Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > باب چہارم: خطہء سیالکوٹ تنقید

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

باب چہارم: خطہء سیالکوٹ تنقید
ARI Id

1688382102443_56116189

Access

Open/Free Access

باب چہارم

خطۂ سیالکوٹ ۔ تنقید

(الف) اقبال شناسی

          ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی (۱۹۰۷ء۔۱۹۹۰ء) کا اقبال شناسوں میں اہم مقام و مرتبہ ہے نہ صرف سیالکوٹ میں بلکہ عالمی سطح پر اقبال شناسی کی روایت میں خواجہ عرفانی ایک اہم نام ہے۔ اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کا سہرا خواجہ عرفانی کے سر جاتا ہے۔ عرفانی صاحب کی ادبی خدمات بے پایاں ہیں مگر ہمیں یہاں صرف عبدالحمید عرفانی کی اقبال شناسی کا جائزہ لینا ہے۔ اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کے لیے ’’رومی عصر‘‘ جیسی مدلل کتاب، پاکستان میں جنم لینے والی مشہور عشقیہ داستانوں کو ’’داستان پائے عشق پاکستان‘‘ کے نام سے ایرانیوں کے لیے ’’ضربِ کلیم‘‘ کا فارسی ترجمہ لکھنا اور عبدالحمید عرفانی کی بے پایاں محنت اور اقبال سے محبت کی غماز ہیں۔ خواجہ عبدالحمید عرفانی نے علامہ اقبال پر ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ ،’’اقبالِ ایران‘‘ اور ’’پیامِ اقبال‘‘تین کتابیں لکھی ہیں۔

           ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں ‘‘ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال سے آشنا ہونے کے بعد اہلِ علم ایرانیوں کی اقبال کے بارے میں رائے اپنے بزرگ شعرا جیسی تھی۔ اور وہ اقبال کو حافظ ،جامی ،سعدی اور رومی کی صف میں شمار کرنے لگے تھے۔ ’’اقبال ایران‘‘ میں عرفانی نے اپنے قیام ایران کے دوران اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کی جدوجہد، ایرانیوں کی اقبال سے آشنائی اور ایرانیوں کی اقبال اور پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ ’’پیامِ اقبال‘‘ میں عرفانی صاحب نے طلبا کی سہولت کے لیے اقبال کے پیغام کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کیا ہے۔ اقبال کو ایران میں متعارف کرانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس دوران عرفانی صاحب کو بہت سی مشکلات در پیش آئیں۔ جن کا تذکرہ انھوں نے ’’اقبال ایران‘‘ میں کیا ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے ’’اقبالِ ایران‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے۔ تاکہ اقبال ایران میں متعارف کرانے اور قیام ایران کے دوران عرفانی کی مصروفیات کا اندازہ ہو سکے۔

          اس کے بعد ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ کا جائزہ لیا جائے گا اور ’’پیامِ اقبال‘‘ پر تبصرہ آخر میں کیا جائے گا۔

           ’’اقبال ایران‘‘ ۱۹۸۶ء میں بزمِ رومی سیالکوٹ نے شائع کی۔ اس کتاب میں عرفانی نے اپنے قیام ایران کے یادگا ر لمحات ،ایران کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں اور اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کے سلسلے میں کی گئی کاوشوں کے نقوش محفوظ کیے ہیں۔ڈاکٹر عرفانی ایک ایسے عظیم محب وطن پاکستانی ہیں۔ جنھوں نے ایران میں پاکستان دوستی کا لازوال جذبہ پیدا کرنے کے لیے انتھک محنت کی ۔ وہ فارسی لکھنے اور بولنے پراہل ِ زبان کی سی قدرت رکھتے تھے اور سالہا سال ایران میں رہ کر ایرانیوں کے مزاج شناس بن گئے تھے۔ اور یہ چیز ان کے مشن (یعنی ایران میں پاکستان دوستی کا لا زوال جذبہ پیدا کرنا اور اقبال کو ایران میں متعارف کرانا) کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بہت کام آئی۔ ’’اقبال ایران‘‘ میں یہ ساری باتیں ہماری سامنے آتی ہیں اور بقول ڈاکٹر محمد باقر ’’اقبالِ ایران‘‘ کے اوراق پر ۱۹۴۴ء سے لے کر ۱۹۸۰ء تک کی پرارزش اور دلچسپ داستانیں بکھری نظر آتی ہیں۔‘‘(۱)

           ’’اقبالِ ایران‘‘ گیارہ ابواب پر مشتمل تصنیف ہے۔ کتاب کے دیباچے میں مصنف نے ’’گزارشِ احوال‘‘ کے عنوان سے اپنے والد کی وفات ،علامہ اقبال سے آشنائی ،اپنے تایا مولوی الف دین ، اپنی سرکاری ملازمت ایران سے روابط کا آغاز، ایران میں تقرری وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی ایران کے بعض شعرا اور ایران میں اقبال کو متعارف کرانے کے طریقے پر مختصر روشنی ڈالی ہے اور آخر میں کتاب لکھنے کے مقصد کی یوں وضاحت کی ہے:

شاید میری کٹی پھٹی نا ممکن یادداشتیں ایرانیوں کے بے لوث اور پر محبت احساسات کی تھوڑی بہت نشاندہی اور چند ممتاز ادبی شخصیتوں کے اظہارات ریکارڈ کرنے میں ممد ثابت ہوں۔(۲)

          پہلے باب میں عرفانی نے قیام پاکستان سے پہلے ۱۹۴۵ء میں اپنی ایران تقرری کا ذکر کیا ہے۔ او رقیام پاکستان سے پہلے ایران میں استقلال پاکستان کے بارے میں جو منفی رویہ پایاجاتاتھا اس کا تذکرہ بھی اس ابتدائی باب میں ملتا ہے۔ اس وقت بقول عرفانی:

اہلِ ایران قیام پاکستان کو فرنگی استعمار کی سازش اور مغربی ملکوں کے مفاد کا قلعہ سمجھتے تھے۔(۳)

          مئی ۱۹۴۷ء میں عرفانی دلی واپس آگئے ۔قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۹ء میں انھیں ایران میں پاکستان کا پہلا پریس اینڈ کلچرل اتاـشی مقرر کیا گیا اور عرفانی نے نہایت نا مساعدحالات میں اپنا کام شروع کیا ۔بقول عرفانی:

خاکسار ایک بیرونی ملک میں پہلا پریس اتاـشی تھا جس کو دفتر کلرک ،ٹائپسٹ ،مترجم ،قاصد تک کی مدد میسر نہ تھی۔ بس ایک میں تھا اور میرا قلم…………(۴)

          اس کے بعد عرفانی نے ایرانی پریس کی ممتاز شخصیتوں سے اپنی ملاقات اور علمائے کرام سے براہ راست رابطہ کا ذکر کیا ہے۔ اس باب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ عرفانی نے ابتدا سے ہی یہ کوشش کی کہ پاکستان کے بارے میں ایرانیوں کی رائے تبدیل کرنے کے لیے نظریہ پاکستان کا اصل مفہوم ایرانیوں پر آشکار کیا جائے اور جلد ہی اس کے مثبت آثار ظاہر ہونے لگے اور ایرانی علما جلسوں میں واضح طورپر کہنے لگے:

ہمیں آج ہی عرفانی نے اقبال اور تحریکِ پاکستان کے پس منظر اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے آگاہ کیا ہے۔(۵)

          اس کے بعد عرفانی نے ایک یاد گار جلسے کا ذکر کیا ہے جس میں انھوں نے اقبال اور اس کے کلام کو پہلی مرتبہ باقاعدہ طورپر ایرانیوں سے متعارف کرایاہے۔

          دوسرے باب میں عرفانی نے راجہ غضنفر کے ایما پر ایران کے صوبائی مراکز کے دوروں کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں ایرانیوں نے عرفانی کے ساتھ جس عقیدت کا اظہار کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرفانی کو ایران میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ گورنر اصفہان کی طرف سے عرفانی کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور سندھ شہریت عطا کرنے کی تجویز پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عرفانی سے ایران کے ہر خاص و عام کو خاص انس پیدا ہو گیا تھا۔

          اس باب میں عرفانینے تاریخی مقامات کی سیر کا بھی ذکر کیا ہے اور تخت جمشید کو روش کے پایۂ تخت پازار گاد کے کھنڈرات کی سیر کے ساتھ مزارات سعدی و حافظ کی زیارت کے واقعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ شیراز، تبریز اور آذر بائیجان کے سفر کی روداد بھی اس باب میں ملتی ہے۔ دوران سفر انھوں نے مقامی مشاہیر سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اور ایران میں اپنی پہلی شائع ہونے والی تصنیف ’’روس عصر‘‘کی اشاعت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ جسے ایران میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

          ایک خاص بات جو اس کتاب کے تقریباً ہر باب میں ملتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ عرفانی جہاں بھی جاتے ہیں نظریہ پاکستان کے اصل مفہوم اور اقبال کے کلام کو ایرانیوں کے سامنے پیش کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ساتھ ہی پاکستان اور اقبال کے بارے میں ایرانیوں کے نئے جذبات اور احساسات بھی پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔

          تیسرے باب میں عرفانی نے ایران اور پاکستان کے علمی اور ثقافتوں کے رابطوں کی بحالی کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں سب سے پہلے ایران کے پہلے کلچرل اتاشی پروفیسر مشائخ فریدنی کے ۱۹۴۹ء میں پاکستان میں تقرر کا ذکر کیا ہے اوران دو ملکوں کے مابین ڈیڑھ سو سال کی دوری اور جدائی کے بعد تجدید و توسیع و تحکیم کی روایت کی روح پر ور داستان بڑے موثر انداز میں بیان کی ہے۔ اس باب میں شاہ ایران ،رضا شاہ پہلوی کے تاریخی دورہ پاکستان کا مختصر ذکر بھی ملتا ہے۔جن میں ملک الشعرا بہار اور ڈاکٹر کپکینہ کاظمی خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ یہاں عرفانی نے پروفیسر مشائخ فریدنی کی ممتاز حسن اور قدر ت شہاب سے بھی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اور ساتھ ہی ڈاکٹر اشتیاق حسین ،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ،سر ظفر اﷲ اور شیخ محمد اکرام کی تہران میں آمد کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ایران و پاکستان کلچرل سو سائٹی (انجمن دلہا) اور انجمن ادب ایران و پاکستان کے قیام کا ذکر بھی اس باب میں ملتا ہے۔

          چوتھے باب میں ایران میں ڈاکٹر محمد باقر کی آمد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان کی ایران کی اہم ادبی شخصیات سے ملاقاتوں او رتقریبات میں شرکت کا تذکرہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ملک الشعرا بہار کے دلگداز قصیدہ’’دورہ پاکستان‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ جس میں علامہ اقبال ،قائد اعظم اور شہدائے پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اور ایران و پاکستان کے اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں عرفانی نے ملک الشعرا بہار کے ساتھ گزارے گئے وقت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں ان کی بہار سے جذباتی وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔ اس باب میں بہار کے پاکستان کے متعلق خیالات، بہار سے عرفانی کی پہلی ملاقات ،بہار کی تحریک پر عرفانی کی مقالہ نویسی کا آغاز ،بہار کے تاریخی قصیدہ، دورہ پاکستان ،بہار کے آخری خطاب،بہار کے آخری خط، بہار کے نام عرفانی کے آخری منظوم خط، بہار کی سیاسی وملی شاعری کا تذکرہ عرفانی نے نہایت عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بہار سے عرفانی کو دلی وابستگی تھی اور بہار بھی عرفانی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تاریخی دو بیتی اس کا بین ثبوت ہے۔

دوش آمد پی عیادت من

ملکی در لباس اِنسانی

تعتمں چیست نام پاک تو؟ لعنت

خواجہ عبد الحمید عرفانی(۶)

          اس باب سے ایران میں اقبال کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ چھٹے باب میں ’’شاعر ملی ایران‘‘ سید صادق سرمد کے ساتھ عرفانی نے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ساتھ ہی سرمد کی شاعری پر اظہار رائے بھی ہوا ہے۔سرمد اقبال کے انقلاب انگیز پیغام سے بے حد متاثر ہوئے اور بقول عرفانی:

راقم(عرفانی) کے خیال میں کسی ایرانی یا پاکستانی شاعر نے اقبال اور اس کی تعلیمات اور پاکستان ’’اقبال‘‘ پر اتنی نظمیں نہیں لکھیں جتنی اس فرد واحد صادق نے……(۷)

          اس باب کے آغاز میں اقبال کی تجلیل میں سرمد کے پہلے قصیدہ او ر عرفانی کی تصنیف ’’شرح احوال و آثار ملک الشعراء بہار‘‘ کی ایران میں اشاعت پر سرمد کے تہنیتی خط کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس باب میں سرمد کی اقبال اور پاکستان سے بے پناہ محبت کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔ چنانچہ سرمد کے قصائد سے جو اشعار منتخب کیے گئے ہیں ان سے عقیدت کا صاف اظہار ہوتا ہے۔ عرفانی سرمد سے بے انتہا متاثر تھے۔ چنانچہ انھوں نے سرمد کی زندگی اور شاعری پر ’’سرور سرمد‘‘ نامی کتاب بھی لکھی اور ’’اقبال ایران ‘‘ کے اس باب میں بھی سرمد کی شاعری کی نمایاں خصوصیات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

          ساتویں باب میں مختصراً اس پروپیگنڈہ کا تذکرہ کیا گیا ہے جو بھارتی رہنماؤں نے پاکستان کے قیام کے خلاف گھڑاتھا اور جس کی وجہ سے ایرانی پاکستان کو فرنگی استعمار کی سازش اور مغربی ملکوں کے مفاد کا قلعہ سمجھ بیٹھے تھے مگر عرفانی نے اس منفی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور موثر انداز میں قیام پاکستان کے اصل مقصد کو ایرانیوں کے سامنے پیش کیا اور اس مقصد میں انھیں جو کامیابی حاصل ہوئی اس پر حیرانی بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی۔

          اگلے چار ابواب میں عرفانی نے ایران میں سفیر ہند سے اپنی دلچسپ نوک جھونک ،وزیر اعظم ایران ڈاکٹر مصدق کا اپریل ۱۹۵۲ء میں یومِ اقبال پر اقبال کو خراجِ عقیدت اقبال کے منفرد عقیدت مند احمد سروش سے شناسائی اور ’’کلیاتِ اقبال‘‘ فارسی کی اشاعت ۱۹۶۸ء میں آر ۔ سی ۔ڈی کے زیرِ اہتمام اپنے تین ماہ قیام کے ایران اور اقبال پر ڈاکٹر علی شریعتی کے طویل مضمون کا اقتباس پیش کیا ہے۔

          ان ابواب کے جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عرفانی نے ’’اقبال ایران‘‘ میں اپنی زندگی کے یادگار لمحات اور نقو ش محفوظ کر نے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے بارے میں ایرانیوں کی ابتدائی رائے(جو اچھی نہ تھی) او ر عرفانی کی کوششوں سے اس رائے میں مثبت تبدیلی اور اقبال کی ایران میں مقبولیت کے اسباب کا اندازہ بھی اس کتاب کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ ساتھ ہی بقول ڈاکٹر محمد باقر ’’اقبالِ ایران‘‘ میں:

پاکستان کے متعدد سفیر اور عظیم شخصیتیں ایران سے مختلف النوع روابط قائم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ملک الشعرا بہار سے لے کر ڈاکٹر علی شریعتی تک کو عرفانی اپنی شخصیت ،قوت بیان اور پاکستان و اقبال شیفتگی سے متاثر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور انھیں پاکستان او ر اقبال کا گرویدہ بنا دیتے ہیں۔(۸)

          اقبال شناسی کے حوالے سے ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ عرفانی کی دوسری اہم تصنیف ہے ۔ جو اپریل ۱۹۵۷ء میں اقبال اکیڈمی پاکستان کراچی نے شائع کی۔ ’’اقبال ایران‘‘ پر تبصرہ میں عرفانی کی ان کاوشوں کا ذکر ملتا ہے جو انھوں نے پاکستان او ر اقبال کو ایران میں مقبول بنانے کے لیے کیں۔ ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ کے آغاز میں عرفانی نے ایک جامع مقدمہ لکھا ہے جو کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔

          بہار اور اقبال ،اقبال اور محیط طباطبائی ،اقبال اور سعید نفیس ،اقبال اور ڈاکٹر حسین خطیبی ،آقای محبتیں بینوی اور اقبال ،ڈاکٹر گچکینہ کاظمی اور اقبال ،اقتباس از مقالہ داعی الا سلام ،اقتباس از سحرانی علامہ اکبر دھحرا ،انتخاب از خطابہ سید حسن تقی زادہ، خطابہ ڈاکٹر منوچہر اقبال ،اقتباس سخزانی ،مشایخ فریدنی ، اقتباس از شامہ آقای حبیب اﷲ آموز گار، اقتباس از ڈاکٹر علی صورت گر ،اقتباس از مقالہ آقای صادق دشات ،اقتباس از سخزانی ڈاکٹر ناظر زادہ کرمانی ،اقتباس از معادہ آقای عبدالحسین نوائی ،سرمد اور اقبال ،قصیدہ از آقائی کاظم رجوی ،قصیدہ از آقای ادیب بر و مند،اقتباس از قصیدہ آقای حبیب یعانی ،قصیدہ ڈاکٹر قاسم رسا، قصیدہ آقای علی صدارت نسیم ،اقتباس از اشعار آقای گلچین معانی ،قصیدہ آقای علی خدائی ، قصیدہ آقائی رجائی، قصیدہ آقائی طالعانی ،ایران کے وزرا اعظم کے پیغام اور متفرقات تیس مضامین کی فہرست مقدمہ کے بعد ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں ‘‘ شامل ہے۔

          درج بالا فہرست مضامین سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں وہ مضامین معاملات، قصائد شامل ہیں جس میں ایرانیوں نے اقبال کی عظمت کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔ ساتھ ہی ایران کے وزیر اعظم کے پیغامات بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا کلام ایران کے ہر خاص و عام کے دل پر اثر کر رہا ہے۔ متفرقات میں ایران کے روزناموں میں سے ایسے اقتباس پیش کیے گئے ہیں جن میں اقبال کو پر خلوص خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور چند اشعار اور قصائد سے اقتباسات بھی اس حصے میں شامل کیے گئے ہیں۔

           ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘……کتاب کا عنوان اس کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے اور قارئین کی توجہ اس کی ظاہری صورت سے ہی اس کے مطالب کی طرف منعطف ہو جاتی ہے۔ اس موضوع پر اردو زبان میں اب تک کوئی کتاب موجود نہیں تھی او ر اس کا سبب یہ تھا کہ کوئی شخص پاکستان میں بیٹھ کر اس موضوع پر قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے نام سے وجود میں آئی اور ایران سے صدیوں منطقع سیاسی اور تمدنی تعلقات ازسر نو قائم ہوئے ۱۹۴۹ء میں ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی پریس اور کلچرل اتاشی کی حیثیت سے ایران گئے۔(۹)اگرچہ اس سے قبل بھی عرفانی انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں حکومتِ ہند کی طرف سے کلچرل نمائندہ کے طورپر ایران رہ چکے تھے لیکن ان کی موجودہ حیثیت نہ صرف جدا گانہ تھی بلکہ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ممتاز بھی تھی۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ایران میں اپنے ہفت سالہ قیام کے دوران جس تن دہی اور جس خوبی سے کام کیا و ہ انھیں کا حصہہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کا خیال عرفانی کے دل میں کیوں آیا؟ اس بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں:

میرا یہ مقدس فرض ہے کہ ایرانیوں کے پر محبت تاثرات اور ان کا نہایت دوستانہ اور بے نظیر عکس العمل جو اقبال کے متعلق میں نے گزشتہ سات سال کے عرصہ میں دیکھا۔ سنایا پڑھا اپنے ہم وطنوں کے لیے مثبت و ضبط کردوں۔(۱۰)

           ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ میں شامل عرفانی کا مقدمہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں عرفانی نے ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کی بنا پر اقبال کو بہت کم ایرانی جانتے ہیں۔ ان وجوہات سے اکثر کا ذکر اقبال ایران میں ہوا ہے۔ البتہ ایک اہم بات کی طرف بھی عرفانی نے توجہ دلائی ہے جس کا ذکر پہلے نہیں کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ تقسیم پاکستان تک اقبال کے کلام کا بہت ہی کم حصہ ایران پہنچ سکا تھا۔ اقبال کی نظمیں افغانستان کے بعض رسالوں کے ذریعے ایران پہنچی تھیں اس حوالے سے عرفانی لکھتے ہیں:

مجھے ڈاکٹر خانلری ،پروفیسر تہران یونیورسٹی نے ایک قدیم نسخہ مجلہ سیاچن کا دکھایا جس میں اقبال کی ایک نظم درج تھی۔ جو کابل کے ایک رسالے سے نقل کی گئی تھی اور غلطی سے اقبال کو افغانستان کا شاعر تسلیم کیا گیا تھا۔(۱۱)

          ایران میں اقبال کے مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ عرفانی کے خیال میں اقبال کا طرز بیان تھا جو معاصر ایرانی شعرا سے مختلف تھا۔ اقبال کی زبان اور طرزِ بیان قدما، متوسطین اور متاخرین شعرا کلاسیک فارسی کے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔

          اقبال کی ’’پیامِ اقبال‘‘ مستقل اور مدلل تصنیف نہیں ہے بلکہ اپریل ۱۹۷۴ میں یومِ اقبال پر خواجہ عبدالحمید عرفانی نے ۱۵ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا جسے بزمِ اقبال اسلامیہ کالج گوجرانوالہ نے شائع کیا۔ اس رسالے میں کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال کے اہم خصائص پر اجمال کے ساتھ تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس رسالے میں سب سے پہلے تو خواجہ عبدالحمید عرفانی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کا پیام اور ان کا فلسفہ قرآن حکیم سے ماخوذ ہے ۔اس کے بعد اقبال نے اپنے کلام میں جن اہم عصری مسائل اور سیاسی نظامات پر تبصرہ کیا ہے۔ ان کے بارے میں خواجہ عبدالحمید عرفانی نے اجمال کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ رسالہ طلبہ کے لیے تحریر کیا گیا کیونکہ عرفانی صاحب چاہتے تھے کہ طلبہ اقبال کے فلسفہ کو باآسانی سمجھ سکیں۔ چنانچہ عرفانی اس رسالہ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:

علامہ اقبال کی شخصیت شرحِ حال اور ان کے کلام و پیام کے متعدد پہلوؤں پر بلا شبہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے لیکن ہمارے نوجوان عدیم الفرصت طلبہ کے لیے علامہ کے بنیادی اور مرکزی عقائد و خیالات کو اختصار سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ بمصداق ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ اقبال کے واضح اور صریح اشعار بغیر کسی فلسفیانہ یا ادبی یا سیاسی تحلیل و تفسیر کے پیش کر دئیے جائیں تا کہ پڑھنے اور سننے والے اپنی اپنی صفائی دل اور پاکیزگی ضمیر کی روشنی میں براہِ راست لطف اندوز ہوں اور اپنی اپنی بساط اور استعداد کے مطابق استفادہ کر سکیں۔(۱۲)

          مضطر ؔنظامی(۱۹۰۹ء۔۱۹۶۹ء) خدا بخش شاعر نثر نگار کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔انھوں نے جب اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اس وقت اقبال آسمانِ شعر پر آفتاب بن کر چمک رہے تھے ۔مضطرؔ کو اقبال سے عشق تھا۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی اقبال کے کلام کا بغور مطالعہ کر لیا تھا اور ان کے بیشتر کلام کو ہاتھ سے لکھنے کی مشق بھی کی۔ اس طرح مضطرؔ کی نظر علامہ کے کلام پر شروع ہی سے بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔

          مضطرؔ کی اقبال شناسی کے حوالے سے پہلی تصنیف ’’مثنوی پس چہ کردا ے اقوام مشرق‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ مضطر ؔنے اقبال کی مثنوی کا اردو ترجمہ ۱۹۳۸ء میں کیا جو خود نوشت اور غیر مطبوعہ ہے۔ یہ مسودہ اکہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ اقبال کی مثنوی کا پہلا منظوم اردو ترجمہ ہے جو کتاب کی اشاعت کے تقریباً ایک سال بعد ہوا۔

           ’’اقبال کا عشقِ رسولؐ‘‘ مضطر ؔکی اقبالیات کے حوالے سے دوسری غیر مطبوعہ تصنیف ہے۔ مضطرؔ نظامی نے علامہ اقبا ل کے کلام کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان تمام اشعار کو جن میں عشقِ رسولؐ کی جھلک نمایاں ہے۔ ایک جگہ پر یکجا کر کے ’’اقبا ل کے عشقِ رسول‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ یہ مسودہ ایک سو ستر صفحات پر مشتمل ہے۔ اس انتخاب میں اردو اورفارسی کے سات سو دو اشعار پائے جاتے ہیں۔ جن میں عشقِ رسولؐ کی جھلک کسی نہ کسی صورت میں نمایاں ہے۔ ’’زجاج افرنگ‘‘ مضطر نظامی کی تیسری غیر مطبوعہ تصنیف ہے۔ مضطر نظامی نے کلام اقبال کا بنظر عمیق مطالعہ کرنے کے بعد ایسے تمام اشعار کو جن میں اہلِمغرب کی اسلام دشمنی کی کیفیت نمایاں ہے۔ ان کو ایک جگہ پر یکجا کر کے ’’زجاج افرنگ‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ یہ مسودہ پچیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں اردو اور فارسی کے ایک سو چھپن اشعار موجود ہیں۔ جن میں کسی نہ کسی صورت میں مغربی تہذیب اسلام کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہے۔

           ’’طاہر نامہ‘‘ مضطر نظامی کی چوتھی غیر مطبوعہ تصنیف ہے۔ مضطر نظامی نے طاہر نامہ(نصائح ،بزرگان بہ فرزندان) کے عنوان سے لکھا جس میں معروف و ممتاز شعرا علامہ اقبال ،ایرج مرزا، نظامی گنجوی ،حافظ سعدی ،فردوسی اور ستائی وغیرہ نے اپنے پسران کو جو نصیحتیں کی ہیں ان کو ترتیب دیا ہے۔ یہ نصیحتیں اُردو اور فارسی کلام پر مشتمل ہیں۔ یہ مسودہ سترہ صفحات پر مشتمل ہے اور موصوف کا خود نوشت ہے۔ ’’قرآنیات اقبال‘‘ (غیر مطبوعہ) مضطر نظامی کی ایسی تصنیف ہے جو قرآنی آیات کے مفہوم پر مبنی اشعار پر مشتمل ہے۔علامہ اقبال کے بہت سے اشعار قرآنی آیات کی تفسیر پیش کرتے ہیں۔ مضطرؔ نے کلامِ اقبال کا مطالعہ کرکے ایسے تمام اشعار کو ایک جگہ یکجا کرنے کی سعی کی ہے جو کسی حد تک ناتمام رہی اور یہ کوشش تین چار صفحوں سے تجاوز نہ کر سکی ، تقریباً بیس اکیس اشعار کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ کاوش بھی خود نوشت ہے۔ مضطرؔ نظامی نے اقبالیات پر اس وقت کام شروع کیا تھا جب اقبال ابھی زندہ تھے۔ مضطر کامثنوی پس چہ باید کرد کا منظوم اُردو ترجمہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا تذکرہ مضطرؔ کی اقبالیات کے حوالے سے تصانیف میں ہو چکا ہے۔ علامہ کو مضطر ؔنے جتنا سمجھا ہے وہ کسی دوسرے ماہر اقبال شناس سے کم نہیں ہے۔ مضطرؔ کی اقبال شناسی کی مختلف صورتیں ہیں جن میں اقبال کا عشقِ رسولؐ ،زجاج افرنگ،طاہر نامہ اور قرآنیات اقبال پیش پیش ہیں۔ مضطرؔ کی اقبال شناسی کا جائزہ مختصراً اسی ترتیب سے لیا جا تا ہے۔

          مضطر نے اقبال کے نعتیہ کلام کو ایک جگہ یکجاکر کے اہم کام کیا ہے۔ عام آدمی کی نظر میں تو یہ معمولی کام ہو سکتا ہے لیکن شائقین اقبالیات کے لیے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ایسا کام صرف اور صرف ایک اقبال شناس اور عشقِ رسولﷺ میں محوشخص ہی کر سکتا ہے جو اشعار کے مفہوم کا ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ شعر کی حقیقی روح کا عرفان رکھنے سے بخوبی واقف ہے۔ مضطر نے اقبال کے اُردو کلام میں سے چھتیس نظموں میں سے ایسا کلام منتخب کیا ہے جن میں عشقِ رسولؐ کی جھلک کسی نہ کسی طورپر نمایاں ہے۔ عشقِ رسولؐ کا موضوع علامہ اقبال کے فنی سفر کی ایک خاص جہت اور مخصوص پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ موضوع علامہ اقبال کی زندگی کا بنیادی موضوع اور مرکزی اوج کی حیثیت رکھتا ہے۔ مضطر نظامی کی دور بین اور حقیقت بین نگاہ نے عشقِ رسولؐ کے پہلو کی اہمیت و افادیت کا عرفان حاصل کرتے ہوئے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ وہ قاری جو علامہ کے کلام میں حُبِ رسول ؐ اور نعتیہ کلام کا متلاشی ہے اس کے لیے بڑی سہولت فراہم کر دی گئی ہے کہ وہ پورے کلام اقبال کا مطالعہ کرنے کی بجائے اقبال کا منتخب کلام(اقبال اور عشقِ رسولؐ) کا مطالعہ کر کے اپنا گوہر مقصود پا سکتا ہے۔ ایسا کام کسی ماہر اقبال شناس کا ہی ہو سکتا ہے۔ مضطر کا بحیثیت اقبال شناس ایک منفرد مقام ہے جس کی بنا پر انھوں نے یہ ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

          علامہ اقبال بنیادی طورپر افرنگی تہذیب کے زبردست مخالف تھے۔ انھوں نے ا س موضوع کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ۔مغربی تعلیمات کے بارے میں نفرت اور غم و غصہ کا اظہار ان کی شعری و نثری کاوشوں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ مضطر نے کلام اقبال میں سے ایسے تمام اشعار کو جن میں انگریز،ان کی تہذیب اور فرنگیوں کی اسلام دشمنی کی کیفیت نمایاں ہے۔ ان تمام اردو اور فارسی اشعار کو زجاج افرنگ کے نام سے ایک جگہ یکجا کر کے مرتب کیا ہے۔ زجاج فرنگ سے ایک طرف مضطر کی انگریزی تہذیب سے واقفیت سامنے آتی ہے اور دوسری طرف کلام اقبال کے گہرے مطالعہ کے خدوخال سامنے آتے ہیں جس سے مضطر کا اقبال شناس عنصر کھل کر سامنے آتا ہے۔

          اس مسودے کے مجموعی جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اقبال نے فرنگیوں کی اسلام دشمنی ،مغربی تہذیب کی اسلام کے خلاف چیرہ دستیوں ،ابلیسیت اور شیطانیت کے موضوع پر بہت سے اشعار کہے ہیں۔

          مضطرؔ نظامی کے ’’طاہر نامہ‘‘ سے ایک طرف شاعر کی مشاہیر ادب محبت، انسان دوستی اور نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کی روایات سے متعارف کرانے کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف مضطر کے بے پناہ وسعت مطالعہ کے آثار بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ انھوں نے ماضی اور حال کے مسلم نامور اور یگانہ قسم کے اہلِ علم حضرات کے تصورات ،نظریات ،خیالات و احساسات کا مطالعہ کس عمیق نظر سے کیا ہے او رپھر کسی خاص موضوع پر ان کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں مضطر نے زیادہ تر نصیحت آموز کلام اقبال منتخب کیا ہے۔ جس سے ان کی اقبال سے محبت اور اقبال شناسی کا موضوع سامنے آتا ہے۔ اقبال سے چونکہ مضطر ذہنی ،فکری اور روحانی طورپر بہت متاثر تھے اس لیے انھوں نے کلام اقبال کو جس گہری نظر سے دیکھا ہے اس کا عکس ’’طاہرنامہ‘‘ میں نظر آتا ہے۔

          اقبال چونکہ نظامی گنجوی ،حافظ ،سعدی ،سنائی اور فردوسی وغیرہ سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ اس لیے اقبال نے ان کے خیالات و نظریات سے استفادہ کیا ہے۔ مضطر نے اقبال کی طرح ان نادر روزگار ہستیوں کے کلام و کمال کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس کے بعد اس کے موضوع کے متعلق اشعار کو شعرا کے بڑے بڑے ضخیم دیوانوں سے منتخب کر کے ایک جگہ یکجا کیا ہے۔ درج بالا شعرا کا تعلق چونکہ فارسی زبان و ادب سے ہے اس لیے ان کا تمام کلام اور تخلیقات فارسی زبان میں ہیں۔ ان کے ادبی سرمائے کے عمیق مطالعے سے مضطر کی فارسی زبان میں دسترس کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو فارسی زبان و ادب میں کتنا عبور حاصل ہے۔

          ’’طاہر نامہ‘‘ مضطر کی ایک خوبصورت کا وش ہے اس سے نوجوان نسل کو انسانی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اسلاف کی روایات کس قدر اہم اور کارآمد ہوتی ہیں۔ اس کا پتہ چلتا ہے المختصر یہ کاوش ایک طرف ادب پارے کا درجہ رکھتی ہے تو دوسری طرف انسان کو زندگی کے پُر خطر اور کٹھن مرحلوں میں ایک مشفق راہنما کا درجہ بھی رکھتی ہے۔

           ’’قرآنیات اقبال‘‘ کے مطالعہ سے اقبال کی نظر قرآن مجید میں کتنی گہری تھی۔ دوسرے ان کا تفکر اور تصورقرآنیات سے کس قدر مملو تھا کا پتہ چلتا ہے کہ مضطر نظامی کا کلام اقبال میں قرآنی آیات کے مفہوم پر مبنی کلام کا تلاش کرنا ایک طرف اُن کے کلام پاک کے ساتھ ایک گہری وابستگی ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف ان کا قرآن فہمی کا عنصر کھل کر سامنے آتا ہے۔ ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ مضطر کی نظر مفاہیم قرآن پر کس قدر گہری تھی ۔ اس کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جس سے مضطر کی اقبال شناسی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔

          قرآنیات اقبال علامہ کے فنی سفر کی ایک الگ جہت ہے جس کو مضطر کی عمیق نظر نے محسوس کیا ہے ۔ اس موضوع پر ایسے اشعار جو کسی قرآنی مفہوم کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں یا کسی قرآنی مفہوم کو اشعار کی صورت میں قلمبند کیا ہے۔ یہ کوشش اگرچہ نا تمام رہی لیکن پھر بھی اس کاوش سے ان کی اقبال شناسی کا موضوع ضرور سامنے آتا ہے۔ مضطر اگر اس کام کو مکمل کرتے تو یہ بہت بڑا ادبی کارنامہ ہوتا لیکن پھر بھی اس موضوع پر ان کی نا تمام کاوش ان کے اقبال شناس ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ مضطر کی اقبال شناسی کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مضطر کا بحیثیت اقبال شناس ایک مقام و مرتبہ ہے۔

          طاہر شادانی (۱۹۱۶ء۔۲۰۰۰ء) سیالکوٹی اقبال شناسوں میں اہم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ طاہر شادانی علامہ اقبال کے بہت شیدا تھے۔ انھوں نے علامہ اقبا ل کی کتاب ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے فارسی حصے کا ترجمہ کیا اور اقبال پر تنقیدی مضامین لکھے۔یہ اُردو ترجمہ اقبال اکیڈمی لاہور سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ شادانی کے اسالیب اور موضوعات پر اقبال کے اثرات موجود ہیں۔ اگرچہ شادانی کی ملاقات اقبال سے نہیں ہوئی مگر شادانی اس دور میں موجود تھے اور انھوں نے اقبال کی وفات پر ان کا درد ناک مرثیہ لکھا جس سے اقبال سے ان کی محبت و عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے ۔زیر نظر ترجمہ بھی اقبال سے اثر پذیری ہی کا نتیجہ ہے۔

           ’’ارمغانِ حجاز ‘‘اقبال کی وفات کے چھے ماہ بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ اقبال کی دیگر تصانیف کے مقابلے میں اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں اقبال کے چالیس سالہ افکار کا نچوڑ موجود ہے۔ اس مجموعے کا فارسی حصہ صرف رباعیات پر مشتمل ہے ۔ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے فارسی حصے کے حضور ِ حق، حضورِ رسالت، حضورِ ملت،حضورِ عالمِ انسانی اور بہ یارانِ طریق پانچ عنوانات کے تحت پانچ ابواب ہیں۔

          اس مجموعے میں زیادہ تر صوفیانہ خیالات بیان کیے گئے ہیں اور خدا اور رسول ؐسے اقبال کا عشق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر اس مجموعے میں عشقِ رسولؐ اپنی انتہا کو پہنچا نظر آتا ہے۔ ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ میں ہر جگہ یہی عشقِ رسولؐ نظر آتا ہے۔ اور قاری پر بھی یہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

           ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں اقبال نے خدا، رسولؐ ،خودی ،خلافت ،مکان و لا مکاں ،ملوکیت ،عقل و دل ،تعلیم ،موت و حیات اور تقدیر و تدبیر جیسے موضوعات کے بارے میں اپنے تدبرانہ خیالات پیش کیے ہیں۔ اقبال کی فارسی شاعری کے بہت سے تراجم ہو چکے ہیں اور یہ تراجم اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ جو لوگ فارسی نہیں جانتے وہ ترجمے کے ذریعے فکرِ اقبال کی روح تک پہنچ سکتے ہیں اور اقبال کے افکار و نظریات کو جان سکتے ہیں۔ اقبال کی اس کتاب کے منظوم اور منثور تراجم ہوئے ۔ شادانی نے منثور ترجمہ کیا۔

          شادانی نے اردو ترجمہ کرنے سے پہلے لغت بھی دی ہے تاکہ قارئین فارسی الفاظ و تراکیب کے مفہوم کو سمجھ سکیں چند الفاظ کے معانی ملاحظہ ہوں:

          آں راہی: وہ مسافر ،راہ عشق کا وہ مسافر، وہ راہروراہِ محبت(آں =وہ +راہی =رہرو،مسافر ،راہ گیر) ،پندِ یاراں :یاروں کی نصیحت ،دوستوں کا مشورہ (پند=نصیحت،مشورہ+ یاراں= یار کی جمع ،احباب،دوست)

          بکشا: تو کھول، کھول دے، (کشادن،کشددن =کھولنا)لغت کے بعد اب ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کی ایک دوبیتی کا اُردو ترجمہ بمع دو بیتی ملاحظہ ہو:

حضورِ حق

خوش آں راہی کہ سامانے نگیرد

دل او پند یاراں کم پذیرد

بہ آہے سوز ناکش سینہ بکشائے

زیک آہش غمِ صد سالہ میرد! (۱۳)

          اب شادانی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

وہ مسافر کتنا اچھا ہے جو کوئی سامان (سامان سفر) ساتھ نہیں لیتا۔ اس کا دل دوستوں کی نصیحت کم ہی قبول کرتا ہے تو اس کی ایک پرسوز آہ سے (اپنا) سینہ کھول دے۔ کیونکہ اس کی آہ سے سوسال کا غم مٹ جاتا ہے۔(۱۴)

          شادانی سے پہلے اقبال کے اس مجموعے کے جتنے بھی تراجم ہوئے وہ پائے کے اعتبار سے کم نہیں۔ سبھی تراجم بہت عمدہ ہیں اور مفاہیم کو ادا کرتے ہیں۔ ان تراجم میں سے ایک ترجمہ آقا بیدار بخت کا ہے جو ’’ماورائے مجاز‘‘ کے نام سے کیا گیا ۔ دوسرا ترجمہ آقائے رازی نے ’’سوزو ساز‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ تیسرا ترجمہ ڈاکٹر الف ۔ د ۔ سیم نے ’’نسیم نیاز ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ چوتھا ترجمہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے کیا اور پانچواں ترجمہ میاں عبدالرشید نے کیا جبکہ اس کا منظوم ترجمہ محمد صبغت جالندھری نے کیا ۔

          مذکورہ بالا تراجم کی موجودگی میں شادانی کا ترجمہ ایک امتیازی شان رکھتا ہے یہ ترجمہ نو واردانِ فارسی کے لیے کیا گیا ہے۔شادانی کا یہ ترجمہ دیگر تراجم سے اس لیے منفرد بن جاتا ہے کہ شادانی نے ہر دو بیتی کے حلِ لغت میں اتنی محنت کی ہے کہ فارسی نہ جاننے والے صرف اس لغت کی مدد سے مفہوم اخذ کر سکتے ہیں اور شادانی نے اس کا انتظام بھی اس لیے رکھا کہ معاملہ صرف مفہوم تک نہ رہے بلکہ لفظوں اور معانی کی مدد سے طالب علموں میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ معانی نکال سکیں او ریہ نو آموز فارسی دانوں کے لیے بہت بہت فائدہ مندہے۔طاہر شادانی کے اس ترجمے کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ترجمہ ،ترجمہ ہی رہتا ہے۔ تشریح یا تفسیر کی حدود میں داخل نہیں ہوتا ترجمہ ایک نہایت ہی مشکل کام ہے اور شاعری کا ترجمہ تو اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر شادانی نے ان تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے اصل متن کے قریب رہ کر مفاہیم ادا کیے ہیں۔

          شادانی کے پیشِ نظر ترجمے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں کمپوزنگ کی اغلاط بہت زیادہ ہیں ۔ان اغلاط نے اس ترجمے کا حسن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ ترجمہ شادانی نے اقبال اکیڈمی کی فرمائش پر کیا تھا اور یہ کتاب بھی اقبال اکیڈمی نے ہی شائع کی۔ اس کی بڑی خامی کا سہرا بھی اس ادارے کے سر جاتا ہے۔ ادارے نے پروف پڑھوانے پر توجہ نہ دی اور اتنی اہم کتاب بے نیازی اور بے پراوائی کی نذر ہو گئی۔ اقبال اکادمی کو اس ترجمے کی دوبارہ صحت کے ساتھ شائع کرنا چاہیے تاکہ مترجمین کی کاوش کا صحیح اندازہ ہو سکے۔

          شادانی نے کلام اقبال کے ترجمے کے ساتھ مضامین بھی لکھے۔ انھیں اقبال سے جو خاص عقیدت اور لگاؤ تھا وہ ان کی شاعری میں بھی عیاں ہے۔ شادانی نے ’’علامہ اقبال کی منظر نگاری‘‘ کے عنوان کے تحت ایک خوبصورت مضمون لکھا ہے جس میں علامہ کی شاعری کے ایک پہلو منظر نگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مضمون میں شادانی نے اقبال کی شاعری میں منظر نگاری کی ابتدا اور منزل بہ منزل ارتقا پر تبصرہ کیا ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں اقبال کی مظاہر فطرت پر مبنی نظموں کے حوالے دیے گئے ہیں اور اقبال کی فطرت نگاری کی داد دی گئی ہے:

 ……بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں منظر نگاری کے ایسے کتنے ہی بیش بہا خزانے موجود ہیں۔ جنھیں پڑھ کر وجدان جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ اور جمال و زیبائی اور رنگ و نور کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔(۱۵)

          آسی ضیائی رامپوری (۱۹۲۰ء ۔ ) کا نام بھی قدآور اقبال شناس ناقدین میں شامل ہے۔آسی ضیائی رامپوری نے ایک تو علی گڑھ یونیورسٹی میں رشید احمد صدیقی جیسے اقبال شناس کی شاگردی اختیار کی دوسرے اقبال کی مادرِ علمی مرے کالج سیالکوٹ کی علمی و ادبی فضا نے آسی ضیائی کی ’’اقبال شناسی‘‘ کے لیے مہمیز کاکام کیا اور یوں آسی ضیائی نے کلام اقبال پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایک کتاب اور چار مضامین رقم کیے۔

           ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ آسی ضیائی کی اقبال شناسی کے حوالے سے مستند تصنیف ہے۔ جسے ۱۹۵۷ء میں خدمت لمیٹڈ لاہور نے گلزارِ عالم پریس لاہور سے چھپوا کر شائع کیا۔ اس کتاب میں کلامِ اقبال کے اہم خصائص کا اجمال کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے ۔ایک صد مضامین پر مشتمل یہ کتاب تین حصص میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ دو ابواب پر ،دوسرا حصہ تین ابواب پر تیسرا اور آخری حصہ ایک باب پر مشتمل ہے۔

           ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ کے آغاز میں آسی ضیائی نے ایک جامع مقدمہ بعنوان ’’اِدعا‘‘ رقم کیا ہے جو کتاب کی اہمیت اور وجہ تحریر پر روشنی ڈالتا ہے۔ کتاب کے حصہ اول میں محبت ،جستجو ،متصوفانہ ،مذھبیت ،مظاہرِ قدرت سے محبت ،مذہبی روایات سے محبت ،تصوف ،عمومی تبصرہ ، خاص موضوعات ،ترجمے ،بقیہ نظمیں، غزلیں ،دوسرا دور ،رومانی شاعری ،ایک انوکھا قیاس ،خورشید ،ایک دلچسپ انکشاف، دوسری نظمیں ،نئے دور کا آغاز، خلاصۂ بحث اور محرکات جیسے مضامین کی فہرست ہے۔

          کتاب کے حصہ دوم میں بعد کی شاعری ،اسلوب کا جائزہ ،وسیلہ ،ساخت و پرداخت ،حکیمانہ اسلوبِ شاعری کی خصوصیات ،سادگی اور ندرت ،تمثیل نگاری ،تخاطبِ بالغائب ،رموز وعلائم کا استعمال ،حالیؔ،اکبرؔ،اقبالؔ ،صوت و آہنگ کا اہتمام ،تصورات و پیغام پر تبصرہ ،خودی ،تصورِ خودی کا وھبی و ماحولی پس منظر ،اثباتِ خودی ،اثباتِ خودی کے مقامات، شرفِ انسانی، تسخیرِ فطرت، مسئلہ خیر و شر اور روح و جسم کا اتحاد ،مسئلہ جبر و قدر ، تخلیقِ مقاصد، بدویت ،عقل و عشق، ارتقا ،مردِ کامل کے سابقہ تصورات ،صوفیا،افوانِ الصفاء کے مصنفین اور ابنِ مکویہ ،عبدالکریم الجیلی ،اس تصور کی غایت ،مغربی مفکرین ،ڈارون ،نطشے، برگساں ،اقبال ،حیاتی ارتقاپر اعتراض،اقبال کی تاویلات ،قرآن کی تصریحات ،اقبال کی تاویلات کی وجہ ،اسرائیلی روایات اور ان کے اثرات، المہدی کا تصور، لا بیخل پہلو ،ایک تضاد، ان اعتراضات کا جواب، جذباتی تصور، عقلی تصور، لنین اور دوسرے غیر مسلم ،زمان ،لا تسبّو الدھر کی تحقیق ،متفرقات، رمزے،ابلیس ،مسلمانوں کا عام تصور، اس تصور کا تجزیہ ،جبریل ،پیش گوئیاں عورت ،ایک شعر اور مخالفت کا نفسیاتی سبب جیسے مضامین کی فہرست شامل ہے۔

          کتاب کا حصہ سوم میں خاتمہ ء کلام ،خلاصۂ بحث ،پیغامِ اقبال کے محرکات ،اقبال کے اثرات ،الف معاشرے پر ،ایک شبہ کا ازالہ ، ب ادب پر اور اقبال کا مستقبل جیسے مضامین کی فہرست ہے۔ درج بالا فہرستِ مضامین میں واضح ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں اہلِ علم کے ساتھ ساتھ طلبا کے استفادہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ دراصل اقبال پر لوگوں نے ماضی میں بھی لکھا اب بھی لکھ رہے ہیں اور آئندہ بھی کام کرتے رہیں گے ۔ اقبال پر لکھنے والوں میں بڑے چوٹی کے اہلِ علم و قلم بھی شامل ہیں اور اوسط و ادنیٰ درجے کے بھی۔ اس انبوہِ عظیم کی کاوشوں کے انبار میں ایک منفرد اضافہ ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ہے۔ آسی ضیائی نے کئی سالوں تک اس کی تیاری کے لیے محنت کی اور بالآخر جب اس کی اولین اشاعت ہوئی تو قارئین کو ابتدائی صفحات ہی میں اس کتاب کی وجۂ تحریر کا علم خود آسی ضیائی کی زبانی کچھ یوں ہوا ۔جب میں کسی بے مقصد مقرر کو سامعین کے گرمانے کی خاطر اس قسم کے اشعار پڑھتے سنتا ہوں۔

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

          یا بازار سے گزرتے ہوئے ایک ہوٹل کی دیوار پر اس طرح کے نعرے لکھے دیکھتا ہوں:

اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

          یا ریڈیو پر گائی ہوئی کسی طوائف کی آواز میرے ذوق کو اس طرح کچلتی ہوئی بارِ سماعت ہوتی ہے۔

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں

          تو مجھے ہر حساس شخص کی طرح ،دو گنا تکلیف ہوتی ہے ۔ایک خود اقبال پر ظلم ہوتا دیکھ کر دوسرے اقبال کی قوم کو بھٹکانے اور سلانے کی ان کوششوں کو سوچ کر ۔(۱۶)

          آسی ضیائی کو دکھ اس بات کا تھا کہ اقبالؔ کو ایک بُت کی طرح پوجا جا رہا تھا۔ انھیں یہ بات گوارا نہ تھی کہ ایک بد کردار مقرر، گھٹیا اخلاق کا بے ایمان دوکاندار ،ایک سماج کی دھتکاری ہوئی بازاری عورت ،اقبا ل کے کلام کی بے حرمتی کرے۔ چنانچہ وہ اپنے پیشِ رو اقبال شناسوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں :

میرے معزز بزرگ ،جنھوں نے فکرِ اقبال کے بے شمار گوشے ہمارے سامنے آشکار کیے خواہ اس پر برا ہی مانیں ۔یہ کہے بغیر نہ رہوں گا کہ ان کی نیک نیتی ،محنت و کاوش او رذہانت و علمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود میں یہی سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اقبال پر لکھتے وقت ذرازیادہ محتاط ہوتے، اس کے پیغام اور فلسفے کی تشریح ہی پر بس نہ کر کے اس پر سنجیدہ تنقید کے ہر پہلو بھی نکالتے تو غالباً اقبال کو یہ بت کا مقام حاصل نہ ہوتا۔(۱۷)

          اس سے قبل کہ ا س کتاب کے بارے میں مزید تاثر قائم کیا جائے اس کے اہم مضامین کا مختصر تعارف کرانا ضروری ہے۔ چنانچہ ذیل میں ’’کلامِ اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘ کے مضامین کا مختصر جائزہ درج کیا جاتا ہے۔ جس سے کلامِ اقبال کے بارے میں آسی ضیائی کے نقطہ نظر کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔

           ’’محبت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے حوالے سے محبت کو موضوع بحث بنایا ہے۔ کیونکہ یہی عنصر ہے کہ جو اقبال کی ابتدائی شاعری میں ان کے سفرِ انگلستان سے پہلے پہلے تک نظر آتا ہے اور اقبا ل کی شاعری کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اس عنصر کا ارتقا بھی عنوان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہوتا نظر آتا ہے۔

           ’’وطن سے محبت‘‘ مضمون میں اقبال کے جذبہ محبت کو وطن سے منسوب کرتے ہوئے قدرے تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے پہلے تو دہلوی اور لکھنوی دبستانوں کا ذکرکیا ہے۔ بعدا زاں انھوں نے وطن پرستی کو مغربی ادب کی دین قرار دیتے ہوئے پہلے حالیؔ او رپھر اقبالؔ کے کلام پر بحث کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں بانگِ درا کی نظم ’’ نیا شوالہ‘‘ کے چند غیر مطبوعہ اشعار کا حوالہ دیا ہے۔

           ’’مظاہر قدرت سے محبت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے مظاہرِ قدرت کی کامیاب منظر کشی کی دو وجوہات تحریر کیں ہیں۔ ایک تو اردو ادب میں مغربی شاعری کی نفوذ پذیری اور دوسری اقبال کی وادی کشمیر سے وابستگی ،اس سلسلے میں بانگِ درا ہی کی اکثر نظموں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ’’مذہبی روایات سے محبت‘‘ مضمون میں مذہبی روایات سے محبت کا موضوع بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً بلالؓ جیسی نظم پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی درسگاہوں سے کسبِ فیض کرنے کے باوجود اقبال اپنے مذہب سے گہری محبت رکھتے ہیں۔

          آسی ضیائی نے محبت کے بعد کلامِ اقبال کے جس دوسرے عنصر پر بحث کی ہے وہ ’’جستجو‘‘ ہے۔ اقبالؔ کے نظریہ حرکت و عمل کی بنیاد یہی ’’جستجو‘‘ ہے۔ جس کے مطابق جستجو صرف مظاہرِ قدرت تک محدود نہیں بلکہ اس کی رسائی تو ’’خالقِ کائنات کے حضور‘‘ تک ہے۔

          دینی شعائر سے اقبال کی وابستگی کے بعد آسی ضیائی نے اقبا ل کے ان صوفیانہ خیالات پر بحث کی ہے۔ جو انھوں نے موروثی روایات کی طرح اپنے بزرگوں سے پائے تھے۔ مضمون ’’تصوف‘‘ میں آسی ضیائی نے تصوف اور شاعری کے گہرے تعلق پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہوئے تصوف کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

اس کی تعریف ،مختصر الفاظ میں ،ظاہر داری اور رسمیات سے آزادی اور خدا کے ساتھ روحانی لگاؤ کی جا سکتی ہے۔ (۱۸)

          اس سلسلے میں آ سی ضیائی نے قرآن و سنت کے علاوہ پروفیسر سید صفی حیدر کی کتاب ’’تصوف اور اردو شاعری ‘‘ کے حوالے دینے کے بعد اقبا ل کی نظموں ’’عقل و دل‘‘ ، ’’شمع پروانہ‘‘، ’’دردِ عشق‘‘اور ’’التجائے مسافر‘‘ وغیرہ میں تصوف کے عناصر کی نشاندہی کی ہے۔ کلامِ اقبال میں محبت ،جستجو اور تصوف کے عناصر کی نشاندہی کرنے کے بعد آسی ضیائی اشعار کے حوالے دے کر ان تینوں عناصر میں جہاں قدرِ مشترک دریافت کرتے ہیں ۔ وہاں انھیں ان کی یکجائی مجموعہ ٔ اضداد بھی نظر آتی ہے:

جو اقبال اپنے ذوقِ تصوف کی بنا پر پوری نوعِ انسانی کی ہمدردی کا دم بھرے ۔اس کا ذہن وطن کی جغرافیائی حدود کی تنگی کا کیوں کر متحمل ہو سکا؟ اور جس شخص کو ’’غبارِ راہِ حجاز‘‘ بننے کی تمنا ہو وہ ہندوستان کی مورتی اپنے دل میں سجا کر اس کی پوجا کیوں کر سکتا ہے۔ نیز اگر اقبال محبت کے ذریعے بیمار قوموں کے شفا پانے کے قائل ہیں تو اپنی قوم سے یہ کسی قسم کی محبت ہے کہ اس کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں سکون کی تلاش کی جائے۔(۱۹)

           ’’خاص موضوعات‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ ابتدائی دور کی شاعری میں اقبال کو شمع، سورج ،پھول اور بچہ جیسے خاص موضوعات نے مہمیز کیا ہے۔ ابتدائی دور میں اقبال کی طبع زاد نظموں کے بعد آسی ضیائی نے قارئین کی توجہ ’’ایمرسن‘‘ ، ’’ٹینی سن‘‘ اور ’’لارنگ فیلو‘‘ وغیرہ ان کی نظموں کی جانب مبذول کروائی ہے جن کے اردو تراجم بانگِ درا کا حصہ ہیں ۔ بقیہ ’’نظمیں‘‘ کے عنوان سے ان نظموں پر بحث کی گئی ہے جن میں اقبال نے مختلف شخصیات جیسے ،غالب،سر سید، داغ اور آرنلڈ وغیرہ کو موضوع سخن بنایا ہے۔ مثلاً نالۂ فراق ،داغ وغیرہ۔

           ’’غزلیں‘‘ مضمون میں بانگِ درا کی غزلوں میں اُستاد داغ کے تتبع کے باعث جن رسمی مضامین کا اظہار اقبال نے کیا۔ اس کا ذکر آسی ضیائی نے کیا ہے۔ ’’رومانی شاعری ‘ ‘میں پہلے دور کی شاعری کے بعد اقبال کے قیام یورپ کے زمانے (۱۹۰۵ء سے۱۹۰۸ء ) تک کو دوسرا دور قرار دینے کے بعد آسی ضیائی نے اقبال کی شاعری میں ’’عشقِ مجازی‘‘ کی موجودگی کا ثبوت ’’عاشق ہرجائی‘‘، ’’سلیمیٰ‘‘، ’’وصال‘‘، ’’شمع‘‘، ’’جگنو‘‘اور ’’حقیقتِ حسن‘‘ جیسی نظموں کے حوالے سے دیا ہے۔ آسی ضیائی کے نزدیک اقبال کی اس ’’بو الہوسی ‘‘ کا سبب قیامِ یورپ ہے۔ بانگِ درا کی نظموں ’’پھول کا تحفہ عطا ہونے پر ‘‘ ، ’’وصال ‘‘، ’’کلی ‘‘ اور سلیمیٰ کے متعدد اشعار پر دلائل دے کر آسی ضیائی نے کلامِ اقبال میں عشقِ مجازی کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔بانگِ درا کی نظم ’’کلی‘‘ میں لفظ خورشید تین بار اور دیگر نظموں میں جا بجا دیکھ کر آسی ضیائی نے مضمون ’’خورشید ‘‘ میں اس شک کا اظہار کیا ہے کہ کلام اقبال میں ’’خورشید‘‘ کا مطلب سوچ نہیں بلکہ کوئی انسانی ہستی ہے ایک شعر ملاحظہ ہو:

میرے خورشید کبھی تو بھی اُٹھا اپنی نقاب

پہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہِ بے تاب

          آسی ضیائی نے مضمون’’ایک دلچسپ انکشاف‘‘ میں کلامِ اقبال کے حوالے سے دلچسپ انکشاف یہ کیا ہے کہ قیامِ یورپ کے ابتدائی حصہ میں اقبال کو اپنی محبت کی کامیابی کے باعث کائنات کا ذرہ ذرہ دامِ محبت میں گرفتار نظر آتا ہے تو وہ حسن و عشق، کلی ، حقیقت ِ حسن اور ’’……کی گود میں بلی دیکھ کر ‘‘‘ جیسی نظمیں رقم کرتے ہیں مگر اگلے ہی حصے میں شاعر کی ذہنی کیفیات جس طرح پلٹا کھاتی ہیں۔اس کے نتیجے میں ’’عاشقِ ہر جائی ‘‘، ’’کوشش ناتمام‘‘ ، ’’نوائے غم‘‘ ، ’’عشرت امروز‘‘ اور ’’فراق‘‘ جیسی نظمیں معرضِ وجود میں آتی ہیں۔

           ’’دوسری نظمیں ‘‘مضمون میں دوسری نظموں سے مراد بانگِ درا کے دوسرے دور کی وہ نظمیں ہیں جن کا ذکر پہلے نہیں کیا گیا یعنی طلبہ علی گڑھ کے نام ’’صقلیہ‘‘، ’’پیامِ عشق‘‘ اور ’’عبدالقادر کے نام‘‘ ان نظموں میں اقبال کا نقطہ نظر بدلا اور انھوں نے عزیز احمد کے قول کے مطابق ،وطن سے سیاسیات کا رشتہ توڑ کرمذہب سے جوڑ لیا۔

           ’’نئے دور کا آغاز‘‘ مضمون میں مذکورہ بالا چار نظموں کے حوالے ہی سے کلامِ اقبال کے نئے دور پر بحث کی گئی ہے۔ جس میں اقبال کا کردار ایک عارف اور راہنما کا ہے۔ ’’خلاصہ بحث‘‘مضمون میں آسی ضیائی کے نزدیک مجموعی طورپر ان نظموں سے اقبال کے درج ذیل ذاویہ ہائے نظر معلوم ہوتے ہیں۔

۱۔       تہذیبِ مغرب کا انجام ہلاکتِ یقینی ہے۔

۲۔       وطن کی بجائے کلمہ طیبہ مسلمانوں کے لیے وجۂ اشتراک ہے۔

۳۔       ’’عشق گرہ کشا‘‘ اور مسلسل جدوجہد ہی زندگی برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔

           ’’محرکات ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایا ہے کہ ’’کلامِ اقبال ‘‘ کی ارتقائی تبدیلی اور انکشاف کے محرکات میں مغربی تہذیب، فلسفہ عجم اور عشق مجازی کی ناکامی ہیں۔ ’’اسلوب کا جائزہ‘‘ مضمون میں اقبا ل کے فلسفہ و پیغام کا تجزیہ کرنے سے قبل ،ان کے اسلوب پیغام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کی بحث کا آغاز کلامِ اقبال کے ذرائع اظہار و ابلاغ سے کیا گیا ہے۔

           ’’وسیلہ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایا ہے کہ کلامِ اقبال کی عالمگیر مقبولیت میں بڑا ہاتھ ان کے فارسی کلام کا ہے۔ یعنی اسرارِ خودی ،پیامِ مشرق ،زبورِ عجم وغیرہ کی جرمنی ،ترکی ،ایران،روس ،امریکہ اور چین وغیرہ میں پذیرائی کا سبب فارسی زبان ہے۔ یہاں آسی ضیائی نے پروفیسر مجیب احمد ،جامعہ لیہ کے ’’فکر اقبال‘‘ میں شامل مضمون ڈاکٹر اقبال مرحوم کا اقتباس نقل کیا ہے:

فارسی میں لکھنے کی بدولت ڈاکٹر اقبال اور ان کے فلسفے کا اسلامی دنیا میں چرچا ہو گیا ۔ اور ہندوستان میں ان کی قدر کرنے والے کم نہیں ہوئے۔ ہندوستانی مسلمان ان سے فارسی زبان اختیار کرنے کی شکایت نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ فارسی جاننا ان کا ایک تہذیبی فرض ہے۔(۲۰)

           ’’ساخت پرداخت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی بتاتے ہیں کہ بانگِ درا سے پیامِ مشرق تک کلامِ اقبال میں دو اسالیب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک تو پاکیزہ اور ستھرے ذوق کی آئینہ دار فنکاری اور دوسرے متعین ،پر حکمت اور راعیانہ اسلوب ،حکیمانہ اسلوبِ شاعری کی خصوصیات ،مضمون میں بتاتے ہیں کہ اس اسلوب کی حامل تصانیف میں قرآن ،انجیل ،مثنوی مولانا روم کے علاوہ کلامِ اقبال بھی شامل ہے۔

           ’’سادگی اور ندرت‘‘ میں آسی ضیائی نے دہلی اور لکھنو کے اہلِ زبان کے ساتھ کلام اقبال کا موازنہ کرنے کے بعد بالآخر فیصلہ اقبا ل کے حق میں دے دیا۔ کلامِ اقبال کی کامیابی کی ضامن یہی سادگی اور ندرت ہے۔ بانگِ درا ،بالِ جبریل ،ضرب کلیم ،جاوید نامہ ،پیامِ مشرق اور زبورِ عجم کے حوالے سے آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے اسلوب میں تشکیلات کی اہمیت کے دو اسباب بیان کیے ہیں ۔اول انسان کی قصہ کہانی سے دلچسپی اور دوم بالواسطہ خطاب۔

           ’’تخاطبِ بالغائب‘‘ خصوصیت آسی ضیائی کے نزدیک دراصل تمثیل کا تسمہ ہے۔ اقبال کی نظموں ’’شمع اور شاعر‘‘ ، ’’خضرِ راہ‘‘ ، ’’ابوالعلا معری‘‘ ، ’’پنجاب کے پیر زادوں‘‘ سے اور نصیحت وغیرہ میں تخاطب بالغائب کا اسلوب موجود ہے۔ ’’رموز و علائم کا استعمال‘‘ مضمون میں آسی بتاتے ہیں کہ ’’بادہ و ساغر‘‘ کی زبان میں ’’مشاہدہ حق کی گفتگو‘‘ کرنا صدیوں سے ہمارے شعرا کے خمیر میں داخل ہے مگر جدید رموز و علائم کے علمبردار حالیؔ،اکبر اور اقبال ہیں۔

          حالیؔ مضمون میں حالی کا تعارف، قارئین سے کروانے کے بعد آسی ضیائی نے حالیؔ کے ہاں رموزو علائم کی موجودگی کے ثبوت کے لیے حالیؔ کاوہ نمونہ کلام نقل کیا ہے۔ جو ان کی نظم ’’آزادی کی قدر‘‘ سے متعلق ہے۔(۲۱)

           ’’اقبال ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایا ہے کہ حالیؔ کے آزاد اکبر کے ’’سید‘‘ کی طرح اقبال کے علائم و رموز میں قلندر،شاہین ،مومن وغیرہ شامل ہیں جن کی آفاقی حیثیت مسلم ہے۔ آسی ضیائی نے یہاں حالی کی مسدس اور اقبال کے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا موازنہ بھی کیا ہے۔

           ’’صورت و آہنگ کا اہتمام‘‘ مضمون میں آسی بتاتے ہیں کہ اقبال کا صحیح ذوق صوت و آہنگ ہے۔ Lamborn،میر ،انیس ،نظیر اکبر آبادی اور جگر کے کلام سے مثالیں دینے کے بعد آسی ضیائی نے اقبال کی نظموں ’’ایک شام‘‘ ، ’’مسجدِ قرطبہ‘‘، ’’ذوق وشوق‘‘ ، ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’ابلیس کی مجلسِ شوری‘‘ کے حوالے سے صوت و آہنگ کے موضوع پر بحث کی ہے۔ آپ اس حوالے سے لکھتے ہیں:

اقبال جیسے عظیم شاعر کو اپنی نظموں میں مناسب لب و لہجہ اور صوت و آہنگ پیدا کرنے کے لیے تکلف اور آورد کی ضرورت مطلق پیش نہیں آتی ہو گی۔ یہ ذوق بھی شعری لوازم سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک شاعر ایک عظیم بات کو شعرکے گوارا پیکر میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو خود بخود اس کو اس کے لیے مناسب الفاظ لاتے وہی ملکہ بھی ہونا چاہیے اور چونکہ زبان خود انسانی احساسات کی صوتی عکاسی ہے۔ اس لیے شاعری کے احساساتِ لطیف بھی اصواتِ لطیف کا جامعہ پہن کر سامنے آتے ہیں۔(۲۲)

           ’’تصورات وپیغام پر تبصرہ‘‘ میں آسی ضیائی نے اقبال کے ان تصورات و پیغام کا تجزیہ کیا ہے ۔جن کی تشریح و تعبیر اس سے قبل چھوٹا بڑا ادیب کر چکا ہے۔ ’’تصورِ خودی کا ذہنی و ماحولی پس منظر‘‘ میں آسی ضیائی بتاتے ہیں کہ اقبال نے جب اپنے زمانے کے ہندوستان پر نظر ڈالی تو انھیں پتہ چلا کہ اُمتِ مسلمہ ہر اعتبار سے پست، کمزور اور محکوم ہے۔ مزید برآں مغرب سے مرعوب ہونے کے باعث اتحاد واخلاق سے بیگانہ بھی ہے تو انھوں نے نظموں کے ذریعے اس صورت حال پر اپنے دردو کرب کا اظہار کبھی کیا اور تفکر ،تصورِ خودی بھی اس نظام ِ فکر کا نتیجہ ہے۔

           ’’اثباتِ خودی کے مقدمات(خودی) ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی بتاتے ہیں کہ اثباتِ خودی کے مقدمات میں پہلا مقدمہ خود ’’خودی‘‘ ہے۔ عجمی تصوف کے جواب میں اقبالؔ نے جو اسلامی تصوف پیش کیا ہے اور اس کی بنیاد ہی خودی پر قائم ہے۔ اس ضمن میں آسی ضیائی نے میکش اکبر آبادی کی ’’نقدِ اقبالؔ‘‘ مولانا سید ہاشمی فرید آبادی کی ’’تاریخِ مسلمانانِ پاکستان وبھارت ‘‘ اور مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی کی ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ تسخیر کائنات میں آسی کہتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ انسان اپنی جسمانی ،عقلی اور روحانی طاقتوں سے کائنات پر اپنا تسلط جماتا چلا جاتا ہے۔ آسی ضیائی کے نزدیک اقبالؔ کے ہاں جسمانی تسخیر سے زیادہ عقلی اور روحانی تسخیر پر زور دیا گیا ہے۔ ’’مسئلہ خیر و شر اور روح و جسم کا اتحاد ‘‘مضمون میں آسی کہتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک تخلیق انسانی کا مقصد حصولِ لذت نہیں خودی کا تحقق اور نشوونما ہے اور اسی بنا پر ہر وہ چیز خیر ہے جو تسخیر فطرت میں خودی کی معاون ہو اور اس کا مزاج شر ہے۔ اور یہ نظریہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک روح و جسم کا اتحاد نہ تسلیم کر لیا جائے ۔ مضمون ’’مسئلہ جبر و اختیار ‘‘ میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے حوالے دے کر ا س عقیدہ کو تمام مقدماتِ خود ی کا قدرتی نتیجہ قرار دیا ہے۔

          بعد ازاں مختلف فلسفیوں سے موازنہ کے بعد کلام اقبال میں اس عقیدہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون ’’بدویت‘‘ میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے حوالے سے اقبال کی بدویت پسندی کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ۔ جن میں اقبال کی فطرت شناسی اور مغربی تہذیب سے مرعوبیت شامل ہیں۔ یہاں اقبال کے اشعا ر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے نظریۂ فن پر بھی بحث کی ہے۔ ’’عبدالکریم الجیلی ‘‘ مضمونمیں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ الجیلی کے انسانِ کامل کا راستہ الھیات اور مابعد الطبیعات میں بہت الجھا ہوا ہے۔ انھوں نے عبدالکریم الجیلی کے مسلک کی وضاحت کے لیے ’’عزیز احمد‘‘کی کتاب ’’اقبال ؔ……نئی تشکیل‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے:

جیلی کا انسان کامل محسن اعلیٰ ترین رومانی قدروں کا حامل ہے۔ اس کی عینیت میں انتہا درجے کی شدت ہے۔ اور وہ ایک نظام الہیات کا پیداوار اور اس سے مربوط ہے۔(۲۳)

          ’’نطشے ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے نطشے کے فوق البشر کا موازنہ برنارڈ شاہ اور برگساں کے فوق البشر سے کرنے کے لیے ’’عزیز احمد‘‘ کی کتاب ’’اقبال نئی تشکیل ‘‘ سے حوالے دئیے ہیں۔ارتقائے حیات کے جس عمل کو برگساں نے ’’جو شش حیات‘‘ کا نام دیا ہے۔ آسی ضیائی نے اسی کو موضوع بنا کر عقل جبلت اور وجدان پر بحث کی ہے۔ آسی مضمون ’’اقبال‘‘میں کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنا تصور مرد مومن مرتب کرتے وقت مذکورہ بالا فلسفیوں کے نظریات سے استفادہ کیا ہے۔ آسی ضیائی نے اس ضمن میں ’’ساقی نامہ‘‘ کے اشعار کا حوالہ دیا ہے مثلاً:

یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے

خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے

 

ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر

ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر

          آسی ضیائی کے نزدیک کلامِ اقبال کا ایک لاینحل پہلو یہ ہے کہ اگر ارتقا کی کوئی آخری منزل نہیں آسکتی تو پھر انسانِ کامل کیوں کر آسکتا ہے؟ ایک تضاد مضمون میں اسرارِ خودی اور بالِ جبریل،میں آنحضورؐ کے متعلق اقبال کے افکار کو آسی ضیائی نے متضاد قرار دیا ہے۔

          ’’ان اعتراضات کا جواب‘‘ مضمون میں مذکورہ بالا اعتراضات کے جواب میں آسی ضیائی نے یہ نظریہ پیش کیا ہے۔ کہ اقبال کا ’’انسانِ کامل‘‘ کا تصورِ شاعری میں محض ایک مثالی تصور ہے۔ ’’جذباتی تصور‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اقبال کے جذباتی تصور اسلام کے حوالے سے ان کے پسندیدہ صحابہ کرام، سپہ سالاروں اور سیاسی شخصیات کا ذکر کیا ہے۔مثلاً حضرت ابو ذرؓ، سلمانؓ، ابو بکرؓ،عمرؓ،خالدؓ ،قطب الدین ایبک ؒ،احمد شاہ ابدالیؒ ،ٹیپو الجیلی وغیرہ ۔

           ’’عقلی تصور‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے اقبال کی نظموں خضرِ راہ ،خدا کافرمان ،فرشتوں کے نام ،ابلیس کی مجلس شوریٰ کے حوالے سے ان کے اشتراکی اور اقتصادی نظریات پر بحث کی ہے ۔مثلاً

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

           ’’لنین اور دوسرے غیر مسلم ‘‘ مضمون میں بالِ جبریل اور جاوید نامہ کے حوالہ جات کے بعد آسی ضیائی نے واضح کیا ہے۔ کہ لنین اور افغانی وغیرہ کو اقبال نے اپنے تخیل میں مسلمان بنانا چاہاہے۔

           ’’زمان ‘‘ مضمون میں قرآن و حدیث اور کلام اقبال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آسی ضیائی نے واضح کیا ہے کہ اقبا ل نے قدیم تصور زماں کے بر خلاف جس میں زماں کو ایک معروضی حقیقت فرض کیا جاتا ہے۔ زماں کو داخلی اور موضوعی قراردیا ہے۔ ’’جبریل ‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے بالِ جبریل کی نظموں ’’ابلیس و جبریل‘‘ اور’’مسجد قرطبہ‘‘ کے ساتھ ساتھ بانگِ درا کی خضر راہ اور طلوع اسلام کے حوالے سے جبریل پر بحث کی ہے۔ ’’پیش گوئیاں ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے شمع و شاعر،جواب شکوہ ،خضرِ راہ ،طلوع اسلام ،ساقی نامہ مسجد قرطبہ اور ابلیس کی مجلس شوریٰ میں مغربی تہذیب کی تباہی اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کے بارے میں اقبال کی پیش گوئیوں پر بحث کی ہے۔’’دعائیں‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ اقبال کی دعائیں ملت کے لیے تھیں اور اس میں کہیں بھی مادی اشیاکی خواہش نہیں کی گئی ۔ ’’عورت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ اقبال نے اس مسئلہ میں فلسفیانہ طورپر بھی شریعت ہی کی حمایت کی ہے۔ اس بات کو آسی ضیائی نے مختلف حوالوں سے ثابت کیا ہے ۔

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیر

مرد کے ہاتھ میں ہے جو ہر عورت کی نمود

           ’’اس مخالفت کا نفسیاتی سبب‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ اقبا ل خود اوائل جوانی میں ایک ناکام محبت کا شکاررہ چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے آزادیٔ نسواں کی مخالفت کی ۔ خلاصہ بحث میں آسی ضیائی نے اقبال کو فلسفی اقبال سے زیادہ شاعر اقبال قرار دیا ہے۔

          ’’پیغامِ اقبال کے محرکات‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے وطنیت ،عجمی تصوف سے بیزاری ،نظریۂ عشق اور حرکت و عمل کو پیغام اقبال کے محرکات قرار دیا ہے۔ ’’اقبال کے اثرات معاشرہ پر‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے معاشرہ پر اثرات کے ضمن میں اقبال کو مجدد قرار دیتے ہوئے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ایک شبہ کا ازالہ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں نتیجہ فکری و عملی انقلاب لانے والا تنہا شخص اقبال ہی نہیں بلکہ محمد بن عبدالوہاب بخدی، شاہ ولی اﷲ، سید احمد بریلوی اورجمال الدین افغانی نے بھی اس کام میں حصہ لیا۔

          آسی ضیائی کے خیال میں اقبال کے ادب پر اثرات معاشرے پر چھوڑے جانے والے اثرات سے کہیں زیادہ دیر پا اور عظیم ہیں ۔اس سلسلے میں انھوں نے قدیم شعرا (میرؔ اور غالبؔ) کے ساتھ ساتھ اقبالؔ کے ہم عصر شعرا (فانیؔ،حسرتؔاور اصغرؔ) سے موازنہ کیا ہے اور پھر ان جدید شعرا (راز رام بریلوی،عاصی کرنالی ،ماہر القادری اور قابلِ اجمیری) کا ذکر کیا ہے جن پر کلام اقبال کے اثرات بہت واضح ملتے ہیں۔’’اقبال کا مستقبل‘‘ کتاب کے اس آخری مضمون میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے ان موضوعات کا دوبارہ ذکر کیا ہے جن پر اس سے قبل اسی کتاب میں مباحث ہو چکے ہیں۔ یہاں کلامِ اقبال کیمعائب و محاسن و اضح کرنے کے بعد بالآخر اقبال کو ایک عظیم شاعر قرار دیا گیا ہے۔آسی ضیائی رام پوری کا ایک اہم مضمون ’’اقبال ……میری اور آپ کی نظر میں‘‘ جون ۱۹۴۹ء میں مرے کالج میگزین کے حصہ اردو میں چھپا۔ یہ مقالہ کالج کے طلبا کے لیے مخصوص ہونے کے باعث اشاعت سے قبل یومِ اقبال کے موقع پر ۲۹ اپریل ۱۹۴۹ء کو کالج ہال میں پڑھا گیا۔

          آغاز ہی میں آسی ضیائی نے اقبال کے لیے اپنی اور طلباکی عقیدت کا موازنہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کلامِ اقبال سے اشعار کا انتخاب کیا ہے۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم

عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم

          موازنہ کے سلسلے میں آسی ضیائی نے اپنے اور طلباء کے ماحول اور زمانے کی تبدیلی کو بھی موضوع ِ بحث بنایا ہے ۔ یہاں آسی ضیائی طلبا کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اقبال کی شاعری کو سمجھنے سے قبل اردو شاعری کا پس منظر سمجھیں تبھی اقبال شناس ہو سکیں گے۔ پیغامِ اقبال کو سمجھنے کے سلسلے میں آسی ضیائی طلبا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

آپ اقبال کے چشمے کی صفائی ،روانی ،وسعت اور زور تک پہنچ کر رک جائیں گے اور میں نے اس سے آگے بڑھ کر اس کے منبع کو دیکھا ہے کہ آپ کے لیے اقبال ایک روشنی ہے ۔ اور اس روشنی کے اس خزانے کی اہمیت جتانا چاہتا ہوں ۔ جس سے اقبال نے اپنا چراغ جلا یا ہے۔ آپ کے خیال میں اقبال ایک ہیرا ہے جسے ہماری خوش قسمتی سے زمین نے اُگلا ۔ میری نظر میں اقبال ایک غیر ت مند فقیر تھا جس نے اعلیٰ دربار سے اپنی جھولی بھری اور اسے لٹا کر غنی ہو گیا۔اس لیے آپ اقبال سے محبت کرتے ہیں مگر معاف کیجیے یہ وہ محبت ہے جو ایک جاہل ماں اپنی لاڈلی اولاد سے کرتی ہے۔ اور میں اس کی عزت کرتا ہوں۔(۲۴)

          غرض طلباکو اقبال کا قدر شناس بنانے کے لیے آسی ضیائی نے آغا ز تا انجام ’’موازنہ‘‘ سے کام لیا ہے۔ اور آخرمیں طلبا کو تلقین کی ہے کہ وہ ’’اقبال شناس‘‘ بننے سے پہلے ’’قرآن شناس ‘‘بنیں۔

          آسی ضیائی کا مقالہ اقبال ’’خورشید‘‘ مارچ ۱۹۵۳ء میں’’ مرے کالج میگزین‘‘ کے حصہ اردو میں شائع ہوا۔ بعد ازاں اس مقالہ کا خلاصہ آسی ضیائی نے اپنی تصنیف ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ میں بعنوان’’خورشید‘‘ رقم کیا۔ اس میں آسی ضیائی نے اقبال کی رومانی محبت کی کہانی ’’کلامِ اقبال‘‘ کی زبانی پیش کی ہے۔ یعنی ’’بانگ درا‘‘ کے حصہ دوم کی نظموں کے حوالے سے اقبال کی جنسی محبت پر بحث کی ہے۔ ان کے خیال میں ’’حسن و عشق‘‘ ، ’’…………کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ ، ’’کلی‘‘، ’’وصال‘‘، ’’سلیمیٰ‘‘، ’’نوائے وقت‘‘، ’’عشرتِ امروز‘‘اور ’’عاشقِ ہرجائی‘‘ جیسی نظموں میں اقبال کی محبت کا حال کچھ کچھ ملتا ہے۔مگر یہ بات قابلِ غور ضرور ہے کہ ان نظموں میں اقبال کے ’’محبوب‘ ‘کانام بھی کسی نہ کس طرح آیا ہے۔ اور وہ نام ہے ’’خورشید‘‘ اور ’’نظم کلی‘‘ میں تو یہ نام تین مرتبہ آیا ہے مثلاً:

اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں

صنعتِ غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں

           ’’بانگِ درا‘‘ کے حصہ دوم کی چوبیس نظموں میں سے اٹھارہ ایسی نظموں کی نشاندہی آسی ضیائی نے کی ہے۔ جن میں کسی نہ کسی طرح کامیاب محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر ان کے بعد عاشقِ ہرجائی سے لے کر ’’فراق‘‘ تک وہ نظمیں ہیں جو محبت کا انجام ناکافی ظاہر کرتی ہیں:

یونہی میں دل کو پیامِ شکیب دیتا ہوں

شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں

آخر میں آسی ضیائی نے انھی نظموں کے بارے میں لکھا ہے:

ان نظموں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو کسی ایک حسین سے محبت نہ کرنا چاہیے بلکہ ایک کے بعد ایک حسین بدلتے رہنا چاہیے اور آخرت کی ’’حوروں‘‘ اور ’’شرابوں‘‘ کے لالچ میں دنیا کی رنگینیوں سے جوانی میں باز نہ رہنا چاہیے۔(۲۵)

          آسی ضیائی کا مقالہ ’’اقبال اور موجودہ ادبی بے راہ روی ‘‘،’’مرے کالج میگزین ‘‘کے حصہ اُردو میں مارچ ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں چھپا ۔ آغا ز میں انھوں نے پریشان فکری اور ابہام کو نظم و نظر کے انحطاط کاباعث قرار دیا ہے اور ان کے خیال میں اُن مصائب کے رواج دینے میں ترقی پسند تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ادبی بے راہ روی کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ،کلام اقبال کو اس نظامِ فکر سے الگ کر کے پڑھا جاتا ہے۔ جس کے باعث قاری تضاد اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر کلامِ اقبال میں قرآن و حدیث کی تاویلات کو موضوعِ بحث بنانے کے بعد آسی ضیائی نے تنقید کا رخ اقبال کے فن کی طرف موڑ دیا ہے۔ مختلف اشعار کو سامنے رکھ کر فنی معائب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

بعض دوسرے اسالیب بھی اقبال کے ہاں ایسے بن گئے جن کی فنی نقطہ نظر سے کوئی تاویل نہیں ہو سکتی او ریہی میرے خیال میں آج کے ادب میں ابہام انتشار اور لا مقصدیت پھیلانے کے خاص ذمہ دار ہیں۔(۲۶)

          آسی ضیائی رامپوری کا مقالہ’’حالی اور اقبال‘‘ مرے کالج سیالکوٹ کے ادبی مجلہ ’’مجلہ افکار‘‘ حصہ اردو میں ۱۹۶۳ء کو شائع ہوا۔ آسی ضیائی نے بحث کا آغاز اقبالؔ کے اس شعر سے کیا ہے۔

میں کشورِ شعر کا بنی ہوں گویا

جاری ہے مرے لب پہ کلامِ حالیؔ

          یہاں عام ناقدین کے بر خلاف آسی ضیائی نے اقبال کا رشتہ رومی ،غزالی ،الجیلی ،ابن عربی ،نطشے اور برگساں سے ملانے کے بجائے اقبال کے اپنے ہی ہم وطن حالی سے جوڑا ہے۔اور کلامِ حالی اور کلامِ اقبال کے موازنہ کے بعد یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان کے ہاں وطن پرستی ،مذہب پرستی اور قومی اصلاح کے جذبات مشترک ہیں۔اس سلسلے میں ہر دو شعر ا کے کلام میں علائم و رموز کی مماثلت پر بحث کرتے ہوئے آسی ضیائی نے اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ اور حالی کے ’’مردِ آزاد‘‘ کا ذکر بحوالہ کلام ہے:

بھروسا کر نہیں سکتا غلاموں کی بصیرت پر

کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا(اقبال)

قرض لے کر حج کو جانے کی ضرورت

آزادی کی قدر اور برکت اتفاق(حالی)

          بلحاظِ فکر حالی کو اقبال کا پیش رو قرار دینے کے باوجود آسی ضیائی نے حالی کو فنی اعتبارسے اقبال کا پیش رو قرار نہیں دیا۔ و جہ یہ بیان کی ہے کہ ایک اقبال ہی پر کیا موقوف ،اس اعتبار سے تو حالیؔ،تمام جدید شعرا کے پیش رو اور رہ نما ہیں مقالہ کے آخر میں خلاصۂ کلام کے طورپر حالی و اقبال کی اقدار مشترک کا موازنہ کرنے کے بعد آسی ضیائی لکھتے ہیں :

اقبال خود حالی ہی کا ایک ترقی یافتہ Magnifiedوجود تھے۔(۲۷)

          اقبال کے بارے میں سوانحی ،تحقیقی ،تنقیدی اور تشریحی کتب و مقالات لکھنے والے نقاد بے شمار ہیں۔ اور ان اقبال شناس ناقدین کی طویل فہرست میں ایک نام آسی ضیائی کا بھی ہے جنھوں نے’’ کلامِ اقبال کا بے لا گ تجزیہ ‘ ‘کے عنوان سے ایک کتاب اور اقبالؔ کی فکروفن سے متعلق چند مقالات رقم کیے ہیں۔ آسی ضیائی کی اقبال شناسی پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے رائے کچھ ان الفاظ میں پیش کی ہے:

آسی ضیائی کا تنقیدی اسلوب پختہ اور ایک گوشہ انفرادیت کا حامل ہے۔ ان کی بیشتر تنقیدی تحریروں میں عام طرزِ فکر سے ہٹ کر ،ایک منفرد سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ مثلاً مرثیے کے بارے میں ان کا نقطہ نظر، جس میں سے خود کو بڑی حد تک متفق پاتا ہوں۔ البتہ اقبال پر انھوں نے جو کچھ لکھا۔ ا س سے پوری طرح اتفاق مشکل ہے۔(۲۸)

          فیض احمد فیض(۱۹۱۱ء ۔۱۹۸۴ء) ایک شاعر ،نثر نگار کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔ علامہ اقبال پر لکھے ہوئے مضامین پر مشتمل فیضؔ کی کتاب’’اقبال‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا ناشر مکتبہ عالیہ لاہور ہے اور اسے شیما مجید نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں شیما مجید کہتی ہیں:

یہ کتاب فیض احمد فیض کے ۸ مضامین اور تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب و تدوین کا محرک جذبہ ،فیض صاحب کے اقبال کے بارے میں خیالات کو یکجا دیکھنے کی خواہش کے علاوہ اقبال شناسوں کو اس ضرورت کی طرف متوجہ کرنا بھی ہے۔ جس کا فیض صاحب نے ان مضامین میں احساس دلایا ہے۔(۲۹)

          اس کتاب میں فیضؔ کی اقبالؔ پر لکھی ہوئی دو نظمیں بھی شامل ہیں۔ان میں سے ایک نظم’’اقبال ‘‘ کے اس مصرع سے شروع ہوتی ہے:

زمانہ تھا کہ ہر فرد انتظار موت کرتا تھا(۳۰)

          یہ ابھی تک فیض کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ۔ یہ نظم ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی تھی اور ان کی نو مشقی کے دور کی تخلیق ہے۔ دوسری نظم ’’اقبال‘‘ جس کا اولین مصرع ہے:

آیا ہمارے دیس میں ایک خوش نوا فقیر(۳۱)

