Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > سیالکوٹ میں صوفیانہ شاعری کی روایت

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

سیالکوٹ میں صوفیانہ شاعری کی روایت
ARI Id

1688388584597_56116232

Access

Open/Free Access

Pages

40

سیالکوٹ میں صوفیانہ شاعری کی روایت

اردو ادب میں عرفان و تصوف  کی روایت ایک بلند مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔اردو کے ہر بڑے شاعر نے صوفیانہ تصورات میں اپنے جوہر دکھا کر عشق ِخدا سے اپنے ایمان کو منور کیا ہے۔ تصوف میں خدا کے حوالے سے کائنات ،موجودات اور اسرارو رموز کا بیان کیا جاتاہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے اردو دبستانوں میں صوفیانہ شاعری کی روایت کا اپنا مقام ہے۔ان دبستانوں  میں  اردو ادب کے بڑے بڑے مشاہیر پیدا ہوئے اور صوفیانہ شاعری کی روایت  میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان  دبستانوں میں سیالکوٹ  کا علاقہ بھی ایک  اہم دبستان کی حیثیت رکھتا  ہے ۔پیش ِ نظر آرٹیکل میں سیالکوٹ کے  کچھ شعرا کی صوفیانہ شاعری   کا تحقیقی و تجزیاتی  مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔کلامِ اقبال میں تصوف بھی ایک نمایاں موضوع ہے۔اقبال کا فطری رجحان متصوفانہ فکر و فلسفہ کی طرف تھا ۔یورپ میںیورپی فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی زیادہ قوی ہو گیا تھا کیونکہ یورپی فکروفلسفہ کا رجحان وحدت الوجود کی طرف تھا ۔قرآن پاک پر تدبر  کرنے  اور تاریخ  اسلام  کا بغور مطالعہ  کرنے کے بعد  اقبال کو اپنیغلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے قرآن کے مطالعہ کی وجہ سے سےاپنے  قدیم نظریہ کو ترک کردیا۔ اقبال کو اس مقصد کے لئے اپنے طبعی رجحانات کے ساتھ  دماغی و قلبی جہاد کرنا پڑا ۔اقبالؒ کے  درج ذیل اشعار میں یہ رجحان واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے:
چمک تیری عیاں بجلی میں،آتش میں ،شرارے میں
جھلک تیری ہو یدا چاند میں سورج میں ،تارے میں
جو ہے بیدار  انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں(1)
یہ ابتدائی وقت تھا جب اقبال ؒ وحدت ولوجود کے فلسفہ سے بہت زیادہ متاثر تھے لیکن بعد میں قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ ﷺ کے عمیق مطالعہ سے اس  عقیدہ و فلسفہ سے تائب ہوگئے۔اقبالؒ تصوف کو  دو شاخوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ایک تصوف جو ناامیدی،عجز و ناتوانی کی تعلیم دیتا ہے ۔وہ اس کو عجمی تصور کرکے  اس کی مخالفت کرتے ہوئے  نظر آتے ہیں۔
حذر اس فقر و درویشی سے جس نے
مسلماں کو سکھا دی سر تبریزی(2)
دوسرا تصوف وہ جو  جوش و جذبہ  اور حرکت و حرارت  کی نصیحت کرتا ہے۔جس کے سامنےشہنشاہیت کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔اس حوالے سے کلامِ اقبال ملاحظہ ہو:
چشم و گوش و لب کشا اے ہوش مند !
