھارویں صدی کے آخر میں مروج ہوا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے الفاظ ہیں جو اپنے موجودہ معنوں میں انگریزی میں پہلی بار اٹھارویں صدی کے آخرمیں اور انیسویں صدی کے شروع میں روشناس ہوئے۔ چنانچہ آج کلچر کا مفہوم جو، ہمارے ذہن میں ہے وہ آج سے دو سو برس پہلے کسی کے ذہن میں نہ تھا۔ غرض یہ کہ وہ تمام الفاظ اور اصطلاحا ت جو، معاشرتی زندگی سے وابستہ ہیں ان کی نوعیت ،ان کی ماہیت ،ان کے معنی ،معاشرت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ نئے تصورات پیدا ہوتے ہیں اور پرانے تصورات کی صورت بدل جاتی ہے۔ یہی حال کلچر کا بھی ہے۔ (۱۹۴)
فیض کے نزدیک معاشرے میں زندگی بسر کرنے میں ،رہنے سہنے میں جو چیزیں داخل ہیں وہ بھی کلچر کہلاتی ہیں۔ معاشرے کا کلچر یہ ہے کہ وہاں کے لوگ کس قسم کا لباس پہنتے ہیں ۔ ان کی غذا ،ان کے رسم و رواج ،عادات ،طور طریقے ،ان سب چیزوں کو جمع کر دیں تو کلچر کی جامع تعریف سمجھ میں آتی ہے۔ فیض کے نزدیک کلچر کی دو صورتیں ہیں ۔ باطنی صورت اور ظاہری صورت ۔ مجموعی طورپر قدروں کا جو نظام باطنی طورپر کسی نظام میں رائج ہو وہ اس کے کلچر کا باطنی پہلو ہے۔ باطنی پہلو میں کچھ چیزوں کی اچھائی اور برائی پر لوگ غور کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں ،سوچتے ہیں ، جب کہ ظاہری پہلو میں زندگی میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن پر لوگ غور نہیں کرتے بلکہ وہ غیر شعوری طور پر ان سے سرزد ہو تی ہیں۔ ان تمام صورتوں کو ملانے سے جو چیز بنتی ہے۔ اس کو کلچر کہتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ قومی کلچر کیا ہوتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ قومی کلچر کے لیے قوم کا ہونا ضروری ہے۔ قومی کلچر کودوسری قوموں کے کلچر سے کئی طریقوں سے مخصو ص کرنا چاہیے۔ کسی قوم کا کلچر دیکھنے کے لیے اس قوم کی تاریخ کو بھی دیکھنا پڑتا ہے ۔ تاریخ کا تعلق وقت اور زمانے کے ساتھ ہے۔ کوئی قوم جس تاریخی نقطے سے اپنی تاریخ کی ابتدا کرتی ہے، اس وقت سے لے کر اب تک کا زمانہ اس کے کلچر کا طول ہے۔
اس کے بعد انھوں نے کلچر کی گہرائی کے مسئلے پر گفتگو کی ہے یعنی یہ کہ کسی کلچر کی رسائی کسی معاشرے میں کہاں تک ہے۔ اس کا نفوز یا اس کا رخ کسی معاشرے کی آبادی کے کتنے حصے تک ہے؟ انھوں نے کہا ہے کہ کلچر کے دو چار مسائل خاص طورپر ہمارے لیے باعثِ غور ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ کلچر اور دین کا باہم رشتہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے کلچر کی بنیاد ہمارا دین ہے۔ دین باطنی چیز ہے ۔کلچر کے بہت سے اجزا ہیں۔ جن کو مذہب یا دین متعین نہیں کرتا۔ خاص طورپر مذہب اسلام نہیں کرتا۔ بعض مذاہب ایسے ہیں جن کا تعلق کسی نسل یا جغرافیہ سے ہے۔ اسلام یا مسیحیت کو کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ یہ عالمگیر مذاہب ہیں۔ اس لیے مختلف اسلامی ممالک کی تہذیبیں یا کلچر ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔
فیض کی دوسری تقریر کا موضوع ہے ’’پاکستانی تہذیب کے اجزائے ترکیبی‘‘ اس پر گفتگو کرتے ہوئے فیض صاحب نے بتایا ہے کہ ہر قوم کی تہذیب یا کلچر کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اس قوم کے اقدار و احساسات اور عقائد جن میں وہ یقین رکھتی ہے۔ دوسرے اس قوم کے رہن سہن کے طریقے ، اس کے آداب اور اخلاقِ ظاہری اور تیسرے اس کے فنون۔ یہ تینوں آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثرا نداز ہوتے رہتے ہیں۔اس کے بعد انھوں نے پاکستانی تہذیب کی ماہیت موجودہ صورت اور اس کے اجزائے ترکیبی پر بحث کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی دو امتیازی خصوصیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ پاکستانی ہے دوسری یہ کہ اس کی اکثریت مسلمان ہے ۔گویا پاکستانی قومیت کے دو عناصر ترکیبی ہوئے۔ ایک پاکستانیت اور دوسرا اسلامیت یا مسلمیت ۔فیض کا کہنا ہے کہ قوموں کی تہذیب کے جو تین پہلو ہم نے متعین کیے تھے یعنی تاریخ ،جغرافیہ اور معاشرتی نفوذ، ان کی کیفیت پاکستانی قوم میں کیا ہے۔ فیض بتاتے ہیں کہ ۲۹ برس پہلے جب پاکستان نہیں تھا تو پاکستانی قوم بھی نہیں تھی ۔ تو ہم کیا تھے؟ آخر اس سے پہلے بھی ہماری کوئی تعریف ہو گی۔ فیض کی رائے میں اس سے پہلے ہم پنجابی ،سندھی ،بلوچی ،پٹھان اور بنگالی تھے۔ مگر ہم پاکستانی نہیں تھے۔ بلکہ سیاسی اعتبار سے ہم ہندوستانی مسلمان تھے۔ دنیا کی بیشتر قومیں جیسے پروان چڑھتی گئیں ویسے ہی ان کی تہذیب بھی ترقی کرتی گئی۔ فیض کے خیال میں ہند آریائی تہذیب و تاریخ اور ہند اسلامی تہذیب و تاریخ کو پاکستانی کلچر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ خیال ایک آفاقی اور تاریخی صداقت ہے کہ ایک جاندار قومی تہذیب، خاص جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہوتی۔ اسی طرح انھوں نے اسلامی کلچر کے وجود اور اس کی بین الاقوامیت و آفاقیت سے انکار کیے بغیر اس کو پاکستانی کلچر کے تشکیلی عناصر میں سے ایک اہم اور موثر عنصر تسلیم کیا ہے۔فیض صاحب لکھتے ہیں :
دو سو برس پہلے جب ساری دنیا میں جاگیر داری یا نوابی نظام رائج تھا تو اس وقت قوموں کا تصور نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت قوموں کا تصور یا تو حسب و نسب کا تصور تھا یا نسل کا یا قبیلے کا۔ مگر کلی طورپر کسی قوم میں قومیت کا تصور نہیں تھا۔ معاشرہ میں اس وقت خاص اور عام دو قسم کی تہذیبیں ہوتی تھیں۔ ان کی معاشرتی عادات الگ الگ تھے۔(۱۹۵)
فیض کے نزدیک وہ خطہ جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اس کی تاریخی عمر پانچ ہزار برس ہے۔ یعنی ہماری تاریخ موھن جوڈارو سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد جتنے دور گزرے ہیں وہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔ انھوں نے برہمن تہذیب، بدھ تہذیب اور یونانی تہذیب کا ذکر کرنے کے بعد بتایا کہ ان تہذیبوں کے ادوار ہماری تاریخ اور تہذیب کا حصہ ہیں ۔ اور ان کے ہیرو ،مفکر ،فن کار سب ہمارے تہذیبی مورث ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے سیاسی نظریات میں تھوڑی سی تقسیم کرنا پڑے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستانی خطے کی تاریخ پر کئی طرح کی تہذیبیں نمودار ہوئیں۔سب سے پہلے سندھ کی تہذیب یا موھن جوڈارو کی تہذیب ہے۔ لیکن اس کے حدود پاکستان کے حدو د نہیں ہیں۔ اس کے کوئی ایک ہزار سال بعد آریائی تہذیب پیدا ہوئی لیکن اس آریائی تہذیب کا مرکز بھی یہاں نہیں تھا۔
اس کا مرکز وادی گنگ و جمن میں تھا۔ اس کے بعد ایرانی تہذیب یہاں آئی اور دو سو برس تک یہاں مسلط رہی اور اپنی بہت سی چیزیں یہاں کی مقامی تہذیب میں شامل کر گئی۔ اس کے بعد یونانی یہاں آئے اور وہ اپنے ساتھ لباس اور آرائش کا سامان لائے اور انھوں نے بھی یہاں کی تہذیب کے ساتھ اپنے رشتہ جوڑا اور بہت سے رومنی اثرات یہاں پر پیدا ہوئے۔ اس کے بعد اسلام کا ورود ہوا ۔پھر مختلف ممالک کے مسلمان یہاں پر آتے رہے۔ اب ان تہذیبوں میں سے کوئی بھی تہذیب ایسی نہیں جسے ہم کہہ سکیں کہ یہ پاکستان کی موجودہ حدود کے اندر قید تھی، جسے ہم اپنی تہذیب کہہ سکیں۔ ہر وہ اچھی چیز جو کہ ہمارے چار ہزار سال کی پیداوار ہے۔ وہ بھی ہماری ہے۔ اور ہر وہ چیز جو پچھلے ایک ہزار کی روایتوں کا نتیجہ ہے۔ خواہ اس کا جغرافیائی مرکز کہیں بھی ہو، وہ بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہے چنانچہ حافظؔ و خیامؔ بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہیں ۔ تاج محل،لال قلعہ ،غالب،میر ،تان سین ،امیر خسرو اورسلطان حسن مشرقی یہ سب ہماری تہذیبی روایت کا حصہ ہیں۔
اپنی تیسری تقریر میں بھی جوا س کتاب میں ’’پاکستانی تہذیب کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہے۔ چند سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً تہذیب کیا ہے؟ پاکستانی تہذیب کیا ہے؟ اسلامی تہذیب کیا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک تہذیب نہیں ہے جس کو ہم اسلامی تہذیب کہتے ہیں بلکہ یہ بہت سی تہذیبیں ہیں جن کو ہم اجتماعی طورپر اسلامی تہذیب کہتے ہیں کیونکہ ان میں قدر ِ مشترک اسلام ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ہر تہذیب کے نام سے نہیں پکار سکتا۔ کچھ تہذیبوں میں ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کو ہم دوسری تہذیب پر منطبق نہیں کر سکتے۔ مثلاً سندھ کا لباس اور ہے ۔ پنجاب کااور بعض دستکاریوں کا خام مواد صرف سندھ میں ملتا ہے۔ اسی طرح پنجابی ،بلوچی ،پشتو اور بنگالی زبان ہے۔ ان کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا آپ کو لازم یہی ہے کہ ان سب زبانوں کو اپنے اپنے علاقے میں نشوونما پانے کا موقع دیں ۔آگے چل کر انھوں نے اسلامی تہذیب کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلاً گفتگو کی ہے۔ اور زبان کے مسئلے پر سوالوں کے سیر حاصل جوابا ت دیے ہیں۔
چوتھی تقریر فیض صاحب نے پاکستان ٹیلی ویژ ن پر ’’پاکستانی ثقافت اور اس کے مسائل‘‘ کے موضوع پر کی اور اسے بھی موجودہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ کلچر کے بارے میں انھوں نے کہا کہ کلچر گانے بجانے کا نام نہیں بلکہ یہ قومی اور معاشرتی زندگی کا بہت اہم شعبہ ہے۔ کلچر معاشرتی زندگی کے کاروبار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کلچر کی اثراندازی ذہنی طور سے بھی ہوتی ہے اور علمی طور سے بھی۔ فنون ،ادب ،موسیقی ، مصوری کلچر کے اجزا ہوتے ہیں۔ کلچر ایک پورا طریقہ زندگی ہوتا ہے۔ جیسے جیسے معاشرتی اور سیاسی حالات بدلتے جائیں گے۔ ان کے مطابق کلچر کے تصورات بھی بدلتے جائیں گے ۔ آج تک صدیوں کی دوڑ میں کتنے ہی کلچر پیدا ہوئے اور ختم ہوئے۔ فیض صاحب نے اس خطاب میں بھی تہذیب اور کلچر کے انھیں مسائل پر گفتگو کی ہے۔ جن کے بارے میں وہ اپنی پہلی تین تقریروں میں کھل کر اظہار خیال کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ کلچر طبقاتی ہوتا ہے۔ یعنی کلاس کلچر ،ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں جو الگ الگ طبقے ہیں ان کا کلچر بھی الگ الگ ہے لیکن کلاس یا طبقے سے الگ کوئی کلچر نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ان سے متعدد سوالات ـثقافت کے مسائل کے بارے میں کیے گئے جن کے جوابات فیض صاحب نے وضاحت کے ساتھ دیے۔
’’مہ وسالِ آشنائی‘‘ فیض کا پانچواں نثری مجموعہ ہے۔ جو پہلی بار ۱۹۸۱ء میں مکتبہ دانیا ل کراچی سے شائع ہوا۔ بقول مرزا ظفر الحسن:
یہ فیض کی پوری ادبی زندگی میں پہلی مفصل کتاب ہے جو،انھوں نے جولائی ۱۹۷۶ء کے چار ہفتوں کے روس کے دورے میں لکھی۔(۱۹۶)
یہ کتاب فیض کے مختلف برسوں میں کیے ہوئے سفرِ روس کے تاثرات اور وہاں کے ادیبوں سے ملاقات کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ جسے یادوں کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس کی ضخامت ۱۳۶ صفحات ہے۔ پہلا باب ’’تصور‘‘ عنوان سے تحریر کیا گیا ہے جو،(۱۹۱۸ء تا ۱۹۲۰ء ) بچپن کی سب سے پرانی مگر دھندلی یادوں سے شروع ہوتا ہے اور دوسری عالمگیر جنگ کے اختتامی واقعات پر ختم ہوتا ہے۔ جنگ کی یہ تصویر بیک وقت بھیانک بھی تھی اور ولولہ انگیز بھی ۔ دوسرا باب ’’تعارف‘‘ ہے۔ جس میں فیض نے بتایا ہے کہ ۱۹۴۹ء میں پہلی بار سوویت ادیب پاکستان آئے۔ ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرس کے سلسلے میں انھیں مدعو کیا گیا تھا۔ اس باب میں ۱۹۵۸ء میں تاشقند میں منعقد ہونے والی ایشیائی کانفرنس میں روسی ادیبوں سے ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں مختلف مناظر کا ذکر ہے چوتھا باب داغستان پر ہے۔ اس میں کوہ قاف کا ذکر ہے جس کا گوشہ داغستان ہے۔ یہاں کے باشندوں کی آبادی نو دس لاکھ کے برابر ہے۔ اور یہاں ۲۶ زبانیں بولی جاتی ہے۔ پانچویں باب میں جس کا عنوان ’’مکالمے‘‘ ہے۔ اس میں فیض روس میں ناظم حکمت اور دوسرے شاعروں ،ادیبوں اور دانشوروں سے اپنی ملاقاتیں اور ان سے اپنی بات چیت قلم بند کرتے ہیں۔ چھٹا باب منظومات اور تراجم پر مشتمل ہے۔ فیض کی اپنی گیارہ نظمیں جو، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۵ء کے دوران سوویت یونین میں کہی گئیں، ۱۴ منظوم تراجم ،ان میں سے ۱۰ رسول حمزہ کے، ۴ ناظم حکمت اور دو عمر علی سلیمونف کے کلام کے ترجمے ہیں۔ بقول فیضؔ:
جو بات جس صورت ذہن میں آئے ،قلم برداشتہ لکھتا چلوں اور یہی میں نے کیا ہے۔(۱۹۷)
فیض صاحب نے اس کتاب میں سوویت یونین کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے روس آنے سے پہلے اس ملک کی بابت اپنے تصورات، اور کئی بار سفر کرنے کے بعد اپنے مشاہدات بڑی خوش اسلوبی سے قلم بند کیے ہیں۔ فیض نے ایشیا اور افریقہ کے مصنفین کی بین الاقوامی کانفرنسوں کے موقع پر سوویت ادیبوں سے ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ فیض اس کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
آج سے کوئی سترہ برس پہلے (۱۹۵۸ء ) میں سوویت یونین کو پہلی بار دیکھا تھا۔ تو دل میں تاثرات کا ہجوم اور ذہن پر تحیر کی اور انبساط کی وہ کیفیت طاری تھی جو ہر نئی دریافت کے جلومیں ہوتی ہے۔ تو شاید اس نوع کی کتاب ایک ہی نشست میں لکھی جا سکتی تھی۔ لیکن اتنے برس کے وقفے اور اتنی بار وہاں جانے کے بعد اسی کیفیت سے لطف آشنا ہونا مشکل ہے۔ بہت سی دلکش یادیں دھندلا چکی ہیں۔ بہت سی دلچسپ باتیں فراموش ہو چکی ہیں۔ صرف داغستان کے بارے میں ایک مضمون ایسا ہے جو، پہلے سے لکھ رکھا تھا۔ وہ بھی اس میں شامل کر لیا ہے۔(۱۹۸)
’’مہ و سالِ آشنائی‘‘ کا پہلا باب بچپن کی سب سے پرانی دھندلی یادوں سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں روسی انقلاب، ہندوستان میں قومی آزادی کی تحریک اور فاشسٹ طوفان کا ذکر کیا گیا ہے۔ فیض کا کہنا ہے کہ پہلی عالمگیر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ ایک طرف انگریز حکمران اور ان کی دیسی حاشیہ بردار جشنِ فتح منا رہے ہیں اور دوسری طرف قومی آزادی کی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ اس صورت حال کا بہت موخرٔ نقشہ پیش کیا گیا ہے کہ سڑکوں پر رنگین جھنڈیاں لگائی جا رہی ہیں، بینڈ باجے اور فوجی سوار گشت کر رہے ہیں۔ جلسے ہو رہے ہیں، جلو س نکل رہے ہیں۔ مختلف قسم کے نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے۔ اس میں موتی لال نہرو، ڈاکٹر کچلو ، محمد علی، شوکت علی اور مولانا ابوا لکلام آزاد کو جگہ جگہ خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ پورے شہر میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ روس میں زار شاہی کا تخت اُلٹ گیا۔ لنین نے مزدور طبقے کی حکومت قائم کر لی، سرخ انقلاب آگیا، یہ روسی انقلاب کیسے ہوا، کیونکر ہوا۔ فیض کا کہنا ہے کہ اسی زمانے میں شیخ عبداﷲ نے کشمیر میں مہاراجہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ ان تمام انقلابی اقدامات کے ساتھ ایک او ر تصو ر دھیرے دھیرے ان کی یادوں میں اُترنے لگا۔ یہ تھا مزدور اور سرمایہ دار کا مسئلہ جس کے بارے میں فیض کے خیالات کچھ یوں ہیں:
یہ اقتصادی بحران کا زمانہ تھا غلہ کوڑیوں کے بھاؤ بکنے لگا تھا۔ بھوکے کسان ، دو وقت کی روٹی کی خاطر دھرتی ماتا سے ناتہ توڑ کر شہر میں در بدر ہو رہے تھے۔ ملازمت کا نشان مفقود تھا۔ شریف رزیل ہو رہے تھے۔ عزت دار گھروں کی بہو بیٹیاں ،بازار میں بیٹھی تھیں۔ صرف سرمایہ داروں اور ساہو کاروں کی چاندی تھی۔ جو دونوں ہاتھوں سے حاجت مندوں کے اثاثے کے ساتھ ساتھ ان کی عزت اور غیرت بھی سمیٹ رہے تھے۔ مزدور اور سرمایہ دار ، کسان اور زمیندار ،قومی دولت کی تقسیم ،قومی آزادی کا مسئلہ غرض کہ معاشرتی اور معاشی مسائل کا پہاڑ تھا۔ کچھ لوگ اسے سر کرنے کی فکر میں سر کھپانے لگے ۔مزدور تحریک نے زور پکڑا اور قومی آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی عدل و مساوات کے تقاضے بھی عام ہونے لگے۔(۱۹۹)
دوسرا باب ’’تعارف‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں ۱۹۴۹ء کے ماہ ستمبر ،اکتوبر میں لاہور میں منعقد ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس کا ذکر ہے۔ اس کانفرنس میں پہلی بار سوویت ادیبوں کو پاکستان میں مدعو کیا گیا۔ فیض صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ توقع تو نہیں تھی کہ کانفرنس میں سوویت یونین کی طرف سے کوئی آئے گا۔ محض اظہار دوستی کے لیے دعوت نامہ بھجوا دیا گیا تھا اور جب ہمیں ایک دن تار ملا کہ روسی ادیبوں کا وفد لاہور کے لیے روانہ ہو چکا ہے۔ تو ہمیں خوشی ہوئی اور تعجب بھی ۔ یہ لوگ کانفرنس سے دو چار روز بعد آئے۔ فیض صاحب کا خیال ہے کہ نکولائی نخو نوف جو سوویت یونین کے وفد کے ساتھ آئے۔ وہ اپنے قومی ہاتھ پاؤں اور رعب دار چہرے سے ،جنگجو معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان کے مقابل میں مرزا ترسوں زادہ کے بارے میں فیض صاحب کا کہنا ہے کہ وہ نرم گفتار ،نرم رفتار ،خوابیدہ سی آنکھیں ، بچوں کا سا معصوم چہرہ لیے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جب سوویت یونین کے نمائندوں سے ہمارا پہلا تعارف ہوا اور حافظ کے الفاظ میں محبت کی وہ بنا پڑی جو خلل سے خالی ہے۔
۱۹۵۸ء کے اواخر میں تاشقند میں افریقی ایشیائی ادیبوں کی پہلی کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ فیض اور حفیظ جالندھری نے ادا کیا۔ اس میں فیض صاحب نے بتایا ہے کہ وہ تاشقند کیسیپہنچے اور ان کا کس طرح استقبال کیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتیں ،مرد ،بوڑھے ،بچے ،طلباو طالبات ،مزدور کسان ،دفتری کارکن سبھی طرح کے لوگوں نے تالیاں ،مصافحے ،السلام و علیکم اور زندہ باد کہا۔ سوویت عوام سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا پھر جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے اس ہوٹل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا نفرنس میں حفیظ جالندھری نے پاکستانی وفد کے قائد کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد انھوں نے تاشقند کے لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں کو دیکھا اور انھیں کتاب میں قلم بند کیا۔ کانفرنس سے فرصت ملنے کے بعد وہ شہر کی سیر کو نکلے اور انھوں نے اس زمانے کے تاشقند کی تصویر دکھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں پر بہت سے لوگ پرانے محلے میں ،باہر سے کچے اندر سے پکے مکانوں میں ر ہتے تھے۔ انھوں نے وہاں کی عمارتوں ،پبلک اور رفاہی اداروں ،وہاں کے ماحول ،لوگوں کی عادتوں ،لباس، بازاروں ،دفتروں نازک اندام لڑکیوں ،یونیورسٹیوں غرض یہ کہ تمام چیزوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔ تاشقند کے بعد فیض سمر قند اور بخارا پہنچے ،ریسٹ ہاؤس میں رہنے اور کھانا کھانے کا ذکر کرنے کے بعد شہر کی قدیم و جدید تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے دو شبنہ اور طفلس وغیرہ کی سیر کی اور ان شہروں کے بارے میں ،ان کے لوگوں کی عادات و اطوار کا ذکر کیا ہے۔ طفلس سے وہ ماسکو پہنچے ۔پہلے وہ ماسکو کے ائیر پورٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ائیر پورٹ کم اور کسی رئیس کا محل زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ماسکو کے جنگلوں ،درختوں ،دریاؤں ،سرکاری دفاتر،وہاں کی عمارتوں ،سڑکوں ،یادگاروں کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ماسکو سے فیض صاحب سائبیریا کے صدر مقام نو دوسی برسک پہنچے ۔وہاں کے میئر نے ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔
چوتھا باب ’’داغستان ‘‘ کی سیر کے بارے میں ہے۔ سائبیریا کے بعد فیض کو داغستان جانے کا موقع ملا۔ داغستان کے ادیبوں کی انجمن نے ایک تقریب میں شرکت کے لیے فیض صاحب کو مدعو کیا۔ تقریب کے بعد انھوں نے داغستان کی سیر کی اور اس کے بارے میں اپنے تاثرات کو قلم بند کیا۔ ایک جگہ پر لکھتے ہیں :
بچپن کا کیا مذکور ہے۔ اب بھی بے خیالی میں کوہ قاف کا نام لیجیے تو مشکل سے باور آتاہے کہ ایسا کوئی علاقہ واقعی کہیں موجود ہے۔ جہاں جن، پریاں نہیں ہم جیسے انسان رہتے ہیں۔ اب بھی گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی جغرافیائی خطہ نہیں ۔ محض خواب و خیال کی سر زمین ہے جو سنی ضرور ہے دیکھی کسی نے نہیں۔ بچپن اور نوجوانی میں ایسے ہی کچھ اور نام بھی سنے تھے۔ دور دراز اور پراسرار انھی میں داغستان بھی شامل ہے۔ اور کیوں نہ ہو آخر یہ کوہ قاف کا ایک گوشہ ہی تو ہے اگرچہ اس کے تصور میں جن پری کا دخل کم ہے اور سر فروش تیغ زنوں ،برق رفتار گھوڑوں ،نڈر طالع آزماؤں کا زیادہ (۲۰۰)
پانچویں باب ’’مکالمے‘‘ میں فیض روس میں ناظم حکمت،ایلیا ،سارتر ،برگ ،عمر علی ، سلیما نوف اورچنگیز سے اپنی ملاقاتوں اور بات چیت کا ذکر کرتے ہیں۔ فیض صاحب کا کہنا ہے کہ ماسکو شہر ایک طرح سے دنیا بھر کے ادیبوں اور دانشوروں کا بین الاقوامی مسافر خانہ ہے۔ جہاں پر فیض صاحب کی بہت سے ملکوں کے دانشوروں ،شاعروں ،ادیبوں اور صحافیوں سے ملاقات ہوئی لیکن وہ ان میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ کی ہوئی گفتگو نقل کرتے ہیں۔ ناظم حکمت ترکی زبان کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ فیض صاحب ناظم کے حالات زندگی ،ان کی شاعری اور ان سے کی گئی باتوں اور ملاقاتو ں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
سارتر نے فیض صاحب سے ادب، بھوک ،افلاس ،پسماندگی اور تسخیر فطرت کے بارے میں گفتگو کی۔ فیض صاحب کی قازقستان کے مقبول شاعر علی سلیما نوف سے ملاقات ہوئی۔ فیض نے سلیما نوف کے حالاتِ زندگی ،شخصیت اور کلام پر روشنی ڈالی ہے۔ سلیما نوف نے قدیم اور جدید ثقافت پر بات کی اور کہا کہ مجھے تاریخ سے عشق ہے۔اس کے بعد چنگیز ،سلیما نوف کے بارے میں فیض لکھتے ہیں :
سوویت یونین کے مقبول ترین اور معروف ترین نثر نگاروں میں سے ہیں ۔ ان کی افسانوی تصانیف ’’الوداع گل سرائے ‘‘،’’جمیلہ ‘‘ ،’’مدرس‘‘ اور ’’سفید جہاز‘‘ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ (۲۰۱)
چھٹے باب میں سوویت شعرا کی نظموں کے تراجم ہیں۔ ۱۶ منظوم تراجم میں سے دس رسول حمزہ کے، چار ناظم حکمت کے اور دو عمر علی سلیما نوف کے کلام کے ترجمے ہیں۔
فیض کی نثری تصنیف ’’سفر نامہ کیوبا‘‘ ۱۹۷۳ء میں مین نیشنل پبلشنگ ہاؤس لاہور اور راولپنڈی سے دو مرتبہ شائع ہوئی۔ اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ۲۸ صفحات پر مشتمل ہے اور یہ فیض کی تحریر ہے یعنی سفر نامہ کیوبا ۔دوسرا حصہ ۸۲ صفحات پر مشتمل ہے اور یہ فیدل کا سترو کی ایک تقریر ہے۔ مگر یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ اس لیے صرف اول الذکر حصہ ہی قابلِ توجہ ٹھہرتا ہے۔
مرزا ظفر الحسن رقم طراز ہیں :
یہ سفر نامہ نہیں ہے بلکہ ان مضامین میں سے ایک ہے جو، فیض نے ۱۹۶۲ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی کے لیے بیرونِ ملک سے بھیجے تھے۔ ان دنوں فیض نے کیوبا کے علاوہ انگلستان ،روس، ہنگری ،لبنان ،البحیریا اور مصر وغیر ہ کی بھی سیاحت کی تھی۔(۲۰۲)
ناشر نے پہلی دفعہ اس کتابچے کا نا م صرف ’’کیوبا‘‘ رکھا۔ دوسری اشاعت میں اس کا نام ’’سفر نامہ کیوبا‘‘ لکھا۔ فیض صاحب کہتے ہیں کہ کیوباکے بارے میں مجھے بہت تجسس تھا کہ یہ کیوبا اورا س کا انقلاب کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس کے پس منظر میں کسی نوع کی مخلوق رہتی ہے؟ کیا سوچتی ہے اور کیا کرتی ہے؟ گذشتہ ماہ کیوبائی انقلاب کی چوتھی سالگرہ کی تقریب پر مجھے اس مخلوق سے تعارف کا اتفاق ہوا۔ فیض صاحب کہتے ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہا ں ہر کوئی گاتا ہے۔ ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے گاتا ہے۔ بیرا کھانا لاتے ہوئے گاتا ہے۔ لفٹ بوائے نیچے لاتے ہوئے گاتا ہے۔ لڑکی سودا بیچتے ہوئے گاتی ہے۔ سپاہی پہرہ دیتے ہوئے گاتا ہے۔ لڑائی مین تو دیکھا نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ مشین گن چلاتے ہوئے بھی ضرورتانیں اُڑاتے ہوں گے۔(۲۰۳)
فیض کے کیوبا کے بارے میں مزید لکھتے ہیں :
اگر کوئی شوخ حسینہ تنگ پیراہن میں امریکن فلموں کو مات کرتی ہوئی آپ کے سامنے سے گزری ہے تو شام کو وہی لڑکی فوجی وردی پہنے برین گن سنبھالے ہوٹل کے دروازے پر پہرہ دے رہی ہوگی۔ یہاں پر پچاس قدم پر رقص گاہ یا شبیہ کلب ہے تو سو گزپرانقلابی شہید کی یادگار۔ یہاں کی فوج میں میجر سے اُوپر کوئی عہدہ نہیں۔یہاں کوئی محکمہ اطلاعات نہیں۔یہاں امریکی سیاست کی بات پر ہر آنکھ سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور امریکی سگریٹ کے ذکر پر ہر دل سے آہیں۔ یہاں ہر کسی کی زبان پر دو نعرے سنائی دیتے ہیں۔ ’’وطن یا کفن‘‘ اور ہم ظفر مند ہو کر رہیں گے۔(۲۰۴)
فیض صاحب نے کیوبا کے پس منظر کے بارے میں بتایا ہے کہ ساڑھے تین سو برس تک ہسپانیہ کے افسر اور گورنر اس پر راج کرتے رہے اور اس کے لوگوں کو غلام بنایا۔ ان کا خون پسینہ ایک کر کے ان سے جنگل کٹوائے اوران پر طرح طرح کے ظلم کرتے رہے۔ پھر ۱۸۶۵ء میں ان غلاموں نے علمِ بغاوت بلند کیا اور بالآخر ۱۸۹۵ء میں ۳۰ برس کی طویل جدوجہد کے بعد امریکی فوجیں باغیوں کی کمک کو پہنچیں اور یوں کیوبا میں ہسپانوی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد ۱۸۹۹ء میں امریکی بحری فوجیں کیوبا میں داخل ہوئیں اور امریکہ نے وہاں اپنا ایک مستقل فوجی اڈا قائم کر لیا۔ فیض نے کیوبا، وہاں کے تاریخی ، پس منظر ،وہاں کے حالات اور طور طریقوں کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور فیدل کا ستروکی کارکردگی ، انقلابی حکومت اور جدید کیوبا کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس میں انھوں نے کا ستروکی شخصیت کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اس کی شجاعت کے قصے بیان کیے ہیں اور یہاں کی حکومت اور لوگوں کے بارے میں اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں۔ فیض کہتے ہیں کہ کیوبا میں انقلاب سے پہلے جہالت اور بے روزگاری تھی۔ سکول ہسپتا ل نہیں تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں پر امریکی اداروں کی اجارہ داری تھی۔ انقلاب سے پہلے سات سو سے اوپر شراب خانے تھے۔ جس میں شراب کے علاوہ عورتیں بھی مہیا کی جاتی تھیں۔ فیض پھر وہاں کے زرعی نظام کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ ان کے طور طریقے ،ان کی کاشتکاری کے اُصول اورا پنی کاشت کے اصولوں میں موازنہ کرتے ہیں۔
کیوبا کے انقلاب کے بعد کے حالات بیان کرتے ہوئے فیض صاحب کہتے ہیں کہ اب وہاں جسم فروشی اور قمار بازی کے لیے سخت سزائیں دی گئی ہیں۔ بازاری عورتوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے اب وہاں مراکز قائم ہیں۔ شہروں میں ترقی ہو رہی ہے۔ کچے گھروں کی جگہ عالیشان گھراورعمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ مساوات کا قانون نافذ ہے۔انصاف ہے۔ ہر کسی کو اس کی محنت کا صلہ ملتا ہے۔ صنعتی میدان میں سب سے مقدم روزمرہ استعمال کی اشیاء ہیں۔
’’پاکستانی کلچر اور قومی تشخص کی تلاشی ‘‘ فیض کی آٹھویں نثری تصنیف ہے۔ یہ کتاب ۱۱۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو شیما مجید نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۸۸ء میں فیروز سنز لاہور راولپنڈی اور کراچی نے شائع کی۔ اس میں تہذیب اور کلچر پر فیض کے چودہ مضامین شامل ہیں۔ جن میں تہذیب کی تعریف ،پاکستانی تہذیب کے اجزائے ترکیبی، پاکستانی تہذیب کا مستقبل ،پاکستان ثقافت اور اس کے مسائل پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ مرزا ظفر الحسن کی مرتبہ کتاب ’’ہماری قومی ثقافت‘‘ پر پہلے تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔ موجودہ کتاب میں زیادہ تر مضامین ’’ہماری قومی ثقافت‘‘ میں سے لیے گئے ہیں۔صرف کہیں کہیں عنوانات میں ردو بدل کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ۱۲ مضامین میں سے ۸ مضامین پہلے سے مطبوعہ دو کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ جن پر پہلے بات ہو چکی ہے۔ البتہ چار مضامین (قومی تشخص کی تلاش ،آرٹ اور ثقافت، پاکستان کہاں ہے؟ ہم اور آپ)فیض کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔
’’قومی تشخص کی تلاش‘‘ بہت وسیع موضوع ہے۔ اس مضمون میں یہی بتایا گیا ہے کہ قومی شناخت کی تلاش کب کیسے اور کن مراحل سے گزری اور آج کس منزل پر ہے؟ فیض بتاتے ہیں کہ یہ تلاش اس وقت شروع ہوئی جب برصغیر میں خاندان مغلیہ اور حکومتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہوا۔ اس سے پہلے برصغیر کے مسلمان اپنے آپ کو نسلی یا علاقائی حیثیت سے پہچانتے تھے۔مسلمانوں کو متحدہ قومیت کا احسا س نہیں تھا کیونکہ یہ معاشرہ بادشاہوں اور نوابوں کا تھا۔ ایسے معاشرے میں قومیت کا احساس ہونا مشکل ہے لیکن جب یہ دور ختم ہوا تو مسلمان اپنے آپ کو بے سہارا سمجھنے لگے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو بار سوخ اور مقتدر طبقہ سمجھتے تھے۔ البتہ انگریزوں کے آنے کے بعد یہ غرور اور افتخار ختم ہو گیا ۔ ان سے بہت سی مراعات چھن گئیں ۔ تو مسلمانوں کو احساس ہونے لگا کہ ہم کون ہیں؟ ہماری شناخت کیا ہے؟
فیض کا کہنا ہے کہ ۱۹۲۰ء کے بعد جب انگریزی حکومتوں نے اپنی آئینی اصلاحات کی رفتار ذرا تیز کر دی اور برصغیر کے باشندوں کو سیاسی حقوق کی مختلف قسطیں ذرا جلد دینا شروع کردیں تو یہ سوال پیدا ہوا اگر آئینی طورپر برصغیر میں ایک جمہوری نظامِ حکومت قائم ہوا تو اس میں سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی کیا حیثیت ہو گی؟ اہلِ نظر کو جلد ہی احسا س ہو گیا کہ ہماری صورت ایک مستقل اقلیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ہم غیر مسلموں کے دستِ نگر رہیں گے۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء میں اقبال نے الگ ریاست کا مطالبہ کر دیا۔ اس کی وجہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے الگ الگ نظریات تھے۔
فیض کہتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے پاکستان میں ایک آئین ہو تمام لوگوں میں معاشرے میں ایک سے حقوق حاصل ہوں ،لیکن ہمارے ہاں کچھ طبقے ایسے ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں تو وہ کسی قوم اور ملک سے اس وقت تک پوری محبت نہیں کر سکیں گے جب تک کہ ان کے پاس لوازمات زندگی بہم نہ ہوں گے۔ اس کے بعد فیض نے پاکستانی کلچر اور ثقافت کے نمائندوں کے ضمن میں اقبال ،شاہ عبداللطیف بھٹائی، وارث شاہ اور خوشحال خان خٹک کا حوالہ دیا ہے۔ اور پھر اپنے ورثہ میں غالب، میر ،سعدی اور حافظ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ہمارا تہذیبی ورثہ تو ہے ملکیت نہیں ہے۔ جب تک ہم عمل کو آگے نہیں بڑھائیں گے، ہماری تلاش وہیں کی وہیں رہے گی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔
’’آرٹ اور ثقافت‘‘ مضمون میں آرٹ اور کلچر کے مفہوم ،نوعیت اور فنکشن کے بارے میں فکری بحث ہے ۔ کلچر کا مفہوم کسی خاص انسانی گروہ اور معاشرے کے مکمل طریق حیات کا نام ہے۔ آرٹس کے بر خلاف کلچر عوام کے زندگی بسر کرنے کے عمل سے مرتب ہوتا ہے۔فیض کے نزدیک ہر کلچر ایک خاص انسانی معاشرے سے متعلق ہوتا ہے۔ ہر کلچر کی اپنی تاریخی اور جغرافیائی حدیں ہوتی ہیں۔ چونکہ کسی اِنسانی گروہ کی زندگی کا انداز اس معاشرہ میں جاری و ساری سماجی ڈھانچے یا نظام کے زیر اثر ترتیب پاتا ہے ۔ جب سماجی حالات بدلتے ہیں تو اس گروہ کے کلچر کو بھی اس طوربدلنا پڑتا ہے۔ کلچر محض اندازِ فکر نہیں ، انداز حیات ہوتا ہے۔
’’پاکستان کہاں ہے‘‘ مضمون میں فیض نے پاکستان کی شناخت کے متعلق بتایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں اگر کوئی پاکستان کے بارے میں پوچھے کہ پاکستان کہاں ہے؟ کیا ہے؟ اس کی شناخت آپ کیسے کروائیں گے؟ انھوں نے بتایا ہے کہ ہر ملک کی کوئی نہ کوئی خاص شناخت ہوتی ہے۔ کبھی ہم لوگوں نے غور نہیں کیا۔ ہر ملک نے اپنی خاص علامت، نشان ،ملک کی تاریخ ،تہذیب کلچر ،قومی ماہیت ،کو امتیازی طرۂ ا اپنے لیے مخصوص کررکھا ہے۔ چین ، جاپان ، انڈونیشیا ،سری لنکا، برما،ایران ،عراق،مصر ہر چھوٹے بڑے ملک کے ساتھ کوئی نہ کوئی تصویر ذہن میں ضر ور اُبھرتی ہے۔
فیض نے اپنے اس مضمون میں بتایا ہے کہ ہر ملک کے پاس سُر خاب کا پر ضرور ہے۔ ہر ملک نے اپنا ایک ٹریڈ مارک بنا رکھا ہے۔ یہ موقع پر تعارف اور جان پہچان کے کام آتا ہے۔ فیض کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں نے کبھی غرور نہیں کیا کہ پاکستان کا ٹریڈ مارک کیا ہے؟ جب کہ باہر کے ملکوں میں آپ سے جگہ جگہ یہی سوال پوچھا جائے گا کہ پاکستان کیا ہے؟ اس سلسلہ میں کہا جاتا ہے کہ ہمارا سفارتی عملہ کیا کر رہا ہے؟ ہماری تہذیب ،ثقافت یا شخصیت کا تعین ،ہمارے سفارتی اداروں کا منصب یا ذمہ داری نہیں ہے۔ فیض صاحب کا کہنا ہے کہ یہ ذمہ داری تو گھر والوں کی ہے جس میں حکومت ،اہلِ دانش اور اربابِ سیاست سبھی شامل ہیں۔ اگر آپ بتائیں کہ ہماری شناخت ،قومی جھنڈے پر ستارہ ہلال ہے کہ یہ اسلامی نشان ہے لیکن ستارہ ہلال صرف پاکستانی امتیاز نہیں بلکہ یہ نشان تو ہر اسلامی ملک کے جھنڈے کا حصہ ہے۔ اسے پاکستان کی سرزمین سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی شناخت کے لیے اپنی تاریخ، تہذیب، جغرافیہ کے لیے ایسے مظاہر سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جو خالص ہمارے اور بلا شبہ پاکستانی ہوں۔
’’ہم اور آپ‘‘ مضمون میں فیض صاحب کہتے ہیں کہ ہم آزاد پاکستان کے آزاد شہری ہیں۔ ہم مسلمان ہیں پچھلے ایک سال میں پاکستان کے رہنے والوں کے لیے کئی نئی نئی سہولتیں اور مشکلیں پیدا ہوئیں۔ کئی امتحان گزرے ،کئی نئی آزمائشیں آئیں۔ ہمارا نیا آزاد ملک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا تھا کہ اس پر یکے بعد دیگر ے کئی پہاڑ ٹوٹے۔ کشمیر کی خوبصورت زمین ہتھیانے کے لیے اغیار نے دستِ غضب بڑھایا۔ ہمسایہ ملک سے تعلقات کبھی بگڑے کبھی سنورے ۔ اس کے بعد انھوں نے اسلامی ممالک کے لیے آزادی اور ترقی کے تمام مسائل پر غور کیا ہے۔ فیض صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں صحیح حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔ موجودہ دور میں دنیا کی کوئی قوم اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا کر بسر اوقات نہیں کر سکتی۔
اس لیے پاکستان کی سب سے بڑی دولت عوام ہیں جو،اس کی عظمت کے کفیل ہیں ۔ عوام کی فلاح وبہبو د کے لیے پاکستانی عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کو پورا تحفظ کرنا چاہیے۔ دنیا میں امن اسی وقت ممکن ہے جب تمام حصوں میں امن اور آزادی ہو۔
ساغر جعفری(۱۹۱۳ء۔۲۰۰۲ء) شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ ساغر جعفری نے اپنی نثری تحریروں کا آغاز مادرِ علمی مرے کالج سیالکوٹسے اس وقت کیا جب وہ کالج میں بی۔اے کے طالب علم تھے۔ ان کے اس شوق کو اُبھارنے میں شعبہ فارسی کے اُستاد پروفیسر جمشید علی راٹھور نے اہم کردار ادا کیا اس کے متعلق ساغر جعفری اپنی تصنیف ’’بہارو نگار‘‘ میں ’’سخن ہائے گفتنی ‘‘ چند یادیں ،چندتاثرات میں لکھتے ہیں :
جب میں آخری سال میں تھا تو پروفیسر جمشید علی راٹھور نے انعامی مقابلہ میں کالج کے طلبا کو مضمون لکھنے کے لیے نوٹس بورڈ پر ایک اعلان چسپاں کر ایا۔ عنوان تھا، اردو پر انگریزی ادب کا اثر ،اس پر متعدد طلبانے مضامین لکھے مگر صرف میرا مضمون ہی انعام کا حق دار نکلا۔ اور مجھے ’’مولانا میر حسن انعام‘‘ ملا ۔اس کے ساتھ ہی اپنی جماعت میں اردو کا اول انعام بھی مجھے دیا گیا۔ انعامات میں چند کتابیں عطا کی گئیں۔ ان میں اقبال کا ’’جاوید نامہ‘‘ بھی تھا جو، انھی دنوں شائع ہوا تھا۔(۲۰۵)
ساغر جعفری نے اصناف نثر میں دو علمی مضامین ،افسانے ،انگریزی افسانوں اور ڈراموں کے نثری تراجم تحریر کیے ۔ ان کے علمی مضامین میں ’’اردو شاعری پر انگریزی کا اثر‘‘ اور ’’حالی کی اخلاقی شاعری‘‘ شامل ہیں۔ ساغر جعفری کا اولین مضمون ’’اردو شاعری پر ادب انگریزی کا اثر‘‘ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور، شمارہ ،مارچ ۱۹۳۶ء اور ان کا دوسرا مضمون ’’حالی کی اخلاقی شاعری ‘‘ رسالہ ’’ادب ِ لطیف‘‘ ،لاہور شمارہ ،ماہ ستمبر۱۹۳۶ء میں شائع ہوئے۔ ان کا اولین مضمون ’’اردو شاعری پر ادب انگریزی کا اثر‘‘ ان کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز تھا۔ اور یہ مضمون مرے کالج سیالکوٹ میں انعامی مقابلہ کا حق دار قرار پانے والے مضمون ’’اردو شاعر ی پر انگریزی ادب کا اثر ‘‘ کی ترمیم شدہ صورت تھی۔ اس کے متعلق ساغر جعفری ’’بہارو نگار‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں :
میں نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغا ز جب ۱۹۳۶ء میں کیا تو میرا علمی مضمون مرزا ادیب کے اولین دور ادارت میں ماہ نامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہو رکے مارچ ۱۹۳۶ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔ عنوان تھا، ’’اردو شاعری پر ادب انگریزی کا اثر‘‘ اور یہ مضمون کا حصہ تھا۔ جس پر مجھے کالج میں انعام ملا تھا۔(۲۰۶)
ساغرجعفری نے اس مضمون میں انگریزی زبان کے نثری تراجم سے اردو شعرو ادب پر ہونے والے اثرات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک اردو شعرا نے انگریزی زبان کے مطالعہ سے نئی ترکیبوں ،بندشوں اور نئے محاورات کے علاوہ کئی نئی اصناف کا استعمال بھی کیا ہے۔
اردو شاعری میں فلسفہ اخلاق، تصوف اور عاشقانہ موضوعات شامل ہیں۔ ساغر کے مطابق انگریزی علم و ادب کے زیرِ اثر جدید تعلیم یافتہ اصحاب نے ہمارے شعرا کے عاشقانہ کلام کا مطالعہ کیا ۔ ان تعلیم یافتہ اصحاب نے انگریزی زبان سے متاثر ہو کر اردو شاعری میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی ۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے اصلاحی مطالبات پیش کیے۔ ان اصلاحی مطالبات کی رو سے ضروری تھا کہ اردو شاعری میں عاشقانہ مضامین کی بجائے اخلاقی مضامین شامل کیے جائیں اور مناظرِ فطرت کی عکاسی کی جائے۔ اردو شاعری میں غزل گوئی میں مرد کا تعشق مرد سے ظاہر کیا جاتا ہے جو، خلافِ فطرت ہے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اردو غزل میں شامل اشعار کے مضامین میں جدا ہونے کے بجائے قطعہ بند ہوں تاکہ جذبات کا مسلسل اظہار ہو سکے۔ اظہار خیال کی وسعت کے لیے قافیہ ہی کافی ہے۔ ردیف کی ضرورت نہیں۔ قافیہ کی بھی ضرورت نہیں،غیر مقفیٰ نظمیں یعنی ’’بلینک ورس ‘‘ لکھنی چاہیے۔ساغر جعفری کے مطابق ان تمام مطالبات پر مکمل طور پر عمل تو نہ ہو امگر الطاف حسین حالی نے عاشقانہ خیالات کے بجائے اخلاقی مضامین اور قدرتی مناظر کو بیان کیا ہے۔ عربی اور فارسی تراکیب کا استعمال کم کیا۔ اس کے علاوہ حالی نے اخلاقی ،قومی اور سیاسی خیالات کا اظہار کر کے اسے ایک نئی چیز بنا دیا۔ حالی کی غزل کا خاتمہ قومی درد کے اظہار پر ہوا۔ ساغر جعفری کے نزدیک بعض شعرا نے ان پاکیزہ خیالات کے ساتھ غزل کی اصلیت کو بھی برقرا ر رکھنا چاہا اور شیلے اور کیٹس کی انگریزی نظموں سے متاثر ہو کر اپنے عاشقانہ رنگ کو اور نمایاں کیا۔ ان شعر ا میں سے حسرت موہانی ،رضا علی وحشت، عزیز لکھنوی اور جلیل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ساغر جعفری نے اپنے مضمون میں مذکورہ بالا شعراکے اشعار بھی پیش کیے ہیں۔ساغر جعفری کے نزدیک انگریزی علم وادب کا اردو پر یہ بھی اثر ہوا کہ اس میں حب الوطنی پر مشتمل نغمات اور شاعری کو بہت فروغ ملا۔ حالی اور آزاد نے جدید وطنی شاعری کی بنیاد رکھی۔ اس حوالے سے ساغر جعفری لکھتے ہیں :
حب الوطنی کے جذبات قدیم اردو شاعری میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور دلی کی تباہی پر متعدد شعرا نے پرد رد مرثیے لکھے ۔لیکن وسیع پیمانے پرجدید شاعری کی بنیاد مولانا حالی نے قائم کی۔ اس طرح مولانا آزاد نے بھی حب الوطنی کا نغمہ گایا۔(۲۰۷)
ساغر جعفری نے اپنے مضمون میں ان شعرا کے اشعار بطور نمونہ پیش کیے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اے وطن اے مرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسمان و زمین(۲۰۸)
حالیؔ
حب وطن ز ملک سلیمان نکو تراست
خارِ وطن سُنبل و ریحان خوشتراست(۲۰۹)
آزادؔ
ساغر جعفری کے مطابق اردو شعرا نے شیکسپئیر اور ٹینی سن کے مطالعہ کے بعد اسی رنگ میں حب الوطنی کا جذبہ پیش کیا ہے۔ شکیپئیر کے انگریزی ڈراما ’’رچرڈ دوم‘‘ کے موضوع پر علامہ اقبال کے اشعار بھی ہیں۔ ساغر جعفری نے حب الوطنی کے موضوع پر اقبال کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بُلبلیں ہیں اس کی وہ گلستان ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جس کے دم سے رشک جناں ہمارا
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے (۲۱۰)
ساغرجعفری کے مطابق انگریزی ادب کے مطالعہ سے اردو شاعری میں اخلاقی شاعری کو فروغ دیا گیا۔ اگرچہ یہ موضوع اس سے قبل بھی اُردو شاعری کا حصہ تھا۔تاہم اب اردومیں بھی اخلاقی شاعری ایک پسندیدہ موضوع بن گئی۔ اس حوالے سے ساغر جعفری لکھتے ہیں :
اخلاقی شاعری کا عنصر اگرچہ قدیم اردو شاعری میں بھی موجود تھا۔تا ہم دورِ جدید میں اس کے عنوانات تبدیل ہو گئے۔ ترقی قوم کے لیے ہمت و استقلال، صبر و محنت،اتفاق و اتحاد کا درس دیا گیا ۔انگریزی علم و ادب کے مطالعہ سے ایسی انگریزی نظمیں جو اخلا ق کا درس دیتی تھیں۔ عام پسند ہونے لگیں اور ان نظموں کے تراجم کثرت سے اردو شاعری میں پیش ہونے لگے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے مشہور انگریزی نظم (ایگز لائزر) کے انداز پر ایک دلچسپ نظم بعنوان ’’الوالعزمی ‘‘ کے لیے کوئی سدِ راہ نہیں تحریر کی۔اس طرح انگریزی زبان میں بہت سی دیگر نظمیں جیسے There is a good time coming ,boys.مطالعہ کی گئیں۔ اور ان کے زیر اثر اردو شاعری میں بھی اسی رنگ میں اخلاقی نظمیں لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔(۲۱۱)
ساغر جعفری کے مطابق انگریزی ادب کے زیرِ اثر اردو شاعری میں نیچرل شاعری کی جانے لگی۔ مناظرِ فطرت اوروصف نگاری انگریزی ادب کا اہم جزو ہیں۔ اردو شعرا نے انگریز شعرا کی تقلید کی اور مناظر فطرت کو وسعت دے کر اس میں تنوع پیدا کیا۔ ساغر جعفری لکھتے ہیں :
قدیم اردو شاعری میں غزل ،قصیدہ ،مثنوی وغیرہ میں مختلف اشعار ایسے ملتے ہیں جو، مناظرِ قدرت کو بیان کرتے ہیں لیکن دور جدید میں انگریزی علم و ادب کے زیر اثر سے مناظر قدرت اور وصف نگاری نیچرل کے دو ضروری اصناف قرار دیے گئے۔(۲۱۲)
ساغر جعفری کے مطابق اردو میں ظریفانہ شاعری ہجو گوئی کی صورت میں موجود تھی ۔ مگر دور جدید میں انگریزی ادب اور معاشرت سے ہندوستانی عوام پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انگریزی ادب کے زیر اثر اردو شعرا میں اصلاح کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس خیال کو مدِ نظر رکھ کر اصلاحی لحاظ سے ظریفانہ کلام کی ابتدا کی گئی ۔ ساغر جعفری نے اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال کے اشعار بطورِ نمونہ پیش کیے ہیں۔ کچھ اشعا ر ملاحظہ ہوں:
آدم چھٹے بہشت سے گیہوں کے واسطے
مسجد سے ہم نکل گئے بسکٹ کی چاٹ میں (۲۱۳)
اکبر الہ آبادی
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ممبری کونسل صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
(علامہ اقبال)
ساغر جعفری کے مطابق اُردو شاعری کے زیر اثر اردو میں غیر مقفیٰ نظمیں بھی لکھیں گئیں۔ ان شعرا میں میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولوی محمد اسماعیل کا نام اہم ہے۔ قافیہ اور ردیف کے بغیر نظموں کے علاوہ سانیٹ بھی انگریزی علم و ادب سے اختراع کی گئی ہیں۔
ساغر جعفری کا دوسرا مضمون ’’حالی کی اخلاقی شاعری ‘‘ ہے۔ اس میں مولانا الطاف حسین حالی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کا یہ مضمون ماہ ستمبر ۱۹۳۶ء میں ’’ادب لطیف‘ لاہور میں شائع ہوا۔ ساغر جعفری نے اپنے اولین مضمون ’’اردو شاعری پر ادب انگریزی کا اثر‘‘ میں ارد و میں ’’اخلاقی‘‘ شاعری کا مختصراً جائزہ لیتے ہوئے الطاف حسین حالی کے متعدد اشعار بطور حوالہ پیش کیے ہیں۔ ساغرجعفری نے الطاف حسینحالی کے اس مضمون میں تفصیلاً حالی کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور اردو شاعری میں اخلاقی عناصر کی ضرورت کے پیشِ نظر حالی کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ساغر جعفری کے مطابق جب مولانا الطاف حسین حالی نے انگریزی علم و ادب کا مطالعہ کیاتو انھوں نے اردو شاعری کے روایتی موضوعات گل و بُلبل اور حسن و عشق (زلف و گیسو، قامت اور لب و رخسار) کی بجائے معاشرتی اصلاح کے پیشِ نظر اخلاقی شاعری کو ترجیح دی۔
ساغر جعفری کے مطابق قدیم اردو شاعری میں فارسی شعرا کی تقلید میں اخلاقی مضامین پیش کیے گئے۔ حالی اپنے کلام میں اخلاقی مضامین جو دو سخا ،عمل و ہمت ،توکل ،عفو، علم ،قناعت اور خاکساری کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دورِ جدید میں مغربی تہذیب نے دنیا کے اخلاق کو بدل دیا ہے اور اردو شاعری میں فلسفہ ،اخلاق کا ایک نیا باب کھل گیاہے۔ اس کے نمایاں عنوانات ،اخوت و ہمدردی ،مساوات ،آزادی ،حق گوئی اور جدوجہد قرار پائے۔ جدید اردو شعراء میں حالی ؔ،اکبر ،مولوی اسماعیل ،آزاد اور مولانا شبلی کے نام نمایاں ہیں ۔لیکن اردو میں اخلاقی شاعری کی خصوصیت شبلی کے ہاں نمایاں ہے۔ اردو میں اخلاقی شاعری کو خصوصیت کے ساتھ حالی اور اکبر نے بھی اپنا موضوع سخن بنایا۔ حالی نے دیگر اصناف کے علاوہ اپنی غزلوں میں بھی اخلاقی ،سیاسی اور قومی خیالات کا اظہار کیا ۔ ساغر جعفری کے مطابق انھوں نے سیاسی اور قومی خیالات کا اظہار کیاہے۔ ساغر جعفری کے مطابق حالیؔ نے اپنی شاعری میں اخلاق شخصیہ یعنی ایک فرد کا اخلاق اور اخلا ق اجتماعی یعنی قوم کے اخلا ق کی اصلاح کاد رس دیا ہے۔ ساغر جعفری اس حوالے سے لکھتے ہیں :
یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اخلا ق کی دوقسمیں ہیں ۔شخصی و اجتماعی اخلاق کا اثر صرف ایک آدمی تک محدود رہتا ہے اور اجتماعی اخلاق سے تمام قوم متاثر ہوتی ہے۔ مولانا حالی نے اپنی شاعری میں ان ہر دو اقسام کا درس دیا ہے۔ اور آپ کے کلام میں شخصی و اجتماعی اخلاق پر کثرت سے اشعار موجود ہیں۔(۲۱۴)
حالی نے اخلاق شخصیہ میں بے ثباتی ،عالم ،توکل ،استغنا و قناعت، عجز و انکساری استقلال، راست گوئی ،علوئے ہمت ،اپنی قدر آپ کرنا اور اعتماد اعلیٰ النفس جیسے اوصاف اپنانے کا درس دیا ہے۔ اس کے علاوہ حرص و آز،غرور ،تصنع و بناوٹ، خود پسندی اور خوشامد کی مذمت کرتے ہوئے ان سے اجتناب برتنے کی تلقین کی ہے۔ جب کہ اجتماعی اخلاق میں ہمدردی و مساوات ،زندہ دلی ،محبت نوع انسانی ،عفو و درگزر ،سخت گیری ،رحم و انصاف اور اتفاق و اتحاد جیسی اعلیٰ صفات و اقدار کا درس دیا ہے۔ ساغر جعفری نے اس مضمون میں ان مذکورہ صفات پر حالی کے خیالات ان کے اشعار کی صورت میں پیش کیے ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
خاور سے باختر تک جن تک نشانات تھے برپا
کچھ مقبروں میں باقی ان کی نشانیاں ہیں
(حالی)
مشکلوں کی جس کو ہے حالیؔ خبر
مشکلیں آساں وہی فرمائے گا
(حالی)
بناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ
یہ عزت تو جائے گی پر جائے گی(۲۱۵)
(حالی)
ساغر جعفری نے مضمون نگاری میں تحریک علی گڑھ کی روایت کو اپنایا۔ ان کے ہاں عبارت رنگین اور مرصع ہونے کے بجائے سادہ اور رواں نظر آتی ہے۔ ان کے مضامین میں خیالات کے بیان میں گنجلک اور پیچیدگی نہیں ہے بلکہ انھوں نے سر سید احمدخان اورالطاف حسین حالی کے اسلوب کے تحت مقصدیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ سادگی ،سلاست اور تسلسل ان کے مضامین میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر شگفتہ حسین لکھتی ہیں:
موضوع پر سنجیدگی اظہار و خیال کی خوبی ہے ۔ادب لطیف میں جو علمی مضامین شائع ہوئے۔ ان میں تاریخ،تصوف ،سیاست ،معاشرت سب شامل ہیں۔(۲۱۶)
ساغر جعفری کے’’ ادبِ لطیف ‘‘میں شائع ہونے والے ان مضامین میں اظہار خیال کی یہ خوبی دکھائی دیتی ہے۔ ساغر کے مضامین ’’اردو شاعری پر انگریزی کا اثر‘‘ اور ’’حالی کی اخلاقی شاعری‘‘سے ان کے اسلوب کے ساتھ ان کے فکری رجحان کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ ساغر جعفری نے متعدد افسانے لکھے جن کے متعلق انھوں نے اپنی تصنیف ’’بہارو نگار‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
ساغر جعفری کے متعدد ڈراموں کے تراجم میں سے دو تراجم دست یاب ہوئے ہیں۔ ایک ڈرامہ کا ترجمہ ’’قسمت‘‘ کے عنوان سے ماہ نامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ شمارہ اگست ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا۔(۲۱۷)
اس ڈرامے میں انھوں نے انگریزی ڈرامے کا عنوان اور مصنف کا نام درج نہیں کیا۔ اس طرح دوسرے انگریزی ڈرامے ’’دی پوائزن پارٹی‘‘ کا نثری ترجمہ ’’حلقہ مسموم ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس میں انھوں نے انگریزی ڈرامے کے مصنف کا نام درج نہیں کیا ہے۔ یہ ترجمہ ماہ نامہ ’’ساقی ‘‘ دہلی مار چ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔(۲۱۸)
ساغر جعفری نے انگریزی ڈراما کو ’’قسمت ‘‘کے عنوان سے ترجمہ کیاہے۔ اس ڈرامے کے کرداروں میں فرعون ،مصر ،نعمان (شاہی محل کا منتظم) تین عالم (ستارہ شناس) ،دو دربان ،تین سپاہی ،ایک لڑکا، ایک لڑکی اور ایک اجنبی شامل ہیں۔اس ڈرامے میں فرعونِ مصر کے دورِ حکومت کو پیش کیا گیا ہے۔ فرعونِ مصر طاقتور اور وسیع سلطنت کا مالک ہے۔ اس کے ظلم و ستم سے عوام نا خوش ہیں۔ کسی اجنبی کو شہرداخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ فرعون کے طرزِ حکومت سے ستارے نا خوش اور گردش میں ہیں۔ دو بچے کھیلتے ہوئے اس شاہی محل کے دروازے پر چند اشعار لکھ دیتے ہیں۔ فرعون شاہی دروازے پر درج عبارت دیکھ کر دربانوں سے استفسار کرتا ہے۔ دربان اس تحریر کو پڑھنے سے قاصر ہیں۔ تاہم بچوں کی موجودگی کا اظہار کرتے ہیں۔
فرعون منجم شناسوں کو طلب کرتا ہے۔ دو ستارہ شناس ان اشعار کے مفہوم کو بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ ستاروں کے بزرگ ترین عالم کو طلب کیا جاتا ہے جو، فرعون کو زوال اور آفات کے آنے کی پیش گوئی سناتا ہے۔ فرعون ہر طرح کی قربانی دینے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ ایک معصوم لڑکی اور لڑکے کی قربانی کا اعلان کرتا ہے تاہم بزرگ عالم اسے غرور اور تکبر قربان کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ جسے فرعون تسلیم کرتے ہوئے اپنا تاج شاہی درواز ے پر اتار کر چلا جاتا ہے۔ فرعون کی عدم موجودگی میں بچے اس تاج کو عصا سے کھیلتے ہوئے لے جاتے ہیں۔ اور فرعون سمجھتا ہے کہ دیوتاؤں نے اس کی قربانی قبول کر لی ہے۔ انگریزی ڈراما ’’قسمت‘‘ کے نثری ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
فرعون:(نعمان سے) دیکھو یہ تحریر کیسی ہے؟
نعمان:دروازے کے قریب جا کر پڑھنا، عالی جاہ! یہ سراسر بغاوت ہے۔
فرعون:پڑھو
نعمان (پڑھتا ہے)
اک خوس نوا پرندہ
تھا سرخ رنگ جس کا
عرش بریں کی جانب
پرواز کر گیا ہے
’’مر گیا ہے‘‘(۲۱۹)
ساغر جعفری کے اس ترجمے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تراجم میں بھی ان کے ہاں کیا تصورات اور نظریات پیشِ نظر تھے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں :
مترجم کی نیک نیتی کو پرکھنے کی ایک کسوٹی یہ ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کس نوع کے تصورات اور نظریات کی درآمد کو ضروری سمجھا اور کس نوع کے اسالیب بیان کو اپنے ادب کی بالیدگی و بلوغت کے لیے ضروری خیال کیا۔(۲۲۰)
اس ڈرامے کے انگریزی ماخذ دستیاب نہ ہونے کی بنا پر اس کا فنی جائزہ تو مشکل ہے تاہم اس ترجمے سے ساغر جعفری کے فکری اور سماجی شعور کی عکاسی ضرور ہوتی ہے۔ ان کے اس ترجمے میں بھی جبر اور معاشرتی گھٹن کو پیش کیا گیاہے ۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان لکھتے ہیں :
پابندیوں کے زمانے میں ایسے افسانوں اور ایسی نظموں کے تراجم زیادہ ہونے لگتے ہیں ۔ جن میں پابندیوں کے خلاف باغیانہ لہجہ یا جبر کا احساس نمایاں ہو۔(۲۲۱)
ساغر جعفری نے دوسرے یک بابی ڈراما( ون ایکٹ پلے) The poison treeکا ترجمہ ’’حلقہ مسموم ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ جو ماہ نامہ ’’ساقی ‘‘ میں شائع ہوا۔ اس ڈرامے میں ملکہ شہزادہ چارلس،(ولی عہد سلطنت) لارڈ کارڈنیل(شاہی کلیسا کا پادری) ،کیتھرین (شہزادے کی محبوبہ ) البرٹ(کیتھرین کا باپ)،خادم(شاہی خدمت گار) اہم کردار ہیں۔ اس ڈرامے میں شاہی خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ملکہ نہایت مکار عورت ہے جو کارڈنیل سے مل کر شہزاد ے کے باپ کو ہلاک کر کے فرماں روائے سلطنت بنی ہوئی ہے۔ شہزادہ سیاسی داؤ پیچ سے ناواقف ہے اورا یک خوبصورت دو شیزہ کیتھرین سے محبت کرتا ہے۔ لیکن ملکہ کیتھرین کو پسند نہیں کرتی۔ ملکہ سمجھتی ہے کہ کیتھرین اپنے باپ کے ساتھ مل کر اس سے اقتدار چھین لے گی۔ اس خطرے سے چھٹکارے کے لیے ملکہ شاہی محل میں کیتھرین اورا س کے باپ البرٹ کو مدعو کرتی ہے۔
ملکہ اپنے اور کارڈنیل کے لیے رکھے جانے والے دو کیک کے علاوہ دعوت میں پیش کیے جانے والے تمام کیکوں میں زہر ملا دیتی ہے۔ تاکہ کیتھرین اوراس کا باپ زہر آلود کیک کھانے سے ہلاک ہو جائیں لیکن ان کی آمد سے قبل شہزادہ چارلس ،ملکہ اور کارڈنیل کے کیک کھا جاتاہے۔ اس کی خبر ملکہ کو نہیں ہوتی ۔ جب کیتھرین اوراس کا باپ کیک کھاتے ہیں تو ملکہ سمجھتی ہے کہ یہ مرنے کے قریب ہیں۔اسی خوش فہمی میں ملکہ انھیں اپنی سازش سے آگاہ کرتی ہے جسے سن کر وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب شہزادے نیملکہ کو بتایا ہے کہ ان کے دو کیک تو اس نے کھا لیے ہیں تو ملکہ اور کارڈنیل بھی اپنے آپ کو چند لمحوں کا مہمان سمجھتے ہیں اس وقت شاہی نوکر آکر بتاتا ہے کہ شہزاد ے کا پالتو خرگوش دونوں زہر آلود کیک کھا کر مر چکا ہے۔ اور اس نے اسی ترتیب سے دوبارہ کیک دستر خوان پر لگادئیے تھے۔ یہ سن کر سب خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور ملکہ اپنے کیے پر نادم ہوتی ہے۔
ساغر جعفری نے انگریزی ڈراما ’’حلقہ مسموم ‘‘ کے نثری ترجمے کو اس مہارت سے پیش کیا ہے کہ ڈرامے کے مکالموں میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ جو نثری تراجم میں پیدا ہو جاتی ہے۔ انگریزی ڈراما ’’حلقہ مسموم‘‘ کے نثری ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
ملکہ :چارلس انھیں ہرگز ہاتھ نہ لگانا۔
شہزادہ:مگر یہ مجھے بہت مرعوب ہیں اور میں نے یہ خواہش آپ ہی سے ورثہ میں پائی ہے۔
ملکہ :مجھے خوب علم ہے کہ تم نے میری کوئی بھی خصلت وراثت میں نہیں پائی ،تم بالکل اپنے باپ مرحوم کی مانند ہو۔
شہزادہ:میرا باپ مرحوم ایک نیک انسان تھا۔ او ر کم ازکم میری طرح وہ جانوروں کا دل دادہ ضرور تھا، اور ہاں ……اس کی موت کیسے واقع ہوئی۔
ملکہ :تم ہمیشہ اسی قسم کے بے ہودہ سوالات کرتے ہو۔
شہزادہ: میں دیکھتا ہوں کہ اس سوال پر آپ ہمیشہ برا فروختہ ہو جاتی ہیں۔ خدا معلوم اس میں کیا اسرار ہے۔(۲۲۲)
ساغر جعفری نے متعدد انگریزی افسانوں کے اردو میں نثری تراجم بھی کیے۔ ایک انگریزی افسانے کا ترجمہ رسالہ ادبِ لطیف شمارہ مئی۔ جون ۱۹۳۶ ء میں ’’عجیب و غریب انجمن‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ سرلاک ہومز کے جاسوس افسانوں میں سے ایک افسانے کا ترجمہ ہے۔ اس انگریزی افسانے کے مصنف سرآرتھر کا فن ڈائل ہیں۔جنھیں سائنٹیفک اور جاسوسی افسانوں کے لحاظ سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ شرلاک ہومز کا تخلیقی کردار پیش کر کے انھوں نے سراغ رسانی کے حیرت انگیز واقعات کو جس اسلوبی سے تحریر کیا ہے۔ انگریزی ناول میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
انگریزی افسانے ’’عجیب و غریب انجمن‘‘ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ مسٹر ہومز اپنے دوست واٹسن سے بات چیت میں مصروف ہے۔ اس دوران ایک ملاقاتی ہومز کے آفس میں داخل ہوتا ہے۔ ہومز اس آدمی سے اس کے آنے کا سبب پوچھتا ہے۔ وہ آدمی (جس کا نام ولسن) ہومز کو اپنی پریشانی بتاتا ہے کہ چند ہفتے قبل اسے فرم کی طرف سے ملازمت ملی جس میں اسے کچھ کاغذات کے تراجم کرنا تھے اور ہر ہفتہ اسے چار پونڈ ملنا طے پائے تھے، مگر اب اس فرم کا کچھ پتا نہیں۔ وہ آفس(جہاں ولسن کام کرتا تھا)بند ہو چکا ہے(ولسن) میں چاہتا ہوں کہ مسٹر ہومز آپ میری مدد کریں۔ ہومز مسز ولسن سے استفسار کرتا ہے کہ تمہیں ملازمت کس کے توسط سے ملی تھی ۔ولسن نے بتایا کہ اس ملازمت کے متعلق اس کے منشی نے اخبا ر میں شائع اشتہار اسے دکھایا تھا جس میں مخصوص لوگ ہی ملازمت کے اہل تھے، چونکہ وہ ان کی شرائط پر پورا اُترتا تھا اس لیے اسے اس ملازمت پر رکھ لیا گیا لیکن اب وہ اس ملازمت کے ختم ہونے پر پریشان ہے۔ہومز ولسن سے اس کے منشی کا حلیہ دریافت کرتا ہے۔ ولسن ہومز کو اپنے منشی کی کم تنخواہ پر خوشی سے کام کرنے ،فوٹو گرافی کے شوق اور اس کے حلیہ سے آگاہ کرتا ہے۔ ہومز ولسن کے گھر ولسن کے منشی سے ملتا ہے جو ،ہومز کو مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ ہومز ولسن کے گھر کے کچھ حصوں کا معائنہ کرتا ہے۔ ہومز ولسن کے گھر کے سامنے بینک کی عمارت دیکھ کر ساری صورت حال سمجھ جاتا ہے۔ کہ کیسے ولسن کے منشی نے ولسن کی سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جرائم پیشہ ساتھیوں کی مدد سے بینک میں چوری کی واردات کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ ولسن کے منشی نے اپنے ساتھیوں کی مددسے ولسن کی عدم موجودگی میں اس کے گھر سے بینک میں چوری کی واردات کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ ہومز متعلقہ بینک کے چیئر مین اورا سکاٹ لینڈ یارڈ کے آفیسر کو اس صورت حال سے آگاہ کرتا ہے۔ جو بر وقت کاروائی کرتے ہوئے اس گروہ کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ انگریزی افسانے ’’عجیب و غریب انجمن‘‘ کے ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
کیا!ابھی تک وہ تمہارے ہاں ملازم ہے؟ ہومز نے کسی گہری سوچ میں پڑتے ہوئے کہا۔
ہاں جناب!میں ابھی ابھی اُسے مکان پر چھوڑ کر آیا ہوں۔
اور کیا تمہاری عدم موجودگی میں تمہارا کاروبار بدستور جاری رہتا ہے۔
صبح کے وقت کام بہت کم ہوتا ہے۔
بس! مسٹر ولسن !زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ میں ایک دوروز تک تمہیں اس بارے میں صحیح مشورہ دے سکوں گا۔ آج ہفتہ کا دن ہے اور مجھے اُمید ہے کہ سوموار تک ہم ضرورکسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے۔(۲۲۳)
ساغر جعفری نے ایک انگریزی افسانے کا ترجمہ ’’نقش بردیوار‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس انگریزی افسانے کے مصنف ای۔ وی ۔لیوکس ہیں۔
’’نقش بر دیوار‘‘ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ شمارہ ماہ نومبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا۔ ’’نقش بر دیوار‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
قدر تامل کے بعد اس نے کہا میں صحیح معنوں میں کوئی افسانہ نہیں سنا سکتااور نہ ہی کوئی ایسی کہانی بیان کرنا چاہتا ہوں جو، آپ کے اکثر واقعات کی طرح سنی باتو ں پر مبنی ہو۔ میرا یقین ہے کہ صداقت افسانوں سے زیادہ عجیب اور دل چسپ ہوتی ہے۔ میں صرف ایک ایسا واقعہ بیان کروں گا جو،مجھے ذاتی طورپر پیش آیا اور جس کے حالات کی آج ہی دوپہر کے بعد تکمیل ہوئی۔(۲۲۴)
ساغر جعفری نے فرانسیی افسانہ نگار ہنری البرٹ المعروف گائے ۔ دی ۔موپساں کے متعدد انگریزی افسانوں کے تراجم بھی کیے۔ انھوں نے موپساں کے افسانوں کے تراجم ’’دو شیزہ صحرا‘‘ ،شمارہ جنوی ۱۹۳۷ء ،’’اعتراف گناہ‘ ‘،شمارہ فروری ۱۹۳۷ء اور ’’پابریدہ ‘‘ شمارہ جنوری ۱۹۳۹ء میں رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوئے۔ (۲۲۵)
گائے دی موپساں کے افسانے ’’دو شیزہ صحرا‘‘ اور ’’اعترافِ گناہ‘‘ The Confessionکے تراجم کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھے اس کی حالت پر رحم آگیا اور میں بھی اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا۔ محمود دور سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا ۔ میں نے محبت بھرے انداز میں امینہ سے اس کے چپ چاپ چلے جانے کی وجہ دریافت کی۔ا س پر اس نے مجھے بتایا کہ کئی دنوں سے اس کے دل میں دوبارہ خانہ بدوشوں کے سادہ و پر کیف صحرائی زندگی سے لطف اندوز ہونے کی خواہش پید اہو رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک بار پھر سے اپنے خیمے کے نیچے سونے کا موقع ملے جہاں رات کے وقت چاند کی روشنی کپڑے کی چھت سے چھن چھن کر اندر داخل ہوتی ہے۔(۲۲۶)
ایک اور سال گزر گیا اب مجھے اپنا چھوٹا سا مکان قید خانہ معلوم ہونے لگا۔ میں اپنی خانگی زندگی سے نفرت کرنے لگا۔ کیونکہ مکان میں ہر طرف نوزائیدہ بچے کو ڈھانپنے کے کپڑے اور اس کے لا تعداد لباس،جرابیں ،دستانے اور ایسی کئی دیگر اشیا بے ترتیبی سے بکھری رہتیں۔ میز کے اوپر کرسی کے بازوؤں پر جہاں کہیں بھی نظر پڑتی اس بچہ سے متعلق کوئی نہ کوئی چیز ضرور دکھائی دیتی۔(۲۲۷)
ساغر جعفری نے نامور روسی افسانہ نگار چیخوف کے انگریزی افسانہ کا ترجمہ ’’محروم خواب‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ جو رسالہ ’’ساقی ‘‘ دہلی کے شمارہ اپریل ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں سماجی محرومی کا موضوع زیرِ بحث لایا گیا ہے اور اس سے ساغر جعفری کے فکری رحجانات کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ اس افسانے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
اُس نے دیکھا کہ آسمان پر سیاہ بادل بچوں کی طرح چیختے چلاتے ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے تھے۔ یک دم زور کی ہوا چلتی ہے او ر بادل غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر اسے ایک کشادہ سڑک نظر پڑی جس کے کنارے کیچڑسے لتھڑے ہوئے تھے۔ اس نے راہ چلتے مسافروں کو دیکھا جو نیند سے مغلوب ہو کر کیچڑ میں گر پڑتے اور وہیں گہری نیند سو جاتے۔ اب اس نے خود کو ایک تنگ و تاریک جھونپڑی میں کھڑا دیکھا جہاں اس کے غریب والدین رہا کرتے تھے۔ اس کا باپ بیمار فرش پر پڑا ہوا دم توڑ رہا تھا اور انتہائی دردو کرب سے چیخ رہا تھا۔ اس کی ماں علاج کے لیے ڈاکٹر کو بلانے گئی تھی۔ ڈاکٹر نے آتے ہی مریض کو فوراً ہسپتال لے جا کر آپریشن کرنے کی رائے دی ۔ اب وار کاکی آنکھوں کے سامنے ایک اور ہی سین تھا۔ اس نے دیکھا کہ صبح کا وقت ہے اور وہ باپ کی خبر لینے ہسپتال کی طرف دوڑی جاتی ہے۔(۲۲۸)
ساغر جعفری نے نامور بنگالی افسانہ نگار رابندر ناتھ ٹیگور کے افسانے کا ترجمہ ’’بادہ مشرق کے دو جام‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ رسالہ ’’ساقی ‘‘ دہلی کے شمارہ ماہ مئی ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔ ان کے اس ترجمے میں تخلیق کا احساس نظر آتا ہے۔ اس ترجمے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
گپتا،مہاتما بدھ کا پیرو،شہر متھرا کی فصیل کے پاس خا ک پر سویا ہوا تھا۔ چراَغ گل ہوچکے تھے۔ تما م گھروں کے دروازے بند تھے، اور آسمان پر ابر نے ستاروں کو چھپا رکھا تھا۔ یک لخت کسی کے پاؤں نے اس کے سینے کو چھوااور پازیب کی چھنکار نے اسے بیدار کر دیا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ایک عورت ہاتھ میں شمع لیے کھڑی تھی۔ جس کی روشنی گپتا کی معصوم آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔(۲۲۹)
ساغر جعفری نے متعدد انگریزی نظموں کے ترجمے بھی کیے۔ ان نظموں کے شعرا میں جان لائیلی ،ٹامس کا ریو، ٹینی سن، مسفیلڈ ،ورڈزو رتھ، شیکسپیرٔ ،بن جانس اور شیلے کا نام قابلِ ذکر ہیں۔ انگریزی نظموں کے یہ تراجم رسالہ’’ ادب لطیف‘‘ کے شمارہ نومبر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئے ہیں۔
ساغر جعفر ی نے ممتاز ہندوشاعرہسروجنی نائیڈو کی انگریزی نظم A Rajput love songکا اردو ترجمہ ’’راجپوتی نغمہ محبت‘‘ کے عنوان سے کیا ہے جو،رسالہ ’’ساقی‘‘ دہلی مئی ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی۔ اس نظم اور اس کے تراجم کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں:
(Parvati at her lattice)
O love! were you a basil -wreath to tuline among my tresses.
A jewelled clasp of shining gold to bind around my steeve,
O love! were you the keaora.s soul that haunts my silken saiment
A bright ,vermillion tassel in the girgles that i weave.
