Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > آسی ضیائی رام پوری بطور اقبال شناس

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

آسی ضیائی رام پوری بطور اقبال شناس
ARI Id

1688388584597_56116234

Access

Open/Free Access

Pages

71

آسی ضیائی رامپوری بطور اقبال شناس

آسی ضیائی رامپوری کا نام  قدآور اقبال شناس ناقدین میں شامل ہے۔آسی ضیائی نے ایک تو علی گڑھ یونیورسٹی میں رشید احمد صدیقی جیسے اقبال شناس کی شاگردی اختیار کی دوسرے اقبال کی مادرِ علمی مرے کالج سیالکوٹ کی علمی و ادبی فضا نے آسی ضیائی کی  ’’اقبال شناسی‘‘ کے لیے مہمیز کاکام کیا اور یوں آسی ضیائی نے کلام اقبال پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایک کتاب اور چار مضامین رقم کیے۔
’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ آسی ضیائی کی اقبال شناسی کے حوالے سے مستند تصنیف ہے۔ اس کتاب میں کلامِ اقبال کے اہم خصائص کا اجمال کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے ۔ایک صد مضامین پر مشتملیہ کتاب تین حصص میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ دو ابواب پر ،دوسرا حصہ تین ابواب پر تیسرا اور آخری حصہ ایک باب پر مشتمل ہے۔ ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ کے آغاز میں آسی ضیائی نے ایک جامع مقدمہ بعنوان  ’’اِدعا‘‘ رقم کیا ہے جو کتاب کی اہمیت اور وجہ تحریر پر روشنی ڈالتا ہے۔ کتاب کے حصہ اول میں محبت ،جستجو ،متصوفانہ ،مذھبیت ،مظاہرِ قدرت سے محبت ،مذہبی روایات سے محبت ،تصوف ،عمومی تبصرہ ، خاص موضوعات ،ترجمے ،بقیہ نظمیں، غزلیں ،دوسرا دور ،رومانی شاعری ،ایک انوکھا قیاس ،خورشید ،ایک دلچسپ انکشاف، دوسری نظمیں ،نئے دور کا آغاز، خلاصۂ بحث اور محرکات جیسے مضامین کی فہرست ہے۔
کتاب کے حصہ دوم میں بعد کی شاعری ،اسلوب کا جائزہ ،وسیلہ ،ساخت و پرداخت ،حکیمانہ اسلوبِ شاعری کی خصوصیات ،سادگی اور ندرت ،تمثیل نگاری ،تخاطبِ بالغائب ،رموز وعلائم کا استعمال ،حالیؔ،اکبرؔ،اقبالؔ ،صوت و آہنگ کا اہتمام ،تصورات و پیغام پر تبصرہ ،خودی ،تصورِ خودی کا وھبی و ماحولی پس منظر ،اثباتِ خودی ،اثباتِ خودی کے مقامات، شرفِ انسانی، تسخیرِ فطرت، مسئلہ خیر و شر اور روح و جسم کا اتحاد ،مسئلہ جبر و قدر ، تخلیقِ مقاصد، بدویت ،عقل و عشق، ارتقا ،مردِ کامل کے سابقہ تصورات ،صوفیا،افوانِ الصفاء کے مصنفین اور ابنِ مکویہ ،عبدالکریم الجیلی ،اس تصور کی غایت ،مغربی مفکرین ،ڈارون ،نطشے، برگساں ،اقبال ،حیاتی ارتقاپر اعتراض،اقبال کی تاویلات ،قرآن کی تصریحات ،اقبال کی تاویلات کی وجہ ،اسرائیلی روایات اور ان کے اثرات، المہدی کا تصور، لا بیخل پہلو ،ایک تضاد، ان اعتراضات کا جواب، جذباتی تصور، عقلی تصور، لنین اور دوسرے غیر مسلم ،زمان ،لا تسبّو الدھر کی تحقیق ،متفرقات، رمزے،ابلیس ،مسلمانوں کا عام تصور، اس تصور کا تجزیہ ،جبریل ،پیش گوئیاں عورت ،ایک شعر اور مخالفت کا نفسیاتی سبب جیسے مضامین کی فہرست شامل ہے۔
کتاب کا حصہ سوم میں خاتمہ ء کلام ،خلاصۂ بحث ،پیغامِ اقبال کے محرکات ،اقبال کے اثرات ،الف معاشرے پر ،ایک شبہ کا ازالہ ، ب ادب پر اور اقبال کا مستقبل جیسے مضامین کی فہرست ہے۔ درج بالا فہرستِ مضامین میں واضح ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں اہلِ علم کے ساتھ ساتھ طلبا کے استفادہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ دراصل اقبال پر لوگوں نے ماضی میں بھی لکھا۔ اب بھی لکھ رہے ہیں اور آئندہ بھی کام کرتے رہیں گے ۔ اقبال پر لکھنے والوں میں بڑے چوٹی کے اہلِ علم و قلم بھی شامل ہیں اور اوسط و ادنیٰ درجے کے بھی۔ اس انبوہِ عظیم کی کاوشوں کے انبار میں ایک منفرد اضافہ  ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ہے۔ آسی ضیائی نے کئی سالوں تک اس کی تیاری کے لیے محنت کی اور بالآخر جب اس کی اولین اشاعت ہوئی تو قارئین کو ابتدائی صفحات ہی میں اس کتاب کی وجۂ تحریر کا علم خود آسی ضیائی کی زبانی کچھ یوں ہوا :