گر نہ بینی راہ حق  برمن نجند(3)
اقبالؒ اپنی فارسی شاعری میں ایک جگہ یوں فرماتے ہیں:
می شود ہر مود رازے خرقہ پوش
آہ!زیں سوداگر ان دیں فروش
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبار ملتِ بیضا شکست(4)
اقبالؒ کے نزدیک اصل حیات طاقت ہے۔اس لئے وہ طاقت کو جہاں اورجس  رنگ میں دیکھتے ہیں بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔جرمن فلاسفر نطشے کو اسی لئے پسند کرتے تھے کہ وہ قوت و طاقت کا قائل تھا۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو(5)
اب حجرہ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
اے حلقہ درویشاں وہ مرد خدا کیسا
ہو جس کے گریباں میں رستاخیز(6)
اقبالؒ کے نزدیک موجودہ عجمی خانقاہیت عقائد و اعمال میں خرابی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں:
سکھا دیے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی
فقیہ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب(7)
نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
رہا صوفی گئی روشن ضمیری(8)
اقبالؒ اپنے صوفیانہ انداز پر بہت نازاں ہیں۔ انہوں نے تصوف کے آغوش میں پرورش پائی اور فلسفے کی صحبت میں تربیت حاصل کی۔تصوف اور حکمت کے امتزاج نے اقبال کے اشعار میں وہ معجزہ بیانی اور مضمون آفرینی پیدا کی جو اردو ادب میں کسی اور شاعر کے ہاں کمیاب ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں بے اندازہ لطافت اور رنگینی پائی جاتی ہے۔اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
رند کہتا ہے ولی مجھ کو ولی رند مجھے
سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب
کوئی سمجھتا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں
دیکھ اے چشمِ عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
جس پر خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں
مزرعِ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا
درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا(9)
تصوف سے بھرپور ایک مناجات کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ اس مناجات کے پڑھنے میں جو لطف ہے وہ اسلامی دل کا ہی حصہ ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے فروش ہو تو نوائے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں(10)
اقبالؒ اپنے دور کے خانقہی  نظام سے سخت بیزار تھے۔وہ اپنے زمانے کی خانقاہوں کے حالات کا تذکرہ افسوس اور دکھ کے ساتھ اس طرح کرتے نظر آتے ہیں :
قم باذن اللہ کہہ سکتے  تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن(11)
اقبال ؒ اپنے کلام میں ایک جگہ یوں نو حہ کناں دیکھے جا سکتے ہیں :
نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقہ ء سالوس کے اندر مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں میں تصرف میں ،عقابوں کے نشیمن(12)
اقبالؒ ان مراقبوں اور ذکر واذکار کو بے فائدہ خیال کرتے ہیں  جو مصائب و آلام کا علاج نہ ہوں۔اس حوالے سے کلام ِ اقبال ملاحظہ ہو:
یہ ذکر نیم شبی ،یہ مراقبے ،یہ سرود
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں(13)
"ہندی اسلام"میں اقبال ؒ موجودہ طریقِ خانقاہی کو یوں بیان کرتے ہیں :
اے مردِ خدا تجھ وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو یاد کر
مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام ایجادکر(14)

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں
بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست
گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست(15)
مولوی فیروز الدین انجمن حمایتِ اسلام کے سرگرم کارکن تھے۔ اکثر انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتے۔ انجمن کے تیسرے سالانہ جلسے’ منعقدہ 25تا 27 فروری 1888ء میں سیالکوٹ سے جو لوگ شریک ہوئے ان میں مولوی صاحب موصوف ’ شیخ محمد اقبال (علامہ اقبال جوان دنوں سکاچ مشن کے طالب علم تھے) کے علاوہ دیگر اصحاب بھی شامل تھے۔(16)مولوی صاحب صرف عالمِ دین ہی نہ تھے بلکہ صاحب عشق بھی تھے۔ ان کا محبوب شاعروں کا روایتی محبوب نہیں جو اپنے چاہنے والوں کو ذلت سے آشنا کرتا ہے۔ ان کا محبوب وہ ہے جو اپنے چاہنے والوں کو دنیاوی محبوب سے بے نیاز بلکہ بیزار کر دیتا ہے۔ ان کی عارفانہ کلام  کا ایک بند ملاحظہ ہو:
جب سے اس مہوش کو دیکھا’ کچھ نہ عقل و ہوش ہے
بادۂ الفت سے دل اپنا میرا مدہوش ہے
ساقی قدرت سے بے بس آواز نوشانوش ہے
اس پیارے حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترُک یا تاتار کا(17)
امینِ حزیں کی شاعری وجدان و تصوف  جیسے موضوع سے بھری پڑی ہے۔ ان کے نزدیک دنیا میں روشنی صرف اور صرف وجدان کی وجہ سے ہے اور وجدان کا انسانی عظمت میں اہم کردار ہے۔ وجدان کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
دیکھا ہے تصور میں اِک مست تغافل کو
کونپل میں نظر آیا گلشن دلِ بلبل کو
اِک پل میں پہنچتا ہوں میں عرشِ حقیقت تک
جب ایڑہ بتاتا ہوں وجدان کے دلدل کو
وجدان کے شعلے سے دنیا میں اجالا ہے
نام آدمِ خاکی کا اس نے اچھالا ہے
تصویر مکمل ہے وجدان کی رفعت کی
کہتے ہیں نبی جس کو وجدان کا ہمالہ ہے(18)
خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا کرنا ہر سچے مسلمان کی فطرت ہے۔ امینِ حزیں ایک سچے اور کھرے مسلمان ہیں وہ اﷲ تعالی کی حمد و ثنا بھی کرتے ہیں۔مشکل وقت میں اس کے سامنے التجا بھی کرتے ہیں وہ اﷲ تعالی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی اور ذات حاجت روائی نہیں کر سکتی اس لئے امینِ حزیں فقط اسی ذات کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔
عارف میرٹھی کی شاعری میں بھی عرفانی تصورات جا بجا ملتے ہیں ۔ عشق و جنون’ عشقِ حقیقی  اورتصوف  ان  کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نورِ عرفاں جو میرے چشم کو بینا کر دے
ذرہ ذرہ سے عیاں طور کا جلوہ کر دے
تو اگر چشمِ عنایت کا اشارہ کر دے
کاہ کو کوہ کرے’ قطرہ کو دریا کر دے
کششِ عشق جو جذبات مہیا کر دے
قوتِ ضبط کو منصور کا دعویٰ کر دے(19)
خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و توصیف کرنا ایک مومن کے ایمان کا لازمی جز ہے۔ اثرؔ صہبائی کی شاعری میں بھیعارفانہ تصورات جا ببجا نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تیری بہار جانفزالالہ و یاسمن میں ہے
تیرا جمال دلکشاتاروں کی انجمن میں ہے
بادِ صبا میں تیری نکہت خوش بسی ہوئی
تیرا ہی جلوہ ضوفشاں پھولوں کے پیرہن میں ہے
کعبہ و دیر میں عبث ہم تھے ڈھونڈتے رہے
تو ہی کلی کلی میں ہے تو ہی چمن چمن میں ہے
رنگ میرے خیال کا’ فیض تیرے جمال کا
کیف تیرے وصال کا میری مئے سخن میں ہے(20)
اثرؔ صہبائی کی طبیعت شروع ہی سے حکیمانہ  و متصوفانہ موضوعات کی طرف مائل تھی۔ کلامِ اقبال کا مطالعہ وہ شروع ہی سے کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نوجوان شاعر کا کلام حقائق و معارف کے انمول جواہرات سے مالا مال ہو گیا۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
