Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > اثر صہبائی کی ادبی خدمات

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

اثر صہبائی کی ادبی خدمات
ARI Id

1688388584597_56116233

Access

Open/Free Access

Pages

57

اثر صہبائی کی ادبی خدمات

اثر صہبائی (۱۹۰۱۔۱۹۶۱ء) کا اصل نام خواجہ عبد السمیع پال تھا۔ اثر ؔسیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اثرؔ کے بزرگوں نے کشمیر سے ہجرت کی تھی اور سیالکوٹ میں آباد ہوئے تھے۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے فلسفہ اور ایل ایل بی کیا۔ ۱۹۳۱ء میں ان کی رفیقہ حیات ان سے جدا ہو گئیں تو افسردگی ‘ تاریکی اور مایوسی کے بادل ان کی زندگی پر چھا گئے۔ ۱۹۳۴ء میں آپ اس غم و اندوہ کییورش سے گھبرا کر سری نگر کشمیر چلے گئے۔ کشمیر میں ان دنوں ادبی مجلسیں اور ادبی نشستیں ہو رہی تھیں جن میں ڈاکٹر عبد الحکیم‘ نواب جعفر خان اثر لکھنوی‘ ڈاکٹر تاثیر اور پنڈت برج موہن دتاتر یہ کیفی دہلوی جیسے شعراء و ادبا شرکت کرتے تھے۔ اثر ان ادبی محفلوں کے روح رواں ہوتے تھے۔ آپ نے کشمیر ہائی کورٹ میں قائد اعظم کے ساتھ جونیئر وکیل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ قائد اعظم نے مقدمہ جیتنے کے بعد صہبائی کی محنت کو سراہا۔(۱)
اثرؔ صہبائی کی پہلی تصنیف ’’جامِ صہبائی‘‘ ہے۔ قطعات و رباعیات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ ۱۹۲۸ء میں دارالتالیف بیڈن روڈ لاہور سے طبع ہوا۔
’’خمستان‘‘ اثر کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو غزلوں‘ نظموں‘ قطعات و رباعیات اور متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن۱۹۳۳ء میں آزاد بک ڈپو سیالکوٹ سے شائع ہوا۔ اثر ؔکا تیسرا شعری مجموعہ ’’جامِ طہور‘‘ ۱۹۳۷ء کو تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور نے طبع کیا۔ اس مجموعے میں رباعیات اور قطعات ہیں۔ ’’راحت کدہ‘‘ اثر ؔکا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۴۲ء میں تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور کے زیر اہتمام طبع ہو کر شائع ہوا۔’’ راحت کدہ ‘‘حضرت اثر صہبائی کے اس کلام پر مشتمل ہے جو انہوں نے اپنی جواں مرگ رفیقہ حیات راحت کی موت سے متاثر ہو کر مختلف اوقات میں لکھا۔ اس میں غزلیں‘ نظمیں اور قطعات ہیں جو اس غم کی چھاؤں میں لکھے گئے۔ پانچواں شعری کلام ’’روحِ صہبائی‘‘۱۹۴۵ء میں تاج کمپنی لمیٹڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ یہ رباعیات اور قطعات کا مجموعہ ہے۔ اثرؔ کا چھٹا شعری مجموعہ ’’بامِ رفعت‘‘ ۱۹۴۵ء میں اکادمی پنجاب ادبی دنیا منزل لاہور نے شائع کیا۔ یہ جون ۱۹۳۳ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک کے کلام کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں رباعیات‘ غزلیات اور نظمیں ہیں۔ ’’نورو نکہت‘‘ اثر کا ساتواں شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۶۰ء میں جاوید پریس کراچی نے شائع کیا۔
آٹھواں شعری مجموعہ ’’محبت کے پھول‘‘ جنوری۱۹۶۳ء میں نوائے وقت پرنٹرز لمیٹیڈ لاہور نے شائع کیا۔ نواں شعری مجموعہ ’’بحضور سرور کائناتؐ‘‘ نعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ کتب خانہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے زیرِ اہتمام طبع ہوا۔
اثرؔ صہبائی برصغیر کے صفِ اول کے شعرامیں سے تھے۔ علامہ سلیمان ندوی‘ پنڈٹ برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ اثر لکھنوی اور دیگر ناقدینِ فن نے ان کے فن اور شاعری کو جی کھول کر سراہا۔
اثر ؔکی شعر گوئی کا آغاز گیارہ سال کی عمر میں ہوا۔ تیرہ سال تک شاعری کی حیثیت تک بندی تک محدود رہی۔ چودہ برس کی عمر میں اثرؔ کو شاعری کی الہامی کیفیت محسوس ہونے لگی۔(۲) اس زمانے کا کلام تمام تر تلف ہو گیا ہے۔ چند اشعار یاد گار ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اس زمانے کا کلام بھی تضات سے مبرّا اور جذبات سے لبریز تھا۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
چاہتا ہے جی کہ میں اور بخت بد