          یہ نظم ان کے شعری مجموعہ ’’نقش فریادی‘‘ میں بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ فیض کے دو مضامین انگریزی میں تھے ۔ جنھیں نہ صرف کتاب ’’اقبال‘‘میں ہو بہو شائع کیا گیا ہے بلکہ ان کا اُردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک مضمون ’’اقبال کا فنی پہلو‘ ‘ ہے اور دوسرا’’محمد اقبال‘‘ پہلے مضمون کا اُردو ترجمہ شاہد علی نے کیا ہے۔ اور دوسرے مضمون کا ترجمہ سجاد باقر رضوی نے کیا ہے۔ ’’جذباتِ اقبال کی بنیادی کیفیت‘‘ اور ’’اقبال اپنی نظر میں‘‘ دونوں مضامین ’’میزان‘‘ میں سے لیے گئے ہیں۔فقیر و حید الدین کی ’’روزگار فقیر‘‘ کا مقدمہ بھی یہاں شامل کیا گیاہے، جو اقبال پر ایک مختصر مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ جستہ جستہ کے عنوان سے فیض کی تحریروں کے کچھ اقتباسات ان کی مختلف کتابوں سے اور چند خیالات ان کے انٹر ویوز سے اخذ کر کے یہاں درج کیے گئے ہیں۔ اس طرح اس کتاب میں اقبال کے بارے میں فیض کے تمام خیالات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ فیضؔ کو اقبال سے خاص نسبت تھی ۔مرزا ظفر الحسن ’’عمر گذشتہ کی کتاب ‘‘ میں فیض اور اقبال کی چند مماثلتوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:

دونوں کا وطن اور جائے پیدائش سیالکوٹ اور فیض کے والد اور علامہ کی دیرینہ دوستی۔ دونوں کے ابتدائی اساتذہ مشترک تھے ۔دونوں نے گورنمنٹ کالج میں تعلیم پائی دونوں نے لاہور کو وطن بنایا ۔دونوں شاعر بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔(۳۲)

          شیما مجید فیض اور اقبال کے حوالے سے لکھتی ہیں:

فیضؔ اقبالؔ کی انقلابی قدر سے بڑے مسحور تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فیض آخر تک اقبال کی عظمتِ فکر کے قائل رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ اقبال میں دلچسپی کے علاوہ اقبال پر نقدو نظر کے باب میں جو کچھ شائع ہوتا رہا وہ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا لیکن اقبالیات کا ایک پہلو انھیں ہمیشہ تشنہ اور فام محسوس ہو ا۔ وہ اقبال کی ذات کے ایک مکمل اور بھرپور مطالعہ کے متمنی تھے۔(۳۳)

          فیض احمد فیضؔ اقبال پر اپنے مضمون’’اقبال۔۔۔فن اور حصارِ فکر‘‘ میں لکھتے ہیں:

علامہ اقبال پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں ،جن میں اقبال کے فلسفے ،پیام ،فکر ،ذات اور سوانح کے متعلق ہیں۔(۳۴)

          فیض صاحب اس مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں:

کوئی کتاب ان کے شعر کے محاسن اور خصوصیات کے متعلق نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال اپنے آپ کو شاعر کہلانا پسند نہیں کرتے تھے۔(۳۵)

          فیض مزید لکھتے ہیں:

اس وجہ سے لوگ ان کے پیغام کی طرف توجہ دینے کی بجائے شعر پر سر دھنتے رہیں گے۔ اقبال کے بہت سے مداح بھی انھیں حکیم ،مفکر یا فلسفی ہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔(۳۶)

          اس مضمون میں فیض اقبال کے ابتدائی کلام کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

ان کے کلام کا پہلا دور مناظرِ قدرت کے مشاہدے اور اس مشاہدے کے پید ا کردہ تحیر کا دور ہے۔ وہ اس دور میں چاند ستارے، پہاڑ، سمندر،جگنو، پرندے وغیرہ کو اپنا موضو ع بناتے ہیں ۔ ربط و رشتے اور ابتداپر انتہا پر غور کرتے ہیں۔ اس دور میں ان کے ہاں اُداسی اور تنہائی کی کیفیت ملتی ہے۔ پھر یورپ جانے کے بعد کے دور کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دور میں ان کے ہاں ذاتی اور دلی واردات کا ذکر ملتا ہے۔(۳۷)

          فیض اس مضمون میں اقبال کے اسلوب کے حوالے سے کہتے ہیں:

اسلوب کے اعتبار سے ان کے کلام کا یہ دور غالبؔ کے ابتدائی دور سے مشابہ ہے۔ جس میں پُر شکوہ انداز، غیر مانوس فارسی تراکیب اور بلند بانگ لہجہ غالب ہے۔(۳۸)

          اس کے بعد فیض لکھتے ہیں کہ اقبال کے ہاں وطن پرستی کا جذبہ ملتا ہے۔ اس ضمن میں وہ اقبال کی کئی نظموں کا حوالہ دیتے ہیں۔مثلاً سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا اور ’’نیا شوالہ ‘‘ وغیرہ ۔دوسرے دور کا ذکر کرتے ہوئے فیض کہتے ہیں :

اقبال کے ہاں فطرت ،مناظر قدرت، اپنی ذات اور وطن کے محدود اظہار کی بجائے عالمی حالات کے زیر اثر ملت پرستی کا موضوع ان کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔(۳۹)

          اس دور میں انھوں نے بہت سی طویل نظمیں لکھیں۔ مسدس کی صنف کو منتخب کیا۔ اپنا پیرایہ اظہار بدلا، تشبیہات اور استعارات کی بجائے صاف اور سادہ گفتگو کا انداز اختیار کیا ۔ اس دور کی ابتدا’’مثنوی اسرارو رموز‘‘ سے ہوتی ہے۔ اور ’’پیامِ مشرق‘‘ سے آگے ’’بالِ جبریل‘‘ اور ’’ارمغانِ حجاز‘‘ پر جا کرا س کا اختتام ہو تاہے۔ اب ان کا یہ ذہنی اور جذباتی سفر اپنے انجام تک پہنچتا ہے جس میں انسان اور کائنات کے بارے میں غورو فکر ملتا ہے۔ یہاں اختصار ہے ،فصاحت ہے ،تحّیر کی جگہ ایمان اور محبت کی بجائے عشق ہے۔ وہ غنائیہ شاعری کا بدل پیدا کرنے کے لیے شاعری کی روایات میں کچھ نئے اضافے کرتے ہیں۔وہ بہت سے پرانے الفاظ تبدیل کرتے ہیں۔ فیض کا کہنا ہے :

جیسے جیسے اقبال کی فکر و خیال کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے ان کے موضوعات مرتکز ہوتے گئے۔ اقبال نے غزل کو وسعت دی۔(۴۰)

          ’’ہماری قومی زندگی اور ذہن پر اقبال کے اثرات‘‘ مضمون میں فیض نے بتایا کہ ہماری ذہنی زندگی میں جس قسم کا تلاطم اقبال کے افکار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان سے پہلے یا ان کے بعد کسی ادیب ،کسی مفکر، کسی مصنف نے ہمارے اذہان میں پیدانہیں کیا۔ اس کے بعد انھوں نے سر سید تحریک کے متعلق بتایا کہ اگرچہ سر سید تحریک نے بھی لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کیا لیکن اقبال کے افکار کا تعلق نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں سے تھا بلکہ تمام مسلمانوں ،دنیا بھر کے عام انسانوں ،جملہ موجودات اور غیر موجودات سے تھا۔ اقبال نے ہمارے قومی کاروبار میں خواہ وہ سیاست ہو ،خواہ مذہب ،خواہ اخلاقیات ،خواہ قومی زندگی کا کوئی شعبہ ہو اس میں تفکر اور تدبر کا عنصر شامل کیا۔ اقبال نے لوگوں کو سوچنے ،غور کرنے ،مشاہدہ کرنے ، مطالعہ کرنے اور تجزیہ کرنے کا طریقہ بتایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر خاص و عام سیاسی مفکر، معلم اور خطیب کے ہاں اقبال کا سا سوچنے کا اثر پیدا ہو گیا۔ اقبا ل کا ایک اور اثر لوگوں کے ذہنوں پر یہ ہوا کہ لوگوں کے ذہنوں نے غلامی سے نجات پائی۔

          انھوں نے انسانیت اور کائنات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فیض کا کہنا ہے کہ سر سید تحریک نے ان تمام باتوں کو آفاقی طریقہ سے نہیں سوچا ۔ آفاقی طریقہ سے سوچنے کی ترغیب اقبال نے ہمارے ذہنوں میں پیدا کی۔ انھوں نے ہمارے ذہنوں میں شعر و ادب کے ایک نئے مقام کا تعین کیا کیونکہ اس سے پہلے شعر کو ایک تفریحی چیز سمجھا جاتا تھا۔

          حالی کے بعد شعر میں فکر و حکمت محض اقبال کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اقبال نے ہی بتایا کہ شعر بہت ہی سنجیدہ چیز ہے۔ یہ محض دل لگی کا سامان نہیں۔ اپنے ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کا فنی پہلو‘‘ میں جوان کی انگریزی تقریر کا ترجمہ ہے۔ فیض نے اقبال کے کلام کے فنی پہلو پر گفتگو کی ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ اقبال کی شاعرانہ تکنیک پر کم کام کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ خود شاعر ہے۔ اقبال خود اپنی شاعری سے زیادہ اپنے پیغام کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

          فیض کہتے ہیں کہ ہمارے سنجیدہ مزاج حضرات شاعر کو بدنام سی شخصیت سمجھتے ہیں۔ شاید اقبال نہیں چاہتے تھے کہ انھیں بھی ایسے سڑے بسے نغمہ نگاروں میں شامل کر لیا جائے۔ فیض کہتے ہیں کہ اگرچہ اقبال ،فلسفی ،مفکر ، قومی رہبر او ر مبلغ سبھی کچھ تھے۔ لیکن جس چیز نے ان کے پیغام کو قوت بخشی اور دلوں میں گھر کر جانے کی صلاحیت بخشی ، وہ ان کی شاعری ہی تھی۔ شاعر اقبال کے ابتدائی کلام کے سٹائل اور طرزِ اظہار اور بعد کے کلام کے سٹائل اور طرزِ اظہار میں شدید فرق ہے۔ اس کے ہاں اس فرقکا باوصف ایک تسلسل ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ ان کے بچپن کی شاعری کے علاوہ نوجوانی کی شاعری میں بھی سنجیدگی اور متانت کا احساس نمایاں اور احسا س پوری شاعری میں نظر آتا ہے ۔اس تسلسل کا دوسرا پہلو تلاش و جستجو کا عنصر ہے۔ ان کے کلام میں اسرارِ کائنات او راسرارِ زندگی کو سمجھنے کو مستقل خواہش ہے۔

          فیض کہتے ہیں کہ ان کے ابتدائی کلام کا انداز مرصع، مسجع اور فارسی آمیز ہے۔ اس میں بیدلؔ ،نظیریؔ،غالبؔ اور فارسی شعرا کا اثر ہے۔ اقبال کے کلام کے ابتدائی دور کی مثال فیض اس شعر سے دیتے ہیں:

کسی قدر لذت کشورِ عقدہ مشکل میں ہے

لطفِ صد حاصل ،ہمارے سعئی بے حاصل میں ہے

          فیض کہتے ہیں کہ ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں ان کا انداز مرصع ہے۔ مگر آہستہ آہستہ یہ شاعری سادگی کی طرف جاتی ہے۔ ابہام سے قطعیت کی جانب، خطاب سے معنویت کی جانب، بعد میں کلام میں مرصع کاری نہیں۔کوئی امیجری نہیں ،اختصار ہے۔ ابتدائی کلام میں جوانی میں اقبال کے کلام میں اپنی ذات پر توجہ ملتی ہے۔ اپنا عشق، غمِ تنہائی اور مایوسیوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ پھر وہ اپنی ذات سے آگے مسلمان قوم ،بنی نوع انسان اور کائنات کی بات کرتے ہیں ۔ابتدائی دور میں کہیں سادگی ہے کہیں مرصع انداز ہے۔ اس دور میں تنوع کے بعد میں اقبال کا فکر ایک بندھی بدھائی وحدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس دور کے کلام میں یکسانیت ہے نشیب و فراز نہیں ۔یہ اقبال کے فن کے ارتقا کی دوسری منزل ہے۔ تیسرا دور عمل ہے۔ جسے تحلیل کہہ سکتے ہیں ۔پہلے دور میں بہت سی نظمیں مناطر فطرت پر ہیں مگر ان میں ربط نہیں مگر بعد میں اس فکر نے ترقی کی ۔ہر چیز میں ربط پیدا ہو گیا۔ اقبال کے چوتھے دور میں جذباتی فضا میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ بہت سے الفاظ تبدیل ہو گئے ہیں مثلاً محبت بعد کے دور میں پہنچ کر عشق میں تبدیل ہو گیا۔ غالباً اقبال پہلا شاعر ہے جس کے ہاں مجنوں،فرہاد وغیرہ ناموں کو چھوڑ کر کوفہ حجاز،عراق، فرات وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے ہاں جدید الفاظ ہیں مگر ایسے الفاظ نہیں جو نا مانوس ہوں ۔ اقبال نے اپنے کلام میں ایسی بحروں کا استعمال کیا جو اس سے پہلے اُردو شاعری میں استعمال نہیں ہوتی تھیں۔

          فیض کہتے ہیں کہ اقبال عمل ،ارتقا، جدوجہد اور فطرت کا شاعر ہے۔ اقبال کا موضوع انسان ہے۔ وہ انسان کی عظمت کے گن گاتا ہے۔ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس نے تخلیق کا چیلنج قبول کیا ۔وہ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے والا ہے۔ یہ وہ عظیم موضوع ہے جو اقبال کے آخری ایام کے کلام کو حسنِ شعر سے ارفع مقام پر پہنچا دیتا ہے۔

          ’’فکرِ اقبال کی ارتقائی منزلیں‘‘ مضمون میں فیض نے اقبال کی فکرکے ارتقا کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح پہلے دور میں ان کی فکر اور تھی اور دوسرے دور میں مزید پختہ ہوتی ہے۔ ان کی فکر کا اظہار مختلف ادوار اور مختلف صورتوں میں ہوتا رہا ہے۔ پہلے قومیت،وطنیت ،پھر اسلام ازم کا دور آیا۔ ہر دور میں ان کی شعری علامتیں ،شعری لب ولہجہ بدلتے رہے ہیں۔ ان کے ہر دور کے کلام میں تدبر اور تفکر ہے اور دوسرے تجسس اور تلاش کا عنصر ایسا ہے جو کہ ہر دور پر غالب رہا ہے۔ شروع میں مناظرِ فطرت پر نظمیں ہیں۔ حب وطن کا عنصر ہے ابتدا میں ان کے ہاں محبت کا لفظ ہے۔ بعد میں یہ عشق کا درجہ اختیار کرتا ہے۔ پہلے دور میں جذبات ہیں داغ کی زبان ہے۔ اس کے بعد غالب کی زبان کا اثر ہے۔ انگلستان کے دور کی نظموں میں اُداسی اور تنہائی کا ذکر ہے۔ دوسرے دور میں فارسی زبان کا اثر غالب نظر آتا ہے۔ اس کے بعد واعظانہ ،خطیبانہ انداز کا دور آتا ہے۔ سیاسی ،لسانی ،معاشرتی معاملات و مسائل کی جانب داری پر وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد غلامی اور آزادی کا ذکر ہے ہیئتی اعتبار سے ان کی زیادہ توجہ مسدس کی جانب ہو جاتی ہے۔ مثلاً شکوہ ،’’شمعِ شاعر ‘‘ اور ’’خضرراہ‘‘ نظموں میں مسدس ہیئت استعمال کی ہے۔

          آخری دور میں زبان اور لہجہ بدل جاتا ہے۔ فکر کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے ۔ا س دور میں ان کے ہاں ظاہری تکلف نہیں رہا بلکہ پختگی آ گئی ہے۔ جدت الفاظ سے وہ نئی نئی بحریں اور ترکیبیں اپناتے نظر آتے ہیں۔ ’’محمد اقبال‘‘ کے عنوان سے جو مضمون کتاب میں شامل کیا گیا ہے وہ دراصل انگریزی میں تھا اور اس کا ترجمہ سجاد باقر رضوی نے کیا ہے۔ اس مضمون میں بھی اقبال کے فکری ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ اور ان کی شاعری کے مختلف ادوار کا ذکر کیا گیا ہے۔

          ’’جستہ جستہ‘‘ کے عنوان سے شیمامجید نے فیض کی کتابوں سے چن کر جو اقتباسات دئیے ہیں ان میں بھی اقبال کی فکر اور ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً فیض ایک جگہ کہتے ہیں ’’اقبال ایک مفکر بھی تھے اور شاعر بھی۔ (۴۱) انھوں نے اپنے نظریات کو شعر کی پوشاک بھی عطا کی ہے۔ شاعری میں انھوں نے جو جدتیں اور جو نئے نئے امکانات پیدا کیے ہیں ان کا بہت کم ذکر ہوا ہے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ ’’انسان کو آزاد نظم لکھنے کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب وہ پابند نظم میں کچھ نہ لکھ سکتا ہو۔ علامہ کو آزاد نظم لکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔‘‘ (۴۲) انھوں نے اردو شاعر ی سے زیادہ فارسی شاعری میں تجربے کیے ہیں جن کی طرف توجہ نہیں کی گئی ۔اقبال نے بہت سے الفاظ کو نیا معنوی تناظر بھی عطا کیا ہے اور بہت سے الفاظ کو رائج بھی کیاہے ۔

          جابر علی سید(۱۹۲۳ء۔۱۹۸۵ء) ایک شاعر ،نقاد ،ماہر لسانیات وعر وض کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔انھوں نے مختلف موضوعات اور بہت سی ادبی شخصیات کو اپنی تنقید کا موضوع اور توجہ کا محور بنایا ہے۔ لیکن انھوں نے علامہ اقبال کے کلام اور فن و فکر پر خصوصی توجہ دی ہے۔ عملی تنقید کے سلسلے میں اقبال جابر علی سید کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انھوں نے اقبال پر جس بھرپور انداز اور تفصیل سے لکھا،کسی دوسرے پر نہیں لکھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اقبال پر باقاعدہ دو مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ایک کتاب ’’اقبال کا فنی ارتقا‘‘ ہے۔ جو مطبع ظفر علی سنز لاہور سے جون ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’اقبال ۔ ایک مطالعہ ‘‘ جو مطبع ظفر سنز لاہور سے جون ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی۔اقبال شناسی کے حوالے سے جابر علی سید کی تیسری کتاب ’’تنقید اور لبریزم‘‘بھی ہے۔ جو کاروانِ ادب ملتان سے ۱۹۸۲ء میں طبع ہوئی۔ یہ کتاب مکمل اقبال کے حوالے سے نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ اقبالیات پر مشتمل ہے۔ اقبالیات کے حوالے سے چوتھی کتاب’’اقبال اور الہلال‘‘ہے جو غیر مطبوعہ ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال پر ان کے کچھ غیر مطبوعہ مضامین بھی موجود ہیں۔

          جابر علی سید نے بطور اقبال شناس اقبال کے فن پر بڑی جامع اور معیاری تنقید کی ہے۔ اور اس ضمن میں دوسرے نقادوں کی آرا اور ان کے تنقیدی محاکمے کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی انکشافات اور نئے خیالات پیش کیے ہیں۔ ’’علامہ اقبال کے فنی ارتقا‘‘ کے مضمون میں انھوں نے بعض ایسی ہستیوں اور کلام اقبال کی خوبیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو شاید ہی کسی دوسرے اقبال شناس نقاد نے ان کی طرف دھیان دیا ہو۔ مثلاً اقبال کی نظم ’’ہمالہ‘‘ کے متعلق اقبال شناسوں کی یہی رائے ہے کہ اس نظم میں حب الوطنی او رقوم پرستی کے ان جذبات و احساسات کا نشان ملتا ہے۔ جس کی تشریح و توضیح اقبال نے صدائے درد، تصویرِ درد، ہندی او ر نیا شوالہ نظموں میں کی ہے۔ جابر علی سید ہمالہ کے بارے میں کہتے ہیں:

اقبال کی یہ نظم ہمالہ ان کے اس ثقافتی سفر کا نقطہ آغاز ہے جس کا نقطہ معراج ان کی نظم مسجد قرطبہ ہے۔(۴۳)

          اس نظم کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ نظم مجموعی طور پر تین نمایاں رجحانات رکھتی ہیں:

منظر نگاری ،واقعیت اور سادگی پسندی۔(۴۴)

          یہ وہ رجحان ہے جن کی طرف بہت ہی کم نقادوں کی نگاہ اُٹھتی ہے۔جابر علی سید کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت جہاں موضوع و مواد اور معانی کے کھرے کھوٹے یا اعلیٰ و ادنی کی پرکھ کرتے ہیں ۔وہاں وہ الفاظ ان کی ساخت و ترکیب ان کے فنی استعمال اور ان نظموں کو مضمون کے ساتھ جو داخلی ربط ہوتا ہے اس پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ الفاظ کہاں تک مضمون کے مطابق لائے گئے ہیں اور شاعر نے ان میں کیا جدت و خوبی پیشِ نظر رکھی ہے۔

          اقبال کی نظم’’فرشتے آدم کورخصت کرتے ہیں‘‘ کو لے لیجیے اس پر انھوں نے بالکل نئے اور انوکھے انداز میں اظہار خیال کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ چھوٹی سی ڈرامائی نظم غزل کی ہیئت میں ہے اور پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ پانچ کے عدد سے اگلی نظم ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘لکھتے وقت مخمس کا احسا س پیدا کیا ہے اور اس طرح اقبال نے یہ نظم مخمس کے انداز پر تخلیق کی وہ لکھتے ہیں :

اقبال نے پہلے شعبے کو سوزِ آدم کی بناپر تغزل کا رنگ دیا ہے اور پانچ شعر کی غزل لکھی ہے۔ پانچ کا تصور ابھی شاعر کے ذہن میں تھا اس نظم کا دوسرا حصہ معرضِ وجود میں آنے والا تھا کہ شاعر کو پانچ پانچ مصرعوں کے بندوں کا خیال آیا اور مخمس کی بنا ڈال دی گئی اور اس مخمس کی بنیاد بھی پانچ ہی بندوں پر رکھی گئی ہے۔(۴۵)

          جابر علی سید تنقید کرتے وقت شعر کی خارجی اور داخلی وحدت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔جو شعر یا نظم پارہ اس معیار پر پورا اترتا ہے وہ ان کے نزدیک بہترین شعر اور نظم پارہ ہے۔ تنقید کے لیے چند بنیادی شرطوں یا خصوصیتوں کاہونا ضروری ہے۔ ان کے بغیر ایک اچھا نقاد اپنے فرضِ منصبی کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی تنقید معیاری اور مستندہو سکتی ہے۔ جابر علی سید کی تنقید کا انداز ملاحظہ ہو۔ اس قطعے کا عنوان ہے جان و تن۔ اس میں علامہ اقبال نے معنی و مضمون کو جناب ،الفاظ اور ہیئت کو تن سے تعبیر کیا ہے۔ اور ان معنوں میں جو وحدت موجود ہے ان میں جو باہمی رشتہ اور تعلق ہے اس کی توضیح جابر علی سید کے الفاظ میں اس طرح ہے:

لفظ عبارت ہے بولے ہوئے معنی سے خیال کی خارجی صوتی صورت سے ،یہ ہماری سائنسی منطقی مجبوری سے کہ ایک وحدت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتے ہیں جب کہ اصل حقیقت یہی ہے کہ دونوں عنصروں میں یگانگت ہے ۔ھاپرت نہیں ،وحدت ہے ،دوئی نہیں یا دونوں ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک دوسرے میں مدغم اور علیحدگی کے تصور سے بھی گریزاں اور بیزار۔(۴۶)

          جابر علی سید نے اگرچہ اقبال پر ایسی کوئی کتاب تصنیف نہیں کی، انھوں نے اپنی اقبال شناسی کو متفرق مضامین اور چند گنے چنے عنوانوں تک محدو د رکھاہے۔ اس کے باوجود ان کے طریقہ تنقید میں بڑی جامعیت ہے۔ وہ ایک عنوان کے تحت جب کوئی بات کرتے ہیں وہ اگرچہ عنوان سے متعلق ہوتی ہے مگر وہ اشاریت سے کام لے کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ قاری ان کے مضامین کا مطالعہ کرتے وقت فکر اقبال کی بہت سی باریکی ،نقطہ آفرینی سے واقف ہو جاتا ہے۔ اقبال نے لفظی پیکران ،تشبیہ اور استعاروں کے پیرائے میں جو جہانِ معنی سموئے ہیں وہ ایک واضح شکل میں آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ اس طرح جابر علی سید کی تنقید میں تنوع اور ترفع پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور فکر اقبال کی معنوی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اقبال کی فنی عظمت و اہمیت کو بھی واضح کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور قاری کا ذہن فکر کی گہرائی اور خیالات کی ندرت کے ساتھ ساتھ شعر اقبال کی فنی معجز نمائیوں اور حسن کی رنگا رنگی اور بو قلمونی سے بھی لذت اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اوراس ذوقِ جمال کی تسکین و تشفی کا سامان فراہم ہو جاتاہے۔

          جابر علی سید نے بانگِ درا ،بالِ جبریل ،ضربِ کلیم اور ان کی فارسی تصنیفات پر بڑی جامعیت سے تحقیق کر کے اقبال شناسی کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے اقبال کے مخصوص لہجوں ،ان کی ہیئت پسندی ،ان کے شعوری اور فنی ارتقا ان کی تخلیقی تسلسل کو اگرچہ اجمالی طور پر بیان کیا ہے لیکن ان کے بیان میں کچھ ایسی معنویت پوشیدہ ہے کہ اعجاز وا ختصار اور اشاریت کے باوجود ہم اقبال کے حکیمانہ افکار اور فکرِ اقبال کے مآخذ و منابع تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں ۔ اور اقبال جن فلاسفہ اور مفکرین اور علما محدثین اور صوفیا اکرام سے متاثر ہوئے ان کا نشان بھی مل جاتاہے۔ غرض جابر علی سید کی تنقید اور اقبال شناسی اردو کے تنقیدی ادب میں ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔

          جابر علی سید نے اقبال کے نکتہ چینوں اور معترضوں کے اعتراضوں اور خوردہ گیریوں پر گہری نظر ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ ان کی یہ نکتہچینیاں محض معاصرانہ حسد و رقابت پر مبنی ہیں۔ سیماب اکبر آبادی ،فانی بدایونی ،جوش اور پطرس بخاری وغیرہ اقبال کے نمایاں نکتہ چینوں میں ہیں۔ جابر علی سید نے اس نکتہ چینی کی نفسیاتی توضیح اس طرح کی ہے:

پطرس کی ادبی شخصیت زیاں کارانہ محسوس ہوتی ہے۔ پطر س کی محفل آرائی ،افریت اور بذلہ سنجی سب ان کی ذہانت کا زیاں ہے۔ اس احساس زیاں کاری نے پطرس کو اقبال کی عظمت کا منکر بنا دیا ہے۔ ایک چھوٹی انا ایک عظیم انا سے بر سرِ پیکار نظر آتی ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ ظاہر ہے۔(۴۷)

          اقبال کے ساتھ اپنی اس غیر معمولی دلچسپی کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں :

اقبال کے اسلوب کی بلند آہنگی تفکر اور گہرائی لیے ہوئے ہے ۔ یہ صرف بے مغز اور شو ر انگیزآوازوں کا آرکسٹرا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقبال کے چند اور ہمعصر شاعروں کو بھی وہی مقبولیت حاصل ہوتی جو انھیں حاصل ہے۔(۴۸)

          ہم جابر علی سید کی اقبال پر تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جابر علی سید کی یہ خصوصیت ہے کہ اوروں کی طرح انھوں نے اقبال کے کلام میں تکراری انداز اختیار نہیں کیا بلکہ ان کی تنقید ایک جدت، ایک تنوع لیے ہوئیہے۔جابر علی سید کی یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا وہ موضوع منفرد ہے۔ جابر علی سید نے اقبال کے کلام کے ان حصوں پر تنقید کی ہے جس پر کسی دوسرے کی آج تک نظر نہیں پڑی۔ اگر پڑی تو صرف اچٹتی ہوئی۔ لیکن ایک عالم جب کسی عالم کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ معمولی بات نہیں ہوتی ۔ جابر علی سیدکے علم کا تقاضا تھا کہ وہ اس غیر معمولی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے۔ فارسی ،عربی ،انگریزی اور اُردو کے تحقیقی مطالعے اور اقبال کے کلام پر بار بار نظر ثانی نے ان کو اقبال پر تنقید کا حقدار بنا دیا۔ ۱۹۷۷ء کا سال دنیا بھر میں اقبال کے سال کے عنوان سے منایا گیا ۔ جتنی کتابیں اس سال چھپیں ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مگر یہ بات ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ لکھنے والوں نے اگرچہ خوب لکھا ہو گا مگر اقبال کے ان چھپے ہوئے فنی گوشوں کو سوائے جابر علی سید کے اور کوئی روشنی نہیں ڈال سکا تھا۔ ڈاکٹر انوار اس بارے میں کہتے ہیں :

ان کے علم کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں۔ اس صدی میں ایسے عالم ،فارسی ،اردو ،انگریزی اور کسی حد تک عربی سے واقف شاید ہی ہو گا۔(۴۹)

          اسلم ملک(۱۹۳۱ء پ) اقبال کے شہر سے مطابقت اورا ن کے سکول میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے انھیں ایک آئیڈیل کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اقبال شناس کے ضمن میں ان کی سب سے پہلی کاوش ’’مطالعات اقبال‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آئی جو اردو ادب اکیڈمی سیالکوٹ سے ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں اسلم ملک نے یومِ اقبال کے موقع پر منعقد ہونے والی مجلسِ مذاکرہ میں پڑھے جانے والے مقالات کو جمع کیا ہے۔ یہ کتاب بلاشبہ اقبال کی سوچ اور فکر کو پھیلانے میں ایک اہم قدم ہے۔ اقبال کے بارے میں قد آور ادبی شخصیات نے خوبصورت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان مقالات کے عنوان سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب میں اقبال کے بارے میں کس قدر مختلف باتیں جمع ہیں۔ مثال کے طورپر’’ اقبال ایک مصلح‘‘(۵۰) ’’اقبال کا مسلمانوں سے خطاب‘‘(۵۱) ’’علامہ اقبال اور مطالعہ تاریخ‘‘ (۵۲)’’اقبال کے عمرانی تصورات‘‘(۵۳) ’’اقبال کا فلسفہ تعلیم‘‘ (۵۴) یہ چند عنوانات ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اقبال کی نیرنگئی خیالات اس میں کس طرح موجود ہے۔ ’’حرفِ مرتب‘‘ میں اسلم ملک نے اپنے الفاظ میں اقبال کی زندگی اور ان کے مقصد زندگی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

          اس کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے معمول کے مطابق اقبال کی حیات کے ان چند واقعات سے جو ہم پڑھتے چلے آرہے ہیں، آغاز کیا ہے۔ ان کی زندگی کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے وہ اقبال کی شاعری پر نظر ڈالتے ہیں ۔علامہ اقبال کے اشعار کو لکھ کر ان کی معنوی تفہیم کی گئی ہے اور ان اشعار کا پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔

          ’’مطالعات اقبال‘‘ کے تناظر میں مرتب کی گئی ایک اور کتاب’’تعلیماتِ اقبال‘‘ ہے۔ جو ۱۹۸۸ء میں علامہ اقبال فاؤنڈیشن سے شائع ہوئی۔ ’’تعلیمات اقبال ‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں شامل مقا لات ادب کے معروف و ممتاز ادیبوں اور دانشوروں نے لکھے ہیں۔ ان کے قلم سے لکھے گئے قیمتی الفاظ کو اسلم ملک نے کتابی شکل میں محفوظ کر کے بلاشبہ اقبال کے چاہنے والوں کے لیے خوبصورت سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اس کتاب کا پیشِ لفظ اسلم ملک نے خود تحریر کیا ہے۔ان مقالات کے لکھنے والوں میں اہم نام فیض احمد فیض کا ہے جو بڑے منفرد انداز میں مقالے کا آغاز کرتے ہیں اور اقبال کی شاعری کے ان تمام سیاسی اور اصلاحی پہلوؤں سے دامن چراتے ہیں جن پر لوگ بے محابا لکھتے ہیں۔ اقبال کو بحیثیت شاعر اور ان کی شاعری کو شعری پیمانوں پر پرکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موجود کیفیات سے لے کر ادوار تک اور ردیف قافیہ ،تشبیہ ،استعارہ اور بحور پر بحث کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کا خلاصہ وہ مقالے کے آخر میں یوں پیش کرتے ہیں کہ اقبال نے اپنی تمام شعری صلاحیتوں کو انسان کی عظمت بیان کرنے میں صرف کر ڈالا ہے:

چونکہ انسان مستقل ارتقا پذیر ہے اس لیے اس کی تلاش ،اس کی جستجو کی کوئی آخری منزل نہیں ہے۔ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں پر اس کی خودی اس کی ذات کے ارتقاء کے امکانات ختم ہو جائیں حتیٰ کہ ایزدیت بھی انسان کے ارتقا ہی کی ایک صورت ہے۔(۵۵)

          احمد ندیم قاسمی نے اپنے مقالے ’’اقبال اور تحریکِ آزادی‘‘ میں اقبال کے فلسفہ انقلاب کو بیان کیا ہے۔ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں جو مقام و کردار اقبال کا تھا اس کا اندازہ اس مقالے کی تحریر سے بخوبی ہوتا ہے۔

غلامی پر غلاموں کی رضا مندی اقبال کے نزدیک غلامی کی بدترین اور مہلک ترین صورت ہے۔ چنانچہ وہ ایک مثبت اورخیرانگیز انقلاب کے لیے فضا کو ساز گار بنانا لازمی سمجھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اس ذہنیت کو ختم کرنا نا گزیر قرار دیتے ہیں۔ جو غلاموں کو بے حس بنائے رکھتی ہے۔ (۵۶)

           اقبال شناسی کی مہم میں شامل اسلم ملک کی تصنیفات میں ’’اقبال مفکر پاکستان‘‘ ،’’علامہ اقبال بچپن اور جوانی‘‘اور ’’بچوں کا اقبال‘‘ شامل ہیں۔ علامہ اقبال نے نوجوانانِ اسلام کے لیے شاعری کی لیکن انھوں نے بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انھوں نے بچوں کے لیے بے شمار آسان اور چھوٹی بحر کی نظمیں لکھیں جوان کی کتاب ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل نہیں لیکن مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتی تھیں ان کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں انھوں نے اپنے بچپن کا دور بیان کیا ہے۔ اقبال سے اپنی شناسائی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد اقبال کی شاعری پر تنقید کی ہے۔ اسلم ملک لکھتے ہیں :

علامہ اقبال اعلیٰ شاعری کے علمبردار تھے قدرت نے جوان کی شاعری میں جوہر پیدا کیا انھوں نے اس کے اظہار میں بچوں کو فراموش نہیں کیا۔(۵۷)

          اقبال کی نظموں کو انھوں نے حاشیہ آرائی کے ساتھ پیش کیا ہے تا کہ ان کے مطالب بچوں پر واضح ہو سکیں۔ یہ ملک صاحب کا موقف ہے لیکن حقیقت ایک نظم’’پرندے کی فریاد‘‘ کے حاشیے میں اسلم ملک کی زبان و بیان ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ جو بچوں کے نازک ذہن کے لیے انتہائی پیچیدہ ہے۔ اسلم ملک لکھتے ہیں :

ان نازک حالات میں مسلمانوں کے تباہ حال اور پریشان حال قافلے کو ایک ایسے حدی خواں کی ضرورت تھی جو آئندہ نسلوں کی تباہی او ر ہلاکت کے خوشنما سراب سے بچا کر ایک ایسے نخلستان کی طرف ان کی راہنمائی کرے جہاں ٹھنڈی چھاؤں اور میٹھے چشموں کے ساتھ انھیں آزادی میسر ہو۔(۵۸)

          اگر مندرجہ بالا اقتباس کو دیکھا جائے توا س میں موجود الفاظ ’’حدی خواں ‘‘ ،’’خوشنما سراب‘‘ اور’’ نخلستان‘‘ بچوں کے لیے دقیق الفاظ ہیں۔ اگر وہ روزمرہ زبان استعمال کرتے تو شاید بچے حاشیے کی زبان کو آسانی سے سمجھ جاتے۔

          نظموں کے علاوہ اس کتاب ’’بچوں کا اقبال‘‘ کے اختتا م پر اقبا ل کی دو خوبصورت غزلیں بھی دی گئی ہیں جن میں سے ایک علامہ نے اپنے بیٹے جاوید کے نام لکھی۔ (۵۹) اور دوسری غزل میں بچوں کو محنت کرنے کا درس دیا گیا ہے اور اس کے ثمرات بھی بتائے ہیں۔(۶۰)

          ’’اقبال مفکر پاکستان‘ ‘ تصنیف میں اسلم ملک نے اقبال اور ان کی جدوجہد آزادی کو بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ کس طرح سے اقبال نے اپنی شاعری کو اس جدوجہد کا ایک اہم حصہ بنایا ہے۔ ملک صاحب اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

اقبال کی شاعری کا بنیادی مقصد برصغیر میں مسلم معاشرہ میں بیداری کی روح پیدا کرنا تھا۔(۶۱)

          اگر اس کتاب کو تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ خاص معقول نظر آتی ہے۔ اس میں اشعار کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے۔ بلکہ اکثر مقامات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مضمون باندھا ہی اس نوعیت کا گیا ہے کہ اس کے آخر میں اشعار لکھ کر ان کی تائید کی جا سکے۔

          اقبال شناسی کی مہم کا ایک اہم حصہ ’’نذرِ اقبال‘‘ ،’’بخدمت علامہ اقبال‘‘،’’بحضور علامہ اقبال‘‘ ،اور ’’بیادِ علامہ اقبال ‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ چاروں اسلم ملک کی مرتبہ کتب ہیں۔ ان کتب میں علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔

          خواجہ اعجاز احمد بٹ(۱۹۴۲ء پ) سیالکوٹ میں اقبال شناسی میں اہم نام ہے۔ انھوں نے اقبال اور مرے کالج کے نام سے ایک تصنیف مرتب کی ہے ۔جس میں انھوں نے مرے کالج ’’مفکر‘‘ میں چھپنے والے اہم مضامین کو یکجا کر کے ایک کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ اس میں تمام مضامین علامہ اقبال کے فکر و فن کے بارے میں ہیں جو مفکر مرے کالج میگزین کے مختلف نمبروں میں چھپتے رہے ہیں۔ اس کتاب کو حروف پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے جس کی اشاعت اول ۲۰۰۵ء کو منظر عام پر آئی۔

          اس کتاب میں حضرت علامہ اقبال پر پہلا مضمون’’اقبال کا نظریہ خودی‘‘ کے عنوان سے پروفیسر محمد دین بھٹی (۱۹۱۰ء ۔پ) کا لکھا ہوا ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر موصوف نے علامہ اقبال کے نظریہ خودی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عام لوگوں کے نزدیک خودی سے مراد تکبر اور غرور ہے۔ جب کہ حضرت علامہ کے نزدیک خودی کا مفہوم انسان کی ذاتی شخصیت کے مترادف ہے۔جس کو Self personalityکہتے ہیں۔

          علامہ اقبال کے فلسفہ خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر صاحب مزید کہتے ہیں :

ایک آدمی کی خودی دوسرے کی خودی سے قوی اور مضبوط ہو گی اور دوسرے کی اس کی نسبت کمزور اور ضعیف ۔زمین اپنی خودی میں چاند سے مضبوط ہے۔ اس لیے چاند اس کے گرد چکر لگاتا ہے یعنی ا س کا مطیع ہے۔ اور پھر چونکہ سور ج کی ہستی اورخودی زمین کی خودی سے مضبوط ہے۔ اس لیے زمین محتاج سور ج ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ جتنی خودی مضبوط ہو گی اتنے ہی دوسرے اس کے زیر اثر ہوں گے ۔(۶۲)

          علامہ اقبال کی شاعری کے عنوان سے ایک مضمون عبدالحق صاحب (۱۹۱۲ء ۔پ) نے لکھا ہے جو اس کتاب کے صفحہ نمبر ۲۲ سے شروع ہوتا ہے۔ عبدالحق کے نزدیک اقبال کی شاعری میں داغ کا رنگ میر کا سوز ،غالب کا فلسفہ اور حالی و شبلی کی قولیات ہیں مگر سب سے بڑھ کر دعوتِ عمل پر اثر اور جوش بھی ہے۔ اقبال کی شاعری کے حوالے سے عبدالحق ایک جگہ پر یوں رقم طراز ہیں:

اقبال کا کلام شاعری کے مقررہ معیار سے بہت بلند ہے۔ اس کی ذات میں وہ تمام صفات جمع ہیں جن سے متصف ہو کر کوئی جادو نگار شاعران تمام حقیقتوں کے روشن چہرہ سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔ جن کے جلوے تحت الثری سے اوج عرش تک بکھرے پڑے ہیں۔ آپ نوجوانو ں کے دل و دماغ پر خود داری اور خود اعتمادی کے زریں خیالات منقش کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہی دو چیزیں ہیں جو پسماندہ اور قصرِ مذلت میں گری ہوئی قوم کو عزت و احترام کی بلندی پر لے آتی ہے۔ (۶۳)

          ’’اقبال ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون نصیر احمد (۱۹۱۳ء ۔پ)نے لکھا ہے جو’’ اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۲۵ سے شروع ہوتا ہے۔نصیر احمد کے نزدیک اقبال جیسا سخن ور اس کے مدعائے شاعری کے ساتھ آج تک کوئی شخص پید انہیں ہوا۔ اقبال کی شاعری ایک پیامِ حیات افروز اور دنیائے ادب کا ایک انقلاب ہے۔ ان کے نزدیک اقبال سے پہلے شعرو شاعری کی دنیا زوال کی تاریکی میں گم تھی۔ شعر و شاعری اپنی ماہیت کھو چکی تھی۔ شاعری جو کبھی معجزہ سمجھی جاتی تھی جسدِ بے روح رہ گئی تھی ۔شعر شعر نہ تھے بلکہ الفاظ و محاورات کے کھلونے تھے جن سے نادان شاعر کھیلتے اوردل بہلاتے تھے۔ اب وقت تھا کہ پھر کوئی شوریدہ سر آتش نوا پید اہو جس کی شاعری میں اعجاز ہو اور جس کے کلام میں بجلیاں ہوں۔چنانچہ سر زمین ہند میں اقبال پیدا ہوئے۔اپنے مضمون ’’اقبال ‘‘میں نصیر احمد رقم طراز ہیں:

علامہ اقبال افلاطون کے فلسفہ سکون اور تصوف کی تعلیم صبر و رضا اور قناعت کے سخت مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تعلیم ایک زندہ اور بیدار قوم کے حق میں سمِ قاتل کا حکم رکھتی ہے۔ یہ تن آسانی سکھاتی ہے جو انسان کی تذلیل و تحقیر کا باعث ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی قوتوں کا حقیقی احساس ہونا چاہیے ۔قادر ِ مطلق نے آدم کو اور سارے نظامِ عالم کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ زندگی کی قوتِ پنہاں کو آشکار کرے ۔(۶۴)

          ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ میں ایک مضمون ’’اقبال کا فلسفہ حیات‘‘ ہے۔ جسے تجمل علی راٹھور (۱۸۹۰ء۔۱۹۵۸ء) نے تحریر کیا ہے۔ جو مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ نمبر ۳۱ سے شروع ہوتا ہے۔ راٹھور صاحب کے نزدیک زندگی در حقیقت نہ کامیڈی ہے نہ ٹریجیڈی ۔زندگی کے بارے میں زاویہ ہائے نگاہ کا اختلاف ہی تو ہے جو زندگی کو مختلف رنگوں میں پیش کرتا ہے ۔راٹھور کہتے ہیں کہ اگر تم فلسفی ہو تو زندگی شک کا دوسرا نام ہے اور اگر تم شاعر ہو تو زندگی حسن ہے ۔ایک کنجوس کے لیے روپیہ ہی زندگی اور ایک صوفی کو ہر جگہ خدا نظر آتا ہے۔ پس زندگی کچھ بھی نہیں یہ نکتہ نگاہ ہی ہے جو اس کو ایک خاص جامہ پہناتا ہے۔ اور چونکہ ہر تماشائی ایک خاص زاویہ سے زندگی پر نگاہ ڈالتا ہے۔ پس ہر تماشائی اس پر فریب ڈرامہ کے متعلق کچھ نئی بات ہی اخذ کرے گا اور یہی نتیجہ اس کا فلسفہ حیات ہو گا۔

