Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > سیالکوٹ میں اردو غزل اقبال سے صابر ظفر تک

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

سیالکوٹ میں اردو غزل اقبال سے صابر ظفر تک
ARI Id

1688388584597_56116241

Access

Open/Free Access

Pages

153

سیالکوٹ میں اردوغزل (اقبال سے صابر ظفر تک)

علامہ اقبالؒ کی شاعری کا ایک بڑا حصہ غزلیہ اشعار پر مشتمل ہے۔بانگِ درا،بالِ جبریل  اور ضربِ کلیم شعری مجموعوں میں اقبالؒ کی کثیر تعداد میں غزلیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ان میں کچھ مسلسل غزلیں بھی  ہیں جن میں ایک ہی طرح کے مضامین ملتے ہیں۔اقبالؒ داغ دہلوی کے شاگرد تھے ان کی ابتدائی شاعری پر داغ کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔"باقیاتِ اقبال "کے نام سے مختلف محققین نے اقبالؒ کا جو منسوخ کلام  مرتب  کیا ہے ان پر بھی داغ کا رنگ واضح نظر آتا ہے۔بانگ ِ درا کی کچھ غزلوں میں بھی داغ کا اندازِ بیان دیکھا جا سکتا ہے۔اگرچہ اقبالؒ کی غزل کے مضامین کلاسیکل اور روایتی شاعری سے منفرد ہیں لیکن کہیں کہیں کلاسیکل اور روایتی رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے کلام ِ اقبال ملاحظہ ہو:
مانا کہ تیری دید کے قابل  نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہگزر میں نقش کف پائے یار دیکھ1
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی2
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق
چارہ گر دیوانہ ہے ،میں لادوا کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا3
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کو ن سی بستی کے یا رب !رہنے والے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا ،نرالے میرے نالے ہیں4
اقبالؒ کی غزل میں نظم کا رنگ بھی  نمایاں ہے جو موضوعات نظم میں پیش کئے گئے ہیں ان کا اظہار غزل میں بھی ملتا ہے۔اس حوالے سے اقبالؒ کی مسلسل غزلیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اقبالؒ کی بال ِ جبریل اور ضربِ کلیم کی غزلوں کا رنگ  ابتدائی غزلیہ شاعری سے مختلف ہے۔ ابتدائی غزلیہ شاعری میں عشقِ مجازی جبکہ بعد کی غزلوں میں عشق حقیقی کے مضامین دیکھے جا سکتے ہیں۔ آخری دورکی غزلوں میں صوفیانہ تصورات،عقل و عشق،مشاہدہ کائنات،تسخیرِ کائنات، فکروتدبر، فلسفہ خودی، کلاسیکیت،مذہب،اخلاقیات ،مناجات ،استغاثہ اور سیاست جیسے موضوعات نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے کلام ِ اقبال ملاحظہ ہو:
گلزار  ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ5
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لئے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لئے
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لئے
اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ ! یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لئے 6
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
 کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتاہوں 7
اے بادِ صبا!کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی
نکلی تو لبِ اقبال سے ہے ،کیا جانئے کس کی ہے یہ صدا
پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی،دل محفل کا تڑپا بھی گئی8
پختہ ہوتی  ہےاگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہےخام ابھی
بے خطر کو د پڑا آتش نمردو  میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب ِ بام ابھی9
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر،قلب و نظر شکار کر
عشق بھی حجاب میں ،حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہویا مجھے آشکار کر
باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے،اب مرا انتظار کر10
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم ِ من و تو
پلا کے مجھ کو مے ءلاالہ الاھو11
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے مرا مقام اے ساقی!
تین سو سال سے ہیں ہند میخانے بند
اب مناسب ہے،ترا فیض ہو عام اے ساقی12
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے فروش ہو تو نوائے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں13
حکیم شجر طہرانی کی غزل اپنے دور کے تمام رجحانات و موضوعات سے مزین ہے۔ شجر نے غزل کی جس فضا میں آنکھ کھولی اس میں غالب کا تفکر’ مومن کی نفسیاتی معاملہ بندی’ ذوق کا صاف ستھرا انسانی ذوق’ حالی کی جدتِ فکر’ داغ کی زبان اور عشق بازیاں موجود تھیں۔ شجر کی غزل صرف روایتی غزل نہیں بلکہ طرزِ بیان کی جدت و ندرت نے اس میں ایک نیا پن پیدا کر دیا ہے۔شجر محبوب کے لب و رخسار’تِل ’ پیرہن’ غنچہ’ دہن ’ گیسو اور اعضائے جسمانی کے حسن کے ذکر سے اپنے غزلیہ اشعار کومزین کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ شعر ملاحظہ ہوں:
آئینہ اور آئینہ وش اس طرح ہیں رو برو
اِک مجسم نور ہے اِک نور کی تصویر ہے14
یہ شام و سحر اور شب و روز کیا ہیں
تری زلف کی تیرے آنچل کی باتیں15
مثال لعل و گہرہیں ترے لب و دنداں
نظر نے لعل کو دل نے گہر کو چوم لیا16
شجر کی غزل میں جمالیاتی پہلو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ جمال ہیئت ’ معانی اور صورت کی رعنائیوں سے اجاگر ہوتا ہے۔ شجر کی غزل موضوع’ مواد’ ہیئت اور جمالیاتی مفتضیات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
کلیاں قبا دریدہ ہیںگل چاک پیر ہن
لاتا ہے رنگ جوشِ بہاراں نئے نئے 17
تم حسن ہو یا حسن کے انداز کا اعجاز
سو سحر کا اِک سحر ہے اعجاز کا اعجاز18
جدید شعرا کی اکثریت شعر کو ابہام اور جدیدیت کی چاہ میں مبہم اور پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ شجر کا تعلق اس گروہ سے ہے جو شعر کو معمہ اور چیستاں نہیں بناتے بلکہ وہ اپنی قلبی واردات کا انکشاف سیدھے سادے لفظوں اور اسلوب سے کرتے ہیں۔ شجر کی غزل میں بے ساختگی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ اسی ہنر کی وجہ سے ان کی شاعری میں سہل ممتنع کی خوبی پیدا ہوئی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:
آپ ہم سے ملا نہیں کرتے
ہم تو اس کا گلہ نہیں کرتے 19
تم کتنے بے وفا ہو تم کتنے دلربا ہو
کچھ آپ اپنے دل سے کچھ میرے جی سے پوچھو20
پکار اٹھے گا ہر قطرہ لہو کا
مگر زخمی تمہارے لب رہیں گے 21
ساری دنیا کے الجھاؤ
اِک تمہاری زلف کی الجھن 22
شجر کو زندگی میں پے در پے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے ہر حال میں رجائیت اور امید پرستی کا دامن تھامے رکھا۔ وہ شام سے مایوس نہیں ہوتے کیونکہ انہیںیہ امید ہے کہ ہر شام کے بعد ایک سحر بھی آتی ہے۔ شجر کی غزل میں رجائیت کا عنصر ان کے حوصلے اور عزم کی دلیل ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:
گر جلایا کہیں نشیمن پر نشیمن بجلیاں
ہم بناتے ہی رہے کاشانہ’ کاشانے کے بعد 23
ایک تغیرِ مسلسل ہے نظامِ زندگی
شام آتی ہے تو آئے کہ سحر بھی ہو گی24
چشمِ خونبار کو ہے گریۂ پیہم سے یقیں
اشکِ نیساں میں کوئی بوند گہر بھی ہو گی25
شجر کے شعر میں غنائی لہجہ بھی موجود ہے۔ ان کی غزل میں الفاظ کے علاوہ موسیقیت اور غنائیت کا احساس کثرت سے ہوتا ہے۔ شجر نے غنائی الفاظ لمبی بحروں اور متناسب و مترنم ردیفوں اور مصرعوں کے متناسب ٹکڑوں سے غنائیت پیدا کی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یہ بھوک بھی’ پیاس بھی’یہ اضطراب و بے کلی
بہرِ خدا پئے رضا صبح سے لے کے شام تک
غنچہ و گل ہیں خشک لب’ باغ و فضائے باغ سب
تھکی تھکی ہوئی ہوا’ صبح سے لے کے شام تک26
شجر نے اپنی طویل عمر میں متعدد انقلابات دیکھے۔ اجڑے لوگوں کو بستے اور ہنستے بستے لوگوں کو روتے اور ویران ہوتے دیکھا۔ حالات کے بدلتے تیوروں نے دنیا اور زندگی پر سے ان کا اعتماد متزلزل بنا دیا تھا۔ ان کی غزل میں زندگی سے کسی قدر بیزاری اور دنیا کی بے ثباتی کا احساس بھی ملتا ہے بے ثباتی کے حوالے سے شجر یوں رقمطراز ہیں
آسماں سے کر نہ باتیں’ سربلندی پر نہ پھول
خاک ہونا ہے شجر سب کچھ ابھر کر خاک سے27
رات کی رات ہے اور زندگی بھر کے ارماں
کیسے نپٹے گا قیامت کا سفر رات کی رات 28
آسماں ’ آسماں نہیں ہوگا
اور نہ ہوگی زمیں ’ زمیں کل تک 29
شجر غزل میں تغزل کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ شجر کی شاعری میں تغزل کے سبھی رنگ’ انداز اور مضامین پائے جاتے ہیں۔ تغزل کے حوالے سے شجر کے مسودات میں سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
رات کو تارے مرے حال پہ روئیں’ دن کو
چشم خورشید میں نم ہو تو غزل کہتا ہوں 30
غزل رنگ میں ہے لالائے صحرا
غزل گنگا کاجل کومل کنول ہے 31
شجر نے اپنی غزل میں فنی محاسن سے بھی کام لیا ہے۔ صنائع بدائع اور تشبیہ و استعارات کے استعمال نے غزل کے معنوی اور صوری حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ شجر کی تشبیہ زندگی سے مربوط ہے اور استعارے بھی ہمارے سامنے کے ہیں۔ شجر کی شاعری میں ضرب المثل ’ تلمیحات اور محاورات کا بھرپور استعمال ملتا ہے۔ کچھ شعری مثالیں دیکھئے:
آنکھ کی کشتی میں’ نظارہ دریا بھی کر
دیدنی ہے سیلِ اشک اب تو امڈ آنے کے بعد 32
جنوں کی داستاں کیسے سناؤں
بگولے مانگ کر صحرا سے لاؤں33
اندھیرے میں اڑا جگنو کہ آنسو آنکھ سے پھوٹا
کہ ٹوٹا آسماں سے کوئی تارا غور سے دیکھو34
کوئی تیل اور تیل کی دھار دیکھے
کہ بہتے لہو کا ہے دھارا زمانہ 35
گڑ کھا کر جو مرے ہے اسے سنکھیانہ دے
ہو مارنا تو مارئیے کتے کو گھی کے ساتھ 36
تمام رات جو آنسو بہاتے رہتے ہیں
تمہارییاد کی شمعیں جلاتے رہتے ہیں37
شجر نے ہندی فارسی تہذیب میں زندگی گزاری ان کی غزل پر ہندی تہذیب اور زبان کے گہرے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
