Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں > علامہ اقبال اور دیگر ادبی مشاہیر کی شاعری میں نعتیہ عناصر

ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں |
Asian Research Index
ارض اقبال آفاقیت کے آئینے میں

علامہ اقبال اور دیگر ادبی مشاہیر کی شاعری میں نعتیہ عناصر
ARI Id

1688388584597_56116245

Access

Open/Free Access

Pages

214

علامہ اقبال اوردیگر ادبی مشاہیر کی شاعری میں نعتیہ عناصر

نعت گوئی اساسی طور پر مدحت ہے۔مدحت کی روایت دنیا کے ہر قدیم ادب میں موجود ہے۔نعتِ رسولﷺ حضرت محمدﷺ کی مدحت ہے جو دنیا کی ہر بڑی زبان میں کہی گئی ہے۔سیرت طیبہ ﷺ پر جس کثرت اور تنوع کے ساتھ اردو زبان میں لکھا گیا ہے اس کی مثال کسی اور زبان میں مشکل سے ہی ملے گی ۔اردو زبان وادب میں نعت گوئی کی روایت ایک بلند مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔اردو کے ہر بڑے شاعر نے نعت گوئی میں اپنے جوہر دکھا کر عشق مصطفیٰ ﷺ سے اپنے ایمان کو منور کیا ہے۔ہندوستان کے بڑے بڑے اردو دبستانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے خطوں میں بھی نعتیہ شاعری کی روایت کا اپنا مقام ہے۔چھوٹے خطوں میں بھی اردو ادب کے بڑے بڑے مشاہیر پیدا ہوئے اور نعتیہ شاعری میں اہم کردار ادا کیا۔ان خطوں میں سیالکوٹ ایک اہم خطہ ہے ۔زیر نظر ریسرچ آرٹیکل میں خطہ سیالکوٹ کے اہم نعت گو شعرا کی نعتیہ شاعری   کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
علامہ محمد  اقبالؒ رسول کریم ﷺکی ذات سے ذہنی و قلبی وابستگی اور نعت نگاری میں معنویت و اثرانگیزی کے اعتبار سے دوسرے نعت گو شعرا سےمنفرد دکھائی دیتے ہیں۔کلامِ اقبال کا  بہت بڑا حصہ نعتیہ مفاہیم  کا حامل ہے۔اقبالؒ بظاہر روایتی نعت گو شاعر نہیں ہیں البتہ ان کا شعری ادب فکری و ذہنی تاثیر کے لحاظ سے بذاتِ خود نعت رسولﷺ ہے۔اقبالؒ سیرتِ طیبہ کا غائر  مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ حضورﷺ کی ذاتِ گرامی تمام کمالاتِ ظاہر و باطن اور حقیقت و مجاز کی جامع ہے۔اقبال ؒ اپنے اشعار کے ذریعے باور کراتے ہیں کہ اگر تم ذات مصطفیٰ ﷺ تک رسائی حاصل نہ کرسکے تو سمجھ لینا کہ تم دین سے دور ہو۔کیونکہ ذات ِ مصطفیٰ ﷺ ہی دین کا مرکز و محور ہے۔اقبالؒ کے ہاں بہت سارے متفرق اشعار بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔یہ متفرق اشعار اپنی نوعیت و اہمیت کے اعتبار سے لاجواب و بے مثال ہیں۔
کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
کی محمدؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح و قلم تیرے ہیں(1)
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!
عالم ِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جُنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمالِ بے نقاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب(2)
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے(3)
اقبال ؒکے ہاں نعت کا روایتی انداز نہیں ملتا بلکہ روایت کے تتبع میں  کبھی نعت نگاری کبھی نہیں کرتے ۔ان کی فارسی شاعری میں بھی نعتیہ شاعری کے دلنشین نمونے ملاحظہ کئے جا سکتےہیں۔فارسی  کے کچھ اشعار  ملاحظہ ہوں:
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہی است(4)
ہر کہ از سرِّ نبیؐ گیرد نصیب
ہم بہ جبریل امیں گردو قریب(5)
درِ دل مسلم مقام مصطفیٰؐ است
آبروئے ماز نام مصطفیٰ ؐاست(6)
زندہ ء تا سوز او،درجان تست
این نگہ دارند ایمان تست(7)
بہ منزل کوش مانند مہ نو
دریں نیلی فضا ہر دم فزوںشو
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر
بحق دل بند و  راہ مصطفیٰؐ  رو(8)
غازی علم الدین شہید اور غازی عبدالقیوم شہید کی محبتِ رسول ﷺ میں سرفروشی کے واقعات سے اقبالؒ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اور لاہور اور کراچی کے عنوان سے ایک قطعہ کہا جس میں ان غازیوں کی سرفروشی کی طرف بلیغ اشارہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
مو ت کیا شے ہے ؟فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدروقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلمان تجھے کیا یاد نہیں؟
