Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > سیالکوٹ میں اردو شاعری کا ارتقا 1947 تا 2010

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

سیالکوٹ میں اردو شاعری کا ارتقا 1947 تا 2010
ARI Id

1688388584597_56116231

Access

Open/Free Access

Pages

11

سیالکوٹ میں اردو شاعری کا ارتقاء(۱۹۴۷ ء تا۲۰۱۰)

سیالکوٹ ایک تاریخی اور ادبی خطہ  رہا ہے۔ اس کی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے ۔یہ خطہ  جغرافیائی لحاظ سے اس مقام پر واقع ہے جہاں کئی آبی گذرگاہیں ہیں۔ کشمیر اور پنجاب کے دیگر تجارتی شہروں سے اس کا قریبی رابطہ ہے۔ سیالکوٹ تاریخی، ثقافتی، سماجی، تہذیبی، علمی اور ادبی لحاظ سے لاہور اور دوسرے ادبی، ثقافتی، تہذیبی، تاریخی اور علمی شہروں سے کسی طور پر بھی کم نہیں ۔ اس شہر کی ثقافت توانائی اور رنگا رنگی لیے ہوئے ہے۔ یہاں کے میلے ٹھیلے، روایتی تہوار اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں اس  خطے  کو  ہمیشہ ممتاز کرتی رہی ہیں۔      
سیالکوٹ کو اقبال و فیض کے مولد ہونے کا لا زوال فخر حاصل ہے۔ یہ ایک صنعتی شہر ہے۔ اس کی آبادی تقریباً تیس لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے سر زمین سیالکوٹ صدیوں کی انسانی تہذیب و تمدن اور ادب و ثقافت کا عظیم الشان گہوارہ ہے ۔ اس دھرتی کے تاریخی آثار  مدت سے مورخین و ماہرین آثار قدیمہ کی دلچسپی کا سامان بھی رہے ہیں ۔ یہاں کی تہذیب ٹیکسلا اور موہنجو ڈارو کی تہذیبوں کے ہم پلہ ہے۔
   سیالکوٹ کی مٹی بڑی زرخیز اور مردم خیز ہے ۔سرزمین سیالکوٹ نے علم و ادب اور فنون لطیفہ کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس خطے کے باشندوں  نے پاکستان کی صنعتی  و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ علم و فن کی خدمت بھی جاری رکھی ۔ ماضی میں ملا کمال کشمیری ، ملا عبدالحکیم سیالکوٹی، امین حزیں سیالکوٹی ، اثر صہبائی، مرزا ریاض  اور غلام الثقلین نقوی نے علمی وادبی حوالے سے سیالکوٹ کا نام روشن کیا۔ مولوی میر حسن ، مولوی ابراہیم میر، ڈاکٹر جمشید راٹھور اور یوسف سلیم چشتی نے علم کی پیاس بجھائی۔ (1)
ڈاکٹر  وحیدقریشی سیالکوٹ کے ادبی ماحول کے بارے میں رقمطراز ہیں۔
’’دینی کے علاوہ ادبی لحاظ سے بھی سیالکوٹ کی شعری روایت اہمیت رکھتی ہے۔ داغ دہلوی کے کئی شاگرد سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ۔ یہ شہر کشمیر سے آنے والی آبادی کا بھی مرکز ہوا۔ جموں بھی یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔  سری نگر کی طرف جانے والے راستے بھی جہلم کے بعد گجرات  کے آس پاس سے نکلتے تھے۔ اس لیے ان علاقوں کی ادبی سرگر میوں کی دھمک سیالکوٹ میں  صاف سنائی دیتی تھی۔ اقبال، محمد الدین فوق ، امین حزیں ، اثر صہبائی ، عبد الحمید عرفانی ایک مستحکم شعری روایت کے امانت دا ر تھے ۔ پسرور میں عبدالطیف تپش نے جوت جگائی تھی اس میں فاخر ہریانوی اور محمد ضیا احمد کا نام اس کے علاوہ ہے۔ طفیل ہوشیارپوری کے بھائی یعقوب کے قیام کی وجہ سے طفیل ہوشیار پوری کا مسکن بھی سیالکوٹ ہی بنا رہا ۔ پھر ا صغر سودائی اور مجید تاثیر کے نام آتے ہیں۔ اس سے اگلی  نسل میں جابر علی سید اور کرشن موہن اور محمد خان کلیم کی شعری تربیت گاہ یہی سیالکوٹ  کی نگری تھی۔ اُنیسویں صد ی کے اوائل سے بیسویں صدی کے آخر تک سیالکوٹ  تجارتی مرکز ہی نہیں تھا بلکہ ادب کا بھی اہم مرکز رہا۔ یہاں کے شاعروں نے اُردو  دنیا ہی میں نام پیدا نہیں کیا بلکہ نثر نگاروں نے بھی عربی، فارسی اور اُردو کی علمی روایت کو زندہ رکھا ۔ ‘‘(2)
دیگر فنون کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی سیالکوٹ کسی شہر سے پیچھے نہیں رہا ۔اقبال کے ہم عصر شاعر شجر طہرانی کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا۔ آپ کی شاعری پر غالب ، داغ اور اقبال کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب آپ میڈیکل کالج لکھنو میں طالب علم تھے تو اُسی دور میں آپ کو حضرت داغ دہلوی  کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ اس دور میں  انہوں نے باقاعدہ ادبی زندگی کاآغاز  کیا۔ شجر  اپنا کلام  داغ دہلوی کو دکھایا کرتے تھے۔(3) شجر نے 80سال  متحرک ادبی زندگی گذاری  اور تقریباً ایک لاکھ شعر کہے۔ آج ان کے  رشتہ داروں کے پاس ۲۲مسودے محفوظ ہیں لیکن ان کے اکثر مسودے  نایاب ہیں اور گُم ہو گئے ہیں ۔شجر کا  پہلا مجموعہ  ’’صبر جمیل‘‘ (مثنوی)۱۸  اگست ۱۹۲۸ء کو شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’زبان فطرت‘‘ نظموں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ ۱۹۲۹ء کو شائع ہوا۔  شجر نے  اس مجموعے میں خاور گل، نسیم و بہار، شام و سحر،  روزوشب، نوروز ظلمات کے تعلق اور الفاظ سے واقعات عالم اور فناو بقا کے مسائل کو  دلچسپ اور دلآویز پیرائے میں حل فرمایا  ہے ۔ ’’ جہاں گرد ‘‘ شجر کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو  توحید و رسالت، اخلاقیات، نفسیات، تجلیات، شخصیات ، اعمال ، وطنیت اور عید کے تحت  ترتیب دیا گیا ہے۔ شجر محبت سے بھرپور دل کے مالک تھے ۔وہ احترام  انسانیت کے قائل تھے ان کی شاعری میں  انسانی محبت کے نمونے جا بجا بکھرے پڑے ہیں ۔پروفیسر یوسف  نیر ان کی انسان نوازی اور محبت کے بارے میں کہتے ہیں:
’’ان کا خلوص اور انسانیت کا مہمان منصب ان کی شاعری کی جان ہے۔ اونچا فنکار نفیس انسان ہوتا ہے ۔ اس کی چھاتی میں انسانیت کا دودھ رواںدواں ہوتا ہے۔ شجر صاحب اعلیٰ فنکار ہیں ۔ وہ انسانیت کی قدروں کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (4)
 غالب، مومن اور ذوق کے بعد دبستان دہلی کے جس شاعر نے اپنے معاصرین اور بعد میں آنے والے شعراکی ایک بڑی تعداد کو اپنے فن اور شاعری سے متاثر کیا وہ مرزا داغ دہلوی  ہے۔ داغ دہلوی کا رنگ تغزل اور اسلوب اس قدر مقبول ہوا کہ پورے ہندوستان کے نوجوان شعرا  اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔   شجر کے پھوپھی زاد کے داغ کے ساتھ مراسم تھے۔ داغ کے حضور حاضر ہو کر شجر اپنا کلام سنایا کرتے تھے  ایک شعر داغ نے پسند بھی کیا اور  اپنا شاگرد بنا لیا۔ شجر نے  دو  سال داغ سے اصلاح لی۔(5)
 ہر مخلص اور باشعور شاگرد اپنے اُستاد سے محبت کرتا ہے ۔ شجر نے اُستاد داغ کو بڑے مخلصانہ  الفاظ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ۔شجر لکھتے ہیں:
 نغمے چھیڑے ہیں بلبلوں نے پھر
 پھر بہاروں پہ داغ آئے ہیں
  یوں فضائیں غزل سرا ہیں شجر
 جیسے جنت سے داغ آئے ہیں
داغ کا کوئی بھی شاگرد ان کے رنگ، اسلوب اور شاعری سے بچ نہ سکا۔ اقبال جیسا صاحب طرز اور صاحب اسلوب شاعر بھی داغ کے اثر سے بچ نہ سکا۔ شجر کی بھی متعدد غزلیں اپنے اُستاد کے رنگ میں بھیگی ہوئی ہیں۔ ان غزلوں میں داغ  کا عکس نظر آتا ہے۔ شجر  نے داغ کی زمینوں میں غزلیں لکھی ہیں۔ ان غزلوں کا لب و لہجہ اور زبان داغ کی زبان سے لگا کھاتی ہے۔ صنائع بدائع اور تشبیہ و استعارات کے استعمال نے اُن کی شاعری کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ شجر کی تشبیہ زندگی  سے مربوط ہے اور استعارے بھی ہمارے سامنے کے ہیں۔  غیر مانوس تشبیہ اور استعارات سے گریز کیا گیا ہے شجر کی شاعری میں ضرب المثل، تلمیحات اور محاورات کا بھرپور استعمال  ملتا ہے ۔ شجر نے غزل میں مشکل اور لمبی ردیفوں سے غزل کو سنوارا ہے۔ شجر کے مسودے’’ نوائے سروش‘‘ میں ایک غزل دو قافیوں میں موجود ہے۔
 مولانا ظفر علی خان کو بھی شجر کی طرح حیدر آباد  میں داغ دہلوی کی صحبت میسر آئی  لیکن  علامہ شبلی نعمانی کی نصیحت پر داغ کا رنگ اختیار نہ کیا۔ شعرو شاعری کے ساتھ ساتھ آپ ایک بے باک اور نڈر  صحافی بھی تھے آپ نے ’’زمیندار‘‘ اور ’’ ستارہ صبح ‘‘ کے علاوہ بہت زیادہ اخبارات و رسائل نکالے جن کی شہرت سارے برصغیر میں پھیلی۔  ظفر علی خان کا پہلا مجموعہ ’’ بہارستان‘‘  کے نام سے 1934ء میںشائع ہوا۔(6) اس میں اُن کا ابتدائی اُردو اور فارسی کلام ہے ۔ ترتیب کے اعتبار سے یہ مجموعہ حسب ذیل طریقہ پر مرتب کیا گیا ہے۔۔
حمد باری تعالیٰ، نعت ، اسلام، اسلامی روایات، ستارہ صبح کے دور کی نظمیں، نوحے اور مرثیے۔
 دوسرا مجموعہ نگارستان ہے۔ اس مجموعہ کلام میں سیاسی و فلسفیانہ شاعری طنزیہ نگاری اور صحافتی شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی مرصع کاری کے شاہکار بھی نظر آتے ہیں ۔ تیسرے مجموعے ’’ چمنستان‘‘ میں اہم ترین نظمیں اور قطعات ہیں جن کی اہمیت  سیاسی، اسلامی اور معاشرتی لحاظ سے ہے۔ (7)
چوتھا مجموعہ کلام  ’’خیالستان‘‘ ہے جو سیاسی و ادبی غزلوں کے علاوہ نعت پر مشتمل ہے۔ پانچواں مجموعہ  ’’حبسیات‘‘ نظر بندی اور اسیری کے دوران مکمل ہوا۔ اس مجموعہ  میں حمد، نعت، اخلاق، سلف صالحین، اخلاق مرتضوی، انسان کی آزادی، اسلامی تصور، صلیب وہلال کی آویزش، ایمان کی شناخت، برطانوی  سیاست پرچوٹیں جیسے ’’ آزادی کا بل‘‘، ’’تخت یا تختہ‘‘، ’’کلیسا سے عیسوی‘‘ اور’’ گاندھی‘‘ اہم نظمیں و قطعات ہیں۔ چھٹا مجموعہ ’’ارمغان قادیاں‘‘ ہے جو قادیانیت کے خلاف نظموں پر مشتمل ہے۔