موہن کے مدھ ماتے نیناں تیکھے بان چلائیں
پریم کے لو بھی’ مورکھ پنچھی تن من بھینٹ چڑھائیں
پھول تیرے نینوں کی مدھرتا’ ہونٹوں کا رس پائیں
پریم کی لے میں ایسے جھومیں’ کانٹوں پر سو جائیں38
شجر اپنے پیش روؤں اور ہم عصر شعرا خصوصاً غالب’ داغ اور اقبال سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ اقبال کا اثر شجر کی غزل اور نظم پر زیادہ ہے۔ شجر داغ سے براہِ راست اور غالب سے بالواسطہ متاثر ہیں۔ غالب کے مختلف شعروں کے مفاہیم شجر کی شاعری میں واضح نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
چاہیے انسان تو ملتا ہے کوئی ڈھونڈے سے
یوں تو سب آدمی انسان نظر آتے ہیں39
اسے صدف حاصلِِِ اولاد شکم چاکی ہے
تجھ پہ کھل جائے گا قطرے کے گہر ہونے تک 40
اِک بار نکلے خلد سے پر تیری بزم سے
ہم سے تو یہ سلوک مگر بارہا ہوا41
مولانا طفر علی خان کی شاعری میں بھی غزلیہ عناصر پائے جاتے ہیں۔ جنگِ عظیم کے بعد کی تاریک فضا میں جہاد آزادی کے لیے جذبۂ ایمانی اور سرفروشی تھا جس کی بدولت ترکوں اور افغانوں کو اغیار کے پنجۂ ستم سے نجات ملی۔ ظفر نے انہی واقعات سے متاثر ہو کر پر تاثیر اشعار لکھے ہیں۔ پس منظر ہنگامی واقعات کا ہے مگر فکر و احساس میں آفاقی رنگ جھلک رہا ہے۔ قطع نظر موضوع کی وسعت و ہمہ گیری کے ان اشعار میں تغزل کا انداز بھی لطف و کیف پیدا کر رہا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
غمِ امت میں ہے چشمِ پیغمبرؐ اشکبار اب بھی
گہر بیزی میں ہے معروف’ ابر نو بہار اب بھی
ہوا ہے دامن گل چیں ہی کو تہ ورنہ گلشن میں
وہی ہیں لالہ و گل اور وہی ان کی بہار اب بھی
سلیقہ مے کشی کا ہو تو کر سکتی ہے محفل میں
نگاہ لطف ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی42
مولانا ظفر علی خان نے فنی لحاظ سے غزل یا قطعے کے پیمانے کو زیادہ اختیار کیا ہے۔ ظفر کے کلام میں چند غزلیں بھی مل جاتی ہیں مگر بے کیف۔ حسن و عشق کے معاملات سے انہیں کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ وہ کوچہ ہوا و ہوس سے دور رہے۔ غزل کے پیرائیہ بیانیعنی تغزل کو اپنے کلام میں اس طرح برتا ہے کہ اس کی مثال یا تو اکبر کے ہاں ملتی ہے اور یا ہم عصر اقبال کے ہاں۔ تغزل کی وضاحت کے لیے ان کی نظم ‘‘انتظارِ سحر’’ کے استعاروں’ کنایوں اور تلمیحوں پر غور کرتے ہوئے اس کے ایمانی انداز پر غور کریں اور پھر ظفر کے اشعار میں حسنِ تغزل کو دیکھا جا سکتا ہے۔
غمِ امت میں ہے چشم پیغمبرؐ اشکبار اب بھی
گہر بیزی میں ہے مصروف ابر بہار اب بھی
ہوا ہے دامن گل چیں ہی کو تہ ورنہ گلشن میں
وہی ہیں لالہ و گل اور وہی ان کی بہار اب بھی
دل وحشی سے اس پھندے میں الجھا ہی نہیں جاتا
ہے برہم ورنہ پہلے کی طرح زلف نگار اب بھی43
 مولانا ظفر علی خان کسی زمین میں بند نہیں تھے۔ کوئی موضوع ہو کوئی اسلوب ہو وہ ہر جگہ قادر الکلام تھے۔ اُن کے کلام میں آمد ہے آورد کو دخل نہیں ہے وہ بدیہہ گو شاعر تھے۔ قافیہ اور ردیف پر انہیں بڑی قدرت تھی۔ وہ قافیہ پیمائی نہیں کرتے۔ تشبیہہ’ استعارہ’ تلمیح’ تمثیل اور شعری صنائع بدائع ان کے ہاں التزاماً نہیں آتے بلکہ بحر سخن کی روانی میں خود بخود بہتے چلے آتے ہیں۔ وہ اپنے فن پر خود بھی دعویٰ کرتے ہیں۔
مبرا ہے کلام آورد کے اسقام سے میرا
مرے اشعار کی آمد میں دریا کی روانی ہے
ظفر کا شعری اسلوب ان کی صحافت اور خطابت سے بہت متاثر ہے۔ صحافت اور خطابت کے ان تقاضوں نے ظفر میں بدیہہ گوئی کے وصف کو خوب اجاگر کیا جس کے لیے وہ اردو شاعری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ سنگلاخ زمینوں’ مشکل قوافی سے عہدہ بر آ ہونے کے علاوہ بندش الفاظ’ روزمرے اور محاورے کا جس فنی مہارت سے استعمال کیا اس کی مثال اردو شاعری میں کم ہی ملے گی۔ نادر اور اچھوتے قافیے لانے اور ان کو برجستگی کے ساتھ کلام میں کھپانے میں ظفر کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ سنگلاخ زمین اورکچھ نادر قافیے ملاحظہ ہوں:
زمین سنگلاخ اکبر نے کیسی منتخب کی ہے
کہ مشکل ہو گیا اس میں قوافی نو بہ نولانا
چلی لندن سے اک آندھی چمن میرا اڑانے کو
غضب ہے اس میں کرزن کابگولا بن کر بولانا
بہایا کفر کو جس نے خس وخاشاک کی صورت
اسی دریا کی ہاں اے نا خدا پھر ایک رولانا 44
محمد دین  فوق کی غزلیہ شاعری میں تغزل کے نمونے بکثرت ملتے ہیں۔تغزل غزل کی بنیادی خوبی ہے۔ فوق کی غزل میں فکرو خیال کے متعدد زاویے موجود ہیں اور انہوں نے ان زاویوں کو حسنِ اظہار کے متنوع اسالیب میں بیان کیا ہے اور تغزل کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹتا نظر نہیں آتا
کہہ نہیں سکتے زور سے کچھ ہم
بات مانو تو مہربانی ہے45
آیا بھی گیا بھی دم زدن میں
جھونکا تھا کہ تھا شباب کا جوش
اے شرمِ گنہ نہ کر کنارہ
اے رحمتِ خاص کھول آغوش46
فوق کی غزل میں روایت بھی موجود ہے۔ موضوعات غزل میں اور اسالیب اظہار و بیان میں ان کے ہاں روایت کی چھاپ بہت گہری ہے روایت کے حوالے سے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں:
