Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > طفیل ہوشیار پوری کی قومی و مذہبی شاعری پر ایک نظر

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

طفیل ہوشیار پوری کی قومی و مذہبی شاعری پر ایک نظر
ARI Id

1688388584597_56116239

Access

Open/Free Access

Pages

132

طفیل ہوشیار پوری کی قومی و مذہبی شاعری پر ایک نظر

طفیل ہوشیار پوری کا اصل نام محمد طفیل ہے جبکہ ان کی شہرت طفیل ہوشیار پوری کے نام سے ہوئی۔ طفیل ضلع ہوشیارپورکی تحصیل گڑھ شنکر کے ایک گاؤں بینے والی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں ہوشیار پور سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔یہاں انھوں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر منیمی(حساب کتاب) سکول قائم کیا۔ اس سکول میں سیالکوٹ کے ممتاز تاجر ان کے شاگرد رہے ہیں۔(1)حُب وطن پر مشتمل نظموں اور جنگی ترانوں پر مشتمل ‘‘میرے محبوب وطن’’ طفیل کا پہلا شعری مجموعہ کلام ہے۔ جوجنوری۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔مولانا ابو الا علیٰ مودودی نے حرفِ اول لکھا۔ جسٹس ایس۔اے رحمان نے ‘‘پیشِ لفظ’’ سید عابد علی عابد نے ‘‘دیباچہ’’ اور سید نذیرنیازی نے ‘‘مقدمہ ’’ اور طفیل نے‘‘میں خود کہوں تو’’ کے عنوان سے اپنی قومی نظموں کا پس منظر بیان کیا۔ پانچواں شعری مجموعہ ‘‘سلام ورثا’’ ہے جس میں طفیل نے اہل بیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اس کا دیباچہ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے لکھا ہے۔ ساتواں شعری مجموعہ ‘‘رحمتِ یزداں’’ کے نام سے ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔ یہ نعتیہ اور حمدیہ کلام پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے اس کا مقدمہ اور احمد ندیم قاسمی نے‘‘ طفیل کی نعت نگاری’’ کے عنوان سے ان کی نعت پر رائے کا اظہار کیا ہے۔
طفیل نے محض تخیلاتی باتیں نہیں کی ہیں بلکہ حقیقت نگاری کی ہے۔ زندگی کی سچائیوں کو شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ان کی شاعری میں بلند حوصلگی اور نصیحت آموز باتیں بھی ہیں۔جس میں وہ ایک پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس حوالے حسبِ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں :
اکثر اوقات سلگتے ہوئے ماضی کے نقوش
خواب بنتے ہیں خیالات میں ڈھل جاتے ہیں
رکاوٹیں ہی تو منزل کا پیش خیمہ ہیں
یہ پیچ و خم بھی ضروری ہے رہگزر کے لیے(2)
طفیل نے حمدو نعت،گیت اور دوہا، سلام و مراثی میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں۔علاوہ ازیں ان  کی شاعری میں موجودہ دور کی مادہ پرستی پر گہری طنز ملتی ہے۔ نت نئے سائنسی اکتشافات نے انسان سے انسان کا رشتہ کمزور کر دیا ہے۔مادی ترقی نے مذہبی و روحانی تقاضوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔  مذہبی وروحانی تقاضوں کو نظر انداز کر کے کی جانے والی ترقی کو کسی صورت ترقی قرا ر نہیں دیا جا سکتا۔ طفیل نے اس نام نہاد ترقی پر کھل کر اظہار خیال کیاہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ابھی تو خاک کے پردے التفات طلب
ابھی ارادہ تسخیر کائنات نہ کر
ذروں کے جگر چیر دئیے فکر و نظر نے
مستور ہے وہ جلوہ گہ ناز ابھی تک(3)
1اگست ۱۹۴۷ء کو جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا۔ تو خیال تھا کہ آزادی کے ثمرات سے ہر شخص یکساں طور پر بہرہ ور ہوگا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور آج آزادی کی نصف صدی گزر جانے کے باوجود طفیل کے یہ شعرا پنی تما م تر صداقت کے ساتھ ذہن و فکر پر تازیانہ بن کر برستے ہیں۔
طفیل لکھتے ہیں:
طلوع صبح مسرت کو مدتیں گزریں
تجلیوں کو مگر بام و در ترستے ہیں
مسافر تھک گئے ہیں چلتے چلتے
مسافت کا کہیں انجام آئے (4)
پھولوں کے طلب گار تھے ہم موسم گل میں
شعلے سے ہر اک شاخ پہ لہرائے ہوئے ہیں(5)
طفیل ایک محب وطن پاکستانیتھے۔ انھوں نے سقوطِ ڈھاکہ پر جہاں اپنی نظموں میں آنسو بہائے۔ وہاں نعتوں میں بھی نبی رحمتؐ کے حضور‘‘دیارِ پاک سے بنگال ہو چکا ہے جدا’’ ایسے مصرعے کہہ کر سیاست دانوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا ہے۔ غزل میں چونکہ ایسے مضامین کو بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے طفیل نے استعارے کے پردے میں اس سانحہ کے ذمہ دار سیاست دانوں کے غلط طرز عمل پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
جو نا خداؤں کی فکر و نظر سے ڈوبے ہیں
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں ان سفینوں کو
نا خداؤں کا کرم کہیے طفیلؔ
رہ گئی طوفاں میں کشتی ڈول کر (6)
ڈوبتی کشتی کو ساحل پر لگاتے کس طرح
نا خداؤں میں تلاطم آشنا کوئی نہ تھا (7)
طفیل نے اپنی شاعری کے ذریعے پاکستانی قوم کو عالی حوصلگی اور بلند ہمتی کا درس دیا ہے۔ وہ کار زار حیات میں مشکلات کے مقابل حوصلہ نہ ہارنے اور عزم فولادی سے مسلح ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
بلند جن کے عزائم ہوں حوصلے بے باک
وہی تو وقت کے دھارے کا رخ بدلتے ہیں(8)
طفیل کی شاعری میں انقلابی آہنگ موجود ہے۔ اس انقلابی آہنگ پر اقبال کے حرکی افکار کی چھاپ نظر آتی ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تابہ کے جام و سبو کییہ روایات کہن
میکدے میں انقلاب اے پیر میخانہ کوئی
ہاں مہر لگا سکتے ہو تم میرے لبوں پر
زنجیر خیالات کو پہنا نہیں سکتے (9)
طفیل کی شاعری میں عرفان و تصوف کے مضامین کا بیان بھی بکثرت ملتا ہے۔چند صوفیانہ اشعار ملاحظہ ہوں:
اب نہیں دل میں تمنا کا نشاں تک باقی
آئینہ عکس رخِ یار تک آ پہنچا ہے
دل کے آئینے میں آئے تو نظر آئے طفیلؔ
وہ ہے بے مثل بھلا کیسے مثالوں میں ملے (10)

