Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > مولوی ابراہیمی سیالکوٹی کی ادبی خدمات

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

مولوی ابراہیمی سیالکوٹی کی ادبی خدمات
ARI Id

1688388584597_56116243

Access

Open/Free Access

Pages

190

مولوی ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کی ادبی خدمات

مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ (۱۸۷۴ء ،۱۹۵۶ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔آپؒ سکاچ مشن ہائی سکول گندم منڈی سیالکوٹ میں علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت تھے۔(1) سکول کی تعلیم کے دوران ہی انھوں نے سیالکوٹ کے ایک متقی و متجرعالم مولانا ابو عبداللہ المعروف غلام حسن(یہ عالم دین علامہ اقبال کے ابتدائی اُستاد تھے) کے سامنے زانوئے شاگردی تہہ کیا۔(2)مرے کالج سیالکوٹ میںآپ کو مولوی میر حسن کی شاگردی بھی میسرآئی۔ آپ نے عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی مہارت حاصل کر لی، سکول کی طرح کالج میں بھی آپ کو علامہ اقبال کی ہم نشینی و صحبت حاصل رہی۔(3)
مولوی ابراہیم سیالکوٹی انتہائی  ذہین و فطین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ انھوں نے  صرف ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں پورا قرآن پاک حفظ کیا۔(4)مولانا موصوف نے اپنی تعلیم کا آغاز دنیاوی تعلیم سے کیا لیکن دینی تعلیم کے حصول کے لیےبیسویں صدی کے عالم باعمل  مولاناعبدالمنان وزیر آبادیؒ کے حلقہ درس میں داخل ہو گئے۔(5)جہاں تفسیر،حدیث اور دیگر علوم دینیہ اور عربی زبان پر مہارت تامہ حاصل کی۔ بعد ازاں سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوکر مسندو اجازۂ حدیث سے منفتحر ہوئے۔6))
مولاناسیالکوٹی نہ صرف نامور مشاہیر کے شاگرد تھے۔ بلکہ ان کےمراسمعظیمشاعر فیض احمد فیضؔ کے والد محترم سلطان محمد خان کے ساتھ بھی تھے ۔یہی وجہ ہے کہ فیض احمد فیض نے قرآن مجید کے ابتدائی پارے  مولانا موصوفؒ کے مدرسے میں حفظ کیے اوراسکاچ مشن ہائی سکول میںان سے علوم مشرقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔7))
مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی عالم باعمل  ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی و دینی نثر نگار تھے۔ ان کی اُردو نثری کتابیں تفسیرِ قرآن مجید ،سیرت النبیؐ،مناظروں اور تقابل ادیان پر مشتمل ہیں۔ مولوی موصوف عربی ،فارسی اور اردو زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ ڈاکٹر وحید قریشی مولوی ابراہیم کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
برطانوی عہد کے آغاز میں بھی سیالکوٹ میں عربی فارسی اور اردو کی روایت خاصی مستحکم دکھائی دیتی ہے۔ مولانا غلام حسن اور شمس العلماء مولوی میر حسن کی علوم مذہبی میں دسترس اور فارسی زبان و ادب پر قدرت کے چرچے آج تک سنے جاتے ہیں۔ دینی تحریکوں میں سیالکوٹ اہلِ حدیث کا بہت بڑا مرکز بنا اور مولوی ابراہیم میر کے نام کا ڈنکا آج بھی بجتا ہے۔8تفسیر ، حدیث ،فقہ و اُصول ،سیرت ،تاریخ و تذکرہ ،فلسفہ و منطق ،لغت ،علومِ بلاغت اور تقابل ادیان سے متعلق ان کا ذخیرہ معلومات بہت وسیع و عمیق تھا۔ آپ ایک مبلغ ،خطیب ،مناظر اور بہت بڑے مصنف تھے۔مولانا سیالکوٹیؒ کی تمام تصنیفات اُردو زبان میں ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے نام عربی زبان میں  ہیں۔
عبدالرشید عراقی مولانا سیالکوٹیؒ کی کتب کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں:آپ نے اپنی ۸۲ سالہ زندگی میں گرانقدر کتب و رسائل تصنیف کیے۔ جن کی تعداد نوے تک بتائی جاتی ہے۔(9)مولانا محمد اسحاق بھٹی کے مطابق مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی کتب کی تعداد ۸۴ ہے۔ ان کی کچھ کتب غیر مطبوعہ بھی ہیں۔10))