کہتے ہیں قصہ ترا سنتے کس لئے
وہ کوئی افسانہ آرائشِ محفل نہ تھا
ہم بڑی مدت سے سنتے تھے کہ ہے دیندار فوق
جب اسے پرکھا تو وہ دنیا کے بھی قابل نہ تھا47
ہر شاعر اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ معاشرتی احساس ہی مقیاس فن اور معیارِ ہنر ہے۔ فوق کی غزل میں بھی گہرے معاشرتی احساس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
بتائے زورِ فہم و عقل سے راز نہاں تو نے
خدائی کی دکھائی شان مشت استخواں تو نے
کبھی سرمایہ داروں کو بھی کھینچ اپنے شکنجہ میں
غریبوں پر زمیں کیوں تنگ کر دی آسماں تو نے 48
آگے چل کر ابھی دیکھو گے جو ہیں فعل یہی
دہرِ پر فتنہ میں آفت ابھی کیا آئی ہے49
فوق نے اپنی نظم کے ساتھ ساتھ اپنی غزل میں بھی داخلی اور ذاتی حالات تفصیلاً بیان کئے ہیں۔ فوق کے ذاتی حالات کی عکاسی زیادہ تر ان کے مقطعوں میں ہوئی ہے۔ ان اشعار سے ان کی زندگی کے کئی گوشے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
فوق پھر تیرا سخن مقبول عام کیوں نہ ہو
فیض ہو تجھ پر اگر کچھ داغ سے استاد کا50
اے فوق شاعری کو ادب سے سلام کر
صورت نکال جا کے کہیں روزگار کی51
انگلش زبان ہی سے جو آشنا ہو تم
اے فوق پھر ایڈیٹر اخبار کیوں ہوئے52
نظم اقبال بھی بے چین تو کرتی ہے مگر
تیرے اشعار بھی اے ذوق مزا دیتے ہیں53
غزل میں حمدیہ و نعتیہ اشعار کہنا اردو غزل کی مسلمہ روایت ہے۔ فوق کی بے شمار غزلوں میں حمدیہ و نعتیہ اشعار پائے جاتے ہیں۔
باغ عالم میں عجب رنگ دکھایا تو نے
درس عرفان ورق گل میں پڑھایا تو نے
طور پر حضرت موسیؑ کو جو آیا تھا نظر
مجھ کو ہر رنگ میں وہ جلوہ دکھایا تو نے 54
یوسف مصر بھی گر آئے زلیخا ہو کر
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ترا شیدا ہو کر
مدد اے جلوہ نظارہ محبوبِ خدا
آنکھیں بے کار ہوئی جاتی ہیں بینا ہو کر55
امینِ حزیں نے اپنی شاعری میں اپنے مفکرانہ انداز کے ساتھ تغزل کو بھی قائم رکھاہے ۔انھوں نے اپنی شاعرانہ معنی آفرینیوں سے تقریباً تمام علامات اور شعری روایات کے مفہوم کو بدل دیا ہے۔ ان کے یہاں گل و بلبل’ زلف و رخسار’ جام و ساقی’ عشق و محبت کا شاعرانہ تصور اور ان کی جذباتی کیفیات بالکل مختلف ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

دل کی بیتابیوں کے عالم کا
زندگی نام رکھ دیا کس نے56
جن نگاہوں میں ہے سرور جہاں
ہیچ ہے ان کے آگے میخانہ57
پیار ہوتا ہے جس سے اے پیارے
اس کو ہی بار بار دیکھتے ہیں58
کیایہی دل ہے؟ جس کو پہلو میں
ہم امیں بے قرار دیکھتے ہیں59
حسن کی مٹھی میں دل ہو تو غزل ہوتی ہے
سوز سے موم یہ سل ہو تو غزل ہوتی ہے60
امینِ حزیں کو غزل کے فن پر عبور ہے۔ وہ شعریت اور ادبیت کو اپنے مقصد پر قربان نہیں کرتے۔ جذبات کی فراوانی’ تخیل کی بلند پروازی’ وارداتِ قلبی کی اثر انگیزی اور اندازِ بیان کی کرشمہ سازی امین کے اشعار میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
تری نوا میں تڑپ بجلیوں کی لہرائے
نگاہِ شوق دلِ بیقرار پیدا کر61
وہ ڈال کر مری آنکھوں میں آنکھیں کہتے ہیں
دلوں کے ساز کے یوں سر ملائے جاتے ہیں62
تری ہی قسم ذرے ذرے کے لب پر
ترا تذکرہ ہے تیری گفتگو ہے
پھڑک جائیں گے جس کو سن کر فرشتے
ابھی میرا وہ نغمہ زیرِ گلو ہے63
فراق اردو کلاسیکی و روایتی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ میلا رام وفا بھی روایتی شاعر ہیں ان کی غزل میں فراق کے حوالے سے بکثرت اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔
زندگی بھر یہ بلا پیچھا نہ چھوڑے گی مرا
آج جائے گی تو پھر آئے گی کل فرقت کی رات
صبح کا منہ دیکھنا میرے مقدر میں نہ تھا
میرا اندیشہ نہ تھا کچھ بے محل فرقت کی رات64
فلسفہ’ تخیل کی گہرائی اور مبالغہ آرائی بھی وفا کی شاعری کا حصہ ہیں۔ خصوصاً ان کی غزل میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
سرد سرد آہوں سے یوں آنسو مرے جمتے گئے
ہو گیا تعمیر اک موتی محل فرقت کی رات
کچھ نہیں کھلتا کہ آخر اس قدر لمبی ہے کیوں؟
وصل کے دن کا ہے جب ردِ عمل فرقت کی رات65
اردو کے ہر بڑے شاعر کے ہاں خاموشی ایک اہم موضوع رہا ہے۔وفا کی غزل میں بھی خاموشی کے عناصر ملتے ہیں۔
رہتا ہے وہ بت شکوۂ اغیار پہ خاموش
کہتا ہے تو کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہلاؤ نہ کچھ غیر کے تعارف میں تجھ سے
سمجھو تو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہنے کا تو اپنے ’ ہے وفاؔ آپ بھی قائل
کہنے کو یہ کہتا ہے’ کہ میں کچھ نہیں کہتا66
میلا رام وفا کی غزل میں خصوصاً عشق و جنوں کا اظہار بکثرت ملتا ہے۔عشق و جنون ہماری روایتی اور جدید شاعری کا اہم موضوع ہے۔وفا سچے عاشق ہیں اور عشق میں اپنی جان بھی قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
آندھیوں اور بگولوں سے کم نہیں تیرے دیوانے
