Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > اقبال شناسی کے تناظر میں فیض اور جابر علی سید کا اختصاصی مطالعہ

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

اقبال شناسی کے تناظر میں فیض اور جابر علی سید کا اختصاصی مطالعہ
ARI Id

1688388584597_56116235

Access

Open/Free Access

Pages

85

اقبال شناسی کےتناظر میں فیض اور جابر علی سید کا اختصاصی مطالعہ

اردو ادب میں اقبال شناسی ایک بلند مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔ سیالکوٹ کے مشاہیر کی بڑی تعداد نے اقبا ل شناسی پر نمایاں کام کیا ہے۔میجر اقبا ل ڈار ،نعیم اللہ ملک ،ٖڈاکٹر نظیر صوفی،امان اللہ  خاں،آسی ضیائی رامپوری،خالد نظیر صوفی،ڈاکٹر الحمید عرفانی ،مولوی الف دین  نفیس،یوسف سلیم چشتی ،مولانا ظفر علی خاں،چودھری محمد حسین ،فیض احمد فیض   جابر علی سید اور   سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دیگر مشاہیر نے فکر اقبال پر قابلِ قد ر کام کیا ہے۔البتہ پیش نظر آرٹیکل میں دو معروف مشاہیر فیض اور جابر علی سید کا تنقیدی و جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔  
فیض احمد فیض ایک شاعر ،نثر نگار کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔ فیض احمد  بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ہیں۔ فیضؔ عظیم مفکر اقبال  کے فکروفلسفہ سے خاص نسبت رکھتے تھے ۔ ان دونوں کے کئی اساتذہ  اور تعلیمی درسگاہیں بھی مشترک تھیں۔فیض اور اقبال دونوں  کاجائے پیدائش سیالکوٹ ہےعلاوہ ازیں دونوں کے والد بھی آپس میں گہرے دوست تھے۔ فیض کی  طرح جابر علی سیدایک شاعر ،نقاد ،ماہر لسانیات وعر وض کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔ جابر نے کئی ادبی مشاہیر کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے کلام اور فن و فکر کو اپنی خصوصی توجہ کا محور بنایا ہے۔ تحقیق وتنقید کے سلسلے میں اقبال جابر کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انھوں نے فکر ِاقبال پر بھرپور انداز اور دل وجان سے سپرد قلم کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اقبال پر باقاعدہ کتب بھی تصنیف کی ہیں۔
فیض احمد فیض ایک شاعر اورنثر نگار کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔ علامہ اقبال پر لکھے ہوئے مضامین پر مشتمل فیضؔ کی کتاب’’اقبال‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا ناشر مکتبہ عالیہ لاہور ہے اور اسے شیما مجید نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں شیما مجید کہتی ہیں:
یہ کتاب فیض احمد فیض کے ۸ مضامین اور تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب و تدوین کا محرک جذبہ ،فیض صاحب کے اقبال کے بارے میں خیالات کو یکجا دیکھنے کی خواہش کے علاوہ اقبال شناسوں کو اس ضرورت کی طرف متوجہ کرنا بھی ہے۔ جس کا فیض صاحب نے ان مضامین میں احساس دلایا ہے۔1
اس کتاب میں فیضؔ کی اقبالؔ پر لکھی ہوئی دو نظمیں بھی شامل ہیں۔ان میں سے ایک نظم’’اقبال ‘‘ کے اس مصرع سے شروع ہوتی ہے:زمانہ تھا کہ ہر فرد انتظار موت کرتا تھا۔(2)یہ ابھی تک فیض کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ۔ یہ نظم ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی تھی اور ان کی نو مشقی کے دور کی تخلیق ہے۔ دوسری نظم ’’اقبال‘‘ جس کا اولین مصرع ہے:
آیا ہمارے دیس میں ایک خوش نوا فقیر3