مولانا سیالکوٹی نے اپنی تصنیفات و رسائل مختلف موضوعات پر لکھے ہیں۔ ان میں سے چند  اہم کتب کا مختصر تعارف  پیش کیا جاتاہے’’واضح البیان‘‘ مولانا کی تفسیری تصنیفات میں بڑی اہمیت و شہرت کی حامل  تفسیر ہے۔ اس کا مکمل نام ’’واضح البیان فی تفسیر اُم القرآن‘‘ ہے۔ یہ سورت الفاتحہ کی طویل و مفصل تفسیر ہے۔ سورہ الفاتحہ کی آیات صرف سات ہیں مگر یہ مختصر آیات تمام مضامین قرآن پر مشتمل ہیں۔ مولانا کی  تفسیر سےثابت ہوتا ہے کہ سورت الفاتحہ تمام قرآنی مباحث کا مجموعہ اور حقیقتاً اُم القرآن ہے۔ اس تفسیر میں مولانا نے ۳۹۰ عنوانات پر بحث کی ہے۔ یہ تفسیر پہلی مرتبہ ۱۹۳۳ء میں ’’الھادی‘‘ سیالکوٹ سے مولانا نے خود شائع کی جو ۴۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۹۳۱ء میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اسی انداز سے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر شائع کی۔ حسن عبارت  اور ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ اس تفسیر میں بعض مقامات پر ایسی مبہم عبارات تھیں۔ جن کی غلط فہمی سے عقائد کی گمراہی کا خدشہ تھا۔ چنانچہ مولانا سیالکوٹی نے عالمانہ و محققانہ اندا زمیں ایسی واضح تفسیر بیان کی کہ کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہتا۔
مولانا حنیف ندوی مولانا ابو الکلام آزاد اور مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کی  تفسیر قرآن کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :ابوا لکلام کی تفسیر میں الفاظ ہیں اور یہاں (مولانا سیالکوٹی کی تفسیر میں ) شروع سے آخر تک علم ہی علم ہے۔(11)
مولانا سیالکوٹی ساری عمر تفسیر قرآن کی زبانی و تدریسی خدمات سرا نجام دیتے رہے مگرانھوں نے قرآن کی مکمل تفسیر تالیف نہیں کی ، البتہ زندگی کے آخری سالوں میں احباب کے اصرار پر قرآن کی بعض سورتوں کی تفاسیر لکھیں ۔ مولانا نے اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں قرآن کی مکمل تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں وہ صرف تین اجزا ہی مکمل کر پائے تھے کہ انتقال فرما گئے اور ’’تبصیر الرحمن‘‘ کا جزسوم ان کی وفات کے بعد زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ تفسیر کا ہر ایک جُز ایک پارہ پر مشتمل ہے جن کی ضخامت ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر شیخ علی مہائمی کی تفسیر رحمانی کی طرز پر لکھی گئی ہے۔ تفسیر میں ربطِ عبارت اس کی خصوصیت ہے۔ ترجمہ او ر تفسیر کی اردو عبارت کے ساتھ قرآن کے عربی الفاظ کو ایسے جمع کیا ہے کہ یہ تسلسل ٹوٹتا نہیں بلکہ ہر کلمہ دوسرے سے جُڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جس سے کمالِ حظِ قلبی حاصل ہوتا ہے ۔ یہ تفسیر مسلمان کمپنی سوہدرہ سے شائع ہوئی۔ ’’احجاف اللھف فی تفسیر سورۃ الکہف ‘‘سورۃ الکہف کی تفسیر مولانا سیالکوٹی کیتیسری کتاب ہے جو ’’تبصیر الرحمن‘‘ کے انداز سے لکھی گئی ہے۔ یہ تفسیر علمی و تحقیقی اسلوب میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اس میں بہت سے اہم مباحث کما حقہ بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً  حضرت موسیٰ علیہ السلام ،حضرت خضر علیہ السلام اور اصحاب کہف کے قصے کے اہم نکات پر گہری تحقیق پیش کی گئی ہے۔ یہ تفسیر پہلی مرتبہ ستمبر ۱۹۳۹ء میں مولانا نے خود شائع کی۔ تقریباً نصف صدی کے بعد دوبارہ مکتبہ ثنائیہ سرگودھا  سے  شائع کی گئی۔
’’الدرا لنظیم فی تفسیر سورۃ القرآن العظیم ‘‘قرآن مجید کی آٹھ سورتوں کی تفسیر کا مجموعہ ہے۔ جن میں سورہ الحجرات ،سورۂ ق ، سورۂ البلد، سورۂ البینہ ،سورۂ العصر ،سورۂ الفیل ، سورۂ القریش ، سورۂ الکوثر  شامل ہیں۔یہ تفسیر۱۲۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مولانا نے اپنے دفتر تبلیغ سنت سیالکوٹ سے ۱۹۴۶ء میں شائع کی۔ یہ تفسیر اگرچہ آٹھ سورتوں پر مشتمل ہے لیکن تحقیقی لحاظ سے سوا سو صفحے کییہ تفسیر بلا شبہ  ایک علمی شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں بعض ایسے نکات  ہیں جو دیگر اُردو تفاسیر میں بالکل نظر نہیں آتے۔