خوب روئیں مل کے باہم ایک دن
شعلۂ نارِ محبت کی تپش

خود بخود ہو جائے گی کم ایک دن
روئیے ایسا کہ کوئی ہنس پڑے

خوب کہتی تھییہ شبنم ایک دن
میں ہوں تیرا مونس و ہمدم اثرؔ

مجھ سے کہتا تھا میرا غم ایک دن (۳)
انیس برس کی عمر تک غزل اور نظم کی مشق جاری رہی۔ رباعی گوئی کا آغاز بیس برس کی عمر میں ہوا اور اس کا محرک حضرت عمر خیام کی رباعیاں تھیں۔ غالب‘ اقبال اور میر کے علاوہ جس شاعر سے متاثر ہوئے وہ عمر خیام ہی تھے۔ ان کی اکثر رباعیاں عمر خیام کے رنگ کی ہیں۔(۴)
اثرؔ نے بچپن سے شاعری کا آغاز کیا اور وفات تک مسلسل لکھتے رہے۔ یہ سرمایہ کئی اصنافِ سخن پر مشتمل ہے۔ لیکن ان کی شاعری کا جائزہ موضوعات و فن کے حوالے سے لیا جائے گا۔
اثر ؔزندگی کی بے ثباتی امیدوں کی ناکامی اور آغاز و انجام پریشان کن مسائل پر غور کر کے مغموم ہو جاتے ہیں۔ افکار پریشاں میں اپنا نظریہ حیات اس طرح واضح کرتے ہیں:
رواح زارو نزار ہوتی ہے

ہجر میں بے قرار ہوتی ہے
سر بسر اضطرار ہوتی ہے

اک غریب الدیار ہوتی ہے
جوشِ وحشت اسے ستاتا ہے

اک سیل جنوں بناتا ہے
خانہ دل کو توڑ دیتی ہے

پیکر گل کو توڑ دیتی ہے
اپنے محمل کو توڑ دیتی ہے

سب سلاسل کو توڑ دیتی ہے
گیت آزاد یوں کے گاتی ہے

اور فضا میں سمائے جاتی ہے(۵)
کائنات اور زندگی کے بارے میں کہتے ہیں:
ہے ازل سے موج زن بحرِ رواں زندگی

ہجر بے پایاں ہے بحرِ بیکراں زندگی
انجمن آرائے ہستی ہے ظہورِ زندگی

ہے ضیا پاش دو عالم شمع نور زندگی (۶)
اثر کی بیشتر نظموں میں تلاشِ حسن پایا جاتا ہے۔ حسن سے ان کی مراد حسنِ ازلی ہے۔ اثرؔ پہاڑ‘ برسات‘ شام و سحر غرض کہ ہر نقش میں حسنِ ازلی کو جلوہ گر پاتے ہیں۔ اثر ؔفلسفہ کے طالب علم تھے انہیں الہیات سے غیر معمولی شغف تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں الہیات کو سمو دیا۔ وہ فلسفے کو ارتقائے شاعری کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے فلسفیانہ مضامین شعریت میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم میں’’کائنات اور انسان‘‘ کے مطالعہ سے ان کی اس نوعیت کی قادر الکلامی کا پتہ چلتا ہے۔ کائنات زندگی سے معمور ہے اور زندگی ایک طوفانِ اضطراب ہے جو اپنی رو میں رواں دواں ہے اور جس کا منتہا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک جھلک اثر کے کلام میں دیکھیے:
پیکر ہستی کی ہے رگ رگ میں ہیجانِ حیات

قطرے قطرے میں ہے پنہاں اک طوفانِ حیات
باد پار ہواروہے جس کو غمِ منزل نہیں

سیل بے پروا ہے جو شرمندہ ساحل نہیں
ابتداء ہے زندگی اور انتہا ہے زندگی

کاش کھل جائے کبھییہ بھی کہ کیا ہے زندگی (۷)
زندگی کے اس طوفان میں انسان نمودار ہوتا ہے۔ انسان خود بھی منظم ہے اور کائنات کی تنظیم میں بھی اس کی ہستی کار فرما ہے:
اس تماشا گاہ میں اک ہستی انسان بھی ہے

جو دل آگاہ بھی ہے دیدہ حیران بھی ہے
زندگی اس میں سمائی اور درخشاں ہو گئی

برق مضطر تھی مگر شمع فروزاں ہو گئی
سیل آوارہ تھا لیکن چشمۂ عرفان بنا

علم و عقل عشق اور ایثار سے انسان بنا
آگہی کا ساز سوز زندگی سے مل گیا

ہوش بھی اک گونہ جوش بیخودی سے مل گیا (۸)
خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و توصیف کرنا ایک مومن کے ایمان کا لازمی جز ہے۔ اثرؔ پر بھی اپنی شاعری میں ایک سچے مومن کی طرح حمدو ثنا کرتے نظر آتے ہیں۔ اﷲ تعالی کی حمد میں ان کی نغمہ سرائی کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
کعبہ و دیر میں عبث ہم تھے ڈھونڈتے رہے