          اپنے مضمون میں راٹھور صاحب موصوف اقبال کے نظریہ حیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں :

علامہ کا فلسفہ حیات قرآن کریم کی تعلیم پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک زندگی ایک ابدی کشمکش ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا ہے۔ نہ صرف انسانی سفر میں مشغول ہے بل کہ کوئی چیز ایک قائم نہیں بل کہ لمحہ بہ لمحہ آگے ہی قدم رکھتی ہے۔ زندگی عمل ہے یہی وہ پیغام جو قرآن نے دنیا کو دیا اور یہی ہے وہ پیغام جو ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کا مسلمان اپنی زبان پرے کے نکلا۔(۶۵)

          ’’اقبال کا سیاسی پس منظر ‘‘ عنوان کے تحت ایس ڈی ظفر (۱۹۲۵ء۔پ) نے ایک مضمون لکھاجو جون ۱۹۴۹ء کے ’’مفکر‘‘ میں چھپا اور ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۳۶ سے شروع ہوتا ہے۔ ایس ڈی ظفر کے مطابق شاعر مشرق نے سیاست ،فلسفہ اور شاعری میں کوئی شعبہ زندگی نہیں چھوڑا جس پر انھوں نے کچھ نہ کچھ لکھا نہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال ایسے انقلاب کا دلدادہ ہے جس میں ہر شخص با فراغت گزارہ کر سکے۔ جس میں جاگیر دار مزارعہ کے گاڑھے پسینے کی فصل ڈکار لیے بغیر اور ہاتھ ہلائے بنا شیرِمادر سمجھ کر پی نہ جائے ۔ جس میں ہر اس کھیتی کو نذرِ آتش کر دیا جائے جس سے دہقان کو دانہ میسر نہ ہو اور مزدور کو اپنی جائز مزدوری سے محروم کر دیا جائے۔

          اقبال کی سیاست کے حوالے سے ایس ڈی ظفر کہتے ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے برصغیر پاک و ہند کے سیاسی حالات سے آگاہی ضروری ہے۔ ایس ڈی ظفر لکھتے ہیں:

میرے نزدیک اقبال ؒ کو اس وقت سمجھنا اور اس پر قلم اٹھانا آسان نہیں جب تک ہم اس پس منظر سے واقف نہ ہوں جو اس وقت یعنی ۱۹۰۱ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک ملک کی سیاسی مجلسی، تمدنی اور علاقائی کشمکش کی صورت میں ان کے سامنے موجود تھا۔ اور ظہور پذیر ہوا۔(۶۶)

          پروفیسر ایم ڈی بھٹی(۱۹۱۰ء۔پ) کا ایک مضمون ’’علامہ اقبال مرحوم بحیثیت مجدد‘‘،’’مفکر‘‘ میگزین مرے کالج میں جون ۱۹۴۹ ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۴۲ سے شروع ہوتا ہے۔ پروفیسر بھٹی موصوف کے نزدیک مختلف وقتوں میں لوگوں کی حالت کے پیشِ نظر خدا وند تبارک وتعالےٰ اپنی برگزیدہ ہستیوں کے ذریعہ قوانینِ حیاتِ انسانی بھیجتا رہا ہے۔ جب دیکھا کہ لوگوں نے ان قوانین کی پابندی سے انحراف کیا تو اس نے فوراً اپنے کسی بندے کو انھیں صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے مامور کر دیا ۔ یہی سلسلہ رہا اور تاقیامت رہے گا۔پروفیسر بھٹی کے نزدیک اقبال بھی ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ہیں جنھیں مجدد کہہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

علامہ اقبال مرحوم کی ذات کو اﷲ تعالیٰ نے اس وقت ہند میں پیدا کیا اور اس منصب جلیل پر فائز کیا جب کہ یہاں کے باشندوں او ر خاص کر مسلمانوں نے چشمہ تو حید کو کفر و شرک کی آلودگی میں ملوث کر دیا تھا۔ یا دوسرے لفظوں میں جب کہ وہ اپنی خودی کھو چکے تھے۔ علامہ مرحوم نے نورِ خودی کو ان میں از سر نو پیدا کرنے اور اسی نقطہ نور کو ان میں دوبارہ روشن کرنے کی کوشش کی ۔ اور وہ اپنا فرض ادا کر چکنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں جا بسے۔(۶۷)

          پروفیسر بھٹی صاحب بالِ جبریل سے جس کی طباعت ۱۹۳۵ء میں پہلی دفعہ ہوئی چند الہامات یا اسرارِ ربانی جن کو وہ ان کی پیشن گوئی کہہ سکتے ہیں ان کے اپنے وقت کے مجدد ہونے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ یہ کتاب علامہ کی وفات سے قریباً تین سال پہلے مرتب ہو چکی تھی ۔

          پروفیسر بھٹی پاکستانی سلطنتِ خداد اد کے وجود میں آنے کے متعلق اقبال کے یہ اشعار پیش کرتے ہیں:

عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں

میر ی نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

پردہ اُٹھا دوں اگرچہرہ افکار سے

لا نہ سکے گا میری نواؤں کی تاب

اُلٹ جائیں گی تدبیریں بدل جائیں گی تقدیریں

حقیقت سے میرے تخیل کی یہ خلاقی

حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے

عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے(اقبال)

          پروفیسر بھٹی کے مطابق اقبال جنگِ عظیم کے وقوع کی خبر ان الفاظ میں دیتے ہیں :

خبر ملی ہے خداوندانِ بحر و بر سے مجھے

فرنگ رہ گزر سیلِ بے پناہ میں ہے

(اقبال)

          اے ڈی اظہر(۱۹۰۰ء۔۱۹۷۴ء ) کا اقبال شناسی کے حوالے سے ایک مضمون ’’اقبال کا تصورِ مومن‘‘ ،’’مفکر‘‘ ، ’’میگزین مرے کالج ‘‘میں جون ۱۹۴۹ء میں چھپا۔ یہ مضمون’’اقبال اور مرے کالج ‘‘ کے صفحہ ۴۵ سے شرو ع ہوتا ہے۔ اے ڈی اظہر کے نزدیک اقبال کہتے ہیں کہ تمام بیماریوں کا علاج جو اندرونی اور بیرونی غلاموں کی وجہ سے انسانی سو سائٹی میں سرایت کر گئی تھیں۔ مردِ مومن ہے،مومن ہ ہے جو تسخیر حیات سے بلکہ تسخیر کائنات سے آدمیت کا درجہ بلند کرتا ہے۔ ایمان مردِ مومن کے قول و فعل و کردار کا محور ہے۔ اپنے مضمون میں اے ۔ڈی ۔اظہر اقبال کے مرد مومن کے بارے میں لکھتے ہیں:

مردِ مومن وہ زندہ دل ہے جو اپنی دنیا آپ بناتا ہے۔ وہ ایسا بے لاگ قلندر ہے جسے دنیا کا کوئی لالچ اور خوف حق گوئی سے باز نہیں رکھ سکتا ۔ اس کے نزدیک توحید کے معنی ہی یہ ہیں کہ اﷲ کے ایک خوف کے بعد دوسرے تمام خوفوں سے آزاد ہو جائے وہ دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ایسا عالم پیدا کرے جس میں خواجہ اور بندہ کا امتیاز مٹ جائے ۔اس کا دل موت سے خائف نہیں ہوتا۔ جو موت سے ڈرتا ہے۔ وہ مردِ مومن نہیں ۔وہ اپنے رزق کی تلاش میں اپنی شان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اور حصولِ روزگار میں اپنے بلند مقام سے نیچے نہیں اترتا۔(۶۸)

          مضمون کے آخر میں اے۔ ڈی ۔اظہر کہتے ہیں کہ اقبال خود بھی مردِ حق، فلسفی شاعر،حکیم ،دانائے رازاور مردِ مومن سب کچھ تھا۔ اس کا دل ،عشقِ رسول سے لبریز تھا۔

          آسی ضیائی رامپوری کا ایک مضمون ’’اقبال……میری اور آپ کی نظر میں‘‘،’’مفکر‘‘ مرے کالج میگزین میں جون ۱۹۴۹ء میں چھپا ۔یہ مضمون یومِ اقبال کے موقعہ پر ۲۹ اپریل ۱۹۴۹ء میں مرے کالج میر حسن ہال میں پڑھا گیا۔ یہ مضمون مرے کالج کے طلبا کے لیے لکھا گیاتھا۔ یہ مضمون ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۵۵ سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں آسی ضیائی بیان کرتے ہیں کہ اقبال کو سمجھنے میں ان کے اور کالج کے طلبا میں بڑا فرق ہے کہ سیالکوٹ والے سمجھتے ہیں کہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور سیالکوٹ والے اس کے جائزوارث ہیں مگر ان کے خیال میں اقبال دنیا میں پیدا ہوئے۔ اور دنیا بھر کے لیے ہیں۔

          اس مضمون میں اقبال کی عظمت بیان کرتے ہوئے آسی ضیائی ایک جگہ لکھتے ہیں:

دنیا نے انھیں اقبال حکیم الا مت کا لقب دیا مگر ان کے خیال میں علامہ اقبال عظیم الشان دوا خانے کے ماہر عطار ہیں جس میں دنیا کے ہر دکھ کی دوا ملتی ہے۔ پاکستانیوں نے اقبال کے اردگرد اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ اور اوپر پاکستان لکھ دیا ہے۔ مگر ان کے خیال میں اقبال کو صرف پاکستان تک محدو و رکھنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ اقبال ایک آفاقی شاعر تھے ان کی اہمیت عالمگیر ہے۔(۶۹)

          ستار لودھی (۱۹۳۳ء ۔پ) کا ایک مضمون ’’کلامِ اقبال میں طنز‘‘ ،’’مفکر‘‘ مجلے میں مارچ ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون اقبال اور مرے کالج کے صفحہ ۶۲ سے شروع ہوتا ہے۔ ستا ر لودھی کے نزدیک اقبال کے طنز میں نہ تلخی ہے نہ ظرافت بلکہ مفکرانہ بصیرت گہری تنقیداور گاہے گاہے شوخی ہے۔ وہ اکبر اور سودا کی طرح مذاق نہیں اُڑاتے ۔ وہ تضحیک اور مبالغہ آرائی سے بھی کام نہیں لیتے۔ ان کا طنز بہت گہرا ہوتا ہے۔ اور وہ بڑی بے باکی سے ایک چیز جو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اصلی رنگ میں پیش کردیتے ہیں۔ یہی بے باک بے نقابی ان کے طنز کا جوہر ہے۔ ستار لودھی اپنے مضمون میں اقبال کی طنز نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:

اقبال کے ہاں نہ شخصی طنز ہے اور نہ اس میں تلخی و تندی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کو اپنے کلام میں کہیں بھی ان چیزوں کا سہارا لینا نہیں پڑا۔ اقبال کی طنز نگاری میں دوسروں کی طرح اپنے ہم عصروں سے نفرت ،غصہ اور حقارت کے جذبات نہیں بلکہ توازنِ فکر اور سلامتی طبع کا مظاہرہ ہے جو پڑھنے والے کے دل میں نفرت و غصہ کے جذبات پیدا کرنے کے بجائے ان کے ذہن و عقل اکساتا ہے۔ اور انھیں سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور اسی لحاظ سے اقبال کی طنزیہ شاعری اپنی نظیر آپ ہے۔(۷۰)

          پروفیسر حفیظ الرحمن احسن(۱۹۳۴ء پ ) کا اقبال شناسی کے حوالے سے ایک مضمون حیات ِ اقبال کے چند غیر معروف گوشے ،’’مفکر‘‘ میگزین مرے کالج میں دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون ’’اقبال اور مرے کالج ‘‘ کے صفحہ ۶۷ سے شروع ہوتا ہے۔ اس مضمون کو پروفیسر موصوف اقبال کے غیر معروف گوشے بیان کرتے ہوئے اقبال کی عظمت کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جن دنوں اقبال ہائیڈل برگ (جرمنی ) میں فلسفہ میں اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ اس دوران انھوں نے اپنی بے پناہ ذہنی استعداد سے کام لیتے ہوئے جرمنی زبان پر تین ماہ میں عبور حاصل کر لیا۔ جس سے تمام اساتذہ پر حضرت علامہ کی غیر معمولی استعداد کا نقش ثبت ہو گیا۔ اس مضمون میں پروفیسر صاحب نے علامہ سے عطیہ بیگم فیضی کی پہلی ملاقات کاذکر کیا ہے اور علامہ کے فلسفہ کے اساتذہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس مضمون میں حفیظ الرحمن احسن لکھتے ہیں:

یکم جون ۱۹۰۷ء کو پروفیسر آرنلڈ کی دعوت پر کیمبرج میں ایک پکنک ہوئی۔ دریا کے کنارے ایک بڑے درخت کے سائے میں متعدد ذی علم لوگ جمع تھے۔ پروفیسر آرنلڈ نے باتوں باتوں میں موت و حیات کے مسئلے پر بحث شروع کر دی۔ گوناگوں خیالات کے اظہار سے مباحثہ پیچیدہ سا ہو گیا۔ اقبال خاموش بیٹھے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ نے اپنار ُخ اقبال کی طرف پھیرتے ہوئے انھیں بھی اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ اقبال جو اب تک بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ چمک کر بولے زندگی موت کی ابتدا ہے ۔اور موت زندگی کا آغاز ، اس مختصر سے جملے نے بحث کو ایک تسلی بخش اور متفق علیہ حل پر پہنچا دیا۔(۷۱)

          اعزاز احمد آــذرؔ (۱۹۵۰ء ) کا ایک مضمون ’’اقبال اورایک عاشقِ رسول ‘‘،مفکر ،میگزین میں ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔یہ مضمون ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۷۵ سے شروع ہوتا ہے۔ آذر صاحب کہتے ہیں کہ علامہ اقبال ایک عظیم عاشق رسولؐ تھے۔ بزمِ رسالت ماب میں مدح خواں اور نعت گو شعرا کی کمی نہیں ہے مگر جو بات اقبال میں تھی تمام شعراء میں مفقود تھی ۔حضرت علامہ نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگر کبھی بھی اپنے مذہب اسلام یا اسلاف کے کارناموں پر شرمندہ نہ ہوئے بلکہ فخر کیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال جب جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تو ان کی زبان پر یہ ترانہ تھا:

سرمۂ میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

          اعزار احمد آذر اقبال کے عشقِ رسولؐ کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

ذات رسالت مآبؐ سے اقبال کو شروع ہی سے والہانہ تعلق تھا لیکن زندگی کی گرہیں جیسے جیسے بڑھتی گئیں یہ تعلق عشق میں تبدیل ہو تا گیا۔ آخری عمر میں عشقِ رسولؐ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ حضرت کا نام نامی آتے ہی آنکھوں سے دجلہ و فرات کی بارش ہو جاتی۔ وہ خدا سے زیادہ رسولؐ کو چاہتے تھے۔ اس لیے کہ خدا کو رسول کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے۔(۷۲)

          اعجاز احمد بٹ کا مضمون ’’اقبال کا تصورِ ملت‘‘،’’اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۸۲ سے شروع ہوتا ہے۔ اعجاز احمد صاحب کہتے ہیں کہ اقبال کے ہاں ملتِ اسلامیہ تصور جغرافیائی نہیں ،سیاسی نہیں بلکہ یہ توسراسر رومانی اور مذہبی یگانگت ہے جو دلوں کے قریب ہونے سے پیدا ہوتی ہے اور جس کی اساس محض مذہب اسلام ہے۔رنگ و نسل، جغرافیائی حدود، سیاسی حالت محض انسانی حیثیت رکھتے ہیں۔اعجاز احمد بٹ اپنے مضمون میں’’ اقبال کے تصورِ ملت ‘‘میں لکھتے ہیں:

اقبال کا تصور ملت محض انقلابی نعرہ نہیں بل کہ ایک تہذیبی تاریخ کا حامل ہے اور وطن دوستی کے شیدائی اقبال نے یہ دیکھا کہ اقوامِ عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پر ظلم کر رہی ہیں تو اقبال وطنیت کے اس فلسفی پہلو سے متنفر ہو گیاہے۔ میں نے اقبال کی وطن دوستی کا ذکر کیا ہے۔ وطن پرستی کا نہیں میرے نزدیک اقبال وطن پرست کبھی نہیں رہا کیوں کہ وطن محض ایک جغرافیائی حدود کی سیاسی حکمرانی کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے ملتِ اسلامیہ کا خاکہ بھی تیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک ملت کی سب سے بڑی خصوصیت ایک مرکز ہے۔ مرکز کی وجہ سے ملت کی عمارت مرکز ہی کے ستونوں پر قائم رہتی ہے۔ مرکز کی وجہ سے ملت کا شیرازہ نہیں بکھرتا۔(۷۳)

          اطہرؔ سلیمی (۱۹۴۲ء۔۱۹۹۴ء) کا مضمون’’اقبال کا انسانِ کاملؐ‘‘ ،’’اقبال اور مرے کالج ‘ ‘ کتاب کے صفحہ ۸۶ سے شروع ہوتاہے۔

          اس مضمون میں اطہرؔ صاحب کہتے ہیں کہ انسان کے متعلق علامہ اقبال کا تصور اُصولی طور پر قرآنی ہے۔ انھوں نے تصورِ خودی کے نظریے سے مربوط کر کے یہ تصور پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال کا انسانِ کامل ،اخلاق و کردار میں ،عادات میں اور رفتارو گفتار میں سب سے الگ ہے۔ وہ زمانے کے لیے ہے اور اس کے نور جہاں تاب سے کائنات کی تخلیق کی گئی ہے۔ علامہ کا انسانِ کامل اپنے جوش عمل سے کائنات میں ایک انقلاب برپا کرتا ہے۔ وہ قعر مذلت میں پڑے ہوئے انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے اور انھیں بندہ مومن کے منصب پر فائز کرتا ہے۔

          اطہر سلیمی اپنے مضمون میں اقبال کے انسان کامل کے بارے میں لکھتے ہیں:

علامہ اقبال نے انسانِ کامل کا تصور نہ نٹیشے کے سُپر مین سے لیا نہ ہائیڈ گرکے آتھنٹک مرد سے نہ ابنِ عربی کے انسان کامل سے نہ کار لائل کے ہیرو سے۔ ان کا یہ تصور خالصتاً قرآنی ہے اور اس سے ان کی مراد صرف اور صرف رسولِ اکرم کی ذات گرامی ہے۔(۷۴)

          ڈاکٹر عادل صدیقی (۱۹۵۴ء پ) کا مضمون ’’اقبال کا نظریہ توحید‘‘ ،’’مفکر‘‘ میگزین اپریل ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ کے صفحہ ۹۱ سے شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اقبال کے نظریہ توحید کے بارے میں کہتے ہیں کہ اقبال نے اقرار توحید کے بعد جہاں دل و نگاہ کو منزہ اور پاک رکھنے کی تاکید کی ہے وہاں جذبہ عشق کی سرشاریوں میں سے بھی گزرنے کی تحریک دی ہے۔ نظر یہ توحید میں ان دو اہم پہلوؤں کے بعد اقبال کے نزدیک جو امر سب سے زیادہ معتبر ہے۔وہ یہ ہے کہ اچھا وہ انسان ہوتا ہے جسے دوسرے لوگ اچھا کہیں۔اقبال کے نظریہ توحید میں ایک بہت کڑا مقام انتہائے عشق ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ پر ا یمان لانے کے بعد اس کی محبت میں سرشار ہو جانا،سرمستی اور سرشاری کی یہ منزل ہی مسلمان کو مکمل مسلمان بناتی ہے۔

          ڈاکٹر عادل صدیقی اقبال کے نظریہ توحید کے بارے میں لکھتے ہیں:

ان کی شاعری میں مسائل تصوف بھی ہیں اور افکار زمانہ بھی۔ فلسفہ جبر و قدر بھی ہے اور رازدارون میخانہ بھی ہے۔ان تمام پہلوؤں کے علاوہ ان کی شاعری کا امتیاز ان کا فلسفہ خودی اورنظریہ توحید ہے۔ فلسفہ خودی کی وسعتیں اور نظریہ توحید کی لا محدود کائنات دو الگ الگ موضوع ہیں مگر دونوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی بھی ہیں۔(۷۵)

          پروفیسر محمد طارق امین(۱۹۴۷ء پ) شہرِ اقبال کے موجودہ دور کے اہم اقبال شناس ہیں۔ اقبال شناسی اور اقبالیات پر ان کے بہت سے تنقیدی و تحقیقی مضامین مختلف قومی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ایک مضمون ’’اقبال کے سیاسی افکار‘‘ ۱۹۹۴ء میں ’’مفکر‘‘ میگزین میں شائع ہوا۔ یہ مضمون ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ میں بھی شامل ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۰۰ سے شروع ہوتا ہے۔ اس مضمون میں طارق امین صاحب کہتے ہیں کہ فرد و ملت کے تعلقات کے بارے میں بہت سے مفکرین نے اگر فرد کی انفرادیت پر زوردیا ہے تو انفرادیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مگر شاعرِ مشرق اگر فرد کی انفرادیت کی بات کرتے ہیں تو زندگی گزارنے کے لیے اجتماعیت کی ضرورت کو نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔ حضرت علامہ افراد کی اجتماعی زندگی کو نا گزیر قرار دیتے ہیں:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

          پروفیسر طارق امین صاحب اپنے مضمون میں ایک جگہ علامہ اقبال کے سیاسی افکار کے حوالے سے لکھتے ہیں:

علامہ اقبال کے نزدیک نظامِ سیاست سے مراد ایک ایسی جماعت ہے جس کا نظم و انضباط کسی نظام قانون کے تحت عمل میں آتا ہو اور جس کے اندر مخصوص اخلاق روح سرگرمِ کار ہو۔ وہ سیاست کی جڑا نسان کی روحانی زندگی میں ہونا قرار دیتے ہیں۔ علامہ سیاست کو نہ صرف مادی نظم و ضبط کا ذریعہ قرار دیتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک انسان کی روح کی جلا اوراس کی بالیدگی بھی سیاست کے بغیر ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست و مذہب میں ناقابلِ شکست رشتہ بتلاتے ہیں۔(۷۶)

          پرو فیسر محمد امین طارق صاحب کو اقبالیات سے والہانہ لگاؤ ہے۔ پروفیسر صاحب نے ایک کتاب ’’اقبالِ اقبال ‘‘ کے عنوان سے مرتب کی جس کو ادارہ بزمِ رومی وا قبال سیالکوٹ نے ۲۰۰۰ء میں شائع کیا۔ اس کتاب میں پروفیسر صاحب نے مختلف رسائل میں شائع ہونے والے اقبالیات پر اپنے مضامین کو یکجا کر دیا ہے۔ اس کتاب میں ایک مضمون ’’اقبال …………حرکت و عمل کا پیغام بر‘‘ثمینہ مجید کا ہے۔ باقی چھ مضامین ’’اقبال اور تعلیم‘‘ ،وحدت الوجود اور ‘‘،’’اقبال اور قرآن‘‘ ،’’اقبال کا مرد مومن اور نظریہ خودی‘‘ ،’’فارابی سے اقبال تک‘‘ اور’’ ڈاکٹر محمد اقبال (۱۸۷۷ء ۱۹۳۸ء)‘‘ پروفیسر طارق امین صاحب کے ہیں۔ مندرجہ بالا مضامین پروفیسر موصوف نے اپنی کتاب ’’اقبالِ اقبال‘‘ میں ترتیب سے شائع کیے ہیں۔ ثمینہ مجید کا مضمون ’’اقبال ۔۔حرکت و عمل کا پیامبر‘‘ نگار پاکستان میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ طارق امین صاحب کے مضامین’’اقبال اور تعلیم‘‘ ،’’وحدت الوجود اور اقبال‘‘ اور ’’اقبال اور قرآن‘‘ ماہنامہ محفل لاہور میں شائع ہوئے تھے۔ ’’اقبال کا مردِ مومن اور نظریہ خودی‘‘ مضمون نگار پاکستان میں شائع ہوا۔ ’’فارابی سے اقبال تک‘‘اور ’’ڈاکٹر محمد اقبال (۱۸۷۷ء ۔۱۹۳۸ء)‘‘ پندرھویں صدی ہجری کراچی میں شائع ہوئے تھے۔ مندرجہ بالا مضامین کے علاوہ بھی پروفیسر صاحب کے بہت سے مضامین اقبالیات پر مختلف رسائل و جرائد میں اشاعت کے مراحل سے گزرے ہیں جن کی تفصیلات نہ ملنے کی بنا پر اکتفا کیا گیا ہے۔

          پروفیسر محمد امین طارق کا اقبالیات اور اقبال شناسی سے اس قدر لگاؤ ہے کہ انھوں نے ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا مقالہ بعنوان ’’اقبال کے فلسفہ خودی کے اسلامی ماخذ‘‘ لکھا لیکن وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہ حاصل کر سکے۔

          ڈاکٹر اصغر یعقوب(۱۹۴۶ء پ) کی ادبی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ یہاں صرف اقبال شناسی کے حوالے سے ان کی خدمات کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ اقبال شناسی پر انھوں نے ’’ذکرِ اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب نومبر ۱۹۷۷ء میں مرتب کی۔ اقبال صدی کے حوالے سے انھوں نے یہ کتاب بڑی محنت سے مرتب کی۔ اس کتاب کی خاطر انھوں نے اپنے بہت سے دوستوں سے مضامین اکٹھے کیے اور انھیں ’’ذکرِ اقبال‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا۔’’ذکرِ اقبال‘‘ کے ابتدائیہ میں ڈاکٹر اصغر یعقوب لکھتے ہیں:

اُن کا اس کتاب کو ترتیب دینا حضرت علامہ سے ان کی بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہار ہے۔ اقبال پر بہت ساری تصانیف دستیاب ہیں مگر ان میں محدودیت کا عنصر غالب ہے۔ ان مصنفین نے علامہ اقبال کو مخصوص اور محدود کردیا ہے کہ یہ صرف ملت اسلامیہ کے شاعر ہیں جس سے علامہ کی آفاقیت کو ایک زبردست دھچکا لگتا ہے۔ اقبال کی آفاقیت کو قلعہ بند نہیں کیا جا سکتا۔(۷۷)

          یہ درست ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو بڑی درد مندی اور دل سوزی سے خود آگہی کی ترغیب دی ہے۔ حضرت علامہ ملت اسلامیہ کو اس حالت میں دیکھنا چاہتے تھے کہ جس سے ثابت ہو سکے کہ اس کا قیام اور مقام کارگر حیات میں ارفع صداقتوں کا آئینہ دار ہے لیکن ڈاکٹر صاحب موصوف کے بقول فکر اقبال کے اس پہلو کو کبھی نہیں چھپا یا جا سکتا جیسے ان سے کہیں زیادہ جو خود کو اقبال والے کہتے ہیں مغربی ممالک کے مشاہیر کوا ُچھالتے ہیں۔ بلکہ وہ مشاہیر حضرت علامہ کی فکر سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اور اقبال والوں کو الزام دیتے ہیں کہ انھوں نے اقبال کی آفاقیت کو مخصوص نظریاتی سرحدوں میں محصور کر کے رکھ دیا ہے۔

ڈاکٹر اصغر یعقوب اقبال کی آفاقیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

اقبال نے اپنی فکر میں جو قتدیلیں روشن کی ہیں وہ پوری بشریت کی رہنمائی کرتی ہیں ۔اسے اس کے صحیح مقام کا ادراک بخشتی ہیں اور یہ فکر اقبال کا ایسا بڑا پہلو ہے جو نہ صرف ان کی آفاقیت کا مظہر ہے بلکہ ہمارے لیے جو اپنے آپ کو اقبال والے کہتے ہیں نمایاں عزت اور تکریم کا موجب ٹھہرتا ہے کہ اقبال کی آفاقیت مشاہیر عالم کی نظر میں تسلیم شدہ ہے۔(۷۸)

          ڈاکٹر اصغر یعقوب کا ایک مضمون’’اقبال ……ایک آفاقی شاعر‘‘’’ ذکر اقبال‘‘، مرتبہ ڈاکٹر اصغر یعقوب، ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ مرتبہ خواجہ اعجاز احمد بٹ اور ’’مفکر‘‘ میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون میں بھی ڈاکٹر صاحب موصوف اقبال کی آفاقیت پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق مذہب عیسائیت کے ساتھ ہے اور وہ اپنے مضمون میں ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اقبال صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ تما م مذاہب کے آفاقی شاعر ہیں۔  

          ڈاکٹر صاحب موصوف کے بقول دانشوروں اور ماہرینِ اقبالیات نے علامہ اقبال کو ذات، فکر ،خیالات اور اقبال ‘‘کے نظریات کو محدود کر دیا ہے اور اقبال کو ان حدود و قیود میں بند کر کے صرف ایک مکتبِ فکر کی سوچ کا حامل شاعر قرار دیا ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔ اقبال نہ صرف اُمتِ مسلمہ کے شاعر تھے بلکہ وہ شاعر آفاق اور شاعرِ انسانیت بھی تھے۔ ان کی شاعری صرف دنیا کے ایک طبقے گروہ یا جماعت کے لیے نہیں تھی۔ڈاکٹر اصغر یعقوب اپنے مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں :

جب ہم اقبال کو محدود کر دیتے ہیں تو ہم ان سے انصاف نہیں کرتے بلکہ طرح طرح کے تضادات کا شکار بنا کر افکارِ اقبال کی نفی کر رہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اقبال اسلامی شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شاعرِ انسانیت بھی تھے۔(۷۹)

          ’’ذکرِ اقبال‘‘ میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے بہت سے لکھنے والوں کے مضامین کو اس کتاب میں یکجا کیا ہے۔ جن مضامین کی فہرست بمع مضمون نگار مندرجہ ذیل ہے:

          ۱۔پیامِ اقبال ایک مسیحی کی نظر میں(ڈاکٹر جان جوزف)،۲۔آؤ کہ ذکر اقبال کریں(سلیم اے۔ملک)،۳۔غزلوں کا اقبال(اعزاز احمد آـذر)،۴۔اقبال ایک درویش شاعر(سلیم حیدر سلیم)،۵۔اقبال کے شب و روز (محمد عبداﷲ قریشی)،۶۔اقبال (قمر تابش)،۷۔اقبال یونیورسٹی (صوفی محمد اشرف)،۸۔فکر اقبال کا یہ پہلو(قاضی انعام الرحیم)،۹۔اقبال ایک مرد دلنواز(فلپ ایل ڈی کھنہ)،۱۰۔اقبال کا انسان (شاہنواز سو ہترہ)،۱۱۔اقبال اور عشقِ رسول ؐ (زاہد سعید گل)،۱۲۔اقبال کا نظریہ خودی (پروین بنجمن )، ۱۳۔اقبال کی شاعری (مسرت یعقوب)،۱۴۔اقبال کی زندگی اور ان کا فلسفہ حیات(عابد حسین ملتانی)،۱۵۔اقبال کا فلسفہ عشق(پی ندیم)،۱۶۔اقبال کے تصنیفی منصوبے(خواجہ اعجاز احمد)،۱۷۔اقبال کا نظریہ فرد اور ملت(راجکماری کلدیپ کور)،۱۸۔اقبال اور نظریہ قومیت (گلزار شوکت)،۱۹۔اقبال کا فلسفہ خودی (گلزار چوہان)،۲۰۔اقبال بحیثیت قومی شاعر (صادق گلاب دین)،۲۱۔حیات اقبال(اختر رمضان)،۲۲۔نوجوان اور مطالعہ اقبال(طفیل انجم یوسف)،۲۳۔حضرت علامہ اقبال(افضال احمد خواجہ)،۲۴۔علامہ اقبال(ایلون گلِ)

          اصغر سودائی کو شاعری کے ساتھ ساتھ اقبالیات سے بھی لگاؤ تھا۔ انھیں اقبال سے محبت تھی۔ اُن کے اقبال پر تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں چھپتے رہے جن میں جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ کے مجلے ’’کاوش‘‘ میں ان کا مضمون ’’اقبال کا نظریہ ملت‘‘ شائع ہوا تھا۔ گورنمنٹ علامہ اقبال سیالکوٹ کے اقبال نمبر’’ضربِ کلیم‘‘ میں اصغر سودائی کا مضمون ’’اقبال کا نظریہ خودی‘‘ اور مرے کالج سیالکوٹ کے ’’مفکر‘‘ اقبال نمبر میں ان کا مضمون ’’اقبال مفکر پاکستان‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

          محمد انور صوفی(۱۹۴۲ء پ ) کو اقبالیات اور اقبال شناسی سے زمانہ طالب علمی سے ہی لگاؤ تھا۔ ۱۹۶۵ء میں آپ کی مرے کالج سیالکوٹ میں اکنامکس کے لیکچرار کے طورپر تقرری ہوئی۔ انھوں نے ریاست جموں و کشمیر میں اکنامک انویسٹی گیٹر کے طورپر بھی کام کیا ۔اور آزاد کشمیر ریڈیو مظفر آباد میں پروگرام پروڈیوسر کے طورپر بھی خدمات سر ا نجام دیں۔(۸۰)

          محمد انور صوفی نے اپنی کتاب’’دامانِ خیال وطن‘‘ میں حضرت علامہ اقبال پر مضامین لکھ کر اقبالیات اور اقبال شناسی سے اپنے لگاؤ کا اظہار کیا ہے۔ صوفی صاحب موصوف کی یہ کتاب شخصیت پرنٹرز لاہور سے مئی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی۔ متذکرہ بالا کتاب میں علامہ اقبال پر چار مضامین ’’اقبال شاعر انسانیت‘‘،’’اقبال کا مخاطب‘‘ ،’’اقبال کی توقعات …… ہم سے ‘‘ اور ’’علامہ اقبال کی ایک رباعی‘‘ ہیں۔ ان مضامین سے محمد انور صوفی کی اقبال شناسی منظر عام پر آئی۔اپنے مضمون ’’اقبال شاعرِ انسانیت‘‘ میں صوفی صاحب لکھتے ہیں:

تین سالہ قیامِ یورپ کے دوران انھیں یورپی تہذیب معاشرت، سیاست کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اورا نھوں نے محسوس کیا کہ یہ تہذیبی کھوکھلی ہیں۔ان کے ہاں تنگ نظر قومیت کا جذبہ انسانیت کے لیے سم قاتل ہے۔ مکہ اور جنیوا اقبا ل کی چھوٹی سی نظم ہے جس کے ذریعے علامہ نے عالمِ انسانیت کے اتحاد اور باہمی مساوات کا درس دیا کہ تمام انسان چونکہ آدم کی اولاد ہیں اس لیے سب ایک قوم ،ایک ملت اور ایک اُمت ہیں۔‘‘(۸۱)

          صوفی صاحب موصوف اپنے مضمون’’اقبال کا مخاطب ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

اُنھیں یقین ہے کہ اقبال کا مخاطب بنیادی طورپر انسان ہی ہے۔ حضرت علامہ شاعرِ انسانیت ہیں۔علامہ کا کلام پیغمبرانہ ہے۔ حضرت علامہ کا پیغام کسی مخصوص خطے کے لیے مختص نہیں ہے۔ اسے جو بھی جہاں بھی اپنائے گا سر خرو ہو جائے گا۔(۸۲)

          مذکورہ بالا اقبال شناسوں کے علاوہ سیالکوٹ میں اور بھی اہم اقبال شناس رہے ہیں ۔ جن کے مضامین ’’مشعلِ راہ‘‘ سیالکوٹ ’’مرے کالج میگزین‘‘سیالکوٹ،’’مفکر‘‘ سیالکوٹ ماہنامہ’’اقبال‘‘ سیالکوٹ میں چھپتے رہے ہیں۔ان اقبال شناسوں کے مضامین کی فہرست بمع مضمون نگار درج کی جاتی ہے:

          ۱۔اقبال کی مثالی دنیا(اے ۔بٹ)،۲۔ڈاکٹر اقبال کا پیغامِ خودی (اکرام الحق قریشی)،۳۔اقبال اور چنگ ورباب(اکرم قریشی)،۴۔افکار اقبال میں رد عمل (پروفیسر امان اﷲ خاں)،۵۔علامہ اقبال کی سوانح عمری (انعام اﷲ امیر)،۶۔سوانح علامہ اقبال(جاوید اقبال)،۷۔اقبال کا نظریہ خودی کا صحیح مفہوم(حکیم احمد شجاع)،۸۔پیامِ اقبال(خالد جاوید)،۹۔اقبال چند یادیں چند تاثرات(خالد صوفی)،۱۰۔اقبال اور خودی(خالدہ سلطانہ)،۱۱۔اقبال کا سیاسی پس منظر(ایس ڈی ظفر)،۱۲۔فلسفہ اقبا ل(ایس ایف گیلانی)،۱۳۔وطن، اقبال اور مذہب(صفدر احمد)،۱۴۔اقبا ل اور مسلم طلبہ کی تحریک (ڈاکٹر عبدالسلام)،۱۵۔اقبال کا فلسفہ عشق(محمد احسن)،۱۶۔رحجانات و میلانات کلام اقبال کا سرسری جائزہ(پروفیسر ایم سرور)،۱۷۔اقبال کا فلسفہ حیات (محمد شعیب )،۱۸۔اقبال فکر و فن کے آئینے میں(ممتاز گیلانی)،۱۹۔اقبال کی شخصیت اور پیغام(محمد قمر منیر)،۲۰۔افلاطون اور اقبال(اظہر احمد)،۲۱۔حیاتِ اقبال کی چند یادداشتیں(سید وحید الدین)،۲۲۔اقبال اور اس کا پیغام (وارث رضا)،۲۳۔اقبال کا تصورِ خودی (ہمایوں اختر)

 

ب:      دیگر تنقیدات

          عبدالحمید عرفانی ایک اقبال شناس اور شاعر کے ساتھ ساتھ نقاد بھی ہیں۔ ’’کلام نفیس‘‘ ،’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ ، ’’مقدمہ پیرِ مغاں‘‘ اور ’’پیامِ اقبال(رسالہ) میں عرفانی کی تنقیدی آرا دیکھی جا سکتی ہیں۔

          عبدالحمید عرفانی کی ’’پیامِ اقبال‘‘ مستقل اور مدلل تصنیف نہیں ہے بلکہ اپریل ۱۹۷۴ء میں یومِ اقبال پر عبدالحمید عرفانی نے ۱۵ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا ہے۔ اس رسالے میں کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال کے اہم خصائص پر اجمال کے ساتھ ساتھ تنقیدو تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس رسالے میں سب سے پہلے تو خواجہ عبدالحمید عرفانی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کا پیام اور ان کا فلسفہ قرآنِ حکیم سے ماخوذ ہے ۔اس کے بعد اقبال نے اپنے کلام میں جن اہم عصری مسائل اور سیاسی نظامات پر تبصرہ کیا ہے۔ ان کے بارے میں خواجہ عبدالحمید عرفانی نیا جمال کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

عرفانی صاحب پیامِ اقبال کو قرآن حکیم کی شرح سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں:

اقبال کی تعلیمات کا سر چشمہ قرآن حکیم ہے۔(۸۳)

          بلا شک و شبہ اقبال کا فارسی اور اردو کلام قرآنی تعلیمات کی توضیح و تفسیر پر مشتمل ہے۔ کلمہ توحید دینِ اسلام کی بنیاد ہے۔ توحید پر ایمان ہی اسلامی اور انسانی وحدت کا موجب بن سکتا ہے۔ اگرچہ یہ روشنی کامینار راہنمائی نہ کرے تو عقلِ انسانی در بدر ٹھوکریں کھاتی پھرے۔خواجہ عبدالحمید عرفانی اقبال کے فلسفہ خودی کو بھی قرآن سے ماخوذ سمجھتے ہیں:

تصورِ خودی کی بنیاد مقام بشر کے متعلق قرآنی احکامات ہی ہیں۔ اقبال نے انھی آسمانی ارشادات کی روشنی میں انسان کی ترقی و تعالی کے امکانات کاذکر کیا ہے۔(۸۴)

          عرفانی کے خیال میں اقبال نے ان قرآنی تعلیمات کو عام فہم الفاظ میں پیش کر دیا ہے تا کہ سننے والوں کے دل و دماغ پر اثر اور توضیح کے لیے تاریخِ اسلام سے بزرگانِ دین کی عملی زندگیوں سے مثالیں بھی پیش کی ہیں کہ یہ نظریات محض نظری اور خیالی حدود میں گم نہ ہو جائیں۔ مثلاً قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ’’ضبطِ نفس‘‘ کی تعمیر خودی میں اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی مثال پیش کی ہے:

مرتضےٰ کر تیغ او حق روشن است

بوتراب از فتح اقلیم من است(۸۵)

          اس طرح اس موضوع کی تشریح میں کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے عزتِ نفس یعنی احساسِ خودی کو صدمہ پہنچتا ہے۔ اس حوالے سے عرفانی نے حضرت عمر ؓ کا ایک سادہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ اونٹ پر سوا ر تھے ان کے ہاتھ سے چھڑی زمین پر گر پڑی۔ بجائے اس کے کہ وہ کسی سے درخواست کرتے کہ مجھے چھڑی پکڑا دو اور وہ خود اونٹ سے اُترے اور چھڑی اٹھا لی۔

          عرفانی کے خیال میں اقبال کے نزدیک مادی دنیا کی مشکلات کا مقصود انسان کی قوتِ تخلیق کو بیدار کرنا ہے۔ آسمان و زمین کی چکی کا یہ مقصد نہیں کہ انسان کو پیس کر مٹا دے ۔اس کے اعضائے بدن کو توڑ پھوڑ کر فنا کر دے،اس کا مقصد انسان کی بربادی نہیں بلکہ اس کی مادی و معنوی ترقی ہے۔

یہ ہے مقصد گردش روزگار

کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

          اقبال کے فلسفے میں عشق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں عرفانی اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

قرآن خودی کی روحِ رواں عشق ہے اقبال نے عشق کا لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال کیاہے۔ اس کے مترادفات میں ایمان،آرزواور جذب و سوز کو شامل کیا جا سکتا ہے۔(۸۶)

          عرفانی اقبال کے تصور عشق کو بھی قرآن مجید ہی سے ماخوذ سمجھتے ہیں اور اسے ایمان کے مترادف سمجھتے ہیں۔ عرفانی کے خیال میں عشق ناپید کنا راہے ۔خودی کی مانند اس بحرکا بھی کوئی کنارا نہیں۔ اس موضوع پر اقبال نے سینکڑوں اشعار کہے ہیں اور اس موضوع کو مختصر بحث میں سمیٹنا نا ممکن ہے،مگر عرفانی نے اقبال کے عشق کے نظریہ پر بہت اختصار سے تبصرہ کیا ہے۔ اور چار فارسی اشعار نقل کرنے کے بعد ’’ذوق وشوق‘‘ سے صرف یہ دو شعر نقل کرتے ہیں:

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات

صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق

          عصرِ حاضر کے مسائل کے عنوان کے تحت عرفانی نے اقبال کے معاشی ،معاشرتی ،تعلیمی اور سیاسی نظریات کا اجمال کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔’’دین و سیاست‘‘ موضوع پر بحث کرتے ہوئے عرفانی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ اقبال دینِ اسلام کو اخلاقی قدروں کا ضامن سمجھتے ہیں اور کسی ایسی سیاست پر اعتماد نہیں کرتے جس کی بنیاد دینی و اخلاقی اقدار پر استوار نہ ہو۔ حکومت کی ظاہری شکل و صورت خواہ کچھ ہی ہو لیکن اگر اس کی بنیاد دینی قدروں پر نہ ہو تو اس سے بشر کی فلاح و بہبود اور آسائش کے لیے کوئی مثبت کام نہیں لیا جا سکتا۔

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

          ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ موضوع پر بحث کرتے ہوئے عرفانی نے بتایا کہ اقبال یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام کو جنگ و جدل ،معاشی اور اخلاقی فساد کی جڑ سمجھتے ہیں۔

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

          ’’اشتراکیت‘‘ موضوع میں اشتراکیت کے بارے میں اقبا ل کے نظریات پر تبصرہ کرتے ہوئے عرفانی کے خیالات دیگر نقادوں سے مختلف نہیں ہیں۔ وہ اقبال کو اشتراکیت کا حامی سمجھتے ہیں مگر ان کے خیال میں اقبال اسلامی اشتراکیت کے حامی ہیں۔اقبال اور اشتراکیت کے تعلق کے سلسلے میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ اشتراکیت انقلاب آفرین ہے مگر اس کی تکمیل اسلامی تصورات کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں۔