’’تفسیر سورہ ثلاثہ ‘‘ مولانا کی تفسیری تصنیف ہے۔ یہ ’’سورۂ نجم ‘‘،’’سورۂ الرحمن‘‘ اور’’ سورۃ الواقعہ ‘‘کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ یہ بیاسی صفحات پر مشتمل تفسیر۱۹۴۰ء میں مولانا نے خود شائع کی۔"ریاض الحسنات " پانچ سورتوں السجدہ ،یٰسین ،الملک ،نوح اور المزمل کے ترجمہ اور اہم حواشی کے ساتھ پہلی مرتبہ ۱۹۴۶ء میں’’ پنجسورہ محشیٰ ‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔مولا نا کیتصنیف’’ حلاوۃ الایمان بتلاوۃ القرآن ‘‘ ایک رسالے پر مشتمل ہے۔ یہ رسالہ قرآن کے فضائل و آداب ،قرات و تجوید او رمخارج حروف کا بیان ہے۔ یہ رسالہ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ مولانا سیالکوٹی کی تصنیف ’’تفسیر القرآن ‘‘  میں تفسیر قرآن کے متقد مین کے بیان کردہ  تمام اصول و ضوابط کو جمع کر دیا گیا ہے۔ بعض دیگر قرآنی مباحث بھی ہیں۔ ’’تائید القرآن‘‘ مولانا کی تصنیف کتاب عیسائی اکبر مسیح کی کتاب ’’تاویل القرآن‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ۔جس  میں اکبر مسیح نے قرآن کو ہدف اعتراض قرار دیا ہے۔ آپ نے اس کا عالمانہ و محققانہ جواب ’’تائید القرآن‘‘ کے نام سے لکھا جو رسالہ ’’الھادی‘‘سیالکوٹ میں۱۹۰۵ء سے مسلسل بالاقساط چھپتا رہا او رمسٹر اکبر مسیح کی زندگی میں چھپا اور مسیحی رسالہ ’’ترقی و تجلی‘‘ کے تبادلہ میں عیسائیوں کو پہنچایا جا تارہا۔ بعد میں یہ کتاب باقاعدہ ۲۹۹ صفحات میں شائع ہوئی۔ جمع و تالیف قرآن کے متعلق یہ ہندوستان کی سب سے پہلی کتاب ہے۔12))
’’اعجاز القرآن‘‘  میں مولانا سیالکوٹی  نے اکبر مسیح کی کتاب ’’تنویر الا ذہان فی فصاحتہ القرآن ‘‘ کا جواب دیا ہے۔ ۱۴۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔’’تعلیم القرآن‘‘  میں قرآن مجید کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔ یہ کتاب ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی۔
’’اربعین نبویہ‘‘ مولانا سیالکوٹی کی چالیس صفحات پر مشتمل  تصنیف ہے۔ یہ کتاب چالیس احادیث نبویہ کا مجموعہ بمع ترجمہ و تشریح ہے۔ یہ پہلی دفعہ ۱۹۳۵ء میں مولانا نے خود شائع کی۔ ’’گلدستہ سنت‘‘ مولانا کی کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سنت نبویہؐ کا بیان ہے۔ مولانا کی کتاب ‘’نماز مسنونہ مترجم‘‘ ہے ۔جس میں نمازِ مسنونہ کا طریقہ ،طہارت کے مسائل ،نماز عیدین کے مسائل ،قربانی کے مسائل،جمعہ و نمازِ جنازہ کے مسائل بڑی وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ ’’الحج و الثج‘‘ رسالہ مولانا سیالکوٹی نے حج اور قربانی کے مسائل کے بارے میں لکھا۔
’’فرقہ ناجیہ‘‘ رسالہ مولانا نے اہلِ حدیث اور حضرات حنفیہ میں طریقِ اعتدال پیدا کرنے کے لیے تصنیف کیا۔ اس میں فرقہ ناجیہ کی تحقیق ہے کہ وہ کون سا ہے؟ اور اجہتاد وتقلید کی حقیقت اورا ن کی حدود کیا ہیں؟یہ رسالہ مولانا نے انگریزی ترجمہ کے ساتھ بھی شائع کیا۔ ان کی تصنیف’’قرۃ العین بمسرۃ العیدین‘‘میں عیدین کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ’’خطبہ رمضان‘‘  میں  مولانا  سیالکوٹی نے حضرت سلمان فارسیؓ کے ایک مشہور خطبہ حدیث کی تشریح کی ہے۔ اور اس میں بہت سے مسائل بیان کیے ہیں۔
’’تاریخ نبویؐ‘‘ سیرت النبیؐ پر اختصار کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اردو زبان میں لکھی جانے والی اولین کتاب ہے۔"رحمتہ اللعالمین ‘‘،’’سیرت النبی‘‘ اور’’ سیرت خیر البشرؐ‘‘ سب اس کے بعد کی تصانیف ہیں۔ مولانا کی تصنیف ’’ سیرت مصطفی‘‘دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ دونوں جلدوں کے ۵۵۱صفحات ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی۔ مولانا نے سیرت ؐطیبہ کو چار جلدوں میں مکمل کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ صرف دو جلدیں ہی مکمل کر پائے اور وہ دونوں جلدیں شائع ہو گئیں۔اس کتاب میں سیرت النبیؐ کے ان پہلوؤں پر خصوصاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً رسولؐ اللہ کے اجداد ،مذہب ،حضرت حلیمہؓ کے حالات اور حضرت ابو طالب کی بیوی کا نبی کریم ؐسے شفیق رویہ ۔ سیرت النبیؐ کی تحریر سادہ زبان میں ہے۔ مولانا نے اپنی تمام تصانیف میں عام فہم اور سادہ اسلوب و بیان اختیار کیا ہے تاکہ قارئین کو بات سمجھنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کے اسلوب میں رنگین بیانی اورتکلف و تصنع کہیں بھی نہیں ملتا۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی طرز ِ تحریر و طریق بیان اور اسلوب کے حوالے سے سیرت مصطفیؐکی ایک مختصر تحریر ملاحظہ ہو:
سیرت و تاریخ کی کتابوں میں عبارت سادہ ہونی چاہیے تاکہ واقعہ اپنی صورت و نوعیت سے خودا ثر ڈالے، اگر مضمون کو عبارت آرائی سے رنگین کیا جائے تو اس میں مصنف کے تکلف و تصنع کا وہم ہو سکتا ہے۔ کہ اس نے اپنی صنعت سے واقعہ کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے جیسا کہ بہت سے ہمعصراس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، ہاں طرز بیان دلکش اور عبارت شستہ اور معنی خیز اور مناسب موقع ہونی چاہیے جس طرح سے پڑھنے والے کے دماغ میں واقعہ کی اصل صورت کا فوٹو اُتر سکے۔13))
مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کے سادہ اسلوب کے حوالے سے ’’سیرت ِمصطفیؐ‘‘ کے باب دوم سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
آنحضرتؐ کی ولادت کی خبر آپ ؐ کے ضعیف العمر دادا کو پہنچائی گئی جس پر وہ از حد خوش ہوئے کیونکہ آپ ؐان کے پیارے اور فوت شدہ بیٹے کییادگار تھے۔ ۱۸ سالہ نوجوان بیٹے کی موت سے ضعیف العمر باپ کے دل پر جو زخم لگا تھا۔ آپؐ کی ولادت اس کے لیے مرہم اندمالی ثابت ہوئی۔ اس طرح عبدالمطلب کے دوسرے بیٹوں کے گھروں میں نہایت خوشی ہوئی ۔قدرتی طورپر آپؐ کا حلیہ خدو خال اور حسنِ خداداد اپنے والد کے حلیہ اور حسن کا جواب تھا۔(14)
مولانا سیالکوٹی ؒ’’سیرتِ مصطفیؐ ‘‘میںواقعات پررائے زئی کے وقت علل و اسباب پر بحث کرتے ہوئے حالات و اجزائے واقعہ کے خلاف محض خود ساختہ وجوہ پر فیصلہ نہیں دیتے۔ جیسا کہ یورپ کے بعض متعصب مصنفین خصوصاً سر ولیم میور کی روش تھی۔ مولانا نے واقعات کے بیان میں طوالت محل اور اختصار مخل سے پرہیز کیا ہے۔ بعض مورخین نے تاریخ و سیرت کوبعض شخصی حالات اور بعض حروب وفتوحات اور بعض اہم انقلابات کے بیان میں محصور کر دیا ہے۔ اورا ن امور کے متعلق بعض طویل و بے سروپا قصے اور کہانیاں بھی بھر دی ہیں۔ مولانا کی سیرت پر لکھی کتاب مذکورہ بالا خامیوں سے پاک ہے۔ بعض مصنفین سیرت نے فن سیرت کو آنحضرتؐ کے فضائل و خصائل اور اہم تاریخی واقعات کے بیان تک محدود رکھا ہے۔ لیکن’’ سیرت مصطفیؐ ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے۔ کہ اس میں فضائل و خصائل اور سیاسی و تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ اشاعت اسلام اورا س کے مناسب حال آیاتِ قرآنیہ کا نزول سب کچھ مذکورہ ملتا ہے۔ کیونکہ آنحضرت ؐکی بعثت  کااصل مقصود اعلائے کلمتہ اللہ ہے گویا اس کتاب کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس  میں ضمناً قرآن شریف کے بعض مقامات کی تفسیر بھی ملتی ہے۔ جس طرح کہ’’ سیرت ابنِ ہشام‘‘ اور امام ابن قیمؓ کی ’’زاد المعاد‘‘ میں ہے۔
’’حبیب خداؐ‘‘ مولانا سیالکوٹی کی  سیرت پر مختصر تصنیف ہے۔ اس کا مکمل نام ’’اوجز السیر فی احوال سید البشرؐ‘‘ہے۔ ’’اخلاق ِ محمدیؐ ‘‘ اور ’’اصلاحِ عرب ‘‘ تصنیفات مقاصد نبوت میں کامیاب ہونے کے بارے میں ہیں۔ اصلاح عرب میں رسولؐ کی بعثت سے قبل کی حالت بیان کی گئی ہے اور پھر آپؐ کے بعد عربوں میں جو زبردست اصلاحی انقلاب آیا اس کی تفصیل معرضِ تحریر لائی گئی ہے۔ ’’سراجاً منیرا‘‘ تصنیف میں نبیؐ کے فیوض روحانیہ بیان کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۴۴ء میں طبع ہوئی۔ ’’علمائے اسلام‘‘ رسالہ مولانا سیالکوٹی کے رسالہ ’’الھادی‘‘ میں شائع شدہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جن میں علمائے اسلام کی دینی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ دراصل اس رسالہ کا مقصد رسولؐ اللہ کے فیو ض کی بقا کو بیان کرنا ہے۔