تو ہی کلی کلی میں ہے تو ہی چمن چمن میں ہے
رنگ میرے خیال کا‘ فیض تیرے جمال کا

کیف تیرے وصال کا میری مئے سخن میں ہے (۹)
اثرؔ کی طبیعت شروع ہی سے حکیمانہ موضوعات کی طرف مائل تھی۔ کلامِ اقبال کا مطالعہ وہ شروع ہی سے کرتے تھے۔ نتیجہیہ ہوا کہ اس نوجوان شاعر کا کلام حقائق و معارف کے انمول جواہرات سے مالا مال ہو گیا:
یاد تیری شراب ہے ذکر تیرا سرود ہے

کیف طرب میں موج زن میرایم وجود ہے (۱۰)



ذرے ذرے میں خیابار ہے طلعت تیری

پتے پتے میں چمن ساز ہے جلوہ تیرا
سنگِ اسود میں ہے مستور حقیقت تیری

اور صنم خانوں میں ہے جلوہ پیدا تیرا
تیرا ہی ہے کعبہ ہو کہ مے خانہ ہو

شیخ تیرا ہے‘ غریقِ خم صہبا تیرا (۱۱)
حیات بعد الموت کے اہم مسئلے کو بھی اثر ؔنے خوبی سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی ہستی غیر فانی ہے۔ موت کے ہاتھوں وہ صرف ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور ہم اس غیرمرئی حالت کو دیکھ نہیں سکتے لیکن در حقیقت انسانی زندگی قائم و دائم ہے:
موجود بھی ازل سے ہوں اور جا وداں بھی ہوں

خوفِ فنا نہیں ہے کہ مرنا نہیں مجھے (۱۲)
اثر نے فنا کے خوف کو دل سے نکال دیا ہے اور زندگی کو ازلی اور جاودانی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:
ساحل پہ جاؤں گا بھی تو موجوں کو چیر کر
کشتی کے بل بھی پار اترنا نہیں مجھے (۱۳)
جبیہ خزاں بھی اک فریبِ بہار میں
ہر چند نغمہ ریز رہا ساز ہست و بود
لیکن کھلا نہ راز نوا ہائے ساز کا
پندار نے وجود و عدم کو سمجھ لیا!
دیکھا تو یہ بھی راز تھا اور وہ بھی راز تھا (۱۴)
غمِ محبت یا زندگی کی ناکامیوں کا غم چشمِ بصیرت کو بہت تیز کر دیتا ہے۔ حقائق و معارف کا صحیح احساس‘ انسانی جذبات کی عمیق ترین گہرائیوں سے شناسائی اور تخیل کی بلند ترین چوٹیوں تک رسائی اس غم کی بدولت ہوتی ہے۔ اثر کے شعری مجموعے ’’راحت کدہ‘‘ کی غزلیں جس قدر سوزو گداز سے پر ہیں دوسرے مجموعوں کی غزلیں اس درد کو نہیں پہنچتیں۔ ’’راحت کدہ‘‘ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
چشم مشتاق دیدیار رہی

شام تک محوِ انتظار رہی
رات کا قصہ مختصر ہے

صبح ہونے تک اشکبار رہی
راز سمجھا نہ کچھ گل خنداں

کس لیے شبنم اشکبار رہی(۱۵)
کیف و سرور و مستی غزل کا جزو اعظم سمجھی گئی ہے لیکن ہر شام نے اس کا مفہوم اپنے اپنے خیال کے مطابق سمجھا ہے۔ اثرؔ کے تمام کلام میں خواہ وہ غزلیں ہوں نظمیں ہوں یا قطعات و رباعیات سب میں کیف و مستی پائی جاتی ہے:
پلائے جا ساقیا! پلائے جا انتظار کیا ہے
جو لڑ کھڑا جائے ایک دو ساغروں میں وہ بادہ خوار کیا ہے
چمن میں رقص طرب ہے برپا اٹھا لے اپنا رباب مطرب
عبثیہ انجمن ہے تیرے دل میں کہ پھول کیا ہیں بہار کیا ہے
ازل سے خورشید و ماہ کے جام بزمِ ساقی میں چل رہے ہیں
مرید پیرِ مغاں کی نظروں میں دور لیل و نہار کیا ہے(۱۶)
اسی طرح ایک دوسری غزل میں بھی کیف و مستی اور رندی و سرشاری کے حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:
بزمِ جہاں ہے مے کدہ جم مرے لیے