          ملوکیت اور استبداد کی مخالفت میں اقبال نے بے شمار اشعار کہے ہیں مگر عرفانی صرف چا ر فارسی اشعار پیش کرتے ہیں ا ور اس بارے میں اتنی مختصر بحث کرتے ہیں کہ بات پورے طورپر سمجھنی مشکل ہو جاتی ہے۔ ا س سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ملوکیت کے مخالف تھے مگر یہ نہیں بتایا کہ اقبال نے ملوکیت کی مخالفت کیوں کی؟’’جمہوریت‘‘ موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے عرفانی لکھتے ہیں:

اقبال مغربی طرز کی جمہوریت کو قیصریت یا امپریلزم کے مترادف سمجھتے ہیں۔(۸۷)

          اقبال نے جمہوریت کی مخالفت اس لیے کی کہ عملی طورپر یہ قیصریت اور امپریلزم ہی کی نئی شکل تھی۔ اقبال اصولِ جمہوریت کے مخالف نہیں تھے۔ انھوں نے اس جمہوریت کی مخالفت کی جس کی شکل عملی طورپر مغرب میں سامنے آئی۔بقول عرفانی:

وہ (اقبال) صحیح جمہوریت کا بڑی گر مجوشی سے استقبال کرتے ہیں جس کی بنیاد اسلام کی اعلیٰ اور غیر متزلزل اخلاقی اقدار پر ہو اور جو سچ مچ میں جمہوریت کی نمائندگی کرے۔(۸۸)

          ’’جمعیت آدم‘‘ موضوع میں عرفانی نے اقبال کے ان خیالات کو پیش کیا ہے۔ اسلام تصورات کے مطابق جمعیت آدم ہونی چاہیے۔ ملت کی آبرو جمعیت سے تھی اور جمعیت سے ہے۔ جب ملت و جمعیت کی بجائے چھوٹی چھوٹی ٹولیاں وجود میں آجائیں تو دیگر اقوام کی نگاہوں میں ہماری کیاآبرو رہ جائے گی۔

          اپنے اس مختصر رسالے میں عرفانی نے اقبال کی شاعری کے بعض اہم پہلوؤں پر تنقیدی روشنی ڈالی ہے۔ مگر اس میں تفصیل نہیں ملتی۔ پیامِ اقبال کوئی مدلل تصنیف نہیں بلکہ طلبہ کو اقبال کے کلام کے بنیادی پہلوؤں سے آگاہی دینے والا ایک چھوٹا سا رسالہ ہے۔ اس بات کا ذکر عرفانی نے پیامِ اقبال کے مقدمے میں بھی کیا ہے۔

          ’’کلامِ نفیس‘‘ ۱۹۸۳ء میں بزمِ رومی سیالکوٹ نے شائع کی۔ ’’کلامِ نفیس‘‘ میں عرفانی نے اپنے تایا علامہ مولوی الف دین نفیس کے حالات زندگی لکھے ہیں اور ان کا جتنا کلام مختلف اوراق میں بکھرا ہوا ملا اسے یکجا کر دیا ہے ساتھ ہی ان کے کلام پر ناقدانہ نظر بھی ڈالی ہے۔ مولوی نفیس اقبال کے ہم عصر اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔’’کلامِ نفیس‘‘ تصنیف کے دوسرے باب میں عرفانی نے ’’کلامِ نفیس پر ایک نظر ‘ ‘ کے عنوان سے مولوی الف دین نفیس کے اُردو فارسی کلام پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔ اوران کی شاعری کی نمایاں خصوصیات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔مولوی نفیس کے اُردو کلام کے بارے میں عرفانی صاحب لکھتے ہیں:

مولوی صاحب کا بیشتر کلام تحریکِ آزادی برصغیر سے متعلق ہے یا حمدو نعت اور اخلاقی منظومات پر مشتمل ہے۔ ان کے اشعار صاف ،غیر مبہم اور موثر الفاظ ہیں لیکن واضح ہے کہ ان کا مقصد شاعرانہ صنائع و زیبائش نہیں تھا قریباً سب منظومات اور غزلیات خاص دینی ،سیاسی یا سوشل جامع و مجالس میں پڑھی گئیں یا ایسے مجامع کے لیے لکھی گئیں۔(۸۹)

          عرفانی نے ’’کلامِ نفیس‘‘ کے تنقیدی مضمون میں مولوی الف دین نفیس کے کلام کی نمایاں خصوصیات کو اُجاگر کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔ مثنوی معارف اسلام کے محاسن کو واضح کرنے میں انھوں نے اپنا زور قلم صرف کر دیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں:

یہ مثنوی اپنی معنوی جامعیت اور موضوع کی وسعت کے پیشِ نظر اسلام کی روحانی تواریخ اور تعلیمات کا ایک دائرہ المعارف ہے۔(۹۰)

          عرفانی صاحب مولوی موصوف کی مثنوی کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:

مثنوی معارفِ اسلام حضرت سنائی کی مقبول بحر میں حتی المقدور سادہ الفاظ اور درسی کتب کی طرح ترتیب دی گئی ہے۔(۹۱)

          اُردو غزلیات ،منظومات اور فارسی شاعری کے جائزے میں بھی مولوی صاحب کے محاسن کلام کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ ایک جگہ پر عرفانی ان کی غزل پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

مولوی صاحب نے اس دور کے پسندیدہ غنی و صائب کے مکتب بیان کی پیروی کی ان کے بعض اشعار نازک خیالی اور تمثیل کابہت اچھا نمونہ ہیں۔(۹۲)

          مولوی صاحب کے کلام کے انتخاب اور تنقیدی تبصرہ کے پس پردہ ایک ہمدرد انہ جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔ وہی جذبہ جو سر سید کی سوانح حیات لکھتے وقت حالی کے ہاں ملتا ہے جس طرح حالی کو سر سید سے والہانہ لگاؤ تھا۔ اسی طرح عرفانی صاحب کو بھی مولوی الف دین نفیسؔ سے خاص اُنس تھااور جس طرح سرسید کے ہر کام میں خوبیاں ہی خوبیاں دیکھتے تھے اس طرح عرفانی کو بھی مولوی الف دین نفیس کی ہر چیز میں خوبی ہی خوبی نظر آتی ہے۔ اس لیے وہ مولوی صاحب کی شخصیت اور شاعری کے محاسن پر ہی نظر رکھتے ہیں معائب کا ذکر کہیں نہیں کرتے دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عرفانی کی یہ کتاب بہت حد تک تذکرہ نگاری کے دائرے میں آجاتی ہے۔ مولوی الف دین کے حالات زندگی ،انتخاب کلام اور پھر اس پر تنقیدمیں جس رویے کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس کے کئی پہلو تذکروں کی تنقید میں مل جاتے ہیں۔لطیف جلیلی ؔ کے مجموعہ کلام ’’دل و نگاہ‘‘ کا مقدمہ ’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ بھی ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی کی ایک تنقیدی کاوش ہے۔ یہ مقدمہ لطیف جلیلیؔ کے کلام کے نمایاں موضوعات اور محاسن کو قاری کے سامنے لاتا ہے۔ عرفانی نے اس مجموعے میں پیش کئے گئے خیالات اور شاعر کے اصل مقصد کو بڑی کامیابی سے واضح کیا ہے۔ مجموعہ میں شامل اشعار کے بارے میں لکھتے ہیں :

اس مجموعہ میں شامل اشعار قاری کی توجہ قوم کی زوال پذیر اخلاقی ،تعلیمی ،معاشرتی اور معاشی حالت کی طرف مبذول کراتے ہیں ۔اغلب نظمیں حبِ وطن اور مثبت اخلاقی احساس کا نتیجہ ہیں ۔جس کا منبع علامہ اقبال ،حالی اور قائد اعظم کی ایمان افروز معجزاتی قیادت ہے۔ لیکن فوری محرک ملک و قوم کے موجود رہبروں کا کردار اور اسلام کے نام پر مسلمانوں کا استقبال ہے ۔شاعرنے رندانہ جسارت اور اخلاقی جرأ ت سے کام لیا ہے اور صاف اور صریح الفاظ میں قوم کی ظاہری اور باطنی بیماری کی نشاندہی کی ہے۔(۹۳)

          عرفانی ’’دل و نگاہ‘‘ کے مقدمے میں جلیلیؔ کے کلام سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لطیف جلیلیؔ کی حق گوئی خاص طورپر عرفانی کو متاثر کرتی ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنے مقدمہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

شاعری کی نوادلنواز نہیں، دل خراش اور دلسوز ہے۔ شاعرمیٹھی میٹھی لوریاں دے کر سلانے کی نہیں جھٹکے دے کر سوئے ہوؤں کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ جلیلیؔ ملک کے حکمران اور حکمرانی کے لیے جنگ، خو د فریبی اور خدا فریبی میں مبتلا خود ساختہ عمائدینِ قوم کو سر پر منڈلاتے ہوئے خطروں سے تلخ ترین لہجے میں آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(۹۴)

          کہیں کہیں عرفانی کے ہاں تقابلی تنقید کا انداز ملتا ہے۔ مثلاً جلیلیؔ کی نعت گوئی پر یوں اظہار رائے کرتے ہیں:

جلیلی نے نعت گوئی میں مولانا حالی ہی کی آہنگ میں سرور کائنات ؐاور مقصود حرف کن فکاں کی گویا الفاظ میں ایک متحرک تصویر مرتسم کی ہے۔(۹۵)

          اس رائے کے بعد وہ جلیلی کی نعتوں میں سے چند اشعار پیش کرتے ہیں ایک شعر ملاحظہ فرمائیے۔

عمل سے اپنی علوم فطرت کی آپ تصویر کرنے والا

وہ اپنے آئین در گزر سے دلوں کو تسخیر کرنے والا(۹۶)

          یہ شعر پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود حالی کی اسنعت کی طرف منتقل ہو جاتاہے:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

          تقابلی تنقید کا یہ انداز’’ نوائے انقلاب ‘‘کے عنوان کے تحت پیش کیے گئے خیالات میں بھی ملتا ہے۔جہاں عرفانی کو جلیلی اور اقبال ہمنوا نظر آتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:

لطیف جلیلی اس خیرِ امم ملت کے زوال کی روح فرسل حکایت بیان کرتا ہے۔ اس بیان میں وہ ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال کا ہمنوا ہے اور نہایت واضح طورپر تقریرِ اُمم کیا ہے کی توضیح کرتا ہے۔(۹۷)

          اس رائے کے بعد بہت سے اشعار پیش کیے گئے ہیں جن سے اقبال اور جلیلی کی ہمنوائی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جلیلی کا ایک شعر ملاحظہ ہو جو اقبال سے ملتا جلتا ہے:

اُمتیں محروم ہو جاتی ہیں جب شمشیر سے

اپنا رشتہ جوڑتی ہیں گردشِ تقدیر سے (۹۸)

          مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’مقدمہ د ل ونگاہ‘‘ میں عرفانی صاحب نے شاعر کے جذبات اور اس کے مقصد کو واضح کرنے میں اپنا پورا زور قلم صرف کیا ہے۔شاعر کے ماحول اور زمانے کو بھی عرفانی نے مد نظر رکھا ہے مگر شاعر کے اسلوب بیان کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ مجموعی طور پر اس مقدمے میں تقابلی تنقید کا انداز کار فرما نظر آتا ہے۔

          سلطان باہو کے خلف الرشید پیر غلام دستگیر القادری ناشاد کے مجموعہ کلام ’’پیرِ مغاں‘‘ پر عرفانی نے ایک مقدمہ لکھا ہے۔ اس مقدمے میں عرفانی اول تا آخر ایک جمالیاتی نقاد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ان کا اسلوب ،ان کی تنقید اور ان کا طرزِ استدلال جمالیاتی تنقید کے بیشتر پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے۔’’ پیر مغاں ‘‘فارسی شعری مجموعہ ہے۔ اس لیے یہ راقم الحروف کے موضوع پر بحث سے خارج ہے۔

          بحیثیت مجموعی ’’مقدمہ پیر مغاں‘‘ میں عرفانی بلاشبہ جمالیاتی نقاد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں مگر ’’کلامِ نفیس‘‘ ،’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ اور ’’پیامِ اقبال‘‘ میں جمالیاتی تنقید کی جھلک تک نہیں ملتی۔ ’’کلامِ نفیس‘‘ میں عرفانی مولوی الف دین نفیس کی ’’مثنوی معارفِ اسلام‘‘ پر تبصرہ کرتے وقت مثنوی مولانا روم اور اقبال کی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ سے اس کا تقابل کرتے ہیں ۔ مولوی صاحب کی فارسی غزل کا تجزیہ کرتے وقت غنی اور صائب سے ان کا تقابل کرتے ہیں۔ اسی طرح ’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ میں لطیف جلیلی کی شاعری کا تجزیہ کرتے وقت اقبال اور حالی کی شاعری سے اس کا موازنہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جلیلی کی شاعری حالی اور اقبال کی شاعری کا نقشِ ثانی ہے۔ پیامِ اقبال میں تنقید کم ہے بلکہ اقبال کے کلام پر تبصرہ زیادہ ملتا ہے۔

          عرفانی نے تنقید میں تقابلی اندازِ تنقید کو زیادہ برتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اس تقابل میں کسی شاعر کے مرتبے کو گھٹایا بڑھا کر پیش نہیں کرتے کہ مختلف شاعروں کے کلام سے موازنہ کرنے کے بعد اپنے شاعر کا مرتبہ متعین کر دیتے ہیں۔فیض احمد فیض ایک شاعر ،نثر نگار کے ساتھ ساتھ ایک نقاد بھی ہیں۔ تنقید پر اُن کی دو تنقیدی کتابیں’’میزان‘‘ اور ’’فیضانِ فیض‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔’’میزان‘‘ فیض صاحب کی زندگی میں شائع ہوئی جب کہ ’’فیضانِ فیض‘‘ فیض کی زندگی کے بعد طبع ہوئی جسے شیما مجید نے فیض کی غیر مطبوعہ تنقیدی تحریروں کو یکجا کر کے مرتب کیا۔

          فیض صاحب کی تصنیف ’’میزان ‘‘ پہلی بار ۱۹۶۲ء میں ناشرین ادارے سے شائع ہوئی۔ ’’میزان ‘‘ کے پرانے اور نئے ایڈیشن میں اس کو چار حصوں نظریہ ،مسائل ،متقدمین اور معاصرین میں تقسیم کیا گیا ہے۔’’میزان ‘‘ میں کل ۳۰ مضامین ہیں جو مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ یہ کتاب ۳۴۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان میں مضامین کی صف بندی یوں ہے :

          ۱۔ادب کا ترقی پسند نظریہ،۲۔شاعر کی قدریں،۳۔ادب اور جمہور،۴۔ہماری تنقیدی اصطلاحات،۵۔تخلیق اور تخیل،۶۔خیالات کی شاعری ،۷۔موضوع اور طرز ادا،۸۔پاکستانی تہذیب کا مسئلہ،۹۔جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا ،۱۰۔خطبہ صدارت،۱۱۔اُردو شاعری کی پرانی روایتیں اور نئے تجربات،۱۲۔ جدید فکر و خیال کے تقاضے اور غزل،۱۳۔جدید اردو شاعری میں اشاریت،۱۴۔ادب اور ثقافت،۱۵۔فلم اور ثقافت،۱۶۔نظیرؔ اور حالیؔ،۱۷۔غالب ؔاور زندگی کا فلسفہ،۱۸۔اُردو ناول،۱۹۔رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری،۲۰۔شرر،۲۱۔پریم چند،۲۲۔اقبال اپنی نظر میں،۲۳۔جوشؔ شاعرِ انقلاب کی حیثیت،۲۴۔آہنگ ،۲۵۔مصر کی رقاصہ،۲۶۔خم کا کل،۲۷۔میرا جی کا فن،۲۸۔وہ لوگ،۲۹۔چند روز اور

          صلاح الدین حیدر فیض صاحب کی ’’میزان‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں :

فیض صاحب کے تنقیدی مضامین اور تبصرے شعر کے اسلوب اور مواد کے اعتبار سے حقیقت نگاری اور توازن کی عمدہ مثال کہے جا سکتے ہیں۔(۹۹)

          فیض صاحب نے ’’میزان‘‘ میں ادب ،ثقافت اور فلم جیسے مسائل پر گفتگو کی ہے اور متقدمین اور معاصرین کے فن پر اظہار خیال کیا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی ،تخلیق،تنقید ،غزل گوئی ،ناول نویسی ،نظیر، حالی ،غالب ،شرر ،رتن ناتھ سرشار، پریم چند،اقبال اور جوش پر جس سلجھے ہوئے انداز میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے وہ قابلِ رشک ہے۔’’ادب کا ترقی پسند نظریہ‘‘ اس کتاب کا پہلا مضمون ہے جو انھوں نے ۱۹۳۸ء میں لکھا تھا۔ ادب کے ترقی پسند نظریات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے انھوں نے ۱۹۳۸ء میں ترقی پسند تحریک کے وجود میں آنے کے دو سال بعد بیان کیے تھے۔ فیض احمد فیض کے نزدیک:

ترقی پسند ادب ایسی تحریروں سے عبارت ہے جن سے سماج کے سیاسی اور اقتصادی ماحول میں ایسی ترغیبات پیدا ہوں جن سے کلچر ترقی کرے۔ کلچر سے اقدار کا وہ نظام مراد ہے جس کے مطابق کوئی سماج اپنی اجتماعی زندگی بسر کرتی ہے۔(۱۰۰)

          اس مضمون میں فیض صاحب نے ترقی پسند نظریہ کو کلچر کے فروغ کے لیے سماجی اقدار کی ترتیب میں موزوں تبدیلیاں کی جائیں ۔ان کے نزدیک ہر قسم کا ادب کوئی نہ کوئی پرو پیگنڈہ کرتا ہے کوئی پر وپیگنڈا بہتر ہے اور کوئی مضر، ان کا کہنا ہے کہ کلچر ہماری زندگی کا ایک کونہ ہے اس لیے کہ اس کی نوعیت اس کی ترقی اور تنزل بھی انھی قوتوں کے قبضہ میں ہے جو سماج پر حکمرانی کرتی ہے۔ یہ قوتیں سیاسی اور اقتصادی قوتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان قوتوں کی اہمیت کم ہوتی ہے تو ہمارے کلچر کی ترکیب بدل جاتی ہے۔

          کتاب کے دوسر ے مضمون ’’شاعر کی قدریں‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ آرٹ کی قطعی اور واحد قدر محض جمالیاتی ہے اور جمالیاتی قدر بھی تو آخر ایک سماجی قدر ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جس سے ہماری زندگی میں حسن یا لطافت پیدا ہو۔جو حسنِ انسانیت میں اضافہ کرے۔ جس سے تزکیہ نفس ہو،جو روح کو مترنم کرے،جس سے دماغ کو جلا حاصل ہو۔ حسین ہی نہیں مفید بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے شاعر کی قدریں صحیح ہیں جس کے شاعرانہ جذبات ہمارے دل و دماغ کی تسکین و تزکیہ کا سامان بہم پہنچا سکیں۔ اس مضمون میں انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ شعر کے لیے جمالیاتی قدر ہی نہیں سماجی ا ہمیت کا بھی ہونا ضروری ہے۔اس لیے اچھا شعر فیض صاحب کی نظر میں وہ ہے جو فن کے معیار ہی پر نہیں زندگی کے معیار پر بھی پورا اُترے ۔ اسی طرح ’’ادب اور جمہور‘‘ مضمون میں انھوں نے انسان کے اولین سماجی رویوں سے بحث کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ادب کا کسی نہ کسی طرح عوام سے رابطہ استوار رہا ہے۔

          فیض صاحب نے اپنے مضامین ’’ہماری تنقیدی اصطلاحات‘‘ ،’’فنی تخلیق اور تخیل‘‘ اور ’’خیالات کی شاعری ‘‘ میں اپنے نظریات کی روشنی میں تخلیقی سر گرمیوں کے بعض بنیادی مسائل کی نشاندہی اور وضاحت کی ہے۔چنانچہ ڈاکٹر سید عبداﷲ کا یہ کہنا غلط نہیں ہے :

ترقی پسند تنقید کے بنیادی مسئلوں کی تشریح (عام فہم انداز) جس طرح ’’میزان‘‘ میں ہے وہ کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں۔(۱۰۱)

          ’’میزان‘‘ کے دوسرے حصے ’’مسائل‘‘ میں بھی انھوں نے بہت مفیدادبی موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ اس حصے میں انھوں نے اپنے نظریات کی روشنی میں آرا قلمبند کی ہیں ۔’’ پاکستانی تہذیب کا مسئلہ‘‘ مضمون میں انھوں نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ پاکستانی تہذیب یا کلچر جیسی کوئی شے ہے بھی یا نہیں۔ اگر ہے تو اس کی نوعیت اور خدوخال کیا ہیں؟ اس کی پرورش اور ترقی کیسے ممکن ہے؟ پھر انھوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے تہذیب کے ظاہری اور باطنی پہلو، قومیت اور وطنیت کے مسئلے ،قومی اور تہذیبی تاریخ ،فن تعمیر اور دوسرے فنون کی تربیت وغیرہ کے حوالہ سے پاکستانی تہذیب کے ہر عنصر کو بڑی خوبی سے پرکھا ہے اور اپنی رائے دی ہے۔

          اپنے مضمون ’’جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا‘‘ میں انھوں نے بتایا کہ ہمارے ادب میں بھی جہانِ نو پیدا ہو رہا ہے۔ یعنی ہر چیز نئی بنیادوں پر تعمیر ہو رہی ہے۔ ’’خطبہ صدارت‘‘ میں ان کا موضوع یہ ہے کہ ہمارے درسی نظام میں مشرقی علوم والسنہ کی اہمیت اور مقام کیا ہے؟ اردو شاعری کی پرانی روایتیں اور نئے تجربات‘‘ مجموعے میں شامل ان کا قدیم ترین مضمون ہے جو ۱۹۳۷ء میں لکھا گیا ہے۔ اس مضمون میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہندوستانی شاعری کن حالات میں پروان چڑھی اور جب ملک کی سماجی اور سیاسی زندگی کا نقشہ بدلا تو شاعری میں کون کون سی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔

          اپنے موقف کی وضاحت کے لیے انھوں نے غزل ،مرثیہ ،مثنوی اور قصیدہ اصناف پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ’’فلم اور ثقافت‘‘،’’ادب اور ثقافت‘‘ اور ’’جدید فکر و خیال کے تقاضے اور غزل‘‘ مضامین میں بھی فیض احمد فیض نے بڑی فکر انگیز باتیں کی ہیں۔

          ’’متقدمین‘‘ والے حصے میں انھوں نے اپنے پیش روا دیبوں اور ان کے فن پر بحث کی ہے۔ ۱۹۴۱ء میں نظیر اور حالی کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کا آغاز فیض نے اسی خوبصورت فقرہ سے کیا ہے۔نظیرؔ اکبر آبادی اور مولانا حالیؔ کو ایک ہی مضمون میں یکجا کر دینا بظاہر ’’زمین کی دوستی ہے آسمان سے‘‘کے مترادف ہے۔ (۱۰۲)

          فیض کا کہنا ہے کہ ان طبیعتوں کے اختلاف کے باوجود حالی اور نظیر میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ فیض نے بتایا ہے کہ دونوں شاعر باغی تھے پرانی روایتوں سے بیزار اور نئی طرزِ سخن ایجاد کرنے کے خواہاں تھے۔ اس کے بعد فیض نے دونوں شاعر وں کا فرق واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حالی کے کلام میں بڑھاپے کی متانت اور سکون ہے اور نظیر کے اشعار میں جوانی کا جوش اور چلبلا پن ہے۔ نظیر معاشرے کے مضحکہ خیز اور طربناک پہلو واضح کرتے ہیں جبکہ حالی کی نظر عموماً واقعات کے درد ناک اور سبق آموز پہلوؤں پر پڑتی ہے۔ نظیر کے ہاں موضوعاتی تنوع اور قدرتِ اظہار ہے۔ انھوں نے مکھی اور مچھر سے لے کر خدائے برتر و تعالیٰ تک تقریباً ہر مضمون پر قلم اُٹھایا ہے ۔ شاعری کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ حالی کے دل میں قوم کا درد اور وطن کی محبت ہے۔ پہلے جذبہ نے مسدس اور اس مشہور دعا کے روپ میں جنم لیا جس کا پہلا مصرع ہے۔’’ اے خاصہ خاصانِ رُسل وقت ِ دعا ہے‘‘۔ اور دوسرا جذبہ ان کی کئی نظموں میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً برکھا رت، یادِ وطن، وغیرہ۔ ان دونوں کے موازنے کے بعد فیض حالی کو صفِ اول کا شاعر بھی مانتے ہیں اور تنقیدنگار بھی ۔ ان کے نزدیک مقدمہ شعر و شاعری کے حوالے سے وہ اردو کے پہلے قومی شاعر ہیں۔ یوں اس مضمون کے ذریعے فیض نے ہمیں اردو کے دو انقلاب پسند شاعروں کے بارے میں بڑی فکر انگیز باتیں بتائی ہیں اور ان کا شاعرانہ منصب و مرتبہ متعین کیا ہے۔

          پھر اردو ناول (۱۹۴۲ء)،رتن ناتھ سر شار(۱۹۴۵ء ) ،شرر(۱۹۳۹ء) پریم چند کے عنوانات سے مضامین ہیں۔ اول الذکر میں فیض نے اردو کے اولین طبع زاد ناول نگار نذیر احمد کے فن کا تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کے اصلاحی ناولوں میں مولوی اور آرٹسٹ کی مسلسل ہاتھا پائی ہوتی رہتی ہے اور آرٹسٹ عام طورپر جیت جاتا ہے۔ پریم چند کے بارے میں فیض نے بتایا ہے کہ انھوں نے ناول نگاری میں جمہوریت اورواقعیت سے کام لیا ہے۔ وہ ناول کو سفید پوش شرفا کی بیٹھکوں سے نکال کر دیہات کے چوپالوں میں لے گئے ہیں۔ اس مضمون میں ان دو ناول نگاروں کے علاوہ باقی ناول نگاروں کا تذکرہ سرسری ہے۔ دوسرے مضمون ’’رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری‘‘ میں انھوں نے نذیر احمد اور سرشار کاموازنہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نذیر احمد اور سرشار کے ناولوں میں سماج کی جو تصویریں ملتی ہیں وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ نذیر احمد کا مقصد بنیادی طورپر اصلاحی اور سرشار کا تفریحی ہے۔ نذیر احمد کا سماج دہلی کے شریف سفید پوش گھرانوں پر مشتمل ہے اور سرشا ر کا سماج لکھنو کے لا اُبالی اُمرا اورا ان کے گرد گھومنے والی لا تعداد مخلوق پر ۔فیض ،شررؔ، سرشارؔ اور پریم چند کے فن کا ہمدردی سے جائزہ لیتے ہیں ۔فکشن پر ان کی تنقیدی تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ فیض صاحب ان کے بارے میں گہرے مطالعے کے بعد اپنی رائے قائم کر تے ہیں۔شرؔر پر اپنے مضمون میں وہ شرر کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے ہاں سب سے بڑا نقص ایک خاص قسم کی ذہنی کاہلی اور سہل نگاری ہے۔ وہ ہرچیز کا خلاصہ کر دیتے ہیں ۔مناظر واقعات، کردار ان میں ہر ایک کو کلی اور جزوی طورپر پیش کرنے کے بجائے وہ ان کے چند ایک نہایت عام فہم اور سیدھے سادھے پہلو چن لیتے ہیں اور انھیں بنا سجا کر بیان کر دیتے ہیں۔ فیض کی رائے میں شرر کی کتابیں اردو نثر کا آخری زینہ نہیں پہلا زینہ ضرور ہیں۔ ان کے ناولوں میں فنی خوبیاں زیادہ نہیں لیکن ایک چٹخارہ ،ایک دلکشی ایک کیفیت موجود ہے۔ صلاح الدین حیدر اس مضمون کے بارے میں لکھتے ہیں :

فیض نے شرر کے ناولوں کو تین علیحدہ گروپوں میں اقسام کے اعتبار سے تقسیم کر کے جائزہ لیا ہے۔(۱۰۳)

          اس حصے میں ’’غالب اور زندگی کا فلسفہ‘‘ نثری ڈرامائی فیچر یا ایکانکی ڈرامے کی شکل میں لکھی ہوئی فیض صاحب کی ایک طنزیہ تحریر ہے۔ غالب کی آفاقیت کا ذکر ان کے تنقیدی مضامین ،تقریروں اور انٹر ویو میں بھی آتا ہے۔ لیکن اپنی موجودہ تحریر میں فیض نے مختلف کرداروں کے مکالموں کے ذریعے غالب کی شاعری اور ان کے فلسفہ پر روشنی ڈالی ہے۔ غالب کی اداسی ،یا دماضی قنوطیت و رجائیت اور ہجرو وصال کی واردات کا بیان کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ غالب شاعر تھا یا فلسفی یا فلسفی شاعر یا صرف شاعر؟ پھر غالب کی بحروں ،قافیوں ،اور ردیفوں کے ترنم کا ذکر کیا ہے۔ پھر بتایا ہے کہ غالب ایک فرد نہیں ایک نسل ہے۔ وہ چند لمحوں کا ترجمان نہیں بلکہ ایک پورے دور کا نمائندہ ہے۔ غالب ایک ایسے دور کا جذباتی ترجمان ہے جو ابھی ختم نہیں ہوا۔ ایک ایسی نسل کا نغمہ جو دفنائی نہیں گئی۔ غالب کو فیض صاحب بڑا شاعر مانتے ہیں اور ان کی شاعری کو بڑی شاعری کے تنقیدی معیار پر پرکھتے ہیں۔

          وسیم انجم نے بھی فیض کی اس تحریر کو ایک فیچر قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

اس کتاب ’’میزان‘‘ میں ایک فیچر بھی ہے جو غالب کے تمام پہلوؤں کو محیط کر لیتا ہے۔ پھر اس فیچر میں فیض صاحب نے کرداروں کے انتخاب ،ان کے رشتے،ان کی عمروں کے ساتھ غالب کے لگاؤ کو دلچسپ پیرائے میں اُبھارا ہے۔ یہاں فیض کی طباعی کھل کر سامنے آتی ہے۔ (۱۰۴)

          ’’پریم چند‘‘ کے عنوان سے جو تحریر ’’میزان ‘‘میں شامل ہے۔ وہ دراصل ایک ادبی بحث ہے جو ’’ادبی مناظرے‘‘ کے سلسلے یں فیض احمد فیض اور آغا عبدالحمید کے درمیان ہوئی اور ۱۸ جون ۱۹۴۱ء کو آل انڈیا ریڈیو لاہور سے نشر ہوئی۔(۱۰۵)اس تحریر کا انداز مکالمہ کا ہے اور اس میں فیض نے پریم چند کی ناول نگاری اور افسانہ پر اظہار خیال کیا ہے۔

          ’’میزان‘‘ کے چوتھے حصے میں فیض صاحب نے اپنے بعض سینیئر معاصرین (اقبال اور جوشؔ) کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور مختلف دیباچوں کی شکل میں اپنے ہم عصر بعض افسانہ نگاروں ،ڈرامہ نگاروں اور شاعروں کے فن پر تبصرہ کیا ہے۔ ’’میزان‘‘ میں اقبال پر فیض کے دو مضامین ہیں۔ ایک ’’اقبال اپنی نظر میں‘‘ اور دوسرا’’جذبات اقبال کی بنیادی کیفیت‘‘ ہے۔ ان مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیض کو اقبال کے کلام کے اس پہلو سے زیادہ دلچسپی ہے جس میں جذبے کا بھر پور اظہار ہے۔ فیض،اقبال کے کلام میں تنہائی اور سوزو گداز کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کلامِ اقبال سے اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں فیض کے اپنے شعری رویے کا بھی سراغ ملتا ہے۔ جس طرح خودی ،عقل و عشق وغیرہ اقبال کے خاص موضوع ہیں۔ اسی طرح اقبال کی ذات سے دلچسپی فیض صاحب کا مستقل اور محبوب موضوع ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

میری رائے میں کلامِ اقبال کا سب سے پُر خلوص ،سب سے دلگداز سب سے رسیلا جزو وہی ہے ۔ جو ان کی ذات سے متعلق ہے۔یہ حصہ فلسفہ سے عاری لیکن جذبہ سے بھرپور ہے۔ اس میں خطابت کا جوش ناپید لیکن احساس کی شدت فراواں ہے۔ اس کلام پر اقبال کی حکیمانہ بزرگی کا انحصار بہت کم ہے۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت کا انحصار بہت زیادہ ہے۔(۱۰۶)

          فیض صاحب نے اقبال کے خاص خاص موضوعات کو بڑی دلچسپی سے بیان کیا ہے۔ مثلاً مناظرِ فطرت، خاکِ وطن، ریگ ِ زار حجاز، اخلاقی و فنی نصب العین وغیرہ فیض کے خیال میں اقبال کے کلام سے جو تصویر نمایاں ہوتی ہے۔ اس میں فراق نصیب عاشق کا سوزو ساز اور حسرت ہے۔ بادشاہ کا سا غرور گدا کا سا حلم ،صوفی کا سا استغنا، بھائی کی سی محبت اور ندیم کی سی مودت نمایاں ہوتی ہے۔ اقبال پر اپنے دوسرے مضمون ،جذباتِ اقبال کی بنیادی کیفیت‘‘ کا آغاز فیض نے اس مصرع سے کیا ہے:

سوزو ساز درد و داغ و جستجو و آرزو

          اور بتایا ہے کہ یہ مختلف پہلو ہیں اس جذباتی کیفیت کے جو اقبال کے سارے کلام میں پائی جاتی ہے ان کی رائے میں:

جستجو ،آرزو، عمل کے محرک ہیں۔ ہر آرزو اپنی تکمیل کے ساتھ ایک نئی آرزو تخلیق کرتی ہے۔ نئی آرزو سے نیا عمل پیدا ہوتا ہے۔ ہر نئے عمل سے انسانی خودی اپنے ارتقا کی ایک نئی منزل طے کرتی ہے۔ ان مراحل میں سے ہر ایک سوز و ساز و دردو داغ کی وارداتوں سے بھرپور ہے۔ انسان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل اور سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ یہ دائرہ کبھی مکمل نہیں ہوتا۔اور زمان و مکان کی حدود و قیود انسان کے ارتقامیں حائل ہونے سے عاجز ہیں۔(۱۰۷)

          یہاں اقبال نے بڑے اور سلیس الفاظ میں آرزو، عمل اور خودی کا باہمی رشتہ اور تعلق واضح کیا ہے۔ اقبال کے برعکس فیض صاحب، جو ش ملیح آبادی کے شعری رویے کو زیادہ کڑی تنقیدی معیاروں سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ اپنے مضمون’’جوش ۔شاعرِ انقلاب کی حیثیت سے ‘‘(۱۹۴۵ء) میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ادب برائے ادب کی طرح انقلاب برائے انقلاب گمراہ کن عقیدہ اس لیے ہے کہ انقلاب کا نتیجہ خیز بھی ہو سکتا ہے۔ اور شر بھی ۔ فیض کے خیال میں خیر و شر کی تمیز کرنے کے لیے درست انقلابی تعلیمی ضرورت ہے۔ اورا س کے لیے محض جذبہ و جنون کا فی نہیں بلکہ فہم و تدبر کی ضرورت ہے۔ (۱۰۸) وہ جوش کی شاعری سے مثالیں پیش کر کے یہ رائے قائم کر تے ہیں کہ انھوں نے اپنے طبقاتی نظریے کی تنظیم نہیں کی جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں انقلاب ایک پُر ہول ،دہشت ناک اور مہیب سانحہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔(۱۰۹)

          ’’معاصرین‘‘ والے حصے میں ہی فیض احمد فیض نے چھ متفرق کتابوں کے اپنے دیباچے اور پیش لفظ بھی شامل کر دیے ہیں جن کی حیثیت مستقل مضامین کی ہے۔ وہ کتابیں یہ ہیں ’’آہنگ‘‘ (اسرار الحق مجاز) ،’’مصرکی رقاصہ‘‘،(موسیو گیلے کے اوپیرا تائیس کا ترجمہ جو انا طول فرانس کے مشہور ناول سے ماخوذ ہے۔ ترجمہ از احمد شاہ پطرس بخاری ،’’خم کا کل‘‘ (سیف الدین سیف) ،’’میرا جی کا فن‘‘(مشرق و مغرب کے نغمے از میرا جی)،’’وہ لوگ‘‘(حاجرہ مسرور)،’’چند روز اور‘‘(خدیجہ مستور) مجاز کی کتاب ’’آہنگ‘‘ کے دیباچے میں شاعر کی کمزور اور سست نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری رائے میں کسی لکھنے والے کے محاسن کا جائزہ لیتے وقت صرف اس کی بہترین تحریریں سامنے رکھنا چاہیے۔ چنانچہ فیض نے مجاز کو ایک غنائی شاعر قرار دیا ہے اورا ن کی انقلابیت کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ وہ عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے ۔فیض کے نزدیک مجاز انقلاب کا ڈھنڈو چی نہیں،انقلاب کا مطرب ہے۔(۱۱۰)

          ’’میرا جی کا فن‘‘ مضمون میں میرا جی کی شاعری اور نثر نگاری(ان کے مضامین کے مجموعہ ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ ) پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فیض کا کہنا ہے کہ میرا جی نقاد بھی تھے، نثر نگار اور شاعر بھی ۔ان کی نثر سے ان کی شخصیت کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ وہ لوگ ،ہاجرہ مسرور کے ڈراموں کی کتاب ہے جن کی فیض نے اس لیے تعریف کی ہے کہ ایک تو یہ مصنفہ کی پہلی تصنیف ہے اور دوسرا ان کے موضوعات ،واقعات اور کرداروں وغیرہ میں دیسی پن موجود ہے جس نے سچائی اور خلوص کو جنم دیا ہے۔

          ’’چند روز اور‘‘ خدیجہ مستور کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے۔فیض نے ان افسانوں میں سفاکانہ ،صداقت،سوزو ہمدردی اور جزئیات نگاری کی خصوصیات کا خاص طورپر ذکر کیا ہے اور زبان و بیان کی داددی ہے۔ ’’میزان‘‘ کے مضامین کی تعداد۳۰ ہے جن میں صرف ۱۴ مضامین پر تخلیق کا سال درج ہے۔ یہ مضامین ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۶۱ء تک کے دور پر محیط ہیں۔

          فیض کی ’’میزان‘‘ بنیادی طورپر ترقی پسند نظریے کی نمائندگی کرتی ہے ۔بقول ڈاکٹر سید عبداﷲ اس چھوٹی سی کتاب میں ادب کے اکثر بنیادی مسائل کی بحث موجود ہے۔ جن پر ۱۹۳۶ء کے بعد اہلِ قلم نے خاص طورپر توجہ کی……اور ایک لحاظ سے آج بھی یہ مسئلے موضوع بحث اور مابہ النزاع ہیں انھوں نے ’’میزان‘‘ کے مضامین سے درج ذیل نتیجے نکالے ہیں:

۱۔       فیض کا نقطہ نظر بنیادی طورپر سماج(سیاسی و اقتصادی )ہے۔

۲۔       اس کے باوجود فیض دو امور کو بطورِ خاص مد نظرِ رکھ رہے ہیں۔

الف     شاعری اور ادب کی ایک اہم قدر حسن بھی ہے۔ جو شاعری حسن سے دور ہے ۔اس کی افادیت بھی مشکوک ہے۔

ب۔      وہ قدیم ادبی روایتوں کے صالح حصے کے مداح ہیں۔ انھوں نے اپنے چند مضامین (جدید فکر و خیال کے تقاضے اور غزل، ہماری تنقیدی اصطلاحات) اور اردو شاعری کی پرانی روایتیں اور نئے تجربات میں پرانی ادبی روایات کے حسین حصے کی عمدہ تشریح و تعبیر کی ہے۔(۱۱۱)

          ڈاکٹر سید عبداﷲ کے نزدیک’’میزان‘‘ کی اہمیت چندوجوہ سے ہے۔ اول اس وجہ سے کہ اس کتاب میں ادبی و تنقیدی مسائل کا تجزیہ قابلِ فہم اور تشفی بخش ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مصنف بنیادی عقیدوں میں استواری کے باوجود اپنے سے مختلف نقطہ نظر کے لیے بھی گنجائش کا قائل ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ مصنف پچھلے ادب کی صالح روایتوں کے حق میں ہے۔ اور چوتھی وجہ یہ کہ فیض کے شاعرانہ درجے کیحوالے سے ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ نقدو نظر کے معاملے میں شاعر کی بصیرت نے کہاں تک اس کی رفاقت کی۔ ڈاکٹر سید عبداﷲ کہتے ہیں:

یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ’’نقش فریادی ‘‘ میں جو کچھ موجود ہے وہی ’’میزان‘‘ میں ہے مگر ’’میزان‘‘ کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ فوراً نکالا جا سکتا ہے کہ ’’میزان‘‘ کے مضامین ’’نقش فریادی ‘‘ کے مصنف ہی کے ہیں۔ اور شاعر کی تخلیقی شخصیت کے ان دونوں رخوں میں فاصلہ بہت کم ہے۔(۱۱۲)

          حبیب کیفوی(۱۹۱۰ء۔۱۹۹۱ء) ایک شاعرکے ساتھ ساتھ محقق اور نقاد بھی ہیں۔ ان کی کتاب ’’کشمیر میں اُردو‘‘ تحقیقی نوعیت کی ہے مگر اس میں شعرا اور ادبا پر تنقیدی آرا بھی ملتی ہیں۔ اس لحاظ سے اس کتاب کو ادبی لحاظ سے تنقیدی و تحقیقی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کتاب ۵۶۶ صفحات کی ضخامت پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا ’’پیش لفظ‘‘ ڈاکٹر سید عبداﷲ نے لکھا ہے۔اس کتاب میں کشمیری ادب،کشمیر کے فارسی اور اردو شعرااورنثار کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس میں جموں و کشمیر میں اُردو زبان وا دب کی ترقی و ترویج کی تاریخ بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر سید عبداﷲ حبیب کیفوی کی ’’کشمیر میں اُردو‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

کشمیر میں اُردو کی یہ کہانی جو حبیب کیفوی صاحب نے بڑی تحقیق اور دیدہ ریزی سے مرتب کی ہے۔ اہلِ علم کے لیے ایک ارمغان کا درجہ رکھتی ہے۔ میں اسے گنج شائگاں بھی کہہ سکتا ہوں اور سرمایہ دیدۂ اہل بصیرت بھی۔ کیفوی صاحب نے شعر و سخن کے اس گلشنِ بے خار سے چند پھول نقوشِ تحریر میں ہمارے سامنے رکھے ہیں اور اس دستۂ گل میں کشمیری اور اردو ادب کے گل ہائے رنگیں ہمیں دکھائے ہیں۔(۱۱۳)

          پروفیسر امان اﷲ خان آسی ضیائی رامپوری ایک شاعر، اقبال شناس، نثر نگار کے ساتھ ساتھ ایک نقاد بھی ہیں۔ اُردو تنقید کی تاریخ میں ہمیں دیگر تنقیدوں کی طرح تاثراتی تنقید یا جمالیاتی تنقید کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ یہ تنقیدی رجحان ادیب و شاعر کو بنیادی طورپر حُسن کار تصور کرتا ہے جس کا مقصد یہ ٹھہرتا ہے کہ ادیب اپنے اعلیٰ تاثرات حسن کا اظہارفن پارے میں کرے یوں جمالیاتی دبستان افادیت و مقصدیت کو پس ِ پشت ڈال دیتاہے اور ادب پارے کا مقصد مسرت حاصل کرنا رہ جاتا ہے۔ پس جمالیاتی تنقید ادب اور زندگی کے تعلق سے قطع نظر کرتی ہے۔ زندگی اور اس کے معمولات سے علیحدہ ہو کر تنقید بھی ادب و شعر کی طرح محض تاثرات کا اظہار رہ جاتی ہے۔

          ایسی ہی تنقید کے نمونے ہمیں آسی ضیائی کے ہاں ملتے ہیں۔ وہ ادب کو پرکھنے کے لیے کسی اُصول یا معیار کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ کسی بھی ادب کے مطالعہ کے بعد اس سے حاصل شدہ ذاتی تاثرات کو تنقید کے طورپرپیش کرتے ہیں ۔ وہ فن برائے فن کے نظریہ کے قائل ہیں۔ ان کی تصانیف ’’شبِ تاب چراغاں‘‘ اور ’’کلام اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘ کے علاوہ چند مضامین میں بھی تنقید کا یہی انداز کارفرما نظر آتا ہے۔

