Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

سیاسی نظریہ
ARI Id

1688708340819_56116277

Access

Open/Free Access

سیاسی نظریہ

                ناطق کیونکہ تاریخ کے آدمی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تاریخ ہمیں دانش دیتی ہے۔اس لیے تاریخی رنگ ان میں نمایاں نظرآتا ہے۔ان کی شاعری اور نثر دونوں میں تاریخی رنگ پایا جاتا ہے۔عام طور پر شاعری میں اور خصوصاً غزل میں تاریخ کا پایا جانا کسی شاعر کے ہاں بہت کم دیکھا گیاہے لیکن ناطق نے شاعری میں خصوصاً اپنی غزلیات میں تاریخ کو شامل حال رکھا ہے، سیاست کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔انہوں نے اپنی نظموں میں بھی سیاست کو موضوع بنایا ہے۔

                ناطق نے چونکہ بہت اسفار کیے ہیں اس لیے وہ ملکی وغیر ملکی ثقافت کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ ان کی نظموں میں بھی ملکی وغیر ملکی سیاست کا ذکر ملتاہے۔اس سے پہلے دیکھا جائے تو شاعروں نے سیاست میں مارشل لا اور سیاسی اتار چڑھاؤ کو موضوع بنایا ہے جمہوریت اور آمریت پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔لیکن انہوں نے ملکی وغیر ملکی سیاست پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ان کی مختلف نظمیں ایسی ہیں مثلاً’’نام ونسب‘‘غلام قوم کادانشور،ہجرت ،شہرکاماتم اورخاص طور پر سفیر لیلی جسے کافی شہرت حاصل ہوئی۔ان تمام نظموں میں انہوں نے سیاسی نظریہ کو مد نظر رکھا ہے۔

                وہ لکھتے ہوئے جس شہر یا علاقے میں جو زبان جس حوالے سے استعمال ہوتی ہے،اسی زبان کو اپنی لکھاوٹ کا حصہ بناتے ہیں۔ناطق ایک تاریخی قصے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نواب سراج الدولہ جب اس کا دور حکومت تھاتو اس کا کہنا تھا کہ پیسا صرف نواب کے پاس ہواگر کسی اور کے پاس دیکھا جائے تو اسے جیل میں بند کر دیا جائے۔پھر میر جعفر کی بات کرتے ہیں کہ جو چاہتا تھا کہ بنگال کی ترقی ہوجائیتو وہ کیا کرتا کہ نواب چاہتا تھاکہ پیسہ صرف اس کے پاس ہو اور کسی کے پاس نہ ہو پھر وہ کہتے ہیں کہ انگریز آئے توانگریزوں نے کہا کہ اگر آپ سو روپیہ کماتے ہو تو بیس تو اپنے ملک پہ لگالو۔

                وہ ان باتوں کا اظہار اس لیے کررہے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی فلاسفر پیدا نہیں ہوا۔کسی کو تاریخ پڑھنے کی عادت ہی نہیں ہے کہ کچھ سیکھ ہی لیں۔تو ان کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں پانچ سال کے اندر اندر برطانیہ مفلس ترین ہوگیا مگر وہ مفلس ترین نہیں رہا۔ یہ خود کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ کس طرح ترقی کرنی ہے اور کس طرح قوم کو زبوں حالی سے نکالنا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نچلے طبقے کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ہے انھیں اپنا اقتدار حاصل اور برقرار رکھنے کیلئے ہی بس استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بے بس ہیں کہ نچلے طبقے میں طاقت نہیں ہے۔وہ یہ سب باتیں اپنے ناول نولکھی کوٹھی کی وجہ سے کررہے ہیں کہ ولیم کا کردار جو کہ ایک انگریز تھا اور اس کا دل نرم رکھا جوچاہتا تھا کہ دونو ں قوموں کا بھلا ہوجائے مگر ان دونوں قوموں میں آپس کاانتشار اور آپس کی دشمنیاں ہی ان کو لے ڈوبی۔ان کا کہنا ہے کیبرصغیر کا مسئلہ ہے کہ یہ ذہنی غلام ہیں۔ بس انہی سب باتوں کو وہ ذ ہن میں رکھے کہ وہ برصغیر پاک وہند سے خائف تھے اس لیے انھوں نے نولکھی کوٹھی ناول لکھا جو قارئین نے کافی پسند کیا۔انہوںنے اپنی نظموں میں بھی جو سیاسی رنگ دکھایا ہے وہ بھی کمال کا ہے۔ان کی نظم ’’شہر کا ماتم‘‘ملاحظہ ہو:

اس بار چلیں گی سرد ہوائیں نیل بھری

سانواں کاملبہ بار کرے گا سینوں پر

اور دل کے پیارے رک جائیں گے زمینوں پر

سنسان گھروں میں رقص کریں گی دو پہریں

ویران چھتوں پر رات اکھاڑ ڈالے گی

زہر درو دیوار کے ڈھانچے کھا جائے گا

شہر کاماتم کرنے والا کون بچے گا

خون کے آنسو رونے والا کون رہے گا                  (21)

                اس نظم میں انہوں نے تاریخ میں ہونے والے برصغیر تقسیم ہند کے بعد کے واقعات  جن میں وہ بہت عقیدت بھرے انداز میں اظہار غم کررہے ہیں۔نظم شہر کا ماتم کہ جہاں ایک دنیا بستی تھی اجڑ گئی جہاں رونقیں تھیں ماتم میں بدل گئی۔سب کا سب ایک ہی آن میں ختم ہو گیا اور شہر ماتم میں بدل گیا۔شہر کی خاموشی سے مراد ہے کہ وہ لوگ جو بچ گئے ہیں وہ بھی زندہ لاش کی طرح ہیں۔اپنے پیاروں سے بچھڑجانے کے غم میں،ان پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے غم میں کہ اب ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں بچاکوئی شک نہیں کہ انہوں نے بہت ہی گہرائی میں جاکر اس نظم کو لکھاہے۔ان کا کہناہے کہ ماتم کی صورت میں شہر کو دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا۔اس تقسیم نے بہت گھروں کو دلوں کو خوشیوں سے اجاڑدیااور اب سارا شہر ماتم کررہا ہے۔اپنے افسانوں میں بھی وہ سیاسی رنگ کی جھلک دکھاتے ہیں۔ان کا افسانہ’’زیارت کا کمرہ‘‘جو بغیر کسی تامل کے دنیا کے بڑے افسانوں کے ساتھ شمار کیا جاسکتا ہے۔اس افسانہ میں مصنف مذکور نے ملک عزیز میں پیدا ہونے والی فرقہ بندی کو موضوع بنایا ہیکہ یہ کہاں کہاں اور کس حدتک اپنے پنجے گاڑچکی ہے۔بہت ہی ہمت کے ساتھ مصنف نے اس میں اپنی تخلیقی کاوش کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ نہ صرف ڈھکے چھپے لفظوں میں بلکہ بعض اوقات نہایت بے باکی سے سب بیان کرجاتے ہیں۔جیسے ان کے افسانے سیاہ ٹھپا،تمغہ اور والٹر کا دوست میں سیاسی صورت حال کو علاقائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔افسانہ تمغہ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’جنگلات اس لیے بھی زیادہ تھے کہ تمام علاقہ رینجرز کی حدود  میں تھا اور وہ درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دیتی۔یہاں ہزاروں زمیندار تھے اور سب نے غنڈے پال رکھے تھے یہ غنڈے پورے علاقے میں مجرمانہ کاروائیاں کرنے کے بعد ان زمین داروں کے پاس پناہ لے لیتے۔کسی زمین دار کو مخالف سے نپٹنا ہوتا تو اپنے غنڈے سے یہی دودو ہاتھ کرتا۔گویا غنڈوںکو پناہ دینا زمین داروں کی بقا کا مسئلہ تھا۔میں کم وبیش سب زمین دار وں اور ان کے متعلقہ غنڈوں سے واقف تھا لیکن اپنی مرضی سے کاروائی کرنے کی اجازت نہ تھی۔ویسے بھی میرا منصب ایک حوالدار کی حیثیت سے بڑے کاموں میں دخل دینا یاتھانے کی پالیسی وضع کرنا نہیں تھا۔تھانے دار کو اس کا مطلوبہ حصہ وقت پر پہنچ جاتا چنانچہ پولیس اپنا اثر رسوخ عموماًشہرہ حدود میں برقرار رکھتی۔گویا پولیس زمینداروں اور غنڈوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ تھا۔‘‘(22)

                انہوں نے افسانوں میں بھی حقیقت نگاری کو شامل حال رکھا ہے۔وہ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔افسانہ تمغہ میں جو سیاسی رنگ انھوں نے پیش کیا ہے اس کے مطابق عوام بالکل  بے بس ہے کیونکہ سب قوانین زمینداروں اور غنڈوں یہاں تک کے خود پولیس کے ہی ہاتھ میں ہوتے ہیں۔جن کو وہ اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔خیالات کا یہ اظہار ناطق کے حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...