طفیل محب وطنتھے۔ وطن  و مذہب  پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتے  تھے۔ وہ وطن و مذہب  کے سچے  بہی خواہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم یا ملت اسلامیہ پر کوئی مشکل آتی تو وہ   انتہائی رنجیدہ ہوجاتے ۔ انھوں نے اپنے پیارے وطن کے لہلہاتے کھیتوں ،گیت گاتے آبشاروں ،فلک بوس پہاڑوں ،گل رنگ وادیوں اور حسین لالہ زاروں کے نغمے گائے ہیں۔ جن نظموں میں انھوں نے مادرِ وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان میں ان کی رومان پسندی اور حسن پرستی صاف جھلکتی ہے۔ جب وہ وطن کے حسن و دلکشی کی تعریف کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ کسیمحبوبہ کے حسن کے جلووں کے سحر میں گرفتا ر ہو کر اس کی تعریف کر رہے ہوں۔سید عابد علی عابد ان کی نظموں کی پیکرتراشی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:یوں معلوم ہوتا ہے جیسے شاعر نے اپنے وطن کو محبوب نہیں بلکہ محبوبہ بنا دیا ہے۔(11)رومانوی رنگ میں ڈوبے ہوئے طفیل کے قومی  اشعار میں وطن کو ایک محبوبہ دل نواز کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔اس حوالے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
مر مریں جسم ،پوشاک دھانی تری
ہے فروغ گلستاں جوانی تری
اللہ اللہ تری نکہت پیرہن
اے نگارِ وطن اے نگارِ وطن (12)
طفیل نے اپنی آنکھوں کے سامنے وطنِ عزیز پاکستان کو بنتے دیکھا۔ وہ ان قربانیوں سے واقف تھے جو حصول آزادی کے لیے مسلمانوں کو دینا پڑی۔ ان کو سینے میں اس سرزمیں سے محبت کا لا فانی جذبہ موجزن تھا۔ وہ تعمیر پاکستان کے لیے غیروں کا دست نگر بننے کے بجائے اپنے زور باطن پر بھروسہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
غیروں کے سہارے ہمیں جینا نہیں آتا
ہم اپنے سدا آپ مددگار رہیں گے
رگ رگ میں رواں کیف مئے حب وطن ہے
تاحشر اس کیف میں سرشار رہیں گے (13)
طفیل اپنی نظموں میں قارئین کو اسلاف کے کارہائے نمایاں سے سبق حاصل کرنے کادرس دیتے بھی نظر آتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کو اپنا شعار بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں ہماری عظمت اور شوکت گم گشتہ پھر سے لوٹ آئے۔ طفیل ہمیں ماضی کی طرف جھانکنے کی یوں دعوت دیتے ہیں:
ملت کے جوانو تمہیں ملت کی قسم ہے
اجداد کے کردار کی رفعت کی قسم ہے
ماضی پہ تو ڈالو ذرا تحقیق کی نظریں
ماضی کی تمہیں عظمت و سطوت کی قسم ہے(14)
علامہ اقبال کی شاعری قومی و مذہبی مضامین سے بھرپور ہے۔طفیل کے دور کے تقریباً اکثر شعرا فکرِ اقبال سے متاثر نظر آتے ہیں۔ طفیل کا بھی اقبال سے متاثر ہونا فطری بات تھی۔پھر اس پر مستزاد یہ کہ طفیل ہوشیار پورسے سیالکوٹ چلے آئے۔قیامِ سیالکوٹ کے دوران طفیل کو امینِ حزیں سیالکوٹی کی صحبت میسر آئی۔ انھوں نے امینِ حزیںسے باقاعدہ اصلاح بھی لی۔ امینِ حزیں اقبال سے بہت متاثر تھے۔اولاً اقبال کا اس دور میں چرچا ،ثانیاً ،امینِ حزیں کی شاگردی اور ثالثاً ان کا قومی شاعری کی طرف میلان طبع۔ان کی قومی و مذہبی  شاعری مذکورہ تینوں عناصر سے تشکیل پاتی ہے۔
طفیل کے ہاں اقبال کی فکر کو پیش کرنے کار نگ درج ذیل اشعار میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
عمل کمند ستاروں پہ ڈال سکتا ہے
سمندروں سے جواہر نکال سکتا ہے
عمل کا وقت ہے جذب عمل میں ڈھل جاؤ
رہِ وفا میں صفیں باندھ کر نکل آؤ (15)
۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت اپنے شر پسند جارحانہ عزائم کی تکمیل کے لیے رات کی تاریکی میں وطن عزیز پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ جہاں ہماری بہادر افواج نے ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے وہاں ہمارے شعرا نے جہاد بالقلم کے ذریعے اس جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔ طفیل نے بھی اس کڑے وقت میں اپنی نظموں اور ترانوں کے ذریعے اپنی جاں باز اور سرفروش افواج کا خون گرمایا۔کون ہے جس نے ان کا مشہور زمانہ ترانہ‘‘توحید کا پرچم لہرایا’’ نہ سنا ہو۔ یہ ترانہ سن کر خود بخود جذبہ شوق شہادت مچلنے لگتا ہے۔ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہماری پاک افواج اس ترانے کی دھن پر مارچ پاسٹ کرتی ہے۔ طفیل کو زندہ رکھنے کی لیےیہ ترانہ ہی کافی ہے۔اسی ترانے کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