          تاثراتی تنقید میں اسلوب کے محاسن، اسلوب کی قوت اور اسلوب کی قدروغیرہ کا محاکمہ اور اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ شعر کے حسن و قبح کا جائزہ اسلوب کے حوالے سے لیا جاتاہے۔ تنقید کا یہی شعار آسی ضیائی نے ’’شبِ تاب چراغاں‘‘ کے سلسلے میں اپنایا ہے۔ مـثلاً داغ کی خصوصیات کلام بیان کرتے ہوئے آسی ضیائی نے فنی اسلوب پر زور دیا ہے:

مصرعے کے مصرعے گویا روزمرہ کی باتیں ہیں۔ لب و لہجہ اور تیور میں ایسا تیکھا پن ہوتا ہے۔ کہ زبان سے ادا کرنے سے ہی اس کا لطف آسکتاہے۔(۱۱۴)

          ریاض خیر آبادی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہ صنائع و بدائع کا اچھا خاصا استعمال کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے شعر کا لفظ لفظ نہایت بے ساختگی اور مشاقی کے ساتھ اپنی جگہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔(۱۱۵)

          نظیر اکبر آبادی کے کلام میں اسالیب کی موجودگی پر نظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان کا ذخیرہ الفاظ ز بردست اور عظیم الشان ہے۔نظم کا اصل ظاہری جادو ،موسیقیت اور آہنگ نظیر کے ہاں ایسا وافر ملتا ہے کہ ان کی بہت سی نظموں میں الفاظ کی آوازیں اورا ن کی ترتیب مختلف سازوں کی جھنکار سناتی ہے۔(۱۱۶)

          آسی ضیائی الفاظ کے حسن و قبح پر بہت زور دیتے ہیں۔یاسؔ یگانہؔ کے ہاں انھوں نے محاوروں اور بندشِ الفاظ یعنی بیان کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ اسلوب کو بہت اہم سمجھتے ہیں ۔ان کے نزدیک شاعر کے لیے طرزِ ادا اور الفاظ کا انتخاب بہت ضروری چیزیں ہیں۔ چنانچہ یگانہ کے اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

مزاجِ حُسن بدلے ،آسماں بدلے زمیں بدلے

سزائے عشق کیا بدلے گی ذوقِ ناپشیماں کو

دوسرا مصرعہ سوالیہ اچھا نہیں معلوم ہوتا بہتر اس طرح ہوتا کہ ذوقِ پشیماں سزائے عشق سے کہاں بدلنے لگا۔ اس کے علاوہ پہلے مصرعے سے اس کا ربط اچھی طرح نہیں ہے۔ سزائے عشق سے مزاجِ حسن یا زمین وآسمان کے بدلنے کا کوئی تعلق نہیں۔(۱۱۷)

          آسی ضیائی اشعار میں جذبات کی سادگی اور صفائی کے علاوہ ’’متانت‘‘ کو بھی پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں شعر صرف الفاظ کو ایک ترتیب سے جمع کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ جذبات و تاثرات کا اظہار ہے۔ او ر اظہارِ متانت کی کمی بیشی سے پست اور بلند ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اگر انھیں کسی شاعر میں یہ خصوصیت نظر آجائے تو اس کا ذکر بطور خاص کرتے ہیں۔مثلاً حسرت موہانی کے متعلق کہتے ہیں:

ان کی سادگی میں ایک شریفانہ متانت ہے۔(۱۱۸)

          مصحفیؔ پر کچھ یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں:

دہلی میں جس قسم کی شاعری کی قدر تھی اس کی خصوصیت سوزو گداز ،وضع داری اور متانت ہے۔ یہ باتیں جب بھی مصحفی کے ہاں آجاتی ہیں ان کا کلام میر سے جا ملتا ہے۔(۱۱۹)

          وحشتؔ کے ہاں متانت کی موجودگی پرتبصرہ ملاحظہ کیجیے:

وحشت اپنے کلام میں ویسے ہی متین ہیں بلکہ سادہ زبان کے اشعار میں بھی متانت بر قرار رہتی ہے۔(۱۲۰)

          ان تمام تاثراتی نظریات کے علاوہ ’’شبِ تابِ چراغاں ‘‘ میں عمرانی نظریات بھی ملتے ہیں کیونکہ آسی ضیائی نے ہر شاعر کا مطالعہ اس کے عہد کے تاریخی و سیاسی حالات کی روشنی میں کیا ہے۔ لہٰذا’’ شبِ تابِ چراغاں‘‘ کی تنقید جمالیاتی یا تاثراتی اور عمرانی تنقیدکاایک حسین سنگم ہے۔تاثراتی نقاد کا موقف یہ ہوتا ہے کہ شاعری سے حاصل شدہ تاثرات کا اظہار کیا جائے ۔ جب نقاد تاثرات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شعر کے بارے میں زندگی اور اس کے تعلق کے بارے میں کچھ نہیں کہتا بلکہ وہ اس لذت کو جو شعر کے حوالے سے اس کو حاصل ہوتی ہے بیان کرتا ہے۔’’کلامِ اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘ کے ضمن میں بھی آسی ضیائی کا یہی نقطہ نظر کار فرما نظر آتا ہے۔ مثلاً کلامِ اقبال میں آسی ضیائی نے لفظ ’’خورشید‘‘ کا بار بار استعمال دیکھ کر اس کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

حصہ دوم کی نظموں میں سے جب ہم تقریباً ہر نظم میں کسی نہ کسی طرح ’’خورشید ‘‘ کا ذکر پاتے ہیں تو خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہ لفظ واقعی کسی انسانی ہستی کانام تو نہیں ……ہمارے زمانے کے تذکرہ نگار ان اقبال یا تو اس طرف توجہ ہی نہیں کرپاتے یا شاید اقبال کی کسرِ شان سمجھتے ہوئے ان کی زندگی کا یہ پہلوعمداً حذف کر جاتے ہیں ۔ مگر خود کلام اقبال بولتا ہے کہ اس میں کچھ ’’پردہ داری ‘‘ کے قابل ِ چیز بھی ہے۔(۱۲۱)

          آسی ضیائی کا نصب العین اگرچہ مذہب،مقصدیت اور اخلاقیات کا پرچار ہے۔ مگر وہ اقبال کے ہاں اخلاقیات،مذہبیات اور دیگر مسائل زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔ اگر ایسے جذبات انھیں شاعری میں دکھائی دیں تو وہ ان جذبات کے پیغام سے قطع نظر اسے محض شاعرانہ نمونہ قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے کلام میں مغربی تہذیب کی تباہی اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کی پیش گوئیوں پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے اسے محض ’’درد مند شاعری کی دلی آرزو‘‘،قرار دیا ہے۔آسی ضیائی نے کلام ِ اقبال کے فنی محاسن پر بھی بڑا بھرپور تبصرہ کیا ہے۔

اقبال کے ابتدائی کلام میں خارجی صدا بندی کا اہتمام ’’حکایت الصحت‘‘ کہہ لیجیے ،خاصا پایا جاتا ہے کہ ا س کی بڑی اچھی مثال ،نظم ایک شام ہے جس کی مختصر سست بحر ،لمبی مدّیں اور س ش کی تکرار ،سناٹے اور اُداسی کا ماحول پیدا کر دیتی ہیں۔(۱۲۲)

          ایک جمالیاتی یا تاثراتی نقاد کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے آسی ضیائی نے اقبال کی فنی عظمت کو تسلیم کیا ہے اور فکری عظمت کا نامنظور :

جہاں تک فنِ شعر کا تعلق ہے اقبال نے اپنا مقام اتنا اونچابنا لیا ہے کہ اردو ،فارسی ،دنیا میں اپنی زندگی بھر ،اسے نہ بھولیں گے لیکن جہاں تک اس کے پیغام کا تعلق ہے یہ مان لینا دشوار ہے کہ وہ بھی ہمیشہ کے لیے قابلِ عمل دستور حیات کی طرح غیر فانی اور آئندہ تمام نسلوں کے لیے پرکشش یا مفید ثابت ہو گا۔(۱۲۳)

          اس تصنیف میں آسی ضیائی نے اقبال کی حیثیت فلسفیانہ چھوڑ کر اس کی فنی اور ادبی حیثیت پر بحث کی ہے۔ اور جہاں کہیں شاعر کے پیغام پر قلم اٹھایا ہے ۔وہاں تنقید کا تاثراتی انداز برتا ہے۔

          آسی ضیائی نے ’’مرے کالج میگزین‘‘ میں متعدد مضامین رقم کیے ہیں جن میں ’’اقبال……میری اور آپ کی نظر میں‘‘ ،’’حالی اور اقبال ‘‘ ،’’کلاسیکی ادب کی اہمیت اور اس کے اسباب ‘‘ اور ’’ادب زندگی کاترجمان یا رہنما‘‘ شامل ہیں۔ ان تمام مضامین میں بھی تنقید کا کم و بیش وہی انداز اختیار کیا گیا ہے جس کے ڈانڈے جمالیاتی اور تاثراتی تنقید سے ملتے ہیں۔فنِ تنقید میں آسی ضیائی کا ایک مضمون میرا نیس سے متعلق ہے۔ ماہنامہ ’’سیارہ ‘‘ میں یہ مضمون’’کیا میرا نیس فی الواقع مرثیہ گو تھے؟‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون میں تنقید کے علاوہ تحقیق اور لسانیات کا بھی دخل ہے۔ مرثیہ کے ارتقااور دیگر شعرا کے ہاں اس صنف کی موجودگی پر بحث کے لیے تحقیق سے کام لیا گیا ہے۔جب کہ مرثیہ کی تعریف اور اس کی جملہ لوازمات کی تشریح کے لیے لسانیات کے اصولوں کو مد نظر رکھا گیا ہے چنانچہ جب آسی ضیائی یہ دیکھتے ہیں کہ ’’موجودہ مرثیہ ‘‘ کا مرثیہ کی اصل تعریف سے کوئی تعلق نہیں تو وہ کہتے ہیں:

مرثیے کا انتعاش غم ِ مرگ سے ہوتا ہے مگر جن کربلائی نظموں کو زبردستی مرثیہ کہا گیا ہے جن کا آغاز میر ضمیر نے کیا ان کی تہ میں غم مطلق کارفرما نظر آتا ہے۔ ان میں خطابت کے جوہر ضرور دکھائے جاتے ہیں ۔سرمایہ علوم و لغات کی عمدہ نمائش ضرورہوتی ہے۔ انتخاب الفاظِ کا اعلیٰ سلیقہ بنے شک نظر آتا ہے۔ مگر نہیں ملتا تو وہ جذبہ جس نے شاعر کو مرثیہنگاری پر مجبور کر دیا ہے۔(۱۲۴)

          چنانچہ اپنے اس اُصول کو بنیاد بنا کر آسی ضیائی یہ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں:

سودا کے بعد سے کربلا پر لکھی جانے والی نظموں کو مرثیہ کسی طرح نہیں کہا جا سکتا۔ یہ نظمیں بیانیہ شاعری کی ذیل میں آتی ہیں۔ اور چونکہ یہ سب واقعہ کربلا کے بیان پر مشتمل ہیں۔ لہٰذاان کو ایک نیا نام ’’کربلائیہ‘‘ دینا بہت مناسب ہو گااور اس اعتبار سے ہم میر انیس کو بھی ’’مرثیہ گو‘‘ کے بجائے ایک بہترین کربلائیہ نگار‘‘ کہنا پسند کریں گے۔(۱۲۵)

          اگرچہ اس مضمون میں بھی آسی ضیائی نے اپنے ذاتی تاثرات بیان کیے ہیں لیکن چونکہ اس مضمون میں تحقیق اور لسانیات سے بھی مدد لی گئی ہے۔ لہٰذا اس مضمون پر آسی ضیائی کی جمالیاتی یا تاثراتی تنقید کا لیبل ہے۔ ہر چند کہ اس میں بھی تنقید کی بنیاد جمالیاتی اور تاثراتی ہی ہے۔آسی ضیائی کی مذکورہ بالا تصانیف اور مضامین کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان ناقدین میں سے ہیں جو معاشرے کی جامد پابندیوں کو قبول نہیں کرتے اور کسی بنی بنائی راہ پر چلنے کے بجائے اپنی راہ خود اپنے ہی فکر و عمل کی روشنی میں بناتے ہیں۔ آسی ضیائی تنقید اور نقاد کی ذمہ داریوں سے بھی واقف ہیں اور انھوں نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا اس پر عمل بھی کیا مثلاً نقاد کے متعلق وہ کہتے ہیں :

ایک نقاد کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرنے میں اپنے جذبات شامل نہ کرے ۔نقاد کا کام صرف اپنے معاشرے کی ترجمانی کرنا ہی نہیں۔ ایک عظیم نقاد معاشرے کے لیے اس کے ذوقِ جمال کے ارتقاکا سامان بھی مہیا کرتا ہے۔(۱۲۶)

          اسی طرح تنقید کے فرائض آسی ضیائی کے نزدیک کچھ یوں ہیں:

تنقید کے فرائض دو گونہ ہیں۔ تجزیہ اور تبصرہ ۔تجزیہ میں وہ تمام عمل دخل ہے جو نقاد ایک ادیب کے ادب پارے میں سے اصول جمالیات کے استقرااور استخراج کی خاطر کرتا ہے۔ تبصرہ گو یا تجزیہ کا تکملہ اور یہی حصہ خود نقاد کی تنقیدی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔(۱۲۷)

          آسی ضیائی کے تنقید ی نظریات کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آسی ضیائی ایک بابصیرت نقا دہیں اور فن تنقید کی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ بھی ہیں ۔ ایک اچھے نقاد کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیش کردہ نظریات پر قائم رہے۔ جب وہ کسی کتاب پرتنقیدی نگاہ ڈالتا ہے تو اپنے ہی قائم کردہ اصولوں کے مطابق تنقید کرتا ہے۔ آسی ضیائی بھی ایک ایسے ہی نقاد ہیں جو عملی تنقید کے دوران اپنے تنقیدی نظریات پر قائم رہے۔ ان کی تنقید نگاری پر اطہرؔ سلیمی کی یہ رائے نہایت موزوں ہے:

اس دور میں حق بات کہنا بہت مشکل ہے۔ اکثر نقاد کسی بڑی شخصیت پر عادلانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں درست رائے سامنے نہیں آتی اور قاری غلط تاثرات کا شکار ہو جاتا ہے لیکن آسی ضیائی صاحب کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ شاعر و ادیب چھوٹا ہو یا بڑا وہ عدل سے کام لیتے ہیں اور اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر جاتے ہیں۔ خواہ وہ کسی کو اچھا لگے یا برا۔(۱۲۸)

          جابرعلی سید کی تنقید کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ گیر ہے انھوں نے تنقید کے بہت سے نئے نظریے وضع کیے اور اپنی عملی تنقید میں ان نظریات سے پورا پورا کام کیا۔ وہ تنقید ادب کو کسی خاص تحریک یا کسی خاص نظام سے وابستہ کرنے کے حق میں نہ تھے۔ کیونکہ اس قسم کی وابستگی نقاد اور اس کی تنقید کو محدو د اور کم وزن کر دیتی ہے۔ وہ تنقید کو ایک آفاقی اور یونیورسل حقیقت سمجھتے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ تنقید ادب دو مختلف سیاسی نظاموں سے متعلق ہو چکی ہے۔ جابر علی سید تنقید کو ہر قسم کی سیاسی اور دوسری نظریاتی وابستگی سے آزاد او ر بے تعلق دیکھنے کے حامی تھے وہ کہتے ہیں :

کوئی لکھنے والا بلا تردد کسی دبستان تخلیق سے اخلاقی اور ذہنی طورپر وابستہ ہو سکتا ہے اور جمالیاتی طورپر کسی اور دبستان سے تنقید کی یہ آزاد روی اور لا تعلقی نہیں ہے بلکہ اس کی فنی شخصیت اور انسان دوستی کی مظہر ہے۔ جدید انسانی علوم میں نفسیات عمرانیات اور علم السان بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ تنقیدی شعور کی ترقی کے ضامن ہیں اور اس کے افق کو روشن کیے رکھتے ہیں۔(۱۲۹)

          جابر علی سید کے نزدیک کسی فن پارے یا شعری تخلیق کی قدرو قیمت اور اس کی اہمیت و فضیلت اس کی جمالیاتی تنوع اور ترفع کی وجہ سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تنقید میں تخلیقی عنصر کے ساتھ ساتھ تحقیق کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ تحقیق بغیر تنقید ناقص اور ادھوری رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تنقیدی نگارشات میں چاہے ان کا تعلق نظری تنقید سے ہو یا عملی تنقید سے انھوں نے تحقیق کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ خصوصاً ان کی عملی تنقید اتنی جچی تلی ہوتی ہے کہ کسی کو بھی ان پر انگشت نمائی کی جسارت نہیں ہوتی۔ اکثر جدید نقادوں کے یہاں تضادات کی بہتات نظر آتی ہے۔ جابر علی سید کی تنقید اس سے مبرا ہے ۔ جابر علی سید کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جو فن پارہ یا تصنیف ان کے ذہنی معیار کے مطابق ہوتی ہے یا جسے وہ قابلِ اعتنا ء اور لائق توجہ سمجھتے ہیں ۔ اس کا بار بار مطالعہ کرتے ہیں اور اس طرح ان کے ذہن میں اس تصنیف یا فن پارے میں تہہ در تہہ مصنف کی شعوری اور لا شعوری پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ اس کے تدریجی مطالعے کے باعث ان کی گرہ کشائی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کے متعلق اظہار رائے یا محاکمہ کرتے ہیں۔ وہ ادبی تنقید میں تقریظی انداز کو قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ کسی کتاب پر اظہار کرتے کرتے اس کے صفحات اس کے ٹائٹل اور اس کے دوسرے طباعتی لوازمات تک بیان کر جاتے تھے۔ جابر علی سید کے حوالے سے فاروق عثمان لکھتے ہیں :

وہ ان ناولوں اور افسانوں کے مجموعہ کا ذکر خوب مزے لے لے کر کیا کرتے تھے ۔ جو انھوں نے بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی اور پانچویں دھائی میں پڑھے تھے۔ بعض اوقات تو اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کتاب کا حلیہ، ٹائیٹل کا رنگ، کتابت کا معیار سب کچھ بیان کرتے تھے۔ جابر کے ناقدانہ ذوق کا بھرپور مظاہرہ ان کی عملی تنقید میں دکھائی دیتا ہے۔ انھو ں نے شاعری ،عروض و لسانیات، ناول اور افسانے پر تنقید کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت نقاد، محقق ،شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے۔(۱۳۰)

          عملی تنقید کے سلسلے میں انھوں نے جو تصانیف لکھیں ان کی مطبوعہ فہرست درج ذیل ہے:

۱۔       تنقید اور لبرلزم                   ۲۔       اقبال کا فنی ارتقا

۳۔       اقبال ایک مطالعہ                 ۴۔       کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ

          مذکورہ بالا کُتب میں پائے جانے والے مقالات و مضامین اور غیر مطبوعہ مقالات و مضامین کی فہرست حسبِ ذیل ہے:

۱۔       اقبال کا نظریہ حُسن                      ۲۔       کلام اقبال میں فنون لطیفہ

۳۔       اقبال کا نظریہ تمثیل                      ۴۔       اقبال کے ایک مصرعے کی تشریح

۵۔       اقبال اور سپنگلر                           ۶۔       اقبال اور لفظ و معنی کا رشتہ

۷۔       میٹزااور ہماری شاعری۔اقبال سے پہلے      ۸۔       اقبال کا فنی ارتقاء

۹۔       ابو العلاء معری ،ایرج میرزا اور اقبال         ۱۰۔     اقبال کے تین لہجے

۱۱۔     اقبال اور پطرس بخاری                            ۱۲۔     مکالماتی نظم

۱۳۔     اقبال اور خطا بیہ نظم                    ۱۴۔     اقبال کی ایک غزل

۱۵۔     اقبال کا شعری آہنگ                       ۱۶۔     اقبال کا تصورِ فن

۱۷۔     اقبال اور فطرت                            ۱۸۔     اقبال کا نظریہ حسن

۱۹۔     شمع و شاعر۔تجزیہ                       ۲۰۔     اقبال اور ذوقِ استفسار

۲۱۔     اقبال اور تغزل                    ۲۲۔     اقبال اور قطعہ۔رباعی متنازعہ

۲۳۔     اقبال کے ایک مصرعے کی تشریح              ۲۴۔     اقبال اور سپنگلر

۲۵۔     کلام اقبال میں فنون لطیفہ کے عناصر                   ۲۶۔     مثنویات اقبال اور الہلال

۲۷۔     اقبال اور الہلال                            ۲۸۔     غالب

۲۹۔     غالب اور فطرت                           ۳۰۔     دلی کا شو پن ہائر

۳۱۔     تنقید اور لبرلزم                             ۳۲۔     بوطیقا مشرق میں     

۳۳۔     میرا جی اور عملی تنقید                           ۳۴۔     جدید اردو نثر ۔خطابت سے منطق تک

۳۵۔     کلیم الدین احمد کا تنقیدی مطالعہ                 ۳۶۔     نظم منشور کا ارتقائی جائزہ

۳۷۔     سایہ اور پرچھائیاں                       ۳۸۔     نقطہ دان پیدا کیے

۳۹۔     تنقید میں عقلی تضاد                       ۴۰۔     باغ و بہار اور کلیم الدین احمد

۴۱۔     اصول انتقاد و ادبیات                      ۴۲۔     عزیز احمد کی بوطیقا اور ڈاکٹر ابن فرید

۴۳۔     پلیٹس کی لغت                     ۴۴۔     فرہنگ آصفیہ

۴۵۔     حوا ش و تعلیقات از وارث سرہندی             ۴۶۔     بڑے عروضی بڑی غلطیاں

۴۷۔     مولوی عبدالحق کا عروض                        ۴۸۔     ہمارے عروضی دبستان

۴۹۔     ایک اصلاحاتی محاکمہ                    ۵۰۔     اُردو شعرا کی بحر آزمائیاں

۵۱۔     اصناف سخن اور شعری ہیتئیں                  ۵۲۔     نثری نظم یورپ میں

۵۳۔     رام پور کا ملائے فرومایہ اور وزن کے تصورات    ۵۴۔     دوسری جنگ عظیم اور اردو ناول

۵۵۔     خواب ہستی کا ایک مطالعہ               ۵۶۔     وہ اور ہم

۵۷۔     قراۃ العین حیدر ستاروں سے آگے              ۵۸۔     جدید اردو ناول میں فارمولا کہانی سے انحراف

۵۹۔     عزیز احمد کا اہم ترین کارنامہ                   ۶۰۔     نظم دھند کا مطالعہ

۶۱۔     غالب اور قول محال                       ۶۲۔     اردو غزل کے نقاد

۶۳۔     جلال میرزا خانی مرحوم کے دوہے   ۶۴۔     راشد……اقبال کے خلاف ایک ردِ عمل

۶۵۔     احمد ندیم قاسمی کی دو فطرت پرستانہ نظمیں         ۶۶۔     ندیم کی ایک تمثیلی نظم

۶۷۔     غالب اور فطرت                           ۶۸۔     جذبی کی ایک غزل کا تجزیہ

۶۹۔     فیض کی ایک نظم ’’موضوعِ سخن‘‘ کا تحقیقی مطالعہ ۷۰۔     بشیر احمد بشیر کی تین غزلیں

۷۱۔     گولڈا سمتھ حالی اور گریر سن                   ۷۲۔     حفیظ جالندھری شاہنامہ اسلام تک

۷۳۔     دیوانِ غالب کے فارسی دیباچے کا اردو ترجمہ       ۷۴۔     عمرِ خیام ایک تعارف۔

          اقبال شناسی اور اقبالیات کے متعلق اقبال ایک مطالعہ اور ’’اقبال کا فنی ارتقا‘‘ جیسی جابر علی سید کی تصانیف پر اس باب کے پہلے حصے میں بحث ہو چکی ہے۔ مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ جابر علی سید اقبال کے حوالے سے دیگر تنقیدی مضامین پر بھی اس حصے میں تبصرہ کیا جا چکا ہے ۔ لہٰذا اس حصے میں اقبال پر بات نہیں ہو گی۔

          جابر علی سید نے نہ صرف اقبال کے موضوعات پر تنقید کی ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے فنی سرمایہ سے غالب،عمر خیام ،عابد علی عابد ،کلیم الدین احمد، میرا جی ،عزیز احمد، راشد، پطرس، فیض ،اختر شیرانی اور بہت سے دوسرے شاعروں اور ادیبوں کوا پنے دامن فن میں جذب کر لیا ہے۔عملی تنقید کے سلسلے میں اقبال جابر علی سید کا پسندیدہ موضوع تھا۔ لیکن اقبال کے بعدانھیں غالب سے بھی بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔ غالب اردو کے جدت طرز اور ندرت کار عظیم شاعر ہیں۔ انھوں نے مرزا غالب پر بھی بہت سے تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ ’’غالب اور فطرت‘‘ مضمون میں انھوں نے اپنے طبعی رحجان اور حر کی ذوق کے مطابق کلام غالب کے ان پوشیدہ گوشوں کی رونمائی اور گرہ کشائی کی ہے جو عام ناقدین کی نظروں سے اوجھل رہے اور جن پر کسی بھی غالب شناس نے کچھ نہیں لکھا اور کچھ لکھا بھی تو محض سرسری اور سطحی انداز میں ۔ ’’غالب اور فطرت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہوئے جابر علی سید کہتے ہیں :

غالب کی تحریروں میں ،مکاتیب ،روزمرہ کی گفتگو سب شامل ہیں۔ کہیں بھی فطرت کا استعمال نہیں ہوا۔ کسی لفظ کی عدم موجودگی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فطرت کا تصور یا تصورات غالب کی شاعری میں موجود نہیں ہیں۔ صرف اتنا ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں مختلف اسالیب اور رویوں کے ساتھ غالب کی اخلاقی شاعری میں منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ اور ان کے متعدد پہلو میں جو دیوانِ غالب کا مطالعہ کرتے وقت اپنی خصوصیت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔(۱۳۱)

          جابر علی سید نے غالب کی اس معنویت کو اُجاگر کرنے اور قاری کو غالب کی شعوری عظمت اور فنی برتری سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ کلام غالب کے جمالیاتی پہلو ؤں سے بھی واقف کرایا ہے اور جو خوبصورت اور خیالات عام نظروں سے اوجھل رہے۔ ان کی نشاندہی کرکے اردو دان طبقے کے دل میں مطالعہ غالب کا شوق پیدا کردیا ہے اور اس طرح کلام غالب کی وہ تمام شرحیں جواب تک منظر عام پر آچکی ہیں اور جن میں کہیں بھی غالب کی فطرت پسندی کا تذکرہ نہیں ان میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔

          ورڈزورتھ اور غالب کی فطرت پسندی کا تقابل کرتے ہوئے جابر علی سید لکھتے ہیں :

غالب ورڈزورتھ بھی ہے لیکن صرف مخصوص مواقع پر اور مخصوص حالات میں ،ورڈزورتھ کے لیے فطرت ایک کھلی ہوئی کتاب اخلاق حیات تھی۔ غالب بھی حسی لطف اندو زی کی سرحد کو پھلانگ کر مظاہر زندگی سے اخلاقی و عقلی استدراک کرتا ہے۔(۱۳۲)

بخشے ہے جلوۂ گل ،ذوقِ تماشا غالبؔ

آنکھ کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

          ہر رنگ میں وا ہو جانا صرف انسانی بصیرت ،تعقل اور عام ادراک زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ یہاں جلوہ گل ایک طرح کا پیغامِ حیات ہے اور ساتھ ہی حسن کی عام علامت بھی۔ غالب کے شعر کی مماثلت ورڈزورتھ کے اس شعر سے واضح ہے:

To me the meantest bowler that grow gire thought that often lie to deep for tears.

          غالب کے متعلق ان کا دوسرا مضمون ’’دلی کا شوپن ہائر‘‘ ہے۔ اس میں انھوں نے غالب کے فلسفیانہ رجحان اور حکیمانہ انداز پر بحث کی ہے۔ مرزا غالب ازل اور آخر ایک شاعر تھے۔ لیکن قدرت نے شعر گوئی کے ساتھ ساتھ انھیں فکر کی گہرائی ،احساس کی لذت اور تخیل کی بلند پروازی بھی عطا کی تھی۔ اس سبب سے غالب کے اشعار میں فلسفہ و حکمت اور عقل و دانش کا وافر حصہ موجود ہے۔

          جابر علی سید نے غالب کا موازنہ انگلستان کے مشہور فلسفی شو پن ہائر سے کیا ہے۔ اور ان دونوں میں جو فطری ،شخصی اور زمانی مماثلت موجود تھی۔ اس کی تصریح کی اور ان میں جو اختلاف اور تضاد تھا۔ اس کی بھی نشاندہی کی ہے اور اس طرح غالب کو فلسفہ و حکمت میں شوپن ہائر کا مدِ مقابل اور ہمسر قرار دیا ہے۔ جس طرح شوپن ہائر کو اس کے ہم عصروں نے طنزو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح غالب کو بھی ان کے معاصرین نے اپنی طنزیات کی نشتریت سے کچوکے دئیے۔ دونوں اپنے عہد سے مایوس اور متنفراور بیزار تھے۔ البتہ مستقبل سے پُر اُمید تھے۔جابر علی سید اپنی طبیعت اور مزاج کے امتیازی اور انفرادی وصف کے باعث تنقید کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جو وقیع بھی ہوں اور ان میں انھیں مزید عقدہ کشائی اور جدت طرازی کا موقعہ ملے اوروہ تہہ در تہہ نفسیاتی الجھنوں کو سلجھا سکیں۔

          ن۔ م راشد اردو کے ایسے شاعر ہیں جن کے شعری سفر کا آغاز رومانویت کی فضا میں شروع ہوا۔ لیکن آگے چل کر وہ اشتراکی اورا شتمالیت سے متاثر ہو کر بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ انھوں نے ردِ عمل کی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ تحریک علامہ اقبال کے خلاف اقبال ہی کی زندگی میں شروع ہو چکی تھی اوراس کی ابتدا اختر شیرانی اور ان کے ہم مزاج اور ہم خیالوں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ راشد اختر شیرانی کے شاگرد تھے اور شروع شروع میں انھی کے انداز کے زیر اـثر نظمیں لکھتے تھے۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی اشتراکیت کے زیر اثر انھوں نے جنسی جذبات، ہوس ناکی اور متبدل خیالات کو اپنایا۔ وہاں انھوں نے اقبال کے خلاف بھی زہر اگلنا شروع کر دیا۔ اختر شیرانی اور راشد کے بارے میں جابر علی سید کہتے ہیں :

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں شاعروں نے سماجی محرومی پابندی اور رسوم سے نجات پانے کے لیے ایک طلسمی یوٹو پیابنا رکھا تھا۔ جہاں سانیٹ اور گیت نما نظموں کے طیاروں کی مدد سے رسائی حاصل کی جاتی تھی۔(۱۳۳)

          لیکن اقبال کا کلام باقاعدہ مستقل پیغام اور ایک نظامِ فکر کی حیثیت رکھتا تھا جس میں ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا منشور موجود تھا ۔ وہ مسلمانوں میں خودی اور خود اعتمادی کے جوہر اجاگر کر کے انھیں شاندار مستقبل ،دینی اور دنیاوی ،مادی اور روحانی کامیابی و کامرانی کی نوید سنا رہے تھے اور ملتِ اسلامیہ کے دل میں ان کے کلام کی اہمیت اور ان کے پیغام کی حقانیت نقش ہوتی جا رہی تھی۔ اس چیز نے اختر ،راشد، پطرس ،فانی ،جوش اورسیماب اکبر آبادی وغیرہ کے دلوں میں ہم عصری رقابت پیدا کر دی۔ اور انھوں نے اقبال پر بے جا اعتراض کرنے شروع کر دئیے۔ لیکن یہ محض ایک ہنگامی کیفیت تھی جو پیدا ہوئی اور ختم ہو گئی۔

          ’’ماورا‘‘ راشد کے کلام کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس کی ابتدائی چند رومانی نظمیں ہیں اور باقی تمام نظمیں ترقی پسندی کے زیر اثر نظر آتی ہیں۔ ان کے کلام کا دوسرا مجموعہ ’’ایران میں اجنبی ‘‘ ہے۔ اس کے دیباچے میں پطرس بخاری نے راشد کو اقبال سے بلند کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے :

ہمارے ہاں وطنی شاعر بھی ہوئے اور قومی شاعر بھی اخلاقی بھی اور اشتراکی بھی ،لیکن جہاں میری نگاہ پڑتی ہے۔ ایشیائی شاعر آپ کے سوا کوئی نظر نہیں آتا۔(۱۳۴)

          جابر علی سید کا کہنا ہے کہ پطرس کا یہ دعوی محض ان کا دعوی ہے ۔جسے دلائل و براہیم سے کوئی واسطہ نہیں۔ راشد نے خود بھی کہا ہے کہ میری زبان اور میری فارسی اقبال سے بہتر اور مستند ہے۔ جابر علی سید اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اقبال اور راشد میں صرف دو قدریں مشترک ہیں۔ فارسیت اور اونچا آہنگ ،انسان اپنی دقت کے با وصف اپنے مرکزی تصور تشکیک پسندی کو چھپا نہیں سکتا۔ ایقان پرست اقبال کے مقابلے میں تشکیک پسند راشد صاف کھڑا نظر آتا ہے۔ جہاں تک راشد کے شاعر ہونے اور ان کی شعری اور فنی حیثیت ہے۔ جا بر علی سید اس کے معترف ہیں اور جانتے ہیں کہ راشد جس تحریک سے تعلق رکھتے تھے اور جس فنی رویے کے علمبردار تھے۔ اس میں وہ بہر حال کامیاب ہیں۔ اور وہ شعری عظمت کے قریب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

          جابر علی سید کا احمد ندیم قاسمی کی تین نظمیں ’’تحریر‘‘ ،لڑکیو‘‘اور ’’قانونِ قدرت‘‘ پر تبصرہ اجمالی اور مختصر ہے۔ اس میں احمد ندیم قاسمی جو دورِ حاضر کے ایک جانے پہچانے اور مسلم ثبوت شاعر ہیں۔ ان کی ساری شاعری جو اپنے موضوع و موادکی ہمہ گیری نئے نئے تجربوں اور نوع بہ نوع رویوں کی آئینہ دار ہے اور جو اپنے جلو میں تاریخی ،ثقافتی ،ادبی اور لسانی ارتقا کو لیے ہوئے ہے۔ اس کا پر تو تو موجود نہیں البتہ قاسمی صاحب کی شاعری کے متعلق ایسی باتیں سامنے آگئی ہیں۔ جن سے قاسمی صاحب کی فنی برتری اور شعری عظمت کا سراغ مل جاتا ہے۔

          جابر علی سید کے نزدیک قاسمی کی پہلی دو نظمیں فطرت پرستانہ ہیں اور ان میں حسنِ فطرت اور مظاہرِ فطرت کی عکاسی بالکل نئے اور اچھوتے انداز میں کی گئی ہے۔ جابر نے فطرت نگاری کے اسی اچھوتے پن کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ان نظموں پر تنقید کی ہے۔ اور ان میں جو تشبیہیں استعارے اور علامتیں استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا تجزیہ کیا ہے۔ نظم ’’قانون‘‘ ایک تمثیلی انداز کی نظم ہے جابر علی سید نے اس نظم کے حوالے سے تمثیل کا فنی تجزیہ ، اس کی ادبی اہمیت اور اس کے ذریعے سے جو جمالیاتی تاثر پیدا ہوتا ہے، اس کی وضاحت کی ہے۔ اور اس تناظر میں ’’قانونِ قدرت‘‘ کی ادبی ،علمی اور لسانی برتری کو واضح کیا ہے اور اس ضمن میں قاسمی صاحب کی شخصیت اور شاعری کے بہت سے داخلی پہلوؤں کی گرہ کشائی کی ہے، ان نظموں میں جو بحور استعمال ہوئی ہیں ان کی فنی قدرو قیمت متعین کی ہے۔ اس طرح ہم تین نظموں کے حوالے سے قاسمی صاحب کی بھرپور شخصیت، ان کے شعری رویوں اور ان کے اظہار و ابلاغ کے منفرد طریقے سے آشنا ہو جاتے ہیں اور ان کے کلام کی فنی باریکیوں تک ہماری رسائی ہو جاتی ہے۔ جابر علی سید نظم ’’تحریر‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

تحریر، میں شاعر کے منتخب مظاہر زندگی ،کتاب کی قدروقیمت رکھتے ہیں جو ورڈورتھ کے ہاں چلتے ندی نالوں کے مترادف تھے۔(۱۳۵)

          ورڈزورتھ منظر یہ شاعری یا فطرت نگاری کی تحریک کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی شاعری نیشلزم کا بہترین نمونہ تسلیم کی جاتی ہے۔ مگر اس کے نزدیک فطر ت کا غیر حرکی اور جامد پہلو قابلِ توجہ ہے ۔لیکن احمد ندیم قاسمی کی منظر یہ شاعری حرکت و روانی اور تسلسل کی آئینہ دار ہے۔ جابر علی سید لکھتے ہیں :

ورڈزورتھ کے لیے تبصروں میں وعظ اور بہتے ندی نالوں میں قیاس تھیں۔ ندیم کے لیے خاک سے افلاک تک ہر چیز تحریر کے فن کار ہیں۔ زندگی کی خالق اور علامت بھی ذریعہ دانش بھی۔(۱۳۶)

          جابر کا کہنا ہے کہ ’’قانون قدرت‘‘ اردو کی پہلی مکمل اور تمثیلی نظم ہے۔ اس میں شاعر نے الفاظ کے انتخاب اور فنی سلیقہ بندی سے کام لیا ہے اس کی بحر بحر رجز ہے۔ قاسمی صاحب نے جہاں تمثیل نگاری کا نیا تجربہ کیا وہاں انھوں نے اس کے لیے نئی بحر کا انتخاب بھی کیا ہے۔ جابر علی سید قاسمی صاحب کی اس خصوصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :

ندیم کا تخیل حر کی ہے۔ اس پر مووی کیمرے کی سی بے قراری بھی ہے اور وسعت تناظر بھی لیکن حرکت کے ساتھ سکون بھی اپنا تاثر دکھاتا ہے۔(۱۳۷)

          جابر علی سید نے فیض احمد فیض کی ایک نظم ’’موضوعِ سخن‘‘ پر بھی تنقید کی ہے۔ اس تنقیدی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ فیض کی نظم ’’موضوعِ سخن‘‘ پہلی بار ۱۹۴۵ء میں ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے ان کی نظم ’’تسلی‘‘ بھی اسی رسالے میں چھپی تھی۔ جس کے تعارف میں میرا جی نے لکھا تھا کہ فیض کی اس نظم کا لب لباب ہے ۔’’میری جان انقلاب‘‘۔ فیض کے شعری سفر کا آغاز ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء تک کی دہائی میں ہوا جو رومانوی فضا کی دہائی کہلاتا ہے۔ اختر شیرانی اس رومانوی فضا کے موجد و مخترع ہیں۔ راشد، جوش ،ملیسانی نو عمر شاعر فیض کے مقلد بنے اور اس طرح اردو میں رومانوی شاعری کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ لیکن ۱۹۴۰ء کے بعد اختر شیرانی کی شہرت مانند پڑنے لگی۔

          جابر علی سید کا کہنا ہے کہ ان دنوں فیض ایک نئے انداز فکر ایک نئے شعری ودیت کے انداز میں اُبھر رہے تھے۔ اس چیز نے اختر کو فیض کا حریف بنا دیا اور انھوں نے فیض کی شاعری کو زندگی سے کراہت و بیزاری کا سبب قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ’’موضوعِ سخن‘‘ کے عنوان سے فیض نے جو نظم لکھی وہ لفظی و معنوی خارجی اور داخلی ہم آہنگی اور وحدت کے باعث اردو شاعری میں ایک نئے تجربے اور ایک نئے شعری آہنگ کی نصیب ثابت ہوئی۔ جابر علی سید نے اس نظم پر جس انداز سے تنقید کی ہے وہ بھی منفرد انداز کی حامل ہے۔ جابر کے مختصر تنقیدی جائزے سے فیض کی شاعری کے وہ مضمرات ظاہر ہو جاتے ہیں جو آئیندہ چل کر فیض کی شاعری کی فنی عظمت کا امتیازی نشان بنتے ہیں۔ اور جن کے باعث فیض کو عالمی اور بین الاقوامی ادبیات میں ایک خاص مرتبہ اور مقام میسر آیا۔

          جابر علی سید نے جہاں اپنے دور کے شعرا پر سیر حاصل تنقید کی وہاں انھوں نے اپنے معاصر ناقدین پر بھی تنقید کی ۔ ضمنی طورپر انھوں نے بہت سے نقادوں کا ذکر کیا ہے ۔ جن میں مشرقی نقاد اور مغربی نقاد بھی شامل ہیں۔ لیکن وہ تین نقادوں سے خاص طورپر اپنے شغف ذہنی اور جذباتی لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں کلیم الدین احمد،میرا جی اور سید عابد علی عابد پر بھرپور قلم اُٹھایا ہے جابر علی سید نے کلیم الدین احمد کے نظریاتی اور ان کی تنقید کے عملی پہلوؤں کا جگہ جگہ حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے کلیم الدین کو دور حاضر کا عظیم نقاد قرار دیا ہے۔ وہ کلیم الدین احمد کے بارے میں لکھتے ہیں :

اردو زبان اور اس کے سرمائے کی نسبت سے وہ عظیم نقاد ہیں لیکن یونیورسل تنقید کے اعتبار سے جوا ن کی تنقید کا رجحان ہے وہ عظیم نظر نہیں آتے۔ ان کی تصانیف اور شاعری اردو تنقید، داستان گوئی ،عملی تنقید کے نمونے میں ان سے بہت کچھ سیکھا گیا ہے۔ ان کی علمیت واضح ،منطق ذہن تجربہ کاری کا مرکز ہے۔ اسلوب دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔معروضیت ،بے لوث ،بے خوفی سب قابل تعریف ہے۔ان کی ہر کتاب مستقل قدر وقیمت رکھتی ہے۔(۱۳۸)

          جابر صاحب کی کلیم الدین احمد سے جذباتی وابستگی کی وجہ آئی۔ اے رچرڈز تھے(۱۳۹) اس لیے انھوں نے انھی کے طریقہ تنقید کو نہ صر ف اپنایا بلکہ اپنا بنا لیا اور عمر بھر نظری اور عملی طو ر پر اسی طریقہ تنقید سے کام لیتے رہے۔ جابر علی سید رچرڈز کے مداح بھی تھے۔ یہ مداحی ان کے اسلوبِ نگارش، عمدہ موضوعات کے حسنِ انتخاب اور ان کی جرات و بے باکی کی وجہ سے تھی۔

          جہاں تک کلیم الدین احمد کی خامیوں کا تعلق ہے جابر علی سید ان کی نشاندہی بڑی بے باکی سے کرتے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ کلیم الدین احمد کا طریقہ تنقید تعمیر ی ہونے کے بجائے تخریبی ہے۔ اور وہ اردو میں تنقید کے وجود ہی کو مفقود قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح اردو غزل میں محبوب کی کمر معدوم ہے اسی طرح تنقید بھی ہمارے ہاں معدوم ہے۔ اسی قسم کا نظریہ یا تو تجاہل عارفانہ کا نتیجہ ہے یا پھر ان کا بہاری پن کہ وہ صوبائی تعصب کے اس درجہ شکار ہو چکے تھے کہ انھیں اردو میں تنقید کا رجحان دکھائی ہی نہیں دیتا۔ جابر علی سید اس حوالے سے لکھتے ہیں :

نقادوں کے نقاد کلیم الدین احمد کے تخریبی اور انانیتی رجحان نے ان کی تنقیدی عظمت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ورنہ وہ صحیح معنوں میں بہترین نقاد ہوتے اور شاید عظیم بھی۔(۱۴۰)