ہے دورِ جام گردشِ پیہم مرے لیے
چھیڑا ہے کس کے حسن نے تاربابِ عشق

رقصاں ہے ایک نغمہ پیہم مرے لیے
تیری نگاہِ لطف ہے موج مئے نشاط

اب ہو گئی حرام مئے غم مرے لیے
ہے کائنات تیری ضیا سے حسین کہ تو

ہے آفتابِ حسن مجسم مرے لیے
تو ہمکنار ہے تو خزاں بھی بہار ہے

کیا ہو گا پھر بہار کا موسم مرے لیے (۱۷)
فلسفہ کی روح عقل‘ مذہب کی روح عمل اور شاعری کی روح جذبات ہیں۔ اثرؔ جذبات پرست ہیں لیکن اثرؔ کی طبیعت میں خوشگوار توازن او ر اعتدال پایا جاتا ہے۔ جذبات کی پاکیزگی‘ اندازِ بیان کی شگفتگی اور مضامین کی تازگی ان کی شاعری کی خاص خصوصیت ہے:
پھر خندہ زیرِ لب آتا ہے اے اثرؔ
پھر جھک رہا ہے سر میرا عجزِ نیاز سے
پھر جگمگا رہی ہے مری بزمِ آرزو
دیکھا کسی نے پھر نگہ دل نواز سے
آنکھیں بجھی ہوئی ہیں تیری راہ گزر میں
آغوشِ شوق وا ہے تیرے انتظار میں (۱۸)
اثرؔ کی شاعری میں تغزل کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا تغزل رچا ہوا اور پوری سنجیدگی و متانت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایسا تغزل ہے جسے خلوص کی شدت نے پر تاثیر بنا دیا ہے۔ اثرؔ کے مندرجہ ذیل اشعار سے صحیح تغزل کی مثال واضح طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے:
ڈوبی ہوئی نگاہ ہے رنگ حجاب میں
یا کوئی نوشگفتہ کلی نیم خواب میں
رنگینیوں میں غرق ہوئی ہے نقاب بھی
تم ہو کہ آفتاب چھپا ہے سحاب میں
زیرِ نقاب بھی تو بہت بے نقاب ہو
ہو جاؤ بے نقاب کہ تم آفتاب ہو (۱۹)
مناظر قدرت کے حسن سے کیف اندوزی صاحب ذوق و وجدان کی خصوصیت ہے اثر مناظر پرست ہیں۔ ان کی اکثر غزلیات ایک ہی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
مناظر فطرت کے علاوہ اثر ؔکے ہاں تخیل کی بلند پروازی اور جدت ادا جیسی صفات بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان صفات کے حوالے سے کلام اثر ؔسے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
اندوہ ربا ہے منظر ابر