سر رکھ کے ہتھیلی پر آنا
ہے ظلم سے تجھ کو ٹکرانا
ایمان کا ہے رکھوالا تو
اسلام کا ہے متوالا تو
ایمان ہے تیرا سرمایہ
اے مرِد مجاہد جاگ ذرا (16)
طفیل شاعری کی قوم ومذہب سے محبت کا مخزن ہے جسکی اہم خوبی ان کا رجائی اسلوب ہے۔ وہ کسی بھی مشکل مرحلے پریاس و نا امیدی کا تاثر نہیںدیتے۔ ان کی شاعری میں مایوسی کا نام و نشان  دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی شاعری ایک خوشحال ، دل کش اورروشن پاکستان کی منظر کشی کرتی ہے۔ ان کےاشعارمیں پاکستانیت کا عنصر بھی جگہ جگہ ملتا ہے۔
ہوں گی نہ اب خزاں کی کہیں چیرہ دستیاں
سونے کے گھر بنائیں گے چاندی کی بستیاں(17)
انہوں نے مسلمانوں میں  اتحاد و یگانگت کی تبلیغ کی اور ہمیشہ مسلم امت کے درمیان فرقہ وارانہ تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر زور دیاکیونکہ یہی عالم اسلام کی سلامتی اور استحکام کا راز ہے۔ وہ مسلمانوں کو آپس میں برسر پیکار رہنے کے بجائے گردش حالات کی رفتار پہنچاننے کا پیغام دیتے ہیں ۔وہ مسلمانوں کو عالم کفر میں ان کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے با خبر کرتے ہیں:
امتیازات رنگ و نسب سب غلط
نفرت انگیزیوں کے یہ ڈھب سب غلط
جذب اثیار سے حسن کردار سے
عام رنگِ اخوت کرو دوستو
ایک اللہ ہے ایک قرآن ہے
ایک ہادیؐ ہے ایک اس کا فرمان
مختلف راستے کس لیے ہو گئے
سوچنے کی تو زحمت کرو دوستو(18)
مشتعل گردش ایام ہے کچھ فکر کرو
دوستو حشر کا ہنگام ہے کچھ فکر کرو
کس کو معلوم سحر آئے گی کس عالم میں
خون آلود رخ شام ہے کچھ فکر کرو
سازش کفر ہے ہر بزم میں سرگرم عمل
اک جہاں دشمنِ اسلام ہے کچھ فکر کرو (19)
کشمیر پاکستا ن کی شہہ رگ ہے۔کشمیر کا تنازعہ قومی مسئلہ ہے۔کشمیری مسلمانوں پر بھارتی افواج نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ کئی شعراًخصوصا سیالکوٹ کے شعرا نے اپنی شاعری میں کشمیر پر بھارتی تسلط اور ظلم و تشد کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی  بھرپور مذمت کی ہے۔ طفیل نے بھی کشمیر پر خوب صورت نظمیں کہی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں کشمیر کے پاؤں میں پڑی ہوئی زنجیر کا مثردہ سناتے ہیں۔ان کی نظم‘‘اے وادی کشمیر’’ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئیے:
اے وادی کشمیر
ہر رنگ میں ہم کر کے رہیں تجھے تسخیر
اے وادی کشمیر
اللہ کا فرمان ہے ایمان ہمارا
ہم سے تو یہی کہتا ہے قرآن ہمارا
جنت کبھی ہو سکتی نہیں کفر کی جاگیر
اے وادی کشمیر(20)
علامہ اقبالؒنے اپنی شاعری میں مغربی تہذیب پر تنقید کی ہے۔ طفیل نے بھی طنز کے حربے استعمال کرتے ہوئے ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔ جن کے باعث  مسلمان  قوم  اسلامی تہذیب و تمدن سے بیزار ہو تی جارہی ہے اور اپنے گلے سے مغربی تہذیب کی غلامی کا جوااُتار پھینکنے پر تیار نہیں۔