یاد تیری شراب ہے ذکر تیرا سرود ہے
کیف طرب میں موج زن میرایم وجود ہے(21)
ذرے ذرے میں خیابار ہے طلعت تیری
پتے پتے میں چمن ساز ہے جلوہ تیرا
سنگِ اسود میں ہے مستور حقیقت تیری
اور صنم خانوں میں ہے جلوہ پیدا تیرا
تیرا ہی ہے کعبہ ہو کہ مے خانہ ہو
شیخ تیرا ہے’ غریقِ خم صہبا تیرا(22)
وجود مطلق یا ہستی خدا صوفیانہ شاعری میں یہ مسئلہ ہمیشہ زیرِ بحث رہا ہے۔ اس کے ساتھ مسئلہ جبر و قدر بھی ہمیشہ سے انسانی خیالات کا موضوع رہا ہے۔ فلاسفر اور صوفی تو کیا ایک عام انسان بھی کبھی کبھار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ مسائل نہایت اہم اور پیچیدہ ہیں اور قوم کے مفکرین  ان کے متعلق اپنے اپنے نظریات رکھتے ہیں۔ اثر ؔصہبائی نے بھی ان مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تیری ہستی کا کچھ یقیں بھی نہیں
میرے لب پر مگر ‘‘نہیں’’ بھی نہیں
دیکھتا ہوں تو ہر جگہ موجود
سوچتا ہوں تو پھر کہیں بھی نہیں(23)
مسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
بیگانہ ہوش ہوں کہ ہوشیار ہوں میں
ہوں عالمِ خواب میں کہ بیدار ہوں میں
فطرت کی ستم ظریفیاں تو دیکھو
‘‘مجبور’’ کو وہم ہے کہ ‘‘مختار’’ ہوں میں(24)

مضطرؔ نظامی  کی شاعری میں تصوف  کے مضامین  بکثرت ملتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک طرح کی پاکیزگی اور تقدس کا احساس پایا جاتا ہے۔ تصوف کی وجہ سے مضطرؔ نے بعض اوقات محبوبِ حقیقی کا عکس دکھایا ہے۔ معرفت کے رموز وبیان کیے ہیں اور زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کو بھی اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ وہ ایک صوفی نہ سہی لیکن تصوف کا رنگ ان کی شاعری میں نمایاں ہے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
کر شکوہ نہ بے مہری احباب کا مضطرؔ
کوئی نہیں تیرا تو میری جان خدا ہے
دل بادہ توحید سے پر نور ہے مضطرؔ
ساقی کا کرم ہے غمِ صہبا نہیں رکھتی(25)
مضطر کی شاعری میں زندگی کا یہ رخ بھی نمایاں ہے کہ انساں کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ بشرط کہ اسے عرفانِ ذات اور عرفانِ خدا وندی حاصل ہو جائے اور وہ اپنا مقام و مرتبہ پہچان لے تو وہ خاک سے اکسیر بن جاتا ہے۔ اسی کیفیت کی باز گشت مضطر کی شاعری میں نمایاں ہے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
مہ و ستارہ تو ادنیٰ غلام ہیں تیرے
مہ و ستارا سے اعلیٰ مقام پیدا کر
جسے نہ توڑ سکے گردشِ ضربِ افلاک
کرم اے ساقی مہوش وہ جام پیدا کر(26)
انسان جب تک زندگی میں عشق کی دولت سے مالا مال نہیں ہوتا اس وقت تک وہ زندگی میں اہم مقام پیدا نہیں کر سکتا۔مضطرؔ کی شاعری میں یہ درس عام ملتا ہے۔ انھوں نے انسان کے اندر عشق کی قوت لا زوال کو پیدا کرنا چاہا ہے۔ جس کے فیضان سے انسان زندگی کی حقیقتوں اور رفعتوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
اپنی صدا کے دل سے تو بانگِ درا کاکام لے
دم کہیں کارواں نہ دے اس کا اعتبار نہ کر(27)
مرتا ہے عشق بھی کہیں مرتا ہے عشق بھی
تکلیف اس رہن و دار کے قربان جائیے(28)
پہلے منصور صفت سر تو کٹا لے اپنا
پھر کہیں دعویٰ بھی اے عاشق ہر جائی کر(29)
تغزل کیفیات حسن و عشق کے اس ایمائی اظہار کا نام ہے۔ جس میں شدت ہوتی ہے۔ مگر شائستگی اور خلوص لے کر آتی ہے۔ حسنِ ادا کے ساتھ ساتھ فلسفہ و تصوف کے مضامین میں تغزل تب آتا ہے۔ جب انھیں عشق و محبت کے انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ تغزل میں تفصیل سے زیادہ ایجاذ و اختصار ،ہیجان کی بجائے ضبط اور وضاحت کی بجائے ایمائیت ہوتی ہے۔ مضطرؔ کی شاعری میں مذکورہ بالا تعزل کے سبھی رنگ ،انداز اور موضوعات پائے جاتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں :
ڈھونڈتی پھرتی ہے آنکھ اس نگاہ ناز کو
چھپ گیا ہے چھوڑ کر جو صورت بسمل مجھے
کوئی ظاہر پہ مرتا ہے کوئی باطن پہ اے مضطرؔ
کسی کا دل حسیں ہے اور کسی کی ہیں حسین آنکھیں(30)
ہم غفلت محبوب کا شکوہ نہیں کرتے
اک راز محبت ہے افشا نہیں کرتے
خوباں کی ولایت کے دستور نرالے ہیں
زندانی اُلفت کو آزاد نہیں کرتے(31)
عقل و عشق اردو اور فارسی شاعری کا قدیم موضوع ہے۔ عشقیہ شاعری میں عقل مصلحت اندیشی اور احتیاط کے معنی میں آتا ہے۔ اور عشق اس والہانہ محبت کا نام ہے۔ جو آداب مصلحت سے نا آشنا ہے۔ مضطرؔ نے عقل و عشق کے تصورات صوفی شعرا سے لے کر ان پر جدید فلسفہ و احدانیت کا رنگ چڑھایا ہے۔ انھوں نے اپنی جدتِ فکر سے اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو حل پیش کرتی ہے۔ لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ عشق ہے مضطرؔ کے ہاں عشق سے مراد یقین و ایمان ہے۔ ان کے نزدیک عقل اور علم کی سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ اس کی بنیاد شک پر قائم ہے۔عقل و عشق کے موازنے کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
عشق محبوب سے ہمکنار ہو گیا
عقل زادِ سفر باندھتی رہ گئی
عقل بت بن گئی سوچتی رہ گئی
کھیل تقدیر کے دیکھتی رہ گئی(32)
عشق صادق کے فیض سے مضطرؔ
آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں
بندہ عقل سے اسرار کی بات
بندہ عقل سے اسرار کی بات
تیرے دیوانے کہاں کرتے ہیں(33)
مجید تاثیر کوئی صوفی شاعر تو نہیں تھے لیکن ان کے ہاں تصوف، معرفت اور مسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے بہت سی رباعیاں موجود ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
خاموش فلک کے چاند تاروں میں ہے تو
اور زمزمہ ریز آبشاروں میں ہے تو
رنگینی جاں ہے تُجھ سے کہساروں میں
فردوس نگاہ لالہ زاروں میں ہے تو
کچھ دیر سکوں پذیر ہو جا اے دل
اک عالم بے خودی میں کھو جا اے دل
میں ڈھونڈ رہا ہوں بزم انجم میں اُسے
مت چھیڑ مجھے خموش ہو جا اے دل
باغوں کی ہوا بلا رہی ہے مجھ کو
فطرت نغمے سنا رہی ہے مجھ کو
اے منہ سے نہ اک حرف بھی کہنے والے
تیری آواز آ رہی ہے مجھ کو(34)
شایان عذاب ناز کہنے والو
انساں کو گہنگار کہنے والو
معقول دلیل بھی تو لاؤ کوئی
اے جبر کو اختیار کہنے والو(35)
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کے دربار میں سر بسجود ہونا ہر مومن کی صفات میں شامل ہے۔ مجید تاثیر سچے اور کھرے مسلمان ہیں وہ اپنی شاعری میں خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اور انسانیت کے لیے اللہ تعالی کے سامنے التجائیں اور دعائیں کرتے بھی نظر آتے ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
دل اور دماغ کو منور کر دے
خوشبوئے جمال سے معطر کر دے
باغوں کونئی بہار دینے والے!
ہر خار حیات کو گل تر کر دے
مٹی کو فلک جناب کرنے والے!
تلچھٹ کو شراب ناب کرنے والے!
اِک گوشہ بے کسی میں تاثیر بھی ہے
اے ذرے کو آفتاب کرنے والے!(36)
طفیل ہوشیار پوی کی شاعری میں تصوف کے مضامین کا بیان بھی بکثرت ملتا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
اب نہیں دل میں تمنا کا نشاں تک باقی
آئینہ عکس رخِ یار تک آ پہنچا ہے
دل کے آئینے میں آئے تو نظر آئے طفیلؔ