کیا روح فزا ہے منظرِ ابر
مستانہ خرام آ رہا ہے اکبر

گلزار پہ برس رہا ہے اکبر
میخانہ بدوش ہیں گھٹائیں

پیغامِ سروش ہیں گھٹائیں
گل ہائے چمن کھلے ہوئے ہیں

یا مے سے سبو بھرے ہوئے ہیں (۲۰)
ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی صہبائی کی جدتِ ادا‘ مضمون آفرینی اور شوخی و رنگینی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مجھے صہبائی کی رباعیوں‘ قطعات میں غزلوں سے زیادہ رنگینی اور رس معلوم ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان کا اصلی رنگ بھی یہیں آ کر ظاہر ہوتا ہے ۔(۲۱)
ایک حساس شاعر جہاں زندگی کے گہرے مسائل کو نظر انداز نہیں کرتا وہاں وہ ملکی سیاسیات سے بھی لا پروا نہیں ہو سکتا۔ آج کا شاعر ماضی کے شاعر کی طرح بے حس نہیں کہ دنیا میں کیسا ہی انقلاب کیوں نہ آئے۔ حالات کتنے ہی سازگار ہوں وہ ماحول کا اثر قبول نہ کرے۔ اثرؔ کی طالب علمی کا دور سر گرم عملی سیاسیات میں گزرا۔ مقامی‘ بین الاقوامی ‘ معاشی اور سیاسی مسائل ان کی نظر میں ہیں اور دنیا کے رستے ہوئے ناسوروں کے لیے وہ بھی ایک علاج پیش کرتے ہیں جو ارباب ہوش و خردکے لیے قابلِ غور و فکر ہے:
بے دل و بے حس پڑا ہے کارواں کا کارواں
نعرہ ہائے ھاو ھو سے اس کو گرماتا ہوں میں (۲۲)
اثرؔ کو افسوس ہے کہ اس کی قوم میں بے حسی بہت شدید ہے جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں:
بولا نہ کہیں سے بھی کوئی میری صدا پر
اس دشت میں ہر سمت بہت میں نے پکارا (۲۳)
اثرؔ کے نزدیک قومیں جس جذبہ سے زندہ رہتی ہیں وہ آزادی ہے:
وہ آتش سے ملے گر تو آتش اچھی
وہ کشت و خون سے ہو حاصل تو کشت و خون بہتر (۲۴)
کشمیر اثر کا آبائی وطن تھا اور ملازمت کے دوران اس نے عمر کا بیشتر حصہ کشمیر میں گزارا۔ قیامِ کشمیر کے دنوں تحریکِ آزادیٔ کشمیر زوروں پر تھی کشمیری مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت کا اثر ؔکو گہرا احساس تھا کیونکہ ان کی حساس نظروں نے کئی ہنگامے دیکھے۔ وہ براہِ راست تحریکِ آزادی سے واقف تھے۔ ان کی تمام ہمدردیاں مظلوم کشمیری قوم کے ساتھ تھیں:
آہ! مظلوم کی سنتا نہیں فریاد کوئی
میں نے مظلوم کو ظالم سے چھڑانا ہے (۲۵)
ان کی شاعری میں قومی و ملی شاعری کے عناصر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں قومی و ملی رنگ کو اثرؔ نے مستقل طور پر اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان کی نظم ’’سرود سفر‘‘ قومی شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔ اس نظم کے اشعار ملاحظہ  ہوں:
چمن کے نغمہ گر اپنی نوا بدل ڈالیں
چمن کا رنگ‘ چمن کی فضا بدل ڈالیں (۲۶)
وجود مطلق یا ہستی خدا صوفیانہ شاعری میںیہ مسئلہ ہمیشہ زیرِ بحث رہا ہے اس کے ساتھ مسئلہ جبر و قدر بھی ہمیشہ ہمیشہ سے انسانی خیالات کا موضوع رہا ہے۔ فلاسفر اور صوفی تو کیا ایک عام انسان بھی کبھی کبھار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ مسائل نہایت اہم اور پیچیدہ ہیں اور قوم کے مفکر ان کے متعلق اپنے اپنے نظریات رکھتے ہیں۔ اثر ؔصہبائی نے بھی ان مسائل پر روشنی ڈالی ہے:
تیری ہستی کا کچھ یقیں بھی نہیں
میرے لب پر مگر ’’نہیں‘‘ بھی نہیں
دیکھتا ہوں تو ہر جگہ موجود
سوچتا ہوں تو پھر کہیں بھی نہیں (۲۷)
مسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
بیگانہ ہوش ہوں کہ ہوشیار ہوں میں
ہوں عالمِ خواب میں کہ بیدار ہوں میں
فطرت کی ستم ظریفیاں تو دیکھو
’’مجبور‘‘ کو وہم ہے کہ ’’مختار‘‘ ہوں میں (۲۸)
انسانی عظمت‘ درسِ عمل اور بلندیٔ غزائم اقبال کی شاعری کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ اثرؔ نے ان موضوعات پر قطعات اور رباعیاں لکھی ہیں۔ اثر ؔنے شاعرانہ طور پر اقبال کے پیغام کو آگے بڑھانے اور ان کے سوزِ بصیرت کو عام کرنے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی ہستی جامع صفات ہے۔ اس میں ساری دنیا کو اپنے اندر جذب کر لینے کی پوری صلاحیت موجود ہے:
گر اصل سے اپنی آشنا ہو جائے

یہ مشتِ غبار کیا سے کیا ہو جائے
ہے بے خبری میں بھی مسجود ملائک

ہو جائے و با خبر خدا ہو جائے (۲۹)
انسانی ترقی کا راز عمل اور بلندیٔ عزم میں مضمر ہے۔ مولانا روم اور اقبال نے عمل کو جوہرِ حیات اور روح قرار دیا ہے۔ صہبائی بھی اس رنگ میں ان کے قدم بقدم نظر آتے ہیں:
مسجد میں رہیں سبہ خوانی کب تک

اندیشہ رزم زندگانی کب تک
زندہ ہے تو کارزارِ ہستی میں نکل

یہ فکر شکست و کامرانی کب تک (۳۰)
اثرؔ نے مرد مومن کی صفات بیان کرتے وقت اس صفت پر زیادہ زور دیا ہے کہ مرد مومن فنا و نیستی کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ اپنے عمل صالح کے ذریعے اس مرتبے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے کہ خود اﷲ تعالی کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ اس میں وہی صفات پیدا ہو جاتی ہیں جن سے اس کے خالقِ حقیقی کی ذات متصف ہے:
طوبی سے بھی بلند ہے رفعت تیری

کونین سے بھی بڑی ہے وسعت تیری
ہو جائے اگر تو آپ اپنا محرم

پھر ارض و سما میں ہے حکومت تیری (۳۱)
اردو کے دوسرے تمام شاعروں کی طرح اثر نے نعتیہ شاعری بھی کہی ہے۔ ان کییہ شاعری رسمی طور پر ہی نہیں بلکہ اس صنفِ سخن کو دوسری اصنافِ سخن کی طرح سے باقاعدہ اپنایا ہے۔ جس طرح دوسری اصناف میں اثرؔاقبال سے متاثر ہیں اس طرح اس صنف میں بھی انہوں نے خاصا اثر لیا ہے۔ بقول سید محمد جعفر شاہ ندوی پھلواری:
اثر ؔکے کلام میں جا بجا اقبال کی جھلک نظر آتی ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ اقبال کے افکار سے خاصے متاثر ہیں۔ انہوں نے اپنی نعتوں میں شعریتِ محسنہ سے اجتناب کیا ہے اور کوشش یہ کی ہے کہ بیان حقائق اور جذبات عشق کی آمیزش سے نعت کا ایک انداز و رنگ پیدا ہو۔(۳۲)
اب اثرؔ کا نعتیہ رنگ ملاحظہ ہو۔ اثرؔ صفاتِ نبویؐ کو بڑے خوبصورت انداز  میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
تیرے سوزِ عشق سے پیغامِ حق

