Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > ڈاکٹر عبد الحمید عرفانی کی اقبال شناسی پر ایک نظر

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

ڈاکٹر عبد الحمید عرفانی کی اقبال شناسی پر ایک نظر
ARI Id

1688388584597_56116237

Access

Open/Free Access

Pages

111

ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی کی اقبال شناسی پر ایک نظر

ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی اقبال شناسی میں اہم مقام و مرتبہ رکھتےہیں۔ ڈاکٹر عرفانی نے عالمی سطح پر اقبال شناسی کی روایت میں نام کمایا۔ اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کا سہرا خواجہ عرفانی کے سر جاتا ہے۔ عرفانی صاحب کی ادبی خدمات بے پایاں ہیں مگر ہمیں یہاں صرف عبدالحمید عرفانی کی اقبال شناسی کا جائزہ لینا ہے۔ اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کے لیے ’’رومی عصر‘‘ جیسی مدلل کتاب، پاکستان میں جنم لینے والی مشہور عشقیہ داستانوں کو ’’داستان پائے عشق پاکستان‘‘ کے نام سے ایرانیوں کے لیے ’’ضربِ کلیم‘‘ کا فارسی ترجمہ لکھنا اور عبدالحمید عرفانی کی بے پایاں محنت اور اقبال سے محبت کی غماز ہیں۔ خواجہ عبدالحمید عرفانی نے علامہ اقبال پر ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ ،’’اقبالِ ایران‘‘ اور ’’پیامِ اقبال‘‘تین کتابیں لکھی ہیں۔
 ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں ‘‘ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال سے آشنا ہونے کے بعد اہلِ علم ایرانیوں کی اقبال کے بارے میں رائے اپنے بزرگ شعرا جیسی تھیاور وہ اقبال کو حافظ ،جامی ،سعدی اور رومی کی صف میں شمار کرنے لگے تھے۔  ’’اقبال ایران‘‘ میں  ڈاکٹر عرفانی نے اپنے قیام ایران کے دوران اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کی جدوجہد، ایرانیوں کی اقبال سے آشنائی اور ایرانیوں کی اقبال اور پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔  ’’پیامِ اقبال‘‘ میں  ڈاکٹر عرفانی  نے طلبا کی سہولت کے لیے اقبال کے پیغام کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کیا ہے۔ اقبال کو ایران میں متعارف کرانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس دوران عرفانی صاحب کو بہت سی مشکلات در پیش آئیں۔ جن کا تذکرہ انھوں نے  ’’اقبالِ ایران‘‘ میں کیا ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے  ’’اقبالِ ایران‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے۔ تاکہ اقبال ایران میں متعارف کرانے اور قیام ایران کے دوران عرفانی کی مصروفیات کا اندازہ ہو سکے۔اس کے بعد  ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ کا جائزہ لیا جائے گا اور  ’’پیامِ اقبال‘‘ پر تبصرہ آخر میں کیا جائے گا۔
 ’’اقبالِ ایران‘‘ ۱۹۸۶ء میں بزمِ رومی سیالکوٹ نے شائع کی۔ اس کتاب میں عرفانی نے اپنے قیام ایران کے یادگا ر لمحات ،ایران کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں اور اقبال کو ایران میں متعارف کرانے کے سلسلے میں کی گئی کاوشوں کے نقوش محفوظ کیے ہیں۔ڈاکٹر عرفانی ایک ایسے عظیم محب وطن پاکستانی ہیں۔ جنھوں نے ایران میں پاکستان دوستی کا لازوال جذبہ پیدا کرنے کے لیے انتھک محنت کی ۔ وہ فارسی لکھنے اور بولنے پراہل ِ زبان کی سی قدرت رکھتے تھے اور سالہا سال ایران میں رہ کر ایرانیوں کے مزاج شناس بن گئے تھے۔ اور یہ چیز ان کے مشن (یعنی ایران میں پاکستان دوستی کا لا زوال جذبہ پیدا کرنا اور اقبال کو ایران میں متعارف کرانا) کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بہت کام آئی۔  ’’اقبال ایران‘‘ میںیہ ساری باتیں ہماری سامنے آتی ہیں .