وہ ہے بے مثل بھلا کیسے مثالوں میں ملے(37)
ساغر جعفری کا کلیات ِ شاعری صوفیانہ تصورات سے بھرا پڑا ہے۔اُردو غزل گو شعرا نے تصوف کے مختلف مسائل ،معرفتِ الہی ،شانِ عبودیت ،وحدت و کثرت ،اخلاصِ نیت اور بے ثباتی دنیا کو بیان کیا ہے۔ ساغر جعفری نے بھی تصوف کی اس روایت سے استفادہ کیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں کسی چیز کو بھی ثبات حاصل نہیں ۔ دنیا کی بے ثباتی کا درس جا بجا ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ساغر میں عمر بھر جسے کرتا رہا تلاش
وہ تو تھا میرے خانہ دل میں چھپا ہوا
بس نہیں چلتا اس وقت کسی کا ساغر
دوڑ کر جب گلے ملنے کو قضا آتی ہے(38)
دہر کی ہر ایک شے زندانی تقدیر ہے
شاخ پر جو پھول مرجھاتا ہے پھر کھلتا نہیں(39)
ساغر کی شاعری میں زندگی کے بارے میں گہرے شعور کا پتہ چلتا ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ان کا علم اور مشاہدہ وسیع ہے۔ زندگی کے حقائق کا ادراک اور شعور ان کی شاعری میں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہی بشر کہ تصرف میں جس کے ہے دنیا
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا ستارا ہے
زندگی کا کارواں رُکتا نہیں
چل رہا ہے سلسلہ دن رات کا(40)
تاب اسلم کی شاعری میں بھی جا بجا تصوف کے عناصر ملتے ہیں۔انھوں نے زندگی کی سچائیوں سے بھی اپنی شاعری کے لیے مواد حاصل کیا ہے۔ وہ بہاروں کے حسن،پھولوں کی رنگینی ،بلبلوں کی چہک اور کائنات کی ہر چیز کے رنگ و بو میں محبوبِ حقیقی کے جلوے دیکھتے نظر آتے ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
فضا کی زد میں اگر ساری کائنات ہے تابؔ
تو کوئی خواب محل ہم یہاں بنائیں کیا(41)
یہ کائنات یہ خوابوں کی وادیوں کا نگر
کسی کے بس میں کہاں اس کتاب کا پڑھنا
کنج دل میں میری چشم تر میں کون ہے
سوچتا ہوں گھُپ اندھیروں کے سفر میں کون ہے(42)
آغا وفا  ابدالی صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ توحید پر ان کا  پختہ یقین و ایمان ہے۔ وہ اپنے  زمانہ کے صوفی ازم اور تصوف سے نالاں ہیں ۔علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مگر آغا وفا نے اپنے انداز میں اس کی تصویر کشی یوں کی ہے:

رخ توحید دھندلایا تصوف کی سیاہی سے
مسلمانی ہوئی کمزور رسمِ خانقاہی سے
یہ اک واضح حقیقت ہے بقول شاعرِ مشرق
حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے(43)
اکرامؔ سانبوی روایت پسند شاعر ہیں اور ان کے ہاں کلاسیکی موضوعات کی جھلک بھی ملتی ہے۔عشق و محبت ،تصوف اور محبوب کی یاد اردو کی کلاسیکی شاعری کے اہم موضوعات ہیں ۔ اکرام بھی فراق و وصال کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایک صوفی شاعر کی طرح عشق حقیقی میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تصور میں کسی کے کھو گیا ہوں
بھری محفل میں تنہا ہو گیا ہوں
زمانہ یاد کیا رکھے گا مجھ کو
میں خود گزرا زمانہ ہو گیا ہوں(44)
ہوا میں چار سو پھیلی ہے شوق کی خوشبو
اب آؤ چمن میں منائیں جشنِ بہاراں(45)
ہوتی نہیں بے تاب نگاہوں کی تسلی
دیکھا کیے جلوے رخ زیبا کے ازل سے
اس شوق کا انداز فسوں ساز تو دیکھو
کٹیا کہیں بہتر ہے مجھے شیش محل سے(46)
اسلم ملک نے حمد سے نعت ،غزل نظم اور ہائیکو جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ تصوف اور عشقِ حقیقی اسلم ملک کی شاعری کا ایک بڑا موضوع ہے۔ اسلم ملک کے نزدیک صرف خدائے رحیم و کریم ،تعظیم ،عظمت اور تمہیدو ستائش کا حقدار ہے۔ لالہ و گل میں اس کی خوشبو ہے۔ اور سورج چاند ستاروں کی روشنی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ نور اور نور کا منبع ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