یہ نظم ان کے شعری مجموعہ ’’نقش فریادی‘‘ میں بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ فیض کے دو مضامین انگریزی میں تھے ۔ جنھیں نہ صرف کتاب ’’اقبال‘‘میں ہو بہو شائع کیا گیا ہے بلکہ ان کا اُردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک مضمون ’’اقبال کا فنی پہلو‘ ‘ ہے اور دوسرا’’محمد اقبال‘‘ پہلے مضمون کا اُردو ترجمہ شاہد علی نے کیا ہے۔ اور دوسرے مضمون کا ترجمہ سجاد باقر رضوی نے کیا ہے۔ ’’جذباتِ اقبال کی بنیادی کیفیت‘‘ اور ’’اقبال اپنی نظر میں‘‘ دونوں مضامین ’’میزان‘‘ میں سے لیے گئے ہیں۔فقیر و حید الدین کی ’’روزگار فقیر‘‘ کا مقدمہ بھییہاں شامل کیا گیاہے، جو اقبال پر ایک مختصر مضمون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ جستہ جستہ کے عنوان سے فیض کی تحریروں کے کچھ اقتباسات ان کی مختلف کتابوں سے اور چند خیالات ان کے انٹر ویوز سے اخذ کر کے یہاں درج کیے گئے ہیں۔ اس طرح اس کتاب میں اقبال کے بارے میں فیض کے تمام خیالات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ فیضؔ کو اقبال سے خاص نسبت تھی ۔مرزا ظفر الحسن ’’عمر گذشتہ کی کتاب ‘‘ میں فیض اور اقبال کی چند مماثلتوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:
دونوں کا وطن اور جائے پیدائش سیالکوٹ اور فیض کے والد اور علامہ کی دیرینہ دوستی۔ دونوں کے ابتدائی اساتذہ مشترک تھے ۔دونوں نے گورنمنٹ کالج میں تعلیم پائی دونوں نے لاہور کو وطن بنایا ۔دونوں شاعر بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔4
فیضؔ اقبالؔ کی انقلابی قدر سے بڑے مسحور تھے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ فیض آخر تک اقبال کی عظمتِ فکر کے قائل رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ اقبال میں دلچسپی کے علاوہ اقبال پر نقدو نظر کے باب میں جو کچھ شائع ہوتا رہا وہ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا لیکن اقبالیات کا ایک پہلو انھیں ہمیشہ تشنہ اور فام محسوس ہو ا۔ وہ اقبال کی ذات کے ایک مکمل اور بھرپور مطالعہ کے متمنی تھے۔5
فیض احمد فیضؔ اقبال پر اپنے مضمون’’اقبال۔۔۔فن اور حصارِ فکر‘‘ میں لکھتے ہیں:
علامہ اقبال پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں ،جن میں اقبال کے فلسفے ،پیام ،فکر ،ذات اور سوانح کے متعلق ہیں۔6
فیض صاحب اس مضمون میںیہ بھی لکھتے ہیں:
کوئی کتاب ان کے شعر کے محاسن اور خصوصیات کے متعلق نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال اپنے آپ کو شاعر کہلانا پسند نہیں کرتے تھے۔7
فیض مزید لکھتے ہیں:
اس وجہ سے لوگ ان کے پیغام کی طرف توجہ دینے کی بجائے شعر پر سر دھنتے رہیں گے۔ اقبال کے بہت سے مداح بھی انھیں حکیم ،مفکر یا فلسفی ہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔8
اس مضمون میں فیض اقبال کے ابتدائی کلام کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
ان کے کلام کا پہلا دور مناظرِ قدرت کے مشاہدے اور اس مشاہدے کے پید ا کردہ تحیر کا دور ہے۔ وہ اس دور میں چاند ستارے، پہاڑ، سمندر،جگنو، پرندے وغیرہ کو اپنا موضو ع بناتے ہیں ۔ ربط و رشتے اور ابتداپر انتہا پر غور کرتے ہیں۔ اس دور میں ان کے ہاں اُداسی اور تنہائی کی کیفیت ملتی ہے۔ پھر یورپ جانے کے بعد کے دور کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دور میں ان کے ہاں ذاتی اور دلی واردات کا ذکر ملتا ہے۔9
فیض اس مضمون میں اقبال کے اسلوب کے حوالے سے کہتے ہیں:
اسلوب کے اعتبار سے ان کے کلام کا یہ دور غالبؔ کے ابتدائی دور سے مشابہ ہے۔ جس میں پُر شکوہ انداز، غیر مانوس فارسی تراکیب اور بلند بانگ لہجہ غالب ہے۔10