’’سیرتِ محمدیہؐ‘‘ مولانا کا ۲۴ صفحات کا رسالہ ہے جو اکتوبر ۱۹۳۱ء کوچھپا۔ یہ رسالہ ایک غیر مسلم معترض کے جواب میں لکھا گیا جس نے لکھا تھا کہ آپؐ بیس برس تک بھیڑ بکریاں چراتے رہے۔ یہ اعتراض مولانا کو انگریزی زبان میں ملا۔ مولانا نے اس کا جواب بنام’’سیرت ِ محمدیہؐ‘‘ لکھا اور اس کا ترجمہ کروا کر انگریزی میں بھی چھپوایا۔اسے ملا یا اور ڈچ زبانوں میں بھی پچپن ہزار کی تعداد میں طبع کیا گیا۔
’’بشارتِ محمدیہؐ‘‘ تصنیف اثباتِ نبوت کے ضمن میں بہت اہم ہے۔ اس میں دیگر مذہبی کتابوں سے رسولؐ کے بارے میں دی گئی بشارتوں کا ذکر ہے۔ اس میں الہامی مذاہب کے علاوہ ہندو مذہب کی کتاب سام وید سے بھی ایک بشارت کا ذکر ہے۔ جس کا جواب کسی ہندو نے نہیں دیا۔(15)’’وہ نبیؐ اور عہد کا رسول‘‘ تصنیف بائبل کی بشارات پر مبنی ہے جو رسول اللہ کے بارے میں آئی ہیں۔ یہ کتاب تاریخی اور جغرافیائی حوالہ جات سے مزین کی گئی ہے۔ یہ کتاب مولانا نے تبلیغ سنت کے دفتر سے ۱۹۴۶ء میں شائع کی ۔’’اسوہ حسنہ‘‘ مولانا کا سیرت رسولؐ کے حوالے سے سولہ صفحات پر مشتمل رسالہ ہے۔ جو اکتوبر ۱۹۳۷ء میں چھپا۔ اس میں مولانا نے قرآن مجید کی روشنی میں مسلمانوں کو اتباعِ سنت کی تلقین کی ہے۔
’’احکام المرام با حیاء مآثر علما الا سلام‘‘میں بائیس فقہا و محدثین کے حالات بیان کے گئے ہیں۔یہ کتاب ۱۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ۱۹۰۶ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب دراصل مولانا میر کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ ’’الھادی‘‘ سیالکوٹ کی جلدا شمارہ ۴ تا ۱۲ اور جلد ۲ کے شمارہ ۱ تا ۱۱ میں شائع ہونے والے مضامین پر مشتمل ہے۔ ’’زاد المتقین‘‘ رسالہ میں مولانا نے  ازدواج مطہرات کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ رسالہ مولانا نے ’’الھادی ‘‘ کے دفتر سے ۱۹۴۲ء میں شائع کیا۔
’’تاریخ اہلِ حدیث‘‘ کتاب مولانا نے اہلِ حدیث فکر کے بارے میں پیدا شدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے تحریر کی ۔ جس کے حصہ اول میں رسولؐ کے بعد ملت اسلامیہ میں مختلف فرقوں کا ظہور اس کی وجوہات اور ان کے عقائد بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں علم حدیث کی تدوین کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے اور تیسرے حصے میں ہندوستان کے علمائے اہل حدیث کی خدمات و حالات کا جائز ہ لیا گیا ہے۔ ’’خیرا لخلائق و الخصائل ‘‘ رسالہ مولانا نے ۱۹۴۳ء میں تحریر کیا ۔ جس کو ’’سیرت مصطفیؐ‘‘ جلد دو م کے تتمے کی حیثیت حاصل ہے۔ ’’تحفتہ الا ذکیا ء وطرفتہ الا صفیاء فی الا عتبار وا لا اقتباس با حوال الا نبیاء ‘‘ رسالے میں مولانا نے وضاحت کی ہے کہ انبیاکرام کو دین و دنیا کے ہر معاملے میں ہادی و رہنما ماننا چاہیے ۔یہ رسالہ غیر مطبوعہ ہے۔
’’انارۃ المصابیح لا داء صلواۃ التراویح ،فضائل شعبان‘‘ ،’’برکات الصلوۃ‘‘ ،’’نمازِ تہجد‘‘،’’ثبوت جنازہ‘‘،’’رسالہ یک روزہ‘‘ ،’’ نمازہ غائب برائے جنازہ غائب‘‘  اور’’ انہتر خصائل ایمان‘‘ مولانا سیالکوٹی کی فضائل و عبادات سے متعلقہ تالیفات ہیں جو ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۵ء تک سیالکوٹ سے طبع ہوئیں۔’’شہادت القرآن ‘‘ حصہ اول کتاب میں مولانا نے حضرت عیسیٰؑ کی حیات او ررفع آسمانی کا ذکر کیا ہے ۔ مرزا قادیانی نے حضرت عیسی ٰ علیہ اسلام کی حیات اور ارفع آسمانی سے انکار کیا اور خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ مولانا سیالکوٹی نے مذکورہ کتاب میں حضرت عیسیٰؑ کے رفع جسمانی کو قرآن کی نو آیات سے ثابت کیا ہے۔ یہ بحث مکمل ،مدلل اور سیر حاصل ہے ۔یہ کتاب پہلی بار ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔
’’شہادت القرآن ‘‘ حصہ دوم میں مولانا میر نے ان تیس دلائل کا جواب دیا ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت عیسیٰؑ کی وفات قبل النزول پر بزعم خود قرآن سے پیش کیے۔یہ حصہ مرزا قادیانی کی زندگی ہی میں۱۹۰۵ء میں طبع ہوا۔ مگر وہ اس کا جواب نہ لکھ سکا۔ "عصمتِ انبیا"تصنیف مولانا نے عیسائی مصنف کی کتاب ’’بے گناہ نبی‘‘ اور پادری اکبر مسیح کی کتاب ’’انکارِ عصمت انبیا ‘‘ کے جواب میں لکھی کیونکہ ان کتب میں حضرت عیسیٰؑ کے علاوہ اکثر انبیا کو گناہ گار لکھا گیا تھا۔ مولانا نے تمام انبیا کو معصوم ثابت کیا ہے۔ ’’عصمت النبیؐ  ‘‘ ،’’عصمت ِنبوتؐ‘‘ اور’’ کسر الصلیب‘‘ تینوں کتب مولانا نے عیسائیت کے رد میں لکھی ہیں۔ ان میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب نہیں دی گئی تھی۔ ’’آئینہ قادیانیت‘‘ اور ’’مرقع قادیانیت‘‘ مولانا نے قادیانیت کے حوالے سے لکھی ہیں ۔
’’پیغام ِ ہدایت در تائید مسلم لیگ‘‘ مولانا سیالکوٹی کے گیارہ مضامین کا مجموعہ ہے جو ’’الھادی ‘‘ میں شائع ہوئے۔ مولانا سیالکوٹی مسلم لیگ کے سر گرم کارکن تھے او ریہ مضامین کانگریس کی مخالفت اور مسلم لیگ کے حق میں لکھے جو ایک مجموعے کی صورت میں بھی شائع ہوئے۔’’تائید مودودی در مخاطبت مودودی‘‘ مولانا سیالکوٹی کے خطوط کا مجموعہ ہے۔بعض مسائل میں مولانا سیالکوٹی کو مولانا مودودیؒ سے اختلاف تھا۔ انھوں نے ۱۹۴۶ء میں مولانا مودودی سے خط و کتاب کی ۔اس مجموعہ میں وہ تمام خطوط جمع ہیں۔ یہ مجموعہ غیر مطبوعہ ہے۔’’فلسفہ ارکانِ اسلام ‘‘تصنیف میں مولانا سیالکوٹی نے ارکانِ اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے۔’’ توحیدا لہی اور مسنون زندگی ‘‘میں مولانا نے بتایا ہے کہ توحیدیہ ہے کہ اپنی زندگی کو نبی کریم ؐکے تابع کیا جائے ۔’’احیاء المیت ‘‘ کتاب مولانا سیالکوٹی نے آئمہ اہل سنت اور آئمہ اہلِ بیت کی تعظیم وتکریم کے موضوع پر لکھی ہے۔
"سلم الوصول الی اسرار اسراء الرسولؐ"، "الخبر الصیح عن قبر المسیح"،" نزول الملالکتہ والروح الی الارض"، "رسائل ثلاثہ "،"صدائے حق" ،"تردید مغالطاتِ مرزائیہ"،"ختم نبوتؐ"، "ختم نبوتؐ اور مرزا قادیانی" ،"قادیانی مذہب"،" خلاصہ مسائل قادیانیہ"،"فیصلہ ربانی" ،"برمرگ ِ قادیانی" ،"رحلت قادیانی بمرگِ ناگہانی" ،"تبصیر بخواب اشتہار تنویر"،" الکواکب المضیتہ لا زالتہ شبہات الشعیہ" ،"خلافت راشدہ" ،"قوم و مذہب"،"الخیر الجاری" ،"نعم الرقیم فی مولد النبیؐ"،"افتراق اُمت اور طریق سنت "،"المحقق ھو الا وّل اور العجالۃالخضریتہ فی جمع الرسالتہ والبشریتہ"مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی مناظرانہ اور عقائد سے متعلقہ تصانیف ہیں۔
 مولانا ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کا تفسیر قرآن مجید کا اسلوب یہ  ہے کہ ہر آیت کا ایک الگ باب الگ نام سے قائم کرتے ہیں۔ جس میں ہر لفظ کی خطی ترکیب اور اس کی لغوی تحقیق و تشریح کرتے ہیں اور اکثر لغوی بحوث میں عربی شاعری سے استشہاد بھی کرتے ہیں ، صرفی و نحوی تحقیق اور ابلاغی نکات کا بیان کرنے کے بعد الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے اسرارو حکم کی وضاحت اور ضروری فقہی نکات پر مدلل بحث کرتے ہیں۔ جہاں کہیں عربی عبارت بطور اقتباس درج کی ہے۔ اس کے اُردو ترجمہ کا بھیالتزام کیا ہے اور اس کا حوالہ بھی متن کے اندر ہی درج کیا ہے۔ مولانا پنجابی زبان کے شاعر تھے چنانچہ اس ادبی ذوق کا رنگ ان کی تفسیر میں بھی جھلکتا ہے اور اکثر مقامات پر بحث کے خاتمہ پر فارسی اور اردو اشعار نظر آتے ہیں۔
ہر مفسر اپنے ذوق و رجحان کے مطابق تفسیر کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں تفاسیر کے اسلوب میں تنوع نظر آتا ہے۔ کہیں محدثانہ رنگ غالب ہے تو کہیں ادیبانہ اسلوب اور کہیںمتکلمانہ انداز نظر آتا ہے۔ لیکن مولانا سیالکوٹی نے کسی ایک منہج و رجحان کو نہیں اپنا یا بلکہ تمام مسالک کی تفسیر کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ اسی لیے اس میں حدیث و سنت سے استدلال بھی ہے اور بلاغت کی ابحاث بھی ،صرفی و نحوی نکات کا بیان بھی ہے اور متکلمانہ مجادلہ بھی ،سلف کے مقرر کردہ تفسیر قرآن کے اُصول مد نظر رکھتے ہوئے تفسیر بالرائے سے گریز کیا ہے۔ مگر تفسیر کو متقدمین کے بیان تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے زمانے کی ذہنیت و روش کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ براہین منقولہ و معقولہ دونوں کی مدد سے اپنے دور میں پیدا ہونے والے انکارِ حدیث اور ختم نبوت جیسے فتنوں سے پیدا ہونے والے شکو ک وشبہات کا ازالہ کیا ہے۔
