Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

ماحصل
ARI Id

1688382102443_56116224

Access

Open/Free Access

Pages

635

 

 ماحصل

 

          سیالکوٹ کی مٹی بڑی ذرخیز اور مردم خیز ہے۔ خطۂ سیالکوٹ نے علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔سیالکوٹ کی علمی و ادبی اہمیت مسلمہ ہے ۔ ہر دور میں خواہ وہ ہندو راج ہو یا مغلیہ راج یا انگریز راج سیالکوٹ نے ہر دور میں علمی و ادبی مرکز کے حوالے سے اپنی شناخت قائم رکھی ہے۔ یہاں سے بہت سی نامور روحانی اور علمی و ادبی شخصیات نے جنم لیا ہے اور بعض نے یہاں کی روحانی او ر علمی و ادبی شخصیات سے فیض حاصل کیا ہے۔ سیالکوٹ قبل مسیح بھی ایک عظیم تعلیمی مرکز تھا۔ ۷۰۰ ق سے ۶۰۰ ق م تک یہ اتنا عظیم تعلیمی مرکز تھا کہ بنارس کے شہزادے حصول علم کے لیے یہاں آتے تھے۔ مغلیہ عہدِ حکومت میں سیالکوٹ برصغیر پاک و ہند کے علمی مراکز میں سے ایک اہم علمی مرکز تھا۔ خاص طورپر ملاکمال کشمیری( م ۱۰۱۷ہجری) اور ان کے شاگرد ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کے مکاتبِ فکر نے بڑی شہرت پائی جہاں برصغیر اور بیرون برصغیر کے دور دراز گوشوں سے طالبانِ علم کھینچے چلے آتے تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی بھی ملا کمال کے شاگرد تھے۔ اور انھوں نے ان کے مکتب سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۵۰ء سے ۱۹۰۰ء کے دوران سیالکوٹ میں مولانا شیر محمد، مولانا غلام حسن، مولانا غلام مرتضیٰ ،مولوی محبوب اور مولوی میر حسن بہت بڑے عالم فاضل گزرے ہیں ۔ ان اساتذہ کے اپنے کتب خانے بھی تھے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے عربی کی ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن کے مدرسہ میں حاصل کی۔ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی علامہ اقبال کے ہم جماعت تھے۔ فیض احمد فیض نے حفظِ قرآن اور عربی کی تعلیم مولوی میر سیالکوٹی کے مدرسے میں حاصل کی۔ برطانوی عہد کے آغاز میں بھی سیالکوٹ میں عربی، فارسی اور اردو کی روایت مستحکم رہی۔ مولانا غلام حسن اور مولوی میر حسن کی علوم مذہبی میں دسترس اور فارسی زبان و ادب کے چرچے آج تک سنے جاتے ہیں۔ دینی تحریکوں میں سیالکوٹ اہلِ حدیث کا بہت بڑا مرکز بنا۔ برطانوی عہد میں سیالکوٹ عیسائیت کا بھی مرکز رہا ہے۔ اور یہاں سے عیسائی مبلغین کے دستے برصغیر کے دیگر علاقوں میں بھیجے جاتے تھے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے مسلک قادیانیت کی تحریک بھی سیالکوٹ میں بڑے منظم طریقے سے چل رہی تھی۔ سیالکوٹ ان دنوں مجلسِ احرار کا بھی ایک اہم مرکز تھا۔ احراری سیالکوٹ کو مدینتہ الاحرار کہتے تھے ۔سیالکوٹ کے علم و ادب پر مذہب کے گہرے اثرات اس وجہ سے تھے کہ یہ خطہ مذہبی و دینی جماعتوں کا ایک بہت بڑا مرکز تھا۔ اقبال کے ہم عصر شاعر شجر طہرانی نے ’’سالباہن کی نگری‘‘ ایک طویل تاریخی نظم لکھی جس میں سیالکوٹ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ کے دینی اور مذہبی جذبوں اور نظریات کی عکاسی کی ہے۔

          مذہب کے ساتھ ساتھ ادبی لحاظ سے بھی سیالکوٹ کی شعری روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ داغ دہلوی کے کئی شاگرد سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ یہ شہر کشمیر سے آنے والی آبادی کا بھی مرکز ہوا۔ اقبال سمیت اکثر شعر ا و ادباء کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے خطۂ سیالکوٹ میں آباد ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری و نثری ادب پر دبستانِ دہلی اور کشمیر کے حالات وواقعات کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ جموں بھی یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ سری نگر کی طرف جانے والے راستے بھی جہلم کے بعد گجرات کے آس پاس سے نکلتے تھے۔ اس لیے ان علاقوں کی ادبی سر گرمیوں کی دھمک سیالکوٹ میں صاف سنائی دیتی تھی۔

          دلشاد، پسروری ، مولوی فیروز الدین ڈسکوی، اقبال، محمد دین فوق، سدرشن، جوگندر پال، امین حزیں سیالکوٹی،اثر صہبائی ، پنڈت میلا رام وفا، شجر طہرانی ، عبدالحمید عرفانی ، فیض ، مضطر نظامی اور حبیب کیفوی ایک مستحکم ادبی روایت کے امانت دار تھے۔ سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں عبداللطیف تپش نے جو جوت جگائی تھی۔ اس میں فاخر ہریانوی اور ضیا احمد ضیا کا نام اس کے علاوہ ہے۔ طفیل ہو شیار پوری کا مسکن بھی سیالکوٹ ہی بنا رہا۔ پھراے۔ڈی۔ اظہر، ،سبط علی صبا، مجید تاثیر سیالکوٹی ، بشیر چونچال سیالکوٹی اور غلام الثقلین نقوی کے نام آتے ہیں۔ اگلی نسل میں جابر علی سید، کرشن، موہن، محمد خان، کلیم ،تاب اسلم ،آسی ضیائی رامپوری ، ریاض حسین چودھری ، حفیظ صدیقی اور صابر ظفر کی شعری و ادبی تربیت گاہ بھی یہی خطۂ سیالکوٹ تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل سے بیسویں صدی کے آخر تک سیالکوٹ تجارتی مرکز ہی نہیں تھا۔ بلکہ ادب کا بھی اہم مرکز رہا۔ یہاں کے شاعروں نے ہی نہیں بلکہ نثر نگاروں نے بھی عربی ،فارسی ، اردو اور علمی روایت کو زندہ رکھا۔ادیب شعوری اور لا شعوری طورپر اپنے خطے کی تاریخ ،تہذیب و ثقافت ،جغرافیے اور سماجی رویوں کی اپنی تخلیق میں عکاسی کررہا ہوتا ہے۔ وہ کسی صورت بھی اپنے گردو نواح کے حالات و واقعات کے اثرات سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ سیالکوٹ کے ادبا بھی اپنے خطے کے ثقافتی ،جغرافیائی ،تہذیبی و سماجی ،اور تاریخی و عسکری اثرات سے متاثر ہوئے اور پھر جگہ جگہ اپنی تخلیقات میں انھوں نے تاریخی و سماجی شعور کے ساتھ ان اثرات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ کشمیریات، مذہب اور عسکریت خطۂ سیالکوٹ کے ادبا کے خاص موضوعات ہیں ۔فیض کے علاوہ تقریباً ہر ادیب کے ہاں مذکورہ بالا موضوعات واضح طورپر نظر آتے ہیں۔ کشمیریات خطۂ سیالکوٹ کے ادبا کا اہم موضوع ہے۔

          خطۂ سیالکوٹ کے ادبا وطن عزیز کشمیر اور پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ اُن کی شاعری اور نثر میں جدوجہد آزادی کشمیر اور جدوجہد پاکستان کے حوالے سے بے شمار نظمیں ،ا فسانے اور مضامین موجود ہیں۔ انھوں نے تحریک کشمیر کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے کارکنان کی حصول پاکستان کے لیے کاوش کی عکاسی بڑے جذباتی انداز میں کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مقامی اور ملکی حالات اور بھارت سے آنے والے مہاجرین کے مسائل ،مصائب ہجرت، قتل و غارت گری ،عصمت دری، لوٹ کھسوٹ، پاکستانی مسلمانوں کا مہاجرین کے ساتھ مثبت رویہ اور جذبہ اثیار کو بھی ادبا نے اپنے افسانوں ، مضامین، نظموں اور غزلیات میں شامل کیا ہے۔

          شجر طہرانی وطن عزیز سے محبت کرتے تھے ۔ ان کے ہاں ہجرت جدوجہد آزادی پاکستان اور ۱۹۴۷ء کے پس منظر میں متعدد نظمیں اور غزلیں ملتی ہیں امین حزیں سیالکوٹی اور ان کے بھائی اثر صہبائی کی شاعری میں بھی ہجرت اور قیامِ پاکستان کے پس منظر میں اشعار موجود ہیں۔خصوصاً اثر کی جنگ آزادی کے حوالے سے نظمیں ولولہ انگیز ہیں۔قیام پاکستان کے ایا م میں او ر مابعد آغا وفا ابدالی بھی اپنی تباہ ہوتی ہوئی تہذیب پر ماتم اور نئی تہذیب کی آمد پر نوحہ گری کرتے نظر آتے ہیں۔ دورِ غلامی اور دورِ آزادی کے بعد کے خونی واقعات کے آغا وفا عینی شاہد تھے۔ کیونکہ وہ خود اس قلزم خون سے گزرے جس میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی۔ ہجرت کے دوران انھوں نے اپنی آنکھوں سے دونوں اطراف کے مہاجرین کو بے گھر ہوتے اور زندگی کی بازی ہارتے دیکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۴۷ء کے حالات وواقعات پر پردرد اور فکر انگیز اشعار لکھے ہیں۔ اصغر سودائی کی شاعری میں بھی ہجرت کے واقعات موجود ہیں۔ انھوں نے مہاجرین کے دکھ اور غم کو بڑے کربناک انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی غزل قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کی صورت حا ل کی ایک کہانی معلوم ہوتی ہے۔ اصغر سودائی نعرہ پاکستان ،پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الا اﷲ کے خالق بھی ہیں۔ تاب اسلم نے بھی ان خون کی ندیوں کو دیکھا جو پاکستان کے نام پر بہائی گئیں۔ انھوں نے عورتوں کی عزتیں پامال ہوتے ہوئے، سہاگنیں بیوہ ہوتیں اور بچوں کو یتیم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور پھر ان حالات کو اپنی نظم اور غزل میں پیش کیا۔حبیب کیفوی کی شاعری میں بھی ہجرت اور مہاجرین کے مسائل کے بارے میں بے شمار نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خطہ سیالکوٹ کے ادباء طاہر شادانی ،آثم مرزا ، گلزار حیدر، حفیظ ہاشمی ، جلیل جاوید، آثم فردوسی ، باقی رضوی، شکیل آزاد، قمر تابش، صوفی نذیر احمد، خلیل شرر، محمد خان کلیم، اے۔ڈی اظہر، عباس اثر،ظہیر لکھنوی ، راز قریشی ، تصور کرت پوری، چونچال سیالکوٹی ،مجید احمد تاثیر ،صادق حسین اور منیر رومانی کے ہاں ہجرت اور قیام پاکستا ن کے حوالے سے شاعری موجود ہے۔

           جب پاکستان بن گیا تو سیاستدانوں نے ملک کی حرمت ،عزت اور مال و دولت سے کھیلنا شروع کر دیا ۔سیالکوٹ کے با شعور ادبا اس طوائف الملوکی جبر واستحصال اور سیاسی ابتری پر ملک کے دیگر ادبا کی طرح خاموش نہ رہے کیونکہ وہ پاکستان کو ہی جائے اماں سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے وطن اور عوام دشمن عناصر کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور انھیں پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا ۔ وطنیت اور پاکستانیت پر مشتمل بے شمار نظمیں، غزلیں اور تحریریں خطہ سیالکوٹ کے ادیبوں کے مجموعوں میں شامل ہیں۔قیامِ پاکستان سے پہلے جن ادیبوں کی تحریروں میں عشق و محبت کے رنگین جذبات ملتے تھے۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد اپنے آپ کو ملی شاعری کے لیے وقف کر دیا ۔ان میں سے ایک ادیب اثر صہبائی کی شاعری میں قومی و ملی شاعری کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز کے مسائل و حالات کو پیش کیا ہے۔ اور پاکستانی عوام کو ان مسائل کا سامنا کرنے کی تلقین کی ہے ۔ا ن کی اس دور کی نظموں اور غزلوں میں ہجرت، وطنیت ،پاکستانیت اور آزادی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا نظر آتا ہے۔

          فیض اور خطۂ سیالکوٹ کے دیگر ادیبوں کی تخلیقات میں تہذیب و تاریخ اور ہجرت کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔ وہ ترقی پسند تحریک کے سر گرم کارکن اور عالمی امن کے داعی تھے۔ پاکستانی اور عالمی سیاست کے حالات و واقعات ان کی تخلیقات میں گہرائی کی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔وہ پاکستان ، کشمیر، فلسطین ،پسماندہ افریکی ممالک بلکہ دنیا کے ہر خطے میں امن کے خواہاں تھے۔ صرف فیض ایسے شاعر ہیں کہ انھوں نے کشمیر کے حوالے سے شاعری نہیں کی ۔قیام پاکستان کے بعد جب وطن عزیز کے حالات بہتری کی طرف نہیں جارہے تھے۔ اسی زمانے میں فیض کی وہ معرکتہ الآرا اور کسی حد تک متنازعہ نظم تخلیق ہوئی۔ جس کا عنوان ’’صبح آزادی‘‘ تھا۔ ۱۹۴۷ء میں جس طرح پنجابیوں نے پنجابیوں کو ذلیل و خوار کیا تمام حملہ آوروں نے بھی مل کر نہیں کیا ہو گا۔ یہی وہ انسانیت سوز منظر تھا جس نے لوگوں کی آنکھوں سے حقیقی آزادی کے تصور کو کچھ دھندلا دیا تھا اور فیض نے ’’صبح آزادی‘‘ میں اسی لیے اپنے لوگوں کو پیغام دیا تھا کہ ابھی غموں اور دکھوں سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔ یہی پیغام اصغر سودائی، سبط علی صبا، سلیم واحد سلیم، وفاآغاابدالی، آثم مرزا، تاب اسلم اور خطۂ سیالکوٹ کے دیگر ترقی پسند ادیبوں کے ہاں ملتا ہے۔