خاک اڑاتے آتے ہیں خاک اڑاتے جاتے ہیں
آج سحر سے غیر بہت حال تیرے بیمار کا ہے
افسردہ افسردہ ہیں لوگ جو آتے جاتے ہیں67
اثر صہائی کی غزلیں سوز و گداز سے بھرپور ہیں۔غمِ محبت یا زندگی کی ناکامیوں کا غم چشمِ بصیرت کو بہت تیز کر دیتا ہے۔ حقائق و معارف کا صحیح احساس’ انسانی جذبات کی عمیق ترین گہرائیوں سے شناسائی اور تخیل کی بلند ترین چوٹیوں تک رسائی اس غم کی بدولت ہوتی ہے۔ اثر کے شعریمجموعے ‘‘راحت کدہ’’ کی غزلیں جس قدر سوزو گداز سے پر ہیں دوسرے مجموعوں کی غزلیں اس درد کو نہیں پہنچتیں۔ ‘‘راحت کدہ’’ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
رات کا قصہ مختصر ہے
صبح ہونے تک اشکبار رہی
راز سمجھا نہ کچھ گل خنداں
کس لیے شبنم اشکبار رہی68
دل بیٹھ نہ جائے یار غم سے
بیچارے کی کائنات کیا ہے
ہے چپ سی لگی ہوئی اثرؔ
معلوم نہیں کہ بات کیا ہے69
کیف و سرور و مستی غزل کا جزو اعظم سمجھی گئی ہے لیکن شاعر نے اس کا مفہوم اپنے اپنے خیال کے مطابق سمجھا ہے۔ اثرؔ کے تمام کلام میں خواہ وہ غزلیں ہوں نظمیں ہوں یا قطعات و رباعیات سب میں کیف و مستی پائی جاتی ہے۔
پلائے جا ساقیا ! پلائے جا انتظار کیا ہے
جو لڑ کھڑا جائے ایک دو ساغروں میں وہ بادہ خوار کیا ہے
چمن میں رقص طرب ہے برپا اٹھا لے اپنا رباب مطرب
عبثیہ انجمن ہے تیرے دل میں کہ پھول کیا ہیں بہار کیا ہے
ازل سے خورشید و ماہ کے جام بزمِ ساقی میں چل رہے ہیں
مرید پیرِ مغاں کی نظروں میں دور لیل و نہار کیا ہے 70
فلسفہ کی روح عقل’ مذہب کی روح عمل اور شاعری کی روح جذبات ہیں۔ اثرؔ جذبات پرست ہیں لیکن اثرؔ کی طبیعت میں خوشگوار توازن او ر اعتدال پایا جاتا ہے۔ جذبات کی پاکیزگی’ اندازِ بیان کی شگفتگی اور مضامین کی تازگی ان کی شاعری کی خاص خصوصیت ہے
پھر خندہ زیرِ لب آتا ہے اے اثرؔ
پھر جھک رہا ہے سر میرا عجزِ نیاز سے
پھر جگمگا رہی ہے مری بزمِ آرزو
دیکھا کسی نے پھر نگہ دل نواز سے
آنکھیں بجھی ہوئی ہیں تیری راہ گزر میں
آغوشِ شوق وا ہے تیرے انتظار میں71
اثرؔ کی شاعری میں تغزل کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا تغزل رچا ہوا اور پوری سنجیدگی و متانت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایسا تغزل ہے جسے خلوص کی شدت نے پر تاثیر بنا دیا ہے۔ اثرؔ کے مندرجہ ذیل اشعار سے صحیح تغزل کی مثال واضح طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے۔
ڈوبی ہوئی نگاہ ہے رنگ حجاب میں
یا کوئی نوشگفتہ کلی نیم خواب میں
رنگینیوں میں غرق ہوئی ہے نقاب بھی
تم ہو کہ آفتاب چھپا ہے سحاب میں
زیرِ نقاب بھی تو بہت بے نقاب ہو
ہو جاؤ بے نقاب کہ تم آفتاب ہو 72
عبدالحمید عرفانی نظم اور غزل کے شاعر ہیں ۔ان کی غزلیات چھوٹی بحروں میں ہیں کلام میں جاذبیت اور اختصار ہے۔ عرفانی کی غزل میں روایتی رنگ نہیں ملتا۔ ان کی غزل میں محبت اور واردات ِ محبت کا بیان کم ہے ۔ان کی غزل پر عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔
عرفانی کے عارفانہ کلام کے حوالے سے رخشہ نسیم اپنے مقالہ میں لکھتی ہیں:
ان(عرفانی) کے کلام میں جگہ جگہ عارفانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ کلام میں اتنی تاثیر ہے کہ ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اترجاتا ہے۔73
اختصار و جاذبیت اور معرفت کے حوالے سے ‘‘کلیاتِ عرفانی’’ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
حسن صبح بہار ہے تیرا
لالہ زر نگار ہے تیرا
میں ہوں اور کچھ شکستہ امیدیں
اور جہاں پر بہار ہے تیرا
جس کو اپنی خبر نہیں کوئی
کیا وہی راز دار ہے تیرا74
بشیر چونچال سیالکوٹی نے صنفِ غزل کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ غزل اور بالخصوص مزاحیہ غزل بڑی ریاضت مانگتی ہے ۔چونچال نے زلف غزل کی مشاطگی میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ بالعموم چھوٹی بحر استعمال کی ہے۔ زبان نہایت چست اور انداز بیان نہایت نپا تُلا ہے۔ غزل کے لطیف تلازموں کی رعایت کا ملاًملحوظ رکھی ہے۔ کمیت سے زیادہ کیفیت کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اور اپنے نظریہ فن پر بھرپور عمل کیا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
مت پڑھو بزم میں غزل جب تک
گیسوئے شعر کو سنوار نہ لو
شعر دو چار ہوں مگر ستھرے
قافیہ ہائے بے شمار نہ لو 75
چونچال کی غزل میں کہیں تقصید نظر نہیں آتی۔ زبان کے سادہ اور فطری بہاؤ میں کوئی گرہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:
نازو ادا و غمزہ و چشم فسوں طراز
دل کا مقابلہ ہے ترا آدمی کے ساتھ 76