پاربتی ۔دریچے میں سے
اے میرے محبوب!اگر تو اس وقت وہ تلسی کا پھول ہوتا جسے میں نے اپنے گیسوؤں میں سجا رکھا ہے…… یا تو مرصع اور چمکتا ہوا زرنگار نگینہ ہوتا جو میری آستین کی زینت بنا ہوا ہے اور اگر تو کیوڑہ کی روح ہوتا جس نے میرے ریشمی لباس کو معطر و مسحور کر رکھا رہے۔ یا تو اس پٹکہ کا چمک دار اور ارغوانی طرہ ہوتا جسے میں آج بن رہی ہوں۔(۲۳۰)
ساغر جعفری کے انگریزی افسانوں ،ڈراموں اور نظموں کے تراجم سے تخلیق اور طبع زاد کا احسا س ہوتا ہے۔ انھوں نے مختلف مواقعوں پر اُردو تراکیب، تشبیہات اور رموز و علامات سے کام لیتے ہوئے تراجم میں ادبی رنگ پیدا کیا ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
کیا شہزادہ ان کے دامِ فریب میں گرفتار ہو چکا ہے۔(۲۳۱)
کیا سچ مچ ہم عالم افلاک میں پہنچ گئے۔(۲۳۲)
مترجم اپنی تخلیقی طبع کے سبب بعض اوقات ترجمے کے بندھے ٹکے اصول و ضوابط سے انحراف بھی کرتا ہے۔ ان کے تراجم پڑھتے ہوئے ان کے رومانوی انداز ِ فکر کی جھلک بھی نظر آتی ہے:
راستے میں اُگے ہوئے درختوں کی شاخیں گل ہائے رنگا رنگ کے بارسے جھکی ہوئی تھیں۔ نسیم بہار کے جان فزا جھونکوں میں دل گداز نغمے ارتعاش پیدا کر رہے تھے۔ اہالیانِ ستھرا موسم بہار کی خوشی میں گلوں کا نظارہ کرنے کے لیے شاداب و سر سبز وادیوں میں نکل گئے تھے۔ آسمان پر سے ماہ کا مل خاموشی و سنسان مکانوں پر سکوں اور غیر متحرک سایوں کا نظارہ کر رہاتھا۔(۲۳۳)
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں :
دوسری زبانوں کی ادبیات سے مستعار /ماخوذ ہونے کے سبب اس میں کچھ کچھ غیریت کا احساس باقی رہ جاتا ہے۔(۲۳۴)
ساغر جعفری کے تراجم میں اس غیریت کا احساس کم نظر آتا ہے تاہم ان کے ہاں ’’جھنکار‘‘ کی بجائے ’’چھنکار‘‘ اور ’’ترجمہ ‘‘ راجپوتی نغمہ محبت میں ’’پاروتی ‘‘ کے بجائے ’’پار بتی ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو،اردو زبان کی بجائے پنجابی زبان میں زیادہ مستعمل ہیں۔ اسی طرح اُن کے ہاں انگریزی لفظ ’’سین ‘‘ کا ترجمہ ’’منظر‘‘ کرنے کے بجائے ’’سین‘‘ ہی تحریر کیا گیا ہے۔
نامور مصنف ایبے گلیانی(Abbe Galiane)نے کہا تھا کہ’’ ایک اچھا ترجمہ وہ ہے جو،اصل کے ساتھ موازنہ کیے بغیر پڑھا جا سکے ۔‘‘ (۲۳۵)ساغر جعفری کے تراجم میں یہ خوبی بڑی واضح طورپر نظر آتی ہے ۔ اس حوالے سے’’دو شیزہ صحرا‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
سارا دن اس عربی دو شیزہ کی یاد میرے خیالات پر حاوی رہی۔ آہ ! وہ حسین و جمیل عورت دل کش انداز سے نیم عریاں حالت میں سرخ قالین پر محوِ خواب تھی۔ تمام دن وہ دل فریب منظر میرے پیشِ نظرر ہا اور کئی مرتبہ میں نے دوبارہ محمود کے خیمے میں جانے کا ارادہ کیا تاکہ اس پیکر شباب کو جی بھر کر دیکھ سکوں- شام کے وقت محمود حسب معمول میری خدمت میں حاضر رہا۔ وہ نہایت خاموش و بے حس معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھنا چاہا کہ اس نازک اندام دو شیزہ کو کتنا عرصہ اپنے ہاں ٹھہرانے کا ارادہ رکھتا ہے مگر جرات نہ کر سکا۔ رات کے نو بجے کے قریب جب کہ میری روح ابھی تک اس سحر نسوانی سے متاثر تھی۔ میں ہوا خوری کے لیے مکاں سے باہر نکلا۔ محمود کے خیمے سے شمع کی روشنی چھن چھن کر باہر نکل رہی تھی۔ چند قدم میں اس کے خیمے کی طرف گیا مگر پھر اس خیال سے کہ کہیں محمود اس وقت مجھے اپنے خیمے کے نزدیک پھرتا ہوا نہ دیکھ لے۔ میں دور نکل گیا۔(۲۳۶)
(ب) سیالکوٹ میں اُردو نثر بعد از قیام پاکستان
امان اﷲ خان آسی ضیائی رامپوری ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ اچھے نثر نگار بھی تھے۔نثر میں وہ یک اچھے مضمون نگار،ترجمہ نگار ،تجزیہ نگاراور ماہر لسانیات کے طورپر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ آسی ضیائی کی تنقید کا ’’تنقید‘‘ والے باب میں تجزیہ ہو گا۔ آسی ضیائی کی نثری کتاب ’’شبِ تاب چراغاں‘‘ ۱۹۶۱ء میں شاہ اینڈ سنز سیالکوٹ نے نقوش پریس سے چھپوا کر شائع کی ۔ یہ ایک تذکرہ ہے جس میں ارتقائے اردو زبان کے نظریات کے ساتھ ساتھ اس کے عہد بہ عہدو نثر کے مشاہیر کا ایک ایک نمائندہ انتخاب مرتب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ اس کتا ب کا پہلا حصہ دس ابواب ،دوسرا اور آخری حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ’’شبِ تاب چراغاں‘‘ کے آغاز ہی میں آسی ضیائی نے ایک مختصر مقدمہ بعنوان ’’تقریب چراغاں ‘ ‘ رقم کیا ہے جو، کتاب کی اہمیت اور وجۂ تحریر پر روشنی ڈالتا ہے۔
اس کتاب کے مضامین کی فہرست درج ذیل ہے:
’’اردو کا مرز بوم ،انقلابات کا اثر زبان پر، دکن ، دکن کی دوبارہ تسخیر، ولیؔ،تاریخ اردو کا آغاز،ولیؔ اور ہمعصر دہلوی شعراء کے دور کا سرسری جائزہ ،ولیؔ، آبروؔ،مضمون ؔ،ناجیؔ،یک رنگؔ،حاتم اور دوسرے مصلحین کے دور کا سرسری جائزہ ، میرؔ،درد، دبستان لکھنو، ناسخ اور ان کے ہم عصر،آتشؔ،دہلی کے انقلابی شعرا کے دور کا سرسری جائزہ ،غالبؔ،مومنؔ،چراغِ سحری اور مجالس رامپور کے دور کا سرسری جائزہ، داغؔ،ریاضؔ،تجدید غزل کا سرسری جائزہ ،حسرتؔ،جگر ؔ،قصائد و مرثیہ کا سرسری جائزہ ،سوداؔ،ـذوقؔ ،محسنؔ،انیسؔ،نظیر اکبر آبادی،حالیؔ،اکبرؔ ،اقبالؔ،اخترؔ ،جوش ،مثنوی نگار، میر حسنؔ،دیا شنکر نسیم ،مصحفیٰؔ، ظفر، امیر مینائیؔ،یاس یگانہ ،فانی ؔ،اصغرؔ ،وحشتؔ،شبلیؔ،ظفرؔ علی خان، حفیظؔ۔
درج بالا فہرست مضامین سے واضح ہو جاتاہے کہ یہ مجموعہ اس قابل ہے کہ طلباکے علاوہ دوسرے لوگ بھی جنھیں شعر و سخن کا ذوق ہے اس کا مطالعہ کر کے مستفید ہو سکیں۔ یہ مجموعہ پہلے باب’’تقدیمِ چراغاں ‘‘ سے دسویں باب ’’جلوس ہشتم ‘‘ تک اسی اصول کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ ہر عہد کے ادبی خاکے کے علاوہ جا بجا حاشیے اس غرض سے دیے گئے ہیں کہ قارئین کو اشعار کے مطالب سمجھنے سے زیادہ قدرِ شعر کا مذاق حاصل ہوا ور نقدِ شعر کے اُصول سے مناسبت پیدا ہوجائے ۔ ’’شبِ تابِ چراغاں ‘‘کی وجہ تحریر بیان کرتے ہوئے آسی ضیائی مقدمہ میں یوں رقم طراز ہیں :
ضرورت تھی کہ ادبِ اردو کی مجمل تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کے عہد بہ عہد نظم و نثر کے مشاہیر کا ایک ایک نمائندہ انتخاب مرتب کیا جائے گا۔ اس مجموعے میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ ہر عہد کے ادبی رحجانات پوری طرح انتخابِ کلام میں آجائیں ۔ اور ہر شاعر کی ،جس کو شاملِ انتخاب کیا گیا ہے۔ پوری نمائندگی ہو جائے تاکہ اردو شاعری کا ارتقا مجملاً نظر میں آسکے۔(۲۳۷)
درج بالا اقتباس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ خود آسی ضیائی نے ’’شبِ تاب چراغاں‘‘ کو تاریخ ادب اردو قرار دیا ہے ممکن ہے کہ آسی ضیائی کے نزدیک یہ تصنیف ’’فن تاریخ نگاری‘‘ کے معیار پر پورا اُترتی ہو مگر اصطلاحاً ایسی کتاب کو فن تذکرہ نگاری سے منسوب کیا جاتا ہے۔
لغت کی رو سے اصطلاح شعر و ادب میں اشعار اور احوالِ شعرا سے متعلق کتاب کو تذکرہ کہتے ہیں۔(۲۳۸)
اب جب کہ ’’شبِ تاب ِ چراغاں ‘‘ میں اشعار کا ذکر بھی ہے اور شعرا کے احوال کا بھی تو اسے ’’تذکرہ ‘‘ قرار دینا قطعاً معیوب نہ ہوگا۔ ’’شبِ تاب چراغاں ‘‘کے مقدمہ ’’تقدیم چراغاں میں آسی ضیائی نے برصغیر پاک و ہند کی معاشرتی اور مذہبی روایات کا ذکر کرتے ہوئے مسلم اور غیر مسلم معاشرے کا موازنہ کیا ہے،پھر زبان و ادب کا معاشرے سے تعلق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
زبان و ادب ہی انسان کی ایسی شعوری اور نیم شعوری کوشش ہے جو، اس کا مشترک سرمایہ اور میراث بھی ہے۔ یہ شخصیت و ذہنیت کے اظہار کا آلہ ہی نہیں ،ایک قوم کی تمدنی و مزاجی کیفیات کا آئینہ ،اس کی تہذیبی سر گرمیوں کے ارتقا و انحطاط کا پیمانہ ،اس کو صحیح یا غلط راہوں پر لے چلنے والی موثر ترین طاقت بھی ہے۔(۲۳۹)
پھر آسی ضیائی نے انھی خیالات کو اردو زبان وا دب کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ ’’شبِ تابِ چراغاں‘‘ کے پہلے مضمون ’’اردو کا مرزبوم‘‘ میں آسی ضیائی نے اردو زبان کے مقام پیدائش کے تعین کے لیے پہلے تو آزاد اور پروفیسر شیرانی وغیرہ کی تحقیق پر بحث کی ہے۔ بعدا زاں اپنی تحقیق کے ضمن میں اردو زبان کا ماخذ فارسی و عربی کو ٹھہرایا ہے۔ جسے ترک منگول اور افغان برصغیر میں لائے تھے۔ ترک و افغان مسلمانوں نے ہندوستان کی مقامی بولی میں عربی و فارسی روایات کو داخل کر دیا ۔ جس سے اردو زبان معرضِ وجود میں آئی۔ اس طرح آسی ضیائی نے دہلی کو اردو زبان کا مقامِ پیدائش قرار دیا ہے۔
’’انقلابات کا اثر زبان پر ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے برصغیرپاک و ہند کی ۱۲۰۶ء تا ۱۵۲۶ء انقلابی تبدیلیوں کے حوالے سے اردو زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ امیر خسرو کی زبان دہلوی سے شاہجہاں کی زبان اردو ئے معلی تک کے مراحل کو آسی ضیائی نے اقبال کے ایک شعر سے واضح کیا ہے۔
’’دکن ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی لکھتے ہیں کہ شمالی ہند سے اُردو زبان ،مسلم فاتحین کے ذریعے سر زمین دکن تک پہنچی ۔ چودھویں صدی کے وسط اور اکبر سے اورنگ زیب کے زمانے تک دکن میں اُردو کا جو حال ہوا ۔آسی ضیائی نے اسے ان گھڑ اور بے ہنگم سی زبان قرار دیا ہے۔ آسی ضیائی کے مطابق مذکورہ بالا حالات کے بعد ہی اورنگ زیب عالمگیر دکن کی تسخیر کا عزم اور منصوبہ لے کر اس سر زمین میں وارد ہوا ۔ اس طرح بالآخر وہ زمانہ آیا جب محمد تغلق کے بعد پہلی بار اہلِ دکن کو شمال والوں کے تمدن اور زبان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
’’ولی تاریخ اردو کا آغاز‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے ولی کے ۱۷۰۰ء کے سفرِ دہلی کو اردو ادب کی تاریخ کا پہلا اور اہم ترین کارنامہ قرار دیا ہے۔ اور ولی کے دیوان میں ’’زبان دکن‘‘ کے بجائے اردو ئے معلی کی نشاندہی کی ہے۔ ’’ولی اور ہم عصر دہلوی شعراء‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے ولی اور ان کے ہمعصر شعراء کی شاعری کے پس منظر کا احاطہ کرنے کے بعد، اس عہد کی شاعری کی خصوصیات کچھ یوں بیان کی ہیں:
ولی ہوں یا دوسرے دہلوی شعرا سب اپنی غزلوں میں ہنستے کھیلتے،بے فکر ، خوش باش نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں تقریباً ہر وہ مضمون ہے جو فارسی شاعری میں تھا۔ تصوف، غزل ،رقابت، ہجرو وصال ،سراپا ئے محبوب سبھی کچھ اس وقت کی غزل میں ملتا ہے۔ مگر سب میں اس عہد کے دلی والوں کا اھلا گہلاپن جھلکتا ہے۔(۲۴۰)
آسی ضیائی نے ولی اور دیگر ہم عصر شعرا کے کلام کا انتخاب بھی کیا ہے۔ ’’مشعل بردار میرؔ، دردؔ ‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے ۴۰۔۱۷۳۹ء میں نادر شاہ کے حملہ دہلی کا ذکر کرنے کے بعد دہلوی شعرا کے ہاں تین بنیادی رجحانات غمِ دل ،غم دوراں اور توکل کی نشاندہی کی ہے۔آسی ضیائی لکھتے ہیں :
یہ تین رجحان بیک وقت ایک ہی شاعر کے ہاں کم و بیش ملتے ہیں لیکن اگر ہر رجحان کی صحیح نمائندگی کے لیے ایک ایک شاعر کا انتخاب کیا جائے تو پہلے رجحان (غمِ دل) کا نمائندہ میر تقی میر کو قرار دینا ہو گا، دوسر ے(غمِ دوراں) کا سوداؔ کو ،اور تیسرے (توکل) کا خواجہ میر دردؔ کو۔(۲۴۱)
’’اصنافِ شعر‘‘ مضمون میں مصنف نے مختلف اصنافِ سخن ،غزل، قطعہ ،قصیدہ اور مثنوی پر بحث کی ہے۔ ’’غزل‘‘ مضمون میں غزل کی ہیئت متعین کرنے سے قبل آسی ضیائی نے غزل کو قصیدے کا ابتدائی جز قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ غز ل کی مخصوص روایات سے کوئی شاعر روگردانی نہیں کر سکتا۔ البتہ ،میرؔ ،غالبؔ اور حسرتؔ جیسے غیر معمولی شاعر اس پابندی سے مستشنیٰ ہیں۔
’’قصیدہ ‘مضمون میں آسی ضیائی نے قصیدہ کی تعریف کے بعد اس کے موضوعات ،حمد الہیٰ، نعتِ رسولؐ ،منقبتِ بزرگانِ دین اور بادشاہِ وقت کی ثنا خوانی کا ذکر کرتے ہوئے اس کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:
قصیدے کی خصوصیات میں تخیل کی بلند پروازی الفاظ کی شوکت، بیان پر قدرت ،تشبیہوں اور استعاروں کی جدت اور دلکش اور شاعر کی مختلف علوم و فنون میں مہارت شامل ہیں۔(۲۴۲)
آسی ضیائی نے اس مضمون میں سوداؔ، ذوقؔ، مومنؔ،منیرؔاور محسنؔ کو معیاری قصیدہ گو قرار دیا ہے۔ ’’قطعہ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایاہے کہ اگر مستقل نظم ہو تو قطعہ بھی غزل جیسی شکل رکھتا ہے البتہ اس کا مطلع ہونا ضروری نہیں۔قطعہ ایک ہی مضمون پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس طرح غزل میں قطعہ بند کی اصطلاح کی وضاحت بھی ہے۔ ’’مثنوی‘‘ مضمون میں مثنوی کی ہیئت بتانے کے بعد مصنف نے فارسی کی مثنویوں جیسے فردوسی کی مثنوی ’’شاہ نامہ‘‘ مولانا رومی کی مثنوی ،نظامی کی ’’سکندر نامہ‘‘ سعدی کی ’’بوستان ‘‘ اور اردو مثنویوں سحر البیان اور ’گلزار نسیم کا ذکر کیا ہے۔ آسی ضیائی نے چند شاعروں میرؔ، مصحفیؔ،مومنؔ،داغؔ، شوقؔ لکھنوی ،نسیمؔ لکھنوی ،محسنؔ کاکوروی اور حفیظ جالندھری کی مثنویوں کی تعریف کی ہے۔
’’اصلاحِ سخن‘‘ مضمون میں مصنف نے بحث کا آغا ز ظہور الدین حاتمؔ کے زمانے سے کیا ہے۔ حاتم عبوری دور کا شاعر تھا۔ اس کے زمانے میں اصنافِ سخن غلط تلفظ اور غلط اضافت کی تصحیح کی گئی ۔ سوداؔ ،مظہرؔ، میرؔ اور دردؔ نے بھی اصلاحِ سخن میں حصہ لیا۔ ’’بعض قدیم الفاظ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے ان الفاظ کی ایک فہرست مرتب کی ہے جو، حاتم کے زمانے میں موجود تھے مگر بعد میں متروک ہوئے جیسے آوے، کرے ہے۔ آئیو، آتیاں اور جاتیاں وغیرہ۔’’ میر محمد تقی میر‘‘ مضمون میں مصنف نے میر کے مختصر حالاتِ زندگی کے بعد میرؔ کی فطرت کی غم ناکی کے اسباب بیان کیے ہیں۔ جن میں ایک نوجوانی کی ناکام محبت اور اعزا و اقربا کی بد سلوکی اور دوسرا سبب ان کی زبان ہے۔ جو دردؔ ،سوداؔ اور مظہر کی زبان سے کم شستہ تھی۔ آسی ضیائی لکھتے ہیں :
میر کا کلام پڑھنے والا اس کی تاثیر میں اتنا کھو جاتا ہے کہ زبان کی نادر ستی کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک بچے کی توتلی باتیں بڑے آدمی کی شستہ گفتگو سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہیں اور اگر کہیں وہ بچہ اس توتلی زبان میں اپنی مصیبتیں بھی بیان کرنے لگے تو اور بھی قیامت خیز ہو جائے گا۔(۲۴۳)
غزل کے علاوہ اس مضمون میں مصنف نے مثنوی ، قصیدہ ، مرثیہ اور رباعی کے حوالے سے میر کی شاعری پر بھی بات کی ہے۔
’’خواجہ میر درد‘‘ مضمون میں دردؔ کی غزلوں میں تصوف، معرفت اور توکل کی نشاندہی کے بعد درد کی غزل کی تعریف میں آسی ضیائی کچھ یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں:
سادگی میں ندرتِ خیال کو سمونا ، شائستہ اندازِ بیان اور معیاری شریفانہ زبان لکھنا ان کا شیوہ ہے ۔ہجو ،مدح یادوسرے غیر اخلاقی مضامین سے ان کی شاعری کا دامن پاک ہے۔(۲۴۴)
مصنف کے مطابق علمائے ادب نے انھیں اردو کے چار بڑے ارکان مظہرؔ، دردؔ،سوداؔاور میرؔ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ وہ چار ہستیاں تھیں۔جنھوں نے اردو کو ادبی روایات سب سے زیادہ دی ہیں۔’’ناسخ اور ان کے ہم عصر(دبستان لکھنو)‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے دبستان لکھنو کے آغاز کا ذکر کیا ہے۔ جب دہلی کی تباہی کے بعد اہلِ کمال نے اودھ، فیض آباداور لکھنوکا رخ کیا اور شاعری میں متانت اور سوزو گداز کی جگہ بازاری پن اور ظرافت نے لے لی۔ اس دور کے شعرا کے بارے میں مصنف کی رائے ملاحظہ ہو:
اس عہد کا سب سے متین شاعر مصحفی ہے جس کے ہاں قدیم و جدید دونوں رنگ ملتے ہیں۔ انشاء کا کوئی مستقل رنگ نہیں البتہ ذہانت ہر شعر سے ظاہر ہوتی ہے۔ رنگین کا بھی تقریباً یہی حال ہے اور فحاشی میں وہ غالباً سب ہم عصروں سے آگے ہیں کیونکہ یہی ریختی کے بھی موجد ہیں۔ جرأ ت اس عبوری دور کا سب سے نمائندہ شاعر ہے لیکن اس کا کوئی انتخاب ایسا نہیں جو غیر اخلاقی باتوں سے پاک ہو۔(۲۴۵)
’’نیا دبستان‘‘ عنوان سے مصنف نے لکھنوی دبستان کی ادبی خصوصیات بیان کرنے سے پہلے میرؔ و سوداؔ کے دور کا بھی ذکر ہے ۔بعدا زاں ناسخ کا مختصر ذکر ہے ۔ آسی ضیائی نے اس دبستان کی خصوصیات اس طرح بیان کی ہیں:
تصوف تقریباً بالکل چھوڑ دیا گیا اور اخلاقی مضامین بھی برائے نام رہ گئے۔ غزل کی خوبی کا معیار درست زبان ،صنائع لفظ و معنوی اور تخیل کی بلند پروازی قرار دیا اور ان باتوں پر اتنا زور دیا گیا کہ تاثیر جذبات( جو غزل کی اصل جان ہے)مفقود ہو گئی اس لیے لکھنوی تغزل کی خصوصیت آورد،تصنع اور پر تکلف بناوٹ بتائی جاتی ہے۔ اور انھیں باتوں کی بنا پر لکھنوی شاعری ،دہلوی شاعری سے جدا اور نمایاں ہے۔(۲۴۶)
’’مشعل بردار‘‘ مضمون میں ناسخؔ کے ہم عصر و حریف اور مصحفی کے شاگرد کے مختصر حالاتِ زندگی رقم کرنے کے بعد مصنف نے آتش کی غزل کے بارے میں لکھا ہے :
ان کی شاعری میں فحاشی بہت کم ہے سادہ انداز میں جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ خارجیت جو لکھنوی رنگ کی خصوصیت ہے ۔ ان کے ہاں بہت واضح طورپر ملتی ہے۔ اخلاقی مضامین ، خصوصاً توکل اور استغنا کو طرح طرح سے بیان کیا ہے۔(۲۴۷)
’’دہلی کے انقلابی شعرا ‘‘ مضمون میں مصنف نے ۱۸۰۳ء سے ۱۸۵۷ء کے درمیانی عرصہ کے شعرا کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان میں شاہ نصیرؔ، ذوق ،ظفر ،معروف ،عیش ،احسان ،حقیرشامل ہیں۔پھر غالب ،مومن اور شیفتہ کا ذکر ہے ۔جنھوں نے عرضی ،نظیری ،بیدل اور حزیں سے اثر لیا اور بقول آسی ضیائی:
یہ وہ لوگ ہیں جن کی بدولت اردو شاعری ابتدائی ترکیبی دور سے نکل کر ترقی یافتہ تحلیلی دور میں داخل ہوئی۔ اسی لیے ہم نے انھیں انقلابی شعراکہا ہے۔(۲۴۸)
’’غالب‘‘ مضمون میں اسد اﷲ خان غالب کے مختصر حالات زندگی کے بعد آسی ضیائی نے ان کی شاعری کی متعدد خصوصیات رقم کی ہیں۔ جن میں جدتِ خیال جدتِ ادا ،حقیقت پسندی ،تصوف،فلسفہ ،عشق و عاشقی ،اخلاقیات ،دین داری وغیرہ شامل ہیں ۔غالب کی اردو نثر نگاری کی اردو ادب میں اہمیت بیان کی ہے۔ مضمون ’’مومن‘‘ میں آسی ضیائی نے مختصر سوانح حیات کے بعد مومن کی شاعری پر بات کی ہے کہ مومن کی شاعری میں صرف تغزل ہے جس پر جرأت کا اثر نمایاں ہے۔ مگر جرأت کی سی بے باکی اور عریانی سے مبرا ہے۔ مومن کی مثنویوں اور قصائد کے ذکر کے بعد بحث کا رخ مومن کے شاگردوں ،شیفتہ اور نسیم دہلوی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔
’’چراغِ سحری(مجالس رامپور) ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی رامپوری نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد رامپور شہر کے حالات بیان کیے ہیں۔ جہاں ناسخ و آتش اور ذوق اور مومن کے شاگردوں کی آمد سے لکھنوی شاعری کا خاصا فروغ ہوا۔ آسی ضیائی نے یہاں ان کے شاگردوں میں سے امیر مینائی ،جلال لکھنوی ،منیر شکوہ آبادی اور تسلیم لکھنوی کے نام لکھے ہیں۔ ’’داغؔ‘‘ مضمون میں مرزا خاں داغؔ کے حالاتِ زندگی کے بعد ان کی شاعری کی خصوصیات رقم کی ہیں۔ ایک جگہ پر آسی ضیائی داغ کے بارے میں لکھتے ہیں :
ان کے بے شمار اشعار بلکہ بعض دفعہ پوری کی پوری غزلیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک بھی فارسی ترکیب نہیں ہوتی ۔ لب و لہجہ اورتیور میں ایسا تیکھا پن ہوتا ہے کہ زبان سے ادا کرنے سے ہی اس کا لطف آسکتا ہے۔ مضامین میں وہ شوخی اور بے تکلفی ہے جو، اس وقت کی روایتی غزل کے اسلوب غم و الم کے بالکل برعکس ہے۔(۲۴۹)
اس مضمون میں دوسرے شاعر ریاض خیر آبادی کا تعارف آسی ضیائی کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاض کی سب سے زیادہ شہرت ان کے خمریات کے باعث ہے کہ شراب کا ایک قطرہ چکھے بغیر تیرہ سوسے زیادہ اشعار شراب اور اس کے لوازم و تعلقات پر ایسے ایسے جدید اور بانکے پیرائے میں کہے ہیں کہ پڑھنے والے پر مے کشی کا کیف طاری ہو جاتا ہے ان کی کوئی غزل اس قسم کے اشعار سے خالی نہیں ہوتی۔ پھر قصیدہ ،رباعی ، ترکیب بنداور قطعہ وغیرہ میں ریاض کی خصوصیات شاعری کا ذکر ہے۔
’’تجدیدِ غزل‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے تجدید تغزل کا ایک باعث تو حالی ؔ کی تحریکِ جدید کو قرار دیا ہے۔ جس کی زد میں ثاقبؔ،محشرؔ،صفیؔ اور عزیزؔ جیسے شعرا بھی آئے اور دوسرا باعث قدیم ریا ستوں کے خاتمے کو قرار دیا ہے کہ جس کی وجہ سے قصیدہ ،مثنوی اور مرثیہ جیسی اصنافِ سخن کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ مضمون’’حسرت‘‘ میں حسرت موہانی کے سوانح حیات بیان کرنے کے بعد آسی ضیائی نے ان کی شاعری کی خصوصیات بیان کی ہیں جن میں سادگی ،ظرافت، متانت، شائستگی ،گھلاوٹ ،گداز کے ساتھ ساتھ غزل میں نئے موضوعات کی موجودگی شامل ہے۔ آسی ضیائی لکھتے ہیں :
وہ جیل میں جا کر ’’چکی کی مشقت‘‘ کا ذکر بھی غزل میں کر سکتے ہیں۔ او ر’’ڈاکٹر انصاری ‘‘کا شکوہ بھی ۔مسٹر تلک کے مرنے پر مرثیہ بھی لکھ سکتے ہیں اور ’’قبرص کی پری‘‘ کا سراپا بھی۔(۲۵۰)
مضمون’’جگر‘‘ میں جگر مراد آابادی کے مختصر حالاتِ زندگی کے بعد مصنف نے ان کی شاعری کے دو ادوار بیان کیے ہیں۔ پہلا دور اس زمانے کا ہے جب برصغیر میں اقتصادی اور معاشرتی مسائل کی تلخی کے باوجود جگرؔ نے تخیل کی دلکشی کو اپنایا دوسرا دورا نھی حالات میں شعور اوربصیرت کی بیداری کا ہے۔ اسی مضمون میں آسی ضیائی نے فانیؔ اور اصغرؔ کا بھی مختصر ذکر کیا ہے۔
’’قصائد و مرثـیہ‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے ان شعرا کا ذکر کیا ہے کہ جو بزمِ تغزل میں تو نام آور ہوئے مگر قصیدہ و مرثیہ میں ان کا کوئی بدل نہ ہو سکا۔ یعنی سوداؔ، ذوقؔ، محسنؔ اور انیسؔ۔
مضمون ’’سوداؔ‘‘ میں مصنف نے محمد رفیع سوداؔ کی غزل، قصیدہ ،ہجو نگاری ،مرثیہ اور شہرِآشوب کا ذکر کرتے ہوئے انھیں قصیدہ اور ہجو نگاری کا نمائندہ شاعر کہاہے۔ زور بیان ،رفعت تخیل، مبالغہ آرائی ، تشبیہات و استعارات کی کثرت، جدت اور تنوع مضامین ان کے قصیدہ کے لوازم میں شامل ہیں۔ پھر ان کی غزل کی ناکامی کی وجہ آسی ضیائی نے یہ بیان کی ہے:
ایک توان کے جذبے کی صلاحیت ،بلکہ درشتگی اس حدتک تھی کہ غزل کی نرمی اس کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ دوسرے ان کو میرؔ کی طرح غالباً نا کامی الفت کا کوئی ایسا تجربہ نہ ہوا تھا۔ جس کی بدولت وہ ہمہ تن وارداتِ دل میں ہی محو ہو کر رہ جاتے۔(۲۵۱)
’’محسن‘‘مضمون میں مصنف نے محسن کاکوروی کی نعت گوئی کے حوالے سے بحث کی ہے۔ لکھنوی ہونے کے ناطے سے محسن کے نعتیہ قصائد میں لکھنوی صناعیوں اور جذباتِ محبت کے خلوص کا ذکر بھی آسی ضیائی نے کیا ہے ۔ ’’انیسؔ‘‘ مضمون میں میر ببر علی انیسؔشجرہ نسب بیان کرنے کے بعد مصنف نے مرثیہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔علاوہ ازیں اس مضمون میں مرثیہ انیس کی دیگر خصوصیات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ’’چراغ بے نظیر‘‘ مضمون میں مصنف نے ولی محمد نظیرؔ کے مختصر تعارف کے بعد کلام نظیرؔ کی رنگا رنگی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
ان کی قوت مشاہدہ اتنی باریک بیں ہے کہ مناظر، تخیل اور جذبات کی چھوٹی تفصیل بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔ اورا ن سب کے علاوہ نظم کا اصل ظاہری جادو، موسیقیت اور آہنگ تنہا نظیر ہی کے ہاں اور ایسا وافر ملتا ہے کہ ان کی بہت سی نظموں میں الفاظ کی آوازیں اورا ن کی ترتیب مختلف سازوں کی جھنکار سناتی ہیں۔(۲۵۲)
اس کے بعد مصنف نے کلامِ نظیرؔ کے ان معائب کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے ان کا کلام اعلیٰ درجے میں شمار نہ ہو سکا۔ ’’قرن منور‘‘ عنوان میں آسی ضیائی نے حالیؔ،اکبرؔ، اقبالؔ، اخترؔ اور جوش کا ذکر کیا ہے مگر سب سے پہلے سر سید تحریک کے حوالے سے مصنف نے حالی کی قدیم و جدید دور کی شاعری پر بحث کی ہے۔ اور غزلیات اور نظموں پر الگ الگ تبصرہ کیا ہے ۔آخر میں لکھتے ہیں :
حالی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نظم ’’مسدس مدو جزر اسلام‘‘ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انیسویں صدی کی مقبول ترین کتاب ہے۔ مسلم قوم کے آغاز ،عروج و زوال کا ایسا واضح نقشہ اور اس پر اتنا پر خلوص تبصرہ اس نظم میں ہے کہ اس کی تاثیر میں آج تک کمی نہیں محسوس ہوتی۔(۲۵۳)
’’اکبر‘‘ مضمون میں مصنف نے سر سید تحریک کے سب سے زیادہ قابلِ ذکر مخالف سید اکبر حسین، اکبر الہ آبادی کی شاعری پر بحث کی ہے۔
’’اقبال ‘‘مضمون میں مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کے مختصر تعارف کے بعد آسی ضیائی نے علامہ کی شاعری پر قلم اٹھایا ہے ۔اقبال کی ابتدائی شاعری میں جستجو اور محبت کے جذبات اور سفرِ یورپ کے تجربات کا ذکر کرنے کے بعد انھیں مایہ ناز اور عظیم ترین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔ ’’اختر ‘‘ مضمون میں پہلے تو مصنف نے برصغیر کے ان حالات کا ذکر کیا ہے۔ جن کے تحت شعر و ادب میں غزل کی بجائے نظم کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ پھر آسی ضیائی نے معروف نظم گو اخترؔ شیرانی کے مختصر تعارف کے بعد ان کے فن پر کچھ یو ں تبصرہ کیا ہے:
اختر کی شاعری گویا نغمہ و صوت کی شاعری ہے جس میں اس دنیا کی تلخیوں کے بجائے ستاروں اور کہکشاں کا سا طلسمی سکون ہے۔ اس میں گداز اور گھلاوٹ بھی ہے لیکن وہ عالم ،سماں ،وہ ماحول ،جہاں کا منظر اخترؔ کھینچتے ہیں ۔ خوابوں کی پر اسرار زمین معلوم ہوتی ہے۔ جہاں اس پہاڑی چشمے کی سی ہلکی ہلکی روانی لیے ہوئے شاعر کا کلام افسوں کرتا محسوس ہوتا ہے۔(۲۵۴)
مضمون ’’جوشؔ‘‘ میں آسی ضیائی نے جوشؔ کو باغی شاعر قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس مضمون میں جوش کی معاشرے سے بغاوت، حکومتِ برطانیہ سے بغاوت اورا پنے وطن سے بغاوت کا ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں شاعر کے فن پر بھی بحث کی ہے۔ جوش کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
جوش کے ہاں صرف آگ، بجلی ،موت ،آندھی جیسی چیزوں کی گھن گرج ہی نہیں ان کی شاعری کا ایک نرم لطیف اور رومانی گوشہ بھی ہے۔ اور غالباً وہی خوشگوار تر ہے۔(۲۵۵)
’’سحر البیان پر ایک نظر‘‘ مضمون میں مصنف نے میر حسن کی مثنوی سحر البیان کا تعارف کروانے کے بعد مثنوی کے اشعار کے حوالے سے اس کا فنی و فکری جائزہ لیا ہے۔ ’’گلزارِ نسیم کے بارے میں ‘‘ مضمون میں مصنف نے پنڈت دیا شنکر نسیم کی ’’مثنوی گلزارِ نسیم‘‘ کا فنی و فکری جائزہ لیتے ہوئے اشعار کا حوالہ دیا ہے۔ ’’شیخ غلام ہمدانی مصحفی امروہی ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اُستادوں کے اُستاد مصحفی کے حالات ِ زندگی بیان کرنے کے بعد ان کے تمام سرمایہ کلام کا ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں مصحفی کی غزلوں کے چند اشعار سامنے رکھ کر ان کی خصوصیات شاعری کو بیان کیا ہے۔ مصحفی کی شاعری کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
ان کی زبان میرؔ و سوداؔ کی زبان سے زیادہ صاف اور ہموار ہے۔ صرف چند الفاظ و محاورات ،جو اس وقت تک متروک نہ ہوئے تھے مصحفی نے بھی باندھے ہیں۔ دہلی میں جس قسم کی شاعری کی قدر تھی اس کی خصوصیت سوزو گداز ،متانت ،وضع داری اور مزاج کا ٹھہراؤ ہے یہ باتیں مصحفی کے ہاں جب بھی آجاتی ہیں ان کا کلام میر سے جا ملتا ہے۔(۲۵۶)
’’ابو المظفر سراج الدین بہادر شاہ ظفر‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بہادر شاہ ظفر کی مختصر حالاتِ زندگی بیان کرنے کے بعد ان کے ہم عصر شعرا ،غالب، ذوق اور مومن سے موزانہ کیا ہے۔ ’’منشی امیر احمد امیر مینائی لکھنوی ‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے امیر مینائی کے مختصر حالات زندگی رقم کرنے کے بعد ان کے نظم و نثر کے حوالے سے بات کی ہے۔
’’میرزا یاس ؔ یگانہؔ‘‘ دو تخلص یاسؔ اور یگانہؔ میں آسی ضیائی نے سب سے پہلے تو میرزا واجد حسین کے دو تخلص یاسؔ اور یگانہؔ کے وجۂ تسمیہ بیان کی ہے۔ پھرا ن کے فلسفہ ’’خود پرستی ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے غالب اور حالی کا ذکر بھی خاص طور پر کیا ہے۔ مصنف نے یگانہ کے کلام کے حوالے سے ان کی خصوصیات شاعری بیان کی ہیں۔ اس میں مصنف نے یگانہ کے چند اشعار کی اصلاح بھی کی ہے۔
’’شوکت علی خان فانی بدایونی ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے فانیؔ کی شاعر ی کے حوالے سے بحث کی ہے اور متعدد اشعار منتخب کیے ہیں۔ غالبؔ اور میرؔ کے رنگ میں رنگے فانی ؔ کے اشعار کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ ’’اصغر گونڈوی‘‘ مضمون میں مصنف نے اصغرؔ کو اردو کا حافظ کہا ہے ۔ یہاں اصغر کی خصوصیاتِ کلام کا موازنہ حافظؔ کے علاوہ اقبالؔ ،اخترؔ اور فانیؔ سے بھی کیا ہے۔ اصغر کے حالاتِ زندگی بھی بیان کیے ہیں۔ ’’وحشت کلکتوی ‘‘ مضمون میں مصنف نے واضح کیا ہے کہ وحشتؔ کی شاعری پر غالب اور مومن کا اثر نمایاں ہے۔ دلیل کے طورپر حالی اور شبلی کے فرمان بھی قلم بند کیے ہیں۔’’علامہ شبلی نعمانی‘ ‘ مضمون میں آسی ضیائی نے شبلی کی ادبی عظمت کی دلیل کے طورپر ان کی تصانیف کی ایک فہرست پیش کی ہے ۔پھر شبلی کی فارسی اور اردو شاعری کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ شبلی اور حالی کی شاعری کے موازنہ کے بعد مصنف نے شبلی کی تین نظموں کا انتخاب کیا ہے۔ ’’مولانا ظفر علی خان‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے مولانا کی حالاتِ زندگی ،صحافتی زندگی اور ان کی شاعری کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ ایک جگہ پر مولانا ظفر علی خان کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وہ نہایت بدیہہ گو شاعر تھے اور بڑی تیزی اور روانی کے ساتھ ایک نشست میں خاصی بڑی نظمیں کہہ لیتے تھے۔ ان کی نظمیں فن اور زبان کے اعتبار سے نہایت کامل ہیں۔ خصوصاً مزاحیہ انداز میں نئے نئے اور مشکل قافیے نبھاتے ہیں۔ وہ اکبر کے بعد سب سے زیادہ مشاق شاعر ہیں۔(۲۵۷)
’’ابولاثر حفیظ جالندھری ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے حفیظ کی حیات و فن پر بحث کرتے ہوئے ان کی نظموں کا اختر کی نظموں سے موازنہ کیا ہے۔ اس مضمون میں حفیظ کی نظموں اور گیتوں کی فنی خصوصیات بیان کی ہیں۔
آسی ضیائی کی کتاب ’’کھوٹے سکے‘‘ مکتبہ افکارِ نو کراچی سے ۱۹۵۰ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب مضامین ،افسانوں اور ڈراموں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے چار حصے طنزیات، افسانے، ڈرامے اورملت کا فیصلہ ہیں۔ اس کتاب کی ابتدا میں آسی ضیائی نے’’ طنبورہ من چہ می سراید‘‘ کے عنوان سے ایک مقدمہ رقم کیا ہے۔طنزیات حصے میں ’’یسوف کی باتیں‘‘ ،’’الدستور فی بیان حقائق الجمہور‘‘ ،’’قانونِ تحفظ‘‘ ،’’سلطانی جمہور کاآتا ہے زمانہ‘‘ اور ’’ایک جدید تفسیر‘‘ پانچ مضامین ہیں۔ حصہ ’’افسانہ ‘‘ میں ’’اونچی محرابیں ‘‘ ،’’چھینٹ ‘‘ ،’’تقابل‘‘ ،’’سیر پانچویں درویش کی ‘‘ اور ’’شتہیر اور تنکے ‘‘ پانچ مضامین ہیں۔حصہ ’’ڈرامے ‘‘ میں پرواز ہم جنس ،للو مذکورہ بالا ،کھوٹے سکے، ہاضمے کی چورن ،رضا جوئی پانچ مضامین ہیں۔ حصہ ’’ملت کا فیصلہ‘‘ میں ایک مضمون ملت کا فیصلہ ہے۔ یہ مضامین کیوں لکھے گئے؟ اس سوال کا جواب آسی ضیائی کے تحریر کردہ مقدمہ ’’طنبورہ من چہ می سراید‘‘ میں موجود ہے۔ مصنف لکھتے ہیں :
آج سے تقریباً ساڑھے تین سال پہلے میں نے ’’رضا جوئی‘‘ لکھا تھا او راعتراف کرتا ہوں کہ میدانِ ادب میں قدم رکھنے کی لغز ش پہلے مجھی سے سرزد ہوئی تھی۔ اب اگر میں ترقی پسند مصنفین کی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کرتا یا ترقی پسند نہ سہی اسی قسم کے کسی اور پسند یا نا پسند گروہ ادبا سے اپنا ادبی شجرہ ملا تا تو ایک ہی آدھ مضمون لکھنے کے بعد اس سیلاب مضمون نگاری میں غرق ہو جاتا جس میں مجھ جیسے سینکڑوں ایسے ڈوبے کہ اُبھرنے بھی نہ پائے۔ میں نے اس مرتبہ اپنے تئیں اس تحریک سے وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک واضح نصب العین سامنے رکھ کر تفریحی مضمون نگاری شروع کی تھی ۔ جس میں ایسے ادیب تقریباً عنقا تھے۔(۲۵۸)
علاوہ ازیں آسی ضیائی نے مدیر ’’کوثر‘‘ مدیر ’’الحسنات‘‘ اور مدیر ’’سلبیل‘‘ کو اپنی مضمون نگاری کے محرکات قرار دیا ہے۔ مقدمہ کے آخر میں مصنف نے اپنے افسانوں اور ڈراموں کا تعارف قارئین سے کروایا ہے۔ مذکورہ بالا مضامین کا لبِ لباب ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
’’یسو ف کی باتیں‘‘ مضمون میں مصنف نے تمثیل کے انداز میں کیمونسٹ رہنماؤں پر طنز کی ہے ۔ یسوف نامی ایک کیمونسٹ اپنے کامریڈ سے خطاب کرتے ہوئے فرہاد، خسرواور شیریں کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں فرہاد سے مراد پر ولتاری طبقہ ہے اور خسرو سے مراد بورژ واطبقہ ہے اور شیریں سے مراد راحت ارضی ہے جو رپورتاژ نے غضب کر رکھی ہے جسے پر لتاری حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ بورژوا محروم رہ جائے۔
’’الدستور فی بیان حقائق الجہمور ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کی طنز کا اگلا ہدف جمہوریت ہے۔ الدستو فی بیان حقائق الجہمور‘‘ مصنف کے اس فرضی رسالے کا نام ہے جسے انھوں نے اس مضمون میں بالتفصیل متعارف کروایا ہے ۔ رسالہ متعدد ابواب اور تین فصول پرمبنی ہے۔ پہلی فصل میں جمہوریت کی تعریف دوسری میں ذات و صفات خدا وندی پر بحث اور تیسری فصل میں عبادات جمہوریت کی شرائط کا بیان کیا ہے۔ جس میں کثافت ِ قلبی ، نظامتِ ظاہری اور اوقاتِ عبادات شامل ہیں۔ ’’قانونِ تحفظ پاکستان‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے آئین پاکستان کی مروجہ دفعات اور ابواب کوتحریف کے طورپر رقم کیا ہے۔
مصنف نے ’’قانونِ تحفظ اسلام پاکستان ‘‘ کے عنوان سے تیس دفعات پر مشتمل چھ ابواب کا آئین ِ نو تشکیل دیا ہے۔ ’’سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ‘‘ مضمون میں مصنف نے ملک یوطوفیا کا تعارف کروایا ہے۔ پھر اس ملک میں نظامِ جمہوریت کے ضمن میں منتخب شدہ دستور ساز مجلس کا ذکر کیا ہے۔ ’’ایک جدید تفسیر‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے خطیبانہ لہجہ اختیار کر کے اپنی جدید تفسیر کی وضاحت کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا ہے:
آپ بحیثیت مسلمان ہونے کے یقین رکھتے ہیں کہ آپ کا مقدس قرآن آپ کی تمام دینوی و اُخروی فلاح کا ضابطہ ہے ۔ پس میں بھی آپ کے اس یقین کو مزید استحکام پہنچانے کے لیے اس کے ان مطالب کو آپ کے سامنے لا رہا ہوں جس پر آپ کا عمل تو عرصۂ دراز سے ہے لیکن کے ساتھ نہیں ، لا شعوری یا نیم شعوری جذبے کے ساتھ۔(۲۵۹)
بعد ازاں مصنف نے چودہ سو سال قبل کے قرآن کی تاویل و تفسیر بیسویں صدی کے تقاضوں کے تحت کی ہے۔ قرآن کے جن موضوعات کو ’’ہدف طنز‘‘ بنایا گیا ہے۔ ان کا تعلق حکومت، نماز، روزہ اور شراب کے احکامات سے ہے۔
آسی ضیائی کے افسانے ’’اونچی محرابیں‘‘ کا مرکزی کردار ایک ڈپٹی کلکٹر ہے جو، اپنی زندگی کی ہر اہم ذمہ داری قبول کرتیہی اپنے لا شعور میں بنی عالیشان عمارت کو بلند ہوتے دیکھتا ہے۔ اس عمارت کی پہلی منزل اس وقت تعمیر ہوئی جب اسے ایل ایل ۔بی کی ڈگری عطا کی گئی۔ دوسری منزل کی تعمیر کا موجب اس کی شادی تھی۔ اور تیسری منزل اس وقت بنی جب اسے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا اور پھر عمارت کا آخری حصہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب ڈپٹی کلکٹر ’’حاکمیت‘‘ کے تصور کی گواہی کے لیے خلوصِ دل سے ’’لا الہ الا اﷲ ‘‘ کہناہے۔ اس موقع پر مصنف کے یہ الفاظ افسانے کے عنوان کی تشریح بھی کرتے ہیں۔ اور افسانے کے اختتام کا اعلان بھی ۔
ایسا معلوم ہوا گویا صدیوں کی جمعی جمائی بستی الٹ گئی ہے۔ اس کی ان دیکھی پُر اسرار عالیشان عمارت بڑھتے بڑھتے دنیا پر چھانے لگی۔ جس کی اونچی اونچی محرابیں بلند ہوئی آسمان سے پار نکل کر عرش تک پہنچنے لگیں۔(۲۶۰)
آسی ضیائی کے افسانے ’’چھینٹ‘‘ کا آغاز چھینٹ کے ذکر سے ہوتا ہے۔ ایک طویل تمہید کے بعد بالآخر اس ’’چھینٹ‘‘ کا راز بھی فاش ہوتا ہے جو، افسانے کا موضوع اور عنوان ہے۔ افسانہ نگار نے وہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب ان کی کثرتِ پان خوری کی وجہ سے پان کی پیک کی محض ایک چھینٹ ان کے مخاطب کے چہرے پر پڑ جاتی ہے۔ مگر مخاطب کسی متوقع ردِ عمل کا اظہار کرنے کے بجائے اُنگلی سے وہ چھینٹ صاف کر لیتا ہے۔ مصنف اس واقعہ سے متاثر ہو کر سوچتا ہے کہ اگر ایک غلطی کا نشان ایک چھینٹ ہو سکتی ہے۔ تو ہم نجانے دن میں کتنی غلطیاں کرتے ہیں جن کا مداوا نہیں ہو سکتا اور جس کا مطلب بہت سی چھینٹیں ہیں۔
آسی ضیائی نے اپنے افسانے ’’تقابل‘‘ میں ’’مرغِ باد نما‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہے جو، اپنی رہائش گاہ سے اسی ’’مرغِ باد نما‘‘ کا نظارہ کرتا ہے جو، ایک قریبی عمارت پر نصب تھا۔ سرکاری افسر خیالوں ہی خیالوں میں ’’مرغِ باد نما‘‘ اور ’’ہما‘‘ کا موازنہ کرتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ’’ہما‘‘ جیسا نیک بخت پرندہ بھی ابن الوقت اور ہوا کے رخ پر چلنے والے لوگوں جیسے ’’مرغِ باد نما‘‘ کے سامنے پر سمیٹ لیتا ہے۔
آسی ضیائی کے افسانے ’’سیر پانچویں درویش ‘‘ کا طرزِ بیان میرا من کے قصہ چہار درویش سے ملتا جلتاہے۔ اس میں ملک سلامستان کا ایک باشندہ اپنے وطن کا حال دیگر درویشوں کے گوش گزار کرتا ہے۔ دیگر درویشوں کے اصرار پر وہ بتاتا ہے کہ سلامستان میں شراب، جوا، رقص و سرود، بدکاریاں ،عیاشیاں ،رشوت ،دھوکہ و فریب عام ہیں۔ پانچواں درویش بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے دھوکہ و فریب سے دولت کمائی اور بحری سفر میں اسے نقصان اُٹھانا پڑا مگر ایک نیک شخص نے اپنی کرامات سے اس کا نقصان پورا کر دیا۔ مگر جب سلامستان کی دل سے نیک آدمی نے تفتیش کی تو اس نے بھی جھوٹ اور دھوکہ سے اس آدمی کو چکمہ دے دیا۔ یعنی اس ملک کا یہ حال تھا کہ اس کی آب و ہوا میں بھی بد عنوانی اور دھوکہ فریب کے اثرات بدرجہ اتم موجود تھے۔
’’شتہیر اور تنکے‘‘ افسانے میں مصنف نے ایک ایسے علاقے کا ذکر کیا ہے کہ جہاں ہر طرف مجتہد بستے تھے۔ انھوں نے مصنف کوا کثر مواقع پر عبادت کے دوران ٹوک دیا ۔مثلاً آدھی نماز بغیر شیروانی کے اور بقیہ شیروانی کے ساتھ جائزنہیں۔ نماز کے دوران چٹائی سے باہر پاؤں نہیں ہونے چائیں ۔آخر ایک روز مصنف نے اپنے شاگردوں کی مدد سے وہاں کے مولانا سے خوب بحث کی جسے خود نمازِ جمعہ کا خطبہ دینے کا طریقہ تک نہ آتا تھا۔ اس بحث کے خاتمہ کے ساتھ ہی افسانہ بھی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ آسی ضیائی کے ڈرامے ’’پروا ز ہم جنس‘‘ کا پلاٹ اور مکالمے جے ۔او ۔فرانس سے ماخوذ ہیں۔ چار کرداروں جمن ،کسیرا ،کریم بخش ،رحمت چوکیدار اور قاضی صاحب جونپور پر مشتمل اس ڈرامے کا منظر دیہات کی ایک سڑک کا ہے۔ جہاں بیٹھ کر جمن اور کریم بخش اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب وہ چوکیدار سے آنکھ بچا کر دریا سے مچھلی کا ناجائز شکار کر سکیں۔ قاضی صاحب جونپور کی خاطر مدارت کے عوض جمن اور کریم بخش مچھلی کے شکار کے بعد چوکیدار کے شکنجے سے نکل آتے ہیں کیونکہ قاضی صاحب ان کے ساتھ مل جاتے ہیں اور ان کا شکار اپنے بستر میں لپیٹ کر موقعِ واردات سے بحفاظت نکل جاتے ہیں۔ اور یوں جمن اور کریم بخش بھی رحمت چوکیدار کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر فرار ہو جاتے ہیں۔
آسی ضیائی کے ڈرامے ’’للو مذکورہ بالا ‘‘ کا پلاٹ اور مکالمے جان برائنڈ ن سے ماخوذ ہیں۔ ڈرامے کے کرداروں میں جج ، وکیل ،حسین بخش،للو شاہ اور کریمن کے علاوہ عدالت کے چپڑاسی شامل ہیں۔ عدالت میں حسین بخش مقدمہ دائر کرتا ہے کہ للو گڈریے نے اس کی بھیڑ ذبح کر کے کھالی ہے۔ وہ گواہ کے طورپر کریمن کو پیش کرتا ہے۔ جب کہ وکیل اور للو آپس میں صلاح مشورہ کرکے ایک چال چلتے ہیں۔حسین بخش کا وکیل غیر حاضر ہونے کی وجہ سے وہ خود ہی اپنے مقدمے کی پیروی کرتا ہے اور جب جج، للو سے کوئی بھی سوال کرتا ہے تو للّو بھیڑ کی سی آواز نکال دیتا ہے۔ نتیجتاً جج، للو کو پاگل قرار دے کر مقدمے کا فیصلہ حسین بخش کے خلاف د ے دیتا ہے۔ اور جب آخر میں وکیل للو سے اپنے مقدمے کی فیس طلب کرتا ہے تو للو اس کے جواب میں بھیڑ کی سی آواز نکال کر چلا جاتا ہے۔
آسی ضیائی کے ڈرامے ’’کھوٹے سکے‘‘ کے کرداروں میں ناصر ، اس کا خالہ زاد خالد ،ناصر کی بہن ،اس کی والدہ اور بی اماں شامل ہیں۔ ناصر ایک جوشیلا نوجوان ہے جو، پریشانی کے عالم میں ہر ایک سے جھگڑتا پھرتا ہے۔ وہ خاص طورپر ملکی حالات دیکھ کر کڑھتا ہے۔ آخر میں اس کا خالہ زاد خالد اور گھر کے دوسرے افراد اس سے پریشانی کا سبب پوچھتے ہیں تو وہ پھٹ پڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ موجودہ نوجوان نسل کو امن و سکون جیسی نعمتوں سے محروم رکھ کر ان سے مستقبل میں عصائے پیری بننے کی تمنا کی جاتی ہے گویا انھیں کھوٹے سکے وے کر ان سے کھرے دام وصول کرنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ نوجوان نسل اس ماحول کو بدلنے کی جدوجہد نہیں کرے گی کیونکہ اس کے پاس فراغت ہی نہیں دنیا کی کسی چیز پر اعتبار نہیں ۔ اس کی یہ باتیں سُن کر خالد کہتا ہے :
تم یہاں پر سکون اور آرام چاہتے ہو اور آخرت میں بھی لیکن ماحول کو بدلنے کی جدوجہد نہیں کرنا چاہتے۔ نہ اپنے اندر تبدیلی روا رکھتے ہو…… ساری دنیا سے تمہیں یہ شکایت کہ وہ کھوٹے سکے دے کر کھرے طلب کرتی ہے اور تم کھوٹا سکہ بھی پیش کرنے پر آمادہ نہیں لیکن کھرے سے کھرے سکے کو اپنا حق سمجھ کر اس کا مطالبہ کرتے ہو۔(۲۶۱)
آسی ضیائی کے ڈرامے ’’ہاضمے کا چورن‘‘ کے کرداروں میں ایک نوجوان شخص شاہد،اس کی ادھیڑ عمر بھابھی ،اسی عمر کی آپا، کام کرنے والی اور فقیر وغیرہ شامل ہیں۔ ڈرامے کے دوران شاہد میاں بظاہر کتاب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ بھابھی اور آپا کی باتوں پر تبصرہ کرتے جاتے ہیں۔ ان دونوں خواتین کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہد کی بھابھی نماز ،روزے کی پابند نہیں ،اگر کوئی شرعی لباس پہنے تو یہ اس پر اعتراض کرتیہے۔ گھر کے نوکروں کو بلاو جہ ڈانٹتی ہے۔ محتاج فقیروں کو جھڑک کر اور احسان جتا کر خیرات دیتی ہے اور ہر بڑے کام کی تعریف کرتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ وقفے وقفے سے ’’اﷲ توبہ ‘‘،’’اﷲ توبہ‘‘ کے کلمات ضرور دہراتی جاتی ہے۔ یہ حالات دیکھ کر شاہد گھر کے بچوں کو اکٹھا کر کے عدالت جا تا ہے اور انھیں خواتین سے یہ فیصلہ کروا لیتا ہے کہ جو ،شخص بد ہضمی کے ڈرسے (بجائے پرہیز کے) تھوڑی دیربعد ہاضمے کا چورن کھالے اسیخبطی اور دیوانہ کہنا درست ہے ۔لہٰذا شاہد آخر میں بڑے آرام سے یہی خطاب اپنی بھابی کو دے دیتا ہے کیونکہ ان کی توبہ کی پکار اس پھیری والے کی طرح جو ،آواز لگاتا ہے ۔’’ہاضمے کا چورن‘‘ اور دونوں خواتین اس کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔
آسی ضیائی کے ڈرامے ’’رضا جوئی‘‘ کے مرکزی کردار نوجوان مسعود اور اس کا دوست سلیم ہیں مسعود کے والداکرام علی خان، ان کے دوست کریم بخش اور گھر کی ماماضمنی کردار ہیں۔ دونوں بزرگوں کی گفتگو کے بعد مسعود اور سلیم کی بحث نما گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔ سلیم سرکاری ملازمت ،وکالت اور صحافت وغیرہ کو غیر شرعی قرار دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے خیال میں ان سب کاموں میں شرک کا عمل دخل ہے اور شرک غیر اسلامی اور غیر شرعی کام ہے۔ جب کہ مسعود اس کا تمسخر اُڑاتا ہے۔پھر مسعود کے والد بھی اس بحث میں شامل ہو جاتے ہیں اور سلیم کو قائل کرنے کی کوشش میں مختلف اشعار اور اقتباسات کا حوالہ دیتے ہیں اور سلیم کرنے کو منع کرتے ہیں۔ کہ وہ نئی نئی جماعتوں میں شامل ہو کر فرقہ بندی کا شکار نہ ہو۔
آسی ضیائی کے افسانے ’’ملت کا فیصلہ‘‘ میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سرضیا الدین احمد کی لندن میں وفات کے بعد ،احاطہ علی گڑھ یونیورسٹی میں تدفین کی روداد تحریر کی ہے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ انھیں یونیورسٹی کی مسجد کے شمال میں نواب زین العابدین کی قبر کے قریب ہی دفن کرنا چاہتی تھی جب کہ یونیورسٹی کے طلبا ان کی میت سر سید کے پہلو میں دفنانے پر مصر تھے۔ بالآخر یونیورسٹی کے طالب علم راہنماؤں اور دیگر جوشیلے لڑکوں نے اپنی بات منوا کر چھوڑی اور وائس چانسلر مرحوم کو سر سید کے پہلو میں ہی دفن کیا ۔
طنزیات میں شامل آسی ضیائی کے مضامین کلاسیکی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جن کے ذریعے انھوں نے پرانے نظریات کے پرچار کا کام نہایت خوبی سے لیا ہے۔ اساتذہ کے قدیم طنزیہ انداز کو موقع محل کی مناسبت سے اپنے دور سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ مضامین جس دور میں لکھے گئے آسی ضیائی طنز کے حوالے سے اسی دور کی سیاسی ،سماجی اور مذہبی صورتِ حال پر خامہ فرسائی کی ہے۔ مصنف نے اپنے طنزیہ مضامین کی دلچسپی اور جاذبیت بڑھانے کے لیے ’’تحریف نگاری ‘‘ کا سہارا بھی لیا ہے۔ آسی ضیائی نے بھی ’’قانونِ تحفظ اسلام پاکستان ۱۹۵۰ء ‘‘ میں آئین پاکستان کا طرزِ نگارش اختیا ر کر کے قوانینِ پاکستان کا مذاق اُڑایا ہے۔
بات یہیں تک رہتی تو گوارا تھی مگر آسی ضیائی کی تحریف نگاری کے حملے سے تو آسمانی صحائف بھی نہ بچ سکے۔ یعنی ’’یسوف کی باتیں ‘‘ نامی مضمون میں مصنف نے انجیل مقدس کے لب و لہجہ میں کیمونسٹوں کی داستان رقم کی ہے اور حد تو یہ ہے کہ ’’ایک جد ید تفسیر‘‘ کے عنوان سے ’’قرآن پاک‘‘ کی مختلف آیا ت کی تفسیر بھی تحریف کے انداز میں کی ہے۔ آسی ضیائی کے افسانوں میں مذہبی ،اخلاقی اور سیاسی نظریات کا پرچار ہے۔ ان ڈراموں کا واعظانہ رنگ مولوی نذیر احمد کے ناولوں کی یاد دلاتا ہے۔ جس طرح مولوی نذیر احمد نے کسی نہ کسی کردار کا روپ دھار کر اپنے ناولوں میں لیکچر دینے کے لیے خود آدھمکتے ہیں۔ اسی طرح آسی ضیائی کے ڈراموں میں بھی جہاں کہیں مذہب،سیاسیات یا اخلاقیات پر کسی قسم کی نصیحت یا تقریر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں آسی ضیائی خود ڈرامے کا ہیروبن جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس خود مصنف کو بھی ہے اس لیے انھوں نے دیباچے ہی میں قارئین کے گوش گزار کر دیا تھا:
ہر ڈرامے یا افسانے کے کردار ہی ہماری آپ کی واقعاتی اور تاریخی دنیا میں سانس لے چکے ہیں۔ یا لے رہے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر میں بھی ان میں شامل ہوں۔(۲۶۲)
آسی ضیائی کے تنقیدی مضامین کا باب ’’تنقید‘‘ میں جائزہ لیا جائے گا۔ اب اُن کے تحقیقی اور لسانی مضامین کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ آسی ضیائی کی تحقیق کاری پر ان کے ایک شاگر د رشید محمد اسلم ملک کی رائے ملاحظہ ہو:
آسی ضیائی کے تحقیقی ادب کے پس منظر میں صحت مند اور تعمیر ی نصب العین ہوتا ہے۔ وہ محض رنگینی بیان ہی کو مقدم نہیں سمجھتے بلکہ ان کی تحریریں روح کی گہرائیوں سے اُٹھتی ہوئی آواز کے مترادف ہوتی ہیں۔(۲۶۳)
اب آسی ضیائی کے تحقیقی مضامین کا جائزہ پیش ہے۔ جو پاکستان کے مختلف رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ ’’اردو غزل میں عشق کی قسمیں ‘‘ آسی ضیائی کا ایک تحقیقی مضمون ہے ۔ انھوں نے اپنے اس مضمون میں اسی جذبۂ عشق پر تحقیق کی ہے کہ شعرا کے ہاں اس کی کیا کیا اور کتنی قسمیں ہیں۔ مضمون نگار نے عشق کے دوطبقات روایتی اور واقعی بیان کیے ہیں۔ اردو غزل میں روایتی عشق کی اہم حیثیت کے پیشِ نظر آسی ضیائی نے اس کی مزید اقسام پر بحث کی ہے۔ جن میں جنسی عشق، عشق ہم جنس، متصوفانہ عشق اور بازاری عشق شامل ہیں۔ واقعی عشق کا آغاز حالی کے دور سے ہوا۔ اس دور میں عشق کی نوعیت قدمائی کی بجائے نو قدمائی یا تجدیدی ہو گی۔ آسی ضیائی نے عشق وطن و قوم ،نصب العین عشق اور تجریدی عشق کو بھی واقعی عشق کی اقسام قرار دیا ہے۔
’’سید مودودی ،اردو ادب کے سلسلتہ الذہب کی آخری کڑی‘‘ بھی آسی ضیائی کا ایک تحقیقی مضمون ہے۔ جس میں انھوں نے ایسی سات ادبی شخضیات کا ذکر بالتفصیل کیا ہے۔ جنھوں نے برصغیر پاک و ہند میں بیس سال بعد جنم لیا۔ مضمون نگار کی مرتب کردہ فہرست میں شاہ اسمعیٰل شہید (پیدائش ۱۷۷۷ء ) ،غالبؔ(۱۷۹۷ء) ،سر سید(۱۸۷۷ء) ،حالی(۱۸۳۷ء ) ،شبلی (۱۸۵۷ء) ،اقبال (۱۸۷۷ء ) اور سید ابو الا علیٰ مودودی (۱۹۰۳ء ) شامل ہیں۔
آسی ضیائی نے اسی فہرست کو سنہری زنجیر سے تشبیہ دی ہے جس کی ہر کڑی دوسری سے مربوط ،مگر اپنی جگہ منفرد خصوصیات کی حامل ہے۔ مضمون نگار نے پہلی کڑی کے عنوان سے شاہ اسمٰعیل شہید کی اردو خدمات ،ان کے اسالیب اور اندازِ نگارش سے بحث کی ہے۔
آسی ضیائی نے اپنے مضمون ’’قدمائی شاعری کا تصورِ عشق اورا س کے بنیادی اسباب‘‘ میں بتایا ہے کہ اردو شاعری کی پیش رو فارسی شاعری نے محبوب کا کیا تصور پیش کیا ہے اور اس کی ابتدا کیوں اور کیسے ہوئی۔ مولانا عبدالسلام ندوی کی تصنیف ’’اقبالِ کامل ‘‘ کے حوالے سے ایرانی معاشرے کے نظریہ عشق پر بحث کے بعد ثابت کیا ہے کہ فارسی شاعری کے محبوب اور عشاق کے خدوخال عادات و مزاج وغیرہ متعین کرنے میں فلسفہ اشرا ق کے علاوہ بہت سے تاریخی و نیم مذہبی عوامل کو بھی دخل تھا۔ آخر میں مضمون نگار نے عشقیہ ادبی روایات میں تلخی کا موجب مسلم معاشرے کی ’’پردہ نشینی ‘‘ کو قرار دیا ہے۔
ابنِ انشاء مرحوم نے لکھنواور پنجاب کے شاعروں کے درمیان ’’بنیادی فرق‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ لکھنو کا شاعر زبان کی صحت کا زیادہ خیال رکھتاہے اور پنجاب کا شاعر خود اپنی صحت کا۔ آسی ضیائی لکھنوء کے تو نہیں ہیں مگر رامپور کی پیدائش ،اور بریلی ،کانپور اور علی گڑھ کی عظیم درسگاہوں نے انھیں زبان کی صحت کا ایسا درس دیا ہے کہ آج آسی ضیائی کا شمار ملک کے ممتاز ماہرِ لسانیات میں ہوتا ہے۔ نعیم صدیقی آسی کے بارے میں لکھتے ہیں :
نثر میں آسی ضیائی کا ایک میدان لسانیات بھی ہے۔ وہ قواعد، تذکیر و تانیث اور اصوات کی نہایت اہم بحثیں چھیڑتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی صحتِ زبان کی فکرمیں پڑکر کسی جریدے میں غلطی ہائے مضامین بلکہ غلطی ہائے الفاظ و تراکیب کا مشغلہ شروع کر دیتے ہیں۔ خاص صلاحیتکے تلفظ اور محاوروں کے لیے اساتذہ کے ہاں سے ایسی ایسی سندات لائیں گے کہ بڑے بڑے مستند اس شبے میں پڑ جاتے ہیں کہ ان کی سند کہیں جعلی تو نہیں۔(۲۶۴)
’’زبان کی غلطیاں ‘‘ آسی ضیائی کا ایک لسانی مضمون ہے جو، ’’مرے کالج میگزین‘‘ کی زینت بنا۔ اس مضمون میں زبان کی صحت و سقم کے بارے میں آٹھ نکات رقم کیے گئے ہیں اور انھی کی مددسے فیض کی شاعری اور وامق جونپوری کی تحقیق کے فنی معائب پر روشنی ڈالنے کے بعد ان کی اصلا ح کی گئی ہے۔
آسی ضیائی نے ۱۹۵۹ء میں اردو کے مروجہ رسم الخط میں تبدیلی کی خاطر ’’ایک نئی تجویز‘‘ مضمون لکھا۔ کیونکہ نسخ میں حروفِ علت کی کمی ،نقطوں کی کثرت، حروف کے عجیب جوڑ جیسی خامیاں موجود تھیں۔ چنانچہ آسی ضیائی نے ایک اسکیم پیش کی جس میں نستعلیق اور نسخ رسم الخط کو ایک نئی شکل دی۔ یہ ترمیم شدہ رسم الخط صرف ٹائپ کی چھپائی کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔
’’اردو کا صوتی نظام ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اردو زبان کی صوتیات مرتب کی ہیں۔ صوتیات کا تعلق چونکہ براہِ راست بولنے سے ہوتا ہے۔ اسی لیے مضمون نگار نے اردو بولنے والے عوام و خواص کی بے تکلف روزمرہ گفتگو پر عمل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اردو کی بنیادی آوازیں اوران کی تشریح کے علاوہ ،جوفی اصوات اور ان کی تشریحات بیان کی گئی ہیں۔ صوتیات کی یہ بحث عام قاری کے لیے تو خشک اور بے مزہ ہو سکتی ہے مگر علما لسانیات و قواعد کے نزدیک اس کی بہت اہمیت ہے۔
’’اردو مصاد کی تبویب ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اردو افعال کی ساخت و ماہیت کا مطالعہ کرتے ہوئے ،اردو افعال کے مصادر کے متعلق چند ضابطے پیش کیے ہیں۔ علائم و رموز کی مدد سے اوزان مقرر کرنے کے بعد مصادرِ ہندی کے ابواب پر بحث ہے۔مثنائی ،ثلاــثی ،رباعی ،خماسی اور سداسی جیسے موضوعات پر سیر حاصل تبصرہ کے بعد مصادرِ ہند ی کے ابواب کی نوعیت وضع کی گئی ہے۔(۲۶۵)
’’اردو نام کی معنویت ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اردو زبان کی معنویت اور اہمیت پر بحث کی ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے لے کر بعد تک کی اجمالی تاریخ کے دوران اردو زبان کے ناموں پر تبصرہ ہے۔ ان میں ایک نام ہندوستان کی رعایت سے ہندی بھی تھا۔ پھر تسخیرِ دکن اور مغل استیلا کے بعد ’’اردوئے معلیٰ ‘‘ معرضِ وجود میں آئی۔ ولی دکنی کی رعایت سے دکنی اور ہندوستان کی رعایت سے ہندوستانی کے بعد ریختہ کا لفظ بھی اردو زبان کے لیے استعمال ہوتارہا۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد اردو زبان کو اس کا موجودہ نام ملا۔آسی ضیائی نے تاریخ کے مختلف حوالوں کے بعد اردو نام کی معنویت اور اہمیت بیا ن کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کی زبان قرار دیا ہے جو،برصغیر میں اسلام کی علامت بن گئی۔
تنقیدی ،تحقیقی اور لسانی مضامین کے علاوہ آسی ضیائی کے چند مضامین خاکہ نگاری ، طنز و مزاح ،سیاسیات اور اقبالیات پر مبنی ہے۔ اقبالیات ،اقبال شناسی اور تنقیدی مضامین کا مفصل ذکر ’’تنقید ‘‘ کے باب میں کیا جائے گا۔ جب کہ دیگر مضامین کا اجمالی ذکر یہاں کیا جاتاہے۔
’’آپ مضمون کیسے لکھیں‘‘ آسی ضیائی کا ایک علمی وا دبی مضمون ہے۔ جس میں نوجوان طلبا کو مضمون لکھنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ انھیں اپنی تحریر میں سچائی ،گہرائی اور انوکھا پن پیدا کر نے کی تلقین کے بعد ان کی توجہ عبارت میں دلچسپی کے عناصر کی طرف موڑ دی ہے۔ اور آخر میں ان سے توقع کی گئی ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کا سنجیدہ مضمون ہی لکھیں گے۔
’’رشید صاحب‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اپنے استاد رشید احمد صدیقی کا شخصی خاکہ پیش کیا ہے۔ مضمون نگار نے رشید صاحب کو غالبؔ کی انسان دوستی ، اکبر کی شگفتہ ،ہمدردی اور میر کی شانِ بے نیازی کا مرکب قرار دیا ہے۔ رشید احمد صدیقی کا عوام و خواص اور طلبا و اساتذہ کے ساتھ رویے کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ علی گڑھ کے حوالے سے ان کی اُستادی اور طنز و مزاح پر بھی بحث ملتی ہے۔ اور آخر میں رشید احمد صدیقی کی شخصیت کے معائب و محاسن پر قلم اٹھایا ہے۔
’’ْیہ علی گڑھ ہے‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے آخری دو سال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں گزارے۔ اس مضمون میں انھوں نے علی گڑھ کا خاکہ پیش کیا ہے ۔قیام پاکستان کے بعد علی گڑھ کا جو حال ہوا اس کی مکمل رپورٹ نہایت جذباتی انداز میں مضمون نگار نے پیش کی ہے۔ تقسیم ملک کے وقت علی گڑھ کے رہنے والوں نے جان و مال کی جو قربانیاں دیں ان کی داستان کے ساتھ علی گڑھ یونیورسٹی کی حسین یادوں کے تذکرے بھی اس مضمون میں ملتے ہیں۔
’’لال کتاب کی کہانی ،بائبل کی زبان‘‘ آسی ضیائی کا ایک طویل سلسلہ مضامین تھا جو متعدد اقساط کی صورت میں ’’زندگی ‘‘ رسالہ میں شائع ہوا۔ یہاں اس سلسلہ کے واحد دستیاب شدہ مضمون کے حوالے سے بات ہو گی۔ اس مضمون میں کیمونسٹ ممالک کے سیاسی نظریات کو انجیل کے لہجہ میں رقم کیا گیا ہے۔ مزدک کی معزولی مزدک کے اصل روپ اور مزدک کی دعا پر مبنی اس مضمون کا بنیادی ڈھانچہ آسی ضیائی ہی کے ایک اور مضمون ’’یسوف کی باتیں ‘‘ سے مماثل ہے جو ان کی تصنیف ’’کھوٹے سکے‘ ‘ کا اولین مضمون ہے۔ (۲۶۶)
آسی ضیائی نے اپنے مضمون ’’ایک قرض کی ادائی ‘‘ میں ۱۹۸۲ء میں افغانستان کے سیاسی حالات پر قلم اُٹھایا ہے ۔ یہ مضمون حلقہ ارباب ِ ذوق سیالکوٹ کے اجلاس خاص بسلسلہ’’ سیارہ افغانستان نمبر‘‘ میں بھی پڑھا گیا ہے۔ افغان عوام کی بہادری ،شجاعت کے واقعات کے بعد روسی فوجوں کی ظلم و بربریت کی داستان بھی ہے اور خاص طورپر ان افغانو ں کا ذکر ہے جو مہاجر بن کر پاکستان میں پناہ گزیں ہوئے۔ مضمون نگار نے اس عمل کو پاکستان کے عوام کی طرف سے ایک قرض کی ادائی کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی مدد کرنا پاکستانیوں پر قرض تھا۔ جو انھوں نے چکا دیا۔
آسی ضیائی بطور مترجم ترجمہ نگاری کے فن پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انھیں اردو ،عربی ،فارسی کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی اس لسانی قابلیت کا علم مولانا سید ابو الا علی مودودی کو بھی تھا جنھوں نے آسی ضیائی کی اس صلاحیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ’’برناباس کی انجیل‘‘ (حصہ انگریزی) کا اُردو ترجمہ کرنے کی ہدایت کی۔(۲۶۷) اسی ہدایت کے پیشِ نظر آسی ضیائی نے جولائی ۱۹۷۴ء میں ’’برناباس کی انجیل‘‘ کا اُردو ترجمہ تصنیف کیا جسے اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور نے اُمید پرنٹرز لاہور سے چھپوا کر شائع کیا۔
کتاب کے آغاز میں آسی ضیائی نے ’’ضروری گزارش‘‘ کے عنوان سے کتاب کا تعارف کروایا ہے۔ بعد ازاں مولانا مودودی کا تحریر کردہ ’’مقدمہ‘‘ ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کے یہ اقتباسات ان کی کتاب ’’تفہیم القرآن ‘ ‘ سے لیے گئے ہیں۔ اس میں مولانا نے برنا باس کی انجیل کی اہمیت اورا س سے متعلق مسیحی حضرات کی برہمی کی وجوہات رقم کی ہیں۔ جن سے اس موضوع پر ہر طرح کے اٹھنے والے اعتراض یا شبہ کاازالہ ہو جاتا ہے۔
برناباس صحابی حضرت عیسی علیہ السلام تھے اور ’’انجیل برنا باس ‘ ‘ حضرت عیسی کی زندگی کے واقعات و ارشادات پر مبنی ان کی تصنیف ہے۔ یورپ نے اس اصلی اور معتبر انجیل کو یہودیوں کی شاطِ منصوبہ بندی کی بدولت ، سینکڑوں برس عوام الناس سے چھپائے رکھا کہ یہ منظرِ عام پر رہتی تو عیسائیت کی موجودہ عمارت اول تو تعمیر ہی نہ ہو سکتی یا پھر جلد ہی زمین بوس ہو جاتی۔ انجیل برنا باس کے عمیق مطالعہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی انھی تعلیمات کے حامل بنا کر بھیجے گئے تھے جو اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی اصل تعلیمات کو مسخ کر کے "New Testment"تصنیف کی گئی۔ آسی ضیائی نے انجیل برناباس کا ترجمہ کر کے اردو د ان طبقے کو بھی مندرجہ بالا حقیقت سے روشناس کرا دیا اور اردو تراجم میں ایک بیش بہا تاریخی کتاب کا اضافہ کر دیا۔
ترجمے کا مقصد اصل تصورات سے قارئین کو روشناس کرانا ہوتا ہے اور قارئین کی ذہنی سطح مختلف ہوتی ہے۔ اسی لیے ترجمے کو عام فہم بنانے کے لیے آسی ضیائی نے انجیل برناباس کے انگریزی حواشی کے تقریباً تمام حوالوں کو اصل کتاب سے مقابلہ و تحقیق کر کے اردو میں منتقل کیا ہے۔
ترجمے میں کوشش کی گئی ہے کہ انگریزی ترجمے ہی کی مانند اردو ترجمہ بھی بائبل کی زبان اور طرزِ ادا کا حامل ہو ۔ تاکہ جو مسیحی حضرات اپنی کتابِ مقدس اُردو میں پڑھنے کے عادی ہیں۔ انھیں ’’برناباس‘‘ بھی مانوس لگے۔ اس غرض سے بسا اوقات الفاظ ،تراکیب اور جملوں کو عام ادبی مذا ق کے مطابق لکھنے کے بجائے بائیبل کے اُردو ترجمے کی پیروی کی گئی ہے۔ یہاں موازنہ کے لیے پہلے ایک اقتباس ’’کتاب مقدس ‘‘ (بائیبل) سے لیا گیا ہے۔ اور دوسرا ’’برناباس کی انجیل‘‘ (ترجمہ اردو) سے لیا گیا ہے۔ مضمون سے قطعٔ نظر الفاظ اور لہجہ کی مماثلت ملاحظہ کریں۔
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنابلکہ جو کوئی تیرے دھنسے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس طرح پھیر دے۔ اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔(۲۶۸)
تب یسوع نے کہا!خدائے زندہ کی قسم ،جس کے حضور میں میری روح قائم ہے۔ یہ کائنات خدا کے آگے ریت کے ذرے جتنی چھوٹی ہے اور خدا اس سے کئی گنا عظیم ہے۔ (جتنے ) تمام آسمانوں اور بہشت اور اس سے بھی زیادہ کو بھرنے کے لیے ریت کے ذرے درکار ہیں۔ اب سوچو کہ خدا کو انسان سے جو مٹی کا ایک ذرا سا ٹکڑا ہے۔ جو زمین پر قائم ہے۔ کچھ بھی نسبت ہو سکتی ہے ۔ پس خبردا ر تم مفہوم لیا کرو نہ کہ نرے الفاظ، اگر تم ابدی زندگی پانا چاہتے ہو۔(۲۶۹)
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ صرف چند الفاظ ایسے ہیں کہ جن کا ترجمہ بائبلی زبان میں کرنا، آسی ضیائی کے ذوق کو گوارا نہ ہو سکا۔ لہٰذا انھوں نے Apostleکا ترجمہ ’’رسول‘‘ کے بجائے ’’حواری ‘‘ کیا ہے اور اسی طرح Gentileکاترجمہ’’اُمّی‘‘ بعض مقامات پر ،حواشی میں مخففات کی مدد سے ’’طویل عبارت‘‘ کو اختصار سے لکھا گیا ہے۔ مثلاً ’’تق‘‘ سے مراد ہے۔ ’’تقابل کے لیے دیکھیے‘‘ ’’تض‘‘ سے مراد ہے ’’تضاد کے لیے دیکھیے‘‘ ،ومثلہٗ سے مراد ہے یہی مضمون دوسری انجیلوں میں بھی ملتا ہے۔ اور ’’وما بعد‘‘ سے مراد ہے۔ ’’ اس آیت کے بعد یہ قصہ کافی آگے تک چلا گیا ہے۔‘‘
آسی ضیائی کے اس ترجمے سے پتہ چلتا ہے کہ انھو ں نے ترجمہ کے تمام اُصولوں کو سامنا رکھا ہے اور اس وادی پر خار میں پھونک پھونک کر قدم رکھے ہیں۔ جہاں انھیں بہت سے اختلافات ،شکوک و شبہات کا سامنا تھا۔ آسی ضیائی نے ترجمہ کرتے وقت انگریزی اور بائیبل کے علاوہ مولوی حلیم دولوی کا اُردو ترجمہ بھی پیشِ نظر رکھا۔ تاکہ ترجمہ میں کسی فنی و معنوی غلطی کا احتمال نہ رہے۔
آسی ضیائی نے اپنی کاوش اور محنت سے بائیبل کے اصل لب و لہجہ کی پابندی کو پیشِ نظرر کھا ہے۔ تو یہی آسی ضیائی کے ترجمے کا سب سے بڑا حسن ہے ۔ان کے ادیبانہ ذوق اور ا ہلِ زبان ہونے نے ترجمے کو آسان اور عام فہم بنا دیا ہے تاکہ ہر شخص اس سے استفادہ کر کے مذہبی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکے۔
سلیم واحد سلیم شاعر کے ساتھ ساتھ بطور مترجم ،افسانہ نگار اور مضمون نگار بھی اُردو ادب میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے اور مضامین فنی لحاظ سے کسی سے کم نہیں۔بطور مترجم ’’تزک جہانگیری‘‘ کا ترجمہ اُردو ادب کی ترجمہ نگاری کے حوالے سے سلیم صاحب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنے چچا ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم صاحب کی فرمائش پر مجلس ترقی ادب کی جانب سے ’’تزک جہانگیری‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ ان دنوں خلیفہ صاحب ادارہ ٔ ثقافت اسلامیہ کے سربراہ تھے۔ ان کے سامنے دو باتیں تھی۔ ایک تو سلیم واحد سلیم کی فارسی دانی سے استفادہ اور دوسرے ان کی مالی مدد۔’’ تزک جہانگیری‘‘ کا ترجمہ سلیم واحد سلیم نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے کیا جو۶۸۳ صفحات پر مشتمل ہے اور ۱۹۶۰ء میں کریم احمد خان معتمد مجلس ترقی ادب لاہور نے بطور ناشر شائع کیا ہے۔اس کی قیمت ۱۱ روپے مقرر کی گئی تھی۔
اس ترجمے کے بارے میں خود سلیم واحد سلیم نے اپنی ایک تحریر ’’میرا فلسفی چچا‘‘ مطبوعہ’’ ادبی دنیا ‘‘لاہور میں لکھا ہے (خلیفہ عبدالحکیم نے ان سے کہا):
مجلس ترقی ادب والے تزک جہانگیری کا ترجمہ کرانا چاہتے ہیں۔ انھیں کوئی موزوں آدمی نہیں ملتا یا موزوں آدمی ملتا بھی ہے تو وہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ تم اگر یہ ترجمہ کرنا قبول کر لو میں یہ بات طے کرادوں ۔میں یہ سمجھ کرکہ میرے لیے زندگی کی تمام راہیں بند ہیں کہا چلیے میں کر لیتا ہوں۔(۲۷۰)
’’تزک جہانگیری‘‘ جو’’جہانگیر نامہ‘‘، اور ’’اقبال نامہ جہانگیری ‘‘‘ کے نام سے بھی موسوم ہے یعنی شہنشاہ جہانگیر کے عہد سلطنت کی تاریخ جسے خود بادشاہ نے اپنی بادشاہت کے سترھویں سال کے وسط تک تحریر کیا۔ معتمد خان نے انیسویں سالِ حکومت تک لکھ کر شاہ موصوف سے اصلاح کرائی۔اور آخر میں میرزا محمد ہادی نے مکمل کیا، جس کے ساتھ دیباچہ لکھ کر شامل کیا۔ اور جسیتصحیح کے ساتھ سر سید احمد خان نے زیورِ طبع سے آراستہ کر کے ۱۸۱۴ء میں بمطابق ۱۲۸۱ ہجری اپنے ذاتی مطبع سے طبع کیا۔ (۲۷۱)
