Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

کماری والا
ARI Id

1688708340819_56116273

Access

Open/Free Access

کماری والا

                یہ ناول جہلم بک کارنر لاہور سے 2020ء میں شائع ہوا۔ اس کا انتساب جواں مرگ بھائی اصغر علی اورمقتولہ بہن خدیجہ بی بی کے نام ہے۔ یہ کل 638 صفحات پر مشتمل ہے۔’’کماری والا‘‘ علی اکبر ناطق کا دوسرا ناول ہے۔یہ بھی ایک تاریخی ناول ہے ،ناول کی زبان بہت رواں اور اچھی ہے۔ناول میںمصنف نے کچھ علاقائی الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے۔جس سے علاقائی مہک کا تاثر ابھرتا ہے،جیسے کہ ٹہلیوں کا ایک نیا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔بھلے ہی یہ ایک علاقائی لفظ ہے لیکن ناول نگار نے اس کے ذریعے اردو زبان میں ایک اضافہ کیا ہے۔منظر نگاری کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے اور یہ کہانی نسلوں پر مبنی کہانی ہے۔ناول میں نوخیز لڑکوں اور لڑکیوںکی  عصمت کے کاروبار،ملک کے سیاسی اور بیورو کریٹس اور مذہبی زوال کی عکاسی اور اعلیٰ ترین افسران کے اخلاقی زوال کو بڑی جسارت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ناول پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ  ناطق کو اچھی نثر لکھنے پر کمال حاصل ہے ہر ایک واقعے کو ناطق نے بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ناول یقیناً اپنے عہد کا ایک قابل ذکر ناول ہے۔عرفان جاوید لکھتے ہیں:

’’علی اکبر ناطق کے تخلیقی وفورکے سرکش،سر پٹکتے، اچھلتے، چھینٹے اڑاتے دریا نے’’کماری والا‘‘ کی تخلیق کے بعد یک پرسکون، لامتناہی،گہرے،بھید بھرے سمندر کی شکل اختیار کرلی ہے۔اس ناول نے اسے اردو ادب کے چند اعلیٰ ادیبوں میں شامل کردیا ہے جو مذکورہ لطیف مقام کمال تک جاتی راہ کے قافلے کے مسافر ہیں،وہی مقام جہاں فن پارہ فن کار کی قید سے آزاد ہوکر ضوفشاں ستارہ بن جاتا ہے۔‘‘(17)

                کماری والا ناول میں مصنف مذکور نے نولکھی کوٹھی سے مختلف لیکن تاریخی کہانی ہی لکھی ہے۔انہوں نے اپنے  بیانیہ اسلوب اور نت نئی تکنیکوں  کے ساتھ ایک نئی راہ قائم کی ہے، جوعہد حاضر میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام کی صورت ہے مرد حضرات کو جب کام کے سلسلے میں گھر سے باہر جانا پڑتا ہے تو طرح طرح کے مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے اپنی دانش ورانہ ذہنیت ،ہمہ جہت تجربات اور نہایت چابکدستی سے سماجی پس ماندگیوں کوبے نقاب کیاہے  میرے نزدیک یہ ایک مثبت  پہلو ہے۔ آنے والی نسلوں کو آگاہ کرنے کیلئے اس ناول کا مطالعہ ضرور کرناچاہیے اگرچہ ناول میں غیر ضروری طوالت کے باعث قاری اس کو ایک نشست میں نہیں پڑھ سکتا۔مگر ناول ایسا بھی نہیں ہے کہ پڑھتے ہوئے قاری کو محسوس ہی نہ ہوکہ کوئی کہانی نہیں بلکہ  بس ایک وقت گزاری کا ساماں ہے ناول پہلو بہ پہلواپنے اندر ایک نیا تاثرلے کر ابھرتا ہے اور یقیناً یہ مصنف کی تخلیقی کاوش کا ہی نتیجہ ہے۔ناول میں کرداروں کی بات کی جائے  تو کہانی کیونکہ  نسلوں پر مبنی ہے کہیں زینت ،کہیں شیزہ معاشرے کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں اور مرد حضرات میں ضامن جو بچپن سے جوانی تک معاشرے میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کو دیکھتا رہا حالات سے آگاہی رکھنے والا کردار بتایا گیا ہے۔اس کردار کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہر کسی کی مدد کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔مصنف کی حالات زندگی کے واقعات کو انڈپینڈینٹ اردو ویب سائٹ پرپڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ضامن کا کردار خود مصنف  ہی ہیں۔بہر حال ناول ہر طرح سے تاریخی معیار اور سماجی پس ماند گیوں کی عکاسی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔مصنف کو نولکھی کوٹھی کی طرح اس میں بھی اچھی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔اپنے ذاتی تجربات کو قلم کی مدد سے صفحات پہ لے آنا کوئی آسان تجربہ نہیں ہوتا لیکن بہر حال اس سب کو انسانی تجربہ بننا ہی پڑتا ہے اور ناول ہمیشہ سے معاشرے کی عکاسی کا منہ بولتا ثبوت رہے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...