حرفِ لا تدع مع اللہ الھاً آخر(9)
علامہ اقبال رسول کریم ﷺ کے دیدار سے مشرف ہونے بے انتہا عمدہ تفسیر و توجیہ کرتے ہیں ۔ان کے ہاں اتباع رسولؐ میں ڈوب جانے کا نام دیدارِ رسولؐ ہے۔اگر کوئی فرد رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں زندگی کے شب وروز بسر کرتا ہے تو وہ  جن و انس  میں مقبول و معروف ہو جائے گا۔سنتِ رسولﷺ کی اتباع میں ڈوب کر خود شناسی حاصل کرنا ہی اصل میں دیدارِ رسولؐ ہے۔اس سلسلے میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
معنی دیدار آں آخر زماںؐ
حکم او بر خویشتن کردن رواں
در جہاں زی چوں رسولؐ انس و جاں
تا چو او باشی قبول انس و جاں
باز خود را بیں ہمیں دیدار او ست
سنت  او سرّے از اسرار اوست(10)
مولوی فیروز الدین(11) قادر الکلام شاعر تھے ۔وہ غزل اور نظم کے روایتی شاعر نہیں تھے۔انہوں نے شاعری کو تبلیغی وسیلے کے طور پر اختیار کیا۔حمدیہ اور نعتیہ شاعری ان کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔وہ مناجات میں بھی اللہ سے نعت کہنے کا سلیقہ مانگتے ہیں ۔انہیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ بہترین لفظوں کے انتخاب کے باوجود بھی نعت کہنے کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔ذیل کے قطعے میں اسی بات کا اظہار یوں کرتے ہیں :
کیونکر ہو ثنائے ذات سرمد تحریر
کس طرح ہو نعت پاک احمد تحریر
فیروز یہ منزل ہے بعید اس کو چھوڑ
بہتر ہے کہ کیجیے اپنا مقصد تحریر(12)
ایک نعتیہ مسدس سے چنداشعار  ملاحظہ ہوں:
وہ تو سچا مثل موسیٰ تھا
جو جو اس کے خلاف میں اٹھا
اس کو پکڑا خدا نے پر پکڑا
پھر جہاں میں ملا نہ اس کا پتہ
وہ نبی ؐ اک خدا کی قوت تھی
سامنے آئے کس کو جرات تھی۔(13)
نعت نگاری  ظفر علی خان کا محبوب موضوع ہے۔ نعت اور تاریخِ اسلام کے روشن ماضی کے اخلاق آموز واقعات کا بیان ظفر علی خان کی شاعری کا مرکزی موضوع ہے جہاں ان کا قلم عقیدت و محبت کی پنہائیوں میں ڈوب کر گوہر آبدار تلاش کرتا ہے اور عالم انسانی کی رہنمائی کیلئےپیش کرتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مرے مضمون ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور آیا
خدا کی حمد‘ پیغمبرؐ کی مدح‘ اسلام کے قصے
ظفر علی خان نے  نعت میں متقدمین کی روایت کو بڑے جذبہ و شوق‘ فکر و احساس کے علاوہ اپنے پر شکوہ لہجے اور دلآویز انداز میں آگے بڑھایا ہے ۔خدائے بزرگ و برتر کی حمد کے ساتھ ساتھ ظفر علی خان نے سرور کون و مکانؐ کینعت کے سلسلے کو بھی جاری رکھا اور اعلیٰ پائے کی نعت گوئی میں بلند مقام و مرتبے پر فائز رہے۔ اس حوالے سے ظفر علی خان کا ایک نعتیہ مخمس ’’نذر محقر بحضور خواجۂ دو جہاں سرور کون و مکان محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰؐ‘‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو:
اے کہ ترا شہود ہے وجۂ کائنات
اے کہ ترا فسانہ ہے زینت محفل حیات
اے کہ تیری ذات میں جمع زمانہ کے صفات
سب ملکی تصرفات سب فلکی تجلیات
سلطنت اک جہاں کی ہے تیری نگاہ التفات(14)
ظفر کے نعتیہ کلام میں ان کی مشہور نعت ’’شمع و حرا‘‘ بڑی دل آویز اور معنوی رفعت میں بے مثال ہے۔ اس نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کو ندگئی آفاق کے سینہ زاروں میں(15)
جب ظفر علی خاں امتِ مسلمہ کو ذلت و رسوائی سے دوچار دیکھتے ہیں تو وہ بے چین ہو جاتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر جب سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ تو اس کے ساتھ ہی عظیم خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ظفر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ وہ رسولِ مکرمؐ کے دربار میں اپنی نظم ’’التجا بحضور سرورِ کائناتؐ‘‘ میںیوں فریاد کناں ہوتے ہیں:
جاگ او یثرب کے میٹھی نیند کے ماتے کہ آج
لٹ رہا ہے آنکھوں آنکھوں میں تیری امت کا راج
سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی انہیں ملتا نہیں
جب کہ ہیبت لے چکی ہے ایک عالم سے خراج
تیرے بچے ہو رہے ہیں ساری دنیا میں ذلیل
کیا نہیں اے قبلہ عالم تجھے بچوں کی لاج
ہم ہیں ننگے سر اٹھ اے شانِ عرب آنِ عجم
اور پہنا دے ہمیں پھر سطوتِ کبریٰ کا تاج
