Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > علامہ اقبال اور دیگر ادبی مشاہیر کی رثائی شاعری

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

علامہ اقبال اور دیگر ادبی مشاہیر کی رثائی شاعری
ARI Id

1688388584597_56116240

Access

Open/Free Access

Pages

142

علامہ اقبال اوردیگر ادبی مشاہیر کی رثائی شاعری

مرثیہ(1)ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں وفات پانے والی شخصیت کی صفات  بیان  کی جاتی ہیں۔ اردو مرثیہ ایک ایسی صنف ادب ہے  جس میں  کربلا کے حالات و واقعات  پیش کئے جاتے ہیں ۔بالخصوص حضرت امام حسین  اور ان کے خانوادے کی شہادت کا تذکرہ  کیا جاتا ہے۔مرثیہ میں کسی مذہبی ، قومی پیشوا یا کسی محبوب شخصیت کی موت پر غم کا اظہار بھی  کیا جاتا ہے اور اس کی  خوبیاں اس طرح بیان کی جاتی ہیں  کہ قارئین بھی متاثر ہو ں ۔مرثیہ کے لئے کسی مخصوص ہئیت یا ترتیب قوافی کی کوئی شرط نہیں ۔قصیدہ،مثنوی ،رباعی ،مربع ،مخمس ،مسدس،ترجیع بند ، ترکیب  بند غرض کہ شاعر جس ہئیت  میں چاہے  مرثیہ تحریر کرسکتا ہے۔اردو ادب میں مرثیے کا ایک خاص مفہوم بھی ہے یعنی شہدائے کربلا کا مرثیہ خود ایک نہایت وقیع صنفِ ادب کی حیثیت سے اپنا مقام منوا چکا ہے۔
 مرثیہ گوئی کی روایت میں ایک بڑا نام فرزندِ سیالکوٹ علامہ اقبال کا بھی ہے۔    اقبال ؒ نے بھی مرثیہ نگاری  میں اپنے تخلیقی جوہر پیش کئے ہیں۔ان کے ہاں شخصی مرثیے کا اظہار زیادہ ہے جیسا کہ 1905ء میں داغ کی وفات پر  انہوں نے 23 اشعار پر مشتمل ایک مختصر مرثیہ لکھا جو ایجازو اختصار ،رمزو کنایہ ،تاثیر و بلاغت اور دیگر شعری محاسن سے  مزین ہے۔علامہ اقبال ؒ نے اپنے مخصوص طرزِ سخن کو بروے کار لاتے ہوئے داغ کی جذبات نگاری کو بہترین خراج تحسین پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ ان  کا مرثیہ "والدہ مرحومہ کی یاد میں  اردو مرثیے کے حوالے سے ایک اہم اثاثہ ہے۔یہ نظم  انہوں نے اپنی والد ہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی ۔  اقبال ؒ کی شعری دنیا میں شخصی مرثیوں کے علاوہ کربلا کا شعوری سفر اپنے لامحدود تناظر کے ساتھ موجود ہے  ۔ اقبال ؒ  نے  اپنے مفرد اشعار میں "حسین  "اور" شبیر ی "کے استعارے کے ذریعے شہادت کے اثرات و رموز اور معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی یہ فکر روایت سے ہٹ کر تھی اگرچہ اقبال ؒ نے مختلف نظموں اور غزلوں میں فرزندِ سید ہ زہرہ اور شہدائے کربلا کی لازوال قربانی کا ذکر کیا ہے تاہم اشعار کا ایک تسلسل "درمعنی حریت اسلامیہ و سرحادثہ کربلا "کے عنوان کے تحت علامہ اقبال ؒ نے"رموز خودی " میں قلم بند کیا ہے ۔ اقبال ؒ امام حسین کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بنا کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے قیامت تک ظلم و استبداد کے راستے بند کر تے ہیں ۔ اقبال ؒواقعہ  کربلا کے حوالے سے لکھتے ہیں :
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی2