          خطۂ سیالکوٹ چونکہ مذہبی و دینی جماعتوں کا مرکز رہا ہے اس کی تخلیقات میں مذہبی و اخلاقی رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ سیالکوٹ کے ادبا انگریز کی لائی ہوئی نئی تہذیب سے نفرت کرتے تھے۔ وہ نئی تہذیب کی بد عتوں اور نئی طرز لباس کے خلاف تھے۔وہ بے پردگی کے سلسلے میں عورتوں اور مردوں دونوں کے مخالف تھے۔ وہ نئی تہذیب اور نئے طرز ِ لباس کو اکبر کی طرح حرفِ تنقید بناتے تھے۔ وہ انگریزی تہذیب و ثقافت ، تمدن ،معاشرت، تعلیم ،اخلاق و عادات سے متنفر اور باغی نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا پرچار کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک مشرقی عورتوں کے حسن و حیا کی تباہی کی ذمہ دارتہذیبِ نو ہے۔ تبھی تو انھیں مغربی روایات سے بے حد نفرت ہے۔خطۂ سیالکوٹ کے ادبا کے ہاں ظالم اور جابر طبقے اور ان کے رویے کے خلاف مزاحمتی عناصر بھی ملتے ہیں۔صدر ایوب سے لے کر صدر پرویز مشرف تک ہر حکمران کے خلاف شعری و نثری ادب میں مزاحمتی عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔ صدرا یوب نے ۱۹۵۸ء میں پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ زبان و قلم اور حکومت کے خلاف تحریر و تقریر پر پابندیاں لگادی گئیں۔ ایوبی مارشل لاء کے ساتھ ریپریشن کی لہر اسی طرح سماجی زندگی پر طاری ہو ئی کہ باشعور لوگوں کے ذہنوں پر مایوسی اور نا امیدی چھانے لگی۔ ایسے حالات میں خطہ سیالکوٹ کے ترقی پسند ادیبوں نے مزاحمتی ادب تخلیق کیا۔ ان کی تحریروں میں ریپریشن بولتا ہو انظر آتا ہے۔ فیض اور ان کے ہاں تیسری دنیا کے نئے آزاد ہونے والے غلام ممالک کی تعمیر نو اور حالات بدلنے کے لیے چلائی گئی تحریکوں کابیان بھی ملتا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں صدر ایوب نے عام انتخابات اپنی مرضی کے نتائج سے جیتے۔ انتخابات میں دھاندلی کی گئی وطن عزیز ایک بار پھر ہنگاموں کی راہ پر چل نکلا اور ملک میں دارو گیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دور میں خطۂ سیالکوٹ کے ادبا کے ہاں صدر ایوب کے اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف بغاوت اور مزاحمت نظر آتی ہے۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف بھی خطۂ سیالکوٹ کے ادبا نے مزاحمتی ادب تخلیق کیا۔ وہ اپنی تخلیقات میں زبان بندی اور آواز حق پر لگائے گئے پہروں کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ۱۹۶۸ء کی عوامی جمہوری تحریک اور مقامی مزدور تحریکوں میں یہاں کے ادبا نے عملی طورپر حصہ لیا اور اپنے افسانوں ،مضامین ،نظموں اور غزلوں میں ایوانِ اقتدار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ تاب اسلم اور سبط علی صبا کے شعری مجموعوں میں یہ احتجاج دیکھا جا سکتا ہے۔۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ زبان و قلم پر پابندیاں ایک بار پھر عائد کر دی گئیں۔ضیا ء کی حکومت کی طرف سے زبان بند ی ہو گئی۔ اور آواز حق پر لگائے گئے پہروں کے خلاف ملک کے دیگر ادبا کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ کے ادبا نے بھی اپنی شاعری اور نثر میں احتجاج کیا۔ فیض،رشیدآفریں، حفیظ صدیقی، یوسف نیر، امتیاز اوجھل اور آثم مرزا کے مجموعوں میں اس آمرانہ دور کے خلاف سخت مزاحمت نظر آتی ہے۔ ضیا دور کی افغان جنگ، افغانی مہاجرین کے مسائل روس اور امریکہ کی باہمی چپقلش کی وجہ سے پاکستان امن کے بجائے جنگ و جدل کا خطہ بن گیا۔ مذہب اور مسلک کے نام پر مسجدوں ، امام بارگاہوں اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ پورے ملک کے ساتھ ساتھ خطۂ سیالکوٹ بھی اس بد امنی سے متاثر ہوا آغا وفاابدالی، رشید آفریں، تاب اسلم اور یوسف نیر کے علاوہ دیگر ادبا ان حالات و واقعات کو دیکھ کر خاموش نہیں رہتے بلکہ وہ اس بد امنی اور دہشت گردی کے ذمہ دار ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کے خلاف اپنی شاعری و نثر میں احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ۱۹۸۸ء میں جنرل ضیاء الحق کی فضا ئی حادثے میں موت کے بعد بے نظیر بھٹو کا دور حکومت آتا ہے۔ اس دور حکومت کی نا اہلی اور بد عنوانی کے خلاف بھی خطۂ سیالکوٹ میں مزاحمتی ادب تخلیق کیا جاتا ہے۔خصوصاً تاب اسلم آغا وفا ابدالی اور حفیظ الرحمن احسن کے ہاں اس حکومت کے خلاف سخت مزاحمت نظر آتی ہے۔ حفیظ الرحمن احسن کی ادبی حلقوں میں وجۂ شہرت ان کی مزاحمتی شاعری ہے۔ ان کا اولین مجموعہ غزل’’فصلِ زیاں‘‘ بے نظیر بھٹو کے دورا ول پر بہ زبانِ غزل تبصرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مجموعہ اس خاص مختصر سیاسی دور کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر کشمیر محمد الدین فوق کے والدین کشمیر سے ہجرت کر کے خطۂ سیالکوٹ میں آباد ہوئے۔ فطری طورپر انسان کو آبائی وطن سے محبت ہوتی ہے۔ ان کی شاعری اور نثر میں بھی آزادی کشمیر کے حوالے سے مزاحمت نظرآ تی ہے۔شجر کے والد نے بھی کشمیر سے ہجرت کی ان کے ہاں بھی مزاحمتی ادب کا رنگ موجود ہے۔

          اس کے علاوہ حبیب کیفوی ،امین حزیں سیالکوٹی ، اثر صہبائی ،تاب اسلم ،اصغر سودائی اور صابر ظفر کے ہاں مزاحمتی رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کی تخلیقات میں بھی انگریز حکومت، ان کے سیاسی نظام اور مختلف شخصیات کے حوالے سے مزاحمتی عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔اقبال کی شاعری کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز سے ہوتا ہے۔ اقبال نے بیک وقت سر سید تحریک اور رومانوی تحریک کے اثرات قبول کیے۔ اقبال نے فکری اور فنی دونوں سطح پر ایک نئی تبدیلی کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں برصغیر کی دنیا میں ایک نیا فکری انقلاب پیدا ہوا۔ بیسویں صدی ادبی اور فکری طورپر دراصل اقبال کی صدی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے قومیت کے جدیدتصورات کی تشکیل کی اور مردہ رگوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑادی۔ کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ بھی وجود میں آچکی تھی برصغیر ہی میں نہیں پوری مسلم دنیا میں غلامی اور نو آبادیت کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔ سیاسی سطح پر یہ صدی پورے گلوب پر بڑی بڑی فکری اور جغرافیائی تبدیلیوں کی صدی تھی۔ اس سیاسی انقلاب میں اقبال نے برصغیر کی عمومی فضا کو بدلنے اور زندگی کے تقریباً تمام شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جس سے اردو ادب بھی خاصا متاثر ہوا۔ اس طغیانی کے دور میں اقبال تجدد کا ایک ایسا آفتاب تھا۔ جس نے آنے والے دور کو سب سے زیادہ روشنی اور توانائی عطا کی۔ ایسے حالات سے اثر قبول کرتے ہوئے بھی اقبال کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف اردو شاعری اور نثر کو ایک نئی فکری سطح سے روشناس کرایا۔ بلکہ فنی اور ہیئتی طورپر بھی نئے ذائقے اور نئے معیاروں سے آشنا کیا۔ اقبال کی فطری عطا اور فنی معیار اس صدی کے پورے ادب پر گہری چھاپ رکھتا ہے۔ اقبال نے برصغیر میں جدید طرز فکر کی آبیاری کی۔ چنانچہ جدیدیت اور ترقی پسند ی کے تمام رویوں کے ڈانڈے اقبال ہی کے افکار تک جا پہنچتے ہیں۔اقبال کی شاعری پر آفاقی موضوعات کے ساتھ ساتھ مذہب اسلام کے بھی گہرے اثرات ہیں۔ اقبال نے مذہب اسلام اور دیگر موضوعات کے حوالے سے نہ صرف برصغیر کے دیگر ادبا کو متاثر کیا بلکہ خطۂ سیالکوٹ کا تقریباً ہر ادیب فکری لحاظ سے اقبال سے متاثر ہوا ۔سیالکوٹ میں اقبال شناسی کے حوالے سے بھی ایک مستحکم روایت موجود ہے۔ جس کا تفصیلاً پچھلے ابواب میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے پنجابی اور اردو کے کلاسیکی شاعر ہاشم شاہ کی شاعری پر مذہب اسلام ،تصوف اور روحانیت کے گہر ے اثرات ملتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری سے اسلام اور اخلاقیات کی تبلیغ کا کام بھی لیا۔ ان کے ہاں فنا، امن و آشتی ، اسلامی اقدار ،بھائی چارہ، پیار اور محبت ،فکرِ آخرت کے موضؤعات ملتے ہیں۔ انیسویں صدی کے شاعر دلشاد پسروری فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ وہ ایک عالمِ دین تھے۔ ان کے اشعار میں بھی حمد و نعت جیسے موضوعات بکثر ت موجود ہیں۔ آپ کا فارسی دیوان ادارہ تحقیقات پاکستان دانشگاہ پنجاب لاہور نے شائع کیا۔

          انیسویں صدی کے شاعر عشق پیچہ سیالکوٹی کے ہاں بھی عشق رسول او رعشق اہل بیت کے حوالے سے متعدد اشعار ملتے ہیں۔ انھوں نے حمد باری تعالیٰ اور اسلامی اخلاقیات جیسے موضوعات پر اشعار کہے ہیں۔ مولوی فیروز الدین ڈسکوی کا عرصہ حیات انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے پہلے عشر ے پر مشتمل ہے۔ انھوں نے سیالکوٹ میں انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کی بنیاد ڈالی۔ وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے اوراصلاح قوم کے حوالے سے نظمیں پڑھتے تھے۔ انھوں نے انجمن کے تیسرے اجلاس میں ایک طویل نظم ’’مسدس اصلاح قوم کی تحریک‘‘ پڑھ کر سنائی جو چھتیس بندوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں حمد و نعت ،قرآن، ردِ آریہ سماج، ردِ قادیانیت اور اسلام کی عظمت بیان کر کے شاعری ’’جزویست از پیغمبری ‘‘کا حق ادا کیا۔ انھوں نے اپنی نثری اور شعری تصانیف کا آغاز منظوم حمد سے کیا ہے۔ ان کا زیادہ شعری سرمایہ قرآن کے ترجمے پر مشتمل ہے۔مولوی صاحب کا منظوم ترجمہ لطیف اور عبارت اعلیٰ درجہ کی فصیح و بلیغ ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کسی لفظ کے معنی یا مضمون چھوٹ گیا ہو۔ مولوی فیروز کے ہم عصر شاعر فتح دین گلکار کے دیوان میں بھی مناجات اور حمد و نعت پر مشتمل نظمیں اور غزلیں ملتی ہیں۔ شاعر کشمیر محمد الدین فوق کی شاعری پر مذہب اسلام ،حالی ،ا قبال اور ظفر علی خان کے نظریات کے گہرے اثرات موجود ہیں۔بدیہہ گو شاعر مولانا ظفر علی خان کی شاعری پر بھی مذہب اسلام کے گہرے اثرات موجود ہیں۔

          حمد و نعت مولانا ظفر علی خان کا محبوب موضوع ہے۔ حمد ونعت اور تاریخ اسلام کے روشن ماضی کے اخلاق آموز واقعات کا بیان ظفر علی خان کی شاعری و نثر کا مرکزی موضوع بھی ہے۔ جہاں ان کا قلم عقیدت و محبت کی پنہائیوں میں ڈوب کر گوہر آبدار تلاش کرتا ہے۔ اور عالمِ انسانی کی رہنمائی کے لیے پیش کرتا ہے۔انھوں نے حمد و نعت میں متقدمین کی روایت کو بڑے جذبہ و شوق، فکر و احساس کے علاوہ اپنے پر شکوہ لہجے اور دلآویز انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ اقبال اور ظفر علی خان کے شعری دبستان کی یہ خاص اہمیت ہے کہ ان کا بڑے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں سیاسی ، تہذیبی ،معاشرتی اور معاشی مسائل کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ غیر معتدل رومانی رجحانات پر تنقید کر کے ادب اور زندگی کے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال نے اپنی تخلیقات کی عمرانی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ اقبا ل کی طرح ظفر علی خان نے بھی اسی نقطہ نظر کو صراحت اور زور سے بیان کیا ہے۔ دلشاد پسروری سے لے کر صابر ظفر تک خطۂ سیالکوٹ کے تمام ادبا کے ہاں دینی و مذہبی اور نعتیہ و حمدیہ رنگ موجود ہے۔

          شجر اسلامی روایات کے دلدادہ تھے اور اسلامی شعار اپنائے ہوئے تھے۔ ان کے خیالات صوفیانہ تھے۔ وہ صوفی نہ ہوتے ہوئے بھی صوفیوں کی سی زندگی گزاررہے تھے۔ ان خصوصیات نے شجر کو صوفیانہ لب و لہجہ اور خیال کی صداقت عطا کی ہے۔ ان کی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی نعتیہ اور حمدیہ اشعار ملتے ہیں۔ امیں حزیں سیالکوٹی اقبال کے معنوی شاگرد تھے۔ ان کی شاعری میں مذہب اسلام اور اقبال کا رنگ موجود تھا۔ امین حزیں کے بھائی اثر صہبائی کی بھی قیام ِ پاکستان کے بعد کی شاعری حمدو نعت پر مشتمل ہے۔ ان کی زندگی کا آخری دور مدحتِ رسول ﷺ سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتا ہے۔