 بقول ڈاکٹر محمد باقر:
’’اقبالِ ایران‘‘ کے اوراق پر ۱۹۴۴ء سے لے کر ۱۹۸۰ء تک کی پرارزش اور دلچسپ داستانیں بکھری نظر آتی ہیں۔‘‘(۱)
 ’’اقبالِ ایران‘‘ گیارہ ابواب پر مشتمل تصنیف ہے۔ کتاب کے دیباچے میں مصنف نے  ’’گزارشِ احوال‘‘ کے عنوان سے اپنے والد کی وفات ،علامہ اقبال سے آشنائی ،اپنے تایا مولوی الف دین ، اپنی سرکاری ملازمت ایران سے روابط کا آغاز، ایران میں تقرری وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی ایران کے بعض شعرا اور ایران میں اقبال کو متعارف کرانے کے طریقے پر مختصر روشنی ڈالی ہے اور آخر میں کتاب لکھنے کے مقصد کی یوں وضاحت کی ہے:
شاید میری کٹی پھٹی نا ممکن یادداشتیںایرانیوں کے بے لوث اور پر محبت احساسات کی تھوڑی بہت نشاندہی اور چند ممتاز ادبی شخصیتوں کے اظہارات ریکارڈ کرنے میں ممد ثابت ہوں۔ (۲)
پہلے باب میں عرفانی نے قیام پاکستان سے پہلے ۱۹۴۵ء میں اپنی ایران تقرری کا ذکر کیا ہے او رقیام پاکستان سے پہلے ایران میں استقلال پاکستان کے بارے میں جو منفی رویہ پایاجاتاتھا اس کا تذکرہ بھی اس ابتدائی باب میں ملتا ہے۔
 بقول ڈاکٹرعرفانی:
اہلِ ایران قیام پاکستان کو فرنگی استعمار کی سازش اور مغربی ملکوں کے مفاد کا قلعہ سمجھتے تھے۔(۳)
مئی ۱۹۴۷ء میں عرفانی دلی واپس آگئے ۔قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۹ء میں انھیں ایران میں پاکستان کا پہلا پریس اینڈ کلچرل اتاـشی مقرر کیا گیا اور عرفانی نے نہایت نا مساعدحالات میں اپنا کام شروع کیا ۔
بقول عرفانی:
خاکسار ایک بیرونی ملک میں پہلا پریس اتاـشی تھا جس کو دفتر کلرک ،ٹائپسٹ ،مترجم ،قاصد تک کی مدد میسر نہ تھی۔ بس ایک میں تھا اور میرا قلم(۴)
اس کے بعد عرفانی نے ایرانی پریس کی ممتاز شخصیتوں سے اپنی ملاقات اور علمائے کرام سے براہ راست رابطہ کا ذکر کیا ہے۔ اس باب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ عرفانی نے ابتدا سے ہی یہ کوشش کی کہ پاکستان کے بارے میں ایرانیوں کی رائے تبدیل کرنے کے لیے نظریہ پاکستان کا اصل مفہوم ایرانیوں پر آشکار کیا جائے اور جلد ہی اس کے مثبت آثار ظاہر ہونے لگے اور ایرانی علما جلسوں میں واضح طورپر کہنے لگے:
ہمیں آج ہی عرفانی نے اقبال اور تحریکِ پاکستان کے پس منظر اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے آگاہ کیا ہے۔(۵)
پھر ڈاکٹر عرفانی  نے  ایک یاد گار جلسے کا ذکر کیا ہے جس میں انھوں نے اقبال اور اسکے کلام کو پہلی مرتبہ باقاعدہ طورپر ایرانیوں سے متعارف کرایاہے۔دوسرے باب میں عرفانی نے راجہ غضنفر کے ایما پر ایران کے صوبائی مراکز کے دوروں کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں ایرانیوں نے عرفانی کے ساتھ جس عقیدت کا اظہار کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرفانی کو ایران میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ گورنر اصفہان کی طرف سے عرفانی کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور سندھ شہریت عطا کرنے کی تجویز پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عرفانی سے ایران کے ہر خاص و عام کو خاص انس پیدا ہو گیا تھا۔اس باب میں ڈاکٹر عرفانی نے تاریخی مقامات کی سیر کا بھی ذکر کیا ہے اور تخت جمشید کو روش کے پایۂ تخت پازار گاد کے کھنڈرات کی سیر کے ساتھ مزارات سعدی و حافظ کی زیارت کے واقعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ شیراز، تبریز اور آذر بائیجان کے سفر کی روداد بھی اس باب میں ملتی ہے۔