 مسلم قومیت کے جس شعور کو حالی، شبلی اور اکبر نے واضح کیا ظفر علی خان اور اقبال کی شاعری اس شعور ، احساس کی نمائندگی  اپنے اپنے انداز میں کرتی ہے۔ اسلامیان ہند جہاں  اپنے ا ور دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لے رہے تھے وہاں ان کے جذبات عالم اسلام کی دھڑکنوں سے بھی ہم آہنگ تھے۔ وہ یہ احساس رکھتے تھے کہ ان کے کچھ اپنے ملی خصائص ہیں جو انہیں برصغیر میں  صدیوں تک رہنے اور اس سرزمین کو اپنی مادر وطن سمجھنے  کے باوجود ایک عالمگیر نظام اخوت سے بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ دھرتی پوجا ان کے عقیدے اور مسلک کے  بھی خلاف تھی۔ یہی جذبہ و احساس مولانا حالی کے ہاں مرثیے کی شکل میں اقبال کے ہاں فکر کے رنگ میں اور ظفر علی خاں کے ہاں رجز کے انداز میں ظاہر ہوا ہے۔ ظفر علی خان کی نظم ’’ مسلم کی شان‘‘ میں مسلم قومیت کی اسی مقامی اور آفاقی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔
 اقبال اور ظفر علی خان کے شعری دبستان کی یہ خاص اہمیت ہے کہ ان بڑے شاعروں نے اپنی شاعری میں سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور معاشی مسائل کو موضوع سخن بنانے کے ساتھ ساتھ غیر معتدل رومانی رجحانات پر تنقید کرکے  ادب اور زندگی کے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔  اقبال کی طرح ظفر علی خان نے بھی  اس نقطہ نظر کو ’’سخنوران عہد سے خطاب‘‘ میں بیان کیا ہے۔
 شعر و ادب میں طنزیا ہجو سے مراد کسی بے ہنگم حالت یا مضحک کیفیت کو ایسے فن کارانہ پیرائے میں پیش کرنا ہے جس سے پڑھنے  سننے والوں کے جذبہ تفریح کو  تحریک ہو۔ سماجی اداروں جماعتوں میں انگریزی تہذیب، آریہ سماج، اہل طریقت اور قادیانی فرقہ ظفر علی خان کی طنز کا ہدف بنے رہے۔ افراد کی مدح و ذم بھی ان کا خاص موضوع رہا ہے۔ ظفر کی  طنز کی اس  لپیٹ میں گاندھی جی، جواہر لال نہرو، ابو الکلام آزاد، محمد علی جناح، علی برادران، علامہ اقبال، عطا اللہ شاہ بخاری اور سرمحمد شفیع  کے علاوہ متعدد شخصیات آئی ہیں۔ ظفر علی خان کاطنز و ظرافت کا وہی انداز ہے جو اکبر کا مخصوص رنگ ہے۔
فنی لحاظ سے ظفر علی خان نے غزل اور قطعے کی ہیٔت کو زیادہ تر اختیار کیا ہے۔ جس میں مطلع مقطع اور ردیف و قافیے کا التزام غزل، قطعے یا قصیدے کی طرح ہے۔ ظفر علی خان کی بے کیف غزلوں کو حسن و عشق کے معاملات سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی کیونکہ وہ کوچہ ہوا وہوس سے دور رہے۔ کوئی موضوع ہو کوئی اسلوب وہ ہر جگہ قادر الکلام تھے۔ اُن کے ہاں آمد ہی آمد ہے آورد کو دخل نہیں۔ وہ بدیہہ گو  شاعر تھے ۔ قافیہ ردیف  پر انہیں بڑی قدرت تھی مگر وہ محض قافیہ پیمائی نہیں کرتے۔ تشبیہ، استعارہ، تلمیح، تمثیل وغیرہ شعری ضائع بدائع ان کے ہاں التزاماً نہیں آتے بلکہ بحر اس سخن کی روانی میں خود بخود بہتے چلے آتے ہیں۔ انہیں خود بھی اپنے فن پر دعوی  ہے۔
  مبّرا ہے کلام آورد کے اسقام سے میرا
مرے اشعار کی آمد میں دریا کی روانی ہے
ظفر علی خان کا شعری اسلوب ان کی صحافت اور خطابت سے بہت متاثر ہے۔ صحافت اور خطابت کے ان تقاضوں نے ظفر علی خان میں بدیہہ گوئی کے وصف کو خوب اُجاگر کیا جس کے لیے وہ اُردو شاعری کی تاریخ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ سنگلاخ زمینوں، مشکل قوافی سے عہدہ برآ ہونے کے علاوہ بندش الفاظ، روز مرے اور محاورے کا جس فنی مہارت سے التزام کیا اس کی مثال میدان سخن میں کم ہی ملے گی۔  اظہار خیال کے لیے ظفر علی خان جہاں نئے نئے الفاظ لائے ہیں، نئی  نئی تراکیب وضع کی ہیں ۔نئے نئے استعارے اور تشبیہات دریافت کی ہیں وہاں محاورات کے استعمال میں بھی بڑی جدت دکھائی ہے۔ تمام محاوروں کو  نئے اور انوکھے طریقوں سے  باندھ کر ان میں جاذبیت  اور دلکشی پیدا کی ہے۔
 امین حزیں سیالکوٹی کومولوی میر حسن جیسے اُستاد اور عربی و فارسی کے عالم سے مادر  علمی حضرت اقبالؒ میں اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اُن کی تربیت نے اُن کے شعور کو اجاگر کیا اور ان کی باطنی  صلاحیتوں کو چار چاند لگا دیئے۔ امین حزیں کی پہلی غزل لکھنئو کے ’’پیام یار‘‘ رسالے میں چھپی ۔ ابتدامیں شعر گوئی میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا جوہر کے  رنگ سے متاثر تھے ۔ بعد ازاں  حضرت اقبال  کو پسند  کرنے لگے اور یہ رنگ کچھ ایسا بھایا کہ پھر کسی اور کا نقش نہ جم سکا۔ اُردو، عربی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، پشتو اور دیگر  علاقائی زبانوں پر انہیں عبور حاصل تھا۔ اُن کے  کلام کو گل و بلبل،لیلیٰ و  مجنوں،وامق و عذر اور شب ہجراں کے افسانہ ہائے دراز سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ خدائے بزرگ و برتر  کی عظمت اور رسولؐ کی عقیدت  کا ان کی زندگی  اور  شاعری  پر گہرا اثر تھا ۔’’ امین حزیں کا کلام مقبول ادبی رسائل ’’ پیام یار‘‘، ’’مخزن‘‘، ’ساقی‘‘ اور ’’ہمایوں‘‘ میں چھپتا رہا ۔  (8)
امین حزیں کے تین شعری مجموعے ’’ گلبانگ حیات‘‘، ’’ نوائے سروش‘‘ اور ’’ سرودسرمدی‘‘ الفیصل ناشران و تاجران لاہور ے  شائع ہو چکے ہیں۔ امین حزیں کی شاعری کے آٹھ مسودے ابھی تک شائع  نہیں ہو سکے جو اُن کے عزیز واقارب کے پاس موجود ہیں۔  امین حزیں ایک مشاق  اور قادر الکلام سخن ور تھے۔  انہوں نے تقریباً ہر صنف  سخن میں طبع آزمائی کی۔  اُن کی  نظموں میں مفکرانہ  انداز ، بلندی نظر، وحدت فکر اور رفعت تخیل کا عمدہ تناسب و توازن ملتا ہے۔ آپ نے  زیادہ تر اخلاقی، قومی اور ملی موضوعات کو اپنی شاعری  میں پیش کیا۔ لیکن  اس کے ساتھ ساتھ حسن، خودی، عقل و عشق، تصور ابلیس  اور فلسفہ ایقان کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ امین حزیں کی  شاعری کا ایک بہت بڑا اہم موضوع’’ عورت ‘‘ہے۔ خصوصاً نظموں میں آپ  نے عورت کے متعلق اپنے خیالات و افکار کا اظہار تفصیلاً کیا  ہے۔ اقبال کی طرح امین حزیں کے فلسفہ  حیات  اور کائنات میں تصور خود ی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آپ کا تصور عشق و عقل بھی اقبال کی طرح ہے۔ خودی  اور تصور عشق و عقل  کے حوالے سے  اُن کی نظمیں ’’ خودی خدائے  خودی کے حضور میں‘‘ اور ’’عشق باقی باقی‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
 ہر بڑے  شاعر کی طرح امین حزیں بھی فطرت کے شائق ہیں۔ ان کی نظر قدرت کے مختلف مناظر کو پسند کرتی ہے اور اُن کے حسن سے متاثر ہوتی ہے۔ بقول حبیب کیفوی:
’’ امین حزیں کی زندگی کی تینتیس بہاریں کشمیر اور گلگت کی گل بیزوگل ریز وادیوں میں بسر ہوئی تھیں۔ فطرت کے دلآویز مناظر ہروقت اُن کے سامنے رہے تھے اور وہ اُن سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے تھے۔ اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ رنگین نظاروں کی عکاسی نہ کرتے۔‘‘(9)
اُن کی بہت سی نظموں میں حسین مناظر کی دلکش تصویر کشی موجود ہے۔ ’’کوہستان قراقرم کی ایک وادی‘‘، کشمیر کی صبح بہار‘‘ اور ’’حسن کی رُت‘‘ داد طلب نظمیں ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ ’’گلبانگ حیات‘‘ اور ’’سرودسرمدی‘‘ میں  شامل ان کی متعدد نظمیں فطرت سے اُن کے  لگائو اور دل بستگی کی غماز ہیں۔
 امین حزیں کی شاعری میں خصوصاً انسان اور مرد مومن کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ کبھی وہ مقام  مرد مومن طے کرتے نظر آتے ہیںتو کبھی انسان کا شاندار مستقبل دکھاتے ہیں۔ ’’ مقام مرد مومن‘‘ امین حزیں کی ایک شاہکار نظم ہے۔ جس میں  وہ مختلف استعاروں مثلاً رند، مے، جام اور عنقا جیسی تراکیب استعمال کرتے ہوئے مردمومن کے مقام کا تعین کرتے ہیں۔
  اقبال کی طرح امین حزیں کے نزدیک بھی بدی یا شرانسانی فطرت کا جزو لاینفک ہے ۔  یہ ایک ایسی محرک قوت  ہے جو انسان کو جہد حیات میں عمل پر اُکساتی ہے ۔ دنیا میں شر کی نمائندگی  ابلیس کرتا ہے۔ ابلیس اُن کی نظموں کا ایک متحرک کردار ہے ۔ اس حوالے سے اُن کی نظمیں ’’یقین‘‘ اور ’’ شکوہ شیطان‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ امین حزیں کی نظموں میں بے شمار ایسی نظمیں موجود ہیں جو قومی  و ملی نظموں کے زمرے میں شامل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کے بقول:
’’ اقبال کی نظموں کی مقبولیت سے متاثر ہو کر متعدد شعرا نے غزل  کے ساتھ ساتھ نظم نگاری کی طرف توجہ دی۔ شوق قدوائی،بے نظیر شاہ وارثی، امجد حیدر آبادی، تاجور نجیب آبادی، ہری چند اختر ، اثر صہبائی، طالب بنارسی، اوج گیاوی چنداور امین حزیں ایسے  شاعر ہیں جنہوں نے مناظر فطرت، تہذیبی زندگی اور قومی مسائل پر اچھی نظمیں پیش کیں‘‘۔ (10)
  امین حزیں کی طبیعت پر غالب رنگ اقبال کا تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے بعد میں اپنے لیے اقلیم سخن میںنئی راہیں بھی تلاش کیں اور نئے  افکار سے بھی اپنے  اشعار کو مزین کیا جس سے اُن کے شاعرانہ کمال اور ناموری میں اضافہ ہوا۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
تڑپ تڑپ کے گزاری تو کیاـ! گزر تو گئی !