یہ ترجمہ اس دور کا ہے جب سلیم واحد سلیم پولیس کی عنایات اور سی آئی ڈی کی کرامات کا تختۂ مشق بن چکے تھے اور ہر آنے والا انھیں حکومت کا جاسوس اور اپنا مخالف نظر آتا تھا جس شخص کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہو اس سے یہ توقع کہ وہ ترجمے جیسا مشکل کام کر سکے گا۔ بہت مشکل بات ہے لیکن سلیم واحد سلیم نے ’’توزکِ جہانگیری‘‘ کو فارسی سے اردو میں انتہائی سادہ اور عام فہم الفاظ میں ترجمہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ تمام مجبوریوں کے باوجود فارسی اور اردو پر اتنا عبور رکھتے ہیں کہ ترجمہ کرتے وقت ان کے سامنے کوئی دشواری سد راہ نہیں ہو سکتی۔ مجلس ترقی ادب نے ’’توزکِ جہانگیری ‘‘ کو سلیم واحد سلیم سے اسے اردو میں ترجمہ کرا کر واقعی فارسی سے کم ناواقف طبقے پر احسا ن کیا ہے۔
سلیم نے’’ توزک جہانگیری‘‘ کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے کہ ترجمہ صرف لفظی نہ ہو۔ بلکہ عام بول چال کے مطابق با محاورہ بھی ہو۔ اردو کی سلاست اور فارسی کی شیرینی باہم ایک دوسرے کے پہلو میں جلوہ گر نظر آئیں۔ اس میں سلیم بہت حد تک کامیاب رہے ہیں اور یوں یہ ترجمہ اپنی خوبیوں کے باعث خاصا وقیع اور پڑھنے کے قابل ہے۔جہاں تک سلاست و روانی کا تعلق ہے مندرجہ ذیل جملے اس کا بین ثبوت ہے:
جن دنوں میرے والد بزرگوار اولاد کی آرزو کرتے تھے ۔شیخ سلیم نام کے ایک درویش آگرے کے نزدیک موضع سیکرنی سے متصل ایک پہاڑی پر مقیم تھے۔ اس علاقے کے لوگوں کو شیخ سے بہت عقیدت تھی۔ چونکہ میرے والد درویشوں اور ولیوں کے قدر دان اور نیاز مند تھے اس لیے شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے لگے۔ ایک دن شیخ کے عالم جذب میں انھوں نے شیخ سے سوال کیا کہ میری کتنی اولاد ہو گی۔ شیخ نے کہا کہ اﷲ تمہیں تین بیٹے دے گا۔ میرے والد نے کہا میں نے منت مانی کہ پہلے بیٹے کو آپ کی نگرانی اور پرورش میں رکھوں گا تاکہ آپ کی شفقت اور مہربانی اس کے شامل حال ہو۔شیخ نے یہ بات منظور کی اور زبان سے مبارک کہا کہ مبارک ہو ہم نے بھی اسے اپنا ہم نام بنا لیا ہے۔ (۲۷۲)
سلیم واحد سلیم نے اپنے ترجمے میں خصوصیت سے یہ التزام کیا ہے کہ فارسی کی تراکیب اردو میں استعمال کر کے انھیں باقاعدہ اردو کی تراکیب بنا دیا ہے۔ اور جہاں کہیں بھی عربی کی تراکیب استعمال ہوئی ہیں۔ انھیں ویسے کا ویسا ترجمہ کر کے استعمال کیا ہے جیسے ’’اقبال مندی‘‘ اور ’’سیف و القلم ‘‘ وغیرہ جہاں کہیں محاورے کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے سلیم واحد سلیم نے اسے بھی انتہائی مہارت اور بے ساختگی سے استعمال کیا ہے :
امین الدولہ جو میری شاہزادگی کے دنوں میں میرا بخشی تھا۔ اور میری اجازت کے بغیر بھاگ کر میرے والد کی ملازمت میں چلا گیا۔ اس کے قصور سے در گزر کرتے ہوئے اسے آتش بیکی کی خدمت پر برقرار رکھا۔ وہ یہی خدمت میرے والد کے زمانے میں سر انجام دیتا تھا۔ اور والد کی خدمات بجا لانے والوں اور ان کی مہمات میں شریک ہونے والے اپنے بیگانوں کو انھیں عہدوں پر برقرار رکھا جو ،انھیں میرے والد کی حکومت میں حاصل تھے۔(۲۷۳)
سلیم واحد سلیم نے ایرانی افسانوں کو بھی اُردو میں ترجمہ کیا ہے جو، ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور، ’’مخزن‘‘ لاہو ر اور ’’اسلوب ‘‘ لاہور میں شائع ہو کر داد وصول کر چکے ہیں۔ ’’عید نو روز‘‘ ،ملا کی آپ بیتی ،’’سادہ بولی شہد سے میٹھی‘‘ اور ’’ایسا بھی ہو ا کرتا ہے‘‘ ان افسانوں میں سے اہم افسانے ہیں۔
پہلا افسانہ جس کا عنوان ’’عید نور وز‘‘ ہے جو،’’ ادبی دنیا ‘‘لاہور کے جولائی ۱۹۵۰ء کے شمارے میں صفحہ ۴۶ تا ۵۴ شائع ہوا۔ عید نو روز ایرانی سال نو کا تہوار ہے جو انگریزی مہینوں کے حساب سے ۲۱ مارچ کو منایا جاتا ہے اور یہی آغاز موسمِ بہار ہے ۔ عید نو روز مذہبی تہوار نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق موسم سے ہے اور یہ سالِ نو کا جشن ہے تمام ایرانی بلا لحاظِ مذہب عید نو روز بڑ ی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
’’عید نو روز‘‘ آقائے حجازی کا افسانہ ہے جسے سلیم واحد سلیم نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ترجمے میں موصوف نے حتی الا مکان آسان الفاظ لکھنے کی کوشش کی ہے اور یہ افسانہ اپنے پلاٹ کے اعتبارسے پاکستانی پکنک جیسا ہے۔
افسانے کی ابتدا ایک مقولے سے ہوتی ہے یعنی ’’دانش مندوہی ہے جو کبھی افسردہ نہیں ہوتا‘‘ لیکن افسانے کا ہیرو اس کہاوت پر یقین نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس کے خیال میں ہر روز عقل و دانش کے اضافے کے مقابلے میں غم اور مایوسیوں کا بوجھ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیرو اور دوسرے لوگ جو فہم و فراست، لطیف احساسات اور نرم دلی سے محروم رہ کر بھیڑ بکریوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔انھیں علم و دانش اورا پنی ذہانت پر کوئی فخر نہیں کہ ان کی نظر میں نادان لوگ کہیں زیادہ مسرت سے مالامال ہیں۔ ان تمہیدی فلسفیانہ جملوں کے بعد دوستوں نے سیر کا پروگرام بنایا اور تہران کے شمال کی طرف کوہ الوند کے دامن میں پر فضا وادی کا جہاں باغات اور سبزہ زار کثرت سے ہیں۔ اور جسے ’’شعران‘‘ کہتے ہیں ،کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ سیر کے لیے عید نور وز کا موقع پسند کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ایسے موقعے پر ہوتا آیا ہے۔ سامان کی فہرست بنی۔ جشن مسرت کی تیاریاں ہوئیں۔ کھانے پینے کی چیزیں فراہم ہوئیں۔ آتش نفس مغنیوں اور سا زندوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے افسانہ کے یہ جملے قابلِ توجہ ہیں:
ہمیں غیر معمولی اخراجات کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ کیونکہ ایک تو ہم سب نے اخراجات کا بار آپس میں مساوی طورپر بانٹ لیا تھا۔ دوسرے یہ کہ اگر ہفتہ بھر کی سیر کی تفریح پر ایک سال کا اندروختہ بھی خرچ ہو جائے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔(۲۷۴)
ا س افسانے میں سلیم نے خوبصورت الفاظ اور مترادفات کے استعمال سے رنگ بھرا ہے۔ افسانے کا پلاٹ ،ندرت کا حامل نہیں ہے بلکہ ایک عام سا افسانہ ہے ۔خوبی اس میں یہ ہے کہ یہ ایرانی معاشرت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ وہ لوگ کولھو کے بیل کی طرح ہر صبح کام ہر شام کام سے چھٹکارا پانا اپنی زندگی کے لیے ازبس لازم سمجھتے ہیں۔ اس افسانے میں اس بات کو یوں ظاہر کیا گیا ہے:
ہمارا مقصد یہی تھا کہ ہم اپنے علاقانہ خیالات سے رہائی حاصل کر لیں، شہر کی گھٹن ،اس کی ہوا، ہمہ ہمی اور سنجیدہ فضا سے دور ہو کر ایک گوشۂ عافیت میں چند روز گزار لیں۔ ہم نے غور کر کے فیصلہ کیا کہ عید نو روز کے موقع پر ہمیں اپنے تفکرات کو خیر باد کہہ کر رنج و غم کی فصیل سے باہر نکل آنا چاہیے اور شہر کی روح کو مضمحل کر دینے والے شور و غوغا اور ہنگامہ سے دور اونچے پہاڑوں کے دامن میں پناہ لے کر دور دور تک پھیلے ہوئے وسیع سبزہ زاروں سے روح کو طراوت بخشنی چاہیے۔(۲۷۵)
یہ افسانہ نہ تو فکری ہے اور نہ ہی اس میں مزاح ہے۔ یہ ا یک نشاطیہ افسانہ ہے۔ خوبصورت الفاظ اور تراکیب سے سلاست اور روانی پیدا ہو گئی ہے۔ افسانے میں قاری کے لیے شروع سے آخر تک دلچسپی موجود ہے۔ یہ افسانہ حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہے ۔جس طرح پریم چند نے اردو افسانہ نگاری میں حقیقت پسندی کو اپنایا۔ دوسرا افسانہ ’’مُلّا کی آپ بیتی‘‘ ایک ایرانی افسانہ ہے جسے’’ آقائے سید محمد جمال زادہ‘‘ نے تحریر کیا ہے اور فارسی میں اس کا عنوان ’’درد دل مُلّا قربان علی‘‘ ہے لیکن سلیم نے ترجمہ کرتے وقت عنوان کو تبدیل کر دیاہے۔ جو خالق کے تجویز کردہ عنوان سے بدرجہ بہتر ہے۔ یہ افسانہ’’ مخزن‘‘ لاہور کے اپریل ۱۹۵۰ء کے شمارے میں صفحہ ۳۱ سے ۳۷ پر محیط ہے۔ جس زمانے میں یہ افسانہ لکھا گیا ایران میں علماکو مُلّاکہا کرتے تھے اور معاشرے میں مُلاّ کا مقام بہت بلند ہوتا تھا کہ وہ تقدیس کا پیکر سمجھے جاتے تھے۔ عوام مُلّاکو اپنے سے برتر اور دین کا نمائندہ سمجھتے تھے۔ ایسے ہی ایک مُلّاکو اس افسانے کا ہیر و تجویز کیا گیا ہے جو، سید الشہداؑ کا ذکر سر منبر کر تا ہے۔ گاؤں سے شہر آیا ہے۔ و ہ مردوں اور عورتوں کی وضع قطع پر اعتراض کرتا ہے۔ پھر سامان خورد ونوش کی گرانی کا تذکرہ کر کے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتا ہے:
آہ! افسوس! آج کل لوگوں نے اپناکیا حلیہ بنا رکھا ہے ایک وہ زمانہ تھا کہ لوگ ایماندار تھے، خدا ترس تھے، ایک یہ بھی زمانہ ہے کہ کفر نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ مرد اپنی مونچھ داڑھی منڈوانے کے علاوہ اپنی وضع قطع عورتوں کی سی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور عورتیں مرد بننے کی کوشش میں اپنا تمام زور صرف کردیتی ہیں۔ خدا ان جھگڑا لو عورتوں کو غارت کرے ۔ادھر گرانی مارے ڈالتی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ پندرہ روپے کمانے والا آدمی چار بیویوں اورا ن کی اولاد کا خرچ با آسانی اٹھا سکتا تھا۔ ایک یہ زمانہ ہے کہ ضروریاتِ زندگی کی چڑھی ہوئی قیمتوں نے حواس باختہ کر دیا ہے اور عورتوں کے پھوہڑ پن سے ان کے خاوند بھی بد حواس ہیں۔(۲۷۶)
یہ افسانہ مُلّا کے اندرونی خلفشار اور ظاہری رکھ رکھاؤ کا بہترین نمونہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی افسانہ نگاروں نے عموماً حقیقت نگاری کو اولیت دی ہے اور یہ افسانہ بھی جذبات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ حقیقت نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔ چونکہ مصنف نے انتہائی سادہ الفاظ میں افسانہ لکھا ہے لہٰذا سلیم واحد سلیم نے بھی مشکل الفاظ سے احتراز کرتے ہوئے سادہ اور رواں ترجمہ کر کے اسے اردو افسانہ نگاری میں سادگی کی ایک مثال بنا دیا ہے۔
مُلّا کا کردار اس کی شب وروز کی مصروفیات ،اس کا مذہبی تقدس، ہمسایوں کے ساتھ لین دین ،مذہب کی تبلیغ اور اس کا معاوضہ یہ سب کچھ بیان کر نے کے ساتھ ساتھ مُلّاکی داخلی جذباتیت کا تذکرہ بہت سادگی مگر خاصے موثر انداز میں کیا ہے۔ افسانے کا انجام انتہائی رومانوی انداز میں ہوا ہے۔ کہ مُلّامُلّائیت کے لباس سے باہر نکل کر ایک کھلنڈر ے نوجوان کی طرح وہ عمل کرتا ہے کہ جس پر اسے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر پولیس مارتی پیٹتی جیل خانے میں پھینک دیتی ہے۔ اور یہ افسانہ جہاں مُلّائیت کی گھٹن کے اظہار کا نمونہ ہے وہاں حقیقت نگاری کی بھی بہترین مثال ہے۔ یہ افسانہ قدیم داستانوں کی طرح خیر و شر کی مقصدیت کا حامل بھی ہے۔
تیسرا افسانہ ’’سادہ بولی شہد سے میٹھی‘‘ ایک ایرانی افسانہ کا آزاد ترجمہ ہے۔ جس کے مصنف کا نام معلوم نہ ہو سکا۔ یہ افسانہ ’’مخزن ‘‘ لاہور فروری ۱۹۵۱ء میں صفحہ ۵۷ سے ۶۶پر محیط ہے۔ جس زمانے میں یہ افسانہ لکھا گیا ایرا ن میں رشوت ستانی اپنے پورے زوروں پر تھی۔ اور سرکاری افسر بغیر رشوت لیے کسی بھی آدمی کو بلا تفریق مرتبہ جیل خانے کی زینت بنا دیتے تھے۔ یہ افسانہ ایک ایسے انسان کے گرد گھومتا ہے جو غریب الوطنی کے پانچ سال گزارنے کے بعد اپنے وطن کے ساحل پر جہاز سے اترتا ہے لیکن جونہی یہ زمین پر قدم رکھتا ہے دوسرے مسافروں کے نرغے میں گرفتار ہو جاتا ہے چونکہ اس کے سر پر فیلٹ ہیٹ تھا لہٰذا اقلیتوں کی کـثرت اس کا سامان اٹھانے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر نے لگی۔ اور وہ دھینگا مشتی ہوئی کہ الاماں اتنے میں پاسپورٹ آفیسر آبرا جمے او ر ہیرو کے ایرانی ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگے اور انھیں سپاہیوں کی نگرانی میں دے دیا ۔ سامان کا عالم یہ ہوا کہ جو سر پر تھا اور ایمان کی دولت جو دل میں تھی بچ گئے باقی سارا سامان خرد برد ہو گیا اور ان حضرات کو حوالات میں بند کر دیا گیا جس کا نقشہ کچھ یوں ہے:
شدید تاریکی کی وجہ سے حوالات کی کوٹھڑی میں پہلے تو دیر تک مجھے کوئی چیز سمجھائی نہیں دی۔ لیکن رفتہ رفتہ جب میری آنکھیں حوالات کی تاریکی سے کچھ کچھ مانوس ہونے لگیں تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ کچھ اور بھی مہمان تھے ۔ سب سے پہلے میری نظر ایک ایسے فیشن ایبل آدمی پر پڑی جس کے ہم مشرب قیامت تک ایران میں جہالت و حماقت کا اشتہار بنے رہیں گے۔ یہ فیشن ایبل آدمی ایک اونچے کالر کے ساتھ نکٹائی پھانسی کے پھندے کی طرح گلے میں لگائے ہوئے اس تاریکی میں بھی ایک رومانی کتاب پڑھنے میں محو تھا۔ میرے جی میں آئی کہ اس کے سامنے جاؤں اور اس کی خبر لوں اتنے میں سیٹی کی آواز سے جوکمرے کے ایک گوشے میں سنائی دی میری توجہ ادھر ہو گئی۔ وہاں ایک گٹھڑی نظر آئی۔ پہلی نظر میں مجھے دھوکا ہوا کہ کوئی سفید بلی کوئلے کی بوری کے اوپر بیٹھی اونگھ رہی ہے۔ لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کوئی مُلّا ہے جو مکتب کی عادت کے مطابق دونوں زانوؤں کے گرد دونوں ہاتھ لپیٹے ہوئے اپنے سراور کانوں کو عبا میں ڈھانکے ہوئے اکڑوں بیٹھا ہے۔ اس کے سفید اور چمکتے ہوئے عمامے پر سفید بلی کا دھوکا ہو رہا تھا۔ اس عمامے کا پچھلا حصہ کھل گیا تھا جس پر بلی کی دم کا گمان گزرتا تھا اور وہ ایسی آواز سے دعائیں مانگ رہا تھا کہ سیٹی کا گمان ہوتا تھا۔(۲۷۷)
سلیم نے اس افسانے کا ترجمہ کرتے وقت با محاورہ اردو استعمال کی ہے۔ لیکن جو جیسا کردار ہے اس کی زبان ویسی ہی افسانے کا حصہ ہے۔ یعنی مولوی صاحب کی زبان سے قرآنی آیات اور عربی جملوں کا استعمال اور ثقیل الفاظ کا استعمال جب کہ ایک انگریزنما فیشن ایبل شخص کی زبان سے انگریزی کچھ اس بے ساختگی سے کہلوائی گئی کہ مترجم کے فنکار ہونے کا ثبوت بن گئی۔ چونکہ یہ ترجمہ لفظی نہیں ہے بلکہ آزاد ہے۔اس لیے ایرانی معاشرے کی برائی کو حقیقت نگاری کے روپ میں پیش کر تے ہوئے سلیم نے اسے تقریباً طبع زاد بنا دیا ہے۔ اور اگر قاری کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کسی ایرانی افسانے کا ترجمہ ہے تو وہ باور کرنے کے لیے شاید تیار نہ ہو کہ یہ طبع زاد نہیں ہے۔
یہ افسانہ ایرانی معاشرے پر ایک بھر پور طنز ہے کہ اس معاشرے میں لوگوں کو جائز و ناجائز سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا، کال کوٹھڑی میں بند کر دینا اور یہ دیکھے بغیر کہ جسے وہ حوالات کی نذر کر رہے ہیں وہ قصور وار بھی ہے یا نہیں۔
چوتھا افسانہ ’’ایسا بھی ہوا کرتا ہے ‘‘ آقائے مطیع الدولہ حجازی کا تحریر کردہ ہے۔ (۲۷۸) جسے سلیم واحد سلیم نے عام فہم الفاظ میں ترجمہ کیا ہے۔ افسانے کا ایک مرکزی کردار دیو جانس ہے جو ایک کاروباری باپ کا بیٹا ہے لیکن اپنی ماں کے ساتھ غربت کی زندگی گزارتا ہے جب کہ اس کا باپ کاروبار کے سلسلے میں عام طورپر گھر سے باہر رہتا ہے اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی گزارتا ہے۔ ایک دن دیو جانس اس کو قتل کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اور جب دیو جانس اورا س کی ماں کو مال و دولت سے حصہ مل جاتا ہے تو وہ اپنے باپ کو قتل کرنے سے باز رہتا ہے۔ اب چونکہ دیو جانس امیر ہو گیا ہے لہٰذا موقع پرست لوگ اس کے دوستوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر خرافات میں یہ اپنی دولت کو برباد کرنے لگتا ہے چونکہ اسے پیسے سے پیار نہیں ہے اور یہ کھلے ہاتھ سے خرچ کرتا ہے۔ اس لیے اس کی شہرت شہر شہر پھیل جانے سے لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے۔ اور جب یہ آٹھ گھوڑوں کے رتھ میں بیٹھ کر گزرتا تو بچے تالیاں بجا کر دیو جانس زندہ باد کی آواز نکالتے اور وہ دیو مالائی کہانیوں کا شہزادہ بن گیا۔ دیو جانس میری عادتوں کا عادی ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا :
چونکہ جوا اور دولت اکٹھے نہیں رہ سکتے، اس لیے دیو جانس جوئے سے ہاتھ اُٹھانے کی بجائے دولت سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو گیا ۔اس طرح دولت گھٹنے کے ساتھ ساتھ دوستوں نے محبت میں کمی کرنی شروع کر دی۔(۲۷۹)
اس افسانے میں ایک کردار کے دو پہلو دکھائے گئے ہیں کہ ایک تو وہ جب سرمایہ دار ہے ۔ اور لوگ اسے بے وقوف بناتے ہیں اور دوسرے جب وہ محتاج ہے تو دوسروں کو بیوقوف بنا تا ہے۔ زبان سلیس اور با محاورہ ہے۔ افسانے میں شروع سے آخر تک دلچسپی قائم رہتی ہے۔
یہ افسانہ آقائے حجازی کی نیم تاریخی اور نیم تحقیقی کاوش ’’فیلسوف‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے جو، دیو جانس کلیسی کے واقعات زندگی پر مبنی ہے۔ یہ شخص دن کی روشنی میں چراغ جلا کر ایتھنز کے بازاروں میں پھرا کرتا تھا اور جب لوگ اس کی اس عجیب و غریب حرکت پر اس سے استفسار کرتے تو وہ کہتا کہ انسان نما حیوانوں میں اسے انسان کی تلاش ہے۔
یہ افسانہ بہت حد تک دیو جانسیت لیے ہوئے ہے۔ بہر حال دیو جانس کا مجموعی کردار ایک تارک الدنیا، دانش وریا صوفی کردار ہے۔ کہانی کا تسلسل قاری کو اس کے طبع زاد ہونے پر مائل کرتا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ سلیم واحد سلیم نے ترجمہ کچھ اس شائستگی اور زبان دانی کے نکات کو برؤے کار لا کر کیا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں بلکہ ان کا اپنا طبع زاد افسانہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ مترجم نے ترجمہ کو تخلیق کا جامہ پہنا دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
ڈاکٹر سلیم واحدنے سلیم ایسے مضامین بھی لکھے ہیں کہ اب بھی ان کی افادیت سے انکار نہیں ہو سکتا۔ راقم الحروف کو ان کے چند مضامین مطبوعہ اور غیر مطبوعہ دسیتا ب ہوئے ہیں جنھیں اس مقالے کا حصہ بناتے ہوئے راقم الحروف کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ مضامین اپنے اسلوب اور انداز بیان کے باعث خاصے کی چیز ہیں ۔ان مضامین میں چند واقعاتی اور کچھ طنز و مزاح سے بھرپور ہیں۔ ان مضامین میں ’’میر ا فلسفی چچا‘‘ ،’’سولہ آنے‘‘، ’’مسٹر فی البطن‘‘ ،’’ہائے جب رات کو گھرا ہلِ قلم آتا ہے‘‘،’’قصہ ہلنے اور اکھڑنے کے بعد کا‘‘ اور کچھ ’’بحور اور ان کے دوائر کے بارے میں ‘‘اہم ہیں۔
’’میرا فلسفی چچا‘‘مضمون میں مصنف نے اپنے چچا ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم سے پہلی ملاقات کا ذکر کر کے اپنے مضمون کی ابتدا کی اور مادۂ تاریخ پر اسے ختم کیا۔ یہ درست ہے کہ ’’میرا فلسفی چچا‘‘ خلیفہ عبدالحکیم کی سوانح تو نہیں لیکن جس طریقے سے اس مضمون کو صفحۂ قرطاس پر بکھیرا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضمون خلیفہ عبدالحکیم کی مفصل زندگی کا اجما ل ہے یا یوں کہیے کہ اگر اس مضمون کو مختلف ابواب میں تقسیم کر کے حیات ِ حکیم لکھی جائے تو یہ سنا پسز کا کام دے سکتا ہے۔ اس مضمون میں مصنف مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتے بلکہ اپنے مخاطب سے دو ٹوک لفظوں میں بات کہتے ہیں ۔ اس مضمون میں مصنف اپنی اور اپنے چچا کی معاشرت کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد کے واقعات و تعلقات کو بھی واضح صورت مں بیان کرتے ہیں۔موصوف نے اپنی اور اپنے چچا کی اقتصادیات کو بھی انتہائی واضح طورپر اس مضمون میں بیان کیا ہے۔ اور ایسا کرتے وقت منافقت کو اپنے قریب تک پھٹکنے نہیں دیا۔ خلیفہ عبدالحکیم کی بری باتوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ان کی اقتصادی خوشحالی کا بھی تذکرہ قلمبند کیا ہے۔ جہاں اس مضمون میں فلسفے کو برتنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے وہاں فلسفے کی سطحی گفتگو نہیں ہوئی۔ بلکہ متعلقہ حصہ انتہائی پر مغز اور توجہ طلب ہے۔ اقبال کے فلسفے ،نٹشے کے فلسفے ،مولانا روم کے فلسفے اور خلیفہ عبدالحکیم کے فلسفے کے ساتھ بحث کرتے ہوئے مصنف نے خود اپنی فلسفیانہ موشگافیو ں کو بھی بڑے طنطنے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جہاں علامہ اقبال سے خلیفہ صاحب کی عقیدت کا اظہار زیب مضمون ہے۔ وہاں ان کے نظریات کا مستعار ہونے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔
سلیم واحد سلیم انسانی عظمت کے قائل تھے وہ انسان کو ایک بلند منصب پر فائز دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس سلسلے میں انھیں ہمیشہ مایوسی ہوئی چنانچہ اپنے چچا خلیفہ عبدالحکیم کے متعلق اسی مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
میں نے اس انسان کو ساری عمر ایک نصب العینی انسان کے روپ میں دیکھنا چاہا ۔ اس میں مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔ شاید کسی کو اس قسم کی کامیابی نہیں ہوئی۔ کیونکہ انسان انسان ہے۔خدا نہیں، فرشتہ نہیں۔(۲۸۰)
سلیم توہمات اور نجومیوں وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ خلیفہ عبدالحکیم کو خواجہ حافظ پر یقین تھا اور وہ ہر مسئلے کے سلسلے میں دیوانِ حافظ سے فال نکالتے تھے جب کہ سلیم اسے محض اتفاق سمجھتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
میں نے دو دفعہ مذاق سے کہا کہ چچا جان کیا حافظ جواب کے شعر کی طرف فال نکالنے والے کے ہاتھ کو ہلاتا ہے یا اس کی روح آپ کے خیال کے مطابق کسی بھی غیر مرئی انداز میں انسانی ذہن یا انسانی روح پر اس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ از خود حافظ کے دیوان کے اس حصے اور ورق تک پہنچ جائے جہاں اس کا مطلوبہ جواب ہے۔(۲۸۱)
اس مضمون میں سلیم نے مکالماتی انداز اختیار کیا ہے چونکہ مکالمے کے ذریعے خیالات واضح صورت میں سامنے آتے ہیں اس لیے انھوں نے اپنے مختلف نظریات بیان کرنے کے لیے اس انداز کو اپنایا۔ اس میں کئی جگہ تصویر کشی کے خوبصورت نمونے بھی ملتے ہیں اور اس انداز کو زیادہ موثر بنانے کے لیے انھوں نے جذبات نگاری سے بھرپور طورپر کام لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک چلتی پھرتی متحرک تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔
’’سولہ آنے‘‘ مضمون کی کہانی ایک ایسے آدمی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے کاروبار میں ایماندار اور اپنے گاہکوں سے بلا کسی اونچ نیچ کے ملتا ہے اور اچھی اچھی باتوں کو اپنی گرہ میں باندھتا ہے ۔ وہ سنے سنائے مشکل مسائل کی کھوج میں مصروف رہ کر ہر پڑھے لکھے گاہک سے ان کا حل چاہتا ہے۔ بظاہر وہ ایک چھوٹے سے چائے خانے کا مالک ہے اور بجائے چوکی یا کرسی پر بیٹھے کے چارپائی پر بیٹھتا ہے۔ لیکن ایک خاص بات جو اس کہانی کے ہاں پائی جاتی ہے۔ وہ اس کا ایک مخصوص اخبار سے ذہنی لگاؤ ہے لیکن جس وقت وہ شخص ایک ناگہانی حادثے میں کچلا جاتا ہے۔ تو پھر بظاہر اسی چارپائی پر بیٹھنے کے لیے ایک اور آدمی تو آجاتا ہے لیکن جو خاصیتیں ،خوبیاں ،خصلتیں ،جو مادۂ تجسس کہانی کے ہیرو میں تھا وہ اس میں نہ تھا، نہ پیدا ہو سکتا تھا۔ ڈاکٹر سلیم نے اس کہانی کے اختتام میں جن الفاظ سے اپنے اس ہیرو کو یاد کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے:
لوگو بوٹا مر گیا ہے بوٹا جو، ایک غریب چائے والا تھا لیکن جوان پڑھ اور ایک اعلیٰ انسان تھا۔ جو دود ھ میں پانی ملا کر فروخت کر کے جائیداد بنا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور اب اپنی اولاد کے لیے فقروفاقہ کی وراـثت چھوڑ گیا ہے۔ لوگو بوٹا مر گیا ہے۔ جو سچائی کا پیکر تھا لیکن میں اس کی اولاد کو جواب اپنے آبائی پیشے کی طرف لوٹ گئی ہے ،جھوٹ کے کاروبار سے نہیں بچا سکتا۔(۲۸۲)
اس مضمون میں مصنف نے بوٹے کے کردار کو اُجاگر کرنے کے لیے اسے ایک تکیہ کلام کا سہارا لینے پر مجبور کیا ہے۔ جو واقعتا اس مضمون کی جان ہے اور یہی اس کا عنوان ہے یعنی ’’سولہ آنے‘‘ کی بار بار تکرار سے مضمون میں بے پناہ حسن پیدا ہو گیا ہے مصنف نے اس مضمون میں اپنے دکھڑے بھی روئے ہیں اور اپنی پریشانیوں اور تکلیفوں کے چند واقعات میں بھی بوٹے سے گفتگو کرتے ہوئے بیان کر دیے ہیں۔ جس سے یہ بات بہت واضح طور پر عیاں ہو گئی ہے کہ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم سماج ہی کے ستا ئے ہوئے نہ تھے بلکہ عزیز گزیدہ بھی تھے اور یہ بات بھی کہ وہ کسی کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے عادی نہ تھے۔
یہ مضمون افسانوی رنگ لیے ہوئے ہے لیکن حقائق کا مجموعہ ہے۔ سولہ آنے ایک ایسی کہانی ہے جس کا تانا بانا صرف ایک آدمی کے گروُبنا گیا ہے۔ جس کی حیثیت مرکزی کردار کی ہے۔ اس کہانی کا رنگ مکالمانہ ہے ۔ زبان سادہ ہے ،عام فہم اور سلیس ہے۔ اچھے اور چیدہ الفاظ کا جڑاؤ بھی ہے اور خوبصورت محاوروں کا استعمال بھی ۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے جہاں سنجیدہ مضامین لکھے ہیں وہاں انھوں نے مزاح سے بھی فائدہ اٹھایا ہے گو ان کے مزاح کا انداز نہ تو رشید احمد صدیقی جیسا ہے کہ جو لفظوں سے کھیلتے ہیں اور مزاح پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی مرزا فرحت اﷲ بیگ جیسا انداز ہے جو،متضاد عناصر کے ٹکراؤ سے مزاح پید اکرتے ہیں۔ نہ ہی پطرس بخاری جیسا کہ جو ہلکا پھلکا اور پطرس برانڈ مخصوص نوعیت کا مزاح ہے بلکہ موصوف تو ایک جملے سے دوسرے جملے کو ،ایک لفظ سے دوسرے لفظ کو ،ایک بات سے دوسری بات کو مربوط کرتے ہوئے مزاج پید اکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ موصوف مختصر لکھنے کے عادی نہیں تھے بلکہ بات سے بات نکالتے جاتے تھے اور مضمون طویل ہوتا جاتا تھا۔ ان مضامین میں زبان وبیان کی چاشنی موجود ہے۔ محاورہ اور روز مرہ کا استعمال موجود ہے کہ جس سے مصنف کام لے کر بھی مزاح پیدا کرتا ہے ایک بات جو صاف اور واضح طورپر نمایاں ہے وہ ہے اس مزاح کا طنزیہ پن ۔گویا سلیم واحد سلیم طنز کو مزاح کے انداز میں یا مزاح کو طنز کی بیساکھیوں پر آگے بڑھاتے ہیں۔یہ مزاح کا انداز خاصا دلنشین اور موثر ہے لیکن مصنف کا یہ انداز اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ وہ معاشرے کا ستایا ہوا انسان ہے جسے زندہ رہنے کے لیے اور اپنے نظریات و خیالات کو برؤے کار لانے کے لیے سکھ کا سانس لینا دوبھر ہے چنانچہ مصنف ایک ایک زیادتی ایک ایک مصیبت اور ایک ایک پریشانی کے بدلے میں اپنے غصے اور جھلاہٹ کو طنز کے خوبصورت نشتر کے ساتھ مزاح کی آب دے کر بیان کرتا ہے۔
’’مسٹر فی البطن‘‘ سلیم کا ایک مزاحیہ مضمون ہے جو دراصل ایک وجود کے پیٹ میں ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کے ڈانڈے بقول مصنف موصوف کے ارسطو کی بوطیقا سے ملتے ہیں۔ اور جس کا وجود نہ عصر حاضر میں کوئی ہے اور نہ ہی زمانہ ماضی میں کہ ایسا شاعر جو شاعر بو طیقائی کی نسل سے ہو نہ دیکھا نہ سنا۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف موصوف نے بوطیقا سے مستعار لیے ہوئے یہ تحریر کیا ہے :
شعر کے لیے ضروری نہیں کہ وزن و بحر یا ردیف و قافیہ میں ہو ۔گویا کہ نثر میں بھی شعر کہا جا سکتا ہے۔(۲۸۳)
یہ مضمون دراصل ایسے لوگوں پر طنز ہے جو نہ شاعر ہیں نہ شعر کی ضروریات سے واقف ہیں بلکہ شاعروں کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے صاحبِ فن ہونے کا چرچہ کرنا انھوں نے سیکھ لیا ہے اور یوں ہر نئی محفل میں اپنی چرب زبانی اور صحبت شاعر سے چرائے ہوئے چند جملے اپنی بڑائی کے لیے سہارا بنائے ہوئے پھرتے ہیں۔ مصنف چونکہ تخیلاتی ہونے کے ساتھ ساتھ با عمل انسان بھی ہیں۔ ا س لیے اسے ایسے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اس مضمون کے لکھنے سے موصوف نے ایسے لوگوں پر بھر پور طنز کی ہے جو حقیقت پر مبنی بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔ اس مضمون کی زبان عام فہم اور تصنع سے پاک ہے۔
’’ہائے جب رات کو گھر اہلِ قلم آتا ہے‘‘ مضمون میں ا یک ایسے انسان کی کہانی ہے جو کرایہ دارہے اور اس مکان میں رہائش رکھتا ہے جس میں مالکہ مکان بھی رہتی ہے۔ یہ کرایہ دار چونکہ اہلِ قلم ہے اور نکہت و افلاس کا شکار بھی اس لیے اسے جو مکان ملا وہ ایک ایسی عورت کا تھا جو بوڑھی ،گھوڑی لال لگام قسم کی خاتون تھیں۔ یہاں کرایہ دار کی مالکہ سے نوک جھونک خاصے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔
یہ مزاحیہ مضمون معاشرتی ہے اس لیے مصنف نے ایسے مکان کے باسی کی زندگی کی تمام جزیات کو بیان کرتے ہوئے اس مضمون کو آگے بڑھایا ہے۔ اس مضمون کے ہیرو کو کھٹملوں کے کاٹنے اور پسوؤں کے کاٹنے سے جو محفل رقص و سماع ترتیب پاتی ہے۔اس میں جھینگروں کی آواز ایک مغنی کی طرح نغمہ سرا ہوتی ہے ۔خالی جگہ میں پانی کا تالاب اور اس میں مینڈکوں کی آواز ’’ڈرم پیٹ‘‘ محفل شب کے سرور میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔جس گھر میں غسل خانہ ہو اسے راوی میں غسل کرنے کا مشورہ خاصاوقیع معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ ہیرو اس مشورے کا یقینا محتاج تھا۔ اس کے اوپر پڑوسیوں کی ہمدردی کے سبب نہانے کا ٹپ، پانی کا مٹکا،شیشے کا جگ، ٹیبل لیمپ ایک ایک کر کے ہیرو کے لیے بے کار اور پڑوسیوں کے لیے کار آمد دکھائی دینے لگے اور جب ہیرو نے یہ چیزیں انھیں دینے سے انکار کر دیا تو ملاقات کا سلسلہ بھی بند ہو گیا۔
یہ مضمون دراصل ایک ایسے ہی انسان کے گرد بُنا گیا ہے جو تمام بنیادی ضروریات سیمحروم ہے ۔ کبھی خود اس کے سگریٹ سے اس کا بستر جل جاتا ہے۔ کبھی کوئی اس کے گھر کے ایک کمرے پر ناجائز قابض ہو جاتا ہے ۔ کبھی اسے تھانے میں فریاد کرنا پڑتی ہے اور پولیس اسی سے پوچھ گچھ کر کے اس کے رہے سہے اوسان خطا کر دیتی ہے اور جب وہ غریب گھر پہنچتا ہے تو نہ وہ غاصب ہوتا ہے اور نہ ہی سامان بلکہ اس کی چیزیں بھی چوری ہو چکی ہوتی ہیں اور یوں سب کچھ لٹاکے ہوش میں آنے کے مصداق کرایہ دار کی مالکن پڑوسیوں اور محلہ داروں سے صلح ہوتی ہے۔ او رجب چودھری صاحب روانہ ہو گئے۔ تو مصنف کو یہ افسوس ہوا کہ کاش ہم قلم ہوتے۔ یہ مضمون دراصل ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی آپ بیتی ہے ان پر بحیثیت کرایہ دار کے جو بیتا اس مضمون کا ایک ایک واقعہ ایک ایک بات، ایک ایک جملہ سچ ہے کہ اچھرہ لاہور میں موصوف اس ساری واردات کا شکار ہوئے تھے۔ جگہ جگہ مصنف نے ضرب الا مثال کا استعمال کیا ہے۔
’’قصہ ہلنے اور اکھڑنے کے بعد کا‘‘ طنزیہ مضمون میں مصنف نے اس کا سبب تحریر، ان کی عقل داڑھ کے ہلنے اور اکھڑنے کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ مضمون لکھنے کا سبب صرف ان کی عقل دانت ہی ہے۔اگر عقل دانت یعنی عقل داڑھ کا ٹنٹا کھڑا نہ ہوتا تو سلیم واحد رات بھر کرب کے عالم میں بیدار رہتے۔ اور نہ یہ مضمون صفحہ قرطاس کی زینت بنتا۔ گویا عقل داڑھ اس مضمون کی تخلیق کا باعث ہے ۔ ایک بات جو اس مضمون میں خاص طورپرقاری کے ذہن کو متوجہ کرتی ہے۔ وہ ہے اس مضمون میں اشعار کا استعمال جو اور کچھ نہ ہو موصوف کو غالب کا پیرو ہونا ثابت کرتا ہے۔ موصو ف نے مرزا غالب کے ایک شعر میں یوں تصرف کر کے مضمون کو آگے بڑھایا ہے۔
سوزش نشہ سے ہیں احبابِ منکر ورنہ یاں
دانت وقف درد اور لب آشنائے خندہ ہے(۲۸۴)
مضمون’’کچھ بحور اور ان کے دوائر کے بارے میں ‘‘ میں سلیم واحد سلیم نے الفاظ کی ایک زنجیر سے مزاح پید اکیا ہے یعنی لفظ سے لفظ اور جملے سے جملہ مربوط ہوتا رہتا ہے۔ جس کے باعث مضمون آگے بڑھتا جاتا ہے۔ بات بحور سے شروع ہوتی ہے اور کھجور تک جا پہنچتی ہے۔ موہوم و معدوم سے گزرتی ہوئی گفتگو صبر کے پھل او راس کی مٹھاس سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس حوالے سے موصوف لکھتے ہیں :
اب بحور بروزن کھجور کے سلسلے میں یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ بحور صرف حروف اور ان کی حرکات و سکنات کے لحاظ سے بروزن کھجور ہے۔ اصلی معنوں میں نہیں اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ جہاں تک لمبائی کا تعلق ہے کوئی بھی بحر ایسی نہیں ہے جو کم از کم کسی بھی کھجور کے دانے سے دو چند سر چند نہ ہو۔ اور پانی والے بحر سے اس لیے مقابلہ نہیں کہ مونث کا مذکر سے کیا مقابلہ۔(۲۸۵)
اس مضمون میں علم بیان ، بزرگوں کے تجربات کا تذکرہ کرتے ہوئے صبر کا پھل میٹھا کو مصنف ’’صبر کا پھل آم‘‘ کہہ کر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ اس میں لطف پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ نسخے بیان کیے جاتے ہیں۔ کہ جن سے آم کھائے نہ کھائے مٹھاس کا لطف لے سکتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں :
مثلاً ہم نے چیری کا تصور کیا اور منہ کھٹا ہو گیا۔ انار کا تصور کیا اور منہ کھٹا میٹھا ہو گیا۔ یہاں تک کہ انگور بھی کئی مرتبہ کھٹے ہو گئے۔ شاید انگور کھٹے ہیں کہ محاورہ کے گمنام موجد نے اسی تجربے سے دوچار ہو کر مذکورہ محاورہ بنایا ہو گا۔(۲۸۶)
غلام الثقلین نقوی(۱۹۲۳ء ۔۲۰۰۲ء) ریاست جموں و کشمیر کے ایک گاؤں چوکی ہنڈن میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں اب مقبوضہ کشمیر کے ضلع نوشہرہ میں واقع ہے۔ ان دنوں نقوی صاحب کے والد وہا ں پٹواری تھے۔ (۲۸۷) ان کا آبائی تعلق ایک گاؤں بھڑ تھ سے ہے جو، سیالکوٹ شہر سے شمال میں تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔(۲۸۸)
غلام الثقلین نقوی کی شہرت افسانہ نگارکی وجہ سے ہے لیکن انھوں نے ناول اور سفر نامے بھی لکھے ۔ طنز و مزاح پر مشتمل مضامین بھی ان کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ابتدا میں طالب علمی کے دور میں جب وہ مرے کالج سیالکوٹ میں بی ۔اے کے طالب علم تھے تو ان کا رجحان افسانے کی طرف تھا۔ ان کی پہلی تحریر’’ مرے کالج میگزین ‘‘میں ’’سانڈنی سوار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جو انشائے لطیف کی قسم کی کوئی چیز تھی۔ (۲۸۹) اس میں صحرا کا منظر بیان ہوا تھا۔’’ مرے کالج میگزین‘‘ کے علاوہ نقوی صاحب کے ابتدائی افسانے اور ابتدائی تحریریں’’ استقلال‘‘،’’ ہمایوں ‘‘،’’ماہِ نو‘‘،’’ ادبِ لطیف‘‘،’’نقوش‘‘ ’’سیارہ ڈائجسٹ ‘‘اور’’ اردو ڈائجسٹ‘‘ میں چھپتے رہے۔
غلام الثقلین کے ابتدائی افسانے رسالہ ’’ہمایوں ‘‘ لاہور میں چھپتے رہے۔ ایک افسانہ ’’کھڑکی‘‘ کے عنوان سے ’’ہمایوں‘‘ میں چھپا جس کی تاریخ اشاعت اگست ۱۹۴۶ء ہے۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء میں ’’ماہِ نو‘‘ میں نقوی صاحب کا چھپنے والا پہلا افسانہ ’’بی بی ‘‘ تھا۔ ۱۹۵۸ء میں نقوی صاحب کے افسانے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں چھپنے لگے۔ ۱۹۶۰ء میں ان کے افسانے ’’نقوش‘‘ میں چھپنے لگے۔ نقوش میں ان کا پہلا افسانہ ’’بند گلی‘‘ چھپا۔ اردو افسانہ نگاروں نے ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ کے پس منظر میں افسانے لکھے ان میں سے تین افسانے ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سبز پوش، کافوری شمع اور جلی مٹی کی خوشبو ان افسانوں کے عنوانات ہیں۔
نقوی صاحب کو ان کے افسانہ سبز پوش پر ’’سیارہ ڈائجسٹ ‘‘کی طرف سے پہلا انعام ملا۔ جنگ ستمبر کے پس منظر میں لکھا جانے والا نقوی صاحب کا خوبصورت افسانہ ’کافوری شمع‘‘ ہے جس کا موضوع وطن کی محبت اور جذبہ جہاد ہے۔ نقوی صاحب نے تجریدی افسانے اور علامتی افسانے بھی لکھے ۔’’زرد پہاڑ‘‘ اور ’’سر گوشی ‘‘ ان کے تجریدی افسانے ہیں۔ جب کے ’’لمحے کی موت‘‘ ان کا علامتی افسانہ ہے۔ اپنے افسانوں کے سفر کے آغا ز اور انجام کے بارے میں غلام الثقلین نقوی رقم طراز ہیں:
وہ پہلا افسانہ جس کے متعلق میرا خیال تھا کہ واقعی افسانہ ہے۔ ۲۵ جولائی ۱۹۴۵ء کو مکمل ہوا۔ اس کا عنوان ’’پہلا سبق‘‘ ہے۔ یہ افسانہ ابھی تک غیرمطبوعہ ہے۔ آخری افسانہ تخلیقی ادب کی چوتھی جلد میں شائع ہو ا لیکن چونکہ کتابی صورت میں اس کے چھپنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے اسے بھی غیر مطبوعہ ہی سمجھیئے ۔۱۹۴۵ء سے ۱۹۸۱ء تک مل ملا کر اسی سے زیادہ افسانے لکھے۔(۲۹۰)
’’بند گلی‘‘ غلام الثقلین نقوی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ جو ایک ورلڈ خانم بازار، انار کلی لاہو رسے ۱۹۶۶ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ دوسرا افسانوی مجموعہ ’’شفق کے سائے ‘‘ کے نام سے مکتبہ میری لائبریری سے جنوری ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ تیسرا افسانوی مجموعہ ’’نغمہ اور آگ‘‘ ہے جو مکتبہ عالیہ لاہور سے ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔ ’’لمحے کی دیوار‘‘ ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے۔ جو پنجاب آرٹ پریس سے ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ ’’دھوپ کا سایہ‘‘ پانچواں افسانوی مجموعہ ماہِ ادب لاہور سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا۔ ’’سر گوشی‘‘ نقوی صاحب کا چھٹا افسانوی مجموعہ ہے۔ جسے مقبول اکیڈمی لاہور نے ۱۹۹۲ء میں شائع کیا۔
’’نقطے سے نقطے تک‘‘ نقوی صاحب کا ساتواں اور آخری افسانوی مجموعہ ہے۔ جو کلاسیک ریگل لاہور سے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا۔ ’’میرا گاؤں ‘‘ غلام الثقلین نقوی کا دیہی زندگی پر لکھا گیا ایک خوبصورت ناول ہے جو ضیائے ادب لاہور سے ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔ ’’تین ناولٹ ‘‘ غلام الثقلین نقوی کے تین مختصر ضخامت کے ناولوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں ’’چاند پور کی نیناں‘‘ ،’’شمیرا‘‘ اور ’’شیر زماں‘‘ شامل ہے۔ یہ کتاب کاغذی پیرہن لاہو رسے۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی۔
غلام الثقلین نقوی نے ۱۹۸۵ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔ان کا سفر نامہ ’’ارضِ تمنا‘‘ کے عنوان سے فیروز سنز لاہور سے شائع ہوا۔ یہ سفر نامہ حج ’’ارضِ تمنا‘‘ ماہنامہ ’’اوراق‘‘ میں قسط وار چھپتا رہا اور بے حد مقبول ہوا۔ ’’ٹرمینس سے ٹرمینس تک ‘‘ غلام الثقلین نقوی کے اندرونِ ملک سفر ناموں کا مجموعہ ہے جن میں ’’کوہِ باغ سر کی تسخیر‘‘ ،’’لاہو رسے لنڈی کوتل تک ‘‘ شامل ہیں۔ یہ کتاب مکتبہ ثنائی پریس سرگودھا سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوئی۔ نقوی صاحب ۱۹۸۹ء میں انگلستان گئے۔ انگلستان کا سفر نامہ انھوں نے ’’چل بابا اگلے شہر‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔ اس سفر نامے کو مقبول اکادمی لاہور نے شائع کیا۔ یہ کتاب ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی۔
’’اک طرفہ تماشا‘‘ نقوی صاحب کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ جسے مکتبہ فکر وخیال لاہو رنے ۱۹۸۵ء میں شائع کیا۔ ’’اک طرفہ تماشا‘ ‘ میں عینک،بیخو، آخری کارتوس ،حقہ تہ بند اور ٹیلی ویژن ،میری پچیسویں سالگرہ ،لاہور سے لوڈو وال تک ،بڑھاپا اور جلاپا اور منکہ ایک قلم کار آٹھ مزاحیہ مضامین ہیں۔ غلام الثقلین نقوی کے افسانوی مجموعے ’’بند گلی‘‘ میں تصویر، چنبیلی ،سید نگر کا چودھری ،سنگھار میز، شیرا نمبر، اندھیرے اُجالے ،بی بی ، بند گلی ، پی کے نگر، لمحات، مشین ، دوسرا کنارہ اور ڈاچی والیا موڑ مہاروے تیرہ افسانے شامل ہیں۔
اس مجموعے کے مطالعے سے بنیادی بات یہ سامنے آئی ہے کہ نقوی صاحب کے افسانوں کی بنیادی جہت دیہات نگاری ہے۔ ’’سید نگر کا چودھری ‘‘ اور ’’شیرا نمبر دار‘‘ کردار کے افسانے ہیں۔ ان کے یہ کردار دیہات کی نمائندگی کرتے ہیں اور انسانی قدروں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ چنبیلی ایک محنت کش خاکروب لڑکی کا افسانہ ہے۔ نقوی صاحب نے اس افسانے میں واحد متکلم کا استعمال اس طرح کیا ہے کہ یہ افسانہ ان کی آپ بیتی محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور چنبیلی کی طرف سے اس واحد متکلم کی ناموسوم رغبت کو بڑی درد مندی سے اُبھارا ہے۔ اس کتاب میں نقوی صاحب ایک دیہاتی حقیقت نگار کے روپ میں آتے ہیں۔ ان کا اسلوب اتنا لطیف ہے کہ قاری ا ن افسانوں کی حقیقت میں گم ہو جاتا ہے۔
’’شفق کے سائے ‘‘ افسانوی مجموعہ میں گل بانو، شفق کے سائے، شبنم کی ایک بوند، نہ ترکی نہ تازی ، خون بہا، سودا، سنہری دھول ، شاطی ،تلوار کی دھار، دو دھارے ، تیکھاموڑ اور دیوار بارہ افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں نقوی صاحب دیہات سے شہر کے مشاہدے کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور یہ ان کے فن میں ایک اہم قدم ہے۔ ’’شفق کے سائے ‘‘ کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے جو اپنی ماہیت کے اعتبار سے انوکھی قسم کا ہے ڈاکٹر وزیر آغا نے پیش لفظ میں ’’شفق کے سائے ‘‘ کے بنیادی موضوعات کی نشاندہی کرنے کے لیے پہلے ان کے افسانوں سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں :
دونوں کواٹروں کے درمیان قد آدم دیوار حائل تھی۔
نہیں وہ تم ہی تو تھیں۔ ذرا مجھے پہچا نو تو سہی ، نہیں تم مجھے پہچان نہ سکو گی۔
میرے اور تمہارے درمیان دھول کی ایک سنہری دیوار حائل ہو گئی تھی ۔ میں اس دیوار کو پار کرکے تم تک نہ پہنچ سکا تھا۔(سنہری دھول)
گل بانو کے باپ خان صاحب میرے ہمسائے تھے میرے اور ان کے گھر کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔(گل بانو)(۲۹۱)
ڈاکٹر وزیر آغا نے مذکورہ بالا اقتباسات کے حوالے سے لکھا ہے:
غلام الثقلین نقوی کے افسانوں سے یہ چند اقتباسات برف کی ایک بہت بڑی مسل سے ٹوٹی ہوئی چند قاشیں ہیں اور یہ سل ایک مخفی داستان کی طرح ان تمام چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے پس پشت ایستادہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سل تو روپ بدل کر افسانہ نگار کی ہر کہانی میں بڑے التزام کے ساتھ اُبھرتی اور کرداروں کو وجود میں لاتی ہے۔ اس روپ کو نقوی صاحب نے ایک دیوار کی صورت میں دیکھا ہے ۔یہ دیوار محض جنگ و آہن کی دیوار نہیں ۔ ا س کے متعدد علامتی پہلو بھی ہیں۔ کبھی ایک لمحہ بن کر دو دلوں کے درمیان آکھڑی ہوتی ہے۔کبھی تقدیر، سماج یا انسانی انا کا لباس پہن لیتی ہے۔ نقوی صاحب کے ان افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اس دیوار کے وجود کا ایک شدید احساس ہوتا ہے جس نے خود افسانہ نگار کی زندگی کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ یہ دیوار ایک ایسا لمحہ ہے جس میں افسانہ نگار نے اپنی ابتدائی خوبصورت اور معصوم زندگی کو الوداع کہا اور ایک ایسے کلبلاتے ہوئے ماحول میں داخل ہو گیا۔ جس نے اس کی روح کے زخم کو ایک معمولی سا پھاہا فراہم نہ کیا۔(۲۹۲)
ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ پیش لفظ تجزیاتی نوعیت کا ہے جس میں نقوی صاحب کے فن اور شخصیت کو پرکھنے کی سعی کی گئی ہے۔ معنوی طورپر یہ ’’دیوار ‘‘ ایک ایسی علامت ہے جو نقوی صاحب کے کردار وں کے علاوہ ان کی اپنی زندگی میں بھی موجود ہے اور مختلف صورتوں میں ان کے افسانوں میں سما گئی ہے۔ یہ پیش لفظ غلام الثقلین نقوی کی اپنی داخلی دریافت کا درجہ رکھتا ہے۔ ’’نغمہ اور آگ‘‘ افسانوی مجموعے میں ’’کافوری شمع‘‘،’’نغمہ اور آگ‘‘، ’’ڈیک کے کنارے ‘‘ ،’’سبز پوش‘‘ ،’’اے وادیٔ لولاب ‘‘ ،’’جلی مٹی کی خوشبو‘‘اور سپاہی کی ڈائری سات افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کا تعارف غلام الثقلین نقوی نے خود ’’چند لفظ اور ‘‘ کے عنوان سے اس طرح کرایا ہے :
اس تمہید کا آغاز اور خاتمہ صرف دو لفظوں پر ہو سکتا ہے کہ وطن سے محبت اور جذبہ سر فروشی کی تحسین ،میں نے نغمہ اور آگ کے افسانے انھی دو لفظوں کی تفسیر کے لیے لکھے۔(۲۹۳)
اس مجموعے کے افسانوں کا تعلق ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ سے ہے جن میں غازیوں اور شہیدوں کی بہادری اور بے مثال قربانی کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ غلام الثقلین نقوی کے افسانے ’’جلی مٹی کی خوشبو‘‘ پر ڈاکٹر انور سدید نے درج ذیل تبصرہ کیا ہے اور وہ اس افسانے کے بارے میں لکھتے ہیں :
وطن سے ان کی محبت کا نقش ’’جلی مٹی کی خوشبو‘‘ سے رونما ہوتا ہے ۔جس میں جنگ کی تخریب سے مستقبل کو اُبھارا گیا ہے۔ ان کی کتاب ’’نغمہ اور آگ‘‘ ان کی وطن دوستی کا عمدہ ترین مظہر ہے۔(۲۹۴)
’’لمحے کی دیوار‘‘ افسانوی مجموعے میں گل بانو، شفق کے سائے، شبنم کی ایک بوند، ہم سفر ،کرامت ،خدا حافظ، وہ لمحہ ،گاؤں کا شاعر، کاغذی پیرہن ،رام کی لیلا اور دیا آٹھ افسانے ہیں ۔
اس مجموعے میں نقوی صاحب کے پیشِ نظر بنیادی مقصد تو کہانی بیان کرنا ہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پلاٹ ،کردار اور زمانے پر اپنی گرفت بڑی مضبوطی سے قائم رکھتے ہیں۔ قاری کو کہانی کی ابتدا سے انجام تک واقعات کے ایک منطقی سلسلے سے با خبر ہی نہیں کرتا بلکہ اسے ایک نقطے پر لا کر جوڑ دیتا ہے۔ جہاں افسانہ نگار کا مشاہدہ قاری کے گہرے تجسس کو بیدار کر دیتا ہے اور قاری یہ سوچنے پر مجبو ر ہو جاتا ہے کہ دریچے میں بیٹھی ہوئی وہ مغل صورت شہزادی جس کی ایک جھلک پانے کے لیے نذیر بے قرار تھا۔ (وہ لمحہ) یا وہ لڑکی جو ایک چھب دکھلا کر ایم ڈی ناز کی زندگی کے گدلے پانی میں ہلچل مچا گئی (گاؤں کا شاعر) یا گھنیرے سیاہ بادلوں کے نیچے چمکتی ہوئی گوری پیشانی جو بجلی بن کر کوندی تو ’’ہم سفر‘‘ کا ’’میں ‘‘ خوابوں کی دنیا میں آوارہ ہو گیا ۔
’‘دھوپ کا سایہ‘‘ افسانوی مجموعے میں الصبی ، میلا برقعہ ،ایک ٹیڈی پیسہ ،پلاسٹک کے پھول ، بجلی اور راکھ، باپ بیٹے، نہیں جی، کوڑا گھر، دھوپ کا سایہ ، ایک کھیل ایک کہانی ،شکار ،گندا نالہ اور آنسواور ایک پتھر تیرہ افسانے ہیں۔ اس کتاب کے افسانوں میں نقوی صاحب زمینی حقائق سے ماورائی تصورات کی طرف بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کا افسانہ ’’الصبی‘‘ اس کی ایک خوبصورت مثال ہے جس میں ایک بچہ پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں مرجانے والا بچہ زندگی بھر نقوی صاحب کا تعاقب کرتا رہتا ہے اور آخر یہ افسانہ لکھ کر انھیں آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ ’’کوڑا گھر‘‘ میں نچلے معاشرتی طبقے کی عکاسی دیہاتی مزاج سے کی گئی ہے۔ اور ہمدردی کا قیمتی جذبہ اُجاگر کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا دیباچہ خود مصنف نے لکھا ہے کہ جس کا عنوان ’’افسانہ اور میں ‘‘میں اس نے اپنی افسانہ نگاری کی ابتدا کے بارے میں بتایا ہے ۔ نیزرسالہ ’’استقلال ‘‘ ،’’ہمایوں ‘‘ ،ادبِ لطیف اور ’’اوراق ‘‘ جیسے ادبی رسالوں میں اپنے افسانوں کے چھپنے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ غلام الثقلین نقوی اپنے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
میری کہانی نے اس ماحول سے جنم لیا جس میں میں نے زندگی گزاری ۔میری کہانی نے اسی زمانے کی عکاسی کی ۔ جس کا میں ایک جزو ہوں ۔ میرے افسانے میں پاکستان اور نظریہِ پاکستان کے ساتھ ساتھ میری کومٹ منٹ واضح طورپر محسوس ہوتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت میں نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ وہ ابھی تک وجود میں نہیں آیا۔(۲۹۵)
’’سر گوشی ‘‘ افسانوی مجموعے میں راکھ، دوسرا قدم ،لمحے کی موت، سرگوشی ،پک نک ،وہ لونگ والی، گلی کا گیت، بلیو بوائے، بڈھا دریا، دی ہیرو، نچلے آنچل ،زرد پہاڑ، زلیخا، اندھا کنواں ،چھدرا سایہ ،سائبان والا دن ، ایک بوند لہو کی ، بے یقینی کا عذاب اور قلم بیس افسا نے ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا سر گوشی کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
انھوں نے مغربی فکشن کا مطالعہ کرنے اور وہاں کے غالب میلانات سے آگاہ ہونے کے باوجود تقلید اور تتبع کے رجحان پر تین حرف بھیجتے ہوئے اپنی کہانیوں کو وطن کی مٹی سے کشید کیا ہے۔ ان کے ہاں بنیادی موضوع مٹی کی خوشبو، موسم کا مزاج اور دھرتی پر پڑنے والا بادل کا سایہ ہے۔ نقوی کے فن کا سب سے امتیازی وصف یہی کہ وہ قاری کو کہانی کے سیل ِ رواں میں بہا لے جاتا ہے آپ افسانے کی پہلی چند سطورکو پڑھتے ہی کہانی کار کے قبضۂ قدرت میں چلے جاتے ہیں۔‘‘(۲۹۶)
’’نقطے سے نقطے تک ‘‘ افسانوی مجموعہ میں اﷲ معافی ،نیلے پربت، زمزمۂ محبت، نقطے سے نقطے تک ،ترقی کا میراج ،چاچا بوٹا، موٹر وے پر ،پلیٹ فارم پر کھڑا اکیلا مسافر، اﷲ ہو یوسف کھو، گڑ کی ڈلی ،ماسی حاجن اور چوہا چو ر ،معجون سنگ دانۂ مرغ، دارالامان ، پہیا اور اپنا گھر چودہ افسانے شامل ہیں۔
غلام الثقلین نقوی کی ادبی حیثیت ایک ترشے ہوئے ہیر ے کی مانند ہے جس میں پہلو سے دیکھا جائے نئی آب و تاب دیتا ہے۔ انھوں نے افسانے ،ناول ،ناولٹ ،سفر نامے ،خاکے ،تنقیدی مضامین اور کالم نویسی میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل کیا ہے۔
غلام الثقلین نقوی نے آج سے نصف صدی پیشتر جب افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو نیا نیا پاکستان وجود میں آیا تھا۔ اس وقت اردو افسانہ مغربی فکشن کے تتبع میں لکھا جا رہا تھا۔ نقوی صاحب نے مغربی فکشن کا مطالعہ کرنے اور وہاں کے غالب رجحانات سے آگاہ ہونے کے باوجود تقلید اور پیروی سے اپنے دامن کو بچائے رکھا اور پاکستانی دیہات کو اپنے افسانوں کو اپنا موضوع بنایا۔
غلام الثقلین نقوی دیہات میں پیدا ہوئے ۔ دیہات کی کھلی فضاؤں میں پلے بڑھے انھیں دیہاتی زندگی سے عشق تھا۔ انھوں نے اپنے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی کے تمام رنگوں کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔ دیہی زندگی میں کسان کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے نقوی صاحب کسان کے مزاج مسائل، امید، خوف اور صبر و توکل سے آشنا تھے۔ لہٰذا انھوں نے جب کسان کو اس کے مزاج اور مسائل کے حوالے سے افسانے کا موضوع بنایا تو اس میں پاکستانی دیہات کی مٹی کی خوشبو از خود شامل ہو تی گئی۔ اس نے ناقدین ادب کو اس کی طرف متوجہ کیا یوں نقوی صاحب کی اولین پہچان دیہات نگاری قرار پائی ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
اردو دنیا میں غلام الثقلین نقوی کی حیثیت اس لحاظ سے بے مثال ہے کہ ایک ایسے وقت جب ہمارے بیشتر افسانہ نگار شہری تہذیب اور اس کے عوارض کو اپنا موضوع بنا رہے تھے۔غلام الثقلین نقوی نے نہ صرف دیہاتی معاشرے کے ساتوں رنگوں کو عریاں کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کے پورے ثقافتی پس منظر کو بھی بے نقاب کر دیا۔ (۲۹۷)
دیہی ثقافت کی تصویر کشی نقوی صاحب کے متعدد افسانوں کا خاصہ ہے۔ ’’سید نگر کا چودھری ‘‘ میں انھوں نے پاکستانی ثقافت کے ایک اہم جزو میلے کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:
ہم گھوم پھر کر میلہ دیکھتے رہے۔ دوکانوں سے خوبصورت حلوہ پوریاں کھائیں۔ دودھ جلیبیاں اُڑائیں ۔پھر میلے میں خوب رونق ہو گئی۔ گاؤں گاؤں کے لوگ آئے ٹولیاں بنا کر میلہ میں گھومنے لگے۔ بولیاں اور ماہیے، ٹپے اور ہیر گاتے رہے ۔اور للکار لکار کر ایک گاؤں والے دوسرے گاؤں والوں کو بیتی پکڑنے ،کشتی لڑنے اور کبڈی کھیلنے کے لیے کہتے رہے۔(۲۹۸)
غلام الثقلین نقوی محض دیہات نگارہی نہیں بلکہ انھوں نے شہری زندگی، اس کے تہذیب و تمدن ،مسائل ،نفسیاتی الجھنوں وغیرہ کو اپنے افسانوں کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ شہروں میں بھی گزارا ہے۔وزیر آغا لکھتے ہیں :
وہ شہری زندگی کے مفسر، شاہداور نباض بھی ہیں لیکن دیہات کی طرح ان کا شہر بھی نہ صرف ایک نامیاتی کل ہے۔ بلکہ اس کی جڑیں بھی زمین میں پوری طرح اُتری ہوئی ہیں۔ دیہاتی کرداروں کی طرح نقوی کے شہروں کے کردار بھی اس دھرتی ہی کے سپوت ہیں۔(۲۹۹)
نقوی صاحب کے افسانوں کے دیہاتی کردار جب شہر کے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا ٹکراؤ شہری معاشرت کی پیدا کردہ مختلف علتوں ،ریا کاریوں ،منافقتوں ،دوہرے معیاروں اور استحصالی رویوں سے ہوتا ہے۔ اور یہ ٹکراؤ خود بخود شہری اور دیہاتی زندگی کے باہمی فرق کو واضح کر دیتا ہے۔ ایک دیہاتی کردار پر شہر کا شورکس طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کی مثال نقوی صاحب کے افسانے ’’کوڑا گھر‘‘ سے ملاحظہ فرمائیں:
مال روڈ پر ٹریفک کا منظر اسے بڑا پراسرار لگتا ہے ۔اتنی ساری خلقت ،اتنا شور ،گاؤں میں پتا کھڑکتا تو وہ اس کی آواز سن لیتا ،یہاں وہ اپنے اندر کی آواز سننے سے بھی قاصر تھا۔(۳۰۰)
غلام الثقلین نقوی کرداروں کے حلیے،خدوخال کے علاوہ ان کی جداگانہ حیثیت اور شخصیت کے مطابق زبان اور لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں۔ افسانہ ’’گل بانو‘‘ کا مرکزی کردار خان صاحب ایک پٹھان ہے۔ نقوی صاحب خان کی گفتگو میں پٹھانوں کا لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں:
خوچہ !چودھری صاحب، آج آپ کا خوشامد اﷲ کو اچھا لگا کہ آپ جیت گیا ۔ خوچہ بووھی ام کیا کرتا۔ ام بوت مجبور تھا۔(۳۰۱)
غلام الثقلین نقوی کے افسانوں میں درد مندی کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ نقوی صاحب اپنے پہلو میں ایک درد مند دل رکھتے ہیں ۔ وہ بوڑھے ،جوان ،اعلیٰ ،ادنیٰ،عورت اور مرد سب سے پیار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ چنبیلی ،مہتراتی ہو یا سنگھا ر میز کی زینو، اندھیرے اجالے کی آصفہ ہو یا بوڑھا شیرا نمبردار ۔ سب کے سب ان کی ہمدردی کے حق دار ہیں۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری
ان کے یہاں شیطانوں کا بڑا کال ہے۔(۳۰۲)
غلام الثقلین نقوی نے دیہات کے کرداروں کو بڑی نفاست، خلوص اور جذبے کے تحت پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے :
بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ انھوں نے ان کرداروں کے عقب میں ایستادہ بنیادی کرداروں مثلاً ہل، درانتی ،کدال ،پانی ،ہوا ،بیل اور مٹی وغیرہ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ (۳۰۳)
غلام الثقلین نقوی نے اپنے افسانوں میں لمحے کا بار بار ذکر کیا ہے یہ لمحہ دراصل نقوی صاحب کی شخصیت کا اساسی جزو ہے۔ نقوی صاحب کا گاؤں دیہات اور شہر کی حدِ اتصال کے قریب واقع تھا۔ ایک طرف شہر کی تیز رفتار اور چکا چوند زندگی تھی۔ دوسری طرف گاؤں کی سست رفتار اور نیم غنودگی میں رچی بسی فضا تھی۔ ایک طرف ہنگامہ اور شور تھا تو دوسری طرف سکون اور خاموشی تھی۔ شہروں میں پرانی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ جب کہ دیہات میں اقدار اور روایات کو دیہی عوام نے ایک خزانہ سمجھ کر اپنے سینے میں لگا رکھا تھا۔ ہر آن ہر لمحہ ہونے والے قدیم اور جدید تصادم کی فضا میں نقوی صاحب کی جوانی کا آغاز ہوا تو انھوں نے گہری نظر سے اپنے ماحول کا جائزہ لیا ۔ انھوں نے تیزی سے تغیر پذیر زندگی کو شعور کی آنکھ سے دیکھا۔ دیہات چونکہ نقوی صاحب کی جائے پیدائش تھا لہٰذا فطری طورپر دیہات کی مٹی کی خوشبو، فضا اور اقدار کی پاسبانی ان کے باطن میں رچ بس گئی۔ دوسری طرف وہ وقت کی اہمیت سے بھی آگاہ تھے۔ ان کا یقین تھا کہ زندگی کا ہر لمحہ انتہائی قیمتی ہوتا ہے ۔ اسی ایک لمحے کی قدر و قیمت ان کے افسانوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر انور سدید اس حوالے سے رقم طراز ہیں :
وہ نقوی مسرت کے اس لمحے کا منتظر نظر آتا ہے۔ جو مایوسی اور نامرادی کے اندھیروں میں قندیل نور بن کر چمکتا ہے اور ہمیشہ زندہ نظر آتا ہے۔ شاید یہ لمحہ وہ دیوار ہے جس کی پرلی طرف غلام الثقلین کا جہاں آباد ہے۔ اور جسے اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے وہ مسلسل الفاظ کا تیشہ چلا رہا ہے۔ نقوی کا ایقان ہے کہ جب یہ گریزپا لمحہ اس کی گرفت میں آجائے گا تو زماں و مکاں کی تمام قیود لا یعنی ہو جائیں گے۔ او ر مثالی معاشرہ وجود میں آجائے گا۔ جسے پیدا کرنے کے لیے اس نے تخلیق کا فریضہ قبول کیا ہے۔ (۳۰۴)
غلام الثقلین نقوی کے افسانوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں بار بار ’’دیوار ‘‘ کا ذکر ہے ۔ یہ دیوار محض سنگ و آہن کی دیوار نہیں بلکہ اس کے مختلف علامتی پہلو بھی ہیں۔ مثلاً کبھی یہ سنہری دھول میں بدل جاتی ہے، کبھی ایک لمحہ بن کر دو دلوں کے درمیان آکھڑی ہوتی ہے۔ اور کبھی تقدیر، سماج یا انسانی انا کا لباس پہن لیتی ہے۔ رشتوں کے درمیان یہ دیوار زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ نقوی صاحب کو زندگی کے لمحے کا گہرا احساس ہے۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو اس دیوار کے وجود کا بھی ایک شدید احساس ہوتا ہے ۔ جس نے خود افسانہ نگاری کی زندگی کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس ’’دیوار ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
یہ دیوار ایک ایسا لمحہ ہے جس میں افسانہ نگار نے اپنی ابتدائی خوبصور ت اور معصوم زندگی کو الوداع کہا اور ایک ایسے کلبلاتے ہوئے ماحول میں داخل ہو گیا۔ جس نے اس کی روح کے زخم کو ایک معمولی سا پھاہا فراہم نہ کیا۔ افسانہ نگار بار بار اس لمحے کی دیوار کو عبور کر کے اپنے ماضی کی پگڈنڈیوں پر مصرف خرام ہوتا ہے اور وہاں کوئی سائراں کوئی زرینہ یا کوئی صابراں بڑی سادگی اور پیار سے اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ وہ چند گھڑیاں اس ملائم فضا میں گزارتا ہے اور پھر یکا یک یہ سہانا خواب پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ (۳۰۵)
غلام الثقلین نقوی کے افسانوں میں سے ’’دیوار‘‘ کے حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
گل بانو کے باپ خاں صاحب میرے ہمسائے تھے ۔ میرے ان کے گھر کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی لیکن اس دیوار کا کوئی ایسا روزن نہیں تھا کہ اجنبیت کا احساس دور ہو سکے۔(۳۰۶)
غلام الثقلین نقوی کے افسانوں کا ایک اہم رجحان سفر کا ہے ۔ لیکن اس سفر کا مقصد منزل کا حصول نہیں بلکہ یہ تجسس اور تلاش کے ذریعے زندگی کے فکری اور عملی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا صرف ایک ذریعہ ہے۔ ان کے افسانوں ، ہم سفر، وہ لمحہ اور کاغذی پیرہن میں بس ریل یا گھوڑے پر سفر طے ہوتا ہے۔ اور اس سفرکے ذریعے وہ ارد گرد کی پھیلی ہوئی زندگی کے چہرے کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔
نقوی صاحب کے افسانوں کا آغاز بعض اوقات بڑا ڈرا مائی او رچونکا دینے والا ہوتا ہے۔ پہلی سطر پڑھتے ہی قاری کا جذبہ تجسس اُبھرتا ہے۔ اور وہ پوری کہانی کو پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
ایک سیدھا سادھا حادثہ تھا ۔تیزاب کی بوتل اور زکام کی دو الماری کے ایک ہی دراز میں پڑھی تھیں۔ متوفیہ نے دوا کے بجائے تیزاب پی لیا اور نتیجے کے طورپر موت واقع ہو گئی۔(۳۰۷)
آغا ز کی طرح غلام الثقلین نقوی کے افسانو ں کے انجام بھی بڑے ڈرامائی ہوتے ہیں اور پھر حاصلِ افسانہ بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
فضل دین کی آنکھوں میں دوسری بار ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔ لیکن اس نے دھیر ے سے کہا ،آج آپ نے پگڈنڈی پر جس لڑکی کو دیکھا تھا وہ میری بیٹی تھی سرکار حامد کمال کا تنا ہوا جسم چھن سے ڈھیلا پڑ گیا اس کی ٹانگیں کانپیں اور کرسی پر گر کر اس نے سر جھکا لیا۔(۳۰۸)
افسانہ نگاری کا فن بنیادی طورپر کہانی کہنے کا فن ہے ایک پیرا یہ تو وہ ہے جو کہانی کی جسمانی سطح کو پیش کرتا ہے یعنی کردار اور پلاٹ کے سارے مد وجزر کو سامنے رکھتا ہے۔ اور گہرے مشاہدے اور مطالعے سے کام لے کر کہانی کے جغرافیے کوا س طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی اشیااور مظاہر اپنے وجود کا احسا س دلاتے ہیں ۔دوسرا پیرایہ وہ ہے جس کے تحت افسانہ نگار کسی مسئلے مثلاً مذہبی احیا ،طبقاتی کشمکش یا نظریاتی میلان کے گرد کہانی کا پلاٹ بنتا ہے اور کرداروں کو ان کے مناسب مقامات پر فائز کرتا ہے۔ تیسرا پیرایہ وہ ہے جس کیذریعے افسانہ نگار کہانی کے بطون میں موجود اس کی داخلی سطح کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس طورپر نہیں کہ داخلی سطح کو منکشف کرنے کی آرزو میں افسانے کی خارجی سطح کو قربان کر دے۔
غلام الثقلین نقوی انھی افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں ان کے افسانوں میں کہانی کی روانی ہر وقت قائم رہتی ہے لیکن افسانہ ساتھ ہی ساتھ قاری کو اپنے داخلی عمق کا احساس بھی دلاتا جاتا ہے۔ اس کو علامتی افسانہ کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا:
اصل افسانہ وہی ہے جو کہانی کو مجروح کیے بغیر اس کی معنویت کو منکشف کرے اور قاری کو سماعت اور بصیرت اور تخیل کی سطح پر نہیں بلکہ وہ روحانی سطح پر فیض یاب ہونے کے مواقع بھی فراہم کرے ۔ غلام الثقلین نقوی کے بیشتر افسانے اسی طرز کے افسانے ہیں اور اسی لیے قاری کو ہر سطح پر پوری طرح سیراب کرتے ہیں۔(۳۰۹)
غلام الثقلین نقوی اردو افسانہ نگاروں کے اس گروہسے تعلق رکھتے ہیں جس کے پس منظر میں ترقی پسند افسانے کی روایت موجود تھی۔ ترقی پسند افسانے نے طبقاتی شعور عطا کرنے کے علاوہ کرداروں کے نفسیاتی اور جنسی مطالعے کی روش سے بھی اردو افسانے کو متعارف کرایا۔ ان افسانہ نگاروں نے اساطیری علامتی ، تجریدی اور موجودی عناصر کو اردو افسانے میں شامل کر دیا۔ علازہ ازیں واقعہ کی جگہ خیال اور فکر کے پہلوؤں کو شمولیت کے باعث اردو افسانے میں مزید معنوی گہرائی پیدا ہو گئی ہے۔
غلام الثقلین نقوی کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں افسانہ نگاری کی روایت کا شعور پوری طرح موجود ہے۔ وہ کہانی پن اور بیانیہ اسلوبِ بیان سے دست کش بھی نہیں ہوئے۔ اور عصری آگہی اور جدیدیت کے حامل زاویہ ہائے نظر کو بھی چابکدستی سے اپنے افسانوں میں مختلف کرداروں کی وساطت سے سموتے چلے گئے۔ نقوی صاحب نے اپنے افسانوں میں علامتی اور اساطیری زاویے بھی پیش کیے ۔مثال کے طورپر افسانہ ’’زرد پہاڑ ‘‘ میں انھوں نے خواہشِ مرگ کو ایک معروف اسطور کی روشنی میں بڑی ہنر مندی سے بیان کیا ہے:
زرد پہاڑ سے جب کسی کی طلبی ہوتی ہے آواز سب سُنتے ہیں پر ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ وہ اکیلا اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر غائب ہو جاتا ہے ۔ادھر کا حال کسی کو معلو م نہیں ،بیٹی مجھے چھت پر لے چلو گی۔ شاید وقت کے اس حاتم کو آج کوہِ ندا سے بلاوا آجائے۔(۳۱۰)
غلام الثقلین نقوی نے سیالکوٹ کے گردو پیش میں پھیلے ہوئے دیہات اور اس کے محنت کش کسانوں کی زندگی کو اردو افسانے میں حیاتِ جاوید عطا کر دی ہے۔ یہ دیہات اور کردار اب شاید اس علاقے میں نظر نہ آئیں لیکن ان کی زندگی کی دستاویزی حقیقتیں نقوی صاحب کے افسانوی مجموعوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
اُردو کے افسانوی ادب میں پریم چند کے بعد دیہاتی زندگی کو بھر پور انداز میں پیش کرنے میں غلام الثقلین نقوی کا نام بہت معروف ہے۔ وہ نہ صرف اردو کے چوٹی کے افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ ایک بلند پایہ ناول نگار بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی میں صرف دو ناول ’’بکھری راہیں‘‘اور ’’میرا گاؤں‘‘ لکھے ۔
نقوی صاحب’’ بکھری راہیں‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
ایک عرصہ تک بے عنوان رہا ۔پہلے عنوان تھا، ایک منزل بکھری راہیں ، جناب عارف عبدالمتین کے مشورے پر عنوان مختصر کر دیا یعنی ’’بکھری راہیں ۔(۳۱۱)
’’بکھری راہیں‘‘ کو چھاپنے پر کوئی پبلشر رضا مندنہ ہوا اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
میں اس ناول کو گاؤں سے شہر میں لایا تو قدم قدم پر مایوسی اور سبکی کا سامنا ہوا۔ اس ناول کی بکھری راہوں پر مسافر نگری نگری پھرا اورا سے کہیں منزل نہ ملی۔ ناول ’’بکھری راہیں‘‘ سے جو سلوک ہوا اسے مجھے خاصا بد دل کر دیا۔ تاہم بیچارگی کے اس عالم میں میرے اندر کا لکھاری مایوس نہ ہوا اور قلم سے کاغذ کا رشتہ برقرار رکھا۔(۳۱۲)
