Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

سبز بستیوں کے غزال
ARI Id

1688708340819_56116266

Access

Open/Free Access

سبز بستیوں کے غزال

                سانجھ پبلی کیشنز سے 2018ء میں چھپنے والا ناطق کی غزلیات کا ایک مجموعہ سر بستیوں کے غزال بھی ہے۔اس کتاب کا انتساب شمس الرحمان فاروقی کے نام ہے اس میں کل 54غزلیں شامل ہیں۔اس میں انہوں نے پنجاب کی سرزمیں ،کھیت کھلیان ،پھل پھول،ہریالی یہاں تک کہ پنجاب میں جڑے رشتے ،اسی مٹی سے اٹھنے والی خوشبو اور اس سر زمین کے لیے جان دے دینے والے رشتوں کو اردو غزل میں شاعری کے ذریعے پروان چڑھایا ہے۔

                علی اکبر ناطق نے اپنی تمام تر تحریری جمالیات  کے ساتھ پنجاب کی خوبصورتی کو عیاں کرکے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ان کی شاعری میں کچھ ایسے الفاظ کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو کہ پنجابی کے ہیں یوں تو بہت سے شاعر حضرات ایسے ہیں جو اپنی شاعری میں پنجابی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔لیکن ناطق نے اردو غزل میں الفاظ کا اصل اور بالکل منفرد طریقے سے  تخلیقی استعمال کیا ہے۔شمس الرحمٰن لکھتے  ہیں:

’’ناطق کی غزل اپنے قصے کی دیواروں اور کھیتوں کی سبز مٹی سے جڑی ہے اس کی زبان کا خمیر اپنی دھرتی کی خوشبوؤں سے اٹھا ہے۔اس کا ایک ایک مصرع اس کے اٹوٹ  سمبندھ کی گواہی دیتا ہے۔یہ ہنر آفر ین شعری طلسم کسی کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ الہامی  اور وجدانی  توفیق کی جزا ہے جس میں ناطق کو اپنی شاداب و خوشی  رنگ پائینوں والی دھرتی سے باندھے رکھا ہے۔‘‘(8)

                ناطق کی شاعری میں جس طرح منظر نگاری سے کام لیا جاتاہے۔قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نقش بولتے ہیں۔ان منظروں میں وہ سماں ہوتا ہے کہ جیسے تاریخ خود اپنی وضاحت کررہی ہو۔ حال میں ہونے والے اور مستقبل کی طرف اٹھتے تمام قدم ایک قطار میں آگے پیچھے چلتے ہوئے ایک کہانی کو سامنے لے آتے ہیں۔رنگوں میں حرکت پیدا کرنا کوئی ان سے سیکھے،  نہایت ہی خوبویرت انداز میں انہوں نے اپنی ہر ایک غزل کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔

                ان کی غزلوں میں جو پنجاب کا رنگ نظر آتا ہے۔ اس نے غزلو ں کی لطافت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ندرت زبان ،دل سے نکلنے والے الفاظ اتنے پرسوز اور دلنشیں ہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا یہاں یہ بات بھی قابل بیان ہے کہ آج تک اردو ادب میں اپنے اندر اپناحصہ بننے کے لیے کسی کو اتنی جلدی جگہ نہیں دی۔یہ بس ناطق ہی ہیں جنہوں نے قدرت کو اس طرح لفظوں میں بیان کیا ہے کہ ادب خود ان کے رنگ میں ڈھل گیا۔ایک نیا طریقہ منفرد خیال کے ساتھ اردو ادب میں شامل ہوگیا۔اردو ادب میں اس قدر فطری طور پر قدرت سے لگاؤنے ان کی شاعری کو ایک تازگی بخشی ہے۔وہ اپنی شاعری کے حوالے سے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’میرے سفر شر کی داستان  طویل ہے اور قابل شنید ہے۔اس حرف و معنی کی کھیتی کی جمالیات اور آب ودانہ کی سیرابی کا عمل مدتوں پہلے شروع ہو چکا تھا۔جب اپنے دیہاتوں میں گائے پالنے اور مزدوری کے ساتھ کتاب کو ہم سفر رکھا ہوا تھا۔‘‘(9)