ہوئی نہ جیت تو کیا ! اپنی شرط ہر تو گئی !
سکون مل نہ سکا گو پہنچ کے منزل پر
 وہ آ ئے دن کی مگر زحمت سفر تو گئی ! (11)
 امین حزیں سیالکوٹی کے ایک ہم عصر شاعر سید صادق حسین تھے ۔ اُن کا ایک مجموعہ کلام ’’ برگ سبز‘‘ کے نام سے۱۹۷۷ء کو شائع ہوا۔ اُن کا ایک شعر جس کی وجہ سے انہیں شہرت ملی، بعض حضرات   علامہ اقبالؒ سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ شعر اُن کے شعری مجموعے ’’برگ سبز‘‘ کی ایک غزل میں موجود  ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
 تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے(12)
 خواجہ عبدالسمیع پال  نے اثر صہبائی کے نام سے شہرت پائی جو  امین حزیں سیالکوٹی کے حقیقی بھائی تھے۔ اثر صہبائی برصغیر کے صف اول کے شعرا میں سے تھے جن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف  اکثر ناقدین  نے کیا ہے۔  شروع میں شعری اظہار کے لیے انہوں نے  رباعیات اور قطعات کو وسیلہ بنایا  اور ان اصناف سخن پر اتنا عبور حاصل کر لیا کہ وہ خیام العصر مشہور ہو گئے۔ اپنی رباعیات اور قطعات میں انہوں نے انسانی مسائل اور فلسفیانہ نکات کو عمدگی اور خوبی سے بیان کیا ہے۔ اُن کی رباعیات اور قطعات کے مجموعے ’’ جام طہور‘‘ اور ’’جام صہبائی‘‘ کے  ناموں سے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’خمستان‘‘ ان کی غزلوں، نظموں اور رباعیات  کا پہلا مجموعہ  ہے ۔ جس کا پہلا ایڈیشن1933؁ء میں آزاد بک ڈپو  سیالکوٹ سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ’’راحت کدہ‘‘ بھی شامل تھا لیکن بعد میں ’’راحت کدہ‘‘ علیحدہ شعری کلام کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔  پانچواں شعری مجموعہ ’’روح صہبائی‘‘  کے نام سے راج محل پبلشرز جموں سے شائع ہوا۔ ’’ بام رفعت‘‘ اُن کا چھٹا شعری مجموعہ ہے۔ ابھی اُن کے کلام کے کئی مجموعے مسودوں کی صورت میں  ہیں  جنہیں وہ اپنی زندگی  میں طبع نہ کرا سکے (13)
 اثر صہبائی کے ابتدائی کلام میں ایک خاص انداز اور بڑا لطیف جذبہ کار فرما ہے۔  پاکیزگی جذبات  اُن کے کلام کا ایسا  جوہر ہے جواُن کے کلام کاحسن بن گیا ہے ۔ کیف و سرور ان کا مستقل موضو ع  رہا ہے۔ جس  شراب سے حافظ و خیام کے خمکدے  روشن تھے ایسی صہبائے رنگین  کی کیفیت ان کے بیشتر کلام پر طاری ہے ۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے لطیف جذبات کے علاوہ فکر و نظر کی کارفرمائی بھی ہے۔
  اثر صہبائی کی رفیقہ حیات راحت اُن سے انتیس سال کی عمر میں بچھڑ گئیں جس کا اثر اُن کی زندگی و دماغ اور اعصاب پر ساری عمر رہا۔  اس کسک نے اُن کی شاعری میں سوزوگدازپیدا کیا۔ ان کی اکثر نظموں میں یہ تاثرات نظر آ تے ہیں۔
کشمیر صہبائی کا آبائی وطن تھا اور ملازمت کے دوران آپ نے عمر کا بیشتر حصہ بھی وہاں گذارا۔ قیام کشمیر  کے دوران تحریک آزادی کشمیر زوروں پر تھی۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے ۔ مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت کا صہبائی کو گہرا احساس تھا۔ سرمایہ داری، سرمایہ دارانہ نظام حکومت اور غیر ملکی تسلط سے انہیں شدید نفرت تھی۔ اس حوالے سے اُن کی نظم ’’ عزائم‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اثرصہبائی نے اپنی متعدد نظموں میں  کشمیر کی بہاروں، روح پرورفضائوں، موسموں اور قدرتی حسن کی منظر کشی  بھی پیش کی۔ مناظر قدرت کا یہ دل دادہ شاعر جب تک کشمیر میں مقیم رہا، کشمیر کی بہاروں اور خزائوں کے گیت گاتا رہا۔(14)
اثر صہبائی نے اپنے آپ کو ملی شاعری کے لیے بھی وقف کیا اور قائد آعظم کی وفات کے بعد یہ صدا بلند کی کہ:
 میرے وطن کو ہے اک مرد آہن کی تلاش
 ’’سرودسفر‘‘ نظم اُن کی قومی شاعری کا ایک نمونہ ہے۔ اثر صہبائی کی زندگی کا آخری دور مدحت رسولؐ سے شروع ہو کر اس پر ختم ہو جاتاہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
وہ میر قافلۂ رہروان جادۂ عشق
وہ صدر محفل ہستی محمد عربی
اسی کے فیض سے ذرے بھی برق پارے ہیں
اسی کے عشق میں سرشار چاند تارے ہیں (15)
 فاخر ہریانوی نے شاعری کا آغاز چودہ برس کی عمر میں کیا۔ شاعری میں وہ حفیظ جالندھری کی معاونت کے بہت معترف ہیں۔ آپ کہتے  تھے  کہ وہ میرے اُستاد ہیں اور میری شعری تربیت میں اُن کا خاصہ حصہ ہے۔
فاخر کا کہنا ہے:
’’حفیظ جالندھری نے نظم گوئی کی طرف مائل کیا۔ فاخر تخلص بھی حفیظ کا تجویز کردہ ہیــ‘‘۔ (16)
فاخر بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں۔ اُن کا اپنا دور بھی نظم گو شاعروں کا دور تھا۔ اس لیے بھی اس دور میں فاخر کو  مقبولیت حاصل تھی۔ فاخر بہت اچھے شاعر ہیں لیکن نقادوں  کی توجہ ان کی طرف مبذول نہ ہوسکی ۔ اپنے دور میں اُن کا نام خاصا نمایاں تھا۔ فاخر کی شاعری میں سب سے زیادہ فطرت سے لگائو کا اظہار ہوتا ہے  ۔اگر انہیں شاعر فطرت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کی رومانویت کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:
’’فاخر ہریانوی یقیناً رومانیت کے نمائندے  ہیں۔ انسانی مسائل ہوں یا مناظر فطرت اُن کا نقطہ نظر ہمیشہ رومانوی ہی رہا ہے‘‘ (17)
فاخر کے کلام کے بارے میں پروفیسر حمید احمد خان نے اُن کے شعری مجموعے ’’ موج صبا‘‘ کے تعارف میں لکھا ہے:
’’قارئین کا وہ طبقہ جو فاخر کی منظومات سے پہلی دفعہ روشناس  ہو رہا ہے۔ شاعر کے تخیل کی طراوت اور پُر خلوص گفتار پر ایک خوشگوار استعجاب محسوس کرے گا‘‘  (18)
پُر خلوص گفتار اور تخیل کی طراوت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب وہ مناظر فطرت کا بیان کرتے ہیں۔ مناظر کے بیان سے فاخر کو بہت دلچسپی ہے۔ اس حوالے سے اُن کی نظم ’’ شام‘‘ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس نظم میں انہوں نے شام کے منظر کے حسن کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
     ڈاکٹر محمد صادق اپنی کتاب "A History of Urdu Literature"   میں فاخر کے بارے میں رقمطراز ہیں:
    ـ"Fakher Haryanvi who was well known in the twenties in very little known today even in the academic circle. Fakhir writes of the every day occurrences of village life especially of its humorous aspects... when he calls the sights that lay stored in his memory, he becomes suddenly alive, each picture being described truthfully in language  that is stricklingly fresh and avocative."(19)
.فاخر کا کلام معصومیت اور بچوں سے  پیارسے بھرا ہوا ہے۔ بچپن کے زمانے کی بے فکری اور حسن کو فاخر نے اپنی نظم ’’ چند بچوں کو دیکھ کر ‘‘ کا موضوع بنایا ہے۔ فاخر ان معصوموں کی دنیا میں کھو جانے کی آرزو کرتے ہیں۔ بچوں کے حوالے سے اُن کی ایک شاہکار نظم ’’معصوموں کی دنیا‘‘ بھی ہے جس میں بچے  حسن کی معصوم تصویریں نظر آتے ہیں۔ جو بچپن کے حسین ایام کاٹ رہے ہیں اور فکر دنیا سے آزاد ہیں۔  رومانی شاعر اختر شیرانی نے اپنی شاعری میں عورت کے روپ کو اُبھارنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ فاخر ہریانوی کے ہاں بھی عورت  کے بارے میں اس قسم کے خیالات کا پتہ چلتا ہے۔ فاخر کی ایک نظم ’’عورت‘‘ اُن کے شعری مجموعے ’’ موج صبا‘‘ میں شامل ہے۔ اس نظم میں عورت کی نفسیاتی کیفیات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ عورت جب محبت کرتی ہے تو نفع و نقصان کے خوف سے بالا تر ہوکرکرتی ہے۔  اسے وفاداری سے غرض ہوتی ہے  جذبے کی شدت کے بل بوتے پر وہ دہکتی ہوئی آگ میں بھی کود سکتی ہے۔ ’’عورت اور جوگی‘‘، ’’عذرا‘‘، ’’آخری ملاقات‘‘ اور ’’شہر حسن‘‘ بھی فاخر کی شاہکار نظمیں ہیں جو عورت کے حسن و جمال کی ترجمانی کرتی ہیں۔  فاخر کے کلام میں حمدیہ لہجے کا بھی احساس ہوتا ہے اور یہ پاکیزگی  خیال کا احساس دلاتا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی  اس حوالے سے کہتے ہیں۔
’’فاخر ہریانوی کے ہاں رومانویت  کے علاوہ  اگر اور کوئی  جھلک ہے تو وہ اخلاقیات کی  ہے.شاید اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک معلم تھے۔‘‘ (20)
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
ہے طلسم جزر و مد سے بے خبر سینہ ترا
صاف ہے روئے سحر کی طرح آئینہ ترا
بہہ رہا ہے ا س طرح پانی خرام ساز سے
ہلکے ہلکے جس طرح پیدا ہوں نغمے ساز سے  (21)
خواجہ عبدالحمید عرفانی سکول کے زمانے میں مولانا حالی اور مرزا غالب سے حد درجہ  متاثر تھے۔ عرفانی کی قومی موضوعات پر لکھی گئی نظموں میں حالی کا انداز نظر آتا ہے۔ انہوںنے غالب کی زمینوں میں بھی غزلیں کہی ہیں۔ ڈاکٹر عرفانی کی’’ کلیات عرفانی‘‘ میں غزلیات،  مانو لاگ کے تراجم،  مکالمے اور قومی نظموں کے متفرق اشعار شامل ہیں۔ ڈاکٹر عرفا نی کی  اکثر  غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں۔  اُن کی غزل میں عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے اس حوالے سے رخشہ نسیم لکھتی ہیں:
’’ اُن (عرفانی) کے کلام میں جگہ جگہ عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ کلام میں اتنی تاثیر ہے کہ ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔‘‘ (22)
  عرفانی کی غزلیات میں سوزو گداز، غنائیت، موسیقیت، تکرا ر لفظی اور فارسیت کا غلبہ بھی نظر آتا ہے۔ اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ فارسی  تراکیب کو اُردو روزمرہ سے اس طرح پیوست کرتے ہیں کہ بیگانگی اور اجنبیت کا شائبہ تک  نہیں ہوتا۔ بحیثیت  مجموعی عرفانی کی غزل میں درد کا صوفیانہ رنگ، میر کا سوزوگداز، اصغر کا نشاطیہ انداز، غالب  کی جدت پسندی  اور اقبال کی فلسفہ طرازی کا رنگ واضح طور پر جھلکتا ہے۔ عرفانی  زودگوشاعر ہیں۔ اس کا ثبوت اُن کا فارسی کلام ہے۔ ایرانی  تو انہیں بہترین فارسی شعرا میں شمارکرتے ہیں۔  انہیں اردو شاعری پر زیادہ توجہ دینے کا موقع نہ مل سکا۔ اُن کے اردو کلام سے پتہ چلتا ہے کہ اگر وہ پختگی کے دور میں شعر کہنا   ترک نہ کرتے تو ان کا شمار  صف اول کے شعرا میں ہوتا۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
ساقی  نوید   رونق   فصل   بہار  کیا
نا حق نمک چھڑکتا ہے زخموں پہ یار کیا
اپنے   تصورات  کی  دنیا  وہی  رہی
پھر  انقلاب گردش  لیل  و  نہار  کیا (23)
 عظیم شاعر فیض احمد فیض کی شاعری میں شہرت  نہ صرف ملکی سطح پر ہے۔  بلکہ ترقی پسند تحریک سے تعلق اور عالمگیر فکر کی وجہ سے فیض دیگر ممالک میں بھی  جانے پہچانے جاتے ہیں۔  اُن کی شاعری کا جائزہ لیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ مارکسزم کے فلسفہ، مقاصد اور معتقدات کے اندھے  مقلد نہیںتھے۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کی  نظریاتی وابستگی سے کبھی منہ نہ موڑا۔  فیض اپنے سینے میں درد مند دل رکھتے تھے اور انسانوں پر مظالم، استحصالی رویوں کو بڑے دکھ کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ فیض معاشرے میںایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند تھے جو  استحصالی نظام کو بدل کر رکھ دے۔ وہ غیر طبقاتی نظام کے قائل تھے۔ ترقی پسند شاعر ہونے کے باوجود اپنی شاعری کو انقلابی نعروں سے بچاتے ہوئے فیض نے اسے رومانی پیرایہ میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری دوامی  ہے۔ فیض نے غزل میں کلاسیکی انداز کو قائم رکھا اور نئے مضامین بھی پیش کیے۔
فیض ایک منفرد لہجے  اور جمالیاتی و رومانی انداز کا شاعر ہے۔  وہ بیسویں صدی کا ایسا انقلابی  شاعر ہے جس کے ہاتھوں  پر رومانیت اور سماجیت کے چراغ فروزاں  ہیں۔  اُن کے غنائی لہجے میں اتنی تاثیرتھی کہ انہیں ہیئتی تجربوں کی ضرورت بالکل محسوس نہ ہوئی۔  فیض کے ہاں رومان اور انقلاب  ان کی فکر کی دوئی نہیں بلکہ یکجائی کی دلیل ہے۔  فیض نے اپنی شاعری میں وطن کی محبت، مظلوم انسانوں سے محبت کا ذکر خالص اور رومانی لہجے میں کیا ہے۔ اُن کے ہاں جس محبوب کا ذکر ملتا ہے اس کی ایک ہتھیلی پر حنا اور دوسری ہتھیلی پر لہو کی چمک نظر آتی ہے۔ فیض کی شاعری کا بڑا موضوع محبت اور زندگی  کی اجتماعی  جدو جہد کی واردات ہے فرماتے ہیں۔
  مقام فیض  کوئی  راہ  میں جچا   ہی  نہیں
جو کوئے یار سے نکلے  تو سوئے دار چلے
فیض نے اپنی شاعری  میں علامتوں کے انفرادی اور اجتماعی مفہوم کو اکٹھا کر دیا ہے۔ آپ نے استحصالی طبقے کے لیے واعظ، شیخ ،محتسب، ناصح، مدعی،  عدو، اہل ستم،صیاد، گل چیں، اہل ہوس، اغیار، رہزن، فقہیہ شہر، اہل حرم، قاتل اور جلاد جیسی علامتیں استعمال کی ہیں۔ پرانی علامتوں کونئے مفاہیم عطا کیے اور کئی نئی علامتیں بھی تخلیق کی ہیں۔ جمالیاتی سحر کا سماں پیدا کرنے کے لیے سحر لہو، دید ئہ تر، فصل گل، مے خانہ اور صبح سخن جیسی علامتیں تخلیق کی ہیں۔ فیض نے اپنی شاعری میں اعلیٰ فکر کے ساتھ ساتھ فنی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا۔ فیض کا فن تاریخی شعور کی مدد سے زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ اس  سے بھی آگے ۔احمد ندیم قاسمی اپنے ایک مضمون میں فیض کے فن کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
’’ فیض زندگی کا نباض ہے۔ اس کا فن کسی تاریخی شعور کی مدد سے زندگی کے ارتقائی رخ یعنی اس کے نامیہ رجحان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ بعض اوقات اس سے بھی آگے بڑھ  جاتا ہے۔ زندگی  اور انسان کا ارتقا  اور ارتفاع ہی ہمیشہ اس کا مرکزی نظریہ   رہا ہے‘‘۔  (24)
کلیم الدین احمد فیض کے فن کے بارے میں اپنے ایک مضمون ’’ فیض‘‘ میں یہ رائے  رکھتے ہیں:
 ’’فیض میں دو چیزیں ہیں جو دوسرے ترقی پسند شاعروں میں نہیں ملتیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ فیض کو نظم کے فنی تقاضوںکااحساس ہے  اور ان  فنی  تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔دوسری چیز خود ضبطی ہے ۔وہ دوسرے باغی شاعروں کی طرح اپنے نعروں سے آسمان کو نہیں ہلاتے‘‘(25)
مجید احمد تاثیر کی نظم میں جوش کی قدرت زبان اوراخترشیرانی کی رومان پسندی  دونوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ تاثیر صاف ستھری رباعی کہنے میں ید طولیٰ  رکھتے تھے ۔ رباعی بہت مشکل فن ہے۔  اُن کا مجموعہ بعنوان ’’رباعیات تاثیر‘‘ چھپ چکا ہے۔  آپ اپنے  دور کے ہر بڑے شاعر اور شاعری کی تحریک سے متاثر تھے۔ آپ نے اپنے کلام میں اپنے دور کی نمایاں شعری روایات کو اپنانے کے ساتھ انہیں زندہ  رکھا ہے اور یہ اُن کا بڑا کارنامہ ہے۔
 احمد ندیم قاسمی مجید احمد تاثیر کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں:
’’ انہوں نے اپنے دور کی نظموں کی ہر ہئیت کو کامیابی سے برتا ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ جو شاعر اتنی سہولت سے رباعی کہہ لیتا ہے وہ ہر نوع کے شعری اظہار پر قادر ہو جاتا ہے۔ تاثیرنے مثنوی اور وطن   کے نغمے لکھے ہیں۔ تاثیر کی رباعیات  اور نظمیںاُردو شاعری کی تاریخ کا ایک ناگزیز حصہ ہیں‘‘ (26)
ڈاکٹر سید عبداللہ رباعیات تاثیر کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں:
 ’’اکبر کے یہاں حقائق زندگی ہیں، حالی کے یہاں عملی اخلاق و دانش زیست ہے۔ تاثیر سیالکوٹی کے یہاں دونوں رنگ موجود ہیں۔ تاثیر کا اہم موضوع انسان اور اس کی تقدیر  ہے۔ رباعیات تاثیر تعداد میں کم مگر قدروقیمت میں وزن دار ہیں‘‘۔(27)
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
  تیرے رخ روشن کی ضیا  ہو  جائوں
تیرے لب نازک کی صدا ہو  جائوں
تیری ہے تلاش مجھ کو  اے قلزم حسن
جی چاہتا ہے ـ، تجھ میں فنا ہو جائوں (28)
محمد طفیل نام اور شہرت طفیل ہوشیارپوری کے نام سے ہوئی۔  ’’میرے محبوب وطن‘‘ طفیل کے ملی نغمات پر مشتمل پہلی  شعری  کتاب ہے۔  طفیل کا ناطہ فلمی دنیا سے بھی رہا اور انہوں نے فلموں کے لیے اُردو اور پنجابی میں اڑھائی سو کے قریب گیت لکھے۔ دوسری کتاب ’’جام مہتاب‘‘ ہے جو قطعات و رباعیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب۱۹۸۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’ساغر خورشید‘‘، ’’شعلہ جام‘‘ اور ’’تجدید شکوہ‘‘ غزلوں  اور نظموں پر مشتمل تین شعری مجموعے  ہیں۔ ’’رحمت یزدان‘‘ طفیل کا نعتیہ مجموعہ کلام ہے جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا ۔  (29)
طفیل نے اگرچہ تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے  لیکن غزل کا طواف ایک مدت تک کرتے رہے۔ انہوں نے غزل کے مزاج، رنگ و آہنگ اور ہئیت وانداز کو ایک پرستار کی حیثیت سے اپنایا ہے جس کی وفاداری شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ شروع میں طفیل نے شاعری میں کسی اُستاد فن سے اصلاح نہیں لی لیکن سیالکوٹ آمد کے بعد امین حزیں سیالکوٹی اور مولانا توحید کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ اس کے علاوہ مولانا تاجور نجیب آبادی نے بھی اُن کو شاعری میں گرانقدرمشورے دیئے۔ آپ کی غزلیں ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ طفیل ایک روایت پسند شاعر ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ  پرانی روایات کو سراہا اور پسند کیا ہے۔ انہوں نے کلاسیکی شعرا سے اثر قبول کیا لیکن ان تمام اثرات کے باوجود غزل میں اپنے  لیے ایک الگ  راستہ  بنایا ہے۔ وہ غزل  میں سیدھا سادا اسلوب اظہار اختیار کرتے ہیں جو اپنی اثر انگیزی کی بنا پر  سننے اور پڑھنے والوں کے ذوق و معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اُن کا شعور اُن کے داخلی و خارجی مشاہدات  کو اُن کی ذات کے حوالے سے اظہار کے صاف ستھرے اور رواں دواں سانچے فراہم کرتا ہے  اور وہ ان سانچوں کو فن کی آنچ میں شائستہ کر کے سخن کر لیتے ہیں۔ طفیل کا کلام خود کلامی، خداکلامی، رسولؐ کلامی اور لوک کلامی پر مشتمل ہے۔ معانی کے حوالے سے دیکھا جائے تو انہوں نے اس دیرینہ روایت کی تجدید کی ہے جس کا تاروپود سراسر اخلاقی قدروں کا مرہون منت ہے۔ اُن کی آخری دور کی شاعری  میںمذہبی  اور اخلاقی رجحان زیادہ نمایاں ہے۔ اُن کے قطعات اور رباعیات، نظم اور غزل میں سعدی کی سحربیانی، رومی کی دولت وجدانی، حافظ کا عرفان، حسانؓ کا جذبہ مدحت رسولؐ، عرفی کا حسن بیان، اقبال کا دل بیدار، میرو غالب کا سوز سخن اور امیر خسرو کا گداز پایا جاتا ہے۔