زندہ تر‘ تابندہ تر‘ پائندہ تر
تو نے صہبائی کو کیا کچھ دے دیا

عشق حق‘ جوشِ جنوں ‘ حسنِ نظر(۳۳)
نعتوں میں معجزات‘ صفات اور اخلاقِ حسنہ کے متعلق لکھتے ہوئے اپنے جذبات دلی اور عشقِ رسولؐ کو بھی پیش کرتے ہیں۔ انہیں رسول کریمؐ کے دیدار کی بے حد تمنا تھی جس کا اظہار اپنے نعتیہ شعری مجموعے ’’بحضور سرور کائناتؐ‘‘ کے پسِ منظر میں کرتے ہیں:
میں اکثر سونے سے پہلے اس خدا نما انسان کی
زیارت کے لیے دعائیں مانگتا ہوں (۳۴)
ترنم و موسیقی اثر ؔکی نظموں اور غزلوں کی ایک خاص صفت ہے۔ ان کی شاعری میں اس قدر ترنم ہے کہ گاکر پڑھنے کے بغیر بھی وہ جاذب سماعت و روح افزا ہوتی ہے:
کیا کیا ہیں میرے دل میں خلشہائے جستجو
ذوقِ نظر کو دیدۂ بینا کو کیا کروں
پیشِ نظر نہیں ہے سرمایۂ نشاط
آغوشِ جام و گردنِ مینا کو کیا کروں (۳۵)
۱۹۳۵ء میں ترقی پسند تحریک اردو ادب میں شروع ہوئی۔ یہی دور اثرؔ صہبائی کی شاعری کا زریں دور ہے۔ اس تحریک کا کوئی خاص اثر‘ اثر ؔکی شاعری نے قبول نہیں کیا ماسوائے حقیقت نگاری کے۔ کسی شاعر کو رومانوی یا ترقی پسند کہتے وقت اس کے غالب رجحانات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ شاعر رومانوی ہے یا ترقی پسند۔ اثر ؔکے ہاں رومانوی رجحانات کا اثر زیادہ ہے اور یہ ترقی پسند تحریک سے سرسری طور پر متاثر ہوئے۔ اب ہم اثرؔ صہبائی پر دوسرے عظیم شعراء کے اثرات کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ اپنے بڑے بھائی امینِ حزیں سیالکوٹی کی طرح اثر بھی دوسرے شعرا سے زیادہ اقبال سے متاثر ہوئے اور دونوں اس رنگ میں دوسرے متبعین سے زیادہ کامیاب رہے ہیں:
خود ہی مے ہوں‘ خود ہی خم ہوں خود ہی خم خانہ ہوں میں
بے نیاز ساقی و مینا و پیمانہ ہوں میں(۳۶)
ساقی کے علاوہ اور بہت سی اصطلاحات کو اثرؔ نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ یہ وہی اصطلاحات ہیں جس سے اقبال نے اپنے فکر و پیام کا تانابانا تیار کیا ہے مثلاً جفا طلبی ، بادیہ پیمائی‘ شعلہ طور‘ شعلہ مینائی‘بتانِ آذری اور مسجود ملائک کا استعمال اقبال کی نظموں اور غزلوں میں کثرت سے ہے۔ انہیں اصطلاحات کی مدد سے اقبال نے اپنے فلسفۂ زندگی کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اثرؔ صہبائی اور اقبال کے فلسفۂ زندگی میں مماثلت کے بہت پہلو نکلتے ہیں۔ مثلاً ذوق عمل‘امید‘یقین‘ عزم و اعتماد اور مردِ مومن کے موضوعات دونوں کے یہاں مشترک ہیں۔ اقبال کی طرح اثرؔ نے بھی ان اصطلاحات سے استفادہ کیا ہے۔ بعض الفاظ تو الفاظ و معانی دونوں لحاظ سے اقبال ہی کے اشعار کی صدائے باز گشت معلوم ہوتے ہیں۔ اثر ؔنے اقبال کے ترتیب دیئے ہوئے الفاظ ہی سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان تراکیب کی وضع پر خود بھی بعض اچھی ترکیبیں وضع کی ہیں۔ مثلاً بربطِ یزداں‘ شمشیرٔ‘ اھرمن کش‘ نشہ ہائے یزداں اور خیبر اھرمن۔ ایک اور بات جس میں اثر ؔصہبائی نے اقبال کا اثر قبول کیا ہے وہ چند مکالماتی نظمیں ہیں مثلاً ’’شاعر اور دنیا‘‘ اور ’’شاعر اور خدا‘‘۔ فغان نیم شبی کی اصطلاح اقبال نے بیشتر مواقع پر استعمال کی ہے۔ اس سے مراد وہ نیم شبانہ آہ و زاری اور تڑپ و گداز ہے جو عاشق صادق کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ ایک جگہ اس کا استعمال ملاحظہ ہو:
ہزار مرحلہ ہائے فغاں نیم شبی
اثرؔ کے یہاں اس اصطلاح کا استعمال ملاحظہ ہو۔ بالکل وہی فضا پیدا کی ہے جو اقبال کے اکثر اشعار کی جان ہوتی ہے۔ ’’بامِ رفعت‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ادھر بھی اک نگہ دلنواز ہو جائے

