Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > مولانا ظفر علی خان کی ادبی خدمات

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

مولانا ظفر علی خان کی ادبی خدمات
ARI Id

1688388584597_56116242

Access

Open/Free Access

Pages

178

مولانا ظفر علی خان کی ادبی خدمات

مولانا ظفر علی خان (۱۹۵۶۔۱۸۷۳ء) سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے دیہات کوٹ مہرتھ میں پیدا ہوئے (1) آپ کے والد کا نام مولوی سراج الدین تھا۔ ابتدائی تعلیم مشن اسکول وزیر آباد سے حاصل کی۔ علی گڑھ کالج سے بی۔اے کیا۔(2)
علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر آرنلڈ آپ کے بہترین اساتذہ میں سرِفہرست تھے۔(3) مولانا ظفر علی خان کو حیدر آباد میں داغ دہلوی کی صحبت بھی میسر آئی لیکن علامہ شبلی کی نصیحت پر داغ کا رنگ اختیار نہ کیا۔(4)شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے صحافت میں بھی بڑا نام پیدا کیا۔ آپ نے ‘‘زمیندار’’ اور ‘‘ستارہ صبح’’ کے علاوہ بہت زیادہ اخبارات و رسائل نکالے جن کی شہرت سارے برصغیر میں پھیلی۔
ظفر علی خان کا پہلا شعری مجموعہ ‘‘بہار ستان’’ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں ان کی شاعری کا ابتدائی اردو اور فارسی کلام شامل ہے۔ یہ مجموعہ حمد باری’ نعت و استغاثہ’ اسلام’ اسلامی روایات’ ستارہ صبح کے دور کی نظمیں’ نوحے اور مرثیے جیسی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے۔
دوسرے شعری مجموعے کا نام ‘‘نگار ستاں’’ ہے۔ اس مجموعہ کلام میں سیاسی و فلسفیانہ شاعری’ طنزیہ نگاری اور صحافتی شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی مرصع کاری کے شاہکار نظر آتے ہیں۔ اس میں بہت سے معاصرین کے تذکرے اور قلمی خاکے موجود ہیں۔ ‘‘چمنستان’’ آپ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے اس مجموعے میں رطب و یا بس شامل نہیں ہے بلکہ یہ مجموعہ ان کے منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے میں ان کی وہ بہترین نظمیں اور قطعات ہیں جن کی سیاسی’ اسلامی اور معاشرتی لحاظ سے بڑی اہمیت ہے۔
ظفر علی خان کا چوتھا شعری مجموعہ ‘‘خیالستان’’ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں سیاسی نظمیں بالکل نہیں ہیں البتہ چھ غزلیں سیاسی وادبی رنگ لئے ہوئے ہیں۔ یہ مجموعہ نعت کے اہم حصوں پر مشتمل ہے۔ نعت گوئی ظفر علی خان کا پسندیدہ اور قابلِ فخر کارنامہ ہے جس سے انہوں نے شہرتِ عام اور بقائے دوام کا درجہ حاصل کیا۔ آپ کا پانچواں شعری مجموعہ‘‘حبسیات’’ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ مجموعہ ان اشعار پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنی اسیری اور نظر بندی کے دوران کہے۔ اس مجموعہ میں حمد’ نعت’ اخلاق’ سلف صالحین’ اخلاق مرتضوی ’ انسان کی آزادی’ اسلامی تصور’ صلیب و ہلال کی آویزش’ ایمان کی شناخت’ برطانوی سیاست پر چوٹیں جیسے آزادی کا بگل’ تخت یا تختہ کلیسا سے عیسوی اور گاندھی اہم نظمیں ہیں۔ ‘‘ارمغانِ قادیاں’’ ظفر علی خان کا چھٹا شعری مجموعہ ہے۔ ابتدائی ایڈیشن میں قادیانیت کے متعلق نظمیں اور قطعات بہارستان میں شامل تھے۔ بعد میں اس حصے کو الگ کر کے اس نام سے شائع کیا ہے۔ یہ اشعار قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کا نمونہ ہیں۔