اقبالؒ کی شاعری میں امام حسین اور کربلا ،ظلم وستم کے خلا ف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشان دہی کا  ایک استعارہ ہے۔وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا معیار اور حق و باطل کی میزان قرار دیتے ہیں ۔وہ اس واقعے کے بنیادی کردار حضرت حسین کے صبر کو عشق کا نشانِ راہ  مانتے ہیں ۔صدقِ خلیل،صبر حسین  اور معرکہ بدرو حنین    یہ سب کچھ  اقبال ؒ کے نزدیک ایمان و عشق کی کیفیات کا عملی مظہر ہے۔
صدقِ خلیل ؑبھی ہے عشق ،صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق3
 اقبال ؒ جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی پہلو کو انتہائی خوب صورت انداز میں بیان کرتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیل ؑ4
اقبال ؒ بال جبریل میں بیان کرتے ہیں :
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اِکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری
میراث مسلمانی ،سرمایہ شبیری!5
واقعہ کربلا نے ہر بڑے ادیب و شاعر کو متاثر کیا ۔اہل بیت سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا مرکز و محورہے۔مولانا ظفر علی خاں ؒ نے اپنی اس محبت کا اظہار میدان کربلا میں امام حسین ؑ کی شجاعت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں:
اک وہ بھی حسین ابن علی تھا کہ سر اس نے
مر کر بھی نہ فاسق کی حضوری میں جھکایا
خود چل کے گیا معرکہء کرب و بلا میں
دنیا کو قیامت کا سماں جس نے دکھایا
تھا سینہ سپر ایک ہزاروں کے مقابل
باطل کے اس انبوہ نے اس کو نہ ڈرایا6
اردو ادب میں رثائی شاعری زیادہ تر سانحہ کربلا تک محدود رہی ۔تاہم بعض شعرا نے اپنے اعزہ واحباب کی وفات پر شخصی مرثیے کہہ کر اپنے غم و الم کا اظہار کیا ہے۔مولانا ظفر علی خان ؒنے  اپنے بھائی کی  وفات  مرثیہ کہا :
میں آج سنانے کو ہوں مثرگاں کی زبانی
پہلو میں گداز جگر و دل کی کہانی
کرنا ہے مجھے آج جواں بھائی کا ماتم
بنیاد فلک ہے مجھے منظور ہلانی
وہ شمع کہ تھا اس سے مرے گھر میں اجالا
صرصر کو نہ لازم تھا سر شام بجھانی7
 فیض احمد فیض نے ایک شاہکار مرثیہ لکھ کر مرثیہ نگاری کی  روایت میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔فیض احمد فیض شب عاشور کے حوالے سے یوں بیان  کرتے ہیں :
رات آئی ہے شبیر پہ یلغار بلا ہے
ساتھی،نہ کوئی یار،نہ غم خوار رہا ہے
مونس ہے تو ایک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی ،غربت کی ، پریشانی کی شب ہے
یہ خانہ شبیر کی ویرانی کی شب ہے8
حکیم خلیق حسین ممتاز کے تخلیقی وجدان کو واقعہ کربلا سے گہری مناسبت ہے۔اس لئے واقعہ کربلا ان کی شعری شناخت کا اہم حصہ بن گیا ہے۔انہوں نے شعر کو کربلا کے پس منظر سے لفظی اور معنوی سطح پر ایک نئے اسلوب اظہار  کے فن کدے سے روشناس کرایا ہے۔سخن وری میں زود گوئی ان کی فطرت کی حصہ رہی ہے جملہ اصناف سخن میں ان کا قلم یکساں رواں ہے۔حمد ،نعت، سلام ، منقبت ، غزل ،مسدس، مرثیہ ،قطعہ،رباعی،نظم،نوحہ،سہرا اور رخصتی میں قلم موزوں نظر آتا ہے۔حکیم ممتاز کا ادبی سفر طویل ہے۔سیالکوٹ میں مشاعروں میں شمولیت کے سبب بہت ساری  غزلیات لکھیں۔ان غزلیات میں بھی لفظ کے پس پردہ کربلا کا عکس لاشعوری طور  پر جھلکتا   ہوادکھائی  دیتاہے۔