          کلیم الدین احمد کی تنقید میں تضادات کا غلبہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مشرقی ادب کی روح سے بالکل نا آشنا معلوم ہوتے ہیں ۔ فصاحت و بلاغت اردو کی ایک عام اصطلاح ہے یعنی یہ کہ بلاغت متقضائے حال کے مطابق ہونا چاہیے لیکن جابر کے نزدیک کلیم الدین احمد نے متقضائے حال کے مفہوم کو کچھ اور طریقے سے سمجھ کر اس کی تشریح کی ہے۔ انھوں نے مختلف شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں معاندانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ کہیں تو وہ خود ہی ایک بات کو اچھا کہہ دیتے ہیں ۔پھر آگے چل کر اسی کی مذمت کر دیتے ہیں۔ مرثیے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اردو مرثیہ چند مخصوص واقعات مضامین تک محدود ہے اور اس میں وہ وسعت و ہما گیری موجود نہیں جو ہونی چاہیے۔ جابر علی سید لکھتے ہیں :

اگر بلاغت کا مفہوم یہ ہے کہ کلام متقضائے حال کے مطابق ہو تو میر انیس کا کلام بلکہ سارے مرثیے بلاغت سے معرا ثابت ہوں گے۔ مرثیوں میں اشخاص عربی میں مقام کربلا ہے لیکن اس اقتضائے حال کے مرثیے گو کے دل میں نہیں گزرتا۔ مرثیہ گو لکھنو کے غم اشاری کے رسوم عرب پر منطبق کرتے ہیں۔ وہ حضرت امام او ران کے اہلِ حرم کے اصل کریکٹر پر بھی پردہ ڈال دیتے ہیں۔(۱۴۱)

           جابر علی سید کا کہنا ہے کہ کلیم الدین احمد نے نہ صرف اردو غزل ،اردو مرثیہ وغیرہ اضاف ہی کو اپنی طنز کا حدف نہیں بنایا بلکہ جدید شاعروں ،نقادوں کو بھی خوف لتاڑا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ادب سے تو انھیں چڑ معلوم ہوتی ہے۔ اسی سبب سے انھوں نے عزیز احمد، احتشام حسین ، آل احمد سرور وغیرہ پر تنقید کرتے ہوئے انھیں سطحیت نگار کہا ہے۔ یہ سراسر نا انصافی ہے اور حقیقی طریقہ تنقید کے بالکل منافی ہے۔ کلیم الدین احمد دراصل تضاد کا شکار تھے اور اس لیے وہ کوشش کے باوجود دامن نہیں بچا سکے۔ انھوں نے انگریزی تنقید کا تو باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ کیا اور رچرڈ کے نظریات اور ان کے تنقیدی اصولوں سے استفادہ کیا مگر وہ رچرڈ اور دوسرے مغربی نقادوں سے ایسے متاثر ہوئے اورا ن کا ذہن و ادراک ان سے اس درجہ مسحور ہو اکہ انھیں اپنے اردو ادب میں کوئی اچھائی دکھائی نہ دی اور نہ ہی کوئی اور اردو نقاد ان کی نظروں میں جچا۔ جس طرح کلیم الدین نے اردو ناقدین کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اسی طرح اردو نقادوں نے بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان کی تنقید میں جو خوبیاں موجود تھیں ان کا کسی نے اعتراف کیا ۔جابر علی سید کلیم الدین احمد کے تنقیدی محاسن و معائب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :

کلیم الدین کو یا تو غزل دشمن سمجھ کر نفرت اور حقارت کا نشانہ بنایا گیا ہے یا تخریب کار، صوبہ پرست اور خویش پرست دیکھ کر ان کے خیالات اور تنقیدی افکار کا تجزیہ کرنے کی طرف بالکل توجہ نہیں کی گئی۔ حالانکہ جس طرح کلیم نے دوسرے نقادوں کے خیالات کا سخت جائزہ لیا ہے۔ ویسا ہی جائزہ نرم لفظوں میں ان کی تحریروں کا بھی لیا جانا چاہیے تھا۔ بے التفاتی ان کو ان کے مرتبے سے نہیں گراسکتی نہ وہ گرے ہیں۔ ان کی آخری کتاب عملی تنقید ان کے نظریہ تنقید کا عملی پیکر ہے اور دونوں کو ملا کر دیکھا جائے تو ایک سلجھے ہوئے باوقار، متین اور ذہین نقاد کی تصویر فوراً اُبھر آتی ہے۔ (۱۴۲)

          ۱۹۴۰ء میں میرا جی نے جدید شعرا کے کلام سے نظموں کا انتخاب کیا اور ادبی دنیا کے شماروں میں ان نظموں پر تجزیاتی محاکمہ کر کے انھیں ادبی دنیا میں شائع کیا۔ میر ا جی ،آزاد، جمالیاتی تنقید کے حامی اور قائل تھے۔ انھوں نے اس احساس کے تحت ان نظموں کا تنقیدی جائزہ لیا ۔ ان میں سے بعض نظمیں بہت واضح اور غیر مبہم تھیں اور کچھ نظمیں ایسی بھی تھیں جن میں ابہام کا پہلو نمایاں تھا۔ میرا جی نے اس ابہام کو اس خوبی اور عمدگی سے واضح کیا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ ان کی دور بین اور دوررس نگاہیں کہاں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جو باتیں قاری بڑی محنت اور کاوش کے بعد بھی نہیں سمجھ سکتا میرا جی کا یہ تجزیہ ان کے لیے ایک آئینے کا کام دیتا ہے۔ جس میں وہ نظم کی تمام پیچیدگیوں اور ایمائی تصورات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔اس انتخاب میں راشد، قیوم نظر، یوسف ظفر کی مبہم ترین نظمیں شامل ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ،جوش ملیح آبادی ،فیض احمد فیض ،فضل حسین کیف، شریف کنجاہی ،عبدالحمید عدم او ر شاد عارضی کی مبہم نظمیں شامل ہیں۔جابر علی سید میرا جی کے تجزیے کی غیر معمولی اور منفرد صلاحیت کے متعلق لکھتے ہیں :

غیر مبہم یا کم مبہم نظموں کے تجزیے میں میرا جی نے زیادہ سے زیادہ جمالیاتی اُصول تخلیق(شعری موسیقی ،ڈکشن نظام توانائی بحر وغیرہ) ملحوظ رکھا ہے لیکن بحیثیت مجموعی میرا جی کا تجزیہ جامع اور Mathodicalنہیں پھر اس کی حیثیت Critical Appricitionکی سی ہے۔(۱۴۳)

          میرا جی کی زیر نظر نظمیں کسی ایک جہت یا ایک صنف سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ آزاد،معریٰ، پابند ،مثنوی نما، ان میں رباعیاں بھی ہیں اور ایک ساقی نامہ بھی شامل ہے۔ میرا جی کو ’’ایک تمثیل‘‘ (مختار صدیقی) ،’’اتباہ‘‘(فیض)’’چند روز اور‘‘(فیض) نظمیں سب سے زیادہ پسند تھیں۔ ان سب پر میرا جی نے تجزیہ و تبصرہ کیا ہے ۔ میرا جی کے تجزیے کا انداز اور لہجہ آئی ۔اے رچرڈ کے مشابہ معلوم ہوتا ہے لیکن ان دونوں میں فرق بھی ہے ۔ جابر علی سید اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :

رچرڈ کسی نظم کا تجزیہ گمنام طور پر کئی طالب علموں سے کراتا تھا اور پھر ان مطالعوں کے تقابلی مطالعہ کی روشنی میں اپنے اصول تنقید کی عملی صورت کا جائزہ لیتا تھا۔ اس کے بر خلاف میرا جی نظموں کے شاعروں کے ناموں ہی سے واقف نہیں۔ان میں اکثر کو ذاتی طورپر بھی جانتا ہے لیکن اس کی غیر جانبداری کبھی شکست نہیں کھاتی۔(۱۴۴)

          جابر علی سید کا کہنا ہے کہ میرا جی شاعر بھی تھے اور ادیب بھی نقاد بھی تھے اور محقق بھی ۔ اگر وہ نظر یہ عملی تنقید کے سلسلے میں کوئی مستقل کتاب تصنیف کرتے تو ان کی تنقید کلیم الدین کی تنقید سے زیادہ بہتر، برتر اور وقعی ہوتی مگر ان کا ذہن زیادہ تر تجربے زوردیتا تھا اورا س طرح وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ آنے والے نقادوں اور شاعروں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ سید عابد علی عابد فارسی زبان و ادب کے جید عالم ،ایک نئی طرز اور نئے انداز کے نقاد اور ایک بہت بڑے شاعر اور معلم تھے۔ انھوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں بہت کچھ لکھا۔ جابر علی سیدان کے شاگر دتھے اور ان سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ جابر علی سید نے سید عابد علی عابد کی کتاب ’’اصولِ انتقاد ادبیات‘‘ کا تنقیدی جائزہ لینے کا کھٹن اور صبر آزما کام کر کے حق شاگردی ادا کیا۔ انھوں نے اس کتاب کے ایک ایک باب کا گہرا مطالعہ کیااس میں جوخوبیاں یا خامیاں تھیں ان کو پوری طرح اُجاگر کیا اور اس طریقے سے کتاب پر تنقید کی جوہر قسم رعایت، جانبداری اور عقیدت و محبت کے اثر سے مبرا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنا کام مکمل کر کے اسے مسودے کی شکل میں تیار کیا مگر عمر نے وفا نہ کی اور اسے زیور طباعت سے مزین کرانے کا ارمان دل ہی میں لے کر رخصت ہو گئے۔ جابر علی سید نے مستند حوالوں اور معتبر اقوال کے ذریعے سے اپنے تنقیدی موقف کو پیش کیا ہے اور اصولِ انتقاد ادبیات کی حقیقی قدرو قیمت متعین کر دی ہے اس طرح انھوں نے جہاں سید عابد علی عابد کی تنقیدی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وہاں انھوں نے اردو تنقید کو نئے رجحانا ت سے بھی روشناس کروایا ہے۔

          بحیثیت نقاد جابر علی سید کا مرتبہ اور مقام بہت بلند ہے۔ انھوں نے عام نقادوں کی طرح کسی ایک موضوع یا عنوان تک ہی خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی تنقید کے دائرے کو وسیع سے وسیع ترکرنے اور اسے بو قلموں اور متنوع بنانے کے لیے انھوں نے مختلف شخصیتوں اور نوع بہ نوع موضوعات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ جابر علی سید کی تنقید بنیادی طورپر جمالیاتی دبستانِ تنقید سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر ان کا جمالیاتی رویہ جمالیات کے عام نقادوں سے مختلف ہوتا ہے اور منفرد بھی اس طرح وہ اردو کے ایک مستند نقاد بن جاتے ہیں۔ اورا ن کی تنقید اردو کے ایوان تنقید کا ایک درخشندہ باب اور روشن مینار بن گئی ہے۔

          حفیظ صدیقی باقاعدہ نقاد تو نہیں ہیں لیکن شخصی مطالعات میں ان کے بعض مضامین تنقید ی نوعیت کے ہیں۔ تنقید ان کی وجہ شہرت نہیں ہے اور نہ ان کا شمار نظریہ ساز یا بڑے نقادو ں میں ہوتا ہے۔تاہم وہ شعر و ادب کے حوالے سے مختلف موضوعات پر اپنے مخصوص تنقیدی زاویہ نظر سے تحلیل و تجزیہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظری تنقید بالکل نہیں لکھی تاہم عملی اور اطلاقی تنقید کے حوالے سے ان کی کئی تحریریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ حفیظ صدیقی کے ۱۷ تنقیدی مضامین ’’تحریریں‘‘ لاہور کے صفحات کی زینت بنے ہیں۔ جب کہ۲’’سیارہ‘‘،لاہور ۱۳’’اقرا‘‘ لاہور،۳’’محفل‘‘ لاہور۱’’اردو نامہ‘‘لاہور اور ۱’’گلفشاں‘‘ لاہور میں چھپا ہے۔

          ان تنقیدی مضامین کی فہرست درج ذیل ہے:

۱۔       حسرت موہانی کے کردار کی سادگی کا تجزیہ(تحریریں ،لاہور ،ستمبر ۱۹۸۴ء)

۲۔       اقبال کی نظر میں فرد اور معاشرے کا تعلق(تحریریں،نومبر ۱۹۸۴ء)

۳۔       راسخ عرفان۔اخلاقی قدروں کا شاعر(تحریریں ،مئی ۱۹۸۵ء)

۴۔       آثم مرزا کی نعت گوئی(تحریریں ،نومبر ۱۹۸۹ء)

۵۔       حفیظ تائب کی نعت گوئی(تحریریں ،دسمبر ۱۹۸۹ء)

۶۔       اسلم صدیقی کی غزل (تحریریں، دسمبر ۱۹۸۹ء)

۷۔       اسلم چودھری کی ترجمہ نگاری(تحریریں،دسمبر ۱۹۸۹ء)

۸۔       طاہر شادانی کی رثائی شاعری(تحریریں،جنوری ۱۹۹۱ء)

۹۔       طاہر شادانی کی نعت نگاری (تحریریں ۔اگست ۱۹۹۷ء)

۱۰۔     جان کاشمیری کی غزل(تحریریں ،ستمبر ۱۹۹۲ء)

۱۱۔     خاکسارِ مدینہ ۔رفیع الدین ذکی قریشی(تحریریں، اکتوبر ۱۹۹۵ء)

۱۲۔     عارف عبدالمتین کی نعت نگاری(اگست ۱۹۹۷ء،تحریریں)

۱۳۔     بلقیس محمود کی زوال نا آشنا شاعری (دسمبر ۱۹۹۷ء،تحریریں)

۱۴۔     بلقیس محمود کی دوام آشنا شاعری(تحریریں ،اپریل ۱۹۹۹ء)

۱۵۔     اطہر صدیقی اورا س کی غزل(تحریریں ،دسمبر ۱۹۹۸ء)

۱۶۔     خواجہ اعجاز احمد بٹ ایک افسانہ نگار(ماہنامہ ’’محفل‘‘،لاہور، فروری ۱۹۶۸ء)

۱۷۔     محبتوں کا شاعر۔امجد اسلام امجد(اقراء ،لاہور،جنوری ۱۹۸۹ء)

۱۸۔     غالب کے غم کا نفسیاتی پہلو(’’گلفشاں‘‘ ،لاہور ،اپریل ۱۹۶۹ء)

۱۹۔     اردو شاعر ی میں نئے رجحانات(’’تحریریں‘‘، مئی ۱۹۷۳ء)

۲۰۔     انگریزی زبان و ادب پر ایک نظر(’’تحریریں ‘‘جنوری ۱۹۷۴ء)

۲۱۔     قدِ آدم(تحریریں،اکتوبر ۱۹۹۴ء)

۲۲۔     ماں کے حوالے سے بڑی شاعری کی واور مثال(تحریریں،مئی ۱۹۹۵ء)،کتابی تجربات(’’سیارہ‘‘،اگست ،لاہور، ۱۹۶۵ء)

۲۳۔     قطرے سے گہرہونے تک(’’سیارہ‘‘،فروری ۱۹۶۶ء)

۲۴۔     اردو غزل کی مختصر کہانی (’’محفل‘‘،مئی ۱۹۶۷ء)

۲۵۔     اردو شاعری میں نئے رجحانات(’’محفل‘‘،جنوری ۱۹۷۰ء)

۲۶۔     فروغِ اردو کے فوری تقاضے(اردو نامہ،لاہور،فروری ۱۹۸۹ء)

۲۷۔     ایک مطالعہ ۔فردیات کا (اقراء،لاہور ،۱۹۸۹ء)

          سلیم واحد سلیم ایک شاعر، نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محقق اور نقاد بھی ہیں۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تحریریں اردو ادب میں ایک سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے بہت سے تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھے جو نایاب ہیں ۔راقم الحروف نے اپنی کوشش سے کچھ مضامین اور تحریریں دریافت کی ہیں۔

          ’’ایک غزل کئی شاعر‘‘ سلیم واحد سلیم کا ایک تحقیق و تنقیدی مضمون ہے اس میں انھوں نے ایک ایسی غزل کے بارے میں تحقیق و تنقید کی ہے کہ جو کئی شعرا کا کلام بتائی جاتی ہے۔ یعنی اس غزل کا انتساب ایک تو شیخ محمد علی حزیں لاہبی کی طرف ہے ۔دوسرے قرۃ العین طاہرہ کی طرف ہے۔ کہیں یہ غزل طاہر اے کاشی کے نام ہے۔ کہیں یہ طاہر کاشافی کی غزل مانی گئی ہے۔ کسی نے اسے طاہرہ اصفہانی کے نام سے منسوب کیا ہے۔ کسی جگہ یہ میرزا طاہر وحید فزوینی کی غزل کہی گئی ہے۔ مصنف نے بڑی محنت اور کاوش کے بعد اس غزل پر تحقیق کی ہے جس کا مطلع یہ ہے :

گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ روبرو

شرح وہم غم تو رانکتہ بہ نکتہ موبہ مو(۱۴۵)

          جس غزل کا یہ مطلع ہے وہ شیخ محمد علی حزیں لاہبی کے کلیات میں موجو دہے اور مندرجہ ذیل مقطع بھی رقم ہے:

مہر تو را دلِ حزیں یافتہ برقاشِ جان

رشتہ بہ رشتہ تخ بہ تخ تار بہ تار پو بہ پو (۱۴۶)

          لیکن عجیب اتفاق ہے کہ علی محمد باب کی پیروکار زرین تاج قزوینی یعنی قرۃ العین طاہرہ اسے مجمع عام میں پڑھتی تھیں کہ لوگ یہ پوری غزل اس کے نام ماننے پر مجبور ہو گئے ۔غزل کا اصل مقطع یوں ہے:

دردِ دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز وفا

صفحہ بہ صفحہ سر بہ سر پردہ بہ پردہ تو بہ تو (۱۴۷)

          اور اس غلط فہمی میں کہ یہ غزل قرۃ العین طاہرہ کی ہے۔ خود حکیم الامت علامہ اقبال بھی گرفتار تھے۔ ایک تالیف میں یہی غزل طاہر اے کاشی کے نام سے تحریر ہے۔ لیکن آقائے مکی کے بقول یہ غزل ہندوستان کے شاعرشاہ طاہر دکنی یعنی طاہر کاشانی کی ہے۔ ا س غزل کی زبان اور انداز بیان طاہر شاہ دکنی کے طرز کلام سے بہت ہی قریب ہے۔ مجموعہ گلزار ادب میں یہ غزل فتح علی شاہ کے دورکی شاعرہ طاہرہ کے نام موسوم ہے لیکن سلیم واحد سلیم کی تحقیق و تنقید نے تاریخ کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ غزل مخمس کی شکل میں میرزا طاہر وحید قزوینی کی ہے جو شاہ عباس ثانی سے سلطان حسین کی حکومتوں کے دور کا شاعر تھا۔

          زمان و مکان کی قیود کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قومی احتمال ہے کہ اس غزل کا تخلیق کار طاہر اے کاشانی ہے یا طاہر شاہ دکنی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ غزل نہ تو حزیں لاہبی کی ہے اور نہ ہی قرۃ العین طاہرہ کی ہے۔ (۱۴۸)سلیم واحد سلیم چونکہ خود فارسی کے بہت اچھے اور پر مغز شاعر تھے لہٰذا ان کی نگاہ اپنے سابقین اور معاصرین کے کلام پر خاصی دقیق تھی۔ چونکہ مذکورہ غزل پورے ایران میں نغمے اور ترانے کے طورپر لوگوں کو ازبر تھی اور ہر آدمی اسے قرۃ العین طاہرہ کی تخلیق مانتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے موصوف کو جستجو ہوئی کہ معلوم کیا جائے کہ آخر اس غزل کا خالق کون ہے ۔ چونکہ قرۃ العین طاہرہ کی شاعری اتنی مترنم اور پر مغز نہیں لہذا موصوف کو فارسی شاعر اور ادب کو کھنگالنا پڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گوہر مراد ہاتھ آیا اور غزل کے حقیقی خالق کے قریب ترین قاری پہنچ گیا۔ جب کہ قراۃ العین طاہرہ کے نام یہ بہتان اور الزام اس مضمون نے تقریباً ختم کر دیا ہے۔

          سلیم واحد سلیم بنیادی طورپر نہ محقق ہیں اور نہ ہی نقاد لیکن ان کا مذکورہ بالا مضمون اور دوسرا مضمون ’’اقبال کی فارسی شاعری اور اہلِ ایران‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف کا ذہن شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید جیسے مشکل اور خشک اصناف سے دلچسپی رکھتا ہے۔ سلیم واحد سلیم اپنے مضمون ’’اقبال کی فارسی شاعری اور اہلِ ایران‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

یہ مضمون لکھنے کی تحریک دراصل ایران کے ایک مشہور عالم پروفیسر آغا لباس شوستری کی تقریر سے ہوئی کہ ایران میں چند اہلِ علم ایرانیوں کے علاوہ کوئی شخص اقبال کے نام اور اقبال کی شاعرانہ عظمت سے آگاہ نہیں ہے۔(۱۴۹)

          اورپھر ایک اخباری نمائندے نے جو علی اصغر حکمت سابق وزیر معارف کے وفد کا فرد تھا اپنے ایک بیان میں کہا:

ٹیگور ایک آفاقی شاعر ہے۔ اورا س کی شاعری بنی نوع انسان کویکساں طورپر اپیل کرتی ہے ۔اس لیے اہلِ ایران ٹیگور کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اقبال کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ ایک مقامی شاعر ہے۔(۱۵۰)

          سلیم واحد سلیم نے جب اس حقیقت کی کھوج لگانے کا بیڑا اٹھایا تو ان پر یہ بات منکشف ہوئی کہ اقبال کی اہلِ ایران میں عدم مقبولیت اور شہر ت کے فقدان کے اسباب و علل اور محرکات میں سب سے پہلے ان کی فارسی زبان ہے۔ جس میں کلاسیکیت پائی جاتی ہے۔ اور اقبال کی فارسی قدیم فارسی ہونے کے ساتھ ساتھ ہندی فارسی ہے جو مروجہ ایرانی زبان سے بہت حدتک مختلف ہے۔

          مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ چونکہ ایران کی فارسی اور ہندوستان کی فارسی کا رابطہ ختم ہو گیا تھا اور ادباو شعرا کا تعلق بھی ٹوٹ گیا۔ اس لیے ہندوستان کے شعرا نے فارسی میں جو کچھ لکھا ان معنوں میں لکھا جو یا تو فارسی الفاظ کے وہ معنی تھے جو اردو میں رواج پا چکے تھے یا قدیم الفاظ اور متروک محاورے جن کی جگہ ایران میں نئے لفظ اور نئے محاورے آچکے تھے اور ہندوستانی شاعر اس سے واقف نہ تھے۔ جس کے باعث ہندی فارسی ایرانی فارسی سے بہت مختلف صورت اختیار کر گئی ۔یہی ہندی فارسی اقبال نے استعمال کی جو اہلِ ایران کے لیے غیر مانوس ہے ۔ مصنف نے اپنی بات کی تائید میں ’’اقبال نامہ‘‘ ص۲۱۵ کا حوالہ دے کر خود علامہ اقبال کی زبان سے اپنی فارسی کو ہندی فارسی تسلیم کرنا تحریر کیا گیا ہے جو درج ذیل ہے:

باقی رہے ،منظومات ،سو یہ ہندی فارسی ہے ایک ایرانی کو کیا پسند آئے گی۔ میرے مد نظر حقائق علمی و ملی ہیں ۔زبان میرے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ بلکہ فن وفکر سے بھی بحیثیت مجموعی نا بلد ہوں ۔ اگر ان خیالات کو کوئی ان کی مروجہ زبان میں لکھ دے تو شاید ان لوگوں کے لیے مفید ہو ۔ بہرحال جو کچھ شائع ہو چکا ہے حاضر کر دیا جائے گا۔(۱۵۱)

          دوسری وجہ جو موصوف نے اپنے اس مضمون میں بیان کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اہلِ ایران زبان کے معاملے میں انتہائی متعصب ہیں ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ سینکڑوں فارسی گو شعرا اور ادبا میں سے اہلِ ایران نے صرف خسرور اور فیضی کو ایرانی ادبا اور شعرا کے زمرے میں شامل کیا ہے۔جبکہ بیدل،قتیل ،غنی کاشمیری ،غالب اور گرامی کی غزلیات بلند پایہ ہونے کے باوجود ایرانیوں نے ان شعرا کو کبھی قادر الکلام تسلیم نہیں کیا۔

          تیسری بات معانی و مطالب کے اظہار، زبان کی حلاوت اور محاورہ بندی جو اہلِ زبان کو نصیب ہے وہ غیر اہلِ زبان کو نصیب نہیں ہو سکتی۔ اظہار مطالب میں اہل زبان کا سا لطیف اور موثر پیرایہ اختیار کرنا بسا اوقات مشکل ہو جاتاہے اور یہی دقت اہل زبان نہ ہونے کی وجہ سے اقبال کو بھی پیش آئی۔اقبال چونکہ اہلِ زبان نہیں تھے اس لیے ایرانیوں کی سی زبان استعمال نہ کر سکے اور ایرانیوں کے لسانی تعصب کی موجودگی میں ان کا ایرانیوں کی سی زبان استعمال نہ کر سکنا بہت حد تک ان کی غیر مقبولیت کا باعث بنا۔

          چوتھی وجہ یہ تھی کہ اقبالPan-Islamismکے داعی تھے اور عالمگیر اسلامی اخوت اور برادری کا پیغام دیتے تھے۔ اقبال کا بیشتر کلام اسی پیغام پر مشتمل ہے۔ جبکہ اہلِ ایران وطن پرست ہونے کے بعد مسلمان تھے۔ اس لیے دونوں نظریات آپس میں متصادم ہوئے کہ اقبال کے نزدیک:

وطن مذہب کا کفن ہے اور وطن پرست مذہب کی روح کو فنا کرنے والے ہیں- عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت علامہ اقبال عالمگیر اسلامی برادری کا پیغام دے رہے تھے اس وقت ایران میں وطنیت اور جمہوریت کے جذبات نہایت شدت سے اُبھر رہے تھے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد سے وطن پرستی کا جذبہ جنوں کی حد تک ہو چکا تھا۔ایرانیوں میں وطن پرستی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ سعدی حافظ،رومی کی شہرت اور مقبولیت کم ہوتی چلی گئی ۔قدیم شعرا میں سے فردوسی کا مقام بلند تر ہوتا چلا گیا۔ ایرانیوں نے فردوسی کو قومی شاعراور قومی ہیرو کے نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔ اس کے حبِ وطن سے معمور نغمے ایرانیوں کے دلوں کو گرماتے ہیں۔(۱۵۲)

          پانچویں وجہ یہ ہے کہ اقبال اولاً مذہب پرست اور ثانیاً کچھ اور ہیں ۔گویاا قبال اپنی فکر کا چشمہ مذہب کو قرار دیتے ہیں اور مذہب کے پانی سے انسانیت کی کھیتی کو سیراب کرنا چاہتے ہیں ۔جب کہ اہل ایران وطنیت کے برگ کے سامنے پروان چڑھ کر مذہب کی خوشبو سونگھنا چاہتے ہیں۔

          چھٹا سبب کہ جس کے باعث علامہ اقبال ایران میں مقبولیت عام حاصل نہ کر سکے یہ ہے کہ وہ ظلم و استبداد اور مطلق العنانی یلغاروں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کے شعرا مشروطیت کے لیے جہد مسلسل میں مصروف ہو کر اپنی شاعری میں انقلاب روس سے متاثر باغیانہ فکر کو اشعار کے ذریعے عوام کے دلوں میں جا گزیں کرتے ہیں ۔گویا ایرانی باغی فکر کو اپنا کر پہلے اپنے وطن کی بقا چاہتے ہیں پھر کچھ اور اِقبال مذہب کے پرچار میں وطنیت وغیرہ کی نفی کرتے ہیں۔تو یہ دوری بھی اقبال شناسی کے راستے میں حائل رہی۔ مندرجہ بالا اسباب کے علاوہ اقبال شناسی میں ایرانی قوم کا مزاج بھی سد راہ رہا ہے۔ اقبال اسلام کو ایک ایسا عالمگیر اور لاثانی سیاسی اور اقتصادی نظام قرار دیتا ہے کہ جس کے ذریعے تمام عالم انسانی کے مصائب دور ہو سکتے ہیں۔ جب کہ ایران میں شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جو اسلام کو ایک عالمگیر سیاسی اور اقتصادی نظام کی حیثیت سے دیکھتا ہو۔ایک بات اور جو اقبال اور ایرانیوں کے درمیان حائل رہی وہ یہ ہے کہ ایرانی جمہوریت اور عوامی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ایرانی شعراجمہوریت کے حق میں شاعر ی کر رہے ہیں۔ جب اقبال جمہوریت کے خلاف نبرد آزما ہیں یعنی اقبال کے نزدیک جمہوری نمائندے گدھے ہیں اگر دو سو گدھے ایک جگہ جمع ہو جائیں تو انسانی تفکر پیدا نہیں کر سکتے۔ ایک پختہ کار انسان دو سو جمہوری گدھوں پر فوقیت رکھتا ہے۔

          جب کہ ایران کے ایک انقلابی شاعر عارف قزوینی کہتے ہیں کہ ایران کو کشور جمشید کے نام سے مت پکارو ۔جمشید کیا چیز ہے اور اس کی حیـثیت کیا ہے ۔ہمارے ملک کو کیان کے نام سے مت پکار و اب جمہوریت کا پرچم لہراتا ہوا ہمارے قریب پہنچ رہا ہے۔ اس کے سائے میں قومی زندگی مبارک ہو ۔(۱۵۳)

          ایرانی عوام عارف قزوینی کی صدائے انقلاب کے ہم نوا ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اقبال کے خیال غلام پختہ کاری کے پرستاربن جائیں ۔ ان وجوہات کے علاوہ آخری انتہائی اہم سبب یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک سر چشمہ علم و ادب اور تہذیب عربستان ہے۔ اقبال اپنے کلام میں بہت واضح طورپر یہ کہتا ہے کہ عرب انسانیت، مساوات اور اخوت کا پیغام پہنچانے والے اور نور ہدایت پھیلانے والے ہیں۔ اقبال کے نزدیک محمد بن قاسم ایک قومی ہیرو ہے۔ سعد بن ابی وقاص عظیم انسان ہیں جبکہ ایرانی سوچ اس سے بالکل مختلف ہے ۔ایرانی کے نزدیک عرب مسلمان مجاہد نہیں بلکہ حملہ آور ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ عربوں نے ایران پر حملہ کر کے علم و ادب اور تہذیب کے چراغ کو بجھا دیا جو صدیوں سے اپنا نور پھیلا رہا تھا۔ ایک ایرانی عرب مسلمانوں کی فتوحات پر فخر نہیں کرتا۔برصغیر اور ایرانی مسلمانوں کے قومی مزاج میں اسی قدر شدید بنیادی اختلاف ہے کہ اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جب ایسا ہے تو اس بنیادی اختلاف کی موجودگی میں اقبال کا یہ نعرہ نا ممکن ہے کہ کوئی خوشگوار اثر پیدا کر سکے۔

تمدن آفریں ، خلاقِ آئینِ جہانداری

وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا

          گویا جو اقبال کے نزدیک آئین جہاں داری کے خالق اور تہذیب و تمدن کے پھیلانے والے ہیں۔ وہی ایرانیوں کی نظر میں غاصب ہیں اور یہ جذبات آج کی پیداوار نہیں بلکہ صدیوں سے ایرانیوں کے دلوں میں جا گزیں ہیں اور شاید ہمیشہ جا گزیں رہیں۔ ان تمام اختلافات کو صاحبِ مضمون نے اتنی چابکدستی ،سادگی اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ جب یہ مضمون لکھا گیا تھا اس سے بہتر تجزیہ کرنا ممکن نہ تھا۔ سلیم واحد سلیم نے اپنے اس مضمون کو آقائے سید محمد علی داعی الاسلام کے مضمون’’اقبال و شعر فارسی‘‘ کے ایک اقتباس پر ختم کیا ہے جو درج ذیل ہے:

ڈاکٹر اقبال نے اتحاد اسلام کا خیال اسی وقت کیا ہے جبکہ تمام مسلمان ا س سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ وہ خود یورپ جانے سے پہلے اور لوٹنے کے بعد بھی وطن پرست تھے۔ ان کے اردو اشعار اسی وطن پرستی کے گواہ ہیں۔(۱۵۴)

          جس فنکارانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے سلیم واحد سلیم نے علامہ اقبال اور اہلِ ایران کے نظریات ،تفکرات پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان اسباب کی نشاندہی کی ہے کہ جن کے باعث اقبال ایران میں مقبول نہ ہو سکے۔ صفحہ قرطاس کو زینت بخشی ہے وہ کچھ ان ہی کا حصہ ہے کہ مضمون تحقیق و تنقید کا ایک خوبصورت مرقع بن گیا ہے ۔فنی اعتبار سے یہ مضمون عوامی ذہن سے بلند ہے لیکن جن اسباب کو بیان کیا ہے وہ عام فہم ہیں اور ذہن میں اپنا مقام حاصل کرنے کی زود اثر صلاحیت رکھتے ہیں۔زبان کی سادگی ،سلاست اور روانی اس مضمون کا طرۂ امتیاز ہے۔ طاہر شادانی ایک شاعر کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین کے خالق بھی ہیں۔ ان کے زیادہ تر مضامین شخصی نوعیت کے ہیں جو انھوں نے مختلف شخصیات سے متاثر ہو کر لکھے ۔کچھ ادبی نوعیت کے ہیں اور ایسے مضامین بھی ہیں جن میں کسی فن پارے کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔

          چند عالمی ادبی مشاہیر ،ولیم ورڈزورتھ۔ایک عظیم فطرت نگار ،جگن ناتھ آزاد، علامہ اقبال کی منظر نگاری ،اقبالیات اسد ملتانی ،پروفیسر حمید احمد خان، تلوک چند محروم کی حزینہ شاعری اور حفیظ صدیقی طاہر شادانی کے اہم تنقیدی مضامین ہیں۔ طاہر شادانی نے مختلف ادبی کتابوں پر تبصرے بھی لکھے ہیں۔ چند تبصر ے تو مضامین کی شکل میں ہیں۔پروفیسرجعفر بلوچ کی مرتبہ کتاب ’’مطلعین‘‘ اور شیخ منظور الہی کی کتاب ’’بیرنگ اندلس ‘‘ کے تبصرے اہم تبصروں میں شامل ہیں۔ ان تبصروں کو پڑھ کر قاری کتاب سے واقف ہو جاتا ہے۔ شادانی ان کتابوں کی نوعیت اورا ن کے مصنفین سے متعارف کرانے کے بعد کتاب کے اسلوب پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ کتاب کے اسلوب اور موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بعض اوقات وہ اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ یہ تحریر تبصرے کے دائرے سے نکل کر تنقید ی مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور قاری بھی شادانی کے ساتھ ساتھ اس پوری کتاب کی ورق گردانی کر بیٹھتا ہے۔ شادانی کتاب کا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ قاری کے ذہن میں کتاب کا نقشہ اُبھر آتا ہے۔ مطلعین کا تعارف اس طرح کراتے ہیں:

یہ کتابچہ ظاہری حسن سے تو محروم نظر آتا ہے مگر معنوی حسن سے آراستہ و پیراستہ ہے یعنی آسمانِ شعر و ادب کے دو درخشندہ ستاروں راجہ عبداﷲ نیاز اور حضرت اسد ملتانی کے حالاتِ زندگی اور کلام پر مشتمل ہے۔(۱۵۵)

          شادانی نے جعفر بلوچ کی مرتب کردہ کتاب ’’مطلعین ‘‘ پر تبصرے میں تنقیدی بصیرت کا ثبوت بھی دیا ہے اور اس کتاب میں شامل اسد ملتانی کی چند نظموں کا نہ صرف تجزیہ کیا ہے بلکہ مشمولہ نظموں کے اقتباسات بھی پیش کیے ہیں۔ شادانی ان نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اسد ملتانی کی جو نظمیں اس مجموعے میں نظر افروز ہوئیں ان کے عنوانات سے بھی مماثلاتِ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے۔ مثلاً شبنم کا قطرہ، محفل عشق،بے جان زندگی ،مشرق و مغرب،مثردہ بقااور مآل تہذیب وغیرہ سے نہ صرف اقبال کا اسلوب مترشح ہے بلکہ ان منظومات میں علامہ اقبال کے افکار کی صدائے بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔(۱۵۶)

          شادانی ’’نیرنگِ اندلس‘‘ کا تعارف مختصر مگر جامع الفاظ میں اس طرح کراتے ہیں:

اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد اورا نتہائی فکر انگیز مسلم ہسپانیہ کے حیرت انگیز عروج اور حیرت ناک زوال کی عبرت انگیز داستان ہے۔(۱۵۷)

          اس تبصرے میں بھی شادانی نے مصنف کے اسلوب پر بحث کی ہے اور اس کتاب کے تمام ابواب کی تفصیل بھی بیان کی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے ہیں لکھتے ہیں :

میرا یقین ہے کہ اگر مولف کتاب اور علامہ اقبال کو خود ہسپانیہ جانے اور اپنی عظمت رفتہ کے باقی ماندہ آثار کو چشمِ خود دیکھنے کا موقع نہ ملتا تو مسجد قرطبہ جیسی لا زوال نظم وجود میں نہ آتی اور نہ اہلِ دل کو نیرنگ اندلس جیسی لا جواب کتاب پڑھنے کو ملتی۔(۱۵۸)

          ’’چند عالمی ادبی مشاہیر‘‘ مضمون میں شادانی نے عالمی ادبی مشاہیر کی حیات اور فن پر مختصر سی روشنی ڈالی ہے۔ ان مشاہیر میں ٹالسٹائی ،جارج برنارڈ شاہ، ولیم شیکسپئر بچوں کی اخلاقی تربیت کو مدِ نظر رکھ کر لکھا ہو گا۔ شادانی نے جن عالمی ادبی مشاہیر کا انتخاب کیا وہ بھی قابلِ تعریف ہیں۔ ولیم شیکسپیئر کا انتخاب اس لیے کیا کہ علامہ اقبال نے اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور اقبال نے اس کی عظمت کے اعتراف میں جو شعر کہے تھے شادانی نے وہ شعر بھی نقل کیے۔

          گوئٹے عالمی شہرت یافتہ جرمن شاعر تھا۔ شادانی اس کے بارے میں لکھتے ہیں :

اس کا(گوئٹے کا) مغربی دیوان اس کی متعدد غنائی نظموں کا مجموعہ ہے۔اس نے یہ دیوان ایرانی شعرا خصوصاً حافظ کے کلام سے متاثر ہو کر لکھا۔ علامہ اقبال کا مشہور فارسی کا مجموعہ کلام پیامِ مشرق اسی کے جواب میں ہے۔(۱۵۹)

          اس کے بعدشادانی نے گوئٹے اور حافظ کے فن اور ان کے فن کی مماثلت کے بارے میں مختصراً بتایا ہے۔ جس سے ان مشاہیر کے بارے میں معلومات بھی ملتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے ٹالسٹائی اور جارج برنارڈ شاہ کے بارے میں معلومات دی ہیں ا ور ان دونوں کے نظریات بھی ہم تک پہنچائے ہیں۔وہ لکھتے ہیں :

ٹالسٹائی نے ادب میں اخلاقی قدروں کی ترجمانی کی ہے۔ وہ دوسروں سے محبت اور نیکی کا درس دیتا ہے۔ (۱۶۰)

          ’’ولیم ورڈزورتھ……ایک عظیم فطرت نگار شاعر‘‘ مضمون میں شادانی نے انگریزی شاعر ورڈزورتھ کی فطرت نگاری کو موضوع بنایا ہے۔ ابتدا میں طاہر شادانی نے اردو میں نیچرل شاعری کے بانیوں حالی اور آزاد کا ذکر کیا ہے کہ انھیں کی بدولت اردو ادب کو مغربی ادب کے اثرات اپنے اندر جذب کرنے کا موقع ملا۔ شادانی عبدالقادر سروری کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جدید اردو شاعری کے آغاز میں ورڈزورتھ کی شاعری کا بہت ہاتھ ہے۔ شادانی نے ورڈزورتھ کی پیدائش ،تعلیمی مدارج بیان کرنے کے بعد اس کی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔ اور ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے :

ورڈزورتھ کی شاعری اورا س کے شخصی تجربات میں چولی دامن کا ساتعلق ہے۔وہ گھریلو ماحول میں جس محبت سے محروم رہا تھا وہ محبت اسے فطرت کی آغوش میں مل گئی۔ محبوبہ فطرت کے حسن و جمال نے اس کی ذہنی نشوونما اور ذوق و وجدان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔(۱۶۱)

          اس مضمون سے ہمیں ورڈزورتھ کی حیات کے بارے میں بھی بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ اسے اگر ورڈزورتھ کی زندگی کا مختصر مگر جامع خاکہ بھی کہیں تو بے جانہ ہو گا۔’’جگن ناتھ آزاد‘‘ مضمون میں شادانی نے جگن ناتھ آزاد کی شخصیت اور فن کے بارے میں لکھا ہے ۔اس مضمون پر قلم اٹھانے کے ہمیں دو اسباب نظر آتے ہیں۔ایک تو یہ آزاد کے والد تلوک چند محروم سے شادانی کے گہرے تعلقات رہے اور خط و کتابت بھی رہی اس تعلق کا ذکر خود شادانی نے بھی اس مضمون میں کیا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ غیر مسلم ہونے کے باوجود آزاد میں جو بے تعصبی ،وسیع المشربی اور انسان دوستی ہے ۔شادانی اس کے بہت قائل تھے۔

          شادانی ان کی شاعری اور شخصیت کے اہم پہلو انسان دوستی اور مذہبی رواداری کے بارے میں لکھتے ہیں :

آزاد بنیادی انسانی قدروں کے علمبردار ہیں۔ ان کا آئینے جیسا شفاف دل ہر قسم کے مذہبی ،سیاسی اور گروہی تعصبات کے گردو غبار سے پاک ہے ۔وہ انسانیت کے ترجمان اور محبت اس کی عالمگیر ،اس کا غم ،غمِ انسان کی زندہ تفسیر ہیں ۔ محبت ہی ان کا مذہب ،محبت ہی ان کا دین دھرم ہے۔ ہر طبقے اور ہر مسلک کے انسان سے محبت ……مختلف مذاہب کے پیشواؤں سے محبت ہی ان کا مسلک ہے۔(۱۶۲)

          شادانی کے بعض مضامین ایسے بھی ہیں جن میں مختلف ادبی فن پاروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔انھیں میں ایک مضمون ’’یہ ہیں کارنامے رسول خدا کے‘‘ کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ اس شعری مجموعے کے خالق راجا عبداﷲ نیاز ہیں۔ شادانی نے اس مجموعے کا ہر پہلو سے تجزیہ کیا ہے ۔جس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔شادانی نے اس شعری مجموعے کی فنی خصوصیات بھی ہمارے سامنے رکھ دی ہیں کہ یہ شعری تخلیق ’’مسدس حالی‘‘ کی بحر میں ہے۔ اس مجموعے میں ان الفاظ کی مرصع کاری ،زبان کی فصاحت اور حسن تراکیب جیسی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ شادانی شاعر کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس شعری مجموعے کے اسلوب پر جہا ں مولانا حالی اور مولانا ظفر علی خان کی چھاپ نمایاں ہے۔ وہاں موضوعات کے اعتبار سے شاہنامہ اسلام کی جھلکیاں بھی جا بجا نظر آتی ہیں۔(۱۶۳)

          شادانی نے اس مجموعے کی مختلف نظموں کے حوالے سے اس کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے واقعات جو راجا عبداﷲ نیاز نے منظوم کیے ہیں۔ان کا فکری اور فنی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔

          شادانی کو علامہ اقبال سے جو خاص عقیدت اور لگاؤ تھا وہ ان کی شاعری میں بھی عیاں ہے ۔وہ اقبال سے حد درجہ متاثر تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں جگہ جگہ اقبالی خیالات و موضوعات کی چھاپ ملتی ہے۔ علامہ اقبال کی منظر نگاری اپنے مضمون میں شادانی نے علامہ اقبال کی شاعری کے ایک پہلو یعنی منظر نگاری کے بارے میں تفصیلاً لکھا ہے۔ اس مضمون میں اقبال کے فکری پہلوؤں پر زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ جبکہ اقبال کی شاعری کے فنی پہلوؤں کی طرف توجہ کم دی گئی ہے۔ اس میں شادانی نے اقبال کی شاعری میں منظر نگاری کی ابتدا اور منزل بہ منزل ارتقا پر روشنی ڈالی ہے۔ اس مضمون میں اقبال کی مظاہر فطرت پر مبنی نظموں کے حوالے دیے گئے ہیں اور اقبال کی فطرت نگاری کی داد دی گئی ہے۔ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں :

بانگِ درا،بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں منظر نگاری کے ایسے کتنے ہی بیش بہا خزانے موجود ہیں جنھیں پڑھ کر وجدان جھوم جھوم اٹھتا ہے اور جمال زیبائی رنگ و نور کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔(۱۶۴)

          ’’شخصی حکومتوں میں سعدی کا مصلحانہ کردار ‘‘ مضمون میں شادانی نے شیخ سعدی کی شاعری اور شخصیت کے اس اہم پہلو کو موضوع بنایا ہے جس پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہے ۔ شیخ سعدی کی اخلاقی تعلیمات کی مثال تو پورے عالمی ادب میں نہیں ملتی۔ ان کی اخلاقی شاعری سے ہر قوم اور ہر طبقے کے افراد ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مضمون میں شادانی نے سعدی کی تصانیف گلستان اور بوستان کی روشنی میں شخصی حکومتوں میں سعدی کے بے لوث اور جرات مندانہ اصلاحی کردار کا جائزہ پیش کیا ہے۔ شادانی لکھتے ہیں :

اگر غور سے دیکھا جائے تو سعدی کو دعوت وار شاد اور تربیت اخلاق کی اس مسند پر بٹھانے میں اس دور کے سیاسی حالات کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ جنھوں نے اسے ایک غزل گو شاعر کی سطح سے اٹھا کر ایک مصلح کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا۔(۱۶۵)

          شادانی نے اپنے مضمون ’’اقبالیات اسد ملتانی‘‘ میں اسد ملتانی کے اسلوب ،ان کے کلام میں فکر اقبال کی جھلک کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اپنے تنقید ی مضمون’’تلوک چند محروم کی حزینہ شاعری‘‘ میں شادانی نے بڑے بلیغ اندا زمیں تلوک چند محروم کی حزینہ شاعری کے بارے میں لکھا ہے ۔ انھوں نے اپنے مضمون میں پہلے غم کی کیفیت بیان کی ہے اور اردو میں غم پسند شاعروں کا ذکر کیا ہے اس کے بعد انھوں نے تلوک چند محروم کی حزینہ شاعری اور اس کے محرکات و عوامل لکھے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

جب وہ محروم کی حزینہ شاعری کے محرکات و عوامل کا تجزیہ کرتے ہیں تو دو چیزیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو قسام ازل کی طرف سے محروم کو درد کی دولت بے بہا فراوانی سے عطا ہوئی۔ دوسرے انھیں زندگی بھر جن حوادث سے واسطہ رہا وہ بھی بے حد حوصلہ فرسا اور ہمت شکن تھے۔(۱۶۶)

          شادانی نے تلوک چند محروم کی مختلف نظموں کے حوالے سے ان کے غم کی مختلف کیفیات بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ محروم کی لا ثانی نظموں میں بھی جو انھوں نے مختلف معاصر شعرا کی وفات پر لکھیں، حوالے دیے ہیں اور لکھا ہے کہ محروم نے ان مرثیوں میں کتنے گہرے غم کا اظہار کیا ہے ۔ شادانی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ غم محروم کی شاعری میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتا ہے اور زندگی کے المناک پہلوؤں کو منظوم کرنے میں محروم کو اردو شاعری میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔

           تاب اسلم باقاعدہ نقاد تو نہیں ہیں لیکن ان کے تنقید ی مضامین سے واضح ہوتا ہے کہ وہ گہری تنقید ی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیالکوٹ سے ان کے دو ادبی مجلے ’’ید بیضا‘‘ اور ’’انتخاب‘‘ شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان رسالوں میں کئی ادبی کتابوں ، رسالوں اور ادبی شخصیات کو بھی تاب اسلم متعارف کرواتے رہے ہیں۔ تاب اسلم ان ادبی رسالوں کا اداریہ خود تحریر کرتے تھے۔ ان اداریوں میں تاب کی تنقیدی کاوش کو پرکھا جا سکتا ہے۔

          تاب اسلم نے مختلف شاعروں اور افسانہ نگاروں کی کتابوں پر تنقیدی دیباچے، تبصرے اور فلیپ بھی لکھے ہیں۔ معروف افسانہ نگار آثم مرزا کے ’’پیار بیوپار‘‘ کے دیباچے میں اس کتاب کے حوالے سے اپنی تنقیدی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں :

’’پیار بیوپار‘‘ آثم مرزا کا پہلا ناول ہے جو موضوع اور مواد کے اعتبار سے ایک اچھوتا اور منفرد ناول ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے ایک بھیانک لیکن توجہ طلب پہلو کے بارے میں ہے۔ جس پر قلم اٹھانا از بس ضروری تھا۔ ان دنوں جو ہمارے ہاں بے جوڑ شادیاں ہو رہی ہیں ان کے مہلک اثرات،امارت اور غربت کا کھچاؤ ،محبت اور ہوس کی کشا کش ،مصلحت پرست والدین جسم اور روح کے درمیان پھیلا ہوا خلا اور خوشیوں کے سمن پوش کنجوں میں غموں کے مہیب جھکڑ یہ سب کچھ اس ناول کی اساس ہے۔ اس ناول کے کردار جیتے جاگتے اور اس دھرتی کے رہنے والے ہیں۔ جہاں ہم سب صدیوں سے سانس لے رہے ہیں۔(۱۶۷)

          یوسف نیر شاعر ی کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعور بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایم فل اردو کا مقالہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اثر لکھا جس میں’’ حکیم عبدالنبی شجر طہرانی کی شخصیت اور شاعری‘‘ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ یہ ایک تحقیقی و تنقیدی مقالہ ہے۔ جس میں یوسف نیر کو ایک نقاد کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ نے تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید پر بھی اپنی خدمات صرف کی ہیں کیونکہ جہاں تحقیق ہو گی وہاں تنقید بھی ہوگی۔

          یوسف نیر نے تنقید نگاری کا آغاز اس وقت کیا جب وہ لیکچر ار منتخب ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ صرف چھوٹے چھوٹے تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ آپ نے اپنا پہلا باقاعدہ مضمون پنجاب کے ادیب شاعر جوشو افضل الدین پر لکھا۔ اس کے علاوہ جوشو افضل الدین پر پی ایچ ڈی کی سطح تک کا کام بھی ہوامگر پہلا تنقیدی مضمون لکھنے کی سعات آپ ہی کو نصیب ہوئی۔ جوشو افضل الدین پر آپ کا تحقیقی و تنقیدی مضمون ایک مسیحی جریدے کا تھولک نقیب میں ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا اور بعد میں کچھ وقت گزرنے کے بعد روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ہم ایڈیشن میں ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔ یوسف نیر لکھتے ہیں:

جوشو کی تخلیقات اور زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ اسے زندگی میں دو چیزوں سے بڑا پیار تھا یسوع مسیح کی زندگی اور اس کی تعلیمات اور دوسری پنجابی زبان ۔(۱۶۸)

          اس مضمون میں یوسف نیر نے انجیل کی آیات کا ذکر کیا ہے اور سارا مطالعہ آپ نے فرائیڈ کی تحلیل نفسی کے ذریعے کیا ہے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سارا کام ان کا سائنسی تنقید کی بنیادوں پر نظر آتا ہے۔انھوں نے انڈویورپین شعرا ، فراسو ،الیگرینڈر ،ہیڈلی ،آزاد اور جارج شور میرٹھی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ ان کے سیاسی اور معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔

          یوسف نیر ادب کو زندگی میں اور زندگی کو ادب میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ ادب کو زندگی سے جدا نہیں کرتے ہیں۔ آپ اپنے ایک مضمون فیض احمد فیض کی شاعر ی میں ترقی پسند رجحانات میں لکھتے ہیں:

ادب میں ترقی پسندی ،زندگی میں ترقی پسندی سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر ترقی پسند کے سامنے ایک مخصوص فلسفہ حیات ہے۔ جس سے زندگی کے ہر شعبے میں حرکت اور تغیر کو سمجھا جا سکتا ہے ۔میتھو آرنلڈ(۱۸۲۲ء ۔۱۸۸۸ء) نے ان باہمی رشتوں کی بات کی ہے۔وہ نہ صرف انیسویں صدی کا ایک بلند اور با اثر نقاد تھا بلکہ اسے جدید فن تنقید کا بانی کہنا چاہیے۔(۱۶۹)

          یوسف نیر عاصر کی شاعری پر تبصرہ اور تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

عزیز عاصر نے اقبال کو بھی پڑھا ہے ۔عاصر نے فلسفے کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے نطشے، ہیگل اور گوئٹے کو بھی پڑھا ہے۔ ان کے ہاں اقبال کے نظریات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ انسانی ارتقا ، امن و سلامتی ،متحرک زندگی ،معاشرے میں انسانی احترام اور آگے بڑھنے کے پرچار ک ہیں۔ عاصر انسان کو متحرک زندگی گزارنے اورا پنے اندر نئے آسمان اور نئی زمین کو تلاش کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔(۱۷۰)

          یوسف نیر نے شاعری کے ساتھ ساتھ اردو افسانے پر بھی تنقید کی ہے۔ انھوں نے آصف عمران کے افسانوں کے مجموعے ’’ساے کے ناخن‘‘ کے متعلق ایک تنقیدی مضمون لکھا ہے۔ اور اس میں بتایا ہے کہ آصف عمران نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا ہے:

آصف نے شہری دنیا کے بے بس اور مجبور انسانو ں کے دکھوں اور روحانی کرب کو محسو س کیا ہے اورا سے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے غریب اور درمیانے طبقے کی مجبوریوں اور مشکلات کا قریب سے مشاہدہ اور تجزیہ کیا ہے۔ اس لیے اس کے افسانوں کے موضوعات انسان ، اس کی ہجرت ،روحانی کرب اور اقتصادی مسائل ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر رومانوی ہے مگر انسانوں کے زیادہ تر موضوعات خدا، انسان ،زندگی متحرک معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔(۱۷۱)

          یوسف نیر نے مختلف شعری و افسانوی کتابوں پر فلیپ اور دیباچے بھی لکھے ہیں۔ جس میں شاعر یا مصنف کے طرز اسلوب اور فکر پر مختصر اظہار خیال کیا ہے۔ شجر طہرانی کے شعری مجموعے’’جہاں گرد‘‘ کے فلیپ میں ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں :

شجر پر تحقیقی وتنقیدی کام کرتے ہوئے مجھے ان کی شخصیت اور قد و قامت کا اندازہ ہوا ، ان کی غزل نہ صرف شعری توانائیوں سے بھرپور ہے بلکہ اس میں ادبی روایات کے ساتھ ساتھ جدید روح عصر بھی ملتی ہے۔ شجرؔ داغؔکے شاگرد تھے ۔اس لیے ان کے شعر میں پختگی ،روانی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ قطعہ نگاری ایک مشکل صنف سخن ہے۔مشکل ان معنو ں میں کہ چار مصرعوں میں مکمل بات کہنا فنی پختگی کے بغیر ممکن نہیں۔شجرؔ طہرانی بلا شبہ اس فن کے بادشاہ ہیں۔ جس پرا ن کی’’ جہاں گرد ‘‘ایک سند ہے۔(۱۷۲)

          یوسف نیر نے معروف شاعر فردوس سیالکوٹی کے شعری مجموعے ’’نوروز‘‘ پر بھی فلیپ لکھا:

ترقی پسند تحریک نے نئی نسل کو بہت متاثر کیا ان کے فکر و اسلوب میں تبدیلی آئی اور وہ آزادی ،انقلاب ،حق و صداقت اور امن و سلامتی کی باتیں کرنے لگے۔فردوس سیالکوٹی کے کلام پر بھی اس ادبی تحریک کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ جن نے فردوس کی فکر کو انقلابی رخ عطا کیا۔ ان کی نظموں میں ترقی پسند تحریک کی آواز سنائی دیتی ہے۔(۱۷۳)

          یوسف نیر نے نعمت نرد وش کے شعری مجموعے ’’ویرانے بولتے ہیں‘‘ نسیم یزدانی کے شعری مجموعے ’’گمشدہ روشنی‘‘ اور عمر حیات عمر کے شعری مجموعے ’’بے چہرگی کی ہجرت‘‘ پر بھی فلیپ لکھے ہیں۔ جن سے ان کا تنقیدی شعور واضح ہوتا ہے۔

          عبدالرحمن اطہرؔ سلیمی شاعری کے ساتھ ساتھ تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین ،ماہنامہ ’’محفل ‘‘لاہور ،ماہنامہ’’ اوراق‘‘ لاہور، ماہنامہ’’ انتخاب ‘‘سیالکوٹ میں چھپتے رہے۔ ان کے تنقیدی مضامین میں حیاتِ غَالب کے ایک باب پر ایک نظر، اقبال ایران پر ایک نظر، اردو شاعری بیسویں صدی میں ،نظم جدید کی کروٹیں(تنقیدی جائزہ)،محمد حسین آزاد، غالب کا تصور رقیب ،علامہ اقبال اور اتباع رسول ،تصور کرتپوری کی غزل ،محرکات فکر قرآنی ،اقبال کے حوالے سے اقبال کا انسان کامل ، حفیظ جالندھری کی غزل، اردو شاعری میں تصوف اور پطرس ایک مطالعہ اہم تنقیدی مضامین ہیں۔ اطہر سلیمی کی ایک غیر مطبوعہ تصنیف ’’تنقیدیں اور تبصرے ‘‘ بھی ہے جو ان کے بیٹے شرجیل کے پاس ہے۔(۱۷۴)

          ساحل سلہریؔ (۱۹۸۲ء پ) کنگرہ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ایم فل اردو ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور سے کیااور آج کل ایک تعلیمی سرکاری ادارے میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔(۱۷۵)ساحل سلہری شاعری بھی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں ۔ان کے ایم فل اردو مقالے کا عنوان ’’عباس تابش۔ایک مطالعہ‘‘ ہے۔ جو ایک تحقیقی و تنقیدی مقالہ ہے۔ اس مقالے میں عباس تابش کی شاعری کے حوالے سے ان کے تنقیدی زاویہ نظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

          یہ مقالہ ترمیم کے ساتھ دعا پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۱۵ء میں کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ مقالہ ۲۷۵ صفحات کی ضخامت پر مشتمل ہے۔ اس مقالے میں عباس تابش کی شاعری کا مکمل جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے معترفین اور مداحین کی آرا کی روشنی میں ایک حتمی رائے قائم کی گئی ہے۔ عباس تابش کا شعری سفر چار دہائیوں سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری کی وسعتوں کو پار کرنا کارآسان نہیں تھا لیکن ساحل سلہریؔ نے ایک محقق و نقاد کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے محنت، لگن اور تنقید کے اعلیٰ معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس دریا کو عبور کرنے کی کوشش کی ہے۔

          عباس تابش کے فکر و فن کا مفصل تجزیہ کرنے کے لیے ساحلؔ سلہری نے اس مقالے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول میں عباس تابشؔ کے سوانحی حالات درج کیے ہیں۔ باب دوم میں عباس تابشؔ کی غزل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں اردو غزل کا تعارف ،تاریخ اور ابتدا سے جدید غزل تک اردو غزل کا تدریجی ارتقا لکھا ہے۔ مقالے میں یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید اردو غزل کی روایت عباس تابشؔ تک کس طرح پہنچی ہے۔ اس باب میں عباس تابش کی غزل کا اسلوبیاتی و موضوعاتی جائزہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کے تمام فنی محاسن کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ غزلوں میں شامل تمام موضوعات کو الگ الگ کر کے بحث کی گئی ہے۔اس باب میں اردو غزل میں عباس تابش کی اہمیت کا اندازہ لگا یا گیا ہے۔ اس میں تابشؔ کی غزل کے رومانوی ،عصری ،جمالیاتی ،نفسیاتی اور سماجی شعور کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ آخر میں عباس تابش کا معاصر اردو غزل میں مقام و مرتبہ متعین کیا گیا ہے۔

          اس مقالے کے تیسرے باب میں عباس تابشؔ کی نظموں کا بالتفصیل جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں جدید اردو نظم کے ارتقائی مدارج کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور عباس تابشؔ کی اردو نظموں کا اسلوبیاتی و موضوعاتی حوالے سے مفصل جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ آخر میں معاصر اردو نظم گو شعرا کا تقابلی جائزہ لے کر عباس تابش کا اردو نظم میں مقام و مرتبہ متعین کیا ہے۔ مقالے کے چوتھے باب میں عباس تابش کی شاعری کا ہر لحاظ سے جائزہ لے کر گزشتہ چند دہائیوں میں تخلیق ہونے والے شعر و ادب میں عباس تابشؔ کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس باب میں تابشؔ کا شعری مقام و مرتبہ متعین کرنے کے لیے مختلف ادیبوں اور نقادوں کی آرا اور مضامین سے استفادہ کر کے ان کا درست مقام و مرتبہ متعین کیا گیا ہے۔اس تنقیدی مقالے کے پانچویں باب میں عباس تابشؔ کی شاعری کا تنقیدی خلاصہ پیش کیا گیا ہے اور ان کی شاعری کے فنی و اسلوبیاتی محاسن کے ساتھ ساتھ موضوعاتی پہلوؤں کا محاکمہ بھی کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب اس مقالے کے حوالے سے لکھتے ہیں :

ساحل سلہری نے اس مقالے میں تابش کی غزل اور نظم پر تفصیل سے لکھا ہے۔ دوسروں کی آراء کو سامنے رکھا ہے ۔ان کا تجزیہ کیا ہے اور پھر اپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔(۱۷۶)

          ڈاکٹر ضیاء الحسن ساحل سلہری کے مقالے کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :

’’ساحل سلہری کا اسلوب رواں ہے انھوں نے اپنی رائے کی تصدیق کے لیے جا بجا عباس تابش کے بارے میں لکھی ہوئی اہل علم و ادب کی آرا کے حوالے دیے ہیں۔ انھوں نے جہاں عباس تابش کی شاعری کو احمد ندیم قاسمی ،مرتضیٰ برلاس ،خالد احمد، نجیب احمد ، جان کاشمیری ، خالد شریف، ریاض مجید،محسن نقوی انور مسعود اور امجد اسلام امجد کے مقابل رکھ کر دیکھا ہے۔ وہاں ان کے ہم عصروں سرور ارمان ،سعد اﷲ شاہ، انجم سلیمی ،فیصل عجمی ،حسن عباسی ،شاہد ذکی ،شہزاد مبشر ،اعجا زرضوی اور ساحل سلہری کے موازنے میں بھی پرکھا ہے۔ اور انھیں بڑا شاعر قرار دیا ہے۔(۱۷۷)

          حسن عباسی ساحل سلہری کو نقاد ثابت کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :

ساحل سلہری نے عباس تابش کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے عہدِ حاضر کے جدید اردو غزل گو شعرا کا تذکرہ بھی بخوبی کیا ہے۔ اس طرح یہ مقالہ جدید اردو غزل کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ ساحل سلہری کو میں نے خوب سے خوب تر لکھنے کی جستجو میں سر گرداں پایا ہے۔ اس کا اسلوب منفرد ہے اور اس کی تنقید ایک تخلیق لگتی ہے۔(۱۷۸)

          عباس تابش کی شاعری آمدو آورد کا حسین امتزا ج ہے۔ ہر شاعر کو آمد ہوتی ہے یہ ایک خداد اد صلاحیت ہوتی ہے۔ ہر شاعر کو اس کی استطاعت کے مطابق آمد ہوتی ہے۔ ہر شاعرکے آمد کے ساتھ آورد بھی ہوتی ہے۔ اگر چہ آورد کی وجہ سے شعر کا قدرتی حسن اور بے ساختہ پن خراب ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے بغیر اچھا اور بڑاشعر بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ساحلؔ سلہری اپنے مقالے ’’عباس تابش ایک مطالعہ‘‘ میں عباس تابشکے حوالے سے کہتے ہیں :

عباس تابش کی شاعری آمدو آورد سے لبریز ہے ۔انھوں نے بڑی غورو فکر کے بعد اشعار تخلیق کیے ہیں۔ ان کے اندر کا نقاد انھیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ کانٹ چھانٹ کر شعر تخلیق کیا جائے۔ عباس تابشؔ نے جیسے شاعری نہیں کرافٹنگ کی ہے وہ ا یک آرٹسٹ ہیں۔ ان کی شاعری دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ وہ ایک مصرعے کو کئی بار لکھتے ہیں ۔ان کے کسی مصرعے میں جھول نظر نہیں آتا۔(۱۷۹)

حوالہ جات

۱۔       ڈاکٹر محمد باقر ،تبصرہ کُتب،۹ جون ۱۹۸۷ء ،ص:۸

۲۔       ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،’’اقبال ایران‘‘ ،سیالکوٹ ،بزمِ رومی،۱۹۸۶ء ،ص:۲۸

۳۔       ایضاً،ص:۳۳

۴۔       ایضاً،ص:۳۸

۵۔       ایضاً،ص:۴۳

۶۔       ایضاً،ص:۴۵

۷۔       ایضاً،ص:۱۸۸

۸۔       ڈاکٹر محمد باقر، اقتباس از’’نوائے وقت‘‘،۹ جون ۱۹۸۷ء ،ص:۸

۹۔       ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘،کراچی،اقبال اکادمی،۱۹۵۷ء ،ص:۱۲

۱۰۔     ایضاً،ص:۲۵

۱۱۔     ایضاً،ص:۷

۱۲۔     ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی،’’پیامِ اقبال‘‘، گوجرانوالہ ،بزمِ اقبال اسلامیہ کالج، ۱۹۷۲ء ،ص:۳

۱۳۔     علامہ اقبال ،’’کلیاتِ اقبال‘‘(فارسی) ،لاہور،شیخ غلام علی اینڈ سنز،۱۹۷۵ء ،ص:۸۸۵

۱۴۔     ’’ارمغان ِ حجاز‘‘ ،طاہر شادانی (مترجم)،لاہور،اقبال اکیڈمی ،۱۹۹۷ء ،ص:۸

۱۵۔     ’’الہلال ‘‘،شمارہ نمبر ۱۲، ۱۹۹۱ء ،ص:۶۸

۱۶۔     بحوالہ،’’مقدمہ‘‘ ،’’کلام اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘،ص:۸

۱۷۔     ایضاً،ص:۹

۱۸۔     ایضاً،ص:۲۷

۱۹۔     ایضاً،ص:۴۰

۲۰۔     ایضاً،ص:۸۹

۲۱۔     ایضاً،ص:۱۲۱

۲۲۔     ایضاً،ص:۱۳۷

۲۳۔     ایضاً،ص:۱۸۸

۲۴۔     بحوالہ ’’مرے کالج میگزین‘‘ ،اشاعت جون،۱۹۴۹ء ،ص:۲۱

۲۵۔     بحوالہ ’’مرے کالج میگزین‘‘ ،اشاعت ،مارچ،۱۹۵۳ء،ص:۴۷

۲۶۔     بحوالہ ’’مرے کالج میگزین‘‘،اشاعت مارچ ۱۹۶۳ء ،ص:۶۷

۲۷۔     بحوالہ ’’مجلہ افکار‘‘ مرے کالج سیالکوٹ،اشاعت خاص،۱۹۶۷ء ،ص:۶

۲۸۔     بحوالہ ،سوالنامہ بسلسلۂ تحقیق مقالہ ھذا

۲۹۔     شیما مجید ،پیش لفظ،’’اقبال‘‘،از فیض احمد فیض ،لاہور ،مکتبہ عالیہ،۱۹۸۷ء ،ص:۱۲

۳۰۔     فیض احمد فیض ،’’اقبال‘‘(نظم) مشمولہ ’’اقبال‘‘،مرتبہ شیما مجید ،ص:۸۷

۳۱۔     ایضاً،ص:۸۹

۳۲۔     مرز ا ظفر الحسن، ’’عمر گذشتہ کی کتاب ‘‘،کراچی ،ادارہ یادگار غالب،۱۹۸۷ء ،ص:۳۰۲

۳۳۔     شیما مجید،’’پیش لفظ‘‘،اقبال،از فیض احمد فیض،ص:۱۳

۳۴۔     فیض احمد فیض ،اقبال ،ص:۱۹

۳۵۔     ایضاً،ص:۱۹

۳۶۔     ایضاً،ص:۲۰

۳۷۔     ایضاً،ص:۲۱

۳۸۔     ایضاً،ص:۲۲

۳۹۔     ایضاً،ص:۲۲

۴۰۔     ایضاً،ص:۲۲

۴۱۔     فیض احمد فیض،’’جستہ جستہ‘‘(اقتباسات) مشمولہ ’’اقبال‘‘ ،مرتبہ شیما مجید ،ص:۷۵

۴۲۔     ایضاً،ص:۷۶

۴۳۔     جابر علی سید،’’اقبال کا فنی ارتقاء‘‘،لاہور،مطبع ظفر سنز،۱۹۸۵ء،ص:۳۲

۴۴۔     ایضاً،ص:۳۳

۴۵۔     ایضاً،ص:۴۵

۴۶۔     جابر علی سید،’’لفظ معنی کا رشتہ‘‘،مشمولہ ’’اقبال کا فنی ارتقاء‘‘ ،ص:۶

۴۷۔     جابر علی سید’’اقبال اور پطرس بخاری‘‘،مشمولہ اقبال کا فنی ارتقاء ،ص:۹۶

۴۸۔     ایضاً،ص:۹۸

۴۹۔     ڈاکٹر انوار احمد، ’’نوائے وقت‘‘،ملتان ،۸ جنوری ۱۹۸۵ء ،ص:۷

۵۰۔     اے عبدالرحمن،’’اقبال ایک مصلح‘‘،مشمولہ’’مطالعاتِ اقبال‘‘،سیالکوٹ،اردو ادب اکیڈمی ،۱۹۶۹ء،ص:۳۳

۵۱۔     علی حضور نجفی ’’اقبال کا مسلمانوں سے خطاب‘‘،مشمولہ’’ مطالعاتِ اقبال‘‘،ص:۴۳

۵۲۔     ڈاکٹر وحید قریشی،’’علامہ اقبال اور مطالعہ تاریخ‘‘،مشمولہ ’’مطالعاتِ اقبال‘‘،ص:۷۳

۵۳۔     غلام حسین ذوالفقار ،’’اقبالکے عمرانی تصورات‘‘،مشمولہ’’ مطالعاتِ اقبال‘‘،ص:۷۱

۵۴۔     کرم حیدری ’’اقبال کا فلسفہ تعلیم‘‘،مشمولہ ’’مطالعاتِ اقبال‘‘،ص:۱۰۷

۵۵۔     فیض احمد فیض ،’’اقبال اور عظمتِ انسان‘‘ ،مشمولہ ’’تعلیماتِ اقبال‘‘،سیالکوٹ ،علامہ اقبال فاؤنڈیشن ،۱۹۸۸ء ،ص:۶۰

۵۶۔     احمد ندیم قاسمی ،’’اقبال اور تحریکِ آزادی ،مشمولہ ’’تعلیماتِ اقبال‘‘ ،ص:۸۶

۵۷۔     اسلم ملک’’بچوں کا اقبال‘‘ ،سیالکوٹ ،علامہ اقبال فاؤنڈیشن ،۲۰۰۲ء ،ص:۶

۵۸۔     ایضاً،ص:۱۷

۵۹۔     ایضاً،ص:۲۸

۶۰۔     ایضاً،ص:۲۹

۶۱۔     اسلم ملک’’اقبال مفکرِ پاکستان‘‘،سیالکوٹ،علامہ اقبال فاؤنڈیشن،۱۹۹۷ء،ص:۱۱

۶۲۔     پروفیسر محمد دین بھٹی ’’اقبال کا نظریہ خودی‘‘،مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،لاہور ،حروف پبلی کیشنز ۲۰۰۵ء ،ص:۱۹

۶۳۔     عبدالحق ،’’علامہ اقبال کی شاعری ‘‘،مشمولہ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۲۲

۶۴۔     نصیر احمد،’’اقبال‘‘،مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۲۶،۲۷

۶۵۔     تجمل علی راٹھور،’’اقبال کا فلسفہ حیات‘‘،مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۳۲،۳۳

۶۶۔     ایس۔ ڈی ۔ظفر’’اقبال کا سیاسی پس منظر‘‘،مشمولہ ،’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۳۶

۶۷۔     پروفیسر ایم ۔ڈی بھٹی ’’علامہ اقبال مرحوم بحیثیت مجدد‘‘،مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۴۳

۶۸۔     اے۔ڈی اظہر’’اقبال کا تصورِ مومن‘‘ مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ص:۵۰،۵۱

۶۹۔     آسی ضیائی،’’اقبال……میری اور آپ کی نظر میں‘‘، مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۵۵،۵۶

 ۷۰۔    ستار لودھی ’’کلامِ اقبال میں طنز‘‘ مشمولہ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۶۵

۷۱۔     حفیظ الرحمن احسن،’’حیاتِ اقبا ل کے چند غیر معروف گوشے‘‘،مشمولہ’’اقبال اور مرے کالج‘‘،ص:۶۹

۷۲۔     اعزاز احمد آـذر، ’’اقبال ایک عاشقِ رسول ؐ ‘‘مشمولہ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۸۰

۷۳۔     اعجاز احمد بٹ، ’’اقبال کا تصورِ ملت‘‘مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۸۳

۷۴۔     اطہر سلیمی ،’’اقبال کا انسانِ کاملؐ ‘‘مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج ‘‘ ،ص:۸۳

۷۵۔     ڈاکٹر عادل صدیقی،’’اقبال کا نظریہ توحید‘‘ مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘،ص:۹۱

۷۶۔     پروفسیر طارق امین ،’’اقبال کے سیاسی افکار‘‘ ،مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج‘‘ ،ص:۱۰۲

۷۷۔     ڈاکٹر اصغر یعقوب ’’ابتدائیہ‘‘ مشمولہ ’’ذکرِ اقبال‘‘ ،سیالکوٹ ،سینٹ انتھنی سکول ۱۹۷۷ء،ص:۵

۷۸۔     ایضاً،ص:۶

۷۹۔     ڈاکٹر اصغر یعقوب،’’اقبال ایک آفاقی شاعر‘‘،مشمولہ ’’اقبال اور مرے کالج ‘‘،ص:۱۰۸

۸۰۔     بنی احمد ،’’خالد نظیر صوفی……ایک اقبال شناس‘‘ غیر مطبوعہ مقالہ ،ایم ۔اے اردو اسلام آباد، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،۲۰۰۵ء ،ص:۳۰۲

۸۱۔     محمد انور صوفی ’’اقبال شاعر انسانیت‘‘،مشمولہ ’’دامانِ خیالِ وطن‘‘ ،لاہور،شخصیت پرنٹرز ،۲۰۰۰ء ،ص:۲۱

۸۲۔     محمد انور صوفی’’اقبال کا مخاطب‘‘ مشمولہ ’’دامانِ خیال وطن ‘‘،ص:۳۱

۸۳۔     عبدالحمید عرفانی ،’’پیامِ اقبال ‘‘،ص:۳

۸۴۔     ایضاً،ص:۵

۸۵۔     عبدالحمید عرفانی ،’’اقبال کا مل‘‘ ،ص۳۱۶، ۳۱۷

۸۶۔     عبدالحمید عرفانی ’’پیامِ اقبال ‘‘،ص:۷

۸۷۔     ایضاً،ص:۱۰

۸۸۔     ایضاً،ص:۱۱

۸۹۔     عبدالحمید عرفانی ’’کلام نفیس پر ایک نظر ‘‘،مشمولہ’’کلامِ نفیس ‘‘،سیالکوٹ ،بزمِ رومی ،۱۹۸۳ء،ص :۴۳

۹۰۔     ایضاً،ص:۴۳

۹۱۔     ایضاً،ص:۴۴

۹۲۔     ایضاً،ص:۵۳

۹۳۔     عبدالحمید عرفانی ’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ ،مشمولہ ’’دل و نگاہ‘‘ ،از لطیف جلیلیؔ ۱۹۷۵ء ،ص:۸

۹۴۔     ایضاً،ص:۸

۹۵۔     ایضاً،ص:۹

۹۶۔     لطیف جلیلیؔ،’’دل و نگاہ‘‘ ،ص:۲۳

۹۷۔     عبدالحمید عرفانی ’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ ،ص:۱۳

۹۸۔     لطیف جلیلی ’’دل و نگاہ‘‘ ،ص:۳۱

۹۹۔     صلاح الدین حیدر ’’میزان ایک مطالعہ‘‘،مشمولہ ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ ،لاہور ،فیض نمبر ،شمارہ ۳، ۴ ،۱۹۸۵ء ،ص۲۱۵

۱۰۰۔   فیض احمد فیض’’میزان‘‘ ،لاہور ،لاہور اکیڈمی ۱۹۶۵ء ،ص:۱۲،۱۳

۱۰۱۔   ڈاکٹر سید عبداﷲ ،’’میزان پر ایک نظر‘‘،مشمولہ ماہنامہ ’’فنون‘‘ ،شمارہ جنوری فروری ۱۹۶۸ء ،ص:۶۸

۱۰۲۔   فیض احمد فیض ،’’میزان‘‘ ،ص:۱۶۹

۱۰۳۔   ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ ،لاہور،فیض نمبر ،شمارہ نمبر مارچ اپریل ۱۹۸۵ء ،ص:۲۱۸

۱۰۴۔   ماہنامہ ’’جائزہ‘‘ ،کراچی فیض نمبر ،شمار ہ جنوری ۱۹۶۵ء ،ص:۴۳۰

۱۰۵۔   ممتاز فاطمہ، ’’فیض احمد فیض کی اُردو نثر‘‘،غیر مطبوعہ مقالہ ایم۔ اے اردو ،لاہور ،پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۸۸ء ،ص:۴۰

۱۰۶۔   فیض احمد فیض ،’’میزان‘‘،ص:۲۵۶

۱۰۷۔   ایضاً،ص:۲۷۳

۱۰۸۔   ایضاً،ص:۲۷۴

۱۰۹    صلاح الدین حیدر، ’’میزان ایک مطالعہ ‘‘مشمولہ ماہنامہ ادبِ لطیف، فیض نمبر ،شمارہ مارچ ،اپریل ۱۹۸۵ء ،ص:۲۱۸

۱۱۰۔   فیض احمد فیض ،’’میزان‘‘ ،ص:۲۱۱

۱۱۱۔   ڈاکٹر سید عبداﷲ، ’’میزان پر ایک نظر‘‘،مشمولہ ’’فنون‘‘ ،ص:۷۱

۱۱۲۔   ایضاً،ص:۷۲

۱۱۳۔   ڈاکٹر سید عبداﷲ ’’پیش لفظ‘‘ ،مشمولہ ’’کشمیر میں اُردو ‘‘،از حبیب کیفوی ،لاہور، مرکزی اردو بورڈ ،۱۹۸۹ء ،ص:م

۱۱۴۔   آسی ضیائی رامپوری ’’شب تاب چراغاں ‘‘،لاہور ،شاہ اینڈ سنز ،۱۹۶۱ء،ص:۹۴

۱۱۵۔   ایضاً،ص:۹۵

۱۱۶۔   ایضاً،ص:۱۷۸

۱۱۷۔   ایضاً،ص:۲۷۰

۱۱۸۔   ایضاً،ص:۱۱۷

۱۱۹۔   ایضاً،ص:۲۵۶

۱۲۰۔   ایضاً،ص:۲۷۸

۱۲۱۔   آسی ضیائی رامپوری ’’کلامِ اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘ ،ص:۵۹،۶۰

۱۲۲۔   ایضاً،ص:۱۳۰

۱۲۳۔   ایضاً،ص:۲۹۶

۱۲۴۔   بحوالہ ماہنامہ ’’سیارہ‘ ‘، اشاعت اکتوبر ۱۹۸۲ء ،ص:۳۵

۱۲۵۔   ایضاً،ص:۳۷

۱۲۶۔   آسی ضیائی رامپوری ،’’تنقید اور نقاد کی ذمہ داریاں‘‘ مشمولہ ماہنامہ ’’معیار‘‘ ،تنقید نمبر ،ص:۵۸

۱۲۷۔   ایضاً،ص:۶۱

۱۲۸۔   اطہرؔ سلیمی ،’’آسی ضیائی بطور نقاد‘‘مشمولہ ’’بالتحقیق ‘‘،سیالکوٹ ،اپریل ۲۰۱۰ء ،ص:۸

۱۲۹۔   جابر علی سید، ’’تنقید اور لبرلزم‘‘ ملتان، کاروانِ ادب، ۱۹۸۲ء ،ص:۶

۱۳۰۔   فاروق عثمان ،جابر علی سید کے ادبی میلانات ‘‘ملتان ، نوائے وقت ،۵ جنوری ۱۹۸۵ء ،ص:۵

۱۳۱۔   جابر علی سید، '' غالب اور فطرت''، مشمولہ '' تنقید اور لبر لزم''، ملتان، کاروان ادب،۱۹۸۲ء، ص: ۶۲

۱۳۲۔   ایضاً،ص:۶۲

۱۳۳۔   جابر علی سید، ’’راشد۔اقبال کے خلاف ایک رد عمل ‘‘مشمولہ ’’تنقید اور لبرلزم‘‘ ،ص:۸۷

۱۳۴۔   ایضاً،ص:۱۱۲

۱۳۵۔   جابر علی سید،’’ندیم کی دو فطرت پرستانہ نظمیں‘‘مشمولہ ’’تنقید اور لبرلزم ‘‘ص:۱۱

۱۳۶۔   ایضاً،ص:۱۵

۱۳۷۔   ایضاً،ص:۱۵

۱۳۸۔   جابر علی سید، ’’کلیم الدین احمد کا تنقید ی مطالعہ‘‘مشمولہ ’’تنقید اور لبرلزم‘‘ص:۱۹۳

۱۳۹۔   فاروق عثمان ’’نوائے وقت‘‘ ملتان ،۵ جنوری ۱۹۸۵ء ،ص:۸

۱۴۰۔   جابر علی سید،’’کلیم الدین احمد کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ص:۱۹۳

۱۴۱۔   ایضاً،ص:۱۹۲

۱۴۲۔   ایضاً،ص:۱۹۵

۱۴۳۔   ایضاً،ص:۱۹۹

۱۴۴۔   جابر علی سید، ’’میرا جی کی عملی تنقید‘‘مشمولہ ’’تنقید اور لبرلزم‘‘ ص:۲۵

۱۴۵۔   سلیم واحد سلیم ،’’ایک غزل کئی شاعر‘‘،لاہور ،ادبی دنیا، مئی ۱۹۵۳ء ،ص:۶۱

۱۴۶۔   ایضاً،ص:۶۲

۱۴۷۔   ایضاً،ص:۶۲

۱۴۸۔   ایضاً،ص:۶۲،۶۳

۱۴۹۔   سلیم واحد سلیم ’’اقبال کی فارسی شاعری اور اہلِ ایران‘‘،لاہور ،’’سویرا‘‘،شمارہ ۷،۸،ص:۸۲

۱۵۰۔   ایضاً،ص:۸۳

۱۵۱۔   ایضاً،ص:۸۵

۱۵۲۔   ایضاً،ص:۸۷

۱۵۳۔   ایضاً،ص:۹۰

۱۵۴۔   ایضاً،ص:۹۲

۱۵۵۔   تبصرہ طاہر شادانی ،’’مطلعین‘‘ مرتب پروفیسر جعفر بلوچ ،مشمولہ ’’سیارہ ‘‘جنوری ۱۹۸۹ء ،ص:۴۳۷

۱۵۶۔   ایضاً،ص:۴۳۸

۱۵۷۔   ایضاً،ص:۳۶۶

۱۵۸۔   ایضاً،ص:۳۶۶

۱۵۹۔   طاہر شادانی ،’’چند عالمی ادبی مشاہیر‘‘،مشمولہ ’’الہلال‘‘ ،شمارہ ۷،۶،۱۹۸۶ء،ص:۵۷

۱۶۰۔   ایضاً،ص:۵۵

۱۶۱۔   طاہر شادانی ،’’ولیم ورڈزورتھ۔ایک عظیم فطرت نگار شاعر‘‘،مشمولہ ’’الہلال ‘‘،شمارہ نمبر ۱۱،مئی ۱۹۹۲ء ،ص:۶۶

۱۶۲۔   طاہر شادانی، ’’جگن ناتھ آزاد‘‘مشمولہ ’’ماہنامہ سیارہ ‘‘فروری سالنامہ ،۱۹۹۴ء ،ص:۸۱

۱۶۳۔   طاہر شادانی ،’’یہ ہیں کارنامے رسول خدا کے (تبصرہ)‘‘’’ مشمولہ ماہنامہ سیارہ‘‘ مئی ،جون ۱۹۹۸ء ،ص۳۴۲

۱۶۴۔   طاہر شادانی، ’’علامہ اقبال کی منظر نگاری ‘‘مشمولہ ’’الہلال‘‘ ،لاہور شمارہ نمبر ۱۲، ۱۹۹۱ء،ص:۶۸

۱۶۵۔   طاہر شادانی، ’’شخصی حکومتوں میں سعدی کا مصلحانہ کردار‘‘،مشمولہ’’ارمغانِ شادانی ‘‘،لاہو ر،صدیقی پبلی کیشنز ،۱۹۹۸ء ،ص:۱۹۲

۱۶۶۔   طاہر شادانی ،’’تلوک چند محروم کی حزینہ شاعری ‘‘مشمولہ ’’ارمغانِ شادانی‘‘،ص:۲۱۹

۱۶۷۔   تاب اسلم ،’’دیباچہ ’’پیار بیوپار‘‘از آثم مرزا ،ص:۵،۶

۱۶۸۔   یوسف نیر ،’’جوشو افضل الدین کا اصلی میدانِ ادب‘‘مشمولہ ’’روزنامہ امروز‘‘ہم وطن ایڈیشن ،۹ مئی ۱۹۸۲ء ،ص:۳

۱۶۹۔   یوسف نیر ،’’فیض احمد فیض کی شاعری میں ترقی پسند رحجانات‘‘،مشمولہ ’’ماہنامہ جودت‘‘،لاہور ،مئی ۱۹۹۳ء ،ص:۲۰

۱۷۰۔   یوسف نیر،’’زندگی کی عظمت اور ترقی کا شاعر‘‘مشمولہ ’’خطاؤں کی جسارت‘‘،لاہور ،فکشن ہاؤس ،۲۰۱۰ء ،ص:۲۲،۲۳

۱۷۱۔   یوسف نیر، ’’سائے کے ناخن ‘‘،ملتان ،شاداب پبلشرز،جلد دوم ،۲۰۰۸ء ،ص:۳۵

۱۷۲۔   یوسف نیر،’’شجر طہرانی‘‘،مشمولہ ’’جہاں گرد‘‘، لاہور ،الحمد پبلی کیشنز ،دوسرا ایڈیشن، ۲۰۱۲ء ،ص:۷

۱۷۳۔   یوسف نیر،’’فردوس سیالکوٹی ترقی پسند شاعر‘‘،مشمولہ ’’مجموعہ فردوس سیالکوٹی‘‘ ،لاہور ،امثال پبلی کیشنز ،۲۰۰۲ء ،ص:۱۷

۱۷۴۔   عبدالرحمن اطہرسلیمیؔ کے بارے میں معلومات ان کے بیٹے شرجیل سے انٹر ویو کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں انٹر ویو ۲ جنوری ۲۰۱۶ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔

۱۷۵۔   یہ معلومات ساحل ؔسلہری کے انٹر ویو کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں۔ انٹر ویو بتاریخ ۵ جنوری ۲۰۱۶ء کو کنگرہ تحصیل پسرور میں ہوا۔

۱۷۶۔   ناصر عباس نیر، ’’سخنے چند‘‘ مشمولہ ’’عباس تابش ایک مطالعہ‘‘، لاہور ،دعا پبلی کیشنز ،۲۰۱۵ء ،ص:۱۴

۱۷۷۔   ڈاکٹر ضیاء الحسن ،’’ساحل سلہری کا مقالہ‘‘،مشمولہ’’ عباس تابش ایک مطالعہ‘‘ ،ص:۱۸

۱۷۸۔   حسن عباسی ،’’ساحل سلہری بطور نقاد‘‘،’’عباس تابش ایک مطالعہ ‘‘،ص:۲۴

۱۷۹۔   ساحل سلہری ،’’عباس تابش ایک مطالعہ‘‘ ،ص:۱۹۷

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...