          صابر ظفر کی شاعری اس جمال کی تمنا پر مرکزہے جو حسنِ ازل بھی ہے اور حسن مکمل بھی ۔ایسی شاعری میں حمد کے مضامین بھی ہیں اور نعت کا اسلوب بھی اپنی تابانی دکھاتا ہے۔ عشقِ حقیقی کے جذبات سے مملو ان کی شاعری مذہبی طرز احساس کا ایک منفرد ذائقہ رکھتی ہے۔ قا ضی عطا اﷲ عطا نے حمدیہ ونعتیہ شاعری کے ساتھ قرآن مجید کا مکمل منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ شاعر کے ساتھ ساتھ وہ ایک مضمون نگار اور تذکرہ نگار بھی ہیں۔ انھوں نے شعرائے پسرور کا تذکرہ بھی سادہ اور عام فہم نثر میں لکھا ہے۔ شعرائے پسرور کے سوانحی حالات اور مختصر تنقید ی و تحقیقی جائزے کے ساتھ انتخاب کلام بھی پیش کیا ہے۔ طفیل ہوشیا ر پوری کا ’’رحمتِ یزداں‘‘ شعری مجموعہ نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کے متعد د اشعار عشق رسولﷺ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اقبال کے بھائی شیخ عطا محمد کے داماد نظیرؔ صوفی کی شاعری پر اسلامی افکار اور فکرِ اقبال کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ سعیدہ صبا سیالکوٹی کے دل پسند موضوعات حمد، نعت اور مناجات ہیں۔ آپ کی شاعری رضائے الہی اور رسول خدا کی خوشنودی کے لیے وقف تھی۔ انھوں نے آیاتِ قرآنی کا سادہ اور سلیس زبان میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔آسی ضیائی رامپوری بھی اپنی شاعری اور نثر میں حمدیہ و نعتیہ لہجہ رکھتے ہیں۔ آپ کی نعتیہ نظموں میں منفرد اسلوب اظہار، ندرت بیان اور فکری وجذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ ایک سچے عاشقِ رسول ہونے کے ناطے آپ کی تب وتاب اور سوز ساز عمل کا ایک پیغام ہے۔ ساغر جعفری نے نعت، حمد، منقبت اور سلام میں طبع آزمائی کی۔ حفیظ جالندھری کے شاگرد فاخرہریانوی نے حمد ونعت پر مشتمل شعری مجموعہ’’اشکِ عمل ‘‘ تخلیق کیا جس کی تقریظ ڈاکٹروزیر آغانے لکھی۔ اشکِ عمل فاخر کا غیر مطبوعہ مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مسدس حالی کی بحر میں لکھی گئی ہے۔ اول حصہ حمد باری تعالیٰ اور دوم حصہ حضور کی زندگی سے متعلق اہم واقعات پر مشتمل ہے۔ ان میں تبلیغ اسلام ، فتح مکہ اور جنگ احد بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ فاخر نے قرآن مجید کو بغیر قافیہ ردیف کے منظوم کرنا شروع کیا لیکن مکمل نہ کر پائے کہ عمر طبعی نے مہلت نہ دی۔ محمد عباس اثر کے ہاں بھی توحیدو رسالت کے حوالے سے متعد د اشعار ملتے ہیں۔ عارف میر ٹھی کی غزلیات میں بھی عشق حقیقی کے جلوے جگہ جگہ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حفیظ صدیقی اپنے نعتیہ شعری مجموعوں ’’لازوال ‘‘ اور ’’لا مثال ‘‘ میں عشق مصطفےٰ میں بھیگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اصغر سودائی کا نعتیہ مجموعہ ’’شہِ دوسرا‘‘ ،تعجب انگیز اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے نعتیہ کلام کا آغاز حمد سے ہوتا ہے۔ انھوں نے نعت کہنے کے لیے غزل کا پیرایہ استعمال کیا۔ ان کی نعت گوئی میں ملی درد جھلکتا ہے۔ وہ اخلاقی قدروں کی پامالی کی ذمہ داری تعلیمات نبویﷺسے دوری کو قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی نعت سے اصلاح معاشرہ کا کام بھی لیا ہے۔ اصغر کی نعتوں میں فارسی تراکیب اور صنعتوں کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ آثم فردوسی نعت کے معروف شاعر ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے عرشِ رسا، مہمان معلیٰ اور سفیر کائنات نعتوں پر مشتمل ہیں۔ آثم فردوسی کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا جب ان کی طبیعت نعت مصطفی ﷺپر یکسو ہو گئی۔ عرشِ رسا ،مہمان معلی تک پہنچتے پہنچتے آثم فردوسی کی عقیدت شیفتگی بہت گہری ہو جاتی ہے۔ ان کی تمام تر عقیدتیں ان کی نعتیہ شاعری میں عمل میں ڈھلتی نظر آتی ہیں۔ حفیظ الرحمان احسن سچے عاشق رسولﷺ ہیں۔ دینی گھرانے سے تعلق کی بنا پر احسن کو حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے خاص شغف ہے۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری ان کے اسلوب کا خاص وصف ہے۔ اس فن میں ان کا جذبہ اور خلوص پاکیزہ نظر آتے ہیں۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری زیادہ تر غزل کی ہیئت میں کی ہے۔احسن کی متعدد حمدیہ غزلوں میں مناجات کا رنگ نمایاں ہے ۔رشید آفریں نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ ان کا نعتیہ شعری مجموعہ ’’فخرِ دو عالم‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ اطہر سلیمی نے بھی نعت نگاری سے اپنے دل میں عشقِ رسول کو جگہ دی ہے۔ ان کا نعتیہ مجموعہ ’’حم‘‘ نعتوں پر مشتمل ہے۔ ریاض حسین چودھری کی پہچان صرف نعت کی وجہ سے ہے اور نعتیہ شاعری کی وجہ سے انھوں نے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے نئے آفاق دکھائے ہیں اور غزلیہ انداز کی نعتوں کو جدید اسالیب سے ہم آہنگ کر کے نیا وقار عطا کیا ہے۔ آزاد اور پابند نظموں میں جہاں سیرت کے بے کراں مضامین کا احاطہ کیا ہے۔ وہاں ان کا ہر ہر مصرعہ اور ہر ہر سطر پیرائیہ غزل لیے ہوئے ہے۔ نعتیہ غزلیں شاعر کی جولائی طبع کی بدولت ایک طرف قصیدہ بنتی ہیں۔ تو دوسری طر ف ان میں نظم کا تسلسل در آیا ہے۔ ریاض کی کائنات نعت میں گھر اور وطن کا استعارہ ایک جاندار اور توانا اکائی کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ ریاض کی نعت میں استغاثے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی دکھ حضور ﷺکی عدالت عظمیٰ میں پیش کرکے نظر کرم کا ملتجی ہے۔ ریاض کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر آئین رسالت ﷺکے ساتھ ساتھ عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اٹھا ہے۔ اور ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی۔ ریاض اس دور کا ایک بھر پور نعت نگار ہے ان کے نعتیہ کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے اور لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی، حدِ ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔

          ایاز اصغر شاہین کی شاعری میں بھی حمدیہ و نعتیہ اشعار بکثر ت موجود ہیں۔انھوں نے قرآن مجید کے تیسویں پارے کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر احادیث اور متفرق آیاتِ قرآنی کا بھی منظو م ترجمہ کر کے اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیا ہے۔ مضطر نظامی کی شاعری پر بھی مذہب اسلام کے گہرے اثرات مرتب ہیں۔ وہ فارسی اور اردو کے نعتیہ اور حمدیہ شاعر ہیں۔’’پیارے نبی ‘‘اور’’ آبِ بقا‘‘ مضطر کی نعتیہ شعری مجموعے ہیں۔ مضطر نظامی کی شاعری پر فکر اقبال کی چھاپ بھی ملتی ہے۔ انھوں نے اقبال کی مثنوی’’ پس چہ باید کرداے اقوام مشرق ‘‘کا سب سے پہلے منظوم اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ ا ن کے ہاں تصوف کا مضمون بکثرت ملتا ہے۔ مضطر کی شاعری عشقِ رسول ﷺکی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے اپنی تمام اصنافِ سخن میں عشقِ مصطفیﷺکا اظہار کیا ہے۔ طاہر شادانی نے اپنی شاعری کا آغاز حمدوں سے کیا ہے۔ شادانی کی یہ حمدیں صرف روایت کا تتبع نہیں ہیں ۔حمد و نعت کی طر ف ان کا ذہنی میلان ابتدا سے تھا۔ شادانی کے ہاں اقبال کے اثرات واضح طورپر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ان کی حمدوں میں دعا کا وہی انداز ہے جو اقبال کے ہاں ہے۔ ان کی حمد میں عقیدہ توحید، شکر اور مناجات کے موضوعات بھی ملتے ہیں۔ حمد کے ساتھ ساتھ شادانی کی شاعری کا بہت بڑا حصہ نعت گوئی پر مشتمل ہے۔ شادانی نے حالی کی طرح نعت کو مقصد ی رنگ بھی دیا ہے۔ انھوں نے عصری مسائل کو نعت میں بیان کر کے اور حضورﷺ کی امت کی زبوں حالی سے بے چین ہو کر اصلاحِ حال کی التجا پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ شادانی کی نعتوں میں زبان و بیان کا پختہ شعور ملتا ہے۔ خطۂ سیالکوٹ کے ادب کا مذہب کے ساتھ ساتھ ایک بڑا رجحان جدوجہد آزادی کشمیر کی طرف بھی ہے۔ تقریباً ہر ادیب کے ہاں کشمیریات کے حوالے سے موضوعات ملتے ہیں۔ اقبال سے لے کر موجودہ دور کے ادبا تک ہر ایک کشمیر اور کشمیر کے حالات و واقعات سے متاثر نظر آتا ہے۔ شاعر کشمیر محمد الدین فوق کی آخری دور کی شاعری میں چند نظموں کے سوا باقی تمام کلام سفر کشمیراور اہلِ کشمیر کے متعلق ہے۔ اس دور میں فوق نے جہاں کشمیر کی بے بسی اور غلامی کا ذکر کیا ہے۔ وہاں اہلِ کشمیر کی خود شناسی ،خودداری اور احساسِ بیداری کے جذبات کا ذکر بھی کیا ہے۔اثر صہبائی نے ملازمت کے سلسلے میں کئی سال کشمیر میں مستقل قیام کیا۔ انھوں نے کشمیر کی زبوں حالی کو قریب سے دیکھا انھیں کشمیری مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت کا شدید گہرا احساس تھا۔ جن دنوں آپ کشمیر میں مقیم تھے ۔تحریکِ آزادی کشمیر زوروں پر تھی ان کی اس دور کی نظموں میں مظلوم کشمیریوں کے ساتھ واضح ہمدردی نظر آتی ہے۔ ’’آتشِ چنار‘‘ حبیب کیفوی کا ان نظموں کا مجموعہ ہے۔ جو کشمیر سے سیالکوٹ، ہجرت کرنے کے بعد اور آزادی کشمیر کے مرحلوں پر مختلف واقعات و حالات سے متاثر ہو کر کہی گئیں۔ ان نظموں میں آزادی کشمیر کا رجحان بھر پور صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ نظمیں حب الوطنی اور سوزو گداز میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ غزل ہو نظم کیفوی کی شاعری کے حوالے سے موضوع صرف اور صرف کشمیر ہی رہاہے۔ طفیل ہوشیار پوری کی شاعری میں بھی بھارتی فوج کی کشمیریوں پر ظلم و ستم کی گونج سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے بھارتی تسلط اور ظلم وبربریت کے خلاف کشمیر پر پر سوز نظمیں کہی ہیں۔ ساغر جعفری کی شاعری میں بھی کشمیر اور جہاد کشمیر کے حوالے سے متعدد نظمیں ملتی ہیں۔ ساغر جعفری کشمیر یوں کے مسکن ،جنت نظیر وادی کی ہندوستان کے ہاتھوں تباہی، کشمیریوں کی جانوں کے نذرانوں ،عزتوں کی پامالی کی تصویر پردرد انداز میں اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں۔ انھیں کشمیر پر بھارت کی بالا دستی کی صورت قبول نہیں ۔تاب اسلم کو بھی سیالکوٹ میں کشمیری عوام کی چیخو و پکار کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں کشمیری حریت پسندوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ او ر اقوا م متحدہ سمیت عالمی عدل و انصاف کے اداروں کو خاموش تماشائی بننے پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں کشمیری عوام کے حقِ خود ارایت کو عالمی سطح پر اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ آغا وفا ابدالی کی شاعری میں بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نظمیں موجود ہیں وہ اس کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے تھے۔ رشید آفریں کے ہاں بھی کشمیر ،کشمیری عوام اور مجاہدین کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے متعدد نظمیں اور نغمے ملتے ہیں۔ عسکریت، پاک بھار ت جنگوں اور وطنیت کے حوالے سے بھی پاکستان کے دیگر خطوں کی طرح خطۂ سیالکوٹ کے ادبانے شعری ادب تخلیق کیا۔ تغزل پسند شاعر طفیل ہوشیا رپوری نے ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں حب الوطنی میں ڈوبے ہوئے ترانے لکھے۔ ان کے ملی نغمے اور گیت افواج پاکستان کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں گائے جاتے ہیں۔ تاب اسلم کے شعری مجموعوں میں ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے سیالکوٹ چونڈہ کے محاذ پر پاکستانی فوج کی بہادری و شجاعت کے بارے میں بے شمار اشعار ملتے ہیں۔رشید آفریں نے ۱۹۶۵ ء کی جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور افواجِ پاکستان کی شجاعت کو اپنی نظموں ملی نغموں اور ترانوں میں پیش کیا۔ سید سبط علی صبا ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں بطور سپاہی شامل ہوئے۔ وہ اپنی شاعری میں پاکستانی سپاہیوں کی جنگ کے حوالے سے احساسات کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ صبااس جنگ کی عارضی کامیابی سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک جنگ ہر صورت میں تباہ کن ہے۔ ان کی اس جنگ کے حوالے سے نظموں کا آہنگ رزمیہ ہے اور انھوں نے ایسی نظموں میں اپنے وطن کے جری جوانوں اور شہیدوں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ خطۂ سیالکوٹ کے اصغر سودائی ، آغا وفا ابدالی، حفیظ صدیقی، ضیا محمد ضیاء، طاہر شادانی ، اسلم ملک اور یوسف نیر کی شاعری میں بھی ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے رجزیہ اور رزمیہ نظمیں اور غزلیں موجود ہیں۔

