Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

یاقوت کے ورق
ARI Id

1688708340819_56116263

Access

Open/Free Access

یاقوت کے ورق

                ناطق کی نظموں کا دوسرا مجموعہ ہے۔اس مجموعہ میں بھی انہوں نے نظموں کے ذریعے دل سے دل تک کا سفر طے کیا ہے۔ان کا کہناہے کہ وہ تب تک شعر نہیں کہتے جب تک ان کے پاس لکھنے کیلئے مسئلہ نہ ہو ۔وہ شاعری  میں صرف احساسات کا اظہار کرکے لفظی ڈرامہ بازی نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ حقیقت کا رنگ بھرتے ہیں۔وہ لفظوں کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور صاف گوئی سے کام لیتے ہیں۔اس کتاب کا انتساب آپ نے اپنی بیوی رفیعہ پروین اور بیٹی وجیہہ بتول کے نام لکھا ہے۔کل 36 نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ ہے اور اس کتاب میں ناطق نے نظم’’سفیر لیلی‘‘  لکھی جو پندرہ صفحات پر مشتمل ہیاور کل 4حصوں میں اس کو تقسیم کیا گیاہے۔

                ان کا کہنا ہے کہ وہ داستان کے آدمی ہیں،ماضی، حال اور مستقبل کے آدمی ہیں۔ وہ کھنڈرات کو دیکھتے ہیں تو اندازہ کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ یہ تباہ وبرباد ہوئے۔ انہیں ماضی سے لگاؤہے کیونکہ یہ ماضی ہمیں ہمارے حال مستقبل کی آگاہی دیتاہے لیکن انسان کا مسلسل ماضی میں رہناہی انسان کو پیچھے دھکیل لے جاتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ جب ’’سفیر لیلی‘‘ نظم ان کے ذہن میں آئی تب ہی انھوں نے سوچا کہ انھوں نے ایک عظیم داستان سنانے کی ذمہ داری لے لی ہے۔

’’سفیرلیلیٰ یہی کھنڈر ہیں جہاں سے آغاز داستان ہے

ذرا سا بیٹھو تو میں سناؤ

فصیل قریہ کے سرخ پتھر اوران پہ اڑدرنشان برجیں گواہ‘‘(4)

                نظم کے شروع میں ہی پڑھتے ہوئے قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس سے اچھا آغاز اور کوئی ہو نہیں سکتا۔یہی وہ کھنڈر ہیں جس سے آغاز داستان ہے۔یہاں سے کہانی شروع ہوئی اور ناطق نے اس کوچار حصوں میں لے جاکر داستان کا اختتام کیا، واقعی یہ ایک کمال تخلیق ہے۔

                انسان لرز اٹھتا ہے جب اسے پڑھتے ہوئے داستان میں محسوس ہوتا ہے کہ عظیم انسان کس طرح ذلیل و خوارہوجاتے ہیں۔ ایک عظیم عمارت کس طرح کھنڈر میں بدل جاتی ہے ۔اس کے عروج وزوال کو اس نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے،اسی طرح نظم کے اختتام میں بھی بہت ہی ہنر مندی سے داستان کو اختتام پذیر کیا ہے۔

"میں نامراد و خجل مسافر

مگر تمہارا امین مقاصد عزاکی وادی سے لوٹ آیا

اور اس نجیب و کریم محرم ،وفا کے پیکر کو دیکھ آیا

جو آنے والے دنوں کی گھڑیاں ابد کی سانسوں سے گن رہا ہے‘‘ (5)

                آخر میں آنے والے یہ مصرعے جیسے ناطق نے ساری نظم کو ایک راہ دی ہو وہ راہ جو کسی بھی انسان کیلئے ایک پیغام ہے کہ انسان جب پیدا ہوتاہے تو تب ہی سے اسے اپنے آنے والے ہردن کے ساتھ اپنی آخرت کا سامان کر لینا چاہیے۔یقیناً یہ نظم’’یاقوت کے ورق‘‘ کی وجہ شہرت بھی ہے اور ان کے فن شاعری کا کمال بھی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...