اس کے بعد فیض لکھتے ہیں کہ اقبال کے ہاں وطن پرستی کا جذبہ ملتا ہے۔ اس ضمن میں وہ اقبال کی کئی نظموں کا حوالہ دیتے ہیں۔مثلاً سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا اور ’’نیا شوالہ ‘‘ وغیرہ ۔دوسرے دور کا ذکر کرتے ہوئے فیض لکھتے ہیں :
اقبال کے ہاں فطرت ،مناظر قدرت، اپنی ذات اور وطن کے محدود اظہار کی بجائے عالمی حالات کے زیر اثر ملت پرستی کا موضوع ان کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔11
اس دور میں انھوں نے بہت سی طویل نظمیں لکھیں۔ مسدس کی صنف کو منتخب کیا۔ اپنا پیرایہ اظہار بدلا، تشبیہات اور استعارات کی بجائے صاف اور سادہ گفتگو کا انداز اختیار کیا ۔ اس دور کی ابتدا’’مثنوی اسرارو رموز‘‘ سے ہوتی ہے۔ اور ’’پیامِ مشرق‘‘ سے آگے ’’بالِ جبریل‘‘ اور ’’ارمغانِ حجاز‘‘ پر جا کرا س کا اختتام ہو تاہے۔ اب ان کا یہ ذہنی اور جذباتی سفر اپنے انجام تک پہنچتا ہے جس میں انسان اور کائنات کے بارے میںغورو فکر ملتا ہے۔ یہاں اختصار ہے ،فصاحت ہے ،تحّیر کی جگہ ایمان اور محبت کی بجائے عشق ہے۔ وہ غنائیہ شاعری کا بدل پیدا کرنے کے لیے شاعری کی روایات میں کچھ نئے اضافے کرتے ہیں۔وہ بہت سے پرانے الفاظ تبدیل کرتے ہیں۔ فیض لکھتے ہیں :
جیسے جیسے اقبال کی فکر و خیال کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے ان کے موضوعات مرتکز ہوتے گئے۔ اقبال نے غزل کو وسعت دی۔12
’’ہماری قومی زندگی اور ذہن پر اقبال کے اثرات‘‘ مضمون میں فیض نے بتایا کہ ہماری ذہنی زندگی میں جس قسم کا تلاطم اقبال کے افکار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان سے پہلے یا ان کے بعد کسی ادیب ،کسی مفکر، کسی مصنف نے ہمارے اذہان میں پیدانہیں کیا۔ اس کے بعد انھوںنے سر سید تحریک کے متعلق بتایا کہ اگرچہ سر سید تحریک نے بھی لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کیا لیکن اقبال کے افکار کا تعلق نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں سے تھا بلکہ تمام مسلمانوں ،دنیا بھر کے عام انسانوں،جملہ موجودات اور غیر موجودات سے تھا۔ اقبال نے ہمارے قومی کاروبار میں خواہ وہ سیاست ہو ،خواہ مذہب ،خواہ اخلاقیات ،خواہ قومی زندگی کا کوئی شعبہ ہو اس میں تفکر اور تدبر کا عنصر شامل کیا۔ اقبال نے لوگوں کو سوچنے ،غور کرنے ،مشاہدہ کرنے ، مطالعہ کرنے اور تجزیہ کرنے کا طریقہ بتایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر خاص و عام سیاسی مفکر، معلم اور خطیب کے ہاں اقبال کا سا سوچنے کا اثر پیدا ہو گیا۔ اقبا ل کا ایک اور اثر لوگوں کے ذہنوں پر یہ ہوا کہ لوگوں کے ذہنوں نے غلامی سے نجات پائی۔انھوں نے انسانیت اور کائنات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فیض کا کہنا ہے کہ سر سید تحریک نے ان تمام باتوں کو آفاقی طریقہ سے نہیں سوچا ۔ آفاقی طریقہ سے سوچنے کی ترغیب اقبال نے ہمارے ذہنوں میں پیدا کی۔ انھوں نے ہمارے ذہنوں میں شعر و ادب کے ایک نئے مقام کا تعین کیا کیونکہ اس سے پہلے شعر کو ایک تفریحی چیز سمجھا جاتا تھا۔
 مولانا الطاف حسین حالی کے بعد شعر میں فکر و حکمت محض اقبال کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اقبال نے ہی بتایا کہ شعر بہت ہی سنجیدہ چیز ہے۔ یہ محض دل لگی کا سامان نہیں۔ اپنے ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کا فنی پہلو‘‘ میں جوان کی انگریزی تقریر کا ترجمہ ہے۔ فیض نے اقبال کے کلام کے فنی پہلو پر گفتگو کی ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ اقبال کی شاعرانہ تکنیک پر کم کام کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ خود شاعر ہے۔ اقبال خود اپنی شاعری سے زیادہ اپنے پیغام کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