مرا وجود سراپا گداز ہو جائے
فغان نیم شبی کو عطا ہو سوزو گداز

ہر ایک آہ و آئینہ خلوص و نیاز (۳۷)
اب اثر ؔکے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو موضوعات اور اسلوب کے لحاظ سے اقبال سے ملتے جلتے ہیں:
موجود ہوں جاوداں ہوں موہوم نہیں

ہو جاؤں فنا یہ میرا مقسوم نہیں
بوسیدہ ہے تجھ میں حیاتِ ابدی

معلوم ہے مجھ کو تجھ کو معلوم نہیں (۳۸)
اردو شاعری میں بہت سے شعرا نے میرؔ کے اسلوب کو اپنانے کی کوشش کی لیکن وہ میر کے رنگ کو بہت دنوں تک نہ نبھا سکے اور بہت جلد اس اسلوب کو ترک کر دیا۔ اثرؔ صہبائی کے ہاں اقبال کے ساتھ ساتھ میر کا بھی کچھ کچھ انداز ملتا ہے۔ اثر نے ’’جامِ طہور‘‘ کے دیباچے میں خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’’راحت کدہ‘‘ میں میر کا اثر غالب ہے۔(۳۹)
’’راحت کدہ‘‘ کا مقدمہ لکھتے ہوئے اثر لکھنوی نے بھی لکھا ہے:
متعدد اشعار میں میر کا رنگ بھی جھلکتا ہے اور یہی ایک پرستار میر ؔکے عقیدے میں شاعری کی معراج ہے۔(۴۰)
میر کی طرح کی شاعری میں بھی غمِ عشق کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ اثرؔنے میر کی بعض غزلوں کی زمینوں کو بھی نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنی غزلوں میں استعمال کیا ہے۔ اثرؔ کے شعری مجموعے ’’راحت کدہ‘‘ کی غزلوں میں میر کی طرح کا سوزو گداز دیکھا جا سکتا ہے۔ اس شعری کلام کی بعض رباعیاں اور غزلیں مضمون کے اعتبار سے ایسی ہیں جن کو پڑھ کر گماں گزرتا ہے کہ میر کی ہونگی۔ اب اثر کی شاعری میں میر کے اسلوب اور انداز کی جھلک ملاحظہ ہو:
سطح دریا پر ابھر آتے ہیں
بلبلے ہیں تیرتے جاتے ہیں ہم
تیر کر لیکن ذرا کچھ دور تک
اس نئی ہستی سے گھبرا جاتے ہیں ہم
تنگ آ کر وحشت افکار سے
سرا نہیں موجوں سے ٹکراتے ہیں ہم
ٹوٹ کر دریا میں ہو جاتے ہیں غرق
پھر سکون بے خودی پاتے ہیں ہم (۴۱)
اثر ؔکی فلسفیانہ فکر ایک نشاطیہ لہجہ دیتی ہے۔ ’’راحت کدہ‘‘ کے بعد اثرؔ اپنی محبوب بیوی کے عارضی غم سے باہر نکل آئے تھے اور زندگی کے بارے میں رجائی طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ اس طرح میر کے رنگ کی جھلک ان کے کلام میں عارضی ثابت ہوئی۔ اس غم نے ایک فائدہ پہنچایا کہ زندگی اور موت کے بارے میں خدا اور انسان کے بارے میں سوچ بچار کا موقعہ ملا۔ اردو شاعری میں فکری لحاظ سے غالب کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنی غزلوں میں حیات و کائنات کے بارے میں فکر کی دعوت دی ہے۔ اس لحاظ سے اثر صہبائی کی شاعری میں غالب کا اثر میر سے زیادہ ہے۔ غالب کے شعری اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے اثر ’’جامِ طہور‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
چودہ برس کی عمر میں شاعری کی الہابی کیفیت محسوس ہونے لگی۔ انہیں ایام میں مجھے غالب اور اقبال کے کلام سے لگاؤ پیدا ہوا جو آج تک برابر ترقی کر رہا ہے۔(۴۲)