لالہ و گل میں جو خوشبو ہے فقط تری ہے
چاند ستاروں کی چمک میں بھی ہے فیضان تیرا
گیت تیرے ہی سناتے ہیں پرندے سارے
بزمِ قیمتی کا ہر اک فرد ثنا خواں تیرا(47)
اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا خالق و مالک ہے۔ یہ ساری خلقت اس کا کنبہ ہے۔ وہ ساری مخلوقات کا پروردگار ہے۔ عرش و فرش اس کے جلال سے بھرپور اور معمور ہے۔ وہ بنی نوع انسان کے ہر درد کا درماں اور ہر مشکل میں عقدہ کشا ہے۔ اسلم ملک اپنی ایک حمدیہ نظم میں انھی خیالات کا اظہار اس طرح سے کرتے ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تو خالق و مالک ارض و سما
سبحان اللہ ، سبحان اللہ
تو داتا مرے دل میں بسا
سبحان اللہ ، سبحان اللہ
خلقت ساری ہے کنبہ ترا
سبحان اللہ ، سبحان اللہ
تو افضل و اکمل سب سے بڑا
سبحان اللہ ، سبحان اللہ(48)
سر مدؔ صہبائی ظاہری طورپر صوفی نہیں ہیں اور نہ صوفیا کے کسی سلسلے سے وابستہ ہیں۔ بلھے شاہ، مادھو لعل حسین کی شاعری سے ان کو گہرا لگاؤ ہے جس کی وجہ سے ایک خاص وقت اور مخصوص ماحول میں اچانک سرمد کے اندر کا صوفی بیدا ر ہو گیا اور کافیوں پر مشتمل کتاب ‘‘نیلی کے سورنگ’’ تخلیق کی۔ جس کی وجہ کافی کی روایت میں ایک نئے دور کے شاعر کے احساسات اپنے کے دیس لوگوں کے لیے امنڈ آئے اور ایک سوئی ہوئی شعری صنف جاگ اُٹھی۔ سرمدؔ نے ‘‘نیلی کے سورنگ’’ میں جو کافیاں لکھی ہیں یہ آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں۔ اس شعری مجموعہ میں جہاں خوبصورت مقامی الفاظ موسموں اور رنگوں کی مٹھاس ہے ۔وہاں شاعر نے اپنے لاشعور کی باتیں شعور میں لا کر اپنے خیالات و احساسات اور محسوسات کو صدف بنا کر سیپی میں بند کر دیا ہے۔اس مجموعہ میں شاعر نے سچل سر مست اور بابا بلھے شاہ کے قدیم نظریہ تصوف کی ترجمانی بھی کی ہے اور اس منافقت کے دور میں رشد وہدایت کے نئے دروا کیے ہیں لیکن وعظ نہیں کیا بلکہ بات کو کسی نہ کسی کیفیت اور احساس میں رکھ کر بیان کیا ہے۔صوفی شعرا جن میں پنجابی ،ہندی اور سندھی صوفی شعرا کے بڑے ایوان ہیں لیکن سرمد نے خود کو ان ایوانوں سے دور رکھا ہے اور عوام کی بات عوام میں بیٹھ کر کی ہے۔سرمد نے لاشعوری اور شعوری کوشش سے علاقائی زبانوں میں جو کچھ صوفی شعرا نے لکھا خود کو اس سے جوڑ لیا۔ وہی لفظیات اپنائیں جو صوفیا اکرام نے اپنائیں تھیں ۔سرمد نے پنجابی ،سندھی ،پشتو،سرائیکی ،پہاڑی اور دوسری علاقائی زبانوں کے الفاظ کو بے دریغ استعمال کیا ہے۔ اور بعض جگہ پر تویوں لگتا ہے۔ جیسے یہ اردو زبان نہیں بلکہ مختلف علاقائی زبانوں میں لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ظاہری طورپر ایسے لگتا ہے کہ سرمد نے تصوف کے بارے میں اپنے جدید نظریات کو کافی کے مروجہ رنگ میں نہیں لکھا۔اور اس ضمن میں آزاد شاعری کو منتخب کیا ہے لیکن پھر بھی صوفیا کی چھاپ نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر انیس ناگی سرمد پر صوفی شعرا کے اثرات کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اسے مہاتما بدھ ،سچل سرمست، میرا بائی اور بلھے شاہ کے خیالات کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح سرمد نے ثقافتی یکجہتی کی فضا قائم کی ہے۔ سرمد نے تصویری اشیاء سے مضامین نکالے ہیں جو صوفیا اکرام کا طریقہ کار ہے۔(49)