جب میں کسی بے مقصد مقرر کو سامعین کے گرمانے کی خاطر اس قسم کے اشعار پڑھتے سنتا ہوں۔"نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر،تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر"یا بازار سے گزرتے ہوئے ایک ہوٹل کی دیوار پر اس طرح کے نعرے لکھے دیکھتا ہوں:"اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی،جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہییا ریڈیو پر گائی ہوئی کسی طوائف کی آواز میرے ذوق کو اس طرح کچلتی ہوئی بارِ سماعت ہوتی ہے:"بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے،یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں"تو مجھے ہر حساس شخص کی طرح ،دو گونہ تکلیف ہوتی ہے ۔ایک خود اقبال پر ظلم ہوتا دیکھ کر دوسرے اقبال کی قوم کو بھٹکانے اور سلانے کی ان کوششوں کو سوچ کر ۔(1)
آسی ضیائی کو دکھ اس بات کا تھا کہ اقبالؔ کو ایک بُت کی طرح پوجا جا رہا تھا۔ انھیںیہ بات گوارا نہ تھی کہ ایک بد کردار مقرر، گھٹیا اخلاق کا بے ایمان دوکاندار ،ایک سماج کی دھتکاری ہوئی بازاری عورت ،اقبا ل کے کلام کی بے حرمتی کرے۔ چنانچہ وہ اپنے پیشِ رو اقبال شناسوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
میرے معزز بزرگ ،جنھوں نے فکرِ اقبال کے بے شمار گوشے ہمارے سامنے آشکار کیے خواہ اس پر برا ہی مانیں ۔یہ کہے بغیر نہ رہوں گا کہ ان کی نیک نیتی ،محنت و کاوش او رذہانت و علمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود میںیہی سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اقبال پر لکھتے وقت ذرازیادہ محتاط ہوتے، اس کے پیغام اور فلسفے کی تشریح ہی پر بس نہ کر کے اس پر سنجیدہ تنقید کے ہر پہلو بھی نکالتے تو غالباً اقبال کو یہ بت کا مقام حاصل نہ ہوتا۔(2)
آسی ضیائی کی زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں مزید تاثر قائم کرنے سے پہلے  اس کے اہم مضامین کا مختصر تعارف کرانا ضروری ہے۔ چنانچہ ’’کلامِ اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘ کے مضامین کا مختصر جائزہ درج کیا جاتا ہے۔ جس سے کلامِ اقبال کے بارے میں آسی ضیائی کے نقطہ نظر کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ ’’محبت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے حوالے سے محبت کو موضوع بحث بنایا ہے۔ کیونکہ یہی عنصر ہے کہ جو اقبال کی ابتدائی شاعری میں ان کے سفرِ انگلستان سے پہلے پہلے تک نظر آتا ہے۔ اور اقبا ل کی شاعری کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اس عنصر کا ارتقا بھی عنوان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہوتا نظر آتا ہے۔
’’وطن سے محبت‘‘ مضمون میں اقبال کی جذبہ محبت کو وطن سے منسوب کرتے ہوئے قدرے تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے پہلے تو دہلوی اور لکھنوی دبستانوں کا ذکرکیا ہے۔ بعدا زاں انھوں نے وطن پرستی کو مغربی ادب کی دین قرار دیتے ہوئے پہلے حالیؔ او رپھر اقبالؔ کے کلام پر بحث کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں بانگِ درا کی نظم  ’’ نیا شوالہ‘‘ کے چند غیر مطبوعہ اشعار کا حوالہ دیا ہے۔ ’’مظاہر قدرت سے محبت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے مظاہرِ قدرت کی کامیاب منظر کشی کی دو وجوہات تحریر کیں ہیں۔ ایک تو اردو ادب میں مغربی شاعری کی نفوذ پذیری اور دوسری اقبال کی وادی کشمیر سے وابستگی ،اس سلسلے میں بانگِ درا ہی کی اکثر نظموں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔  ’’مذہبی روایات سے محبت‘‘ مضمون میں مذہبی روایات سے محبت کا موضوع بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً بلالؓ جیسی نظم پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی درسگاہوں سے کسبِ فیض کرنے کے باوجود اقبال اپنے مذہب سے گہری محبت رکھتے ہیں۔آسی ضیائی نے محبت کے بعد کلامِ اقبال کے جس دوسرے عنصر پر بحث کی ہے۔ وہ  ’’جستجو‘‘ ہے۔ اقبالؔ کے نظریہ حرکت و عمل کی بنیادیہی  ’’جستجو‘‘ ہے۔ جس کے مطابق جستجو صرف مظاہرِ قدرت تک محدود نہیں بلکہ اس کی رسائی تو  ’’خالقِ کائنات کے حضور‘‘ تک ہے۔
دینی شعائر سے اقبال کی وابستگی کے بعد آسی ضیائی نے اقبا ل کے ان صوفیانہ خیالات پر بحث کی ہے۔ جو انھوں نے موروثی روایات کی طرح اپنے بزرگوں سے پائے تھے۔ مضمون ’’تصوف‘‘ میں آسی ضیائی نے تصوف اور شاعری کے گہرے تعلق پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہوئے تصوف کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