 ڈاکٹر سید عبداللہ طفیل کے ایک شعری مجموعے کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’طفیل روایت کی پختہ مسلمات کا احترام کرتے ہوئے اپنے تجربات قلبی کو اپنے مزاج محبت آشنا میں ڈھال کر ایک ایسی غزل ہمیں عطا کرتا ہے جو کسی اور جگہ د ستیاب نہیں۔ ترکیبیں شیریں مانوس دل پسندو دلاآویز، پیرا یہ بے تکلف ا ور بے ساختہ ہے، زبان اجلی ا ور پاکیزہ بیان  خلوص  میں  ڈھالا ہوا۔ غرض    تغزل کی ہر ادا اس میں موجود ہے جو ہر غزل آشنا کو مطمئن کر سکتی ہے۔‘‘ (30)
  طفیل کی شاعری میں موضوعات  اور فن کے اعتبار سے وہ سب کچھ موجود ہے جو اچھی شاعری  میں ہونا چاہیے۔ طفیل نے روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے حسن و عشق کے معاملات کا اظہار بڑے خوبصورت اور پاکیزہ انداز میں کیا ہے۔ اُن کے ہاں حسن سے زیادہ عرفان حسن ملتا ہے۔ طفیل کی شاعری کا سب سے بڑا اور پھیلا ہوا موضوع غم و حوادث ہے۔  انہوں نے اپنی شاعری اور خصوصاً غزلوں میں اپنے ذاتی غم و آلام کو دل کھول کر بیان کیا ہے۔  یادوں اور ماضی کے حوالے سے طفیل نے  آنسوئوں کا بہت ذکر کیاہے۔ معاشرے میں موجود طبقاتی تضاد بھی طفیل کی نگاہ میں بہت کٹھکتا ہے۔ اُن کی شاعری کا ایک نمایاں وصف علامتی انداز ہے۔ اُن کے ہاں علامتی انداز سیدھا سادا ہے۔ علامتی انداز نے کچھ چھپایا نہیں ہے۔ انہوں نے پرانی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے ان میں نئی معنویت  پیدا کر دی ہے۔ فنی لوازمات اور صنعتوں کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں استعمال کیا ہے۔ آپ کی تراکیب عام فہم ہیں۔ تشبیہات و استعارات کو بڑے خوبصورت انداز میں شعروں میں استعمال کیا ہے جس سے شعروں کی تاثیر میں اضافہ ہو گیا ہے۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
رقص جذبات کی لے ، شعلہ آواز کا رنگ
اب تک آنکھوں میں ہے اس جلوہ گہ ناز کا رنگ
تیرے عارض پہ جھلکتا ہے حیا کی صورت
میرے ا حساس ، تری شوخیٔ انداز کا رنگ (31)
تاب اسلم سکول کے زمانے میں سیالکوٹ کی مقامی  ادبی تنظیموں اور مشاعروں  میں باقاعدگی سے ایک سامع کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔ 1949ء میں اُن کی پہلی نظم ’’ادب لطیف‘‘ میں مرزا ادیب نے شامل کی۔ ابتدائی شاعری میں سادگی اور معصومیت  نظر آتی ہے۔ آپ کا کلام ’’فردوس ادب‘‘، ’’اوراق‘‘ ، ’’افکار‘‘،’’لیل ونہار‘‘، ’’امروز‘‘،’مشرق‘‘،’’ادبی دنیا‘‘،’’ادب لطیف‘‘،’’ ہمایوں‘‘،’’نیرنگ خیال‘‘،’’فنون‘‘اور ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوتا  رہا۔ 1965 ء؁ میں سیالکوٹ کی فضا قومی و ملی احساسات سے پرتھی۔ آپ نے بھی قومی و ملی نظمیں لکھیں ۔تاب اسلم سیالکوٹ میں کئی سال تک حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری رہے۔ آپ نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل میں نام پیدا کیا۔ آپ کے چار شعری مجموعے ’’ زخم وفا‘‘، ’’نقش آب‘‘، ’’سراب جاں‘‘ اور تیری یاد کے سارے موسم ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ پانچواں  شعری مجموعہ ’’درد تیرے فراق کے ‘‘ نام سے  زیر تکمیل ہے۔ تاب اپنی شاعری میں سماجی حالات اور معاشرتی ناہمواریوںکوجگہ دیتے ہیں۔ وہ روایت میں جدت اور انفرادیت پیدا کرتے ہیں۔ مگر روایت سے ہٹتے نہیں۔ آپ نے عصری خیالات، رجحانات اور واقعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ آپ نے رومانوی شاعری بھی کی اور آپ کے خیالات کسی قدر ترقی پسند بھی ہیں۔ انہوں نے معاشرتی بے حسی، بے انصافی، ظلم و تشدد، جبر اور جہالت کے خلاف قلم اُٹھایا۔ اُن کی آواز کسی حد تک فیض کی آواز سے ملتی ہے مگر اُن کی آواز دبی دبی سی سنائی دیتی ہے۔ وہ اپنے قلم کو کسی آمر کے سامنے جھکنے نہیں دیتے۔ غزل کو حیات دوام، جدت، انفرادیت اور استحکام دینے والوں میں تاب اسلم کا نام سرفہرست آتا ہے۔ غزل کی رمزیت، ایمائیت اور اشاریت میں کتنی قوت ہے کتنی جاذبیت ہے ۔تاب اسلم  اس ہنر سے آگاہ  ہے۔ ان فنی لوازم سے تاب نے چمنستاں گل میں رنگ برنگ کے پھول کھلائے ہیں۔
 تاب نے اپنی شاعری میں علامتوں کو بھی خوبصورت انداز میں استعمال کیا ہے۔ تہذیب کے اندر جھانکنے کے لیے تاب کی شاعری میں دوبنیادی علامتیں سامنے آتی ہیں۔ حبس اور برف کی علامتوں کو تاب نے  نئے انسان کے بنیادی مسئلہ رہائی کے حوالے سے برتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
برف میں محصور موسم کو حرارت کون دے
  حبس اتنا  تھا کہ دم گھٹنے  لگا تاب  ا سلم
  شرر ہوں برف کی اندھی سلوں میں رہتا ہوں
  یہ زندگی بھی تو برف کا اک مکان ٹھہرا(32)
تاب کی شاعری میں ایک تازہ کاری کا احساس ملتا ہے جو جمالیاتی پہلو کی  وجہ سے ہے۔ تاب کی غزل میں جمالیاتی پہلو حسن و عشق، سوزوگذار، غنائیت، مترنم اور رواں ردیفوں اور غنائی بحروں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ محبوب کی سراپانگاری اور اُس کے حسن ادا کا خوبصورت بیان جمالیاتی احساس کا تصور پیدا کرتا ہے ۔اُن کا احساس جمالیات متحرک ہے اور ہماری  روح میں ایک جذب و انبساط پیدا کرتا ہے  ۔تاب کے کلام میں ایک ارتقائی صورت ملتی ہے۔ یہ ارتقا اسلوب و فکر  ہر اعتبار  سے ہے۔ جوں جوں آگے بڑھتے ہیں اُن کی شاعری میں انفرادیت  اور مزید پختگی نظر آتی ہے۔ تاب کے کلام میں کہیں کہیں تصور و فلسفہ کی جلوہ گری بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ عشق وعاشقی کی تڑپ اور رومانیت کی ہلکی پھلکی آنچ بھی ملتی ہے۔ تاب اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر تقلید کے قائل  نہیں۔ اپنا راستہ خود تراشنا چاہتے ہیں۔  اُن کے ڈکشن پر کسی دوسرے شاعر کا رنگ دکھائی  نہیں دیتا۔ آپ فن کے عصری تقاضوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اُن کے اشعار عصری شعور اور فن کے ساتھ اُن کی مضبوط وابستگی کے آئینہ دار ہیں۔ تاب کے طویل فن ریاض، نظام حسیات کی ہمہ وقت بیداری، مشاہداتی تنوع، وسعت مطالعہ، بصیرت میں قلندرانہ لپک جھپک اور بصارت  میں درویشانہ مسلک کی عطا ہے۔ تاب حالات کی تلخیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ زندگی  کی نئی قدروں سے ان کا سامنا ہوتا ہے  اور وہ اس کے مدو جزر میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔وہ زندگی  کے نئے نئے مفہوم تلاش کرتے ہیں اور زندگی کو خوشی و غم کے تناظر میں پرکھتے ہیں۔ وہ انسانیت کی عظمت کے معترف ہیں اور انسان کو عظیم رتبے  کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں۔  مایوسی اُن کے ہاں بہت کم نظرآتی ہے۔ وہ مثبت نظریات رکھتے ہیں۔ تاب کی شاعری میں جا بجا آنسو، آہیں، سسکیاں، محرومی اور کچھ  کھوجانے کا احساس نمایاں  ہے اور اس غم کا دائرہ  بیکراں ہے۔  اُن کی غزل  داخلیت کی شاعری ہونے کے باوجود مختلف جہات لیے ہوئے ہے۔ اُن کی شاعری ایک حساس دل کی آواز ہے۔
جابر علی سید نہ صرف ایک اچھے  شاعر بلکہ ایک اچھے انسان، ادیب، محقق، نقاد،  ماہر  لسانیات و عروض اور مشفق اُستاد بھی تھے۔ جابر علی سید کی وفات  کے بعد  حمید اختر فائق نے اُن کے کلام کو ’’موج آہنگ‘‘ کے نام سے1999میں مرتب کر کے شائع کیا۔ آپ نے اُردو  غزل میں ہئیت اور بحر کے نئے نئے تجربے کیے اس لیے کہ وہ علم عروض سے گہری دلچسپی رکھتے  تھے۔ آپ نے اُردو میں بعض بحروں کو روشناس کروایا جن کا پہلے  سے اُردو میں رواج نہیں تھا۔ آپ شروع سے ہی مشکل پسند تھے۔ مشکل کام کر کے انہیں خوشی ہوتی  تھی۔ اسی سبب سے انہوں نے غزلوں میں نوع بہ نوع تجربے کیے۔ نئے الفاظ، نئے محاورے اور نئی ترکیبیں استعمال کیں۔ اُن کی غزلوں میں  اُن کی شخصیت کی بہت سی داخلی کیفیات اور ان کے شعور  و  لا شعور میں اُٹھنے والے ہنگاموں اور طوفانوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ اُن کا کلام حسن صوری اور جمال معنوی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔  غزلوں میں صوتی آہنگ کے ساتھ ساتھ تفریح کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں کیونکہ تغزل ہی غزل کو صحیح معنوں میں غزل بناتا ہے۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