فیض کا کہنا ہے کہ ہمارے سنجیدہ مزاج حضرات شاعر کو بدنام سی شخصیت سمجھتے ہیں۔ شاید اقبال نہیں چاہتے تھے کہ انھیں بھی ایسے سڑے بسے نغمہ نگاروں میں شامل کر لیا جائے۔ فیض کہتے ہیں کہ اگرچہ اقبال ،فلسفی ،مفکر ، قومی راہبر او ر مبلغ سبھی کچھ تھے۔ لیکن جس چیز نے ان کے پیغام کو قوت بخشی اور دلوں میں گھر کر جانے کی صلاحیت بخشی ، وہ ان کی شاعری ہی تھی۔ شاعر اقبال کے ابتدائی کلام کے سٹائل اور طرزِ اظہار اور بعد کے کلام کے سٹائل اور طرزِ اظہار میں شدید فرق ہے۔ اس کے ہاں اس فرقکا باوصف ایک تسلسل ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ ان کے بچپن کی شاعری کے علاوہ نوجوانی کی شاعری میں بھی سنجیدگی اور متانت کا احساس نمایاں اور احسا س پوری شاعری میں نظر آتا ہے ۔اس تسلسل کا دوسرا پہلو تلاش و جستجو کا عنصر ہے۔ ان کے کلام میں اسرارِ کائنات او راسرارِ زندگی کو سمجھنے کو مستقل خواہش ہے۔
فیض کہتے ہیں کہ ان کے ابتدائی کلام کا انداز مرصع، مسجع اور فارسی آمیز ہے۔ اس میں بیدلؔ ،نظیریؔ،غالبؔ اور فارسی شعرا کا اثر ہے۔ اقبال کے کلام کے ابتدائی دور کی مثال فیض اس شعر سے دیتے ہیں:
کسی قدر لذت کشورِ عقدہ مشکل میں ہے
لطفِ صد حاصل ،ہمارے سعی بے حاصل میں ہے
فیض کہتے ہیں کہ ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں ان کا انداز مرصع ہے۔ مگر آہستہ آہستہ یہ شاعری سادگی کی طرف جاتی ہے۔ ابہام سے قطعیت کی جانب، خطاب سے معنویت کی جانب، بعد میں کلام میں مرصع کاری نہیں۔کوئی امیجری نہیں ،اختصار ہے۔ ابتدائی کلام میں جوانی میں اقبال کے کلام میں اپنی ذات پر توجہ ملتی ہے۔ اپنا عشق، غمِ تنہائی اور مایوسیوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ پھر وہ اپنی ذات سے آگے مسلمان قوم ،بنی نوع انسان اور کائنات کی بات کرتے ہیں ۔ابتدائی دور میں کہیں سادگی ہے کہیں مرصع انداز ہے۔ اس دور میں تنوع کے بعد میں اقبال کا فکر ایک بندھی بدھائی وحدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس دور کے کلام میںیکسانیت ہے نشیب و فراز نہیں ۔یہ اقبال کے فن کے ارتقا کی دوسری منزل ہے۔ تیسرا دور عمل ہے۔ جسے تحلیل کہہ سکتے ہیں ۔پہلے دور میں بہت سی نظمیں مناطر فطرت پر ہیںمگر ان میں ربط نہیں مگر بعد میں اس فکر نے ترقی کی ۔ہر چیز میں ربط پیدا ہو گیا۔ اقبال کے چوتھے دور میں جذباتی فضا میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ بہت سے الفاظ تبدیل ہو گئے ہیں مثلاً محبت بعد کے دور میں پہنچ کر عشق میں تبدیل ہو گیا۔ غالباً اقبال پہلا شاعر ہے جس کے ہاں مجنوں،فرہاد وغیرہ ناموں کو چھوڑ کر کوفہ حجاز،عراق، فرات وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے ہاں جدید الفاظ ہیں مگر ایسے الفاظ نہیں جو نا مانوس ہوں ۔ اقبال نے اپنے کلام میں ایسی بحروں کا استعمال کیا جو اس سے پہلے اُردو شاعری میں استعمال نہیں ہوتی تھیں۔
فیض کے مطابق  اقبال عمل ،ارتقا، جدوجہد اور فطرت کا شاعر ہے۔ اقبال کا موضوع انسان ہے۔ وہ انسان کی عظمت کے گن گاتا ہے۔ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس نے تخلیق کا چیلنج قبول کیا ۔وہ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے والا ہے۔ یہ وہ عظیم موضوع ہے جو اقبال کے آخری ایام کے کلام کو حسنِ شعر سے ارفع مقام پر پہنچا دیتا ہے۔