مولانا سیالکوٹی کی تفسیر قرآن میں جہاں کہیں علمی بحث طویل ہو جاتی ہے وہاں بحث کے آخر میں تتمہ بحث کے عنوان سے تمام بحث کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیتے ہیں۔ تاکہ قاری کا ذہن اصل موضوع تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکے۔ نیز مقصودِ مخاطب کو طوالت بحث ـذہن سےمحونہ کر دے۔ مثلاً سور ہ فاتحہ کی تفسیر کے چوتھے جز میں (مالک یوم الدین) کی تفسیر میں اُخروی جزا و سزا کی بحث صفحہ ۱۸۴ سے ۲۲۷ تک چلتی ہے ۔اس کا لب لباب آخر میں انھوں نے ایک صفحہ میں بیان کر دیا ہے۔ اس طرح دوسرے جز میں (الحمد اللہ ) کی تفسیر صفحہ ۱۱۶ تا ۱۶۸ تک ۵۲ صفحات پر محتوی ہے۔ چنانچہ جز کے آغاز میں اس آیت کا سادہ اردو ترجمہ تو دیتے ہیں ۔تفسیر کے خاتمے پر ’’الاجمال بعد التفصیل ‘‘کے عنوان سے ترجمہ کو یوں جامع کلمات میں دیا ہے کہ ہر آیت کا مفہوم بھی واضح ہو جائے اور آیات کا باہمی ربط و نظم بھی اور باعث اختصار حفظ میں سہولت بھی ہو۔ تفسیر میں مولانا جہاں کہیں عربی اقتباس دیتے ہیں ۔اس کا ترجمہ اُردو مع حوالہ متن کے اندر ہی درج کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کے حوالہ میں صرف سورت کا نام اور پارہ کا نمبر ذکر کرتے ہیں۔آیت یا رکوع کا نمبر درج نہیں کرتے۔ جہاں تک احادیث نبویہؐ کے حوالہ کا تعلق ہے کبھی صرف کتاب کانام ذکر کرتے ہیں اور کبھی جلد نمبر ۱ اور صفحہ نمبر بھی دے دیتے ہیں اور بعض اوقات تو موئف کا نام بھی ذکر کر دیتے ہیں جب کہ کچھ مقامات پر پور نام بھی نہیں لکھتے مثلاحصن الحصین کو صرف الحصن یا تیسرا الوصول کی بجائے صرف تیسرہی لکھنے پر اکتفا کیا ہے۔(16)
مولانا سیالکوٹی تفاسیر سے بالواسطہ اور براہ راست ہر دو طرح سے اقتباس لیتے ہیں،براہ راست اقتباس لینے کی صورت میں اقتباس سے پہلے مفسر کا نام ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ اقتباس کے بعد حوالہ میں تفسیر کا نام جلد نمبر اور صفحہ نمبر درج کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر براہ راست اقتباس کی بجائے صرف مفہوم ہی کو اپنے لفظوں میں بیا ن کرتے ہیں۔ اس صورت میں فٹ نوٹ پر مآخذ کا ذکر کرتے ہیں۔ جب ایک ہی مضمون و مفہوم ایک سے زیادہ تفاسیر میں پاتے ہیں تو ایک معروف تفسیر سے اقتباس لے کر حاشیہ میں دیگر تفاسیر کا ذکر کر دیتے ہیں۔ مثلاً (غیر المغضوبِ علیھم) کی تفسیر میں علامہ زمخشری ؒ کی’’ تفسیر الکشاف‘‘ سے اقتباس لیتے ہیں۔(17)
جہاں تک شروحات کتب احادیث و کتب فقہ وغیرہ کا تعلق ہے تو مصنف کا نام اقتباس سے پہلے ذکر کرتے ہیں جب کہ اقتباس کے بعد حوالہ دیتے ہوئے جلد نمبر اور صفحہ نمبر لازماً درج کرتے ہیں اور بعض مقامات پر مطبوعہ دہلی یا مصر بھی لکھا ہے۔ مگر سالِ اشاعت کا کہیں ذکر نہیں ،مثلاً ’’فتح الباری ‘‘کا حوالہ میںیوں اندراج ہے ۔فتح الباری مطبوعہ دہلی جز ۳،ص:۴۲۶۔(18) ،اسی طرح ابن قیمؒ کی’’ اعلام الموقعین ‘‘سے اقتباس لینے کے بعد حوالہ یوں درج کرتے ہیں۔اعلام الموقعین ،جلد ۲،ص:۴۔(19) جہاں ضروری سمجھتے ہیں  تشریح کو صفحہ کے آخر پر حاشیہ میںبیان کر دیتے ہیں۔ مثلاً قرات فاتحہ خلف الا مام کی دلیل کے طورپر پیش کی جانے والی حدیث عبادہ بن صامتؓ (20)کے متعلق امام بیہقیؒ کی توضیح بیان کرنے کے بعد حاشیہ میں اس توضیحی عبارت سے متعلقہ ضروری تشریح بھی دیتے ہیں۔(21)
مولانا ابراہیم میرؒ کی تمام تفاسیر قرآن میں منطقی ترتیب اور نظم موجو د ہے۔ بیانِ مقصود میں تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور تمام عبارت باہم مربوط و منظم ہے۔ بے ساختگی کے باوجود جملوں اور الفاظ میں عدم تکرار ہے۔ اگرچہ تسہیل عبارت کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور اکثرعبارت آسان اور عام فہم ہے۔ مگر بعض مقامات پر عبارت میں قدرے مشکل الفاظ کا انتخاب بھی نظرآتا ہے۔اس حوالے سے ایک  اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