ظفر علی خان کی شاعری سکول کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ آپ نے علی گڑھ کالج کے ادبی ماحول میں اردو اور فارسی شاعری کی مشق کو جاری رکھا۔ حیدر آباد کے علمی و ادبی ماحول میں ظفر علی خاں کی شاعری میں پختگی پیدا ہوئی۔ ادبی رسائل‘‘مخزن’’ ‘‘دکن ریویو’’ ‘‘پنجاب ریویو’’ ‘‘زمیندار’’ اور ستارۂ صبح’’ میں آپ کا کلام چھپتا رہا۔ جس سے انہیں ملک کے ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ حالی و شبلی جیسے شاعروں سے خوب داد ملی۔
جب ۱۹۰۵ء میں ان کی معرکتہ الآرا طویل نظم ‘‘شورِ محشر’’ مختلف رسائل میں شائع ہوئی اور الگ کتابچے کی صورت میں چھپی تو ادبی حلقوں میں ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔(5)
حمد و نعت ظفر علی خان کا محبوب موضوع ہے۔ حمد’ نعت اور تاریخِ اسلام کے روشن ماضی کے اخلاق آموز واقعات کا بیان ظفر علی خان کی شاعری کا مرکزی موضوع ہے جہاں ان کا قلم عقیدت و محبت کی پنہائیوں میں ڈوب کر گوہر آبدار تلاش کرتا ہے اور عالم انسانی کی رہنمائی کیلئے پیش کرتا ہے۔
خدا کی حمد’ پیغمبرؐ کی مدح’ اسلام کے قصے
مرے مضمون ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور آیا
ظفر علی خان نے حمد و نعت میں متقدمین کی روایت کو بڑے جذبہ و شوق’ فکر و احساس کے علاوہ اپنے پر شکوہ لہجے اور دلآویز انداز میں آگے بڑھایا ہے یہاں حمد ‘‘رب العالمین’’ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے
تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاج جسم و جاں تو نے(6)
خدائے بزرگ و برتر کی حمد کے ساتھ ساتھ ظفر علی خان نے سرور کون و مکانؐ کی نعت کے سلسلے کو بھی جاری رکھا اور اعلیٰ پائے کی نعت گوئی میں بلند مقام و مرتبے پر فائز رہے۔ اس حوالے سے ظفر علی خان کا ایک نعتیہ مخمس ‘‘نذر محقر بحضور خواجۂ دو جہاں سرور کون و مکان محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ’’ کا ایک بند ملاحظہ ہو:
اے کہ ترا شہود ہے وجۂ کائنات
اے کہ ترا فسانہ ہے زینت محفل حیات
اے کہ تیری ذات میں جمع زمانہ کے صفات
سب ملکی تصرفات سب فلکی تجلیات
سلطنت اک جہاں کی ہے تیری نگاہ التفات(7)
ظفر کے نعتیہ کلام میں ان کی مشہور نعت ‘‘شمع و حرا’’ بڑی دل آویز اور معنوی رفعت میں بے مثال ہے۔ اس نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کو ندگئی آفاق کے سینہ زاروں میں(8)
جب ظفر علی خاں امتِ مسلمہ کو ذلت و رسوائی سے دوچار دیکھتے ہیں تو وہ بے چین ہو جاتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر جب سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ تو اس کے ساتھ ہی عظیم خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ظفر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ وہ رسولِ مکرمؐ کے دربار میں اپنی نظم ‘‘التجا بحضور سرورِ کائناتؐ’’ میں یوں فریاد کناں ہوتے ہیں:
جاگ او یثرب کے میٹھی نیند کے ماتے کہ آج
لٹ رہا ہے آنکھوں آنکھوں میں تیری امت کا راج
سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی انہیں ملتا نہیں
جب کہ ہیبت لے چکی ہے ایک عالم سے خراج
تیرے بچے ہو رہے ہیں ساری دنیا میں ذلیل
کیا نہیں اے قبلہ عالم تجھے بچوں کی لاج
ہم ہیں ننگے سر اٹھ اے شانِ عرب آنِ عجم
اور پہنا دے ہمیں پھر سطوتِ کبریٰ کا تاج
تشنہ کا مانِ خلافت کو خود اپنے ہاتھ سے
بھر کے وہ ساغر پلا ہے انگبیں جس کا مزاج
اب دوا سے کام کچھ چلتا نہیں بیمار کا
اب تو ہے تیری دعا ہی تیری امت کا علاج(9)
ترکوں کی پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد عثمانی سلطنت کی شکست و ریخت مقامات مقدسہ اور دار الاخلافت پر اتحادیوں کا قبضہ’ سمرناپریونانیوں کا قبضہ اور ترک آبادی کا قتلِ عام’ ان دلخراش واقعات نے ہندی مسلمانوں کو آتش بد اماں کر دیا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر اسلامیانِ ہند کے غم و غصے اور جوش و خروش کی جو حالت تھی اس کی ایک جھلک ‘‘خروش مسلم’’ کے کچھ اشعار میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے:
زمین تھر تھرا گئی آوازہ اﷲ اکبر سے
خروش مسلم شوریدہ شرماتا ہے تندر سے
جلایا اس نے مردوں باذن اﷲ قم کہہ کر
جگایا اس نے ایک آواز میں ہندستان بھر کو
مسیحیت مسلمانی سے ٹکرائی تو ہے لیکن
کسی نے آج تک شیشے سے توڑا بھی ہے پتھر کو(10)
مسلم قومیت کے جس شعور کو حالی’ شبلی اور اکبر نے واضح کیا ظفر اور اقبال کی شاعری اس شعور احساس کی نمائندگی اپنے اپنے انداز میں کرتی ہے۔ اسلامیانِ ہند جہاں اپنی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لے رہے تھے وہاں ان کے جذبات عالمِ اسلام کی دھڑکنوں سے بھی ہم آہنگ تھے۔ یہی جذبہ و احساس حالی کے ہاں مرثیے’ اقبال کے ہاں فکر اور ظفر کے ہاں رجز کے رنگ میں ظاہر ہوا ہے۔ ظفر کی نظم ‘‘مسلم کی شان’’ میں مسلم قومیت کی اس مقامی اور آفاقی حیثیت کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
تو نے اے مسلم کچھ اپنی قدر پہچانی بھی ہے
تو ہے انسان تجھ میں لیکن شانِ یزدانی بھی ہے
فرش پر ہیں پاؤں تیرے عرش پر ہے سر ترا
نصف تو خاکی ہے لیکن نصف تو نورانی بھی ہے
جس تمدن سے ہوئی ہے خیرہ چشم روزگار
سرمہ اس کا تیرے نقش پا کی حیرانی بھی ہے
نیل کی موجیں اگر کرتی ہیں تیری جستجو
ڈھونڈتی پھرتی تجھے گنگا کی جولانی بھی ہے(11)
جنگِ عظیم کے بعد کی تاریک فضا میں جہاد آزادی کے لیے جذبۂ ایمانی اور سرفروشی تھا جس کی بدولت ترکوں اور افغانوں کو اغیار کے پنجۂ ستم سے نجات ملی۔ ظفر نے انہی واقعات سے متاثر ہو کر پر تاثیر اشعار لکھے ہیں۔ پس منظر ہنگامی واقعات کا ہے مگر فکر و احساس میں آفاقی رنگ جھلک رہا ہے۔ قطع نظر موضوع کی وسعت و ہمہ گیری کے ان اشعار میں تغزل کا انداز بھی لطف و کیف پیدا کر رہا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