اُردو غزل فارسی کا تسلسل ہے ۔فارسی زبان کا سہارا لیے بغیر اب بھی اس کا قدم اُٹھانا محال ہے۔چونچال نے اس روایت کو اس قدر ملحوظ رکھا ہے کہ ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ میں نے غزل کو اصفہان کی سڑک پر چلایا ہے۔ ان کی ترکیب سازی پر فارسی کا ہی نہیں عربی کا بھی گہرا اثر ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے بڑی ہُنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے استعمال کی ہوئی کچھ تراکیب؛چشمِ بم فگن،بارِ سنگِ اخراجات، خنجرِ تکفیر،بیمار خود ستائی، وقفہِ اظہارِ مدعا،ہنگامہ ِافرایش تولید،قفلِ حسد،تلقینِ ریش،جرأ تِ تکذیبِ حق،محرومِ ذکرِ ربِّ صمد، گنجینۂ شبہات ،کشتِ مملکت،درِ لب ہیں۔اُن کے ہاں لفظی مزاح کے حوالے سے بھی اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:
نظم لکھ کر وہ نظامی بن گئے
میں غزل کہہ کر غزالی ہو گیا77
فیضاحمد فیض نے غزل میں کلاسیکی انداز کوقائم رکھا اور نئے مضامین بھی پیش کیے ۔انھوں نے سیاسی مضامین و موضوعات بیان کرنے میں بھی تعزل کا سہارا لیاہے۔ فیض ایک منفرد لہجے اور جمالیاتی و رومانی انداز کے شاعر ہیں ۔وہ بیسویں صدی کے ایک ایسے انقلابی شاعر ہیں جن کے ہاتھوں پر رومانیت اور سماجیت کے چراغ فروزاں ہیں ۔ان کے غنائی لہجے میں اتنی تاثیرہے کہ انھیں ہیتی تجربوں کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔فیض کے ہاں رومان اور انقلاب یکجا ملتے ہیں۔ فیض نے اپنی غزلوں میں وطن سے محبت اور مظلوم انسانوں سے محبت کا ذکر خالص رومانی لہجے میں کیا ہے ۔ ان کے ہاں جس محبوب کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی ایک ہتھیلی پرحنااور دوسری ہتھیلی پر لہو کی چمک نظر آتی ہے۔ فیض کی شاعری کا بڑا موضوع محبت اور زندگی کی اجتماعی جدوجہد کی واردات ہے۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے78
فیض کی شاعری کے ابتدائی دور میں فیض کا موضوع جنسی محبت ہی ہے۔ اس میں کوئی اعلیٰ و ارفع جذبہ موجود نہیں ہے۔ فیض کے ہاں غمِ دوراں اور غمِ جاناں ایک ہی پیکر شعر میںیکجا ہیں۔ فیض کے نزدیک ادب کی دنیا ٹھوس خارجی دنیا ہے۔ رومانویت ،انقلاب،اور حسن و عشق کی وارداتیہ سب زندگی کے حوالے سے فیض کی شاعری کا جزو بنتے ہیں ۔ فیض کا فنی کمال یہ ہے کہ انھوں نے کلاسیکیت اور رومانویت کو قالب شعر میں ڈھال کر ایک منفرد اسلوب اور لہجہ تخلیق کیاہے۔فیض نے تشبیہات و استعارات رومانی استعمال کیے ہیں۔ وطن کو اپنا محبوب قرار دے کر وطن سے محبت کا اظہار اس طرح کیا ہے۔ جس طرح کوئی اپنے محبوب سے عشق کر رہا ہو۔
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمع کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں پہ مارے گئے
جب گُھلی تری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے79
فیضؔ میر تقی میرؔ کی طرح عشق کے زخم خوردہ تھے۔ اپنی زندگی کے پہلے ہی عشق میں ناکامی کا غم فیض کو ساری زندگی رہا۔ اس عشق کا اظہار طرح طرح ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔
ویراں ہے مے کدہ ، خم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
دنیا نے تیرییاد سے بیگانہ کر دیا
تُجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے80
فیض کی غزل میں غنایت،شگفتگی اور رنگینی و رعنائی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ زندگی کی سچی مسرتوں سے ہم کنار ہونے کو زندگی کاحاصل سمجھتے ہیں ۔ فیض کے ہاں صرف بزمِ حبیب میں جانے کے خیال سے رنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو! اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگین ہے نہ مے خانے کا نام81
فیض کی غزل  جمالیاتی عناصر سے بھی بھری ہوئی ہے۔ زنداں میں فیض کا جمالیاتی مشاہدہ انھیں ایک خوبصورت ذوقِ جمال کا مالک بنا دیتا ہے۔ جمالیات کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
قفس ہے بس میں تمہارے ،تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم
ہماری بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوت ہزار کا موسم82
طفیل ہوشیار پوری بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں ۔طفیل کی شاعری میں اعلیٰ درجے کاتغزل ملتا ہے۔ سادہ سی بات کو غزل کے لب و لہجہ میں اظہار کی توانائی اور اثر انگیزی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔طفیل کی غزلوں کے علاوہ ان کی نظموں میں بھی متغزل کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔طفیل کی غزلوں میں موجودتغز ل ہی کے باعث ان کے اشعار دل کی گہرائیوں تک اتر جاتے ہیں۔ ان کی کچھ غزلیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
اب تو آ جاؤ کہ رسوا ہو نہ جائے ظرف دل
ضبط غم کے مرحلے آہ و فغاں تک آ گئے83
طے کر رہا ہوں دشتِ محبت کی منزلیں
غم کے بغیر کوئی شریکِ سفر نہیں
وقت کی گہرائیوں میں ڈوب کر اُبھرا ہے کون
اب کے بچھڑے ہم ملیں گے پھر خدا جانے کہاں84