تشنہ کا مانِ خلافت کو خود اپنے ہاتھ سے
بھر کے وہ ساغر پلا ہے انگبیں جس کا مزاج
اب دوا سے کام کچھ چلتا نہیں بیمار کا
اب تو ہے تیری دعا ہی تیری امت کا علاج (16)
داغ دہلوی کے شاگرد شجر طہرانی ایک پختہ گو سخن ور تھے  جنہیں شعر گوئی میں استاد ہونے کا مرتبہ حاصل تھا۔انہوں نے اردو ہی نہیں فارسی میں بھی نعت گوئی میں فن ِ شاعری کے خوب جو ہر دکھائے ۔ان کے ہاں عشق ِرسول ﷺ کے جذبات واحساسات درجہ کمال کو پہنچے نظر آتے ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
خرام ِ ناز پر تیرے یہ عرش و فرش نازاں ہیں
تیرے قدموں کو چھو کر خاک بھی اکسیر بنتی ہے
یہ بزمِ کن فکاں ہے پیش خیمہ ان کی آمد کا
شجر اسمِ محمؐد کی یہی تفسیر بنتی ہے(17)
بھر لوں بچھا کے چادرِ سجدہ اگر مجھے
بخت جبیں سے خاکِ درِ مصطفےٰؐملے(18)
رحمتِ عام نام کن کا ہے
شافع محشر مقام کن کا ہے
کیوں نہ جنت شجرکا مسکن ہو
جانتے ہو غلام کن کا ہے !(19)
علامہ اقبال کے معنوی شاگردامینِ حزیں سیالکوٹی مذہبی آدمی ہیں۔ انہیں مذہب سے بہت محبت ہے۔ اپنی شاعری سے وہ رشد و ہدایت کا کام بھی لیتے ہیں۔ان کی شاعری میں جا بجا نعتیہ عناصر بھی موجود ہیں۔عشقِ مصطفے ﷺہر مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ اقبال کی طرح امینِ حزیں بھی ایک سچے عاشق رسولؐ ہیں۔ ان کی غزلیات اور نظموں میں نعتیہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے:
دو عالم سے بالا ہے شانِ محمدؐ
بہ روح محمدؐ بہ جانِ محمدؐ
کلامِ خدا تو ہے وحدت کا دریا
مگر رہگذر ہے زبانِ محمدؐ
وہی شاخِ طوبیٰ پہ ہیں چہچہاتے
جو بلبل کہ ہیں مدح خوانِ محمدؐ
امین کو ہے ’’نور علیٰ نور مشعل‘‘
کلامِ خدا و بیانِ محمدؐ (20)
عشقِ مصطفےؐ ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔سیدصادق حسین  بھی عاشق رسولؐ ہیں اور وہ اپنے اس عشق کا اظہار اپنی نعتیہ شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’صحرا کا نبیؐ‘‘ ان کی ایک طویل نعتیہ نظم ہے۔ جس میں صادقؔ نے حضورؐ کی سیرت کی تصویر کشی کی ہے۔ انہوں نے آپؐ کے آباؤ اجداد‘ عرب کا ماحول‘ آپؐ کے بچپن‘ جوانی اور نبوت کے دور کی عکاسی حقیقت پسندانہ انداز میں کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نمونہ تھا وہ خود بھی پاکبازی کا شرافت کا
دھیاں رہتا تھا اس کو رات دن حق کی عبادت کا
خدا کییاد میں اک غار میں مصروف رہتا تھا
ہدایت کی توقع میں وہ ہر تکلیف سہتا تھا
یونہی وہ کر رہا تھا ایک دن یادِ خداوندی
کہ آیا اک فرشتہ لے کر ارشادِ خداوندی
سنا اس نے نہایت غور سے جو کچھ کہا اس نے
کیایہ ذکر آ کر پھر چچا سے اور بیوی سے
نبیؐ ہونے کی دونوں نے‘ اسے فوراً بشارت دی
بڑھایا حوصلہ اس کا‘ تسلی دی‘ اعانت کی(21)
سیدصادق حسین  کی نعت نگاری کے حوالے سے ’’معراج رسولؐ‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔ جن میں صادق کا اپنا منفرد اسلوب دیکھا جا سکتا ہے:
رفعتِ اخلاق لے جائے تجھے بھی آن میں
خواہشاتِ نفس سے آلودہ گرداماں نہ ہو
مشکلیں پیدا ہوئیں تیرے خیالِ خام سے
ورنہ کوئی بھی نہیں ہے کام جو آساں نہ ہو(22)
اردو کے دوسرے تمام شاعروں کی طرح اثر  صہبائی  (خواجہ عبد السمیع پال)نے بھی نعتیہ شاعری کہی ہے۔ اثرؔ صفاتِ نبویؐ کو بڑے خوبصورت انداز  میںپیش کرتے  ہیں۔ اثرؔ کا نعتیہ رنگ ملاحظہ ہو:
تیرے سوزِ عشق سے پیغامِ حق
زندہ تر‘ تابندہ تر‘ پائندہ تر
تو نے صہبائی کو کیا کچھ دے دیا
عشق حق‘ جوشِ جنوں ‘ حسنِ نظر(23)
نعتوں میں معجزات‘ صفات اور اخلاقِ حسنہ کے متعلق لکھتے ہوئے اپنے جذبات دلی اور عشقِ رسولؐ کو بھی پیش کرتے ہیں۔ انہیں رسول کریمؐ کے دیدار کی بے حد تمنا تھی جس کا اظہار اپنے نعتیہ شعری مجموعے ’’بحضور سرور کائناتؐ‘‘ کے پسِ منظر میں کرتے ہیں:
میں اکثر سونے سے پہلے اس خدا نما انسان کی
زیارت کے لیے دعائیں مانگتا ہوں(24)
خدا بخش مضطر نظامی کی شاعری بھی عشق ِ رسولﷺ کی آئینہ دارہے ۔انہیں سرورِ کونین سے خاص عشق تھا ۔جس کا اظہار انہوں نے تمام اصنافِ سخن میں کیا ہے۔عشق ِ رسولﷺان کی شاعری کی مرکزی روح ہے۔ان کی نعت گوئی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس حوالے سے چند اشعار درج ذیل ہیں:
جمالِ پاک کو دیکھے بشر کی تاب نہیں