اس کے بعد نقوی صاحب نے اپنی تمام تر توجہ افسانہ نگاری پر مبذول کر دی۔ آخر پندرہ سال بعد انھوں نے ناول ’’میرا گاؤں ‘‘ لکھنا شروع کیا اس حوالے سے لکھتے ہیں :
اس ناول کا پہلا لفظ میں ۱۶ دسمبر ۱۹۷۰ء کو لکھا اور ۱۵ اپریل ۱۹۷۵ء کو آخری لفظ وجود میں آکر کاغذ پر ڈھلک گیا۔ ترمیم و اصلاح کے بعد اس کی تکمیل ۹ دسمبر ۱۹۷۵ء کو ہوئی۔(۳۱۳)
غلام الثقلین نقوی کے ’’میرا گاؤں‘‘ نے انھیں ناول نگاری کے حوالے سے اردو ناول نگاری میں حیاتِ جاوید بخش دی اور ان کا شمار صفِ اول کے ناول نگاروں میں ہونے لگا۔ نقوی صاحب کے ناول’’ میرا گاؤں ‘‘کے حوالے اسے ڈاکٹر وزیر آغا یوں رقم طراز ہیں:
اُردو ناول کی داستانِ حیات کچھ ایسی قابلِ فخر نہیں۔ ایک سو برس میں اردو زبان میں لکھے گئے اچھے ناولوں کی تعداد اتنی کم ہے انھیں با آسانی انگلیوں پرگنا جا سکتا ہے۔ مرزا رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ سے لے کر غلام الثقلین نقوی کے ’’میرا گاؤں‘‘ تک بمشکل چھ سات ایسے ناول ہوں گے جنھیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمیں شاید ندامت کا احساس نہ ہو۔ ورنہ ہمارے بیشتر ناول ناقص مشاہدہ، فنی کمزوری اور تھکا دینے والے اسلوب کے باعث تیسرے درجے کی تخلیقات ہیں۔(۳۱۴)
غلام الثقلین نقوی کے ناول ’’میرا گاؤں ‘‘ میں پاکستان کے ایک گاؤں ’’چک مراد‘‘ کی کہانی پیش کی گئی ہے۔ یہ گاؤں ایک عام سا گاؤں ہے ۔ اس گاؤں کے لوگ عام انسا ن ہیں اور اسی طرح زندگی گزارتے ہیں ۔ جس طرح پاکستان کے کسی بھی گاؤں کے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ تاہم غلام الثقلین نقوی نے خیر اورشر کی آویزش سے ان لوگوں کے نقوش اس طرح اُبھارے ہیں کہ یہ گاؤں پورے پاکستان کے دیہاتوں اور ان میں بسنے والے کسانوں کا نمائندہ بن گیا ہے۔ روزمرہ ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ایک مثالی گاؤں کی کہانی مرتب ہو کر یوں سامنے آجاتی ہے کہ ہم چک مراد کو پاکستان کے کسی بھی گاؤں کی علامت قرار دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
میں نے اس ناول میں جس گاؤں کی تخلیق کی ہے اس کا حدود اربعہ اس گاؤں سے مختلف ہے جسے میں نے چک مراد کا نام دیا ہے۔ اس کی تصنیف کے دوران یہ گاؤں میرے تخیل میں آباد رہا۔ میں نے اس گاؤں میں پورے پاکستان کو دیکھا یعنی قطرے میں دجلہ نظر آتا رہا۔ اس کی گلیوں میں پھرنے والے لوگ میرے ساتھ مصروف گفتگو رہے۔ میں ان کے دکھ درد میں شریک رہا۔(۳۱۵)
گاؤں کے واقعات وہی عام واقعات ہیں جو ہر جگہ اور ہر وقت پیش آ سکتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک واقعے کو غیر معمولی حادثے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ناول نگار نے گاؤں کی آہستہ خرام زندگی کا نقشہ کھینچنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جو جامع ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں حسبِ ضرورت مفصل ہے۔ اور کہیں مجمل چنانچہ جہاں ناول نگار نے غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑا ہے۔ وہاں مرکزی کردار سے اس کی نشاندہی واضح الفاظ میں کرا دی ہے۔
غلام الثقلین نقوی نے ’’میرا گاؤں‘‘ میں دیہی زندگی کے تمام پہلوؤں کھیت، کھلیان ، باغ، سردی ،گرمی ،برسات،صبح شام ،وبا ،بیماری ،سیلاب ،سوکھا،اموات، شادی بیاہ، برات، پیار محبت، دوستی ،دشمنی کے رشتے ،اغوا، رسوائیاں ،افواہیں ،عزتوں کے جنازے ،غیرت و حمیت،جھوٹی آن بان ،آبرو،دھڑے بندیاں ،طبقات تصادم ،انتقام ، سماجی مقاطعے ،پنچائتیں ،فیصلے ،مقدمہ بازیاں ،شہری اور دیہی زندگی کا موازنہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ غلام الثقلین نقوی کے نقاد اور اردو ادب کے نامور ادیب اس بات پر متفق ہیں کہ غلام الثقلین نقوی کے ناول’’میرا گاؤں ‘‘ کا مرکزی کردار گاؤں ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
غلام الثقلین نقوی کے اس ناول کا مرکزی کردار ’’گاؤں ‘‘ہے۔ جو ایک فرد کی طرح خوشیوں اور غموں ،براتوں اور جنازوں ،نفرتوں اور محبتوں سے بار بار آشنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیروں کے سائے میں کھڑے چوزوں کی چہکار ہی نہیں سنتا بلکہ باہر کی آوازوں سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ یہ آوازیں کبھی تو چکی کی گھگ گھک اور ٹیوب ویل کی سسکار بن کر آتی ہے اور کبھی سیلاب کے شور، رعد کی کڑک، خشک سالی کی سر گوشی اور بموں کے دھماکوں میں ڈھل کرنازل ہوتی ہیں۔ بعض پورے گاؤں کو ایک ملبے میں تبدیل کر دیتی ہیں مگر گاؤں کو ختم نہیں کر پاتیں۔(۳۱۶)
میرا گاؤں کی کہانی ۱۹۲۵ء سے ۱۹۶۵ء کے دورانیے کا احاطہ کرتی ہے۔یہ ایک دور افتادہ چھوٹے سے گاؤں چک مراد کی کہانی ہے ۔جسے سیالکوٹ کے مضافات میں پاک بھارت سرحد کے قریب دکھایا گیا ہے ۔ ناول کی کہانی جن چالیس سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس دوران ملکی سطح پر کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انقلابی تبدیلی تو تقسیمِ ہند کا واقعہ تھا۔ ۱۹۵۸ء میں مارشل لاء لگا۔ بنیادی جمہوریتوں کا نظام رائج ہوا۔ زرعی اصلاحات ہوئیں۔ دیہات سدھار کی تحریک چلی اور ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی۔چک مراد بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوا۔ ایک نہایت دور افتادہ مقام پرہونے کے بنا پر یہ تقسیم ہند کے دوران ہونے والی قتل و غارت سے محفوظ رہا۔ نیز یہاں ہندوؤں کا صرف ایک گھرتھا۔ لالہ برج لال گاؤں کا واحدد کا ندار اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ چپکے سے ہندوستان چلا گیا اور اس کے مکان اور دکان پر چودھری شرف دین نے تالالگا دیا۔ تقسیم ہند کی دوسری غیر محسوس تبدیلی بھا اسلم کی آمد سے ہوئی ۔ جس کے ماں باپ بہن بھائی فسادات کی نذر ہوئے تھے۔ چک مراد میں اسلم کے رہائش اختیار کرنے سے گاؤں کی ساکت زندگی میں نہ صرف حرکت پیدا ہوئی بلکہ اس کے کردار نے کہانی کو نئے رخ بھی دیے۔ بنیادی جمہوریتوں کے نظام او ر اصلاحات اراضی کے منصوبوں نے چک مراد کو متاثر کیا۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ نے تو گاؤں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ اور یہاں کے باشندے پہلی بار بے گھر ہونے کے المیے سے دو چار ہوئے ۔گاؤں از سر نو آباد ہوا اور اس کی کہانیاں سابقہ ڈگر پر چل پڑی۔
’’میرا گاؤں ‘‘ایک بیانیہ ناول ہے۔ اس کا مرکزی کردار عبدالرحمان عرف ماہناہے۔ اس کی زبان سے پورے گاؤں کی زندگی ہمارے سامنے منعکس ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں نقوی صاحب نے لکھا ہے :
یہ ناول میں نے عبدالرحمان کی زبان میں لکھا ہے کہ ،وہی اس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن ناول اس کے گرد نہیں چک مراد کے گرد گھومتا ہے۔(۳۱۷)
’’میرا گاؤں‘ ‘ اردو کے عام ناولوں کی طرح محض کرداروں کی کہانی نہیں گو اس میں متعدد نہایت دلکش کردار ابھرتے ہیں ۔اگر یہ سمجھا جائے کہ ’’میرا گاؤں‘‘ ماہنے اور شیماں کی کہانی ہے۔ جس میں چودھری شرف دین اورا س کا بیٹا سلیمان ولن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ تو یہ درست نہیں ہو گا کیونکہ اس ناول میں ماہنا شیماں ،چودھری شرف اور سلمان عرف سلی ہی نہیں ،مستری ،بھا اسلم ،حمیداں ،ماہی ریشم اور چودھری رحمت علی بھی دراصل اس بنیادی اور مرکزی کردار ہی کے دست وبازو ہیں جس کا نام چک مرا د ہے۔
اس ناول کے کردار عام انسان ہیں ۔ ان میں اچھائی بھی ہے اور برائی بھی ہے اس میں نہ کوئی فرشتہ ہے اور نہ کوئی شیطان ۔کسی کی اچھائی اس کی برائی پر غالب ہے اورنہ کسی کی برائی اس کی اچھائی پر غالب ہے اصل زندگی میں یہی ہوتا ہے۔ اس ناول کے خیرو شر کے تصادم میں وہ گھن گرج نہیں پائی جاتی جو پنجابی فلموں میں عام ہوتی ہے۔
ناول نگار نے ناول کے مرکزی کردار ماہنے کی دو حیثیتیں متعین کی ہیں ۔ وہ گاؤں کی آبادی میں گھلا ملا بھی رہتا ہے اور اس سے الگ تھلگ بھی ۔ وہ طالب علمی کے زمانے میں گھر کے کام بھی کرتا ہے اور بستی سے باہر کھیتوں او ر کنویں پر بھی کام کرتا ہے۔ اور ملازمت کے دوران اینٹوں کے بھٹے کے منشی کی حیثیت سے زیادہ وقت پزدادے پر گزارتا ہے۔ جو گاؤں سے باہر لیکن گاؤں کے قریب ہی ہے۔ اس لیے وہ گاؤں میں رونما ہونے والے واقعات میں شریک بھی رہتا ہے۔ اور ان سے قدرے دور رہ کر ان کا جائزہ بھی لے سکتا ہے۔ اورا ن کی اچھائی برائی کا اندازہ بھی لگا سکتا ہے لیکن وہ اس گاؤں کی تاریخ کا بے جان کردار بھی نہیں ہے جو صرف دوسروں کی باتیں بیان کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ وہ نہ صرف گاؤ ں کے واقعات میں سر گرمی سے حصہ لیتا ہے بلکہ ان کو اپنی بصیرت کے مطابق خاص رخ پر ڈھالنے کی مقدور بھر کوشش بھی کرتا ہے۔
عبدالرحمن عرف ماہنے کا طرزِ زندگی اور فکر و احساس کے سانچے ایسے ہیں کہ صرف وہ گاؤں کی ثقافت کا حقیقی نمائندہ بننے کا اہل ہے۔ ماہنے کے علاوہ دوسرے کردار گاؤں کی ثقافت کے نمائندے کیوں نہ بن سکے وجہ یہ ہے کہ ماہنے کا باپ چودھری موج دین ایک کسان ہے ۔جس کی زندگی فصل بونے اور کاٹنے تک محدود ہے۔ اسے اپنے گاؤں کی مٹی سے محبت تو ہے جو دیہی ثقافت کی بنیاد ہے۔ مگر وہ ان پڑھ ہے اور وسیع تناظر میں واقعات کا تجزیہ کرنے سے محروم ہے۔دوسری طرف چودھری شرف دین نمبر دار ہے۔ جو چک مراد میں بیس پچیس کھیتوں کا مالک ہے۔ کھیتوں کی بوائی ،گاہی اور کٹائی اس کے مزارعے کرتے ہیں۔ اس لیے زمین کے ساتھ اس کا تن بدن کی سطح کا رشتہ استوار نہ ہو سکا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اسے گاؤ ں کی عزت، روایات اور اقدار سے محبت نہیں وہ معصوم شیماں کی عزت لوٹتا ہے۔ اور پھر اسے گاؤں سے نکال دیتا ہے۔ غریب مستری کی موت کا ذمہ دار بھی وہی ہے ۔ وہ شاملات دیہہ پر قبضہ کر کے او ر الیکشن جیت کر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہر معاملے میں گاؤں کا نمائندہ بنتا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ ایک استحصالی کردار ہے اس کی شخصیت کا سفید پوش ظاہر اور سیاہ باطن میں اس قدر عیاں ہے کہ اسے گاؤں کا نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ آخرمیں ماہنا اس کی کامیاب سیاست کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے :
ہم نے چودھری کو قدم قدم پر شکست دی لیکن چودھری کی سیاست ہم سے زور دار تھی۔ ہر شکست کے بعد وہ پھر جیت جاتا وہ ہا ر کر جیتتا رہا اور ہم جیت کر ہارتے رہے۔(۳۱۸)
شرف دین کا بیٹا سلیمان عرف سلی ایک منفی کردار ہے۔ وہ ہو بہو باپ پر گیا ہے اسے بھی چودھری کا بیٹا ہونے کا گھمنڈ ہے۔ وہ جائز اور ناجائزذرائع سے اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے۔ چودھری رحمت اور بابا حیات جیسے کردار بھی اتنے نمایاں اور گاؤں کے سب گوشوں پر محیط نہیں کہ انھیں ثقافتی نمائندہ کہا جا سکے۔
بھا اسلم ایک مثبت کردار ہے۔ اس کی ذات میں کم سے کم انتشار پایا جاتا ہے۔ وہ ٹھنڈے دماغ اور مضبوط ارادے کا نوجوان ہے وہ نا مساعد حالات سے برہم ہوتا ہے اور نہ مایوس ۔اسے ہم گاؤں کا نمائندہ قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ وہ مہاجر ہے اور اس کی جڑیں ابھی صرف چک مراد کی مٹی میں اُتری ہیں۔
عبدالرحمان عرف ماہنا ایک زندہ اور مثالی کردار ہے۔ وہ چک مراد کی ثقافتی روایات کا علمبردار ہے۔’’میرا گاؤں‘‘ کی کہانی کا بڑا حصہ اگرچہ نتھو خرا سیے کی پوتی شیماں اور ماہنے کی ناکام محبت پر مبنی ہے۔ مگر اس محبت نے دلوں کے آنگنوں کو پار کر کے گلیوں میں قدم نہیں رکھا۔ اس لیے اس طرح ا ن کی محبت تماشا بنتی اور گاؤں کی عزت خاک میں مل جاتی۔ اس محبت کی ناکامی کی ایک دوسری وجہ ذات برادری کا فرق ہے۔ ماہنا چودھری کا بیٹا تھا اور شیماں نتھو خراسیے کی پوتی تھی۔ ماہنے کو پہلی بار یہ احسا س چودھری شرف دین کی بیٹی حمیداں دلاتی ہے۔ حمیداں ماہنے سے مخاطب ہو کر کہتی ہے :
وہ گاؤں کا کمیرا ہے اورتمہار ا باپ جاٹ ہے ،چودھری کے بیٹے کا کمیروں سے کیا جوڑ۔(۳۱۹)
غلام الثقلین نقوی نے ’’میرا گاؤں ‘‘ کے نسوانی کردار بڑی خوبصورتی اور فنی مہارت سے پیش کیے ہیں۔ انھیں عورتوں خصوصاً دیہات کی عورتوں کی نفسیات سے پوری طرح آگہی ہے۔ اپنے نسوانی کرداروں میں انھوں نے عورت کی نفرت ،محبت، حسد، غیرت و حمیت ،مجبوری و بے کسی دوسروں کے معاملات کی ٹوہ لگانا اور چھپ کر باتیں سننے کی عادت کو دلچسپ انداز میں بیا ن کیا ہے۔
غلام جیلانی اصغر نے نقوی صاحب کے نسوانی کرداروں کے بارے میں لکھا ہے :
میرے خیال میں ’’میرا گاؤں ‘‘ کے نسوانی کردار زیادہ Gredibleاور متاثر کرنے والے ہیں۔ میں دیر تک شیماں ،حمیداں ،سیداں ،بجلی اور ماسی ریشو کے سحر میں کھویا رہا۔(۳۲۰)
نتھوخراسیے کی پوتی شیماں ’’میرا گاؤں ‘‘ کا مرکزی نسوانی کردار ہے۔شیماں اگرچہ ابتدا ہی سے جبر کا شکار رہی لیکن اس کے باوجود وہ عشق اور ہوس کے مابین خطِ تقسیم کھینچ سکتی ہے۔ وہ بے بسی اور بے باکی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ وہ ماہنے سے محبت کرتی ہے مگر اس کا اظہار نہیں کرتی ۔بوڑھے نانا کی خدمت کرتی ہے۔ مگر اس کا اظہار نہیں کر سکتی۔ بوڑھے نانا کی خدمت کرتی ہے۔ جب ان کا خراس بند ہوجاتا ہے۔ اور فاقوں کی نوبت آتی ہے تو ماہنے کے کھیت سے پہلی بار سلاچگتی ہے تو اس کے ہاتھوں میں کانٹے چھبہ جاتے ہیں۔ اس وقت قاری اس سے بے پناہ ہمدردی محسوس کرتا ہے۔
ناول ’’میرا گاؤں‘‘ کا سب سے جاندار اور انوکھا نسوانی کردار ماسی ریشو کا ہے۔ یہ سائے کی طرح کہانی کے ہر واقع کے پس منظر میں موجود ہوتی ہے۔ ماسی ریشو سے مصنف نے پردے کے پیچھے سے راز کھلوانے کا کام لیا ہے۔ وہ ماہنے اور شیماں ،بھا اسلم اور حمیداں کی ناکام محبت سے واقف ہے۔ وہ چک مرادکی روایات کی محافظ ہے ۔وہ ماہنے کی منہ پر اس وقت ہاتھ رکھ دیتی ہے۔ جب وہ شیماں سے اظہار محبت کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح وہ بھا اسلم اور حمیداں کی محبت میں بھی ایک دیوار بن جاتی ہے۔ کیونکہ اس کی نظر میں اس کا نتیجہ اچھا نکلنے کی توقع نہیں ہے۔ ماسی ریشو یہ کام نہایت راز داری سے کرتی ہے۔ وہ چودھری شرف دین اور شیماں ،سلی اور سیداں ،بجلی پٹواری اور شیفاں ڈھولک کے خفیہ اور قابلِ اعتراض تعلقات کا راز بھری پنچائت میں کھول دیتی ہے۔
ماسی ریشم گاؤں میں ہونے والی زیادتی اوراس کی عزت کی رکھوالی کا فریضہ بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ جب اسلم کی دکان سے پولیس سمگلنگ کا مال برآمد کرتی ہے تو وہ ببانگ دہل کہتی ہے کہ یہ نمبر دار کی کارستانی ہے۔ وہ پورے گاؤں کو بیدار کر کے ظالم کے خلاف اُٹھ کھڑ ے ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس طرح وہ پہلی عورت ہے جو شیماں کو بے گناہ سمجھ کر اسے گاؤں کی بیٹی خیال کر کے اسے شہر ملنے جاتی ہے۔ اور جب مستری معذور ہو جاتا ہے تو اسے بے خوف ہو کر گاؤں واپس لاتی ہے۔ ماسی ریشم کی قوتِ یقین اور قوت ِ عمل کا ہی اعجاز ہے کہ رفتہ رفتہ گاؤں دھتکاری ہوئی شیماں کو قبول کر لیتا ہے ۔ اور ماسی ریشم پھر ایک دن سب کی مخالفت کے باوجود شیماں کو اس کے ناناکا مکان دلوانے میں کامیاب ہو تی ہے۔ اگرچہ اس کا شوہر کسی دوسری عورت کو بھگا کر لے گیا ہے لیکن وہ اسی نام پر بیٹھی رہی بلکہ محنت مزدوری کر کے اپنی ساس کا پیٹ بھرتی رہی۔ وہ بڑے دل گردے کی عورت ہے۔نمبر دار گاؤں میں شیماں کی موجودگی سے خوفزدہ رہتا ہے۔ اور ایک دفعہ پھر اس کے خلاف الزامات لگا کر گاؤں بدر کرنا چاہتا ہے۔ پنچایت میں ماسی ریشم چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے کہ نمبردار ہی شیماں کا مجرم ہے۔ شیماں کی دوبارہ گاؤں بدری کے بعد ماسی ریشم زیادہ دیر زندہ نہیں رہتی۔
غلام جیلانی اصغر ماسی ریشم کے بارے میں لکھتا ہے :
ناول میں ماسی ریشم دراصل بٹی ہوئی شخصیتوں کے درمیان ایک one pieceشخصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اکیسویں باب میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ تو مجھے ناول کا Tempoیک لخت ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔(۳۲۱)
’’میرا گاؤں ‘‘ میں زندگی کو اسی طرح پیش کیا گیا ہے۔ جیسی کہ واقعتا وہ ہے ۔ اس میں کردار ہلکی سی بغاوت تو کرتے ہیں مگر فوراً ہی وہ راہِ راست پر آجاتے ہیں۔ شیماں کو گاؤں سے نکالا جاتا ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھائے بغیر دھرتی سے اپنا بندھن توڑ کر چپکے سے چلی جاتی ہے۔ حمیداں کی شادی ہو تی ہے تو وہ ایک گہرے غم کو سینے سے لگائے گاؤں رخصت ہوتی ہے۔ مگر چند روز کے بعد میکے واپس آتی ہے تو اپنی ازدواجی زندگی سے پوری طرح ہم آہنگ ہو چکی ہوتی ہے۔ بھا کو چودھری جیل بھجوا دیتا ہے۔ مگر جب وہ جیل سے واپس آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں معمولی سی چنگاری چمکتی ہے تو وہ چند ہی روز میں بجھ جاتی ہے۔ اور تو اور ناول کا سب سے اہم کردار ماہنا بھی تمام حالات وو اقعات کو بٹ بٹ کر دیکھتا رہتا ہے۔ اور ہلکی سی بغاوت یا انحراف کے ضروری وقفو ں کے بعد دوبارہ نارمل رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :
اردو کے شاید ہی کسی ناول میں زندگی کو اس واقعی صورت میں اس خوبی سے پیش کیا گیا ہو جیسا کہ میرا گاؤں میں ۔(۳۲۲)
ڈاکٹر وزیر آغا’’میرا گاؤں ‘‘ کی فنی عظمت کے بارے میں لکھتے ہیں :
میرا گاؤں صحیح معنوں میں ایک پاکستانی ناول ہے کہ اس میں ہماری زمین کی بو باس ہی نہیں اس کے ستر اسی فیصد باشندوں کی خوشیوں، غموں ،خدشوں اور امیدوں کو پہلی بار زبان عطا ہوئی ہے۔ ایسا ناول تو کبھی کبھار تخلیق ہوتا ہے لیکن جب تخلیق ہو تو اپنے عہد کا سب سے اہم واقعہ قرار پاتا ہے۔(۳۲۳)
’’میرا گاؤں‘‘ میں مصنف نے اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر گاؤں کی بہت سی خصوصیات لکھی ہیں۔ اس میں سرکاری اہل کاروں کے استحصالی رویے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے قیام کا ذکر ناول کے تیسرے باب میں کیا ہے۔ اس طرح ہجرت کے دوران فسادات اور قتل و غارت گری کا ذکر اس انداز میں کیا ہے کہ تقسیم پاکستان کے وقت ہر جگہ اور ہر مقام پر خون سے کھیلی جانے والی ہولی کا منظر دکھائی دینے لگتا ہے۔ گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی قوم میں پائے جانے والے جذبے اور بے خوفی کی نہایت سچی تصویر کشی بھی کی ہے۔
نقوی صاحب کے کردار کی سادگی اور شرافت ان کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔ نہایت پاکیزہ اور صاف ستھری زبان استعمال کرتے ہیں۔ ابتذال اور فحش گوئی سے انھیں نفرت ہے۔ ان کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ اور پاکیزہ ہونے کے باوجود دلنشین بھی ہے۔ بعض اوقات ان کی نثر میں بھی شعر کا لطف آنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نقوی صاحب کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں :
نقوی صاحب کے اسلوب بیان میں رومانوی چاشنی بھی ہے ،جزیات نگاری بھی اور بیانیہ پیرائیہ اظہار بھی بالخصوص رومانیت اور حقیقت نگاری کا تال میل اس فنکارانہ طریق سے ان کے افسانوں میں ظاہر ہوا کہ جس سے ان کے افسانوں میں حقیقت کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر گزرتی رومانیت کی جوئے رواں کا سا سماں پیدا ہو گیا ہے۔ (۳۲۴)
میرزا ریاض (۱۹۲۶ء۔ ۱۹۸۵ء ) بھارت کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ (۳۲۵) ابتدائی تعلیم بانسانوالہ جالندھر سے حاصل کی۔ میرزا کے والد سرکاری ملازمت کرتے تھے لہٰذا ان کا تبادلہ سیالکوٹ میں ہو گیا۔ یوں ان کا خاندان سیالکوٹ منتقل ہو گیا۔ میرزا نے اسلامیہ ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کیا۔ بی آنرز ۱۹۴۶ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے کیا۔ اس کے بعد ایم۔ اے فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ میرزا نے ملازمت کا آغاز جھنگ سے کیا جہاں وہ افسر بحالیات تعینات ہوئے۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں انگلش کے اُستاد مقرر ہوئے۔ پھر اگلے سال ۱۹۵۳ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اردو کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور آئے اور شعبہ ہائے اُردو اور پنجابی کے صدر کے طورپر کام کیا۔ (۳۲۶) اس کے علاوہ میرزا فلم سنسر بورڈ کے مبصر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے اور تقریباً وفات تک سنسر بورڈ کے مبصر رہے۔(۳۲۷)
میرزا ریاض اردو ادب میں بطور انشائیہ نگار، مضمون نگار، مزاح نگار،سفر نامہ نگار، ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار اعلیٰ مقام و مرتبے پر فائض ہیں۔ میرزا ریاض کے دو افسانوی مجموعے ’’آندھی میں صدا‘‘ اور ’’بے آب سمندر‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آندھی اور صدا‘‘ ۱۹۷۴ء کو شائع ہوا ۔ یہ مجموعہ ۲۸۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ۱۹ افسانے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
ہاتھ،ماتم ،منزل ،چیخ، رہنما، سحر،دلدل ،مہک ،صحرا، بیالیس روپے، جوئے خون، سرطان ،آندھی میں صدا، تخلیق، تشنہ لب اور افسانہ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے۔میرزا ریاض کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’آبِ سمندر‘‘ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب ۲۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے کل ۱۴ افسانے ہیں۔ خلا، آٹو گراف، بدلتی رُت ، نقاب، محبِ وطن ،چمگادڑ، کشف اور پچھلی رات کا چاند اس کتاب کے اہم افسانے ہیں۔
’’اُڑیں گے پُرزے ‘‘ ،’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘اور ’’وسعت و گریبان‘‘ میرزا کے تین مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ ’’غمگسار‘‘ ٰڈراموں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ ’’مسافر نواز بہتیرے‘‘ میرزا ریاض کا ایک خوبصورت ’’سفر نامہ ‘‘ ہے۔میرزا کا سب سے پہلا انشائیہ ’’خواں چہ ‘‘ کے عنوان سے روز نامہ ’’امروز‘‘ ہفت روز ہ’’ اشاعت ‘‘میں ۲۳ فروری ۱۹۷۹ء کو شائع ہوا۔ اس انشائیہ میں میرزا نے معمولی سے موضوع کو لے کر بڑے عمدہ طریقے سے جہاں خوانچے لگانے والوں کی مکمل عکاسی کی ہے۔ اس طرح معاشرہ کے غیر ذمہ دار افراد کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے۔ انھوں نے اس انشائیہ میں بتایا ہے کہ خوانچے لگانے والے اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب کوئی شریف آدمی اگر ان سے بات کر بیٹھتا ہے تو خواب سے پہلے گولی آتی ہے۔
گویا باقاعدہ ایک بدمعاش کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔ان کی وجہ سے جو گلیاں اور بازار ہی تنگ ہیں اب مزید تنگ ہو چکے ہیں۔ لوگ پریشان ہوں یا نہ ہوں انھیں خوانچہ سے غرض ہے انھوں نے بتایا کہ ان خوانچوں میں کیا بکتا ہے کوئی نہیں جانتا اور جنھیں ان خوانچوں کے اندر بکنے والی چیزوں کو چیک کرنا چاہیے تھا ۔وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ خوانچوں میں کیا بکتا ہے ۔ خوانچوں میں گلے سڑے پھل ،گندی مٹھائی اور گھٹیا شے بکے کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔غرض کہ خوانچے والے ہمیشہ گندی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ خوانچوں میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ خواتین خانہ ننگے پاؤں باہر نکل آتیں ہیں ،بچے بھی ان کی طرف بھاگتے ہیں۔ مرد بھی اپنی باری کے انتظار میں رہتے ہیں غرض کہ سب یعنی ہم تم خوانچے والوں کے اسیر ہیں ۔ میرزا ریاض کہتے ہیں کہ یہ خوانچہ فروش علاقے تقسیم کر کے اپنا اپنا مال بیچتے ہیں ۔ وہاں گلیوں میں عجیب و غریب موسیقی سنائی دیتی ہے۔
میرزا ریاض کا ایک انشائیہ ’’یہ ہمارا دفتری نظام‘‘ کے عنوان سے ’’امروز ‘‘ ہفت روزہ اشاعت میں ۳۔فروری ۱۹۸۴ء کو شائع ہوا۔اس انشائیے میں میرزا نے بڑے عمدہ طریقے سے دفتری نظام پر طنز کی ہے۔ اس انشائیہ میں انھوں نے کہا ہے کہ دراصل یہ دفتری کام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔ انھیں کسی کی پرواہ نہیں ۔اگر کسی کا نا جائز کام بھی ہوتا ہے تو رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔اس میں ہمارے دفتر ی نظام ،اس کے عملے، اس کے اوقات اس کی کارکردگی کو بڑے شگفتہ انداز میں پیش کیا گیا ہے یہ انشائیہ نہ طویل نہ مختصر بلکہ متوازن ہے۔ اس انشائیے میں میرزا کے ذاتی تجربات و مشاہدات بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔
اسی طرح ان کا ایک انشائیہ’’ امروز‘‘ ہفت روزہ اشاعت میں ۲۰۔جنوری ۱۹۸۴ء کو شائع ہوا۔ یہ انشائیہ ’’کرسی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس انشائیہ میں انھوں نے کرسی اور کرسیوں پر بیٹھنے والوں کا شگفتہ انداز میں جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ کرسی ایسی چیز ہے کہ جو آدمی کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اس انشائیہ میں انھوں نے کہا ہے کہ عام آدمی جب ایک مخصوص کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ خاص شخص ہو جاتا ہے۔ اس انشائیہ میں انھوں نے مضبوط اور کمزور کرسیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ جس طرح تھانیدار اور چوکیدار کی کرسی میں فرق ہے ۔اسی طرح استاد کی کرسی اور بیوروکریٹ کی کرسی کا فرق بھی صاف نظر آتا ہے کیونکہ استاد کی کرسی خاصی کمزو ر اور بے وقعت ہوتی ہے۔ جب کہ افسر شاہی افسر سپاہی کی کرسیاں بہت مضبوط باوقعت اور باعزت ہوتی ہیں۔ اس انشائیہ میں میرزا نے جہاں کرسی اور اس پر بیٹھنے والوں کا پر لطف طریقے سے جائزہ لیا ہے وہاں کرسی کی حیثیت اورا س کی معاشرے میں اہمیت کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس انشائیہ میں میرزا نے طنزو مزاح سے کام تو لیا ہے لیکن اس میں نہ تو طنز کا نشتر ہے اور نہ مزاح کی چاشنی بلکہ یہ انشائیہ شگفتگی کی عمدہ مثا ل ہے۔ یہ انشائیہ زندگی کی نا ہمواریوں کا ادراک کرتا ہے۔ اس میں میرز ا کی شخصیت بھی کسی قدر نمایاں ہوتی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس انشائیہ کا اسلوب بھی شگفتہ ہے اسی انشائیے کا اختصا ر بھی انشائیے کے اختصار جیسا ہے۔
میرزا ریاض کا ایک انشائیہ ’’خوش فہمی‘‘ کے عنوان سے ’’امروز‘‘ ہفت روزہ اشاعت میں ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو شائع ہوا۔ اس انشائیہ میں میرزا نے خوش فہمی میں مبتلا معاشرے کے افراد کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بڑے شگفتہ انداز میں خوش فہمی میں مبتلا لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ انھیں کسی چیز سے کوئی غرض نہیں ملک میں جو چاہے ہو۔ ملک کا نظام درہم برہم ہو جائے، یا ملک پر کوئی حملہ کر ے انھیں ایسی چیزوں سے غرض نہیں وہ تو بس خوش رہنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ خوش فہم شخص کو نہ اپنے ارد گرد کوئی مسائل نظر آتے ہیں اور نہ مصائب کا احساس ہوتا ہے۔ اسے تو سب اچھا دکھائی دیتاہے۔
اس انشائیے میں میرزا نے ان خوش فہم افراد کا شگفتہ انداز میں جائزہ پیش کیا ہے جو ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس معمولی سے موضوع کو لے کر انھوں نے پورے معاشرے کے خوش فہم لوگوں کا محاسبہ کیا ہے۔ اس انشائیے کا انداز بیان ہلکا پھلکا اور لطیف ہے۔ میرزا ریاض کا ایک انشائیہ ’’محبت کی قینچی‘‘ کے عنوان سے’’ امروز‘‘ ہفت روزہ اشاعت میں ۴ جولائی ۱۹۸۴ء کو شائع ہوا۔ اس انشائیے میں انھوں نے یہ کہا ہے کہ دراصل اُدھار ایک ایسی لعنت ہے کہ جو تیز دھار قینچی کی مانند ہے جو، تعلقات، محبتوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے اور پھر ان رشتوں کو جوڑنا نا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس انشائیے میں انکشاف ِ ذات پایا جاتا ہے۔ اور فنی لحاظ سے یہ انشائیہ نگاری کی تعریف پر پورا اترتا ہوا نظر آتا ہے۔
میرزا ریاض کا ایک انشائیہ ’’ہیرو اور ہیروئن‘‘ کے موضوع پر’’ امروز ‘‘ہفت روزہ اشاعت میں ۲ مارچ ۱۹۸۴ء کو شائع ہوا۔ اس انشائیے میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی ایک لعنت ہیروئن کی تباہ کاریاں اورا س کے پھیلاؤ کے اسباب کو بیان کیا گیا ہے۔ اس انشائیہ میں انھوں نے دیگر نشوں کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ تمام نشے لعنت ہیں اور معاشرے کو تباہ کرنے میں انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
میرزا ریا ض کے انشائی مضامین میں شگفتگی بیان اور تحریر کا ہلکا پھلکا انداز ملتاہے ۔ان کے انشائیوں میں طنز بھی ملتا ہے لیکن ان کا طنز نشتر کی طرح نہیں بلکہ طنز و مزاح میں لپٹا ہوا ہوتا ہے ۔ان کے انشائیوں میں ہمیں مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ بھی نظر آتا ہے۔ میرزا ریاض بنیادی طورپر افسانہ نگار کی حیثیت سے نمایاں افسانہ نگاروں کے بعد اگر انھوں نے اردو ادب کی کسی صنف کو نسبتاً زیادہ اپنایا ہے تو وہ مضمون نویسی ہے۔ انھوں نے فلمی ،سماجی ہومیو پیتھی ، تعلیمی اور سیاسی مضامین لکھے ہیں۔ فلمی مضامین کے سلسلے میں ان کا سب سے پہلا مضمون ’’عریانی ‘‘ انگریزی فلمیں اور اخلاق کے موضوع پر روز نامہ حریت میں ۲ مئی ۱۹۶۹ء کو شائع ہوا۔ اس مضمون میں میرزا نے ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ جو انگریزی فلموں پر عریانی کے سلسلے میں لگائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں سنسر بورڈ پر کڑی تنقید کی گئی ہے کہ وہ فلم کو اس طرں سنسر کرتے ہیں کہ فن مجروح ہوتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنسی گھٹن کا شکار لوگ اکثر عریانی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ورنہ پختہ ذہن والے لوگ اس سے متاثر ہی نہیں ہوتے۔ اس مضمون میں میرزا دراصل انگریزی فلموں سے مرعوب نظر آتے ہیں اور جا بجا انگریزی فلموں کی حمایت میں قلم اٹھاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی انگریزی فلموں کی عریانی کی حمایت نظر آتی ہے۔
میرزا ریاض کے ایک مضمون ۷ مارچ ۱۹۶۹ء کو روزنامہ ’’حریت‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کا موضوع ’’ہماری فلمیں اور عوام کا اخلاق‘‘ تھا۔ اس مضمون میں پنجابی فلموں پر زیادہ تر بحث ہے پھر اسی بنیاد پر سنسر بورڈ پر بھی تنقید کی ہے۔ یہ مضمون دراصل پنجابی فلموں کی مخالفت میں لکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس مضمون میں پنجابی فلموں کے بارے میں کہتے ہیں :
جس میں اول سے آخر تک ایک عام جنسی دعوت ہے عاشق کیلیے بھی اور فلم بینوں کے لیے بھی اس کی حرکت میں ایک بلاوا ہے۔ تو بہ شکن انگڑائیاں ،اشتعال پیدا کرنے والی حرکات،جذبات میں ہلچل مچا دینے والی گفتگو اور گانے تمام ممکن زاویوں سے جسم کی خطوط کی نمائش جو نہایت تنگ و چست ریشمی لباس میں جادو اثر ہے۔(۳۲۸)
میرزا ریاض کا ایک مضمون ’’یہ بین الاقوامی مذاق ہمیں بہت مہنگا پڑے گا‘‘ ۶ ۔اگست ۱۹۶۹ء کو ’’مصور‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں پاکستانی فلم سازی پر سخت تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسی فلم نہیں ہے جو بین الاقوامی معیار کی ہو لیکن یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ چند فلمیں ایسی ہیں جن میں وعدہ،سہیلی ،باجی ،شہید، نائیلہ ،نواب سراج الدین اور مادرِ وطن اچھی فلمیں ہیں لیکن یہ بین الاقوامی معیار کی نہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ فلم سازوں نے اکثر قوم ،مذہب ،وطن ،معاشرت سب کا فلموں میں مذاق اُڑایا ہے۔ لہٰذا ایسی گھٹیا فلمیں بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری فلموں کے موضوع آفاقی نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ نا اہل افراد ہیں جو محض تجارت یا کاروبار کی غرض سے فلمیں بناتے ہیں۔ یہ فلم سازوں کی نا اہلی اور غیر معیاری فلموں پر تنقیدی مضمون ہے۔
میرزا ریاض کے سماجی مضامین میں ان کا سب سے پہلا مضمون ’’پاکستانی انگلستان کیوں جاتے ہیں‘‘ ہے جو روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں بدھ ۱۱ فروری ۱۹۷۰ء کو شائع ہوا۔ اس طرح اسی موضوع پر بالترتیب ۱۲ فرروری ،۱۵ فروری ، ۱۶ فروری ۱۹۷۰ء میں روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوتے رہے۔ اصل میں یہ مسلسل مضمون تھا جو اخبار میں قسط وار چھپتا رہا۔ اس مضمون میں انھوں نے ان وجوہات پر بحث کی ہے کہ جن کے سبب پاکستانی انگلستان جاتے ہیں اور پھر وہیں جا کر رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے برطانیہ کے معاشرے اور اس کی خصوصیات کا جائزہ لیا ہے اور پھر ان خصوصیات کا مقابلہ پاکستانی معاشرے سے کیا ہے۔ میرزا کے اس مقالہ نما مضمون پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس طویل مضمون میں میرز ا انگلستان کی معاشرت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اور اس معاشرے میں انھیں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ جب کہ پاکستانی معاشرے میں انھیں ہر طرف مایوسی اور ناانصافی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ میرزا ریاض کا ایک مختصر مضمون ’’برطانوی معاشرہ اور ہم‘‘ کے موضوع پر ۲۱ دسمبر ۱۹۸۴ء کو روزنامہ ’’امروز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے پاکستانیوں کے حالات بتائے ہیں جو انگلستان میں رہائش پذیر ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستانیوں کی تذلیل کا المیہ بیان کیا ہے۔ کہ ان کی جو ان لڑکیاں بے راہ روی اور تمام بری عادات کا شکار ہو چکی ہیں جوان میں موجود ہیں ۔اسی مضمون کا دوسرا حصہ ۱۱ جنوری ۱۹۸۵ء کو روزنامہ’’ امروز‘‘ میں شائع ہوا ۔اس میں انھوں نے برطانیہ کے دفتری نظام اور پاکستانی دفتری نظام کا موازنہ کیا ہے۔
میرزا ریاض کا ایک مضمون ’’قومی کردار ایک تدریجی عمل ‘‘ کے موضوع پر روز نامہ ’’امروز‘‘ میں ۳ ستمبر ۱۹۷۲ء کو شائع ہوا۔ اس پورے مضمون میں انھوں نے قومی کردار کی تعریف کی ہے۔ قومی کردار کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کسی قوم کے اجتماعی طرز عمل کو قومی کردار کہتے ہیں۔ قوم ایک وحدت کا نام ہے، یہی وحدت اس کے طرز عمل میں جب اپنا اظہار کرتی ہے تو اسے اس قوم کے مخصوص کردار کا نام دیا جاتا ہے۔(۳۲۹)
میرزا کا ایک مضمون ’’احترام آدمیت ہی انسانیت کی روح‘‘ کے موضوع پر ہفتہ ۲۷ اپریل ۱۹۷۶ء کو روزنامہ ’’امروز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں میرزا احترام آدمیت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ آدمیت کے احترام کے بغیر نہ اعلیٰ قوم وجود میں آتی ہے اور نہ فلاحی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ یہ ایک اصلاحی مضمون ہے۔
ان کا ایک مضمون ’’لا تعلقی کا رجحان‘‘ ،مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو، ۱۰ فروری ۱۹۷۵ء کو روز نامہ ’’امروز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں معاشرے کے ان تمام نمایاں افراد پر تنقید کی ہے جو اس معاشرے میں ایک اہمیت رکھتے ہیں لیکن وہ اس معاشرے کے اجتماعی مسائل سے بے خبر ہیں یا توجہ نہیں دیتے۔ میرزا کا ایک مضمون ’’مزدور طبقہ اور پاکستان ‘‘ کے موضوع پر شائع ہوا۔ اس میں پاکستان کے مزدوروں کے مسائل اور ان میں پائی جانے والی بے چینی اور پاکستان میں مزدوروں کے عام رویہ پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مضمون دراصل مزدوروں کے حقوق اور ان کے فرائض کے متعلق ہے۔ میرزا کا ایک مضمون ’’جہیز‘‘ ہے۔ جو فروری ۱۹۷۶ء کو روز نامہ ’’نوائے وقت ‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں جہیز کی لعنت کی نفی کی گئی ہے۔
میرزا کا ایک مضمون ’’معاشرے کے کمزور افراد‘‘ کے موضوع پر شائع ہوا۔ یہ مضمون قسط وار چھپا۔ پہلا حصہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء کو دوسرا حصہ ۳ اگست ۱۹۸۴ء کو ،تیسرا حصہ ۱۰ ۔اگست ۱۹۸۴ء کو شائع ہوا۔ اس طویل مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے کے کمزور افراد کی معاشرے میں عزت نہیں ہے۔اس معاشرے میں دولت اور اقتدار کے حامل لوگوں کی عزت کی جاتی ہے۔
تعلیمی مضامین کے سلسلے میں ان کا ایک مضمون فروری ۱۹۷۱ء کو روزنامہ ’’حریت‘‘ میں ’’ہماری گم کردہ راہ نسل کے مسائل‘‘ کے موضوع پر شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے جہاں والدین کو نوجوان نسل کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وہاں اس نظام تعلیم کو بھی قصور وار قرار دیا ہے۔ میرزا کا ایک مضمون ’’ڈسپلن کی کمی تعلیمی اداروں کا سب سے نازک مسئلہ ‘‘ کے موضوع پر روز نامہ’’ جاوداں ‘‘میں ۳۱ مارچ ۱۹۷۱ء کو شائع ہوا۔ اس میں تعلیمی اداروں کے ڈسپلن کے سلسلے میں تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ نظام تعلیم سے لے کر کالج کے تمام انتظامات کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے نظامِ تعلیم کو اسلامی بنانے پر زور دیا ہے۔
میرزا کا ایک مضمون ’’تعلیمی اداروں میں ڈسپلن کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر روزنامہ ’’جاوداں‘‘ میں ۸ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو شائع ہوا۔اس مضمون میں میرزا کی شخصیت کی عکاسی ملتی ہے۔ اس میں میرزا بھٹو کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جب کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ میرزا بھٹو کے شیدائی تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس مضمون میں بھٹو سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی مضامین میں ایک ’’منفی سیاست پاکستان کے لیے خطرہ‘‘ کے موضوع پر روز نامہ’’ امروز‘‘ میں ۲۳ ستمبر ۱۹۷۳ء کو شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے وطن عزیز کا المیہ بیان کیا ہے کہ اسے مخلص ،بے لوث، بے غرض ،محب وطن اور درد مند سیاست دان نہیں ملے۔ اس مضمون میں بھی میرزا بھٹو کے مداح نظر آتے ہیں۔میرزا کا ایک مضمون ’’کتاب کا المیہ‘‘ کے موضوع پر ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء کو روزنامہ ’’امروز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے کتاب کا المیہ بیا ن کیا ہے انھوں نے کہا ہے کہ آج لوگوں میں پڑھنے کا شوق باقی نہیں رہا ہے۔ بڑے بڑے ادیب اور نقاد بھی کتابیں نہیں پڑھتے ۔ میرزا کا ایک مضمون یوم اقبال کے سلسلے میں اپریل ۱۹۷۵ء کو روز نامہ ’’امروز ‘‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے اقبال کو آزادی کا علمبردار کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک آزادی محض ایک سیاسی نظریہ ہی نہیں بلکہ قوم کے اندازِ فکر و عمل کا شعور، احساسات، اُمنگوں اور آرزوؤں کا نام ہے ۔ میرزا کا ایک مضمون ’‘قومی زبان اور ملی اتحاد‘‘ کے موضوع پر ۱۷ اپریل ۱۹۷۲ء کو روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوا۔ میرزا اس مضمون میں کہتے ہیں کہ قومی زبان کے بغیر ہم قومی شناخت سے دور ہیں۔ اگر قوم ایک وحدت اور اکائی کا نام ہے تو زبان بھی ایک ہونی چاہیے۔ یہ مضمون دراصل قومی زبان اور اتحاد کے گرد گھومتا ہے۔ جس میں انھوں نے قومی زبان کی ا ہمیت پر زور دیا ہے۔
میرزا ریاض نے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’دست و گریبان‘‘ اور دوسرا مجموعہ ’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘ ہے۔ ان کتابوں میں چوالیس مضامین ہیں۔گولڈن جوبلی فلم چوری مرا فرض ،نہیں آگا پیچھا، خلل ہے دماغ کا، بلوں نے مارا، فقیری میں نام پید اکر، بھو ک ہڑتال ،فلم فین ، ماڈرن راکھشش، شہنشاہ ،ڈیڈی کلچر، کسب کمال فن، جھوٹ بولو جھوٹ، چند امتحانی سوالات ،مکھی نام ،مدیران کے نام،نمائندہ ناراض نسل سے ایک انٹر ویو ،شادی بوتیک ، میں اخبار نہیں پڑھتا۔ خوانچہ ، غل غپاڑہ ، فٹ یاتھیے، لذت ٹنڈ ،یارب زمانہ ہم کو ہنساتا ہے کس لیے، نکتہ داں پیدا کیے اور مکان بنواؤجان گنواؤ ، میرزا کے اہم مزاحیہ طنزیہ مضامین ہیں۔ جو ’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘ اور ’’دست و گریباں‘‘ مجموعوں میں شامل ہیں۔
’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘ مجموعے کا دیباچہ ’’تعارف ‘‘ کے عنوان سے سید مشکور حسین یاد نے تحریر کیا ہے۔ شکور حسین یاد ’’تعارف ‘‘ میں میرزا کے بارے میں کہتے ہیں :
میرزا ریاض بھی سادگی اور آہستگی سے بات کرنے کے قائل ہیں لیکن ان کی یہ سادگی اور آہستگی بڑی وسعت کی حامل ہوتی ہے۔ یہی نہیں کہ میرزا نے پر لطف جملوں میں محض احباب کا دل خوش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں بلکہ ان کے مزاح کے کئی رنگ اور روپ ہوتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے مزاح سے اپنے دوستوں کا دل رکھنا چاہتے ہیں وہاں وہ اپنے حریف پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔اور پھر مزید لطف کی بات ہے کہ میرزا صاحب کا یہ جملہ معمولی نہیں ہوتا۔ میں نے بڑے بڑے سینہ سپر حضرات کو چت ہوتے دیکھا ہے۔ طنز و مزاح کی کون سی صورت ہے جو میرزا ریاض کی گفتگو میں موجود نہیں ہوتی۔ کیا رمز کیا ضلع جگت، پھبتی اور کیا لعن و تشنیع میرزا صاحب ہر حربے سے کام لینا جانتے ہیں ۔ اور بڑی مہارت اور بے ساختگی کے ساتھ۔‘‘(۳۳۰)
مشکور حسین یاد کی ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میرزا ہر وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس سے وہ مطمئن ہوتے ہیں اور جس سے مزاح پیدا کیا جا سکتا ہے۔ میرزا کی کتابوں میں شامل مضامین میں سے بیشتر کے موضوعات ہماری معاشرتی زندگی کے متعلق ہیں۔ انھوں نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے لیے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے ’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘ اور ’’دست و گریبان ‘‘کے مضامین کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان مضامین میں میرزا ریاض نے طنزو مزاح کے تمام حربے استعمال کیے ہیں جیسا کہ بذلہ سنجی ان کی مزاح کا خاصا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مضامین میں ظرافت کا رنگ نمایاں ہے۔ان مضامین میں میرزا رعایت لفظی سے کام لیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ میرزا نے اپنے مضامین میں غالب کے بعض اشعار اور فلمی گیت کے مصرعے بھی استعمال کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے اسلوب کی شگفتگی نمایاں نظر آتی ہے۔ میرزا اگر اپنے ایک مضمون میں اس فلم کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں ۔ جس کی ہم لوگ گولڈن جوبلی نمبر مناتے ہیں تو دوسری طرف وہ ہمیں فقیروں کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی مضمون میں وہ بھوک ہڑتال کی حقیقت سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ غرض کہ ہر مضمون موضوع کے اعتبار سے ہمارے معاشرے سے وابستہ ہے۔
ایک مضمون میں انھوں نے ’’رکشا‘‘ کا تذکرہ کیا ہے تو دوسرے میں سڑک کے’’بادشاہ‘‘ ٹرک کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔غرض ان کے مزاحیہ و طنزیہ مضامین کے موضوعات میں خاص رنگا رنگی پائی جاتی ہے اور میرزا نے ان مضامین میں زندگی کے کئی پہلوؤں کو مزاح کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ ’’نکتہ داں پید اکیے‘‘ کی ظرافت کا ایک نمونہ ایک اقتباس سے ملاحظہ ہو:
بعض لوگ پیدائشی نقاد ہوتے ہیں ،بعض ترتیبی ،بعض اکتسابی بعض پر تنقید ہوتی ہے اور بعض کو قومی تقاضوں کے تحت ادب کی خالص خدمت کے لیے اس وادی پر خار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ بہر حال بنیادی طور پر انھیں باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرب دی جائے تو تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔ جمع کریں تو ہزاروں تک اور اگر تفریق کا اصول لاگو کریں تو باقی صفر رہ جاتاہے۔(۳۳۱)
میرزا ریاض معاشرے کی نا ہمواری ،تضادات اور منافقت کو ختم کرنے کے لیے مسلسل نشتر چلاتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک بات سے کئی باتیں پیدا کرتے ہیں۔ اور مزاح کے ایک جملے سے طنز کے کئی پہلو نکالتے ہیں۔ اس ضمن میں مضمون ’’غل غپاڑہ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
یہ زمانہ غُل کا ہے ریل گاڑیوں اور فیکٹریوں کا تصور، ہوائی جہازوں اور موٹر سائیکلوں کے سیلنسروں کا تصور، ناجائز کمائی اور مہنگائی کا تصور ،امن عالم اور امن عامہ کا تصور ،وہ ادیبان جو فن کی تخلیق کم اور غل غپاڑہ زیادہ مچاتے ہیں ۔ا ن کی کم عمری کی تصویریں بھی تشہیر کے طورپر اخبارات میں چھپ جاتی ہیں اور غپاڑہ کرنے والے تو آدم جی انعام کے مستحق قرا ر دیے جاتے ہیں۔(۳۳۲)
میرزا کے مزاحیہ مضامین میں ایک فطری بہاؤ ہے جو اپنے قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور اسی طرح مطالعہ کے ذوق اورا صلاح کے جذبے کی تسکین ہوتی ہے۔ معروف نقاد جیلانی کامران کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
زندگی کے ایسے مناظر ہیں جہاں ہم دوسروں پر ہنسنے کی عادت میں گرفتار ہیں، میرزا ریاض نے ہمیں مسکراہٹیں مہیا کی ہیں جو زندگی کے چلمن سے از خود پھوٹتی ہیں۔ ان صفحات میں ہمیں ایک مسکراتی ہوئی دنیا دکھائی دیتی ہے۔ جہاں سب کسی نہ کسی انداز میں مسکراتے ہیں۔ دوسروں پر نہیں بلکہ زندگی کے اس کیف پرور احساس کے سبب جو انسان کو خوشی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ میرزا ریاض کی مزاح نگاری زندگی اور احساس زندگی کو نیا ماحول دیتی ہے۔(۳۳۳)
میرزا ریاض کی تحریروں میں طنز کی کاٹ یقینا موجود ہے لیکن کاٹ اتنی لا جواب ہے کہ کاٹ کاٹ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان کا طنز سرجن کے اس نشتر کی مانند ہے جو حد درجہ چمک دمک رکھنے کے علاوہ تیز دھار بھی ہوتا ہے۔ میرزا ریاض کو جس طرح اپنی عملی زندگی میں منافقت اور منافقانہ رویوں سے بے حد نفرت تھی۔ اس طرح انھوں نے اجتماعی معاشرتی زندگی میں بھی اسے برداشت نہیں کیا۔ یہی نفرت ہمیں ان کے مضامین میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :
میرز ا ریاض فن کارانہ چابکدستی سے منافقت کے زریں سارے نوچتا جاتا ہے۔ لیکن وہ یہ سب کچھ اس ماہرانہ اندا زسے کرتا ہے کہ دوسرے کی عریانی پر ہنستے ہنستے ہم اپنی عریانی کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور تب وہ اچانک بادشاہ کے زریں لباس والی کہانی کے معصوم بچے کی طرح بول اٹھتا ہے۔د یکھو ،دیکھو ،بادشاہ ننگا ہے۔(۳۳۴)
میرزا ریاض پہلی دفعہ ۱۹۶۳ء میں برطانیہ گئے تھے۔ پندرہ برس بعد دوسری دفعہ برطانیہ گئے تو اس سفر برطانیہ کی رودداد اپنے تاثرات کے ساتھ انھوں نے اپنی کتاب ’’مسافر نواز بہترے ‘‘ کے مضامین کی شکل میں قلم بند کیا ہے۔ میرزا قدرتی منا ظر دیکھنے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ یہی شوق اُنہیں برطانیہ لے گیا اور جو کچھ انھیں برطانیہ میں نظر آیا کتابی شکل دے دی ۔ یہ سفر نامہ مضامین کی شکل میں لکھا گیا۔ یہ بھی سفر نامے کی ایک شکل ہے لیکن اسے باقاعدہ سفر نامہ کہنا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ بعض مضامین ایسے ہیں کہ جن میں سفر کے حالات تو ہیں لیکن یہ مضامین سفر نامے سے زیادہ مضامین کے فن کے زیادہ قریب ہیں ۔ میرزا نے اپنے مضامین میں بھی برطانیہ کی معاشرت کی عکاسی کی ہے۔ اگر ان کے برطانیہ کے سلسلے میں لکھے گئے مضامین کا مطالعہ کیا جائے تو تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے بیشتر مضامین میں وہی بات پائی جاتی ہے۔ جو بات ان کی کتاب ’’مسافر نواز بہتیرے‘‘ کے مضامین میں پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب کو سفر نامے کی بجائے سیاحت نامہ کا نام دیا ہے۔ اس کتاب کے دیباچے میں میرزا ریاض لکھتے ہیں :
میری یہ کتاب ’’مسافر نواز بہتیرے‘‘ سفر نامہ کم ،سیاحت نامہ زیادہ ہے۔ میری نظر میں دونوں میں فرق ہے مشاہدے اور مطالعہ کے تاثر اور تجربے کا۔ سفر نامہ تماشائے مسافر ہے۔سیاحت نامہ فکر مسافر سیاحت میں بصارت کے ساتھ بصیرت بھی ہوتی ہے۔ مقابلہ و موازنہ بھی ہوتا ہے مگر ایک توازن کے ساتھ۔(۳۳۵)
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس سفر نامہ میں اس قوم کے ماحول ،برتاؤ اور عمل کو ظاہر کیا ہے۔اس سفر نامے میں صرف ان علاقوں کا تذکرہ ہے جن کی انھوں نے سیر کی ۔اس میں وہی کچھ ہے جو انھوں نے دیکھا ۔اس سفر نامے کی دو اقساط ماہ نامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔اس سفر نا مے میں انھوں نے سب سے پہلے اس سفر کی وجہ بتائی ہے کہ انھوں نے برطانیہ کا سفر کیو ں کیا ۔اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر لوگ برطانیہ کیوں جاتے ہیں۔ اور پھر واپس اپنے ملک آنے کا نام نہیں لیتے۔ اس سفر نامے میں انھوں نے اپنے سفر کے آغاز کی روداد بھی لکھی ہے کہ وہ کس طرح لاہور سے چلے اور پھر کس طرح برطانیہ پہنچے۔
اس سفر نامے کی ابتدا ہی میں انھوں نے ملکی نظاموں کو تنقیدی نظر سے دیکھا ہے اور پھر اس پورے نظام کا موازنہ انھوں نے برطانیہ کے نظام سے کیا ہے۔ میرزا نے اپنے ملک کے تمام نظاموں پر تنقید کی ہے اور انھیں ناکام نظام کہا ہے جب کہ انھوں نے برطانیہ کے مختلف نظاموں کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔ میرزا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے طریقہ کار کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہاں ڈرائیونگ کا لائسنس حاصل کرنا دشوار ہے ہماری طرح نہیں کہ فیس کے ساتھ رشوت کی رقم دی اور لائسنس حاصل کر لیا۔ حسبِ منشا خواہ ڈرائیونگ آتی ہی نہ ہو۔ چناں چہ آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر پھر بھی لائسنس جاری کرنے والے ارباب روپوں کے عوض لائسنس جاری کرتے ہیں۔ اور ان کے ضمیر پر جوں تک نہیں رینگتی ،مگر اہلِ انگلستان لائسنسوں کے معاملے میں بے حد محتاط اور سخت ہیں اور ڈرائیونگ کے ضابطوں کے معاملے میں بے حد حساس۔(۳۳۶)
اس طرح میرزا نے اپنے ملک پاکستان کے سرکاری ،غیر سرکاری دفاتر کارخانوں اور تعلیمی ادراوں کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اور پھر برطانیہ سے ان کا موازنہ بھی کیا ہے۔ اس میں وہ برطانیہ کی معیشت اور اپنے ملک کی معیشت کا موازنہ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ میرزا نے برطانیہ کے تفریحی مقامات کا بھی اس سفر نامے میں تذکر ہ کیا ہے ۔انھوں نے پاکستان کے تفریحی مقامات اور برطانیہ کے تفریحی مقامات کا موازنہ بھی کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
انگلستان کوئی بڑا ملک نہیں ہے کہ ہمارے صوبہ پنجاب سے زیادہ نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ انگلستان کے ہر شہر بلکہ گاؤں اور ہر جگہ بڑے بڑے پارک موجود ہیں۔ جہاں پر لوگ ذہنی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ مقابلتاً دیکھا جائے تو ہمارے ہاں کتنے باغات ہیں جنھیں صحیح معنوں میں تفریح کی جگہ کہا جا سکتا ہے۔ اور اگر کہیں چھوٹے چھوٹے پارک ہیں بھی توان کی حالت کیا ہے، تباہی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اور پھر آبادی میں کیا تناسب ہے ان لوگوں کا جو سیر گاہوں میں جاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔(۳۳۷)
میرزا نے اپنی اس کتاب میں برطانیہ کے موسموں کا ذکر بھی کیا ہے اور خاص طورپر سردیوں کے موسم کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ کتنا فرحت بخش اور مسرت بخش موسم ہوتا ہے۔ انھوں نے برطانیہ کے خوبصورت شہروں کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ یہ شہر خوبصورتی اور صفائی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اس سفر نامے میں میرزا نے برطانیہ کی قومی غذا، فلم انڈسٹری ،دیہات ،یونیورسٹیوں اور شعبہ پولیس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔اس سفر نامے میں انھوں نے رالف رسل کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جو لندن یونیورسٹی میں شعبہ اورینٹل اور افریقی زبان سے منسلک تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ رلف رسل برسوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف کار اور سر گرمِ عمل ہے رالف رسل کی اردو زبان و ادب کی خدمات کے حوالے سے میرزا لکھتے ہیں :
نذیر احمد نے بتایا کہ یونیورسٹی کے علاوہ ہفتہ وار جو رخصت کے دو روز ہوتے ہیں ان میں وہ دور دراز دیہاتوں میں جا کر اردو زبان کا چسکا رکھنے والے انگریزوں کو اردو کی تعلیم و تدریس دیتے ہیں۔(۳۳۸)
اس کتاب میں انھوں نے شیکسپیئر کے گاؤں کے بارے میں بھی لکھا ہے :
یہ ایک بہت با رونق شہر ہے۔ نفاست اس کے دردیوار سے ٹپکتی ہے پہلے ہم ایک ایسے شعبے میں گئے جہاں شیکسپیئر کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔ اس کی شخصیت ،ابتدائی تعلیم ،دیگر حالاتِ زندگی مع تصاویر تصانیف وہاں پر موجود تھیں۔ یہ ایک چھوٹی سی تنگ سی جگہ تھی۔ مگر اسے سلیقے سے ترتیب دیا گیا تھا۔ چاروں طرف خوبصورت باغیچے تھے جہاں پر رنگا رنگ پھولوں کی الگ الگ کیاریاں تھیں۔(۳۳۹)
میرزا ریاض کی اس کتاب’’مسافر نواز بہترے‘‘ کے اس جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں وہ سب کچھ موجود ہے۔ جو ان کی نظروں کے سامنے سے گزرا۔ جہاں تک اس کتاب کی اہمیت کا تعلق ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی فرد کو برطانیہ کے بارے میں معلوماتلیناہیں تو یہ کتاب اس لحاظ سے ایک معلوماتی کتاب بھی ہے۔ اس کتاب کی تاریخی اہمیت بھی ہے اس لیے کہ اس میں بعض تاریخی شخصیات کا تذکرہ ہے اور بعض ایسے مقامات کا بھی تذکرہ ملتا ہے جس کا تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔
جہاں تک اس کتاب کی اوبی اہمیت کا تعلق ہے اس میں شک نہیں کہ یہ کتاب ایک ادبی مقام بھی رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں انھوں نے بعض ادبی شخصیات کے حوالے سے بھی باتیں کی ہیں ۔وہ شخصیات جو ادب میں ایک اہمیت رکھتی ہیں۔ میرز ا ریاض نے دیگر نثری اصناف کے ساتھ افسانہ بھی لکھا ہے۔ ان کے دو افسانوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’آندھی میں صدا‘‘ ہے جو انیس افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دیباچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے ۔
ہاتھ، ماتم ،تخلیق، مہک، صحرا، دلدل ، سحر، آخری بس، بیالیس روپے ،عفریت ،درد آشنا، تشنہ لب، افسانہ ،منزل ،چیخ ،رہنما، جوئے خون، آندھی میں صدا اور سرطان ،’’آندھی میں صدا‘‘ افسانوی مجموعے کے عنوانا ت ہیں۔میرزا کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’بے آب سمندر‘‘ چودہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ خلا ،آٹو گراف، بدلتی رت، روٹ لیس، تعبیر، نقاب، نشیب، بندِ غم، کشف، پچھلی رات کا محب وطن ،انگار اور چمگادڑ دوسرے افسانوی مجموعے کے عنوانات ہیں۔ ان دو مجموعوں کے حوالے سے میرزا کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا جائے گا۔ میرزا ریاض افسانہ نگاروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے آزادی کے بعد لکھنا شروع کیا ۔ یوں تو اور بہت سے افسانہ نگار بھی پید اہوئے لیکن ان میں سے بہت سے افسانہ نگاروں کو ان کی زندگی میں ہی معمولات دیگر نے چاٹ لیا۔ لیکن میرزا آہستہ آہستہ افسانے لکھتے رہے۔ ان کے افسانے ’‘ہمایوں‘‘ ،’’اوراق‘‘، ’’سیپ‘‘، ’’ماہِ نو‘‘ ،’’نقوش‘‘اور ’’افکار‘‘ جیسے ادبی پرچوں میں چھپتے رہے۔
میرزا کے افسانوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنا بندھن اس روایت سے باندھا ہے جو پریم چند سے شروع ہوتی ہے۔ انھوں نے ذاتی تجربات کو اہمیت دی اور احساس کے بوجھ کو افسانہ نگاری کے اس طویل سفر میں زادِ راہ بنائے رکھا۔ انھوں نے خیرو شر کی آویزش کو ترقی پسندانہ انداز میں اُبھارنے کی بجائے زندگی کی اصل حقیقت دریافت کرنے کی سعی کی اور اسے افسانے کا روپ دیا۔ ’’تشنہ لب‘‘،’’منزل‘‘،’’سرطان ‘‘،’’صحرا‘‘ افسانوں میں انھوں نے بالعموم زندگی کے تذکرہ جوہر کو بھی کامیابی سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ میرزا ریاض کی افسانہ نگاری کے حوالے سے سید وقار عظیم لکھتے ہیں :
ہر افسانہ زندگی کا ایک نیا رنگ ہے اور ہر افسانہ انسان کا ایک نیا روپ۔ اچھے افسانوں کی تخلیق اس رنگ اور روپ کے صحیح امتزاج سے ہوتی ہے اور افسانہ نگار کی انفرادیت کا نقش اس بات سے ابھرتا ہے۔ کہ اس کی نظر نے کس رنگ حنا کو چنا اور اس کے دل نے کس روپ کو اپنایا۔(۳۴۰)
میرزا نے اپنے افسانوں میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے روزمرہ واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے تجربات اور محسوسات کو اپنی پور ی شدت اور اثر آفرینی کے ساتھ الفاظ میں منتقل کیا ہے۔ میرزا ریاض کے افسانوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے افسانے کسی خاص رجحان کے تحت شمارنہیں کیے جا سکتے۔ اور نہ ہی کرنے چاہیے ۔کیونکہ ان کے افسانے بیک وقت واقعاتی بھی ہیں ۔ان کے افسانوں میں علامتی انداز بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ ان کے ہاں ’’تجربہ‘‘ کا عنصر بھی پایا جاتا ہے ۔ جوہر اچھے فن پارے کا جوہر ہے۔
جہاں تک ان کے افسانوں میں واقعاتی عنصر کا تعلق ہے میرزا اپنے افسانوں کو واقعات کی فراوانی سے گرانبار نہیں بناتے ۔ انھوں نے اپنی کہانی میں وہ کچھ سمیٹا ہے جو ان کے موضوع کی پیش کش یا کردار کی تعمیر کے لیے ضروری تھا۔ جہاں تک علامتی ہونے کا تعلق ہے میرزا ریاض کا کوئی خالص افسانہ تو موجود نہیں لیکن ان کے ہاں علامتی انداز جا بجا نظرآتا ہے۔ جہاں تک تجربہ کا تعلق ہے ایک اچھے افسانے کے لیے ’’تجرید‘‘ ضرور ہوتی ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جو فن کو غیر فن سے جدا کرتا ہے۔ میرزا کے افسانوں کے مطالعہ سے تجرید کا عنصر بھی صاف محسوس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا میرزا کے افسانوں کے حوالے سے لکھتے ہیں :
میرزا ریاض کے افسانے خاکِ وطن سے وابستہ ہیں اور خاص ماحول کے آئینہ دار ہیں ۔ جو سر زمین وطن پر مختلف قومی اور بین الاقوامی واقعات کے دباؤ سے وجود میں آیا ہے مگر میرزا ریاض نے افسانے کے واقعاتی رخ کو اشیااور واقعات کی فراوانی سے گرانبار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی کہانی میں وہی کچھ سمیٹا ہے جو ان کے موضوع کی پیش کش یا کردار کی تعمیر کے لیے ضروری تھا۔(۳۴۱)
میرزا ریاض کا خاص موضوع بچپن کی طرف مراجعت ،ماں کی آغوش کی تمنامیں بھی الجھن نہ ہو۔ ان کے افسانے ’’درد آشنا‘‘ ،’’تشنہ لب‘‘ ،’’ہاتھ‘‘ اور ’’عفریت‘‘ میں ایسی ہی خواہش کا اظہار ملتا ہے۔ ’’سرطان ‘‘ ان کا نمائندہ افسانہ ہے جس میں فرد کی ذہنی شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے کردار کو شعر کی منزل میں قدم رکھتے ہی معاشرے کی طرف سے اسے زخم کا احساس دلایا جاتا ہے۔ جس کا علاج کوئی نہیں سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ ماں کی آغوش کی طرف لوٹ جائے۔ ان کے افسانوں میں ’’منزل‘‘ ،’’آخری بس‘‘ اور ’’عفریت ‘‘ کی تینوں عورتیں اپنی اپنی ذات کے محور سے نکل کر زندگی کو نئے سرے سے دیکھنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔
میرزا نے نفسیات کے کتابی علم کی بنیاد پر اپنے افسانے تخلیق نہیں کیے۔ وہ انسانی کردار کے پیچ و خم کے براہِ راست مطالعہ اور مشاہدہ پر زور نہیں دیتے اور نہ ہی وہ اس رویہ کے قائل ہیں۔ اس لیے ان کے افسانوں کا پہلا اور آخری تاثریہی ہوتا ہے کہ یہ افسانے ہی ہیں۔ نفسیاتی اسباق یا کوئی اور چیز نہیں۔ ’’آندھی میں صدا‘‘ اور ’’بے آب سمندر‘‘ میں بیشتر اچھی اور بھر پور کہانیاں ہیں۔ ان اچھی کہانیوں میں ’’آندھی میں صدا‘‘، اور ’’سرطان ‘‘ خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر ان کے مجموعہ ’’بے آب سمندر‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
دو افسانوں کے نئے مجموعے ’’بے آب سمندر‘‘ میں ہمیں وہ ان انسانوں کے جذباتی المیوں کی روداد سناتا ہے جنھیں زندگی کے سمندر سے شبنم نہیں ملتی ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی روح کی گہرائیوں میں کرب کے سمندر لیے ہیں مگر ایسے سمندر کی بے آبی جذبات کی بے کرانی کو مدو جزر میں نہیں بلکہ بادِ سموم میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ ان ازلی پیاسے لوگوں کے افسانے ہیں ۔تشنگی جن کا مقد ر ہے کہ یہ ان کے وجود کا جذربن چکی ہے۔(۳۴۲)
جہاں تک ان کہانیوں کے مقصد کی بات ہے تو یہ کہانیاں کسی خاص مقصد کے پیشِ نظر نہیں لکھیگئی ہیں۔ البتہ ان کہانیوں میں جو مطابقت ہے کہ ہمارا معاشرہ رنگینیوں اور گہما گہمیوں کے باوجود اندر سے کھوکھلا او ر بد شکل ہور ہا ہے ۔ انسانی قدریں اور اخلاقی قدریں معاشرے سے ختم ہو رہی ہیں اور آخر اس کھوکھلے معاشرے سے یہ سب کچھ کس طرح ختم ہو گا۔ یہ کہانیاں اس سلسلے میں کبھی کبھار سوچنے پر مجبور کر تی ہیں۔لہٰذا ان کہانیوں کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مقصد ی طورپر معاشرتی زندگی کے قریب ہیں۔ اور ان کی کہانیاں اپنے عہد کی نمائندگی کرتی ہیں۔ میرزا اپنے مجموعے ’’بے آب سمندر‘‘ میں لکھتے ہیں :
زندگی میں محبتوں کو فروغ ملنا چاہیے مگر انسانی جذبات میں نفرتوں کا تناسب کہیں زیاد ہ ہے۔ انھیں نظر انداز کر دینے سے انسانی زندگی کی ادھوری شکلیں سامنے آتی ہیں۔ عشق و محبت کے روایتی طلسمات سے نکلنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ دور سائنسی حقیقتوں کا دور ہے اور ہمارے ادیب ابھی تک تمناؤں کے اندھے سرابوں میں گم ہیں۔ اس لیے متنوع زندگی سے ان کا مکمل رابطہ نہیں رہا۔ زندگی ان کی دانست میں خوب ہے ۔تجربہ نہیں لہٰذا ان کی تخلیقات خوبصورت تو ہیں مگر کسی بیوٹی کلینک میں تیارشدہ عارضی ،مصنوعی اور غیر فطری ۔(۳۴۳)
میرزا کے افسانوں کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ غلاظت میں سے پاکیزگی کی نمودکے ایسے تجربے سے نا واقف ہیں کہ جس سے ایک عام شہری قطعاً مجروح ہے۔ ’’صحرا‘‘ میں وہ اس دھرتی سے ایک پھول جیسے بچے کی پیدائش کے خواہش مند ہے کہ جو بچہ روحانی نشاۃ الثانیہ کے لیے ایک علامت ہے۔ ان کے افسانے ’’منزل‘ ‘ میں ایک طوالت ہے جو گندگی سے لتھڑی ہوتی ہے۔ ایک بوڑھے تانگے والے کے خالصتاً انسانی بلکہ روحانی سلوک سے متاثر ہو کر بیدا رہو جاتی ہے۔ اور یوں اس افسانے میں وہ گندگی سے پاکیزگی کی طرف آتے ہیں۔ میرزا ریاض ایک افسانے میں لکھتے ہیں :
پکھراج چپکے سے باہر نکل آئی ۔بہت دور تانگے کی زرد روشنیاں ابھی تک کانپ رہی تھیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ روشنیاں نور کا سیلاب بن کر ساری کائنات پر چھا گئیں ۔ اور اندھیرے چھٹ گئے راہیں منور ہو گئیں۔ پکھراج نے اپنے بازو پھیلائے اور تانگے کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔(۳۴۴)
ان کے افسانے ’’سرطان ‘‘ میں بھی افسانے کا ہیرو چاک پیرہن ہے اور زخمی جسم کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد مولوی کی گود میں اپنا سر جھکا دیتا ہے۔ اس افسانے میں میرزا روحانیت کی طرف آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور شر کے مقابلے میں حق کی فتح دکھائی ہے۔ میرزا کے افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