                اگر ہم ماضی کی بات کریں تو  ایسے بہت سے شعرا ہیں جنہوں نے شاعری کی اور ان کے پایہ تک پہنچنا ناممکن رہا۔ان کی شاعری کو پڑھنے کے بعد بھی ویسا ہی سرور آیا کہیں ان میں  میرا جی کا رنگ نظر آتا ہے تو کہیں انشا جی کلاسیک اردو شاعری  ہر شاعرنے کی آج کے دور میں بھی ایسے شاعر کا ہونا بہت دل گردے کا کام ہے۔جس طرح وہ اپنی شاعری میں تلمیانت کا استعمال کرتے ہیں تو دل بیدل کو بھی یاد کیے بغیر نہیں رہتا ہے۔

                آج کے دور میں لوگ شاعری  کے معیار کو سمجھ نہیں پاتے اور اکثر تلمیحات کو سمجھ سے باہر سمجھتے ہیںشاعری سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے۔لیکن بات یہ سچ ہے کہ تلمیحات ہی سے شاعری کا معیار بنتا ہے یہ ان کی نادرالکلامی ہے کہ اس نے شاعر کے باطن میں ایسی ایسی خوبیاں چھپا رکھی ہیں جو سمجھ رکھنے والے  یعنی اہل بصیرت ہی کو سمجھ آسکتی ہیں۔ان تمام باتوں سے لا علم ، شاعری کے بارے میں علم نہ رکھنے والا نوجوان یعنی نئی نسل کو ناطق کی شاعری پھیکی بھی معلوم ہو سکتی ہے مگر ان کی شاعری ایک خاص وزن اور معیار رکھنے والی شاعری ہے۔جس کو سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک شعرجو کہ ان کی نادر الکلامی کا ثبوت ہے۔

یہ زندگی کا اک اک راستہ مثرہ کی نوک پرکٹا

جگرکاایک اک نگیں سفر میں خرچ ہو گیا

                                                                                                (10)

                یقینا یہ شعر ان کی نادرالکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اپنے فن کی بلندی کیلئے  ایک فنکار ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور پھر اسی میں ختم ہوجاتا ہے۔ناطق کی شاعری میں چھپی ہوئی باتیں لفظوں  کے معنی اور تلمیحات انھیں دوسرے شعر اسے ممتاز کرتی ہیں۔ سبز بستیوں کے غزال میں بھی شاعر نے جس منفرد انداز کو اپنایا ہے وہ ان کی ممتاز شاعری کی ایک زندہ مثال ہے۔

                مصرعوں میں ایک ترنم ہے جو اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتا ایک ایسا انداز جو سننے والے کے کانوں میں بھی رس گھولتا ہے اور انھیں اس دنیا میں لے جاتا ہے،جہاں ناطق نے خود کو محسوس کر کے شاعری کی۔تمام شعروں کا ایک ربط مسلسل اس طرح  سے تخیل کو آگے بڑھاتا ہے جس طرح درجہ بدرجہ وہ بلندی کے زینے چڑھ رہا ہو۔ان کی شاعری ان کے ہنر کا سب سے بڑا کمال ہے۔ارسلان راٹھور ناطق کی شاعری  کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

’’میں یہ بات کہتے ہوئے کل ہچکچاتا تھا نہ آج کے لفظ کے جدیدو قدیم سنگم اور اس کو برتنے کے حساب سے ناطق پچھلی کئی دہائیوں میں ممتاز حیثیت کا مالک ہے۔ناطق کے شعر پر مختلف حوالوں  سے بات ہو سکتی ہے، استعارہ کی رعایتی ساخت سے لے کر  علامت بننے کے عمل تک۔پھر تلمیح کو استعارہ بنا ڈالنے کی تکنیک، کلاسیکی مضامین کی توسیع اور معانی پیدا ہونے والا ارتفاع جس قدر ناطق کی دسترس  میں ہے،میر، غالب اور انیس کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ‘‘(11)

                وہ ترقی کے زینے چڑھتا ہوا ایک کمال فن رکھنے والا شاعر ہے۔اس کی شاعری میں موجود سحر قاری کو اس کی کتاب بار بار پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔مصرعوں میں موجود ترنم اور ربط قاری کے ذہن میں چھا جاتا ہے اور وہ مسلسل سوچوں میں گم ہو جاتا ہے ایسا کارنامہ ناطق کی ہی کاوش ہو سکتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...