ہے میرے سر پہ مصائب کا آسمان کھلا
زمیں کے ساتھ ہے میرا بھی امتحاں کھلا9
ہیچ ہے ان کے سامنے ہر ظلم
جو رہِ کربلا میں رہتے ہیں 10
قریہ جاں پہ لہو رنگ فضا طاری ہے
مقتل ہجر ہے جذبوں کی عزا داری ہے11
کون آیا سر مقتل ممتاز
آج قاتل کا دل بھی ڈوبتا ہے12
غزل میں مہارت کے باوجود حکیم ممتاز حبِ اہل بیت  کی وجہ سے سلام اور مرثیہ کی طرف زیادہ راغب رہے اور 300 کے قریب سلام اور چند مرثیے بھی لکھے جو تاحال غیر مطبوعہ ہیں ۔حمد،نعت،منقبت اور سلام پر ایک مجموعہ"تقلید مؤدت"2014ء میں شائع ہوا۔  سلام کے چند منتخب اشعار پیش کئے جاتے  ہیں :
عظمت شاہ شہیداں کو سلام
جس نے دکھلایا بقا کا رستہ13
اس شان سے شہید ہوئے کربلا میں آپ
قربان گاہ ِ عشق کو حیران کر دیا 14
سید زاہد حسین بخاری کی پہچان نعت گو شاعر کے طورپر ہے لیکن انہیں مرثیہ و سلام میں بھی ملکہ حاصل ہے ۔سید  بخاری نے آٹھ مرثیے لکھے ہیں جن میں سے ایک مرثیہ غیر مطبوعہ ہے۔سرخی ِ خون ِ شہیداں کے عنوان سے 2019ء میں سات مرثیوں پر مشتمل مجموعہ شائع ہوا۔ان مراثی کے عنوانات درج ذیل ہیں ۔
1۔سجدہ شبیری 2۔مفارقت 3۔امن و سلامتی 4۔عدل و احسان 5۔کعبہ و اہل بیت 6 معجزہ7۔جناب رقیہ بنت علی ۔آٹھواں مرثیہ قرآن و اہل بیت  کے عنوان سے لکھا گیا ہے  ۔سید بخاری کا سب سے  پہلا مرثیہ خاصہ طویل ہے اور 170 بندوں پر مشتمل ہے ۔یہ "سجدہ شبیری" کے نام سے 1996ء میں منظر عام پر آیا تھا۔اس میں  احمد ندیم قاسمی  اور سرور انبالوی جیسے  شعرا نے اپنے تاثرات قلم بند کئے ہیں۔اس مرثیے کا ایک بند  پیش کیاجاتا ہے جس میں صبح ِ عاشور امام حسین کی اقتدا میں جاں نثاروں کی نماز فجر ادا کرنے کا منظر کھینچا گیا ہے:
پیدا ہوا ہے دل میں گداز اور زیادہ
رقت سے ہوا لطفِ نماز اور زیادہ
جھکنے لگی پیشانی ناز اور زیادہ
خالق سے ہوئے رازو نیاز اور زیادہ
روحوں میں عبادت کا سرور اور زیادہ
چہروں پہ اتر آیا ہے نور اور زیادہ 15
سید زاہد حسین بخاری کے مرثیے میں کربلا کے کرداروں کا بیان بھی وضاحت سے ملتاہے ۔یوں سید بخاری بطور مرثیہ نگار بیک وقت خارجی اور داخلی دونوں پہلوؤں پر یک ساں تخلیقی حسن کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
سیالکوٹ میں مرثیہ نگاری  میں ایک نمایاں نام رشید آفریں کا ہے۔ان  کے سات شعری مجموعے شائع ہوکر قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں ۔رشید آفریں نے مذہبی اعتقادات کے مضامین کو تقدس اور احترام کے سارے لوازمات سمیت اپنے شعروں میں جگہ دی ہے۔ان کی شاعری میں مذہب اور ایمان کی لہریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔حمد ،نعت ،منقبت اور مرثیہ نگاری جیسی اصناف ِ سخن کی تخلیق میں جو ش و جذبے کی بہتات کے ساتھ فنی پختہ کاری نمایاں ہے۔
 رشید آفریں کے چند اشعار درج ہیں :