غالب کا نظریہ زندگی کے بارے میں میر کی طرح افسردہ نہیں بلکہ وہ غم و اندوہ میں بھی نشاطیہ پہلو تلاش کر لیتے ہیں مثلاً
کچھ تو دے اے فلک نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
اس طرح اثر صہبائی بھی زندگی کے بارے میں نا امید نہیں وہ کہتے ہیں:
شامِ فرقت کو بھول جاتا ہوں
صبح عشرت کو بھول جاتا ہوں
بادہ ذکر میں فنا ہو کر
رنج و راحت کو بھول جاتا ہوں (۴۳)
خدا کے متعلق مرزا غالب کا نظریہ مندرجہ ذیل شعر سے بہت اچھی طرح واضح ہوتا ہے:
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
اثر ؔصہبائی کا خیال بھی خدائے بزرگ و برتر کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہے:
تو ہی ساری ہے جب ہر ایک شے میں
جائے موجود کیا ہے معدوم کیا (۴۴)
 حوالہ جات
۱۔      حبیب کیفوی،’’کشمیر میں اردو‘‘،لاہور،مرکزی اردو بورڈ،بار اول،۱۹۷۹ء ص:۲۱۳۔ ۲۱۹
۲۔     اثر صہبائی،’’جامِ طہور‘‘، لاہور، تاج کمپنی لمیٹڈ،۱۹۳۷ء،ص:۴
۳۔      رسالہ، ’’قوسِ قزح‘‘ ،سالانہ نمبر ۱۹۲۶ء ص:۱۵
۴۔     اثر صہبائی ،’’خمستاں‘‘،سیالکوٹ،آزاد بک ڈپو،۱۹۳۳ء ص ۳۱   
۵۔     ایضاً،ص: ۴۰
۶۔     ایضاً ، ص:۱۳۹
۷۔      ایضاً ،ص: ۱۳۹
۸۔     ایضاً،ص: ۱۴۰
۹۔     ایضاً ، ص:۱۷۰
۱۰۔     ایضاً ،ص:۱۵۰
۱۱۔     ایضاً، ص:۷۰
۱۲۔     ایضاً، ص:۹۵
۱۳۔     ایضاً، ص:۱۰۵
۱۴۔     ایضاً،ص:۱۲۱
۱۵۔     اثر صہبائی،’’راحت کدہ‘‘، لاہور،تاج کمپنی لمیٹڈ۴۲ ۱۹، ص:۱۱
۱۶۔     ایضاً،ص:۵۰
۱۷۔     ایضاً ،ص: ۵۸
۱۸۔     ایضاً ، ص: ۷۷
۱۹۔     اثر صہبائی،’’روحِ صہبائی‘‘ ،لاہور،تاج کمپنی لمیٹڈ،۱۹۴۵ء،ص:۱۱
۲۰۔     ایضاً،ص: ۳۵
۲۱۔     تبصرہ روحِ صہبائی از ابو اللیث صدیقی، ریڈیو براڈ کاسٹ،لکھنؤ ،محفوظ تراشا از اثر مرحوم
۲۲۔     اثر صہبائی ،’’روحِ صہبائی‘‘ ،ص:۹۲
۲۳۔     ایضاً،ص: ۱۳۲
۲۴۔     ایضاً ،ص: ۱۵۲
۲۵۔     ایضاً ،ص: ۸۵
۲۶۔     ایضاً، ص: ۱۷۰
۲۷۔     اثر صہبائی،’’جامِ طہور‘‘ ، ص: ۳۵
۲۸۔     ایضاً،ص: ۷۲
۲۹۔     ایضاً،ص: ۱۵۶
۳۰۔     اثر صہبائی،’’جامِ صہبائی‘‘  ‘ لاہور‘ دار التالیف‘۱۹۲۸ء ‘ ص:۱۸   
۳۱۔     اثر صہبائی، ’’جامِ طہور‘‘ ، ص:۱۸
۳۲۔     سید محمد جعفر شاہ، ’’مقدمہ ‘‘ ،مشمولہ،’’بحضور سرورِ کائناتؐ‘‘ از اثر صہبائی، لاہور،انجمن حمایتِ اسلام،س۔ ن،ص:۲۴
۳۳۔     اثر صہبائی،’’حضور سرورِ کائناتؐ‘‘، ص:۳۵   
۳۴۔     ایضاً،ص: ۳۹
۳۵۔     اثر صہبائی،’’روحِ صہبائی‘‘، ص:۱۴
۳۶۔     اثر صہبائی،’’بامِ رفعت‘‘ ، لاہور، اکادمی پنجاب،۱۹۴۵ء، ص:۱۸
۳۷۔     ایضاً ، ص: ۲۵   
۳۸۔     ایضاً،ص: ۵۵   
۳۹۔     اثر صہبائی،’’اشارات‘‘ ، ’’جامِ طہور‘‘، ص:۹
۴۰۔     اثر لکھنوی،’’مقدمہ‘‘ ،’’راحت کدہ‘‘ ص:ی
۴۱۔     اثر صہبائی،’’راحت کدہ‘‘ ،ص:۱۱۵
۴۲۔     اثر صہبائی،’’اشارات‘‘، جامِ طہور، ص:۸
۴۳۔     اثر صہبائی،’’خمستاں‘‘ ،ص:۷۲
۴۴۔     ایضاً ،ص: ۵۰

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...