خداوند! میں کس دل اور کس زبان سے تیرا شکر کروں کہ باوجو د ہجوم ،ہموم و غموم ،تواتر امراض و احزان ،کثرت اشغال و اسفار ،وفور تکاسل و تانی اور عموم تسویف و تعویق جو اکثر میرے شامل حال رہتے ہیں تو نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھ ناتواں کو توفیق بخشی اور ہمت دی کہ میں اس تفسیر کوا نجام دے سکا۔(22)
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ کا علمی و مذہبی کام محاسن و معائب کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کے اندازِ تحریرکی خاص بات یہ ہے کہ ان کی نگارشات میں  روایتی   انداز سے ہٹ کر سادہ ،سہل  اورآسان اسلوبِ بیان دکھائی دیتا ہے۔ان کا علمی و تحقیقی کام سلفی  نظریات کی منہ بولتی تصویر ہے ۔مولانا سیالکوٹی  ؒ کا علمی سرمایہ زیادہ تر تفسیر القرآن ،سیرت النبی ؐ اور تقابل ادیان پر مشتمل ہے۔تفسیر قرآن میں مولانا سیالکوٹی نے کسی ایک منہج و رجحان اپنانے کی بجائے تمام مسالک کی تفسیر کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ اسی لیےانہوں نے حدیث و سنت ،ا بلاغی ابحاث  ،صرفی و نحوی نکات کا بیان کرتے ہیں  اور متکلمانہ مجادلہ بھی کرتے ہیں لیکن اسلاف کے مقرر کردہ تفسیر قرآن کے اُصول مد نظر رکھتے  ہین اور تفسیر بالرائے سے گریز کرتے ہیں۔آپؒ نے تفسیر کو متقدمین کے بیان تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے زمانے کی ذہنیت و روش کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ براہین منقولہ و معقولہ دونوں کی مدد سے اپنے دور میں پیدا ہونے والے انکارِ حدیث اور ختم نبوت جیسے فتنوں سے پیدا ہونے والے شکو ک وشبہات کا ازالہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؒ کے علمی وادبی سرمایے  میں موجود ہ اہل فکر ودانش کی رہنمائی  کے لئے بہت سے علمی و فکری نکات  پوشیدہ ہیں۔
حواشی و حوالہ جات
1۔    عبدالرشید عراقی،النبلاء فی تراجم العلماء ،بیت الحکمت ،لاہور،۲۰۰۴ء ،ص:۲۸۴     
 2۔    اسحاق بھٹی،برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن ،مکتبہ قدوسیہ، لاہور ،۲۰۰۵ء ،ص:۴۷
3 ۔    عبدا لرشید عراقی ،’’النبلاء فی تراجم العلماء‘‘ ،ص:۲۸۴
4۔     مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی،شہادت القرآن ،مکتبہ ثنائیہ،سرگودھا ،۱۴۲۲ھ ،ص:۱۰
5۔     مولوی ابراہیم میر ’’النبلاء فی تراجم العلماء ‘‘،ص:۲۸۴
6۔     مولانا محمد عبدہ الفلاح ،مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی،مشمولہسوانح حیات مولانا ابراہیم میر،، جامع تعلیم القرآن،فیصل آباد،۱۹۹۴ء ،ص:۴۲
7۔     اشفاق حسین،فیض احمد فیض۔شخصیت اور فن ،مقالہ برائے ایم ۔اے اردو ، جامعہ کراچی، کراچی،۱۹۷۴ء ،ص:۶
8۔     ڈاکٹر وحید قریشی ’’پیش لفظ‘‘ ،مشمولہ ’’باقیاتِ تاثیر‘‘ ،از مجید احمد تاثیر سیالکوٹی،الوقار پبلی کیشنز ،،لاہور،۲۰۰۰ء ،ص:۵
 9۔    عبدالرشید عراقی ،تذکرہ النبلاء ،ص:۲۸۴
10۔    مولانا اسحاق بھٹی،’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدام القرآن ،ص:481
11۔     مولانا محمد اسحاق بھٹی،مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی مشمولہ سیرت المصطفیٰؐ از مولوی ابراہیم میر، سیالکوٹ ،مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سیالکوٹ ،۲۰۰۲ء ،ص:۱۴،۱۵   
12۔     مولوی ابراہیم میر، تبصیر الرحمن ،ص:۱۸۸
13۔     مولوی ابراہیم میر،طرزِ تحریر و طریق بیان،مشمولہ سیرت مصطفیؐ،ص:۲۳
14۔     مولوی ابراہیم میر،سیرت مصطفیؐ،ص:۱۵۴   
15۔     ایضاً،ص:۲۲۳
16۔     مولوی ابراہیم میر، تفسیر واضح البیان  ،ص:۱۳۲   
17۔     ایضاً،ص:۴۲۶
18۔     ایضاً،ص:۴۹۲   
19۔     ایضاً،ص:۴۹۴
20۔     مولوی ابراہیم،لا صلاۃ لن لم یقر ا بفاتحۃ الکتاب،ص:۱۰   
21۔     تفسیر واضح البیان،ص:۵۳۱
22۔     ایضاً،ص:۶۱۵

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...