دوسرے گھروں سے سوتے پاگتے، ہنستے روتے،عریاں نیم عریاں بچے ہاتھوں میں پتھر لیے منصور حلاج کو سنگسار کرنے کے جوش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے لگے۔ جان عزیز کو بچانے کی خاطر میں وہاں سے بھاگا اور جب میں نڈھال ہو کر اس مسجد میں گرا تو میرے پاؤں زخمی تھے۔ جانے میں کتنے میل بھاگا تھا۔ میرے جسم پران گنت زخموں کے نشان تھے۔ میرا جسم چاک چاک تھااور میرے سر سے خون کی لکیر میرے خشک ہونٹوں کو سیراب کر رہی تھی۔اور میں مولوی احسان کی گود میں سر چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔(۳۴۵)
میرزا ریاض کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بنیادی فنی ضرورت کو نظر انداز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے فن پر پورے اترتے ہیں ۔ان کے ہاں افسانے کا کہانی پن موجود رہتا ہے۔
اس کہانی پن کی وجہ سے قاری اور افسانہ نگار کی اکائی ہمیشہ قائم رہتی ہے اور خوبی کی با ت یہ ہے کہ افسانے کے اختتام پر قاری کے دل میں افسانہ نگار کے لیے احترام کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’بیالیس روپے‘‘ ،’’رہنما‘‘ اور ’’افسانہ ‘‘ افسانے روشن مثالیں ہیں۔ جہاں تک میرزا کے اسلوب کا تعلق ہے تو انھوں نے کہانی کے بیان کے لیے نرم آہنگ اور سیدھا سادا اسلوب اختیار کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں بات کرنے کا لہجہ دھیما ہے۔ ان کے افسانوں میں کہیں بھی سنسنی خیزی اور چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔ البتہ ان کے بعض افسانوں میں ڈرامائی کیفیت کا تاثر ملتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے چند افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی اور جو ٹیلی ویژن سے نشر ہوئے۔
اسلوب اور انداز بیان کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو میرزا کا مقام اردو کے کسی بھی بڑے افسانہ نگار سے کم دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جس طرح لفظوں کا استعمال کیا ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے موتی پروئے ہوں ۔لفظ نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں کہ اگر ایک لفظ ہٹا لیا جائے تو ساری عبارت میں جھول پڑ جائے۔
خالد نظیر صوفی(۱۹۳۹ء ۔پ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خالد محمود ہے۔ علامہ محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد خالد نظیر صوفی کے نانا تھے۔ خالد نظیر نے اقبال منزل سیالکوٹ میں ہوش سنبھالا۔ اور بچپن میں اقبال منزل میں رہا کرتے تھے۔ (۳۴۶) انھوں نے ۱۹۷۷ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے بی ۔اے کیا۔ آپ سیالکوٹ سٹوڈنٹس ویلفیئر سو سائٹی کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ اور سو سائٹی کے سہ ماہی پرچے ’’مشعلِ راہ‘ ‘ کی مجلسِ ادارت میں بھی شامل رہے۔ (۳۴۷)
’’اقبال درونِ خانہ‘‘ حصہ اول خالد نظیر صوفی کی پہلی تصنیف ہے جو بزمِ اقبال لاہور سے ۱۹۷۱ء میں شائع ہوئی۔ جب کہ ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ حصہ دوم اقبال اکیڈمی پاکستان لاہور نے ۲۰۰۳ء میں شائع کی۔ ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ حصہ اول خاندانِ اقبال کی جانب سے حضرت علامہ اقبال کے گھریلو حالات پر پہلی کتاب تھی۔ جس کا پیش لفظ مولانا غلام رسول مہر نے لکھا۔
’’اقبال درونِ خانہ‘‘حصہ اول کو بار اول میں بزمِ اقبال لاہور نے اپریل ۱۹۷۱ء میں شائع کیاجس کے ناشر محمد جہانگیر خان سیکرٹری بزمِ اقبال لاہور تھے۔ اس کا بار دوم ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں انھوں نے اقبال کی گھریلو زندگی کینمایاں حالات و واقعات کو دانائے راز (چند یادیں اور واقعات) ،حیات جاوید (چند خواب) ،نوادر،اقبال منزل ،بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی (ناشناسانِ اقبال کی خدمت میں )تاریخ پیدائش اور انکشافِ حقیقت جیسے آٹھ عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔
خالد نذیر صوفی مذکورہ بالا کتاب میں اقبال کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک تمام گھریلو حالات بتاتے ہیں کہ کس انداز سے وہ گھر میں رہتے تھے۔ ان کے گھر میں کیسا ماحول تھا۔ ان کا اپنے گھر والوں کے ساتھ سلوک کیسا تھا۔ ملازمین سے کس طرح کا برتاؤ کرتے تھے۔ علامہ مرحوم بچوں سے کس طرح پیا ر کرتے تھے۔ وہ کھانا کس قسم کا پسند کرتے تھے۔انھیں لباس کیسا پسند تھا ۔غرض کہ تمام حالات بیان کرتے ہیں اور ہمارے سامنے اس عظیم المرتبت شخصیت کی نجی زندگی لاتے ہیں جو اپنے اندر بے شمار رنگا رنگی لیے وارد ہوتی ہے۔
سب سے پہلے اقبال کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ پیشتر ازیں اقبال کی تاریخ پیدائش کے بار ے میں اختلاف ہے۔ یوسف سلیم چشتی ’’روزگار فقیر‘‘ میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ء لکھتے ہیں کہ عام طورپر یہی تاریخ پیدائش مستند سمجھی جاتی ہے۔ مگر خالد نظیر صوفی اپنی کتاب ’’اقبال درونِ خانہ‘‘میں لکھتے ہیں :
۲۹ دسمبر ۱۹۷۳ء کو بروز سوموار صادق کے وقت سیالکوٹ کے ایک معزز اور متوسط کشمیری گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔(۳۴۸)
بچہ بہت پیارا اور خوبصورت تھا اور اس کے خدوخال کے بارے میں کہتے ہیں :
نومولود کے خدوخال بہت
پیارے اور رنگ سرخ و سفید(۳۴۹)
نہایت حسین اور روشن جبیں بچہ اور کون جانتا تھا کہ قسمت کا ستارہ اس تابناکی سے چمکے گا جس کی روشنی سے مشرق و مغرب جگمگاا ٹھیں گے اگرچہ اس عظیم المرتبت شخصیت کے بلند اقبال کی بشارت ان کے والد محترم کو خواب کے ذریعے ہو چکی تھی مگر انھیں کیا معلوم کہ بیسویں صدی میں ان کا بیٹا اتنا بلند مقام حاصل کرے گا۔
اس اقبال مندروح کی بلند اقبالی کی بشارت گو شیخ نو ر محمد صاحب کو خواب میں مل چکی تھی۔(۳۵۰)
بقول خالد نظیر صوفی اقبال کی والدہ ماجدہ نے ان کا نام ’’اقبال ‘‘ تجویز کیا۔ اتنی عظیم مائیں بھی ہر کسی کے نصیب میں کہاں جو بچوں کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور روحانی نشوونما کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ اقبال کو ایسی ہی عظیم ماں نصیب ہوئی۔ یہ ماں کی تربیت کا اـثر تھا کہ بچپن سے ہی اقبال بہت سنجیدہ اور خاموش طبع تھے۔ سمجھ بوجھ رکھنے والے بچوں کی طرح نہایت ہونہار تھے۔ پڑھائی میں وہ بڑے ہوشیار تھے اور انھیں پڑھائی سے والہانہ عشق تھا ۔ان کا حصول علم کے لیے ذوق و شوق اس قدر تھا کہ راتو ں کو اُٹھ اُٹھ کر پڑھتے تھے بقول خالد نظیر صوفی:
ایک دفعہ نصف شب کے وقت بے جی (والدہ اقبال) کی آنکھ اچانک کھل گئی تو انھوں نے نا نا جان (علامہ مغفور ) کو دیے کے قریب بیٹھے سکول کا کام کرتے ہوئے پایا۔(۳۵۱)
بقول صوفی نظیر اقبال اکثر رات کو پڑھتے رہتے تھے اور ان کی والدہ اکثر انھیں آدھی رات یا اس کے بعد اٹھ کر سلا دیتی تھیں۔ علامہ مرحوم چھوٹی عمر میں ہی حاضر جواب تھے۔ وہ سکول میں ہر دل عزیز تھے اور سب انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کی حاضر جوابی اس قدر تھی کہ ایک دن سکول دیر سے پہنچنے پر استاد کے استفسار پر کہا:
جناب !اقبال ہی دیر سے آیا کرتا ہے۔(۳۵۲)
بقول صوفی حضرت علامہ کو شلوار قمیص پسند تھی اور وہ زیادہ تر شلوار قمیص ہی پہنتے تھے اورا نھیں انگریزی لباس بالکل پسند نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ولایت جانے سے قبل دیسی لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں۔
ولایت جانے سے پیشتر انھوں نے کبھی انگریزی لباس نہیں پہنا۔ ولایت سے واپس آکر بھی انھوں نے سوٹ وغیرہ بہت کم استعمال کیے۔ دراصل انھیں انگریزی لباس بالکل نا پسند تھا۔(۳۵۳)
بقول صوفی کسی تقریب وغیرہ میں شرکت کرنے کے لیے اگرچہ کبھی کبھار انگریزی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ مگر ایسے ہوتا کہ نہ چاہتے ہوئے پہن رہے ہیں اور واپس آتے ہی اُتار دیا کرتے تھے۔ ان کی سادگی بھی مثالی تھی ۔ جیسا بھی کپڑا مل گیا پہن لیا کبھی بھی نقص نہیں نکالا کبھی سلائی میں نقص نہیں نکالا۔ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ یہ کپڑا سلکی ہے یا ریشمی ہے بس کپڑا اور سلا ہوا تو پہن لیا۔
بقول صوفی شاعر مشرق جن کی شاعری سراپا عمل ہے جس میں جوش و جذبہ ہے،حرکت و عمل ہے کام کرنے کی لگن ہے۔ ایک پیغام ہے حرکت کا پیغام،عمل کا پیغام جو تن آسانی کو برا سمجھتے ہیں۔ موت سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ اقبال عام زندگی میں تساہل پسند واقع ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں :
وہ فطرتاً تسائل پسند تھے چارپائی پر نیم دراز یا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے رہنے کے بڑے دلدادہ تھے۔ وقت کی پابندی ان کے لیے مشکل تھی۔(۳۵۴)
وہ مطالعہ میں مصروف رہتے تھے اور اس قدر محو ہو جایا کرتے کہ دوپہر کا کھانا تک بھو ل جایا کرتے تھے اور دریافت کیا کرتے کہ کیا کھانا کھا چکا ہوں۔ وہ سیر کے لیے بھی باہر جانا گوارہ نہ کرتے تھے۔ عموماً گھر میں دو چار چکر لگا لیے یہی سیر ہو گئی۔ علامہ سفر کے معاملے میں بہت حد تک یہ کوشش کرتے تھے کہ سفر پر نہ ہی جایا جائے۔ وہ سفر کا نام سنتے ہی گھبرا جایا کرتے تھے۔
حضرت اقبال کھانے کے معاملے میں بہت سادہ مزاج واقع ہوئے ۔ جس قسم کا بھی کھانا ہوتا تناول فر مالیتے تھے ہاں مگر نفاست پسند ضرور تھے۔ کبھی کسی چیز میں نقص نہ نکالتے ۔اچھے کھانے کی تعریف ضرور کرتے تھے۔ اگر کوئی چیز دیکھنے میں بھلی معلوم نہ ہوتی تواسے ہرگز نہ کھایا کرتے بلکہ انکار کر دیا کرتے تھے۔ خالد نظیر صوفی نے اپنی والدہ کی وساطت سے ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے۔
ایک روز ہنڈیا بھوننے میں زیادہ سرخ ہو گئی جس کی وجہ سے سالن ذرا سیاہی مائل ہو گیا ۔ چچا جان نے کھانے سے انکا ر کر دیا تو چچی جان نے کہا مز ے دار تو بہت ہے ۔چچا جان نے فرمایا جو چیز آنکھوں کی بھلی معلوم نہیں ہو رہی اس کے لذیر ہونے کا کیا فائدہ ۔ انھیں مغز یا کلیجی وغیرہ پکی ہوئی دیکھنی بھی گوارہ نہ ہوتی۔(۳۵۵)
علامہ اقبال کھانا بہت کم مقدار میں کھاتے تھے۔ وہ رات کو مکمل فاقہ کرتے تھے۔ صبح ہلکا ناشتہ اور دوپہر کو تھوڑی سی روٹی کھا لیتے تھے۔ رات کو کھانانہ کھاتے۔البتہ اگر نمکین کشمیری چائے مل جاتی تو پی لیا کرتے ان کے پسندیدہ کھانوں کے متعلق خالد نظیر صوفی اپنی والدہ کی وساطت سے بیان کرتے ہیں :
گوشت سے زیادہ رغبت تھی۔ لیکن ہر قسم کی سبزیاں بھی پسند کرتے تھے۔ پلاؤ اور شامی کباب ان کے پسندید ہ کھانے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ اسلامی کھانے میں سیخ کباب بھی بڑے شوق سے کھاتے تھے۔(۳۵۶)
بقول صوفی حضرت اقبال رات کو دیر سے سوتے تھے اور صبح جلدی اُٹھتے تھے۔ صبح نماز پڑھ کر کلام پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ رات دس گیارہ بجے تک محفل جمعی رہتی تھی۔ ان کی محفل میں طرح طرح کے لوگ آیا کرتے تھے اور مختلف موضوعات پر بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ محفل برخاست ہوتی تو آپ مطالعہ میں مصروف ہو جاتے تھے۔ مطالعہ سے فارغ ہو کر آپ سوتے تھے۔ ان کی سحر خیزی کا یہ عالم تھا کہ اکثر علی بخش کو وضو کے لیے پانی اور جائے نماز کا اہتمام رات ہی کو کرنا پڑتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرنے کے عادی تھے۔
حضرت اقبال کو سوتے میں خراٹے لینے کے عادت تھی اور خراٹے بھی کوئی عام خراٹے نہیں ہوا کرتے تھے۔ بڑے خوفناک ہوا کرتے تھے ۔ایسی بھیانک آوازیں ہوتی تھیں۔ کہ گھر کے دوسرے افراد ڈر جاتے تھے۔ جب تک نیند گہری نہ ہوتی ان کا ایک پاؤں ہلتا رہتا اور خراٹے نہیں ہوتے ،جونہی نیند گہری ہوتی اسی وقت سے خراٹے شروع اور تمام گھران خراٹوں کی زد میں ہوتا تھا۔ خالد نظیر صوفی لکھتے ہیں:
بعض اوقات تو ایسی عجیب اور ڈراؤنی آوازیں ہوتیں کہ رات کی خاموشی میں کلیجا منہ کو آنے لگتا ہے۔(۳۵۷)
بقول خالد نظیر صوفی علامہ لاہور میں رہ کر اورا علیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنے مخصوص محاورے اور تلفظ ہی کو استعمال کرتے تھے اور ’’فالودے‘‘ کو ہمیشہ ’’پھلودہ‘‘ ہی بولتے رہے اگر کبھی والدہ جاوید کہتیں کہ پھلودہ نہیں بلکہ فالودہ کہا کرو تو فرمایا کرتے تھے:
میری ماں نے تو مجھے یہی سکھایا میں اپنی ماں کی تعلیم کو فراموش نہیں کر سکتا۔(۳۵۸)
والدہ جاوید پکی روزہ دار تھیں۔اقبال بھی باقاعدگی سے روزے رکھا کرتے تھے۔آخری عمر میں بیماری کی وجہ سے روزہ چھوٹ جاتا تھا۔آخری سالوں میں حضرت مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔کبھی دردِ گردہ تو کبھی نقرس،اکثر صحت خراب رہتی تھی۔ خرابی صحت کے باوجود ہمت کر کے روزہ رکھ لیتے تھے۔ مگر کمزوری کی وجہ سے گھبراجایا کرتے تھے۔ اور پوچھا کرتے تھے کہ ابھی افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔ حضرت اقبال یہ سوال دوپہر کے وقت سے ہی شروع کر دیتے اور علی بخش کو عصر کے وقت ہی حقہ تازہ کرنے کا حکم مل جاتاتھا۔ اور افطاری کے بعد سب سے پہلے حقہ پیا کرتے تھے اور جب انھیں بتایا جاتا کہ ابھی توا فطاری میں کافی وقت ہے تو علامہ اقبال فرماتے :
خدا جانے روزے طویل ہو گئے ہیں یا پھر مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں رہی۔(۳۵۹)
بقول خالد نظیر صوفی اقبال کے کمرے میں بھی درویشانہ ماحول تھا۔ ان کی میز پر کتابیں بکھری پڑی رہتی تھیں۔ اگر کوئی ترتیب سے الماری میں رکھنے کی کوشش کرتا تو اسے منع فرما دیا کرتے تھے۔ دیواریں گردو غبار سے اٹی ہوئی ہوتیں۔ بستر بھی بعض اوقات گندہ ہوجاتا ہرگز نہ بدلتے کیونکہ انھیں ظاہری شان و شوکت بالکل نا پسند تھی۔ وہ صرف اپنے حال میں مست رہتے تھے ۔ماحول اور لباس سے بے نیاز ہو کر ملک و ملت کے مسائل میں اُلجھے ہوئے رہتے تھے۔ انھیں ہر وقت اپنی قوم اور ملک کی فکر تھی وہ اسی میں غرق رہتے تھے۔ انھیں لباس یا ماحول سے کوئی سروکار نہ تھا۔
بقول صوفی شاعر مشرق بہت قناعت پسند تھے۔ جب وکالت کرتے تھے تو صرف اتنی مالیت کا کام لیتے جس سے ضروریات زندگی پوری ہو جائیں۔ فالتو کام ہرگز نہ کرتے تھے اور کبھی کسی کا جھوٹا مقدمہ نہ لیتے تھے۔ بلکہ لینے سے انکار کر دیا کرتے تھے اور سائل کو بھی سمجھاتے کہ تمہارے مقدمے میں جان نہیں ہے خوامخواہ پیسے اور وقت ضائع نہ کرو۔ بقول خالد نظیر صوفی اقبال بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنجی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ روتوں کو ہنسانا اور پریشان حالوں کو خوش کرنا ان کے لیے معمولی کام تھا۔ دورانِ گفتگو چٹکلے بیان کرتے اور گفتگو میں مزاح پیدا کر دیا کرتے تھے۔ علامہ عام طور پر پنجابی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے اورباہر اگر کوئی فلسفیانہ مسئلہ در پیش ہوتا تو اردو یا انگریزی بولتے مگر گھر میں ہمیشہ پنجابی اور وہ بھی سیالکوٹی لہجے میں ۔دورانِ گفتگوآواز بلند اور رعب دار ہوتی تھی۔ اگر کہیں گفتگو میں شدت ہوتی تو چہرہ سرخ ہو جاتا تھا۔ اقبال صبح سویرے تلاوت کیا کرتے تھے۔ تلاوت کرنا ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ تلاوت کرتے ہوئے ان پر اس قدر اثر ہوتا کہ رونے لگتے تھے اس حوالے سے صوفی صاحب لکھتے ہیں :
قرآن مجید کی تلاوت کے دوران میں ان پر اس قدر رقت طاری ہو جاتی کہ وہ زارو قطار رونے لگتے ہیں اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ قرآن پاک کے صفحات تر ہو جاتے۔(۳۶۰)
بقول صوفی ۱۹۳۷ء کے اواخر میں علامہ کو اولاً مختلف قسم کی بیماریوں نے گھیر لیا تھا اور ثانیاً والدہ جاوید کے جانے کا بھی غم انھیں گھن کی طرح کھا رہا تھا۔مگر ان سب کے باوجو د محفلیں جمتی تھیں اور ہر قسم کے مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ انھوں نے ان تمام تکالیف کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا اور ہمیشہ قوم کے غم میں رہتے، انھیں اپنی قوم کا غم کھائے جارہا تھا۔ حضرت اقبال کی طبیعت جب بہت زیادہ خراب ہوئی تو ان کے بڑے بھائی ان کی عیادت کے لیے لاہور آئے اور انھیں دلاسا دیا تو فرمانے لگے کہ میں موت سے نہیں ڈرتا، ان کے بڑے بھائی ایک دو روز بعد سیالکوٹ چلے آئے اور ا ہلِ خانہ کو بتایا کہ اب ان کی صحت پہلے سے بہتر ہے مگر تیسرے روز تار آگیا کہ شاعر مشرق اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔
خالد نظیر صوفی اپنی والدہ(سیما جو اقبال کی بھتیجی تھی) کی وساطت سے بیان کرتے ہیں کہ والدہ محترمہ نے کہا:
اُمنڈ تے ہوئے آنسوؤں کی اوٹ سے میں نے انھیں بڑے پر سکون انداز میں لیٹے ہوئے دیکھاجیسے کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئے ہوں۔ چہر ے پر ہلکی ہلکی زردی تھی۔ نور کا ایک ہالہ چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ سر کے بال اور مونچھیں چاندی کی طرح چمک رہی تھیں، آنکھیں اور لب بڑی نرمی سے بند اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ چچا جان ابھی اُٹھ بیٹھیں گے اور حسبِ عادت کہیں گے ،سیما بیٹی ایک گلاس پانی دینا۔(۳۶۱)
’’دانائے راز‘ ‘ باب میں صوفی صاحب علامہ اقبال کی زندگی کے چند واقعات اور ایسی یادیں سامنے لاتے ہیں جن سے ہماری پہلے شناسائی نہ تھی۔ ’’حیاتِ جاوید‘‘ باب میں خالد نظیر صوفی حضرت اقبال کے دنیا سے چلے جانے کے بعد چند خواب بیان کرتے ہیں جو، ان کے عزیزوں یا دوستوں نے دیکھے تھے۔ ان خوابوں سے علامہ کی وطن سے محبت اور قوم کا غم اُجاگر ہوتا ہے۔
’’نوادرات‘‘ باب میں صوفی صاحب نے ان کتب کا ذکر کیا ہے جواقبال کے زمانہ طالب علمی اور مابعد زیر استعمال و مطالعہ رہیں ۔مصنف نے ان کتب کا نہ صرف تعارف کرایا ہے بلکہ اقبال کا ان کی ہر کتاب سے تعلق ،لگاؤ، پسند و ناپسند،عمومی یا غائر مطالعہ ،تنقید و تقریض اور مشاہدہ کے تمام درجات سے بھی قاری کو فیض یاب کرتے ہیں۔’’اقبال منزل‘‘ باب میں شاعر مشرق کے سیالکوٹ والے گھر کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ جہاں اقبال کی پیدائش ہوئی۔ خالد نظیر صوفی نے ’’اقبا ل منزل‘‘ میں اقبال کی گزری ہوئی زندگی کے لمحات کو بڑے خوبصور ت انداز میں پیش کیا ہے۔ صوفی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :
اقبال منزل،وہ منزل سعید ہے جس میں مشرق کے عظیم شاعر نے آنکھیں کھولیں اور جہان ِ عمل میں اولین سانس لی۔(۳۶۲)
’’بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی‘‘ باب میں خالد نظیر صوفی نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے جوناشناسانِ اقبال نے اقبال پر لگائے اور وہ الزام نا پختہ ذہنوں میں سرایت کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کلامِ اقبال پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی کہ منفی الزام تراشیوں پر کہ اقبال تو شراب پیتے تھے، قیام یورپ میں معاشقے لڑاتے تھے، رنگ رلیاں منایا کرتے تھے اور ان کا عطیہ بیگم فیضی کے ساتھ معاشقہ تھا۔ اقبال پرایا مِ جوانی میں ایک طوائف کو قتل کرنے کا الزام بھی تھا۔ خالد نظیر صوفی نے اس باب میں مستند حوالوں کے ساتھ ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔اسی باب میں خالد نظیر صوفی ایک جگہ رقم طراز ہیں:
علامہ اقبال پر تنقید برائے تنقید ہوئی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ اقبال تو سادہ ،صاف گو اور حقیقت پسند انسان تھے۔ وہ تصنع اور بناوٹ کو پاس بھی پھڑکتے نہ دیتے تھے۔ اس لیے ان پر ایسے الزامات لگانا ذاتی تعصب، عناد اور حسد کی غمازی کرتا ہے۔(۳۶۳)
’’تاریخِ پیدائش‘‘ باب میں خالد نظیر صوفی حضرت اقبال کی اصلی تاریخ پیدائش کا انکشاف کرتے ہیں۔ علامہ کی اصل تاریخ ولادت کو باقاعدہ ثبوت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ مروجہ تاریخ پیدائش کو غلط ثابت کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت تھی جو انھوں نے احسن طریقے سے فراہم کیے۔ خالد نظیر صوفی نے اس مسئلہ پر بحث کرنے سے قبل پوری تحقیق کی کیونکہ تحقیق کے بغیر کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ سے اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔ اس حوالے سے صوفی صاحب لکھتے ہیں :
میں نے تحقیق کا آغاز میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے دفتر پیدائش و اموات ہی سے کیا۔ اور ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۷ء تک کے رجسٹر پیدائش کی ذاتی طور پر کئی دن تک چھان بین کی اور ایک ایک اندراج کو بنظر ِ غائر دیکھا ان آٹھ برسوں میں شیخ نور محمد عرف نتھو کے چار بچوں کے اندراجات دستیا ب ہوئے۔ جن کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبال نہ تو ۲۲ فروری ۱۹۷۳ء کو اور نہ ہی ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے بلکہ ان کی صحیح تاریخ پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے۔(۳۶۴)
’’اقبال درونِ خانہ‘‘ جلد اول کے آخری باب ’’انکشافِ حقیقت ‘‘ میں خالد نظیر صوفی نے اقبال کی بیرونِ خانہ زندگی کی چند جھلکیاں پیش کی ہیں جن میں بعض دلچسپ اور بعض حیرت انگیز ہیں ۔جن میں ڈاکٹر عبدالقیوم نے حکیم الامت کے وقت آخرکے متعلق تفصیلات بتائی ہیں اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمجید سالک کے بیان کردہ واقعات اقبال کی شخصیت کا ہلکا سا پرتو دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ محترمہ حجاب امتیاز علی حضرت علامہ کے سفر مدارس کی چند یادیں اور ’’بساٹو ہوٹل‘‘ میں شاعر مشرق کی دعوتِ طعام کا ذکر خاص طورپر قابلِ توجہ ہے۔اس باب میں صوفی صاحب ڈاکٹر ملک عبدالقیوم کے بارے میں لکھتے ہیں :
ڈاکٹر ملک عبدالقیوم صاحب سول ہسپتال جہلم میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے۔اورا نھیں حضرت علامہ کے علاج کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکیم الامت کو عمر کے آخری حصے میں جب کبھی کوئی تکلیف ہو اکرتی تو وہ ان سے ضرور مشورہ کیا کرتے تھے۔ ملک صاحب کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ علی بخش کے علاوہ صرف وہ آخری وقت میں شاعر مشرق کے پاس موجود تھے۔(۳۶۵)
خالد نظیر صوفی کی ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ حصہ دوم تصنیف اقبال اکیڈمی پاکستان سے پہلی بار ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔ یہ حیاتِ اقبال کے خانگی پہلو کے حوالے سے بڑی مستند کتاب ہے۔ اس کتاب کے سر ورق کے بعد صوفی صاحب نے اقبال کا شجرہ نسب دیا ہوا ہے جو انھوں نے اقبال کے جدِ امجد ’’شیخ صالح محمد بابا لول حاج‘‘ سے جو پندرھویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے شروع کیا ہے۔ اس کتاب کے سات ابواب ہیں۔ احوالِ روز و شب، حقائق و براہین، مباحث، اقبال منزل(سیالکوٹ) ،غلطیہائے مضامین ، براہین قاطع اور نوادر ان ابواب کے عنوانات ہیں۔
’’احوال روز و شب‘‘باب میں درونِ خانہ (الف) میں ،محترمہ وسیمہ مبارک (دختر خواندہ اقبال) ،محترمہ کریم بی بی (خواہر خورد)،محترم شیخ عطا محمد(برادر بزرگ)،محترم نظیر احمد صوفی (داماد برادر بزرگ)،محترم عبدالغنی راٹھور(بھاوجہ اقبال کے جڑواں بھائی) اور بیرونِ خانہ میں مولانا غلام رسول مہر اور سید امتیا ز علی تاج ذیلی عنوانات شامل ہیں۔باب دو م ’’حقائق و براہین‘‘ میں خاندانِ اقبال میں قادیانیوں کی واحد نقب اور اس کا ردِ عمل ،خاندان کے بزرگوں کا ردِ عمل ،آخری حسرت،’’والدہ محترمہ‘‘،اقبال کا وقت آخر(ماں کے مرض الموت میں مبتلا ہونے پر علامہ اقبال کی بے چینی اور بے بسی)،غربت اور امارت، بیگماتِ اقبال کا انتقال،عروسِ خاندان اقبال اور سب سے منفرد یادگار شادی ذیلی عنوانات شامل ہیں۔ باب سوم ’’مباحث‘‘ میں تاریخِ ولادت اقبال (چونکا دینے والے چند مزید حقائق)، مقامِ اقبال (خود نوشت اقبال کی روشنی میں) اور ایک ہوں مسلم تین ذیلی عنوانات شامل ہیں۔
باب چہارم ’’اقبال منزل‘‘میں تاریخ ،جغرافیہ ،میری اپنی اقبال منزل(میرا بچپن اور جوانی اقبال منزل کی گود میں کیسے گزرا)،جب اقبال منزل پرائی ہوئی(محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں)اور زبوں حالی اقبال منزل (جب میں نے تقریباً ۲۸ برس بعد ۱۹۹۸ء میں اس کو دیکھا) پانچ ذیلی عنوانات شامل ہیں ۔ باب پنجم ’’غلطیہائے مضامین‘‘ میں مضحکہ خیز نام (جاہلان مطلق کو ابو العجیان )،تحقیق بلا تحقیق(ماہرینِ الجھن و فریب) اور خوش فہمی (مصنف ’’روزگارِ فقیر‘‘ کی اقبال ناشناسی ) تین ذیلی عنوانات ہیں۔
باب ششم ’’براہینِ قاطع‘‘ میں پہلا رد عمل (مصنف ’’مظلوم اقبال ‘‘ کی گل افشانیوں کے جواب میں)،جد امجد (شیخ صالح محمد المعروف بابالولی حج)بوقتِ ہجرت(خاندان اقبال میں وجود زن(،دوسرا ردِ عمل (فقیہانِ شہر آشوب بنام ، ’’اقبال درونِ خانہ‘‘حصہ اول) اور تیسرا ردِ عمل (آئینہ) پانچ ذیلی عنوانات شامل ہیں۔ باب ہفتم ’’نوادر‘‘ میں فہرست کتب(علامہ اقبال کی استعمال کردہ درسی کتب،چند دیگر اشیاء (جو علامہ اقبال کے استعمال میں رہیں)،دیباچہ رموزِ بے خودی،دیباچہ ’’تاریخِ سیالکوٹ‘‘از محمد دین فوق،عکس نقول اور تصاویر ذیلی عنوانات شامل ہیں۔
’’اقبالِ درونِ خانہ ‘‘ حصہ دوم میں بھی خالد نظیر صوفی نے بہت سے نئے انکشافات کیے ہیں اور ایسے معاملات کو چھیڑا ہے جو، برسوں سے مستند سمجھے جاتے رہے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں بڑی محنت سے پوشیدہ راز فاش کیے ہیں اور حقیقت واضح کی ہے جو غلط باتیں رائج ہو چکی تھیں خالد نظیر صوفی نے ان کو باقاعدہ ثبوت اور دلائل سے غلط ثابت کیا ہے۔ ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ کا زیادہ تر حصہ ان کی والدہ وسیمہ مبارک کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ انھوں نے پوری کوشش کی کہ لوحِ ذہن سے تمام یادوں کو منتقل کر دوں لیکن انسانی فطرت کے مطابق کچھ یادیں باقی رہ گئیں ہیں۔ اور یادوں کے اس بحربے کراں میں جو ہلچل پیدا ہو گئی تھی۔ یہ اس کا فطری ردِ عمل تھا کہ تہہ در تہہ پڑی ہوئی بے شمار یادوں میں سے کوئی فراموش کردہ واقعہ سر اٹھاتا ہے یا پھر کوئی ذومعنی با ت آجاتی ہے ۔چنانچہ خالد نظیر صوفی وقتاً فوقتاً اپنی والدہ کے ذہن سے اُبھرنے والے انمول موتیوں کو محفوظ کر تے رہے اور ایک لڑی میں پرو کر ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہی خالد نظیر صوفی کی والدہ محترمہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں جن کی یادداشتوں پر ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ کا بیشتر حصہ مشتمل ہے۔ بقول خالد نظیر صوفی:
میری والدہ ماجدہ فروری ۱۹۹۳ء میں اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔ چنانچہ وہ ’’گنجینہ بے بہا‘ ‘ جس کی سنہری یادوں سے پہلے موتی چن چن کر آپ کی نظر کرتا رہا ہوں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے چھن گیا……اور اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا جو مجھے اس سعادت کے مزید قابل بنا سکے کہ اپنے عظیم بزرگوں کی یاد تازہ کر سکوں۔(۳۶۶)
خالد نظیر صوفی باب اول کے عنوان ’’اندرونِ خانہ ‘‘ میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے گھر کے افراد کا تفصیلاً ذکر کرتے ہیں ۔اقبال کی اندرون خانہ سر گرمیوں اور واقعات کے بعد صوفی صاحب چند بیرونِ خانہ سر گرمیاں بھی بیان کرتے ہیں اور یہ واقعات انھیں حضرت علامہ کے فیض یافتہ بزرگ مولانا غلام رسول مہر سے معلوم ہوئے۔ بیرونِ خانہ سر گرمیوں میں مولانا غلام رسول مہر اور سید امتیاز علی تاج کا ذکر ملتا ہے۔ سید امتیاز علی تاج جو ان دنوں بزمِ اقبال لاہور کے معتمد اعزازی تھے۔ انھوں نے خالد نظیر صوفی کو خط لکھ کر بلایااو مولانا مہر سے ان کے گھر مسلم ٹاؤن لاہور میں ملاقات ہوئی۔ بقول صوفی مولانا مہر حضرت علامہ کے متعلق ایک ڈائری لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے چند ایک یادداشتیں لکھی بھی ہوئی تھیں، کچھ زبانی معلومات اور کاغذات انھوں نے صحت کو دیکھتے ہوئے ان کے حوالے کر دیے۔ چنانچہ کافی طویل عرصے بعد یہ دوسرا حصہ لکھنے میں کامیاب ہوا اور وہ سب چیزیں اس میں شامل کردیں۔(۳۶۷)
خالد نظیر صوفی کے نزدیک مولانا مہر ۱۹۲۲ء سے لے کر حضرت علامہ کی رحلت تک ان کے بہت قریب رہے۔ مولانا مہر کے بقول کبھی انھوں نے حضرت کی محفل میں بیٹھے ہوئے اخلاق سے گری ہوئی بات نہ سنی اور نہ ہی کسی دوسر ے آدمی کو جرأت ہوتی کہ وہ خلاف تہذیب بات کرے۔ حتی کہ حضرت اقبال اپنی خاص محفلوں میں جہاں حضرت کے صرف احباب ہوتے تھے وہاں بھی کبھی غیر اخلاقی بات نہیں سنی اور نہ ہی کبھی کہی بقول صوفی مولانا مہر روزانہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور کبھی کبھار توپورا دن گزر جایا کرتا تھااور اُٹھنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ اس لیے کھانا وغیرہ بھی حضرت علامہ ہی کے ہاں ہوا کرتا تھا۔ اس طرح مولانا مہر حضرت علامہ کی پسند نا پسند اور کھانے کے بارے میں کافی مفید رائے رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں صوفی مولانا مہر سے روایت کرتے ہیں کہ حضر ت علامہ بہت کم کھانا کھاتے تھے اور مولانا مہر جب سے حضرت اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے لگے تھے ۔رات کا کھانا بالکل چھوڑ دیا تھا اور ڈاکٹر اقبال کو پلاؤ بہت مرغوب تھا۔ سیخ کباب بھی شوق سے کھایا کرتے تھے۔ چٹ پٹے کھانے علامہ شوق سے کھایا کرتے تھے جن کے کھانے سے اکثر گردہ یا نقرس کا حملہ ہو جاتا جس سے حصرت علامہ ان کے کھانے سے توبہ کر لیتے مگر بعد میں توبہ قائم رکھنا اکثـر اوقات مشکل ہوجایا کرتا تھا۔
’’حقائق و براہین‘‘ باب میں خالد نظیر صوفی خاندان اقبال پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہیں کہ خاندانِ اقبال کے کچھ لوگ قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ خاندانِ اقبال پر یہ الزامات مختلف لوگوں نے لگائے ہیں کہ علامہ کے بڑے بھائی بھی منکرینِ ختم نبوت میں سے تھے۔ اور دوسرے افراد کا بھی مرزا قادیانی سے تعلق تھا۔ اس الزام کو تقویت علامہ کے ان اشعار سے بھی ملی جو انھوں نے مرزا قادیانی سے متعلق کہے تھے۔ ان اشعار کو پڑھ کر چند نا عاقبت اندیش لوگوں نے کہہ دیا کہ اقبال نے مرزا قادیانی کی تعریف کی ہے اور حضرت علامہ قادیانی کے مشن کے حق میں تھے مگر انھوں نے یہ نہ سوچا اور تحقیق سے پہلو تہی کی اور اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ یہ اشعار جب کہے گئے تھے اس وقت مرزا کی حیثیت کیا تھی اور اس وقت مرزا قادیانی ختم نبوت کا منکر ہوا بھی تھا کہ نہیں ہوا تھا اور حضرت علامہ نے قادیانی کی تعریف کس اعتبار سے کی ہے۔ اگر ان سب باتوں پر غور کر لیا جائے تو شاید اس اعتراض کی آج گنجائش نہ نکلتی ۔دراصل مرزا قادیانی کافی عرصہ سیالکوٹ میں مقیم رہا اور اس نے وہاں مناظروں کا خوب بازار گرم رکھاتھا۔ اہالیانِ سیالکوٹ کو جوان دنوں آریہ سماج تحریکو ں اور مسیحی پادریوں کی یلغار سے بے حد پریشان تھے اور ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ بے حد متاثر کر لیا اور اس طرح مرزا قادیانی کو سیالکوٹ میں ایک دینی سکالر کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔(۳۶۸)
اس اعتبار سے ابتدائی دنوں میں مرز ا قادیانی ایک پرہیز نگار انسان مانا جاتا تھا اور مذہبی حلقوں میں مرزا نے ایک مقام بنا لیا تھا۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزا نے بیعت بھی لینی شروع کر دی اور پیری مریدی کا کام بھی شروع کر دیا۔ مگر مرزا قادیانی نے ۱۸۹۲ء میں جب’’مسیح موعود‘‘ کا دعویٰ کیا تو اس وقت خاندانِ اقبال نے اس سے رشتہ توڑ لیا۔ اگرچہ پہلے اقبال کے والد شیخ نو محمد اور دوسرے افراد کے مرزا قادیانی سے اچھے مراسم تھے۔ مگر جب مرزا نے یہ دعویُ کیا تو شیخ نور محمد نے اسے خط لکھ کر مراسم ترک کر دیے۔ میاں جی نور محمد کے خط کے متعلق قادیانی مرزا بشیر احمد اپنی کتاب ’’سیرت المہدی ‘‘ میں اس طرح لکھتا ہے ۔جس کو خالد نظیر صوفی نے اپنی کتاب ’’اقبال درونِ خان‘‘ میں یوں نقل کیا ہے:
چنانچہ شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر کیا کہ آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں اس پر حضرت صاحب کا جواب میرحامد شاہ صاحب مرحوم کے نام لکھا گیا جس میں لکھا گیا کہ شیخ نور محمد کو کہہ دیں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہیں…………ڈاکٹر سر محمد اقبال اپنی زندگی کے آخری ایام میں احمدیت کے شدید مخالف رہے اور ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا ہوا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمداقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈہ تھا۔(۳۶۹)
مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خاندانِ اقبال نے مرز ا قادیانی سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا اور ختم نبوت کے منکرین میں شامل نہ ہوئے۔ احمدیت کا یہ فتنہ کام کرتا رہا اور پھر اس فتنے سے خاندانِ اقبال بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ خاندانِ اقبال سے واحد شخص جس نے مرزا قادیانی کو تسلیم کیا اور ختم نبوت کے منکرین میں شمار ہو کر ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنا وہ حضرت اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کا بڑا بیٹا شیخ اعجاز احمد تھا جس نے ۱۹۳۱ء میں ختم نبوت سے انکار کیا۔(۳۷۰)
خالد نظیر صوفی ’’والد ہ محترمہ بے جی‘‘ (والدہ اقبال) کے آخری ایام کا ذکر کرتے ہیں کہ زندگی کے آخری چند ماہ انھوں نے کس مصیبت سے گزارے اور ان کی اولاد علامہ اقبال اور دوسرے لوگ کس قدر پریشان تھے۔’’بیگماتِ اقبال‘‘ عنوان میں صوفی صاحب اقبال کی تین بیگمات کے بارے میں ذکر کرتے ہیں ۔ وہ بتا تے ہیں کہ اقبال نے تین شادیاں کی تھیں- جن میں سے دو بیویاں اقبال کی زندگی میں ہی جہانِ فانی سے کوچ کر گئی اور پہلی بیوی محترمہ کریم بی بی (والدہ آفتاب) حضرت علامہ اقبال کی وفات کے نو بر س بعد فوت ہوئی۔ خالد نظیر لکھتے ہیں :
محترمہ مختار بیگم مرحوم جن کا تعلق لدھیانہ کے مشہور’’نو لکھا خاندان‘‘ سے تھا۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو لدھیانہ میں وفات پا گئیں۔ ان کی نمازِ جنازہ حضرت علامہ اقبال نے بنفس ِ نفیس پڑھائی۔(۳۷۱)
’’عروسِ خاندان اقبال‘‘ عنوان میں خالد نظیر صوفی نے خاندانِ اقبال میں ہونے والی شادیوں کا ذکر کیا ہے۔ خاص طورپر ان شادیوں کاجو فرسٹ کزن میر یجز‘‘ ہوئی تھیں، عام خاندانوں میں ان شادیوں کا رواج تھا مگر ابتدا میں خاندانِ اقبال میں ’’فرسٹ کزن میر یجز‘‘ بہت کم ہوئی ۔ البتہ بعد میں بہت زیادہ رواج ہو ا۔اور بقول خالد نظیر جو سب سے پہلی فرسٹ کزن میرج خاندانِ اقبال میں ہوئی۔خاندان کے دو افراد میں ہونی والی پہلی شادی علامہ اقبال کے بڑے بھائی عطا محمد کی بڑی بیٹی اکبری اور اقبال کی بڑی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ کے بڑے صاحبزادے فضل الہی کے مابین ہوئی۔ اس کے بعد دوسری شادی مصنف خالد نظیر کے والدین کی تھی۔
خالد نظیر صوفی تیسرے باب ’’مباحث‘ ‘ میں حضرت علامہ کی تاریخ پیدائش کے متعلق چند مزید حقائق کو منظرِ عام پر لاتے ہیں۔ اور بعض دوسرے مصنفین کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرتے ہیں۔ اس میں علامہ کے مرتبہ کو حضرت علامہ کی خودنوشت کی روشنی میں دیکھا گیا ہے۔ اورا مُت مسلمہ کے حالات اور علامہ کی امتِ مسلمہ کے متعلق فکر مندی اور قوم کو متحد کرنے پر علامہ اقبال کے اشعار کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
’’اقبال منزل سیالکوٹ ‘‘باب میں خالد نظیر صوفی اقبال منز ل کی تاریخ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علامہ کے جد امجد کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے۔ پہلے پہل محلہ کھٹیکاں میں ایک کرائے کے مکان میں سکونت پذیر رہے۔ اور پھر کافی عرصہ بعد حضر ت علامہ اقبال کے داد ا شیخ محمد رفیق نے ۱۸۶۱ء میں اپنا ذاتی مکان محلہ چوڑی گراں میں خریدا، ایک منزلہ پختہ اینٹ سے بنیہوئے مکان کی قیمت ۱۵۰ روپے ادا کی گئی ۔(۳۷۲)
ّ ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ باب میں خالد نظیر صوفی چند غلطیوں کے جوابات دیتے ہیں- مختلف مصنفین اپنی کتابوں میں نئی اور انوکھی بات شامل کرنے کی غرض سے یہ نہیں دیکھتے کہ اس بات میں صداقت کتنی ہے۔ بس ان کے نزدیک جدت ہونی چاہیے کوئی بات کوئی واقعہ عجیب ہونا چاہیے جو دوسروں کو چونکا دے۔ اس مقصد کے لیے وہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرتے۔ اور خالد نظیر ان مصنفین کو ’’جاہلانِ مطلق‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
’’براہینِ قاطع‘‘ باب میں خالد نظیر صوفی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ان مصنفین کے خلاف جنہوں نے اپنی کتب میں بغیر تحقیق کے غلط باتوں کو شامل کر لیا اور کسی بھی پہلو سے حضرت علامہ کی ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پہلا رد عمل خالد نظیر صوفی کا مصنف ’’مظلوم اقبال‘‘ شیخ اعجاز کے خلاف اُبھرتا ہے۔ جنہوں نے اپنی تصنیف’’ مظلومِ اقبال‘‘ میں جو علیحدہ باب ’’شکوہ جوروجفا‘‘ کے عنوان کے تحت شامل کیا۔ اس باب میں انھوں نے حضرت اقبا ل پر ہونے والے مظالم کی تاریخ بیان کی ہے جو، حضرت علامہ پر اپنوں اور بیگانوں کی جانب سے روا رکھے گئے۔
خالد نظیر پہلے رد عمل کے بعد دوسرا رد عمل بھی اسی شخصیت کے خلاف ہی کرتے ہیں ۔یعنی شیخ اعجاز مصنف ’’مظلومِ اقبال ‘‘کے خلاف خالد نظیر بیان کرتے ہیں کہ ان کی کتاب ’’اقبال درونِ خانہ‘‘(حصہ اول) بزم اقبال لاہو ر نے شائع کی جس کا مسودہ یقینا بزمِ اقبال کے ممبران نے پڑھا ہو گا او روہ ایسے قابل ممبر ہیں کہ ان پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے فضول کتاب شائع کردی۔ اس کتا ب کا پیش لفظ مولانا غلام رسول مہر نے لکھا اور انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ اس کتاب میں جو حقائق پیش کیے گئے ہیں وہ بالکل درست ہیں مگر خالد نظیر کی یہ کاو ش ان کے ماموں شیخ اعجاز کو ایک آنکھ نہیں بھائی ۔انھوں نے بزمِ اقبال والوں کو سے کہا کہ آپ نے اس قسم کی فضول کتاب جس میں تمام روایتیں جھوٹ پر مبنی ہیں شائع کر دی۔ اس کتاب سے انھیں سب سے زیادہ تکلیف حضرت علامہ کی صحیح تاریخ پیدائش کے منظر عام پر آنے سے ہوئی۔ کیونکہ وہ خو د’’روز گارِ فقیر‘‘ کے ذریعے سے علامہ کی تاریخ پیدائش منظر عام پر لا ئے تھے۔
اقبال درونِ خانہ حصہ دوم کے آخری باب ’’نوادرات ‘‘ میں خالد نظیر صوفی نے حضرت علامہ اقبال کے زیر استعمال رہنے والی سکول اور کالج کی درسی کتب کی فہرست دی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اشیا جیسے لیمپ ،ڈیسک اور برتن وغیرہ ۔رموزِ بے خودی کا دیباچہ جو حضر ت علامہ نے خود لکھا ’’تاریخِ سیالکوٹ‘‘ جب شائع ہوئی اس کا دیباچہ بھی حضرت علامہ نے ہی لکھا، اس کے علاوہ حضرت علامہ کی چھوٹی بہن محترمہ کریم بی بی جن کی راویت سے بہت سے واقعات’’اقبال درونِ خانہ‘‘ کتاب میں درج ہیں ، کی ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر دی ہوئی ہے۔
آثم مرزا(۱۹۲۳ء ۔پ) کا اصل نام مرزاطفیل بیگ تھا۔ آپ سیالکوٹ کے محلے کھٹیکاں کی گلی ویڑہ مغلاں میں پیدا ہوئے۔ (۳۷۳) آثم مرزانے ۱۹۴۲ء میں سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کیا ۔ اور اسی سال لاہور میں ملٹری ریلو ے میں بطور ریلوے گارڈ بھرتی ہو گئے۔ ۱۹۴۷ء میں آثم مرزا اپنے آبائی شہر سیالکوٹ واپس آگئے۔ اور پی ڈبلیوڈی الیکٹریسٹی برانچ میں ملازم ہوئے۔ مرزا کی ۱۹۸۲ء کو واپڈا کے محکمے سے بطور کمرشل سپرنٹنڈنٹ ریٹائر منٹ ہوئی اور پھر ۱۹۸۳ء میں باسکو لمیٹڈ گجرات میں ایک سال ملازمت بھی کی۔ (۳۷۴)آثم مرزا ایک درخشندہ ادبی ستارے کی حیثیت سے ۱۹۴۵ء میں اُفق ادب پر اُبھرے ۔ انھوں نے داستان گو کی حیثیت سے کہانی ،افسانہ ،ناول اور ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ تقسیم ہند وستان سے قبل ان کی سب سے پہلی کہانی ’’کوڑا کی اوٹ میں ‘‘ جون ۱۹۴۶ء میں ماہنامہ ’’پریم‘‘ دہلی میں شائع ہوئی۔ (۳۷۵)
آثم مرزا کی تخلیقات جن ادبی جریدوں میں مسلسل شائع ہوتی رہیں ۔ان میں ’’ہمایوں‘‘ ،’’لاہور‘‘،’’عالمگیر‘‘ لاہور ،’’لیل و نہار‘‘ ،لاہور ،ماہنامہ ’’سیارہ‘‘ لاہور ،’’افکار‘‘ ،کراچی’’الشجاع‘‘ کراچی ’’نئی نسلیں‘‘ کراچی ،’’جاوید‘‘ لاہور ’’گجر‘‘ لاہور ،’’جامِ نو‘‘ کراچی ،’نیرنگ خیال‘‘ ،لاہور ’’محفل‘‘ لاہور ’’ہم قلم‘‘ ،کراچی ،’’سیپ‘‘ کراچی’’تخلیق ‘‘ کراچی اور سیارہ ڈائجسٹ لاہور خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ادبی ایڈیشنوں میں بھی ادبی کالم لکھتے رہے۔
آثم مرزا ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے معاشرہ اور گرد و پیش میں زندگی کی حقیقتوں کو اپنے فن میں سمویا اور نہایت کامیابی کے ساتھ زندگی آموز اور زندگی آمیز ادب کی تخلیق کے منصب سے عہدہ برآ ہوئے۔ اور برصغیر پاک و ہند میں قریباً نصف صدی سے افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا نام جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے مرزا کے افسانوں کو ’’حبِ وطن‘‘اور ’’سماجی برائیاں اور معاشرتی اصلاح ‘‘ دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مرزا کے افسانوں کے مطالعے سے قاری یوں محسوس کرتا ہے جیسے یہ اس کے گردو پیش کی کہانی ہو۔ اس کے اپنے محلے کی بات ہو او ریہ درست بھی ہے کہ وہ گلی کوچوں، تھڑوں اور کریانوں کی دکانوں اور کونے کھدروں میں رہنے والے بے نام لوگوں کے جذبوں کو الفاظ کی زبان دے کر ان کے دکھوں اور کربناک زندگی کو بیان کرتے ہیں۔
زندگی کے انھی واقعات میں سے ایک رخ کی ترجمانی ان کے افسانے ’’ٹھنڈا پانی‘‘ میں ملتی ہے۔ یہ کہانی احاطہ شیخ مولا بخش سیالکوٹ کی کہانی ہے۔ اس احاطے میں غریب لوگ آباد ہیں ۔جب کہ یہ احاطہ شیخ مولابخش کی ملکیت ہے،مولابخش نے منشی حسن دین کو لوگوں سے لین دین کے کاموں پر مامور کر رکھا ہے۔ حسن دین شیخ کے حکم کو احاطے کے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ کیونکہ حسن دین کو نوکری ہی اس شرط پر حاصل ہوئی تھی کہ وہ اپنے طبقہ کے سوکھے سہمے جسم سے زندگی کی آخری رمق بھی چھین لے۔ ایک دن وہ شیخ کا یہ حکم سناتا ہے کہ آج سے احاطہ کے کنوئیں کا ٹھنڈا میٹھا پانی سب کے لیے بند۔ یہ خبر خوفناک طوفان کی طرح پیشن گوئی بن کر پھیل گئی تھی۔ اس لیے کہ سرکاری نل سے پانی حاصل کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ صبح شیخ مولا بخش کے پاس جا کر التجا کریں گے اور اس کے سینے میں ہمدردی کی جوت جگانے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ نہ مانا تو پھر کوئی سخت قدم اُٹھائیں گے مگر راتوں رات حکومت تبدیل ہو کر مارشل لاء لگ جاتا ہے۔ جس میں غریبوں کی داد رسی کا دعویٰ کیا گیا ہے اور مولا بخش ایک نئے روپ کے ساتھ لوگوں کے سامنے آتا ہے ۔وہ خود کو لوگوں کا خادم ثابت کرتا ہے۔ اور احاطے کے لوگوں کے لیے سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ حسن دین کا رویہ بھی لوگوں سے بدل جاتا ہے اور حالات بہتری کا رُخ اختیار کر لیتے ہیں۔
آثم مرزا افسانوں میں تعمیر اور روشنی کے پیکر تراشنے کے لیے اپنے تجربات و مشاہدات کی تاروں سے کینوس تیا ر کرتے ہیں۔ اور اپنے افسانوں میں چھوٹے شہروں کے گلی محلوں میں بکھرے ہوئے مسائل کو موضوع بحث بناتے ہیں ۔ آثم مرزا کے وہی افسانے زیادہ پسندیدہ او ر لائق توجہ ہیں جن میں کہانی ایک محلے اور اس کی ایک گلی سے شروع ہو کر اس گلی میں ختم ہو جاتی ہے ۔بظاہر یہ بڑی عجیب اور ناقابلِ یقین بات نظر آتی ہے کہ اس محدود منظر پہ کوئی بڑاافسانہ یا دلچسپ کہانی بنی جا سکے۔ مگر آثم مرزا کی تکنیک یہ ہے کہ وہ اسی محدود منظر میں بسنے والے انسانوں اور ان کے مسائل میں سے کسی ایک انسان اور اس کے کسی ایک مسئلے کا انتخاب کرتا ہے اور اسے ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے کے انسانوں کی زندگی میں ہر دن ایک ہی منظر لے کر آتا ہے۔ تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ ان کا ہر دن ایک نیا مسئلہ لیے ہوتا ہے۔ آثم مرزا اس منظر کے کسی ایک کردار اور اس کے کسی ا یک مسئلے کا انتخاب کرتا ہے اور اسے یوں پھیلا دیتا ہے کہ جیسے خورد بین کے ذریعے چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کے خدوخال واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ لہٰذ ا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا فن مسائل کے حوالے سے انسانی بصارت کو الفاظ کے تانے بانے کی خورد بین سے وسعت دینے اور واضح و نمایاں کرنے کا فن ہے:
آثم مرزا کے اس محدود منظر پہ کبھی ’’حصار مرگ‘‘ کا مبارک اُبھرتا ہے۔ جو اپنی شریکِ حیات کی موت کا دکھ سہہ رہا ہے اور اپنی دو بچیوں اور ایک لڑکے کی ماں کی محبت کا مشکل فریضہ بھی ادا کررہا ہے۔ پھر وہ سماں آتا ہے جب اس کا بیٹا کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا جاتا ہے۔ اور جوڑوں کے درد کا مریض مبارک خود کو دونوجوان لڑکیوں سے مدد مانگنے کا ارادہ کرتا ہے۔ مگر پھر ایک چھوٹے سے واقع کی بدولت وہ بھیک مانگنے کی ذلت سے بچ جاتا ہے۔ گھر آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں لڑکیوں نے سلائی کڑھائی کاکام کرکے زندگی گزارنے کا ڈھنگ نکال لیا ہے۔(۳۷۶)
اسی محدود منظر کے حوالے سے مرزا کا افسانہ ’’جلتے صحرا کی مسافت‘‘ پیش کیا جا سکتا ہے۔ جو ماہنامہ ’’عصمت ‘‘ کراچی میں جولائی ۱۹۸۹ء کو شائع ہوا۔ اسی محدو د منظر پہ آبلہ پا خورشید نظر آتی ہے۔ جس کا شوہر اس کی گود میں دو بچیوں کو چھوڑدیتا ہے اورجہاں کی رنگینیوں نے اس کے دل میں بیوی کی محبت اور بچیوں کے پیار کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا ہے۔ یہ تین اداس روحیں اپنی زندگی کی کہانی ایک کاپی پر لکھ دیتی ہیں۔ یہ کاپی ردی فروش کے ذریعے ایک اُستاد تک پہنچتی ہے ۔ تو یہ داستان سن کر چیخ اٹھتا ہے۔ انسانیت کے ناطے وہ ان پریشان حال عورتوں کا دکھ بانٹنا چاہتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں اور اس کے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی رستہ نہیں ۔ اور پھر بے بسی کی لہر اور اذیت ناک گھٹن کے ساتھ وہ زور سے آنکھیں میچ لیتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ تین زخمی روحیں ارد گرد کراہ رہی ہوں۔
انسانی چور جذبوں کو بھی آثم مرزا اپنی ادبی کنکھیوں سے ضرور دیکھتے ہیں اور پھر اصلاح احوال کے لیے اپنے زورِ قلم سے انھیں نارمل بنا کر پیش کرنے میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ اپنے ایک افسانے ’’انتقام‘‘ میں انسان کے اندر سوئے ہوئے اصلی انسان کو وہ جس خوش اسلوبی سے جگاتے ہیں اردو ادب میں یہ ایک کارنامہ ہے۔ آثم مرزا افسانے میں کرداروں کے نام بھی ایسے لکھتے ہیں جو ہمارے کانوں کو بھی اجنبی نہیں لگتے ۔اور پھر افسانے کو ایسی مشاہدہ گاہ بنا دیتے ہیں جس میں ایک شریف عورت محلے کے ایک بدمعاش سے عاجز نظر آتی ہے۔ پولیس کے ساتھ اس کے روابط ،جوئے خانے میں عمل درآمد، قید خانے میں مزید منفی تربیت،قید خانے سے واپسی پر جرائم میں مزید خوفناک رویہ اور محلے والے اب اس سے اور زیادہ ڈرتے ہیں۔کوئی اس کے خلاف انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ ولیا نامی اس بدمعاش کو تین برس کے بعد کرین سے آنے والا بابو مقصود جب کریانے کی دکان کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ولیا کی ایک ٹانگ ضائع ہو چکی ہے۔ وہ گود میں ایک بچے کو پیار کررہا ہے۔ بچہ اسے ماموں کہہ کر پکار رہا ہے ۔
اس کے ساتھ اس کی ماں رابعہ کھڑی ہے۔ جس پر ولیا دنیا بھر کی تہمتیں لگاتا ہے۔ اس کی زندگی ولیا نے اجیرن کر دی ہوتی ہے۔ آثم مرزاولیاکو برائی کی گہری دلدل میں لے جا کر جس طرح اچھائی کی بلندیوں پر لاتے ہیں۔ یہی بات ان میں منفرد ہے۔ ولیا رابعہ کے خاوند کو قتل کرنے کی غرض سے لائل پور جاتاہے۔ وہاں اس کی دیکھ بھال،تیمارداری اور کھانے کا انتظام کرتا ہے۔ ڈاکٹر زمایوس ہو کر ولیا کی ٹانگ کاٹ دیتے ہیں۔ ولیا کو تین دن کے بعد جب ہوش آتا ہے ۔ تو ایک صوفی صاحب ان کی خدمت میں موجود رہتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کی بیوی ولیا کی خدمت کے لیے آتی رہی ۔
آثم مرزا بڑی کامیابی سے اپنے قاری کو اس سسپنس کی طرف لے جاتے ہیں جو کہ افسانے کی روح ہے جہاں ایک بدکار انسان ایک جھٹکے سے شریف انسان بن جاتا ہے۔خصوصاً افسانہ کے آخر میں یہ جملے کمال درجے کا تاثر چھوڑتے ہیں اور ولیا وحشت و بربریت اور بدکاری کے نشیب سے ایک دم خلوص و شفقت اور انسانیت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ افسانہ ’’انتقام‘‘ کے آخری جملے اس پہلو کو نمایاں کرتے ہیں:
دوپہر کو جب صوفی صاحب کی بیوی کھانا لے کر آئی تو مجھ پر سکتے کی سی حالت طاری ہو گئی ۔ مجھے اپنی آنکھوں پریقین نہیں آرہا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ چارپائی کے دائیں طرف پنچ پر بیٹھ کر اس نے ملائم لہجے میں کہا، بھائی جان! خدا کا شکر ہے کہ آپ ہوش میں آگئے ہیں۔(۳۷۷)
پھر ایک جگہ اور لکھتے ہیں :
اس نے بچے کو گود سے اُتار کر زمین پر کھڑا کر دیا۔ بچے نے ہتھیلی کی پشت پر ننھا ہاتھ رکھ دیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے قانون کی گرفت سے بچنے کے باوجود پکڑا گیا ہوں۔ میری نظریں جھکی ہوئی تھیں۔(۳۷۸)
پھرا یک جگہ اسی افسانے میں کلائمکس دیکھیں۔
اس نے میری خاموشی سے اکتا کر کہا ۔بھائی جان !آ پ پہلے کھانا کھا لیں۔ شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔میں رابعہ ہوں۔(۳۷۹)
رابعہ کے یہ الفاظ سن کر ولیا کی دنیا بدل جاتی ہے۔اور اس کی سوئی ہوئی انسانیت بیدا ر ہوجاتی ہے۔ اب وہی رابعہ اس محلے میں آئی ہوئی ہے جہاں ولیا نے رابعہ کی زندگی اجیرن بنا دی ہوئی تھی۔ رابعہ کا بچہ ولیا کی گود میں ہے اور ولیا کو ماموں کہہ رہا ہے۔ ولیا نے دل کی گہرائیوں سے رابعہ کو بہن تسلیم کر لیا ہے۔آثم مرزا اپنی تحریرکے اعجاز سے معاشرے کے بد قماش انسان کو پاکیزگی کا پیرہن دیتا ہے۔ اس کے چہرے کی تمام سیاہیاں دھو کر شرافت کے نور سے معمور کر دیتا ہے۔ اس لحاظ سے آثم مرزا اپنے قلم کے زور سے معاشرت کی برائیوں کو گلی کوچوں اور محلوں سے سمیٹ کر اس فضا کو وادی ایمن بنا تا ہے۔
آثم مرزا اصلاح معاشرہ کے حوالے سے عظیم افسانہ نگار ہیں۔ وہ افسانہ ترتیب دیتے وقت اصلاح احوال کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ کیمرے کی حساس آنکھ سے بھی زیادہ ارفع اور وسیع انداز میں تخریبی اور منفی رویوں کو ایسے اسلوب سے بیان کرتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والے اس روح اور اثر کو اپنے اندر جذب کر تے ہیں اور اس کے تفسیری رد عمل کا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اپنے ایک افسانے کھلے ’’دروازوں کا شہر‘‘ میں بظاہر وہ ایک فرض شناس ڈاکٹر کو پروجیکٹ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور ہسپتال میں ہونے والی چھوٹی سی چھوٹی بد عنوانی کو بھی واضح اور موثر اندازمیں تحریر کرتے ہیں۔ معراج بیگم اپنے بیٹے کو علاج کے لیے ہسپتال لاتی ہے۔ لڑکا شدید درد میں مبتلا ہے۔ معراج اپنے آپ کو انتہائی بے یارو مددگار محسوس کرتی ہے اور مایوسی کے عالم میں نڈھال ہے۔ ہسپتال میں رشوت اور سفارش کے طوفان سے خدمت اور ہمدردی کے بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں اس کی اشکبار آنکھوں میں آنسو بھررہا ہے۔ اور وہ کہتی ہیں:
اﷲ پاک مجھ دکھیاری کی فریاد ترے سوا کون سنے گابابا جی نے یعنی قائد اعظم نے جو روشنی بخشی تھی اسے اندھیروں نے نگل لیا ہے۔ اب کوئی مددگا ر نہیں رہا۔ پیشانی گھٹنوں پر رکھ کر وہ سسکنے لگی اور اس کی آنکھوں کے پانی میں قائد اعظم کی مسکراتی ہوئی تصویر ہچکولے کھانے لگی۔(۳۸۰)
آگے چل کر ہسپتالوں کے مختلف ٹھیکے داروں کے رویے پر بحث کرتے ہوئے ایک بڑ ا ہی درد ناک نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ہسپتال کی کنٹین کا ٹھیکیدار ملازم ایک غریب و بے کس خاتون کی چائے سمیت چائے دانی توڑ دیتا ہے جو،وہ ہسپتال کی کینٹین سے نہیں لائی تھی۔ اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کینٹین کا ملازم کم عمر لڑکا پھنکارا،ہماری کینٹین کے علاوہ جو بھی سودا باہر سے آئے گا۔ ہم اسے ضائع کردیں گے۔ہم نے ٹھیکہ مریضوں کو منہ دیکھنے کے لیے تو نہیں لے رکھا۔(۳۸۱)
اب معراج بی بی اور رسول بی بی اس درد ناک واقعہ پر تبصرہ کرکے آخر میں کہتی ہے:
یہ جگہ ہی ایسی ہے یہاں آکر لوگ دوسروں کے غم میں ڈوب جاتے ہیں اپنا دکھ یا د ہی نہیں رہتا۔(۳۸۲)
اس افسانے میں آثم مرزا نے ہسپتالوں میں اندرونِ خانہ ہونے والی ہر بد عنوانی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ہسپتال جو کہ انسانوں کے لیے گوشۂ عافیت ہے ایک کنجِ مصیبت نظر آتا ہے۔ یہ آج کے دور کا المیہ ہے معراج بیگم کایہ کہناپاکستان میں ہونے والے ہر ظلم کو واضح کردیتا ہے:
ہم سب پر کھ چکے ہیں ۔سب دکھاوا ہی دکھاوا ہے۔ بابا جی……یعنی محترم قائد اعظم صاحب آپ کی نگری میں مظلوموں کا کوئی وار ث نہیں زندگی مسلسل ہجرت بن گئی ہے۔(۳۸۳)
رسول بی بی آسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر کہتی ہے:
ہمارے قائد اعظم نے ہمیں آزادی دلا کر مستقبل کو قابل رشک بنا نے کے لیے کیا کیا منصوبے بنا رکھے تھے۔(۳۸۴)
پھر ایک جگہ مرزا صاحب پاکستان کے وجود میں آنے کے تناظر میں ہونے والی انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت کو معراج بی بی کی زبان یوں کہلواتے ہیں:
جب پہلی بار ہجرت کی تو آگ اور خون کے سمندر میں کود کر بھی ہم پر ایک سرشاری کی کیفیت طاری تھی۔ اپنا آبائی قصبہ اپنا گھر بار،ما ل و متاع چھوڑنے پر ہمیں ذرا بھی ملال نہ تھا ۔ ہم نے نیا وطن بنا لیا تھا کھلے دروازوں والا وطن جہاں بہاروں کو داخل ہونے کے لیے کسی اجازت نامے کی ضرورت نہ تھی۔ جہاں کینہ،حسد اور ریاکاری کو ڈیرا ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔روشنی اور خوشبو کھلے دروازے سے آزادانہ طور پر داخل ہو سکتی تھی۔لیکن ہمارے خواب پہلے ہی پڑاؤ پر شکست خورد کا شکار ہو گئے۔ ابھی تو ہم نے اور آگے بڑھنا تھا۔راستے کے چراغ ایک ایک کر کے بجھنے لگے دروازے بند ہونے لگے اور بہاریں بند کواڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر نڈھال ہونے لگیں۔ بہن کی کسی ابتری کا ذکر کریں اس کے بعد بھی کئی مرتبہ ہجرت کرنا پڑی۔ ہر نئی ہجرت مصیبتوں کا جہنم بن جاتا۔ ہماری خوشیوں کی دشمن بن جاتی ۔اب بھی تو یوں محسو س ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں پھر دیس نکالا مل گیا ہے اور میں یہاں مہاجر بن کر بیٹھی ہوں۔(۳۸۵)
معاشرتی انسانوں میں آثم مرزا کا ایک بہترین افسانہ ’’علاج تیرہ شبی‘‘ ہے۔ ہمارے ہاں رشتوں کے انتخاب کے معیار کی لمبی اور چلچلاتی دھوپ میں پھول سی نازک جوانیاں جھلس جاتی ہیں۔ تلاش معیار کا سلسلہ اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے طویل تر ہوتا جاتا ہے۔ طاہرہ کی امی اسی دشت مصلحت میں آبلہ پاؤں کے ساتھ چل رہی ہے۔ آثم مرزا نے اس اہم ترین معاشرتی مسئلے پر طاہرہ سے جو بات کہلوائی ہے۔ حاصل افسانہ بھی ہے اور معاشرہ میں ہم سب کی ضرورت بھی وہ کہتی ہے :
طاہرہ کا جی چاہتا ہے کہ امی کو سمجھائے اسے تعلیم کے فوائد کی بدولت ہمنوا بنائے کہ ضد کی وجہ سے کوئی پودا بھی سر سبز نہیں ہو سکتا۔ اپنی بات منوانے کے جنون کی وجہ سے ہمیشہ الٹ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔ عمر ڈھل جاتی ہے اور اپنی پہچان کا دور لمحوں کو سوگوار بنا دیتا ہے۔(۳۸۶)
ایک جگہ پر وہ ایک حقیقت افروز بات کہتی ہے :
امی جان پہلے والے رشتے کا مقابلہ کرنے سے اگر وقت کی برچھی نے گہرا زخم لگا دیا تو پھر ساری عمر پچھتاووں کو بہلاتے ہوئے گز رجائے گی۔ شادی کا معیار تو اعتماد اور محبت ہونا چاہیے۔ پلاسٹک کے پھولوں سے کمرہ خوشبو سے کبھی نہیں مہک سکتا مگر وہ ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے صرف دیکھتی رہتی تھی ۔الفاظ ہونٹوں سے نہ پھسلتے تھے اور آواز حلق سے نہیں اُبھرتی تھی۔(۳۸۷)
یہ ساری کیفیات جوان نہ بول سکنے والی بچیوں کی ہمارے معاشرے میں ہوتی ہے۔ آثم مرزا نے تلاش رشتہ اور شادی کے لیے تعلیم اور اس کے ساتھ ملازمت کو ضروری قرار نہیں دیا۔ بلکہ اگر روزگار ایسا ہے کہ باعزت روٹی اور کپڑا مل سکتا ہے تو پھر خوب سے خوب تر کی تلاش سے گریزاں کا پیغام ہے۔ یہ بات بڑے موثر انداز سے طاہرہ کے اشاروں کنایوں سے کہلوائی ہے۔ اگر اس احسا س کا کینوس وسیع کر لیا جائے تو یہ ہر گھر کا بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔ جسے آثم مرزا کے افسانے میں ا س کے اثرات کو دیکھا جاتا ہے۔ آثم مرزا کا فن ایک جذباتی موڑ پر وطن عزیز کی مٹی کے ذائقہ سے آشنا ہے اور اس کی سوندھی سوندھی خوشبو آثم مرزا کے فن کی روح کی گہرائیوں سے اُتر گئی ہے۔ آثم مرزا نے اس سے قبل فسادات کے موضوعات پر بڑے کامیاب افسانے لکھے ہیں۔ مگر ان کا نمائندہ افسانہ ’’خون کا دریا‘‘ ہے۔ یہ کہانی اپنی بھرپور تاثراتی فضا کی وجہ سے ہمیشہ یادگار رہے گی۔ یہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۵ء تک کے تہذیبی اور جذباتی سفر کی داستان ہے۔ تقسیم کے وقت ایک مسلمان بچہ ہندوستان میں رہ جاتا ہے اور اس کی ماں پاکستان میں آجاتی ہے۔ یہ بچہ بڑا ہو کر نیتا سنگھ بن جاتا ہے۔ اور ۱۹۶۵ء میں اپنے آقاؤں کے ساتھ چونڈہ سیکٹر میں پاک دھرتی کی عصمت کو داغدار کرنے کے لیے شب خون مارتا ہے۔ مگر اس کی ماں اور اس کا خون نیتا سنگھ کے پاؤں کی زنجیر بن جاتاہے۔ وہ ماں کے خون کے تقاضوں کو محسوس کر لیتا ہے۔ چنانچہ نیتا سنگھ کا خون دھرتی ماں کے سینے میں جذب ہو کر امر ہو جاتاہے۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے افرادگھر میں رہتے ہوئے گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بعض اوقات جھگڑا بھی کر لیتے ہیں۔ آپس میں ناراض بھی ہو جاتے ہیں لیکن جب باہر کے لوگ اس گھر کی طرف میلی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر افراد خانہ آپس کی رنجشیں بلا کر دشمن کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں وطن عزیز کی سا لمیت کو برقرار رکھنے کی تڑپ جو افراد میں پیدا ہوئی ادیب بھی اسی ساری فضا سے متاثر ہوئے۔ اسی فضا کو آثم مرزا نے بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ۱۹۶۵ء کے بعد ان کے ہاں حب الوطنی کا موضوع اکثر افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آثم مرزا اپنے ایک افسانے ’’ذرے چراغ بن گئے‘‘ میں جنگ ۱۹۶۵ء کا نقشہ یوں پیش کرتے ہیں :
یہ وہ فضا ہے جس نے ذروں کو چراغ بنا دیا ہے۔ ان ذروں نے روشنی کا مینار بن کر اقوام عالم کو انگشت بد نداں کر دیا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے مدبر حیرت کا مجمسہ بن گئے تھے۔ کہ مٹھی بھر مجاہدوں نے کیسے اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اقوام متحدہ کی سر بفلک عمارت کے درو دیوار غازیوں کی یلغار سے تھر تھراٹھتے تھے۔ دنیا کی بڑی بڑی شخصیتوں نے سر تسلیم کر لیا تھا کہ اسلام کو کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی۔ مسلمان اگر خدا کا نام لے کر قدم بڑھائے تو ہر طاغوتی طاقت مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جاتی ہے۔(۳۸۸)
آثم مرزا اس کہانی کا خاتمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
ذرے چراغ بنتے رہیں گے،اندھیرے کی فصیل گرتی رہے گی۔شہیدوں کے لہو کے قطرے،شبنم کی مانند اس سر زمین پر سجتے رہیں گے۔ روش روش اور پھول پتے ان قطروں سے نکھرتے رہیں گے۔یہ قطرے شعاعوں کی مانند کونپلوں کے سینوں میں اترتے رہیں گے۔(۳۸۹)
یہ پر امید انداز ہے جو آثم مرزا کے ہاں نظر آتا ہے ایک ایسے مہیب اور ہولناک عالم میں جب کہ ہر طرف مایوسی اور خوف کے بادل منڈلا رہے ہوں یہ پر امید انداز یقینا ایک احسن چیز ہے۔ ’’نئی فصل‘‘ اور ’’مامتا کا اعزاز‘‘ بھی ۱۹۶۵ء کے پس منظر میں لکھے گئے مرزا آثم کے دو شاہکار افسانے ہیں۔’’مامتا کا اعزاز‘‘ افسانے میں مائی نوراں جب باوجود شیخ صاحب کے اصرار کے سیالکوٹ کی سر زمین نہیں چھوڑتی اور ۱۹۶۵ء کی جنگ میں باوجود بمباری اور گولہ باری کے وہیں رہ جاتی ہے اور مرحوم بیٹے کو یاد کرتے ہوئے سوچتی ہے اورکہتی ہے:
میرے بیٹے کی قبر تو یہاں ہی ہے ۔ میرے سہاگ کی ساری یادیں سیالکوٹ ہی میں دفن ہیں۔ میں نے یہیں جنم لیا تھا اور یہیں سے جنازہ بھی اُٹھے گا ……اگر میرا بیٹا زندہ ہوتا تو کیا وہ یہاں سے جا سکتا تھا۔ مجھ سے دور رہ سکتا تھا۔ نہیں ایسا کبھی نہ ہوتا۔ وہ سینہ تان کر دشمن کے سامنے کھڑا ہو جاتا ۔(۳۹۰)
پھر جب وہ فوجی لاری میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان مجاہدکوہار پہناتی ہے تو وہ خود مسرت سے جھوم کر والہانہ پیا ر کرتے ہوئے کہتی ہے:
میرا لاڈلا……میرا چاند……تیرے ہوتے میں دشمن کا خوف کیسے کھاسکتی ہوں۔ میں یہ جگہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔(۳۹۱)
مائی نوراں محسوس کرتی ہے جیسے اس نے مامتا کا بہت بڑا اعزاز حاصل کر لیا ہو ۔اِسی طرح یہ افسانہ وطن کی محبت کا اٹوٹ پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے عظیم المیہ پر بھی آثم مرزا کا دل خون کے آنسو روتا رہا اور ان کا قلم اس خون سے احساس کے موتی چنتا رہا ۔ اس موضوع پر ان کا ایک خوبصورت افسانہ ’’جلتے لمحے کی دستک‘‘ ہے یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے ضمیر کو حالات کے دھارے پر چھوڑ کر بدمعاش کاچولا پہن چکا ہے۔ وہ اردگرد ہونے والے واقعات سے بے نیاز ہو چکا ہے۔ وہ دولت اور کاروبار کی چکا چوند میں ہر نا جائز کاروبار کو بھی جائز قرار دے کر اپنا چکا ہے مگر سقوط ڈھاکہ کے المیہ کے حوالے سے اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر اس کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کردیتی ہے۔اخبار کا متن یہ ہے :
مشرقی پنجاب سے پچا س ہزار عورتوں کو اغوا کیا گیا ہے۔(۳۹۲)
اس طرح ان کا ایک بہترین افسانہ ’’جلتے ہوئے لمحوں کی روشنی‘‘ ہے جو اُمید کی جگمگاتی کرنوں کو پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ ایسی اُمید جو شکست کے بعد بھی حوصلوں کو بلند رکھتی ہے۔ اس افسانے میں آثم مرز ا ہمیں ۱۹۷۱ء کے المیہ کے حوالے سے جلتے ہوئے لمحوں میں بھی روشنی کی کرن تلاش کرتے ہوئے ایک شہید قدوس کی والدہ کے حوصلوں کی داستان سے روشناس کراتے ہیں۔میجر قدوس کا بڑا بھائی جنگ کے ہولناک دھماکوں کو سن کر اضطرابی کیفیت میں اندر باہر چکر لگاتا ہے۔ اور چیخنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے اندر سر گوشیاں سنائی دیتی ہیں۔
کوئی بھی دشمن مجھے شکست نہیں دے سکتا میرا جنرل نیازی بزدل نہیں بن سکتا۔ پھر یہ سب کیا ہے!ایسا کیوں ہوا۔ شہادت کا اعزاز پانے کی بجائے ہتھیار دشمن کے حوالے کیوں کر دیے گئے۔ آخرکیوں؟(۳۹۳)
یہ میجر قدوس کے بڑے بھائی کے خیالات کی غمگین روح ہے لیکن اس موقع پر اس کی والدہ جو الفاظ ادا کرتی ہے۔ ان میں عزم و حوصلہ کا ایک بے مثال جذبہ سنائی دیتا ہے:
مجھے قدوس کا کوئی غم نہیں۔وہ بے غیرت ماں کا بیٹا نہیں کہ دشمن سے ڈر کر ہتھیار پھینک دے دشمن ہزار سال تک بھی انھیں شکست نہ دے سکتا تھا ۔اس نے تو اپنا فرض دیانتداری سے نبھایا ہو گا۔ مجھے تو صرف یہ غم کھائے جا رہا ہے ۔ کہ وہ لوگ جنھوں نے آزادی کے وقت دشمن کے مظالم سے بچ کر وہاں پناہ لی تھی۔ جو ہندوستان میں اپنا سب کچھ لٹا کر مشرقی پاکستان پہنچے تھے۔ ان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ ان پر ظلم کے کیسے پہاڑ ٹو ٹ پڑے ہوں گے۔ ان کا غم بانٹنے والا اب وہاں کون ہو گا۔(۳۹۴)