غمِ امت میں ہے چشمِ پیغمبرؐ اشکبار اب بھی
گہر بیزی میں ہے معروف’ ابر نو بہار اب بھی
ہوا ہے دامن گل چیں ہی کو تہ ورنہ گلشن میں
وہی ہیں لالہ و گل اور وہی ان کی بہار اب بھی
سلیقہ مے کشی کا ہو تو کر سکتی ہے محفل میں
نگاہ لطف ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی(12)
جلیانوالہ باغ جیسے خونی سانحے نے ہندستانیوں کے دلوں میں انگریز سرکار کے ظلم و ستم کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کر کے سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان حالات میں شہداء کے لہو کا ایک ایک قطرہ قصرِ آزادی کی آرائش کا سامان بننے لگا۔ ظفر کی نظم ‘‘فانوسِ ہند کا شعلہ’’ ہندستانی مسلمانوں کے انہی جذبات کا آئینہ دار ہے۔
زندہ باش اے انقلاب ! اے شعلہ فانوس ہند
گرمیاں جس کی فروغ منتقل جان ہو گئیں
جن بلاؤں میں گھرے رہتے تھے صبح و شام ہم
تیرے آتے ہی وہ انگریزوں کی درباں ہو گئیں
مرحبا’ اے نو گرفتارانِ بیداد فرنگ
جن کی زنجیریں فروش افزائے زنداں ہو گئیں
جتنی بوندیں تھیں شہیدانِ وطن کے خون کی
قصرِ آزادی کی آرائش کا سامان ہو گئیں(13)
ظفر اور اقبال کی شاعری کی ایک خاص اہمیت ہے کہ ان شعرا نے اپنی شاعری میں سیاسی’ تہذیبی’ معاشرتی اور معاشی مسائل کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ غیر معتدل رومانی رجحانات پر تنقید کر کے ادب اور زندگی کے رشتے کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کی عمرانی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ ظفر نے بھی اس نقطہ نظر کو اپنی نظم ‘‘سخنورانِ عہد سے خطاب’’ میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
اے نکتہ وران سخن آرا و سخن سنج
اے نغمہ گران چمنستانِ معنی
مانا کہ دل افروز ہے افسانہ عذرا
مانا کہ دل آویز ہے سلمیٰ کی کہانی
مانا کے اگر چھیڑ حسینوں سے چلی جائے
کٹ جائے گا اس مشغلہ میں عہدِ جوانی
مانا کے حدیث خط و رخسار کے آگے
بیکار ہے مشائیوں کی فلسفہ دانی(14)
ظفر علی خان نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ نظر بندی اور زندان کی تنہائیوں میں گزارا۔ جدوجہدِ آزادی کے سلسلے میں کرم آباد کی نظر بندی کے علاوہ لاہور سنٹرل جیل’ منٹگمری جیل اور گجرات اسپیشل جیل میں انہوں نے کئی سال گزارے۔ ظفر علی خان کی شاعری حبسیات کے عنوان سے پہلی بار ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی جس میں زندانی زندگی کے گہرے تاثرات پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے چند شعر ملاحظہ کریں:
بس کہ تنہائی میں تھا شوق غزل خوانی مجھے
کر دیا قسمت نے انگریزوں کو زندانی مجھے
جو مضامین آج تک تھے برتر از فکر بلند
بیٹھے بیٹھے سوجھ جاتے ہیں بآسانی مجھے
سالہا سال اتباعِ اسوہ یوسف کیا
دولتِ ایمان کی حاصل ہے فراوانی مجھے
راہِ حق میں سر جو کٹ جاتا تو تھی اک بات بھی
کیا تسلی دے گی یہ تھوڑی سی قربانی مجھے(15)