          طفیل ہوشیار پوری نے جہاں ۱۹۶۵ء کی پا ک بھارت جنگ پر عسکریت اور حب الوطنی پر مبنی نظمیں اور ترانے لکھے ہیں وہاں انھوں نے ا۱۹۷ء میں سقوطِ ڈھاکہ پربھی اپنی نظموں میں آنسو بہائے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے اپنی نعتوں میں بھی نبی کے حضور دیارِ پاک سے بنگال ہو چکا ہے جدا ایسے مصرعے کہہ کر سیاست دانوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا ہے۔ غزل میں چونکہ ایسے مضامین کو بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے طفیل نے استعارے کے پردے میں اس سانحہ کے ذمہ دار سیاست دانوں کے غلط طرز عمل پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ۔ فیض احمد فیض نے سانحہ سقوط ڈھاکہ پر پرُدرد اشعار کہے جو ان کی حب الوطنی کی عکاسی کرتے ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر آثم مرزا نے بھی درد میں ڈوبی ہوئی نظمیں کہی ہیں۔ آثم مرزا نے اس قومی سانحے پر زیادہ تر آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ حفیظ صدیقی نے بھی اپنی شاعری میں ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس سانحے پر پُردرد نظمیں لکھیں ۔اس کے علاوہ خطہ ٔ سیالکوٹ کے اصغر سودائی ، ضیا محمد ضیاء ، تاب اسلم ، اسلم ملک، یوسف نیر، ساغر جعفری ،آغا وفا ابدالی اور دیگر شعرا کے ہاں اس قومی حادثے کے حوالے سے شاعری دیکھی جا سکتی ہے۔

          قیامِ پاکستان سے پہلے پورے ہندوستان میں رومانی ادیبوں اور شعرا کی رومانوی تحریک بڑے جوش و جذـبے اور ولولے کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس تحریک کے فکری اثرات جہاں ہندوستان کے ہر کونے پر موجود ادبا پر پڑ رہے تھے۔ وہاں خطہ سیالکوٹ کے ادبا نے بھی اس تحریک کے زیر اثر ادب تخلیق کیا۔ حتی کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اس ادبی تحریک کے اثرات موجود ہیں۔ شجر، فیض ،فاخر ہریانوی ،سبط علی صبا، اثر صہبائی ، طفیل ہوشیار پوری ، حفیظ صدیقی ، تاب اسلم ،اصغر سودائی ، رشید آفریں،اے۔ ڈی اظہر، احسان اﷲ ثاقب، یوسف نیر، سید عدید ،صابر ظفر، سلیم واحد سلیم ، تصور کرت پوری ،عباس اثر ،ساغر جعفری ، سرمد صہبائی اور خطہ سیالکوٹ کے نوجوان شاعر ساحل سلہری اور شاہد ذکی کے ہاں رومانوی تحریک کے گہرے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

          ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ۱۹۳۶ء میں ہوا ۔یہ ایک موثر اور پر جوش سماجی تحریک تھی۔ اس تحریک نے معاشی نا انصافی کے دورمیں انسانیت اور مساوات کو مذہب کا درجہ دیا اور ادیب کو سائنسی اور تجزیاتی نقطہ نظر سے آشنا کیا ۔ اس تحریک نے پوری دنیا میں استحصال کے خلاف سماجی انصاف کا احساس پیدا کیااوریوں ادب میں بنگالی موضوعات اور ردِ عمل کے جذباتی تاثر کو جگہ مل گئی ۔ یہ ایک مقصدی ادب تخلیق ،کرنے والی تحریک تھی۔ جس کے زیر اثر بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو ادب ایک انقلاب آفریں رویے سے آشنا ہوا ۔ترقی پسند تحریک کے ادبا نے سوچ کا سارا زاویہ ہی بدل دیا۔ فیض ترقی پسند تحریک کے سب سے مقبول اور ممتاز شاعر تھے۔ ان کے ہاں ترقی پسند نظریے کا ادراک واضح انداز میں موجود ہے۔ اس فکری تحریک کے زیر اثر فیض نے عشق سے انقلاب کی طرف قد م بڑھایا۔ اور جذبہ و نظریہ دونوں کے ساتھ نباہ کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے اشعار کھلم کھلا حکمران اور سامراج طبقے کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی وجہ سے فیض نظریاتی طور پر اشتراکی اور سوشلسٹ تھے اور پاکستان میں بھی اشتراکی نظام کے نفاذ کے خواہش مند تھے۔ آپ مساوات اور امن کے قائل تھے اور قیام پاکستان کے بعد آس لگائے بیٹھے تھے کہ اسلام کے نام پر ہی سہی یہاں جمہوریت ،امن اور مساوات کا سورج طلوع ہو گا اور اظہار خیال پر ناروا پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔

          فاخرہریانوی کے زمانہ میں اردو شاعری میں ترقی پسندانہ عناصر کا پرچار عام تھا۔ جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو فاخر رومانوی تحریک کے شاعر اختر شیرانی کے زیر اثر پختہ رومانی شاعری کر رہے تھے۔ دیگر اردو شعرا کی طرح فاخر کا متاثر ہونا ایک لازمی جزو تھا۔ چنانچہ ان کے کلام میں بھی ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار ہونے لگا۔ آپ نے بھی مزدوروں اور کسانوں کی حمایت میں نعرے لگائے اور اپنی شاعری میں ترقی پسندانہ نظریات کو پیش کیا جن کا پرچار ترقی پسند ادبا پوری دنیا میں کر رہے تھے ۔آثم مرزا کی آزاد نظموں میں بھی ترقی پسندانہ خیالات کا اظہاربرملا ملتا ہے لیکن وہ اپنے آ پ کو مریضانہ طورپر ترقی پسند اور اشتراکی فلسفے کے تابع نہیں کرتے ۔ سبط علی صبا کی غزلوں میں بھی سیاسی و سماجی شاعری کے ساتھ ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں فیض کی طرح زنداں ،سلاسل ، تیرگی اور داروسن جیسے امیجز دیکھے جا سکتے ہیں۔آپ ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ ممبر تھے۔ سیالکوٹ میں انجمن ترقی پسند مصنفین ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی۔ سیالکوٹ میں اس انجمن نے ترقی پسند سوچ کو پروان چڑھایا۔ اس تحریک سے وابسطہ شعرا و ادبا نے اپنے ترقی پسندانہ نظریات کی بدولت اپنی پہچان کروائی۔ اس انجمن میں شجر طہرانی ، سلیم واحد سلیم ،اثر صہبائی ،وحید قریشی ، جابر علی سیداور محمد خان کلیم بھی شامل تھے۔ ۱۹۵۳ء میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین پرپابندی لگا دی گئی تو ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے انجمن آزاد خیال مصنفین کی بنیاد رکھی۔ سیالکوٹ میں تصور کرت پوری اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سیالکوٹ میں تاب اسلم ،گلزار حیدری ، اکبر ملک ، عباس اثر ،شفیع ضامن، ساغر جعفری اور قمر تابش نے بھی اس ادبی تحریک کے زیر اثر ترقی پسندانہ خیالات میں بھر پور شاعری کی ۔ جگر مراد آبادی سیالکوٹ میں اس انجمن کے مشاعروں میں شریک ہوتے تھے۔ حفیظ صدیقی، صابر ظفر، رشید آفریں ، یوسف نیراور امتیاز اوجھل باقاعدہ طورپر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے مگر اس تحریک کے تحت کی جانے والی شاعر کے کچھ موضوعات ان کی نظموں اور غزلوں میں آگئے۔ ان شعرا کی شاعری پر ترقی پسند تحریک کے واضح اثرات نظر آتے ہیں- فیض کی طرح ان شعرا کو بھی آزادی کی سحر اندھیروں میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے یہ شعرا بھی وطن میں رہہ کر بھی اپنے آپ کو جلا وطن محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے معاشرتی جبر،لوٹ کھسوٹ، استحصال ،اقرباپروری ،عدم مساوات اور ظلم و زیادتی جیسے موضوعات کو ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔

          شعرا اور نثر نگار کسی بھی معاشرے کے حساس افراد ہوتے ہیں۔ وہ جس خطے، معاشرے اور ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ شعوری اور لا شعوری طورپر اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کے شعری و نثری موضوعات اسلوب اور زبان و بیان میں مقامیت کے عناصر موجود ہوتے ہیں ۔دلشاد پسروری شجر، امین حزیں سیالکوٹی ،فیض ،آتش کشمیری، میلا رام وفا، غلام الثقلین نقوی، آثم مرزا ،حفیظ صدیقی ،مجید امجد تاثیر، آغا وفا ابدالی ، تاب اسلم ،اصغر سودائی ،صابر ظفر ، اسلم ملک، یوسف نیئر اور شاہد ذکی کی تخلیقات میں مقامی زبان اور مقامی موضوعات کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔

          صابر ظفر جدید غزل گو شاعر ہیں۔ ان کے ہاں جبر کے خلاف شدید تلخی پائی جاتی ہے۔ اور انصاف کشی پر انھیں طیش آتا ہے۔ان کی غزل داخلیت اور خارجیت سے متاثر ہے۔ صابر جذبے اور فکر کے اتصال کا شاعر ہے۔ وہ تخیل کے ریلے میں تعقل سے کبھی دست کش نہیں ہوتا۔ ان کی غزل یقینا غز ل کی کلاسیکی روایت سے پھوٹی ہے مگر اس نے اپنے دوسرے ہم سفروں کی طرح اس روایت میں اپنی شخصیت ،اپنا منفرد رویہ اور اپنے عصر کی روح شامل کر کے ایک نئی روایت کی داغ بیل پڑنے کا امکان بھی پیدا کر دیا ہے۔ اردو غزل میں تسلسل بیان کے نئے قرینوں کی تلاش کے سلسلے میں صابر ظفر نے بڑے متنوع تجربے کیے ہیں۔ ان کے ہاں ترقی پسند طرزِ احساس کے تحت مزاحمتی ،شاعری ایک تسلسل کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔ انھوں نے طویل غزلوں میں پنجاب ، خْیبر پختوانخواہ ،سندھ اور بلوچستان کی لوک داستانوں کو بھی نظم کیا ہے۔صابر کے اہم تخلیقی نشانات میں اساطیر کم نما ، کی نمود اسلوب کے ایک نرالے رنگ ڈھنگ کے ساتھ ہوئی ہے۔ اساطیر کم نما میں صابر ظفر نے اسطور کے استعمال سابقہ قرینوں سے ہٹ کر وسیع تر پیرائے میں کیا ہے۔ انھوں نے مصر، عراق، یونان ،ہندوستان ،چین ،پاکستان اور عرب و عجم کی تہذیبوں کے اسطوری تصورات کو بڑے پیرائے میں نظم کیا ہے کہ قاری ان کے بارے میں آگاہ بھی ہوتا ہے اور شاعر کا تخلیقی وجدان بھی سامنے آتا ہے۔ سرمد صہبائی کی شاعری بھی جدید رویوں اور جدید رجحانات کی نمائندگی کرتی ہے۔ سماجی ، سیاسی ،قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر بھی سرمد کی لا زوال نظمیں اور غزلیں موجود ہیں۔ ان کی بین الاقوامی نظموں میں فیض کی طرح تیسری دنیا کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی نظمیں ڈرامائیت اور تصادم کا تاثر رکھتی ہے ۔ ان کی نظموں میں نیا انسان اپنے کرائسس کے ساتھ موجود ہے۔ یہ انسان رات اور صبح کی علامتوں سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس انسان کا آدھا دھڑ رات کے گہرے پانی کے اندر ہے اور آدھا دن کے خونیں چوراہے پر لٹکا ہے۔ انھوں نے جہاں جدت کی راہ کو پکڑ رکھا ہے وہاں منفرد اسلوب بھی اپنا ہوا ہے۔ انھوں نے صوفی شعراً خصوصاً بلھے شاہ اور مادھو لعل حسین کی صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر کافیاں بھی لکھی ہیں ۔یہ کافیاں آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں۔ انھوں نے اپنی شناخت کا حیتوں میں صابر ظٰر کی طرح پنجابی اور سندھی اور پشتو ،سرائیکی ،بلوچی ،پہاڑی اور دوسری علاقائی زبانوں کو اپنی شاعری میں بے دریغ استعمال کیا ہے۔ سرمد کی کافیوں میں دھرتی کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے وہ ایسے شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے مروجہ زبان و بیان سے بغاو ت کی۔ زبان و بیان کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت بیان کرنے کے لیے سرمد نے کافی کو بطورصنفِ سخن استعمال کیا ہے۔ سرمد کے معاصرین میں بیشتر جدیدیت کے مغز ہیں اس لیے ناکام نظر آتے ہیں۔ انھوں نے علامتوں کو جبراً پکڑ کر اپنی نظموں میں گھسیڑا جب کہ سرمد کے ہاں علامتیں خود بخود چلی آتی ہیں یونہی جدید غزل گو شاعر احسان اﷲ ثاقب نے اپنے مجموعہ غزل میں ہیں۔بحور کے چھیاسی اوزان میں طبع آزمائی کر کے اردو شاعری میں اپنا نام پید اکیا جو خطہ ٔ سیالکوٹ کے لیے قابلِ فخر بات ہے۔خطہ سیالکوٹ کے نثری ادب میں مولوی فیرو ز الدین ڈسکوی کی اردو ادب میں نمایاں خدمات ہیں۔ نثر میں وہ بہترین مفسرین قرآن اور سوانح نگاروں میں شامل ہیں۔ وہ لغاتِ فیروزی اور اردو قواعد فیروزی (صرف و نحو)کے بھی مصنف ہیں۔ مولوی فیروز الدین نے حضرت محمدﷺ کے ساتھ ساتھ بائیس انبیاء کے اجمالی حالات بیان کیے ہیں جن کا ذکر خدائے بزرگ و برتر نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ انھوں نے صرف انبیاء کے قصے ہی بیان نہیں کیے بلکہ واقعات سے نتائج اخذ کرکے قارئین کو اخلاقی سبق بھی دیاہے۔ مولوی صاحب علامہ شبلی نعمانی کے ہم عصر ہیں۔ اس دور میں رسولِ کریمﷺکی سوانح عمریاں لکھنے کا رواج تھا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر کو استدلال اور مناظر ے کی صدی کہا جا سکتا ہے اور ہر قسم کے ادب کی تخلیق انھی پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ کر کی جارہی تھی۔ سر سید کی ’’خطبات احمدیہ‘‘ کے بعد اردو ادب میں سوانح عمریاں لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ مولوی صاحب نے تین سوانحی تصانیف جب کہ پچاس سے زائد دین اسلام اور تاریخ اسلام کے حوالے سے دینی و مذہبی نثری کتب لکھی ہیں۔ جو تاریخی ،تبلیغی اور مناظراتی کتابیں ہیں ۔ان تصانیف میں انھوں نے سادگی اور اختصار کو حد درجہ ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ان کا اسلوب تحریر ،سلیس ،واضح اور منطقی ہے ۔جملے چھوٹے چھوٹے اور خط مستقیم میں آگے بڑھتے ہیں اور مطلب ادا کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا احساس نہیں دلاتے۔

          مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی علامہ اقبال کے اُستاد مولانا غلام حسن کے شاگرد اقبال کے ہم جماعت اور فیض احمد فیض کے عربی کے استاد تھے۔ آپ مفسر قرآن، سیرت نگار اور ایک صد سے زائد دینی و مذہبی اور مناظراتی کتب کے مصنف ہیں۔ مولوی صاحب موصوف جید عالم دین، عربی اور اردو زبان کے ماہرتھے۔ آپ کی اردو نثرمیں عربی اور فارسی زبان کے زیادہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن یہ الفاظ ثقیل نہیں بلکہ آسان اور عام فہم ہیں۔مولانا میر سیالکوٹی کی تفسیر قرآن مجید کا اسلوب کچھ یوں ہے کہ ہر آیت کا ایک الگ باب الگ نام سے قائم کرتے ہیں جس میں ہر لفظ کی خطی ترکیب اور اس کی لغوی تحقیق و تشریح کرتے ہیں اور اکثر لغوی بحوث میں عربی شاعری سے استشہاد بھی کرتے ہیں۔صرفی و نحوی تحقیق اور بلاغی نکات کا بیان کرنے کے بعد الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے اسرار و حکم کی وضاحت اور ضروری فقہی نکات پر مدلل بحث کرتے ہیں جہاں کہیں عربی عبارت بطور اقتباس درج کی ہے۔ اس کے اردو ترجمے کا بھی التزام کیا ہے اور اس کا حوالہ بھی متن کے اندر درج کیا ہے۔ مولانا پنجابی زبان کے شاعر بھی تھے چنانچہ اس ادبی ذو ق کا رنگ ان کی تفسیر میں بھی جھلکتا ہے۔ اورا کثر مقامات پر بحث کے خاتمہ پر فارسی اور اردو اشعار نظر آتے ہیں۔ ان کی تفسیر کے اسلوب میں تنوع نظر آتا ہے۔ کہیں محدثانہ رنگ غالب ہے تو کہیں ادیبانہ اسلوب ،کہیں متکلمانہ انداز۔ مولانا سیالکوٹی نے کسی ایک منہج و رجحان کو نہیں اپنایا۔ بلکہ تمام مسالک کی تفاسیر کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس لیے اس میں حدیث و سنت سے استدلال بھی ہے اور بلاغت کی ابحاث بھی ۔ صرفی و نحو ی نکات کا بیان بھی اور متکلمانہ مجادلہ بھی ہے ۔ سلف کے مقرر کردہ تفسیر قرآن کے اصول مد نظر رکھتے ہوئے تفسیر بالرائے سے گریز کیا ہے۔ مولانا نے تفسیر کو متقدمین کے اقوال کے بیان تک ہی محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اپنے زمانے کی ذہنیت و روش کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ براہین ، منقولہ و معقولہ دونوں کی مدد سے اپنے دور میں پیدا ہونے والے انکار ِ حدیث اور ختمِ نبوت جیسے فتنوں سے پیدا ہونے والے شکوک و شہبات کا ازالہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی سیرت نبوی کی تمام تصانیف میں بھی سادہ اور عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ ان کی تحریر اور اسلوب میں رنگین بیانی اور تکلف و تصنع نہیں ملتا۔ تمام عبارت باہم مربوط و منظم ہے ، بے ساختگی کے باوجود جملوں اور الفاظ میں عدم تکرار ہے۔ اگرچہ تسہیل عبارت کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے اور اکثر عبارت آسان اردو میں ہے مگر بعض مقامات پر عبارت میں قدرے مشکل الفاظ کا انتخاب بھی نظر آتا ہے۔

          محمد دین فوق کی اردو نثر کے حوالے سے ناول نگاری ، ڈرامہ نگاری ،تاریخ نگاری ،سوانح نگاری اور اردو صحافت میں اہم ادبی خدمات ہیں۔ فوق خطۂ سیالکوٹ کے پہلے ناول نگار ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’انار کلی‘‘ ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا۔ انھوں نے کشمیر کے راجوں ،مہاراجوں اور مسلمان بادشاہوں کی حکایات بھی لکھی ہیں۔ فوق نے سر سید، شبلی، حالی اور شرر کی اپنے اپنے میدان میں تقلید کی۔ فوق نے تاریخ اسلام کے ساتھ مسلم ہندوستان کی تاریخ کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ انھوں نے اپنے سماجی ناولوں میں پہلے سے موجود معروف انداز کی پیروی کی۔ ان کے سماجی ناول ان کے تاریخی ناولوں کے مقابلے میں نسبتاً کم درجے کی تصانیف ہیں ۔ناول نویسی میں فوق شرر سے متاثر نظر آتے ہیں۔ان کے ناولوں میں منظر نگاری بھی نظر آتی ہے۔ ان کی اکثر تحریروں میں مورخ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ انھوں نے تاریخ نویسی کے لیے سوانح عمری کے فن کو بہت عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ انھوں نے کشمیر کے ساتھ ساتھ دیگر قدیم و تاریخی جگہوں شہروں اور اقوام کی آسان اور عام فہم اردو میں تاریخ لکھی ہے۔ فوق نے علماء و مشائح صوفیاء ،سلاطین او ر اولیا کا تذکرہ بھی تحریر کیا ہے۔

          محمد الدین فوق کی تاریخ نویسی اور سوانح نگاری واضح طورپر مقصدیت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ وہ اپنی سوانح نگاری کے ذریعے سے انسانی عظمت کی بعض روشن مثالوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اولیائے کرام اور علماء کی سوانح عمریاں لکھیں ۔برصغیر میں صوفیا نے انسانی اور اسلامی فلاح و بہبود اور اتحاد و اتفاق کا جو معاشرہ تخلیق کیا وہ فوق کے لیے بہت بڑا محرک تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے فقیری میں بادشاہی کی۔فوق دبستان فکر کے آدمی تھے۔ انھیں پڑھتے ہوئے اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہیں کہیں اسلوب بیان کی خشکی کا گماں ہوتا ہے۔ اختصار نویسی فوق کا مستقل وصف ہے۔ بسیار نویسی کے باوجود ان کی اختصار نویسی قائم رہی۔

          مولانا ظفر علی خان کی اردو نثر میں بطور نثر نگار، مترجم اور صحافی تین حیثیتوں سے پہچان ہے۔ انھیں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً انگریزی زبان پر عبور تھا۔ ان کے زیادہ تر تراجم انگریزی سے اردو زبان میں ہیں۔ علمی تراجم کے علاوہ افسانوی ادب کی طرف ظفر علی خان کی خصوصی توجہ رہی۔ افسانوی ادب کے بعد تاریخ ،ادب ،سیاست اور تہذیب ان کا موضوع خاص رہے۔ ’’خیابانِ فارس‘‘ مولانا کی پہلی نثر ی کتاب ہے جو ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے کئی علمی و ادبی کتابوں کے ترجمے کیے۔ اصل مضمون کی لفظی و معنوی خوبیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھوں نے ترجمے میں سلاست اور صفائی کا ایسا شستہ اور برجستہ اندا زاختیار کیا ہے کہ ترجمہ، ترجمہ معلوم نہیں ہوتا بلکہ اصل تصنیف معلوم ہوتا ہے۔ وہ اصل مفہوم کو ملحوظ رکھتے ہوئے آزاد ترجمہ کرتے ہیں اور بعض اوقات ترجمہ لطف زبان اور حسن بیان کے اعتبار سے اصل عبارت سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان کے تراجم کی زبان و بیان میں سادگی اور روانی ہے۔ محاورات کا استعمال بھی بیشتر موقع و محل کے مطابق ہے۔علمی تراجم میں عربی ،فارسی کے الفاظ اور تراکیب جا بجا نظر آتی ہے۔ لیکن افسانوی ادب میں صورت بہت کم نظر آتی ہے۔ رنگیں ، پرشکوہ اور پیچ و خم کھاتا ہوا بلند آہنگ اسلوب جو مولانا کی بعد کی تحریروں میں ملتا ہے ۔ابتدائی دور میں نہیں ملتا ہے ان کی نثر میں رومانی خطابت کا پر جوش انداز بھی ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی نثر میں شاعرانہ وسائل سے بھی کام لیا ہے۔ نثر میں صنائع و بدائع کا استعمال ،قافیوں کا التزام اور مسجع فقروں کا اہتمام ان کی نثر کو شاعری کے قریب قریب لے آتا ہے۔

          اقبال نے بہت سے ایسے موضوعات پر نثر میں قلم اٹھایا جو قبل ازیں وہ شعر میں بیان کرچکے تھے۔ ان کی نثر ان کے شعر کی تفہیم میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ اور ان کے افکار اور شخصیت کے مخفی گوشوں کو جانچنے اور پرکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ نثر میں اقبال کا اولین کارنامہ اقتصادیات کے موضوع پر علمی کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ ہے جو پہلی مرتبہ ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئیں۔ یہ تمام تصنیفات مختلف اقبال شناسوں نے مرتب کیا۔ یہ نثری تصنیفات اقبال کے افکار، مضامین ،خطوط اور نگارشات اقبال پر مشتمل ہیں۔ اقبال نے تصوف کے موضوع پر متعدد مضامین لکھے۔ اقبا ل نے بعض ضروریات کے تحت مختلف شخصیات کو ہزاروں خطوط بھی لکھے۔ ان خطوط میں کچھ خالصتاً ذاتی نوعیت کے ہیں۔ کچھ علمی و فکری اور بعض کی نوعیت محض رسمی ہے۔ ان کے خطوط کی قدرو قیمت ادبی نہیں۔بلکہ فلسفیانہ ہے۔ وہ ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ بعض اوقات توا ن پر نظر ثانی بھی نہیں کی گئی ۔اقبال کے خطوط سے ان کے نظریہ فن کے متعلق بیش قیمت معلومات و نکات فراہم ہوتے ہیں۔ ان کے خطوط کی زبان اور اسلوب بالعموم سادہ اور آسان ہے۔ البتہ کہیں کہیں مشکل اور غریب الفاظ آگئے ہیں۔ ان کی نثری تحریروں میں ہمیں انفرادی اسلوب کے علاوہ معاصرین کے اثرا ت بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اقبال ایک طرف تو سر سید تحریک سے متاثر ہیں اور دوسری طرف ’’مخزن‘‘ کی رومانی تحریک سے بھی کسی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔ اقبال کا جتنا بھی نثری سرمایہ ہے وہ مواد اور طرز بیان ہر دو اعتبار سے اس قابل ہے کہ اسے اردو کی نثری تاریخ میں نمایاں مقام دیا جائے۔ بحیثیت مجموعی علامہ کی نثری تحریریب (علم الا قتصاد ،تاریخ تصوف، اردو مضامین ، اردو خطوط ،دیباچے ، تقاریظ ) اردو کے نثری ادب میں ایک اور اہم اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

          اقبال نے کسی کی پیروی نہیں کی البتہ اپنے دور کے رجحانات اور اسٹائل کو اپنے مزاج میں شامل کر کے ایک خاص انداز کی طرح ڈالی۔ یہ خاص طرز ادا ان کی تحریروں میں ر چا بسا ہوا ہے۔لہذا ہم انھیں صاحبِ طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں۔ بہت سے اہم اور دقیق مباحث جو شعر کی محدود دنیا میں بیان نہیں کیے جا سکتے وہ اقبال نے نثر میں بیان کیے ہیں۔پنڈت بدری ناتھ سدرشن خطۂ سیالکوٹ کے افسانہ نگار ،ناول نگار،ڈرامہ نگار ،کہانی نگار اور مترجم ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’پھول‘‘ ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔ ان کی بیشتر تحریریں بنگالی زبان سے ا ردو میں ترجمہ ہیں۔ سدرشن کے افسانوں کا موضوع شہر کا ہندو سفید پوش طبقہ ہے ۔ ان کا دوسرا موضوع دیہات کی سیاسی بیداری سے متعلق ہے۔ جو کہ پریم چند کی پیروی کے نتیجے میں آیا۔ سدرشن کے افسانے کسی نئے رجحان کا احساس نہیں دلاتے۔ ان کے ہاں فنی پختگی نا پید ہے۔ ان کا زندگی کے بارے میں نکتہ نظر متصوفانہ ہے۔ ان کے کردار زندگی کا تلخ تجربہ کر کے لالچ سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ حتی کہ قناعت پسندی کی حدوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہ المیہ تاثر کا افسانہ لکھنے میں ایک منفرد سکول کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے ننانوے فیصد افسانے اسی تاثر کے حامل ہیں۔ ان کا اسلوب پریم چند کے اسلوب سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر جمشید راٹھور اثر ،فیض احمدفیض، ساغر صہبائی ،محمود احمد، جوگندر پا ل شفقت قریشی ،مسعودہ ،صدیقی ،صادق حسین ،محمداکرام ، سدرشن کے دو ر کے اچھے افسانہ نگار ،کہانی نویس اور مضمون نگار گزرے ہیں۔

          جوگندر پال قیامِ پاکستان کے بعد خطۂ سیالکوٹ کے شہرت یافتہ افسانہ نگار ہیں۔ افسانہ نگاری کا آغاز انھوں نے مرے کالج سیالکوٹ میں طالب علمی کے دور میں کیا۔ ان کا پہلا افسانہ مرے کالج میگزین میں ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا۔ انھوں نے ناول اور تنقیدی مضامین بھی لکھے جو شائع ہو چکے ہیں۔ جوگندر پال نے روایتی اور علامتی افسانے کے امتزاج سے اپنے فن کو جلا بخشی ۔ ان کے افسانوں میں سیاست، رومان، حقیقت نگاری ، مارکسی طرزِ فکر اور مختلف رجحانات ملتے ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوں اور تحریروں میں افریقہ اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں بتائی ہیں۔ ان کے افسانے بالعموم مختصر لیکن معنویت اور تاثیر کے اعتبار سے مکمل افسانے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار زندہ اور متحرک ہیں۔ ان کے بعض افسانوں میں محبت کے جذبہ کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کے ہاں لفاظی نہیں ملتی اور عبارت آرائی کی کوشش کی ان کے افسانوں میں کم ہے۔ جوگندر مغربی فن کے بڑے قائل ہیں۔ انھیں سیسپنس میں بڑا مزا آتا ہے۔ان کے افسانے جذبے سے خالی ہو کر مضمون نہیں بنتے بلکہ ان میں انسان نظر آتے ہیں۔