وہ بے نقاب ہوئے پر بھی بے نقاب نہیں
دامن ِ امروز میں ہے ہی دولتِ کونینﷺ
خوش بخت وہ لوگ ہیں جو غمِ فردا نہیں رکھتے(25)
    مضطر کے مزید نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
حرم پاک کی طرف ہے مری جان مضطر
شمع کی طرف سے کیا مانع ہے پروانے کو
مل ہی جائے گا کبھی مضطرحضوری کا شرف
گھر درِ محبوب پر اپنا بناتے جائیے(26)
ساغر جعفری سچے اور کھرے عاشق رسولؐتھے ۔ ان کی نعتیہ شاعری سے ان کی شمع رسالتؐ سے محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنی نعتیہ شاعری میں ساغر نے حضورؐ کی صداقت و شجاعت اور مقام و مرتبہ کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے نہایت عجز و انکساری سے بارہ گاہِ رسالتؐ میں اپنے جذبات کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اور حضورؐ کی انسانیت کے لیے تڑپ اور ان تھک کاوشوں پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ نعت نگاری کے حوالے سے ساغر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تخلیق کائنات کا باعث ترا وجود
رونق فزائے عالم امکاں ہے تیرا نام
تاریکیوں میں نور کی قندیل تیرییاد
ظلمت کدے میں سرو چراغاں ہے تیرا نام(27)
طاہر شادانی کی شاعری کا بیشتر حصہ نعت گوئی پر مشتمل ہے۔ شادانی نے حالی کی طرح نعت کو مقصدی رنگ دیا ہے۔ انھوں نے عصری مسائل کونعت میں بیان کرکے اور حضور ؐ کی اُمت کی زبوں حالی سے بے چین ہو کر اصلاح حال کی التجا پیش کرنے کی بھر پور کوشش کیہے:
پھر آپؐ   کی اُمت پہ مصائب کی ہے یورش
پھر دشمنِ جاں اس کی ہوئی گردش دوراں
دیکھی نہیں جاتی ہے زبوں حالی اُمت
ہو اس پہ نگاہ کرم اے رحمت یزداں(28)
شادانی نے اپنی نعتیہ شاعری میں حالی کے اشعار کے مصرعوں کو تضمین کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے:
طوفانِ حوادث میں گھرا ہے یہ سفینہ
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں(29)
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
سنگینی حالات سے دل ڈوب رہا ہے(30)
شادانی کی نعت نگاری میں عشق رسولؐ کا جذبہ جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ عشق رسولﷺکو خون رگ جاں میں شامل کرلیتے ہیں ۔ اور عاشق رسول بن جاتے ہی۔ ایک عاشق کے لیے اپنے محبوب کییاد میں ہی ایسی چیز ہوتی ہے۔ جس میں وہ سکون محسوس کرتا ہے:
یاد آپؐ کی مرے لیے وجہ قرار جاں
میرا سکون دل مری سرکار آپؐ ہیں(31)
طاہر شادانی کی نعت میں عشق رسولؐ کے جذبے کے بارے میں حفیظ صدیقی رقم طراز ہیں:
طاہر شادانی کا دل حضورؐ سے محبت و عقیدت سے معمور ہے وہ اس محبت کا اظہار جگہ جگہ کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دل میں حضورؐ کی محبت کے چراغ روشن کر رکھے ہیں اور اس سعادت کے عطا ہونے کے لیے بھی آپ کے ممنون احسان رہتے ہیں۔(32)
شادانی کی نعتوں میں زبان و بیان کا پختہ شعور ملتا ہے۔ انھیں زبان پر اتنا شعور حاصل ہے کہ ان کا ہر شعر زبان و بیان کے استعمال کا عمدہ نمونہ ہے۔
اس حوالے سے جعفر بلوچ لکھتے ہیں:
انھیں زبان و بیان کے مختلف اسالیب پر اطمینان بخش عبور حاصل ہے۔(33)
ڈاکٹر انور سدید شادانی کی الفاظ پر قدرت رکھنے کا اعتراف اس طرح کرتے ہیں:
سیارہ کے وسیلے سے میں نے ان کی شاعری کے سب رنگ دیکھے ہیں اور ان سے یوں فیض اُٹھایا ہے کہ جب کسی لفظ کے استعمال پر شک پیدا ہوا تو میں نے شادانی صاحب کے کلام سے راہنمائی حاصل کی وہ میری ہر مشکل میں کام آئے۔ انھوں نے ہر مرحلے پر میری دستگیری کی۔(34)
سعیدہ صبا سیالکوٹی نے  بھی حضورؐ سے سچی محبت کی وجہ سے متعدد نعتیں لکھیں۔ ایک وقت ایسا تھا جب ان کا مقصود شاعر ی سے کہیں زیادہ مدحتِ رسول عربیؐ تھا۔
ان کی شاعری کے بارے میں احسان اللہ ثاقب رقم طراز ہیں:
آپ اپنے منفرد اسلوب میں الفاظ کا جادو جگاتی ہیں اور مشکل سے مشکل مضامین کو بھی آسانی سے ادا کرنے کی مہارت رکھتی ہیں۔ حمد، مناجات، نعت، سلام ،قومی واقعات اور گھریلوتقریبات آپ کے دل پسند موضوعات سخن ہیں۔صبا کی شاعری رضائے الہی کے حصول ،رسولؐ خدا کی خوشنودی ،ملی احساس اور معاشرتی فلاح و بہبود کے جذبات سے لبریز ہے۔(35)