واقعہ کربلا تاریخ کا ایک ایسا بڑا سانحہ ہے جس نے ہر بڑے ادیب و شاعر کو متاثر کیا۔ یہ حق و باطل کے درمیان ایک ایسا معرکہ تھا جس میں حق کی کمان حسینؓ ابنِ علیؓ کے پاس تھی۔ اہلِ بیت سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مولانا ظفر علی خان بھی نواسۂ رسولؐ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اس محبت کا اظہار میدانِ کربلا میں امام حسینؓ کی بہادری اور شجاعت بیان کرتے ہوئے اس طرح کرتے ہیں:
اک وہ بھی حسینؓ ابنِ علیؓ تھا کہ سر اس نے
مر کر بھی نہ فاسق کی حضوری میں جھکایا
خود چل کے گیا معرکۂ کرب و بلا میں
دنیا کو قیامت کا سماں جس نے دکھایا
تھا سینہ سپر ایک ہزاروں کے مقابل
باطل کے اس انبوہ نے اس کو نہ ڈرایا(16)
اردو شاعری میں مرثیے کی صنف زیادہ تر سانحہ کربلا کے بیان تک محدود رہی تاہم بعض شعرا نے اعزہ و احباب کے مرنے پر تاریخی قطعوں کے علاوہ شخصی مرثیے کہہ کر اپنے غم و الم کا اظہار کیا ہے۔ ظفر نے اپنے والد’ بھائی محمد اکرم خان’ سید محمود’ نواب داغ دہلوی’ مولانا گرامی’ سر فضل حسین’ لاجپت رائے’ ڈاکٹر مختار انصاری’ مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کی وفات پر مرثیے لکھے ہیں۔ ظفر نے اپنے جواں مرگ بھائی کا مرثیہ بھی کہاجس کے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔
میں آج سنانے کو ہوں مژگاں کی زبانی
پہلو میں گداز جگر و دل کی کہانی
کرنا ہے مجھے آج جواں بھائی کا ماتم
بنیاد فلک ہے مجھے منظور ہلانی
وہ شمع کہ تھا اس سے مرے گھر میں اجالا
صرصر کو نہ لازم تھا سر شام بجھانی(17)
سماجی اداروں اور جماعتوں میں انگریزی تہذیب’ آریہ سماج’ اہلِ طریقت اور قادیانی فرقہ ظفر کی طنز کا ہدف بنے رہے۔ افراد کی مدح و ذم بھی ان کا خاص موضوع رہا۔ اس کا معیار ذاتی نہیں بلکہ سیاسی نظریات یا مذہبی و معاشرتی عقائد پر مبنی تھا۔ ظفر کی طنز کی لپیٹ میں بڑی بڑی شخصیات آئی ہیں۔ گاندھی جی’ جواہر لال نہرو’ ابوالکلام آزاد’ محمد علی’ شوکت علی’ محمد علی جناح’ سرامام’ سر محمد شفیع’ ڈاکٹر محمد اقبال’ لالہ لاجپت رائے’ پنڈت مدن موہن مالوی’ داؤد غزنوی’ افضل حق’ عطااﷲ شاہ بخاری’ سرعمر حیات ٹوانہ’ سرسکندر حیات اور لندنی معشوقہ اور دہلوی عاشق میں طنز و ظرافت کا وہی انداز ہے جو اکبر کا مخصوص رنگ ہے۔ طنز و ظرافت کے حوالے سے ایک نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
اک سنہرے بالوں والی میم نے ہنس کر کہا
اپنے اک ہندستانی عاشق مفتون سے
میں نے یہ مانا کہ تم کھاتے چھری کانٹے سے ہو
شوق رکھتے ہو قمیض و کالر و پتلون سے
بنگلے میں رہتے ہو اور چڑھتے ہو موٹر کار پر
بیٹھتے ہو پاٹ پر دھوتے ہو منہ صابون سے(18)
مجلس احرار کے قیام میں ظفر علی خاں بھی پیش پیش تھے۔ پھر مجلس سے اختلاف شروع ہوا۔ مسجد شہید گنج کے مسئلے پر مجلسِ احرار الگ تھلگ رہی اور تحریکِ پاکستان کے دوران مجلسِ احرار کے رہنما کانگرس کے خیمہ برادر بن کر مسلم مفادات سے بے وفائی کرنے لگے۔ ظفر اس موقعے پر مجلسِ احرار کو اپنی طنز کا نشانہ یوں بناتے ہیں:
اﷲ کے قانون کی پہچان سے بیزار
اسلام اور ایمان اور احسان سے بیزار
ناموس پیغمبرؐ کے نگہبان سے بیزار
کافر سے سوالات مسلمان سے بیزار
اس پر ہے یہ دعویٰ کہ ہیں اسلام کے احرار
امرا کہاں کے یہ ہیں اسلام کے غدار
پنجاب کے احرار ! اسلام کے غدار! (19)
ظفر علی خان کی طنزیہ شاعری کا ایک بڑا ہدف قادیان کا مرزائی یا غلام احمدی گروہ ہے۔ ان کا ایک پورا شعری مجموعہ ‘‘ارمغانِ قادیان’’ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی شعری طنزیات میں شعریت اور تغزل بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ قادیان پر طنز کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
حقیقت قادیاں کی پوچھ لیجئے ابنِ جوزی سے
نکو کاری کے پردے میں سیہ کاری کا حیلا ہے
یہ وہ تلبیس ہے ابلیس کو خود ناز ہے جس پر
مسلمان کو اس رندے نے اچھی طرح چھیلا ہے
پلی ہے مغربی تہذیب کی آغوش عشرت میں
نبوت بھی رسیلی ہے پیغمبر بھی رسیلا ہے(20)
فنی لحاظ سے ظفر نے غزل یا قطعے کے پیمانے کو زیادہ اختیار کیا ہے۔ ظفر کے کلام میں چند غزلیں بھی مل جاتی ہیں مگر بے کیف۔ حسن و عشق کے معاملات سے انہیں کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ وہ کوچہ ہوا و ہوس سے دور رہے۔ غزل کے پیرائیہ بیان یعنی تغزل کو اپنے کلام میں اس طرح برتا ہے کہ اس کی مثال یا تو اکبر کے ہاں ملتی ہے اور یا ہم عصر اقبال کے ہاں۔ تغزل کی وضاحت کے لیے ان کی نظم ‘‘انتظارِ سحر’’ کے استعاروں’ کنایوں اور تلمیحوں پر غور کرتے ہوئے اس کے ایمانی انداز پر غور کریں اور پھر ظفر کے اشعار میں حسنِ تغزل کو دیکھا جا سکتا ہے۔
غمِ امت میں ہے چشم پیغمبرؐ اشکبار اب بھی
گہر بیزی میں ہے مصروف ابر بہار اب بھی
ہوا ہے دامن گل چیں ہی کو تہ ورنہ گلشن میں
وہی ہیں لالہ و گل اور وہی ان کی بہار اب بھی
دل وحشی سے اس پھندے میں الجھا ہی نہیں جاتا
ہے برہم ورنہ پہلے کی طرح زلف نگار اب بھی(21)
ظفر کسی زمین میں بند نہیں تھے۔ کوئی موضوع ہو کوئی اسلوب ہو وہ ہر جگہ قادر الکلام تھے۔ اُن کے کلام میں آمد ہے آورد کو دخل نہیں ہے وہ بدیہہ گو شاعر تھے۔ قافیہ اور ردیف پر انہیں بڑی قدرت تھی۔ وہ قافیہ پیمائی نہیں کرتے۔ تشبیہہ’ استعارہ’ تلمیح’ تمثیل اور شعری صنائع بدائع ان کے ہاں التزاماً نہیں آتے بلکہ بحر سخن کی روانی میں خود بخود بہتے چلے آتے ہیں۔ وہ اپنے فن پر خود بھی دعویٰ کرتے ہیں:
مبرا ہے کلام آورد کے اسقام سے میرا
مرے اشعار کی آمد میں دریا کی روانی ہے
ظفر کا شعری اسلوب ان کی صحافت اور خطابت سے بہت متاثر ہے۔ صحافت اور خطابت کے ان تقاضوں نے ظفر میں بدیہہ گوئی کے وصف کو خوب اجاگر کیا جس کے لیے وہ اردو شاعری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ سنگلاخ زمینوں’ مشکل قوافی سے عہدہ بر آ ہونے کے علاوہ بندش الفاظ’ روزمرے اور محاورے کا جس فنی مہارت سے استعمال کیا اس کی مثال اردو شاعری میں کم ہی ملے گی۔ نادر اور اچھوتے قافیے لانے اور ان کو برجستگی کے ساتھ کلام میں کھپانے میں ظفر کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ سنگلاخ زمین اورکچھ نادر قافیے ملاحظہ ہوں