اس کی تعریف ،مختصر الفاظ میں ،ظاہر داری اور رسمیات سے آزادی اور خدا کے ساتھ روحانی لگاؤکی جا سکتی ہے۔ (3)
اس سلسلے میںآ سی ضیائی نے قرآن و سنت کے علاوہ پروفیسر سید صفی حیدر کی کتاب  ’’تصوف اور اردو شاعری ‘‘ کے حوالے دینے کے بعد اقبا ل کی نظموں ’’عقل و دل‘‘ ، ’’شمع پروانہ‘‘، ’’دردِ عشق‘‘اور ’’التجائے مسافر‘‘ وغیرہ میں تصوف کے عناصر کی نشاندہی کی ہے۔ کلامِ اقبال میں محبت ،جستجو اور تصوف کے عناصر کی نشاندہی کرنے کے بعد آسی ضیائی اشعار کے حوالے دے کر ان تینوں عناصر میں جہاں قدرِ مشترک دریافت کرتے ہیں۔وہاں انھیں ان کییکجائی مجموعہ ٔ اضداد بھی نظر آتی ہے:
جو اقبال اپنے ذوقِ تصوف کی بنا پر پوری نوعِ انسانی کی ہمدردی کا دم بھرے ۔اس کا ذہن وطن کی جغرافیائی حدود کی تنگی کا کیوں کر متحمل ہو سکا؟ اور جس شخص کو  ’’غبارِ راہِ حجاز‘‘ بننے کی تمنا ہو وہ ہندوستان کی مورتی اپنے دل میں سجا کر اس کی پوجا کیوں کر سکتا ہے۔ نیز اگر اقبال محبت کے ذریعے بیمار قوموں کے شفا پانے کے قائل ہیں تو اپنی قوم سے یہ کسی قسم کی محبت ہے کہ اس کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں سکون کی تلاش کی جائے۔(4)
’’خاص موضوعات‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ ابتدائی دور کی شاعری میں اقبال کو شمع، سورج ،پھول اور بچہ جیسے خاص موضوعات نے مہمیز کیا ہے۔ ابتدائی دور میں اقبال کی طبع زاد نظموں کے بعد آسی ضیائی نے قارئین کی توجہ  ’’ایمرسن‘‘ ، ’’ٹینی سن‘‘ اور  ’’لارنگ فیلو‘‘ وغیرہ ان کی نظموں کی جانب مبذول کروائی ہے جن کے اردو تراجم بانگِ درا کا حصہ ہیں ۔ بقیہ ’’نظمیں‘‘ کے عنوان سے ان نظموں پر بحث کی گئی ہے جن میں اقبال نے مختلف شخصیات جیسے ،غالب،سر سید، داغ اور آرنلڈ وغیرہ کو موضوع سخن بنایا ہے۔ مثلاً نالۂ فراق ،داغ وغیرہ۔
 ’’غزلیں‘‘ مضمون میں بانگِ درا کی غزلوں میں اُستاد داغ کے تتبع کے باعث جن رسمی مضامین کا اظہار اقبال نے کیا۔ اس کا ذکر آسی ضیائی نے کیا ہے۔ ’’رومانی شاعری ‘ ‘میں پہلے دور کی شاعری کے بعد اقبال کے قیام یورپ کے زمانے (۱۹۰۵ء سے۱۹۰۸ء ) تک کو دوسرا دور قرار دینے کے بعد آسی ضیائی نے اقبال کی شاعری میں ’’عشقِ مجازی‘‘ کی موجودگی کا ثبوت ’’عاشق ہرجائی‘‘، ’’سلیمیٰ‘‘، ’’وصال‘‘، ’’شمع‘‘، ’’جگنو‘‘اور ’’حقیقتِ حسن‘‘ جیسی نظموں کے حوالے سے دیا ہے۔ آسی ضیائی کے نزدیک اقبال کی اس ’’بو الہوسی ‘‘ کا سبب قیامِ یورپ ہے۔ بانگِ درا کی نظموں ’’پھول کا تحفہ عطا ہونے پر ‘‘ ، ’’وصال ‘‘، ’’کلی ‘‘ اور سلیمیٰ کے متعدد اشعار پر دلائل دے کر آسی ضیائی نے کلامِ اقبال میں عشقِ مجازی کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔
بانگِ درا کی نظم ’’کلی‘‘ میں لفظ خورشید تین بار اور دیگر نظموں میں جا بجا دیکھ کر آسی ضیائی نے مضمون ’’خورشید ‘‘ میں اس شک کا اظہار کیا ہے کہ کلام اقبال میں ’’خورشید‘‘ کا مطلب سوچ نہیں بلکہ کوئی انسانی ہستی ہے ۔
آسی ضیائی نے مضمون’’ایک دلچسپ انکشاف‘‘ میں کلامِ اقبال کے حوالے سے دلچسپ انکشاف یہ کیا ہے کہ قیامِیورپ کے ابتدائی حصہ میں اقبال کو اپنی محبت کی کامیابی کے باعث کائنات کا ذرہ ذرہ دامِ محبت میں گرفتار نظر آتا ہے تو وہ حسن و عشق، کلی ، حقیقت ِ حسن اور ’’…کی گود میں بلی دیکھ کر ‘‘‘ جیسی نظمیں رقم کرتے ہیں مگر اگلے ہی حصے میں شاعر کی ذہنی کیفیات جس طرح پلٹا کھاتی ہیں۔اس کے نتیجے میں ’’عاشقِ ہر جائی ‘‘، ’’کوشش ناتمام‘‘ ، ’’نوائے غم‘‘ ، ’’عشرت امروز‘‘ اور  ’’فراق‘‘ جیسی نظمیں معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ ’’دوسری نظمیں ‘‘مضمون میں دوسری نظموں سے مراد بانگِ درا کے دوسرے دور کی وہ نظمیں ہیں جن کا ذکر پہلے نہیں کیا گیایعنی طلبہ علی گڑھ کے نام  ’’صقلیہ‘‘، ’’پیامِ عشق‘‘ اور  ’’عبدالقادر کے نام‘‘ ان نظموں میں اقبال کا نقطہ نظر بدلا اور انھوں نے عزیز احمد کے قول کے مطابق ،وطن سے سیاسیات کا رشتہ توڑ کرمذہب سے جوڑ لیا۔  ’’نئے دور کا آغاز‘‘ مضمون میں مذکورہ بالا چار نظموں کے حوالے ہی سے کلامِ اقبال کے نئے دور پر بحث کی گئی ہے۔ جس میں اقبال کا کردار ایک عارف اور راہنما کا ہے۔
 ’’خلاصہ بحث‘‘مضمون میں آسی ضیائی کے نزدیک مجموعی طورپر ان نظموں سے اقبال کے درج ذیلزاویہ ہائے نظر معلوم ہوتے ہیں:
۱۔    تہذیبِ مغرب کا انجام ہلاکتِ یقینی ہے۔
۲۔    وطن کی بجائے کلمہ طیبہ مسلمانوں کے لیے وجۂ اشتراک ہے۔
۳۔     ’’عشق گرہ کشا‘‘ اور مسلسل جدوجہد ہی زندگی برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔
 ’’محرکات ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایا ہے کہ  ’’کلامِ اقبال ‘‘ کی ارتقائی تبدیلی اور انکشاف کے محرکات میں مغربی تہذیب، فلسفہ عجم اور عشق مجازی کی ناکامی ہیں۔ ’’اسلوب کا جائزہ‘‘ مضمون میں اقبا ل کے فلسفہ و پیغام کا تجزیہ کرنے سے قبل ،ان کے اسلوب پیغام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کی بحث کا آغاز کلامِ اقبال کے ذرائع اظہار و ابلاغ سے کیا گیا ہے۔’’وسیلہ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایا ہے کہ کلامِ اقبال کی عالمگیر مقبولیت میں بڑا ہاتھ ان کے فارسی کلام کا ہے۔ یعنی اسرارِ خودی ،پیامِ مشرق ،زبورِ عجم وغیرہ کی جرمنی ،ترکی ،ایران،روس ،امریکہ اور چین وغیرہ میں پذیرائی کا سبب فارسی زبان ہے۔ یہاں آسی ضیائی نے پروفیسر مجیب احمد ،جامعہ لیہ کے  ’’فکر اقبال‘‘ میں شامل مضمون ڈاکٹر اقبال مرحوم کا اقتباس نقل کیا ہے:
فارسی میںلکھنے کی بدولت ڈاکٹر اقبال اور ان کے فلسفے کا اسلامی دنیا میں چرچا ہو گیا ۔ اور ہندوستان میں ان کی قدر کرنے والے کم نہیںہوئے۔ ہندوستانی مسلمان ان سے فارسی زبان اختیار کرنے کی شکایت نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ فارسی جاننا ان کا ایک تہذیبی فرض ہے۔(5)
 ’’ساخت پرداخت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی بتاتے ہیں کہ بانگِ درا سے پیامِ مشرق تک کلامِ اقبال میں دو اسالیب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک تو پاکیزہ اور ستھرے ذوق کی آئینہ دار فنکاری اور دوسرے متعین ،پر حکمت اور راعیانہ اسلوب ،حکیمانہ اسلوبِ شاعری کی خصوصیات ،مضمون میں بتاتے ہیں کہ اس اسلوب کی حامل تصانیف میں قرآن ،انجیل ،مثنوی مولانا روم کے علاوہ کلامِ اقبال بھی شامل ہے۔ ’’سادگی اور ندرت‘‘ میں آسی ضیائی نے دہلی اور لکھنو کے اہلِ زبان کے ساتھ کلام اقبال کا موازنہ کرنے کے بعد بالآخر فیصلہ اقبا ل کے حق میں دے دیا۔ کلامِ اقبال کی کامیابی کی ضامن یہی سادگی اور ندرت ہے۔ بانگِ درا ،بالِ جبریل ،ضرب کلیم ،جاوید نامہ ،پیامِ مشرق اور زبورِ عجم کے حوالے سے آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے اسلوب میں تشکیلات کی اہمیت کے دو اسباب بیان کیے ہیں ۔اول انسان کی قصہ کہانی سے دلچسپی اور دوم بالواسطہ خطاب۔
’’تخاطبِ بالغائب‘‘ خصوصیت آسی ضیائی کے نزدیک دراصل تمثیل کا تسمہ ہے۔ اقبال کی نظموں  ’’شمع اور شاعر‘‘ ، ’’خضرِ راہ‘‘ ، ’’ابوالعلا معری‘‘ ، ’’پنجاب کے پیر زادوں‘‘ سے اور نصیحت وغیرہ میں تخاطب بالغائب کا اسلوب موجود ہے۔ ’’رموز و علائم کا استعمال‘‘ مضمون میں آسی بتاتے ہیں کہ ’’بادہ و ساغر‘‘ کی زبان میں ’’مشاہدہ حق کی گفتگو‘‘ کرنا صدیوں سے ہمارے شعرا کے خمیر میں داخل ہے مگر جدید رموز و علائم کے علمبردار حالیؔ،اکبر اور اقبال ہیں:
حالیؔ مضمون میں حالی کا تعارف، قارئین سے کروانے کے بعد آسی ضیائی نے حالیؔ کے ہاں رموزو علائم کی موجودگی کے ثبوت کے لیےحالیؔ کاوہ نمونہ کلام نقل کیا ہے۔ جو ان کی نظم  ’’آزادی کی قدر‘‘ سے متعلق ہے۔(6)
 ’’اقبال ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے بتایا ہے کہ حالیؔ کے آزاد اکبر کے ’’سید‘‘ کی طرح اقبال کے علائم و رموز میں قلندر،شاہین ،مومن وغیرہ شامل ہیں جن کی آفاقی حیثیت مسلم ہے۔ آسی ضیائی نے یہاں حالی کی مسدس اور اقبال کے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا موازنہ بھی کیا ہے۔ ’’صورت و آہنگ کا اہتمام‘‘ مضمون میں آسی بتاتے ہیں کہ اقبال کا صحیح ذوق صوت و آہنگ ہے۔ میر ،انیس ،نظیر اکبر آبادی اور جگر کے کلام سے مثالیں دینے کے بعد آسی ضیائی نے اقبال کی نظموں  ’’ایک شام‘‘ ، ’’مسجدِ قرطبہ‘‘، ’’ذوق وشوق‘‘ ، ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’ابلیس کی مجلسِ شوری‘‘ کے حوالے سے صوت و آہنگ کے موضوع پر بحث کی ہے۔ آپ اس حوالے سے لکھتے ہیں:
اقبال جیسے عظیم شاعر کو اپنی نظموں میں مناسب لب و لہجہ اور صوت و آہنگ پیدا کرنے کے لیے تکلف اور آورد کی ضرورت مطلق پیش نہیں آتی ہو گی۔ یہ ذوق بھی شعری لوازم سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک شاعر ایک عظیم بات کو شعرکے گوارا پیکر میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو خود بخود اس کو اس کے لیے مناسب الفاظ لاتے وہی ملکہ بھی ہونا چاہیے اور چونکہ زبان خود انسانی احساسات کی صوتی عکاسی ہے۔ اس لیے شاعری کے احساساتِ لطیف بھی اصواتِ لطیف کا جامعہ پہن کر سامنے آتے ہیں۔(7)
 ’’تصورات وپیغام پر تبصرہ‘‘ میں آسی ضیائی  نے اقبال کے ان تصورات و پیغام کا تجزیہ کیا ہے ۔جن کی تشریح و تعبیر اس سے قبل چھوٹا بڑا ادیب کر چکا ہے۔  ’’تصورِ خودی کا ذہنی و ماحولیاتی پس منظر‘‘ میں آسی ضیائی بتاتے ہیں کہ اقبال نے جب اپنے زمانے کے ہندوستان پر نظر ڈالی تو انھیں پتہ چلا کہ اُمتِ مسلمہ ہر اعتبار سے پست، کمزور اور محکوم ہے۔ مزیدبرآں مغرب سے مرعوب ہونے کے باعث اتحاد واخلاق سے بیگانہ بھی ہے تو انھوں نے نظموں کے ذریعے اس صورت حال پر اپنے دردو کرب کا اظہار کبھی کیا اور تفکر ،تصورِ خودی بھی اس نظام ِ فکر کا نتیجہ ہے۔
 ’’اثباتِ خودی کے مقدمات(خودی) ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی بتاتے ہیں کہ اثباتِ خودی کے مقدمات میں پہلا مقدمہ خود ’’خودی‘‘ ہے۔ عجمی تصوف کے جواب میں اقبالؔ نے جو اسلامی تصوف پیش کیا ہے اور اس کی بنیاد ہی خودی پر قائم ہے۔ اس ضمن میں آسی ضیائی نے میکش اکبر آبادیکی  ’’نقدِ اقبالؔ‘‘ مولانا سید ہاشمی فرید آبادی کی  ’’تاریخِ مسلمانانِ پاکستان وبھارت ‘‘ اور مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی کی ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ تسخیر کائنات میں آسی کہتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ انسان اپنی جسمانی ،عقلی اور روحانی طاقتوں سے کائنات پر اپنا تسلط جماتا چلا جاتا ہے۔ آسی ضیائی کے نزدیک اقبالؔ کے ہاں جسمانی تسخیر سے زیادہ عقلی اور روحانی تسخیر پر زور دیا گیا ہے۔
 ’’مسئلہ خیر و شر اور روح و جسم کا اتحاد ‘‘مضمون میں آسی کہتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک تخلیق انسانی کا مقصد حصولِ لذت نہیں خودی کا تحقق اور نشوونما ہے اور اسی بنا پر ہر وہ چیز خیر ہے جو تسخیر فطرت میں خودی کی معاون ہو اور اس کا مزاج شر ہے۔ اور یہ نظریہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک روح و جسم کا اتحاد نہ تسلیم کر لیا جائے ۔ مضمون  ’’مسئلہ جبر و اختیار ‘‘ میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے حوالے دے کر ا س عقیدہ کو تمام مقدماتِ خود ی کا قدرتی نتیجہ قرار دیا ہے۔ بعد ازاں مختلف فلسفیوں سے موازنہ کے بعد کلام اقبال میں اس عقیدہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون ’’بدویت‘‘ میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے حوالے سے اقبال کی بدویت پسندی کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ۔ جن میں اقبال کی فطرت شناسی اور مغربی تہذیب سے مرعوبیت شامل ہیں۔ یہاں اقبال کے اشعا ر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے نظریۂ فن پر بھی بحث کی ہے۔ ’’عبدالکریم الجیلی ‘‘ مضمونمیںآسی ضیائی کہتے ہیں کہ الجیلی کے انسانِ کامل کا راستہ الہیات اور مابعد الطبیعات میں بہت الجھا ہوا ہے۔ انھوں نے عبدالکریم الجیلی کے مسلک کی وضاحت کے لیے  ’’عزیز احمد‘‘کی کتاب ’’اقبال ؔ…نئی تشکیل‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے:
جیلی کا انسان کامل محسن اعلیٰ ترین رومانی قدروں کا حامل ہے۔ اس کی عینیت میں انتہا درجے کی شدت ہے۔ اور وہ ایک نظام الہیات کا پیداوار اور اس سے مربوط ہے۔(8)
’’نطشے ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے نطشے کے فوق البشر کا موازنہ برنارڈ شاہ اور برگساں کے فوق البشر سے کرنے کے لیے ’’عزیز احمد‘‘ کی کتاب ’’اقبال نئی تشکیل ‘‘ سے حوالے دئیے ہیں۔ارتقائے حیات کے جس عمل کو برگساں نے ’’جو شش حیات‘‘ کا نام دیا ہے۔آسی ضیائی نے اسیکو موضوع بنا کر عقل جبلت اور وجدان پر بحث کی ہے۔ آسی مضمون ’’اقبال‘‘میں کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنا تصور مرد مومن مرتب کرتے وقت مذکورہ بالا فلسفیوں کے نظریات سے استفادہ کیا ہے۔ آسی ضیائی نے اس ضمن میں ’’ساقی  نامہ‘‘ کے اشعار کا حوالہ دیا ہے :
یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار  ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
آسی ضیائی کے نزدیک کلامِ اقبال کا ایک لاینحل پہلو یہ ہے کہ اگر ارتقا کی کوئی آخری منزل نہیں آسکتی تو پھر انسانِ کامل کیوں کر آسکتا ہے؟ ایک تضاد مضمون میں اسرارِ خودی اور بالِ جبریل،میں آنحضورؐ کے متعلق اقبال کے افکار کو آسی ضیائی نے متضاد قرار دیاہے۔’’ان اعتراضات کا جواب‘‘ مضمون میں مذکورہ بالا اعتراضات کے جواب میں آسی ضیائی نے یہ نظریہ پیش کیا ہے۔ کہ اقبال کا  ’’انسانِ کامل‘‘ کا تصورِ شاعری میں محض ایک مثالی تصور ہے۔  ’’جذباتی تصور‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے اقبال کے جذباتی تصور اسلام کے حوالے سے ان کے پسندیدہ صحابہ کرام، سپہ سالاروں اور سیاسی شخصیات کا ذکر کیا ہے۔مثلاً حضرت ابو ذرؓ، سلمانؓ، ابو بکرؓ،عمرؓ،خالدؓ ،قطب الدین ایبک ؒ،احمد شاہ ابدالیؒ ،ٹیپو الجیلی وغیرہ۔
 ’’عقلی تصور‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے اقبال کی نظموں خضرِ راہ ،خدا کافرمان ،فرشتوں کے نام ،ابلیس کی مجلس شوریٰ کے حوالے سے ان کے اشتراکی اور اقتصادی نظریات پر بحث کی ہے :مثال کے طور پر درج ذیل ملاحظہ ہو:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
’’لنین اور دوسرے غیر مسلم ‘‘ مضمون میں بالِ جبریل اور جاوید نامہ کے حوالہ جات کے بعد آسی ضیائی نے واضح کیا ہے۔ کہ لنین اور افغانی وغیرہ کو اقبال نے اپنے تخیل میں مسلمان بنانا چاہاہے۔’’زمان ‘‘ مضمون میں قرآن و حدیث اور کلام اقبال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آسی ضیائی نے واضح کیا ہے کہ اقبا ل نے قدیم تصور زماں کے بر خلاف جس میں زماں کو ایک معروضی حقیقت فرض کیا جاتا ہے۔ زماں کو داخلی اور موضوعی قراردیا ہے۔ ’’جبریل ‘‘مضمون میں آسی ضیائی نے بالِ جبریل کی نظموں ’’ابلیس و جبریل‘‘ اور’’مسجد قرطبہ‘‘ کے ساتھ ساتھ بانگِ درا کی خضر راہ اور طلوع اسلام کے حوالے سے جبریل پر بحث کی ہے۔ ’’پیش گوئیاں ‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے شمع و شاعر،جواب شکوہ ،خضرِ راہ ،طلوع اسلام ،ساقی نامہ مسجد قرطبہ اور ابلیس کی مجلس شوریٰ میں مغربی تہذیب کی تباہی اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کے بارے میں اقبال کی پیش گوئیوں پر بحث کی ہے۔’’دعائیں‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ اقبال کی دعائیں ملت کے لیے تھیں اور اس میں کہیں بھی مادی اشیاکی خواہش نہیں کی گئی ۔ ’’عورت‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ اقبال نے اس مسئلہ میں فلسفیانہ طورپر بھی شریعت ہی کی حمایت کی ہے۔ اس بات کو آسی ضیائی نے مختلف حوالوں سے ثابت کیا ہے ۔
جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیر
مرد کے ہاتھ میں ہے جو ہر عورت کی نمود
’’اس مخالفت کا نفسیاتی سبب‘‘ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ اقبا ل خود اوائل جوانی میں ایک ناکام محبت کا شکاررہ چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے آزادیٔ نسواں کی مخالفت کی۔خلاصہ بحث میں آسی ضیائی نے اقبال کو فلسفی اقبال سے زیادہ شاعر اقبال قرار دیا ہے۔’’پیغام ِ اقبال کے محرکات‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے وطنیت ،عجمی تصوف سے بیزاری ،نظریۂ عشق اور حرکت و عمل کو پیغام اقبال کے محرکات قرار دیا ہے۔  ’’اقبال کے اثرات معاشرہ پر‘‘ مضمون میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے معاشرہ پر اثرات کے ضمن میں اقبال کو مجدد قرار دیتے ہوئے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ایک شبہ کا ازالہ مضمون میں آسی ضیائی کہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں نتیجہ فکری و عملی انقلاب لانے والا تنہا شخص اقبال ہی نہیں بلکہ محمد بن عبدالوہاب بخدی، شاہ ولی اللہ، سید احمد بریلوی اورجمال الدین افغانی نے بھی اس کام میں حصہ لیا۔