 دوران سفر انھوں نے مقامی مشاہیر سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اور ایران میں اپنی پہلی شائع ہونے والی تصنیف  ’’روس عصر‘‘کی اشاعت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ جسے ایران میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ایک خاص بات جو اس کتاب کے تقریباً ہر باب میں ملتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ  ڈاکٹر عرفانی جہاں بھی جاتے ہیں نظریہ پاکستان کے اصل مفہوم اور اقبال کے کلام کو ایرانیوں کے سامنے پیش کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ساتھ ہی پاکستان اور اقبال کے بارے میں ایرانیوں کے نئے جذبات اور احساسات بھی پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔
تیسرے باب میں عرفانی نے ایران اور پاکستان کے علمی اور ثقافتوںکے رابطوں کی بحالی کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں سب سے پہلے ایران کے پہلے کلچرل اتاشی پروفیسر مشائخ فریدنی کے ۱۹۴۹ء میں پاکستان میں تقرر کا ذکر کیا ہے اوران دو ملکوںکے مابین ڈیڑھ سو سال کی دوری اور جدائی کے بعد تجدید و توسیع و تحکیم کی روایت کی روح پر ور داستان بڑے موثر انداز میں بیان کی ہے۔ اس باب میں شاہ ایران ،رضا شاہ پہلوی کے تاریخی دورہ پاکستان کا مختصر ذکر بھی ملتا ہے۔جن میں ملک الشعرا بہار اور ڈاکٹر کپکینہ کاظمی خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔یہاں عرفانی نے پروفیسر مشائخ فریدنی کی ممتاز حسن اور قدر ت شہاب سے بھی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اور ساتھ ہی ڈاکٹر اشتیاق حسین ،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ،سر ظفر اللہ اور شیخ محمد اکرام کی تہران میں آمد کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ایران و پاکستان کلچرل سو سائٹی (انجمن دلہا) اور انجمن ادب ایران و پاکستان کے قیام کا ذکر بھی اس باب میں ملتا ہے۔
چوتھے باب میں ایران میں ڈاکٹر محمد باقر کی آمد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان کی ایران کی اہم ادبی شخصیات سے ملاقاتوں او رتقریبات میں شرکت کا تذکرہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ملک الشعرا بہار کے دلگداز قصیدہ’’دورہ پاکستان‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ جس میں علامہ اقبال ،قائد اعظم اور شہدائے پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اور ایران و پاکستان کے اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں  ڈاکٹر عرفانی نے ملک الشعرا بہار کے ساتھ گزارے گئے وقت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں ان کی بہار سے جذباتی وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔ اس باب میں بہار کے پاکستان کے متعلق خیالات، بہار سے عرفانی کی پہلی ملاقات ،بہار کی تحریک پر عرفانی کی مقالہ نویسی کا آغاز ،بہار کے تاریخی قصیدہ، دورہ پاکستان ،بہار کے آخری خطاب،بہار کے آخری خط، بہار کے نام عرفانی کے آخری منظوم خط، بہار کی سیاسی وملی شاعری کا تذکرہ عرفانی نے نہایت عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بہار سے عرفانی کو دلی وابستگی تھی اور بہار بھی عرفانی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تاریخی دو بیتی اس کا بین ثبوت ہے۔
دوش آمد پی عیادت من
ملکی در لباس اِنسانی
تعتمں چیست نام پاک تو ؟ لعنت
خواجہ عبد الحمید عرفانی(۶)
اس سے ایران میں اقبال کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ چھٹے باب میں ’’شاعر ملی ایران‘‘ سید صادق سرمد کے ساتھ عرفانی نے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیاہے۔ساتھ ہی سرمد کی شاعری پر اظہار رائے بھی ہوا ہے۔سرمد اقبال کے انقلاب انگیز پیغام سے بے حد متاثر ہوئے ۔