صبا کا نعتیہ کلام ان کے دل سے نکلی ہوئی آواز ہے۔ انھوں نے آیات قرآنی کاسلیس اور سادہ زبان میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔وہ قرآن اور خالق قرآن سے محبت کرتی ہیں۔ وہ عشقِ رسولؐ کا مجسمہ ہیں۔ وہ اس بات کا شعور رکھتی ہیں کہ روح کے سکون کے لیے عشقِ حقیقی اور عشقِ رسولؐ کا ہونا ضروری ہے کچھ نعتیہ اشعار  ملاحظہ ہوں:
وہ دل جو دور ہیں تجھ سے ترے قریب نہیں
کہیں بھی ان کو حقیقی خوشی نصیب نہیں
تمہارے چاہنے والے اک ایک سے بڑھ کر
کمال یہ ہے کہ کسی کا کوئی رقیب نہیں(36)
آسی ضیائی رامپوری نے اعلیٰ پائے کی نعت گوئی کی ہے۔ ان کی نعتیہ نظموں میں منفرد اسلو ب اظہار،ندرت بیان اور فکری و جذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ ایک سچے عاشق رسولؐ ہونے کے ناطے آپ کی تب وتاب اور سوزو سا زسے ہم سب کے لیے عمل کا پیغام ہے۔ آپ کی تین نعتیہ نظمیں معذرت نعت ،دکھائی اور احتجاج بڑی شہرت کی حامل ہیں۔آسی محبت کے ساتھ اطاعت رسولؐ کے قائل ہیں کیونکہ اطاعت کے بغیر محبت کی کوئی حقیقت نہیں:
نعت گو کے لیے لازم ہے محبت اُنؐ کی
اور معیارِ محبت ہے اطاعت اُنؐ کی
جان سے بڑھ کر عزیز اس کو ہو سنت اُنؐ کی
روح تا جسم پہ چلتی ہو حکومت اُنؐ کی
یوں سدا اُنؐ کی رضا جوئی کو بے تاب رہے
جیسے پانی کے لیے ماہی بے آب رہے(37)
اصغر سودائی نے غزل گوئی اور نظم گوئی کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں نعتیں بھی لکھی ہیں ۔وہ اردو شاعری میں بطور نعت گو ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ان کا نعتیہ مجموعہ’’شہِ دوسرا‘‘ تعجب انگیز اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔اصغرسودائی نے نعت کہنے کے لیے غزل کا پیرایہ استعمال کیا ہے۔ ان کی نعت گوئی میں ملی درد جھلکتا ہے ۔ ان کے لیے معاشرتی بگاڑ نا قابل برداشت ہے۔ وہ موجودہ اخلاقی قدروں کی پامالی کی ذمہ داری تعلیمات نبوی سے دوری کو قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں ملت اسلامیہ جس اخلاقی اور تہذیبی زوال سے دوچار ہیں۔ وہ سب آنحضرت کی اتباع نہ کرنے کے وجہ سے ہے۔ انھوں نے اپنی نعتوں سے مسلمانوں کی اصلاح اور تبلیغ کاکام بھی کیا ہے۔ ان کی نعت کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺکی شخصیت کے جلال و جمال اور سیرت مطہرہ کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے الہامی پیغام درخشاں تعلیمات کو بھی شامل کرتے چلے جاتے ہیں۔نعت کے لیے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ حضورؐ کے ساتھ والہانہ محبت ہو ۔اصغر سودائی نبی اکرم ؐکے ساتھ ہر سچے مسلمان کی طرح غیرمعمولی محبت رکھتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کی نعتوں میں والہیت اور سپردگی بدرجہ اتم موجود ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ازل کے نور کی تابندگی حسن بدن میں ہے
ابد کے ساز کی آواز ان کے ہر سخن میں ہے
جھلک شاید کہیں دیکھ لی جاتی ہے تجلی کی
کہ بے چینی ہے سورج میں تو بے تابی کرن میں ہے(38)
اصغر کی نعت میں انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے نعت کو وصف رسولؐ کے ساتھ ساتھ تاریخ و عمرانیات سے بھی ہم آہنگ کر دیا ہے۔ عربی زبان سے بھی انھیں شغف ہے۔ عربی الفاظ اور بعض جگہوں پر انھوں نے پورے مصرعے عربی میں استعمال کیے ہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی سودائی کی اس خصوصیت کا ذکران الفاظ میں کرتے ہیں:
ان کی نعت کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھیں زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل ہے۔چند مقامات پر انھوں نے بعض قرآنی  آیات ان کے معنی و مفاہیم کو بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی نعت میں سمویا ہے۔ اس قدرت کلام نے ان کی نعت کو اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک ممتاز مقام بخشا ہے۔(39)
اصغر سودائی کے اسلوب نعت میں عربی لفظوں اور آیتوں کے ساتھ ساتھ تلمیحات اور حوالے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ تاریخی قدیم قصوں کے بیان میں اصغران افراد کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جن کا آپ کی حیات مبارکہ سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق بنتا ہے۔ ان کی نعتوں کا ایک اہم عنصر ان کی تراکیب بھی ہیں۔ جن کا انھوں نے بہت استعمال کیا ہے۔ یہ ترکیبیں ان کے کلام میں پھولوں کی طرح بکھری ہیں۔