آسی ضیائی کے خیال میں اقبال کے ادب پر اثرات معاشرے پر چھوڑے جانے والے اثرات سے کہیں زیادہ دیر پا اور عظیم ہیں ۔اس سلسلے میں انھوں نے قدیم شعرا (میرؔ اور غالبؔ) کے ساتھ ساتھ اقبالؔ کے ہمعصر شعرا (فانیؔ،حسرتؔاور اصغرؔ) سے موازنہ کیا ہے اور پھر ان جدید شعرا (راز رام بریلوی،عاصی کرنالی ،ماہر القادری اور قابلِ اجمیری) کا ذکر کیا ہے جن پر کلام اقبال کے اثرات بہت واضح ملتے ہیں۔’’اقبال کا مستقبل‘‘ کتاب کے اس آخری مضمون میں آسی ضیائی نے کلامِ اقبال کے ان موضوعات کا دوبارہ ذکر کیا ہے جن پر اس سے قبل اسی کتاب میں مباحث ہو چکے ہیں۔ یہاں کلامِ اقبال کیمعائب و محاسن و اضح کرنے کے بعد بالآخر اقبال کو ایک عظیم شاعر قرار دیا گیا ہے۔
آسی ضیائی رام پوری کا ایک اہم مضمون ’’اقبال …میری اور آپ کی نظر میں‘‘ جون ۱۹۴۹ء میں مرے کالج میگزین کے حصہ اردو میں چھپا۔ یہ مقالہ کالج کے طلبا کے لیے مخصوص ہونے کے باعث اشاعت سے قبل یومِ اقبال کے موقع پر ۲۹ اپریل۱۹۴۹ء کو کالج ہال میں پڑھا گیا۔آغاز ہی میں آسی ضیائی نے اقبال کے لیے اپنی اور طلباکی عقیدت کا موازنہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کلامِ اقبال سے اشعار کا انتخاب کیا ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم
موازنہ کے سلسلے میں آسی ضیائی نے اپنے اور طلباء کے ماحول اور زمانے کی تبدیلی کو بھی موضوع ِ بحث بنایا ہے ۔ یہاں آسی ضیائی طلبا کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اقبال کی شاعری کو سمجھنے سے قبل اردو شاعری کا پس منظر سمجھیں تبھی اقبال شناس ہو سکیںگے۔ پیغامِ اقبال کو سمجھنے کے سلسلے میںآسی ضیائی طلبا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
آپ اقبال کے چشمے کی صفائی ،روانی ،وسعت اور زور تک پہنچ کر رک جائیں گے اور میں نے اس سے آگے بڑھ کر اس کے منبع کو دیکھا ہے کہ آپ کے لیے اقبال ایک روشنی ہے  ۔ اور اس روشنی کے اس خزانے کی اہمیت جتانا چاہتا ہوں ۔ جس سے اقبال نے اپنا چراغ جلا یا ہے۔ آپ کے خیال میں اقبال ایک ہیرا ہے جسے ہماری خوش قسمتی سے زمین نے اُگلا ۔ میری نظر میں اقبال ایک غیر ت مند فقیر تھا جس نے اعلیٰ دربار سے اپنی جھولی بھری اور اسے لٹا کر غنی ہو گیا۔اس لیے آپ اقبال سے محبت کرتے ہیں مگر معاف کیجیےیہ وہ محبت ہے جو ایک جاہل ماں اپنی لاڈلی اولاد سے کرتی ہے۔ اور میں اس کی عزت کرتا ہوں۔(9)
غرض طلباکو اقبال کا قدر شناس بنانے کے لیے آسی ضیائی نے آغا ز تا انجام ’’موازنہ‘‘ سے کام لیا ہے۔ اور آخرمیں طلبا کو تلقین کی ہے کہ وہ ’’اقبال شناس‘‘ بننے سے پہلے ’’قرآن شناس ‘‘بنیں۔آسی ضیائی کا مقالہ اقبال ’’خورشید‘‘ مارچ ۱۹۵۳ء میں’’ مرے کالج میگزین‘‘ کے حصہ اردو میں شائع ہوا۔ بعد ازاں اس مقالہ کا خلاصہ آسی ضیائی نے اپنی تصنیف ’’کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ میں بعنوان’’خورشید‘‘ رقم کیا۔ اس میں آسی ضیائی نے اقبال کی رومانی محبت کی کہانی ’’کلامِ اقبال‘‘ کی زبانی پیش کی ہے۔ یعنی ’’بانگ درا‘‘ کے حصہ دوم کی نظموں کے حوالے سے اقبال کی جنسی محبت پر بحث کی ہے۔ ان کے خیال میں  ’’حسن و عشق‘‘ ،  ’’……کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ ، ’’کلی‘‘،  ’’وصال‘‘،  ’’سلیمیٰ‘‘، ’’نوائے وقت‘‘، ’’عشرتِ امروز‘‘اور  ’’عاشقِ ہرجائی‘‘ جیسی نظموں میں اقبال کی محبت کا حال کچھ کچھ ملتا ہے۔مگر یہ بات قابلِ غور ضرور ہے کہ ان نظموں میں اقبال کے  ’’محبوب‘ ‘کانام بھی کسی نہ کس طرح آیا ہے۔ اور وہ نام ہے  ’’خورشید‘‘ اور ’’نظم کلی‘‘ میں تو یہ نام تین مرتبہ آیا ہے مثلاً:
اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں
صنعتِ غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں
’’بانگِ درا‘‘ کے حصہ دوم کی چوبیس نظموں میں سے اٹھارہ ایسی نظموں کی نشاندہی آسی ضیائی نے کی ہے۔ جن میں کسی نہ کسی طرح کامیاب محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر ان کے بعد عاشقِ ہرجائی سے لے کر  ’’فراق‘‘ تک وہ نظمیں  ہیں جو محبت کا انجام ناکافی ظاہر کرتی ہیں:
یونہی میں دل کو پیامِ شکیب دیتا ہوں
شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
 آسی ضیائی نے انھی نظموں کے بارے میں لکھا ہے:
ان نظموں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو کسی ایک حسین سے محبت نہ کرنا چاہیے بلکہ ایک کے بعد ایک حسین بدلتے رہنا چاہیے اور آخرت کی ’’حوروں‘‘ اور ’’شرابوں‘‘ کے لالچ میں دنیا کی رنگینیوں سے جوانی میں باز نہ رہنا چاہیے۔ (10)