 بقول عرفانی:
راقم(عرفانی) کے خیال میں کسی ایرانی یا پاکستانی شاعر نے اقبال اور اس کی تعلیمات اورپاکستان ’’اقبال‘‘ پر اتنی نظمیں نہیں لکھیں جتنی اس فرد واحد صادق نے(۷)
اس باب کے آغاز میں اقبال کی تجلیل میں سرمد کے پہلے قصیدہ او ر عرفانی کی تصنیف  ’’شرح احوال و آثار ملک الشعراء بہار‘‘ کی ایران میں اشاعت پر سرمد کے تہنیتی خط کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس باب میں سرمد کی اقبال اور پاکستان سے بے پناہ محبت کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔ چنانچہ سرمد کے قصائد سے جو اشعار منتخب کیے گئے ہیں ان سے عقیدت کا صاف اظہار ہوتا ہے۔ عرفانی سرمد سے بے انتہا متاثر تھے۔ چنانچہ انھوں نے سرمد کی زندگی اور شاعری پر ’’سرور سرمد‘‘ نامی کتاب بھی لکھی اور  ’’اقبال ایران ‘‘ کے اس باب میں بھی سرمد کیشاعری کی نمایاں خصوصیات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ساتویں باب میں مختصراً اس پروپیگنڈہ کا تذکرہ کیا گیا ہے جو بھارتی رہنماؤںنے پاکستان کے قیام کے خلاف گھڑاتھا اور جس کی وجہ سے ایرانی پاکستان کو فرنگی استعمار کی سازش اور مغربی ملکوں کے مفاد کا قلعہ سمجھ بیٹھے تھے مگر عرفانی نے اس منفی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور موثر انداز میں قیام پاکستان کے اصل مقصد کو ایرانیوں کے سامنے پیش کیا ۔ اور اس مقصد میں انھیں جو کامیابی حاصل ہوئی اس پر حیرانی بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی۔
اگلے چار ابواب میں عرفانی نے ایران میں سفیر ہند سے اپنی دلچسپ نوک جھونک ،وزیر اعظم ایران ڈاکٹر مصدق کا اپریل ۱۹۵۲ء میں یومِ اقبال پر اقبال کو خراجِ عقیدت اقبال کے منفرد عقیدت مند احمد سروش سے شناسائی اور  ’’کلیاتِ اقبال‘‘ فارسی کی اشاعت ۱۹۶۸ء میں آر ۔ سی ۔ڈی کے زیرِ اہتمام اپنے تین ماہ قیام کے ایران اور اقبال پر ڈاکٹر علی شریعتی کے طویل مضمون کا اقتباس پیش کیا ہے۔
مذکورہ بالا ابواب کے جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹر  عرفانی نے ’’اقبال ایران‘‘ میں اپنی زندگی کے یادگار لمحات اور نقو ش محفوظ کر نے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے بارے میں ایرانیوں کی ابتدائی رائے(جو اچھی نہ تھی) او ر عرفانی کی کوششوں سے اس رائے میں مثبت تبدیلی اور اقبال کی ایران میں مقبولیت کے اسباب کا اندازہ بھی اس کتاب کے مطالعے سے ہوتا ہے۔
 بقول ڈاکٹر محمد باقر ’’اقبالِ ایران‘‘ میں:
پاکستان کے متعدد سفیر اور عظیم شخصیتیں ایران سے مختلف النوع روابط قائم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ملک الشعرا بہار سے لے کر ڈاکٹر علی شریعتی تک کو عرفانی اپنی شخصیت ،قوت بیان اور پاکستان و اقبال شیفتگی سے متاثر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور انھیں پاکستان او ر اقبال کا گرویدہ بنا دیتے ہیں۔(۸)
اقبال شناسی کے حوالے سے  ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ عرفانی کی دوسری اہم تصنیف ہے ۔ جو اپریل ۱۹۵۷ء میں اقبال اکیڈمی پاکستان کراچی نے شائع کی۔  ’’اقبال ایران‘‘ پر تبصرہ میں عرفانی کی ان کاوشوں کا ذکر ملتا ہے جو انھوں نے پاکستان او ر اقبال کو ایران میں مقبول بنانے کے لیے کیں۔  ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ کے آغاز میں عرفانی نے ایک جامع مقدمہ لکھا ہے جو کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔
بہار اور اقبال ،اقبال اور محیط طباطبائی ،اقبال اور سعید نفیس ،اقبال اور ڈاکٹر حسین خطیبی، آقای محبتیں بینوی اور اقبال ،ڈاکٹر گچکینہ کاظمی اور اقبال ،اقتباس از مقالہ داعی الا سلام ،اقتباس از سحرانی علامہ اکبر دھحرا ،انتخاب از خطابہ سید حسن تقی زادہ، خطابہ ڈاکٹر منوچہر اقبال ،اقتباس سخزانی ،مشایخ فریدنی ، اقتباس از شامہ آقای حبیب اللہ آموز گار، اقتباس از ڈاکٹر علی صورت گر ،اقتباس از مقالہ آقای صادق دشات ،اقتباس از سخزانی ڈاکٹر ناظر زادہ کرمانی ،اقتباس از معادہ آقای عبدالحسین نوائی ،سرمد اور اقبال ،قصیدہ از آقائی کاظم رجوی ،قصیدہ از آقای ادیب بر و مند،اقتباس از قصیدہ آقای حبیب یعانی ،قصیدہ ڈاکٹر قاسم رسا، قصیدہ آقای علی صدارت نسیم ،اقتباس از اشعار آقای گلچین معانی ،قصیدہ آقای علی خدائی ، قصیدہ آقائی رجائی، قصیدہ آقائی طالعانی ،ایران کے وزرا اعظم کے پیغام اور متفرقات تیس مضامین کی فہرست مقدمہ کے بعد  ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں ‘‘ شامل ہے۔
درج بالا فہرست مضامین سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں وہ مضامین معاملات، قصائد شامل ہیں جس میں ایرانیوں نے اقبال کی عظمت کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔ساتھ ہی ایران کے وزرا اعظم کے پیغامات بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا کلام ایران کے ہر خاص و عام کے دل پر اثر کر رہا ہے۔ متفرقات میں ایران کے روزناموں میں سے ایسے اقتباس پیش کیے گئے ہیںجن میں اقبال کو پر خلوص خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور چند اشعار اور قصائد سے اقتباسات بھی اس حصے میں شامل کیے گئے ہیں۔
 ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘کتاب کا عنوان اس کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے اور قارئین کی توجہ اس کی ظاہری صورت سے ہی اس کے مطالب کی طرف منعطف ہو جاتی ہے۔ اس موضوع پر اردو زبان میں اب تک کوئی کتاب موجود نہیں تھی او ر اس کا سبب یہ تھا کہ کوئی شخص پاکستان میں بیٹھ کر اس موضوع پر قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے نام سے وجود میں آئی اور ایران سے صدیوں منطقع سیاسی اور تمدنی تعلقات ازسر نو قائم ہوئے ۱۹۴۹ء میں ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی پریس اور کلچرل اتاشی کی حیثیت سے ایران گئے۔(۹)اگرچہ اس سے قبل بھی عرفانی انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں حکومتِ ہند کی طرف سے کلچرل نمائندہ کے طورپر ایران رہ چکے تھے لیکن ان کی موجودہ حیثیت نہ صرف جدا گانہ تھی بلکہ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ممتاز بھی تھی۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ایران میں اپنے  ہفت سالہ قیام کے دوران جس تن دہی اور جس خوبی سے کام کیا و ہ انھیں کا حصہہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کا خیال عرفانی کے دل میں کیوں آیا؟
اس بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں:
میرا یہ مقدس فرض ہے کہ ایرانیوں کے پر محبت تاثرات اور ان کا نہایت دوستانہ اور بے نظیر عکس العمل جو اقبال کے متعلق میں نے گزشتہ سات سال کے عرصہ میں دیکھا۔ سنایا پڑھا اپنے ہم وطنوں کے لیے مثبت و ضبط کردوں۔(۱۰)