’’فکرِ اقبال کی ارتقائی منزلیں‘‘ مضمون میں فیض نے اقبال کی فکرکے ارتقا کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح پہلے دور میں ان کی فکر اور تھی اور دوسرے دور میں مزید پختہ ہوتی ہے۔ ان کی فکر کا اظہار مختلف ادوار اور مختلف صورتوں میں ہوتا رہا ہے۔ پہلے قومیت،وطنیت ،پھر اسلام ازم کا دور آیا۔ ہر دور میں ان کی شعری علامتیں ،شعری لب ولہجہ بدلتے رہے  ہیں۔ ان کے ہر دور کے کلام میں تدبر اور تفکر ہے اور دوسرے تجسس اور تلاش کا عنصر ایسا ہے جو کہ ہر دور پر غالب رہا ہے۔ شروع میں مناظرِ فطرت پر نظمیں ہیں۔ حب وطن کا عنصر ہے ابتدا میں ان کے ہاں محبت کا لفظ ہے۔ بعد میںیہ عشق کا درجہ اختیار کرتا ہے۔ پہلے دور میں جذبات ہیں داغ کی زبان ہے۔ اس کے بعد غالب کی زبان کا اثر ہے۔ انگلستان کے دور کی نظموں میں اُداسی اور تنہائی کا ذکر ہے۔ دوسرے دور میں فارسی زبان کا اثر غالب نظر آتا ہے۔ اس کے بعد واعظانہ ،خطیبانہ انداز کا دور آتا ہے۔ سیاسی ،لسانی ،معاشرتی معاملات و مسائل کی جانب داری پر وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد غلامی اور آزادی کا ذکر ہے ہیئتی اعتبار سے ان کی زیادہ توجہ مسدس کی جانب ہو جاتی ہے۔ مثلاً شکوہ ،’’شمعِ شاعر ‘‘ اور ’’خضرراہ‘‘ نظموں میں مسدس ہیئت استعمال کی ہے۔آخری دور میں زبان اور لہجہ بدل جاتا ہے۔ فکر کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے ۔ا س دور میں ان کے ہاں ظاہری تکلف نہیں رہا بلکہ پختگی آ گئی ہے۔ جدت الفاظ سے وہ نئی نئی بحریں اور ترکیبیں اپناتے نظر آتے ہیں۔ ’’محمد اقبال‘‘ کے عنوان سے جو مضمون کتاب میں شامل کیا گیا ہے وہ دراصل انگریزی میں تھا اور اس کا ترجمہ سجاد باقر رضوی نے کیا ہے۔ اس مضمون میں بھی اقبال کے فکری ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ اور ان کی شاعری کے مختلف ادوار کا ذکر کیا گیا ہے۔
’’جستہ جستہ‘‘ کے عنوان سے شیمامجید نے فیض کی کتابوں سے چن کر جو اقتباسات دئیے ہیں ان میں بھی اقبال کی فکر اور ان کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً فیض ایک جگہ کہتے ہیںاقبال ایک مفکر بھی تھے اور شاعر بھی۔(13)انھوں نے اپنے نظریات کو شعر کی پوشاک بھی عطا کی ہے۔ شاعری میں انھوں نے جو جدتیں اور جو نئے نئے امکانات پیدا کیے ہیں ان کا بہت کم ذکر ہوا ہے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ انسان کو آزاد نظم لکھنے کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب وہ پابند نظم میں کچھ نہ لکھ سکتا ہو۔ علامہ کو آزاد نظم لکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔(14)انھوں نے اردو شاعر ی سے زیادہ فارسی شاعری میں تجربے کیے ہیں جن کی طرف توجہ نہیں کی گئی ۔اقبال نے بہت سے الفاظ کو نیا معنوی تناظر بھی عطا کیا ہے اور بہت سے الفاظ کو رائج بھی کیاہے ۔
جابر علی سیدایک شاعر ،نقاد ،ماہر لسانیات وعر وض کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں۔انھوں نے مختلف موضوعات اور بہت سی ادبی شخصیات کو اپنی تنقید کا موضوع اور توجہ کا محور بنایا ہے۔ لیکن انھوں نے علامہ اقبال کے کلام اور فن و فکر پر خصوصی توجہ دی ہے۔ عملی تنقید کے سلسلے میں اقبال جابر علی سید کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انھوں نے اقبال پر جس بھرپور انداز اور تفصیل سے لکھا،کسی دوسرے پر نہیں لکھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اقبال پر باقاعدہ دو مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ایک کتاب ’’اقبال کا فنی ارتقا‘‘ ہے۔ جو مطبع ظفر علی سنز لاہور سے جون ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’اقبال ۔ ایک مطالعہ ‘‘ جو مطبع ظفر سنز لاہور سے جون ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی۔اقبال شناسی کے حوالے سے جابر علی سید کی تیسری کتاب ’’تنقید اور لبریزم‘‘بھی ہے۔ جو کاروانِ ادب ملتان سے ۱۹۸۲ء میں طبع ہوئی۔ یہکتاب مکمل اقبال کے حوالے سے نہیںبلکہ اس کا کچھ حصہ اقبالیات پر مشتمل ہے۔ اقبالیات کے حوالے سے چوتھی کتاب’’اقبال اور الہلال‘‘ہے جو غیر مطبوعہ ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال پر ان کے کچھ غیر مطبوعہ مضامین بھی موجود ہیں۔
جابر علی سید نے بطور اقبال شناس اقبال کے فن پر بڑی جامع اور معیاری تنقید کی ہے۔ اور اس ضمن میں دوسرے نقادوں کی آرا اور ان کے تنقیدی محاکمے کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی انکشافات اور نئے خیالات پیش کیے ہیں۔ ’’علامہ اقبال کے فنی ارتقا‘‘ کے مضمون میں انھوں نے بعض ایسی ہستیوں اور کلام اقبال کی خوبیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو شاید ہی کسی دوسرے اقبال شناس نقاد نے ان کی طرف دھیان دیا ہو۔ مثلاً اقبال کی نظم ’’ہمالہ‘‘ کے متعلق اقبال شناسوں کییہی رائے ہے کہ اس نظم میں حب الوطنی او رقوم پرستی کے ان جذبات و احساسات کا نشان ملتا ہے۔ جس کی تشریح و توضیح اقبال نے صدائے درد، تصویرِ درد، ہندی او ر نیا شوالہ نظموں میں کی ہے۔ جابر علی سید ہمالہ کے بارے میں کہتے ہیں:
اقبال کی یہ نظم ہمالہ ان کے اس ثقافتی سفر کا نقطہ آغاز ہے جس کا نقطہ معراج ان کی نظم مسجد قرطبہ ہے۔15
اس نظم کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ:
 یہ نظم مجموعی طور پر تین نمایاں رجحانات رکھتی ہیںمنظر نگاری ،واقعیت اور سادگی پسندی۔16
یہ وہ رجحان ہے جن کی طرف بہت ہی کم نقادوں کی نگاہ اُٹھتی ہے۔جابر علی سید کا طریقہیہ ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت جہاں موضوع و مواد اور معانی کے کھرے کھوٹے یا اعلیٰ و ادنی کی پرکھ کرتے ہیں ۔وہاں وہ الفاظ ان کی ساخت و ترکیب ان کے فنی استعمال اور ان نظموں کو مضمون کے ساتھ جو داخلی ربط ہوتا ہے اس پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ الفاظ کہاں تک مضمون کے مطابق لائے گئے ہیں اور شاعر نے ان میں کیا جدت و خوبی پیشِ نظر رکھی ہے۔
اقبال کی نظم’’فرشتے آدم کورخصت کرتے ہیں‘‘ کو لے لیجییے اس پر انھوں نے بالکل نئے اور انوکھے انداز میں اظہار خیال کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ چھوٹی سی ڈرامائی نظم غزل کی ہیئت میں ہے اور پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ پانچ کے عدد سے اگلی نظم ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘لکھتے وقت مخمس کا احسا س پیدا کیا ہے اور اس طرح اقبال نے یہ نظم مخمس کے انداز پر تخلیق کی وہ لکھتے ہیں :
اقبال نے پہلے شعبے کو سوزِ آدم کی بناپر تغزل کا رنگ دیا ہے اور پانچ شعر کی غزل لکھی ہے۔ پانچ کا تصور ابھی شاعر کے ذہن میں تھا اس نظم کا دوسرا حصہ معرضِ وجود میں آنے والا تھا کہ شاعر کو پانچ پانچ مصرعوں کے بندوں کا خیال آیا اور مخمس کی بنا ڈال دی گئی اور اس مخمس کی بنیاد بھی پانچ ہی بندوں پر رکھی گئی ہے۔17