          مضطر نظامی کا تعلق چونکہ ساری زندگی درس و تدریس کے شعبہ سے رہا ہے۔اس لیے ان کی زیادہ تر نثری تصانیف و تالیف اس شعبہ کے متعلق ہیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے علمی و ادبی مضامین اور ڈرامہ بھی لکھا ہے۔ ان کی پہلی نثری کتاب ’’دانشکدہ‘‘ ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئی۔ یہ فارسی آموز کے لیے ایک نادر کتاب ہے۔ مضطر کے نثری کارنامے کئی اصناف پر محیط ہیں۔ جہاں تک ان کی نثری تصانیف کا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں ان کے جن مسودات تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں سے دو مطبوعہ اور باقی غیر مطبوعہ ہیں ان کی تصنیف ’’ادبستان‘‘ اردو آموز کے لیے نا در مسودہ اور’’ روح القواعد‘‘ مستند اردو گرائمر کا ایک نادر مسود ہ ہے۔ان کا ڈرامہ لکھنے کا انداز بیان اچھوتا، زبان معیاری اور ادبی آہنگ کا آئینہ دار ہے۔ اگرچہ انھوں نے چند ڈرامے لکھے لیکن ان کی یہ کاوش ان کے اس فن میں دسترس کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔

           ڈرامے ، فنی اعتبار سے فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مضطر کے مشاہیر کے نام مکتوبات میں ان کی ادبی زندگی کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ یہ مکتوبات نثری ادب کے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں۔ مضطر کے مکاتیب مختلف النوع خصوصیات کی بنا پر اردو ادب میں خاصے کی چیز ہے۔ وہ نہایت اختصار کے ساتھ مکتوب الیہ تک اپنی بات پہنچانے کا ڈھنگ جانتے ہیں ۔ ان کے مختصر جملے سیدھے سادھے ،واضح ،صاف اور ہر قسم کی بناوٹ سے مبرا ہیں۔ فیض احمد فیض کی تخلیقی زندگی کا اہم ترین باب شاعری ہے۔ ان کی نثری تخلیقات میں سب سے بیش بہا نگینہ ان کے خطوط کے مجموعے ہیں۔ ’’میزان‘‘اور ’’اقبال‘‘ بھی ان کی اہم نثری تصنیفات ہیں۔ ان کے خطوط میں ان کی فکر ،کردار ، زندگی کے اصول ،مزاج کا عکس ،محبت کا نچوڑ، انسانیت کا احترام ،حوصلے کی بلندی ،راحت اور خوشی کے بنیادی اصول ،زندگی کا حسن، جدائی کا دکھ ،پریشانی کے وجود سے انکار ،گزشتہ غربت کا تذکرہ ،روشن مستقبل کی آس، پاکستانی عوام کی صلاحیت اور جوہر کا اعتراف زندگی کو برتنے کے تعلق سے اقوال ،دوستی اور پیار قائم رکھنے کی باتیں ،ادبی نکات، ادیبوں اور ادب پاروں پر تبصرہ اور سب سے بڑھ کر ایلس فیض کے صبر ہمت اور ایثار کا اعتراف ملتا ہے۔ ان کی اسیری کے زمانے کے خطوط میں ان کی تخلیقی صلاحیت اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ان کی نثر میں ان کی تقریریں ،ادبی و تنقیدی انٹر ویو ،دیباچے ،رائیں ،نشریات ،طنزیات اور ڈرامے ،سفر نامے، تذکرے ،تاریخ و تہذیب اور پاکستانی کلچر شامل ہیں۔ فیض کی نثری تصنیفات کا اسلوب اور زبان عام فہم اور سلیس ہے۔ قارئین کو متن کو سمجھنے کے لیے کسی قسم کی دقت کا سامنے نہیں کرنا پڑتا۔

          آسی ضیائی رامپوری ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ نثر میں وہ ایک بہترین مضمون نگار، ترجمہ نگار، تجزیہ نگار اور ماہر لسانیات کے طورپر اردو ادب میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ نثر میں انھوں نے ادبی طنزیہ مضامین ،افسانے اور خوبصورت ڈرامے بھی لکھے ہیں۔آسی ضیائی کے مضامین کلاسیکی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں جن کے ذریعے انھوں نے پرانے نظریات کے پرچار کا کام نہایت خوبی سے کیا۔ وہ طنزیہ مضامین میں اپنے دور کی سیاسی ،سماجی او ر مذہبی صورت حال پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے طنزیہ مضامین کی جاذبیت اور دلچسپی بڑھانے کے لیے ’’تحریف نگاری‘‘ کا سہارا بھی لیا ہے۔آسی ضیائی کے ڈراموں اور افسانوں کے کردار ہماری واقعاتی اور تاریخی دنیا میں سانس لیتے ہیں اور بہت سی جگہوں پر ہم سب انسان ان میں شامل ہیں۔ ان کے تحقیقی ادب کے پس منظر میں صحت مند اور تعمیر ی نصب العین ہوتا ہے۔وہ محض رنگینی بیان ہی کو مقدم نہیں سمجھتے بلکہ ان کی تحریریں روح کی گہرائیوں سے اٹھتی ہوئی آواز کے مترادف ہوتی ہیں۔ ان کے تحقیقی و ادبی مضامین ہندو پاک کے مختلف ادبی رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ نثر میں ان کا ایک میدان لسانیاتی بھی ہے۔ وہ قواعد، تذکیر و تانیث کی نہایت اہم بخشش چھیڑتے رہے۔ کبھی کبھی صحت زبان کی فکر میں پڑھ کر کسی جریدے میں غلطی ہائے مضامین بلکہ غلطی ہائے الفاظ و تراکیب کا مشغلہ شروع کر دیتے ہیں۔خاص صلاحیت کے تلفظ اور محاوروں کے لیے اساتذہ کے ہاں سے ایسی ایسی سندات لاتے ہیں کہ بڑے بڑے مستند اس شبے میں پڑ جاتے ہیں کہ ان کی سند کہیں جعلی تو نہیں ۔انھوں نے اردو زبان کی صوتیات بھی مرتب کی ہیں ۔ وہ بطور مترجم ترجمہ نگاری کے فن پر بھی عبور رکھتے تھے انھیں اردو، فارسی اور عربی کے علاوہ انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے ’’برناباس کی انجیل‘‘ تصنیف کا انگریزی سے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے اس ترجمے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ترجمہ کے تمام اصولوں کو مد نظررکھا ہے یہی ان کے ترجمے کا سب سے بڑا حسن ہے۔ ان کے ادیبانہ ذوق اور اہلِ زبان ہونے نے ترجمے کو آسان اور عام فہم بنا دیا ہے ۔ساغر جعفری نے اصنافِ نثر میں علمی مضامین ،افسانے، انگریزی افسانوں اور ڈراموں کے نثری تراجم کیے ہیں۔ انھوں نے مضمون نگاری میں تحریک علی گڑھ کی روایت کو اپنایا۔ ان کے ہاں عبارت رنگین اور مرصع ہونے کے بجائے سادہ اور رواں نظر آتی ہے۔ انھوں نے سر سید اور حالی کے اسلوب کے تحت مقصدیت کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ان کے مضامین میں تاریخ ، تصوف، سیاست اور معاشرت جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ساغر جعفری نے بطور مترجم فرانسیسی روسی ، بنگالی اور انگریزی افسانہ نگاروں کے اردو زبان میں تراجم کیے ہیں۔ انھوں نے موپساں ،چیخوف ،رابندر ناتھ ٹیگور ، شرلاک ہومز اور آرتھر کا نن ڈائل کے متعدد افسانوں کا اردو میں ترجمے کر کے اردو افسانے کے ترجمے کی روایت میں اہم مترجمین میں اپنے آپ کو شامل کیا ہے۔ انھوں نے افسانے کے ساتھ ساتھ جان لائیلی ،ٹامس کاریو، ٹینی سن ،سفیلڈ،ورڈز ورتھ، شیکسپیر ، بن جانس ،سروجنی نائیڈو اور شیلے کی انگریزی نظموں کا بھی اردو نثر میں خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔ ان کے انگریزی افسانوں، ڈراموں اور نظموں کے تراجم سے تخلیق اور طبع زاد کا احساس ہوتا ہے انھوں نے مختلف مواقعوں پر اردو تراکیب، تشبیہات اور رموز و علامات سے کام لیتے ہوئے تراجم میں ادبی رنگ پیدا کیاہے۔

          خطۂ سیالکوٹ کی اردو نثر میں سلیم واحد سلیم بطور مترجم ،افسانہ نگار اور مضمون نگار بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے ،مضامین اور تراجم فنی لحاظ سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ بطور مترجم ’’تزک جہانگیری ‘‘ کا اردو ترجمہ سلیم واحد سلیم کی اردو اب کی سب سے بڑی خدمت ہے یہ ترجمہ مجلسِ ترقی ادب لاہور نے شائع کیا۔ انھوں نے ایرانی افسانوں کو بھی فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ انھوں نے ترجمہ کچھ اس شائستگی اور زبان دانی کے نکات کو برؤے کار لاکر کیا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں ہے بلکہ ان کی طبع زاد تحریریں دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ترجمہ کو تخلیق کا جامہ پہنا دیا ہے ۔ ان کے مضامین ،علمی ، ادبی ،فلسفیانہ اور طنز و مزاح پر مشتمل ہیں۔ ان کے مضامین افسانوی رنگ بھی لیے ہوئے ہیں لیکن حقائق کا مجموعہ بھی ہیں۔ خطۂ سیالکوٹ میں غلام الثقلین نقوی کی شہرت افسانہ نگاری کی وجہ سے ہے۔ لیکن انھوں نے ناول نگاری، سفر نامہ نگاری ،طنز و مزاح نگاری ،خاکہ نگاری اور مضمون نگاری بھی کی ہے۔ ان کا زیادہ رجحان افسانہ نگاری کی طرف تھا ۔مرے کالج سیالکوٹ کے ’’مرے کالج میگزین‘‘ میں ان کا پہلا افسانہ ’’سانڈنی سوار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ غلام الثقلین نقوی نے مغربی فکشن کا مطالعہ کرنے اور وہاں کے غالب میلانات سے آگاہ ہونے کے باوجود تقلید اور تتبع کے رجحان پر تین حرف بھیجتے ہوئے اپنی کہانیوں کو وطن کی مٹی سے کشید کیا ہے۔ ان کے بنیادی موضوع دیہات نگاری، مٹی کی خوشبو، موسم کا مزاج اور دھرتی پر پڑنے والا بادل کا سایہ ہے۔ ان کے فن کا سب سے امتیازی وصف یہی ہے کہ وہ قاری کو کہانی کے سیل رواں میں بہالے جاتے ہیں اور قاری افسانے کی پہلی چند سطور کو پڑھتے ہی کہانی کار کے قبضۂ قدرت چلے جاتے ہیں۔ نقوی صاحب محض دیہات نگار ہی نہیں بلکہ انھوں نے شہری زندگی ،اس کی تہذیب و تمدن، مسائل، نفسیاتی الجھنوں وغیرہ کو بھی اپنے افسانوں کو موضوع بنایا ہے۔ نقوی صاحب کے افسانوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں بار بار دیوار کا ذکر ہے۔ یہ دیوار سنگ و آہن کی نہیں بلکہ اس کے مختلف علامتی پہلو ہیں۔ وہ ان کے ہاں اردو افسانہ نگاروں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کے پس منظر میں ترقی پسند افسانے کی روایت موجود تھی۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں افسانہ نگاری کی روایت کا شعور پوری طرح موجود ہے۔ وہ کہانی پن اور بیانیہ اسلوب سے دست کش بھی نہیں ہوئے اور عصری آگہی اور جدیدیت کے حامل زاویہ ہائے نظر کو بھی چابکدستی سے اپنے افسانوں میں علامتی اور اساطیری زاویے بھی پیش کیے ہیں۔ اردو افسانوں میں پریم چند کے بعددیہاتی زندگی کو بھر پور انداز میں پیش کرنے میں غلام الثقلین نقوی کا نام بہت معروف ہے۔ وہ بلند پایہ ناول نگار ہیں۔ ’’بکھری راہیں‘‘ اور ’’میرا گاؤں‘‘ ان کے شہرہ آفاق ناول ہیں۔

          غلام الثقلین نقوی کے کردار کی سادگی اورشرافت ان کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔ ان کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ اور پاکیزہ ہونے کے باوجود دلنشین بھی ہے۔ بعض اوقات ان کی نثر میں بھی شعر کا سا لطف آنے لگتا ہے۔ ان کے اسلوب بیان میں رومانوی چاشنی بھی ہے۔ جزیات نگاری اور بیانیہ پیرائیہ اظہار بھی بالخصوص رومانیت اور حقیقت نگاری کا تال میل اس فنکارانہ طریق سے ان کے افسانوں میں ظاہر ہوا کہ جس سے ان کے افسانوں میں حقیقت کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر گزرتی رومانیت کی جوئے رواں کا سماں پید اہو گیا ہے۔میرزا ریاض اردو ادب میں بطور انشائیہ نگار، مضمون نگار ،مزاح نگار ،سفر نامہ نگا راور افسانہ نگاراعلیٰ مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ میرزا صاحب بنیاد ی طور پر افسانہ نگار کی حیثیت سے ادبی مقام رکھتے تھے لیکن انھوں نے دیگر اصناف میں بھی لکھا ہے انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کے افسانے خاک وطن سے وابسطہ ہیں اور خاص ماحول کے آئینہ دار ہیں۔ جو سر زمین وطن پر مختلف قومی اور بین الا قوامی واقعات کے دباؤ سے وجود میں آیا ہے۔ میرزا ریاض نے افسانے کے واقعاتی رخ کو اشیا اور واقعات کی فراوانی سے گرانبار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی کہانی میں وہی کچھ سمیٹا ہے جو ان کے موضوع کی پیش کش یا کر دار کی تعمیرکے لیے ضروری تھا۔ اسلوب اور انداز بیان کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو میرزا کا مقام اردو کے کسی بھی بڑے افسانہ نگار سے کم دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ جس طرح لفظوں کا استعمال انھوں نے کیا ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے موتی پرؤے ہیں۔ اگر ایک لفظ ہٹا دیا جائے تو ساری عبارت میں جھول پڑ جائے۔