 ’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘ میں شامل عرفانی کا مقدمہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں عرفانی نے ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کی بنا پر اقبال کو بہت کم ایرانی جانتے ہیں۔ ان وجوہات سے اکثر کا ذکر اقبال ایران میں ہوا ہے۔ البتہ ایک اہم بات کی طرف بھی عرفانی نے توجہ دلائی ہے جس کا ذکر پہلے نہیں کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ تقسیم پاکستان تک اقبال کے کلام کا بہت ہی کم حصہ ایران پہنچ سکا تھا۔ اقبال کی نظمیں افغانستان کے بعض رسالوں کے ذریعے ایران پہنچی تھیں۔
 اس حوالے سے عرفانی لکھتے ہیں:
مجھے ڈاکٹر خانلری ،پروفیسر تہران یونیورسٹی نے ایک قدیم نسخہ مجلہ سیاچن کا دکھایا جس میں اقبال کی ایک نظم درج تھی۔ جو کابل کے ایک رسالے سے نقل کی گئی تھی اور غلطی سے اقبال کو افغانستان کا شاعر تسلیم کیا گیا تھا۔(۱۱)
ایران میں اقبال کے مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ عرفانی کے خیال میں اقبال کا طرز بیان تھا جو معاصر ایرانی شعرا  سے مختلف تھا۔ اقبال کی زبان اور طرزِ بیان قدما، متوسطین اور متاخرین شعرا کلاسیک فارسی کے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔اقبال کی  ’’پیامِ اقبال‘‘ مستقل اور مدلل تصنیف نہیں ہے بلکہ اپریل ۱۹۷۴ میں یومِ اقبال پر خواجہ عبدالحمید عرفانی نے ۱۵ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا جسے بزمِ اقبال اسلامیہ کالج گوجرانوالہ نے شائع کیا۔ اس رسالے میں کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال کے اہم خصائص پر اجمال کے ساتھ تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس رسالے میں سب سے پہلے تو خواجہ عبدالحمید عرفانی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کا پیام اور ان کا فلسفہ قرآن حکیم سے ماخوذ ہے ۔اس کے بعد اقبال نے اپنے کلام میں جن اہم عصری مسائل اور سیاسی نظامات پر تبصرہ کیا ہے۔ ان کے بارے میں خواجہ عبدالحمید عرفانی نے اجمال کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ رسالہ طلبہ کے لیے تحریر کیا گیا کیونکہ عرفانی صاحب چاہتے تھے کہ طلبہ اقبال کے فلسفہ کوباآسانی سمجھ سکیں۔
ڈاکٹر عرفانی اس رسالہ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
علامہ اقبال کی شخصیت شرحِ حال اور ان کے کلام و پیام کے متعدد پہلوؤں پر بلا شبہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے لیکن ہمارے نوجوان عدیم الفرصت طلبہ کے لیے علامہ کے بنیادی اور مرکزی عقائد و خیالات کو اختصار سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ بمصداق ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ اقبال کے واضح اور صریح اشعار بغیر کسی فلسفیانہ یا ادبی یا سیاسی تحلیل و تفسیر کے پیش کر دئیے جائیں تا کہ پڑھنے اور سننے والے اپنی اپنی صفائی دل اور پاکیزگی ضمیر کی روشنی میں براہِ راست لطف اندوز ہوں اور اپنی اپنی بساط اور استعداد کے مطابق استفادہ کر سکیں۔(۱۲)
 حوالہ جات
۱۔    ڈاکٹر محمد باقر ،تبصرہ کُتب،۹ جون ۱۹۸۷ء ،ص:۸
۲۔    ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،’’اقبال ایران‘‘ ،سیالکوٹ ،بزمِ رومی،۱۹۸۶ء ،ص:۲۸
۳۔    ایضاً،ص:۳۳
۴۔    ایضاً،ص:۳۸
۵۔    ایضاً،ص:۴۳
۶۔    ایضاً،ص:۴۵
۷۔    ایضاً،ص:۱۸۸
۸۔    ڈاکٹر محمد باقر، اقتباس از’’نوائے وقت‘‘،۹ جون ۱۹۸۷ء ،ص:۸
۹۔    ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،’’اقبال ایرانیوں کی نظر میں‘‘،کراچی،اقبال اکادمی،۱۹۵۷ء ،ص:۱۲
۱۰۔    ایضاً،ص:۲۵
۱۱۔    ایضاً،ص:۷
۱۲۔    ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی،’’پیامِ اقبال‘‘، گوجرانوالہ ،بزمِ اقبال اسلامیہ کالج، ۱۹۷۲ء ،ص:۳

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...