سرمد کی کافیوں میں ہماری دھرتی کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ زندہ استعاروں اور باطن سے اٹھنے والا کرب پڑھنے اور سننے والوں کے باطن میں چھپے غبار کو چھیڑتا ہے اور انسان کو اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کیوں کہ کافی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ غزل کی طرح کلاسیکی موسیقی سے جڑی ہوئی یہ براہ راست دل و دماغ پر اثرکرتی ہے۔ سرمد کلاسیکی موسیقی کا ذوق بھی جنون کی حد تک رکھتے ہیں۔ ان کی کافیوں میں موسیقیت بھی بلا کی ہے۔ ان کی کافیوں کی زبان و بیان اوررویے کے لحاظ سے اچھوتے نرالے اور نرول کلام سے مزین ہے۔ سرمد نے ان کافیوں کا مختلف علاقائی زبانوں کے تال میل سے دل کو لبھانے والا اسلوب پیدا کیا ہے۔
 کچھ کافیاں ملاحظہ ہوں:
مکھ کی جوت بڑھی
پوہ ماگھ کے موسم ہیں یہ
کیسی دھوپ چڑھی
مکھ کی جوت بڑھی(50)
سارے رنگ کے سنگ آگھر سائیں
موڑ مہار اُڑتے بادل کی
موج سند ھل کی(51)
ہم سادہ بندے رب سائیں
لُچا دھرم سماج
میں نہ کل نہ آج(52)
حوالہ جات
1.    علامہ محمد اقبال،بانگِ درا،مکتبہ اردو ادب،لاہور،س-ن،ص:47
2.    علامہ محمد اقبال،ارمغانِ حجاز،اقبال اکادمی،لاہور،2000ء،ص:35
3.    علامہ محمد اقبال،اسرارِ خودی،اقبال اکادمی،لاہور،1983ء،ص:57
4.    ایضاً،ص:79
5.    علامہ محمد اقبال،بالِ جبریل،اقبال اکادمی،لاہور،2000ء،ص:28
6.     ایضاً،ص:39
7.    ایضاً،ص:47
8.    ایضاً،ص:84
9.    مولوی احمد دین،اقبال،مرتبہ مشفق خواجہ،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،2006ء،ص:261
10.    علامہ محمد اقبال،کلیاتِ اقبال،اقبال اکادمی،لاہور،2009ء،ص:312
11.    ڈاکٹر محمد اقبال، بالِ جبریل،اقبال اکادمی لاہور،2000ء،ص:167
12.    ایضاً،ص:172
13.    ڈاکٹر محمد اقبال،ضربِ کلیم،اقبال اکادمی،لاہور،2000ء،ص:47
14.    ایضاً،ص:48
15.    ایضاً،ص:51
16.    رسالہ "انجمنِ حمایت اسلام" اپریل 1888ء ص : 19
17.    مولوی فیروز الدین ڈسکوی، "پیارے نبیؐ کے پیارے حالات"، جلد دوم، سیالکوٹ’ مفید عام پریس ،باراول، 1318ھ، ص:2
18.    امین حزیں،"گلبانگِ حیات" ، ص:134
19.    "الابصار"،خصوصی اشاعت دوم،گورنمنٹ ڈگری کالج،ڈسکہ، 2003، ص:291
20.    اثر صہبائی ،"خمستاں"،سیالکوٹ،آزاد بک ڈپو،1933ء ص:170
21.    ایضاً ،ص:150
22.    ایضاً، ص:70
23.    اثر صہبائی،جامِ طہور ، ص: 35
24.    ایضاً،ص: 72
25.    مضطرؔ نظامی،مسودہ نقش حیات،ص :41
26.    ایضاً،ص :31
27.    ایضاً،ص :100
28.    ایضاً،ص :114
29.    ایضاً،ص :117
30.    ایضاً،ص :118
31.    ایضاً،ص :192-193
32.    ایضاً،ص :250
33.    ایضاً،ص :251
34.    ایضاً،ص :34-35
35.    ایضاً،ص :47
36.    ایضاً،ص :33۔34
37.    طفیل ہوشیار پوری ،شعلہ جام،ص :66-67
38.    ساغر جعفری،بہارو نگار،ص :67-68
39.    ساغر جعفری ،برگ گل،ص: 114
40.    ایضاً،ص:144-145
41.    تاب اسلم،نقشِ آب، مکتبہ عالیہ، 1975ء ، لاہور ،ص:60
42.    ایضاً،ص:62-63
43.    آغا وفا،غبار دل،ص:۹۰
44.    اکرام سانبوی،مسودہ نمبر ۱،ص:18
45.    ایضاً،ص:52
46.    ایضاً،ص:61
47.    اسلم ملک،"خواب اور خوشبو "،ص: 35
48.    ایضاً،ص:38
49.    انیس ناگی(انٹر ویو) مشمولہ ہفت روزہ ‘‘مسلمان’’ اسلام آباد 24فروری تا یکم اپریل 1992ء ،ص:5
50.    سرمد صہبائی ،"نیلی کے سورنگ" ،کتب پرنٹرز اینڈ پبلشرز لمیٹڈ ، کراچی ،فروری 1986ء ،ص:15
51.    ایضاً،ص:21
52.    ایضاً،ص:54

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...