چار سو ہیں امام کی باتیں
سبطِ خیر الانام کی باتیں
لب پر قرآن سر تھا نیزے پر
شاہ کے اس قیام کی باتیں
اس کے جہاد کو خدا کیوں نہ کرے پسند
جس کی صفوں میں ایک پسر شیر خوار ہے
ڈوبا ہوں آفریں غمِ اہل بیت میں
جس کے اثر سے روح بھی میری نڈھال ہے16
سیالکوٹ کے معروف شاعر سید عدید  نے 19 بندوں پر مشتمل ایک مرثیہ لکھا ہے ۔یہ بڑا جان دار مرثیہ ہے  جوقاری کے دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔اس سننے والا انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
 سید عدید لکھتے ہیں:
خدّامِ خاص،خاص برادر چلے گئے
عون و محمد اور علی اصغر چلے گئے
قاسم چلے گئے ،علی اکبر  چلے گئے
مقتل میں ایک دن میں بہتر چلے گئے
کاندے پہ سب کے لاشے اٹھائے حسین نے
وعدے رسول کے تھے نبھائے حسین نے 17

تعظیمِ خاکِ کرب وبلا چاہتے تھے آپ
بے بس نہیں تھے رب کی رضا چاہتے تھے
کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ کیا چاہتے تھے آپ
دین ِ محمدی کی بقا چاہتے تھے آپ
عظمت ہے یہ دلیل امامِ شہید کی
بیعت حسینی کرتے نہیں ہیں یزید کی18
جب روضہء رسول سے رو کر چلے حسین
دربار  بھائی اشکوں سے دھو کر چلے حسین
کیسے جدا  بتول سے ہو کر چلے حسین
کتنے گہر لڑی میں پرو کر چلے حسین
یہ سوچ کر تو روتے تھے سبطِ رسولﷺ بھی
اس قافلے میں ساتھ ہے بنت بتول بھی 19
سید عدید کے ان اشعار میں بلندی ِ مضمون اور خوبی ِ زبان واضح ہے ۔ان کے ہاں تخلیقی عمل میں شعور کے ساتھ ساتھ لا شعور کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان  کی شاعری میں کربلا سے متعلق بالواسط اشعار بھی ہیں اور بلا واسطہ اشعار بھی۔انہوں نے غزل گو شاعر ہونے کے باوجود اپنی پہچان بنائی ہے۔
سیالکوٹ کے جن شعرا نے واقعہ کربلا کے تناظر میں سلام و مرثیہ کو اپنی شاعری میں ایک مستقل موضوع کے طور پر اختیار کیا ، ان میں اعجاز عزائی ،سید اقبال رضوی،ڈاکٹر راشد شیرازی کے نام  نمایاں ہیں ۔سیالکوٹ میں پروفیسر ضمیر حیدر نقوی بھی فروغ ِ مرثیہ  کے لیے قابل تحسین خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان شعرا ئے کرام نے اس واقعہ اور اس کی جزئیات کو معنوی توسیع و تقلیب عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غزل کے فنی محاسن کو مجروح نہ کرتے ہوئے ،کربلا کی لفظیات کی مؤثر اورمعنی خیز استعمال کر کے شاعری میں نئی وسعت کے امکان روشن کئے جس سے سیالکوٹ کی علمی فضا میں تخلیق ہونے والے مرثیے میں اردو شاعری کی مختلف اصناف کا رنگ ایک دھنک کی صورت  میں نظر آتاہے ۔مرثیہ گو شعرا  کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ کے کچھ غزل گو شعرا ایسے بھی ہیں  جن کے لئے واقعہ کربلا شعری شناخت نامے کی حیثیت رکھاتا ہے ۔ان غزل گو شعرا نے اپنے کلام میں واقعہ کربلا مختلف کیفیتوں ،متعدد ابعاد اور ان گنت شکلوں کے ساتھ کچھ اس انداز میں سمویا ہے کہ یہ واقعہ ان کے کلام کی پہچان قرار پا گیا ہے ۔ان کے چند اشعار بطور مثال نذر قارئین ہیں :
محمود حیدر پیر  زادہ لکھتے ہیں:
لائے کہاں سے ڈھونڈ کے کس کی مجال ہے
دنیا میں بے مثال محمد ؐ کی آل ہے