بجھا دو ان چراغوں کو یہ چبھتے ہیں میری آنکھوں میں
پائے نازنین میں جیسے نوک خار صحراخار گلشن بھی  (33)
سید سبط علی صبا کی شاعری اپنا مواد سرزمین وطن، اس کی عسکری روایات اور اسلامی عسکری  تاریخ سے حاصل کرتی ہے۔
صبا کا شعری مجموعہ ’’طشت مراد‘‘ مجلس تصنیف و تالیف واہ کینٹ نے شائع کیا۔ اُن کا کلام ’’فنون‘‘، ’’ہماری زبان‘‘ دہلی ’’ماہ نو‘‘ اور ’’واہ کاریگر‘‘ میں شائع ہوتا رہا۔ سبط علی صبا کی غزلوں کو اگر زمانی ترتیب سے دیکھا جائے تو ان میں سب سے پہلا موضوع ایوبی آمریت ہے۔ زنداں سلاسل، تیرگی اور دارورسن جیسے امیجز کا استعمال اُس دور میں عام نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے ان کا استعمال فیض کے ہاں بھی تھا۔ لیکن اب یہ شعری روایت کا حصہ بن گئے۔ صبا ابتدا ہی سے جمہوریت پسند تھے۔ اپنی غزل میں اس سلسلے میں  انہوں نے ہمیشہ بلند بانگ  لہجہ اختیار کیا۔
قدم قدم پر کرو اہتمام دار و رسن
 رواں ہے قافلہ شوق امتحاں کے لیے
 صبا کی غزل میں جگہ جگہ عوام کے فلک شگاف نعروں کی گونج ایوان اقتدار میں ہل چل مچاتی نظر آتی ہے۔ آپ1965ء کی فتح پر شجاعت کے نغموں کے ساتھ ساتھ سقوط ڈھاکہ پر پاکستان کی شکست پر اپنی  غزل میں آنسو بہاتے  بھی نظر آتے ہیں۔ انہیں 1971ء کی ہزیمت کا احساس تھا جس کا اظہار صبا کی غزل میں درد ناک انداز میں ہوتا ہے۔  صبا نے اپنی غزل میں داخلی منافرت اور فرقہ  واریت پھیلانے والے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ تنگ نظر مُلا کو بھی اپنی تنقید کانشانہ بنایا ہے۔ صبا کی عشقیہ شاعری اپنے  اندر  ایک پاکیزہ فضا  رکھتی ہے اور ہر شعر تغزل کی چاشنی سے بھرپور ہے۔ کچھ اشعار ایسے ہیں جن میں صبا غم جاناں کی طرف بڑھتے ہیں لیکن غم دوراں انہیں اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
 صبا نے غزل کے ساتھ ساتھ سرزمین وطن، شہدائے کربلا اور قومی رہنمائوں سے والہانہ عقیدت کے واضح اظہار کے لیے اپنی مختصر زندگی میں متعدد نظمیں بھی کہیں۔ ان نظموں میں سے اکثر اہم قومی مواقع پر کہی گئیں جو نہ صرف اپنا ایک فکری وفنی معیار  رکھتی  ہیں بلکہ اس اعتبار سے بھی منفرد ہیں کہ ان  میں ایک  ’’مسلمان سپاہی شاعر‘‘ کا باطنی پیکر اپنے واضح خطوط کے ساتھ جلوہ گر ہو رہا ہے۔ صبا کی ان میں سے نمایاں نظموں کے عنوانات ’’زخم‘‘، ’’سلام آنے لگا‘‘، ہم جاگ رہے ہیں‘‘، ’’ راہ میں دیوار نہ بن‘‘،’’ نئی  حیات‘‘،  ’’عید محرومی‘‘، ’’روشنی عمل‘‘، ’’گواہ رہنا،’’پرچم شبیر دیکھ‘‘، ’’14اگست‘‘اور ’’وہ ایک شاعر‘‘ ہیں ۔ان میں چند ایک پابند اور باقی آزاد نظمیں ہیں۔
اُن کی غزل کی بحریں زیادہ تر سادہ اور رواں ہیں۔  اپنے اسلوب، آہنگ، تمثال کاری، تراکیب، علامات، لفظیات اور صناع بدائع کے حوالے سے یہ  غزلیں اپنی فکری  ندرت کی  طرح اپنے اندر ایک غیر معمولی  فنی ندرت بھی رکھتی  ہیں۔
صبا کی غزل میں کلاسیکی اور معاصر اُردوغزل سے بالکل مختلف امیجری  ملتی ہے۔ اُن کی غزل کی فنی تمثالیں موت کی لوری، حالات کی سولی، ہوا کی سیٹیاں، چاہتوں کے پنچھی، روح کے قیدی پرندے، زخموں کے آئینے، سایوں کے پیکر، خواہشوں کی تتلیاں، درد کاغازہ، نفرت کی سولی، ہوس کا کیچڑ، دکھوں کی گٹھڑی، افلاس کا زنداں اور حالات کی زنجیریں وغیرہ  ہیں جو ان کی اپنی تخلیق کی ہوئی ہیں۔  صبا کی غزل میں مروجہ شعری علامات کی بھی کمی نہیں مثلاً جنگ، گائوں، شمع، تیرگی، رات، طوق، اور زنجیر وغیرہ لیکن اُن کی طبع زاد علامات ایسی ہیں جو ان کی پہچان کا مستقل حوالہ بنتی ہیں۔ ان میں گرتی ہوئی دیوار، آدھا جسم، اور سبز آنکھیں ہیں جو اپنی دھرتی کے لیے ہیں۔ اُن کا اسلوب ایک سپاہیانہ اسلوب ہے جو اُن کی سپاہیانہ فکر   نے پیدا کیا ہے۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
صبح آئی لہو میں ڈوبی ہوئی
شام کا رنگ جانے کیا ہو گا
اب نہ جاگے تو موسم گل کا
قافلہ دور جا چکا ہو گا (34)
  اصغر سودائی بنیادی  طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ انہوں نے نعتیں بھی کافی تعداد میں لکھی ہیں۔ بطور نعت گو وہ اُردو شاعری میں ایک  منفرد مقام  رکھتے ہیں۔ آپ نے پاکستان  کو ’’نعرہء پاکستان‘‘ دیا جو آپ  کے ایک ترانے میں موجود ہے۔  آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’شہ ِ دوسرا‘‘ بزم رومی و اقبال نے 1989ء میں شائع کیا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’چلن صبا کی طرح‘‘ صدیقی پبلی کیشنز لاہور نے 1999ء میںشائع کیا۔ ’’کرن صدا کی طرح‘‘ اصغر کا تیسرا شعری مجموعہ ہے ۔(35)
اُن کا نعتیہ مجموعہ ’’شہ دوسرا‘‘ تعجب انگیز اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اصغر نے نعت کہنے کے لیے غزل کا پیرایہ استعمال کیا ہے۔ اپنی نعتوںسے اصغر نے مسلمانوں کی اصلاح کا کام بھی کیا ہے۔  اصغر اپنی شاعری میں حضورؐ کے نام  لیوا عظیم ہستیوں کی صفات بھی بیان کرتے ہیںَ یہاں اقبال کے مرد مومن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔  اصغر کی نعت جدید و قدیم کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جدید موضوعات کے ساتھ وہ قدیم روایات کا دامن بھی نہیں  چھوڑتے۔ اصغر سودائی کے کلام پر اقبال، حفیظ اور حالی کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔  اصغر  کے نعتیہ اسلوب میں عربی لفظوں، آیتوں کے ساتھ ساتھ تلمیحات اور حوالے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اصغر کی نعتوں کا ایک اہم عنصران کی فارسی  تراکیب کا استعمال اس لیے زیادہ ہے کہ حافظ  کا دیوان ہمیشہ اُن کے زیر مطالعہ رہا۔اُن کی نعت میں صنعتوں  کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ سب سے زیادہ انہوں نے صنعت تضاد کو استعمال کیا ہے جو نمایاں اور دلکش نظر آتی ہے۔ (36)
 اصغر کو وطن سے بے پناہ محبت ہے۔ وطن کے لیے قربانیاں دینے والوں میں اصغر خود بھی شامل  تھے۔ وطن کے لیے محبت اور قربانیوں کا اظہار اُن کی غزلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اصغر کی غزل میں ذاتی کرب کے پس پردہ معاشرتی زندگی، اس  کی کشمکش ،زندگی کے تضادات اور اس میں پائی جانے والی پیچیدگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ غزلیہ اسلوب کی وجہ سے اصغر کی تمام نعتیں قافیہ بندی کے حوالے سے عمدہ مثا لیںہیں۔ آپ کی لمبی بحر کی نعتوں میں روانی، تسلسل، آہنگ،  لے اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف فارسی آمیز لہجہ اور دوسری طرف ہندی زبان کا اثر بھی اُن کی غزل میں موجود ہے۔ اُن کی غزل میں بہت زیادہ ہندی الفاظ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
دنیا کے اک اک گوشے میں تیرا نور ظہور
غار حرا ہو ،  کوہ  صفا  ہو  ،   یا  منزل   طور
ہم ہیں تیرے عاصی بندے تو ہے بخشنہار
تو رحمان رحیم ہے مولا تو ستار غفور (37)
رشید آفریں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آز مائی کی۔ اُن کا شعری کلام ’’ادب  لطیف‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘، ماہنامہ ’’ماہ نور‘‘ لاہور ’’اقدار‘‘ کراچی،  ، ہفت روزہ ’’برمنگھم‘‘ برطانیہ اور ’’اوراق‘‘ لاہور میں شائع ہوتا رہا۔ آپ کے چار شعری مجموعے ’’وجہ آفریں‘‘، ’’دست ساحل‘‘، ’’دامن احساس‘‘، اور ’’فخر دو عالم‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔(38)
رشید آفریں ادب میں  مقصدیت کے قائل ہیں۔ اُن کے ہاں غیر مقصدی ادب کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ کی شاعری میں روایت اور جدیدیت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ رشید ایک حساس شاعر ہیں اُن کے مشاہدات اور محسوسات اُن پر علم و عرفاں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔  آپ نے اُردو شاعری کو پورے سماج کا ترجمان بنایا ہے۔  بھوک اور افلاس، شکایت زمانہ، یاد ماضی، معاشرتی جبر اور گھٹن، فلسفہء زندگی،  پاکستانیت، جدوجہد، امن و آشتی، رنج و الم اور استحصالی قوتوں  کے خلاف جنگ رشید آفریں کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔  رشید آفریں کی نظموں میں حسن آفرینی اور اثر آفرینی کے احساس و جذبات واضح نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نظموں میں ہیئت سے زیادہ موضوع اور اسلوب سے زیادہ مواد کو اہمیت دی۔ نئی بحریں، حسین و جمیل تراکیب، تصویر کشی، امیجری اور سادہ اسلوب اُن کی نظموں کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ رشید آفریں نے نظم کی طرح غزل میں بھی  ہمیشہ  اپنے مفاہیم اور مطالب کو آسان، صاف اور رواں زبان میں پیش کیا ہے۔