۱۹۷۱ء کی جنگ کے حوالے سے آثم مرزا کا ایک نمائندہ افسانہ ’’گیلی لکڑی کا دھواں‘ ‘ ہے۔ جس کا مرکزی کردار جمشید ہے جو محاذ جنگ پر اپنی بہادری کے کارنامے دکھا کر اپنے جوہروں کو نمایاں کرنے کی بجائے کلب کی تیز روشنیوں میں آرکسٹرا کی نشیلی دھن پر تھرکتے ہوئے بدنوں کے درمیان اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے ذہن و دل میں کہیں ان ذمہ داریوں کا احساس بھی موجود ہے جبھی تو وہ اپنے آپ کو ان روشنیوں کے سپر د نہیں کر دیتا بلکہ انھی پر فریب روشنیوں میں سے احساس کا وہ جذبہ بھی موجودہے۔ وہ اس رنگین ماحول میں بھی اپنے اندر کے انسان کو سلا نہیں سکا اور جس غم سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ یہاں تک آیا ہے وہ مزید نمایاں ہو رہا ہے۔ وہ کمر کو کرسی کی پشت پر لٹکا کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ سوچ کا ریلا اس کے دماغ میں یوں چلتا ہے:
میں کسی محاذ پر آگیا ہوں ۔ دھواں ہی دھواں ہے اور توپوں کی گھن گرج وقت کی دیوار میں گہرے شگاف پید اکر رہی ہے۔ یہ مورچہ اتنا نم آلود کیوں ہے جہاں مہلک ہتھیاروں کی بارش ہو رہی ہے وہاں تو ہر چیز جھلس کر رہ جاتی ہے۔ پھر یہ بھاری پیٹیوں کے اندر پاؤں کیوں بھیگ رہے ہیں۔ یہ تو خون کی لکیریں ہیں جو میرے بدن پر نیچے کی طر ف رینگ رہی ہیں۔ روشنی کی نبض ڈوب رہی ہے۔ اور اندھیروں کی یلغار کو روکنے میں میرے ساتھی سینہ سپر ہیں۔ روشنینہیں مر سکتی میں آخری دم تک لڑوں گا۔ میں جو فاصلوں کو مٹانے والا ہوں میں جو نسلی امتیاز کے بت پاش پاش کرنے والا ہوں ۔ میں آخری دم تک…………(۳۹۵)
آثم مرزا نے مذکورہ بالا افسانوں کے علاوہ دو سو سے زائد افسانے لکھے ہیں جوہندوستان اور پاکستان کے مشہور ادبی رسائل و جرائد میں موجود ہیں۔ ان کے افسانوں میں بے پناہ تنوع ملتا ہے۔ انھوں نے جہاں عام معاشرتی اور انسانی جذبات پر مشتمل افسانے لکھے ہیں اور وطن عزیز پر مسلط جنگوں اور تحریکِ آزادی کو اپنا موضوع بنایا۔ وہاں سانحہ راولپنڈی ،المیہ کراچی ،جہادِ افغانستان ،بموں کے دھماکے اور سیاسی بحران جس سے وطن عزیز دو چار رہا ہے۔ مثلاً مارشل لاء اور جمہوریت کی بحالی وغیرہ پر بھی منفرد انداز میں قلم اُٹھایا ہے۔ اور ان میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام وطن کی مخصوص روایات اور تہذیبی حوالوں سے قومی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اور ایسے ایسے کردار تخلیق کیے ہیں جو ہمارے روشن مستقبل کے لیے مہمیز کا کام دیں۔
آثم مرزا کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے ریاض حسین چودھری اپنے مقالے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
آثم مرزا زندگی کی مثبت قدروں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر اصلاحی ہے اور یہ کہ انسان بہر حال عظیم ہے ۔ بُرے سے بُرے انسان میں بھی نیکی کی روشنی نظر آسکتی ہے۔ آپ کے افسانے منفی تاثر پیدا نہیں کر تے بلکہ شر کے مقابلے میں ان کے افسانوں میں خیر کی قوتیں اُبھرتی نظر آتی ہیں۔ موضوعات کا تنوع ان کے فن کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ تہذیبی آویزش کے ساتھ تنقید حیات کا گہرا شعور بھی پایا جاتا ہے۔ ممتاز شیریں نے کہا تھا کہ موپساں کے پاس جسم ہے اور چیخوف کے پاس روح میں اس کا اطلاق۔ آثم مرزا کے فن پر یوں کہوں گا کہ آثم مرزا کا فن جسم اور روح کی دلآویزی کا حسین مرقع ہے۔(۳۹۶)
آثم مرزا کے افسانوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے روایت کی تمام تر رعنائیوں کو جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ ان کے فن کی خاص خوبی ہی یہ ہے کہ ان کا ہر افسانہ خواہ وہ روایتی طرز کا ہو یا علامتی انداز کا گہرے تاثر کا حامل ہوتا ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو صرف کلاسیکی افسانوں میں پائی جاتی ہے۔ موجودہ دور کا افسانہ اس خوبی سے بہت حد تک عاری ہے۔ پلاٹ اور کرداروں سے آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ آج کا افسانہ وحدت تاثر سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آثم مرزا کا افسانہ جب ہم جدید افسانے کے تناظر میں پڑھتے ہیں تو ہم اس کی دلکشی اور اثر آفرینی سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتے۔ آثم مرزا ہمارے المیوں کی نشاندہی کرتا ہے لیکن نوحہ گر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ہمدرد کی حیثیت سے آثم مرزا نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نویسی سے کیا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں ہر طرح کے موضوعات پیش کیے ہیں اور ان کی زیادہ توجہ بھی افسانہ نویسی کی طرف رہی ہے۔ اگرچہ انھوں نے دو ناول بھی لکھے ہیں۔ پہلا ناول ’’پیار بیوپار‘‘ کے نام سے ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا۔ ’’پیار بیوپار‘‘ میں کاروباری محبتوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ جبکہ صبوحی ایک کرداری ناول ہے یہ سارا ناول صبوحی کے گرد گھومتا ہے۔
ناول کا میدان عمل بہت وسیع ہے اتنا ہی وسیع جتنی خود زندگی انسانوں کے افعال اور کردار ،خیالات و جذبات ،کامرانیاں و ناکامیابیاں ،دلچسپیاں اور تفریحیں ،پریشانیاں اور دقتیں ،حماقتیں اور دانائیاں ،عظمت اور فرومائگی یہ سب ناول کے موضوعا ت ہیں۔ ناول ’’پیار بیوپار‘‘ بھی اپنے اندر سب پہلو سمیٹے ہوئے ہے۔ ناول کے بارے میں تاب اسلم ناول کے دیباچے میں لکھتے ہیں :
پیار بیوپار !آثم مرزا کا پہلا ناول ہے جو موضوع اور مواد کے اعتبار سے ایک اچھوتا اور منفرد ناول ہے۔ مرزا اس ناول میں ہمارے معاشرے کے ایک بھیانک اور توجہ طلب پہلو پر قلم اٹھاتے ہیں۔ ان دنوں جو ہمارے ہاں بے جوڑ شادیاں ہو رہی ہیں۔ ان کے مہلک اثرات، امارت اور غربت کا کھچاؤ ،محبت اور ہوس کی کشا کش ،مصلحت پرست والدین اور کاروباری ذہنوں کی سازش ۔جسم اور روح کے درمیان پھیلا ہوا خلا اور خوشیوں کے سمن پوش، کنجوں میں غموں کے مہیب جھکڑ یہ سب کچھ اس ناول کی اساس ہے ۔اس ناول کے کردار جیتے جاگتے ہیں اور اس دھرتی کے رہنے والے ہیں۔جہاں ہم سب صدیوں سے سانس لے رہے ہیں۔(۳۹۷)
اس ناول کا موضوع اس کے عنوان سے ہی ظاہر ہے۔ آثم مرزا ایک سلجھے ہوئے انسان ہیں ۔وہ باوجود ایک مرد ہونے کے ،عورت اور اس پر توڑے جانے والے ظلم و ستم کا بغور مشاہدہ کر کے بجائے اس کے کہ وہ اس کو مجرم گردا نیں وہ اس کے سچے ہمدرد اور خیر خواہ بن جاتے ہیں۔ اس ناول میں وہ ایک فریب خوردہ صنفِ نازک کے احساس و مشاہدات کے صحیح ترجمان نظر آتے ہیں۔ یہ ناول اپنے اندر بے پناہ جاذبیت اور حکیمانہ رموز لیے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جسے اس کا خاوند اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ عورت (بشری) ایک غیر معمولی طور پر حسین عورت ہے جسے اس کا خاوند ملک عظمت ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت حاصل کرتا ہے۔ وہ اس کے حسن کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے بطور چارہ استعمال کرتا ہے۔ پھر بشری کا باپ دولت کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنی بیٹی کو ملک عظمت کے حوالے کر دیتا ہے۔
ماں اگرچہ بیٹی کی ہمنوا ہے مگر دولت کے آگے اس کا جذبہ ماند پڑجاتا ہے۔ اور وہ بھی اس دھوکہ دہی کے کھیل میں شریک ہو جاتی ہے۔ جس میں دولت کے حصول کی خاطر اولاد کی خواہشوں کو قربان کیا جاتا ہے۔ انور نامی شخص کا ،جس سے ہیروئین بشری محبت کرتی ہے۔ کوئی خاص کردار نہیں ہے وہ ایک بزدل شخص ہے اور ملک عظمت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہواہے۔ ناول میں اور بھی بہت سے کردار ہیں جو کہ اپنے کردار سے بھرپور انصاف کر رہے ہیں۔ اس ناول میں ہر واقعہ ایک نشتر ہے۔ آثم مرزا نے معاشرے کی دکھتی ہوئی رگوں پر ایسے ہاتھ رکھ دیا ہے کہ قاری بے اختیار پھڑک اٹھتا ہے۔
ملک عظمت ایک بے ضمیر اور بے حس انسان ہے جسے سوائے دولت اکٹھی کرنے کے دنیا میں اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ،اس مقصد کے لیے وہ ہر حربہ آزماتا ہے۔ لوگوں کی خوشامد کرتا اور اپنی ذات کو اتنا گہرا کر لیتا ہے۔ کہ کبھی کبھی وہ قاری کو انتہائی پستی میں پڑا نظر آتا ہے۔ آثم مرزا نے ملک عظمت اور اس کی سو سائٹی کو اپنے ناول ’’پیار بیوپار ‘‘ میں بری طرح بے نقاب کیا ہے اور اس کی ظاہر داری کے پردے چاک کر دیے ہیں۔ وہ ا یک سلجھے ہوئے انداز بیان سے اس کھوکھلی سوسائٹی کے نقاب اُٹھاتے ہیں۔ ان کی زبان شستہ و شیریں ہے۔ مکالمات برجستہ اور بر محل ہیں ، ان کے کردار حرکت و حیات سے معمور نظر آتے ہیں۔ آثم مرزا لا شعوری طورپر عورت کی عظمت و اثیار کے قائل ہیں ۔و ہ عورت کے اندر کی معصومیت کو بعض دفعہ اس طرح قاری کے سامنے لے آتے ہیں کہ وہ چونک پڑتا ہے۔ مثلاً بشری ایک موقع پر اپنے ماحول سے بیزاری کا اظہار کرتی ہوئی اس ناول کے ایک کردار شفیق سے کہتی ہے:
یہ ماحول میری طبیعت کے موافق نہیں ۔حالانکہ آپ لوگوں کے خلوص اور ہمدردی پر کوئی شبہ نہیں ۔ پھر بھی نجانے کیا بات ہے کہ میں ایسی تقریبات میں خود کو کھوئی کھوئی محسوس کرتی ہوں۔(۳۹۸)
پھر اب شفیق اس کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کرتا ہے تو باوجود اس کے کہ یہ اپنے خاوند سے مطمئن نہیں ہے اور دھوکہ سے اس کی شادی اس کے ساتھ ہوئی ہے۔ وہ شفیق کو منہ توڑجواب دیتی ہے۔
آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو، منہ کے بل گرنا پڑے گا۔ تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے۔ میں ملک عظمت کی بیگم ہوں ۔کوئی آوارہ عورت نہیں ہوں۔ جسے تم بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ غاروں میں لے چلو۔(۳۹۹)
وہ اپنے خاوند سے قطعامحبت نہیں کرتی مگر اس کی وفادار ہے۔ یہاں ہمیں بشری مکمل طورپر ایک مشرقی عورت نظر آتی ہے۔ جو شادی کے بعد صر ف اپنے خاوند ،بچوں اورگھر بار کی ہوتی ہے۔ جب وہ ایک پارٹی کے دوران اپنی عزت بچا کر بھاگ نکلتی ہے تو گھر آکر اپنے خاوند سے کہتی ہے۔
میں نے پہلے دن کہا تھا کہ وہاں میرا اکیلے جانا مناسب نہیں ،مگر آپ نے میری ایک نہ مانی ……اگر آپ کی عزت کو ذرا بھی نقصان پہنچ جاتا تو میں زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔(۴۰۰)
بشری ایک انتہائی معصوم عورت ہے جو زمانے کی چالبازیوں اور اپنے خاوند کے فریب سے قطعاً نا آشنا ہے۔ بلکہ وہ اپنے خاوند کو اپنا ہمدرد سمجھتی ہے۔ وہ گھریلو ماحول کو تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اپنے خاوندکو راہ راست پر لانا چاہتی ہے مگر اس کی تمام کوشش سراب ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے خاوند کی خاطر اپنی انا کو قربان کر کے غیر مردوں کے ساتھ بیٹھتی ہے مگر جب ایک دن اپنے خاوند اور اس کے دوست نصرت کی نیت اور ارادے کو پہچان لیتی ہے اور ان کے شکنجے میں پھنس جاتی ہے۔ تووہ وہاں سے موقعہ پا کر بھاگ نکلتی ہے اور چھپ جاتی ہے۔ یہاں سے ناول ایک نئے موڑ پر آجاتا ہے۔ اور پھر آخر میں بشری ملک عظمت کو قتل کر دیتی ہے۔
آثم مرزا نے ناول ’’پیار بیوپار‘‘ میں رقص و سرور کی محفلوں ،ان کی کاروباری حیثیتوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ جب ملک صاحب کی کامیابی کی خوشی میں اس کی کوٹھی پر ایک جشن ہوتا ہے تو رقاصہ بھی رقص کے لیے بلائی جاتی ہے۔ ایسی محفلیں جس اخلاقی گراوٹ کو جنم دیتی ہیں ۔ آثم مرزا نے کھلے دل سے ان کی قلعی کھولی ہے۔ یہاں وہ ایک حقیقت شناس آدمی کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ اس ناول میں آثم مرزا کا مشاہدہ خاصا گہرا دکھائی دیتا ہے۔ اور مختلف معاملات و مسائل جو انھوں نے ناول میں پیش کیے ہیں۔ان پر مصنف کی گرفت بہت مضبوط ہے۔کہانی میں اگرچہ بے باکی اور عریانی کا پہلو بھی نمایاں ہے مگر یہ موضوع کا تقاضا تھا جس کے بغیر موضوع کے ساتھ انصاف ممکن نہ تھا۔
آثم مرزا نے جو دوسرا ناول لکھا اس کا نام ’’صبوحی‘‘ ہے ۔جو ۱۹۵۸ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو ا۔ اس ناول کا مرکزی کردار ’’صبوحی‘‘ ہے۔باقی تمام کرداروں کا تعلق کسی نہ کسی رنگ میں صبوحی سے ہی ہے۔ ایک غریب عورت زہرہ جو آزادی کی تحریک کے دوران ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی۔ صبوحی اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ صبوحی ہر لحاظ سے قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ محلے کا ایک اچھے خاندان کا لڑکا صبوحی کو شریکِ حیات بنانا چاہتا ہے۔ اسی محلے کی ایک ادھیڑ عمر خرانٹ عورت بھاگاں پارسائی زہرہ کو اپنی جھوٹی شرافت کا معترف بنا کر گھر میں چکر لگانا شروع کر دیتی ہے۔ یہ عورت دراصل ایک بدمعاش شفیع برچھیا کی ایجنٹ ہے اور جوان عورتوں کو ورغلا کر اس ڈیرے پر پہنچا دیتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح صبوحی کو بھی ورغلا کر اس کے ڈیرے پر پہنچا دیتی ہے۔شفیع برچھیا کی قید میں صبوحی بری طرح تڑپتی ہے۔ منت سماجت کرتی ہے اور اس گندے اور اذیت ناک ماحول سے چھٹکا را پانے کے لیے اﷲ اور رسول کا واسطہ دیتی ہے۔ مگر اس کی تمام فریاد بے اثررہتی ہے۔ اور پھر اسے ایک ادھیڑ عمر چودھری زمان خان کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتاہے۔
وہ اسے بے ہوشی کی حالت میں وہاں سے بہت دور اپنے گاؤں میں لے آتا ہے۔ صبوحی جب حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ تو اس کا جی چاہتا کہ وہ خود کشی کر لے مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتی لہذا مجبوراً وہ زندگی کی کشش کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتی ہے۔ چودھری زمان کی اپنے بھائی دلاور کے ساتھ دشمنی ہے۔ دلاور چودھری زمان کو قتل کر دیتا ہے اور صبوحی کو اُٹھا کر اپنے گھر لے آتا ہے۔یہاں سے ناول ایک نیا رخ اختیار کرتا ہے۔ دلاور کی بیوی آمنہ پہلے تو صبوحی سے نفرت کرتی ہے مگر جب اسے صبوحی کی درد ناک کہانی کا علم ہوتا ہے تو اس کی فطری ہمدردی بیدار ہوتی ہے۔ او روہ رات کے اندھیرے میں دلاور کی عدم موجودگی میں صبوحی کو وہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ صبوحی آمنہ کی بتائی ہوئی سمت میں سفر کرنے کے بعد ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتی ہے۔ گاڑی میں صبوحی کی ملاقات ایک عورت کشور سے ہوتی ہے۔ کشور حسن اتفاق سے صبوحی کی بہن نکلتی ہے۔ جو اپنے باپ الطاف کی علالت کی خبر سن کر اس کی عیادت کے لیے جارہی ہے۔
کشور صبوحی کو اپنے ساتھ الطاف کے ہاں لے آتی ہے۔ باپ اور بیٹی جو فسادات کے دوران بچھڑ گئے تھے۔ ان کے ملاپ کا منظر بڑا درد انگیز ہوتا ہے۔ زہرہ کو بھی اطلاع کر دی جاتی ہے۔ اس طرح سب بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں۔ جاوید جس کا ذکر صبوحی کے محلے دار کی حیثیت سے ناول کی ابتدا میں ہو چکا ہے۔ یہ وہی جاوید ہے جو صبوحی سے شادی کا خواہش مند تھا ۔اسے جب اطلاع ملتی ہے تووہ بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور وہ صبوحی کے ساتھ شادی کا اعلان کر دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے بقول اس سارے واقعے میں صبوحی کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ وہ مظلوم تھی۔ ظلم برداشت کرتی رہی ہے اس لیے وہ اب بھی دل و جان سے اسے قبول کرنے کو تیار ہے۔ الطاف جاوید کی اس اخلاقی جرأ ت پر اسے سینے سے لگا لیتا ہے۔ یوں اس ناول کا خاتمہ اچھے انداز میں ہوتا ہے۔
غلام الثقلین نقوی اس ناول ’’صبوحی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ سیدھا سادا ناول ہے جس میں ایک پیش پا افتادہ واقعہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ المناک واقعہ ہماری غیر اخلاقی معاشرت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس درجہ بے حس ہو چکا ہے کہ اخبارات میں آئے دن ایسے واقعات کی رپورٹس شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اور ہم ان سے متاثر تک نہیں ہوتے۔ یہ ناول اسی صورت حال پر ایک نہایت پر اثر طنز ہے اور بڑی درد مندی سے لکھا گیا ہے۔(۴۰۱)
بنیادی طور پر یہ ناول ایک کرداری ناول ہے مرکزی کردار کی شخصیت کو ابھارنے کے لیے ثانوی کردار بھی بڑے سلیقے سے پیش کیے گئے ہیں ۔ ناول کے اختتام پر جو کردار ابھر کر سامنے آتا ہے وہ ڈرامائی بھی ہے اور نیک خصلتی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ صبوحی سے اسے گہری محبت ہے۔ ناول نگار اسی ناول کے ذریعے بلند اخلاقی ،جوانمردی اور بے باکی کا ایک عمدہ نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے جاوید کے ذریعے یہ سبق اپنے نوجوان قارئین تک پہنچایا ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال (۱۹۲۴ء ۔۲۰۱۶ء) اقبال منزل سیالکوٹ میں ۱۵ اکتوبر کو علامہ محمد اقبال کے ہاں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ ان کی والدہ کا نام سردار بیگم تھا۔ (۴۰۲) ڈاکٹر جاوید نے انگریزی ادب اور فلسفہ میں ایم۔اے کیا۔ آپ نے لندن سے بار ایٹ لاء کی ڈگری بھی حاصل کی۔ آپ ۱۹۷۱ء تک لاہور ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔ آخری چار سال چیف جسٹس کے عہدے پر کام کیا۔ ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۹ء تک سپریم کورٹ کے جج رہے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔(۴۰۳)
ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیف ’’مے لالہ فام‘‘ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور سے ۱۹۷۳ء کو شائع ہوئی۔ جاوید اقبال کی تصنیف ’’زندہ رود‘‘ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہو ر سے ۱۹۷۹ء میں طبع ہوئی۔ان کی تیسری کتاب ’’جہانِ جاوید‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ چوتھی کتاب ’’اپنا گریباں چاک‘‘ ۲۰۰۸ء کو سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کی تربیت علامہ اقبال کی دعاؤں کے سائے میں ہوئی۔ علم دوستی اور حق شناسی کی صفات ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ اقبال نے اپنے لخت جگر کو اپنے عمل کی راہ خود متعین کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے علم کے حصول کو اپنی منزل قرار دیا۔ سکول کے زمانے میں کہانیوں اور داستانوں کے بیانیہ اُصول نے انھیں متاثر کیا ۔ اس طرح ادبی نثر میں ان کی دلچسپی بڑھی۔ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی کتاب ’’ مے لالہ فام‘‘ میں لکھتے ہیں :
مجھے کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ باغ و بہار (قصہ چہار درویش) حاتم طائی، طلسم ہوش ربا اور عبدالحلیم شررکے سب ناول پڑ ھ ڈالے تھے۔ ساتویں جماعت کے امتحان کے قریب میرے ہاتھ الف لیلیٰ لگ گئی او ر اس کتاب سے میں اس قدر محو ہوا کہ رات گئے تک اسے پڑھتار ہا۔(۴۰۴)
مطالعہ کے شوق نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کیا اور تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہی لکھنے لگے۔ ان کی ابتدائی تحریریں ایسے رسالوں میں شائع ہوئیں۔ جن کا دائرہ بے حد محدود تھا لیکن گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کے بعد ان کی دلچسپی افسانے اور ڈرامے میں بڑھی ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کے زمانہ طالب علمی میں ترقی پسند تحریک کا خاصا چرچا تھا۔ ہر سوچنے والا ذہن اس تحریک سے کسی نہ کسی صورت میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے وہ لکھتے ہیں:
ان دنوں میں ترقی پسند ی کی تحریک سے خاصا متاثرہوا۔ میری تحریریں ترقی پسند رسالوں میں اکثر شائع ہوتی رہتی تھیں۔(۴۰۵)
ترقی پسند تحریک کے دورُخ تھے۔ ایک رُخ وہ تھا جس کا تذکرہ سید سبط حسن نے روشنائی کے دیباچے میں کیا ہے۔
ترقی پسند ی سے مراد معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرنا ،حیات آفریں عناصر کا ساتھ دینا اور مرگ آفریں قوتوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔(۴۰۶)
ان معنوں میں ڈاکٹر جاوید اقبال ترقی پسند تھے لیکن ترقی پسندتحریک کا دوسرا رخ یہ تھا کہ اس تنظیم سے وابستہ ادیب کیمونسٹ نظام کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ سرخ سویرے کا خواب دیکھتے تھے۔ کارل مارکس اور لنین ان کے مرشد تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مزاجاً اس رویے کے سخت خلاف تھے۔ جب ان کا پہلا پختہ افسانہ ’’غلبہ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۲ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ادبی مجلے ’’راوی‘‘ میں شائع ہوا تو اس وقت رومان اور حقیقت نگاری کے دو متوازی رویے کار فرما تھے۔ منشی پریم چند کے کفن نے تلخ حقیقت نگاری کی بنیادرکھ دی تھی لیکن یہ روش عام نہیں ہوئی تھی۔ گہری جذباتیت، ٹیگوریت اور رومانیت کا اثر باقی تھا۔
’’غلبہ‘‘ ایک بیانیہ کرداری افسانہ ہے۔ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے۔ جو کسی سحر کی گرفت میں ہوجس پر کسی ساحرہ کے تصور کا غلبہ ہو ۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے بیانیہ انداز سے اپنے افسانے کے کردار کو توانائی بخشی البتہ اس افسانے میں کوے کا تذکرہ ایک معنویت ضرور رکھتا ہے۔ کوے کی آوازاور کوے کا وجود ڈاکٹر صاحب کے اکثر ڈراموں میں موجود ہے۔ اسے خوش الحانی پرندوں کے روایتی تذکرے کا رد عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ایک افسانے سے انداز ہ ہوتا ہے کہ اگر ڈاکٹر جاویدا قبال توجہ دیتے تو کئی یادگار کہانیاں لکھتے۔ ڈاکٹر صاحب کے چند سالوں پہلے شائع ہونے والی دو کتب’’ جہانِ جاوید‘‘ ،جلد اول و دوم مطبوعہ ۲۰۱۰ء میں ان کے چار افسانے شامل ہیں۔ان افسانوں کا زمانہ تحریر ۱۹۴۷ء کے آس پاس کا ہے۔ انمیں’’ دھندلکے ‘‘۱۳۔جون ۱۹۴۳ء اور’’ کیوں ہے؟ ‘‘۱۰ جون ۱۹۴۴ء کو تحریر کیے گئے جبکہ باقی دو افسانے ’’طمانچہ‘‘ اور ’’بحران‘‘ بھی اسی زمانے کی تحریر معلوم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اوپرکہا گیا ہے کہ جاوید اقبال ترقی پسندیت سے متاثر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند ۱۹۴۷ء کے نتیجے میں فسادات کے حوالے سے جو اردو ادب تخلیق ہوا وہ قابلِوقیع ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کا افسانہ ’’بحران‘‘ بھی فسادات کا اثر لیے ہوئے ہے۔’’ جہانِ جاوید‘‘ کی جلد اول کے پیشِ لفظ میں اس افسانے کے موضوع کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
ایک نئی تکنیک سے تحریر کردہ تجرباتی افسانہ ’’بحران‘‘ فسادات کے زیرِ اثر لکھا گیا۔(۴۰۷)
اُردو شعر وا دب پر فسادات نے گہرے اثرات ڈالے بڑے بڑے شعرا وا دبا نے اس عظیم سانحہ کا بڑا گہرا اثر لیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی فسادات کو موضوع بنا کر’’ بحران ‘‘کے نام کا افسانہ تخلیق کیا۔ جب تقسیم ہند ہوئی تو قتل و غارت، عصمت دری، لوٹ مار، ارزاں انسانی ،خون جا بجا لٹے پٹے قافلے ،ننگے پیاسے بچے ان سب مناظر نے اچھے خاصے با شعور افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ انسانی المیہ کا ذمہ دار کون ہے؟ دونوں پاکستان اور ہندوستان کے ادیبوں اور شاعروں نے اس سانحہ کا بڑا اثر قبول کیا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کے اس افسانے ’’بحران‘‘ کا تمہیدی اقتباس ملاحظہ ہو:
یہ ……یہ……آہ……سی ……سردی بڑھ رہی ہے۔ یکور لحاف ……میں کہاایک ……کیا ابھی تک وہ چیل منڈیر پر بیٹھی ہے۔ جو کل ……وہی سکوت یہاں کے لوگ کیا ہوئے ؟ اس شدت کے بخار میں میرے قریب کوئی بھی نہ تھا۔ لحاف اوپر پڑا یوں معلوم ہوتا تھا گھر یا کسی نے برف کی سیل رکھ دی ہو…… تاریک،کسی قدر تاریک……(۴۰۸)
جاوید اقبال کی تصنیف ’’زندہ رود‘‘ ڈاکٹر علامہ محمدا قبال کی سوانح عمری ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ جاوید اقبال نے خو د لکھا ہے ۔یہ کتاب سلسلہ اجداد،خاندان سیالکوٹ میں ، تاریخ ولادت کا مسئلہ، بچپن اور لڑکپن ،گورنمنٹ کالج لاہور،درس و تحقیق اور یورپ سات ابواب پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۵۷ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا انتساب اپنے بیٹے منیب اور ولید کے نام ہے۔ ’’زندہ رود ‘‘کے پیش لفظ میں جاوید اقبال اس کتاب کو لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہیں۔
میں نے حیات اقبال پر اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ ۱۹۷۵ء کی گرمیوں میں کیا تھا۔ اقبال کی شخصیت، شاعری،فکر اور فلسفہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اقبال شناسوں نے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر بڑی محنت سے کئی مضمون اور کتابیں تحریر کر رکھی ہیں۔ مگر یہ سارا ذخیرہ بکھرا ہوا ہے۔ اور جو کتب سوانح عمری کے طورپر لکھی گئیں وہ نسبتاً کم ہیں اور ان میں سے بیشتر میں درج کردہ تفصیلات ناکافی ہیں۔ میں نے قصد کیا کہ اقبال کی ایک ایسی بیاگرافی تحریر کرنی چاہیے۔ جس میں خیالات و افکار کے تدریجی ارتقا اور ان کے ماحول کا زیادہ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے مگر زندگی کے نجی پہلو کو اقبال ہی کی منشا کے مطابق ثانوی حیثیت دی جائے۔ یہ کتاب صرف سوانح اقبال ہی پر مشتمل نہیں بلکہ عہد اقبال کی تاریخ بھی ہے۔(۴۰۹)
ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیف ’’مے لالہ فام‘‘ جاوید اقبال کے علامہ اقبال کے حوالے سے ادبی مضامین پر مشتمل ہے۔ ان نثری مضامین میں جاوید اقبال کی علامہ کے حوالے سے تنقیدی آرا سے بھی کسی حد تک آگاہی ملتی ہے۔ ’’مے لالہ فام‘‘ کا پیش لفظ بھی جاوید اقبال نے خود لکھا ہے۔ یہ کتاب نظریات،فکریات ،پاکستانیات ،سیاسیات اور شخصیات و اماکن چار ابواب پر مشتمل ہے۔
جدید اسلام میں لبرل ازم کی تحریک اور اقبال ،اقبال بحیثیت شاعر انقلاب ،اقبال اور ندرت فکر، اقبال اور مسئلہ تعلیم جدید، اقبال اور گردشِ ایام ،اقبال اور نثر اد نو،اقبال اور نظریاتی بحران ،اقبال کے معاشی تصورات ،اقبال اور اُمید بہار،اقبال اور قومی کردار ،شریعت اسلامیہ اور علامہ اقبال،اقبال او ر شیطان اور اقبال کے شذرات پہلے باب ’’فکریات‘‘ کے ذیلی عنوانات ہیں۔ مذکورہ بالا ذیلی عنوانات میں جاوید اقبال نے فکرِ اقبال پر اپنی تنقیدی آراپیش کی ہیں۔دوسرے باب ’’پاکستانیات‘ ‘ میں فکر اقبال کی روشنی میں پاکستان کی سیاسیات حاضرہ کا جائزہ ، اقبال ،پاکستانی قوم پرستی اور بین الاقوامی اسلام ،اقبال اور پاکستان کے محمود و ایاز اور پاکستان کے نظریاتی اساس اور اسلامی قانون سازی پر مشتمل چار ذیلی عنوانات پیش کیے گئے ہیں۔
اقبال اور اسلامی ریاست ،اقبال اور ان کے زمانے کی مسلم سیاسی جماعتیں ،علامہ اقبا ل کا تصور جمہوریت اور موجود ہ صورت حال اور علامہ اقبال اور جمہوریت ،تیسرے باب ’’سیاسیات‘ ‘ کے ذیلی عنوانات ہیں۔ چوتھیباب ’’شخصیات و اماکن‘‘ میں چودھری محمد حسین ’’اقبال ایک باپ کی حیثیت سے‘‘،’’مرکزیہ مجلس اقبال اور صدر محمد ضیاء الحق‘‘ اور’’ کشمیر اقبال کی نظر میں‘‘ چار ذیلی عنوانات ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’’مے لالہ فام‘‘ اقبال کی شاعری اور نثر کے مختلف موضوعات پر تفصیلاً بحث کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اقبال کے نظریات فکر سے گہری آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ جاوید اقبال اپنے مضمون ’’اقبال بحیثیت شاعر انقلاب ‘‘میں لکھتے ہیں :
اقبال کے پیغام کی اصل روح آئین پیغمبرؐ کے تحت ایک ایسا معاشرہ وجود میں لانا ہے۔ جو اخوت،مساوات اور عزتِ نفس کی بنیادی قدروں پر مبنی ہوتا کہ معاشی انصاف کا حصو ل ممکن ہو سکے۔ ان کے نزدیک آئین پیغمبرؐ غریب و نادار کا دست گیر ہے لیکن سرمایہ دار کے لیے موت کا پیغام ہے۔(۴۱۰)
ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیف ’’اپنا گریباں چاک‘‘ ان کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ یہ کتاب جنم پتری ،چند ابتدائی سال ،جاوید منزل ،اپنے آپ کی تلاش ،انگلستان ،پاؤں میں چکر ،خانہ آبادی ،عدل گستری ،نظریہ سے انحراف ،عدالت عظمی کے تین برس ،مستقبل کی تعمیر ،سفر جاری ہے اور دوسرا خط پر مشتمل تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ جاوید اقبال نے خود لکھا ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی اس کتاب میں اپنے بچپن سے لے کر اخیر زندگی تک کے حالاتِ زندگی مختصراً بیان کیے ہیں۔ اس میں جاوید نے اپنے والد علامہ اقبال کے ساتھ گزارے ہوئے ایام کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ بچپن کی زندگی کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
والد (اقبال ) سے میں نے بہت کم مار کھائی ہے میرے لیے ان کی ڈانٹ یا جھڑک ہی کافی ہوا کرتی۔ گرمیوں میں دوپہر کے وقت دھوپ میں ننگے پاؤں پھرنے پر مجھے کئی بار کوسا گیا۔ والد کبھی برہم ہوتے تو ان کے منہ سے ہمیشہ یہی الفاظ نکلتے۔ احمق آدمی ،بیوقوف ، زیادہ ناراض ہوتے تو پنجابی کے بجائے اردو یاانگریزی میں غصہ کا اظہا ر کرتے۔(۴۱۱)
جاوید اقبال اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بچپن میں والدہ سے بھی بہت مارکھائی اور اس کی وجہ ان کا شرارتی ہونا تھا۔ایک جگہ لکھتے ہیں :
میں بچپن میں بے حد شریر تھا، اس لیے والدہ سے مار کھانا میرا معمول بن چکا تھا والدہ خود چاہے مجھے کتنا مارلیتی کسی اور کو مجھ پر ہاتھ اٹھانے نہ دیتی ۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ والدنے کسی شرارت پر مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن والدہ بیچ میں آکھڑی ہوئیں اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ دوسرا ہاتھ اٹھا لیا تو والدہ نے وہ بھی پکڑ لیا ۔ اس دوران میں تو خوف کے مارے نیچے والدہ کی ٹانگ سے چمٹا رہا ۔ لیکن وہ دونوں اس عجیب صورت حال پر کھلھلا کر ہنسنے لگے۔(۴۱۲)
سجاد نقوی (۱۹۳۱ء۔) سیالکوٹ کے ایک گاؤں بھڑتھ میں پیدا ہوئے۔ ایم۔ اے اردو کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ مختلف شہروں میں ملازمت کے بعد گورنمنٹ کالج سرگودھا کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔ (۴۱۳) آپ ڈاکٹر وزیر آغا کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ وزیر آغا کے رسالے ’’اوراق‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ (۴۱۳)آپ رسالہ اوراق کے اعزازی مدیران میں سے بھی ہیں۔
سجاد نقوی کے مطالعے کا نچوڑ ان کی تنقیدی کتاب ’’مطالعے‘‘ ہے ۔ بنیاد ی طورپر سجاد نقوی نقاد ہیں۔ انھوں نے رسالہ’’ اوراق‘‘ کی ترتیب و تزئین میں مصروف عمل رہ کر اپنے ادبی ذوق کی تسکین کی ۔ انھوں نے بہت اچھے افسانے بھی لکھے ہیں۔جو رسالہ ’’کامران‘‘ میں اشاعت پذیر ہوئے لیکن اس کے بعد وہ درس و تدریس میں ایسے مصروف ہوئے کہ افسانہ نگار ی کی طرف توجہ نہ دے سکے۔
’’ٹیلے سے ٹیلے تک ‘‘سجاد نقوی کا ایک خوبصورت افسانہ ہے۔لیکن یہ خیال رہے کہ وہ باقاعدہ افسانہ نگار نہیں ہیں لیکن مذکورہ بالا افسانہ ان کا نمائندہ افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید اس حوالے سے لکھتے ہیں :
ٹیلے سے ٹیلے تک ایسا بے ساختہ افسانہ ہے۔ جسے بنانے میں تخلیق کار محنت نہیں کرتا بلکہ شاخِ تخلیق سے پکے ہوئے پھل کی طرح خود بخود ٹپک پڑتا ہے۔ (۴۱۴)
اس افسانے میں ایک موضوع تو یہ ہے کہ مادہ مرتا نہیں چنانچہ پہاڑ ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ شہر کی آراستہ صورت میں پھر نمودار ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جس طرح کائنات میں مہا بھارت چھڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح انسان بھی چند حدود کے اندر سمایا ہوا ایک فیلڈ ہے جس کے اندر پانی پت کی طرح کئی لڑائیاں سمائی ہوئی ہیں اور بدل جاری ہے۔ ان دونوں موصوعات کو سجاد نقوی نے کٹتے ہوئے پہاڑوں کے مشاہدہ سے اخذ کیا ہے اور انوکھے علامتی افسانے کی صورت دے دی ہے۔ حیرت ہے کہ اس اعلیٰ پائے کے افسانے کے بعد سجا دنقوی نے پھر اس صنف کی طرف رخ نہیں کیا۔
رفعت کا تعلق سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے ہے ۔آپ ایک صحافی ،افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ’’نوائے وقت‘‘ لاہور سے کیا۔ ڈسکہ میں رہتے ہوئے ہی آپ نے افسانہ نگاری شروع کی۔ قیامِ پاکستان کے دوران رفعت کے آباؤ اجداد ہندوستان سے ہجرت کر کے رفعت کے ننھیال ڈسکہ میں آباد ہوئے۔ رفعت نے ڈسکہ کے اسلامیہ گرلز ہائی سکول سے میٹرک کیا اور اعلیٰ تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ اگست ۱۹۷۲ء میں ان کی معروف صحافی عبدالقادر حسن سے شادی ہوئی۔(۴۱۵)
رفعت کے ناول ’’نجودیدی ‘‘اور ’’آنگن ہوا پردیس‘‘ شملہ سے ہجرت اور نئے ملک پاکستان میں آمد اور حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ رفعت کے افسانوں کا مجموعہ ’’بتی والا چوک ‘‘ ہے۔ ان کا یہ افسانوی مجموعہ موضوعات کے حوالے سے ایک نیا در کھولتا ہے۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہانی کہنے کے فن پر عبور رکھتی تھیں۔ رفعت نے اپنے افسانوں کو افسانے کی مختلف تکنیکوں اور رجحانات سے الجھایا نہیں۔ وہ ایک سیدھی سادی کہانی کا ر تھیں۔ رفعت نے اپنے اکثر افسانوں میں مہاجرین کے دکھ، آنسو اور نامساعد حالات کو الفاظ میں ڈھالا ہے۔ خواتین کی معاشرتی اور ازدواجی زندگی پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی ہے اپنے اردگرد موجود خواتین کو ازدواجی اور معاشرتی مسائل میں گھرا دیکھ کر انھیں دکھ ہوتا ہے۔وہ معاشرے میں حوا کی بیٹی کو پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
’’بتی والا چوک‘‘ میں شامل افسانے اپنے اندر ایک تڑپ کی شدت اور درد کی چھبن رکھتے ہیں ۔ ان افسانوں کو رفعت کی شخصیت سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مجموعی طورپر ان افسانوں کے کردار معاشرے میں ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں۔ رفعت ان کرداروں کی نفسیات کو سمجھتی ہیں۔ ان کے دکھ انفرادی نہیں بلکہ یہ معاشرے کے اجتماعی دکھ ہیں۔ مرد کے طاقتور سماج میں داخلی اور خارجی گھٹن ،عورتوں کا مردوں کے ہاتھوں استحصال ان کے افسانوں میں گہرائی کی حد تک موجود ہے۔ یہ دکھ اور تکالیف اس عورت کی ہیں ،جو معاشرے کا مرکزی کردار ہے۔ اس کے باوجود اس کردار کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں۔
رفعت نے ان بے زبان کرداروں کو زبان عطا کی۔ ان افسانوں کے کرداروں کا تعلق ماضی سے ہے نہ مستقبل سے۔ یہ حال کے کردار ہیں۔ اس حال کے جس میں یہ کردار سانس لے رہے ہیں ان کے افسانوں میں ہمیں لمبی چوڑی تفاصیل، منظر کشی اور مکالمے خالی خالی نظر آتے ہیں۔ وہ ایک سچی اور کھری حقیقت کی عکاس ہیں۔ مردانہ کردار بھی ان کے افسانوں میں اُجاگر ہوئے ہیں ۔ یہ کردار امیر ترین اور بڑی بڑی ،کوٹھیوں ،اعلیٰ عہدوں اور منصب والے نہیں ہیں بلکہ جھونپڑیوں ،ٹوٹے پھوٹے مکانوں ، مزدور ،مالی ،چوکیدار ،کسان اور پھیری لگانے والے کردار ہیں۔ ان کے آدرش اور مقاصد کی فہرست طویل نہیں ہوتی۔ ایک چھوٹی سی اور مطمئن زندگی گزرانے کے خواہاں یہ کردار رفعت کے افسانوں میں زندگی کا حقیقی رنگ بھرتے ہیں۔رفعت کے ایک افسانے ’’عینک‘ ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
اپنی آزمائش کی گھڑی میں تو استغفار کر نیک بختے ……یہ وقت ہمارے ماموں پر بھی آیا تھا۔ انسان کا دل تنگ ہوجائے تو کوئی بات نہیں اﷲ میاں کی زمین تنگ نہیں ہونی چاہیے۔ میں اپنے کسی دوست ،کسی مرید کو کہہ دیتا تو ابھی تک ٹھکانا ہو جاتا۔میں تو اس شرم میں چپ ہوں کہ لوگ کہیں گے ایک ہی بیٹا اور اتنا بد دل بابا اپنی اونگھ سے چونک کر خود ہی بولتے چلے گئے۔(۴۱۶)
بلراج کومل (۱۹۲۸ء پ) ۲۵ ستمبر کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایم ۔اے پنجاب یونیورسٹی لاہو رسے ۱۹۵۳ء میں کیا۔آزاد نظم کو بحال رکھنے والے شعرا میں ن۔ م راشد، میرا جی ،فیض اختر الا یمان کے بعد بلراج کومل کا نام آتا ہے۔ آپ نے بہت عمدہ افسانے بھی لکھے۔ ان کا اولین افسانہ ’’روشنی روشنی‘‘ ۱۹۶۴ء میں ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔(۴۱۷)
بلراج کومل نے متوسط طبقے کے کرداروں کی جبلی خواہشات، بد اطمینانی اور جھنجھلاہٹ کو علامتی انداز میں افسانوں میں پیش کیا۔ ان کے افسانوں میں ’’آنکھیں‘‘ مشاہدے کی اور ’’پاؤں‘‘ سفر کی علامتیں ہیں۔ بلراج کومل کی منفرد خوبی ان کی شائستگی ہے۔ آنکھیں اور پاؤں کے افسانے اچھی نظر کی طرح خود بخو د اپنی طرف متوجہ کراتے ہیں ۔بلراج کومل نے افسانے میں خود تو شاعری کے خطوط پر چلنے کی کوشش کی لیکن قاری کو تجریدی تکنیک کے افسانے کا نیا ذائقہ چکھنے کا موقع عطا کیا۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :
اس کے ہاں جو تنوع ہے وہ موضوع کا بھی ہے ، تکنیک کا بھی اور اسلوب کا بھی۔(۴۱۸)
بلراج کومل نے اپنیشاعر ہونے کی حیثیت کو تج نہیں دیا بلکہ افسانے میں شعر کی تخلیقی سطح کو ساحری اور تحیر کے لیے استعمال کیا ہے اور زندگی کا تماشا دیکھا تو واحد متکلم میں افسانے کو اپنی ذاتی شہادت مہیا کی۔وہ جب تماشائی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے تو راوی کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور افسانے کی کوکھ سے زندگیکے حقیقی سوالات ابھارتا چلا جاتا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو بلراج کومل کے تخلیقی ذہن کو مہمیز لگاتے ہیں۔ یہ مہمیز اتنی موثر ہے کہ سوالات کو اس کی ذات تک محدو د نہیں رہنے دیتی۔’’ سائے کے ناخن ‘‘،’’کنواں ‘‘،’’تیسرا کتا‘‘، ’’آنکھیں اور پاؤں ‘‘،’’تصویر اور قلم ‘‘کے ٹکڑے جیسے افسانے ان سوالات کو قاری تک پہنچاتے ہیں۔
’’کنواں ‘‘ ایک عجیب و غریب صورت واقعہ کا افسانہ ہے۔ شہر میں جب نل لگ گئے اور سب کنوئیں بیکار ہو گئے۔ تو لوگوں نے بیکار کنوؤں کا نیا مترادف نکال لیا ہے اب وہ کنوئیں پھلانگ کر شہرت حاصل کر رہا ہے۔ نیک نامی اور وقار حاصل کر رہا ہے۔ اس افسانے میں بلراج کومل نے سادگی سے زندگی کے عمل کی برتری ثابت کی ہے۔ افسانے کے انوکھے پن کوبھی قائم رکھا ہے اور ان سوالوں کو بھی کروٹ دی ہے۔ جو اس کے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔
حمیدہ رضوی (۱۹۴۲ء۔پ) لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ مرے کالج سیالکوٹ میں ایم ۔ا ے انگلش میں داخلہ لیا اور مرے کالج کی طالب علمی کے دوران انھوں نے افسانے لکھنے شروع کر دیے۔ دورانِ تعلیم بزمِ ادب کے تحت ایک ادبی مجلہ ’’کہکشاں‘‘ مرتب کیا۔ (۴۱۹) اس زمانے میں ان کے افسانے ماہنامہ’’ اخبار ‘‘کراچی، ماہنامہ ’’الناظر‘‘ کراچی ، سہ ماہی’’فنون ‘‘اورماہنامہ’’ محفل‘‘ لاہور میں چھپے۔ حمیدہ رضوی کی پہلی افسانوی کتاب’’ مردہ لمحوں کے زندہ صنم ‘‘ ۱۹۸۵ء میں منظرِ عام پر آئی۔ دوسری کتاب ’’اُجلی زمین میلا آسمان ‘‘ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی ۔ ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’بے سورج بستی‘‘۲۰۰۷ء میں طبع ہوا۔ حمید معین رضوی کے تمام افسانوی مجموعے ریز پبلی کیشنز راولپنڈی نے شائع کیے۔ ان کے افسانوں پر ڈاکٹر انور سدید ،نسیم درانی اور محمد حسن عسکری نے تنقیدی تبصرے کیے ہیں۔
حمیدہ معین رضوی کا مجموعہ’’اجلی زمین میلا آسمان‘‘ رومانیت اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج ہے۔ اس مجموعے میں بارہ افسانے شامل ہیں۔گیت ،پیاسا، چوتھے کھونٹ،دریچہ ،سرکل لائن کی ٹرین، دہلیز اس گنبد کی ،شیشوں کا مسیحا ،دربدری، شناخت کی جستجواور برف گرتی رہی درد کا سایہ اور اُجلی زمین میلا آسمان اس مجموعے کے افسانوں کے عنوانات ہیں۔اردو افسانہ کوا بتدا سے لے کر اب تک موضوعات کے اعتبار سے دو طریقوں سے برتا گیا۔ یعنی رومانی موضوعات اور حقیقی موضوعات۔ حمیدہ رضوی کے افسانوں کے موضوعات کے ضمن میں مسرت محمود لکھتی ہیں:
حمیدہ معین رضوی کے افسانوں کے مجموعہ ’’اجلی زمین میلا آسمان‘‘ میں دونوں طرز کے افسانے موجود ہیں۔ ’’پیاسا‘‘ چوتھے کھونٹ،’’سرکل لائن کی ٹرین‘‘ ،’’دہلیز اس گنبد کی‘‘ اور ’’شیشوں کا مسیحا‘‘ میں مجموعی طور پر رومانی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس ’’در بدری‘‘ ’’شناخت کی جستجو ‘‘،’’برف گرتی رہی‘‘۔ اور’’ درد کا سایہ‘‘ میں سماجی حقیقتوں کو موثر انداز میں قارئین کے سامنے لایا گیا ہے۔ بعض افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ’’گیت‘‘،’’ سنگیت‘‘ اور’’ اجلی زمین میلا آسمان‘‘ اس طرز کے نمائندہ ہیں۔(۴۲۰)
حمیدہ رضوی کا افسانہ معاشرے کی زندہ کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ اس نے اپنے معاشرے کے متحرک اور زندہ کرداروں کو پیش کیا ہے۔ اگر اس کے افسانوں سے معاشرہ نکال دیا جائے تو افسانہ لفظوں کاگورکھ دھندہ بن جائے۔ معین رضوی کاافسانہ اس کے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا کی ترجمانی کرتا ہے۔ اور ہمیں اس کا افسانہ اس کے نظریات کی ہم آہنگی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ حمیدہ رضوی کے نزدیک ادیب بھی ایک سماجی و معاشرتی حیوان ہے۔ اس لیے اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاشرہ میں کشا کش ،تضاداور تصادم کے نتیجے میں محرومیوں اور نا رسائیوں کے مشاہدے کے بعد احساس کے جس کرب سے گزرا ہے۔ ایک تخلیق کو وجود میں لا ئے ۔
حمیدہ رضوی نے اپنے افسانوں کو اپنی ذات ،نظریات اور مشاہدات و تجربات کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اس نے اپنے معاشرے اور ماحول کے حالات، نظریات اور بدلتی ہوئی سوچوں اور خیالات کو پیش کیا ہے۔ اگرچہ اس کے افسانے بظاہر تو رومانوی افسانے ہیں لیکن وہ رومانوی کہانیوں پر بھی زندگی کی بڑ ی بڑی حقیقتوں ،فلسفوں اور نظریات کو سیدھے سادھے انداز میں پیش کرنے کا گُر جانتی ہیں۔ ان کے افسانے میں ہمیں کہانی کے ساتھ ساتھ فکر اور فلسفہ بھی ملتا ہے لیکن یہ فلسفہ کہیں بھی خشک اور بور نہیں ہونے دیتا اور نہ ہی دقیق فلسفیانہ مباحث کے ذریعے قاری کو اُلجھاتا ہے۔
فنی اعتبار سے ان کے بیشتر افسانے بہترین کہے جا سکتے ہیں۔ پلاٹ کی بنت،کرداروں کی گفتگو ،وحدت تاثر اور تحریر کے عنصر کی طرف انھوں نے خصوصی توجہ دی ہے۔ بعض افسانوں مثلاً ’’دریچہ‘‘ اور’’شیشوں کا مسیحا‘‘ میں طوالت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر دوسرے افسانوں میں اختصار پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اور ایسے افسانوں میں اثر اور زور زیادہ ہے۔ مسرت محمود لکھتے ہیں کہ :
زبان و بیان کے اعتبار سے ’’اُجلی زمین میلا آسمان ‘‘ کے افسانوں کی زبان کو شعر کی زبان کہا جا سکتا ہے۔ یعنی ایسی زبان جو ذہنی تصویر کو اُبھارنے والی اور جذبات کو آسو دگی عطا کرنے والی ہے۔ یہاں سادگی اور پرکاری بیک وقت جمع ہیں۔ کہیں انگریزی اور پنجابی الفاظ سے بھی کام لیا گیا ہے۔ مگر یہ الفاظ طبع سلیم پر گراں نہیں گزرتے بلکہ موقع محل کے مطابق لائے جاتے ہیں۔(۴۲۱)
خواجہ اعجاز بٹ(۱۹۴۲ء پ) کا اصل نام اعجاز احمد ہے۔ آپ سیالکو ٹ میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ۱۹۶۵ء میں ایم۔اے انگریزی مرے کالج سیالکوٹ سے کیا ۔ ۱۹۶۵ء میں ہی جناح اسلامیہ کالج میں بطور لیکچرار تعینات ہوگئے۔ بعد ازاں مرے کالج سیالکوٹ کے وائس پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ (۴۲۲)خواجہ اعجاز احمد بٹ کی پہلی تصنیف ’‘واپسی ‘‘ (افسانوی مجموعہ) مشعلِ ادب لاہور سے ۱۹۶۶ء میں طبع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’سنگریزے‘‘ (افسانچے) ادارہ فکر نو کراچی نے ۱۹۶۸ء میں شائع کی۔ تیسری تصنیف ’’پیاسے بادل‘‘ (افسانوی مجموعہ) مکتبہ حسن کار لاہورنے ۱۹۶۹ء میں طبع کی۔ چوتھی کتاب ’’کرچیاں ‘‘ (افسانچے) ایوانِ اردو لاہور سے ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی۔ پانچویں کتاب روشنی اور سائے (افسانوی مجموعہ) ۱۹۸۵ء کو مشعلِ اد ب لاہو رسے طبع ہوئی۔
خواجہ صاحب کے افسانوی مجموعہ ’’واپسی‘‘ میں وہ لمحہ ،شعلوں کی شبنم ،دھرتی کی بیٹی، یہ فاصلے ،میجر دیوا ،سہاگ ، آگ میں پھول، واپسی ،سلیکش ،فیصلہ اور افریقہ جاگ اٹھا کے عنوانات کے تحت گیارہ افسانے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں اور شعرانے ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ادبی محاذ پر جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے وہ ہماری قومی تاریخ کا سنہری حصہ ہیں۔ اس ادبی فوج میں طاغوتی طاقتوں سے خواجہ صاحب اپنے افسانوں میں بر سر پیکار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ’’ ’’واپسی‘‘ ان کے گیارہ جنگی افسانوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے سترہ روز ہ پاک بھارت جنگ کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنے ان افسانوں کا تانا بانا اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واپسی کے افسانوں میں حقیقت کا رنگ غالب ہے۔ریاض حسین چودھری لکھتے ہیں :
وہ لمحہ، ’’دھرتی کی بیٹی ‘‘، یہ ’’فاصلے ‘‘اور’’ واپسی‘‘ اور اس مجموعے کے دوسرے افسانے پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان فطرتاً امن پسند ہے لیکن جنگ کے خلاف لڑنا بھی اس کی سرشت میں شامل ہے۔(۴۲۳)
’’واپسی‘‘ کے کردار ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ اور بوقت جنگ ہر کردار کی ذاتی خواہشات کو قومی جذبات وا حساسات پر قربان کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ ’’وہ لمحہ‘‘ کا ریاض اور’’ سلیکشن ‘‘کا رشدی اپنی ذاتی کمزوریوں کو بھول کر قومی سطح پر سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں۔ افسانہ ’’واپسی ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
جب کوئی نوجوان وطن کی ناموس کی خاطر قربان ہوتا ہے۔ تو وہ کئی لڑکیوں کے سہاگ بچاتا ہے۔ میری عائشہ کی کوئی بات نہیں ،ملک کی کئی عائشاؤں کے سہاگ سلامت رہیں گے۔(۴۲۴)
’’واپسی‘‘ کے تمام افسانوں میں جو بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ اس کے تمام کردار ہیں جنھوں نے قومی اور اجتماعی مفاد کی خاطر ذاتی جذبات ،ذاتی خواہشات اور ذاتی کمزوریوں کو وقت آنے پر خیر باد کہہ دیا ہے۔’’ واپسی‘‘ جذبۂ شجاعت سے لبریز کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جنگ ستمبر میں دھڑکنے والے ہر دل کی آواز ہے۔ اور اثیار و قربانی کا لازوال مرقع ہے۔ اس مجموعے میں خوشگواری اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ تاثرآفرینی کی ہر کیفیت موجود ہے۔
’’سنگریزے‘‘ ،خواجہ صاحب کے افسانچوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ارے دلفریبا، وعدہ، تقاضا، ہمارا بھی ……، ہر فن مولا،چند سال اور ……،عورت ہم اور سائنسدان ،ادیب کے احباب، شاعر چائے اور دوست، انٹر کالجیٹ مباحثہ سے اقتباس، خاص انتظام ،ڈرامائی ،مقام ،چکر ،گفتار کا غازی ، دھواں ، زندگی میں ایک بار، قوتِ متخیلہ ،تعلیم کی ترقی ، نیکی اور بدی ،آئینہ ،ناقابلِ یقین،پیلے ہاتھ، بغیر عنوان کے ،نان سینس، فرض شناسی ، بیوی اور دوستی کا ہاتھ پر مشتمل ۳۷ افسانے ہیں۔
اختصار نویسی وقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔ اور فن بالیدگی کا ثبوت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اب داستان گوئی کا دور بیت چکا ہے اور فن بالیدگی کا ـثبوت اس لیے کہ تخلیق کے جوہر کو چند الفاظ یا چند سطرو ں میں سمیٹنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور’’ سنگریزے‘‘ میں ہمیں اختصار نویسی کے ساتھ ساتھ فنی بالیدگی بھی ملتی ہے۔ ’’سنگریزے‘‘ میں خواجہ صاحب کا مختصر ترین افسانچہ پیلے ہاتھ ہے۔ ملاحظہ ہو:
امی تمہارا رنگ کیوں پیلا ہوتا جا رہا ہے۔
تمہارے ہاتھ جو پیلے کرنے ہیں۔(۴۲۵)
ان دوسطروں میں خواجہ صاحب نے مشرقی تہذیب کی پوری تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے۔ اس افسانچے کے متعلق ماہنامہ’’محفل‘‘ لاہور میں لکھا ہے۔
جس دکھ اور کر ب کا اظہار اعجاز نے اپنے اس افسانچے میں کیا ہے وہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ گئے۔ ان دو مختصر جملوں میں انھوں نے ایک داستان بیان کی ہے۔ ایک کہانی کہی ہے۔(۴۲۶)
خواجہ اعجاز صاحب کی تصنیف ’’سنگ ریزے‘‘ کا یہ ایک افسانچہ ملاحظہ ہو:
علامہ صاحب نے داڑھی کو آنسوؤں کی مالا سے تر کرتے ہوئے خدائے کریم سے دعا مانگی کہ بستی میں کوئی فوت ہو جائے۔ مجھے نہلانے اور جنازہ پڑھانے کے دس روپے تو مل جائیں گے۔ میں اگلے ہفتے کا راشن تو لے آؤں گا۔ شام کو علامہ کا اپنا لڑکا فوت ہو گیا۔(۴۲۷)
مندرجہ بالا افسانچے میں اعجا زاحمد صاحب نے بالواسطہ انسانی جذبات سے اپیل کی ہے۔ انھوں نے آدمی کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور اسے زندگی کا احساس دلایا ہے۔ اعجاز صاحب نے پورے خلوص اور ادبی دیانت کے ساتھ معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں پر نشتر زنی کی ہے۔ڈاکٹر انور سدید اعجاز بٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
مصنف کا نام جتنا طویل ہو گا ان کے اظہار کی صنف اتنی ہی مختصر ہو گی۔ اردو ادب میں اس نوع کے افسانے لکھنے کی روایت،منٹو نے’’ سیاہ حاشیے ‘‘لکھ کر ڈالی تھیں۔ جوگندر پال نے اس صنف میں تجرید کے تجربے کر کے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔اعجاز بٹ کے موضوعات میں احساس اور تنوع کی جوالا موجود ہے۔(۴۲۸)
فرخ دورانی ’’سنگریزے ‘‘کے حوالے سے اپنے تبصرہ میں لکھتے ہیں :
سنگریزے کی بڑی خوبی اس کے موضوعات کا تنوع اور وسعت ہے۔ جنس، اشتراکیت ، محبت ،رومان، انفرادی اور اجتماعی نفسیات سے لے کر سائنسی اور خلائی تسخیر تک ہر قسم کے موضوعات ان کے ہاں مل جاتے ہیں۔(۴۲۹)
اعجا زاحمد بٹ کے افسانوی مجموعہ’’ پیاسے بادل میں‘‘ سائیکا لوجسٹ ،آخری داؤ، میرے دکھ تم لے لو، بونگا، پیاسی چڑیا،سلگتے لمحے، برف کی سل، آہنگی جنگلہ اور پیاسے نو افسانے ہیں۔
یہ افسانے’’ نیرنگ خیال‘‘ راولپنڈی، ’’محفل ‘‘لاہور ،’’صاف گو ‘‘لاہور ،’’شمع‘‘ لاہور، ’’جرس ‘‘گجرات، ’’ویمن ڈائجسٹ ‘‘لاہور،’’ادبی دنیا ‘‘لاہور،’’ نقش ‘‘کراچی ،’’ جائزہ‘‘ کراچی اور سہ ماہی’’ سیپ ‘‘کراچی میں بھی شائع ہوئے۔ ’’پیاسے بادل‘‘ کے افسانوں کے متعلق صلاح الدین ندیم لکھتے ہیں :
خواجہ اعجا زبٹ کی کہانیوں کا یہ مجموعہ مختلف نوعیت کے کرداروں کی پیش کش تک ہی محدو د نہیں ہے بلکہ اس کے اندر روح اور جسم کی جدائی کا وہ نوحہ پیش کیا گیا ہے۔ جو یوں تو ازل سے انسانوں کے ساتھ لگا آرہا ہے لیکن اس کا نمایاں اظہار ہمارے معاشرے میں ملتا ہے۔(۴۳۰)
اگر مندرجہ بالااقتباس کی روشنی میں ’’پیاسے بادل‘‘ کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان کے اندر ہمارے اپنے دھڑکتے ہوئے دلوں کی آواز سنائی دے گی۔ اس مجموعہ میں مصنف نے ایسے کرداروں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو محرومیوں اور نا رسائیوں کا شکار ہونے کے باوجود اپنی ذاتی سعی و کوشش سے روحانی سکون کے لیے کوشاں ہیں۔ اعجاز بٹ صاحب نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے اس موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور اس کی صداقت ثابت کرنے کے لیے اسے مختلف کرداروں سے پیش کیا ہے۔ ’’پیاسی چڑیا‘‘ ،پیاسے بادل‘‘ ،آخری داؤ اور ’’برف کی سل‘‘ وغیرہ افسانے اس کی زند ہ مثال ہیں۔ ان افسانوں میں خاص طورپر اور بقیہ افسانوں میں عام طورپر انھوں نے ہر قدم پر معاشرے کی آوازوں کو دل کی دھڑکنوں میں سمونے کی کوشش کی ہے۔
’’پیاسے بادل ‘‘نو معاشرتی افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن میں خواجہ اعجاز احمد بٹ نے زندگی کی حرارت سمو دی ہے۔’’ پیاسیبادل‘‘ ہمارے عہد کے انسان کی اس تشنگی کا المیہ پیش کرتے ہیں ۔جس کے ہوتے ہوئے نہ جسم سیراب ہو سکتا ہے اور نہ روح۔
خواجہ اعجاز احمد بٹ کا افسانچوں پر مشتمل مجموعہ ’’کرچیاں ‘‘ تریسٹھ افسانچوں پر مشتمل ہے۔ سودا، حسد، نروس بریک ڈاؤن ،نشانِ منزل، کاروبار ،ایمان بالغیب، باجی ،جھوٹ کا پول ،صدر مشاعرہ ،اب کہاں جائیں، داد کی خاطر ،شاعر چاند پر ، کفر نہ باشد، ہزار داستان کا ایک ورق اور اب شاعری میں ،احساس ، لفنگے کہیں کے ،اپوزیشن والے ،ارادے اور پھر عورت،نسلی برتری ، انوکھا سوال، پہلی خبر، ناپاک ارادے ، تم بھی شادی کر لو، درخواست ،پھر ناپا ک ارادے، ۱۹۸۸ء ،۱۹۹۹ء ثقافتی تعلقات، چٹھی سیاں کی ۔ جنگ امن کے لیے، صلح کی خاطر، افسر کی بیوی ، اسے کیا کہیے،غلام ،حقیقت، دھول ،ماڈرن ،مدد ،اتنا سا فرق، خون کا رشتہ ،کنٹریکٹر ،جمود، احترام ،شریف بیٹیاں ،آسان راستہ،اثـر ،موت کا ایک دن ، زبان بندی ، زندگی ،احترام ،مہنگا سودا ،دھمکی ،چھٹکارا، دل پشوری ، خوشبو کا سفر، لیکن کیوں، دو انتظار میں ، بیگم ،خوشگوار زندگی کا راز او ر لگاؤ،خواجہ بٹ صاحب کے افسانچوں کے عنوانات ہیں۔
ان کے افسانچوں کا موضوع ہمارا معاشرہ ہے اور اس کے مختلف عیوب کو انھوں نے اپنی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ معاشرتی مسائل پر انھو ں نے جو افسانچے تحریر کیے ہیں ۔ان میں نشانِ منزل ،باجی ،کفر نہ باشد، ناپاک ارادے اور افسرکی بیوی وغیرہ خاص طور پرقابلِ ذکر ہیں۔ افسر کی بیوی سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
شمی میں نے تمھیں کئی مرتبہ کہا ہے کہ میں افسر ہوں اور تم افسر کی بیوی…… ماضی بھی بھول جاؤ۔
ماضی بھول جاؤں…… مگر غریب والدین کو کیسے بھول جاؤں جنھوں نے شادی پر میرے لیے قرضہ لیا اور یہ قرضہ افسر کی بیوی کو اتارنا ہے۔ (۴۳۱)
مذکورہ بالا افسانچے میں زندگی کی تلخ حقیقت کو اجاگر کیاگیا ہے۔ اور خواجہ صاحب نے جہیز میں لعنت پر مختصر الفاظ میں بہت کچھ کہہ دیا ہے جوگندر پال بجا لکھتے ہیں :
یہ افسانچے خواجہ اعجاز احمد بٹ کی پر گواختصار پسندی کے آئینہ دار ہیں۔(۴۳۲)
ڈاکٹر سلیم اختر خواجہ صاحب کے افسانچوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
اعجاز احمد بٹ نے اپنی آگہی کے سہارے افسانچہ نگاری کے مشکل فن کو اپنایا اور فنی ریاضت سے اس پر عبور پا لیا ۔ ان کی بسیط نگاہ موجودہ معاشرے کے تضادات سے جنم لینے والے المیہ اور طربیہ دونوں پر محیط ہے۔(۴۳۳)
خواجہ اعجاز احمد بٹ کا افسانوی مجموعہ ’’روشنی اور سائے‘‘ میں تیرہ افسانے شامل ہیں۔ پاپولر،درد کی چاندی ،چڑیل ، یادوں کی خوشبو، روح کی روشنی ،درد کا سفر، صراطِ مستقیم ،ہم جنس ،سنگھم ،اناڑی ،یہ لڑکیاں ،روشنی اور روشنی اور سائے ان تیرہ افسانوں کے عنوانات ہیں۔ا س مجموعے میں خواجہ اعجاز احمد بٹ نے جہاں اچھوتے پلاٹ اور نئے نئے حقائق کا انتخاب کیا ہے۔ وہاں الفاظ و تراکیب کی تراش خراش میں بھی بڑی جدت اپنائی ہے۔ مثلاً کہنیوں کی بیساکھیوں ،میڈیم گن کی طرح چلنے والی زبانیں اور کمان کے کناروں کی طرح جھکی مونچھیں۔
’’روشنی اور سائے‘‘ میں خواجہ اعجاز نے زیادہ تر معاشرتی نا ہمواریوں کو موضوع بنایا ہے۔ اورا انھیں ایسے کرداروں کے وسیلے سے پیش کیا ہے۔ جن سے ان کا ذاتی اور سماجی رد عمل ظاہر ہو سکے۔ خواجہ صاحب نے اپنے جانے پہچانے ماحول سے فرار کی بجائے اس کی عکاسی کو مقصود فن بنایا ہے۔ چنانچہ روشنی اور سائے ،یادوں کی خوشبو، روح کی روشنی اور درد کا سفر ،میں کالج یا یونیورسٹی کو پس منظر بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ افسانے کالج پر نہیں لکھے گئے۔ بلکہ اسے پس منظر قرار دے کر پیش منظر میں جن کرداروں کو اُبھارا گیا انھیں محض پروفیسر ،طالب علم ،کا نائب نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ کیونکہ یہ عام زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ پرنسپل وسیم بیگ، پروفیسر کاظم علی ،صفواور صیفی زندگی کے دکھوں اور المناک حقائق کے مظہر بن جاتے ہیں۔ ان کا اصل تعلق زندگی سے ہے۔ اس لیے کالج یا یونیورسٹی سے رابطہ اضافی ہے۔ اسی لیے یہ کردار جاندار بھی ہیں۔شفیق جالندھری لکھتے ہیں :
اس مجموعہ میں ایسے افسانے ہیں جن میں ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔مختلف لوگوں کے درد اور دکھ دکھائی دیتے ہیں ۔ اور مصنف نے حیاتِ انسانی کے نشیب و فراد سے پردہ سرکانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(۴۳۴)
سرمد صہبائی (۱۹۴۵ء پ ) سیالکوٹ میں پید اہوئے۔ (۴۳۵)آپ نے ۱۹۶۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے انگریزی کیا ۔ گورنمنٹ کالج لاہورکی ادبی سر گرمیوں میں آپ نمایاں رہے۔’’ کالج گزٹ‘‘ اور’’ مجلہ راوی‘‘ کے ایڈیٹر اور سوندھی ٹرانسلیشن سو سائٹی کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۶۷ء کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کے ڈرامیٹک کلب میں صوفی تبسم کے ترجمہ کردہ ڈرامے ’’ساون رین کا سفنہ‘‘ میں پہلی بار ایکٹر کے طورپر کام کیا۔ (۴۳۶) ۱۹۶۵ء میں لاہور میں ایک اینگلو انڈین لڑکی سے شادی کی اور ان کانام سارہ رکھا۔ (۴۳۷) سرمدنے بریکٹ باؤنڈ کمپنی میں سیلز مینجر ،پی ٹی وی لاہور میں اسکرپٹ ایڈیٹر ،پی ٹی وی اسلام آباد میں اسکرپٹ ایڈیٹر اور ہیڈ آف ڈرامہ او ر نیشنل کالج آف آرٹس میں بطوروزیٹنگ پروفیسر ملازمت کی۔(۴۳۸)
سرمد صہبائی شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ڈرامہ نگار اور مضمون نگار بھی ہیں۔ ان کا پہلا مطبوعہ ڈرامہ ’’توں کون‘‘ ۱۹۷۱ء میں مجلسِ شاہِ حسین لاہور سے شائع ہوا۔ یہ ڈرامہ پنجابی زبان میں ہے۔ اس لیے موضوع بحث سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اردو سٹیج ڈراموں پر مشتمل ان کی کتاب ’’کٹھ پتلیوں کا شہر‘‘ ۱۹۷۳ء میں فوکس پریس لیمٹیڈ لاہور سے طبع ہوئی۔ اس تصنیف کو فوزیہ رفیق نے مرتب کیا۔
سرمد صہبائی کے ڈرامے پھندے میں درمیانے طبقے کی زندگی کو جھانکنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح درمیانے طبقے کے افراد کے اندر شگاف ہوتے ہیں اور افراد ان شگافوں کو کس طرح سیفٹی پنوں سے بند کرنے میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر فوزیہ لکھتی ہیں :
پھندے میں سکارف، شگاف اور سیفٹی پنوں کے imagesدرمیانے طبقہ جس کے ہر فرد، ہر شے کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی شگاف ہے۔ اور اس سے نجات پانے کی خواہش بھی۔(۴۳۹)
جس طرح ڈرامے ’’پھندے‘‘ میں صابرہ کو اپنی برہنگی کا خوف بھی ہے۔اس لیے وہ کہتی ہے کہ مجھے سیفٹی پنوں سے ٹانک دے۔ ایک ایک پن کو میرے جسم میں گاڑ دے ۔ ہر شگاف ہر سوراخ کو بند کر دے تاکہ میں اس کے پاس پہنچوں تو وہ مجھے مکمل ثابت پائے لیکن صابرہ کا بھائی جمیل جانتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ۔یہ شگاف ڈھکی چھپی صابرہ کو ننگی کر دیں گے کہ صابر ہ اس گھر جا رہی ہے جہاں کی دہلیز ایک دوسرے طبقہ کی دہلیز ہے۔ اس لیے جمیل کہتا ہے کہ سیڑھی کا ایک بڑا قدم ۔ لیکن اس پر بھی تیرے قدم پھسل جائیں گے ۔ تو چلنا نہیں جانتی۔ ا س ڈرامے میں سر مد نے دکھایا ہے کہ خواہش انسان کے گلے میں سکارف کی طرح لپٹ جاتی ہے۔ اور آخرصابرہ کی طرح اس کے بدن سے حرارت کی آخری رمق تک چھین لیتی ہے۔
یہ ایکrealisticڈرامہ ہے۔ اس کھیل میں لائنرٹائم ہے او رون ایکٹ ہے۔ اس میں بیرونی تصادم سے زیادہ داخلی تصادم موجود ہے۔ اس ڈرامے کا open endہے۔ سٹیج پر پردہ اٹھتا ہے ایک متوسط طبقہ کی خاتون کمرے میں جھاڑ پونچھ کر رہی ہے۔ا س دوران اس خاتون کی بیٹی نیلم سٹیج پر آتی ہے۔ یہ ایک سٹائلش سی لڑکی ہے۔ اور اس کے بال کھلے ہیں۔ منہ پر لپ اسٹک لگا رہی ہے۔ اور اپنی ماں سے بڑی بد تمیزی سے باتیں کر رہی ہے۔ مثلاً میری لپ اسٹک، سکارف، شمپو وغیرہ کون استعمال کرتا ہے۔ اس کو اپنی بڑی بہن صابرہ پر شک ہے جو پرانے سٹائل کی سیدھی سادھی سی لڑکی ہے۔
نیلم پارٹی میں جانے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ اور بار بار اپنی ماں کو حکم دیتی ہے کہ میری جوتی لاؤسکارف لاؤ ، زپ بند کرو اس کی ماں خاموشی سے تمام کام کیے جا رہی ہے۔ نیلم کی شرٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے وہ اپنی ماں سے کہتی ہے کہ جلدی سے یہاں سیفٹی پن لگادو اور پھر آئینے کے سامنے کھڑی ہے بالوں کو سنوار رہی اوراس کی ماں جوتی اسے دیتی ہے۔ جوتی دیکھ کر نیلم کہتی ہے کہ اماں اس کو صاف کر کے لاؤ ذرا چمک جائے گی۔ اس کی اماں ایک مشین کی طرح جاتی ہے اور اسے صاف کر کے لے آتی ہے۔
اس کے بعد باہر اچانک زور دار گاڑی کا ہائرن بجتا ہے دس سیکنڈ کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ نیلم کا بھائی جمیل سیڑھیوں پر کھڑا ہے اور ہر چیز ساکت ہے۔ صرف دل دھڑکنے کی آواز سنائی د یتی ہے۔ ہارن دوبارہ بجتا ہے اور نیلم بھاگ کر دروازے سے باہر نکل جاتی ہے اور پہلا سین فیڈ آؤٹ ہوتا ہے۔
اگلے سین میں وہی منظر ہے نیلم کی ماں کرسیاں صاف کررہی ہے اور نیلم کی ماں کی خو د کلامی شروع ہو جاتی ہے۔ اگلے سین میں نیلم اور اس کی دوست زریں جو کہ ایک ماڈل گرل معلوم ہوتی ہے سٹیج پر آتی ہے۔ اس سین میں نیلم اپنے بوائے فرینڈ ممتاز کی باتیں شروع کر دیتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ بڑی خوشی محسوس کرتی ہے۔ پھر خود کلامی کے انداز میں باتیں کرتی جاتی ہے۔ اس سین میں زریں نیلم کے بھائی جمیل کے ساتھ باتیں شر وع کرتی ہے۔ تو نیلم آؤٹ ہو جاتی ہے۔ زریں رومانی انداز میں جمیل سے باتیں کرتی ہے۔
اگلے سین میں صابرہ ایک بت کی طرح بڑے آئینے کے سامنے کھڑی ہے۔ نیلم او رزریں اس کو تیار کر رہی ہیں۔ صابرہ نے وہی لباس پہنا ہے جو زریں کی بوتیک سے پچاس روپے میں بن کر آیا ہے ۔زریں صابرہ کے سادہ ہونے پر تنقید کر رہی ہے کہ صابرہ کی شیخ صاحب سے شادی کرنی ہے۔ شیخ صاحب ایک امیر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عمر میں بوڑھے ہیں۔ صابرہ کی اماں چاہتی ہے کہ کسی طرح یہ رشتہ ہو جائے۔ا سے ڈر ہے کہ صابرہ کی سادگی کی وجہ سے یہ رشتہ چھوٹ نہ جائے۔
اگلے سین میں صابرہ اپنی بہن نیلم کی طرح ایک ماڈل گرل بنی ہوئی ہے۔ اسی کے انداز میں آئینے کے سامنے کھڑی میک اپ کر رہی ہے اور چلا رہی ہے۔ آخری سین میں جمیل سٹیج پر آتا ہے سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہے۔ پھر واپس آتا ہے اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہلکا میوزک شروع ہو جاتا ہے۔ جمیل آئینے کے پاس پڑی ہوئی ٹائی اٹھاتا ہے۔ اور مشینی انداز میں ٹائی باندھتا ہے۔ ٹائی باندھ کر پیچھے دیکھتا ہے تو سیڑھیوں پر نیلم کھڑی نظر آتی ہے۔ دس سکینڈ کے وقفے کے بعد پھر جمیل اسے دیکھتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے۔ سٹیج پر بالکل اندھیرا سا چھا جا تا ہے۔
اس ڈرامے میں سیٹ روایتی قسم کا ہے اسٹیج پر ایک چھوٹا سا ڈرائینگ روم نما کمر اہے۔ جس کے دائیں طرف دروازہ باہر کھلتا ہے۔ دروازے کے ساتھ والی دیوار پر ایک پرانی طرز کا گول آئینہ ہے۔ جس کے ساتھ ایک آدھ دراز بھی ہے۔ فرش پر بچھی ہوئی چٹائی کے درمیان کا حصہ کہیں کہیں سے پھٹا ہواہے۔ اس کے قریب ہی ایک کرسی رکھی ہے۔ بائیں جانب سیڑھی ہے جو اوپر کی سمت جاتی ہے۔ سیڑھی کے نیچے دروازہ اندرون خانہ کھلتا ہے۔ بائیں جانب ایک کھڑکی ہے۔ جس کے باہر پھولوں کی بیل سی دکھائی دیتی ہے۔ کھڑکی کے ساتھ مینٹل پیس ہے۔ جس پر سستے قسم کے ڈیکوریشن پیسیز رکھے ہوئے ہیں۔ کھڑکی کے قریب ایک پرانا ریڈیو ہے۔ جس پر جھالروں والی چادر پڑی ہوئی ہے۔ جب پردہ اٹھتا ہے تو شام کا وقت ہوتا ہے۔ ا س طرح سیٹ سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ایک متوسط طبقے کا گھر ہے۔