طفیل لکھتے ہیں:
حقیقتوں پہ ہے مبنییہ بات اے اقبال
ملی ہے مغربی تہذیب میں ہمیں تو پناہ
حدیث ساغر و مینا ہو جب متاعِ حیات
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ (21)
ہمارا دل نہ کیوں تہذیب نو سے روشنی لیتا
نئی تعلیم سے آنکھیں چُرا لینا تھا نادانی
نہ کیوں دل جلوہ افرنگ سے مسحور ہو جاتے
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی(22)
طفیل کی شاعری میں  مذہبی  اورقومی رنگ نمایاں ہے۔ان کی قومی و مذہبی  شاعری کا ایک دھارا ان کا وہ کلام ہے۔ جس میں انھوں نے اخلاقیات کی تعلیم دی ہے۔ ان کی اخلاقی شاعری کا منبع و مصدر سرا سر اسلامی تعلیمات ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے لو لگانے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونے کا درس دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا مضمون بار ہا باندھا ہے۔
تم رشتہ جاں رب جہاں سے رکھو
تم ربط نہاں سر نہاں سے رکھو
یہ عمررواں ساتھ نہ دے گی ہرگز
اُمید نہ کچھ عمر رواں سے رکھو (23)
اللہ سے ڈر بندہ الحاد نہ بن
پیرو نہ ہو فرعون کا شداد نہ بن
نمرود کی تقلید کو ایماں نہ بنا
قارون زمانہ کا تو ہمزاد نہ بن (24)
طفیل نے  مرثیے کو عمل خیر کا پیغام بنانے کے لیے طفیل نے مرثیے سے محض رونے دھونے کا نام نہیں دیتے۔بلکہ ان کے نزدیک مرثیے کا اصل مقصود اس پیغام کے اصل مدعا تک  پہنچنا ہے جس کا امام حسین  نے کربلاکی سر زمین پر اپنے اہل وعیال کی قربانی کی شکل  میںعملی نمونہ پیش کیا ہے۔ ایک مرثیےکے دو بند ملاحظہ ہوں:
واقعات کربلا کوئی لب پہ لائے کیا
بیتی ہے کیا حسینؓ پر اب بھی کوئی بتائے کیا
اہل سوز و ساز کو اشک خوں رلائے کیا
ظلم اور جور کی داستاں سنائے کیا
راہ حق میں لُٹ گیا قافلہ حسین کا
خیرو شر کی جنگ تھی کائنات دنگ تھی
آسمان دور تھا اور زمین تنگ تھی
کربلا کی خاک تھی اور خون رنگ تھی
لشکریزید کے دل کییہ امنگ تھی
حق میں ہو یزید کے فیصلہ حسینؓ کا (25)
حمدنگاری ،نعت نگاری، بلند حوصلگی کا درس ،انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ،بے ثباتی دہر اور رنگینی دہر میں نہ کھونے کا سبق اور اخلاقی پند و نصائح طفیل کے دوہوں کے اہم موضوعات ہیں ۔ان کے دوہوں میں پاکستان کے معاشرتی و سیاسی حالات کے حوالے سے عصری شعور بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہر بندہ ہے ایک مسافر دنیا ایک سرائے
سانجھ سویرے لگا ہے تانتا اِک آئے اِک جائے
پگ پگ پر ہیں سندریوں نے روپ کے جال بچھائے
روپ نگر سے کوئی مسافر بچ کر کبھی نہ جائے (26)