          خالد نظیر صوفی کا اُردو نثری سرمایہ اقبال دارونِ خانہ(حصہ اول) اور اقبال درونِ خانہ( حصہ دوم) کی صورت میں اردو نثری ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔ ان کتابوں میں خالد نظیر صوفی اقبال کی پیدائش سے لے کران کی وفات تک ان کے تمام گھریلو حالات مستند حوالوں کے ساتھ سلیس اور عام فہم زبان و بیان کے ساتھ قارئینِ اقبالیات کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان میں صوفی صاحب اقبال کی شخصیت، اخلاق رویے اور اقبال کے اندرونِ خانہ کچھ بیرونِ خانہ اشخاص کے ساتھ تعلقات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس میں انھوں نے اقبال کی ۹ نومبر ۱۹۷۷ء تاریخ پیدائش کو بھی غلط ثابت کیا ہے۔ راقم الحروف بھی مذکورہ بالا تاریخ پیدائش کو درست نہیں سمجھتا۔ مقالہ نگار کی تحقیق کے مطابق اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے۔ جس کا اندراج میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے دفتر پیدائش و اموات میں موجود ہے۔ صوفی صاحب موصوف نے بھی مقالہ نگار کی تحقیق والی تاریخ پیدائش کو درست قرار دیا ہے۔

          اقبال درونِ خانہ (حصہ اول) میں صوفی صاحب موصوف نے اقبال کی گھریلو زندگی کے نمایاں حالات و واقعات کو بیان کیا ہے۔ اقبال درونِ خانہ (حصہ دوم) میں صوفی صاحب نے نئے انکشافات کیے ہیں اور ایسے معاملات کو چھیڑا ہے۔ جو برسوں سے مستند سمجھے جاتے رہے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں بڑی محنت سے پوشیدہ راز فاش کیے ہیں اور حقیقت واضح کی ہے جو غلط باتیں رائج ہو چکی تھیں۔ خالد نظیر صوفی نے ان کو باقاعدہ ثبوت اور دلائل سے غلط ثابت کیا ہے۔ اس کتاب کا زیادہ تر حصہ خالد نظیر صوفی کی والدہ وسیمہ مبارک کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔

          خطۂ سیالکوٹ کے آثم مرزا ۱۹۴۵ء میں اُفقِ ادب پر اُبھرے ۔انھوں نے داستان گو کی حیثیت سے کہانی ،افسانہ ، ناول اور نثر کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ اُن کی پہلی کہانی ۱۹۴۶ء میں ماہنامہ ’’پریم‘‘ دہلی میں شائع ہوئی۔ موضوعات کے حوالے سے مرزا کے افسانوں کو ’’حبِ وطن‘‘ اور ’’سماجی برائیاں اور معاشرتی اصلاح‘‘ دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کے تناظر میں ہونے والی انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۵ء تک کے تہذیبی اور جذباتی سفر کی داستان ان کے متعدد افسانوں میں نظر آتی ہے۔ ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے اور سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے ان کے افسانوں میں آواز سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے جہاں عام معاشرتی اورا نسانی جذبات پر مشتمل افسانے لکھے ہیں اور وطنِ عزیز کے تاریخی و سیاسی حالات اور تحریکِ آزادی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہاں سانحہ راولپنڈی ،المیہ کراچی ،جہادِ افغانستان ،بموں کے دھماکے اور سیاسی بحران جس سے وطنِ عزیز دو چار رہا ہے۔ مثلاً مارشل لاء اور جمہوریت کی بحالی وغیرہ پر بھی منفرد انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام، وطن کی مخصوص روایات اور تہذیبی حوالوں سے قومی یکجہتی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ انھوں نے اردو افسانے کی روایت کی تمام تر رعنائیوں کو جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ ان کے فن کی خاص خوبی یہ ہے کہ ان کا ہر افسانہ خواہ وہ روایتی طرز کا ہو یا علامتی انداز کا گہرے تاثر کا حامل ہوتاہے۔ یہ خوبی کلاسیکی افسانوں میں ملتی ہے۔ وہ ہمارے المیوں کی نشاندہی ایک ہمدردکی حیثیت سے اپنے افسانوں میں کرتے نظر آتے ہیں۔

          ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ اقبال کے بیٹے ایک افسانہ نگار ،مضمون نگار اور سوانح نگار کے طور پر اردو ادب میں اپنا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے پر ہجرت اور تقسیم ہند کے بعد کے حالات و واقعات اور ترقی پسند تحریک کے اثرات ملتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اور اپنے والد علامہ اقبال کی سوانح عمریوں بھی لکھی ہیں۔فکرِ اقبال اور اقبالیات پر آپ کی تحریروں کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے علامہ اقبال کی شاعری پر اپنی تنقید ی آرا بھی پیش کی ہیں جو اردو ادب میں ایک ادبی سرمایہ اور حوالے کا درجہ بھی رکھتی ہیں۔معروف صحافی عبدالقادر حسن کی بیوی رفعت بھی خطۂ سیالکوٹ کی اہم افسانہ نگار ناول نگار اور صحافی ہیں۔ انھوں نے اپنی نثری تحریروں کا آغاز ’’نوائے وقت ‘‘ لاہور سے کیا۔ رفعت ایک سیدھی سادی کہانی کار ہیں۔ ان کے اکثر افسانوں میں مہاجرین کے دکھ، آنسواور نا مساعد حالات نظر آتے ہیں۔ انھوں نے خواتین کی معاشرتی اور ازدواجی زندگی کی بھی بھرپور انداز میں اپنے افسانوں اور تحریروں میں عکاسی کی ہے۔ انھوں نے اپنے بے زبان کرداروں کو زبان عطا کی ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار ماضی اور مستقبل سے نہیں بلکہ حال سے تعلق رکھتے ہیں۔ خطۂ سیالکوٹ کی بلراج کومل نے متوسط طبقے کے کرداروں کی جبلی خواہشات ،بد اطمینانی اور جھنجھلاہٹ کو علامتی انداز میں اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے افسانے میں خو د تو شاعری کے خطوط پر چلنے کی کوشش کی لیکن قاری کو تجریدی تکنیک کے افسانے کا نیاذائقہ چکھنے کا موقع عطا کیا ۔ حمید رضوی کا افسانہ معاشرے کی زندہ کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ انھوں نے اپنے معاشرے کے متحرک اور زندہ کرداروں کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کو اپنی ذات ،نظریات اور مشاہدات و تجربات کا ایک ذریعہ بھی بنایا ہے۔ خواجہ اعجاز احمد بٹ کے افسانوں کی بڑی خوبی ان کے افسانوں کے موضوعات کے تنوع اور وسعت ہے۔ جنس ،محبت ،رومان ،اشتراکیت اور انفرادی و اجتماعی نفسیات سے لے کرسائنسی اور اخلاقی تسخیر تک ہر قسم کے موضوعات کا تنوع اور وسعت ہے۔ جنس، محبت،رومان ،اشتراکیت و تجربات کا ایک ذریعہ بھی بنایا ہے۔ خواجہ اعجاز احمد بٹ کے افسانوں کی بڑی خوبی ان کے افسانوں کے موضوعات کا تنوع اور وسعت ہے۔ جنس، محبت ،رومان ،اشتراکیت اورانفرادی و اجتماعی نفسیات سے لے کر سائنسی اور اخلاقی تسخیر تک ہر قسم کے موضوعات ان کے ہاں مل جاتے ہیں۔ حب الوطنی اور پاک بھارت جنگوں کے حوالے سے بھی ان کے افسانوں اور مضامین میں تاثر آفرینی کی ہر کیفیت موجود ہے۔

          سرمہ صہبائی ایک اچھے ڈرامہ نگار اور مضمون نگار ہیں۔ انھوں نے اردو اور پنجابی میں بہت دلچسپ ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ ان کا شمار جدید ڈرامہ لکھنے والے ڈرامہ نگاروں میں سر فہرست ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی ڈرامے کی روایت سے اسلوب ،تکنیک اور موضوعات کی سطح پر بغاوت کی ہے اور پاکستان اسٹیج کو جدید ڈرامے کی صورت میں ایک بلند معیار اور ایک نیا موڑ دیا ہے۔ ان کے ہاں جہاں انفرادی سوچ کا عمل ملتاہے۔ وہاں ان کا اپنا منفرد اسلوب بھی ہے۔ انھوں نے پاکستانی اسٹیج ڈرامے کو بہت سی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ان کے ڈراموں میں علامتوں اور استعاروں کا ایک وسیع استعمال ملتا ہے۔ انھوں نے جہاں جدید فنی اور فکری تکنیکوں کو استعمال کیا ہے۔ وہاں انھوں نے اپنی کلاسیکی داستانوں کے کرداروں مختلف تہذیبی اساطیر اور علامتوں کو بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن ان کو نئے معنی اور نئی صورت حال میں پیش کیا ہے۔ لسانیاتی حوالے سے بھی سرمد نے بہت کامیاب تجربے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے ڈراموں اردو، انگریزی اور پنجابی کے علاوہ مختلف علاقائی زبانوں کے امتزاج سے ایک خوبصورت اسلوب بنایا ہے۔ انھوں نے ریڈیائی ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کے ریڈ بائی ڈرامے بھی فنی اور فکری حوالے سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ان کے ڈرامے ٹی۔ وی سکرین کی زینت بھی بنے۔ وہ جدید نقاد اور مضمون نگار بھی ہیں۔ انھوں نے علمی و ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو اردو ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

          پروفیسر یوسف نیر ایک محقق اور مضمون نگار بھی ہیں۔ ان کے مضامین علمی و ادبی اور تحقیقی ہیں پروفیسر نیر نے الیگزینڈر ہیڈالی ،آزاد تلمذ، غالب گائن لیب فراسو، جار ج شور میر ٹھی اور جوشو افضل پر تحقیقی مضامین لکھ کر ادبی خدمات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ نے داغ دہلوی کے شاگرد شجر طہرانی پر ایک ضخیم تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے۔ اور مختلف ادبا و شعرا پر تحقیقی مضامین اور تبصرے بھی تحریر کیے ہیں۔خالدہ سلطانہ نگار نے مضمون نگاری اور افسانہ نگار ی کرکے اردو کے نثری ادب میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کے بعض افسانوں پر ناولوں کا گمان گزرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار نگاری ، مکالمہ نگاری ، منظر نگاری اور تحسین نگاری بڑے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔ نگار نے اپنے افسانوں میں متوسط اور نچلے طبقے کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے افسانوں میں کرداروں میں داخلی کشمکش ہر قدم پر ملتی ہے۔انھوں نے دونوں طبقات کے معاشی مسائل کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ قیصرہ حیات کا افسانہ لکھنے کا رجحان زیادہ تر معاشرتی و سماجی مسائل اور مذہبی و روحانی موضوعات کی طرف ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر ظاہر کے بجائے انسان کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اور انسان کی وحشت و جنون پر بات کی ہے۔ قیصرہ اپنی کہانیوں کے موضوعات تلاش کرنے کے لیے ایک جگہ نہیں رکتی بلکہ پورے معاشرے پر نظر ڈالتی ہے۔

          غزالہ شبنم کے افسانے کا بڑا موضوع عشق و محبت ہے۔ ان کی لکھی ہوئی تمام نسائی کہانیاں کم و بیش اسی نقطے کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ فنی لحاظ سے اگرد یکھا جائے تو ان کے افسانے انشائیے لگتے ہیں۔ ان میں شاعرانہ صفت ہے جو افسانے کو فوراً اپنا قالب عطا کر کے انشائیے کو چولا پہنا دیتی ہے۔ یا آزاد نظم بناد یتی ہے۔ نصیر احمد اپنے ناولوں میں جبر و استحصال کی قوتوں کے خلاف جدوجہد میں اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کرتا نظر آتا ہے۔ انقلاب اور جذبہ ان کی تحریر کے مرکزی موضوعات ہیں۔ان کے ہاں حقیقت ،رومانیت اور تاریخ نگاری کے عناصر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جدید اور علامتی افسانہ نگاروں میں ایک نام نصرت جان کا بھی ہے۔ جو ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں معاسرتی نا ہمواریوں ،نا انصافیوں ،استحصال، معاشرتی بے حسی و بے بسی ،ظلم و جبر اور دہشت گردی کے خلاف اپنی قلم کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں طوالت ملتی ہے۔ مگر حقیقت نگاری کی وجہ سے قاری اسے ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور ہو جاتاہے۔ عمیرہ احمد بہت زیادہ پڑھی جانے والی شہرہ آفاق ناول نگار، کہانی کار اور ڈرامہ نگار ہیں۔ ان کے ناولوں کو بھی ڈرامائی شکل دی گئی ہے۔ وہ ایک سکرپٹ رائٹر بھی ہیں اور آج کل مختلف ٹی۔ وی چینلز کے لیے سکرپٹ لکھ رہی ہیں۔ مذہب اسلام اور روحانیت ان کے نالوں کے مرکزی موضوعات ہیں۔ ان کے زیادہ تر ناول پاکستان کے ایلیٹ طبقے کی زندگی کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ عمیرہ احمد نے مذہب اور خاص طورپر مذہب اسلام اور اس سے متعلق بنیادی عقائد عبادات اور تعلیمات کو خاص طورپر اپنے تمام ناولوں کا حصہ بنایا ہے۔ سیرت کے حوالے سے بھی عمیرہ احمد نے چند ناول لکھے ہیں جن میں پیرِ کامل کو زیادہ پڑھا گیا ہے۔ ان کے ناولوں کا ایک خاص اسلوب ہے اس حوالے سے ان کے کرداروں کے مکالمے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مکالموں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہم مذہبی عقائد اور عبادات کے حوالے سے ان کرداروں کے مذہبی اور دینی رجحان سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایسے کردار جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے اور ایسے جو مذہب پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے کرداروں کے مکالمے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی رجحانات کا اظہار کر رہی ہیں ہم اگرچہ نہیں کہہ سکتے کہ عمیرہ احمد نے مولوی نذیر احمد کی طرح کرداروں کے منہ میں اپنی زبان رکھ دی ہے۔