پورے جہاں میں ایک درِ اہل بیت ہے
جینا کمال ہے جہاں مرنا کمال ہے
دراصل کائنات میں آلِ رسول ہیں
جن کے لہو سے دیں کا تنفس بحال ہے20
اعجاز عزائی لکھتے ہیں :
وہ کس کا باپ ساقی کوثر ہے یاد کر
کرب و بلا میں تشنہ دہن کس کا لال ہے21
واقعہ کربلا تاریخ کا ایک ایسا بڑا سانحہ ہے جس نے ہر بڑے ادیب و شاعر کو متاثر کیا۔ یہ حق و باطل کے درمیان ایک ایسا معرکہ تھا جس میں حق کی کمان حسینؓ ابنِ علیؓ کے پاس تھی۔ اہلِ بیت سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مولانا ظفر علی خان بھی نواسۂ رسولؐ سے محبت کا اظہار میدانِ کربلا میں امام حسینؓ کی بہادری اور شجاعت اس طرح بیان کرتے ہیں:
اک وہ بھی حسینؓ ابنِ علیؓ تھا کہ سر اس نے
مر کر بھی نہ فاسق کی حضوری میں جھکایا
خود چل کے گیا معرکۂ کرب و بلا میں
دنیا کو قیامت کا سماں جس نے دکھایا
تھا سینہ سپر ایک ہزاروں کے مقابل
باطل کے اس انبوہ نے اس کو نہ ڈرایا22
اردو شاعری میں مرثیے کی صنف زیادہ تر سانحہ کربلا کے بیان تک محدود رہی تاہم بعض شعرا نے اعزہ و احباب کے مرنے پر تاریخی قطعوں کے علاوہ شخصی مرثیے کہہ کر اپنے غم و الم کا اظہار کیا ہے۔ مولانا  ظفر  علی خان نے اپنے والد‘ بھائی محمد اکرم خان‘ سید محمود‘ نواب داغ دہلوی‘ مولانا گرامی‘ سر فضل حسین‘ لاجپت رائے‘ ڈاکٹر مختار انصاری‘ مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کی وفات پر مرثیے تحریر کئے  ہیں۔ مولاناظفر علی خاں نے اپنے  بھائی کی وفات پر مرثیہ بھی کہاجس کے کچھ اشعار حسبِ ذیل ہیں۔
میں آج سنانے کو ہوں مژگاں کی زبانی
پہلو میں گداز جگر و دل کی کہانی
کرنا ہے مجھے آج جواں بھائی کا ماتم
بنیاد فلک ہے مجھے منظور ہلانی
وہ شمع کہ تھا اس سے مرے گھر میں اجالا
صرصر کو نہ لازم تھا سر شام بجھانی23
طفیل ہوشیار پوری نے غزل ،نظم گیت کے ساتھ ساتھ مرثیہ بھی لکھا ہے۔ مرثیے کو عمل خیر کا پیغام بنانے کے لیے طفیل نے مرثیے سے صرف رونے رلانے کا کام نہیں لیا۔بلکہ ان کے نزدیک مرثیے کا اصل مقصد اس پیغام کی روح کو سمجھنا ہے جو امام حسین  نے سر زمین کربلا پر اپنے اہل خاندان اور مخلص ساتھیوں کی قربانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ایک مرثیے کے دو بند  درج ذیل ہیں :
راہ حق میں لُٹ گیا قافلہ حسین کا
خیرو شر کی جنگ تھی کائنات دنگ تھی
آسمان دور تھا اور زمین تنگ تھی
کربلا کی خاک تھی اور خون رنگ تھی
لشکریزید کے دل کییہ امنگ تھی
حق میں ہو یزید کے فیصلہ حسینؓ کا 24
غزل گو شاعر ایوب صابر کے ہا ں بھی رثائی شاعری کےعناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
چشم فلک نے دیکھا ہے جذبہ حسین کا
صبرو رضا ہی ٹھہرا ہے لہجہ حسین کا
کربل کی ریت کو ہے مصلّیٰ بنا لیا
بھاری ہے ساری قوم پہ سجدہ حسین کا
مغلوب کرنے آئے جو عبرت نشاں بنے