پگ پگ سندر سندر مکھڑے پگ پگ نین کٹورے
رس چھلکا چھلکا کر ڈالیں دل پر پیار کے ڈورے
سچائی کا مول نہ کوئی جھوٹ کی جے جے کار
بے ایمان کو کہے زمان آج دیانت دار (27)




حوالہ جات
1۔زاہدہ پروین رضوی،"طفیل ہوشیار پوری"مقالہ برائے ایم ۔اے اردو  ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور ،۱۹۸۸ء،ص: ۸
2۔ طفیل ہوشیار پوری،شعلہ جام پر ایک نظر،مشمولہ‘‘شعلہ جام’’ از طفیل ہوشیار پوری  ،احسان اکیڈمی، لاہور ،۱۹۷۸ء ، ص :۲۰۱،۲۰۲
3۔طفیل ہوشیار پوری،شعلہ جام پر ایک نظر،ص :۲۱۲
4۔طفیل ہوشیار پوری،شعلہ جام پر ایک نظر،ص :۴۰،۴۱
5۔طفیل ہوشیار پوری،شعلہ جام پر ایک نظر،ص:۱۵۴
6۔شعلہ جام پر ایک نظر،ص :۱۳۱،۱۳۲
7۔ہوشیار پوری،شعلہ جام پر ایک نظر،،ص :۸۹
8۔شعلہ جام پر ایک نظر،،ص :۱۹۶،۱۹۷
9۔شعلہ جام پر ایک نظر،،ص :۱۰۸،۱۰۹
10۔ ہوشیار پوری،شعلہ جام پر ایک نظر،،ص :۶۶،۶۷
11۔سید عابد علی عابد،دیباچہ’’ مشمولہ ‘‘محفل طفیل ہوشیار پوری نمبر،ص:۱۲۲
12۔طفیل ہوشیار پوری ،میرے محبوب وطن،لاہور ،احسان اکامی،۱۹۷۷ء،ص: ۱۵
13۔ایضاً،ص :۲۳
14۔ایضاً،ص :۱۰۸
15۔ایضاً،ص :۵۶
16۔ایضاً،ص :۶۶
17۔ایضاً،ص :۵۳،۵۴
18۔ایضاً،ص :۹۹
19۔ایضاً،ص :۱۱۸
20۔طفیل ہوشیار پوری،اے وادی کشمیر،مشمولہ "جاگ رہا ہے پاکستان"،ص:۴۶۷
21۔طفیل ہوشیار پوری،تجدید شکورہ،احسان اکادمی ، لاہور ،۱۹۸۷ء،ص :۶۷
22۔ایضاً،ص :۶۸
23۔طفیل ہو شیار پوری،جامِ مہتاب ،احسان اکیڈمی ،۱۹۷۵ء، لاہور ،ص :۳۰
24۔ایضاً،ص :۴۶
25۔ایضاً،ص :۱۲۹
26۔طفیل ہوشیار پوری،"سوچ مالا"،احسان اکیڈمی، لاہور ،۱۹۹۱ء ،ص :۴۳
27۔ایضاً،ص :۴۹

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...