آثم فردوسی کی شاعری میں بھی نعتیہ عناصر بدرجہ اتم موجودہیں۔ ان کے چار شعری مجموعے نعت نگاری پر مشتمل ہیں ۔آثم فردوسی نے اپنے ادبی سفر میں بچوں کے لیے شاعری کی ،پھر غزل کی وادیوں میں گھومتے رہے۔ کبھی کبھار حمد و نعت بھی کہہ لیتے لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ان کی طبیعت نعت مصطفی ؐپر یکسو ہو گئی اور غزل سے ان کی رغبت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ان کی نعتیہ شعری مجموعے ’’مہمان معلیؐ‘‘ سے ’’عرشِ رسا‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کی عقیدت شیفتگی بہت گہری ہو جاتی ہے۔پھر ان کی تمام تر عقیدتیں عمل میں ڈھلتی نظر آتی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمدؐ کی ذات کے معتقد ہیں۔ وہ حضورؐ کو اپنا راہبراور راہنما تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حضورؐ کی ذات ساری انسانیت کی محسن ہستی ہیں کیونکہ انھوں نے انسان کو دنیا میں اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔انھوں نے انسان کو دنیا میں مساوات اور انصاف جیسے حقوق بھی عطا کیے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
کب تک میں خواہشوں کے قفس میں پڑا رہوں
اپنا اسیر کر کے مجھے بھی رہائی دے
نقش ہو جائے اگر اسمِ نبیؐ ہر سانس پر
دل مرا روشن رہے چہرہ مرا روشن رہے(40)
محمدؐ کے نقوش پا کے صدقے
سفر دنیا کا آسان ہو گیا(41)
نعت کے توسط سے آثم مرزا عشق و سرمستی کی کیفیات رقم کرتا ہے۔ نعت اس کا اظہار فن بھی ہے اور سرمایہ حیات بھی ،نمو د عجز بھی ہے اور افتخار عشق بھی ،آثم مرزا نے بھی اس قافلے میں شامل ہو کر گدائے مصطفیٰؐ بننے کا شرف حاصل کیا ہے۔ آثم نے نعت کے لیے بھی آزاد نظم کا اسلوب اپنایا ہے۔ حضور ؐ سے عقیدت و محبت کا اظہار ملاحظہ کیجیے کہ شاعری نعت رسول کہنے کی خواہش رکھتے ہوئے لکھتے وقت کس طرح اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا ہے اور کس طرح اس ادراک کا حوالہ دے رہا ہے کہ انسان مدح رسولؐ کر ہی نہیں سکتا۔چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
میں اک قطرہ
وہ بحر بیکراں سے بھی فزوں تر ہیں
وہ تخلیق جہاں کے مقصد اعلیٰ کا ہیں شفاف آئینہ
مرے سرکا ر کا رُتبہ
بیاں ہو کس طرح مجھ سے(42)
حضورؐ کی سیرت کی جھلکیاں آپ کی نعتیہ نظموں میں بھی ہیں اور ان نظموں میں بھی ہیں جو میلادالنبیؐ کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔ انھوں نے جگہ جگہ حضورؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری کو انسانیت کو صدیوں کے جبرو استبداد کے چنگل سے نکلنے کی بشارت اور گرداب کے تھپیڑوں کی ماری ہوئی قوم کے لیے زندگی کی نوید قرار دیا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ آج کا دن
وہ دن ہے یارو
غلام صدیوں کے جبر کی تیرہ دستیوں سے
نجات پا کر
بنے تھے سردار لشکروں کے
بھڑک رہی تھی جو آگ نفرت کے معبدوں میں
وہ آج کے دن بنی تھی گلزار کامرانی
جہان کہنہ کی ظلمتوں کے مہیب زنداں کی سرحدوں سے
بلکتی انسانیت کو پھر سے اماں ملی تھی(43)
نعت نگاری بھی حفیظ صدیقی کی شاعری کا ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ ان کے چار شعری مجموعے نعت گوئی پر مشتمل ہیں۔ حفیظ صدیقی کے نعتیہ کلام میں ہیئتی اعتبار سے تنوع پایا جاتا ہے۔ ابتدائی مجموعہ ’’لازوال‘‘ غزل کی ہیئت، دوسرا مجموعہ’’ لا مثال‘‘ غزل اور آزاد نظم کی ہیئت میں تیسرا مجموعہ ’’لا فانی‘‘ فردیات اور چوتھا نعتیہ مجموعہ’’لا ثانی‘‘یک مصرعی نظموں کی صورت میں لکھا ہے۔نعت گوئی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قرآنی افکار، احادیث اور سیرت النبیؐ سے روشناس ہونا بہت ضروری ہے تاکہ معلومات میں کوئی ابہام نہ رہے۔ حفیظ صدیقی کے کلام میںیہ تمام عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ خدا اور رسولؐ سے جو محبت ان کے دل میں اُمڈتی ہے ۔وہ اسے الفاظ کی صورت میں عطا کرکے کاغذ پر اتار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے کلام میں صداقت اور تاثیر ہے۔ علاوہ ازیں ان کی نعتوں میں محبت، عقیدت،خلوص اور تخیل کی بلندی بھی پائی جاتی ہے:
کبھی نہ آیا جگ میں کوئی تیرےؐ جیسا
صورت میں بے مثل تو سیرت میں بھییکتا
نہیں ہے کوئی جہاں میں جو تیرےؐ جیسا ہو
زمانے بھر میں نہیں کوئی بھی مثال تریؐ
شعر کہنے کا ہُنر اس نے دیا جو مجھ کو
کام لیتا تھا محمدؐ کی ثنا خوانی کا(44)
حفیظ الرحمٰن احسن کو بھی نعتیہ شاعری سے خاص شغف ہے۔انہوں نے نعتیہ شاعری زیادہ تر غزل کی ہیئت میں کی ہے۔ان کے چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
تیریؐ رحمت کا آسرا چاہوں
اور اس کے بعد کیا چاہوں
تیری چوکھٹ پہ جا کے بیٹھ رہوں
قرب کا تیرے سلسلہ چاہوں(45)
رشید آفریں نے بھی  نعتیہ اشعار کہے ہیں ۔نعت ان کا محبوب موضوع ہے ۔فخر دو عالم ﷺ ان کا باقاعدہ شعری مجموعہ ہے۔جس میں رشید آفریں کی حضورﷺسے محبت دیکھی جا سکتی ہے ۔ان کے نظمیہ اور غزلیہ شعری مجموعوں میں بھی نعتیہ کلام موجود ہے۔جب ہم رشید کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رشید کی جدید نعت جدید شعور سے بہرہ ور ہے۔رشید کی نعت کی اس کیفیت کا نمونہ کچھ اشعار میں ملاحظہ ہو:
دل میں ہے موجزن شہِ کونینؐ کی ولا
جچتا نہیں نگاہ میں کوئی بھی کج کلاہ
مدحت سے آپؐ کی ملا مجھ کو وہ حوصلہ
آسان ہوا ہے جس سے ہر دشوار مرحلہ(46)
اطہر سلیمی کی شاعری کا اہم موضوع بھی نعت گوئی ہے۔ان کی غزلوں اور نظموں میں متعدد نعتیہ اشعار دیکھے جا سکتے ہیں  جو نعت نگاری اور عشقِ رسول ﷺ کا بہترین نمونہ ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
دل کو خیال ِ گلشنِ بطحا ہے آج کل
پیش نظر ہےحضور ؐکا روضہ ہے آج کل
ہر گام مل رہی ہے نئی زندگی مجھے
ہر پل خیالِ گنبدِ خضراہے آج کل (47)
اکرام سانبوی کے ہاں بھی عشق رسولﷺکے عناصر موجود ہیں۔اکرام ایک سچے اور کھرے عاشق رسولﷺہیں۔ان کی نظموں اور غزلوں میں بھی نعتیہ شاعری جابجا ملتی ☻ہے۔انہوں نے بہت سی نعتیہ نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔جن میں حضرت محمدﷺ کے عشق میں بھیگے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
شاہِؐ شاہانِ اُمم نورِ ازل کی قندیل
تیرا ہر تار نفس ذاتِ احد کی دلیل
تیرا اِک ایک عمل تابع فرمانِ خدا
تیرا اِک ایک قدم جنبشِ بالِ جبریلؑ
ناصیہ سا تیرے در پہ ہوں اٹھا لیجئے مجھے
میں ہوں اکرام تیرا ،تو میرا آقا و کفیل(48)
اسلم ملک کے شعری مجموعوں میں بھی نعتیہ شاعری کے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔ حضورﷺ کی ذات اور ان کی صفات سے عشق و محبت اسلم ملک کی شاعری کا مرکزی موضوع ہے۔عشقِ رسولﷺ کی موجزن لہریں جا بجا ان کی نعتیہ شاعری میں نظر آتی ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
شہِ دوجہاں کا کرم چاہتا ہوں
سفر اپنا سوئے حرم چاہتا ہوں
دیا ان کا روشن رہے تاکہ دل پر
میں الفت میں ان کا بھرم چاہتا ہوں(49)
شاہد شاذ کی غزلوں اور نظموں میں بھی نعت اور عشقِ رسولﷺ کے موضوعات دیکھے جا سکتے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جب سے تیری ؐ نعت میں لفظ میں نے لکھےہیں
تب سے یہ حرف سیاہ پُر نو ر ہوتے جاتے ہیں(50)
صدارتی ایوارڈ یافتہ نعت گو  شاعر ریاض حسین چودھری دس نعتیہ شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ان کا شمار ان بلند ذکر شعرا میں ہوتا ہےجن کا آغاز غزل سے ہوا مگر جب نعت کے چمن زاروں میں پہنچے تو نعت کی صورت میں اپنے عہد کو معتبر کر گئے۔ان کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئین ِ رسالتؐ کے ساتھ ساتھ عہد جدید کے معتبر حوالوں سے اٹھا ہےاور ان میں تقدس اور تازہ کاری بھی ہے۔انہوں نے نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے نئے آفاق دکھائے ہیں اور غزلیہ انداز کی نعتوں کو جدید اسالیب سے ہم آہنگ کرکے نیا وقار عطا کیا ہے۔ریاض کی نعت گوئی میں استغاثے کا انداز نمایاں ہے۔وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی دکھ  حضورﷺ کی عدالتِ عظمیٰ میں پیش کرکے نظرِ کرم کا ملتجی ہے۔ریاض کا اسلوب اردو شاعری میں تمام تر جمالیات سے مستیّزہے اور اسے جدت و شائستگی کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ان  کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