قائم ہے آج تک یہاں  غلبہ حسین کا25
طاہرشادانی نے رثائی نظمیں لکھیں جن میں ادبی قومی اور علمی مشاہیر کی وفات پر اظہار کیا گیا ہے۔ شادانی نے جن شخصیات کے مرثیے لکھے ان میں اقبال ؒ محمد علی جناح،مولانا ظفر علی خانؒ ،مولانا مودودی ،عبدالمجید سالک ،پروفیسر حمید احمد خان ،مولانا صلاح الدین ،احسان دانش،محمد طفیل (مدیر نقوش) اور ان کی والدہ مرحومہ اہم ہیں ۔شادانی نے قومی و ملی اور ادبی شخصیتوں کوا س لیے موضوع بنایا ہے کہ ان کے دل میں قوم کا درد موجود ہے۔ ان کے مرثیوں میں موزونی الفاط خاص طور پر متاثر کن ہیں ۔وہ شخصیات کے شایان شان الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
حواشی و حوالہ جات
1۔     مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔مرثیے کا لفظ رثا سے نکلا ہے ۔”رثا“ کے معنی وفات پانے والے فرد پر  غم و الم کا اظہار کرنا اور اس کی خوبیاں بیان کرنا  ہے۔ مرثیہ کی صنف عربی ادب سے فارسی ادب  اور فارسی ادب سے اردو ادب  میں آئی ہے ۔ اردو ادب میں  بہت سی عظیم شخصیات کے مرثیے   پائے جاتے ہیں۔
2۔    علامہ اقبال،کلیاتِ اقبال،اقبال اکادمی ،پاکستان ،لاہور،2009ء،ص۔398
3۔    ایضاً،ص۔439
4۔     ایضاً،ص،391
5۔     ایضاً،ص۔490
6۔    مولانا ظفر علی خان،حبسیات،مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ،لاہور،2008ء،ص،97
7۔    مولانا ظفرعلی خان،کلیاتِ ظفرعلی خان(بہارستان)،الفیصل ناشران، لاہور، 2007ء، ص،566
8۔     فیض احمد فیض،نسخہ ہائے وفا،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،1986ء،ص،215
9۔     خلیق حسین ممتاز،اساس فکر ،طہٰ پبلی کیشنز،لاہور،2005ء،ص، 52
10۔     ایضاً،ص 58
11۔     ایضاً،ص 66
12۔     ایضاً،ص 158
13۔     خلیق حسین ممتاز،فکر مؤدت، اردو بازار لاہور،2014ء،ص 114
14۔     ایضاً،ص 158
15۔     سید زاہد حسین بخاری، سرخی ِ خون ِ شہیداں ،سرخیِ خون شہیداں اردو بازار، لاہور،،ص،70
16۔     رشید آفریں،فخر دو عالم ؐ،الحمد پبلی کیشنز لاہور،2013ء،ص،145
17۔     سید عدید،پیار بے اختیار ہوتا ہے،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،1999ء،ص۔150
18۔     ایضاً،ص۔130
19۔     ایضاً،ص۔135
20۔     محمود پیر زادہ،مسودہ (کمالِ کن)،زیر طبع،انٹرویو،24 دسمبر 2021ء
21۔     اعجاز عزائی،مسودات، عزائی ،اعجاز عزائی کے کافی مسودات ہیں جو زیر طبع ہیں۔انٹرویو:محمود حید ر پیر زادہ ،24 دسمبر 2021ء
22۔     ظفر علی خاں، ’’کلیات ِ ظفر علی خاں‘‘ (بہارستان)،لاہور‘ الفیصل ناشران،2007ء ،ص۔38
23۔     ظفر علی خاں، ’’کلیات ِ ظفر علی خاں‘‘،ص۔50
24۔     طفیل ہو شیار پوری،’’جامِ مہتاب‘‘ احسان اکیڈمی ،لاہور،1975ء،ص :129
25۔     ایوب صابر،مسودہ سلام،انٹرویو ایوب صابر ،24 دسمبر 2021ء

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...