جابر علی سید تنقید کرتے وقت شعر کی خارجی اور داخلی وحدت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔جو شعر یا نظم پارہ اس معیار پر پورا اترتا ہے وہ ان کے نزدیک بہترین شعر اور نظم پارہ ہے۔ تنقید کے لیے چند بنیادی شرطوں یا خصوصیتوں کاہونا ضروری ہے۔ ان کے بغیر ایک اچھا نقاد اپنے فرضِ منصبی کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی تنقید معیاری اور مستندہو سکتی ہے۔ جابر علی سید کی تنقید کا انداز ملاحظہ ہو۔ اس قطعے کا عنوان ہے جان و تن۔ اس میں علامہ اقبال نے معنی و مضمون کو جناب ،الفاظ اور ہیئت کو تن سے تعبیر کیا ہے۔ اور ان معنوں میں جو وحدت موجود ہے ان میں جو باہمی رشتہ اور تعلق ہے اس کی توضیح جابر علی سید کے الفاظ میں اس طرح ہے:
لفظ عبارت ہے بولے ہوئے معنی سے خیال کی خارجی صوتی صورت سے ،یہ ہماری سائنسی منطقی مجبوری سے کہ ایک وحدت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتے ہیں جب کہ اصل حقیقتیہی ہے کہ دونوں عنصروں میںیگانگت ہے ۔ھاپرت نہیں ،وحدت ہے ،دوئی نہیںیا دونوں ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک دوسرے میں مدغم اور علیحدگی کے تصور سے بھی گریزاں اور بیزار۔18
جابر علی سید نے اگرچہ اقبال پر ایسی کوئی کتاب تصنیف نہیں کی، انھوں نے اپنی اقبال شناسی کو متفرق مضامین اور چند گنے چنے عنوانوں تک محدو د رکھاہے۔ اس کے باوجود ان کے طریقہ تنقید میں بڑی جامعیت ہے۔ وہ ایک عنوان کے تحت جب کوئی بات کرتے ہیں وہ اگرچہ عنوان سے متعلق ہوتی ہے مگر وہ اشاریت سے کام لے کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ قاری ان کے مضامین کا مطالعہ کرتے وقت فکر اقبال کی بہت سی باریکی ،نقطہ آفرینی سے واقف ہو جاتا ہے۔ اقبال نے لفظی پیکران ،تشبیہ اور استعاروں کے پیرائے میں جو جہانِ معنی سموئے ہیں وہ ایک واضح شکل میں آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ اس طرح جابر علی سید کی تنقید میں تنوع اور ترفع پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور فکر اقبال کی معنوی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اقبال کی فنی عظمت و اہمیت کو بھی واضح کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور قاری کا ذہن فکر کی گہرائی اور خیالات کی ندرت کے ساتھ ساتھ شعر اقبال کی فنی معجز نمائیوں اور حسن کی رنگا رنگی اور بو قلمونی سے بھی لذت اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اوراس ذوقِ جمال کی تسکین و تشفی کا سامان فراہم ہو جاتاہے۔
جابر علی سید نے بانگِ درا ،بالِ جبریل ،ضربِ کلیم اور ان کی فارسی تصنیفات پر بڑی جامعیت سے تحقیق کر کے اقبال شناسی کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے اقبال کے مخصوص لہجوں ،ان کی ہیئت پسندی ،ان کے شعوری اور فنی ارتقا ان کی تخلیقی تسلسل کو اگرچہ اجمالی طور پر بیان کیا ہے لیکن ان کے بیانمیں کچھ ایسی معنویت پوشیدہ ہے کہ اعجاز وا ختصار اور اشاریت کے باوجود ہم اقبال کے حکیمانہ افکار اور فکرِ اقبال کے مآخذ و منابع تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں ۔ اور اقبال جن فلاسفہ اور مفکرین اور علما محدثین اور صوفیا اکرام سے متاثر ہوئے ان کا نشان بھی مل جاتاہے۔ غرض جابر علی سید کی تنقید اور اقبال شناسی اردو کے تنقیدی ادب میں ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔
جابر علی سید نے اقبال کے نکتہ چینوں اور معترضوں کے اعتراضوں اور خوردہ گیریوں پر گہری نظر ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ ان کی یہ نکتہ چینیاں محض معاصرانہ حسد و رقابت پر مبنی ہیں۔ سیماب اکبر آبادی ،فانی بدایونی ،جوش اور پطرس بخاری وغیرہ اقبال کے نمایاں نکتہ چینوں میں ہیں۔ جابر علی سید نے اس نکتہ چینی کی نفسیاتی توضیح اس طرح کی ہے:
پطرس کی ادبی شخصیت زیاں کارانہ محسوس ہوتی ہے۔ پطر س کی محفل آرائی ،افریت اور بذلہ سنجی سب ان کی ذہانت کا زیاں ہے۔ اس احساس زیاں کاری نے پطرس کو اقبال کی عظمت کا منکر بنا دیا ہے۔ ایک چھوٹی انا ایک عظیم انا سے بر سرِ پیکار نظر آتی ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ ظاہر ہے۔19
(۴۷)اقبال کے ساتھ اپنی اس غیر معمولی دلچسپی کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں :
اقبال کے اسلوب کی بلند آہنگی تفکر اور گہرائی لیے ہوئے ہے ۔ یہ صرف بے مغز اور شو ر انگیزآوازوں کا آرکسٹرا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقبال کے چند اور ہمعصر شاعروں کو بھی وہی مقبولیت حاصل ہوتی جو انھیں حاصل ہے۔20
ہم جابر علی سید کی اقبال پر تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جابر علی سید کییہ خصوصیت ہے کہ اوروں کی طرح انھوں نے اقبال کے کلام میں تکراری انداز اختیار نہیں کیا بلکہ ان کی تنقید ایک جدت، ایک تنوع لیے ہوئی ہے۔جابر علی سید کی یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا وہ موضوع منفرد ہے۔ جابر علی سید نے اقبال کے کلام کے ان حصوں پر تنقید کی ہے جس پر کسی دوسرے کی آج تک نظر نہیں پڑی۔ اگر پڑی تو صرف اچٹتی ہوئی۔ لیکن ایک عالم جب کسی عالم کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ معمولی بات نہیں ہوتی ۔ جابر علی سیدکےعلم کا تقاضا تھا کہ وہ اس غیر معمولی پہلوئوں پر روشنی ڈالتے۔ فارسی ،عربی ،انگریزی اور اُردو کے تحقیقی مطالعے اور اقبال کے کلام پر بار بار نظر ثانی نے ان کو اقبال پر تنقید کا حقدار بنا دیا۔ ۱۹۷۷ء کا سال دنیا بھر میں اقبال کے سال کے عنوان سے منایا گیا ۔ جتنی کتابیں اس سال چھپیں ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مگر یہ بات ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ لکھنے والوں نے اگرچہ خوب لکھا ہو گا مگر اقبال کے ان چھپے ہوئے فنی گوشوں کو سوائے جابر علی سید کے اور کوئی روشنی نہیں ڈال سکا تھا۔ ڈاکٹر انوار اس بارے میں کہتے ہیں :
ان کے علم کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں۔ اس صدی میں ایسے عالم ،فارسی ،اردو ،انگریزی اور کسی حد تک عربی سے واقف شاید ہی ہو گا۔21
حوالہ جات
    شیما مجید ،پیش لفظ،’’اقبال‘‘،از فیض احمد فیض ،لاہور ،مکتبہ عالیہ،۱۹۸۷ء ،ص:۱۲
     فیض احمد فیض ،’’اقبال‘‘(نظم) مشمولہ ’’اقبال‘‘،مرتبہ شیما مجید ،ص:۸۷
     ایضاً،ص:۸۹
     مرز ا ظفر الحسن، ’’عمر گذشتہ کی کتاب ‘‘،کراچی ،ادارہ یادگار غالب،۱۹۸۷ء ،ص:۳۰۲
 شیما مجید،’’پیش لفظ‘‘،اقبال،از فیض احمد فیض،ص:۱۳
     فیض احمد فیض ،اقبال ،ص:۱۹
     ایضاً،ص:۱۹
     ایضاً،ص:۲۰
     ایضاً،ص:۲۱
     ایضاً،ص:۲۲
     ایضاً،ص:۲۲
     ایضاً،ص:۲۲
     فیض احمد فیض،’’جستہ جستہ‘‘(اقتباسات) مشمولہ ’’اقبال‘‘ ،مرتبہ شیما مجید ،ص:۷۵
     ایضاً،ص:۷۶
     جابر علی سید،’’اقبال کا فنی ارتقا‘‘،لاہور،مطبع ظفر سنز،۱۹۸۵،ص:۳۲
     ایضاً،ص:۳۳
     ایضاً،ص:۴۵
     جابر علی سید،’’لفظ معنی کا رشتہ‘‘،مشمولہ ’’اقبال کا فنی ارتقائ‘‘ ،ص:۶
     جابر علی سید’’اقبال اور پطرس بخاری‘‘،مشمولہ اقبال کا فنی ارتقاء ،ص:۹۶
     ایضاً،ص:۹۸
     ڈاکٹر انوار احمد، ’’نوائے وقت‘‘،ملتان ،۸ جنوری ۱۹۸۵ء ،ص:۷

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...