          اقبال شناسی کے حوالے سے تنقید میں ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ایک بہت بڑی آواز ہیں۔ نہ صرف خطۂ سیالکوٹ میں بلکہ عالمی سطح پر اقبال شناسی کی روایت میں خواجہ عرفانی ایک اہم اقبال شناس ہیں۔ اقبال کو ایران میں متعارف کروانے میں بھی عرفانی صاحب کا اہم کردار ہے۔ اقبال شناسی کے حوالے سے خواجہ عرفانی نے اردو میں ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں ‘‘،’’اقبالِ ایران‘‘ اور ’’پیامِ اقبال‘‘ تین اہم کتابیں تخلیق کی ہیں۔ ان کتابوں میں خواجہ عرفانی کی اقبال پر تنقیدی آرا بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مضطر نظامی بھی سیالکوٹ کی اقبال شناسی کی روایت میں اہم نام ہے۔ ان کی اس سلسلے میں پہلی کاوش ’’مثنوی پس چہ کرد اے اقوا مِ مشرق‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ یہ اردو ترجمہ خود نوشت اور غیر مطبوعہ ہے اور اس کے علاوہ ’’اقبال کا عشقِ رسول‘ ‘، ’’زجاج افرنگ‘‘ ،’’طاہر نامہ‘‘ اور ’’قرآنیات اقبال‘‘ مضطر نظامی کی اقبال شناسی کے حوالے سے غیر مطبوعہ تصانیف ہیں۔

          طاہر شادانی بھی اقبال شناسی کی روایت میں ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے فارسی حصے کا اردو نثر میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اقبال پر تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔ آسی ضیائی رامپوری کا نام بھی قد آور اور اقبال شناس ناقدین میں شامل ہے۔ انھوں نے کلام اقبال پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایک کتاب ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ اور متعدد مضامین لکھے ہیں۔ فیض احمد فیض بھی اقبال کے فکر و فن پر ایک کتاب ’’اقبال‘‘ لکھ کر اقبال شناسی کی روایت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کتاب کو شیما مجید نے مرتب کیا ہے۔ خطۂ سیالکوٹ کے قد آور اقبال شناس جابر علی سید بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی تنقید میں کلامِ اقبال اور انکے فکرو فن پر خصوصی توجہ دی ہے۔ عملی تنقید کے سلسلے میں اقبال جابر علی سید کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اقبال پر باقاعدہ دو تصانیف ’’اقبال کا فنی ارتقا‘‘ اور ’’اقبال۔ایک مطالعہ‘‘ کے عنوانات سے تحریر کی ہیں۔ تیسری کتاب ’’تنقید اور لبریزم ‘‘ ہے۔ جو مکمل اقبال کے حوالے سے نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ اقبال پر تنقید پر مشتمل ہے۔ ان کی چوتھی کتاب ’’اقبال اور الہلال‘‘ غیر مطبوعہ ہے۔ اس کے علاوہ جابر علی سید کے اقبال پر غیر مطبوعہ تنقید ی مضامین بھی موجود ہیں۔

          اسلم ملک کی اقبال شناسی کے حوالے سے پہلی کتاب ’’مطالعاتِ اقبال‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ۔ یہ کتاب اقبال کے حوالے سے مقالات پر مشتمل ہے۔ ان کی دوسری تصنیف ’’تعلیماتِ اقبال‘‘ ہے ۔جس میں ممتاز اقبال شناسوں کے مقالات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’’اقبال مفکرِ پاکستان ‘‘ ،’’علامہ اقبال بچپن اور جوانی‘‘ اور ’’بچوں کا اقبال‘‘ اقبال شناسی کے حالے سے اہم کتابیں ہیں۔ خواجہ اعجاز احمد بٹ بھی ’’اقبال اور مرے کالج ‘‘لکھ کر اقبا ل شناسوں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا ناقدینِ اقبا ل کے علاوہ پروفیسر محمد دین بھٹی عبدالحق ،نصیر احمد،تحمل علی راٹھور، ایس۔ڈی ظفر ،اے ڈی اظہر ،ستار لودھی ، پروفیسر حفیظ الرحمان احسن، اعزاز احمد آذرؔ، اطہر سلیمی ،ڈاکٹر عادل صدیقی ،پروفیسر محمد امین طارق، ڈاکٹر اصغر یعقوب ،اصغر سودائی اور یوسف نیر نے بھی اقبال شناسی کے حوالے سے تنقیدی مضامین رقم کیے ہیں۔ ڈاکٹر جان جوزف،سلیم حیدر سلیم ،محمد عبداﷲ قریشی، قمر تابش، قاضی انعام الرحیم ،راج کماری ،کلدیپ کور، گلزار شوکت، طفیل انجم یوسف، ایلونِ گل ،صادق گلابِ دین، اختر رمضان، عابد حسن ملتانی ، مسرت یعقوب ،زاہد سعید گل، گلزار چوہان ،اکرام الحق قریشی ، اے بٹ،انعام اﷲ میر ،اکرم قریشی ، ڈاکٹر جاوید اقبال ،کلیم احمد شجاع ،خالد جاوید، خالدہ سلطانہ ،ایس ڈی ظفر،ایس ایف گیلانی ،صفدر احمد، ڈاکٹر عبدالسلام ،محمد احسن، پروفیسر ایم سرور، محمد شعیب ،ممتاز گیلانی ،محمد قمر منیر، اظہر احمد ، سیدو حیدر الدین ،وارث رضا ہمایوں اختر اور محمد دین فوق نے بھی اقبال شناسی کے حوالے سے تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔

          عبدالحمید عرفانی اقبال شناس کے ساتھ ساتھ ایک نقاد بھی ہیں۔ ان کی تصنیفات ’’کلامِ نفیس‘‘ ،’’مقدمہ دل و نگاہ‘‘ ،’’مقدمہ پیر مغاں‘‘ میں عرفانی صاحب کی تنقید ی آرا دیکھی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ بالا کتب میں عرفانی نے معروف ادبا مولوی الف دین ،لطیف جلیلی ،غنی صاحب، علامہ اقبال اور غلام دستگیر القادری کے فکر و فن کا جائزہ لیا ہے۔ ان کتابوں میں عرفانی کے ہاں تقابلی تنقید اور جمالیاتی تنقید کا رنگ نظر آتا ہے۔ فیض احمد فیض بھی خطۂ سیالکوٹ کے ناقدین میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی دو تنقیدی کتابیں ’’میزان‘‘ اور ’’فیضانِ فیض ‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو شیما مجید نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتب فیض کے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔ فیض کے تنقید ی مضامین اور تبصرے شعر کے اسلوب اور مواد کے اعتبار سے حقیقت نگاری اور توازن کی عمدہ مثال کہے جا سکتے ہیں۔ ترقی پسند تنقید کے بنیادی مسائل کی تشریح عام فہم انداز میں جس طرح فیض صاحب کے تنقیدی مضامین اور تبصروں میں ہے۔ وہ کسی دوسرے ناقدین ادب کے مضامین میں نہیں ملتی۔ فیض کا اپنے تنقیدی مضامین میں ادبی و تنقیدی مسائل کا تجزیہ قابلِ فہم اور تشفی بخش ہے۔ وہ اپنی تنقید میں ادبا کے بنیادی عقیدوں میں استواری کے باوجود اپنے سے مختلف نقطہ نظر کے لیے بھی گنجائش کے قائل ہیں۔ فیض قدیم ادب کی صالح روایتوں کے حق میں بھی ہیں۔ فیض کی تنقید بنیادی طورپر ترقی پسند نظر یے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کا نقطہ نظر بنیادی طور پر سماجی ہے وہ ادب کی اہم قدر حسن کے بھی قائل ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا ادب جو حسن سے دور ہے۔ اس کی افادیت مشکوک ہوتی ہے۔ انھوں نے ادب، ثقافت، فلم ،متقدمین اور معاصرین کے فن پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ انھوں نے ترقی پسند ی ،تنقید، تخلیق، غزل گوئی اور ناول نویسی پر بھی بڑے سلجھے ہوئے انداز میں اپنا ماضی الضمیر بیان کیا ہے۔

          آسی ضیائی رامپوری ایک تاثراتی اور جمالیاتی نقاد ہیں۔ ان کی تنقید میں دونوں تاثراتی اور جمالیاتی تنقید کے نمونے ملتے ہیں۔ وہ ادب کو پرکھنے کے لیے کسی اصول یا معیار کو مد نظر رکھنے کی ضرورت محسو س نہیں کرتے بلکہ کسی بھی ادب کے مطالعہ کے بعد اس سے حاصل شدہ ذاتی تاثرات کو تنقید کے طورپر پیش کر دیتے ہیں۔وہ فن برائے فن نظریہ کے بھی قائل ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین میں یہی انداز کار فرما نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں عمرانی نظریات بھی ملتے ہیں۔ انھوں نے ہر ادیب کا مطالعہ اس کے عہد کے تاریخی و سیاسی حالات کی روشنی میں کیا ہے۔ لہذا ان کی تنقید جمالیاتی یا تاثراتی اور عمرانی تنقید کا ایک حسین سنگم ہے۔ اکثر نقاد کسی بڑی شخصیت پر عادلانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے ڈرتے ہیں مگر آسی ضیائی رامپوری اپنی تنقید میں عدل سے کام لیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ میں اقبال جیسے بڑے فلاسفر مفکر اور شاعر کی کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اور اپنی تنقید میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھ کر ایک غیر جانبدرانہ نقاد کا حق ادا کیا ہے۔

          جابر علی سید کی تنقید کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ انھوں نے تنقید کے بہت سے نئے نظریے وضع کیے اور اپنی عملی تنقید میں ان کے نظریات سے پورا پورا کام لیا ہے۔وہ تنقید ادب کو کسی خاص تحریک یا کسی خاص نظام سے وابستہ کرنے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس قسم کی وابستگی نقاد اور اس کی تنقید کو محدود اور کم وزن کر دیتی ہے۔ وہ تنقید کو ایک آفاقی اور یونیورسل حقیقت سمجھتے تھے۔ وہ تنقید کو ہر قسم کی سیاسی اور دوسری نظریاتی وابستگی سے آزاد اور بے تعلق دیکھنے کے حامی تھے۔ان کے نزدیک کسی فن پارے کی قدر و قیمت اور اس کی فضیلت و اہمیت اس کی جمالیاتی تنوع او رترفع کی وجہ سے ہے۔ اس طرح وہ ایک جمالیاتی یا تاثراتی نقاد کہلاتے ہیں۔وہ تنقید میں تخلیقی عنصر کے ساتھ ساتھ تحقیق کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تنقیدی نگارشات میں چاہے ان کا تعلق نظری تنقید سے ہو یا عملی تنقید سے ،تحقیق کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔

          جابر علی سید نے نہ صرف اقبا ل کے موضوعات پر تنقید کی ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے فنی سرمایہ سے غالب ،عمر خیام، عابد علی عابد ،کلیم الدین احمد ،میرا جی، عزیز احمد، راشد ،پطرس، فیض ،اختر شیرانی اور بہت سے دوسرے شاعروں اور ادیبوں کو اپنے فن میں جذب کر لیاہے۔ جابر کا بنیادی طورپر جمالیاتی دبستانِ تنقید سے گہرا تعلق ہے مگر ان کا جمالیاتی رویہ جمالیات کے عام نقادوں سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی وہ اردو کے ایک مستند نقاد ہیں۔ اور ان کی تنقید اردو کے ایوانِ تنقید کا ایک درخشندہ باب اور روشن مینارہے۔حفیظ صدیقی باقاعدہ نقاد تو نہیں لیکن شخصی مطالعات میں ان کے بعض مضامین تنقیدی نوعیت کے ہیں۔ وہ شعر وا دب کے حوالے سے مختلف موضوعات پر اپنے مخصوص تنقیدی زاویہ نظر سے تحلیل و تجزیہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔عملی اور اطلاقی تنقید کے حوالے سے ان کی کئی تحریریں دیکھی جا سکتی ہیں سلیم واحد سلیم کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین اور تحریریں اردو ادب میں ایک سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید کو بھی جمالیاتی تنقید میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ طاہر شادانی کے تنقیدی مضامین شخصی نوعیت کے ہیں جو انھوں نے مختلف شخصیات سے متاثر ہو کر لکھے ہیں۔ کچھ مضامین ادبی نوعیت کے ہیں اور ایسے مضامین بھی ہیں جن میں کسی فن پارے کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے ۔ انھوں نے مختلف کتابوں پر تنقیدی تبصرے بھی لکھے ہیں۔ کچھ تبصرے تو مضامین کی شکل میں ہیں۔ انھوں نے ہندوستانی ادیبوں کے علاوہ عالمی مشاہیر کے فکر و فن پر بھی تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ تاب اسلم بھی باقاعدہ نقاد نہیں ہیں لیکن انھوں نے مختلف ادبی فن پاروں پر تنقیدی مضامین اور تبصرے لکھے ہیں۔ وہ خطۂ سیالکوٹ سے دو ادبی محلے ’’ید بیضا ‘‘ اور’’ انتخاب‘‘ نکالتے رہے ہیں جن میں ان کے تنقیدی مضامین اور تبصرے شائع ہوتے رہے۔ داغ دہلوی کے شاگرد شجر طہرانی پر ایک تحقیق و تنقیدی مقالے میں یوسف نیر کو بھی ایک نقاد کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہندوستانی او ر یورپین ادبا پر تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔ وہ ادب کو زندگی میں اور زندگی کو ادب میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ ادب کا تنقیدی جائزہ معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لیتے ہیں۔ وہ ادب میں ترقی پسند تنقید کے قائل ہیں۔ عبدالرحمن اطہر سلیمی بھی تنقیدی و ادبی مضامین لکھتے رہے ان کے مضامین ’’اوراق‘‘ ،’’ فنون‘‘،’’ محفل‘‘،لاہو ،’’تحریریں‘‘لاہور اور ’’انتخاب‘‘ سیالکوٹ میں شائع ہوتے رہے۔ ان کی ایک غیر مطبوعہ تنقیدی کتاب ’’تنقیدیں اور تبصرے ‘‘ بھی ہے۔ جس میں بڑے بڑے مشاہیر کے فن پاروں پر تنقید اور تبصرہ شامل ہے۔ ساحل سلہری کی تحقیقی و تنقیدی کتاب عباس تابش ایک مطالعہ پچھلے سال شائع ہوئی۔ اس کتاب میں وہ جدید غزل گو شاعر عباس تابش کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں اس میں انھوں نے عہد حاضر کے جدید غزل گو شعرا کا تذکرہ بھی بخوبی کیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب جدید اردو غزل کی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ اس تصنیف میں ساحل کا اسلوب منفرد ہے اور اس کی تنقید ایک تخلیق لگتی ہے۔

 

 

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...