طفیل کی شاعری میں مادہ پرستی پر گہری طنز ملتی ہے۔ نت نئے سائنسی اکتشافات نے انسان سے انسان کا رشتہ کمزور کر دیا ہے۔مادی ترقی نے روحانی تقاضوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ روحانی تقاضوں کو نظر انداز کر کے کی جانے والی ترقی کو کسی صورت ترقی قرا ر نہیں دیا جا سکتا۔ طفیل نے اس  موجودہ دور کی نام نہاد ترقی پر کھل کر تنقید کی ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ابھی تو خاک کے پردے التفات طلب
ابھی ارادہ تسخیر کائنات نہ کر
ذروں کے جگر چیر دئیے فکر و نظر نے
مستور ہے وہ جلوہ گہ ناز ابھی تک85
طفیل ایک محب وطن انسان تھے۔ انھوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ پر اپنے دلی احساسات و جذبات کا یوں  اظہار کیا ہے:
جو نا خداؤں کی فکر و نظر سے ڈوبے ہیں
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں ان سفینوں کو
نا خداؤں کا کرم کہیے طفیلؔ
رہ گئی طوفاں میں کشتی ڈول کر86
اصغر سودائی کی غزل میں کلاسیکی روایت کا ایک بھر پور احسا س ملتا ہے۔ اس میں اردو غزل کے نمایاں لہجوں کا دلکش رچاؤ ہے۔ جسے انھوں نے اپنی ذہنی پختگی کی بنا پر بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی غزل میں سمویا ہے۔ کلاسیکی شعرا میں غالب ان کے پسندیدہ ترین شاعر ہیں۔ ابتدائی شاعری پر غالب کے اثرات ملتے ہیں۔اصغر نے ان کے رنگ میں شاعری بھی کی ہے۔
اپنے زخموں کو کریدیں تو ہمیں چین آئے
کوئی ہم سا بھی نہ آزاد طلب ہو جائے
ہائے وہ ہنگامہ ہائے روز و شب
ہم کہاں ہیں وہ نہ تھے جن کے لیے87
اصغر سودائی کی غزل میں عشق مجازی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کا محبوب بھی اردو غزل کا روایتی محبوب لگتا ہے۔ جو عاشق پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔ ان کی شاعری میں عشقیہ اشعار دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی روایتی عشقیہ داستان بیان کی جارہی ہے۔ ان کے ہاں حسرت کا ساانداز ابھرتا ہے کہ محبوب خود کو چھپاتا بھی ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے۔
جو دل کی بات زباں تک نہ لا سکے دونوں
ادھر حیا کا تکلف ادھر حجاب سا تھا
اس جان تماشا کو محتاط اگر دیکھو
رہ رہ کے نظر اٹھے بھر بھر کے نظر دیکھو88
تاب اسلم  اردو غزل کو حیاتِ دوام، جدت ،انفرادیت اور استحکام دینے والوں میں سر فہرست ہیں۔ وہ استعارے،اشارے اور علائم کے پردے میں اپنی قلبی وارداتیں ،جذبات اور ذہنی امور کی اس طرح ترجمانی کرتے ہیں کہ ان کے ہر قاری کو ان کی اپنی داستان کا گمان گزرتا ہے۔ زندگی کے نئے تقاضوں اور ضرورتوں نے تابؔ کو موضوعاتِ شعری کی ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
صورتِ مرگ ہے شہروں پہ شبِ درد محیط
اے نئے دن میں کہاں تک ترا رستہ دیکھوں
فاصلے پھیل گئے راہ میں صدیوں کی طرح
اب تو شاید مرا تجھ سے کبھی ملنا ہی نہ ہو89
تابؔ کی غزل میں جمالیاتی پہلو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ جمال ہیئت ،معانی اور صورت کی رعنائیوں سے اُجاگر ہوتا ہے۔ان کی غزل داخلیت سے عبارت ہے۔داخلیت ہی سے سوزو گداز پیدا ہوتا ہے۔ اسی داخلیت اور سوزو گداز سے رمزیت اور ایمائیت، موسیقی اور غنائیت جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں غزل کی جمالیاتی ہیئت کا وجود ہوتا ہے۔ تابؔ کی غزل موضوع ،مواد،ہیئت اور جمالیاتی حسن سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
عکس جس کے حُسن دلآویز کا پھولوں میں ہے
وہ کرن مہتاب کی اب تک مری آنکھوں میں ہے
رنگ دھنک کے چاند کی کرنیں تیرے نام
میرے خواب اور میری آنکھیں تیرے نام 90
تاب کی شاعری میں حسن و عشق کے عناصر بھی جا بجا ملتے ہیں۔ حسنِ محبوب ان کی شاعری کا ایک اہم موضوع بھی ہے۔ وہ حیات کے شاعر ہیں۔ وہ رنگ ،لمس ،خوشبو اور زندگی کے مختلف رنگوں کے عکاس ہیں ۔ وہ محبوب کے حسن کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔
نرم و نازک تیرے قامت کی طرح
پھول بھی ہیں تیری صورت کی طرح
ہونٹ تیرے، تیری آنکھیں، ترا چہرہ دیکھوں
میں ترییاد میں کھو جاؤں تو کیا کیا دیکھوں91
صابر ظفرؔ کے ہاں غزل حسن کار ی اور حقیقت نگاری کا ایک دلآویز سنگم بن کر نمودار ہوئی ہے۔ صابر کی غزل یقینا غزل کی کلاسیکی روایت سے پھوٹی ہے مگر اس نے اپنے دوسرے ہم سفروں کی طرح اس روایت میں اپنی شخصیت ،اپنا منفرد رویہ اور اپنے ہم عصر کی روح شامل کر کے ایک نئی روایت کی داغ بیل پڑنے کا امکان بھی پیدا کر دیا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا صابر ظفرؔ کی غزل کے بارے میں لکھتے ہیں:
نئی اردو غزل کا ذکر چھڑے تو بات صابر ظفرؔ تک ضرور پہنچتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے نئی غزل کی سمفنی میں ایک ایسی آواز کا اضافہ کیا ہے جو اس سے ہم آہنگ ہی نہیں۔ آوازوں کے جھرمٹ سے الگ بھی ہے۔ صابر ظفر ؔکے کلام میں ابھی سے ایک پائیدار نقش بننے کا وصف نمایاں ہو رہا ہے۔92