 اس حوالے سے محمد  خان کلیم کی رائے ہے:
’’رشید آفریں نے غزل کی کلاسیکی قدروں کو اپنا یا ہے اور زندگی سے مربوط کر کے غم جاناں کی لطیف،نازک اور پیچیدہ حقیقت کو شعری زبان میں آسان اور دل آویز مفہوم عطا کر دیا ہے‘‘۔ (39)
 جگن ناتھ آزاد رشید آفریں کی غزل کے بارے میں رقمطراز ہیں:
 ’’رشید آفریں کی غزل کلاسیکی غزل  اور نئی غزل کا حسین امتزاج ہے۔ اس میں نئے  خیالات  کی تازگی ہے اور کلاسیکی  لے کا آہنگ بھی ‘‘۔(40)
 رشید آفریں کی غزل میں اُن کا ماضی اور ماضی کی یادیں ہر طرف بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔  اُن کی  غزل کچھ کھو جانے کا احساس، تلاش، جستجو اور بچھڑنے والوں کی یادوں سے مزین ہے۔ اس حوالے سے جیلانی کامران رقمطراز ہیں:
’’اچھی شاعری وہ ہے جو انسان کی یاداشتوں کو تازہ کرے اور یہ خوبی رشید آفریں کا شاعری میں یہ درجہ تم موجود ہے۔ ‘‘(41)
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
یہ کیا مقام ہے  حیراں ہوں سحر ہے کہ فسوں
کسی کا سر ہے قلم اور کسی  کا  سر  ہے  نگوں
کبھی اْفق  پہ  یہ  خورشید   بن   کے  چمکے گا
  ردائے وقت پہ ٹپکا ہے جو  حیات  کا  خوں   (42)
احسان اللہ ثاقب کا اُردو ادب میں بڑا کارنامہ  یہ ہے کہ  انہوں  نے اپنے اولین  مجموعہ  کلام ’’شہر غزل‘‘ میںبیس بحور کے چھیاسی اوزان میں بڑی خوبصورتی سے طبع آزمائی کی ہے۔  آج اردو شاعری میں کوئی بھی قد آور شاعر اتنی تعداد میں بحور اور اوزان میں شعر نہیں  کہہ سکا۔ مزید یہ کہ انہوں نے ایک نئی بحر کا اضافہ بھی کیا ہے اور ’’اسے بحر مترنم‘‘ کا نام دیا ہے ۔یہ بحر تمام عروضی تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
کوئی ہمدرد نہ جذبوں کا شناسا نکلا
جس کو چاہا  تھا  وہی خون کا پیا سا نکلا
لاکھ اصنام ہیں اک بھی نہ خدا سا نکلا
جو سورج  کے مقابل تھا دِیا سا نکلا (43)   
  ریاض حسین چود ھری نے نعت کے ساتھ ساتھ  دیگر اصناف سخن میں بھی  طبع آزمائی کی ہے۔  لیکن اُن کی پہچان صرف  اور صرف نعت گو شاعر  کے طور پر ہی ہے۔ آپ نے نعتیہ شاعری  کو آزاد اور پابند  نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے  نئے آفاق دکھائے  ہیں اور غزلیہ انداز  کی نعتوں کو جدید اسا لیب سے  ہم آہنگ کر کے بنیاد  و  وقار عطا کیا ہے۔ آپ کا  پہلا شعری مجموعہ ’’خون رگ جاں‘‘ ہے جو ملی و قومی نظموں پر مشتمل ہے۔ آپ کے سات شعری مجموعے ’’زر معتبر‘‘، رزق ثنا‘ ،’’ تمنائے حضوری‘‘، ’’متاع قلم‘‘، ’’کشکول آرزو‘‘، ’’ سلام علیک‘‘ اور ’’خلد سخن‘‘ نعت پر مشتمل  ہیں۔ ’’ رزق ثنا‘‘، نعتیہ مجموعے پر انہیں  صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ’’سلام علیک‘‘ شعری مجموعہ اکیسیویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم ہے۔ ریاض حسین کی نعتیہ غزلیں اُن کی جولانی طبع کی بدولت ایک طرف  قصیدہ بنتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف اُن میں نظم کا تسلسل در آیا ہے۔ نو بہ نو ردیفیں اور زمینیں اس پر مستزاد ہیں۔ریاض کی کائنات  نعت میں گھر اور وطن کا استعارہ ایک جاندار اور توانا اکائی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ریاض کی نعت میں استغاثے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ اپنے  انفرادی اور اجتماعی دکھ حضورؐ کی عدالت عظمیٰ میں پیش کرکے نظر کرم کا ملتجی ہے۔
 ریاض حسین  چود ھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئین رسالتؐ کے ساتھ ساتھ، عہد  جدید کے معتبر حوالوں سے اُٹھا ہے اور اُن میں تقدس بھی  ہے اور تازہ کاری بھی۔ اُس کا اسلوب اُردو شاعری کی تمام ترجمالیات سے مستیز ہے اور اسے جدت و شائستگی کا معیار دیا جا سکتا ہے۔ (44)
احمد ندیم قاسمی ریاض حسین کی  نعت  نگاری کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
  ’’گذشتہ ربع  صدی میں ہمارے ہاںنعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔  جن شعرا نے اس صنف سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے  اضافے کیے ہیں ان میں ریاض حسین  چود ھری کا نام بوجہ روشن ہے۔ حفیظ تائب اور حفیظ جالندھری کی طرح ریاض حسین نے بھی شاعری کا آغاز غزل سے کیا مگر اس کے بعد جب نعت نگاری شروع کی تو غزل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ریاض اس دور کا ایک بھرپو ر نعت نگار ہے۔ ’’بھرپور‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ اُن کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے ،لفظ اورلہجے کی موسیقی  بھی ہے اور پھر وہ حد ادب بھی ہے  جونعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔ ‘‘(45)
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
جن  کے سینے پر  فروزاں  اْنؐ  کے ہیں نقش قدم
ایک  دیوانہ  مدینے  کی  انہی  گلیوں   میں   تھا
ڈھونڈتا   پھرتا   تھا   میں  نقش کف پائے  حضورؐ
اک عجب سا کیف میرے مضطرب سجدوں میں تھا46))
یوسف نیر نے  کافی  لمبا عرصہ مرے کالج میں بطور اُستاد گذارا۔  آپ مرے کالج کی مجلس سخن اور مجلس اقبال کے انچارج رہے۔ مرے کالج کے علمی وادبی مجلہ ’’الفیض‘‘ کے نگران رہے اور مرے کالج سے ’’اقبال نمبر‘‘ اور ’’غالب نمبر‘‘ بھی شائع کیے۔۱۹۸۸ء میں آپ پاکستان رائٹرز گلڈ کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ پنجابی ادبی سنگت لندن نے انہیں ۲۰۰۰ ء کا ادبی ایوارڈ لندن میں ایک مشاعرے کے بعد پیش کیا۔
 ’’روشنی کا پہلا دن‘‘ یوسف نیر کا شعری مجموعہ ہے۔یوسف نیر کا بہت سا شعری سرمایہ   مسودوں کی صورت میں اُن کے پاس موجود ہے (47)  
 معاشرتی جبر اور گھٹن، آواز حق، غم جاناں و غم دوراں، جد جہد، اجتماعی شعور، بھوک وافلاس، امن و آشتی، روحانی فضا، تصور، و طنیت اور انسانی زندگی کی ترجمانی یوسف نیر کی شاعری  کے موضوعات ہیں۔ آپ نے  متنوع اصناف سخن میں شعر کہے ہیں لیکن  غزل  آپ کی محبوب صنف سخن ہے۔ نیر کی غزل اور نظم میں فن محاسن کا بھی خوبصورت استعمال ہے۔ آپ سیدھے سادے بیانیہ اسلوب میں اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتے ہیں۔ اور سادہ دلوں پر اثر کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں۔  اُردو غزل کو نئے تجربات اور اسالیب سے آشنا کرنے والے شعرا میں یوسف نیر کا نام سرفہرست ہے۔ آپ نے حسن و عشق اور جنسی تجربات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے لیکن روایتی شعرا کی طرح  گیسو، لب و رخسار میں گم  رہتے نظر  نہیں آتے۔ عدیم ہاشمی یوسف نیر کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اُردو غزل نے جس جدت کے ساتھ پچاس کی دہائی  کے آخراور ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں آنکھیں جھپکیں، جس ڈکشن اور جس اسلوب نے اردو غزل کو پرانی غزل سے علیحدہ کر کے نئی  جدید غزل کا پیراہن  پہنایا۔  یوسف نئیر کی غزل اسی جدید غزل کی نمائندگی کرتی ہے۔ ‘‘(48)
جس سرزمین نے اقبال اور فیض پیدا کیے اس زمانے میں صابر ظفر پیدا کیا ہے۔ صابر کے  لکھے ہوئے دل میں اُتر جانے والے  گیتوں اور نظموں کے بول، چھوٹی بحروں میں جدید رویوں کی ضمانت غزلیں اکثر سامعین ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سنتے رہتے ہیں۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابتدا‘‘ ہے جسے التحریر ادارہ لاہور نے شائع کیا۔ ’’دھواں اور پھول‘‘، ’’پاتال‘‘،’’جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی‘‘،’’دریچہ بے صدا کوئی نہیں‘‘، ’’لہو ترنگ‘‘، ’’دکھوں کی چادر‘‘، ’’بارہ دری میں‘‘، ’’اک تری یاد رہ گئی باقی‘‘،’’عشق میں روگ ہزار‘‘، ’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘‘، ’’صابر ظفر کی مزاحمتی شاعری‘‘،’’چین اک پل نہیں‘‘، ’’پل دوپل کی چاہت میں‘‘،’’اُڑان‘‘، ’’محبت کا نیل کنٹھہ‘‘، ’’کوئی لو چراغ قدیم کی‘‘،’’نامعلوم‘‘ اور ’’ترے عشق نے مالا مال کیا‘‘۔(49)
صابر ظفر کے شہرہ آفاق شعری مجموعے ہیں۔ اب تک  تیس کے قریب اُن کے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور کچھ مسودوں کی صورت میں اُن کے پاس موجود ہیں۔