’’پھندے ‘‘ کی زبان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک جدید ڈرامہ ہے۔ اس میں استعمال ہونے والی اشیاء کے نام جدید دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔مثلاً ایک جگہ جمیل کہتا ہے :
آج میں شہر میں گیا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ شہر مجھ پر آن گرے گا۔ چاروں طرف لوگ کھڑکیوں ،دروازوں ،محرابوں اور درازوں سے نکلتے ہوئے سراسیمہ دہشت زدہ لوگ، شہر لوگوں سے اٹا پڑا ہے۔ سڑکوں پر جیسے کسی دیونے مٹھی کھول دی ہو ۔ جس میں سے انسان نکل کر چوراہوں دو راہوں پہ پھیل گئے ۔ جلتی بجھتی بتیاں اشتہار عافیت کے نشان ،جھوٹے دلاسے ،شوکیس ،بس ،ڈبیاں ،پیکنگ ،کاریں بسیں، سکوٹر، ٹانگے، کرسیاں ،بینکوں کے جنگلوں سے لٹکے ہوئے لوگ ،کاؤنٹر پر لٹکی ہوئی گردنیں۔(۴۴۰)
اِس ڈرامے میں روزمرہ محاورات ،متھ اور شاعری نظر نہیں آتی ہے۔ اس کے کردار نہایت حقیقت پسندانہ عام بول چال کے الفاظ بولتے ہیں۔ پھندے میں چار کردار ہیں۔ نیلم صابرہ ،جمیل اور ان کی اماں اور چوتھا کردار نیلم کی سہیلی زریں کا ہے۔ نیلم کی ماں ایک عام اَن پڑھ خاتون ہے۔اس کی زندگی گھر کی چاردیواری کے اندر گزری ہے۔ عام عورتوں کی طرح اسے بھی بولنے کی عادت ہے۔ اس لیے وہ اکثر دیواروں سے بھی باتیں کرتی ہے۔ کبھی اس کی خود کلامی شروع ہو جاتی ہے۔ مثلاً اماں خو د کلامی کرتی ہوئی اپنے بارے میں بتاتی ہیں :
ست ورھے گھر چوکھٹ کے اندر ہی گزر گئے ہیں جوانی ان کے کپڑے دھوتے دھوتے گزر گئی ۔ میں تو دیواروں کے ساتھ بیاہی گئی تھی۔ کتابوں کی دیوار سے ،میاں جی نے سٹرکتی ناک کے ساتھ پلے باندھ دیاتھا ۔ وہ عمر ہی کیا تھی ۔کچی پکی عمر وہ دن یہ دن چیزیں ادھر اُدھر کرتے گزر جاتا ہے۔(۴۴۱)
ان چند جملوں میں ڈرامہ نگار نے اس کردار کی کیس ہسٹری نہایت اختصار سے بیان کر دی ہے۔ اماں کی ساری زندگی دیواروں کے اندر گزر گئی۔ اب اس کی خواہش ہے کہ میری بیٹیوں کی شادی کسی امیر خاندان میں ہو۔ اس لیے اس نے اپنی بیٹی نیلم کو بھی پوری آزادی دی ہوئی ہے۔ وہ روز شام کو کسی ممتا زنامی امیر زادے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جاتی ہے۔
اماں چاہتی ہے کہ صابرہ بھی اس کے ساتھ باہر جایا کرے۔ اماں صابرہ کی شادی کسی امیر شیخ صاحب سے کرنے والی ہے۔ جو ایک بوڑھا شرابی ہے۔ زریں اور نیلم کھوکھلی زندگی کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ زریں جمیل میں دلچسپی لیتی ہے۔ جمیل کو زریں کے دکھاوے کی زندگی سے نفرت ہے۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ زریں مصنوعی زندگی میں رہے۔ اس کے برعکس نیلم اور زریں صابرہ کو ایک مصنوعی چیز بنا رہی ہیں تاکہ شیخ صاحب کے گھر اس کا رشتہ ہو جائے۔ جمیل اصلیت سے آگاہی رکھتا ہے اور کہتا ہے :
اس کو سدھارنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ تم سب ہر قدم پر دھوکا دے………… صابرہ تو اس گھر جار ہی ہے جہاں کی دہلیز ایک دوسرے طبقے کی دہلیز ہے۔ سیڑھی کا ایک بڑا قدم مگر اس پر بھی تیرے قدم پھسل جائیں گے ۔کہ تو نہیں جانتی چلنا۔(۴۴۲)
لیکن اس کے باوجود زریں اور نیلم صابرہ کو ایک ماڈل گرل بنانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔ اور جمیل کو برا بھلا کہہ رہی ہیں۔ جمیل اماں کو بتاتا ہے کہ صابرہ کو اس کی اصلیت میں رہنے دو۔ ایک بوڑھے شرابی کے ساتھ اس کی شادی کیوں کر رہی ہو۔ اس پر اماں کہتی ہے :
ہر فرد شراب پیتا ہے تو خود پیتا ہے ۔ مردوں کی عمریں نہیں دیکھی جاتیں۔ ان کی شکلیں نہیں دیکھی جاتی ۔ ان کی آمدنی دیکھی جاتی ہے۔ آمدنی(۴۴۳)
اسی طرح نیلم بھی اپنی ماں کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہے :
صابرہ خوش ہے۔ اماں خوش ہے۔ یہ رشتہ صرف صابرہ کے لیے نہیں ہم سب کے لیے اچھا ہے ہم سب ایک نئے سوشل سٹیٹس کی طرفmove کر رہے ہیں۔ ان سیکورٹی سے سیکورٹی کی طرف۔(۴۴۴)
زریں اور نیلم نے آخر صابرہ کو ایک ماڈل گرل بنا دیا۔صابرہ جب ماڈل گرل بن جاتی ہے تو چونکہ اس کی اصلیت کچھ اور ہے اور کر کچھ اور رہی ہے ۔ وہ اندر سے کھوکھلی ہے۔ اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ صابرہ اپنی بہن نیلم کے کردار میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح کا شور کرتی ہے میرا سکارف کون لے گیا میری لپ اسٹک کدھر ہے۔ میرے بستر پر داغ کیسا ہے۔ اس کے ساتھ وہ پُر معنی الفاظ بھی بولتی ہے:
مجھے دیر ہو رہی ہے۔ جلدی کرو فوراً میں صدیوں سے اس پل کے لیے ٹھہری ہوئی ہوں ،یہ پل گزر گیا تو میں ……میں…… جلدی کرو پنیں نکال لی ہیں۔ فوراً مجھے سیفٹی پنوں سے ٹانک دے۔ ایک ایک پن کو میرے جسم میں گاڑ دے۔ ہر شگاف،ہر سوراخ کو بھر دے ۔ تاکہ میں اس کے پاس پہنچوں تو مکمل جاؤں ۔ وہ پھول لیے میرا انتظار کر رہا ہے۔ میری مانگ ستارے اتر آئے ہیں۔ میرے ہاتھوں میں شفق اُتر آئی ہے۔ تیرے ہاتھ کتنے گندے ہیں تیرے ناخن کتنے غلیظ اور بدبو دار ہیں۔(۴۴۵)
نیلم اور زریں صابرہ کے جہیز کا سامان لائی ہیں اس میں ایک گلدان ہے جو نیلم جمیل کو دکھاتی ہے کہ یہ کتنا نفیس ہے اور سستا ہے۔ اس پر جمیل کہتا ہے :
یہ گلدان بھی میری بہن صابرہ کی طرح بظاہر خوب صورت ہے مگر اس کے اندر ایک شگاف، ایک شکن بدصورت ننگا پن ہے۔ وہ ان شگافوں کے ساتھ اس دہلیز سے باہر نکلے گی۔ یہ شگاف اٹل ہیں۔ تعاقب میں ہیں کہ دنیا کی محفوظ ترین جگہوں پر ڈھکی چھپی صابرہ کو ننگا کر دیں گے۔ یہ پیندے کا خلا چاروں طرف ہے۔ چاروں طرف شگاف تعاقب میں ہیں۔ یہ شگا ف ڈھکی چھپی صابرہ کو ننگا کر دیں گے۔(۴۴۶)
اس ڈرامے کے تمام کردار حقیقی ہیں۔ کوئی کردار فرضی نہیں ہے۔ ہر کردار موجودہ زندگی کا عکاس ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار جمیل ہے۔ جمیل کی باتیں آنے والے لمحوں کی حقیقت کو بھی بیان کرتی ہیں۔ سر مد صہبائی اپنی اسٹیج ڈراموں کی کتاب’’ کٹھ پتلیوں کا شہر ‘‘کے پہلے ور ق پر رقم کرتا ہے کہ ان کے ڈراموں کا کوئی کردار فرضی نہیں۔ اس ڈرامے کا کردار بھی بیسویں صدی کا ایک انسان ہے جو بے چارگی کے عالم میں نہیں بیٹھتا ۔ بلکہ مرنے کے بعد اپنے نظریات کو معاشرے کے سامنے لیے کھڑا ہے اور اس کی بیوی خود غرضی کا دامن پھیلائے مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔ سرمد ایک حقیقت پسند ڈرامہ نگار ہے۔ اور اس نے اردو ڈرامے کو نت نئے تجربات سے آشنا کیا ہے۔ اپنے ڈرامے، مائم ،موسیقی ،بلیک کا میڈی ،ریلزم اور سریلزم اور شاعری کو استعمال کرنا خوب جانتا ہے۔ ان کے ڈرامے ’’ایک معزز شہری کی رسمِ جنازہ‘‘ میں بھی یہ سب کچھ ملتا ہے۔ یہ ڈرامہ ون ایکٹ ہے۔ اس ڈرامے میں ایک سادہ سیٹ لگایا گیا ہے۔ سارا اسٹیج خالی ہے۔ بس ایکٹرز ہی اپنے ساتھ قبر کھودنے یا اوزار یا پلاسٹک کے پھول وغیرہ لے کر آتے ہیں۔ اس ڈرامے میں مرکزی کردار لاش کا ہے۔ جس کا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے۔ یہ اپنی بیوی کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دنیا میں ہر جائز اور ناجائز کام کرتا ہے۔ لیکن اپنی آخرت کی فکر نہیں کرتا جس کا اسے افسو س ہے ۔اس کی بیوی اسے کہتی ہے کہ مجھے تم دولت پر مٹ لے کر دیتی رہی مگر تو نے جاتے ہوئے ساری جائیداد کسی اور عورت کے نام کر دی تو اس کا جواب لاش کہتی ہے:
افسوس صد افسوس تم نے مجھے جنت کا لائسنس نہ دیا۔(۴۴۷)
جس عورت کی خاطر مرنے والے نے اپنی آخرت کی فکر نہ کی اور ہر نا جائز کام کرتا رہا۔ا س کو پتا ہے کہ اب بھی اس کی ہوس زر اور آوارہ گردی کی تمنا پوری نہیں ہوئی۔ اس لیے وہ جاتے ہوئے اسے پوری آزادی دے رہا ہے کہ اب جہاں مرضی ہے جاؤ ہوٹلوں،پارکوں ،کلبوں اور شاپنگ سینٹروں میں تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔ اسی طرح وہ اپنی بیٹی کو بھی آزادی دے رہا ہے تم بھی اپنے منگیتر کے ساتھ امریکہ جا کر اپنی خواہشات پوری کر لو۔ کیونکہ اس کی بیٹی بھی اپنے ہاتھ میں خواہشات پکڑے سائن کروانے کھڑی ہے۔ اس طرح رپورٹر ہیں جو مرنے والے سے اس کی بے وقت موت کا افسوس کر رہے ہیں تو لاش ایک لیڈ ر کی طر ح ان سے خطاب کر رہی ہے:
میری موت میرے نظریات کی موت نہیں ،میرے خیالات کی موت نہیں، میرے سوالات کی ،میرے جوابات کی، میرے نشانات کی ، میرے معاہدات کی موت نہیں ،نظریات خطبات، نشانات ،معاہدات ،ہمیشہ زندہ وپائندہ رہتے ہیں۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے نظریات کبھی نہیں مرتے۔ میں اب بھی زندہ ہوں۔(۴۴۸)
اس کردار کی گفتگو سے انداز ہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی لیڈر تھا اور یہ ایسا لیڈر ہے جیسے پاکستانی کے نصیب میں لکھے ہیں- اس نے بھی وہ تمام کام سر انجام دیے ہیں جو پاکستان کے لیڈر کر سکتے ہیں۔ مثلاً آخر میں جب اس کا نوکر آتا ہے اور آکر کہتا ہے :
اس اچھوت سے جو جو قتل ہوا اس میں آپ نے اس کمترین کی ہمیشہ جان بچائی قانون بدل ڈالے ،فون بدل ڈالے۔ فیصلے بدل ڈالے۔(۴۴۹)
اس طرح سرمد صہبائی نے اپنے اس کردار کے ذریعے جھوٹے رشتوں کا بھر پور مذاق اُڑایا ہے۔ وہ رشتہ میاں بیوی کا ہو ،باپ بیٹی کا،مالک ملازم یا لیڈر او ر عوام کا ہو۔ اس ڈرامے کے تمام کردار شاعرانہ اسلوب میں بات کرتے ہیں مثلاً شروع میں لاش کہتی ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ اب اس کی بیوی اس انداز میں باتیں کرتی ہے۔ نائٹ کلب، یوبلب، شاپنگ سینٹر، بے بی رینٹر، کاک ٹیل ،فری لو، ڈوڈلنگ، ڈور، پارک ،ہوٹل اوپن ہوٹل، ایڈیٹ ٹیل ،میل وغیرہ ۔اس کھیل میں ڈرامہ نگار نے نہایت اختصار سے کام لیا ہے۔ ہمارے ہاں سرمد صہبائی سے پہلے اتنے مختصر کھیل نہیں لکھے جا تے تھے۔
سرمد صہبائی کا ڈرامہ ’’ڈارک روم‘‘ موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے ایک تجرباتی کھیل ہے۔ یہ کھیل روایتی ڈرامے سے ہٹ کر ایک نیا اسلوب اور مغربی جدید ڈرامے کے لوازمات سے مزین ہمارے تہذیبی کرداروں کو سٹیج پر لے کر آیا۔صفدر میر ’’ڈارک روم‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
"Dark room was a modern morality play on the theme of serach for identity in a society infested by the voilence of money and properly. It was a play enriched by all significant production. But above all it lacking in all but one of the other plays."(450)
یہ حقیقی کھیل ہے اس میں لائنر ٹائم ہے اور اس کے تین ایکٹ ہیں۔ اس میں بیرونی تصادم سے زیادہ داخلی تصادم موجود ہے۔ اس کھیل کا پلاٹ، روایتی انداز کا ہے۔ کہیں جھول نہیں نظر آتا ہے ۔مرکزی پلاٹ کو تمام سب پلاٹ دلچسپی سے آگے بڑھاتے ہیں اور کھیل اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
ڈارک روم میں عام روایتی سیٹ استعمال ہوتا ہے ۔ دو کمرے ہیں ایک ڈراک روم ہے۔ جس میں جمشید تصویریں پرنٹ کرتا ہے۔ دوسرا عام بیڈ روم ہے۔ پہلے سین میں ہمیں ایک پرانی میز نظر آتی ہے۔ جس پر ایک ٹائپ رائٹر پڑا ہے۔ دوسری طرف ایک چوکھٹ ہے۔ جس پر جمشید تصویریں کاٹتا ہے۔ اس سین میں روشنی مدہم سی ہے۔ دوسرے سین میں صر ف ڈارک روم ہے۔ اس میں ایک بلب جل رہا ہے۔ سامنے بڑی کھڑکی کے پردے کے گرد روشنی کی ایک آؤٹ لائن بنی ہے۔ سین چار میں ابسرڈسیٹ استعمال کیا ہے۔ جس طرح یونیسکو کے ڈرامے میں سیٹ ہے۔ میز پر موم بتیاں جلائی جا رہی ہیں۔ اس طرح مہمان آرہے ہیں ان کو بیٹھایا جا رہا ہے۔ لیکن سٹیج پر چیزیں کوئی نہیں ہیں تو یہ ابسر ڈسیٹ کا عمدہ نمونہ ہے۔
ڈارک روم کے کرداروں کی زبان بول چال اُردو ہے۔ لیکن اس میں کثرت سے انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جو کرداروں کے فیلڈ کی وجہ سے ہے۔ ڈارک روم میں شاعری بھی استعمال ہوئی ہے۔ کردار لمبی لمبی نظمیں پڑھتے ہیں۔ متھ کا استعمال بھی ہوا ہے۔ مثلاً ظفر کہتا ہے کہ تم سب نے دیو کے سامنے ہا ر مان لی ہے۔ اور اس نے تمہیں مکھیاں بنا دیا ہے۔ یہاں ہلکا سے افکار کا اثر ہے۔ تمام کرداروں کی اپنی ایک ٹون ہے۔ مثلاً جمشید صدیقی سے کہتا ہے :
بند کرو کھڑکی ،کھڑکی نہ کھولنا، صدیقی ،صرف ایک سکینڈ مجھے اس ٹرے میں سارا شہر نظر آرہا ہے۔ شہر کے سب لوگ ننگے اور مسخ شدہ گھسے ہوئے جھوٹے اور فحش کالج کے لڑکے ،بد صورت خصی سیٹھ، ریلوے کے تھکے ہوئے مزدور ،تاڑی پی کر حیوانوں کی طرح ناچتے ہوئے ۔ مجھے سارا شہر نظر آرہا ہے۔ ننگا اور فحش شہر۔(۴۵۱)
جمشید کے معنی پیالے کے ہیں ۔ جمشید ٹرے میں تصویریں کاٹ رہا ہے۔ وہ اچانک جمشید کے پیالے میں بدل جاتا ہے۔ اور جمشید اس پیالے سے سارے شہر کو دیکھتا ہے ۔ صدیقی کی زبان باقی تمام کرداروں سے سخت حقائق بیان کرتی ہے۔نظمیں بھی زیادہ طرح صدیقی ہی پڑھتا ہے۔ اس کے الفاظ میں زمانے کا تلخ زہر بھرا ہوا ہے۔ مثلاً ایک جگہ پر صدیقی کامران سے کہتا ہے :
صبح سویرے ہم سب اپنے باسی خون پر تازہ خواہشوں کی پالش کرکے جسم پر گٹ اپ کی وارنش کرنے کے بعد اپنی لٹکتی ہوئی گردنوں کو اکڑے ہوئے کالروں میں دھنسا کر بوٹ کے تسمے کس کر ،اس کمر ے سے باہر نکلتے ہیں۔ اور دور دور شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔(۴۵۲)
ڈارک روم کا مرکزی کردار ظفر ہے۔ ظفر اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر آگیا تھا۔ شہر کی تیز رفتارزندگی نے اس کا سکون چھین لیا ۔ اسی ڈارک روم میں جہاں صدیقی کامران اور جمشید قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی واپسی ان سب کی اُمیدوں کو جگا دیتی ہے۔ اس کے سب دوستوں کی خواہش ہے کہ یہ دوبارہ مادام کی نوکری شروع کر دے کیونکہ مادام اس سے محبت کرتی ہے اور اس وجہ سے کامران کو باہر جانے کا موقع مل جائے گا۔ صدیقی اور جمشیدکی بھی تنگ دستی دور ہو جائے گی لیکن ظفر کو مادام سے نفرت ہے وہ اسے اپنے لیے زہر سمجھتا ہے۔ اور اسے خونی چڑیل کہتا ہے ۔ پھر ایک بچہ اسماعیل ان کے گھر آتا ہے جو ایک سلطان نامی بدمعاش سے ڈر کر ادھر سے چھپ کر سکول جاتا ہے۔ ظفر اس کو کہتا ہے کہ تم کب تک اس بدمعاش سے چھپتے رہو گے ۔یہ بات دراصل وہ اپنے آپ سے کہہ رہا ہے۔ صدیقی وغیرہ نے مادام کو ظفر کے واپس آنے کی اطلاع دے دی ہے۔ مادام نے سب کو ڈنر پر مدعو کیا ہے لیکن ظفر نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ظفر اپنے ارادے میں مضبوط ہے۔ وہ سب پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے :
میں تمھاری طرح کنڈیش نہیں ہونا چاہتا ۔تم سب اس دیو کے سامنے ہار مان چکے ہو ۔ جس نے تمہیں مکھیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ میں مکھی بن کر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔(۴۵۳)
صدیقی ظفر سے کہتا ہے کہ تم بزدل ہو اگر مادام کے پاس نہیں جانا تو پھر واپس اپنے گاؤں چلے جاؤ اور جا کر اپنا حق حاصل کرو۔ ادھر اسماعیل آتا ہے اور اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس نے بدمعاش کو قتل کر دیا ہے۔ ظفر یہ دیکھتا ہے اور اپنا بیگ اُٹھاتا ہے او ر گاؤں چلا جاتا ہے۔ ظفر بڑا خود دار ہے۔ وہ مادام کی نوکری نہیں کرتا بلکہ اپنا حق چھیننے کے لیے گاؤں چلا جاتا ہے۔ ڈارک روم کا دوسرا کردار صدیقی ہے جو اپنے پیشے کے لحاظ سے رپورٹر ہے۔ صدیقی ڈارک روم کا بڑا جاندار کردار ہے۔ اس کا بات کرنے کا ڈھنگ بڑا نرالہ ہے۔ صدیقی سیدھی بات ہی نہیں بلکہ کسی تشبیہ ،استعارے یا زندگی کے کسی تلخ لہجے میں بات کرتا ہے۔ ڈارک روم کا تیسرا کردار جمشید ہے۔جو اپنے پیشے کے لحاظ سے فوٹو گرافر ہے ، وہ زندگی کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے جمشید جب شہر پر نظر ڈالتا ہے تو اس کی تمام تصویریں یوں لفظوں میں بند کرتا ہے:
مجھے اس ٹرے میں سارا شہر نظر آرہا ہے۔ شہر کے سب لوگ ننگے اور مسخ شدہ گھسے ہوئے جھوٹے اور فحش کالج کے مدقوق لڑکے بد صورت خصی سیٹھ ریلوے کے تھکے ہوئے مزدور ،تاڑی پی کر حیوانوں کی طرح ناچتے ہوئے مجھے سارا شہر نظر آرہا ہے۔ ننگا اور فحش۔(۴۵۴)
کامران ہوٹل میں Receptionistہے اور اسے باہر جانے کا جنون ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ ڈراک روم میں بھی اس نے اپنی زندگی کا ایک دلفریب سلیقہ بنایا ہوا ہے۔ وہ پرانے کوٹ خرید کر پہنتا ہے اور مہنگا پرفیوم لگاتا ہے اور پارٹیوں میں جاتا ہے۔ لیکن اسے ٹائی باندھنا نہیں آتا ہے۔ سلطان بدمعاش سے اسماعیل ڈرتا ہے۔ ایک دن اسماعیل اس بدمعاش کو قتل کر دیتا ہے۔ قتل اس لیے کرتا ہے کہ اسے آزاد جینے کا حق مل جائے۔ وہ روز روز اس سے چھپ چھپ کر جینا نہیں چاہتا تھا۔ تو اس سے حق لینے کے لیے خون کرنا پڑا۔اس واقعہ نے ظفر کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اپنا حق لینے کے لیے گاؤں چلا گیا ہے۔
بلیک کامیڈی ایک جدید تر ڈرامائی اظہار ہے۔ یہ مغرب کے انحطاط پذیر معاشرے سے پیدا ہونے بھیانک اور گھناؤنے ماحول کے خلاف ایک شدید رد عمل ہے۔’’ سنو گپ شپ‘‘ سرمد صہبائی کا بلیک کامیڈی ڈرامہ ہے۔ اس کھیل میں استعمال ہونے والی چیزیں نارمل کی بجائے ابنارمل سائز میں استعمال ہوئی ہیں۔اپنی نوع کے لحاظ سے یہ کھیل بلیک کامیڈی اور میوزیکل کامیڈی کا امتزاج ہے۔ اس کھیل میں چار ایکٹ ہیں۔ ڈراما نگار نے اس کھیل میں داخلی اور خارجی تضادات کو بڑے جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کھیل میں مصنف نے فلش بیک کے طورپر سکرین پر فلم کا استعمال بھی کیا ہے۔ اس کھیل میں اکثریت اپر کلاس کے کرداروں کی ہے۔ ڈرامہ نگار نے ان کرداروں کو اس انداز سے پیش کیا ہے۔ کہ ایک کلاس کے افراد ہوتے ہوئے ان میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔ اگر کھیل سے کسی ایک کردار کو خارج کر دیا جائے تو شدت سے اس کی کمی محسوس ہو گی۔ ظاہر ڈی ہیگ دفتر میں اعلیٰ عہدے پر فائض ہے۔ اس کی گفتگو اور عمل سے لگتا ہے کہ یہ سرکاری ملازم ہے۔ اس طرح کھیل میں تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے کردار اس طرح پینٹ کیے گئے ہیں کہ واضح معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے شوق، ان کے معمولات اور انداز گفتگو ان کی کلاس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ڈرامہ سرمد صہبائی کی کردار نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کھیل میں ڈرامہ نگار نے نقاب، مائم ،شاعری ،موسیقی اور فلیش بیک کو استعمال کیا ہے۔
سرمد صہبائی کا ایک غیر مطبوعہ سٹیج ڈرامہ ’’حیش‘‘ ہے۔ صہبائی نے حیش کو مختلف علامتی زاویے دے کر پاکستان کی تاریخ میں پیش آنے والے سیاسی اور سماجی حادثات کہ کس طرح نسل در نسل فکر و عمل کے بحران کے باعث بنے اور حیش کی طرح سوچ کی صلاحیت کو ماؤف کرتے رہے۔ اس المیے کی تصویر کشی کی ہے۔
’’حیش‘‘ کے تمام کرداروں کا تعلق یونیورسٹی سے ہے۔ اس ڈرامے میں محاورات کہیں نظر نہیں آتے۔ عام بول چال کی زبان ڈرامے کو خوبصورت بناتی ہے۔ استعارات اور علامات کا استعمال بھی اس ڈرامے سے ملتا ہے۔ مثلاً جن کی علامت سرمد کے ڈراموں میں اکثر استعمال ہوئی ہے۔ اس کھیل میں بھی یہ علامت موجو د ہے جو حاکم کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ جس کا ملک کی تمام اشیا اور لوگوں پر قبضہ ہے۔ دوسری علامت چمگادڑ کی ہے یہ بھی حکومت کے صاحبِ اقتدار لوگوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں یعنی اس ملک کے عوام کو کھانے کے لیے لوہے کی گندم ملتی ہے۔ صاحبِ اقتدار لوگ چمگادڑ کی طرح خون چوس رہے ہیں اور ان کے دانتوں میں سونا لگا ہوا ہے۔ جو لوگ انکی چاپ لوسی کرتے ہیں وہ کتے کی طرح ان کے تلوے چاٹتے ہیں۔
اس کھیل کا مرکزی کردار ’’ربو‘‘ ہے ۔اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ اوراسے فیض اﷲ جیسے امیر لوگوں سے شدید نفرت ہے۔ جو اپنے افسروں کو خوش رکھنے کے لیے اپنی بیویاں پیش کرتے ہیں۔ علی اور ریو کا تعلق امیر کلاس سے ہے اور ان کے گھر والے چاہتے ہیں کہ یہ سی ایس پی آفیسر بن جائیں۔ جمی کی نسبت علی کا کردار بہت مضبوط ہے اور جاندار بھی ہے۔ اس کی گفتگو میں بھی زندگی کا وسیع مشاہدہ نظر آتا ہے۔ علی جمی پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں :
جب کبھی تمہیں اپنے ٹوٹنے کا احساس ہونے لگتا ہے تو تمہاری ممی بڑی ہوشیاری سے عقلمندی سے تمہارے ان شگافوں کو کسی واک مین سے، نئی سلک شرٹ سے ۹۰ سی سی ہونڈ اسے اور کبھی ویڈیو فلم سے بھر دیتی ہے۔ (۴۵۵)
اس طرح شہلا کا تعلق بھی متوسط طبقے سے ہے اور دکانوں سے مختلف اشیا چوری کرکے لانا اس کا مشغلہ ہے۔ شہلا علی سے کہتی ہے:
جس آسانی سے میں سانس لیتی ہوں۔ اسی آسانی سے میں چوری کرتی ہوں ۔ ان سب چیزوں کے لیے مجھے کسی کا احسان نہیں لینا پڑتا ۔ کسی کو تھینک یو سر نہیں کہنا پڑتا۔ اٹس گڈ فن۔(۴۵۶)
سعیدہ ربو سے محبت کرتی ہے لیکن ربو اس سے کہتا ہے کہ یہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے۔ وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ یہ ہمارے پاس حیش پینے آتی ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ یہ یہاں جاسوسی کرنے کے لیے آتی ہے اور حیش پینے کا بہانہ کرتی ہے۔ سب کردار ایک جگہ پر بیٹھے ہیں اور حیش پیتے ہیں۔سر مد صہبائی کا ڈرامہ ’’شعر لا شعر ‘‘ اردو شاعری کا ڈرامائی تاثر ہے۔ یہ کھیل پاکستان آرٹس کونسل لاہور میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کھیل نے پہلی بار پاکستانی اسٹیج پر اشعار کی ڈرامائی تشکیل کی صورت پیش کی۔ اس کھیل میں بہت سے اردو شعرا کی نگارشات سے مختلف حصے شامل کیے گئے ہیں۔ اس کھیل کی بنیاد مجید امجد کی نظم کے ان دو مصرعوں پر تھی:
لفظ کہ جن میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں کیا وہ ہمارے کچھ بھی نہ کر سکنے کا کفارہ بن سکتے ہیں۔(۴۵۷)
اس کھیل میں سرمد صہبائی نے نئے شاعروں کی نظموں اور غزلوں کو گھلا ملا کے ایک ڈرامائی شکل دینے کی کوشش کی تھی۔ نئی شاعری کو سٹیج پر لا کر متعارف کرانے کا ایک دلچسپ تجربہ تھا۔’’ لاہو رنامہ‘‘ کے عنوان سے انتظار حسین کی چند سطریں لکھی ہوئی ملی ہیں۔ جس میں وہ لکھتے ہیں :
سر مد صہبائی نے نثر اور حقیقت نگاری سے ہٹ کر ڈرامہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ منظوم ڈرامہ حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھے ہوئے ڈراموں کی طرح کوئی ترشا ترشایا یا معاشرتی نقشہ پیش نہیں کرتا یا کسی اجتماعی یا انفرادی صور ت حال کو کسی نپے تلے چوکھٹے میں پیش نہیں کرتا۔ البتہ مختلف اشاروں کنایوں سے اڑی اڑی نا مکمل تصویروں کی مدد سے جہاں نہ ناں کی جھلکیوں کے واسطے سے وہ صورت حال کی اذیت اور سنگینی کا ایک نقش ہم پر چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے مفہوم کی حدیں معین نہیں ہیں۔ حدیں غیر معین ہیں اور رستے کئی کئی نکلتے نظر آتے ہیں۔ ان معنوں میں یہ ایک غیر روایتی ڈرامہ ہے اور اسے نیا ڈرامہ کہا جا سکتا ہے۔ (۴۵۸)
اس ڈرامہ کا مفہوم بظاہرتو یہی سمجھ آتا ہے کہ نئی شاعری کے نا م پر بہت بے معانی شاعری ہوئی ہے۔ اورظفر اقبال اور اختر حسین کی طرح بہت سے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ مگر اس روایت میں با معنی شاعری بھی پیدا ہوئی ہے۔ اور وہ شاعری سرمدصہبائی کی ہے جو تیسری دنیا کے مسائل کے شعور سے مالا مال ہے۔ جس طرح اس کھیل میں جدید شعرا کے آخرمیں سرمد صہبائی کی نظم ’’تیسرے پہر کی دستک‘‘ آتی ہے اور شاعر بتا تا ہے کہ یہ جدید شاعری ہے۔ باقی سب کی شاعری اس کے مقابلے میں بے معنی ہے۔ لیکن سرمد صہبائی نے ایک نیا تجزیہ کیا ہے اور شعری اقدار کو نئی رفعتوں سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کھیل میں ماضی کی نفی اتنی شدت سے کی گئی ہے کہ جدیدیت ایک بغاوت بن کر رہ گئی ہے۔ اس کھیل میں جدید اردو شاعری کا ڈرامائی تاثر افکار، کرب، تمسخر، ابہام اور تصادم کے عنوانات کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ موسیقی کے ساتھ جدید شعرا کے خیالات کو ڈرامائی روپ دیا گیا ہے۔
سر مد صہبائی کا ’’اشرف المخلوقات‘ ‘ کھیل پرانے کلاسیکی ڈرامے کی روایت سے ہٹ کر ایسے علاقائی اور تجریدی تجربوں پر مبنی ہے۔ جس میں انھوں نے انسانی المیوں کو معاشرتی ٹوٹ پھوٹ، سماجی بندھنوں اور جھوٹے رشتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔خیر و شر جبر واختیار اور معاشرتی تضادات کے مسائل اس کھیل میں پوری قوت سے نہ صرف نظر آتے ہیں بلکہ ان کی ٹریٹ منٹ بھی ملتی ہے۔
اس کھیل کے حوالے سے گلزار آفاقی لکھتے ہیں :
اشرف المخلوقات کا موضوع ہمارے گرد سانس لیتی زندگی ہے ،دکھ سکھ اور خوشی غمی سے عبارت روزہ مرہ معمولات ہیں۔ جہاں اخلاقی انحطاط اور سماجی قدروں کی شکست و ریخت کی جنگ جاری ہے۔ جہاں آدمی حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہوئے خوابوں کی دنیا میں زندگی گزارتا ہے ۔ جہاں انسانوں کے جنگل تو آباد ہیں مگر پھر بھی ہر انسان تنہا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اسے اپنا آپ بھی ملتا ہے ۔ سرمد نے اشرف المخلوقات میں پاکستانی آدم کی اس گمشدگی کی خبردی ہے۔ (۴۵۹)
یہ دو ایکٹ کا کھیل ہے۔ اس میں فلیش بیک ،خود کلامی اور خواب کی تکنیک بھی استعمال ہوئی ہے۔ اس کھیل کا مرکزی کردار ماسٹر شرف الدین خیر کا نمائندہ ہے۔ ماسٹر با اصول اور صاحبِ کردار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔ اس کو اپنی روایات اور اصول ہر چیز سے عزیز ہیں۔ اس کھیل میں چوہوں کا وجود سماج دشمن عناصر کی علامت ہے۔ ان چوہوں سے سماج کا ہر فرد ڈرتا ہے۔ ماسٹر اس کی بیوی اور بیٹی بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔ اس خوف کے باوجود ماسٹر ان کے ساتھ آخری دم تک لڑتا ہے۔ اس کھیل میں ڈرامہ نگار نے حکومتی اداروں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔
ماسٹر کچھ عرصہ کے لیے غربت کی زندگی سے تنگ آکر کرپشن شروع کر دیتا ہے۔ اور جلد ہی اس گھر کا اور فیملی کا نقشہ بدل دیتا ہے۔ بیوی جو ان پڑھ ہے ماڈرن بن جاتی ہے۔ ماسٹر کی بیٹی جو تعلیم یافتہ ہے۔ا سکو جب زندگی کی سہولیات ملتی ہے تو اس کا مزاج بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے دوستوں میں فخر کرنے لگتی ہے۔ سر مد صہبائی کا ایک خوبصورت ڈراما ’’پنجواں چراغ‘‘ بھی ہے جو پنجابی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ جو ہمارے موضوع ِ بحث میں شامل نہیں۔ سر مد صہبائی کا ڈرامہ’’ ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ‘‘امریکی ادیب آرتھر کاپٹ کے ایک المیہ ڈرامے سے ماخوذہے۔
اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک امیر عورت اپنے محبوب خاوند کی بے وفائی کے سبب اس سے شدید نفرت کرنے لگتی ہے۔ اور آخر کار اس کو قتل کر دیتی ہے۔پھر اس کی لاش کو حنوط کر کے اپنے بیڈ روم میں رکھوا دیتی ہے۔ اور اسے سفر میں بھی اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ وہ اپنے خاوند سے بے پناہ محبت اور اعتماد کرتی تھی مگر خاوند نے اپنی سیکرٹری سے تعلقات بڑھا لیے تو اس کی بیوی زخمی شیرنی کی طرح آدم خور اور اذیت دہ بن گئی۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے کو گھر میں بند کردیتی ہے جس کے باعث وہ ذہنی طورپر معذور ہو جاتا ہے۔ وہ ایک نو دو لتیے پڑوسی سے جھوٹ موٹ کی محبت کرتی ہے۔ اور اپنی محبت کا انتقام دوسرے مردوں سے لیتی ہے۔ اسے انسانوں سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔ اور جانوروں سے محبت کرتی ہے۔ سرمد نے اس المیہ کہانی کو بڑے طنزیہ مکالمے ،مزاحیہ اداکاری ،مضحک حرکات اور علامتوں میں حالات پر چوٹیں کر کے ایک طربیہ کھیل بنا دیا ہے۔اس کھیل میں امیر عورت ’’بیگم‘‘ کا کردار ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ نیر کمال ،نو دو لتیے چودھری گلاب شاہ کا کردار ،مشہور ڈرامہ نگار اور اداکار سجاد ہیڈبیرے کا کردار ،شاہد یارو نے لولے لڑکے جوجوکا کردار حفیظ الرحمان ،جوجوکی محبوبہ پنکی کا کردار صوفیہ نورین اور حنوط دہ لاش کا کردار ریاض صدیقی نے ادا کیا۔سر مد صہبائی نے اپنے ڈرامہ ’’طوطا راما‘ ‘ میں مختلف علامتوں کے ذریعے معاشرے کے ان خونی درندوں کو بے نقاب کیا ہے جو غریب لوگوں کا خون مختلف طریقوں سے چوستے رہتے ہیں۔ یہ کھیل پنجابی زبان میں لکھا ہوا ہے ۔ جو راقم الحروف کے موضوعِ بحث میں شامل نہیں۔
سر مد صہبائی کا شمار جدید ڈرامہ لکھنے والے ڈرامہ نگاروں میں سر فہرست ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی ڈرامے کی روایت سے اسلوب، تکنیک اور موضوعات کی سطح پر بغاوت کی ہے اور ایک نیا موڑ دیا ہے۔سرمد ایک با شعور ڈراما نگار ہیں۔ ان کے ہاں جہاں اپنی انفرادی سوچ کا عمل ملتا ہے۔ وہاں ان کا اپنا منفرد اسلوب بھی ہے۔ انھوں نے پاکستانی سٹیج ڈرامے کو بہت سی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ ان کے ہاں ایک مسلسل تجسس اور نئی چیز کی تلاش و جستجو ملتی ہے۔ انھوں نے نت نئے تجربے کیے ہیں ۔وہ شاعری ہو یا ڈرامہ کوئی نہ کوئی چیز قاری اور ناظرین کو دی ہے۔ ان کے ڈراموں میں علامتوں اور استعاروں کا ایک وسیع استعمال ملتاہے۔ انھوں نے جہاں جدید فنی اور فکری تکنیکوں کو استعمال کیا ہے۔ وہاں انھوں نے اپنی کلاسیک داستانوں کے کرداروں ،مختلف تہذیبی اساطیر اور علامتوں کو بھی استعمال کیا ہے لیکن ان کو نئے معنی اور نئی صورت حال سے پیش کیا ہے ۔اس طرح لسانیاتی حوالے سے بھی سرمد صہبائی نے بہت سے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے ڈراموں اردو، انگریزی اور پنجابی کے علاوہ مختلف علاقائی زبانوں کے امتزاج سے ایک خوبصورت اسلوب بنایا ہے۔ مثلاً’’ پنجواں چراغ ‘‘میں سندھی ،سرائیکی ،پنجابی زبان کا امتزاج ملتا ہے۔ ’’تو ں کون‘‘، بنیادی طورپر پنجابی ڈرامہ ہے لیکن اس میں سرائیکی اور پہاڑی کے الفاظ بھی مل جاتے ہیں۔’’ طوطا راما‘‘ بھی پنجابی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ لیکن اس کے اندر اندرونِ لاہور کی اردو پنجابی کے الفاظ نے بڑی خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ اس طرح اس کھیل کا کردار سائیں جو انگریزی زبان میں خود کلامی کرتا ہے۔بڑی انفرادیت رکھتا ہے۔ پھندے ،ایک معزز شہری کی رسمِ جنازہ،ڈارک روم ،سنو گپ شپ، حیش اور اشرف المخلوقات ،اردو زبان میں لکھے گئے ہیں لیکن ان کے اندر کرداروں کی زبان ان کی کلاس کی نمائندگی کرتی ہے۔عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں :
سرمد کے لفظ نئی نسل کے احتجاج اور منفی رویہ کے آئینہ دار ہیں۔ و ہ نوجوانوں کے کرب ، تشکیک اور فرسٹریشن ،محرومی ،مقصد اور بے مقصدی کو دیکھتا ہے۔ اور اس کا مضطرب قلم حرکت میں آجاتا ہے۔(۴۶۰)
سر مد صہبائی نے ریڈیائی ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ کوئی دن اور ،لیمپ پوسٹ ،بچوں کا پارک ،فن کار گلی ،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سوگندھی ان ڈراموں کے عنوانات ہیں۔ سرمد کے اسٹیج ڈراموں کی طرح ان کے ریڈیو ڈرامے بھی فنی و فکری حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ریڈیو ڈرامے میں بھی صوتی تاثرات کا اعلیٰ نمونہ ملتا ہے۔ ان کے یہ ڈرامے ٹی۔ وی سکرین کی زینت بھی بنے۔ سرمد کی ٹیلی فلم ’’فن کار گلی‘‘ فنی اور فکری حوالوں سے قابلِ دید ہے۔ اس میں پاکستان کے شہر کراچی کی صرف فنکار منڈی ہی کو بند نہیں کیا گیا ۔ بلکہ یہ ان فنکاروں کی زندگی کی دستاویز ہے جو دنیا میں کہیں بھی ایسی گھٹن کا شکار اپنی زندگی میں سانس لے رہے ہیں۔
سرمد صہبائی نے علمی وا دبی تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ طلبہ کا قومی تعمیر میں حصہ، شاعری کا ٹورنامنٹ ،بارے کچھ تھیٹر کے ،عالمگیریت ،ادب اور کلچر اور منٹو پر ایک گفتگو سرمد کے مضامین میں سے اہم مضامین ہیں۔سرمد صہبائی اپنے عہد کے جہاں جدید شاعر اور ڈرامہ نگار ہیں وہاں جدید نقاد اور مضمون نگار بھی ہیں۔ان کے مضامین میں جد ت اور جامعیت نظر آتی ہے۔ معاشرے پر ان کی نظر بہت گہری ہے۔ ان کا مشاہدہ تجربات سے جڑا ہوا ہے۔ یہ کوئی خالی لکھنے والے نہیں بلکہ شروع میں ہی ان کی تنقیدی بصیرت میں گہرائی نظر آتی ہے۔ وہ ڈرامے لکھتے ہیں تو ان کو اپنے معاشرے کے تماشائیوں کا علم بھی ہے۔ اس طرح شاعری کرتے ہیں تو اپنے سے پہلے اور ہم عصر شعرا کی شاعری پر تنقیدی نظر ہے۔ ان کی تنقیدی نوعیت کی تحریروں میں ایک نیا اور انوکھا اندا ز ہے۔ گلو بلائزیشن میں بگ برادر، کمپیوٹر اور ماؤس کے استعارے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ سرمد کی تنقیدی تحریریں بھی تخلیقی حسن سے مزین ہوتی ہیں۔
یوسف نیر (۱۹ء۔۲۰۱۶ء) ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک مضمون نگار اور محقق بھی ہیں۔ انھوں نے متعدد تحقیقی و علمی مضامین لکھے ہیں۔ لاہور کے ادبی حلقوں نے ان کے تنقیدی و تحقیقی شعور کی آبیاری کی ہے۔ آپ طالب علمی کے زمانے میں حلقہ ارباب ذوق، حلقہ اربابِ غالب اور ادب مزنگ کے علاوہ متعدد ادبی تنظیموں کے جلسوں ،تقریبوں اور ادبی نشستوں میں شامل ہوتے رہے۔ایک ملاقات میں پروفیسر نیر نے بتایاکہ ’’انھوں نے اردو ادب کے بڑے نقادوں اور محققین کی تحقیق اور نظریات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘‘(۴۶۱)
۱۹۷۶ء میں ملتان کی ادبی اردو کانفرنس میں بیسویں صدی میں مسیحیوں کی ادبی خدمات کے حوالے سے تحقیقی اور تنقیدی مقالہ پڑھا جس کو ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ،پروفیسر گلزار چودھری ،عطا الحق قاسمی ،اظہر جاوید اور نذیر قیصر نے بہت سراہا۔ آپ نے انڈویورپین شعرا پر تحقیقی و تنقیدی مقالے لکھے جو روزنامہ’’ امروز‘‘کے ہم وطن ایڈیشن میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین میں الیگزینڈر ہیڈرلی، آزاد تلمذ، غالب ،گائن لیب فراسو،جارج شور میرٹھی ،اردو ادب پر تحریک علی گڑھ کے اثرات ،برصغیر میں مسیحیوں کی ادبی خدمات ،اردو ادب میں مسیحی گیتوں کا آغاز و ارتقا ،ہند میں تشکیل سلطنت اور اشاعت اسلام میں مسلم سلاطین و صوفیا کرام کا کردار اور جوشو افضل الدین کی زندگی اور افسانہ نگاری اہم مضامین ہیں۔ یوسف نیر نے ’’حکیم عبدالنبی شجر طہرانی ‘‘پر ایم فل اردو کے لیے ایک تحقیقی و تنقیدی مقالہ بھی لکھا ہے ۔
آپ نے اردو ادب میں علی گڑھ کے اثرات میں ادبی تحریک کے زیر اثر اردو ادب میں شامل اور رائج ہونے والی اصناف کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ بتایا ہے کہ سر سید اور ان کے رفقانے اردو نثر کے ارتقا میں اپنا کردار ادا کیا ہے جس سے سوانح نگاری، سیرت نگاری ، مضمون نویسی ،ناول نگاری ،صحافت ،تاریخ اور اردو شاعری کے بارے میں حالی ،شبلی ،مولوی ، چراغ علی اورنذیر احمد دہلوی کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ ہند میں تشکیل سلطنت اور اشاعت اسلام اور مسلم سلاطین و صوفیا اکرام کا کردار میں مسلمان بادشاہوں اور صوفیا اکرام کے ادبی کردار کا جائزہ لیا ہے۔ ماسٹر رام چند دہلی کالج میں ریاضی کے استاد تھے۔ لیکن رام چند ر نے تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ نثر نگاری اور مضمون نگاری بھی کی۔ ان کے مضامین سماجی اور سیاسی موضوعات پر محیط تھے۔ یہ مضامین ’’عجائبات روزگار‘‘ میں شائع ہوئے۔ مختلف محققین نے اس کتاب کے بارے میں مضامین لکھے ہیں اور تنقیدی تبصرے بھی کیے ہیں۔ یہ کتاب ناپید ہو گئی ہے اس سلسلے میں سیدہ جعفری کی کتاب ’’ماسٹر رام چندر‘‘ قابلِ ذکر ہے ۔ماسٹر رام چند رجو بنیادی طورپر استاد تھے لیکن انھوں نے اردو کا پہلا جریدہ ’’خیر خواہ ہند‘‘۱۸۳۷ء میں بنارس سے جاری کیا۔یوسف نیر اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
یہ رسالہ ۱۸۳۷ء میں جاری ہوا لیکن ۱۸۵۷ء میں ہنگاموں کے ایام میں کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا ۔ انگریزی راج قائم ہوا تو یہ رسالہ دوبارہ نکل آیا۔ کچھ عرصے کے بعد اس رسالے کے بعض مفید مضامین کا انتخاب کتابچوں کی صورت میں شائع کیا گیا۔ قاضی عبدالغفار کے مطابق ’’خیر خواہ ہند ‘‘کے نام سے ایک رسالہ بنارس میں سے بھی چھپتاتھا۔ اس کے مہتمم پادری تھامس تھے۔ ۱۸۴۵ء میں مسٹر اشپر نگر دہلی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے تو انھوں نے’’ پینی میگزین‘‘ کی طرز پر ایک ہفتہ وار اردو رسالہ’’ قرآن السعدین‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ گارساں دتاسی نے لکھا ہے کہ ’’قرآن السعدین‘‘ ایک با تصویر اخبار ہے جس میں سائنس ادب اور سیاست پر بحث ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہم وطنوں میں مغربی خیالات کی اشاعت ہے۔(۴۶۲)
یوسف نیر نے اپنے مقالے ’’ماسٹر رام چندر نئے ادبی شعور کے علمبردار ‘‘ میں تحقیق کے تقاضوں کو پورا کیا ہے ۔ اس تحقیقی مقالے میں انھوں نے محمد حسین آزاد اور مولوی نذیر احمد کے اُستاد اور دہلی کالج کے اُستاد ماسٹر رام چندر کی صحافت اور مضمون نویسی کے بارے میں تاریخی معلومات دی ہیں ۔وہ ان کے بارے میں مستند حوالوں سے لکھتے ہیں :
ماسٹر رام چندر ۲۸ فروری ۱۹۴۴ء کو کالج کے ’’شعبہ مشرقی‘‘ میں یورپین سائنس کے مدرس ہو گئے ۔انھوں نے ماہانہ رسالہ ’’فوائد الناظرین ‘‘جاری کیا جو بعد میں پندرہ روزہ ہو گیا۔ اسی دوران ایک رسالہ’’ محبت ہند‘‘ بھی جاری کیا۔ ۱۹۵۲ء میں یہ دونوں رسالے بند ہو گئے۔ ۱۱/اگست ۱۸۸۰ء کو اُنسٹھ برس کی عمر میں اُن کا انتقال ہوا۔(۴۶۳)
یوسف نیر نے اپنی تحقیق سے قدیم افسانے کا سراغ لگایا جس کا عنوان ’’نیا آکاش کھنڈ‘‘ تھا۔اس افسانے میں مسیحیت اورہند و مت کے درمیان مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔
’’اردو ادب میں مسیحی گیتوں کا آغاز و ارتقا‘‘ مقالے میں یوسف نیر نے مسیحی گیتوں کے آغاز و ارتقا کے بارے میں بتایا ہے کہ اردو گیت کی ابتد ا دکنی دور سے ہوئی۔خواجہ گیسو دراز،قلی قطب شاہ اور وجہی کے حوالے سے ساری تفصیل بتائی گئی ہے اور یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ میر شجاعت علی پہلے گیت نگار تھے اوروہ نواب اودھ کے دور میں ہوا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے منشی حسن علی، چمن علی اور دیگر دوسرے گیت نگاروں کے بارے میں تحقیق کی ہے۔انھوں نے ایم ۔فل اردو کا مقالہ’’ حکیم عبدالنبی شجر طہرانی ۔شخصیت و شاعری‘‘علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اثر لکھا۔ اس میں شجر کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ شجر اور نیر کا تعلق سیالکوٹ سے تھا اور تمام معلومات ان کی پہنچ میں تھی۔ سیالکوٹ سے تعلق کی وجہ سے ان سے دلی وابستگی بھی رکھتے تھے۔ یوسف نیر مطالعہ احوال کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں :
کسی شخص ،برداری یا قوم کی زندگی کے متعلق ان تمام پوشیدہ اور غیر پوشیدہ خصوصیتوں کی دریافت کی جائے۔ان کا تجزیہ کیاجائے جن کی وجہ سے ان کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔(۴۶۴)
آپ نے ڈاکٹر ش۔ اختر،ڈالرڈ اور کلبیر سنگھ سندھو کے خیالات و نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے مطالعہ احوال کے حصول کے بارے میں بحث کی ہے۔
خالدہ سلطانہ نگار(۱۹۶۵ء پ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے ایم۔اے اردو مرے کالج سیالکوٹ سے کیا۔ خالدہ سلطانہ نگار نے زمانہ طالبِ علمی میں ۱۹۸۰ء میں ایک مضمون روزنامہ ’’جنگ ‘‘لاہور میں شہر اقبال کے مسائل کے حوالے سے لکھا۔ وہ مضمون نگار کے ساتھ ایک اچھی افسانہ نگار ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’فیصلہ‘‘ ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا۔(۴۶۵)
خالدہ سلطانہ نگار کا افسانوی مجموعہ ’’فیضانِ عشق‘‘ ایوانِ علم و فن پاکستان نے ۲۰۰۱ء میں شائع کیا۔
جان کاشمیری ’’فیضانِ عشق‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
یہ افسانوی مجموعہ ’’فیضانِ عشق‘‘ایک ایسا مثبت پہلو ہیرا ہے۔ جس سے رنگ رنگ کی شعاعیں نکلتی ہیں اور ان شعاعوں کے سائبان کے نیچے کرداروں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ گو کردار جدا جدا ہیں ،جذبات الگ الگ ہیں افسانوں کے انجام ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔(۴۶۶)
یہ حقیقت ہے کہ ’’فیضانِ عشق‘‘ کے سب کردار، واقعات اپنی زمین اورا س کے باسیوں کی محبت کی مالا میں پروئے ہوئے ہیں۔ وہ افسانہ ’’سائے کے سایوں کے پیچھے بھاگنے والی نویرہ ‘‘ہو یا افسانہ ’’بہاریں لوٹ آئیں‘‘ کی دادی کے لاڈ پیار سے بگڑی ہوئی نازو ہو یا افسانہ ’’خواب اور حقیقت‘‘ کی مائدہ ہوجو ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھتی ہے۔ خالدہ کے افسانوں کے مجموعے ’’فیضانِ عشق‘‘ میں کل نو افسانے شامل ہیں۔ بہاریں لوٹ آئیں ،دکھ سکھ،سائے، ہم باوفا تھے، احساسِ جرم،تشنہ آرزو، خواب اور حقیقت،اوج سوچیں اور فیضانِ عشق ان افسانوں کے عنوانات ہیں۔
خالدہ سلطانہ نگار نے اپنے اردگرد کے ماحول سے آنکھیں چرانے کے بجائے اس کو دل میں بسا یا ہے اور بعد میں تخلیقی سطح پر اظہار کی پھلجڑیاں چھوڑ کر چکا چوند کا منظر پیش کر دیا ہے۔ کہیں بہن بھائی کی ازلی محبت کی اشاراتی کہانی بیان کی گئی ہے ۔کہیں والدین کی جائیداد کی تقسیم کے مسئلہ کواجاگر کیا گیا ہے۔ کہیں غربت امارت کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ کہیں احساسِ جرم انتقام کے مکروہ قالب میں ڈھلتا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں معصومیت،بیکاری ،چالاکی اورفریب کاری کی مثلث کے نرغے میں بلبلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
خالدہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ وہ خود گھٹن اور جبر کی اس قدر شکار ہو چکی ہے کہ اس کو رسموں سے بغاوت کے علاوہ کوئی رستہ نہیں سوجھتا اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بغاوت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ معاشرے میں گھٹن ،حبس اور جبر کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ افسانہ ’’احساسِ جرم‘‘ کے اقتباس سے پہلے اس افسانے کی ایک وضاحت اس لیے لازمی ہے کہ اس کے بغیر اقتباس کی درست تفہیم ممکن نہیں۔ اس افسانے کا ظالم کردار محبوب ملک شہناز بیگم کو پسند کرتا ہے لیکن شہناز بیگم اسے پسند نہیں کرتی اور اس کی شادی سلمان بٹ سے ہو جاتی ہے۔ اس طرح محبوب ملک کا سوتیلا بیٹا نعمان یونیورسٹی میں سیمل کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ مگر محبوب کے دل میں شہناز بیگم کے حوالے سے انتقامی کسک موجود رہتی ہے کہ اس نے ماضی میں اسے پسند نہیں کیا تھا۔شہناز بیگم محبوب ملک سے کہتی ہے:
محبوب ملک تم اس قدر گر سکتے ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میں نے سلمان بٹ سے شادی کی تھی مگر تم نے اس معصوم بچے سے گھناؤنا بدلہ کیوں لیا۔ تم نے اسی دن کے لیے اسے پالا تھا۔ انسانوں میں سے نہیں ہوں جو معاف کر دیتے ہیں۔ میں نے تمہارے بیٹے کی ہر چیز ادھوری رکھی ہے تاکہ یہ کبھی بھی چین سے نہ رہ سکے۔ میرے والد کا ایک فاتحانہ قہقہہ گونجا لیکن سیمل نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ آپ کاد شمن تو میں تھا۔ نہیں نعمان بٹ ولد سلمان بٹ نہیں۔ دشمن کی ہر محبوب چیز بھی دشمن ہے اور تمہیں میرے گھر میں زیادہ چلانے کی ضرورت نہیں۔ محبوب ملک نے مجھے گھر سے نکال دینے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا۔نعمان نہیں جائے گا۔ محبوب ملک کیونکہ اس گھر کی تعمیر میں میرے بیٹے کی تعلیم مکمل کیوں نہ ہونے دی۔ اسے پیرس کیوں بھیجا۔ماں نے طیش میں آکر ملک محبوب کا گریبان جھنجھوڑا تو محبوب ملک چلایا۔ شہناز بیگم تم اپنے بیٹے کے ساتھ چلتی نظر آؤ ۔انھوں نے ماں کو تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ میں نے انھیں پرے دھکا دیا۔ نکل جاؤ میرے گھر سے تم نعمان ،غصے میں ان کے منہ سے کف بہنے لگا۔(۴۶۷)
اگرچہ دیکھنے میں یہ اقتباس عام سا ہے لیکن ذراسا غور کرنے پر بعد میں یہ نکتہ خودبخود طشت ازبام ہو جاتا ہے کہ سیمل کی موت تنہا ،سیمل کی موت نہیں یہ تو ایک مثبت رویے کی موت ہے اور جب کسی رویے کی موت واقع ہوتی ہے تو وہ ایک عہد کی موت قرار پاتی ہے کیونکہ کسی رویے کی تشکیل پذیری میں ایک عہد لگتا ہے ۔شہناز بیگم کو بڑھاپے میں طلاق جیسا کریہہ زخم سہنا پڑتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ انتقامی جذبے کے ٹھنڈا ہونے کے بجائے مزید بھڑکنے کا ثبوت ہے۔اس اقتباس کے بین السطور میں بہت سے سوالات اُبھرتے ہیں جو مضبوط دلوں کو بھی ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً عورت تمام عمر عدم تحفظ کا شکار کیوں رہتی ہے۔ محبت کا بوجھ بونے والے عداوت و نفرت کے کانٹوں سے کیوں الجھتے ہیں۔ سب کا بھلا سوچنے والے خود دکھوں کی اتھا ہ گہرائیوں میں کیوں اترتے جاتے ہیں۔
خالدہ سلطانہ نگار کی ’’فیضانِ عشق‘‘ کے افسانوں میں ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ کبھی کبھی ان کے افسانوں پر ناولوں کا گمان گزرتا ہے۔کردار نگاری ، مکالمہ نگاری ، منظر نگاری اور تحسین نگاری کا جس فکری انہماک سے مظاہرہ کیا گیا ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ’’ فیضانِ عشق‘‘ ایک ہشت پہلو ہیرا ہے ۔جس سے رنگ رنگ کی شعاعیں نکلتی ہیں اور شعاعوں کے سائبان کے نیچے کرداروں کا میلا لگا ہوا ہے۔جان کاشمیری ایک جگہ لکھتے ہیں :
سوچنے کی بات ہے کہ یہ بہشت پہلو ہیرا کہاں ہے کیا یہ کتاب کے اوراق میں ہے کیا یہ ہشت پہلو ہیرا افسانوں کے عنوانات کے پس منظر میں ہے یا پھر یہ ہیرا قاری کے ذہن کے کسی مبارک گوشے میں جلوہ پذیر ہے۔ یا پھر یہ وقت کی مٹھی میں قید ہے۔ یقینا ایسا ہرگز نہیں یہ ہیرا کتاب کے اوراق ،عنوانات ،قاری کے ذہن اور وقت کی مٹھی میں نہیں۔ ہیرا تو خالدہ سلطانہ نگار کے دل میں محفوظ ہے۔(۴۶۸)
پاکستان میں خواتین افسانہ نگاروں کی ادبی خدمات قابلِ قدر رہی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک خواتین کا تخلیق کردہ ادب بھی بہت وسیع اور تخیل پروررہا ہے۔خالدہ نگارکے افسانوں کا مجموعہ ’’فیضانِ عشق‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان افسانوں میں انھوں نے متوسط اور نچلے متوسط طبقہ کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ ان دونوں طبقات میں مشترک خاندانی نظام ہے۔ اس نظا م میں چند تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت سے ذہنی تفاوت اور نفسیاتی کشمکش ان افسانوں کے بنیادی موضوعات ہیں۔ نگارصاحبہ کی تحریر میں ایسی جارحیت پائی جاتی ہے جو پڑھتے وقت قاری کو مرعوب کیے رکھتی ہے۔ اس کی وجہ سے افسانوں کی زبان میں رچا ہوا طنز اس جارحیت کو اور بھی زیادہ جاذب خاطر بناتا ہے۔ جہاں ان کی افسانہ نگاری کی تحریروں میں پختگی اور مہارت ملتی ہے وہاں ان کے تجربے اور گہرے مشاہدے کی کمی افسانہ کے ماحول کے کینوس کی وسعت میں کمی کا بھی باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں میں داخلی کشمکش ہر قدم پر نظر آتی ہے لیکن معاشی مسائل کو افسانے ’’ہم وفا تھے ‘‘میں بڑی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ امین خیال لکھتے ہیں :
خالدہ سلطانہ نگار نے اگر فن افسانہ نگاری پر پوری توجہ مبذـول کی اور اس پر کامل عبور کے حصول کے لیے سخت محنت و ریاضت کو اپنا شعار بنا لیا۔ تو مستقبل قریب میں وہ ایک نمایاں افسانہ نگار کے روپ میں دنیائے ادب پر اپنا نقش دوام ثبت کرنے میں کامیاب و کامران ٹھہریں گی۔(۴۶۹)
نگار کے افسانوں کا عمیق مطالعہ کرتے ہوئے جو بات حقیقت کے طور پر عیاں ہوتی ہے۔ وہ ہے افسانہ نگاری میں ان کا اسلوب ۔اردو زبان کے روزمرہ اور محاورہ کے استعمال پران کی مکمل گرفت اور ان کا اسلوب نگارش بڑی حد تک اہلِ زبان کا سا ہے۔ انھوں نے اردو زبان کے مزاج سے پوری طرح آشنائی سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں استعمال کی گئی زبان میں شوکت الفاظ ،عبارت آرائی میں بے ساختہ پن، جملوں کی شاندارساخت اور پر کشش ہیئت کے علاوہ مکالموں میں ایک طرح کا والہانہ پن بھی پایا جاتا ہے۔
قیصرہ حیات (۱۹۶۹ء پ) پورن نگر پیرس روڈ سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین سیالکوٹ سے ایم۔اے انگلش کیا۔ آرمی پبلک سکول سیالکوٹ میں بطور استاد تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ قیصرہ حیات کا پہلا افسانہ ’’وعدہ‘‘ مارچ ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا۔ (۴۷۰) اس کے بعد انھوں نے مختلف میگزینوں اور ڈائجسٹوں کے لیے افسانے لکھے۔ آج کل وہ ’’پاکیزہ ڈائجسٹ ‘‘ سے منسلک ہیں۔
قیصرہ حیات کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بارش کے بعد‘‘ الحمد پبلی کیشنز لاہور سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ ان کی ادبی تصانیف میں ’’بارش کے بعد‘‘ ،ذات کا سفر، وقت جو ٹھہر گیا ،انوار اسماء النبیؐ ،سایہ دیوار ہی نہیں ،پل صراط ،گلاب چاہتیں اور الف اﷲ اور انسان شامل ہیں۔ قیصرہ حیات کا لکھنے کا رجحان زیادہ تر معاشرتی و سماجی مسائل اور مذہبی و روحانی موضوعات کی طرف ہے۔ زندگی کائنات کی ہر متحرک چیز کی طرح رواں ہے کبھی پر شور زندگی کی مانند مترنم اور پر جوش ،کبھی سکون دریا کی مانند رواں ،کبھی منہ زور ،تو کبھی ہاری ،کبھی چٹانوں کا سا حوصلہ اپنے اندر سموئے ہوئے تو کبھی ریت کے ذروں کی مانند بے وقت اور حقیر سی ……زندگی کے لیے روپ کئی چہرے کئی رنگ ہیں ۔زندگی جس کا راز قانون تسلسل میں مضمر ہے۔ اورا س تسلسل کا سب سے بڑا نشانہ انسان ہے جواس کائنات کی پیش کش ہے۔ قیصرہ حیات ایک جگہ لکھتی ہیں :
میں نے اپنے افسانوں میں ظاہر کی بجائے اندر کی ٹوٹ پھوٹ وحشت و جنون،حالات وواقعات اور شخصیت کا ایسے حالات و واقعات سے متاثر ہونا کہ ایک حساس ذہن،حساس دل حساس سوچ کیسے کیسے متاثر ہوتے ہیں ۔ میں نے اپنے افسانوں میں اس کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہوں فیصلہ قارئین کے ہاتھ میں ہے۔(۴۷۱)
قیصرہ حیات کے افسانوں کے مجموعے ’’بارش کے بعد‘‘میں کل گیارہ افسانے ہیں۔جن میں بند دریچے ،منت ،یاد ،نباہ، جنوں،سائے ،شاہکار ،ماں ،تلاش ،زنداں میں قیداور بارش کے بعد شامل ہیں۔ احمد عقیل روبی قیصرہ حیات کے بارے میں لکھتے ہیں :
قیصرہ حیات کے موضوعات بڑے مختلف اور اہمیت کے حامل ہیں۔وہ اپنی کہانیوں کے موضوعات تلاش کرنے کے لیے ایک جگہ نہیں رکتی بلکہ پورے معاشرے پر نظر ڈالتی ہے۔چنانچہ اس کی جستجو نے معاشرے کے ان مخفی اور گرے پڑے کرداروں کو بھی ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے جنھیں ہم روز دیکھتے تو ہیں مگر کبھی ان کے اندر اتر کر اس کرب اور دکھ کو چاہنے کی کوشش نہیں کی جس میں وہ کردار برسوں سے جل رہے ہیں۔(۴۷۲)
’’پناہ‘‘ قیصرہ کی ایک اہم ترین موضوع پر لکھی گئی ایک خوبصورت کہانی ہے۔ مشرق و مغرب کے ملاپ سے گھریلو اور نجی زندگی میں جو خلا پیدا ہوتا ہے ہم ساری زندگی جس پچھتاوے کی آگ میں سلگتے ہیں یہ کہانی اس کیفیت کے اظہار کی داستان ہے۔ اس کہانی میں عاصم اور جولین نے شادی کی گرہ دے کر نہ صرف اپنی زندگی آ گ میں جھونکی بلکہ اپنے بیٹے یوسف کو بھی اس الاؤ میں دھکیل دیا۔ محبت کے سحر میں پاگل ہو کر ہم جن اہم نفسیاتی اور روایاتی ضرورتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ کہانی ان کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ قیصرہ نے اس کہانی میں بڑی کامیابی سے نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ زندگی صرف محبت ہی نہیں کچھ اور بھی ہے اور وہ انسان کا اصل اور روحانی مرکز ہے۔ جس کی طرف یوسف کو پناہ لینے کے لیے آنا پڑا۔ قیصرہ ایک جگہ لکھتی ہیں:
لیکن زندگی گزارنے کے لیے خالی محبت اور محض چاہت ضروری نہیں۔ زندگی توازن چاہتی ہے۔ ہر چیز میں اعتدال، ہم آہنگی ،میری اپنی زندگی میں مجھے بہت محبت ملی ہے مگر میرے اندر ایک حصہ بالکل خالی ہے وہاں بالکل خلا ہی خلا ہے جو اتنے سال گزر جانے کے بعد پر نہیں ہو سکا اور وہ ہے مذہب کا۔ میں نہیں جانتا کہ مذہب کیا ہے اس کی اقدار کیا ہیں اور یہ کیوں ضروری ہے مگر میں نے ہمیشہ اس کی کمی کو محسو س کیا ہے اور مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ جس چیز کو میں مذہب کا نام دینے جا رہا ہوں وہ مذہب بھی ہے کہ نہیں۔(۴۷۳)
بارش کے بعد آج کل جو ہمارے شہروں میں ہوجاتا ہے۔ شاید کہیں نہیں ہوتا ۔شہر میں سیلاب آجاتا ہے اور یاد رہے کہ یہ سیلاب کا پانی نہیں ہوتا بارش کے پانی سے سیلاب آتا ہے جو سیل آب بن جاتا ہے۔ کچی بستیاں مزید کچی بن جاتی ہیں۔ جھونپڑیاں اور تتلیوں کا جو حشر بلکہ حشر نشر بارش کے بعد ہوتا ہے وہ قابلِ بیان ہے۔ کیونکہ تتلیوں اور جھونپڑیوں میں تتلیوں جیسی بچیوں کی حالت زار بیان کر نا انتہائی مشکل ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
قیصرہ کے افسانے پڑھ کر میرے اندر ایک بارش سی ہونے لگتی ہے۔ اس تخلیقی پھوار میں کم کم بھیگتے ہوئے بڑا لطف آیا مگر اب بارش کا سماں بنتا ہے تو صرف ایک جھر جھری سی سارے جسم میں پھیل جاتی ہے۔ قیصرہ کے افسانے بارش کے بعد میں بھی جھونپڑی میں رہنے والی بہت غریب عورت دعا مانگتی ہے۔ کہ اﷲ کرے بارش نہ ہو۔ جس عورت کے لیے بہت غریب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی شایان شان نہیں۔ جہاں غربت اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اس کے لیے بہت کا لفظ نا کافی ہے۔ (۴۷۴)
بڑے بڑے گھروں پر’’ ہذا من فضلِ ربی‘‘ لکھا ہوتا ہے کسی کے کچے گھر یا جھونپڑی کے دروازے پر لکھا ہوا نہیں ہوتا۔ جھونپڑی کا پھٹا پرانا پردہ ہی دروازہ ہوتا ہے۔ قیصرہ نے اس جھونپڑی میں رہنے والی عورت کی کہانی لکھی ہے۔ جو بارش کے پانی میں بہہ جانے سے پہلے ہی کسی دکھ کے دریا میں ڈوب جاتی ہے۔ سارے زمانے کے دکھ انھی لوگوں کے لیے ہیں۔ ان لوگوں کو دکھوں سے کوئی نہ بچا سکا۔ بارش کے موسم میں لوگوں کی حفاظت کے لیے گندے پانی کی طرح روپیہ بہا دیا جاتا ہے۔ اس بہتے پانی میں کرپٹ افسران اور اہلکاران ہاتھ دھوتے ہیں۔ اس رقم سے مستقل بنیادوں پر بھی ایسا اہتمام ہو سکتا ہے کہ پھر لوگ بارشوں کے لیے دعا کریں ۔کیوں کہ دعائیں ہمارے لیے بد دعائیں بن جاتی ہیں۔ حکام اور عوام صرف قیصرہ کی کتاب ’’بارش کے بعد‘‘ پڑھ لیں تو بہت سی کہانیاں اپنے عنوان بدل لیں۔ وہ حالات کہاں ہیں کہ ہم اپنی کہانی کو نئے سرے سے لکھیں۔
غزالہ شبنم (۱۹۷۰ء پ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے آرمی پبلک سکول سیالکوٹ میں بطور استاد خدمات سر انجام دیں۔ اسی دوران اس ادارے کے میگزین کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ آپ کا پہلا افسانہ ’’جونک‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ (۴۷۵)خواتین افسانہ نگاروں کے سامنے زیادہ تر موضوعات عشق و محبت ہیں۔ موجودہ دور میں لکھی جانے والی نسائی کہانیاں کم و بیش اسی نقطے کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ کہانی کاراس سے مستشنیٰ ہیں۔غزالہ شبنم کو بھی اسی ذیل میں دیکھنا چاہیے۔ غزالہ شبنم کا ایک افسانوی مجموعہ ’’باقی ہوس‘‘ فکشن ہاؤس لاہور سے ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں شامل سبھی کہانیاں دراصل اسی نوعیت کی داخلی صداقت اور جذباتی وفور کا نتیجہ ہیں جو کسی قسم کی متعینہ ہیئت کی پابند نہیں ہوتیں۔ ان کہانیوں میں بعض ایک دو ساعتوں میں بیتی پرانی صدیوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اور بعض میں ماہ و سال کی طوالت کو خود میں سیمٹ لینے والے لمحاتی احساسات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ غزالہ شبنم اپنے افسانوی مجموعے میں ایک جگہ لکھتی ہیں :
انسان ٹوٹتا دو طرح سے ہے۔ سخت ہو کر یا بھیگ کر سخت ہو کر ٹوٹنا تو ہمارے معاشرے کے مرد کا عام المیہ ہے۔ یہاں پر تو کچھ اور معاملہ تھا اور اس میں میرا قصور بھی کچھ نہ تھا۔ میں تو صرف دیکھ رہی تھی اس عمل کو لوگ کئی مشبہات دے کر سمجھاتے ہیں۔ جیسے عطر میں ڈوبا ہوا ، جذبات میں نہایا ہوا۔ جذبات کی بارش سے شرابور لیکن وہاں کچھ ایسا نہیں تھا۔ وہ تو ایسے تھا جیسے رس گلا چاشنی میں بھیگا ہوا۔(۴۷۶)
ضیاء المصطفیٰ ترک غزالہ شبنم کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
میرے خیال میں غزالہ شبنم کی سبھی کہانیاں مذکورہ تخلیقی جوہر کی حامل ہیں۔ یوں بھی اپنی ہیئت اور Frame workمیں خواہ ان نگارشات کو کوئی بھی نام دے دیا جائے۔ کسی بھی مصنف سے موسوم کر لیا جائے ۔ان کی ادبی اہمیت و افادیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ افسانے بہر حال متاثر کن ہیں اور مجھے ان افسانوں میں ذاتی طور پر عمومی نفسی و نفسیاتی کیفیات اور ذہنی و جذباتی بحران کے تحت پیدا ہونے والے ہمہ قسم کے احساسات کی عکاسی و منظر نگاری دکھائی دی ہے جو نہایت قابلِ قدر ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ افسانوی مجموعہ اردو افسانے کے قاری کے لیے ایک نئے تجربے، ایک نئے ذائقے کی خوشگواریت کا حامل ثابت ہو گا۔‘‘(۴۷۷)
آسمانوں اور زمینوں کے درمیان جتنے رنگ، جتنی خوشبوئیں ،جتنے لمس، جتنے ذائقے اور جتنی آنکھیں ہیں وہ سب غزالہ شبنم کے باطن کا کشف ہیں اور یہ غزالہ کے افسانوں میں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ غزالہ کے افسانوی مجموعے ’‘باقی ہوس‘‘ میں کل تیس افسانے ہیں ۔ جن میں جونک ،سمندر، زندگی ،اعتراف، قارون ،باقی ہوس، ادھورا نام ،دھواں اور طلاق اہم افسانے ہیں۔ بانو قدسیہ غزالہ شبنم کے افسانوں کے حوالے سے اپنی الگ رائے رکھتی ہیں۔ وہ اپنے ایک تبصرے میں لکھتی ہیں :
غزالہ شبنم کے افسانے پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ افسانے کم اور انشائیے زیادہ ہیں۔ ان میں ایک شاعرانہ صفت ہے جو افسانے کو فوراً اپنا قالب عطا کر کے اس انشائیہ کا چولا پہنا دیتی ہے۔ یا آزاد نظم بنا دیتی ہے۔ (۴۷۸)
غزالہ شبنم کہتی ہے کہ میرا وجدان تب مہمیز ہوا جب مجھے خبر ہوئی کہ تمام انسانی اوصاف کے باوجود میری نسائیت میرے لیے جونک بن گئی اور جونک کے پہلے دو اقتباس میں نے ڈائری پر لکھ ڈالے۔ سات برس اس ڈائری پر گرد اٹی رہی۔ جانے کب جونک میرا خون چوس چوس کر اتنا پھول گئی کہ اس نے خون اگلنا شروع کر دیا تب ہی میں نے دوبارہ قلم اٹھایا اور جونک کو پورا کیا ۔وہ اپنے جونک افسانے میں لکھتی ہیں :
قدرت کے کارخانے میں کیا کمی ہے ۔وہ چاہے تو جبلت بدل دے، جونکیں خون چوسنے کے بجائے خون میں سرایت جان چوس لیں اور یہ جان روح کا حصہ ہی تو ہے اور روحانیت کا لالچ،لالچ نہیں ثواب ہے۔ اب کی بار خون چوسنے کی بھی شاید ضرور ت نہ رہے۔ اپنے حصے کی روح چاہیے ہو گی کیونکہ خون چوس لینا زیادتی ہے۔ اس پر جس کی آنکھیں روشن اور ہونٹ جاندار انہ دلکشی رکھتے ہوں ۔ چاہے ظاہری ہی سہی آخر اس سراب پر کسی اور جونک کا حق ہو گا نہیں تو اس کی ماند ہ زندگی اس کا خون نچوڑے گی۔(۴۷۹)
نصیر احمد(۱۹۷۸ء پ) سیالکوٹ کے ایک گاؤ ں گہوگا میں پیدا ہوئے۔(۴۸۰) ’’ایم۔اے اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور اور ایم ۔فل اردو یونیورسٹی آف سرگودھا سے کیا۔ آج کل سرگودھا یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی میں انھوں نے ڈاکٹر طاہر تونسوی ،ڈاکٹر سید عامر سہیل، ڈاکٹر غلام عباس گوندل، ڈاکٹر خالد ندیم ، ڈاکٹر محمد یار گوندل ڈاکٹر عظمی سلیم اور پروفیسر شاکر کنڈان جیسے اساتذہ ،محققین اور ناقدینِ ادب کے علم سے استفادہ کیا۔(۴۸۱)
آپ نے بطور مضمون نگار اور ناول نگار اردو ادب کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالا ۔آپ کے ادبی اور سماجی مسائل کے حوالے سے مضامین سیالکوٹ کے رسائل و جرائد میں چھپتے رہے۔ جب وہ مرے کالج میں ایم ۔اے کے طالب علم تھے تو ان کا ناول ’’ٹارچر سیل سے شہادت تک‘‘ شائع ہوا۔ یہ ناول مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سے ۲۰۰۳ء میں طبع ہوا۔ یہ ناول ۱۵۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی فہرست میں چھوٹے چھوٹے بتیس عنوانات ہیں۔ اس کتاب کے آغاز میں ’’آزادی کشمیر۔ہماری دعا‘‘ کے عنوان سے پروفیسر یوسف نیر کا کتاب کے بارے میں مختصر تبصرہ شامل ہے۔ ’’عرضِ حال‘‘ کے عنوان سے مصنف نے جذباتیت سے لبریز اس ناول کا مختصر اً تعارف بھی پیش کیا ہے۔ جو دو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ناول کا فلیپ پروفیسر رانا عبدالماجد خان ایچ او ڈی ،آئی ای آر پنجاب یونیورسٹی لاہور نے لکھا ہے۔ اس ناول کا موضوع جدوجہد آزادی کشمیر ہے۔ اس کا ہیر و طارق ہے جو کشمیر کی آزادی کے لیے ہندوستانی فوج کے خلاف کشمیر میں برسر پیکار نظر آتا ہے۔ اس ناول کا ایک اہم کردار عبدالقادر ہے۔ جو ایک سچا اور کھرا صحافی ہے۔ یہ کردار ہیر و کا والد ہے یہ ناول کے آغاز میں بھارتی سامراج کے خلاف قلم کے ذریعے برسر پیکار دیکھا جاتا ہے۔ ان دو مرکزی کرداروں کے حوالے سے پروفیسر یوسف نیر لکھتے ہیں :
ناول ’’ٹارچر سیل سے شہادت تک‘‘ کا مرکزی کردار طارق عمل وہمت اور عزم و اثیار کا پیکر ہے۔ اس کا والد عبدالقادر ایک ایماندار اور نڈر صحافی ہے۔ جو ہندوؤں کے ظلم و ستم اور بر بریت کے خلاف قلم اٹھاتا ہے ۔انڈین آرمی اسے قید کر کے طرح طرح ستاتی اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے۔ طارق غم و غصہ سے بھرا ہوا ایک بپھرا اور خوفناک جیالا شیر بن جاتا ہے۔ اور ظالموں سے ٹکراتا ہے۔(۴۸۲)
اس ناول کا ایک ایک لفظ جذبے اور جذبات سے بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ناول کے صفحات میں جگہ جگہ عالمگیریت کے عناصر در دو سوز کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ مصنف کشمیر اور کشمیری عوام کے حوالے سے دکھ اور کرب کا اظہار صفحہ قرطاس پر کرتا نظر آتا ہے۔ اس ناول میں ناول نگار انقلاب اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جابر اور ظالم قوتوں کے خلاف مصلح جدوجہد کرنے کا درس بھی دیتا نظر آتا ہے تاکہ ظالم قوتوں سے آزادی حاصل کی جا سکے۔ پروفیسر رانا عبدالماجد خان اس حوالے سے لکھتے ہیں:
ناول میں مصنف جبر و استحصال کی قوتوں کے خلاف جدوجہد میں اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو صرف کرتا نظر آتا ہے۔ نصیر کی تحریر جواں جذبوں کی تحریر ہے۔ یہ جذبہ خواہ انقلاب سے تعلق رکھتا ہو یا محبت سے ان کے ہاں شدت وحدت محسوس ہوتی ہے۔ جوانی کے خون کی طرح جو رگوں میں ابلتا پھرتا اور کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتا ہے۔ نصیر عالمگیر سوچ کا مالک ہے ۔اس ناول میں ان کے ہاں عالمگیریت کے عناصر بھی ملتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی ظلم ہوتا ہے اس ظلم کی کسک وہ اپنے دل پر محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے دل میں پوری دنیا کا درد رکھتا ہے اور پھر اس درد کا Katharsisوہ تحریری صورت میں کرتا ہے۔ خونِ جگر سے اپنے اس ناول کو تحریر کرتے ہوئے جگہ جگہ وہ کرچی کرچی ہوتانظر آتا ہے۔ (۴۸۳)
مصنف کے ناول میں حقیقت پسندی اور تاریخ نگاری کے عناصر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔اگرچہ ناول کے مرکزی اور ضمنی کردار فرضی ہیں لیکن اس کے باوجود مصنف نے کشمیر کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حقائق پر مبنی واقعات پیش کیے ہیں۔ آج بھی کشمیر کے حالات وواقعات ایسے ہی ہیں جس طرح مصنف نے ایک ناول کی صورت میں پیش کیے ہیں۔ مصنف عرضِ حال میں لکھتے ہیں :