آسی ضیائی کا مقالہ ’’اقبال اور موجودہ ادبی بے راہ روی ‘‘،’’مرے کالج میگزین ‘‘کے حصہ اُردو میں مارچ ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں چھپا ۔ آغا ز میں انھوں نے پریشان فکری اور ابہام کو نظم و نظر کے انحطاط کاباعث قرار دیا ہے۔ اور ان کے خیال میں اُن مصائب کے رواج دینے میںترقی پسند تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ادبی بے راہ روی کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے۔ کہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ،کلام اقبال کو اس نظامِ فکر سے الگ کر کے پڑھا جاتا ہے۔ جس کے باعث قاری تضاد اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر کلامِ اقبال میں قرآن و حدیث کی تاویلات کو موضوعِ بحث بنانے کے بعد آسی ضیائی نے تنقید کا رخ اقبال کے فن کی طرف موڑ دیا ہے۔ مختلف اشعار کو سامنے رکھ کر فنی معائب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
بعض دوسرے اسالیب بھی اقبال کے ہاں ایسے بن گئے جن کی فنی نقطہ نظر سے کوئی تاویل نہیں ہو سکتی او ریہی میرے خیال میں آج کے ادب میں ابہام انتشار اور لا مقصدیت پھیلانے کے خاص ذمہ دار ہیں۔(11)
آسی ضیائی رامپوری کا مقالہ’’حالی اور اقبال‘‘ مرے کالج سیالکوٹ کے ادبی مجلہ ’’مجلہ افکار‘‘ حصہ اردو میں۱۹۶۳ء کو شائع ہوا۔ آسی ضیائی نے بحث کا آغاز اقبالؔ کے اس شعر سے کیا ہے:
میں کشورِ شعر کا بنی ہوں گویا
جاری ہے مرے لب پہ کلامِ حالیؔ
یہاں عام ناقدین کے بر خلاف آسی ضیائی نے اقبال کا رشتہ رومی ،غزالی ،الجیلی ،ابن عربی ،نطشے اور برگساں سے ملانے کے بجائے اقبال کے اپنے ہی ہم وطن حالی سے جوڑا ہے۔اور کلامِ حالی اور کلامِ اقبال کے موازنہ کے بعد یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان کے ہاں وطن پرستی ،مذہب پرستی اور قومی اصلاح کے جذبات مشترک ہیں۔اس سلسلے میں ہر دو شعر ا کے کلام میں علائم و رموز کی مماثلت پر بحث کرتے ہوئے آسی ضیائی نے اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ اور حالی کے ’’مردِ آزاد‘‘ کا ذکر بحوالہ کلام ہے:
بھروسا کر نہیں سکتا غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا(اقبال)
قرض لے کر حج کو جانے کی ضرورت
آزادی کی قدر اور برکت اتفاق(حالی)
آسی ضیائی نےبلحاظِ فکر حالی کو اقبال کا پیش رو قرار دینے کے باوجود آسی نے حالی کو فنی اعتبارسے اقبال کا پیش رو قرار نہیں دیا۔ و جہ یہ بیان کی ہے کہ ایک اقبال ہی پر کیا موقوف ،اس اعتبار سے تو حالیؔ،تمام جدید شعرا کے پیش رو اور رہ نما ہیں مقالہ کے آخر میں خلاصۂ کلام کے طورپر حالی و اقبال کی اقدار مشترک کا موازنہ کرنے کے بعد آسی ضیائی لکھتے ہیں :
اقبال خود حالی ہی کا ایک ترقی یافتہMagnifiedوجود تھے۔(12)
اقبال کے بارے میں سوانحی ،تحقیقی ،تنقیدی اور تشریحی کتب و مقالات لکھنے والے نقاد بے شمار ہیں۔ اور ان اقبال شناس ناقدین کی طویل فہرست میں ایک نام آسی ضیائی کا بھی ہے جنھوں نے’’ کلامِ اقبال کا بے لا گ تجزیہ ‘ ‘کے عنوان سے ایک کتاب اور اقبالؔ کی فکروفن سے متعلق چند مقالات رقم کیے ہیں۔ آسی ضیائی کی اقبال شناسی پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے رائے کچھ ان الفاظ میں پیش کی ہے:
آسی ضیائی کا تنقیدی اسلوب پختہ اور ایک گوشہ انفرادیت کا حامل ہے۔ ان کی بیشتر تنقیدی تحریروں میں عام طرزِ فکر سے ہٹ کر ،ایک منفرد سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ مثلاً مرثیے کے بارے میں ان کا نقطہ نظر، جس میں سے خود کو بڑی حد تک متفق پاتا ہوں۔ البتہ اقبال پر انھوں نے جو کچھ لکھا۔ ا س سے پوری طرح اتفاق مشکل ہے۔(13)
حوالہ جات
۱۔آسی ضیائی  رامپوری ،’’کلام اقبال کا بے لا گ تجزیہ‘‘گلزارِ عالم پریس لاہور 1957ء،ص:۸
۲۔    ایضاً،ص:۹
۳۔    ایضاً،ص:۲۷
۴۔    ایضاً،ص:۴۰
۵۔    ایضاً،ص:۸۹
۶۔    ایضاً،ص:۱۲۱
۷۔    ایضاً،ص:۱۳۷
۸۔    ایضاً،ص:۱۸۸
۹۔    ’’مرے کالج میگزین‘‘ ، جون،۱۹۴۹ء ،ص:۲۱
۱۰۔    ـ"مرے کالج میگزین‘‘  ،مارچ،۱۹۵۳،ص:۴۷
۱۱۔     ’’مرے کالج میگزین‘‘، مارچ ۱۹۶۳ء ،ص:۶۷
۱۲۔     ’’مجلہ افکار‘‘ مرے کالج سیالکوٹ،۱۹۶۷ء ،ص:۶
۱۳۔    انٹرویو،ڈاکٹر رفیع الدین  ہاشمی ،۲۰اپریل ۲۰21

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...