 صابر ظفر جدید غزل گو شاعر ہیں۔ اُن کے ہاں جبر کے خلاف شدید تلخی پائی جاتی ہے اور انصاف کشی پر انہیں طیش آتا ہے۔ صابر ظفر نے اپنی غزل میں داخلیت اور خارجیت کی پرانی بحث کو بالکل  ختم  کر دیا ہے ۔ اور یہ ثابت کیا ہے کہ داخلیت خارجیت سے متاثر ہوتی ہے اور خارجیت کے بغیر بلاغت سے محروم رہ جاتی ہے۔ آپ نے اپنی غزل  میں حقائق حیات کی ترجمانی کی ہے۔ صابر ظفر تخیل کے ریلے میں تعقل سے کبھی دست کش نہیں رہتا۔ وہ خارجی آنکھ کھولے رکھتا ہے تا کہ اس کی باطنی آنکھ کی بصارت دھندلا نہ جائے۔ تغزل میں شعور کی آمیزش، جس کا آغاز غزل میں غالب نے کیا اور جسے فراق نے اعتبار بخشا، صابر ظفر کے ہاں حسن کاری اور حقیقت نگاری کا ایک دلآویز سنگھم بن کر نمودار ہوئی ہے۔ صابر ظفر کی غزل یقیناً غزل کی کلاسیکی روایت سے پھوٹی ہے مگر اس  نے دوسرے ہم سفروں کی طرح اس روایت میں اپنی شخصیت، اپنا منفرد رویہ اور اپنے عصر کی روح شامل کر کے ایک نئی روایت کی داغ بیل پڑنے کا امکان بھی پیدا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی صابر ظفر کی ابتدائی غزل کے بارے میں یہ رائے ہیـ:
’’نئی اُردو غزل کا ذکر  چھڑے تو بات صابر ظفر تک ضرور  پہنچتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے نئی غزل کی سمفنی میں ایک ایسی آواز کا اضافہ کیا ہے جو اس سے ہم آہنگ ہی نہیںآوازوں کے اس جھرمٹ سے الگ بھی ہے۔ صابر ظفر کے کلام میں ابھی سے ایک پائیدار نقش بننے کا وصف نمایاں ہو رہا ہے۔ ‘‘ــ (50)
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
صورت مرگ فقط راہ کی ٹھوکر نکلی
زندگی تو مرے اندازے سے کم تر نکلی
آتش کبر نکلتی ہی نہ تھی دل سے ظفرؔ
چوب منبر کو جلایا تو یہ کافر نکلی (51)
مذکورہ بالا شعرا کی شاعری کے تحقیقی و تنقیدی جائزے کے بعد  میری را ے ٔ یہ ہے کہ سیالکوٹ کی اردو شاعر ی عالمی اردو شاعر ی کے ہم پلہ ہے۔ سیالکوٹ کی شاعر ی کے اپنے موضوعات اور اسالیب بھی ہیں اور عالمی اردو شاعر ی کے موضوعات اور اسالیب کو بھی سیالکوٹ کی  شاعر ی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سیالکوٹ کی شاعر ی پر دبستان دہلی اور لاہور کی شعری روایت کے اثرات بھی  رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں کے شعرا نے دہلوی شعری روایت کے اثرات کو قبول کیا اگرچہ قیام پاکستان کے بعد ان پر لاہور کی شعری روایت کے اثرات رہے ہیں۔تاہم ان اثرات کے باوجود سیالکوٹ کی شاعری کا اپنا مزاج بھی ہے ۔سیالکوٹ کی شاعری پر کشمیر کے حالات و واقعات کے اثرات کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کے بھی اثرات رہے۔ ادبی،سیاسی ا ور مذہبی تحریکوں نے بھی یہاں کی شاعری کو متاثر کیا ۔
 سیالکوٹ مذہبی  تحریکوں کا بھی ایک اہم مرکز رہا ہے ۔ اقبال سمیت یہاں کے اکثر شعرا نے مذہب کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ اقبال و فیض کے شعری دبستانوں نے بھی سیالکوٹ کی شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔موجودہ دور کے شعرا بھی مذکورہ بالا سیالکوٹ کی شعری روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
حوالہ جات
1۔     زوبیہ  چوہدری ’’تاب اسلم ۔ شخصیت اور شاعری‘‘، مقالہ برائے ایم۔ اے اردو (غیر مطبوعہ) ،لاہور ، پنجاب یونیورسٹی ،۲۰۰۴ء،ص:۶
2۔    ڈاکٹر وحید قریشی، ’’پیش لفظ ‘‘ ، مشمولہ ،’’ باقیاتِ تاثیر ‘‘ ، از مجید احمد تاثیر ، لاہور، الوقار پبلی کیشنز ،  ۲۰۰۰ء ، ص: ۵،۶
3۔     نوحی بریلوی بحوالہ ’’ یو سف رحمت‘‘، ’’ عبدالنبی شجر طہرانی۔ شخصیت اور شاعری‘‘ مقالہ برائے ایم۔ فل اردو ( غیر مطبوعہ) ، اسلام آباد، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، ۱۹۹۳ء، ص: ۱۲
4۔     اعجاز الرحمن، ’’ شجر کی شاعری کی قدروقیمت‘‘، مشمولہ’’ بہار شجر ‘‘ ، ص: ۱۱
5۔      رشید آفرین، بحوالہ ’’ یوسف رحمت‘‘ ، عبد النبی شجر طہرانی۔ شخصیت و شاعری‘‘، ص: ۷۷
6۔      ڈاکٹر نظیر حسین زیدی، ’’ ظفر علی خان کی شعری تصانیف‘‘، مطبوعہ ’’ چناب میگزین‘‘ ، سیالکوٹ ، گورنمنٹ ڈگری کالج وزیر آباد ،۱۹۸۶ ء،ص: ۱۳۲
7۔    ایضاََ ، ص: ۱۳۵
8۔    امین حزیں،’’ نوائے سر وش‘‘، لاہور ، الفیصل ناشران، ۲۰۰۶ء     ، ص: ۵،۶
9۔    حبیب کیفوی، ’’ امین حزیں۔ عبد لسمیع پال‘‘ ، مشمولہ’’ اقبال ریو یو ‘‘، ص : ۷۰
10۔    ڈاکٹر انور سدید،’’ اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘، لاہور، اے ایچ پبلشرز، اپریل ۱۹۹۶ء  ، ص :۳۳۷
11۔    امینِ حز یں ، سرود سرمدی، الفیصل ناشران ، لاہور،۲۰۰۶ء ، صفحہ ۱۱
12۔    صادق حسین، ’’بر گ سبز‘‘، لاہور، فیروز سنز، ۱۹۷۷ء، ص : ۶۱
13۔    حبیب کیفوی، ’’ کشمیر میں اردو‘‘ ، لاہور، مرکزی اردو بورڈ، باراول، ۱۹۷۹ء، ص: ۲۱۳،۲۱۹
14۔     حبیب کیفوی، ’’ کشمیر میں اردو،‘‘ ص: ۲۱۶،۲۱۷
15۔    ا ثر صہبائی، بحضورؐ سرور کائنات، لاہور، انجمن حمایت اسلام، ۱۹۶۰ء، ص ۱۵
 16۔    ضیا  محمد ضیا بحوالہ ’’ افشیں عظیم‘‘، ’’ فاخر ہر یانوی‘‘، مقالہ برائے ایم ۔ اے اردو ( غیر مطبوعہ) ، لاہور، پنجاب یونیورسٹی ، ۱۹۹۴ء ، ص: ۶۵
17۔    احمد ندیم قاسمی بحوالہ ’’ افشین عظیم‘‘، ’’ فاخر ہریانوی‘‘ ، ص : ۷۴
18۔    پروفیسرحمد احمد خان، ’’ تعارف‘‘ مشمولہ ’’ موج صبا‘‘ از فاخر ہر یانوی، لاہور ، ایوان ِادب، ۱۹۶۶ء، ص : ۳
19-    Dr. Muhammad Sadiq, "A History of Urdu Literature", Dehli, Oxfored University Press, 1984, Page No. 528-29
20۔    مکتوب احمد ندیم قاسمی بنا م حفیظ صدیقی، بمقام لاہور، بتاریخ 10 فروری 1986 ء
21۔     فاخر ہریانوی، موجِ صبا، لاہور، ایوان ِادب، ۱۹۶۶ء، ص ۴۸
22۔    رخشہ نسیم، ’’ سیالکوٹ میں اردو شاعری ( بیسویں صدی کے دوران) ‘‘ ،مقالہ برائے ایم اے اردو، ۱۹۷۹ ء ، ص: ۷۵
23۔    عبدالحمیدعرفانی ، کلیاتِ عرفانی( زیر طبع)
24۔    ڈاکٹر طاہر تونسوی، ’’ فیض کی تخلیقی شخصیت‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء ، ص : ۱۷
25۔    ایضاََ ، ص: ۲۳
26۔    احمد ندیم قاسمی، ’’ مجید احمد تاثیر،‘‘ مشمولہ ’’ باقیات تاشیر‘‘ ، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۰۰، ص: ۱۰
27۔    ڈاکٹر سید عبد اللہ، رباعیات تاثیر مشمولہ ’’ باقیاتِ تاثیر‘‘ لاہور ، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، ص:۲۸
28۔    مجید احمد تاثیر، باقیات تاثیر، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، صفحہ ۳۳
29۔    زاہدہ پروین رضوی، ’’ طفیل ہوشیار پوری‘‘ ، مقالہ برائے ایم اے اردو ، لاہور ، اور ینٹل کالج جامع پنجاب، ۱۹۸۸ء، ص ۸- ۱۰
30۔    ڈاکٹر سید عبد اللہ، ’’ شعلہ جام پر ایک نظر‘‘ ، مشمولہ’’ شعلہ جام‘‘، احسان اکیڈمی، لاہور، ۱۹۷۸ء  ، ص: و
31۔    طفیل ہوشیارپوری، شعلہ جام، لاہور، فنون پریس، ۱۹۷۸ء  ، ص ۳۵
32۔    زوبیہ چوہدری، ’’ تاب اسلم شخصیت اور شاعری‘‘ ، مقالہ برائے ایم ۔ اے اردو ، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص: ۱۲
33۔    جابر علی سید، موج ِ آہنگ، ملتان، گورنمنٹ کالج، ۱۹۹۸ء  ، ص ۵۵
34۔    سبط علی صبا، طشت مراد، واہ کینٹ، مجلس تصنیف و تالیف، ۱۹۸۶ء  ، ص ۱ ۵
35۔    رضوانہ کوثر،’’ اصغر سودائی۔ فن اور شخصیت‘‘، مقالہ برائے ایم ۔اے اردو، لاہور ،پنجاب یونیورسٹی ، ۱۹۹۷ء ، ص: ۹
36۔    ایضاً ، ص: ۹۳
37۔    اصغر سودائی، شہِ دوسرا، سیالکوٹ ، بزمِ رومی و اقبال، ۱۹۸۹ء، ص ۲۵
38۔    راقم الحروف کا رشید آ فریں سے انٹر ویو، بمقام  سیالکوٹ ، بتاریخ 15 اپریل 2011ء
39۔    محمد خان کلیم، ’’ کچھ وجہ آ فریں کے بارے میں ’’ مشمولہ‘‘ وجہ آفریں‘‘ ، ص: ۱۴
40۔    جگن ناتھہ آزاد ( فلیپ) ، ’’ دستِ ساحل‘‘،از رشید آفریں
41۔    جیلانی کامران، ’’ تقریب رونمائی دستِ ساحل‘‘، مشمولہ ہفت روزہ ’’ نوائے ڈسکہ‘‘ ، جلد ۷، شمارہ ۱، ڈسکہ، ۲۴ تا ۳۱ دسمبر ۱۹۹۵ء ،ص : ۴
42۔    رشید آفریں، وجہِ آفریں، سیالکوٹ، مکتبہ ِ فردوس، ۱۹۷۳ء ، ص ۱۷
43۔      عطااللہ، قاضی، شعرائے پسرور، پسرور، ادبی سبھا، ۱۹۹۵ء، ص ۲۲۰
44۔    حفیظ تائب، ’’ پیشوائی‘‘ ، مشمولہ’’ زر معتبر‘‘ از ریاض حسین چوہدری ،لاہور، خزینہ علم و ادب، ستمبر ۲۰۰۰ء، ص: ۲۳
45۔    احمد ندیم قاسمی، ( سرورق)،’’ زر معتبر ‘‘ از ریاض حسین چوہدری
46۔    ریاض حسین چودھری، رزق ثنا، لاہور،خزینہ علم و ادب، ۲۰۰۰ء ، ص ۵۲
47۔     راقم الحروف کا  یوسف نیر سے انٹر ویو،بمقام سیالکوٹ، بتاریخ ۱۸ جولائی ۲۰۱۱ ء
48۔    عدیم ہاشمی، (فلیپ)، ’’ روشنی کا پہلادن‘‘ ازیوسف نیر، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۲ء
49۔    صابر ظفر ، ’’ محبت ہو نہیں پاتی‘‘ ،( فلیپ) ، لاہور، نگار شات پبلشرز، ۲۰۰۵ء
50۔    ڈاکٹر وزیر آ غا، ( سرورق) ، ’’ابتدا ‘‘ از صابر ظفر، لاہور، التحریر، ۱۹۷۴ء
51۔    صابر ظفر، محبت ہو نہیںپاتی، مرتبہ طاہر نظامی، لاہور، نگار شات پبلشرز، ۲۰۰۵ء ، ص ۱۵

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...