کشمیر اور تحریکِ آزادی کشمیر،تاریخ برصغیر کے دو ایسے باب ہیں کہ جن کا ذکر کیے بغیر برصغیر کی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔ میں نے اسی لا زوال تاریخ کے ایک واقعہ کو اپنے لہو میں انگلیاں بھگو کر زیب قرطاس کیا ہے۔ جس میں ان پاکباز جانسپاروں کی درخشاں داستانِ حیات ہے جو طوفانوں سے بے خوف و خطر ٹکرا جاتے ہیں۔(۴۸۴)
اگرچہ یہ ناول تاریخی ،واقعاتی اور عسکریت پر مبنی ہے۔ اس ناول میں جگہ جگہ کشمیری مجاہدین کی بھارتی فوج سے معرکہ آرائی دکھائی گئی ہے۔ جگہ جگہ لڑائی کی وجہ سے خون میں لت پت دونوں اطراف لاشوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ لیکن اس ناول میں رومانیت کے عناصر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ناول میں ہندو اور عیسائی اورمسلمان مذاہب سے تعلق رکھنے والے کردار پیش کیے گئے ہیں۔کرداروں کا آپس میں رومانس بھی پیش کیا گیا ہے۔ کردار ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں اور ان کی آپس میں شادی بھی ہوتی ہے۔ ضمنی کرداروں میں سلمیٰ، بابر ،مارگریٹ ،اینی رائے ،عمارہ ،حسین ،طاہرہ یوسف ،عائشہ اور ابوبکر ایسے کردار ہیں جن کے مکالموں میں رومانیت کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔
نصرت جان (۱۹۸۵ء پ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ (۴۸۵) جدید اور علامتی افسانہ نگاروں میں ایک نام نصرت جان کا بھی آتا ہے۔ جو ایک حقیقت پسندا فسانہ نگار ہیں اور تصنع سے کام نہیں لیتی ۔وہ اپنے افسانوں میں معاشرے میں پائی جانے والی نا ہمواریوں نا انصافیوں ،استحصال ،معاشرتی بے حسی و بے بسی ظلم و جبر اور بر بریت کے خلاف قلم کو استعمال کرتی ہے۔ کہیں کہیں ان کے افسانوں میں طوالت بھی پائی جاتی ہے۔ مگر اپنے احساسات و جذبات کو ایسی حقیقت کا رنگ دیتی ہیں کہ قاری اسے ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جان کے ایک مشہور افسانے مایوس شہزادہ اور ابابیل سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
وہ دیر تک سوچتی رہی ……سوچتی رہی……شاید بیج بونے والے نے محبت کا بیچ پتھریلی زمین میں بو دیا تھا۔ وہ بیج ان پتھروں میں جڑ نہ پکڑ سکا ۔ وہ حیران تھی اپنی تخلیق پر کہ اس نے جونازک بت تراشا تھا وہ پتھر کا کیسے ہو گیا۔(۴۸۶)
نصرت جان کا کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ ان کے افسانے ’’اخبار‘‘، ’’خواتین‘‘ ،’’روزنامہ‘‘ ،’’کندن‘‘ ، ’’کاتھولک نصیب‘‘،’’ شالوم‘‘ ،’’اخبار ‘‘،’’سیالکوٹ ‘‘،’’سٹی میگ سیالکوٹ‘‘ اور’’ بوئے مادران‘‘ میں شائع ہو رہے ہیں۔ ان کے مشہور افسانے ٹوٹے پروں کے سنہری خواب ،پراگندا ،مایوس شہزادہ اور ابابیل ،ماں ،ہوک اورا روپ ہیں۔ جو مختلف رسائل وجرائد میں طبع ہو چکے ہیں۔ نصرت جان کے افسانے ’’ٹوٹے پروں کے سنہری خواب‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
محبت یا نفر ت جب جنوں کو پہنچتے ہیں تو انسان کو مٹا ڈالتے ہیں اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اس کی باتیں کرے اور وہ سنتا رہے اور وہ تمام ساعتیں جن میں اس کی رفاقت میسر آئیں ان کا ذکر کرے۔ وہ ہوا سے اس کا ذکر کرتا ہے لیکن وہ گونگی ہے صرف سنتی ہے اس کے متعلق کچھ نہیں کہتی ۔ وہ محبت جس نے اسے زندگی کا سلیقہ دیا اس کی رگوں میں دردبن کر پھیلتی جا رہی ہے اور وہ موت کے مہربان ہاتھوں میں ابدی تسکین کے لیے آنکھیں موند رہا ہے۔وقت کی آکاش بیل نے ہر چیز کو زرد کر دیا ہے۔ (۴۸۷)
نصرت جان کے افسانے ’’روشن ستارے‘‘ سے ایک خوبصورت اقتباس ملاحظہ ہو:
صاحب کبھی آئیے ہماری بستی میں آپ کو علم مفت بانٹنے والوں سے ملواؤں گا۔ میری بستی شہر سے باہر گندے نالے کے کنارے آباد ہے ۔ وہاں آپ محبت سے ملیں گے ۔ یہ کہہ کر وہ لڑکا تیزی سے پنڈال سے نکل گیا۔ اور وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اسے ایسے لگا جیسے یہ نوجوان لڑکا کتنے تھپڑاس کے منہ پر رسید کر گیا ہے۔(۴۸۸)
عمیرہ احمد (۱۹۷۶ء پ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں ۔گورنمنٹ مرے کالج سے انگریزی ادب میں ایم۔ اے کیا اور اس کے بعد آرمی پبلک کالج سیالکوٹ کے کیمبرج ونگ سے منسلک رہیں۔(۴۸۹)مرے کالج میں طالب علمی کے دور میں ہی عمیرہ احمد نے مختلف ملکی ڈائجسٹوں میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ آپ کے ناول مختلف ڈائجسٹوں میں قسط وار شائع ہوئے جس سے انھیں شہرت ملنی شروع ہو ئی۔ آپ بنیادی طورپر ناول نگار ہیں لیکن آپ نے ڈرامہ بھی لکھا۔ آپ کے مختلف ناولوں کوڈرامائی شکل بھی دی گئی جس سے آپ کی الیکٹرانک میڈیا اور ٹی۔ وی میں پہچان ہوئی۔ آپ سکرپٹ رائٹر بھی ہیں ،آج کل آپ مختلف ٹی وی چینلز کے لیے سکرپٹ رائٹنگ کر رہی ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں آپ نے آرون فاؤنڈیشن انگلینڈ کے Totleigh bartonسینٹر سے سکرپٹ رائٹنگ اور Creative writingکے کچھ کورسز کیے۔ ۲۰۰۶ء میں عمیرہ احمد کو ’’وجودِ لاریب‘‘ کتاب پر انڈس ویژن کا بیسٹ ایوارڈ ملا۔ اسی سال انھیں بیسٹ سکرپٹ رائٹر پاکستان کا ایوارڈ بھی دیا گیا ۔۲۰۰۶ء میں ہی انھیں بیسٹ ینگ ٹیلنٹ ان رائنٹنگ پاپولر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔(۴۹۰)
عمیرہ احمد کے شہرہ آفاق ناول ہم کہاں کے سچے تھے، دربارِ دل ،تھوڑا سا آسماں ،زندگی گلزار ہے،میرے پچاس پسندیدہ سین ،میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے، سحرا یک استعارہ ہے،حرف سے لفظ تک ،من و سلویٰ ،حاصل، حسنہ اور حسن آرا، علم و عرفان پبلشرز لاہور سے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کے دو ناول لا حاصل اور ’’پیر کامل‘‘کا فیروز سنز سے انگریزی ترجمہ بھی شائع ہواہے۔ ا س کے علاوہ عمیرہ احمد کے دیگر ناول بھی اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیے جا رہے ہیں۔ ان کا ایک ڈرامہ ’’کنکر‘‘ علم و عرفان پبلشرز لاہور نے طبع کیاہے۔ا ن کا ایک زیر طبع ناول’’ آبِ حیات‘‘ ایک قومی ڈائجسٹ سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔ یہ عمیر ہ احمد کی شہرت ہی تو ہے کہ آپ کی کتابوں کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کے قارئین پاکستان اور بیرونِ پاکستان کثرت میں موجود ہیں۔ آپ کے ناول پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی زندگی کی ترجمانی کرتے نظرآتے ہیں۔ آپ کے تمام ناولوں کے اہم موضوعات مذہب اسلام اور روحانیت ہیں۔اردو ادب میں مذہب کا موضوع اجنبی نہیں ہے۔ خالصتاً مذہبی موضوعات پر لکھی گئی کتب میں سیرت اور نعت کے علاوہ بھی بہت سے موضوعات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن فکشن میں خاص طور پر افسانوں اور ناولوں میں مذہب کا ذکر مختلف انداز اور مختلف پہلوؤں سے اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ اس پر الگ ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا جا سکتا ہے۔ عمیر ہ احمد کے ناولوں میں بھی مذہبی موضوعات بہت خوبصورت انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ عمیرہ احمد نے خواتین کے رسائل میں کہانیاں اور ناول لکھ کر اپنی پہچان بنوائی اور شہرت پائی۔
عمیرہ احمد نے مذہب اور خاص طورپر مذہب اسلام اور اس سے متعلق بنیادی عقائد، عبادات اور تعلیمات کو خاص طورپر اپنے تمام ناولوں کا حصہ بنایا ہے۔ یعنی مذہب اسلام مختلف طرح کے مسائل میں کس طرح سے انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اس کی بنیادی تعلیمات اور احکامات کیا ہیں۔ عمیرہ احمد نے اپنے ناولوں میں دینِ اسلام کو مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے۔ اس کی حقانیت کو واضح کیا ہے اور مذہب اسلام کو دنیا کے دوسرے تمام مذاہب پر ترجیح دی ہے۔ وہ اپنے ناولوں کے مختلف کرداروں کے ذریعے دین اسلام کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔عمیرہ احمد کے نزدیک دینِ اسلام سے بڑھ کر رہنمائی اور ہدایت کا کوئی اور ذریعہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اپنے ناول ’’حاصل ‘‘کے آغاز میں عمیرہ احمد نے عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کیا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار کرسٹینا اور حدید ہیں۔ کرسٹینا مذہب اسلام کو سچا مذہب تسلیم کرتی ہے اور حدید عیسائیت کو سچا مذہب تسلیم کرتا ہے۔ جدید مسلمان ہوتے ہوئے عیسائی ہونا چاہتا ہے اور کرسٹینا عیسائی ہوتے ہوئے مسلمان ہونا چاہتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈے ہوئے ہیں۔ کرسٹینا اور حدید کے درمیان اس حوالے سے چند مکالمات ملاحظہ ہوں:
کرسٹینا: تم کرسچن کیوں ہونا چاہتے ہو؟
حدید:تم مسلمان کیوں ہونا چاہتی ہو؟
کرسٹینا!کیونکہ یہ سچا مذہب ہے
حدید:میں بھی عیسائیت کے بارے میں یہی سوچتا ہوں۔
کرسٹیناتم غلط سوچتے ہو اسلام کے سوا کوئی مذہب سچا نہیں۔
حدید:کیا میں بھی کہوں کہ تم غلط سوچتی ہو۔ عیسائیت کے علاوہ کوئی مذہب سچا نہیں۔(۴۹۱)
عمیرہ احمد سب سے بہترین مذہب اسلام کو ہی قرار دیتی ہے۔ ناول ’’حاصل ‘‘میں کرسٹینا کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
اسلام تمہارا مذہب، تمہا را دین، حضرت محمدؐ ،تمہارے پیغمبر اور اﷲ تمہارا رب اکیلا واحدہے۔(۴۹۲)
دینِ اسلام سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں عمیر ہ احمد کا نظریہ انھوں نے ناول’’حاصل‘‘ کے مرکزی کردار حدید کے ذریعے واضح کیا ہے۔
حدید:مذہب Consolationدیتا ہے اور Solaceدیتا ہے۔ اگر کوئی مذہب یہ چیز نہیں کر پاتا تو اسے کیوں نہ چھوڑا جائے ۔دوسرا مذہب کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ یہ سارے مذاہب خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اﷲ کی تلاش کرواتا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کہ میں مسلم ہوں یا کرسچن بن جاؤ ں یا پھر کوئی تیسرا مذہب اختیار کر وں۔(۴۹۳)
حدید:مذہب مشکل وقت میں آپ کا سہارا ہوتا ہے۔اگر یہ مشکل وقت میں بھی سہارا نہیں بن سکتا تو پھر ایسے مذہب کاکیا فائد ہ پھر میں تو خدا کے بنائے ہوئے دو مذاہب میں سے ایک کا انتخاب کر رہا ہوں۔کوئی غلط کام تو نہیں کر رہا ۔(۴۹۴)
ناول ’’حاصل‘‘ میں مذہب کے بارے میں اپنے نظریے کو عمیرہ احمد نے مرکزی کردار کرسٹینا کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی ہے:
مذہب سر پر پڑی ہوئی چادر نہیں ہے کہ چادر میں سے دھوپ آنے لگی تو دوسری چادر اوڑھ لی جائے۔(۴۹۵)
عمیرہ احمد اپنے ناول ’’پیرِ کاملؐ ‘‘ میں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مسلمان دوسرے انبیااور الہامی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ایک مسلمان کے طورپر دوسری الہامی کتابوں پر ایمان لانا مسلمان کا فرض ہے لیکن مذہب اسلام میں بنیادی تعلیمات کا ذریعہ قرآن پاک ہے۔ کیونکہ قرآن اﷲ کی آخری الہامی کتاب ہے جو حضرت محمد ؐ پر نازل ہوئی۔خدیجہ نور ناول ’’لا حاصل‘‘ کا مرکزی کردار ہے۔وہ انگریز عورت ہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی زندگی مکمل طورپر ایک مسلمان عورت کے طورپر گزارتی ہے۔ یہاں عمیرہ احمد ان پابندیوں کا ذکر کرتی ہیں کہ اسلام میں شوہر کی طرف سے بیوی پر عائد ہیں۔ خدیجہ اپنے شوہر مظہر سے کہتی ہے:
کیا تین سال ،میں نے تمہاری اطاعت نہیں کی؟ کیا تین سال میں تمہارے علاوہ کسی دوسرے مرد کی طرف گئی۔ کیا میں نے اپنے جسم کو اس طرح نہیں چھپائے رکھا جس طرح تم نے چاہا۔ کیا میں نے اپنی نظروں کو اس طرح نہیں جھکائے رکھا جس طرح تمہاری خواہش تھی کیا میں کبھی تم سے پوچھے بغیر گھر سے باہر نکلی ۔کیا کسی ایسے شخص کو گھر آنے دیا ہے جسے تم نے نا پسند کیا۔(۴۹۶)
اﷲ تعالیٰ انسان کی کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے اگرانسان سچے دل سے بڑے سے بڑے گناہ کی معافی طلب کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس گناہ کو نیکی میں بدل دیتا ہے۔ عمیرہ احمد کے ناولوں میں بھی اس پہلو کی طرف توجہ ملتی ہے۔ وہ واضح کرتی ہے کہ مذہب اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ناول ’’لا حاصل‘‘ میں ذالعید کا باپ مظہر ذالعید کی ماں سے کہتا ہے:
تمہاری ماں زانی تھی۔
ذالعید کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔
کیا اس نے اسلام قبول کر نے کے بعد زنا کیا؛
کیا آپ سے شادی کے بعد آپ کو دھوکہ دیتی رہی؟(۴۹۷)
دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے بارے میں بھی بعض ناولوں میں عمیرہ احمد نے اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا ہے۔ عمیرہ احمدنے یہودیوں کے بارے میں نظریات ناول ’’ایمان ،امید اور محبت‘‘ میں مرکزی کردار امید کے ذریعے واضح کیے ہیں جیسا کہ وہ ایمان علی سے کہتی ہے :
تم اس قوم سے تعلق رکھتے ہو، ڈینٹل ایڈگر جو منافق ہے دھوکہ باز ہے ،کمینی ہے ،سازشوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تم نے میرے ساتھ جو کچھ کیا وہ تمہارے خون میں رچا ہوا تھا۔ تم کو وہی کرنا تھا آخر کو یہودی ہونا۔(۴۹۸)
عمیرہ احمد اپنے ناول ’’ایمان ،امید اور محبت‘‘ میں واضح کرتی ہیں کہ یہودی اور عیسائی اپنے بچوں کی مسلمانوں کے خلاف اس طرح برین واشنگ کرتے ہیں کہ ان کی نا پسندیدگی نفرت میں بدل جاتی ہے۔ مذکورہ بالا ناول میں ایمان علی ایک غیر مسلم اور غیر ملکی کردار ہے۔ لیکن جب وہ اسلام قبول کرتا ہے تو عمیرہ احمد واضح کرتی ہیں کہ کس طرح لوگ اس کے قبول اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اس کے قبول اسلام پر یقین نہیں رکھتے اور اسے مسلمان کے طورپر تسلیم نہیں کرتے۔ ناول کا مرکزی کردار امید ہے جو اس سے شادی کے لیے تیار نہیں اور ایک مذہبی اسکالر خورشید عالم کو جواب دیتی ہے:
مجھے ایک بات بتائیں ۔ آپ اتنے بڑے اسکالر ہیں آپ تو علم رکھتے ہیں دنیا کا بھی اور دین کا بھی آپ بتائیں صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے والا شخص کتنا قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے اور کوئی بھی مسلمان لڑکی ایسے شخص سے شادی کرنے کا جوا کیوں کھیلے جس کے عقیدے کے باطل ہو جانے کا اسے شک ہو اور مجھے یہ بھی بتائیں کہ جب آپ جیسے اسکالرز مسلمان لڑکیوں کو جا کر اس کام پر مجبور کرنے لگیں تو ہدایت اور رہنمائی کے لیے کتنے دروازے کھلے رہ جائیں گے۔(۴۹۹)
عمیرہ احمد کا نقطہ نظر ہے کہ اگر ہم لوگ کسی غیر مسلم کے قبول اسلام کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم خود کہاں تک مسلمان ہیں۔ اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرنے کے بعد بھی نام نہاد مسلما ن ہے تو ہم پیدائشی طورپر مسلمان ہوتے ہوئے بھی کتنے مسلمان ہیں۔ ہم اسلام کے کتنے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ مصنفہ واضح کرتی ہے کہ ہمارے دین میں رنگ و نسل، اور ملک کی بنیاد پر کسی کے ایمان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہمارا مذہب ان تمام تعصبات سے بالا تر ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرے تو اس کے ایمان کوجانچنے کا حق صرف اﷲ تعالیٰ کا ہے کسی بند ے کو اس کا حق حاصل نہیں ہے۔ عمیرہ احمد کا تعلیم کے بارے میں یہ نقطہ نظر ہے کہ یہ ہمیں دین کے بارے میں رہنمائی کرے ۔ ان کے ناول ’’پیرِ کاملؐ ‘‘ کا اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
اگر ہماری تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز تک نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اور اس جانور میں کوئی فرق نہیں جو سر سبز تازہ گھا س کے ایک گٹھے کے پیچھے کہیں بھی جا سکتا ہے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس کا ریوڑ کہاں ہے۔(۵۰۰)
ناول ’’دربار دل ‘‘ سے عمیرہ احمد کا ایک نظریہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے گھریلو باحیا اور صو م و صلوۃ کی پابند لڑکیوں کو پسند نہیں کرتے۔ مذکورہ بالا ایک کردار کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
صوم و صلوۃ کی پابند لڑکی کو بیوی بنا کر گھر لانے کا مطلب تھا کہ ممی کے ساتھ ساتھ ایک اور نصیحت کرنے والی لے آتا جو سر تاج سرتاج کہہ کر میرا سر کھاتی رہتی اور مجھے موت کا منظر اور ’’قبر میں کیا ہو گا‘‘ جیسی کتابوں سے حوالے دے دے کر ڈراتی رہتی۔(۵۰۱)
پردے کے حوالے سے عمیرہ احمد کے نظریات ’’دربارِ دل ‘‘ کے ایک اہم کردار مراد کے ہاں ان الفاظ کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں کہ پردہ دار ہونا کوئی پارسائی کا ثبوت نہیں ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
اسلام کی جن چیزوں سے مجھے اختلاف تھا اس میں ایک بنیادی پردے کا ایشو تھا۔ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ صرف سر اور چہرہ یا جسم اچھی طرح ڈھانپ لینے سے پارسائی کا سرٹیفیکٹ کیسے ملتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بے حیائی کا ٹھپہ کیسے لگتا ہے۔(۵۰۲)
عمیرہ احمد کے ناولوں میں بیشتر مقامات پر توحید کا ذکر بڑے ٹھوس دلائل اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ عمیرہ احمد توحید کو ہی انسان کی بنیاد اور اس کا مرکز و محور قرار دیتی ہیں۔ وہ واضح کرتی ہیں کہ خدا سے بہتر ہمارے لیے کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ جو بھی کرتا ہے ہماری بھلائی کے لیے کرتا ہے۔ اس کے ہر فیصلے کو دل سے قبول کرنا چاہیے اور دعا کے لیے ہاتھ صرف اسی کی جانب اٹھنے چاہیے۔ اور ہر وقت اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ناول ’’دربارِ دل‘‘ میں مہر کی امی اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگتی ہیں:
اے اﷲ آپ کے فضل اور مہربانیوں کی کوئی کمی نہیں ۔ میں قدم قدم پر آپ کو احسان کرتا ہوا پاتی ہوں۔ مجھ سے آپ کی مہربانیوں کا شکر ادا نہیں ہو پاتا۔ میری اس کمی کو درگزر فرما۔ مجھے ہر درد اور تکلیف سے محفوظ رکھ۔ میرے دل کے سکون اور میری خوشیوں کی حفاظت فرما۔(۵۰۳)
ناول’’دربار دل‘‘ عمیرہ اﷲ اور انسان کے تعلق کے بارے میں بتاتی ہے کہ انسان نا شکر ا ہے حالانکہ اﷲ کے انسان پر لا تعداد احسانات ہیں لیکن انسان یہ سب کچھ بھول کر اپنی عبادت جتانے لگتا ہے کہ میں تیری اتنی عبادت کرتا ہوں اور تو مجھے پھر بھی وہ چیز عطا نہیں کرتا جو میں تجھ سے مانگتا ہوں۔
جب انسان کی کوئی دعا قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے تو وہ فوراً اﷲ کے احسانات بھول کر اس چیز کو مانگتا ہے جو دعا کرنے کے فوراً بعد انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی اﷲ کو اپنی نیکیاں اپنی عبادت جتاتا ضر ور ہے کبھی نہ کبھی اس سے عبادات کا سودا کرنے کے لیے اپنے اور اس کے رشتے کو Purely commercialضرور بناتا ہے۔ (۵۰۴)
ناول ’’دربار دل ‘‘ میں اﷲ کے بارے میں عمیرہ کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ اﷲ جو بھی کرتا ہے اس میں ہماری بھلائی ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ رحم کرنے والا اور مہربان ہے لیکن ہم انسان اس کی مصلحت کو نہیں سمجھتے اور غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو احساس ندامت ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔ناول ’’ایمان امید اور محبت‘‘ میں عمیرہ احمد واضح کرتی ہیں کہ جو کام اﷲ کی رضا کے لیے کیا جائے اﷲ تعالیٰ اس کا بدلہ ضرور دیتا ہے اور آزمائش پر پورا اترنے پر بہتر چیز سے نوازدیتا ہے۔ ان کے ناولوں میں تقدیر کے حوالے سے بھی نظریات موجود ہیں۔ اسی حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہوں:
انسان کی خواہشات سے اﷲ تعالی ٰ کو دلچسپی نہیں ہے وہ اس کی تقدیر اپنی مرضی سے بناتا ہے۔ اسے کیا ملنا اور کیا نہیں ملنا اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے۔ جو چیز آپ کو ملنی ہے آپ اس کی خواہش کریں یا نہ کریں وہ آپ ہی کی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں جائے گی۔(۵۰۵)
عمیرہ احمد اپنے ناولوں میں واضح کرتی ہے کہ بیٹیاں خدا کی رحمت ہوتی ہیں اور اس رحمت کو ٹھکرانے والے ہمیشہ نقصان میں رہیں گے۔ ناول من و سلوی میں زینی اپنے والد ضیا سے کہتی ہے کہ اسے کبھی کبھی اﷲ سے بہت شکایت ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے کتنی دعائیں کی تھیں کہ اﷲ اس کی آپا کو ایک بیٹا دے مگر اﷲ نے کسی کی دعا نہیں سنی اﷲ بعض دعائیں نہیں سنتا۔ اس پر باپ نے کہا کہ زینی اس طرح نہیں کہتے کیا فرق پڑتا ہے بیٹے یا بیٹی سے۔ انسان کو اتنا نا شکر انہیں ہونا چاہیے۔
حضرت محمدؐ اﷲ کے آخری رسولؐ اور قیامت تک ان کی حیات طیبہ مسلمانوں کے لیے تقلید کا بہترین نمونہ اور ہدایت و رہنمائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ناول’’ حاصل ‘‘میں عمیرہ احمد حضرت محمدؐ کی ذات اقدس اور ان کی حیات طیبہ کے ذریعے انسان کو مایوسی سے نکالتی ہیں۔ ناول’’ پیر کامل‘‘ میں عمیرہ نے مختلف کرداروں کے ذریعے ختم نبوت کی کھل کر وضاحت کی ہے۔ اس حوالے سے صبیحہ کا لیکچر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ جو اس ناول میں شامل ہے ۔چالیس منٹ کے لیکچر میں صبیحہ نے صرف ایک بات بلا واسطہ کہی تھی اور وہ حضرت محمدؐ کی ختم نبوت کا اقرار تھا۔ ختم نبوت کے حوالے سے عمیرہ احمد’’ پیرِ کاملؐ ‘‘ کے کردار تحریم کے ذریعے اپنا نظریہ پیش کرتی ہیں:
اﷲ تعالی کہتا ہے کہ محمدؐ اس کے آخری نبیؐ ہیں او ر میرے پیغمبرؐ اس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اﷲ کے آخری نبی ؐہیں اور میری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت واضح اور دو ٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے۔ تو پھر مجھے کسی اور شخص کی نبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ۔(۵۰۶)
پیر کامل میں عمیرہ احمد حضورؐ کیذات اقدس کو ’’پیر کامل‘‘ قرار دیتی ہے۔ اور واضح کرتی ہے کہ انسان کو آپؐ کے ہوتے ہوئے کسی پیر کی ضرورت نہیں۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف آپ ؐ کی ذات اقدس ہے لیکن لوگ بہت سے بزرگوں کو اپنا پیر بنا لیتے ہیں۔ اور انھیں’’ پیر کامل ‘‘کا درجہ دیتے ہیں۔ ’’پیر کامل‘‘ کی تلاش ہر انسان کو ہوتی ہے۔ لیکن آپ کے بعد کسی پیر کامل کی ضرورت نہیں ۔ آپؐ کی حیات طیبہ اور آپ کی تعلیمات ہی انسان کو پوری زندگی کے لیے کافی ہیں۔
نماز ارکان اسلام میں سب سے اہم رکن ہے۔ مسلمان دن میں پانچ بار نماز ادا کر کے اﷲ تعالیٰ کے سامنے بندگی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں وہ اسے مالک اور خالق مانتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ عمیرہ احمد نے اپنے ناولوں میں زیادہ تر کرداروں کو نمازی دکھایا ہے جو صوم و صلوۃ کے پابند ہیں۔ ناول ’’دربار دل‘‘ میں مہر مرکزی کردار کے اپنی امی کے بارے میں الفاظ ملاحظہ ہوں:
تاریکی میں مو م بتیاں جلائے بغیر بھی اسی جگہ پر پہنچ سکتی تھی جہاں امی نماز پڑھنے کے بعد دعا کر رہی ہوتی تھیں۔ میں بچپن سے یہ دعا سنتی آرہی تھی اور بچپن سے امی کو لاؤنج میں اسی طرح نماز ادا کرتے دیکھتی آرہی تھی کہ اب اگر مجھے آنکھیں بند کر کے گھر میں کسی بھی جگہ کھڑا کر دیا جاتا تو میں صرف امی کی آواز کے سہارے کسی چیز کو چھوئے بغیر مقناطیس کی طرح اس جگہ پر پہنچ جاتی جہاں وہ نماز ادا کرتی تھیں۔(۵۰۷)
مہر ناول کا مرکزی کردار ہے۔ ناول کی کہانی اس کردار کے گرد گھومتی ہے ۔عمیرہ یہاں واضح کرتی ہے کہ ایک مسلمان پر نماز فرض ہے کیونکہ ا س کے لیے ہم اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ ناول’’ لا حاصل ‘‘میں عمیرہ احمد کی مولوی یا مبلغ کی طرح پانچوں وقت کی نماز پڑھنے پر زور نہیں دیتیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ انسان کوئی نہ کوئی نماز ضرور ادا کرے تاکہ دن میں ایک بار ہی ہمارا اﷲ تعالیٰ سے تعلق تو قائم رہتا ہے۔ اور پھر یہ تعلق آہستہ آہستہ انسان کو اﷲ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر راغب کرتا ہے۔ عمیرہ احمد کے تمام ناولوں میں مرکزی کردار زیادہ تر پرہیز گار اور نمازی ہوتے ہیں۔ ناول ’’پیرِ کاملؐ‘‘ میں امامہ کا مرکزی کردار نمازی ہے۔
قرآن پاک اور دوسری الہامی کتابوں پر ایمان یقین رکھنا مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنے ناول میں قرآن پاک کے حوالے بھی دیے ہیں اور بعض اوقات مختلف سورتوں کی آیات کو بھی اپنے ناولوں کا حصہ بناتی ہیں۔ناول ’’لا حاصل‘‘ میں قرآن کی اہمیت کوواضح کرتے خدیجہ اپنے شوہر مظہر کے بارے میں کہتی ہیں :
وہ قرآن پڑھاتا رہا ہے وہ نیکی کے بارے میں جانتا ہے اور معاف کرنابھی نیکی ہوتی ہے۔ جو شخص اتنا مذہبی ہو جتنا وہ ہے۔ وہ بے رحم نہیں ہو سکتا۔(۵۰۸)
جو رزق محنت اور حلال ذریعوں سے حاصل کیا جاتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے۔ حرام اور ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنے والوں کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی انھیں اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ رزق حلال حاصل کرنے کی جدوجہد کو رسولؐ نے عبادت قرار دیا ہے۔ رزق حلال کے حصول کی اہمیت کا ذکر بھی عمیر ہ احمد کے ناولوں میں کثرت سے ملتا ہے۔ ناول ’’دربار دل‘‘ میں بھی عمیرہ احمد کے رزق حلال کی اہمیت کو مرکزی کردار مہر کے الفاظ میں اس طرح واضح کرتی ہیں:
میں تو ساری زندگی رزق حلال کے علاوہ کوئی چیز لے کر نہیں آیا پھر آخر ایسا کیا ہو گیا کہ میری اکلوتی اولاد نا فرمان ہے۔(۵۰۹)
ناو ل’’ لاحاصل‘‘ میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے والوں کے لیے عمیرہ احمد کا نظریہ خدیجہ نور کے کردار کے ذریعے سامنے آتا ہے:
خدیجہ اسی ایک فیکٹر ی پر اپنی توجہ دو ۔
خود کو رزق کے پیچھے بھاک گر تھکاؤ مت۔(۵۱۰)
عمیرہ احمد نے اپنے اس ناول ’’پیر کاملؐ‘‘ میں قادیانیت کے بارے میں اپنے نظریات کی کھل کر وضاحت کی ہے۔ انھوں نے اپنے نظریات کو ایک اہم اور مرکزی کردار امامہ کے ذریعے پیش کیا ہے۔ عمیرہ واضح کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھا جاتا ہے ۔اس فرقے کو قبول کرنے والے لوگ یا اس کے پیر وکار پیسے کے حصول کے لیے اس فرقے کو قبول کرتے ہیں۔ تبلیغ کے حوالے سے قادیانیوں کے بارے میں عمیرہ کا موقف یہ ہے کہ اس فرقے کے لوگ دوسرے لوگوں کو آہستہ آہستہ اپنے فرقے کی طرف راغب کرتے ہیں اور تبلیغ بھی پیسے کے حصول کے لیے کرتے ہیں۔
عمیرہ احمد ’’پیر کامل ؐ ‘‘ میں بتاتی ہیں کہ پیرکامل کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا ۔ وہ پیر کامل حضرت محمد ؐکو قرار دیتی ہیں اور وہ کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اورا نھی کی روش کو صحابہ اکرام ؓنے بھی اختیار کیا تھا۔ مذہب اسلام ہر معاملے میں اپنے نفس پر قابو رکھنے پر زور دیتا ہے اور اس طرح انسان بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ اس حوالے سے عمیرہ احمد اپنے ناول ’’رو برو‘‘ میں لکھتی ہیں کہ :
اگر بندہ تھوڑا سا اپنے جذبات پر قابو رکھے تو یہ بہت بہتر ہے۔ آپ ایک بری بیٹی ،بری بہن ،بری عورت ،بری انسان ،بری پروفیشنل اور بری مسلم ہوں لیکن اچھی عاشق اور محبوبہ ہوں تو اس کا کیا فائدہ ہے۔ عورت ہو یا مرد اس کے لیے کردار کی مضبوطی بہت اہم چیز ہے اور افیئرچلانے والا اچھا کردار ہونے کا دعوی ٰ نہیں کر سکتا۔ پاکیزگی صرف جسمانی ہی نہیں ذہنی بھی ہوتی ہے اور محبت اکثر دونوں کو ختم کر دیتی ہے۔ آپ اﷲ سے پاکیزگی مانگیں وہ آپ کو پاکیزگی دے گا اور آپ کو ان پسندیدہ لوگوں میں شامل کر دے گا۔جنھیں اپنے نفس پر قابو ہو گا۔(۵۱۱)
عمیرہ احمد کے ناول ’’ایمان ،امید اور محبت ‘‘میں ان کا ذہنی رجحان بہت نمایاں ہے۔ نفس پر قابو کے حوالے سے انھوں نے اپنے مذہبی نظریات اس ناول کے مرکزی کردار امید کے ذریعے بیان کیے ہیں۔ ناول ’’ایمان اُمید اور محبت‘‘ میں امید کا منگیتراس کو باہر لے جاتا ہے۔ اور شادی سے پہلے اس پر اپنا اختیار سمجھتا ہے ۔ لیکن امید اسے ایسا کرنے سے منع کرتی ہے کہ مذہب انھیں اس بے حیائی کی اجازت نہیں دیتا۔اگر انسان کا ایمان پختہ ہو تو وہ اپنے نفس کو ہر طرح سے قابو میں رکھتا ہے مذہب کو ہر معاملے میں ترجیع دیتا ہے۔ اور اپنی بڑی سے بڑی زندگی کی خواہش کو رد کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے اﷲ کی رضا اہم ہوتی ہے۔ ناول ’’ایمان ،امید اور محبت‘‘ میں امید اپنے منگیتر جہاں زیب سے کہتی ہے:
اتنی محبت کے باوجود تمہیں پتا ہے تم مجھ سے ایک گناہ کروانا چاہتے ہو۔ ہمارے مذہب میں یہ جائزنہیں ہے حرام ہے۔جہاں زیب میں ایسا کام کرکے اﷲ کے سامنے کیسے جاؤں گی۔ مجھے کوئی خوف نہیں ہے مجھے صرف اﷲ کا خوف ہے۔ اﷲ نفرت کرتا ہے ان چیزوں سے۔(۵۱۲)
ناول ’’پیر کامل‘‘ میں عمیرہ احمد نے ایسے لوگوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ جو بہت زیادہ مذہبی نظر آتے ہیں۔ اپنے قول و فعل سے خود کو مذہبی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن منافق ہوتے ہیں۔ ان کا نفس قابو میں نہیں ہوتا۔ ناول پیر کامل میں سعد کے کردار کو اس طرح دکھایا گیا ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنے ناولوں میں ایسے لوگوں کی بھی عکاسی کی ہے جو اپنی زندگی کے معاملات میں مذہب کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور مذہب کو ایک رکاوٹ کی طرح سمجھتے ہیں۔ناول’’ ایمان ،امید اور محبت ‘‘میں عقیلہ اس معاملے میں امید کو مذہب سے دور رہنے کا مشورہ دیتی ہے۔
مذہب کو زندگی سے الگ رکھ کر دیکھو جو اخلاقیات ہمیں مذہب دیتا ہے وہ معاشرے میں لاگو نہیں ہوتی ۔زندگی میں گناہ اور ثواب کے چکر میں پڑی رہو گی تو تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اپنے آپ کو ان فضول رسموں ، رواجوں سے آزاد کرو کم از کم محبت کو گناہ اور ثواب کے دائرے سے نکال دو۔(۵۱۳)
عمیرہ احمد نے ناول ’’پیر کامل‘‘ میں سالا رکے کردار کے ذریعے لا دینی نظریے کے حامل افراد کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ یہ نوجوان پیدا تو مسلم گھرانے میں ہوا ہے۔ لیکن اسے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عمیر ہ احمد اپنے ناولوں میں واضح کرتی ہے کہ مذہب کی طرف رجحان نہ رکھنے والا مسلمان حرام اور حلال میں کوئی تمیز نہیں رکھتا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں اپنی پسند کو ترجیح دیتا ہے ۔اسلام میں سور کا گوشت حرام ہے لیکن سالا ر اس گوشت کے بنے ہوئے برگر کو کھانا پسند کرتا ہے۔
عمیرہ احمد کی شہرت کسی مذہبی خاتون کے طور پرنہیں ہے۔ خود بھی وہ اپنے آ پ کو مذہبی شخصیت نہیں کہتیں اور وہ تصوف کی طرف بھی کوئی خاص میلان نہیں رکھتیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے:
میں کتنی مذہبی ہوں مجھے یہ بتائے ہوئے خاصی شرمندگی ہو رہی ہے کہ اپنے دین کے بارے میں میری معلومات خاصی کم ہیں۔ ہر وقت مذہب کی باتیں نہیں کرتی لیکن دن میں پانچ بار نماز باقاعدگی سے پڑھ لیتی ہوں کیونکہ اﷲ کا اتنا حق تو ہم پر بنتا ہی ہے۔ قرآن پاک کو انگلش اور اردو ترجمے کے ساتھ پڑ ھ رہی ہوں۔(۵۱۴)
اپنے ناولوں میں عمیرہ احمدنے انسان کی زندگی پر مذہب کے اثرات کو نمایاں کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ایک مذہبی انسان کی زندگی کس طرح منظم اور مثبت سوچ پر مبنی ہوتی ہے۔ مذہب کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہوتی ہے اور ایک غیر مذہبی انسان انتشار اور بے چینی کا شکار ہوتا ہے۔ اپنے ناولوں میں انھوں نے اکثر مقامات پر دین اسلام کی حقانیت کو واضح کیا ہے اور اسے بہترین مذہب قرار دیا ہے۔ مذہب کے متعلق لکھنا اور خاص طورپر مذہب اسلام کو ہر مذہب پر ترجیع دینا ان کے مذہبی رحجانات کو نمایاں کرتا ہے۔ جن کے ذریعے ان کے مذہبی نظریات سامنے آجاتے ہیں۔
عمیرہ احمد اپنے ناولوں کے کردار وں کو نہ صرف مذہبی دکھاتی ہیں بلکہ یہ مذہب سے متعلق ان کے ایمان کو بھی پختہ دکھاتی ہیں۔ ان کے کردار اپنے دین کے لیے ہر طرح کی مشکلا ت کو برداشت کرتے ہوئے صبر و قناعت کا نمونہ ہوتے ہیں ۔کہیں کہیں تو ان کے کرداروں میں بعض کردار مثالی ہوتے ہیں یعنی ایسے کردار جن کی دعائیں ہمیشہ قبول ہوتی ہیں۔ ایسے کردار اﷲ تعالیٰ کے لیے ہر طرح کی نفسانی خواہشات کو ترک کر دیتے ہیں۔ ان سے ذرا سی غلطی کا بھی امکان نہیں ہوتا۔ اﷲ کو راضی رکھنا ہی ان کرداروں کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے۔
اپنے ناولوں میں عمیرہ احمد نے مذہب کو بالواسطہ طور پر پیش کیا ہے۔ مذہب ،مذہبی عقائد اور عبادت کی ان کے کرداروں کی زندگی میں کیا اہمیت ہے اور یہ ان کی زندگی کو کس طرح متاثر کرتے ہیں ۔ یہ عمیرہ احمد کے ناولوں کا ایک خاص اسلوب ہے ان کے کرداروں کے مکالمے اس حوالے سے بہت اہم ہیں۔ ان کے کرداروں کے مکالموں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہم مذہبی اور دینی رجحان سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے کردار جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے یا مذہبی عبادات کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کے ساتھ ایسے کرداروں کے مکالمے جن کا جھکاؤ مذہب کی طرف ہے بہت اہم ہے۔ ہمیشہ ایسے کرداروں کے مکالمے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی رجحانات کا اظہار کر رہی ہیں۔ اگرچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمیر ہ احمد نے مولوی نذیر کی طرح کرداروں کے منہ میں اپنی زبان رکھ دی ہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جو کردار مذہب کی عبادات کی اور دینی عقائد کی حمایت کرتے ہیں ان کی گفتگو کو عمیرہ احمد شعوری طورپر زیادہ متاثر کن بنانے کی کوشش کرتی ہے ۔ ناول کے فنی تقاضوں کے مطابق عمیرہ احمد نے ان مذہبی رجحانات اور نظریات کو وعظ اورتبلیغ بنانے سے گریز کیا ہے۔
اس لیے کسی ایک خاص موضوع پر کسی خاص عقیدے کے بارے میں کسی خاص مذہبی رجحان کے بارے میں ہم کسی ایک ناول یا کسی ایک کردار کے حوالے سے کوئی ایک مربوط تحریر نہیں کر سکتے۔ عمیرہ احمد کے ہاں مذہبی نظریات اور عبادات کے حوالے سے جو انداز نظر آتا ہے۔ اس میں بلا شبہ ایک نیا پن اور جدت ہے۔ وہ کسی عالم دین ،واعظ یا مبلغ کی طرح تو تبلیغی انداز اختیار کرتی ہیں اور نہ تشریح و توضیح بلکہ اپنے مذہبی رجحان کے باعث وہ اپنے ناولوں کے ذریعے اس بات پر زور دیتی ہیں کہ انسان کی اپنے دین سے وابستگی قائم رہنی چاہیے چاہے کم یا زیادہ ۔ عمیرہ احمد اسلامی مذہبی تعلیمات اور اصول و قواعد کو اپنے ناولوں کا حصہ بناتے ہوئے انسان کی صحیح سمت میں رہنمائی کرتی ہیں اور وہ اپنے ناولوں میں کرداروں سے متعلق ہر مسئلے کا حل مذہبی تعلیمات کے ذریعے پیش کرتی ہیں۔
کومل شہزادی (1995ء)شہرِ اقبال میں یکم اگست کو پیدا ہوئیں۔میٹرک تک تعلیم کینٹ سکول میں حاصل کی اور انٹر، گریجویشن، ماسٹر سیالکوٹ کے مختلف کالجز سے کیاجن میں علامہ اقبال پوسٹ گریجویٹ کالج اور مرے کالج سیالکوٹ شامل ہیں۔ایم - فل بھی جی سی یونیورسٹی سے کیا اور پی ایچ ڈی تاحال کررہی ہیں۔علاوہ ازیں ایم۔ایس سی اور بی ایڈ بھی انکے تعلیمی کوائف میں شامل ہے۔
لکھنے کا شوق انکی خدادصلاحیت ہے۔جو کالج کے زمانے سے چند چھوٹی چھوٹی تحاریر سے شروع ہوا اور باقاعدہ پرنٹ میڈیا کی شکل میں2018 ء میں باقاعدہ سے شائع ہونے لگا۔انہوں نے معروف قومی اخبارات میں متعدد کالمز لکھے جو لکھنے کا عمل ابھی بھی جاری وساری ہے۔علاوہ ازیں افسانے لکھنے کی ابتداء ڈائجسٹ سے کی جو لاہور کے مشہور سیارہ ڈائجسٹ میں مستقل لگتے رہے۔مزید برآں ادبی مجلوں میں بھی لکھ رہی ہیں اور ساتھ انکے بہت سے مضامین پاکستان وانڈیا ادبی جریدوں میں لگ چکے ہیں۔تحقیقی و تنقیدی مضامین ریسرچ جرنلز اور ادبی مجلوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔معروف ادبی شخصیات کی کتب پر اپنی آراء بھی لکھ چکی ہیں جو انڈیا اور پاکستان کی کئی معروف ویب سائیٹس اور میگزین میں شائع ہوچکے ہیں۔انکی اب تک تین کتب منظر عام پر آچکی ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں۔
آگہی کا سفر
شاداب کنارہ
خوابوں کی بیساکھیاں
زیر طبع کتب میں ایک ناول ترجمہ شدہ اور چند تحقیقی وتنقیدی کتب پر کام جاری ہے۔انکی پہلی کتاب 2021ء میں آئی۔جس کا نام ''آگہی کا سفر'' ہے۔یہ کالموں کا مجموعہ ہے جس میں ادبی،سماجی،روزمرہ صورتحال پر تحریر کردہ کالمز ہیں۔جس پرمرے کالج کے صدرشعبہ اردو پروفیسر ضعیداحمد کا تحریر مضمون سے چند جملے ملاحظہ کیجیے تاکہ کتاب کی نوعیت کا اندازہ ہوسکے۔
’’کومل شہزادی کے کالمز کی نمایاں خوبی ان کا دلکش اسلوب بھی ہے۔وہ اپنے کالمز میں غیر ضروری طوالت،لفاظی اور افسانوی اندازسے اجتناب کرتی ہیں اور اسی لیے ان کے کالمز میں قارئین کی دلچسپی شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے۔وہ ذاتی انا سے بالاترہو کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے لکھ رہی ہیں۔ان کی کالم نگاری کا دائرہ کار اس قدر پھیلا ہوا ہیکہ اس کی سماجی وسیاسی، تہذیبی و تمدنی،اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت اور معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
دوسری کتاب شاداب کنارہ اور خوابوں کی بیساکھیاں جو نعتیہ کلام اور شاعری پر قلمبند مضامین اور اکیسویں صدی کے شعرا کے کلام سے انتخاب پر مشتمل ہیں۔اس میں کومل شہزادی کے مضمون تحقیقی اور تنقیدی حوالے سے شامل ہی۔خوابوں کی بیساکھیوں پر اقبال شناس اور افسانہ نگار پروفیسر حواجہ اعجاز بٹ کی رائے ملاحظہ کیجیے۔
'' کومل شہزادی بھی میدان ادب میں نمایاں ہیں۔یہ نہ صرف مصنفہ، نقاد،انٹرویو نگار بلکہ مرتب بھی ہیں۔انکی یہ کتاب'' خوابوں کی بیساکھیاں'' اکیسویں صدی کے شعراء کاتذکرہ اور تحقیقی وتنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔ادب میں اس کا اضافہ ایک احسن اقدام ہے۔کومل شہزادی کی تحریروں میں متانت،علم وادب سے آگہی اور پُرخلوص عقیدت کا اظہار بھی ہے۔''
علاوہ ازیں انکی علمی وادبی خدمات پر انہیں کئی ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے جس میں سرسید ایوارڈ جو جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کے حوالہ سے نوازا گیا،پریس فارپیس برطانیہ کی جانب سے ایوارڈ انکے کتب پر عمدہ تبصرے کی وجہ سے نوازا گیا اس کے علاوہ چند ایوارڈ جو انکی کچھ کتب کے حوالے سے انکو ملے۔علاوہ ازیں سیالکوٹ سے نکلنے والا ادبی مجلہ ''نقش فریادی'' میں بطور مدیرہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔میگزین اور اخبارات میں شعبہ انچارج کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔(۵۱۵)
حوالے و حواشی
۱
۱۲۸۔ ناہید سلطانہ ’’مرے کالج کے ادیب اساتذہ‘‘ ،تحقیقی مقالہ برائے ایم ۔اے اردو،لاہور ،پنجاب یونیورسٹی،۱۹۸۹ء ،ص ۱۵۶
۱۲۹۔ ایضاً،ص:۱۵۸
۱۳۰۔ ایضاً،ص:۱۵۹
۱۳۱۔ ایضاً،ص:۱۶۱
۱۳۲۔ بحوا لہ ’’تمہید‘‘ از کتاب ’’دینیات‘‘ حصہ سوم ،سیالکوٹ، طور پرنٹنگ پریس ۱۹۵۶ء،ص۱۷
۱۳۳۔ بحوالہ سالنامہ ’’مفکر‘‘ سیالکوٹ ،مرے کالج ،۱۹۷۰ء ،ص:۸۵
۱۳۴۔ مرزا حامد بیگ ’’اردو افسانے کی روایت‘‘ اسلام آباد ،دوست پبلی کیشنز ،۲۰۱۴ء ،ص:۳۶۹
۱۳۵۔ ڈاکٹر انوار احمد ’’اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘‘،فیصل آباد، مثال پبلشرز، ۲۰۱۰ء ،ص:۷۲۳
۱۳۶۔ ایضاً،ص:۷۲۳
۱۳۷۔ ایضاً،ص:۷۲۳
۱۳۸۔ مرزا حامد بیگ ’’اردو افسانے کی روایت‘‘ ،ص:۳۷۰
۱۳۹۔ ایضاً،ص:۳۷۰،۳۷۱،۳۷۲
۱۴۰۔ مرزا حامد بیگ ’’افسانے کا منظر نامہ ‘‘،لاہور ،مکتبہ عالیہ ،طبع دوم ،۱۹۷۷ء ،ص :۲۷
۱۴۱۔ ڈاکٹر انوار احمد ،’’اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘‘،ص:۶۲
۱۴۲۔ مہاشہ سدرشن، دیباچہ ،مشمولہ طائرِ خیال‘‘،لاہو ر،سدرشن پبلک ہاؤس ،۱۹۳۰ء ،ص:۷
۱۶۳۔ مہاشہ سدرشن ، اٹھنی کا چور ،مشمولہ ’’چشم و چراغ ‘‘،لاہور ،تاج کمپنی ،۱۹۴۵ء ،ص:۳۱۶
۱۶۴۔ مہاشہ سدرشن، وزیر عدالت ،مشمولہ ’’پارس‘‘ ،لاہور ،مقبول عام پریس، ۱۹۲۶ء ،ص:۷۵
۱۴۵۔ مہاشہ سدرشن ،سدا سکھ، ’’طائرِ خیال‘‘،لاہور،سدرشن پبلشنگ ہاؤس،۱۹۳۰ء،ص:۸۱
۱۴۶۔ مہاشہ سدرشن ،بچپن کا ایک واقعہ ،مشمولہ’’ طائرِ خیال ‘‘،ص۲۷۰
۱۴۷۔ فیض احمد ،’’دل بنا دیا‘‘ ،مشمولہ ’’مرے کالج میگزین‘‘ ،مارچ ۱۹۳۲ء ،ص:۱۵
۱۴۸۔ شفقت قریشی ’’ادھورے سپنے ‘‘ مشمولہ ’’مرے کالج میگزین ‘‘ ،سیالکوٹ ،نومبر ۱۹۴۵ء ،ص:۶
۱۴۹۔ اسیر ،’’میری پیاری گھڑی ‘‘مشمولہ ’’مرے کالج میگزین ‘‘مارچ ۱۹۳۱ء ،ص:۱۵
۱۵۰۔ عاشق حسین، ’’ہم تھے بڑے ادیب‘‘، مشمولہ ’’مرے کالج میگزین، جون ۱۹۴۶ء، ص۴۵
۱۵۱۔ مرزا حامد بیگ ، ’’اُردو افسانے کی روایت‘‘ ص: ۱۰۲۴
۱۵۲۔ ایضاً، ص:۱۰۲۴
۱۵۳۔ ایضاً، ص:۱۰۲۵
۱۵۴۔ ایضاً، ص:۱۰۲۵
۱۵۵۔ مرزا حامد بیگ’’اردو افسانے کی روایت‘‘،ص:۱۰۲۴،۱۰۲۵
۱۵۶۔ ناہید سلطانہ ،’’مرے کالج کے ادبی مجلے کا تنقیدی جائزہ‘‘،ص:۲۴۹
۱۵۷۔ مرزا حامد بیگ،’’اردو افسانے کی روایت‘‘،ص:۱۰۲۵
۱۵۸۔ ڈاکٹر انور سدید،’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘،اے۔ ایچ پبلی کیشنز ،اپریل ۱۹۹۹ء ،ص:۵۲۲
۱۵۹۔ ایضاً،ص:۵۲۳
۱۶۰۔ ڈاکٹر انور سدید، ’’مختصر اردو افسانہ ……عہد بہ عہد‘‘،ص:۶۵۸
۱۶۱۔ جوگندر پال،’’ہارویسٹ‘‘مشمولہ ’’دھرتی کا کال‘‘ لاہور ،حالی پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۶۱ء،ص:۲۵
۱۶۲۔ جوگندر پال، ’’بے ارادہ‘‘ دہلی ، زم زم بک ٹرسٹ،طبع اول، ۱۹۸۱ء ،ص:۴۵
۱۶۳۔ جوگندر پال ، ’’رہائی‘‘،مشمولہ ’’بے محاورہ ‘‘اورنگ آباد،کیلاش پبلی کیشنز،طبع اول ،۱۹۷۸ء،ص:۴۸
۱۶۴۔ جوگندر پال ،’’مردہ خانہ‘‘ مشمولہ ’’جوگندر پال کے شاہکار افسانے‘‘ ،لاہور ،بک چینل ،۱۹۹۶ء ،ص:۲۴
۱۶۵۔ جوگندر پال، ’’چور سپاہی‘‘ ،مشمولہ ’’جوگندر پال کے شاہکار افسانے ‘‘،ص:۵۳
۱۶۶۔ جوگندر پال،’’کوئی نجات‘‘،مشمولہ ’’جوگندر پال کے شاہکار افسانے ‘‘ص:۵۵
۱۶۷۔ ایضاً،ص:۶۳
۱۶۸۔ جوگندر پال،’’دادیاں‘‘،مشمولہ ’’جوگندر پال کے شاہکار افسانے ‘‘ص:۸۳
۱۶۹۔ جوگندر پال،’’بے گور‘‘،مشمولہ ’’جوگندر پال کے شاہکار افسانے ‘‘ص:۱۳۹
۱۷۰۔ مضطر نظامی ،’’ادبستان ‘‘(مسودہ) ،ص:۷
۱۷۱۔ ایضاً،ص:۱
۱۷۲۔ ایضاً،ص:۲
۱۷۳۔ ایضاً،ص:۱
۱۷۴۔ ایضاً،ص:۱۵
۱۷۵۔ مضطر نظامی ،’’شانہ اردو‘‘(مسودہ) ص:۱۵
۱۷۶۔ ایضاً،ص:۱۸
۱۷۷۔ مضطر نظامی ، ’’تاریخی مکالمے‘‘(مسودہ)،ص:۴
۱۷۸۔ مضطر نظامی ،’’فریب آرزو‘‘(مسودہ) ،ص:۵
۱۷۹۔ مضطر نظامی،’’نثری مکتوبات‘‘ (مسودہ) ،ص:۶
۱۸۰۔ ایضاً،ص:۱۴
۱۸۱۔ ایضاً،ص:۲۸
۱۸۲۔ ایضاً،ص:۲۱
۱۸۳۔ فیض احمد فیض’’گزارش احوال و اقعی‘‘ مشمولہ ’’صلیبیں مرے دریچے میں ‘‘ مرتبہ مرزا ظفر الحسن ،کراچی ،پاک پبلشرز لمیٹڈ ،۱۹۷۱ء ،ص:۷
۱۸۴۔ ایضاً،ص:۱۷۳،۱۷۴
۱۸۵۔ ایضاً،ص:۵
۱۸۶۔ ایضاً،ص:۶
۱۸۷۔ ایضاً،ص:م، ن
۱۸۸۔ ایضاً،ص:۵۴
۱۸۹۔ مرزا ظفر الحسن ،’’عمر گزشتہ کی کتاب‘‘ ،کراچی ،یادگار غالب،۱۹۸۷ء ،ص:۱۷۷
۱۹۰۔ ایضاً،ص:۱۷۷،۱۷۸
۱۹۱۔ فیض احمد فیض،’’ متاعِ لوح و قلم‘‘ ،کراچی ،دانیال مکتبہ ،۱۹۷۳ء ،ص:۹
۱۹۲۔ ایضاً،ص:۲۰
۱۹۳۔ فیض احمد فیض، ’’نقش فریادی ‘‘(دیباچہ) ،ص:۷
۱۹۴۔ فیض احمد فیض ،’’ہماری قومی ثقافت‘‘کراچی ،ادارہ یادگار غالب ،۱۹۷۶ء ،ص:۱۶
۱۹۵۔ ایضاً،ص:۳۳
۱۹۶۔ مرزا ظفر الحسن،’’عمر گذشتہ کی کتاب‘‘ ،ص:۱۹۲
۱۹۷۔ فیض احمد فیض، ’’پیش لفظ‘‘ مشمولہ ’’مہ و سالِ آشنائی ‘‘ کراچی ،مکتبہ دانیال ۱۹۸۳ء ،ص:۵
۱۹۸۔ ایضاً،ص:۵،۶
۱۹۹۔ ایضاً،ص:۲۷
۲۰۰۔ ایضاً،ص:۶۱
۲۰۱۔ ایضاً،ص:۸۷
۲۰۲۔ مرزا ظفر الحسن،’’عمر گزشتہ کی کتاب ‘‘،ص:۱۸۳
۲۰۳۔ فیض احمد فیض ،’’سفر نامہ کیوبا‘‘،لاہور ،نیشنل پبلشنگ ہاؤس،۱۹۷۳ء ،ص:۴
۲۰۴۔ ایضاً،ص:۵،۶
۲۰۵۔ ساغر جعفری ،’’سخن ہائے گفتنی ،چند یادیں ،چند تاثرات‘‘،مشمولہ ’’بہارو نگار‘‘ ،سیالکوٹ،اردو ادب اکیڈمی ۱۹۹۵ء،ص:۱۰
۲۰۶۔ ایضاً،ص:۱۳
۲۰۷۔ ساغر جعفری،’’اردو شاعری پر ادب انگریزی کا اثر‘‘ ،مشمولہ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور، مارچ ۱۹۳۶ء ،جلد ۳،ص:۱۰
۲۰۸۔ ایضاً،ص:۱۱
۲۰۹۔ ایضاً،ص:۱۱
۲۱۰۔ ایضاً،ص:۱۵
۲۱۱۔ ایضاً،ص:۱۲
۲۱۲۔ ایضاً،ص:۱۳
۲۱۳۔ ایضاً،ص:۱۳
۲۱۴۔ ساغر جعفری ’’حالی کی اخلاقی شاعری‘‘ مشمولہ ’’رسالہ ادبِ لطیف‘‘ لاہور،ستمبر ۱۹۳۶ء ،جلد۳،ص:۲۱
۲۱۵۔ ایضاً،ص:۲۲
۲۱۶۔ ڈاکٹر شگفتہ حسین ، ’’ماہ نامہ ادب لطیف کی ادبی خدمات ‘‘ملتان ،بہاؤ الدین زکر یا یونیورسٹی ،۲۰۰۶ء ،ص:۳۶۶
۲۱۷۔ ساغر جعفری(مترجم ) ’’قسمت‘‘ مشمولہ ’’ادبِ لطیف‘‘ ،لاہور ،اگست،،۱۹۳۶ء،جلد ۳،ص:۲۲
۲۱۸۔ ساغر جعفری(مترجم )،’’حلقہ مسموم ‘‘مشمولہ ’’ساقی ‘‘دہلی ،مارچ ۱۹۳۷ء ،جلد ۱۵،ص:۲۵
۲۱۹۔ ساغر جعفری (مترجم)، ’’قسمت‘‘ ،ص:۲۳
۲۲۰۔ مرزا حامد بیگ،’’مغرب سے نثری تراجم‘‘مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد،۱۹۸۸ء،ص:۲
۲۲۱۔ ایضاً،ص:۶۶
۲۲۲۔ ساغر جعفری ،’’حلقہ مسموم‘‘ ،ص:۳۷
۲۲۳۔ سر آرتھر کانن ڈائل ،’’عجیب و غریب انجمن ‘‘مترجم ساغر جعفری مشمولہ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ شمارہ مئی جون ۱۹۳۶ء ،جلد نمبر ۳،ص:۶۶
۲۲۴۔ ای۔ وی لیوکس،’’نقش بردیوار‘‘ مترجم ساغر جعفری ،’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور ،نومبر ۱۹۳۶ء ،ص:۳۱
۲۲۵۔ گائے دی ۔موپساں، ’’دوشیزا صحرا‘‘،مترجم ساغر جعفری ،رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ ماہ جنوری ۱۹۳۷ء ،جلد ۴،ص:۲۵
۲۲۶۔ ایضاً،ص:۲۲
۲۲۷۔ چیخوف،’’محرومِ خواب‘‘ مترجم ساغر جعفری ،ساقی ،دہلی شمارہ اپریل ۱۹۳۷ء ،جلد ۱۵،ص:۸۷
۲۲۸۔ ایضاً،ص:۸۹
۲۲۹۔ رابندر ناتھ ٹیگور’’بادہ مشرق کے دو جام‘‘ مترجم ساغر جعفری ،’’ساقی ‘‘ دہلی ماہ مئی ،۱۹۳۷ء ،جلد ۱۵،ص:۶۹
۲۳۰۔ سر وجنی نائیڈو، ’’راجپوتی نغمہ محبت‘‘مترجم ساغر جعفری ،’’ساقی ‘‘ ،دہلی مئی ۱۹۳۷ء ،ص:۶۹
۲۳۱۔ ندارد، ’’حلقہ مسموم ‘‘ مترجم ساغر جعفری ،رسالہ ’’ساقی ‘‘دہلی مارچ ۱۹۳۷ء ،جلد ۱۵،ص:۷۷
۲۳۲۔ ایضاً،ص:۸۳
۲۳۳۔ رابندر ناتھ ٹیگور،’’بادہ مشرق کے دو جام‘‘ مترجم ساغرجعفری ،مشمولہ ’’ساقی‘‘ دہلی ،مئی ۱۹۳۷ء ،ص:۶۹
۲۳۴۔ مرزا حامد بیگ، ’’مغرب سے نثری تراجم‘‘ مقتدرہ قومی زبان ،۱۹۸۸ء ،ص:۵
۲۳۵۔ ایضاً،ص:۹
۲۳۶۔ گائے ۔دی موپساں،’’دو شیز ہ صحرا‘‘ مترجم ساغر جعفری ،رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ ماہ جنوری ۱۹۳۷ء ،جلد ۴، ص:۱۷
۲۳۷۔ آسی ضیائی، ’’مقدمہ‘‘ مشمولہ ’’شبِ تابِ چراغاں‘‘ سیالکوٹ ،شاہ اینڈ سنز ۱۹۶۱ء ،ص:۵
۲۳۸۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ’’اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ‘‘،لاہور، مجلس ترقی ادب ،نومبر ۱۹۷۲ء ،ص:۱۲
۲۳۹۔ آسی ضیائی، ’’مقدمہ‘‘ مشمولہ’’شبِ تابِ چراغاں‘‘ ص:۸
۲۴۰۔ آسی ضیائی ’’شبِ تابِ چراغاں‘‘، ص:۱۹
۲۴۱۔ ایضاً،ص:۲۵،۲۴
۲۴۲۔ ایضاً،ص:۲۶
۲۴۳۔ ایضاً،ص:۳۳
۲۴۴۔ ایضاً،ص:۳۴
۲۴۵۔ ایضاً،ص:۵۶
۲۴۶۔ ایضاً،ص:۵۷
۲۴۷۔ ایضاً،ص:۵۸
۲۴۸۔ ایضاً،ص:۶۶
۲۴۹۔ ایضاً،ص:۹۴
۲۵۰۔ ایضاً،ص:۱۱۸
۲۵۱۔ ایضاً،ص:۱۳۶
۲۵۲۔ ایضاً،ص:۱۷۸
۲۵۳۔ ایضاً،ص:۱۹۸
۲۵۴۔ ایضاً،ص:۲۰۱
۲۵۵۔ ایضاً،ص:۲۰۳
۲۵۶۔ ایضاً،ص:۲۵۶
۲۵۷۔ ایضاً،ص:۲۸۴
۲۵۸۔ آسی ضیائی، ’’کھوٹے سکے‘‘ کراچی ،مکتبہ افکارِ نو،۱۹۵۰ء ،ص:۶
۲۵۹۔ ایضاً،ص:۶۶
۲۶۰۔ ایضاً،ص:۹۲
۲۶۱۔ ایضاً،ص:۲۲۴
۲۶۲۔ آسی ضیائی، ’’مقدمہ ‘‘مشمولہ ’’کھوٹے سکے‘‘ ص:۹
۲۶۳۔ بحوالہ ’’مرے کالج میگزین‘‘ ستمبر، اکتوبر، ۱۹۵۵ء ،ص:۳۸
۲۶۴۔ ایضاً،ص:۳۹
۲۶۵۔ بحوالہ ماہنامہ’’سیارہ‘‘ لاہور،دسمبر ۱۹۸۵ء ،ص:۳۵
۲۶۶۔ ایضاً،ص:۳۶
۲۶۷۔ اُمتہ المتین ، ’’آسی ضیائی رامپوری ۔شخصیت و فن‘‘،ص:۱۸
۲۶۸۔ ’’کتابِ مقدس یعنی پرانا اور نیا عہد نامہ‘‘ لندن ،۱۹۵۱ء ،ص:۹
۲۶۹۔ بحوالہ ’’برناباس کی انجیل‘‘مطبوعہ لاہور،۱۹۷۴ء: ص:۱۵۲
۲۷۰۔ سلیم واحد سلیم، ’’میرا فلسفی چچا‘‘ ادبی دنیا ،لاہور ،ستمبر اکتوبر ۱۹۶۶ء ،ص:۱۰۳
۲۷۱۔ سلیم واحد سلیم ،’’تزکِ جہانگیری(اردو ترجمہ) ‘‘ لاہور ،مجلسِ ترقی ادب ،۱۹۶۰ء ،ص:۵
۲۷۲۔ ایضاً،ص:۳۶
۲۷۳۔ ایضاً،ص:۴۵
۲۷۴۔ سلیم واحد سلیم ،’’عید نو روز‘‘ لاہور ،ادبی دنیا،جولائی ۱۹۵۰ء ،ص:۵۰
۲۷۵۔ ایضاً،ص:۵۰
۲۷۶۔ سلیم واحد سلیم ،(مترجم) ’’ملا کی آپ بیتی‘‘ لاہور، مخزن ،اپریل ۱۹۵۰ء ،ص:۳۱
۲۷۷۔ سلیم واحد سلیم ،(مترجم) ’’سادہ بولی شہد سے میٹھی‘‘ ،لاہور ،مخزن ،فروری ۱۹۵۱ء ،ص:۵۸
۲۷۸۔ سلیم واحد سلیم،(مترجم) ’’ایسا بھی ہواکرتا ہے‘‘لاہور، اسلوب، دسمبر ۱۹۶۱ء ،ص:۲۷ تا ۲۹
۲۷۹۔ ایضاً،ص:۲۸
۲۸۰۔ سلیم واحد سلیم،(مترجم)’’میر ا فلسفی چچا‘‘ لاہو ر ،ادبی دنیا ،ستمبر اکتوبر ۱۹۶۶ء ،ص:۹۵
۲۸۱۔ ایضاً،ص:۹۶
۲۸۲۔ سلیم واحد سلیم(مترجم)’’سولہ آنے‘‘ لاہو ر ،ادبی دنیا ،ستمبر اکتوبر ۱۹۶۶ء ،ص:۳۷
۲۸۳۔ سلیم واحد سلیم(مترجم)’’مسٹر فی البطن‘‘مشمولہ ’’اسلوب‘‘ جلد ۴۶،شمارہ ۴، ۱۹۶۰ء ،ص:۴۵
۲۸۴۔ غالب کا اصل شعر یوں ہے:
سوزش باطن سے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیط گریہ و لب آشنائے خندہ ہے
۲۸۵۔ ’’کچھ بحور اور ان کے دوائر کے بارے میں ‘‘(غیر مطبوعہ) مضمون جو سلیم واحد سلیم کی ڈائری سے نقل کیا گیا ہے۔
۲۸۶۔ ’’کچھ بحور اور ان کے دوائر کے بارے میں ‘‘مضمون،جو سلیم واحد سلیم کی ڈائری سے نقل کیا گیا ہے۔
۲۸۷۔ غلام الثقلین نقوی ،’’تنکے تنکے‘‘ ،مشمولہ ’’محفل‘‘ لاہور ،جلد ۴۱،شمارہ ۱۲،دسمبر ۱۹۹۵ء ،ص:۶۴
۲۸۸۔ ایضاً،ص:۶۵
۲۸۹۔ ایضاً،ص:۱۰
۲۹۰۔ غلام الثقلین نقوی ’’افسانہ اور میں ‘‘ مشمولہ دھوپ کا سایہ ،لاہور ،ماہِ ادب ۱۹۸۶ء ،ص:۷
۲۹۱۔ وزیر آغا، شفق کے سائے ،پیش لفظ ،لاہور مکتبہ لائبریری ،۱۹۶۹ء ،ص:۹
۲۹۲۔ ایضاً،ص:۱۰
۲۹۳۔ غلام الثقلین نقوی ،’’نغمہ اور آگ‘‘ تعارف (چند لفظ اور) ،لاہور ،مکتبہ عالیہ ،۱۹۷۲ء ،ص:۵
۲۹۴۔ ڈاکٹر انور سدید ،اوراق ،خاص نمبر، مئی ۔جون ،۲۰۰۲ء ،ص:۱۸
۲۹۵۔ غلام الثقلین نقوی ،دھوپ کا سایہ ،دیباچہ ،لاہور ،ماہِ ادب ،دسمبر ۱۹۸۶ء ،ص:۸
۲۹۶۔ ڈاکٹر وزیر آغا،سر گوشی ،دیباچہ ،لاہور ،مقبول اکیڈمی ،۱۹۹۲ء ،ص:۹۔۱۰
۲۹۷۔ ڈاکٹر وزیر آغا،اوراق ،ماہنامہ ،جنوری۔ فروری ۱۹۸۳ء ،ص:۳۷۴
۲۹۸۔ غلام الثقلین ن قوی ،سید نگر کا چودھری ،بند گلی ،ص:۶۵
۲۹۹۔ وزیر آغا، ’’غلام الثقلین نقوی کی افسانہ نگاری ‘‘ ،مشمولہ ’’محفل‘‘ لاہور ،دسمبر ۱۹۹۵ء ،ص:۲۰
۳۰۰۔ غلام الثقلین نقوی ،کوڑا گھر، دھوپ کا سایہ ،ص:۱۳۹
۳۰۱۔ غلام الثقلین نقوی ،گل بانو ،شفق کے سائے،ص:۱۵
۳۰۲۔ ڈاکٹر سہیل بخاری ،دیباچہ ،بند گلی ،لاہور،بک ورلڈ خانم ،۱۹۴۴ء ،ص:۹
۳۰۳۔ ڈاکٹر وزیر آغا،’’غلام الثقلین نقوی کی افسانہ نگاری‘‘،ص:۲۰
۳۰۴۔ ڈاکٹر انور سدید،دیباچہ ،لمحے کی دیوار، از غلام الثقلین نقوی ،لاہور پنجاب آرٹس،پریس ۱۹۷۴ء ،ص:۷
۳۰۵۔ وزیر آغا، ’’دیباچہ‘‘ ،شفق کے سائے،ص:۱۲
۳۰۶۔ غلام الثقلین نقوی ،گل بانو، شفق کے سائے،ص:۱۴
۳۰۷۔ غلام الثقلین نقوی ،راکھ، سر گوشی ،ص:۱۵
۳۰۸۔ غلام الثقلین نقوی ،تصویر، بند گلی ،ص:۳۰
۳۰۹۔ وزیر آغا، دیباچہ ،سر گوشی ،ص:۱۴
۳۱۰۔ غلام الثقلین نقوی ،زرد پہاڑ، سر گوشی ،ص:۲۳۸
۳۱۱۔ غلام الثقلین نقوی ،’’اردو کہانی کے پچاس سال ‘‘ لاہور ،’’اوراق‘‘ جولائی ،اگست ۲۰۰۰ء ،ص:۱۹
۳۱۲۔ ایضاً،ص:۲۰
۳۱۳۔ ایضاً،ص:۲۱
۳۱۴۔ وزیر آغا، ’’دائرے اور لکیریں ‘‘،لاہور ،مکتبہ فکر و خیال ،۱۹۸۲ء ،ص:۷۹
۳۱۶۔ وزیر آغا،’’دائرے اور لکیریں ‘‘،ص:۸۳
۳۱۷۔ غلام الثقلین نقوی ،’’دیباچہ ‘‘،میرا گاؤں ،ص:۵
۳۱۸۔ ایضاً،ص:۳۴
۳۱۹۔ ایضاً،ص:۴۲
۲۲۰۔ غلام جیلانی اصغر، ’’میرا گاؤں ،ایک تاثر‘‘،مشمولہ ’’محفل‘‘ ،۱۹۹۵ء ،ص:۳۴
۳۲۱۔ ایضاً،ص:۳۵
۳۲۲۔ وزیر آغا، ’’ایک گاؤں کی کہانی‘‘ ،مشمولہ ’’اوراق‘‘ ص:۳۱۵
۳۲۳۔ وزیر آغا،’’دائرے اور لکیریں ‘‘ ،ص:۸۴
۳۲۴۔ سلیم آغا قزلباش ،’’غلام الثقلین کی افسانہ نگاری پر ایک نظر ‘‘مشمولہ ’’چہار سو‘‘ ماہنامہ ستمبر، اکتوبر ۱۹۹۴ء ،ص:۳۴
۳۲۵۔ محمد اشرف انجم ،’’میرزا ریاض ۔فن اور شخصیت ‘‘،لاہور ،پنجاب یونیورسٹی ،مقالہ برائے ایم۔ اے اردو(غیر مطبوعہ) ۱۹۸۷ء ،ص:۱
۳۲۶۔ ایضاً،ص:۷
۳۲۷۔ ایضاً،ص:۸
۳۲۸۔ میرزا ریاض ،’’ہماری فلمیں اور عوام کا اخلاق ‘‘ ،لاہور ،روزنامہ ’’حریت‘‘ ۷ مارچ ،۱۹۶۹ء ،ص:۵
۳۲۹۔ میرز ا ریاض ،’’قومی کردار ایک تدریجی عمل ‘‘،لاہور روزنامہ ’’امروز‘‘ ۳ ستمبر ۱۹۷۲ء ،ص:۷
۳۳۰۔ مشکور حسین یاد،’’تعارف‘‘ ،مشمولہ ’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘لاہو رمکتبہ عالیہ ،۱۹۸۳ء ،ص:۸
۳۳۱۔ میرزا ریاض ،’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘،ص:۲۰۰
۳۳۲۔ ایضاً،ص:۱۴۷
۳۳۳۔ جیلانی کامران ، فلیپ ،’’ نکتہ داں پیدا کیے‘‘۔
۳۳۴۔ ڈاکٹر سلیم اختر، فلیپ ،’’نکتہ داں پیدا کیے‘‘۔
۳۳۵۔ میرزا ریاض ،’’دیباچہ‘‘ ،’’مسافر نواز بہتیرے ‘‘ ،ص:۷
۳۳۶۔ میرزا ریاض’’مسافر نواز بہتیرے‘‘ ص:۳۵
۳۳۷۔ ایضاً،ص:۳۷
۳۳۸۔ ایضاً،ص:۸۶
۳۳۹۔ ایضاً،ص:۶۴
۳۴۰۔ سید وقار عظیم ،فلیپ’’آندھی میں صدا‘‘
۳۴۱۔ ڈاکٹر وزیر آغا، ’’دیباچہ‘‘ ،’’آندھی میں صدا‘‘ ۱۹۷۴ء ،ص:۳
۳۴۲۔ ڈاکٹر سلیم اختر، فلیپ’’بے آب سمندر‘‘ ،۱۹۷۹ء
۳۴۳۔ میرزا ریاض، ’’بے آب سمندر‘‘ ،ص:۹،۱۰
۳۴۴۔ ایضاً،ص:۲۰۲
۳۴۵۔ ایضاً،ص:۲۸۴
۳۴۶۔ بنی احمد ،’’خالد نظیر صوفی۔اقبال شناس‘ ،مقالہ ایم۔ ا ے اردو (غیر مطبوعہ) ،لاہور ،پنجاب یونیورسٹی ،۲۰۰۵ء ،ص:۴۲
۳۴۷۔ ایضاً،ص:۴۳
۳۴۸۔ خالد نظیر صوفی ،’’اقبال درونِ خانہ‘‘،لاہور ،بزمِ اقبال ،ص:۷
۳۴۹۔ ایضاً،ص:۷
۳۵۰۔ ایضاً،ص:۸
۳۵۱۔ ایضاً،ص: ۸
۳۵۲۔ ایضاً،ص:۸
۳۵۳۔ ایضاً،ص:۲۲،۲۳
۳۵۴۔ ایضاً،ص:۲۳
۳۵۵۔ ایضاً،ص:۲۵
۳۵۶۔ ایضاً،ص:۲۷
۳۵۷۔ ایضاً،ص:۳۰
۳۵۸۔ ایضاً،ص:۳۳
۳۵۹۔ ایضاً،ص:۴۰
۳۶۰۔ ایضاً،ص:۲۱
۳۶۱۔ ایضاً،ص:۴۸،۴۹
۳۶۲۔ ایضاً،ص:۱۱۱
۳۶۳۔ ایضاً،ص:۱۴۹
۳۶۴۔ ایضاً،ص:۱۵۴
۳۶۵۔ ایضاً،ص:۱۶۸
۳۶۶۔ خالد نظیر صوفی’’اقبال درونِ خانہ‘‘ ،جلد دوم ،لاہور ،اقبال اکیڈمی ،ص:۵
۳۶۷۔ ایضاً،ص:۶
۳۶۸۔ ایضاً،ص:۹۵
۳۶۹۔ بحوالہ ’’سیرت المہدی‘‘ از مرزا بشیر احمد، مشمولہ ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ ،ص:۹۷
۳۷۰۔ خالد نظیر صوفی ،’’اقبال درونِ خانہ‘‘ ،حصہ دوم ،ص:۹۸
۳۷۱۔ ایضاً،ص:۱۳۲
۳۷۲۔ ایضاً،ص:۱۸۵
۳۷۳۔ طلعت نثار خواجہ،’’آثم مرزا ۔احوال و آثار ‘‘ ،مقالہ برائے ایم۔ اے اردو (غیر مطبوعہ) ،لاہور ،پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۹۱ء ،ص:۱
۳۷۴۔ ایضاً،ص:۳،۴
۳۷۵۔ امتیاز بیگم ،’’ آثم مرزا۔احوال و آثار ‘‘ مقالہ برائے ایم ۔ا ے اردو (غیر مطبوعہ)لاہور، پنجاب یونیورسٹی ۱۹۸۹ء ،ص: ۴۸
۳۷۶۔ آثم مرزا، ’’حصار مرگ ‘‘مشمولہ ’’ماہنامہ حرم ‘‘ لاہور ،شمارہ ستمبر ۱۹۴۶ء ،ص:۳۷
۳۷۷۔ آثم مرزا، ’’انتقام ‘‘ مشمولہ ،’’ماہنامہ حرم‘‘ لاہور ،شمارہ فروری ۱۹۸۱ء ،ص:۳
۳۷۸۔ ایضاً،ص:۴
۳۷۹۔ ایضاً،ص:۵
۳۸۰۔ آثم مرزا، ’’کھلے دروازوں کا شہر‘‘ مشمولہ ’’ماہنامہ حرم‘‘ ،لاہو ر ،شمارہ جنوری ۱۹۷۷ء ،ص:۶۷
۳۸۱۔ ایضاً،ص:۶۸
۳۸۲۔ ایضاً،ص:۶۹
۳۸۳۔ ایضاً،ص:۶۸
۳۸۴۔ ایضاً،ص:۷۰
۳۸۵۔ ایضاً،ص:۷۰
۳۸۶۔ آثم مرزا ،’’علاج تیرہ شبی‘‘ مشمولہ ’’ماہنامہ حرم‘‘ شمارہ جون، ۱۹۸۸ء ،ص:۱۸
۳۸۷۔ ایضاً،ص:۱۹
۳۸۸۔ آثم مرزا، ’’ذرے بن گئے چراغ‘‘ مشمولہ ’’سودا گر‘‘ ،کراچی ،شمارہ ستمبر ۱۹۷۰ء ،ص:۴۴
۳۸۹۔ ایضاً،ص:۴۵
۳۹۰۔ آثم مرزا، ’’مامتا کا اعزاز‘‘ مشمولہ ’’سودا گر ‘‘ کراچی ،شمارہ ،فروری ۱۹۶۶ء ،ص:۳۵
۳۹۱۔ ایضاً،ص:۳۷
۳۹۲۔ آثم مرزا، ’’دستک‘‘ مشمولہ ’’ماہنامہ لیل و نہار‘‘ لاہور ،جنوری ۱۹۷۳ء ،ص:۶۷
۳۹۳۔ آثم مرزا، ’’جلتے ہوئے لمحوں کی روشنی‘‘ ،مشمولہ ’’ماہنامہ محفل ‘‘ لاہور، شمارہ فروری ،۱۹۷۲ء ،ص:۲۲
۳۹۴۔ ایضاً،ص:۲۵
۳۹۵۔ ریاض حسین چودھری ،’’آثم مرزا کا فن‘‘ مشمولہ ’’ماہنامہ الشجاع‘‘ لاہور ،فروری ۱۹۷۳ء ،ص:۲۶
۳۹۶۔ ریاض حسین چودھری ،’’آثم مرزا کا فن‘‘ مشمولہ ’’ماہنامہ سیارہ‘‘ ،لاہور ،شمارہ نمبر ۹،ص:۱۳۲
۳۹۷۔ تاب اسلم ،دیباچہ ،مشمولہ’’پیار بیوپار‘‘
۳۹۸۔ آثم مرزا ،’’پیار بیوپار‘‘ ،ص:۲۰۴
۳۹۹۔ ایضاً،ص:۲۰۶
۴۰۰۔ ایضاً،ص:۲۰۸
۴۰۱۔ غلام الثقلین نقوی ،’’آثم مرزا ‘‘، مرے کالج میگزین ،سیالکوٹ ،اپریل ۱۹۸۰ء ،ص:۳۵
۴۰۲۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ،زندہ رود(جلد دوم ) ،لاہور ،شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۳ء ،ص:۲۵
۳۔۴۔ عائشہ اسلم، ’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘، مقالہ برائے۔ ایم اے اردو ،پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ۲۰۱۰ء ،ص: ۱۱۸،۱۱۹
۴۰۴۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ،’’مئے لالہ فام‘‘ ،لاہور ،غلام علی اینڈ سنز پبلشرز ،۱۹۷۳ء ،ص:۳۳
۴۰۵۔ ایضاً،ص:۲۳
۴۰۶۔ سجاد ظہیر، ’’روشنائی ‘‘،کراچی مکتبہ دانیال وکٹوریہ چیمبرز ۱۹۸۶ء ،ص:۱
۴۰۷۔ ڈاکٹر جاوید اقبال (پیش لفظ)’’ جہان جاوید‘‘ (جلد اول) لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ۲۰۰۴ء ،ص:۹
۴۰۸۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ،‘‘بحران ‘‘ ،مشمولہ ’’جہانِ جاوید‘‘ ،جلد اول ،ص:۲۵
۴۰۹۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ،’’پیش لفظ‘‘ زندہ رود،لاہور ،شیخ غلام علی اینڈ سنز ،۱۹۷۹ء ،ص:۱،ب
۴۱۰۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’مے لالہ فام ‘‘ لاہور ،اقبال اکادمی پاکستان ،طبع اول ،۱۹۹۶ء ،ص:۴۲
۴۱۱۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ’’اپنا گریباں چاک‘‘ ،لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز ،۲۰۰۲ء ،ص:۲۱
۴۱۲۔ ایضاً،ص:۲۱، ۲۲
۴۱۳۔ عائشہ اسلم ،’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘ ،ص:۱۲۸
۴۱۴۔ ڈاکٹر انور سدید، ’’مختصر اردو افسانہ عہد بہ عہد ‘‘ ص:۶۶۲
۴۱۵۔ عائشہ اسلم، ’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘،ص:۱۳۰
۴۱۶۔ رفعت ،’’عینک‘‘ مشمولہ ’’الا بصار ‘‘ گورنمنٹ ڈگری کالج ڈسکہ ۲۰۰۳ء ،ص۳۴۹، ۳۵۰
۴۱۷۔ عائشہ اسلم ،’’سیالکو ٹ میں افسانہ نگاری ‘‘ ،ص:۱۰۵
۴۱۸۔ ڈاکٹرا نور سدید،’’مختصر اردو افسانہ عہد بہ عہد‘‘ ،ص:،۶۵۸
۴۱۹۔ عائشہ ااسلم ،’‘سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘ ،ص:۱۴۰
۴۲۰۔ مسرت محمود ’‘اجلی زمین میلا آسمان ‘‘ مشمولہ ’’مجلہ مفکر‘‘ گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ ،نشست دوم ،۱۹۹۳ء ،ص:۱۹
۴۲۱۔ راقم الحروف نے مذکورہ معلومات خواجہ اعجاز احمد بٹ سے ۱۱ جنوری ۲۰۱۵ء کو اقبال منزل سیالکوٹ میں ایک انٹر ویو میں حاصل کیں۔
۴۲۲۔ ریاض حسین چودھری ’’اعجازبٹ‘‘ مشمولہ ’’ماہنامہ محفل‘‘ لاہور اپریل ۱۹۶۸ء ،ص:۹۷
۲۲۴۔ خواجہ اعجاز بٹ،’’واپسی‘‘ لاہور، مشعلِ ادب ،اگست ۱۹۶۶ء ،ص:۹۸
۴۲۵۔ خواجہ اعجاز بٹ،’’سنگریزے ‘‘ کراچی ،فکر نو ادارہ ،۱۹۶۸ء ،ص :۵۹
۴۲۶۔ ماہنامہ ’’محفل ‘‘ لاہور، جنون ۱۹۵۹ ء ،ص:۹۱
۴۲۷۔ خواجہ اعجا زاحمد ،سنگریزے ،ص :۳۲
۴۲۸۔ ڈاکٹر انور سدید، ’’اعجاز بٹ‘‘مشمولہ ’’اردو زبان‘‘ سرگودھا ،س ن۔ ص:۲۱
۴۲۹۔ فرخ درانی ،’’اعجا ز بٹ‘‘ مشمولہ روزنامہ ’’نوائے ملتان‘‘ ۱۳ ۔اگست ۱۹۸۵ء ،ص:۴
۴۳۰۔ صلاح الدین ندیم ’’پیش لفظ ‘‘ مشمولہ ’’پیاسے بادل‘‘ لاہور مکتبہ حسن کار، فروری ۱۹۶۹ء ،ص:۱۳، ۱۴
۴۳۱۔ خواجہ اعجاز احمد بٹ، ’’پیاسے بادل‘‘ ،ص:۴۸
۴۳۲۔ جوگندر پال ،فلیپ،’’کرچیاں‘‘
۴۳۳۔ ڈاکٹر سلیم اختر، فلیپ ’’کرچیاں‘‘
۴۳۴۔ شفیق جالندھری ’’کتابیں آپ کی رائے ہماری ‘‘ مشمولہ ’’جمہور‘‘ لاہور ۱۱ جنوری ۱۹۷۳ء ،ص:۴
۴۳۵۔ میٹرک کی سند، قومی شناخی کارڈ اور پاسپورٹ میں یہی پتہ او ر تاریخ درج ہے۔
۴۳۶۔ محمد نوید، ’’سرمد صہبائی کی ادبی خدمات‘‘،ص:۱۳
۴۳۷۔ ایضاً،ص:۱۳، ۱۴
۴۳۸۔ ایضاً،ص:۱۴
۴۳۹۔ ڈاکٹر فوزیہ رفیق، ’’دیباچہ ،کٹھ پتلیوں کا شہر‘‘ ،از سرمد صہبائی لاہور، فوکس پریس لمٹیڈ ،۱۹۷۳ء ،ص:۲۲
۴۴۰۔ ایضاً،ص:۵۴
۴۴۱۔ ایضاً،ص:۲۵
۴۴۲۔ ایضاً،ص:۴۷
۴۴۳۔ ایضاً،ص:۴۸
۴۴۴۔ ایضاً،ص:۴۹
۴۴۵۔ ایضاً،ص:۴۹،۵۰
۴۴۶۔ ایضاً،ص:۴۵
۴۴۷۔ ایضاً،ص:۶۵
۴۴۸۔ ایضاً،ص:۶۶
۴۴۹۔ ایضاً،ص:۷۰
۴۵۰۔ ایضاً،ص:۳
۴۵۱۔ ایضاً،ص:۷۸،۷۹
۴۵۲۔ ایضاً،ص:۵۷
۴۵۳۔ ایضاً،ص:۱۲۲
۴۵۴۔ ایضاً،ص:۷۸
۴۵۵۔ سرمد صہبائی، ’ ’حیش‘‘ (غیر مطبوعہ)، لاہور، مخزونہ الحمرا لائبریری ،۱۹۷۱ء،ص:۵
۴۵۶۔ ایضاً،ص:۱۱
۴۵۷۔ پمفلٹ ،ڈرامہ ’’شعر لا شعر‘‘ ،پر مذکورہ عبارت درج ہے۔
۴۵۸۔ یہ ایک اخباری تراشہ ہے جس پر اخبار کا نام نہیں لکھا۔ صرف ’’لاہور نامہ‘‘ کے عنوان سے چند سطریں انتظار حسین کے نام لکھی ہوئی ہے۔
۴۵۹۔ گلزار آفاقی، ’’اشرف المخلوقات ‘‘ راولپنڈی ،’’نوائے وقت‘‘ ۱۲۔اپریل ۱۹۸۰ء ،ص:۵
۴۶۰۔ عطا الحق قاسمی، ’’سرمد صہبائی ‘‘ ،مشمولہ ’’روزنامہ نوائے وقت ‘‘،لاہور ۱۸ دسمبر ۱۹۷۳ء ،ص:۴
۴۶۱۔ راقم الحروف کا پروفیسر یوسف نیر کا انٹر ویو، بتاریخ ۱۵ مارچ ۲۰۱۵ء
۴۶۲۔ ممتاز منگلوری ،’’دہلی کالج کی ادبی خدمات‘‘مشمولہ ’’تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند‘‘،آٹھویں جلد، ۱۹۷۱ء ،ص:۹۵
۴۶۳۔ یوسف نیّر، ’’مطالعہ احوال‘‘مشمولہ ’’مرے کالج میگزین‘‘مفکر نشست دوم ،۱۹۹۳ء ،ص:۶۸
۴۶۴۔ ایضاً,ص:۷۰
۴۶۵۔ عائشہ اسلم،’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘،ص:۱۵۶
۴۶۶۔ جان کاشمیری ’’فیضانِ عشق ایک ہشت پہلو ہیرا‘‘،مشمولہ ’’فیضانِ عشق ‘‘،از خالدہ سلطانہ نگار،لاہور ،ایوانِ علم و فن پاکستان ،۲۰۰۱ء ،ص:۶
۴۶۷۔ خالدہ سلطانہ نگار، احساس جرم ،مشمولہ ’’فیضانِ عشق ‘‘،ص:۱۵۷
۴۶۸۔ جان کاشمیری ،’’فیضانِ عشق ایک ہشت پہلو ہیرا ‘‘،ص:۱
۴۶۹۔ امین خیال(فلیپ) ’’فیضانِ عشق‘‘
۴۷۰۔ عائشہ اسلم ،’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘،ص:۱۵۰
۴۷۱۔ قیصرہ حیات،’’بارش کے بعد‘‘،لاہور ،الحمد پبلی کیشنز ،۱۹۹۷ء ،ص:۱۲
۴۷۲۔ احمد عقیل روبی ،دیباچہ ،’’بارش کے بعد‘‘،از قیصرہ حیات، ص:۹
۴۷۳۔ قیصرہ حیات، ’’نباہ‘‘،مشمولہ ’’بارش کے بعد‘‘،ص:۵۱
۴۷۴۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ’’بارش کے بعد‘‘،مشمولہ ’’نوائے وقت‘‘،لاہور ،۱۰ ۔اکتوبر ۱۹۹۷ء ،ص:۲
۴۷۵۔ عائشہ اسلم ،’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘،ص:۱۴۵
۴۷۶۔ غزالہ شبنم ،اعتراف ،مشمولہ ’’باقی ہوس‘‘،لاہور ،فکشن ہاؤس ،۲۰۱۰ء ،ص:۸۱
۴۷۷۔ ضیاء المصطفیٰ ترک ،مقدمہ ’’باقی ہوس‘‘،ص:۱۱
۴۷۸۔ بانو قدسیہ،(تبصرہ) ’’کچھ افسانوں کے بارے میں ‘‘،مشمولہ ’’باقی ہوس‘‘،ص:۸
۴۷۹۔ غزالہ شبنم ،’’جونک‘‘ مشمولہ ’’باقی ہوس‘‘،ص:۱۹
۴۸۰۔ مصنف کی تاریخ پیدائش اور پیدائش کے پتہ کی معلومات مصنف کی میٹرک کی سند اور شناختی کارڈ سے حاصل کی گئی ہیں۔
۴۸۱۔ درج ذیل معلومات یونیورسٹی آف سرگودھا کے پی ایچ ڈی اردو کے طالب علم پروفیسر احمد عبداﷲ سے حاصل کی گئی ہیں جونصیر احمد کے ہم جماعت ہیں۔
۴۸۲۔ پروفیسر یوسف نیّر،’’آزادی کشمیر۔ ہماری دعا‘‘مشمولہ ’’ٹارچر سیل سے شہادت تک ‘‘ از نصیر احمد ،لاہور ،مکتبہ تعمیر انسانیت،۲۰۰۳ء ،ص:۵
۴۸۳۔ پروفیسر رانا عبدالماجد خان(فلیپ) ’’ٹارچر سیل سے شہادت تک ‘‘
۴۸۴۔ نصیر احمد،’’عرضِ حال‘‘ مشمولہ ’’ٹارچر سیل سے شہادت تک‘‘،ص:۸
۴۸۵۔ عائشہ اسلم ،’’سیالکوٹ میں افسانہ نگاری ‘‘،ص:۱۶۴
۴۸۶۔ نصرت جان ،’’مایوس شہزادہ اور ابابیل ‘‘،سیالکوٹ ،سٹی میگ ،یکم فروری تا ۱۵ فروری ۲۰۱۰ء ،ص:۶۵
۴۸۷۔ نصرت جان ،’’ٹوٹے پروں کے سنہری خواب‘‘،سیالکوٹ،سٹی میگ مارچ ۲۰۱۰ء ،ص:۳۵
۴۸۸۔ نصرت جان ،’’روشن ستارے‘‘،اخبار سیالکوٹ،۱۶ تا ۲۰ اگست ۲۰۱۰ء ،ص:۴
۴۸۹۔ عمیرہ احمد ،فلیپ ،’’لا حاصل‘‘،لاہور ،فیروز سنز ،۲۰۱۶ء
۴۹۰۔ ایضاً،فلیپ
۴۹۱۔ عمیرہ احمد، ’’حاصل‘‘ ،لاہور ،علم و عرفان پبلشرز،۲۰۰۱ء ،ص:۲۳
۴۹۲۔ ایضاً،ص:۲۵
۴۹۳۔ ایضاً،ص:۲۵
۴۹۴۔ ایضاً،ص:۷۹
۴۹۵۔ ایضاً،ص:۸۶
۴۹۶۔ عمیرہ احمد، ’’ایمان اُمید اور محبت‘‘، لاہور ،علم و عرفان پبلشرز ،۲۰۰۵ء ،ص:۱۲۳
۴۹۷۔ عمیرہ احمد، ’’لا حاصل‘‘، لاہور ،علم و عرفان پبلشرز ،۲۰۰۶ء ،ص:۲۵۱
۴۹۸۔ عمیر ہ احمد،’’ایمان اُمید اور محبت‘‘، ص۱۲۳
۴۹۹۔ ایضاً،ص:۶۶
۵۰۰۔ عمیرہ احمد، ’’پیر کاملؐ ‘‘،لاہور ،فیروز سنز،بار اول ،۲۰۰۵ء ،ص:۹۱
۵۰۱۔ عمیرہ احمد، ’’دربارِ دل ‘‘،لاہور ،علم و عرفان پبلشرز ،۲۰۰۵ء،ص:۱۰۵
۵۰۲۔ ایضاً،ص:۱۲۱
۵۰۳۔ ایضاً،ص:۱۷
۵۰۴۔ ایضاً،ص:۸۷
۵۰۵۔ ایضاً،ص:۶۹
۵۰۶۔ عمیرہ احمد، ’’پیر کاملؐ‘‘ ،لاہور ،فیروز سنز ،۲۰۰۵ء ،ص:۷۶
۵۰۷۔ عمیرہ احمد، ’’دربارِ دل‘‘ ،ص:۱۲۳
۵۰۸۔ عمیرہ احمد، ’’لا حاصل‘‘،ص:۱۵۱
۵۰۹۔ عمیر ہ احمد ’’دربارِ دل ‘‘ ،ص:۱۳۳
۵۱۰۔ عمیرہ احمد،’’لا حاصل‘‘،ص:۱۵۴
۵۱۱۔ عمیرہ احمد، ’’روبرو ‘‘ ص:۳۵
۵۱۲۔ عمیرہ احمد’’ایمان اُمید اور محبت ‘‘،ص:۴۲
۵۱۳۔ ایضاً،ص:۴۰
۵۱۴۔ ایضاً،ص:۷
۵۱۵۔ راقم الحروف کا کومل شہزادی سے انٹرویو ، بمقام سیالکوٹ، بتاریخ ۴ /اپریل ۲۰۲۳

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...