زمین سنگلاخ اکبر نے کیسی منتخب کی ہے
کہ مشکل ہو گیا اس میں قوافی نو بہ نولانا
چلی لندن سے اک آندھی چمن میرا اڑانے کو
غضب ہے اس میں کرزن کابگولا بن کر بولانا
بہایا کفر کو جس نے خس وخاشاک کی صورت
اسی دریا کی ہاں اے نا خدا پھر ایک رولانا(22)
اظہارِ خیال کے لیے ظفر نے جہاں نئے الفاظ’ تراکیب’ استعارے اور تشبیہات دریافت کی ہیں وہاں محاورات کے استعمال میں بھی بڑی جدت دکھائی ہے۔ عام محاوروں کو انوکھے انداز سے باندھ کر ان میں جاذبیت پیدا کی ہے۔
ظفر نے مناظر اور سراپا پر بھی عمدہ نظمیں لکھی ہیں۔ وہ مناظر قدرت اور فطری جذبات کی عکاسی کرنے میں حد درجہ مہارت رکھتے تھے۔ وہ ہر واقعہ یا منظر کی جزئیات بیان کر کے اس کی پوری تصویر الفاظ میں کھینچ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم ‘‘برما کی برسات’’ کے اشعار ملاحظہ ہوں:
آئی ہے دبے پاؤں صبا اس کو جگانے
انگڑائیاں لیتے ہوئے سبزے کی ادا دیکھ
سورج کا پتا پوچھتی پھرتی ہے خدائی
بادل کو اس انداز سے گردوں پہ گھرا دیکھ(23)
مولانا ظفر علی خان کی شاعری ایک ایسے قا در الکلام اور بدیہہ گو شاعر کا کلام ہے۔ جس کے خیالات میں سمندروں کا سا طوفان اور دریاؤں کی سی روانی ہے جس نے طوفان آفریں جذبات کو اشعار کے نازک آبگینوں میں بند کر دیا ہے۔ داغ اور حالی نے بھی ظفر کی زبان اور قدرت زبان کو سراہا ہے۔
حوالہ جات
1۔      ڈاکٹر نظیر حسنین زید ی،‘‘مولانا ظفر علی خان احوال و آثار’’، لاہور’ مجلسِ ترقی ادب، طبع اول،۱۹۸۶ء، ص:۳۳
2۔      ایضاً ،ص: ۴۱
3۔      ایضاً ،ص: ۴۵
4۔      ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،‘‘مولانا ظفر علی خاں، حیات ،خدمات و آثار’’، لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۳ء ، ص:۴۲
5۔      ایضاً ’ ص: ۵۱۵
6۔      ظفر علی خان،‘‘کلیاتِ ظفر علی خان’’ (بہارستاں)، لاہور، الفیصل ناشران ،۲۰۰۷ء ،ص:۳
7۔      ایضاً ’ ص: ۲۴
8۔      ایضاً ’ ص: ۱۳
9۔      مولانا ظفر علی خان،‘‘بہارستان’’ ،لاہور، مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ، ۲۰۰۸ء، ص:۲۳
10۔      ظفر علی خان’ ‘‘کلیاتِ ظفر علی خاں’’ (حبسیات) ’ لاہور’ الفیصل ناشران۲۰۰۷ء، ص : ۹۲
11۔      ظفر علی خاں، ‘‘کلیات ِ ظفر علی خاں’’ (بہارستان)،لاہور’ الفیصل ناشران،۲۰۰۷ء ،: ۴۵
12۔      ایضاً،ص: ۲۱۴
13۔      ایضاً ،ص: ۳۱۵
14۔      ایضاً ،ص: ۴۶۲
15۔      ایضاً ،ص: ۹۴
16۔      مولانا ظفر علی خان،‘‘حبسیات’’، لاہور، مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ،۲۰۰۸ء ص:۹۷
17۔      مولانا ظفر علی خان ، ‘‘کلیاتِ ظفر علی خان’’ (بہارستان) ،ص :۵۶۶
18۔      ایضاً ،ص: ۵۰
19۔      ایضاً ،ص: ۱۸۲
20۔      ایضاً ،ص: ۳۸
20۔      ایضاً ،ص: ۱۰۶
21۔      ایضاً،ص:۷۸

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...