مرنے کے بعد بھی ہے عشقِ نبیؐ کا موسم
مری لحد میں اترے یہ روشنی کا موسم(51)
میں ہر ساعت کے ہونٹوں پر گلابِ نعت رکھتاہوں
بہارِجاوداں میرے مقدر میں ثنا لکھے(52)
چھپا کر آپؐ کا اسمِ گرامی اپنے سینے میں
میں شہرِ ہجر میں ہوں اور رہتا ہوں مدینے میں (53)
میں اجالوں کا مسافر ہوں کہاں جاؤں حضورؐ
ہر طرف دیوارِ شب ہے راستہ کوئی نہیں
رستہ کسی سے پوچھنا توہین ہے مری
ہر راہ گزرشہرِ پیمبرؐ کو جائے ہے(54)
حواشی و حوالہ جات
1    ڈاکٹر محمد اقبال،کلیاتِ اقبال،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،2001ء،ص-237
2    ایضاً،ص-8
3    ایضا،ص-233
4    ایضاً،ارمغانِ حجاز ،ص-62
5    ڈاکٹر محمد اقبال،کلیاتِ اقبال (فارسی)،شیخ غلام علی اینڈ سنز،لاہور،1990ء،ص-32
6    ایضاً،اسرارورموز،ص-19
7    ایضاً،، پس چہ باید کرد،ص-68
8    ایضاً،ارمغانِ حجاز،ص۔65
9    ایضاًضربِ کلیم ،ص۔68،69
10    ایضاً،جاوید نامہ،ص-128
11    مولوی فیروز الدین (1824-1907) کا عرصہ حیات انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے پہلے عشرے پر مشتمل ہے۔ آپ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پیدا ہوئے ۔وہ بیک وقت مفسرقرآن مجید،قواعد نویس،لغات نویس،سیرت و سوانح نگار،معلم،مذہبی عالم،ماہر تقابل ادیان،نعت گو شاعر،اردو اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے۔مزید تفصیل کے لئے  ملاحظہ کیجیے:پنجاب ٹیچر گزٹیئر 1905،سیریل نمبر 2414
12    مولوی فیروز الدین،پیارے نبیؐ کے پیارے حالات،جلددوم،مفید عام پریس سیالکوٹ، باراول،1318ھ،ص۔1
13    رسالہ انجمن حمایتِ اسلام،جون 1894ء،ص-6
14    ظفرعلی خان،کلیات ظفر علی خان (بہارستان)،الفیصل ناشران ،لاہور،2007ء،ص-24
15    ایضاً ،ص-13
16    مولانا ظفرعلی خان،بہارستان،مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ،لاہور،2008ء،ص-23
17    حکیم عبدالنبی شجر طہرانی،نطق مدحت،منہاج پرنٹنگ پریس،لاہور،2018ء،ص،23
18    ایضاً،ص،26
19    ایضاً،ص،27
20    امین حزین،سرورِ سرمدی،الفیصل ناشران و تارجران،لاہور،2006ء،ص-32
21    صادق حسین،برگ سبز،لاہور 1977ء،ص۔11-12
22    ایضاً،ص-8
23    اثر صہبائی،بحضورسرورِ کائناتﷺ،انجمن حمایتِ اسلام،لاہور،س-ن،ص-35
24    ایضاً،ص-39
25    مضطر نظامی،مسودہ نقش حیات،ص-182
26    ایضاً،ص۔187
27    ساغر جعفری،جامِ مودت،اردو ادب اکیڈمی،سیالکوٹ،1997ء،ص-36
28    طاہر شادانی،شعلہ نمناک،ایوانِ ادب،لاہور،2000ء،ص-48
29    ایضاً،ص-48
30    ایضاً،ص-49
31    ایضاً،ص-40
32    پروفیسر حفیظ صدیقی،"طاہر شادانی کی نعتیہ شاعری"،مشمولہ"تحریریں"،نعت نمبر،17،اگست 1997ء،ص-41
33    جعفر بلوچ،"شادانی اور ان کا کلام"،مشمولہ،" شعلہ نمناک"،ص-44
34    ڈاکٹر انور سدید،"ارضِ سدید"، مشمولہ،" شعلہ نمناک"،ص-16
35    احسان اللہ ثاقب،"پاکیزہ افکار کا آفتاب"،مشمولہ،"گلدستہ صبا"،از سعیدہ صبا سیالکوٹی، لاہور، 1996ء،ص-12
36    سعیدہ صبا سیالکوٹی،"گلدستہ صبا"،ص-35
37    آسی ضیائی رامپوری،مشمولہ "ماہنامہ صبح نو"،لاہور،جولائی 1969ء،ص-18
38    اصغر سودائی،شہ دوسرا،بزم رومی و اقبال،سیالکوٹ،1989ء،ص-15
39    تحسین فراقی،"اصغر سودائی کی نعت گوئی"،مشمولہ،"شہِ دوسرا"،ص-5
40    آثم فردوسی ،"عرش رساﷺ"،حلقہ حروفِ ارباب،لاہور،1996ء،ص-31،32
41    ایضاً،ص-48
42    آثم مرزا،"نعت"،مشمولہ،"ماہنامہ اظہار"،کراچی شمارہ جولائی 1983ء،ص-4
43    آثم مرزا،"نعت"،مشمولہ،"روزنامہ جسارت"،کراچی،31 جنوری 1988ء،ص-5
44    حفیظ صدیقی،"لافانی"،(مسودہ)،ص۔42
45    حفیظ الرحمٰن احسن،"موجِ سلسبیل"،(مسودہ)،ص-19
46    رشید آفریں،دامنِ احسان،الرزاق پبلی کیشنز،لاہور،2009ء،ص-25
47    اطہر سلیمی،"مسودہ نمبر 1"،ص-75
48    اکرام سانبوی،"مسودہ نمبر1"،ص،88
49    اسلم ملک،خواب اور خوشبو،اکبر امین پریس،لاہور،س-ن،ص۔49
50    شاہد شاذ،"مسودہ نمبر1"،ص-10
51    ریاض حسین چودھری،خلدِ سخن،القمر انٹر پرائزز،لاہور،2009ء،ص-141
52    ایضاً،ص-138
53    ایضاً،ص-148
54    ریاض حسین چودھری،"زرِمعتبر"،خزینہ علم و ادب،لاہور،2000ء،ص-59

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...