اردو غزل میں تسلسل بیان کے نئے قرینوں کی تلاش کے سلسلے میں صابر ظفرؔ نے بڑے متنوع تجریے کیے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی کوشش ان کا شعری مجموعہ ‘‘بارہ دری میں شام’’ہے جو طویل غزلیات پر مشتمل ہے۔ اس کی تمام غزلیں رومانی طرز احساس کی حامل ہیں ۔ جن میں عاشق و معشوق کی وصل و فراق سے سرشاری کے ساتھ ساتھ مختلف کیفیات محبت کو نظم کیا گیا ہے۔ جدیدحسیت سے مملو شاعری میںیہ اپنی نوعیت کا غالباً واحد تجربہ ہے جس میں آتشِ عشق کا گداز اور لذت گریہ کا تسلسل ایک خاص کیفیت پیدا کرتا ہے :
وہ پہلا پہلا تجربہ تھا عشق میں وصال کا
چلی جو سسکیوں بھری ہوا ،عجب عجب طرح
ہم ایک دوسرے کے سنگ سنگ بھیگتے رہے
اُٹھایا لطف بوند بوند کا عجب عجب طرح
سمجھ رہا تھا میں کہ وہ بہت کھٹور ہے
شباب سے عیاں ہوئی حیا عجب عجب طرح93
اُن کی غزلوں میں محض ایک عاشق کی آپ بیتی نہیں اس میں معشوق کا احوال بھی رقم ہے۔ جہاں عاشق کلام کرتا ہے وہاں معشوق بھی اپنی کیفیتوں کا اظہار ایک سرور، گداز اور سرشاری کے ساتھ کرتا ہے۔ گویایہ سلسلہ غزلیات عشق کا صحیفہ ہے۔ جس میں عاشق اور اس کے محبوب دونوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
رات ساری جاگتی سوتی رہی میں
ایک میٹھے درد میں ڈوبی رہی میں
رہ گئی تھی اس کی خوشبو پاس میرے
اپنی سانسیں اس سے مہکاتی رہی میں
فصل ایسی تھی ، سہاگن کوئی جیسے……
بیج وہ بوتا رہا اگتی رہی میں……
مہرباں بھنورا تھا یوں مجھ پر کہ جیسے
سارے گلشن میں فقط کھلتی رہی میں94
حواشی و حوالہ جات
1    ڈاکٹر محمد اقبال،کلیاتِ اقبال،اقبال اکادمی،لاہور،2009ء،ص:124
2    ایضاً،124-125
3    ایضاً،ص:126-127
4     ایضاً،ص:127
5    ایضاً،ص:124
6    ایضاً،ص:۔126-125
7    ایضاً،ص:131
8    ایضاً،ص:309
9    ایضاٍ،ص:310
10     ایضاً،ص:347
11    ایضاً،ص:352
12    ایضاً،ص:351
13     ایضاً،ص:312
14     شجر طہرانی ، نوائے سروش (مسودہ) ، ص: 20
15    ایضاً ،ص:30
16     ایضاً ،ص: 40
17     ایضاً،ص:53
18     ایضاً،ص:55
19    ایضاً،ص:68
20     ایضاً،ص:70
21     ایضاً،ص:72
22     ایضاً،ص:58
23     شجر طہرانی، مسودہ نمبر۱ ، ص:15
24     ایضاً ،ص: 18
25     ایضاً ،ص: 20
26     ایضاً ،ص: 25
27     ایضاً ، ص:30
28     ایضاً،ص: 27
29     ایضاً ،ص: 10
30     شجر طہرانی، مسودہ نمبر11، ص:20
31     ایضاً،ص: 35
32     شجر طہرانی، مسودہ نمبر ۲۴ ،ص :45
33     ایضاً،ص:15
34    ایضاً،ص: 75
35     ایضاً،ص: 50
36     ایضاً،ص: 35
37     ایضاً ،ص:20
38     ایضاً ،ص: 60
39     شجر طہرانی، مسودہ نمبر ۱۱ ، ص:27
40     ایضاً ،ص:40
41     ایضاً،ص: 50
42     ظفر علی خاں، کلیات ِ ظفر علی خاں(بہارستان)،لاہور’ الفیصل ناشران،۲۰۰۷ء ،ص: 414
43    ایضاً ،ص:106
44    ایضاً،ص:78
45     محمد دین فوق ،نغمہ و گلزار ،ص:120
46     ایضاً ،ص: 124
47     ایضاً ،ص: 229-230
48     محمد دین فوق،نغمہ و گلزار،ص:69
49     محمد دین فوق،کلامِ فوق ،ص:103
50     ایضاً ،ص: 11
51     ایضاً ،ص: 23
52     ایضاً ،ص: 60
53     ایضاً،ص:63
54    ایضاً،ص:123
55     ایضاً،ص: 135
56     امین حزیں، گلبانگِ حیات ،ص:181
57     ایضاً ، ص: 28
58     ایضاً، ص: 197
59    ایضاً،ص:197
60     امینِ حزیں،سرودِ سرمدی، ص: 39
61     امینِ حزیں،نوائے سروش ،ص:96
62     ایضاً ،ص: 98
63     امینِ حزیں،گلبانگِ حیات ، ص:188
64     ایضاً ، غزل نمبر 3
65     ایضاً ، غزل نمبر 3
66    ایضاً،غزل نمبر 4
67    ایضاً، غزل نمبر 2
68     اثر صہبائی،راحت کدہ، لاہور،تاج کمپنی لمیٹڈ۴۲ ۱۹، ص:11
69     ایضاً ،ص:35
70     ایضاً،ص:50
71    ایضاً،ص:77
72     اثر صہبائی،روحِ صہبائی،تاج کمپنی لیمیٹڈ،لاہور،1945ء،ص:11
73    رخشہ نسیم،سیالکوٹ میں اردو شاعری  بیسویں صدی کے دوران،مقالہ برائے ایم اے اردو،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور،1979ء،ص:60
74    ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی ،کلیاتِ عرفانی،ص:150
75    بشیراحمد چونچال سیالکوٹی،منقار،دوست پبلی کیشنز،اسلام آباد،2000ء،ص:51
76     ایضاً،ص:68
77     ایضاً،ص:40
78     فیض احمد فیض،نسخہ ہائے وفا(زنداں نامہ)،مکتبہ کارواں،لاہور،2010ءء،ص:25
79     ایضاً،ص :82-83
80     ایضاً،(نقش فریادی)،ص:57
81     ایضاً،(دستِ صبا)،ص:55
82     ایضاً،ص:32
83     طفیل ہوشیار پوری،‘‘شعلہ جام پر ایک نظر’’،مشمولہ‘‘شعلہ جام’’ از طفیل ہوشیار پوری، لاہور،احسان اکیڈمی،1978ء،ص :191
84     ایضاً،ص:156-157
85     ایضاً،ص:201:202
86     ایضاً،ص:131-132
87     اصغر سودائی ،‘‘چلن صبا کی طرح’’،لاہور،صدیقی پبلی کیشنز،۱۹۹۹ء،ص: 53-54
88     ایضاً،ص:71-72
89     تاب اسلم‘‘نقشِ آب’’،لاہور، مکتبہ عالیہ،1975ء،ص:80-81
90     ایضاً،ص:58-59
91     ایضاً،ص:54-55
92     ڈاکٹر وزیر آغا(سرورق)،‘‘ابتدا’’،از صابر ظفر،لاہور ،التحریر 1974ء
93     صابر ظفر،‘‘بارہ دری میں شام’’،کراچی ،دانیال ،۱۹۹۶ء ،ص:37
94     ایضاً،ص:56

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...